You are on page 1of 211

‫)پاکستان مطالعہ (‬

‫فہرست مضامین‬
‫پاکستان کا نظریاتی اساس‬ ‫‪‬‬
‫ل پاکستان‬
‫تشکی ِ‬ ‫‪‬‬
‫اسلمی جمہوریہ پاکستان میں آئینی ارتقاء‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کی سرزمیں اور آب و ہوا‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے وسائل‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں صنعتی ترقی‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کی ثقافت‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں تعلیم‬ ‫‪‬‬

‫پاکستان ۔ ایک فلحی مملکت‬


‫‪‬‬
‫کسی قوم کے لئے نظریہ کیوں اہم ہوتا ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫اسلم کے جمہوری اصول بیان کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫نظریے میں قومی کردار کا کیا مقام ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫نظریہ پاکستان کے بارے میں قائد اعظم کے ارشادات کا جائزہ لیجئے‬ ‫‪‬‬
‫کیا نظریہ پاکستان کے بارے میں علمہ اقبال کا کوئی بیان تھا؟‬ ‫‪‬‬
‫کسی نظریے میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫خالی جگہیں ُپر کریں‬ ‫‪‬‬
‫مختصر سوالت‬ ‫‪‬‬
‫پاکسککککتان کککککا‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬
‫نظریاتی اساس‬
‫نظریے ککے معنککی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫اور مفہوم‬
‫نظریے کا منبع اور‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫ماخذ‬
‫قرآن‬ ‫‪3.1‬‬ ‫‪‬‬
‫مجید‬
‫سّنت‬ ‫‪3.2‬‬ ‫‪‬‬
‫نبوی‬

‫‪3.3‬‬ ‫‪‬‬
‫رسککککککوم و‬
‫رواج‬

‫پاکستان کا نظریاتی اساس‬


‫سوال‪ :‬کسی نظریے کے ماخذ کیا ہوتے ہیں؟‬

‫نظریے کے معنی اور مفہوم‬


‫نظریہ فرانسیسی لفظ آئیڈیولوجی کا ترجمہ ہے۔یہ دو اجزاء”آئیڈیا“ اور ”لوجی“ پر مشتمل ہے۔‬
‫نظریے کا مفہوم ہے اندازِ فکر اور تصور حیات ۔ نظریہ عام طور پککر ُاس ت ہذیبی یککا معاشککرتی‬
‫لئحہ عمل کو کہتے ہیں جو کسی قوم کا مشترکہ نصب العین بن جائے۔ نظریکے کککا لفککظ زیککادہ‬
‫وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے انسانی زندگی کا ایسا نظام وجککود میککں آتککا‬
‫ہے جس میں اعتقادات‪ ،‬اور زندگی کے مقاصد شامل ہوں۔نظریہ کسی بھی معاشرہ کو ایسککی‬
‫شکل میں لے آتاہے جس میں افراد کے اعتقادات‪ ،‬رسوم و رواج اور مذہبی معککاملت مشککترکہ‬
‫ٰامی‬ ‫ہوتے ہیں۔ دیگر معاشروں کے مقابلے میں اسلمی معاشرہ بالکل منفرد ہہہے۔ کیککونکہ ی کہ الٰہہہ‬
‫اصول اور نظریات پرقائم ہوتا ہے۔جو قرآن مجید اور سنت نبوی سے حاصل کیے گئے ہیں۔‬

‫نظریے کا منبع اور ماخذ‬


‫کسی بھی نظریے کی اثر انگیزی کا انحصار افراد کے خلوص‪ ،‬لگن‪ ،‬وفاداری اور وابستگی پککر‬
‫ہوتا ہے۔ اسلمی نظریہ افراد کے ذہنوں پر فطری طریقے سے اثرانداز ہوتا ہے نتیجتا ً اسککلم ککے‬
‫ابدی اصولوں پر ان کا ایمان پختہ ہوجاتا ہے۔ اسلمی نظریے کا سرچشمہ قرآن مجید اور سنت‬
‫نبوی ہے۔‬
‫قرآن مجید‬
‫قرآن مجید کے احکام اسلم کی بنیادہیں۔ان سے معاشکی اور معاشکرتی قکوانین ککے سلسکلے‬
‫صل و مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ جس کی بدولت انفرادی اور اجتماعی سطح پر‬ ‫میں مف ّ‬
‫زندگی خوشگوار‪ ،‬پُرامن اور بامقصد ہوجاتی ہے۔‬
‫سّنت نبوی‬
‫ہمارے پیارے نبی نے اسلمی احکامات کو اپنے اقوال و افعال سے واضح فرمایا ہے۔ قرآن مجیککد‬
‫صل تشریح سّنت نبکوی سکے ملکتی ہے جکو اسکلمی اصکول و قکوانین ککا‬ ‫کی تعلیمات کی مف ّ‬
‫سرچشمہ ہے۔سّنت ایک عربی اصطلح ہے۔ اس کے لفظی معنی ہیککں ”ایسککا راسککتہ جککس کککی‬
‫پیروی کی جائے۔“ قرآن مجید اسلمی اصول کے بنیادی خککدوخال بیککان کرتککا ہے۔لیکککن ان کککی‬
‫تشریح رسول اکرم کی احادیث سے ملتی ہے۔اسلم کے بنیادی ارکان یعنی نماز‪ ،‬روزہ ‪،‬زککک ٰوة‪،‬‬
‫حج اور جہاد کی تفصیلت رسول اکرم نے بیان فرمائی ہیں۔‬
‫رسوم و رواج‬
‫مختلف علقوں میں پائے جانے والے ایسے رسوم و رواج اورایسی اقدار جو اسککلمی تعلیمککات‬
‫کے منافی نہ ہوںمسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ انہیں اپنے مخصوص خطے یا علق کے میککں اختیککار‬
‫کرسکتے ہیں۔ ان میں میلے‪ ،‬اجتماعات اور دیگر تقریبات شامل ہیں۔‬

‫سوال ۔ کسی قوم ک ے لئ ے” نظری ہ “ کیوں ا ہم ہوتا ہے؟‬

‫نظریے کی اہمیت‬ ‫‪‬‬


‫خیالت کا عکاس‬ ‫‪‬‬
‫قکککومی اتحکککاد ککککا‬ ‫‪‬‬
‫سرچشمہ‬

‫رضکککائے الٰٰہی ککککا‬ ‫‪‬‬


‫حصول‬

‫درست فیصلے میں‬ ‫‪‬‬


‫مدد‬

‫ثقککافت کککو برقککرار‬ ‫‪‬‬


‫رکھنے میں معاون‬

‫نظریے کی اہمیت‬
‫نظریے کی اہمیت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر واضح ہوتی ہے۔‬

‫خیالت کا عکاس‬
‫نظریہ افکار و خیالت کا عکاس ہوتا ہے۔یہ معاشرے میں رہن سہن‪ ،‬سوچ‪ ،‬طرز فکر اور بککاہمی‬
‫تعلقات کے اصول متعین کرتا ہے۔‬

‫قومی اتحاد کا سرچشمہ‬


‫نظریہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتا ہے اور اتحاد کا سرچشمہ بنتا ہے۔‬

‫رضائے الٰہٰی کا حصول‬


‫اسلمی نظریہ انسانوں کو فلح و بہبود کے لیے جدوجہد پر ابھارتککا ہے جککس ککے نککتیجے میںککاللہ‬
‫تعالی راضی ہوتا ہے۔ اور یہ جدوجہد اقوام کے لیے زبردست قوت محرکہ کا کام دیتی ہے۔‬

‫درست فیصلے میں مدد‬


‫قیادت کے انتخاب کے لئے نظریہ ایک خاص طرح کی بصیرت پیککدا کردیتککا ہے جسسکے درسککت‬
‫فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬

‫ثقافت کو برقرار رکھنے میں معاون‬


‫نظریے سے آزادی‪ ،‬ثقافت اور رسوم رواج برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اسلمی نظریکہ ُان‬
‫اسلمی اقدار کا عکاس ہے جن کی رسول اکرم نے تعلیم دی اور عمل کرکے دکھایا۔‬

‫سوال ۔ اسلم ک ے جم ہوری اصول بیان کریں ۔‬

‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫اسککککلم میککککں‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫جمہوریت کے اصول‬
‫عدل و‬ ‫‪1.1‬‬ ‫‪‬‬
‫انصاف‬
‫‪1.2‬‬ ‫‪‬‬
‫مساوات‬
‫اخوت‬ ‫‪1.3‬‬ ‫‪‬‬

‫‪1.4‬‬ ‫‪‬‬
‫رواداری‬

‫اسلم میں جمہوریت کے اصول‬


‫اسلم میں جمہوریت کا تصور دنیوی اصولوں سے مختلف ہے۔ اسککلمی معاشککرہ اس بککات پککر‬
‫کامل ایمان رکھتا ہے کہ اس کائنات میں اقتداراعل ٰی اللہ تعال ٰی ککے ہاتھ میککں ہے اور و ہی اس‬
‫پوری کائنات کا حاکم اعل ٰی ہے۔عوام کے نمائندے صرف ان حدود کے انککدر اختیککارات اسککتعمال‬
‫کرسکتے ہیںجو اسلم نے انہیں فراہم کردی ہیں۔ تاہم عوام کو اس امر کی مکمل آزادی ہوتی‬
‫ہے کہ وہ ریاست کے معاملت چلنے کے لئے اللہ سے ڈرنے والے صالح‪ ،‬متقی اور پرہیزگککار افککراد‬
‫کو منتخب کریں۔ اسلمی معاشرے میں حکمرانوں پر عوام کو اس وقت تک اعتمککاد رہتککا ہے‬
‫جب تک کہ وہ اسلمی قوانین کی پیروی کریں۔ اسی سے اسلم میں جمہوریت کا تصور واضح‬
‫ہوتا ہے ۔ اسلم میں جمہوریت کے اصول درج ذیل ہیں ۔‬
‫عدل و انصاف‬
‫ٰی ککو اصکل اور‬ ‫عدل کے لفظی معنی ہیں کہ صحیح چیز کو صحیح جگہ پر رکھنا۔ یکہ قکانون ال ٰہ‬
‫بنیاد ہے۔زندگی کا کوئی بھی پہلو عدل کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ یہ عککدل و انصککاف ہی ہے‬
‫جس کی بناءپر کوئی معاشرہ پرامن اور خوشحال ہوسکتا ہے۔صرف عککادلنہ نظککام میککں ہی ا‬
‫فرد کے کردار کی تعمیر و تشکیل اور نتیجتًااجتماعی بہتری ممکن ہے۔قرآن حکیککم عکدل قککائم‬
‫کرنے پر زور دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔‬
‫”عدل قائم کرو ۔ ی ہی تقو ٰی س ے قریب تر ہے۔“‬
‫ایک ایسا معاشرہ جس میں عدل کو فککوقیت اور برتککری حاصککل ہو اس میککں ہمیش کہ اتحککاد و‬
‫اتفاق‪ ،‬محبت ‪ ،‬خلوص اور امن پایا جاتا ہے ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے ۔‬
‫”ا ے لوگو! جو ایمان لئ ے ہو ۔عدل قائم کروالل ہ کی رضا ک ے لئ ے ش ہادت کو قبول‬
‫کرو خوا ہ ی ہ خود تم ھار ے خلف ہو‪ ،‬خسسوا ہ و ہ امیسسر ہو یسسا غریسسب اور لوگسسوں سس ے‬
‫نفرت تم ہیں انصاف کرن ے س ے ن ہ روک ے۔“‬
‫اسلم کے عدالتی نظام میں افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔‬

‫مساوات‬
‫اسلم انسانوں کے درمیان مساوات کا علم بردار ہے ۔ اسلم رنگ و نسککل‪ ،‬زبککان‪،‬و ثقککافت اور‬
‫امارت و غربت سمیت تمام امتیازات و تفریق کی نفی کرتا ہے۔ رسول اکرم نے حجت کہ الککوداع‬
‫کے موقع پر فرمایا ۔‬
‫آدم کی اولد ہیں ۔کسی عربی کو کسسسی عجمسسی پسسر اور‬ ‫ؑ‬ ‫” تمام انسان حضرت‬
‫کسی عجمی کو کسی عربی پر‪ ،‬کسی گور ے کسسو کسسال ے پسسر اور کسسسی کسسال ے کسسو‬
‫کسی گور ے پر کوئی فوقیت حاصل ن ہیں ہے۔“‬
‫اسلم میں فوقیت اور برتری کی بنیاد تقویٰ ہے نہ کہ دولککت یککا اختیککار و اقتککدار ۔ اسککلم میککں‬
‫لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔کوئی کسی سے برتککر نہیککں سککوائے ان ککے جککو تقککو ٰی‬
‫یعنی پرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کرتے ہیں ۔قانون کی نظر میککں تمککام انسککان برابککر ہیککں ۔‬
‫تمام انسانوں کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں بہتر سماجی مقام حاصل کرنے کے‬
‫یکساں اور مساوی مواقع حاصل ہیں ۔‬

‫اخوت‬
‫اخوت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”کل مسلم اخوة“ یعنی تمککام‬
‫مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اخوت کا اصول اسککلمی معاشککرے کککا ایککک ا ہم پہلککو ہے ۔‬
‫بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشککی و غککم میککں شککریک‬
‫ہوتے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا احساس ‪ ،‬محبت‪ ،‬باہمی تعاون اور قربانی کے جککذبات کککو‬
‫ابھارتا اور فروغ دیتا ہے ۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا ۔‬
‫” ہر مسلمان دوسر ے مسلمان کا ب ھا ئی ہے اور اپن ے ب ھائی کو تکلیف پ ہنچان ے کسسا‬
‫ذریع ہ ن ہیں بنتا ہے۔“‬
‫ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا ۔‬
‫”پس میں کین ہ ن ہ رک ھو ۔حسد ن ہ کسسرو ۔ ایسسک دوسسسر ے سس ے منس ہ نس ہ پ ھیسسرواور سسسب‬
‫ب ھائی ب ھائی بن جاو ۔“‬
‫مختصر یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کسی قسککم کککی کککدورت نہیککں‬
‫رکھنی چاہئے اور نہ ہی حسد کرنا چاہئے۔مسلمان تو مسلمان ہیں اسلم تو غیککر مسککلموں ککے‬
‫خلف بھی سازش کرنے اور بُرے خیالت رکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے ۔‬

‫رواداری‬
‫رواداری اور برداشت اسلم کی نظر میں نہایت عظیم نیکیاں ہیں ۔ جککو انسککان کککو مشکککل و‬
‫دشواری سے بچاتی ہیں اور دوسروں ککے لیکے پیکار و محبکت ککا ذریعکہ بنکتی ہیکں۔لوگکوں ککے‬
‫درمیان سماجی تعلقات قائم کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز‬
‫کیا جائے۔ باہمی جھگڑوں سے بچنے کے لئے رواداری بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجکہ سکے اخککوت‬
‫اور امن کا ماحول فروغ پاتا ہے اور انسانی رشتوں میں استحکام آتا ہے ۔ رسول اکرم نے اپنے‬
‫قول و فعل سے رواداری کا درس دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ہے ۔‬
‫”دین میں کوئی جبر ن ہیں ۔“‬
‫یہ رواداری کا ایک سنہری اصول ہے۔ اسلمی معاشرے میں غیر مسلموں ککے جککائز حقککوق کککا‬
‫احترام کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد پر نظر رکھنا‬
‫ضروری ہوتا ہے جو اپنے خیالت اور نظریات کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چککاہتے ہیککں‬
‫اور دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں ۔‬

‫سوال ۔ نظری ے میں قومی کردار کا کیا مقام ہے؟‬

‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫نظریکککہ او ر‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫قومی کردار‬
‫نظریے پر پختہ‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫یقین‬
‫سککپردگی یککا‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫وقف کردینا‬
‫ایمانداری اور‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫دیانتداری‬
‫ب الوطنی‬
‫ح ّ‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫محنکککت اور‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫مشقت‬

‫قومی مفاد‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬

‫نظریہ او ر قومی کردار‬


‫کسی فرد کی عادات واطوار اور طرز زندگی کے مجموعے ککو عککام طکور پککر ککردار سکمجھا‬
‫جاتا ہے اور اس شخص کا نظریہ اسکے کردار پر اثرانککداز ہوتککا ہے۔ نظریکے کککی روشککنی میککں‬
‫قومی کردار درج ذیل اخلقی اقدار سے تشکیل پاتا ہے ۔‬

‫نظریے پر پختہ یقین‬


‫جب تک کوئی شخص اپنے قومی نظریے پر پختہ یقیککن نہیککں رکھتککا ہے تککب تککک اس ککا کککردار‬
‫قومی جذبے سے عاری رہتا ہے اور اس کے اعمال و افعال قومی مفککاد میںنہیککں ہوتے۔ اس لئے‬
‫ہمیں اسلمی اقدار کی روشنی میں اپنا کردار بنانا چاہئے۔ یہ نظریہ�¿ پاکستان میں عوام کککا‬
‫پختہ یقین تھا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے ایک نظریاتی مملکت پاکستان ک کے حصککول ک کے لئے‬
‫اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اس لئے ہمارا کککردار ایککک ایسکے مسککلمان کککا عکککاس ہونککا‬
‫چاہئے جو اپنی زندگی اسلمی تعلیمات کے مطابق بسر کرتا ہو ۔‬

‫سپردگی یا وقف کردینا‬


‫س فرض‬ ‫اس کے معنی ہے کہ اپنے آپ کو کسی مقصد کے حصول کے لئے گہرے جذبے اور احسا ِ‬
‫شناسی کے ساتھ مخصوص کردینا۔ جو شخص قومی نظریے سکے مکمککل ہم آہنککگ ہوکر کککام‬
‫کرتا ہے وہی صحیح معنوں میں قومی معاشرے کے لئے اپنے آپ ککو وقکف کردیتکا ہے ۔ بحیکثیت‬
‫ایک پاکستانی ہمارا کردار اسلمی طرز زندگی کے مطابق ہونا چاہئ ے ۔‬

‫ایمانداری اور دیانتداری‬


‫ایمانداری اور دیانتداری ایسی صفت ہے جس کا تمام معاشککروں میککں اعککتراف کیککا جاتککا ہے ۔‬
‫لوگوں کو نیک زندگی گزارنا چاہئے اور اپنے قول و فعل سے ایمانککداری اور راسککت بککازی کککی‬
‫عکاسی کرنی چاہئے۔ تجارت ہو یا زندگی کے دوسرے میدان‪ ،‬لوگوں سے معاملت کرتے وقککت‬
‫ایمانداری نظر آنی چاہئ ے ۔ اسلم نے بڑے سخت الفککاظ میککں ایمانککداری پککر زور دیککا ہے ۔ قیککام‬
‫پاکستان کے ابتککدائی سککالوں میککں زنککدگی ککے تمککام شککعبوں میککں عککوام کککی ایمانککداری اور‬
‫دیانتداری نمایاں تھی جس نے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں مدد کی ۔‬

‫ب الوطنی‬
‫ح ّ‬
‫کسی بھی شخص کی اپنے وطککن سکے محبککت اور اس ککے لئے قربککانی ککا انکدرونی جکذبہ اور‬
‫ب الوطنی کہلتا ہے۔کسی آزمائش کے وقت یا اگر آزادی کو خطرہ ہو تککو اس وقککت‬ ‫خلوص ح ّ‬
‫لوگ اپنے قومی کردار کا مظککاہرہ کرتکے ہیککں۔ ب ھارت ککے خلف ‪1965‬ءکککی جنککگ ککے دوران‬
‫ب الوطنی کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا ت ھا۔ جککو دراصککل ان ککے قککومی‬ ‫پاکستانیوں نے ح ّ‬
‫کردار کا مظہر تھا ۔‬
‫محنت اور مشقت‬
‫قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اس کے افراد سخت محنت و مشککقت کرت کے ہیککں ۔ اس‬
‫س فرض شناسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اس لئے خوشککحال اور‬ ‫کے لئے احسا ِ‬
‫ترقی یافتہ بن سکی ہیں کیونکہ ان کے عوام میں شدید احسککاس فککرض شناسککی و ذم کہ داری‬
‫پایا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کے وسائل اس کے افراد کی سخت محنت کی بککدولت ہی ترقککی‬
‫اور خوشحالی کا روپ دھارتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں ۔‬

‫قومی مفاد‬
‫کسی بھی شخص کے ذاتی کردار کو لزمًاقومی مفاد کی برتری اور فوقیت کی عکاسی کرنا‬
‫چاہئے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونککا چککاہئے۔ اسککی روی کہ سکے ایمانککداری‪ ،‬دیانتککداری اور‬
‫سپردگی کی صفات اور خوبیاں پھلتی اور پھولتی ہیں ۔صرف وہی قومیں زنککدہ و پائنککدہ ر ہتی‬
‫ہیں جن کے افراد اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں ۔‬

‫نظریہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کے ارشادات‬


‫نظریہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کے خیالت اور تصورات بالکل صککاف اور واضککح ت ھے ۔‬
‫اسلمیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب کے دوران آپ نے نظریہ پاکستان ک کے بککارے میککں اپن کے‬
‫خیالت اور تصورات کی اس طرح وضاحت کی ۔‬
‫”پاکستان ک ے لئ ے ہمارا مطالب ہ صرف زمین کسسا ایسسک ٹکسسڑا حاصسسل کرنس ے کس ے لئ ے‬
‫ن ہیں ہے بلک ہ ایک ایسی تجرب ہ گا ہ قائم کرنا چا ہت ے ہیں ج ہاں ہم اسلمی اصسسولوں‬
‫پر مبنی نظام پر عمل درآمد کرسکیں ۔“‬
‫اجلس میں قائداعظم نے اسلمی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی اس طرح وضاحت کی ۔‬
‫” ہندومت اور اسلم صرف دو مذا ہب ن ہیں بلک ہ ی ہ دو معاشرتی نظام ہیسں اور یس ہ‬
‫سوچنا ک ہ ہندو اور مسلم مل کر ایک مشترک ہ قوم بن سکت ے ہیسسں صسسرف خسسواب‬
‫ہوگا ۔ میں ک ھل کر واضح کردینا چا ہتا ہوں ک ہ دونوں اقسسوام دو مختلسسف ت ہہہذیبوں‬
‫س ے وابست ہ ہیں اور ان دونوں ت ہذیبوں کی بنیادیں ان فلسسسفوں پسسر رک ھی گئی‬
‫ہیں جو ایک دوسر ے کی ضد ہیں ۔“‬
‫جنوری ‪1941‬ءمیں قائداعظم نے مسلم قومیت کے علیحدہ تشخص کککی وضککاحت کرتکے ہوئے‬
‫فرمایا ۔‬
‫” ہندوستان کب ھی ب ھی ایک ملک یا ایک قوم ن ہیسں ر ہا ۔ برصسغیر کسا معسسامل ہ بیسن‬
‫القسسوامی ہے۔ت ہذیب‪ ،‬ثقسسافت‪ ،‬معیشسست اور معاشسسرتی اقسسدار کسس ے اختلفسسات‬
‫نظریاتی نوعیت ک ے ہیں ۔“‬
‫قائداعظم کے مندرجہ ذیل الفاظ نظریہ پاکستان کی پوری وضاحت کرتے ہیں ۔‬
‫”پاکستان ُاسی روز وجود میں آگیا ت ھا جس روز ہندوستان میں پ ہل غیر مسسسلم‬
‫تبدیل ہوکر مسلمان ہوگیا ت ھا ۔“‬

‫نظریے پاکستان کے بارے میں علمہ اقبال کابیان‬


‫عظیم مفکر‪ ،‬فلسفی اور شاعرِ مشرق علمہ اقبال نے برصککغیر ک کے مسککلمانوں ک کے لئے ایککک‬
‫علیحدہ ریاست کے لئے آواز اٹھائی ۔الہٰ آباد میںدسمبر ‪1930‬ء میککں منعقککد ہونے والکے آل انکڈیا‬
‫مسلم لیگ کے سالنہ اجلس میں آپ نے صدارتی خطبہ دیا۔ جو عام طور سے خطبہ الہٰ آباد کے‬
‫نام سے معروف ہے۔ علمہ اقبال نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کی علیحدہ قومیت ک کے تصککور‬
‫کی وضاحت کی۔ علمہ اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ‬
‫برصغیر میں ایسے لوگ آباد ہیں جو مختلف زبانیں بککولتے ہیںککاور مختلککف مککذاہب ک کے پیروکککار‬
‫ہیں ۔ انھوں نے فرمایا ۔‬

‫” ہندوستان ایک ملک ن ہیں بلک ہ ایک برصغیر ہے ج ہاں مختلسسف مسسذا ہب کس ے مسسانن ے‬
‫وال ے اور مختلف زبان ے بولن ے وال ے لوگ آباد ہیں ۔ مسلمان قسسوم کسسا اپنسسا جسسداگان ہ‬
‫مذ ہب اور ت ہذیبی شناخت ہے۔ تمام م ہذب اقوام کو مسلمانوں ک ے دینی اصولوں‬
‫اور ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا احترام کرنا چا ہئ ے۔“‬

‫انہوں نے مزید فرمایا ۔‬

‫”مج ھے ایسا نظر آتا ہے کس ہ پنجسساب‪ ،‬شسسمالی مغربسسی سسسرحدی صسسوب ہ سسسند ھ اور‬
‫بلوچستان ضم ہوکر ایک ریاست بنائیں گ ے۔مضبوط اور مربوط شمالی مغربسسی‬
‫مسلم ریاست کا قیام کم از کسسم شسسمالی مغربسسی ہندوسسستان کس ے مسسسلمانوںکی‬
‫آخری منزل ہے۔“‬

‫علمہ اقبال کا یہ خطبہ تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ۔‬

‫نظریے کے ارکان‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫مشترکہ مذہب‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫مشترکہ ثقافت‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫مشترکہ مقصد‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬

‫پرخلککککککوص‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬


‫وابسکککککککککککتگی اور‬
‫عہدوپیمان‬

‫نظریے کے ارکان‬
‫نظریے کے بنیادی ارکا ن حسب ذیل ہیں ۔‬

‫مشترکہ مذہب‬
‫مذہب اقوام عالم کے لئے اتحادی قوت ہے۔ تمام اقوام عالم اپنے مذاہب کی بنیککاد پککر شککناخت‬
‫کی جاتی ہیں ۔ مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے سے جدا ہیں کہ ان کے عقائد مختلف ہیں ۔‬

‫مشترکہ ثقافت‬
‫عام طور سے ایسے افراد جن کی ثقافت مشترکہ ہوتی ہے۔ ان کککا طککرزِ زنککدگی ب ھی یکسککاں‬
‫ہوتا ہے اور یہ لوگ بالعموم اپنے رسم ورواج پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ۔‬

‫مشترکہ مقصد‬
‫جب لوگوں کا مقصد مشترکہ ہوتا ہے تو وہ متحدبھی ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کککا‬
‫حصول جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مشترکہ مقصد تھا۔ اس نکے انھیککں نظریکے پاکسککتان پککر‬
‫باہم متحد کردیا تھا ۔‬

‫پرخلوص وابستگی اور عہدوپیمان‬


‫کسی اعل ٰی مقصدکے ساتھ افراد کی پرخلوص وابستگی سے نظریہ کککو تحریککک ملککتی ہے اور‬
‫اس کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں ن کے آزادی ک کے حصککول اور مسککلم‬
‫ریاست کے قیام کے مشترکہ مقصد کے لئے خککود کککو وقککف کردیککا ت ھا اور اس مقصککد ککے لئے‬
‫انھوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔‬

‫خالی جگہیں‬
‫)‪ (۱‬نظریے پاکستان کی اسا س اسلمی فکروفلسفہ پر ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬اسلم سب سے زیادہ جمہوری نظام ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬چیزوں کو ان کے درست مقام پر ترتیب دینا عدل کہلتا ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬علمہ اقبال نے ا لہٰ آباد کے مقام پر ‪ 1930‬میں اپنے صدارتی خطبے میککں نظری کے پاکسککتان‬
‫کے بارے میں بیان دیا ۔‬

