ﯾہ قصہ ﮨﮯ کئی الکھ سال قبل آدم کا ﯾعنی وه دور کہ جب حضرت آدم
عليہ السالم کو بھی تخليق نہ کيا گيا تھا۔ اس وقت دنيا ميﮟ دو قسم
کﮯ گروه تھﮯ اﯾک نوری اور اﯾک ناری نوری ﯾعنی فرشتﮯ اور ناری ﯾعنی
جنات۔ فرشتﮯ آسمانوں ميﮟ رﮨتﮯ تھﮯ اور جنات زمين پر رﮨتﮯ تھﮯ۔ان
جنات ميﮟ نيک بھی تھﮯ اور بد بھی اچھﮯ بھی تھﮯ اور برے بھی ،ان
جنات ميﮟ اﯾک جن بﮩت عبادت گزار تھا۔ بﮩت ﮨی پرﮨيز گار تھا۔اپنی
پيدائش کﮯ بعد اس نﮯ اﯾک ﮨزار سال تک ﷲ کو سجده کيا۔اس کﮯ بعد
اس نﮯ زمين کﮯ ﮨر حصﮯ پر کئی ﮨزار برس تک عبادت کی۔اور اس طرح
کی کہ زمين کا کوئی حصہ اﯾسا نہ تھا کہ جﮩاں اس نﮯ سجده نہ کيا
ﮨو۔
جب اس جن نﮯ اتنی زﯾاده عاجزی اور عبادت گزاری کا مظاﮨره کيا تو تو
پھر ﯾہ کيسﮯ ﮨو سکتا ﮨﮯ کہ ﷲ رب العزت کی رحمت جوش ميﮟ نہ
آتی۔ﷲ نﮯ اس جن کو اس کی عبادت گزاری اور پرﮨيز گاری کﮯ صلﮯ
ن دنيا )پﮩال آسمان( پر بال ليا ،ﯾﮩاں بھی
ميﮟ زمين سﮯ اﭨھا کر آسما ِ
عزازﯾل نﮯ اﯾک ﮨزار سال تک عبادت کی۔اور سجده کيا۔ﯾﮩاں اس کو “
خاشع “ کا لقب دﯾا گيا۔ﷲ نﮯ اس کی عبادت کﮯ صلﮯ ميﮟ اس کﮯ
درجات مزﯾد بلند کيﮯ اور اس کو دوسرے آسمان پر بالليا گيا۔ ﯾﮩاں بھی
اس نﮯ اﯾک ﮨزار سال تک عبادت کی اور ﯾﮩاں اس کو “عابد “ کا لقب دﯾا
گيا۔اور اسکو ﯾﮩاں سﮯ تيسرے آسمان پر بالﯾا گيا۔تيسرے آسمان پر
بھی اس نﮯ اﯾک ﮨزار سال تک عبادت کی اور ﯾﮩاں اس کو “صالح “کا
لقب عطا کيا گيا اور اس کﮯ درجات کو مزﯾد بلند کيا گيا۔اور اس کو
پانچوﯾﮟ آسمان پر بال ليا گيا۔اس نﮯ ﯾﮩاں بھی اس نﮯ حسب سابق
اﯾک ﮨزار سال تک عبادت کی اور اس کو اس کی عبادت اور پرﮨيز گاری
کﮯ صلﮯ ميﮟ “تقی“ کا لقب دﯾا گيا۔اسی طرح عبادت کﮯ ذرﯾعﮯ وه
اپنﮯ درجات کو بﮍھاتا ﮨوا چھﭩﮯ آسمان تک پﮩنچا وﮨاں اس کو “ خازن “
کا لقب دﯾا گيا۔اور وه ساتوﯾﮟ آسمان تک پﮩنچ گيا۔ساتوﯾﮟ آسمان پر پﮩنچ
کر وه اﯾک ﮨزار سال تک سجده رﯾز رﮨا۔ﯾﮩاں اس کو “ عزازﯾل “ کا لقب دﯾا
معلی پر وه چھ
ٰ معلی تک بالﯾا گيا عرش
ٰ گيا اور ﯾﮩاں سﮯ اس کو عرش
تعالی کی
ٰ ﮨزار سال تک عبادت کرنﮯ کﮯ بعد اس نﮯ سر اﭨھا کر ﷲ
بارگاه ميﮟ عرض کی کہ “ﯾا ﷲ مجھﮯ اپنﮯ فضل و کرم سﮯ لوح
محفوظ تک بال لﮯ تاکہ ميﮟ وﮨاں تيری قدرت کاملہ دﯾکھوں اور زﯾاده سﮯ
زﯾاده تيری عبادت کروں،ﷲ رب العالمين نﮯ عزازﯾل کی اس درخواست
کو شرف قبوليت بخشا اور اپنﮯ مقرب فرشتﮯ اسرافيل کو حکم دﯾا کہ
عزازﯾل کو لوح محفوظ تک پﮩنچا دے۔لوح محفوظ پر پﮩنچ کر عزازﯾل ﯾﮩاں
گھومتا رﮨتا اور ﷲ کی عبادت کرتا رﮨتا تھا۔
اﯾک دن وﮨاں گھومتﮯ ﮨوئﮯ اس کی نظر لوح محفوظ ميﮟ اﯾک نوشتﮯ پر