‫)‪ (۵‬قائداعظم نے فرمایا کہ ہندومت اور اسلم دومختلف معاشرتی نظام ہےں ۔‬

‫)‪ (۶‬ایمان کی بنیاد اللہ کی توحید اور رسالت نبوی ہے‬

‫)‪ (۷‬اخوت کے معنی ہیں بھائی چارہ‬

‫)‪ (۸‬کردار‪ ،‬عادت واطوار کا مجموعہ ہے‬

‫)‪ (۹‬اسلمی نظریہ کے ذرائع قرآن مجید اور سنت نبوی ہے ۔‬

‫‪‬‬

‫‪‬‬
‫ل پاکستان‬
‫تشکی ِ‬
‫سوال‪ :‬فرائض تحریک ک ے کیا مقاصد ت ھے؟‬

‫فرائض تحریک‬
‫حاجی شریعت اللہ نے بنگال کے مسلمانوں کو غیر مسلم رسوم و رواج سے چھٹکککارہ پککانے کککا‬
‫مشورہ دیا۔ انھوں نے اسلمی احکامات پککر عمککل پیککرا ہونے کککی ضککرورت پککر زور دیککا اور ان‬
‫اسلمی احکامات کو انھوں نے فرائض کا نام دیا۔ اسی لئے اسککلمی اصکولوں ککے لئے ان کککی‬
‫تبلیغ و تلقین اور مسککلمانوں ککے لئے اصککلحی تحریککک "فککرائض تحریککک"کہلتککی ہے ۔ فککرائض‬
‫تحریک کے بنیادی مقاصد یہ ہیں ۔‬

‫غیر اسلمی رسوم و رواج کا خاتمہ‬


‫فرائض تحریک کا بنیادی مقصککد ان غیککر اسککلمی رسکوم و رواج و روایکت کککو مٹانککا اور ختککم‬
‫کرناتھا جو بنگالی مسلمانوں میں سرایت کرگئے تھے ۔ اس تحریک نے مسلمانوں کو اسککلمی‬
‫تعلیمات کے مطابق صراط مستقیم پر لنے میکں بکڑی مکدد ککی۔ ابتکداءمیں انھیکں ب ہت سکی‬
‫مشکککلت اور دشککواریوں کککا سککامنا کرنککا پککڑا لیکککن آہسککتہ آہسککتہ ان کککی تحریککک نکے بنگککالی‬
‫مسلمانوں میں خود اعتمادی کا جذبہ بیدار کردیا ۔‬

‫مسلمان کسانوں اور مزار عین کو ہندو زمینداروں کے ظلم و‬


‫ستم سے نجات‬
‫محمد محسن نے مسلمان کسانوں اور مزار عین کککو ہنککدو زمینککداروں ک کے ظلککم و سککتم ک کے‬
‫خلف جمع کیا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں بنگال کے مسلم مزار عیککن ہنککدو زمینککداروں‬
‫اور جاگیرداروں کے بہیمانہ تسلط سے آزاد ہوگئے۔ وہ بنگال کے مسلمان مزار عیککن ک کے حقککوق‬
‫کے عظیم علمبردار بن گئے۔ برطانوی اور ہندوتاجر اور زمیندار انکے خلف ہوگئے۔ لیکن انھوں‬
‫نے ان کی کوئی پروا نہیں کی اور اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا مشن جککاری رک ھا ۔‬
‫مختصرا ً یہ کہ فرائض تحریک کے نتیجے میں بنگا لی مسککلمانوں کککی دینککی اور اخلقککی حککالت‬
‫بہت بہتر ہوگئی اور بڑی حد تک مزار عین کے حقوق کا تحفظ بھی ہوگیا ۔‬

‫تحریک احیاءمیں شاہ ولی اللہ کا کردار‬

‫)‪ (۱‬مرہٹوں کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو نجات دلئی‬


‫شاہ ولی اللہ نے افغانستان کے حکمران احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا اور درخواست کی کہ وہ‬
‫مرہٹوں کے ظلم و ستم سے ہندوستان کے مسلمانوں کککو نجککات دلئیککں۔ اس ککے جککوب میککں‬
‫احمد شاہ ابدالی نے ‪ 1761‬میں بانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو عبرتنککاک شکسککت‬
‫دی ۔ اس شکست کے بعد مرہٹے پھر کبھی نہیں سنبھل سک ے ۔‬

‫)‪ (۲‬قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا‬


‫شاہ ولی اللہ کی انتہائی اہم خدمت یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجم کہ کیککا ۔ اس‬
‫سے لوگوں کو قرآن مجید کو سمجھنے میں بہت مد د ملی ۔‬
‫)‪ (۳‬حدیث‪ ،‬فقہ اور تفسیر پر کتب لکھیں‬
‫شاہ ولی اللہ نے حدیث‪ ،‬فقہ اور تفسیر پر کتابیں لکھیں۔ ان کی کتککابوں میککں سککب سکے زیککادہ‬
‫مشہور و معروف کتاب "حجتہ اللہ البالغہ" ہے۔ ان کی تصانیف کککا پیغککام ی کہ ہے ک کہ اسککلم ایککک‬
‫آفاقی مذہب ہے جو تمام انسانیت کے لئے ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پنجاب اور سرحد سے معاشرتی برائیوں کو مٹانے کے لئے سید احمد کی جدوجہد بیککان‬
‫کریں؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫)‪ (۱‬سکککھوں کککے لئے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫اقتدار کا خاتمہ‬
‫)‪ (۲‬جہاد پر روانگی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪(۳‬سک ّھوں کے خلف‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫پہلی جنگ‬
‫)‪(۴‬سک ّھوں کے خلف‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫دوسری جنگ‬
‫)‪ (۵‬اسلمی قوانین کا‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫نافذ‬
‫)‪ (۶‬سککید احمککد کککے‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫خلف سازش‬
‫ہدین‬ ‫)‪ (۷‬مجا‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫اورسکککھوں کککے درمیککان‬
‫سخت معرکہ‬

‫)‪ (۸‬سید احمد اور ان‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬


‫کے جانثاروں کی شہادت‬

‫)‪ (۱‬سکھوں کے لئے اقتدار کا خاتمہ‬


‫اسلمی اقدار اور روایات کی احیاءکے لئے سید احمد شہید پنجاب اور شککمالی مغربککی صککوبے‬
‫سے سکھوں کا اقتدار ختم کرنا چاہتے ت ھے ۔ان ھوں نے پنجاب اور سرحد میں جہاد کا آغاز کردیا ۔‬
‫بدی کی قوتوں کے خلف جہاد میں شاہ اسماعیل شہید اپنے چھ ہزار پیروکاروں کے ساتھ سککید‬
‫احمد کے ساتھ شریک ہوگئ ے ۔‬

‫)‪ (۲‬جہاد پر روانگی‬


‫سید احمد ‪ 1826‬میں سندھ میں آئے اور پیرپگارو سے مدد کے لئے درخواست کی۔ جن ہوں نکے‬
‫اپنے جانثار مریدوں کو انکے لشکر میں شامل ہونے کا حکم دیا جنھیککں "حککر" کہتکے ہیککں ۔ سککید‬
‫احمد اپنے اہل و عیال کو پیرپگارو کی حفاظت اور سپردگی میککں دے کککر خککود ج ہاد پککر روانکہ‬
‫ہوگئے ۔‬
‫)(‪ ۳‬سک ّھوں کے خلف پہلی جنگ‬
‫سید احمد شہید دسمبر ‪ 1826‬میں نوشہرہ )شمالی مغربی سرحدی صوبہ( پہنچے اور اسے اپنا‬
‫مرکز اور صدر مقام بنالیا۔ سک ّھوں کے خلف پہلی جنگ ‪ 21‬دسمبر ‪ 1826‬کو اکوڑہ کے قریب‬
‫لڑی گئی جس میں سک ّھوں کو شکست ہوگئی ۔‬

‫)(‪ ۴‬سک ّھوں کے خلف دوسری جنگ‬


‫سک ّھوں کے خلف دوسری جنگ حضرو کے مقام پر لڑی گئی۔ اس میں بھی مسلمان فتحیاب‬
‫رہے۔ان فتوحات سے پٹھانوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی اور وہ ب ھی تحریکک ج ہاد میککں شکامل‬
‫ہوگئے ۔ مجاہدین کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ۔ سید احمد کو "امیککر المککومنین" کککا منصککب‬
‫دے دیا گیا ۔‬

‫)‪ (۵‬اسلمی قوانین کا نافذ‬


‫سید احمد شہید کے فتح کیے ہوئے علقوں میں اسلمی قوانین نافذ کردئیے گئ ے ۔‬

‫)‪ (۶‬سید احمد کے خلف سازش‬


‫ابتداءمیں تحریککک ج ہاد ب ہت کامیککابی سکے جککاری ت ھی لیکککن فککورا ًہی سککید احمککد ککے خلف‬
‫سازشیں شروع ہوگئیں۔ کچھ قبائلی سرداروں نے آپ کو زہر دے کر قتککل کرن کے کککی کوشککش‬
‫کی۔ اس طرح م ہاراجہ رنجیککت سککنگھ)‪1780‬ء)‪1839‬ن کے سککردار یککار محمککد اور اسکککےبھائی‬
‫سلطان محمد کو رشوت دی تاکہ وہ سید احمد شہید کی خلفت کے خلف سازش کریں ۔‬

‫)‪ (۷‬مجاہدین اورسکھوں کے درمیان سخت معرکہ‬


‫سرداروں کی نافرمانیوں کی وجہ سے سید احمد شکہید ب ہت ناامیکد اور مککایوس ہوگئ ے ۔ سککید‬
‫احمد نے بالکوٹ کو اپنا نیا صدر مقام بنالیا ۔ انھوں نے مظفرآباد سے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا ۔‬
‫وہاں مجاہدین اور سکھوں کے درمیان سخت معرکہ آرائی شروع ہوگئی ۔‬

‫)‪ (۸‬سید احمد اور ان کے جانثاروں کی شہادت‬


‫مسلمان بڑی بہادری اور جرا�¿ت سکے لککڑے لیکککن ‪6‬مئی ‪ 1831‬کککو سککید احمککد اور ان ککے‬
‫جانثاروںکی اکثریت کو شہید کردیا گیا۔ہزاروں مجاہدین میں سے صرف تین سو زنککدہ بچ کے اور‬
‫اس طرح سید احمد شہید کی خلفت ختم ہوگئی اور اسککلمی ریاسککت قککائم کرنکے کککا ان کککا‬
‫خواب شرمندہ�¿ تعبیر نہ ہوسکا ۔‬

‫سوال‪ :‬علی گڑھ تحریک کے کارنامے بیان کریں؟‬


‫‪ 1857‬کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی چیرہ دستیوں اور سککفاکیوں‬
‫کا نشانہ بن گئے۔ مسلمانوں کو دینی‪ ،‬مذہبی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬معاشی‪ ،‬معاشرتی اور تعلیمی حقککوق‬
‫سے محروم کردیا گیا۔ ان حالت میں سر سید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کے رہنمککا‬
‫اور قائد کے فرائض سنبھال لئ ے ۔ان ھوں نے مسلمانوں میں بیداری کی تحریک کککا آغککاز کیککا ۔ ان‬
‫کی تحریک "علی گڑھ تحریک " کہلتی ہے۔ علی گڑھ تحریک کے کارنامے‬

‫)‪ (۱‬انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی تعلقات کا قیام‬


‫سرسید احمد نے انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات قائم کرن کے کککی ضککرورت‬
‫پر زور دیا۔ انھوں نے انگریزوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ک کہ ‪ 1857‬کککی جنککگ ک کے‬
‫صرف مسلمان ہی ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ہندو اور ہندوستان کککی دوسککری اقککوام نکے ب ھی اس‬
‫جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انگریزوں کے ذہن سے مسلمانوں کے بککارے میککں شکککوک و شککبہات دور‬
‫کرنے کے لئے سرسید احمد نے ایک کتابچہ " اسباب بغاوت ہند" کے نام سے تحریر کیا تھا ۔‬

‫)‪ (۲‬جدید تعلیم کے لئے ترغیب‬


‫سر سید احمد کو پورا یقین تھا کہ جب تک برصغیر کے مسلمان تعلیم نہیککں حاصکل کریککں گکے‬
‫اور سائنسی علوم نہیں سکھیں گے اس وقت تک وہ پسماندہ رہیں گکے اور برصککغیر کککی دیگککر‬
‫غیر مسلم اقوام سے مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔انھوں نے مسلمانوں پر زور دیککا ک کہ وہ انگریککزی‬
‫زبان سیکھنے میں دلچسپی ظاہر کریں تاکہ وہ ان سائنسی علوم سے فیض یاب ہوسکککیں جککن‬
‫کا ماخذ مغربی علوم سے تھا ۔‬

‫)‪ (۳‬تعلیمی سرگرمیاں‬


‫سرسید احمد خان نے مسلمانوں پر زور دیککا ککہ وہ جدیککد علککوم سککیکھیں۔ اس لئے ان ھوں ن کے‬
‫‪ 1862‬میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ بعککد میککں اس کککو علککی گککڑھ‬
‫منتقل کردیا گیا۔اس کے بعد سر سیدنے کیمبرج یونیورسٹی )انگلستان( کی طرز پر علی گککڑھ‬
‫میں ایک اسکول قائم کیا ۔ جس کو بعککد میککں کالککج کککی سکطح تککک بڑھادیککا گیکا ۔ اس ککا نککام‬
‫محمڈن اینگلو اورینٹل کالج )ایم اے او کالج( رکھا گیکا۔ سککر سکید احمکد نکے مسککلمان نوجکوان‬
‫نسل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ انگریزی زبان سیکھین تاکہ جدید سائنسی علوم کا حصککول‬
‫ان کے لئے آسان ہوجائ ے ۔ اس پروگرام کی وجہ سے اردو زبان کے فروغ میں بھی مدد ملی ۔‬

‫سوال‪ :‬دو قومی نظری ہ کیا ہے؟‬

‫دو قومی نظریہ‬


‫دو قومی نظریہ سے مراد یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان )جنوبی ایشیائ( میں دو بڑی قککومیں ر ہتی‬
‫ہیں۔یہ قومیں ہندو اور مسلم ہیں۔یہ دونوں قومیں سینکڑوں سال تککک ایککک دوسککرے ککے سککاتھ‬
‫رہی ہیں۔لیکن اپنے مخصوص مککذہبی اور منفککرد معاشککرتی نظککاموں کککی وجکہ سکے بکاہم ایکک‬
‫دوسرے میں ضم نہیں ہوسکیں ۔‬

‫دو قومی نظریہ کا ارتقائ‬


‫ہندو یہ چاہتے تھے کہ ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ہندووں نے اردو کے مقابلے میں ہندی‬
‫زبان کے فروغ کے لئے مہم چلئی۔ ہندی اور اردو کے اس تنازع نے سر سید کے ذہن کو بدل کر‬
‫رکھ دیا اور پھر انھوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنی سیاسی حکمت عملی استوار کی ۔‬
‫یہ دو قومی نظریے کی ابتداءتھی۔سر سید مسلمانوں کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے برصغیر ک کے‬
‫مسلمانوں کے لئے "قوم" کی اصطلح استعمال کی کیونکہ ان کا مذہب جدا تھا ۔ ان کککی اپنککی‬
‫اقککدار اور معیشککت بالکککل جککداگانہ ت ھی۔ سککر سککید ککے بعککد برصککغیر ککے کئی رہنمککاوں مثل ً‬
‫عبککدالحلیم شککرر‪ ،‬مولنککا محمککد علککی جککوہر‪ ،‬چو ہدری رحمککت علککی‪ ،‬علمککہ محمککد اقبککال‬
‫اورقائداعظم محمد علی جناح نے درست طور پر یہ اعلن کیا ک کہ مسککلمان ایککک علیحککدہ قککوم‬
‫ہیں۔ قائد اعظم نے فرمایا‬
‫”ن ہ ہندوستان ایک ملک ہے اور ن ہ ہی اس ک ے باشند ے ایک قوم ‪ ،‬ی ہ ایسسک برصسسغیر‬
‫ہے جس میں کئی اقوام ہیں ۔“‬
‫قائداعظم کی بے شمار تقاریر اور بیانات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے ۔ مسکلمانوں ککو ایکک‬
‫اقلیت نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قوم ہے۔ ان ککا اصکرار ت ھا ککہ برصکغیر ککے سیاسکی تعطکل‬
‫)ڈیڈلک( کا منصفانہ حل صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کو بحیثیت ایککک علیحککدہ قککوم تسککلیم کیککا‬
‫جائ ے ۔‬

‫سوال‪ :‬جدوج ہد پاکستان میں مسلم لیگ ک ے کردار پر روشنی ڈالی ے؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫آل انککڈیا مسککلم‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫لیگ کا قیام‬
‫آزادی کی جدوجہد‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫میکں مسکلم لیکگ ککا‬
‫کردار‬
‫)‪ (۱‬حقککوق ککککا‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫تحفظ‬
‫)‪ (۲‬کانگریس کے‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫سککککککاتھ سیاسککککککی‬
‫سمجھوتہ‬
‫)‪ (۳‬مسککلمانوں‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫کی تعداد‬
‫)‪ (۴‬نشستیں‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۵‬متناسککککب‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬


‫نمائندگی‬

‫آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام‬


‫‪ 30‬سمبر ‪ 1906‬کو ایک سیاسی جماعت "آل انڈیا مسلم لیگ�©"کے نککام س کے تشکککیل دی‬
‫گئی ۔ علی گڑھ کو اس کا صدر مقام بنایا گیا اور جلد ہی سر آغا خان )مرحو م( کککو آل انککڈیا‬
‫مسلم لیگ کا صدر اورسید علی حسین بلگرامی کو سیکریڑی جنرل مقرر کیا گیا ۔‬

‫آزادی کی جدوجہد میں مسلم لیگ کا کردار‬


‫‪ 1906‬میں مسلم لیگ کی تشکیل کے بعد ہی سے اس نے جنوبی ایشیاءکے مسلمانوں کے لئے‬
‫ایک پلیٹ فارم کی شکل اختیار کرلی۔ جہاں س کے وہ اپنکے حقککوق اور انگریککزوں س کے حصککول‬
‫آزادی کے لئے جدوجہد کرسکتے ت ھے ۔ مسلم لیگ کہ یہ جدوجہد بے شمار مشکککلت سکے گککزری ۔‬
‫مسلم لیگ کے کردار کوذیل میں مختصرًابیان کیا گیا ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬حقوق کا تحفظ‬


‫ایک نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پراپنے قیام کے بعد مسلم لیگ کا فکوری ہدف یکہ ت ھا ککہ‬
‫برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مناسب اقککدام اٹ ھائے جککائیں اور حکککومت‬
‫کو ان کے مسائل اور مطالبات سے آگاہ کیا جککائے۔ ایککک جککانب مسککلم لیککگ نکے انگریککزوں کککو‬
‫برصغیر سے نکالنے کے لئے ہندووں کے ساتھ ہاتھ ملنے اور تعاون کرنے میں انتہائی متوازن رویہ‬
‫اختیار کیا اور دوسری جانب اس نے مسلمانوں اور برطانوی سرکار ک کے درمیککان تعلقککات کککو‬
‫بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کی ۔‬

‫)‪ (۲‬کانگریس کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ‬


‫قائداعظم محمد علی جناح نے اکتوبر ‪ 1913‬میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔ ان کی‬
‫کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان دسمبر ‪ 1916‬میں ایک سمجھوتہ طے پایا‬
‫جو میثاق لکھن�¿و کے نام سے معروف ہے۔ اس میثاق کی رو سے کانگریس نککے مسککلمانوں‬
‫کی جداگانہ حیثیت کککو تسککلیم کرلیککا اور ہندوسککتانی مسککلمانوں ککے لئے جککداگانہ انتخککاب ککے‬
‫مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا ۔‬

‫)‪ (۳‬مسلمانوں کی تعداد‬


‫مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد ایک تہائی طے پائی ۔‬

‫)‪ (۴‬نشستیں‬
‫مسلم اکثریت کے دونکوں صکوبوں یعنککی بنگککال اور پنجککاب کککی قکانون سککاز اسککمبلیوں میککں‬
‫مسلمانوں کی اکثریت مستحکم ہوگئی ۔‬

‫)‪ (۵‬متناسب نمائندگی‬


‫ان صوبوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ وہاں ان کی نمائندگی ان کے آبادی کے تناسب‬
‫سے زیادہ کردی گئی ۔‬

‫سوال‪ :‬جدوج ہد پاکستا ن میں صوبوں ن ے کیا کردار ادا کیا ت ھا؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫تحریککککککک‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫پاکسککککتان میککککں‬
‫صوبوں کا کردار‬
‫)‪ (۱‬صککککوبے‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫پنجاب‬
‫)‪ (۲‬صککککوبہ‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫سندھ‬
‫)‪ (۳‬صککککوبہ‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫بلوچستان‬
‫)‪ (۴‬صککککوبہ‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫سرحد‬

‫تحریک پاکستان میں صوبوں کا کردار‬


‫برصغیر کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد کی بدولت پاکستان وجود میں آیا ہے ۔ تمام صککوبوں‬
‫کی عوام نے تحریک پاکستان کو مقبول بنانے میں حصہ لیککا۔ مسککلم رہنمککاوں نکے برصککغیر ککے‬
‫کونے کونے تک پاکستان کا پیغام پہنچایا۔ تحریک پاکستان میں مختلف صوبوں کا کردار مندرجہ‬
‫ذیل ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬صوبے پنجاب‬


‫آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ تھا۔لیکن ہندووں اور انگریککزوں کککی‬
‫باہمی سازشوں اور ملی بھگت سے یہاں کے عوام کو دبا کر رکھا گیککا۔قککرارداد پاکسککتان ب ھی‬
‫پنجاب کے سب سے بڑے شہر اور دارلحکومت لہور میں ‪23‬مارچ ‪ 1940‬کو منظور کککی گئی ۔‬
‫اس کے بعد مسلم لیگ نے پاکستان کے تصور کو پورے پنجاب میں مشکہور کیککا ۔ ‪46-1945‬ک کے‬
‫انتخابات میں مسککلم لیککگ نکے پنجککاب ککی صککوبائی اسککمبلی میککں تقریبکا ً نککوے فیصککد مسککلم‬
‫نشستوںپر کامیابی حاصل کرکے اکثریت حاصل کرلی۔ پنجاب کے علماءاورمذہبی عمائدین نککے‬
‫پنجاب کے عوام کو آزادی کے لئے آمادہ کیا۔انھوں نے پنجاب مسلم اسککٹوڈنٹس فیڈریشککن قککائم‬
‫کی اور آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کیا ۔‪ 1941‬میں قککائداعظم نکے اسککلمیہ کالککج ل ہور میککں‬
‫منعقدہ پاکستان کانفرنس کککی صککدارت فرمککائی۔پنجککاب ککے طلبکہ نکے پنجککاب کککی یونینسککٹ‬
‫حکومت کی بھرپور مخالفت کی ۔ پنجاب کی خواتین نے بھی اس تحریک میککں پککورا حص کہ لیککا ۔‬
‫پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ایک بہادر خککاتون صککغر ٰی فککاطمہ ن کے پنجککاب‬
‫سیکریٹریٹ سے برطانوی جھنڈا اتار پھینکا اور اس کی جگہ مسلم لیگ کا جھنڈا لہرادیا ۔‬

‫)‪ (۲‬صوبہ سندھ‬


‫صوبہ سندھ کو باب السلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس صوبے میں مسلمانوں کی اکککثریت‬
‫کو کم کرنے کے لئے انگریزوں نے اس کو صوبہ بمبئی کا حصہ بنادیا۔ مسککلم لیککگ کککی جدوج ہد‬
‫کی بدولت ‪ 1935‬کے حکومت ہندکے اےک قانون )ایکٹ( کے تحت سندھ کو علیحدہ صوبے کککی‬
‫حیثیت حاصل ہوگئی۔ مسلم لیگ ککا پہلسککالنہ اجلس دسککمبر ‪ 1907‬میککں کراچککی میککں ہوا ۔‬
‫سندھ پہل صوبہ تھا۔جس میںمسلم لیگ نے اکتوبر ‪ 1938‬میں ایککک قککرارداد منظککور کککی جککس‬
‫میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں کو مسلمانوںکو حکککومت قککائم کککی جککائے۔ یکہ‬
‫قرارداد مارچ ‪ 1940‬کی قرارداد پاکستان کی پیش خیمہ بنککی ۔ ‪ 46-1945‬ک کے انتخابککات میککں‬
‫صوبہ سندھ میں مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کرکے اپنی حکومت بنالی۔ سندھ کے مسککلمانوں‬
‫کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ سر عبداللہ ہارون‪ ،‬محمکد ایکوب ک ھوڑو‪ ،‬قاضکی فضکل اللکہ‪،‬‬
‫شیخ عبدالمجید سندھی‪ ،‬سر غلم حسین ہدایت اللہ‪ ،‬پیرالہٰی بخش‪ ،‬جی النا اور قاضی محمد‬
‫اکبر وہ ممتاز رہنما اور قائدین تھے جنھوں نے صوبہ سککندھ میککں مسککلم لیککگ کککو مقبککول بنایککا ۔‬
‫سندھ کے علماءاور دینی رہنماوں نے بھی اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پوری جدوج ہد‬
‫آزادی کے دوران سندھ کے عوام تحریک پاکستان کے وفادار اور جانثار ر ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬صوبہ بلوچستان‬


‫رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ تھا۔مگر انگریزوں نکے اسکے ہمیشکہ پسککماندہ‬
‫رکھنے کی کوشش کی۔بلوچستان کے قاضی محمد عی ٰسی ‪ 1939‬میں مسلم لیگ کی مجلککس‬
‫عاملہ )ورکنگ کمیٹی( میں شامل ہوئے۔ انھوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ قائم کی اور کئی‬
‫قبائلی رہنما اس میں شامل ہوگئے۔جلد ہی مسلم لیگ بلوچستان کی ایک مقبول جماعت بککن‬
‫گئی۔میر جعفر خان جمالی‪ ،‬میر قادر بخککش ز ہری‪ ،‬سککردار بککاز خککان اور نککواب محمککد خککان‬
‫جوگیزئی نے بلوچستان کے مختلف علقوں میں مسلم لیککگ ککے اجلس منعقککد کئے اور عککوام‬
‫تک قائداعظم کا پیغام پہنچایا ۔ ‪ 23‬مارچ ‪ 1941‬کو کوئٹہ میں یوم پاکستان منایا گیا ۔ جس میں‬
‫عیسکی ککی قیکادت میکں لوگککوں ککی ایکک بکڑی ریلکی نکککالی گئی ۔‪ 1943‬میککں‬ ‫ٰ‬ ‫قاضی محمد‬
‫بلوچستان مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن قائم ہوئی۔قیام پاکستان کے وقت بلوچستان کے شککاہی‬
‫جرگے نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا ۔‬

‫)‪ (۴‬صوبہ سرحد‬


‫صوبہ سرحد کے عوام اپنی بہادری اور مککذہبی ذہنیککت کککی شکہرت رکھتکے ہیککں۔قککائداعظم ککے‬
‫مطالبے پر ‪ 1927‬میں دستوری اصلحات کا آغاز ہوا ۔‪ 1940‬میں سردار اورنگزیب نے قرارداد‬
‫پاکستان کی تائید و توثیق کی۔سردار اورنگزیب خان‪ ،‬جسٹس سجاد احمد خان اور خان بہادر‬
‫اللہ خان کی کوششوں سے ‪ 1939‬میں ایبٹ آباد میں مسکلم لیکگ ککانفرنس منعقککد ہوئی۔یکہ‬
‫کانفرنس سرحد کے مسلمانوں میں تحریک آزادی کی روح پھونکنے کا ذریعکہ بنککی ۔کئی اضککلع‬
‫میں مسلم لیگ کے دفاتر کھولے گئے۔مسلم لیگ نے ‪ 1947‬میککں صککوبے میککں سککول نافرمککانی‬
‫کی تحریک شروع کردی۔کارکنان کی ایک بڑی تعککداد کککو بکے بنیککاد اور ج ھوٹے مقککدمات میککں‬
‫ملوث کردیا گیا ۔تقریبا ً آٹھ ہزار کارکنان کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا ۔لیکن مسلم لیگ کی‬
‫تحریک بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔مذہبی رہنماوں نے اس تحریک میں بہت نمایککاں‬
‫کردار ادا کیا۔اسلمیہ کالج پشاور اور ایڈورڈ کالج کے طلبہ تصور پاکستان کو نمایاں کرنکے میککں‬
‫سرفہرست تھے۔اس تحریک کے نتیجے میں کانگریس کے پیککروں تل کے زمیککن نکککل گئی اور اس‬
‫صوبے میں اس کا زور ٹوٹ گیا اوریہاں مسلم لیگ ایک مقبول سیاسی جمککاعت بککن گئی ۔اس‬
‫طرح ‪ 14‬اگست ‪ 1947‬کو شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا ۔‬

‫سوال‪ :‬ایک نظریاتی ریاست ک ے ش ہریوں کی کیا ذم ہ داریاں ہیں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫نظریککاتی ریاسککت‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫ک کے ش کہریوں کککی ذم کہ‬
‫داریاں‬
‫)‪ (۱‬اسلمی قوانین‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫کا نفاذ‬
‫جمہوری نظام‬ ‫‪(۲) 3‬‬ ‫‪‬‬
‫کا قیام‬
‫)‪ (۳‬وفککککادار اور‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫محب وطن شہری‬
‫)‪ (۴‬رزق حلل‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫تعلیم یافتہ اور‬ ‫‪(۵) 6‬‬ ‫‪‬‬
‫مہذب‬
‫)‪ (۶‬ریاسککت کککے‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫قوانین کا احترام‬
‫)‪ (۷‬ترقی کے فروغ‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫کا ذریعہ‬
‫)‪ (۸‬فلح و بہبود‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۹‬فرائض کککی‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬
‫ادائیگی‬

‫انسککانی‬ ‫‪(10) 11‬‬ ‫‪‬‬


‫عظمت‬

‫نظریاتی ریاست کے شہریوں کی ذمہ داریاں‬


‫قائد اعظم نے ‪ 15‬جون ‪ 1948‬کو قوم سے خطاب کیا اور انھیں صککوبائیت اور نسککل پرسککتی‬
‫کے خطرات سے ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ ”اب ہم بلوچی‪ ،‬پٹھان‪ ،‬سندھی‪ ،‬پنجابی اور بنگالی‬
‫کے بجائے صرف پاکستانی ہیں۔ہماری سوچ اور فعل و عمل ایککک پاکسککتانی ککے شککایان شککان‬
‫ہونا چاہئے اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر کر نا چاہئے۔“ جدوجہد پاکستان کے پس منظر میککں‬
‫یہ فکر و فلسفہ کارفرما تھا کہ ایک اسلمی ریاست قائم کی جائے ج ہاں مسککلمان اسککلم ک کے‬
‫ابدی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزارسکیں ۔ اس پس منظر میں پاکستان کا تصککور ایککک‬
‫نظریاتی ریاست کا تھا اور ایک نظریاتی ریاست اپنے عوام سکے منکدرجہ ذیکل ذمکہ داریکوں ککا‬
‫تقاضہ کرتی ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬اسلمی قوانین کا نفاذ‬


‫افراد اپنی زندگی اسلمی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں گ ے ۔ جواس ملککک‬
‫کی بنیادی اساس ہے۔اس اصول کا تقاضہ تھا کہ اسلمی شریعت کے مطابق قوانین و قواعد و‬
‫ضوابط مرتب کئے جائیں ۔‬

‫)‪ (۲‬جمہوری نظام کا قیام‬


‫شہری ایک ایسا جمہوری نظام قائم کرنے کے لئے جدوجہد کریں گ ے ۔ جس کی بنیادیں اسلمی‬
‫اصولوں پر رکھی گئی ہوں ۔ مغربی طرز کا جمہوری نظام پاکستان کے لئے مناسککب نہیککں ہے ۔‬
‫سب کے لئے آزادی‪ ،‬احترام‪ ،‬عزت و تکریم اور مساوات کا جمہوری اصول ہی زنککدگی گزارنکے‬
‫کا واحد مناسب طریقہ ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬وفادار اور محب وطن شہری‬


‫نظریاتی ریاست کے ہر شہری کو وفادار اور محککب وطککن ہونککا چککاہئے اور آزمککائش ک کے وقککت‬
‫ریاست و مملکت کے لئے قربانی دینے کے لئے تیککار رہنککا چککاہئ ے ۔ اس ککا ذاتککی مفککاد ریاسککت و‬
‫مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چاہئ ے ۔‬
‫)‪ (۴‬رزق حلل‬
‫ہر شہری کو رزق حلل کمانا چاہئے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھوکے میککں ملککوث نہیککں ہونککا‬
‫چایئ ے ۔ اس کا ذاتی مفاد ریاست و مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چایئ ے ۔‬

‫)‪ (۵‬تعلیم یافتہ اور مہذب‬


‫شہریوں کا رویہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب شخص کا ہونا چککایئے ان ککے لئے یکہ لزمککی ہو ککہ وہ‬
‫خود تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم ہی کامیابیوں کی کلید ہے ۔‬

‫)‪ (۶‬ریاست کے قوانین کا احترام‬


‫شہریوں کو ریاست کے قوانین کا احترام کرنککا چککاہئے اور قککانون نافکذ کرنکے والکے اداروں ککے‬
‫ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انکو کبھی تشدد پر نہیں اترنا چایئے اور قوانین و قواعد و ضوابط کککی‬
‫خلف ورزی سے بچنا چایئ ے ۔‬

‫)‪ (۷‬ترقی کے فروغ کا ذریعہ‬


‫شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے جو قومی یکجہتی‪ ،‬وقار اور ترقی کو فروغ‬
‫دیتی ہوں۔ان کو سماج دشمن عناصککر کککی سککرگرمیوں ک کے خلف حکککومت کککی مککدد کرنککی‬

‫)‪ (۸‬فلح و بہبود‬


‫شہریوں کو سخت محنت کش ہونا چاہئے اور معاشرے کی فلح و بہبود میں حصہ لینا چاہئ ے ۔‬

‫)‪ (۹‬فرائض کی ادائیگی‬


‫شہریوں کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اپنے فرائض پوری ذمہ داری اور‬
‫توجہ سے ادا کرنے چاہئ ے ۔ انھیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے چاہئیں ۔‬

‫)‪ (10‬انسانی عظمت‬


‫شہریوں کو اسلمی اخوت اور انسانی عظمت کے لئے کام کرنا چاہئ ے ۔‬

‫سوال‪ :‬ایک نظریاتی ریاست ک ے ش ہریوں کی کیا ذم ہ داریاں ہیں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫نظریککاتی ریاسککت‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫ک کے ش کہریوں کککی ذم کہ‬
‫داریاں‬
‫)‪ (۱‬اسکککککلمی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫قوانین کا نفاذ‬
‫جمہوری نظام‬ ‫‪(۲) 3‬‬ ‫‪‬‬
‫کا قیام‬
‫)‪ (۳‬وفککککادار اور‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫محب وطن شہری‬
‫)‪ (۴‬رزق حلل‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۵‬تعلیم یافتہ اور‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫مہذب‬
‫)‪ (۶‬ریاسککت کککے‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫قوانین کا احترام‬
‫)‪ (۷‬ترقکککی ککککے‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫فروغ کا ذریعہ‬
‫)‪ (۸‬فلح و بہبود‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۹‬فرائض کککی‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬
‫ادائیگی‬

‫انسککانی‬ ‫‪(10) 11‬‬ ‫‪‬‬


‫عظمت‬

‫نظریاتی ریاست کے شہریوں کی ذمہ داریاں‬


‫قائد اعظم نے ‪ 15‬جون ‪ 1948‬کو قوم سے خطاب کیا اور انھیں صککوبائیت اور نسککل پرسککتی‬
‫کے خطرات سے ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ ”اب ہم بلوچی‪ ،‬پٹھان‪ ،‬سندھی‪ ،‬پنجابی اور بنگالی‬
‫کے بجائے صرف پاکستانی ہیں۔ہماری سوچ اور فعل و عمل ایککک پاکسککتانی ککے شککایان شککان‬
‫ہونا چاہئے اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر کر نا چاہئے۔“ جدوجہد پاکستان کے پس منظر میککں‬
‫یہ فکر و فلسفہ کارفرما تھا کہ ایک اسلمی ریاست قائم کی جائے ج ہاں مسککلمان اسککلم ک کے‬
‫ابدی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزارسکیں ۔ اس پس منظر میں پاکستان کا تصککور ایککک‬
‫نظریاتی ریاست کا تھا اور ایک نظریاتی ریاست اپنے عوام سکے منکدرجہ ذیکل ذمکہ داریکوں ککا‬
‫تقاضہ کرتی ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬اسلمی قوانین کا نفاذ‬


‫افراد اپنی زندگی اسلمی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں گ ے ۔ جواس ملککک‬
‫کی بنیادی اساس ہے۔اس اصول کا تقاضہ تھا کہ اسلمی شریعت کے مطابق قوانین و قواعد و‬
‫ضوابط مرتب کئے جائیں ۔‬

‫)‪ (۲‬جمہوری نظام کا قیام‬


‫شہری ایک ایسا جمہوری نظام قائم کرنے کے لئے جدوجہد کریں گ ے ۔ جس کی بنیادیں اسلمی‬
‫اصولوں پر رکھی گئی ہوں ۔ مغربی طرز کا جمہوری نظام پاکستان کے لئے مناسککب نہیککں ہے ۔‬
‫سب کے لئے آزادی‪ ،‬احترام‪ ،‬عزت و تکریم اور مساوات کا جمہوری اصول ہی زنککدگی گزارنکے‬
‫کا واحد مناسب طریقہ ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬وفادار اور محب وطن شہری‬


‫نظریاتی ریاست کے ہر شہری کو وفادار اور محککب وطککن ہونککا چککاہئے اور آزمککائش ک کے وقککت‬
‫ریاست و مملکت کے لئے قربانی دینے کے لئے تیککار رہنککا چککاہئ ے ۔ اس ککا ذاتککی مفککاد ریاسککت و‬
‫مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چاہئ ے ۔‬

‫)‪ (۴‬رزق حلل‬


‫ہر شہری کو رزق حلل کمانا چاہئے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھوکے میککں ملککوث نہیککں ہونککا‬
‫چایئ ے ۔ اس کا ذاتی مفاد ریاست و مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چایئ ے ۔‬

‫)‪ (۵‬تعلیم یافتہ اور مہذب‬


‫شہریوں کا رویہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب شخص کا ہونا چککایئے ان ککے لئے یکہ لزمککی ہو ککہ وہ‬
‫خود تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم ہی کامیابیوں کی کلید ہے ۔‬

‫)‪ (۶‬ریاست کے قوانین کا احترام‬


‫شہریوں کو ریاست کے قوانین کا احترام کرنککا چککاہئے اور قککانون نافکذ کرنکے والکے اداروں ککے‬
‫ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انکو کبھی تشدد پر نہیں اترنا چایئے اور قوانین و قواعد و ضوابط کککی‬
‫خلف ورزی سے بچنا چایئ ے ۔‬

‫)‪ (۷‬ترقی کے فروغ کا ذریعہ‬


‫شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے جو قومی یکجہتی‪ ،‬وقار اور ترقی کو فروغ‬
‫دیتی ہوں۔ان کو سماج دشمن عناصککر کککی سککرگرمیوں ک کے خلف حکککومت کککی مککدد کرنککی‬

‫)‪ (۸‬فلح و بہبود‬


‫شہریوں کو سخت محنت کش ہونا چاہئے اور معاشرے کی فلح و بہبود میں حصہ لینا چاہئ ے ۔‬

‫)‪ (۹‬فرائض کی ادائیگی‬


‫شہریوں کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اپنے فرائض پوری ذمہ داری اور‬
‫توجہ سے ادا کرنے چاہئ ے ۔ انھیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے چاہئیں ۔‬

‫)‪ (10‬انسانی عظمت‬


‫شہریوں کو اسلمی اخوت اور انسانی عظمت کے لئے کام کرنا چاہئ ے ۔‬

‫سوال‪ :‬بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم کا کردار بیان کریں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫قائد اعظککم بحیککثیت‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫گورنر جنرل‬
‫)‪ (۱‬قومی یکجہتی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۲‬م ہاجرین کککی‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫بحالی‬
‫)‪ (۳‬سککککککرکاری‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫افسران ک کے روی کے میککں‬
‫تبدیلی‬
‫)‪ (۴‬صککککوبائی اور‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫نسلی امتیاز کی نفی‬
‫)‪ (۵‬پاکسکککککتانی‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫معیشککککت کککککے رہنمککککا‬
‫اصولوں کا تعین‬

‫)‪ (۶‬خارجہ پالیسی‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬

‫قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل‬


‫قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو ورثہ میں بے شمار مسککائل مل کے۔ ان مسککائل میککں ب ھارت‬
‫سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی‪ ،‬پاکستان اوربھارت کے درمیان اثاثوں کی تقسیم‪ ،‬نہری پانی‬
‫کا تنازعہ اور کشمیر کا مسئلہ شامل تھا۔ان حالت میںبحیثیت گورنر جنرل قککائداعظم ن کے اپنککا‬
‫فرض منصبی ذیل میں دی گئی تفصیل کے مطابق ادا کیا ۔‬

‫)‪ (۱‬قومی یکجہتی‬


‫پاکستان کے ابتدائی مسائل کا تقاضا ت ھا ک کہ اس نئی مملکککت ککے عککوام ککے درمیککان قککومی‬
‫یکجہتی اور بھرپور تعاون کا جذبہ پروان چڑھے۔ بھارت نے کبھی دل سے پاکستان کے وجود کککو‬
‫تسلیم نہیں کیاتھا اور ہندو رہنماو�¿ں کا خیال خام تھا کہ پاکستان کا وجود جلد ختککم ہوجککائے‬
‫گا اور برصغیر پھرسے متحد ہوجائے گا۔لیکن یہ قائداعظم کی ذہانت اور لیاقت ت ھی جککس ک کے‬
‫ذریعہ انہوں نے یہاں کے لوگوں میں قومی روح‪ ،‬پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کککا جککذبہ‬
‫بیدار کر دیا ۔نتیجتا ً قومی اتحاد و اتفاق نے فروغ پایا اور پاکستان ایک زندہ حقیقت بن گیا ۔‬

‫)‪ (۲‬مہاجرین کی بحالی‬


‫تقسیم ہند کے نتیجے میں ‪ 6.5‬ملین )‪ 65‬لکھ( مسلمان بے گھر کردئے گئے اور انھیں پاکسککتان‬
‫ہجرت کرنے اور پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی بحالی ایک مشکل کام تھا۔قائد اعظم نککے‬
‫ان مہاجرین کی بحالی پر فوری توجہ دی اور حکککومت پاکسککتان کککی طککرف سکے ایککک "قککائد‬
‫اعظم ریلیف فنڈ"قائم کردیا گیا ۔انھوں نے لوگوں سے عطیات جمع کرانے کککی اپیککل کککی ۔قککائد‬
‫اعظم اکتوبر ‪ 1947‬میں لہور تشریف لے گئے تاکہ مشرقی پنجاب سے ترک وطککن کرککے آنکے‬
‫والے مہاجرین کا مسائل کاخود جائزہ لے سکیں اور ان کی خوراک و رہائش کککا بندوبسککت کیککا‬
‫جاسکے۔انھوں نے ‪ 30‬اکتوبر ‪ 1947‬کو لہور میں ایک بڑے جلسہ عککام س کے خطککاب کیککا اور ی کہ‬
‫اعلن کیا کہ یہ تمام پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان م ہاجرین کککی ہرممکککن مککدد کریککں ۔‬
‫جنہوں نے پاکستان کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑا اورجنھیں ہندووں اور سک ّھوں کککے ہاتھوں‬
‫نقصان اٹھانا پڑا ۔‬

‫)‪ (۳‬سرکاری افسران کے رویے میں تبدیلی‬


‫قائداعظم نے سرکاری افسران کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو عوام کا خادم سمجھیں ۔ ‪ 25‬مارچ‬
‫‪ 1948‬کو قائد اعظم نے سرکاری ملزمین سے خطاب کیا اور ان کو ہدایت کی کہ وہ سیاسککی‬
‫یا گروہی وابستگی سے بلند ہوکر عوام کے خادمین کی حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے‬
‫سرانجام دیں ۔اس طرح عوام کی نظروں میں ان کا مقام بلند ہوگا ۔‬

‫)‪ (۴‬صوبائی اور نسلی امتیاز کی نفی‬


‫قائد اعظم نے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ خودکو پاکستانی کہلوانے پکر فخکر محسکوس ککر یکں‬
‫اور ہر قسم کے نسلی امتیاز اور علقائی تعصبات سے خود کو علیحدہ رکھیں۔ان ھوں نکے تمککام‬
‫صککوبوں کککا دورہ کیککا اور ان ک کے مسککائل حککل کرن کے کککی کوشککش کککی ۔ آزاد قبککائلی علق کے‬
‫وزیرستان ایجنسی سے مسلح افواج کو ہٹالیا گیا۔اس سے اس علقے کو یہ پیغام دینککا مقصککود‬
‫تھا کہ وہ بھی پاکستان کا جز ہے۔مختلککف آزاد ریاسککتوں کککو پاکسککتان میککں شککامل کرلیککا گیککا ۔‬
‫کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا ۔‬

‫)‪ (۵‬پاکستانی معیشت کے رہنما اصولوں کا تعین‬


‫یکم جولئی ‪ 1948‬کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان )بینک دولت پاکستان( افتتاح کرتے ہوئے قککائد‬
‫اعظم نے فرمایا کہ پاکستان کے لئے مغربی معاشی اور اقتصککادی نظککام غیککر مناسککب ہے اور‬
‫اس سے ملک کے عوام میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا ہے جس‬
‫کی بنیاد اسلمی مساوات اور عدل اجتماعی پر ہو۔اس طرح شاید ہم ساری دنیا میں ہم ایک‬
‫نیا سماجی نظام متعارف کراسکیں گ ے ۔‬

‫)‪ (۶‬خارجہ پالیسی‬


‫آزادی کے فورا ً بعد قائد اعظم نے پاکستا ن کو اقوام متحدہ کا رکککن بنککانے ک کے لئے اپنککی تککوجہ‬
‫مرکوز کی۔ان کی رہنمائی میںپاکستان کے بہت جلد بکے شککمار ممالککک سکے سککفارتی تعلقککات‬
‫قائم ہوگئے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ‬

‫مختصر سولت‬

‫سوال‪ :‬سید احمد ش ہید کی تحریک ک ے مقاصد تحریر کریں؟‬

‫)‪ (۱‬اللہ کی توحید کی تبلیغ کرنا ۔‬

‫)‪ (۲‬اسلمی تعلیمات کی احیائ ۔‬

‫)‪ (۳‬اسلمی اصولوں کے مطابق برصغیر میں ایک ریاست قائم کرنا ۔‬

‫)‪ (۴‬مسلمانوں کو ایسے اعمال وا فعال اور خیالت سے بچانکا جکو اسکلمی اقکدار ککے منکافی‬
‫ہوں ۔‬

‫سوال‪ :‬علی گڑ ھ تحریک ک ے مقاصد بیان کریں؟‬

‫)‪ (۱‬مسلمانوں مےں عمومی بیداری اور شعور بیدار کرنا ۔‬

‫)‪ُ (۲‬ان کے انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی پر مبنی تعلقات کا قیام ۔‬


‫)‪ (۳‬انہیں جدید تعلیم کے لئے ترغیب و تحریک دینا ۔‬

‫)‪ (۴‬اور انہےںمتنازع اور تشدد کی سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرنا ۔‬

‫سوال‪ :‬مسلم لیگ ک ے قیام ک ے اغراض و مقاصد تحریر کریں؟‬

‫)‪ (۱‬برطانوی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان خیرسگالی ککے جکذبات اور دوسکتانہ تعلقکات‬
‫قائم کرنا اور انگریزوں کے ذہن سے مسلمانوں کے خلف شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا ۔‬

‫)‪ (۲‬مشترکہ فلح و بہبود کے لئے برصغیر کی دوسری اقوام اور سیاسی جماعتوں سے تعلقات‬
‫استوار کرنا ۔‬

‫)‪ (۳‬حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں ککے حقککوق کککا‬
‫تحفظ کرنا ۔‬

‫سوال‪ :‬قائد اعظم ک ے چود ہ نکات میں س ے چار نکات لک ھیں؟‬

‫)‪ (۱‬آئندہ آئین وفاقی طرز کا ہو جس میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائ ے ۔‬

‫)‪ (۲‬سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کردیا جائ ے ۔‬

‫)‪ (۳‬مسلمانوں کو ہر قسم کا مذہبی و ثقافتی تحفظ دیا جائ ے ۔‬

‫)‪ (۴‬تمام فرقوں کو یکساں اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو ۔‬

‫سوال‪ :‬علم ہ اقبال ن ے خطب ہ آل ہ ٰ آباد میں کیا ک ہا؟‬

‫مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے مطالبہ کو علمہ اقبال نے اپنے خطبہ میں اس طککرح پیککش‬
‫کیا ۔‬

‫”میری خوا ہش ہے ک ہ پنجاب‪ ،‬سرحد‪ ،‬سند ھ اور بلوچستان کو مل کر ایک ریاست‬


‫بنادی جائ ے۔ خوا ہ ہندوستان برطانوی سلطنت ک ے اندر ر ہ کر آزادی حاصل کر ے۔‬
‫مج ھے شمالی مغربی مسلم ریاست کا قیام مسسسلمانوں یسسا کسسم از کسسم شسسمالی‬
‫مغربی علقوں ک ے مسلمانوں کا مقدر نظر آتا ہے۔“‬

‫سوال‪ :‬کرپس مشن کی تجاویز کیا ت ھی؟‬

‫کرپس نے ‪ 29‬مارچ ‪1942‬کو اپنی تجاویز کا اعلن کیاجو یہ تھیں ۔‬

‫)‪ (۱‬دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان کے لئے ایک دستور ساز اسککمبلی تشکککیل دی‬
‫جائے جو ملک کے لئے دستور تیار کرے ۔ لیکن جنگ کے دوران ہندوسککتان پککر برطککانیہ کککا قبض کہ‬
‫برقرار رہے گا ۔‬

‫)‪ (۲‬مجوزہ دستور وفاقی طرز کا ہوگا جس میں تمام صوبے اور ریاستیں شریک ہوں گی ۔‬

‫)‪ (۳‬وفاقی دستور میں کسی بھی آئینی صوبے یا ریاست کو یکہ حککق دیککا جککائے گککا ککہ وہ چککاہے‬
‫تودس سال کے بعدوفاق سے علیحدگی‬
‫اسلمی جمہوریہ پاکستان میں آئینی ارتقاء‬

‫کسی بھی ملک کے لیے آءین یا دستور کیوں ضروری ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫قرارداد ِ مقاصد کے خدوخال بیان کریں‬ ‫‪‬‬
‫‪ 1956‬کے آئین کے امتیازی خدوخال بیان کریں‪.‬‬ ‫‪‬‬
‫مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ کیوں ہوا؟‬ ‫‪‬‬
‫ملک میں خوشحالی کے کے لیے پاکستانیوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟‬ ‫‪‬‬
‫‪ 1973‬کے آئین کے اہم نکات تحریر کریں ۔ ؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬کسی ملک ک ے لئ ے آئین یا دستور کیوں ضروری ہے؟‬ ‫‪‬‬

‫آئین کے معنی‬ ‫‪‬‬

‫قوانین اور قواعد و ضوابط کے ایسے مجموعے کو آئین یا دستور کہا جاتا ہے جککو کسککی‬ ‫‪‬‬
‫ملک یا ریاست کا کاروبارِ حکومت چلنے کے لئے ترتیب دیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد ِ اول یہ ہوتا ہے‬
‫کہ اس کے ذریعہ ملک یا ریاست کے عوام منظم‪ ،‬پرامن اور خوشحال زندگی گزارسکیں ۔‬

‫آئین کی ضرورت‬ ‫‪‬‬

‫کسی بھی ملک یا ریاست کا نظام یا کاروبار حکومت چلن کے ک کے لئے کئی ادارے وجککود‬ ‫‪‬‬
‫میں آتے ہیں اور ہر ادارے کے لئے قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دئے جاتے ہیککں ۔ ان اداروں‬
‫کو چلنے کے لئے کچھ افراد کا تقرر بھی کیا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک نظام حکومت وجککود میککں‬
‫آجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ادارے اور افراد مل کر حکومت بناتے ہیں۔ یہ حکومت پھر قککوانین‬
‫اور قواعد وضوابط کو یکجا کرتی ہے۔ ان قواعد وقوانین و ضوابط کے مجموعے کککو جککن کککی‬
‫روشنی میں کاروبار حکومت چلیا جاتا ہے آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔ی کہ حکککومت ک کے مختلککف‬
‫شعبوں کے اختیارات‪ ،‬ان کے باہمی تعلقات نیز شکہریوں ککے حقکوق ککابھی تعیکن کرتکا ہے۔ان‬
‫مقاصد کے حصول کےلئے اور کاروبار حکومت کومو�¿ثر طور پر چلنے ککے لئے ایککک آئیککن یککا‬
‫دستور کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ آئین میں دی گئی حدود کو پار نککہ‬
‫کرسک ے ۔‬

‫سوال‪ :‬قراداد مقاصد کے اہم خدوخال بیان کریں؟‬


‫قراداد ِ مقاصد ‪1949‬‬
‫پاکستان کی آئینی ارتقاءکی تاریخ میں قراداد مقاصد ایک انتہائی اہم دستاویز ہے اوراسے آئین‬
‫سازی میں بنیادی قدم قکرار د ےا جاسککتاہے۔اسکے ‪ 12‬مککارچ ‪1949‬ککو منظکور کیککا گیکا ۔ اس‬
‫قراداد میں اسلم کو پاکستان کی اساس قرار دیا گیا ہے ۔‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫قککراداد مقاصککدکے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫نمایاں خدوخال ےہ ہیں۔‬
‫)‪(۱‬مقتدراعل ٰی اللہ‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫تعال ٰی ہے‬
‫)‪ (۲‬اسکککلم ککککے‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫اصول کا نفاذ‬
‫)‪ (۳‬بہتر اور مناسب‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫ماحول‬
‫)‪ (۴‬اقلیتکککوں ککککے‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫حقوق کا تحفظ‬
‫)‪ (۵‬صکککوبوں ککککو‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫خودمختککککاری حاصککککل‬
‫ہوگی‬

‫)‪ (۶‬عدلیہ کی آزادی‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬

‫قراداد مقاصدکے نمایاں خدوخال ےہ ہیں۔‬


‫مقتدراعل ٰی اللہ تعال ٰی ہے‬
‫( )‪۱‬‬
‫اس قککرارداد میککں اس بککات کککی وضککاحت کککردی گئی ہے ک کہ سککاری کائنککات کککا مالککک اور‬
‫مقتدراعل ٰی صرف اللہ تعال ٰی ہے۔اقتدار مسلمانوں کے پاس اللہ کککی امککانت ہے اور اس اقتککدار‬
‫کو اسلم کی مقررہ کردہ حدود کے اندر رہ کر عوام کے منتخب نمائندے استعمال کریں گ ے ۔‬

‫)‪ (۲‬اسلم کے اصول کا نفاذ‬


‫اسلم کے پیش کردہ جمہوریت‪ ،‬مساوات اور عدل اجتماعی )معاشرتی عککدل( ک کے اصککول اور‬
‫تصورات ملک میں نافذ کئے جائیں گ ے ۔‬

‫)‪ (۳‬بہتر اور مناسب ماحول‬


‫مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن مجید اور سنت نبکوی میککں پیککش ککردہ‬
‫اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے بہتر اورمناسب ماحول فراہم کیا جائے گا ۔‬

‫)‪ (۴‬اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ‬


‫تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ان کککو اپنکے مککذاہب کککی پیککروی کرنکے اور اپنککی‬
‫ثقافت کو فروغ دینے کے لئے پوری آزادی ہوگی ۔‬

‫)‪ (۵‬صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگی‬


‫پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگا۔ آئین میں متعین کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے تمام صککوبوں‬
‫کو خودمختاری حاصل ہوگی ۔‬

‫)‪ (۶‬عدلیہ کی آزادی‬


‫عوام کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا ۔‬
‫سوال‪ 1956 :‬ک ے آئین ک ے امتیازی خووخال بیان کریں؟‬ ‫‪‬‬