پﮍی کہ جﮩاں لکھا تھا “بنده خدا چھ الکھ سال تک اپنﮯ خالق کی عبادت
کرے گا مگر اﯾک سجده نہ کرئﮯ گا تو اس کی چھ الکھ سال تک کی
عبادت مﭩا کر اس کا نام مخلوقات ميﮟ ابليس مردودو مﮩر جرم رکھﮯ گا “
اس کو پﮍھ کر عزازﯾل وﮨيﮟ چھ الکھ سال تک کھﮍا روتا رﮨا،ﷲ نﮯ پوچھا
کہ اے عزازﯾل جو بنده ميری عبادت نﮩيﮟ کرے اور ميرا حکم بجا نہ الئﮯ
تو اس کی سزا کيا ﮨﮯ؟عزازﯾل نﮯ جواب دﯾا کہ اے ﷲ جو اپنﮯ خالق کا
حکم نہ مانﮯ،اس کی سزا لعنت ﮨﮯ۔ﷲ نﮯ فرماﯾا کہ عزازﯾل اس کو لکھ
رکھ۔حضرت ابن عباس کی رواﯾت ﮨﮯ کہ عزازﯾل کﮯ مردود ﮨونﮯ سﮯ باره
ﮨزار سال قبل ﯾہ واقعہ پيش آﯾا اور عزازﯾل نﮯ کﮩا تھا کہ لعنت خدا کی
تعالی کی اطاعت نہ کرے۔
ٰ اس پر جو ﷲ
ﯾﮩاں تک تو ﯾہ قصہ عزازﯾل سﮯ ابليس بننﮯ کا تھا اور وه قصہ تو ختم ﮨوا
ليکن اب اس ميﮟ ﮨمارے ليﮯ کيا سبق ﮨﮯ وه دﯾکھنا چاﮨئﮯ۔ پﮩلی بات
ادنی ،افضل و برتر کﮯ چکر
ٰ اعلی و
ٰ کہ جب ﷲ کا حکم آجائﮯ تو پھر
ميﮟ پﮍنﮯ کﮯ بجائﮯ صرف ﷲ کﮯ حکم کی اطاعت کرنی چاﯾئﮯ،اگر
کوئی اس ميﮟ شش و پنج ميﮟ پﮍ گيا تو مارا گيا۔ دوسرا ابليس نﮯ
حسد کيا کہ ﷲ نﮯ اﯾک مﭩی کﮯ پتلﮯ کو اپنا نائب بنا دﯾا اور اس حسد
کی وجہ سﮯ اس نﮯ نافرمانی اختيار کی ،تو ﮨميﮟ حسد سﮯ بچنا
چاﮨيﮯ ،تيسرا ابليس نﮯ اپنی برتری کا گھمنﮉ کيا کہ ميﮟ تو آگ سﮯ
بناﯾا گيا ﮨوں اور آدم کو مﭩی سﮯ بناﯾا گيا ﮨﮯ تو اس ليﮯ ميﮟ افضل ﮨو کر
ادنی کو سجده کيوں کروں ؟ آج ﮨم لوگ بھی اپنی قوم ،نسل اور ٰ اﯾک
قبيلﮯ کی برتری کﮯ گھمنﮉ ميﮟ پﮍے ﮨوئﮯ ﮨيﮟ جبکہ ﯾہ تين بنيادی
باتيﮟ تھيﮟ جنکﮯ باعث شيطان نامراد ﮨوا اور مقرب سﮯ مردود کﮯ
درجﮯ پر پﮩنچ گيا۔
رﮨا آب ذرا سوچئﮯ کہ ابليس چار ﮨزار برس تک جنت کا خزانچی
رﮨا چاليس ﮨزار سال تک مالئکہ کو وعظ کرتا
رﮨا اسی ﮨزار برس تک مالئکہ کا ساتھی
رﮨا تيس ﮨزار برس تک مقربين کا سردار
الﮩی کا طواف پرﮨيز گاری کی بنياد پر کرتا رﮨا
ٰ چوده ﮨزار برس تک عرش
وه ﷲ کا مقرب ﮨونﮯ کﮯ بعد صرف اﯾک سجده نہ کرنﮯ پر مردود ﮨوا،ﷲ
کی بارگاه سﮯ نکاال گيا،رنده درگاه ﮨوا،اس پر لعنت کی گئی اور ۔ﮨم
روزانہ کتنﮯ سجدے چھوڑ دﯾتﮯ ﮨيﮟ کيا ﮨم نﮯ سوچا ﮨﮯ کہ ﮨما را کيا
انجام ﮨوگا۔
وه اﯾک سجده کہ جسﮯ ُتو گراں سمجھتا ﮨﮯ -ﮨزار سجدوں سﮯ آدمی
کو دﯾتا ﮨﮯ نجات
نوٹ:اس مضمون کی تياری کﮯ ليﮯ مختلف کتب کا مطالعہ کيا ليکن
زﯾاده تر حوالہ جات کﮯ ليﮯ نور الحق صاحب کی تاليف شيطان سﮯ
ابليس تک سﮯ مدد لی گئی ﮨﮯ ،اور اس کﮯ عالوه تفاسير کا بھی
مطالعہ کيا گيا
Thanks for Jaago Pakistan