‫‪1956‬کا آئین‬ ‫‪‬‬

‫جون ‪ 1955‬میں دوسری دستور ساز اسمبلی منتخککب ہوئی اور آئیککن سککازی کککا کککام‬ ‫‪‬‬
‫شروع ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ملک کا آئین تیار کیا گیا ۔جو ‪ 23‬مارچ‬
‫‪1956‬کو نافذ ہوا ۔ ‪ 1956‬کے آئین کے نمایاں خدوخال‬
‫اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حاکمیت اور اقتدار اعل ٰی اللہ تعککال ٰی ک کے پککاس‬
‫( )‪۱‬‬ ‫‪‬‬
‫ہے اور پاکستان کو اسلمی جمہوریہ قرار دیا گیا ۔‬
‫)‪ (۲‬ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۳‬صدر نے گورنر جنرل کی جگہ لے لی ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۴‬حکومت کے وفاقی نظام کے تحککت مرکککز اور پاکسککتان ککے دونککوں صککوبوں یعنککی‬ ‫‪‬‬
‫سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری )‪ (Parity‬کی بنےاد پککر‬
‫اختیارات کا تعین کیا گےا ۔‬
‫)‪ (۵‬اس بات کککی ضککمانت دی گئی ککہ مسککلمانوں کککو اسککلمی تعلیمککات ککے مطککابق‬ ‫‪‬‬
‫زندگی گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گ ے ۔‬
‫)‪ (۶‬حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک سے قریبی او ر دوستانہ تعلقات قککائم‬ ‫‪‬‬
‫کرے گی ۔‬
‫)‪ (۷‬سربراہ مملکت لزما ً مسلمان ہوگا ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۸‬کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلمی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے‬ ‫‪‬‬
‫خلف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے گی ۔‬
‫)‪ (۹‬صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گککا‬ ‫‪‬‬
‫اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا ۔‬
‫)‪ (10‬غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو مناسب تحفظ فراہم کیا گیا ۔‬ ‫‪‬‬

‫سوال‪ :‬مشرقی پاکستان مغربی پاکستان س ے کیوں علیحد ہ ہوا؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫مشرقی پاکستان کی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫علیحدگی‬
‫)‪ (۱‬مشککککرقی یککککا‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫مغربککککی پاکسککککتان کککککا‬
‫جغرافیائی محل و قوع‬
‫)‪ (۲‬معاشکککرتی اور‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫سماجی ڈھانچے میں فرق‬
‫)‪ (۳‬مارشل لئ‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۴‬زبان کا مسئلہ‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۵‬صکککککککوبائی‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫خودمختاری‬
‫)‪ (۶‬معاشکککککی اور‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫اقتصکککادی محرومکککی اور‬
‫پروپیگنڈہ‬
‫)‪ (۷‬ہنککدو اسککاتذہ کککا‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫کردار‬
‫)‪ (۸‬بیکککن القکککوامی‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫سازشیں‬
‫میں شککیخ‬ ‫‪1970 10‬‬ ‫‪‬‬
‫مجیککککب الرحمککککن کککککی‬
‫اکثریت‬

‫بھارت کا حملہ‬ ‫‪11‬‬ ‫‪‬‬

‫مشرقی پاکستان کی علیحدگی‬


‫‪ 14‬اگست ‪ 1947‬کو پاکسککتان دو حصککوں میککں وجککود میککں آیککا یعنککی مشکرقی پاکسککتان اور‬
‫مغربی پاکستان ۔ ‪ 1971‬میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت تک یہ ایک ہی ملک رہا ۔‬
‫مشرقی پاکستان کے سقوط یا علیحدگی کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬مشرقی یا مغربی پاکستان کا جغرافیائی محل و قوع‬


‫پاکستان کے ان دونوں حصوں کے درمیان تقریبًاسولہ سو کلککو میککڑ کککا فاصککلہ ت ھا اور درمیککان‬
‫میں بھارت اور سمندر حائل تھے اسی لئے دونککوں حصککوں ککے عککوام ایککک دوسککرے ککے زیککادہ‬
‫قریب نہیں آسکے۔جس کے سبب مشرقی اور مغربککی پاکسککتان ککے عککوام ککے درمیککان غلککط‬
‫فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ بھارت نے کبھی بھی برصغیر کککی تقسککیم اور قیککام پاکسککتان ککو دل سکے‬
‫قبول نہیں کیاتھااس نے ان غلط فہمیوں کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور مشکرقی پاکسکتان ککے‬
‫لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے مغربی پاکستان کے خلف من گھڑت اور جھوٹا پروپیگنڈا‬
‫شروع کردیا۔اس پروپیگنڈا نے دونوں صوبوں کے عوام میں بداعتمادی پیککدا کککردی جککس س کے‬
‫شدید نقصان پہنچا ۔‬

‫)‪ (۲‬معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں فرق‬


‫دونوں صوبوں کے عوام کے مسائل بہت مختلف تھے۔اس لئے ان کے مککابین ایککک دوسککرے سکے‬
‫آگاہی پروان نہیں چڑھ سکی۔ مشرقی پاکستان کے افسران کا رویہ اپنے لوگوں کے ساتھ کافی‬
‫دوستانہ تھا اور وہ عوام کے زیادہ قریب تھے۔انھوں نے اپن کے عککوام ک کے مسککائل حککل کرن کے کککی‬
‫کوششیں کی۔اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان کے وہ افسران جو مشرقی پاکسککتان میککں‬
‫تعینات کیے جاتے تھے‪ ،‬ان کا رویہ وہاں کے عککوام ککے سککاتھ بالکککل مختلککف اور متکّبرانکہ ت ھا۔وہ‬
‫عوام سے فاصلہ کے اصول پر عمل کرتے ت ھے۔اس ککی وجکہ سکے مغربکی پاکسکتان ککے خلف‬
‫نفرت کا احساس پیدا ہوگیا۔مشرقی پاکستان کے عوام یہ سمجھتے تھے کہ انھیں حکککومت کککے‬
‫عمل و فعل اور نظم و نسق میں جائز اور حقیقی حصہ دار نہیں بنایا گیا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬مارشل لئ‬


‫بار بار ماشل لءکے نفاذ نے بھی مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومی پیدا کردیکا‬
‫تھا۔جنرل محمد ایوب خان سیاستدانوں کو یہ الزام دیتے ت ھے ککہ وہ پارلیمککانی نظککام حکککومت‬
‫کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں جب کہ عوامی رہنما یہ یقین رکھتے تھے کہ پارلیمانی نظام حکککومت‬
‫کے قیام میں مارشل لءسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طرح ملک میں جم ہوریت پککروان نہیککں‬
‫چڑھ سکے گی ۔‬

‫)‪ (۴‬زبان کا مسئلہ‬


‫سرکاری زبان کے مسئلے پر مشرقی پاکستان کے عوام کووفاقی حکککومت کککی پالیسککی سکے‬
‫اختلف تھا۔ اس مسئلہ پر حککومت ککے خلف مظکاہرے ہوئے اور کئی بنگکالی طلبکہ ککی جکان‬
‫قربان ہوگئی ۔ اس سے بنگالیوں کے ذہنوں میں مزید اشتعال پیدا ہوا ۔‬

‫)‪ (۵‬صوبائی خودمختاری‬


‫مشرقی پاکستان مکمل صوبائی خودمختاری چاہتا تھا۔اس مطالبہ کواس وقت تک تسلیم نہیں‬
‫کیا گیا جب تک بھارت نے ‪ 1971‬میں مشرقی پاکستان پر حملہ نہیں کردیا۔اگر یہ مطککالبہ پہلککے‬
‫تسلیم کرلیا جاتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا ۔‬

‫)‪ (۶‬معاشی اور اقتصادی محرومی اور پروپیگنڈہ‬


‫عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن نے بنگککال میککں یکہ پروپیگنکڈہ اور تشکہیر کرنککا شککروع‬
‫کردیا کہ بنگالیوں کو معاشی اور اقتصککادی طککور پککر محککروم رک ھا گیککا ہے۔ عککوامی لیککگ نکے‬
‫مشرقی پاکستان کے لئے علیحدہ اقتصادی نظام کا مطالبہ کردیااور اپنا چھ نکاتی منشور پیش‬
‫کیا۔ ملک کی دیگر جماعتوں نے شیخ مجیب الرحمن کی تجاویز کو رد کردیا ۔ک ہا جاتککا ہے ک کہ‬
‫اس نکے ب ھارت ککے سککاتھ خفیکہ تعلقککات جککوڑنے شککروع کککردئے ت ھے۔ آل انکڈیا ریکڈیو نکے اپنکے‬
‫پروگراموں کے ذریعے بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے عوام ک کے خلف نفککرت پیککدا‬
‫کرنا شروع کردی ۔‬

‫)‪ (۷‬ہندو اساتذہ کا کردار‬


‫مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کی ایک کثیر تعداد پڑھارہی ت ھی۔ان ھوں‬
‫نے ایک منصوبے کے تحت ایسا ادب اور لٹریچر تیار کیا جس کی بدولت بنگالیوںکے ذہنوں میککں‬
‫مغربی پاکستان کے عوام کے خلف منفی جذبات اور خیالت پروان چڑھنے لگ ے ۔‬

‫)‪ (۸‬بین القوامی سازشیں‬


‫مشرقی پاکستان میں تقریبًادس ملیککن ) ایککک کککڑوڑ( ہنککدو اقلیککت آبککاد ت ھی۔ہنککدوو �¿ں ککے‬
‫مفادات کے تحفظ کے لئے بھارت ان کی پشت پناہی کررہا ت ھا۔ب ھارت مشککرقی پاکسککتان کککو‬
‫علیحدہ کرنا چاہ رہاتھا تاکہ ہندوو�¿ں کی معاشی اور اقتصککادی حککالت مسککتحکم ہوسکککے۔بکے‬
‫شمار ہندو بھارت ککے لئے جاسوسککی کرتکے ت ھے۔روس ب ھی پاکسککتان کککا مخککالف ت ھا کیککونکہ‬
‫پاکستان نے امریکہ کو اپنے ہاں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجککازت دے دی ت ھی ۔دوسککری جککانب‬
‫خود امریکہ بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی چاہتا ت ھا۔ان حکالت میکں روس نکے پاکسکتان‬
‫پربھارت کے حملے اور جارحیت کی حمایت کی ۔‬

‫‪ 1970‬میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت‬


‫‪ 1970‬کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکسککتان میککں‬
‫واضح اکثریت اور برتری حاصل کرلی اور ‪ 162‬نشستوں میں س کے ‪ 160‬پککر کامیککابی حاصککل‬
‫کی۔ان کے علوہ عوامی لیگ نے خکواتین ککے لئے مخصکوص تمکام نشسکتوں پکر ب ھی کامیکابی‬
‫حاصل کی۔انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد شیخ مجیب الرحمککن ن کے اپن کے مطالبککات‬
‫میں اضافہ کرنا شروع کردیا لیکن اس وقت کے فوجی حکمرانککوں ن کے ان مطالبککات کککو نظککر‬
‫انداز کردیا ۔‬

‫بھارت کا حملہ‬
‫فوجی کارروائی کے نتیجے میں عوامی لیگ کے رہنما اور بنگککالیوںکی ایککک کککثیر تعککداد ب ھارت‬
‫فرار ہوگئی۔بھارت نے پاکستان کے اندرونی معاملت میں مداخلت شروع کردی۔ب ھارت نکے یکہ‬
‫گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مشرقی پاکستان کے لکھوں پناہ گزینوں کی وج کہ س کے اس‬
‫کی سلمتی کو خطرہ لحق ہوگیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں فککوجی کککارروائی کککو ب ھارت نکے‬
‫اپنے اوپر حملہ قرار دیا تھا۔شیخ مجیب الرحمن نے مکتی باہنی )آزادی کی فوج (ک کے نککام س کے‬
‫ایک نیم فوجی لشکر ترتیب دیا تھا۔ جس نے پاکسکتانی فکوج ککے خلف گکوریل جنکگ ککا آغکاز‬
‫کردیا ۔ اس کی حمایت میں بھارت نے بھی پاکستانی فوج پر حملکے شککروع کککردیئ ے ۔‪ 3‬دسککمبر‬
‫‪ 1971‬کو پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ انککدرون ملککک عککوام کککی‬
‫حمایت نہ ہونے کی وجہ سے ‪ 16‬دسککمبر ‪ 1971‬کککو پاکسککتا ن کککی فککوج نکے ب ھارتی فککوج ککے‬
‫سامنے ہتھیار ڈال دیئے جبکہ مغربی پاکستان کے محاذ پر بغیر کسی بککڑے حملکے ککے جنککگ بنککد‬
‫کردی گئی ۔‬
‫سوال‪ :‬ملک میں خوشحالی لن س ے ک س ے لئ ے پاکسسستانیوں کسسو کیسسا کسسردار ادا‬ ‫‪‬‬
‫کرنا چایئ ے؟‬
‫پاکستان ایککک عطیکہ خداونککدی ہے ۔ اس کککا اسککتحکام اور خوشککحالی پاکسککتانیوں کککی‬ ‫‪‬‬
‫مشترکہ ذمہ داری ہے۔پاکستان مخالف عناصر بحیثیت ملک پاکستان کو اور بحیثیت قوم‬
‫مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں مشغول ہیں۔ان حککالت میککں ہمککاری ذمکہ داریککاں ہمکہ‬
‫جہتی ہیں۔پاکستان کے استحکام اور خوشحالی ک کے لئے ہمککارا کککردار حسککب ذیککل ہونککا‬
‫چاہئ ے ۔‬
‫)‪ (۱‬ہمیں سخت محنت سے کام کرنککا چککاہئے اور قککومی نشککوونما اور فککروغ ککے تمککام‬ ‫‪‬‬
‫شعبوں میں ترقی کرنی چاہئے تاکہ ملک خوشحال اور معاشی طور پر آزاد ہو ۔‬
‫)‪ (۲‬ہمیں لسانیت اور علقائیت سے بلند تر ہوکر سوچنا چاہئ ے ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۳‬ہمیں اپنے قول و فعل سے پاکستان سکے محبکت اور حکب الکوطنی ککا اظ ہار کرنکا‬ ‫‪‬‬
‫چایئ ے ۔‬
‫)‪ (۴‬ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانا چککائےے اور ملککک ککے دور دراز علقککوں‬ ‫‪‬‬
‫تک تعلیم کو پھیلنا چائےے کیونکہ لوگوں میں شککعور بیککدار کرنکے کئے لئے تعلیککم و احککد‬
‫ذریعہ ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬ہمیں خودانحصار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اورغیککروں س کے ب ھاری قرض کے اور‬ ‫‪‬‬
‫امداد لینے سے پرہیز کرنی چایئے۔ یہ صرف سخت محنت اور جانفشانی سے ہی ممکککن‬
‫ہے ۔‬
‫)‪ (۶‬ہمیں ایسانظام حکومت تشلیل دینا چاہئے جو معاشرتی عدل و انصکاف اور اخکوت‬ ‫‪‬‬
‫پر مبنی ہو ۔تمام برائیوں‪ ،‬بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے بچنا چایئ ے ۔‬
‫)‪ (۷‬بطور پاکستانی ہمیں فخر محسوس کرنا چایئ ے ۔‬ ‫‪‬‬

‫‪‬‬

‫سوال‪ 1973 :‬ک ے آئین ک ے ا ہم نکات تحریر کریں؟‬ ‫‪‬‬

‫)‪1973 (۱‬کے آئین کی بنیاد بھی قرارداد ِ مقاصد پر رکھی گئی تھی ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۲‬ملک کا نام اسلمی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اور اسلم کککو ریاسککت کککا سککرکاری‬ ‫‪‬‬
‫مذہب قرار دیا گیا ۔‬
‫)‪ (۳‬مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ‬ ‫‪‬‬

‫” ایسا شخص مسلمان ہے جو الل ہ پر اور حضرت محمد ﷺ پرالل ہ ک ے آخسسری‬ ‫‪‬‬
‫نبی ہون ے کا کامل ایمان رک ھتا ہو ۔“‬
‫)‪ (۴‬سربراہ مملکت یعنی صدر اور سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم مسلمان ہوں گ ے ۔‬ ‫‪‬‬

‫‪ (۵) ‬قرار داد مقاصد کو آئین میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا جس میں یکہ ک ہا گیککا‬
‫ہے کہ تمام کائنات کا مالک‪ ،‬حاکم اعل ٰی اور مقتدر اعل ٰی صرف اللہ تعال ٰی ہہہے اور عککوام‬
‫کے پاس اختیار و اقتداراللہ کی امانت ہے جسکو وہ اللہ کی مقررہ کردہ حککدود ک کے انککدر‬
‫رہتے ہوئے استعمال کرسکتے ہیں ۔‬
‫)‪ (۶‬ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام رائج کیا گیا۔وزیراعظککم کککو ب ہت زیککادہ اختیککار دیئے‬ ‫‪‬‬
‫گئے ہیں ۔صدر مملکت کے اختیارات کککو ب ہت محکدود کردیککا گیککا ۔عملککی طککور پکر صککدر‬
‫مملکت وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر احکامات جاری نہیںکرسکتاتھا ۔‬
‫ن بال‬
‫)‪ (۷‬پاکستان میں پہلی مرتبہ دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمان قائم کی گئی ہے۔ایوا ِ‬ ‫‪‬‬
‫ن زیریں کا نام قومی اسمبلی رکھا گیا ہے ۔‬
‫کا نام سینیٹ اور ایوا ِ‬
‫)‪ (۸‬صوبائی حکومت کو صوبائی خودمختاری دی گئی ہے ۔‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۹‬عوام کے حقوق کے تحفط کے لئے عدلیہ کی آزادی کو ضروری تحفظککات مہیککا کی کے‬ ‫‪‬‬
‫گئے ہیں ۔‬
‫)‪ (10‬آئین کی رو سے ایک اسککلمی نظریککاتی کونسکل قککائم ککی گئی تککاکہ وہ اسککلمی‬ ‫‪‬‬
‫اصولوں ککے مطککابق حکککومت کککی رہنمککائی کککر ے ۔ ‪۳۷۹۱‬ءککے آئیککن ککے تحککت یکہ ایککک‬
‫مشککاورتی ادارہ ہے جککو وفککاقی اور صککوبائی حکومتککوں کککو ایس کے اقککدامات ک کے لئے‬
‫سفارشات پیش کرتا ہے جو مسککلمانوں کککو اسککلمی اصککولوں و ضککوابط ک کے مطککابق‬
‫زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوں۔یہ کونسل موجککودہ قککوانین کککو اسککلمی سککانچے‬
‫میں ڈھالنے کے لئے بھی اپنی رائے دے سکتی ہے ۔‬
‫پاکستان کی سرزمیں اور آب و ہوا‬ ‫‪‬‬
‫آب و ہوا سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں مختلف آب و ہواءی خطے کون سے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫آب و ہوا انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫ماحولیاتی آلودگی سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫ماحولیاتی آلودگی سے آبادی میں اضافے کا کیا تعلق ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫جنوبی ایشیاء کے خطے میں پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت بیان کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے طبعی خدوخال مختصرا ً بیان کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫شمال مشرقی پہاڑی سلسلوں کے فواءد بتاءیں؟‬ ‫‪‬‬
‫خالی جگہ پر کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬آب و ہوا س ے کیا مراد ہے؟‬

‫آب و ہوا کسی علقے یا ملک کی طویل عرصے کی موسمی کیفیات کا مطالعہ آب و ہوا کہلتا‬
‫ہے۔موسمی کیفیات سے مراد ہوا کا دبکاو�¿‪ ،‬درجکہ حکرارت‪ ،‬رطکوبت )نمکی( اور بکارش ککی‬
‫اوسط شامل ہے۔ پاکستان خطہ سرطان کے شمال میں واقع ہے جبکہ یہ ملک مون سون آب و‬
‫ہوا کے خطے کے انتہائی مغرب میں واقع ہے لہٰذا اس ملک کی آب وہوا خشک اور گرم ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے مختلف آب و ہوائی خط ے کون س ے ہیں؟‬


‫سالنہ درجہ حرارت‪،‬سالنہ بارش اورمجموعی فضائی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکسککتان‬
‫کو مندرجہ ذیل چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ‬
‫)‪ (۲‬بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ‬
‫)‪ (۳‬بری آب و ہوا کا میدانی خطہ‬
‫)‪ (۴‬بری آب و ہوا کا ساحلی خطہ‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫)‪ (۱‬بری آب و‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫ہوا کا پہاڑی خطہ‬
‫)‪ (۲‬بری آب و‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫ہوا کا سطح مرتفع‬
‫خطہ‬
‫)‪ (۳‬بری آب و‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫ہوا کا میدانی خطہ‬

‫)‪ (۴‬بری آب و‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬


‫ہوا کاساحلی خطہ‬

‫)‪ (۱‬بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ‬


‫آب و ہوا کے اس خطہ میں پاکستان کے تمام شمال مشرقی اور شمال مغربککی پ ہاڑی علق کے‬
‫شامل ہیں ۔ یہاں کا موسم سرما سرد ترین ہوتا ہے اور عموما ً برف باری ہوتی ہے ۔موسم گرما‬
‫ٹھنڈا ہوتا ہے جبکہ موسم سرما اور بہار میں بارش اور اکثر دھند رہتی ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ‬


‫آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علقہ آتا ہے۔مئی سے وسط سکتمبر تکک گکرم‬
‫اور گرد آلود ہوائیں مسلسل چلتی رہتی ہیں ۔سبی اور جیکب آباد اسی خط کہ میککں واقککع ہیککں ۔‬
‫جنوری اور فروری کے مہینوں میں کچھ بارشیں ہوتی ہیں۔موسم شدید گرم اور خشک رہتا ہے‬
‫جبکہ گرد آلود ہوائیں اس خطے کی اہم خصوصیت ہیں ۔‬

‫)‪ (۳‬بری آب و ہوا کا میدانی خطہ‬


‫آب و ہوا ککے اس خطکہ میکں زیکادہ تکر بلوچسکتان ککا علقکہ آتکا ہے۔ دریکائے سکندھ ککا بکالئی‬
‫علقہ)صوبہ پنجاب( اور زیریں میدان )صوبہ سندھ( شککامل ہیککں۔ اس خطکہ کککی آب و ہوا میککں‬
‫موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت رہتا ہے اور موسم گرما کے آخر میں مون سون ہواو �¿ں‬
‫سے شمالی پنجاب میں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جبکہ بقیہ میدانی علقے میں بارشیں کککم ہوتی‬
‫ہیں موسم سرما میں بھی بارش کی یہی صورتحال رہتی ہے۔ تھر اور جنککوب مشککرقی صککحرا‬
‫خشک ترین علقے ہیں یعنی بارش بہت کم ہوتی ہے۔پشاور کے میدانی علقے میں طوفان بادو‬
‫باراں آتے ہیں ۔ پشاور میں موسم گرما میں گرد کے طوفان اکثر چلتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۴‬بری آب و ہوا کاساحلی خطہ‬


‫آب و ہوا کے اس خطہ میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علقے شامل ہیں۔ سالنہ اور‬
‫روزانہ درجہ حرارت میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔موسم گرما کے دوران نیم بحککری )سککمندر س کے‬
‫آنے والی ہوائیں( چلتی ہیں۔ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے۔سالنہ اوسطا ً درج کہ حککرارت ‪ 32‬درج کے‬
‫سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔بارش ‪ 180‬ملی میٹر سے کم ہوتی ہے ۔مئی اور جون گرم ترین مہینے ہیں ۔‬
‫لسبیلہ کے ساھلی میدان میں بارش موسم گرما اور سرما دونوں موسککموں میککں ہوتی ہیککں ۔‬
‫پاکستان اگر چہ مون سون آب و ہوا کے خطے میں واقع ہے لیکن اس کے انت ہائی مغککرب میککں‬
‫ہونے کی وجہ سے اس خطے کی خصوصیات کا حامل نہیںہے۔لہٰذا پاکستان کی آب و ہہہوا خشککک‬
‫اور گرم ہے۔ درجہ حرارت میں انتہائی اختلف ہے۔ پاکستان کا بہت بککڑا حص کہ سککمندر س کے دور‬
‫واقع ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬آب و ہوا انسانی زندگی پر کیس ے اثرانداز ہوتی ہے؟‬

‫آب و ہوا کا زندگی پر اثر آب و ہوا سے انسانی حیات پر گہرے اثرات پڑتے ہیں کسی جگ کہ کککی‬
‫آب و ہوا اور موسمی کیفیات اس علقے کے مکینوں کی بودوباش‪ ،‬لبککاس‪ ،‬غککذا‪ ،‬مصککروفیات‪،‬‬
‫کھیل‪ ،‬رسوم و رواج اور اقتصادی سرگرمیوںکو زیادہ متاثر کرتی ہے۔پاکستان رقبے ک کے لحککاظ‬
‫سے ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ اس کے مختلف خطوں کی آب و ہوا میں نمایاں فککرق ہے ۔‬
‫اس کی وجہ سے مختلف علقوں کے عوام کے رہن سہن کے طریقکوں اور رسکوم و رواج میکں‬
‫بھی فرق نظرآتا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑی علقوں میں موسککم سککرما شککدید نککوعیت کککا‬
‫ہوتا ہے۔ درجہ�¿ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور اکثر علقے برف سے ڈھک‬
‫جاتے ہیں۔اس شدید سردی کے باعث اس علقے کی انسانی‪ ،‬حیوانی اور نباتاتی زنککدگی بککری‬
‫طرح متاثر ہوتی ہے۔اس علقے کے لوگ سردیاں شککروع ہونے سکے قبککل ہی ضککروری غککذائی‬
‫اجناس اور مویشی جمع کرنا شروع کردیتے ہیکں۔ سکردیوں میکں لکوگ گ ھروں میکں محصکور‬
‫ہوکر رہ جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ گھریلوصنعتوں اور دستکاریوں پر توجہ دیتے ہیککں ۔‬
‫کچھ لوگ موسم سرما میں روزی کمانے کی غرض سے عارضی طور پر میدانی علقوں میککں‬
‫نکل مکانی کرجاتے ہیں اور موسم گرما شروع ہوتے ہی اپنے گھروں کو واپس لککوٹ آت کے ہیککں ۔‬
‫گرمیوں کے شروع ہوتے ہی جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو زندگی کی گہمککا گہمککی شککروع‬
‫ہوجاتی ہے۔اس موسم کے مختصر عرصے میں درخت‪ ،‬پودے‪ ،‬گھاس وغیرہ جلدی پھلتکے پھ ہولتے‬
‫ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ سردیوں میں جککو چشککمے‪ ،‬نککدی نککالے منجمککد ہہہوگئے تھہہے ان میککں‬
‫شفاف پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے ۔ جس سے اس علقے کے حسن میں مزید اضککافہ ہوجاتککا ہے ۔‬
‫لوگ اپنی بیرون خانہ زندگی یعنی زراعت‪ ،‬تجککارت اور محنککت مککزدوری وغیککرہ دوبککارہ شککروع‬
‫کردیتے ہیں۔شمالی علقوں کے عوام کی صحت پر بھی اس سرد آب و ہوا ک کے اثککرات مرتککب‬
‫ہوتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ گورا ہوتا ہہہے۔ وہ سککخت جفککا‬
‫کش اور بہادرہوتے ہیں۔ سخت طرز زندگی نے ان کو باہمت‪ ،‬جرا�¿ت مند اور مضبوط بنادیککا‬
‫ہے۔ پاکستان کے میدانی علقوں کی آب و ہوا میں شدت پائی جاتی ہے یعنی موسم گرما میں‬
‫شدید گرمکی اور موسککم سکرما میکں شکدید سکردی ہوتی ہے۔سککردیوں میککں دل جمعککی اور‬
‫خوشدلی سے کام کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ گرمیوں میں کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔گرمیوں‬
‫مین ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں موٹے کپڑے استعمال میں آتے ہیں ۔ان علقوں‬
‫کی زمین اور آب و ہوا دونوں زراعت کے لئے انتہائی موزوں ہیککں ۔موسککم سککرما و گرمککا میککں‬
‫مختلف فصلیں پیدا ہوتی ہیں چونکہ ان علقوں میں کثیر مقدار میککں غککذائی اجنککاس سککبزیاں‬
‫اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔اس لیے یہاں کے لوگ بہت خوشحال ہیککں ۔ شککمالی علقککوں کککی نسککبت‬
‫میدانی علقے بہت زیادہ گنجان آباد ہیں ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل کے سہولتیں فراوانی‬
‫کے ساتھ دستیاب ہیں۔ یہاںکے عوام بالواسطہ یا بلواسطہ زراعت سے وابستہ ہیککں۔ ی ہاں تعلیککم‬
‫اور زندگی کی دیگر تمام سہولتیں میسر ہیککں۔عککوام ککے پککاس روزگککار ککے بکے شککمار مواقککع‬
‫موجود ہیں۔ پاکستان کے جنوبی حصے اور علقے زیادہ ترریگستان اور صحراہیں۔ ےہاں سکخت‬
‫گرمی ہوتی ہے۔ گرد آلود آندھیاں چلتی ہیں اور ریت کے طوفان بکثرت آتے ہیں۔یہاں ک کے رہن کے‬
‫والے خودکو گرمی اورلو سے بچانے کی خاطر موٹے موٹے کپکڑے پہنتکے ہیککں اور سکر پکر پگککڑی‬
‫باندھتے ہیںاور اپنے جسموں کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ راتوں کو سفر کرتککے‬
‫ہیں کیونکہ کہ راتوں کو صحرا نسککبتا ً ٹھنکڈے ہہہوتے ہیککں۔یہہہاں ککے لککوگ بھیککڑ‪ ،‬بکریککاں اور دیگککر‬
‫مویشی پالتے ہیں ۔جن علقوں میں نہروں کے ذریعے آبپاشی ہوتی ہے وہ زیر کاشت ہے ۔ سککطع‬
‫مرتفع بلوچستان کی آب و ہوا بھی شدید قسم کی ہے ۔ موسم سرما میں اکککثر علقککوں میککں‬
‫شدید سردی پڑتی ہے اور بعض مقامات پر برف بککاری ب ھی ہوتی ہے ۔ سککردیوں میککں عککوام‬
‫اندرون خانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیںاور زیادہ تر وقت فروخککت کرن کے ک کے لئے تحف کے‬
‫تحائف تیار کرنے میں گزارتے ہیں۔ان سرد علقوں کے بعض لوگ گرم علقوں کی طرف نقککل‬
‫مکانی کرجاتے ہیںاور گرمیوں میککں واپککس لککوٹ آتکے ہیککں۔ موسککم گرمککا میککں بلوچسککتان ککے‬
‫میدانی علقے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔لوگ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے ہیں۔ مصنوعی ندی نککالوں ک کے‬
‫ذریعے پانی جمع کیا جاتا ہے جنہیں”کاریز“کہا جاتا ہے۔آجکل ان میکں سکے بیشکتر ککاریز خشککک‬

‫سوال‪ :‬ماحولیاتی آلودگی س ے کیا مراد ہے؟‬

‫ماحولیاتی آلودگی‬
‫آلودگی کے معنی یہ ہیں کہ زمین‪ ،‬پانی اور فضا میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں جو انسان اور‬
‫ج ذیکل ہیککں‪ ،‬ہمکارے‬
‫حیوانی حیات پر مضر اثرات کا باعث ہوں۔جب مختلف عوامل‪ ،‬جککو ککہ در ِ‬
‫ماحول میں تبدیلیاں لتے ہیں تو اسی کو ماحولیاتی آلودگی کہتے ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬فضائی آلودگی‬
‫)‪ (۲‬آبی آلودگی‬
‫)‪ (۳‬زمینی آلودگی‬

‫سوال‪ :‬ماحولیاتی آلودگی س ے آبادی ک ے اضاف ے کا کیا تعلق ہے؟‬

‫ماحولیاتی مسائل‬
‫ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے اس کککی وجو ہات‬
‫میں بڑھتی ہوئی آبادی‪ ،‬تیز رفتار صنعتی ترقکی اور بکڑی اور چ ھوٹی گکاڑیوں سکے نکلنکے وال‬
‫دھواں شامل ہیں۔ ماحولیات کا علم ایک نئے علم کے طور پر ا�‪±‬بھر رہا ہے تککاکہ پککانی‪ ،‬ہوا‪،‬‬
‫فضا اور زمین میں آلودگی سے لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے اور ان میںاس کی بابت شعور پیککدا‬
‫ہوسکے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی روز بروز بڑھ رہہہی‬
‫ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬جنوبی ایشاءک ے خط ے میں پاکستان ک ے محل و وقسسوع کسسی ا ہمیسست بیسسان‬
‫کریں؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫پاکستان کے محل و وقوع کی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫اہمیت‬
‫)‪ (۱‬تجارتی شاہراہ‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪(۲‬بککّری اور بحککری راسککتوں‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫کی سہولت‬
‫)‪ (۳‬وسککککطی ایشیاءسککککے‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫خوشگوارتعلقات‬
‫)‪ (۴‬مسکککلم ممالکککک سکککے‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫خوشگوار تعلقات‬
‫)‪) (۵‬ایکو( کے بنیادی اراکین‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۶‬کراچی بحرہ عرب کی اہم‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫بندرگاہ‬
‫)‪(۷‬مشرق وسط ٰی اور خلیککج‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫ک کے مسککلم ممالککک س کے دوسککتانہ‬
‫تعلقات‬
‫)‪ (۸‬کراچی ایک بین القوامی‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫بندرگاہ اور ہوائی اڈہ‬
‫)‪ (۹‬گنکککدھارا ککککی قکککدیم‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬
‫تہذیبیں اور سیاحت‬
‫)‪ (۰۱‬دوستانہ تعلقات‬ ‫‪11‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۱۱‬مسئلہ کشمیر‬ ‫‪12‬‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۲۱‬ساتویں ایٹمی قوت‬ ‫‪13‬‬ ‫‪‬‬

‫پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت‬


‫پاکستان کا محل و وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان جس خطے میں واقع ہے اس‬
‫کی دفاعی‪ ،‬فوجی‪ ،‬اقتصادی اور سیاسی اہمیت نمایاں ہے۔ مندرجہ ذیل عوامل یا وجوہات کی‬
‫بناءپر اس کی اہمیت عیاں ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬تجارتی شاہراہ‬


‫شمال میں یہ چین سے جککڑا ہوا ہے۔ شککاہراہ قراقککرم بکّری اور زمینککی راسککتے سکے چیککن اور‬
‫پاکستان کو باہم ملتی ہے۔ یہ شاہراہ سلسلہ قراقرم کی چٹانوں کو کاٹ کر بنککائی گئی ہے اور‬
‫یہ چین اور پاکستان کے مابین اہم تجککارتی شککاہراہ ہے۔ پاکسککتان ککے چیککن سکے سککاتھ انہتککائی‬
‫دوستانہ تعلقات ہیں ۔‬

‫)‪(۲‬بّری اور بحری راستوں کی سہولت‬


‫پاکستان افغانستان کو تجارت کے لئے بّری اور بحری راستوںسے راہداری کی سہولت مہیا کرتا‬
‫ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬وسطی ایشیاءسے خوشگوارتعلقات‬


‫چین کے مغرب میں افغانستان کے علقکے کککی ایککک تنککگ پکٹی واخککان‪ ،‬پاکسککتان ککی شککمالی‬
‫سرحد کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ پاکسکتان نکے وسکطی ایشکیاءکے اس ملکک ککے سکاتھ‬
‫انتہائی خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہیں ۔‬

‫)‪ (۴‬مسلم ممالک سے خوشگوار تعلقات‬


‫پاکستان کے مشرق میں بھارت واقع ہے۔ بھارت کے مشرق میں بنگلہ دیش‪ ،‬ملئشیا‪ ،‬انڈونیشیا‬
‫اور برونائی دارالسلم کے مسلم ممالک واقع ہیں۔ پاکستان کے ان تمککام ممالککک س کے انت ہائی‬
‫خوشگوار تعلقات ہیں ۔‬

‫)‪) (۵‬ایکو( کے بنیادی اراکین‬


‫پاکستان کی جنوب مغربی سرحد پر ایران واقع ہے ۔ پاکستان ایران اور ترکی اقتصادی تعاون‬
‫کی تنظیم )ایکو( کے بنیادی اراکین ہیں اس تعاون کے نتیجے میں تمام رکن ممالک ک کے مککابین‬
‫انتہائی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ ان ممالک نے باہمی دلچسپی کے کئی معا ہدوں پککر دسککتخط‬
‫کئے ہیں ۔‬

‫)‪ (۶‬کراچی بحرہ عرب کی اہم بندرگاہ‬


‫پاکستان تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کے نزدیککک اور مغککرب میککں مراکککش سکے لکے کککر‬
‫مشرق میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی مسلم دنیا کے درمیان میککں واقککع ہے۔بکے شککمار مغربککی‬
‫ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار خلیجی ممالک کی تیل پیداوار پر ہے۔یہ تیل دوسرے ممالک‬
‫کو بحیرہ عرب کے ذریعے بھیجا جاتا ہے اور کراچی بحیرہ عرب کی انتہائی اہم بندرگاہ ہے ۔‬

‫)(‪۷‬مشرق وسط ٰی اور خلیج کے مسلم ممالککک س کے دوسککتانہ‬


‫تعلقات‬
‫مشرق وسطیٰ اور خلیج کے مسلم ممالککک سکے پاکسککتان ککے انت ہائی دوسککتانہ تعلقککات ہیککں ۔‬
‫پاکستان نے ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سککعودی عککرب اور عککرب امککارات‬
‫جیسے ممالک پاکستانیوں کے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۸‬کراچی ایک بین القوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ‬


‫کراچی ایک بین القوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ ہے ۔ یہ ہوائی اور بحری راستوں سے یککورپ کککو‬
‫ایشیا سے ملتا ہے۔وہ تمام ممالک جو مشرق وسط ٰی اور وسککط ایشککیائی ممالککک سکے رابط کہ‬
‫کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے محل و وقوع کو نظر انداز نہیں کرسکت ے ۔‬

‫)‪ (۹‬گندھارا کی قدیم تہذیبیں اور سیاحت‬


‫پاکستان میں وادی سندھ اور گندھارا کی قدیم تہذیبیں ہیںاور سیاحت کے نقطہ نظر سے یہ بہت‬
‫اہمیت رکھتی ہے۔ بے شمار سیاح وادی کاغان‪ ،‬سوات اور پاکسککتان ککے شککمالی علقککوں کککی‬
‫سیاحت کو پسند کرتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۰۱‬دوستانہ تعلقات‬


‫پاکستان‪ ،‬افغانستان اور ترکمانستان نے ایک معا ہدے پککر دسککتخط کیکے ہیککں۔ جککس ککے تحککت‬
‫پاکستان کو افغانستان کے راستے گزرنے والی پائپ لئن کے ذریعے گیس مہیا کی جائے گی۔ ی کہ‬
‫منصوبہ ایک دوسرے کے مابین دوسککتانہ تعلقککات کککو پککروان چڑ ھانے میککں مککددگار ثککابت ہوگککا ۔‬
‫پاکستان کی رضامندی سے بھارت بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔‬

‫)‪ (۱۱‬مسئلہ کشمیر‬


‫پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پورے جنوبی ایشیاءکے خطے میککں‬
‫امن قائم ہوجائے گا اور تجارت کو فروغ ملے گا۔دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار‪ ،‬سیاسککی‬
‫اور اقتصادی تعلقات سے اس خطے میں غربت اور افلس کے خاتمے میں مدد ملے گی ۔‬

‫)‪ (۲۱‬ساتویں ایٹمی قوت‬


‫پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اورمسلم دنیا میں اس کو انتہائی تحسین اور احکترام‬
‫کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مسلم ممالک کی نظریککں پاکسککتان پککر لگککی ہوئی ہیککں ککہ وہ کئی‬
‫میدانوں میں مشترکہ ترقی اور فروغ کے لئے قائدانہ کردار ادا کرے گا اور رہنمائی فراہم کککرے‬
‫گا ۔حالی ہ دنوں میں یہ بیرونی سرمایہ گاری کا مرکز بن گیا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے طبعی خدوخال مختصرا ً بیان کریں؟‬

‫پاکستان کے طبعی خدوخال‬


‫صوں میککں‬
‫پاکستان کی ارضی سطح کو طبعی خدوخال کے لحاظ سے مندرجہ ذیل چار بڑے ح ّ‬
‫تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬پہاڑی سلسلے‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع‬
‫)‪ (۳‬میدانی علقے‬
‫)‪ (۴‬ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے‬

‫)‪ (۱‬پہاڑی سلسلے )سلسلہ کوہ(‬


‫صوں میں تقسیم کیککا جاتککا ہے ۔ اول شککمالی اور شککمال‬ ‫پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کو دو ح ّ‬
‫مشرقی پہاڑی سلسککلہ اوردوم مغربککی اور شککمال مغربککی پ ہاڑی سلسککل ہ ۔ )اول( شککمالی اور‬
‫شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اس حصےمیں کو ِہ ہمالیہاور کو ِہ قراقرم شامل ہیں۔ سلسلہکککو ِہ‬
‫ہمالیہ‬
‫)‪ (۱‬شوالک کی پہاڑیاں‪/‬ہمالیہ بیرونی کاسلسلہ‬
‫)‪ (۲‬پیر پنجال‪ /.‬ہمالیہ صغیر کا سلسلہ‬
‫)‪ (۳‬ہمالیہ کبیر کا سلسلہ‬
‫)(‪ ۴‬کو ِہ لداخ‪/‬ہمالیہ کا اندرونی سلسلہ‬

‫)دوم( شمال مغربی اور مغربی پہاڑی سلسلہ‬


‫پاکستان کے شمال میں واقع سلسلہکو ِہ یا پہاڑی سلسلہ کو ہمالیہ کی مغربی شاخیں بھی ک ہا‬
‫صوں‬‫جاتا ہے۔ شمالی پہاڑیوں کے مقابلے میں یہ کم بلند ہیں۔ پہاڑی سلسلوں کو مندرجہ ذیل ح ّ‬
‫میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬سلسلہکو ِہ ہندو کش‬
‫)‪ (۲‬سلسلہکو ِہ سفید‬
‫)‪ (۳‬وزیرستان کی پہاڑیاں‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع‬
‫پاکستان میں مندرجہ ذیل دو سطع مرتفع واقع ہیں‬
‫)‪ (۱‬سطع مرتفع پوٹھوہار‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع بلوچستان‬
‫)‪ (۳‬میدانی علقے‬
‫پاکستان کے میدانی علقے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریاو�¿ں کی لئی ہوئی مٹی سے‬
‫صوں میں تقسیم کئے جاسکتے ہیں ۔‬
‫بنے ہیں ۔ یہ وسیع و عریض میدانی علقے تین ح ّ‬
‫)‪ (۱‬دریائے سندھ کا بالئی میدان‬
‫)‪ (۲‬دریائے سندھ کا زیریں میدان‬
‫)‪ (۳‬دریائے سندھ کا ڈیلٹائی میدان‬
‫)‪ (۴‬ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے‬
‫پاکستان کے جنوب مشرق میں ایک وسیع و عریض علقہ ریت کے ٹیلوں س کے ب ھرا ہوا ہے۔ی کہ‬
‫ٹیلے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں ۔پاکستان کے ریگستانی علقوں میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیککں ۔‬
‫اس لئے ان ریگستانوں میں قدرتی نباتات نہیککں پککائی جککاتی ہیککں۔ پاکسککتان ککے کچکھ میککدانی‬
‫علقے بھی ریگستانی یا نیم ریگستانی علقے کہلئے جاتے ہیں کیوں ک کے ان ک کے طبعککی حککالت‬
‫میدانی علقوں سے مختلف ہیں۔ ان میں سے چند صوبہ پنجاب میں اور کچھ صوبہ سککندھ میککں‬
‫واقع ہیں یہ علقے حسب ذیل ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬تھل کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۲‬چولستان کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۳‬تھر اور نارا کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۴‬چاغی اور خاران کا ریگستانی علقہ‬

‫سوال‪ :‬شمالی مشرقی پ ہاڑی سلسلوں ک ے فوائد بتائی ے؟‬

‫شمالی اور شمالی مشرقی پہاڑی سلسلے کے فوائد‬


‫)‪ (۱‬یہ پہاڑ پاکستان کے لئے بہت مفید ہیں۔ یہ اپنی بلند اور ناہموار سطح کی وجہ سے پاکسککتان‬
‫کو شمال کی جانب سے ایک قدرتی حصار اور دفاع مہیا کرتا ہے ۔‬
‫)‪ (۲‬یہ پاکستان کی قطب شمالی سے اٹھنے والی خککون جمککادینے والککی سککرد ہواو�¿ں س کے‬
‫محفوظ رکھتی ہے ورنہ موسم سرما میں پنجاب و سرحد برف سکے ڈھک جککاتے اور سککردیوں‬
‫کی طویل لہر اور طویل دورانیہ سے زندگی انتہائی دشوار ہوجاتی ۔‬
‫)‪ (۳‬مون سون کے موسم میں ان پہاڑیوں کی وجہ سے پنجاب اور شککمالی علقککوں میککں ب ہت‬
‫زیادہ بارشیں ہوتی ہیں ۔ انہیں بارشوں کا پانی دریاّوںکے راستے آبپاشی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔‬
‫سی فیصد( جنگلت ان ہی پہاڑوںمیں واقع ہیں اگر چہ ہمککارے ملککک‬ ‫)‪ (۴‬ہمارے ملک کے ‪) %80‬ا ّ‬
‫کے ‪4.5‬فیصد جغرافیائی رقبے میں جنگلت پھیلے ہوئے ہیںلیکککن یکہ جنگلت ب ہت گھنکے ہیککں اور‬
‫ملک کے لئے دولت و سرمایہ کا ذریعہ ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬موسم سرما میں یہ پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں جو موسم گرما میں پگھلتی ہے اور زیککر‬
‫زمین پانی کی سطح کو بلند کرتی ہے جو زراعت کے کام آتا ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ڈیورنڈ لئن کہلتی ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬پاکستان کو چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬فضائی کّرہ میں پانی کی تبخیر تقریبا ً چار فیصد ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬پانی انسانی جسم کے وزن کا تقریبا ً دس فیصد ہے ۔‬

‫)‪ (۵‬پاکستان کے شمالی علقوں کے عوام موسم سککرما میککں انککدرون خککانہ سککرگرمیوں میککں‬
‫مشغول رہتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۶‬پاکستان کے جنوب مغرب میں ہمارا ہمسایہ ملک ایران ہے ۔‬

‫)‪ (۷‬بلوچستان کا رقبہ ‪ 347190‬مّربع کلومیٹر ہے ۔‬

‫)‪ (۸‬دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہے ۔‬


‫پاکستان کے وسائل‬
‫وساءل کے معنی اور اہمیت بیان کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫مختلف قسموں کے وساءل کا نام بتاءیں؟‬ ‫‪‬‬
‫جنگلت کے کیا فاءدے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے معدنی وساءل کے نام بتاءیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے زرعی مساءل کیا ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے زرعی وساءل کون سے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫ایٹمی تواناءی پر ایک نوٹ لکھیں؟‬ ‫‪‬‬
‫انسانی وساءل اور دیگر وساءل کس طرح ایک دوسرے پر منحصر ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫زندگی میں اعتدال پسندی پر ایک نوٹ لکھیں؟‬ ‫‪‬‬
‫خالی جگہ پر کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬وسائل ک ے معنی اور ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬

‫وسائل کے معنی‬
‫دنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں۔ اّول انسانی وسائل ہیںجککس کککا مطلککب ی کہ ہے ک کہ‬
‫مختلف کاموں کو سرانجام دینے کے لئے انسانوں میں کس قکدر قککابلیت‪ ،‬صکلحیت اور اہلیکت‬
‫ہے ۔ مختلف پیشوں کی نوعیت کے لحاظ سے لوگوں میں ایک دوسرے سے امتیاز کیا جاتککا ہہہے ۔‬
‫جب تمام پیشوں کو باہم ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تو اسی کککو انسککانی وسککائل ک ہا جاتککا ہے ۔‬
‫وسائل کی دوسری قسم قدرتی وسائل کہلتی ہے جو قدرت نے مہیا کئے ہیککں قککدرتی وسککائل‬
‫پیداوار کا ذریعہ ہیں ۔‬

‫قومی ترقی میں وسائل کی اہمیت‬


‫یہ وسائل مندرجہ ذیل وجوہات کی بناءپر اہم ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬یہ کسی بھی قوم کی حقیقی دولت اور سرمایہ ہیں۔ایسے ممالک نے ب ہت زیککادہ ترقکی اور‬
‫خوشککحالی حاصککل کککی ہے ج ہاں انسککانی اور قککدرتی وسککائل موجککود ہوں۔تککاہم ترقککی اور‬
‫خوشحالی کا انحصار ان وسائل کے دانشمندانہ اور ذہانت کے ساتھ مناسب استعمال پر ہے۔دنیا‬
‫میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں انسانی اور قدرتی وسائل موجود ہیں لیکن منصوبہ بنککدی اور‬
‫محنت و مشقت کے فقدان کی وجہ سے ان وسائل سے فائدہ نہیں ا�‪±‬ٹھایا جارہا ۔‬
‫)‪ (۲‬یہ وسائل کسی بھی ملک کی حفاظت اور سلمتی کا ذریعہ ہیں ۔ انسانی اور مادی وسائل‬
‫ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوت ہیں۔ ان ہی قدرتی وسائل سے مظبوط‬
‫فوجی نظام تشکیل دینے کے لئے درکار تمام مادی ضروریات مہیا ہوتی ہیںاور انسککانی وسککائل‬
‫ان قدرتی وسائل کو استعمال کرنے میں مدد کرتے ہیں ۔‬
‫)‪ (۳‬یہ وسائل کسی ملک کی شہرت اور احترام کا سبب بنت کے ہیککں۔ مثککال ککے طککور پککر تمککام‬
‫مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنی جانب راغب کرتے ہیں تاکہ وہ ان ترقی یافتہ‬
‫ممالک کے کثیر وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں ۔‬
‫)‪ (۴‬یہ وسائل کسی ملک کی مادی ضروریات کو پورا کرنے میککں مککدد کرتکے ہیککں ۔ اسککی میککں‬
‫ضروریات زندگی آسائش اور عیش و آرام سب شامل ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬یہ وسائل تجارت اور کاروبار کو پروان چڑھانے میںمدد کرتے ہیں۔ ان وسائل سے مال مککال‬
‫ممالک نے ساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرلیا ہے۔ ان کی معیشت مضککبوط ہے اور و ہاں ککے‬
‫عوام کی قوت خرید بہت زیادہ ہے اور وہ ایک خوشحال زندگی گزاررہے ہیں ۔‬
‫)‪ (۶‬ان وسائل سے کسی ملک کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی میں مدد ملتی ہے ۔‬
‫)‪ (۷‬ان وسائل سے لوگوں کی پیٹ بھر کے غذا اور زندگی کککی دیگککر آسائشککیں ملککتی ہیککں۔یکہ‬
‫قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان سے قومی اتحاد اور ذاتی کردار مضبوط ہوتا‬
‫ہے۔ ان وسائل سکے ایمانککداری‪ ،‬دیککانت داری‪ ،‬حککق گککوئی اور رواداری و برداشککت کککی اعل ک ٰی‬
‫صفات کو فروغ‬

‫سوال‪ :‬مختلف قسموں ک ے وسائل کا نام بتائی ے؟‬


‫انسانی وسائل‬
‫ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیں مل کککر انسککانی وسککائل کککو‬
‫تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں کی لیاقت‪ ،‬قککابلیت‪،‬‬
‫اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسانی وسائل ہیں اور کسی بھی ملککک ککے لئے ی کہ‬
‫انسانی وسائل ہی انسانی طاقت کہلتے ہیں ۔ اسی انسانی طاقت کی مختلف ملزمتوں میککں‬
‫درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ دس سال سے زائد عمر کا کوئی بھی فککرد جککو‬
‫اپنے لئے کام کرتا ہے یا دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانکہ ملزمککت کرتککا ہے وہ ایککک‬
‫باروزگار شخص تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طاقت مختلف پیشککوں اور روزگککاروں‬
‫سے وابستہ ہے ۔ مثل ً زراعت‪ ،‬کان کنی‪ ،‬عمارت سازی‪ ،‬تجارت‪ ،‬مواصلت‪ ،‬سککرکاری ملزمککتیں‬
‫اور دیگر تمام بامعاوضہ کام ۔‬

‫قدرتی وسائل‬
‫ایسے وسائل جو اللہ تعال ٰی نے دنیا کے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی‪ ،‬جنگلت‪ ،‬معککدنیات اور‬
‫پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسائل کہلتے ہیککں۔ یکہ وسککائل عطیکہ خداونککدی‬
‫ہیں ۔انسان ان کا کھوج لگا سکتا ہے اور ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬مختلف قسموں ک ے وسائل کا نام بتائی ے؟‬

‫انسانی وسائل‬
‫ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیں مل کککر انسککانی وسککائل کککو‬
‫تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں کی لیاقت‪ ،‬قککابلیت‪،‬‬
‫اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسانی وسائل ہیں اور کسی بھی ملککک ککے لئے ی کہ‬
‫انسانی وسائل ہی انسانی طاقت کہلتے ہیں ۔ اسی انسانی طاقت کی مختلف ملزمتوں میککں‬
‫درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ دس سال سے زائد عمر کا کوئی بھی فککرد جککو‬
‫اپنے لئے کام کرتا ہے یا دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانکہ ملزمککت کرتککا ہے وہ ایککک‬
‫باروزگار شخص تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طاقت مختلف پیشککوں اور روزگککاروں‬
‫سے وابستہ ہے ۔ مثل ً زراعت‪ ،‬کان کنی‪ ،‬عمارت سازی‪ ،‬تجارت‪ ،‬مواصلت‪ ،‬سککرکاری ملزمککتیں‬
‫اور دیگر تمام بامعاوضہ کام ۔‬

‫قدرتی وسائل‬
‫ایسے وسائل جو اللہ تعال ٰی نے دنیا کے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی‪ ،‬جنگلت‪ ،‬معککدنیات اور‬
‫پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسائل کہلتے ہیککں۔ یکہ وسککائل عطیکہ خداونککدی‬
‫ہیں ۔انسان ان کا کھوج لگا سکتا ہے اور ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے معدنی وسائل ک ے نام بتائ ےے؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫‪1‬‬ ‫‪‬‬
‫معککدنیا‬
‫ت‬
‫‪(۱) 2‬‬ ‫‪‬‬
‫معدنی‬
‫تیل‬
‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫قدرتی‬
‫گیس‬
‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫کوئلہ‬
‫خام‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫لوہا‬
‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫کرومائ‬
‫یٹ‬
‫تانبا‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫جپسم‬
‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫نمک‬
‫‪10‬‬ ‫‪‬‬
‫چکککونے‬
‫کا پتھر‬

‫‪11‬‬ ‫‪‬‬
‫گ‬
‫سکککن ِ‬
‫مر مر‬

‫معدنیات‬
‫رزمین دفن ہیککں۔ اللکہ تعککال ٰی نکے پاکسککتان کککو بھرپککور معککدنی‬
‫معدنیات قدرتی دولت ہیںجو زی ِ‬
‫وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ معدنی وسککائل تیککز رفتککار اقتصککادی اور صککنعتی ترقککی ککے‬
‫فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔پاکستان کے اہم معدنی وسائل مندرجہ ذیل ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬معدنی تیل‬


‫دورِ جدید میں معدنی تیل ایک اہم قمتی سرمایہ ہے ۔ یہ توانائی پیدا کرنے کا ذریع کہ ہے ۔ معککدنی‬
‫تیل خام حالت میں پایا جاتا ہے۔جس کو تیل صاف کرنے کے کارخانہ )آئل ریفائنری( میں صاف‬
‫کیا جاتا ہے اور اس سے پیٹرول اور دیگر مصنوعات یعنی مٹی کا تیل‪ ،‬ڈیزل‪ ،‬پلسٹک اور مککوم‬
‫بتی وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں ۔ پاکستان میں ملکی ضروریات کا صکرف ‪ 15‬فیصکد تیکل پیکدا‬
‫ہوتا ہے بقیہ ‪ 85‬فیصد حصہ دوسرے ممالک سے درآمد کرکے ملکی ضروریات کو پکورا کیکا جاتکا‬
‫ہے۔ پاکستان میں تیل کے ذخائر سطع مرتفع‪ ،‬پوٹوہار‪ ،‬کھوڑ‪ ،‬ڈھلیاں‪ ،‬کوٹ میال‪،‬ضلع اٹک میککں‬
‫سارنگ‪،‬ضلع چکوال میں بالکسر‪ ،‬ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میککں ڈھوڈک اور‬
‫سندھ میں بدین‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬دادو اور سانگھڑ کے علقوں میں پائے جاتے ہیں ۔ تیککل او گیککس کککی‬
‫تلش کے لئے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشن ) ‪ (OGDC‬بنائی گئی ہے۔ یہ ادارہ‬
‫تیل کے مزید ذخائر تلش کرنے میں کوشاں ہے ۔‬

‫قدرتی گیس‬
‫صنعتوں کو رواں رکھنے ککے لئے قککدرتی گیککس مطلککوب ہوتی ہے ۔ اس کککو گککاڑیوں میککں اور‬
‫گھریلو کاموں )امورِ خانہ داری( کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اسککتعمال ب ہت عککام‬
‫ہوگیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے۔ملک کی توانائی کا تقریبککا ً‪ 35‬فیصککد‬
‫قدرتی گیس سے پورا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ پاکستان میککں قککدرتی‬
‫گیس سب سے پہلے ‪ 1952‬میں بلوچستان میککں ڈیککرہ بگککٹی ک کے قریککب سککوئی ک کے مقککام پککر‬
‫دریافت ہوئی تھی۔اس کے بعد یہ گیککس سککندھ اور پوٹو ہار سککمیت ‪ 13‬مقامککات سکے دریککافت‬
‫ہوئی۔گیس کے ذخائر کے سب سے اہم مقامات بلوچستان میں سوئی‪ُ ،‬اچ اور َزن‪ ،‬سندھ میککں‬
‫خیرپور‪ ،‬مزرانی‪ ،‬سیری‪ ،‬ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک‪ ،‬پیرکوہ‪ ،‬ڈھلیان اور میال‬
‫شامل ہیں۔اس وقت قدرتی گیس پائپ لئنوں کے ذریعے ملک کے مختلف علقوں تک پہنچککائی‬
‫گئی ہے ۔ی ہ گیس سیمنٹ‪ ،‬مصنوعی کھاد اور عمومی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے ۔ اس کککو‬
‫حرارت کے ذریعے بجلی یا تھرمل بجلی پیدا کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔‬

‫کوئلہ‬
‫پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے۔لیکن یہ کوئلہ بہت اچھی قسککم کککا نہیککں‬
‫ہے اور نہ ہی اس سے ملک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔پاکستان میں ملک کککی ضککرورت کککا‬
‫صرف ‪ 11‬فیصد کککوئلہ نکلتککا ہے ۔ پنجککاب میککں ڈنکڈوت‪ ،‬مکککڑوال اور پکڈھ سکے کککوئلہ ملتککا ہے ۔‬
‫بلوچستان میں شارگ‪ ،‬خوست‪ ،‬ہرنائی‪ ،‬سار‪ ،‬ڈیگاری‪ ،‬شیری اور مچھ میں کوئلہ دسککتیاب ہے ۔‬
‫سندھ میں کوئلہ کی کانیں ضلع ٹھٹھہ میں جھمپر اور ضلع جامشورو میں لکھڑا میں ہیں ۔حککال‬
‫ہی میں ضلع تھرپارکر )سندھ ( بہت کثیر مقدار میں کوئلہ دستیاب ہوا ہہہے۔ صککوبہ سککرحد میککں‬
‫گلخیل سے بھی کوئلہ نکلتا ہے ۔‬

‫خام لوہا‬
‫یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا‪ ،‬فولد‪ ،‬مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے ک کے کککام آتککی‬
‫ہے ۔کال باغ کے علقے میں خام لوہے یا لوہے کی معدن کے سب سے بڑے ذخائر پائے جککاتے ہیککں ۔‬
‫دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے ‪ 32‬کلومیٹر جنوب میں لنگڑبککال اور چککترال میککں‬
‫دستیات ہوئے ہیں۔بلوچستان میں خام لوہے) لوہے کی معدن(خضدار‪ ،‬چل غازی اور مسلم بککاغ‬
‫میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پایا جانے وال لوہا بہت معیاری اور عمدہ نہیں ہے اور یہ ملککک کککی‬
‫صرف ‪ 16‬فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملککز میککں درآمککد شککدہ خککام لو ہا‬
‫استعمال ہوتا ہے ۔‬

‫کرومائیٹ‬
‫یہ ایک سفید رنگ کی دھات ہے جو فولد سازی‪ ،‬طیارہ سازی‪ ،‬رنگ سازی اور تصویر کشی کے‬
‫لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔دنیا میں کرمائیٹ کے سے سب سے بڑے ذخککائر پاکسککتان میککں‬
‫ہیں۔اس کا زیادہ حصہ برآمد کرکے ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔اس کے ذخائر بلوچستان میککں مسککلم‬
‫باغ‪ ،‬چاغی اور خاران اور صوبہ سرحد اور آزاد قبائلی علقوں میں مالکنڈ‪ ،‬مہمند ایجنسی اور‬
‫شمالی وزیرستان میں پائے جاتے ہیں ۔‬

‫تانبا‬
‫تانبا برقی آلت سازی میں استعمال ہوتا ہے ۔برقی تار بھی تانبے سے بنایککا جاتککا ہے ۔بلوچسککتان‬
‫میں ضلع چاغی میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں ۔‬

‫جپسم‬
‫جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیل پتھر ہے۔یہ سیمنٹ‪ ،‬کیمائی کھاد‪ ،‬پلسکٹر آف پیککرس اور رنککگ‬
‫کا پاو�¿ڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے ۔جپسم جن علقوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ان میککں پنجککاب‬
‫کے ضککلع جہلککم‪ ،‬میککانوالی اور ڈیککرہ غککازی خککان‪ ،‬سککرحد میککں کو ہاٹ‪،‬سککندھ میککں رو ہڑی اور‬
‫سی اور لورالئی شامل ہیں ۔‬ ‫بلوچستان میں کوئٹہ‪ ،‬س ّ‬
‫نمک‬
‫دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسیع ذخائر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔کوہسککتان‬
‫نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے ۔ی ہ نمک بہت عمدہ اور معیککاری ہے ۔نمککک کککی‬
‫سب سے بڑی کککان کھیککوڑو )ضککلع جہلککم(میککں ہے۔ واڈچ ھا )ضککلع خوشککاب(‪ ،‬کککال بککاغ )ضککلع‬
‫میانوالی( اور بیادرخیل )ضلع کرک( سے بھی نمک حاصل ہوتا ہے۔ کراچی کے قریب ماری پککور‬
‫اور ساحل مکران کے علقے میں سمندر کے پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے ۔‬

‫چونے کا پتھر‬
‫چونے کا پتھر زیادہ تر سیمنٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اس کو جلیککا جاتککا ہے تککو‬
‫اس سے چونا حاصل ہوتا ہے ۔جو گھروں میں سفیدی کرنے ککے لئے اسککتعمال ہوتککا ہے ۔اس کککو‬
‫شیشہ ‪ ،‬صابن‪،‬کاغذ‪ ،‬رنگ کی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔چونے کے پتھر س کے وسککیع‬
‫ذخائر ڈنڈوت )ضلع جہلم(‪ ،‬حیدرآبادکے قریب مغل کوٹ اور گنجو ٹکر‪ ،‬منگھوپیر اور رانککی پککور‬
‫)سندھ( میں پائے جاتے ہیں ۔‬

‫گ مر مر‬
‫سن ِ‬
‫گ مر مر بکثریت پایا جاتا ہے۔ی کہ چککاغی‪،‬‬‫پاکستان میں مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سن ِ‬
‫مردان‪ ،‬سوات کے اضلع اور خیبر ایجنسی میں پایا جاتا ہے۔اپنی نزاکت و نفاسککت ورنککگ کککی‬
‫گ مر مر دنیا میں سب سے زیادہ عمدہ اورمعیاری سمجھا جاتککاہے۔سکیاہ‬ ‫بنیاد پر پاکستان کا سن ِ‬
‫گ مر مر سککے سککاختہ‬ ‫گ مر مر ضلع اٹک میں کالچٹا کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سن ِ‬ ‫و سفید سن ِ‬
‫گ مر مر کی صنعت ملک کے لئے کککثیر زرمبککادلہ کمککارہی‬ ‫اشیاءکی برآمد سے پاکستان کی سن ِ‬
‫ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے زرعی مسائل کیا ہے؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫پاکسککتان کککے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫زرعی مسائل‬
‫)‪ (۱‬پسککککت‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫شرح خواندگی‬
‫)‪(۲‬‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫کاشکککتکاروں ککککی‬
‫بڑھتی ہوئی تعداد‬
‫)‪ (۳‬غیکککککر‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫مشینی کاشتکاری‬
‫زرعی اراضککی‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫کی حدود‬
‫محکمہ زراعت‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫کا کردار‬
‫زمیککککن کککککا‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫کٹاو�‬
‫ناککککافی ذرائع‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫نقل و حمل‬
‫غیککر مناسککب‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫حالت‬

‫فصلوں کککی‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬


‫فروخت پر اثر‬

‫پاکستان کے زرعی مسائل‬


‫زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیککادہ افککراد زراعککت ککے شککعبے‬
‫سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غذائی اجناس کی فصلیں کاشت کی‬
‫جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کی شرح بہت پست ہے ۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬پست شرح خواندگی‬


‫ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ‬
‫ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔ُانھیں جراثیم کش ادویات کے استعمال‪ ،‬معیاری‬
‫بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس‬
‫کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کککی ضککروریات ککے لحککاظ سکے ب ہت کککم ہے۔ وہ‬
‫کاشتکاری کے صرف ُان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں ن کے اپن کے بزرگککوں س کے‬
‫سیکھے ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد‬


‫زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشت رقبے کککو بڑ ھانے کککا‬
‫عمل بہت سست ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل کہ فی کس زیرِ کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬غیر مشینی کاشتکاری‬


‫ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل‪ ،‬گوبر کی کھاد‪ ،‬غیر تصککدیق شککدہ مقککامی بیککج‬
‫اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضککافہ‬
‫نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمککارے ی ہاں‬
‫مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ‪ ،‬ٹیوب ویل‪ ،‬کھاد‪ ،‬تصککدیق شککدہ معیککاری بیککج‬
‫اور بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب‪ ،‬مشینی کاشتکاری ککے ا ہم اور لزمککی اجزاءہیککں۔ ہمککارا‬
‫کسان اور کاشتکار مشینی کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کا شکار ہے ۔ ُاس‬
‫کی وجہ شاید پرانے خیالت یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یکہ ککہ اس ککے پککاس ب ہت کککم خطکہ‬
‫اراضی ہے ۔‬

‫زرعی اراضی کی حدود‬


‫پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میں تقسککیم کیککا جاتککا ہے ۔ جککاگیردار اور زمیککن دار‬
‫گروہ کے پاس زمین کے بڑے بڑے قطعات ہیں ۔لیکن وہ ان میں خود کاشتکاری نہیں کرت کے ہیککں ۔‬
‫اس لئے بہت بڑے بڑے خطہ اراضی کاشت ہونے سے رہ جککاتے ہیککں اور غیککر آبککاد اور بنجککر ہیککں ۔‬
‫دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پانی سے کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمیککن ‪12‬تککا ‪15‬‬
‫ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ ان چھوٹے خطہ�¿ اراضی پر مشینی کاشککتکاری اختیککار‬
‫نہیں کرسکتے اور مشینی کاشتکاری کے بغیر پیکداوار ککم ہی ر ہے گکی۔ اسکی لئے وہ دوسکرے‬
‫کاموں کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صککورت میککں نکلتککا‬
‫ہے ۔‬

‫محکمہ زراعت کا کردار‬


‫محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیکونکہ ہمکارے کسکان اور کاشکتکار ککو محکمکہ‬
‫زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو اپنے قدیم طریقوں اور‬
‫اپنے آباو�¿اجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔ دوسری جانب محکمہ زراعت‬
‫کے اہل کار بھی اپنی مو�¿ثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔فرائض سے غفلککت برتنککا‪،‬‬
‫مناسب موقع پر مشورہ کا نکہ ملنکا اور کاشککتکاروں اور کسکانوں ککو زرعککی آگ ہی دینکے میکں‬
‫سستی اور عدم دلچسپی کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کککی چنککد وجو ہات ہیککں ۔‬
‫اسی طرح زرعی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے ۔‬

‫زمین کا کٹاو�‬
‫بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آندھی‪ ،‬طوفان‪ ،‬بککرف بککاری اور زلزل کے زمیککن ک کے‬
‫کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹککادیتے ہیککں اور نکتیجہ کککم‬
‫پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ‬
‫زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کککی وجکہ سکے بککڑے پیمککانے پککر‬
‫پیداوار محدودہوگئی ہے ۔‬
‫ناکافی ذرائع نقل و حمل‬
‫ہمارے دیہات اور گاو�¿ں زرعی پیداوار کے خاص علقکے ہیکں۔لیککن ان ککے لئے پختکہ سکڑکیں‬
‫موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہے۔ جس کی وجہ س کے نقککل و‬
‫حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار بحفاظت منڈی تک نہیککں پہنککچ‬
‫پاتی ہے ۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں ۔‬

‫غیر مناسب حالت‬


‫دی ہات میکں ر ہائش ککے نکاقص انتظکام‪ ،‬طکبیعی سکہولیات ککے فقکدان اور دوسککری ضککروری‬
‫سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان کے افککراد ِ خککانہ کککی صککحت متککاثر‬
‫ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طکاقت گھ ہٹ جکاتی ہہہے اور اس ککا ُبکرا اثکر فصکلوں ککی‬
‫پیداوار پر پڑتا ہے ۔‬

‫فصلوں کی فروخت پر اثر‬


‫آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیککداوار کککا مناسککب‬
‫صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کے لئے مشکککلت پیککدا‬
‫کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کاشتکار دل برداشککتہ ہوجککاتے ہیںککاور اس لئے ب ھی وہ پیککداوار‬
‫بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے زرعی مسائل کیا ہے؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫پاکسککتان کککے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫زرعی مسائل‬
‫)‪ (۱‬پسککککت‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫شرح خواندگی‬
‫)‪(۲‬‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫کاشکککتکاروں ککککی‬
‫بڑھتی ہوئی تعداد‬
‫)‪ (۳‬غیکککککر‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫مشینی کاشتکاری‬
‫زرعی اراضککی‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫کی حدود‬
‫محکمہ زراعت‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫کا کردار‬
‫زمیککککن کککککا‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫کٹاو�‬
‫ناککککافی ذرائع‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫نقل و حمل‬
‫غیککر مناسککب‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬
‫حالت‬

‫فصلوں کککی‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬


‫فروخت پر اثر‬

‫پاکستان کے زرعی مسائل‬


‫زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیککادہ افککراد زراعککت ککے شککعبے‬
‫سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غذائی اجناس کی فصلیں کاشت کی‬
‫جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کی شرح بہت پست ہے ۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬پست شرح خواندگی‬


‫ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ‬
‫ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔ُانھیں جراثیم کش ادویات کے استعمال‪ ،‬معیاری‬
‫بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس‬
‫کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکڑ پیداوار ملک کککی ضککروریات ککے لحککاظ سکے ب ہت کککم ہے۔ وہ‬
‫کاشتکاری کے صرف ُان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں ن کے اپن کے بزرگککوں س کے‬
‫سیکھے ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد‬


‫زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشت رقبے کککو بڑ ھانے کککا‬
‫عمل بہت سست ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل کہ فی کس زیرِ کاشت رقبہ کم ہوگیا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬غیر مشینی کاشتکاری‬


‫ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل‪ ،‬گوبر کی کھاد‪ ،‬غیر تصککدیق شککدہ مقککامی بیککج‬
‫اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضککافہ‬
‫نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمارے کسان انتہائی محنتی اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمککارے ی ہاں‬
‫مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ‪ ،‬ٹیوب ویل‪ ،‬کھاد‪ ،‬تصککدیق شککدہ معیککاری بیککج‬
‫اور بیجوں کی ایک منظم اور ترتیب‪ ،‬مشینی کاشتکاری ککے ا ہم اور لزمککی اجزاءہیککں۔ ہمککارا‬
‫کسان اور کاشتکار مشینی کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کا شکار ہے ۔ ُاس‬
‫کی وجہ شاید پرانے خیالت یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یکہ ککہ اس ککے پککاس ب ہت کککم خطکہ‬
‫اراضی ہے ۔‬

‫زرعی اراضی کی حدود‬


‫پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میں تقسککیم کیککا جاتککا ہے ۔ جککاگیردار اور زمیککن دار‬
‫گروہ کے پاس زمین کے بڑے بڑے قطعات ہیں ۔لیکن وہ ان میں خود کاشتکاری نہیں کرت کے ہیککں ۔‬
‫اس لئے بہت بڑے بڑے خطہ اراضی کاشت ہونے سے رہ جککاتے ہیککں اور غیککر آبککاد اور بنجککر ہیککں ۔‬
‫دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پانی سے کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمیککن ‪12‬تککا ‪15‬‬
‫ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ ان چھوٹے خطہ�¿ اراضی پر مشینی کاشککتکاری اختیککار‬
‫نہیں کرسکتے اور مشینی کاشتکاری کے بغیر پیکداوار ککم ہی ر ہے گکی۔ اسکی لئے وہ دوسکرے‬
‫کاموں کی جانب اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صککورت میککں نکلتککا‬
‫ہے ۔‬

‫محکمہ زراعت کا کردار‬


‫محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیکونکہ ہمکارے کسکان اور کاشکتکار ککو محکمکہ‬
‫زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کو اپنے قدیم طریقوں اور‬
‫اپنے آباو�¿اجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔ دوسری جانب محکمہ زراعت‬
‫کے اہل کار بھی اپنی مو�¿ثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔فرائض سے غفلککت برتنککا‪،‬‬
‫مناسب موقع پر مشورہ کا نکہ ملنکا اور کاشککتکاروں اور کسکانوں ککو زرعککی آگ ہی دینکے میکں‬
‫سستی اور عدم دلچسپی کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کککی چنککد وجو ہات ہیککں ۔‬
‫اسی طرح زرعی پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے ۔‬

‫زمین کا کٹاو�‬
‫بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آندھی‪ ،‬طوفان‪ ،‬بککرف بککاری اور زلزل کے زمیککن ک کے‬
‫کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹککادیتے ہیککں اور نکتیجہ کککم‬
‫پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ‬
‫زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کککی وجکہ سکے بککڑے پیمککانے پککر‬
‫پیداوار محدودہوگئی ہے ۔‬

‫ناکافی ذرائع نقل و حمل‬


‫ہمارے دیہات اور گاو�¿ں زرعی پیداوار کے خاص علقکے ہیکں۔لیککن ان ککے لئے پختکہ سکڑکیں‬
‫موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہے۔ جس کی وجہ س کے نقککل و‬
‫حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار بحفاظت منڈی تک نہیککں پہنککچ‬
‫پاتی ہے ۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں ۔‬

‫غیر مناسب حالت‬


‫دی ہات میکں ر ہائش ککے نکاقص انتظکام‪ ،‬طکبیعی سکہولیات ککے فقکدان اور دوسککری ضککروری‬
‫سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان کے افککراد ِ خککانہ کککی صککحت متککاثر‬
‫ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طکاقت گھ ہٹ جکاتی ہہہے اور اس ککا ُبکرا اثکر فصکلوں ککی‬
‫پیداوار پر پڑتا ہے ۔‬

‫فصلوں کی فروخت پر اثر‬


‫آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیککداوار کککا مناسککب‬
‫صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کے لئے مشکککلت پیککدا‬
‫کرتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کاشتکار دل برداشککتہ ہوجککاتے ہیںککاور اس لئے ب ھی وہ پیککداوار‬
‫بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬ایٹمی )نیو کلیائی( توانائی پر ایک نوٹ لک ھئ ے؟‬


‫جوہر توانائی )ایٹمی یانیو کلیائی توانائی(‬
‫توانائی کا ایک اور ذریعہ جوہری )ایٹمی( طاقت یا مرکزائی )نیککو کلیککائی( توانککائی ہے۔ ب ھورے‬
‫رنگ کا ایک تابکار عنصر یورینیم جوہری یا ایٹمی توانائی پیدا کرنے کے لئے اسککتعمال ہوتککا ہے ۔‬
‫پاکستان میں دو جوہری )ایٹمی( بجلی کام کررہے ہیں۔ ایک کراچکی میکں ہے جکس نکے ‪1971‬‬
‫میںبجلی پیدا کرنا شروع کی تھی اور دوسرا چشمہ )میانوالی( میں ہے۔ چشمہ پلنٹ نے ‪2002‬‬
‫میں بجلی پیدا کرنا شروع کککی ہے۔اس کککی پیککداواری صکلحیت ‪ 300‬میگککا واٹ ہے۔ جککوہری‬
‫طاقت کا تیسرا منصوبہ بھی چشمہ کے مقام پر چین ککے تعککاون سکے زیکرِ تعمیککر ہے۔ جککوہری‬
‫بجلی گھروں کو اس لئے فوقیت دی جاتی ہے کیوںکہ ان سے صککارفین کککو سسککتی بجلککی مہیککا‬
‫ہوتی ہے۔ جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پککر‬
‫اس کو زرعی تحقیق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے تین مراکککز فیصککل آبککاد‬
‫)پنجاب(‪ ،‬پشاور )صوبہ سرحد( اور ٹنڈوجام )سندھ( میں زرعی اور غذائی تحقیق کے لئے قککائم‬
‫کئے گئے ہیں۔ ان کے علوہ صوبہ سرحد میں قومی ادارہ برائے غذا اورزراعت ) ‪ (NIFA‬بھی کام‬
‫کررہا ہے ۔ سرطان )کینسر( کے علج کے لئے بھی جوہری توانائی کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس‬
‫مقصد کے لئے کراچی‪ ،‬جام شورو‪ ،‬لڑکانہ‪ ،‬لہور‪ ،‬ملتکان‪ ،‬ب ہاولپور‪ ،‬اسکلم آبکاد‪ ،‬پشکاور‪ ،‬ککوئٹہ‪،‬‬
‫فیصل آباد اور ایبٹ آباد میں واقع جوہری توانائی کے ادارے کام کررہے ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬انسانی وسائل اور دیگر وسائل کس طرح ایک دوسر ے پر منحصر ہیں؟‬

‫انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا باہمی انحصار انسانی وسککائل اور دیگککر وسککائل کککی اپنککی‬
‫اپنی جگہ آزادانہ اور علیحدہ قدروافادیت ہے۔ لیکن یہ سب وسائل باہم ایک دوسکرے پکر انحصکار‬
‫کرتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے انسانوں کی بے شککمار‬
‫ضروریات ہیں ۔ ان میں زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی روٹی‪ ،‬کپککڑا اور مکککان )غککذا‪ ،‬چککادر‬
‫اور چار دیواری( شامل ہیں۔اسی طرح چند سہولتیں اور آسائشککیںبھی انسککانی ضککروریات کککا‬
‫ت زنککدگی ککے بعککد ہوتککا ہے۔یکہ ضککروریات صککرف‬ ‫حصہ ہیں۔ مگر ان کا شمار بنیککادی ضککروریا ِ‬
‫دوسرے وسائل کی مدد سے ہی پوری ہوسکتی ہیں ۔ ان وسائل میں زرعی اورمعککدنی وسککائل‬
‫شامل ہیں۔ ان وسائل کو تلش کرنے اور ان سے فیضیاب ہونے ک کے لئے انسککانی کوشککش اور‬
‫جدوجہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر انسانی علم‪ ،‬مہارت و ہنر منککدی اورمحنککت و جفاکشککی کککو‬
‫خارج کردیا جائے تو ان وسائل کے ثمرات کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔چونکہ انسان نے تیل‪،‬‬
‫گیس اور سونے کے وسائل کو تلش کیا اور ُانھیں نفع بخش طور پر استعمال کیااسککی لئے ی کہ‬
‫دولت اور سرمایہ بن گئے اور ان کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ان وسائل کے بغیککر‬
‫انسانی زندگی بے رنگ اور بے مزہ ہوتی یککا شککاید انسککانی بقککاءہی نککاممکن ہوجککاتی۔ اس لئے‬
‫انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬زندگی میں اعتدال پسندی پر ایک نوٹ لک ھیئ ے؟‬

‫زندگی میں اعتدال پسندی زندگی میں اعتدال پسندی کامطلب یہ ہے کہ اپن کے موجککودہ وسککائل‬
‫کے اندر رہا جائے )چادر کے مطابق پاو�¿ں پھیلئے جائیں( ایک قول ہے کہ چیز کی کثرت ب ُککری‬
‫ہوتی ہے ۔ اعتدال پسندی مناسب سوچ‪ ،‬رویے اور عمل کے ایک طریقے کا نام ہہہے ۔ ُاس شککخص‬
‫کواعتدال پسند کہا جاسکتا ہے جو ذاتی احتساب کرتا ہو اور پھر اپنے مستقل کککی زنککدگی ک کے‬
‫لئے ایک لئحہ عمل طے کرتاہو۔ جولوگ اپنی زنکدگی اعتکدال ککے مطکابق نہیکں گزارتکے ہیکں وہ‬
‫شدید تکلیف اور مشکلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اعتدال پسندی زندگی کے تمام معاملت یعنی‬
‫سلجھے ہوئے رویہ کا تقاضہ کرتی ہے ۔‬ ‫اقتصادی سماجی اور سیاسی معاملت میں معقول اور ُ‬
‫اعتدال پسندی سے معاشرے میں امن و خوشحالی آتی ہے۔ بے جککا خککواہش پرسککتی ہی تمککام‬
‫ُبرائیوں کی جڑ ہےلیکن اعتدال کی را ِہ عمل اختیار کرنکے سکے انسککان پ ُککر سکککون اور آرام دہ‬
‫زندگی گزارتا ہے۔ بحیثیت قوم پاکستانی بہت جذباتی ہیں۔ کسی ب ھی معککاملے میککں یککا تککو ہم‬
‫پوری طرح شریک ہوجاتے ہیں یا ہم بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ جس کا نککتیجہ ہمککارے اپن کے فککرائض‬
‫سے غفلت اور بے اعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔اسی رویہ نے معاشرے کککو پسککماندہ رک ھا‬
‫ہوا ہے ۔ ہمارے انتہائی شدید جذبات اور احساسات نے ہمیں جذباتی قوم کاخطککاب دلوادیککا ہہہے ۔‬
‫کبھی کبھار جذبات عارضی اور وقتی کامیابی کا باعث تو بککن سکککتے ہیککں لیککن طویکل مکدت‬
‫میں ان کا نتیجہ مختلف بھی نکل سکتا ہے۔ یہ سب لوگوں کے علم میں ہے کہ اپنکے وسککائل ککے‬
‫اندر رہنا خوشحالی کی ضمانت ہے۔ جو لوگ اپنی خواہشات پر قککابو رکھتکے ہیککں اور خککود کککو‬
‫روک کر رکھتے ہیں وہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پھر خیکال رکھیکں ککہ ضکرورت سکے زیککادہ‬
‫مداخلت کرنے والککی قککوم اپنکے شککدت پسککند اصککولوں اور سککرگرمیوں کککی وجکہ سکے ہمیشکہ‬
‫دشورایوں اور مشکلت کا شکار رہتی ہے۔ اسککی لئے اسککلم نکے تمککام شککعبہ ہائے حیککات میککں‬
‫اعتدال کا درس دیا ہے اورخود پر یعنی اپنے نفس پر قابو پانے کے ضرورت پر زور دیا ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬وہ لوگ جو مختلف کاموں میں ہوتے ہیں انسانی وسائل کہلتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬پہاڑی جنگلت شمالی پہاڑی علقوں میں پائے جاتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۳‬پاکستان میں قدرتی گیس جس مقام پر پہلی مرتبہ پائی گئی وہ علقہ سوئی کہلتا ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬زندگی میں اعتدال پسندی کے معنی وسائل کے اندر رہنا ہے ۔‬


‫پاکستان میں صنعتی ترقی‬

‫صنعت سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪‬‬


‫قومی ترقی میں صنعت کی کیا اہمیت ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں کپاس اور شکر سازی کی صنیعت پر نوٹ لکھیے؟‬ ‫‪‬‬
‫قومی ترقی میں ذراءع آمد و رفت کس طرح مدد کرتے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫کراچی سے پشاور تک قومی شاہراہ پر کون سے شہر واقع ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫ای تجارے کے کیا معنی ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں صنعتی ترقی کے فروغ کے لیے کیا اقدامات اٹھاءے جاءیں؟‬ ‫‪‬‬
‫خالی جگہ پر کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬صنعت س ے کیا مراد ہے؟‬

‫صنعت‬
‫فیکٹریوں میں مشین کے ذریعے تیار ہونے والی اشیاءکے کام اور طریقہ عمل کککو صککنعت کہتکے‬
‫ہیں۔وسیع تر مفہوم میں صنعت کے معنی یہ ہیں کہ خام مال سے ایسککی اشککیاءتیار کککی جککائیں‬
‫مدن کے ابتدائی دور میں صنعت جدیککد دور‬ ‫جن کی انسانوں کے لئے کچھ افادیت ہو۔ تہذیب و ت ّ‬
‫کی صنعت کے مقابلے میں انتہائی سادہ اور نسبتا ً پست سطح کی تھی ۔ اس طرح صککنعت کککا‬
‫آغاز پست سطح سے ہی ہوا تھا۔لیکن یہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی اور اب صنعت پیککداوار‬
‫کا ایک بہت بڑا شعبہ اور حصہ ہے ۔ کئی مختلف صنعتیں ضم ہوکر ایک اکائی بککن گئی ہیککں ۔اس‬
‫میں بڑے پیمانے پر مال کی تیاری سے پیداواری لگت کم ہوگئی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬قومی ترقی کی تعریف کیجئ ے؟‬

‫قومی ترقی کی تعریف‬


‫اقتصادی اور سماجی شعبوں میں ترقی کا عمل قومی ترقی کہلتا ہے۔ وسککائل دریککافت کئے‬
‫جاتے ہیںاور پھر ُان کو عوام الناس کے زیادہ سے زیادہ فائدے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔عککوام‬
‫کا جو معیارِ زندگی ہوتا ہے۔ وہ معاشی اور سماجی تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔دوسککرے الفککاظ‬
‫میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قومی ترقی انسانی اور قدرتی وسائل کککی قککوت اور اسککتحکام کککی‬
‫عکاس ہوتی ہے ۔جن کی بدولت زندگی انتہائی سہل اور ُپر آسائش ہوجاتی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں کپاس اور شکر سازی کی صنعت پر نوٹ لک ھیئ ے؟‬

‫کپڑے کی صنعت‬
‫یہ صنعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔پاکستان میں کثیر تعداد میں کپککڑے ککے بککڑے‬
‫اور چھوٹے کارخانے ہیں ۔ان کارخانوں میں بہت نفیس اقسککام ککے کپککڑے تیککار کیکے جککاتے ہیککں ۔‬
‫پاکستان سوتی کپڑے کی صنعت میں خودکفیل ہوگیا ہے۔ہر سال سوتی کپڑوں اور دھاگے کککی‬
‫برآمد سے کروڑوں روپے زِرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔سوتی کپڑے کی صنعت کے ا ہم مراکککز پنجککاب‬
‫میں فیصل آباد‪ ،‬لہوراور ملتان ہیں۔سندھ میں کراچی اور حیدر آباد ہیں۔صککوبہ سککرحد میککں یکہ‬
‫مراککز پشکاور‪ ،‬ڈیکرہ اسککماعیل خکان‪ ،‬نوشکہرہ‪ ،‬بنکوں‪ ،‬ہری پکور‪ ،‬اور سکوات میکں واقکع ہیککں ۔‬
‫بلوچستان میں کپککڑے کککی صککنعت ککے دو مراکککز ُات ھل اور کککوئٹہ ہیککں۔ پاکسککتان ککے صککنعتی‬
‫مزدوروں کی تقریبا ً پچاس فیصد تعداد سوتی کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں ۔ پاکستان کککی‬
‫آزادی کے وقت ملک میں سوتی کپڑے کے صرف تیکن کارخکانے ت ھے۔ُاس ککے مقککابلے میککں اب‬
‫کپڑے کے تقریبا ً ‪ 500‬کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں اونی کپڑے کی صنعت بھی پائی جاتی‬
‫ہے۔لیکن یہ سوتی کپڑے کی صنعت کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکسککتان میککں‬
‫پائی جانے والی اون بہت اعل ٰی معیار کا نہیں ہے۔ اسی لئے ہماری اون کا زیکادہ تکر حصکہ قکالین‬
‫سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں اونی کپڑے کے لئے بڑے کارخککانے ککے مراکککز سککندھ‬
‫میں کراچی‪ ،‬پنجاب میں لہور اور قائدآباد‪ ،‬بلوچستان میں ہرنائی‪ ،‬مسککتونگ اور سککرحد میککں‬
‫بنوں اور نوشہرہ میں واقع ہیں ۔ج ہاں اونی کپڑا کمبل اور اونککی د ھاگہ تیککار ہوتککا ہے ۔اس وقککت‬
‫پورے ملک میں اونی کپڑے کے تقریبا ً ‪ 70‬کارخانے ہیں۔ پاکستان میں ریشمی کپڑے کی صککنعت‬
‫بھی ہے۔ ریشمی کپڑا بنانے کے لئے دو اقسام کے ریشککم اسککتعمال کئے جککاتے ہیککں۔ پہل قککدرتی‬
‫ریشم جو ریشم کے کپڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔قدرتی ریشم ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے کککہ یککہ‬
‫اب بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے ۔ اس کی جگہ اب مصنوعی ریشم مقبولیت حاصل کرتا جارہا ہے ۔‬
‫لہورکے قریب ایک بستی کالشاہ کاکو میں ایک ریشم کا کارخانہ کام کررہا ہے۔جہاں مصککنوعی‬
‫ریشم تیار ہورہی ہے۔ اس کو ریان کہا جاتا ہے۔ اس کے علوہ خام ریشم اور ریشمی د ھاگہ اور‬
‫ریشہ بیرونی ممالک سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ کراچی ریشمی کپڑے کی صنعت کا سب سے‬
‫بڑا مرکز ہے۔اس کے علوہ ریشمی کپڑا فیصل آباد‪ ،‬لہور‪ ،‬ملتان‪ ،‬گوجرانوالہ‪ ،‬پشککاور‪ ،‬سککوات‪،‬‬
‫سکھر اور حیدر آباد میں بھی تیار کیا جاتا ہے ۔‬

‫چینی کی صنعت‬
‫یہ ملک کی بڑھتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے ۔ ‪ 1947‬میں پاکستان نے چینی کے صککرف دو‬
‫کارخانوںسے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک کارخککانہ صککوبہ پنجککاب میککں گوجرانککوالہ ککے نزدیککک‬
‫راہوالی میں اور دوسرا صوبہ سرحد میں تخت بائی کے مقام پر تھا۔چینی گن ّے سے حاصل کی‬
‫جاتی ہے ۔ جو تین صوبے یعنی پنجاب‪ ،‬سندھ اور سرحد میں بڑی مقدارمیں کاشت کیا جاتا ہے ۔‬
‫اس لئے حکومت نے ان علقوں میں چینی کے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا جہاں گّنا کاشت کیککا‬
‫جاتا ہے ۔ ملک میں ‪ 78‬چینی کے کارخانے ہیں ۔جن میں ‪ 40‬پنجکاب میکں‪ 32 ،‬سکندھ میکں اور ‪6‬‬
‫سرحد میں ہیں ۔جن کی پیداوار کی صلحیت ‪ 5‬ملین ٹن ہے۔شکر کی پیداوار میں پاکسککتان ن کہ‬
‫صرف خود کفیل ہے بلکہ چینی کی برآمد سے قیمتی زِرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔پاکسککتان کککی‬
‫شکر اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬قومی ترقی میں ذرائع آمد و رفت کس طرح مدد کرت ے ہیں؟‬
‫ذرائع نقل و حمل و آمد و رفت کے معنی و مفہوم ذرائع آمککد و رفککت سکے مککراد وہ ذرائع ہیککں‬
‫جن کی بدولت افراد سفر کرتے ہیںاور اشیاءکو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیککں۔یککہ‬
‫ذرائع قدیم بھی ہیں اور جدید بھی ۔ قدیم ذرائع آمدورفت میں سڑکیں اور بحری سککفر شککامل‬
‫ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ہی ذرائع آمدورفت بہت بہہہتر ہہہوگئے ہیککں ۔مککوٹر‬
‫کاروںنے گاڑیوں اور جانوروں کی جگہ لے لی ہے۔کشتیوں کی جگہ جدیککد بحککری ج ہاز آگئے ہیککں‬
‫اور اب فضا کے ذریعے بھی سفرمقبول ہوتا جارہا ہے ۔‬

‫ذرائع آمدورفت کی اہمیت‬


‫کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ذرائع آمدورفت کی بہت اہمیت ہے۔ یکہ معاشککی ترقککی میککں‬
‫مدد دیتے ہیں۔ ان کی مدد سے خام مال کارخانوں تک پہنچایا جاتا ہے اور تیار مال من کڈیوں تککک‬
‫لے جایا جاتا ہے۔ ان سے بیروزگاری میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ لککوگ دوردراز ک کے مقامککات‬
‫پر بھی ملزمت کرسکتے ہیں اور بکثرت سککفر کرسککتے ہیککں۔مختصککرا ً یکہ ککہ ذرائع آمکدورفت‬
‫مندرجہ ذیل مقاصد میں مدد کرتے ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬ملک کی زراعت اور صنعت کو فروغ دینا ۔‬
‫)‪ (۲‬مقامی‪ ،‬قومی اور بین القوامی تجارت کو فروغ دینا ۔‬
‫)‪ (۳‬لوگوں کے ملک کے مختلف علقوں میں سفر سکے اتحکاد اور قکومی اور ب ھائی چکارے ککو‬
‫پروان چڑھانا ۔‬
‫)‪ (۴‬مسلح افواج کی تیز رفتار حرکت سے ملک کے دفاع کو مضبوط اور مستحکم کرنا ۔‬
‫)‪ (۵‬علوم و فنون کو فروغ دینا اور ان کے فائدے ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچانا ۔‬
‫)‪ (۶‬ملک میں امن و امان برقرار رکھنکے میککں مککدد کرنککااور سککیلب‪ ،‬زلزلکہ اور آگ لککگ جککانے‬
‫جیسی قدرتی آفت کی صورت میںجلد از جلد ا‬

‫سوال‪ :‬کراچی س ے پشاور تک قومی شا ہرا ہ پر کون س ے ش ہر واقع ہیں؟‬

‫قومی شاہراہ‬
‫یہ پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے اہم شاہراہ ہے ۔ اس کککی لمبککائی ‪ 1735‬کلککو میککٹر‬
‫ہے۔ یہ کراچی سے شروع ہوکر پشاور اور تورخم تک جاتی ہے۔ ی کہ شککاہراہ اس سککڑک پککر واقککع‬
‫مختلف شہروں مثل ً حیدرآباد‪ ،‬خیرپور‪ ،‬سکھر‪ ،‬بہاولپور‪ ،‬ملتان‪ ،‬ل ہور‪ ،‬راولپنکڈی اور پشککاور کککو‬
‫آپس میں ملتی ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬کراچی‪ ،‬کوئٹہ شاہراہ براستہ خضدار‬
‫)‪ (۲‬کراچی‪ ،‬کوئٹہ شاہراہ براستہ جیکب آباد‬
‫)‪ (۳‬کوئٹہ‪،‬پشاور شاہراہ‬
‫)‪ (۴‬کوئٹہ‪ ،‬ملتان شاہراہ براستہ لورالئی‬
‫)‪ (۵‬اٹک‪ ،‬ملتان شاہراہ‬
‫شارا ِہ علقائی تعاون برائے ترقی )آر سی ڈی ہائی وے(‬
‫)‪ (۶‬ہ‬
‫)‪ (۷‬شاہراہ انڈس ہائی وے‬
‫)‪ (۸‬کراچی‪ ،‬حیدرآباد سپر ہائی وے‬
‫)‪ (۹‬لہور‪ ،‬اسلم آباد موٹروے‬

‫سوال‪ :‬ای تجارت ک ے کیا معنی ہیں؟‬

‫ای کامرس‬
‫یہ انگریزی لفظ الیکٹرانک کامرس سے نکل ہے۔اسکے معنی ہیں ک کہ کمپیککوٹر اور انککٹرنیٹ کککی‬
‫مدد سے تجارت کرنا ۔ الیکٹرانکک تجکارت ککے ذریعکے معلملت ب ہت جلکدی طکے ہوجکاتے ہیکں ۔‬
‫الیکٹرانککک تجککارت اطلعککی خفیککت )انفارمیشککن ٹیکنککالوجی( کککی ایککک شککاخ ہے۔ اس س کے‬
‫کاروباراور تجارت کا تازہ ترین درست ریکارڈرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ہمککاری درآمککدات اور‬
‫برآمدات کے لئے بھی سہولت مہیا کرتی ہے۔پاکستان میں اب ای تجارت اپنی بنیککادیں مضککبوط‬
‫ف اّول کے تجارتی اداروں سے ان کککی ویککب سککائٹ‬ ‫کررہی ہے۔ای تجارت کے ذریعے دنیا کے ص ّ‬
‫کے توسط سے رابطہ کیاجاسککتا ہے اور ان ککے فرا ہم ککردہ سکاما ن ککی تفصکیلت‪ ،‬ان ککی‬
‫قیمتیں‪ ،‬مقدار اور ان کے سامان کی رسد کے وقت کی دریککافت کککی جاسکککتی ہے۔ادائیگیککاں‬
‫انٹرنیٹ کے ذریعے کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں گھر بیٹھے نیویارک‪ ،‬سنگا پور‪ ،‬ہانککک کانککگ‪،‬‬
‫لندن وغیرہ کے اسٹاک ایکسچینج سے حصککص خریککدے اور فروخککت کئے جاسکککتے ہیککں ۔ شککرط‬
‫صرف یہ ہے کہ ان کے پاس اکائنٹ کھول ہوا ہو۔ای تجارت نے کاروبار کککو تیککز رفتککار‪ ،‬س کہل اور‬
‫بہتر بنادیا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں صنعتی ترقی ک ے فروغ ک ے لئ ے کیا اقدامات ُاٹ ھائ ے جائیں؟‬
‫صنعتی ترقی کے لئے اقدامات‬
‫مندرجہ ذیل اقدامات سے صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے تاکہ سرمایہ کار جان و مککال کھوجککانے‬
‫کے ڈر سے آزاد ہوکر سرمایہ کاری کرسک ے ۔‬
‫)‪ (۲‬تجارت کے لئے قائدے اور قوانین آسان اور سہل بنائے جائیں ۔‬
‫)‪ (۳‬عملے کی تربیت کے دوران محنت کی عظمت کا احساس ُاجاگر کیا جائے تاکہ ان میں کام‬
‫سے وابستگی کا احساس ہو اور پیداوار بڑھنے کے لئے وہ سخت محنت کریں ۔‬
‫)(‪۴‬کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام قائم کیا جائے تیار شدہ مال کے معیار اور اعل ٰی و صککف پککر‬
‫کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چایئ ے ۔‬
‫)‪ (۵‬بازار کاری )مارکیٹنگ( اور تجارتی نظم و نسق )بزنس ایڈمنسٹریشن( کی تعلیم کا معیار‬
‫مزید بہتر بنایا جائ ے ۔‬
‫)‪ (۶‬صنعتی پالیسیاں بالکل صاف‪،‬شفاف‪ ،‬واضح اور پائیدار ہونی چاہئےں ۔‬
‫)‪ (۷‬بیرونی ممالک کی اشیاءکی اسمگلنگ پر سختی ہونی چاہئ ے ۔‬
‫)‪ (۸‬حکککومت کککو صککنعت کککاروں کککی ٹیکسککوں میککں رعککایت‪ ،‬ب ہتر پیککداوار ک کے لئے زِرتلفککی‬
‫)سبسڈی( اور کارکنان کی تربیت کی شکل میں ترغیبات دینی چاہئیں ۔‬
‫)‪ (۹‬کارکنوں کے حالت کار بہتر بنائے جائیں اور ان کی اجرتیں بڑھائی جائیں ۔‬

‫خالی جگہ پر کریں‬


‫)‪ (۱‬معاشی ترقی کے لئے صنعت میں استحکام ضروری ہے ۔‬
‫)‪ (۲‬چینی کی پیداوار میں پاکستان خود کفیل ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬مزدور انجمنوں )ٹریڈ یونین( کا منفی رویہ ہماری صنعت کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے ۔‬
‫)‪ (۴‬پاکستان میں آمدورفت کے تین ذرائع سڑکیں‪ ،‬ریلوے اور فضائی راستہ ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬کپاس اور چاول پاکستان کی اہم برآمدات ہیں ۔‬
‫پاکستان کی ثقافت‬

‫ثقافت کی خصوصیات بیان کریں؟‬ ‫‪‬‬


‫کوءی زبان ثقافت کے لیے اہم کیوں ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لکھیں؟‬ ‫‪‬‬
‫بحثیت قومی زبان اردو کی اہمیت بیان کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی مظاہر کون کون سے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے فنون اور دستکاریوں پر ایک نوٹ تحریر کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫تہواروں کی ہماری ثقافت کے لیے اہمیت بیان کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫خالی جگہ پر کریں؟‬ ‫‪‬‬
‫مختصر سوال جواب؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬ثقافت کی خصوصیات بیان کیجئ ے؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫ثقککافت کککے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫معنی اور مفہوم‬
‫)‪ (۱‬تاریکککخ‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫اور نظریککے کککی‬
‫عکاسی‬
‫دوسری‬ ‫‪(۲) 3‬‬ ‫‪‬‬
‫ثقککککافتوں پککککر‬
‫اثرانداز‬
‫)‪ (۳‬ثقککافت‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫میں تبدیلی‬
‫انفرادی‬ ‫‪(۴) 5‬‬ ‫‪‬‬
‫شکککککککناخت اور‬
‫پہچان‬

‫)‪ (۵‬توانککککا‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬


‫اقدار‬

‫ثقافت کے معنی اور مفہوم‬


‫ثقافت کے لفظی معنی ہیں ”کچھ ُاگانا۔“ اس کو ”طرزِ زندگی“ بھی کہا جاتککا ہے۔کسککی ب ھی‬
‫قوم کی ثقافت میں بہت سے عوامککل شککامل ہوتے ہیککں ۔اس میککں طککرزِ زنککدگی‪ ،‬زبککان‪ ،‬ادب‪،‬‬
‫ن لطیفکہ شکامل ہیککں۔ثقککافت ککے یکہ‬ ‫مذہب‪ ،‬رسوم و رواج‪ ،‬نظریہ حیات‪،‬عمارت سازی اور فنو ِ‬
‫تمام پہلو ساتھ ساتھ بڑھتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ثقافت کککا ہر ایککک پہلککو اور عنصککر قککوم ککے‬
‫ماضی اور حال کا عکاس ہوتا ہے۔جغرافیائی حالت اور ماحول کا بھی قوم کی ثقافت پر گہرا‬
‫اثر پڑتا ہے۔ حالت اور ماحول میں زمین‪ ،‬آب و ہوا‪ ،‬نباتات‪ ،‬معدنی وسککائل اور حیوانککات ب ھی‬
‫شامل ہیں ۔ ثقافت کی خصوصیات‬

‫)‪ (۱‬تاریخ اور نظریے کی عکاسی‬


‫ہر ثقافت کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ جو ایک تہذیب اور ثقافت رکھنے والوں کککو دوسککروں‬
‫ی�©�©زکرتا ہے۔ یہثقافت کسی قوم یا ملک کی تاریخ اور نظریے کے تسلسل کی‬ ‫سے مم ّ‬
‫عکاسی کرتی ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬دوسری ثقافتوں پر اثرانداز‬


‫ثقافت ایک قوت ہے ۔ جو دوسروں کو متاثر کرتی ہے ۔ مثبت سوچ و فکر کی حامل ثقافت جلد‬
‫ہی دوسری ثقافتوں پر اثر انداز ہوجاتی ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬ثقافت میں تبدیلی‬
‫دوسری ثقافتوں سے ملپ اور رابطے کی صورت میں ثقافت کے مظاہر میں تبککدیلی آسکککتی‬
‫ہے ۔ایک وقت تھا کہ مسلم ثقافت نے دنیا کی دوسری ثقافتوں کو متاثر کیا تھا ۔ ثقافتی سوچ و‬
‫فکر کی قوت اس وقت تک پُراثر رہتی ہے جب تک لوگوں کا کککردار اس ثقککافت پککر یقیککن اور‬
‫اعتماد کا اظہار کرتا رہتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور دوسری ثقافتوں ک کے سککاتھ ملپ‬
‫کے عمل سے گذر کر نئی ثقافت وجود میں آتی ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬انفرادی شناخت اور پہچان‬


‫کسی بھی ثقافت کی اپنی انفرادی شناخت اور پہچان اس کو دوسروں میں مقبول بناتی ہے ۔‬
‫ماضی میں مسلم ثقافت اس لئے بام عروج پر پہنچی تھی کیونکہ ہر مسلمان اپنے ذاتی کردار‬
‫اور اقدار میں بہت توانا اور مستحکم تھا ۔‬

‫)‪ (۵‬توانا اقدار‬


‫ہر ثقافت کی چند بڑی توانا اقدار ہوتی ہیککں ۔ توانککا‪ ،‬مسککتحکم اور مسککتقل اقککدار کککی حامککل‬
‫ثقافت دوسری ثقافتوں کو خود میں جذب کرلیتی ہے۔جس طرح مسلم ثقافت ن کے ُاس وقککت‬
‫کیا جب مسلمانوں نے کئی دوسرے ممالک کو فتح کرلیا تھا۔ان ثقافتوں کے مسلم ثقافت میں‬
‫جذب ہونے کی وجہ اسلم کی توانا‪ ،‬پائیدار اور مستقل اقدار تھیں ۔‬

‫ص ہ کیوں ہے؟‬
‫سوال‪ :‬کوئی زبان ثقافت کا ا ہم ح ّ‬

‫زبان ثقافت کا سب سے اہم جز ہے۔ کیونکہ خیالت‪ ،‬احساسات‪ ،‬اور جذبات ککے اظ ہار ککے لئے‬
‫زبان ہی مو�¿ثر ترین ذریعہ ہے۔زبان قوم کی شناخت ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک کہ ہر قککوم اپنککی‬
‫زبان کو عزیز رکھتی ہے اور اسکے فروغ و ارتقاءکے لئے مناسب اقدامات کرتی ہے ۔‬

‫دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ زبککانیں بککولی جککاتی ہیککں ۔ کسکی ملککک‬
‫صہ ہوتی ہے۔البتہ ِان میں سے کسی‬ ‫میں بولی جانے والی تمام زبانیں ُاس ملک کی ثقافت کا ح ّ‬
‫ایک زبان کو قومی رابطہ کے زبان )‪(Lingua Franka‬کے طور پر اسکتعمال کیککا جاتککا ہے اور‬
‫اسی کو قومی زبان کہتے ہیں ۔‬

‫قومی زبان کے ذریعے مختلف علقوں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لنے میں مککدد‬
‫ملتی ہے ۔ یہ اتحاد اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کاایک ذریعہ ہے ۔قککومی زبککان کککو ملککک کککی‬
‫س‬
‫دوسری زبانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں کو پ ِ‬
‫پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ علقائی زبانوں کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیککں کرنککا چککاہئ ے ۔‬
‫تمام صوبائی زبانیں قوم کا مجموعی اثاثہ ہیں جو کہ اپنے اپنے مخصوص علقککوں میککں بتدریککج‬
‫پھلتی اور پھولتی رہتی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لک ھیں؟‬


‫پاکستان میں ‪ 30‬سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہمارے ملک کی بڑی صوبائی زبانیں سندھی‪،‬‬
‫پنجابی‪ ،‬پشتو اور بلوچی ہے۔یہ زبانیں زیادہ تر اپنے اپنے علقککوں کککی نمائنککدگی کرتککی ہیککں اور‬
‫انھیں صوبائی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے جو لب و لہجے کے معمولی‬
‫فرق کے ساتھ پاکستان کے تمام علقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔‬
‫اردو‬
‫صہ ہے۔ اب سے تقریبا ً تین ہزار سال قبل لوگ وسککط ایشیاءسککے‬ ‫اردو ہمارے ثقافتی ورثے کا ح ّ‬
‫صے میں آباد ہوگئے تھے۔جیسے ہی ان کی تعداد میں اضککافہ ہوا‬ ‫آکر جنوبی ایشیاءکے شمالی ح ّ‬
‫انھوں نے رفتکہ رفتکہ ی ہاں ککے قکدیم باشکندوں ککو جنکوب ککی جککانب دھکیکل دیککا اور یکہ لککوگ‬
‫سنسکرت سے بگڑی ہوئی زبان پراکرت بولتے ت ھے جککو عککام لوگککوں کککی زبککان کہلنکے لگککی ۔‬
‫تقریبا ً پندرہ سو سال تک عام لوگ پراکرت بولتے رہے۔راجہ بکرمککاجیت نکے سککرکاری اور ادبککی‬
‫کاموں کے لئے ایک بار پھر‬
‫سنسکر ت زبان رائج کردی۔ لیکن عوام کی زبان پر پراکرت ہی رہی۔ وقت گزرنے کککے سککاتھ‬
‫ساتھ پراکرت زبان نے چار منفرد اور نمایاں شکلیں اختیار کرلیں اور ان ہی مقککامی شکککلوں‬
‫میں سے ایک شکل ”برج بھاشا“ کہلئی۔یہ زبان دریائے گنگا اور جمنککا ک کے درمیککان اور ان ک کے‬
‫اطراف کے علقوں میں بولی جاتی تھی ۔‬
‫مسلمانوں کے مختلف خاندانوں نے بّر صغیر جنوبی ایشیاءپر حکومت کی۔پہلے یہاں مسلمانوں‬
‫کی اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی ۔ان لوگوں کی زبان فارسی تھی ۔‬
‫مغلوں کے دورِ حکومت میں کئی یورپی اقوام جنوبی ایشیاءمیں کسی ن کہ کسککی مقصککد س کے‬
‫آئیں۔اس طرح کچھ فرانسیسی اور پرتگالی الفاظ بھی برج بھاشا میں شامل ہوگئے اور یککوں‬
‫شاہ جہاں )‪1627‬ءتا ‪1658‬ئ(کے عہد میں برج بھاشا داخلی طور پر بدل گئی اور ی کہ ایککک نئی‬
‫زبان معلوم ہونے لگی۔اس نئی زبان کو ہندو اور مسلمان سمجھ اور بول سکتے تھے اور چونکہ‬
‫مغل بادشاہوں کی فوج میں ہر قوم و مککذہب ککے سککپاہی ہوتے ت ھے۔اس لئے یکہ فوجیککوں ککے‬
‫لشکر کی زبان بن گئی۔فوجی لشکر کو ترکی زبان میں ُاوردو کہتے ہیں۔لہٰذا لشکر میں بولی‬
‫جانے والی زبان کا نام ”ُاوردو“ پڑگیا۔ ُاوردو کا لفظ خود منگولی زبان کے لفظ ُاوردو ) یعنککی‬
‫پڑاو�¿ یا لشکر( سے ماخوذ ہے۔فارسککی زبککان ککے زیکرِ اثککر لفککظ ”ُاوردو“ زیککادہ ملئم ہوکر‬
‫”ُاردو“ ہوگیا۔اس زبان کا شکوہ اور شان و شوکت ترکی الفاظ کی مر ہون منککت ہے اور اس‬
‫کی مٹھاس اور شیریں بیانی اور دلکشی فارسی الفاظ کے طفیل ہے۔عربی کے وہ الفککاظ جککو‬
‫ترکی اور فارسی نے مستعار کئے ہوئے ہیں وہ بھی اس نئی زبان ُاردو نے اختیار کرلئ ے ۔‬
‫مغل بادشکاہوں ککے آخکری دو سکو سکال ) ‪ 1658‬ءتکا ‪1857‬ئ( میکں علمکاءدین‪ ،‬ا ہل علکم و‬
‫دانشور اور شعراءنے ُاردو زبان کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ۔ُاس وقت دوسککری زبککان فارسککی‬
‫تھی ۔اس طرح اس زبان کی ترقی اور توسیع ترویج کو مہمیز مل گئی ۔اردو زبان کی شناخت‬
‫کچھ ایسی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل ہوکر اجنبی معلوم نہیککں ہوتے بلککہ‬
‫مستعمل ہونے پر اسی زبان کا جز معلوم ہونے لگتے ہیں ۔‬
‫ک پاکستان کو فروغ دینے میں بہت ا ہم کککردار ادا کیککا ہے۔یکہ پاکسککتان ککے تمککام‬ ‫ُاردو نے تحری ِ‬
‫صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور قومی اتحاد کی علمت ہے۔مقامی زبانوں کے بککے‬
‫شمار الفاظ اب اردو زبان میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔اردو نے خود مقامی زبانوں کو بہت متککاثر‬
‫کیا ہے اور اس کے الفاظ اب بڑی بے تکلفی سے سندھی اور پنجابی زبان کی روز م کّرہ گفتگککو‬
‫میں استعمال ہوتے ہیں ۔‬
‫اردو نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے اور فروغ پایا ہے۔اردو ادب میں نظککم کککا بیککش قیمککت‬
‫ذخیرہ موجود ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کاوشوں سے اسے مال مال کردیککا ہے اور‬
‫پاکستان کے عوام الناس میں اس کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ُاردو ڈراموں‪ُ ،‬اردو‬
‫فیچر فلموں اور ُاردو میں میٹھے اور شیریں نغموں نے ان کے مطالب اور مفہوم کککو سککمجھنا‬
‫آسان کردیا ہے ۔اردو ذریعہ تعلیم بھی ہے اور امتحان کا ذریعہ بھی ۔جدید علککوم اور مضککامین کککا‬
‫ُاردو میں ترجمہ کیا جارہا ہے۔ُاردو زبان کی ترقی کے لئے وفاقی سطح کے دو کالککج یعنککی ُاردو‬
‫سائنس کالج اور ُاردو آرٹس کالج کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔جنہیں اب ُاردو یونیورسٹی کا‬
‫درجہ دے دیا گیا ہے۔ حکومت نے ایک ادارہ ” مقتدرہ قومی زبان“ کے نام س کے اسککلم آبککاد میککں‬
‫قائم کیا ہے ۔جس کا مقصد و مدعا اردو زبان کی ترقی وترویج ہے ۔‬
‫سوال‪ :‬بحیثیت قومی زبان اردو کی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫قککومی زبککان کککی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫اہمیت‬
‫)‪ (۱‬رابطکککے ککککا‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫ذریعہ‬

‫)‪ (۲‬تحریککککک ِ‬
‫ک‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں کردار‬
‫)‪ (۳‬مشترکہ رشتہ‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۴‬ذرائع ابلغ‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫)ذرائع رسککککککککککل و‬
‫رسائل(‬
‫)‪ (۵‬فکککائدے ککککا‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫ذریعہ‬
‫)‪ (۶‬رابطہ‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۷‬بین القوامی‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫زبان‬

‫)‪ (۸‬مشترک ذریعہ‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬

‫قومی زبان کی اہمیت‬


‫ہر قوم کو اپنی پہچان اور شناخت کے لئے چند علمتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔زبان بھی کسککی‬
‫قوم کی بہت بڑی پہچان ہوتی ہے۔پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ایک مضککبوط اور مسککتحکم‬
‫وفاق کا نام ہے اور اس کی قومی زبان اردو ہے۔بحیثیت قومی زبککان اس کککی اہمیککت منککدرجہ‬
‫ذیل ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬رابطے کا ذریعہ‬


‫یہ پاکستان کے عوام کے درمیان تعلقات بڑھانے کا ایک ا ہم ذریع کہ ہے۔ی کہ پاکسککتان ککے چککاروں‬
‫صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اسی لئے یہ قومی اتحککاد و یکج ہتی اور اسککتحکام کککا‬
‫ذریعہ ہے ۔‬
‫ک پاکستان میں کردار‬
‫)‪ (۲‬تحری ِ‬
‫ک پاکستان اپنی ابتدائی منزلوں میں تھی تو ُاس وقت ُاردو سب سے زیادہ پسککندیدہ‬ ‫جب تحری ِ‬
‫زبان تھی۔یہ زبان جنوبی ایشیاء)برصغیرپاک و ہند( پر مسلمانوں کے دورِ حکومت میککں پککروان‬
‫چڑھی ۔ُاردو زبان اب اور منفرد اور نمایاں ہوگئی تھی کیونکہ اس نے عربککی‪ ،‬فارسککی‪ ،‬ترکککی‬
‫اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ کو خوب جذب کرلیا تھا۔اسککلمی ثقککافت ن کے اس کے ایککک علیحککدہ‬
‫پہچان دی اور اس کو مسلمانوں میں مقبول بنادیککا۔اس اعتبککار س کے اکککثر مسککلم قککائدین اور‬
‫رہنماو�¿ں مثل ً سر سید احمد خان‪ ،‬شیخ عبدالمجید سندھی‪ ،‬علمہ اقبککال‪ ،‬حسککرت مو ہانی‪،‬‬
‫داعظم اور دیگککر اکککابرین نکے ہنککدی ککے مقککابلے میککں ُاردو زبککان کککی‬
‫علمہ شبلی نعمانی‪ ،‬قائ ِ‬
‫حمایت کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ ُاردو برصککغیر کککی واحککد زبککان ہے جککس میککں اسکلمی ادب‬
‫کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ُاردو نے عوام کے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کیا ۔‬

‫)‪ (۳‬مشترکہ رشتہ‬


‫بحیثیت قومی زبان ُاردو اور صوبائی زبانوں میں بہت قریبی اور بے تکلفی کککا رشککتہ پایککا جاتککا‬
‫ہے۔یہ تمام زبانیں عربی‪ ،‬فارسی اور انگریزی سے متاثر ہیں اور اسی لئے ان زبککانوں میککں ب کے‬
‫شمار مشترکہ الفاظ ہیں ۔تمام زبانوں میں یکساں موضوعات پر کتککابیں اور لککٹریچر دسککتیاب‬
‫ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬ذرائع ابلغ )ذرائع رسل و رسائل(‬


‫ریڈیو‪ ،‬ٹیلی ویژن اور پریس ابلغ کے خاص ذرائع ہیں۔ یہ قومی اتحاد و اتفاق کے فروغ ک کے لئے‬
‫قومی اور صوبائی زبانوں کککی مککدد سکے ا ہم کککردار ادا کرر ہے ہیککں۔ان زبککانوں ککے مشککترکہ‬
‫سرمائے سے لوگوں کو آگاہ کیککا جاتکا ہے۔اس سکے زبکان ککو تقکویت ملکتیہے اور پاکسککتان ککے‬
‫مختلف علقوں کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ۔‬

‫)‪ (۵‬فائدے کا ذریعہ‬


‫صوبائی زبانوں کی تحریریں مثل ً لوک کہانیاں‪ ،‬مضامین و مقالت‪ ،‬شاعری اور گیت ُاردو میں‬
‫ترجمہ کیے جاتے ہیں تاکہ انکو سمجھ کر لوگ زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرسکیں اور لوگککوں‬
‫کے درمیان خیرخواہی اور نیک خواہشات کے جذبات فروغ پاسکیں اور ملک میں باہمی افہام و‬
‫تفہیم میں اضافہ ہوسک ے ۔‬

‫)‪ (۶‬رابطہ‬
‫پاکستان چار صوبوں کا ایک وفاق ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں کے مابین اردو رابطکے کککی‬
‫زبان کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس طرح ُاردو قومی زبان اتحکاد و اتفکاق ککے لئے ایکک ا ہم‬
‫کردار ادا کررہی ہے ۔‬

‫)‪ (۷‬بین القوامی زبان‬


‫ن ملک بھی پھیل ہوا ہے۔ُاردو کککا شککمار‬
‫ُاردو ادب صرف سارے ملک میں چھایا ہوا ہے بلکہ بیرو ِ‬
‫بین القوامی زبانوں میں ہوتا ہے ۔‬

‫)‪ (۸‬مشترک ذریعہ‬


‫ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے۔جو اس کے عوام کے مابین اتحاد و روابط کے ذریعے کے طور پر‬
‫کام آتی ہے۔مسلمانوں کو باہم یکجا کرنے والی قوت اسلم ہے۔اسلم کے پیغککام کککی تبلیککغ ککے‬
‫لئے ُاردو ایک مشترک ذریعہ بنی ہے اور اسی وجہ سے یہ پاکستان کی قومی زبان ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬قومی زندگی میں مشترک ہ ثقافتی مظا ہر کون کون س ے ہیں؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫قومی زندگی میں‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫مشترکہ ثقافتی اظہار‬
‫)‪ (۱‬ملکککی جلکککی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫ثقافت‬
‫)‪ (۲‬مکککردوں اور‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫خواتین کککی حیککثیت و‬
‫مرتبہ‬
‫)‪ (۳‬معاشککککرتی‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫زندگی‬
‫‪ (۴) 5‬غذا )خوراک(‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۵‬تفریحات‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۶‬مککککککذہبی‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫تفریحات )تہوار(‬
‫)‪ُ (۷‬اخکککککوت و‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫محبککت کککا ایککک ہی‬
‫پیغام‬
‫)‪ (۸‬ذرائع ابلغ‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۹‬نظام تعلیم‬ ‫‪10‬‬ ‫‪‬‬

‫قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار‬


‫پاکستان کے چاروں صوبوں کی اپنی اپنی صوبائی زبانیں موجود ہیں۔مختلف صوبوں کے رہن کے‬
‫والوں کے رسم و رواج اور رہن سہن میں معمولی فرق بھی ہے۔ لیککن پاکسکتان ککے ثقکافتی‬
‫ورثے کا نمایاں تشخص اسلمی تہذیب ہے۔اس نظام میں مساوات‪ ،‬بھائی چارے‪ُ ،‬اخوت‪ ،‬عککدل‬
‫و انصاف‪ ،‬حق گوئی اور سچائی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔اس نطام حیات نے علککم و ادب‪،‬‬
‫تعمیرات‪ ،‬خطاطی اور لسانیات کو متاثر کیا ۔ان کے حوالے سے ہمیں جانا اور پہچانککا جاتککا ہے ۔‬
‫اسلم نے پاکستان کے عوام کو ُاخوت کے ایک رشتے میں پرودیا ہے۔ اسککی لئے قککومی زنککدگی‬
‫میں مشترکہ ثقافتی اظہار حسب ذیل ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬ملی جلی ثقافت‬


‫پاکستان میں ملی جلی ثقافت پائی جاتی ہے اور اپنے اسی ڈھانچے کی بنیاد پر یہ بہت ا ہم ہے ۔‬
‫ہر خطے کے لوگ اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ماحول کے اثرات ان کککے لبککاس‪،‬‬
‫غذا اور طرزِ زندگی سے ظاہر ہوتے ہیں۔پاکستان میں لوگ مختلف خطوں سے آکککر آبککاد ہوئے‬
‫ہیں۔ان میں عرب‪ ،‬ایرانی‪ ،‬اور ترک وغیرہ شامل ہیں۔یہ سب لوگ اپنے اپنے خطوں ککے رسککوم‬
‫جککدا ت ھی۔اب یکہ تمککام ثقککافتیں ایککک‬
‫و رواج کے پیروکار تھے۔ ان کے لبککاس‪ ،‬زبککان اور ثقککافت ُ‬
‫دوسرے میں شامل ہوگئی ہیںاور ُانھوں نے مشترکہ پاکستانی ثقافت پیدا کردی ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬مردوں اور خواتین کی حیثیت و مرتبہ‬


‫پاکستانی ثقافت میں مرد کو منفرد اور ممتار مرتبہ حاصل ہے ۔مرد خاندان کا سککربراہ ہے ۔ُاس‬
‫کو برتری اور فوقیت حاصل ہے ۔لیکن عورت کو بھی خاندان کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے ۔‬
‫جو چار دیواری کے اندر خاندانی معاملت چلتی ہے اور اس چار دیواری کے اندر ُاسی کا حکم‬
‫چلتا ہے۔خانہ داری اور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کسی بھی خاندان میں عورت کی ذمککہ‬
‫داری ہے۔نیز یہ کہ اسلمی اصولوں کے تحت عورت کو تعلیم کا حق‪ ،‬ملکیت کا حق اور تجارت‬
‫کا حق حاصل ہے۔ اسلمی تعلیمات کی روشنی میں خواتین و مردوں کے حقوق و فکرائض ککا‬
‫تعین کیا گیا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں ان اصولوں کی پیروی کککی جککاتی ہے اور‬
‫اس طرح پاکستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ تشکیل پاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬معاشرتی زندگی‬


‫پاکستان میں معاشرتی زندگی بہت سادہ ہے۔لوگ قدیم روایککات پککر یقیککن رکھتکے ہیککں۔ ان ککے‬
‫رسوم و رواج سادہ اور دلچسپ ہیں ۔مشترک ہ خاندانی نظام اختیار کیا جاتا ہے ۔لوگوں کو بڑوں‬
‫کی عزت کرنا اور بچوں سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔لوگ ایک دوسرے سے پیار و محبککت اور‬
‫احترام کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں ۔خواتین کا احترام اور ان کی عزت کی جککاتی ہے ۔لوگککوں‬
‫کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے اور زراعت اور مویشی پالنے سے منسلک ہیں ۔شادیاں روایککتی‬
‫طریقوں سے منائی جاتی ہیں ۔ش ہر میں بہت رنگینی اور حسن ہوتا ہے ۔شککادیوں پککر کککثیر رقککم‬
‫خرچ کی جاتی ہے۔شکہروں میککں ب ہت سکے افککراد قککومی معیشککت ککے مختلککف شککعبوں میککں‬
‫ملزمت بھی کرتے ہیں۔اسککی لئے پاکسککتان ککے تمککام حصککوں میککں معاشککرتی زنککدگی تقریبکا ً‬
‫یکساں ہے۔ تاہم چندتہواروں اور مواقع کو منانے میں آب و ہوا اور ماحولیککاتی حککالت ککے زیککر‬
‫ِاثر تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬غذا )خوراک(‬


‫پاکستان کے عوام کی اکثریت سادہ غذا کھاتی ہے۔یہ لوگ گندم کی روٹککی‪ ،‬گوشککت‪ ،‬دالیککں اور‬
‫سبزیاں کھاتے ہیں۔اور چائے‪ ،‬سادہ پانی یا مشروبات پیتے ہیں۔یہاں مقامی اور ملک کے دوسرے‬
‫علقوں کے پھل بھی کھائے جاتے ہیں۔ اسی لئے خوراک کی عادات بھی ہر صککوبے میککں تقریب کا ً‬
‫مشترک ہیں ۔‬

‫)‪ (۵‬تفریحات‬
‫ہماری تفریحات اور فارغ اوقککات ککے مشککاغل ملت کے جلت کے ہیککں۔کھیلککوں میککں ہہہاکی‪ ،‬کرکککٹ‪،‬‬
‫شتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام لککوگ ان کھیلککوں‬ ‫اسکوائش‪ ،‬کبڈی اور ک ُ‬
‫میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یہ ہمارے قومی کھیل بن گئے ہیں۔ یہ کھیککل ہمککارے مشککترکہ‬
‫اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں ۔‬
‫)‪ (۶‬مذہبی تفریحات )تہوار(‬
‫مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا ہے۔شادی‬
‫ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے اور اسی لئے یہ اسلمی روایککات اور رنککگ کککی عکککاس‬
‫ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشین اور میٹھہہے گیککت گککاتے ہیککں‪ ،‬تحف کے‬
‫تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگوں کی دعککوتیں کرتکے ہیککں۔شککادی ککے موقککع‬
‫پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔شادی خوشی‪ ،‬مسککرت اور لہک ّہگل ّک ہ کککا ذریعکہ‬
‫بنتی ہے ۔اس سے بھی ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثکے کککا اظ ہار ہوتککا ہے ۔ اسککی طککرح‬
‫پیدائش و موت کے چند رسوم و رواج ہیں۔ بچکے کککی پیککدائش اور خککاص طککور پککر لڑککے کککی‬
‫پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ ایککک دوسککرے کککو تحفکے تحککائف دیکے جککاتے ہیککں ۔ کسککی‬
‫شخص کے انتقال پر لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں ۔ اس موقع پککر‬
‫ہمسائے‪ ،‬اعّزہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرت کے ہیککں ۔ اس طککرح‬
‫لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کے جذبات ُابھارتے ہیککں ۔ اسککی طککرح عیککدلفطر اور‬
‫عید الضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جکوش و جذبےسکے منایکا جاتکا ہے۔ لکوگ نئے لبکاس‬
‫پہنتے ہیںاور مختلف قسم کے لذیز پکوان پکاتے ہیککں۔ ان تمککام مواقککع پککر اخککوت و محبککت ک کے‬
‫عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے ۔‬

‫)‪ُ (۷‬اخوت و محبت کا ایک ہی پیغام‬


‫ہمارے ثقافتی ورثے کا اظہار ہمارے مذہبی ادب )لٹریچر( اور اقدار سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ُاخککوت‬
‫و محبت کا ایک ہی پیغام ہے جو ہمارے صوفیوں ن کے مختلککف زبککانوں میککں پہنچایککا ہے۔مختلککف‬
‫ادیبوں نے مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے وہ امن‪ ،‬انسککانیت‪ ،‬تصککوف‪ ،‬عککدل و انصککاف‪،‬‬
‫محبت کا پیغام اور درس دیتا ہے۔شاہ عبککدالطیف بھٹککائی اور سککچل سرمسککت نکے سککندھ ب ھر‬
‫میں؛ سلطان باہو‪ ،‬بلھے شاہ‪ ،‬اور وارث شاہ نے پنجاب میں؛ رحمان بابااور خوشککحال خٹککک ن کے‬
‫سرحد میں اورگل خان نصیر نے بلوچستان میں ہمیں محبت اور ُاخوت کا ایک جیسا درس دیا‬

‫)‪ (۸‬ذرائع ابلغ‬


‫ریڈیو‪ ،‬ٹیلی ویژن‪ ،‬اخبارات و رسائل اور ذرائع آمدورفت کے ذریعے سے قومی ہم آہنگی‪ ،‬ربککط‬
‫اور مشترکہ قومی ثقافت نشونما پارہی ہے ۔‬

‫)‪ (۹‬نظام تعلیم‬


‫قومی سطح پر اختیار کیے جکانے والکے تعلیمکی نظککام ککی وسکاطت سکے قکومی ثقکافت ککی‬
‫نشونما ہوتی ہے اور یہ پروان چڑھتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظککام کککی یکسککانیت اور پڑ ھائے جککانے‬
‫والے مضامین‪ ،‬نگرانی کا نظام اور طریقہ امتحان و جانچ سے قککومی جککذبہ و روح بیککدار کرنکے‬
‫میں مدد ملتی ہے اور بچوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی اقدار کو فروغ ملتککا ہے اور نئی نسککل‬
‫کا ثقافتی ورثے سے لگاو�¿ پیدا ہوتا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے فنون اور دستکاریوں پر ایک نوٹ تحریر کیجئ ے۔‬

‫ن لطیفہ‬
‫ادب اور فنو ِ‬
‫ن لطیفہکہا جاتا ہے۔مسلم دورِ حکککومت ک کے‬ ‫ن تعمیر اور موسیقی کو فنو ِ‬ ‫وری‪ ،‬خطاطی‪ ،‬ف ِ‬ ‫مص ّ‬
‫دوران جنوبی ایشیاء)برصغیر پاک و ہند( میں یہ فنون خوب پھلے اور پھولے۔ُان کی یہ کامیابیاں‬
‫وری‬ ‫وروں نے اعل ٰی پککائے کککی مص ک ّ‬
‫اور کامرانیاں ہمارا قومی ورثہ ہیں۔پاکستان میں ہمارے مص ّ‬
‫کی۔ہمارے خطاطوں نے قرآن پاک کی آیات کو نہایت خوبصورت انداز میککں رقککم اور اسککلمی‬
‫اور قرآنی خطاطی کے اعل ٰی نمونے تخلیق کیے ہیں۔خوبصورت عمارت میں بھی مسلمانوں کا‬
‫ن تعمیر کا عکس نظر آتا ہے۔موسیقی کے شعبے میں بھی قدیم موسککیقی اور جدیککد‬ ‫روایتی ف ِ‬
‫سروں کے امتزاج سے نئے نئے تجربات کیے گئے۔ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں ککے ذریعکے ب ھی‬
‫گ تراشککی‪ ،‬نقاشککی اور د ھاتوں اور لککوہے سکے زیککورات‬ ‫ن لطیفہ کو پروان چڑھایا گیککا۔سککن ِ‬‫فنو ِ‬
‫سازی‪ ،‬ظروف سازی اور اسلحہ سازی میںبہترین اور شاہکار نمونے تخلیق کئے گئے ہیں ۔‬

‫دستکاریاں‬
‫پاکستان کے تمام علقوں میں دستکاری کا اعل ٰی اور معیاری کام نسل در نسل س کے ہوتککا چل‬
‫آرہا ہے۔یہ دستکاریاں عام طور پر خواتین اپنے گ ھروں میککں کرتککی ہیککں۔سککندھ میککں لبککاس پککر‬
‫شیشہ سازی اور کندہ کاری کا نہایت نفیس کام ہوتا ہے اور یکہ اپنککی جگکہ خککود بککڑا منفککرد ہے ۔‬
‫سندھی اجرک بہت مشکہور اور مقبککول ہے۔کراچککی میککں سککیپیوں اور پت ھروں سکے زیککور اور‬
‫آرائشی اشیاءبنائی جاتی ہے۔صوبہ سرحد میں کڑھائی‪ ،‬مینا ککاری‪ ،‬اورکشککیدہ ککاری ککا اعلک ٰی‬
‫اور معیاری کام ہوتا ہے ۔دستکاری کے میدان میں پنجاب کا بھی بڑا حصہ ہے ۔‬
‫ملتان کی اونٹ ککی ک ھال سکے بنکے ہوئے لیمکپ اور دیگکر مختلکف اشکیاءنیز نیلکے رنکگ ککی‬
‫میناکاری والے برتن‪ ،‬بہاولپور کی مٹی کی نازک صراحیاں و دیگر ظروف۔ یہ سککب ان علقککوں‬
‫کے لوگوں کے نفیس اور فنکارانہ کام کے عکاس ہیککں۔چنیککوٹ میککں لکککڑی پککر کنککدہ کککاری وال‬
‫فرنیچر تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کڑھائی‪ ،‬کشیدہ ککاری اور شیشکے ککا ککام ب ھی ب ہت اعلک ٰی‬
‫معیار کا ہوتا ہے۔ دستکاری کی یہ صفت پاکستان کے اکککثر شکہروں‪ ،‬دی ہاتوں اور قصککبوں میککں‬
‫قائم ہے۔جس سے ایک طرف ان کو روزگار ملتا ہے اور دوسری جانب ہماری ثقافت کو فککروغ‬
‫حاصل ہوتا ہے ۔ دستکاریاں زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬ت ہواروں کی ہماری ثقافت ک ے لئ ے ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬

‫تہوار‬
‫پاکستان میں ہر سال کئی تہوار اور میلے منعقککد ہوتے ہیںککاور ی ہاںکے لوگککوں کککی خوشککی اور‬
‫ب ذیل ہیں ۔‬ ‫مسرت کا باعث بنتے ہیں ۔ی ہ تہوار اور میلے حس ِ‬
‫)‪ (۱‬عید الفطر‬
‫عید الفطر ما ِہ رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ ُان مسلمانوں کے‬
‫لئے جنہوں نے پورےما ِہ رمضان میں روزے رکھے ہوں اللہ تعال ٰی کی جککانب س کے انعککام و اکککرام‬
‫ہے ۔لوگ عید پر اچھے اچھے لباس پہنتے ہیں ۔ سویاں کھاتے ہیں ۔ مالدار لککوگ غربککاءاور مسککاکین‬
‫کی نقدرقوم کے ذریعے مدد کرتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬عید الضحی‬


‫عید الضحی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔یہ عید ُاس قربانی یاد میں منککائی‬
‫جاتی ہے جو حضرت ابراہیم نکے اللکہ تعکال ٰی ککے حککم سکے اپنکے فرزندحضکرت اسکماعیل ؑ ککی‬
‫قربان کرکے پیش کی تھی۔عید الضحی کے روز ہر صاحب حیثیت اپنی طرف سے جککانور کککی‬
‫ل محلہ اور غرباءمیں گوشت تقسیم کرتے ہیککں ۔‬ ‫قربانی دے کر عزیزوں‪ ،‬دوستوں‪ ،‬ہمسایوں‪ ،‬اہ ِ‬
‫قربانی ذی الحجہ کی دس‪ ،‬گیارہ اور بارہ تاریخ یعنی ‪ 3‬روز تک کی جاسکتی ہے ۔‬

‫‪ (۱‬پاکستان کی قومی زبان ُاردو ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬پاکستان کی ثقافت ایک مشترک ہ ثقافت ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬پاکستان کا قومی لباس شلوار اور قمیض ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬پاکستان میں چار زبانیں بولی جاتی ہیں ۔‬

‫)‪ (۵‬بلوچستان میں دو زبانیں پشتو اور برا ہوی بولی جاتی ہے ۔‬

‫)‪ (۶‬بلوچی زبان کے دو عظیم شعراءگل خان نصیر اور آزاد جمال الدین ہیں ۔‬

‫)‪ (۷‬شاہ حسین ایک عظیم پنجابی شاعر ت ھے ۔‬

‫)‪ (۸‬آزادی کے بعد سندھی زبان نے نثر اور نظم میں بے پناہ ترقی کی ۔‬

‫)‪ (۹‬پاکستان کے اکثر لوگ ساد ہ غذا کھاتے ہیں ۔‬

‫)‪ُ (۰۱‬اخوت اور محبت کا ایک ہی پیغام جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں دیا ہے ۔‬

‫)‪ (۱۱‬عید الفطر شوال کے مہینے میں منائی جاتی ہے ۔‬

‫حضرت عیس ٰی کا یوم ِ ولدت مناتے ہیں ۔‬


‫)‪ (۲۱‬عیسائی ‪ 25‬دسمبر کو‬

‫سوال‪ :‬پاکستانی ثقافت پر تین جمل ے لک ھیں ۔‬

‫)‪ُ (۱‬اردو ہماری قومی زندگی کی مشترکہ قدر ہے چونکہ یہ پورے ملک میں بککولی اور سککمجھی‬
‫جاتی ہے ۔اسلئ ے اس سے قومی ثقافت و یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے ۔‬

‫ن تعمیر میں پاکستان کاثقافتی ورثہ بے حد شاندار ہے۔ مسلمان بادشاہوں کککی عمککارات‬ ‫)‪ (۲‬ف ِ‬
‫ن تعمیراس کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔‬
‫اور ان کا اعلیٰ ف ِ‬
‫)‪ (۳‬مشترکہ ثقافتی ورثے کا اظہار علقائی شاعری اور ادب کی ان قککدروں سکے ہوتککا ہے جککو‬
‫تمام علقوں کے ادب میں یکساں موجود ہیں ۔ سوال‪ُ :‬اردو کی تیسسن خصوصسسیات بیسسان‬
‫کیجئ ے۔‬

‫)‪ُ (۱‬اردو زبان کے اندر دوسری زبان کے الفاظ جذب کرنے کی صککلحیت موجککود ہے۔اس سکے‬
‫مشترکہ ثقافتی قدروں کو فروغ ملتا ہے ۔‬

‫)‪ُ (۲‬اردو زبان قومی یکجہتی اور اتحاد کا تصور ُابھارتی ہے ۔‬

‫)‪ُ (۳‬اردو زبان پاکستان کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس لئے یہ رابطہ کی زبان‬
‫کہلتی ہے ۔‬
‫سوال‪ :‬ثقافت ک ے کوئی چار عناصر تحریر کیجئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬رسوم و رواج‬

‫)‪ (۲‬عقیدہ و مذہب‬

‫)‪ (۳‬رہن سہن اور لباس‬

‫)‪ (۴‬زبان‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے قومی لباس پر تین جمل ے لک ھیں�© ۔‬

‫)‪ (۱‬پاکستان کا قومی لباس نہایت سادہ اور باوقار ہے‬

‫)‪ (۲‬مرد شلوار قمیض یا ُ‬


‫کرتا‪ ،‬شیروانی اور ٹوپی یا پگڑی پہنتکے ہیکں ۔عورتککوں ککا عکام لبککاس‬
‫شلوار‪ ،‬قمیض اور دوپٹہ ہے ۔‬

‫)(‪۳‬پاکستان کا قومی لباس بارعب اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ پہننے والے کے اعل ٰی ذوق کا‬
‫مظہربھی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان کی کونسی دستکاریاں زیاد ہ مش س ہور ہیسسں؟ ان کسسی ا ہمیسست پسسر‬
‫تین جمل ے بیان کریں ۔‬

‫صوبہ سندھ میں شیشے کا کام‪ ،‬سوسی اور چاندی کے زیورات‪ ،‬ملتان میککں اونککٹ ک کے چمککڑے‬
‫سے بنی ہوئی مختلف اشیائ‪ ،‬نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن‪ ،‬بہاولپور میں مٹی کککی نککازک‬
‫صراحیاں اور دیگر ظروف‪ ،‬چنیوٹ میں لکڑی پر کندہ کاری وال فرنیچر کا کام ہوتا ہے۔کراچی‬
‫میں سیپیوں اور پتھروں سے قسم قسم کی آرائشککی چیزیککں بنککتی ہیککں‪،‬جبک کہ بلوچسککتان اور‬
‫سرحد کی کشیدہ کاری مشہور ہے ۔ یہ تمام اشیاءزرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ بن رہی ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬گ ھریلو صنعتوں ک ے تین فوائد بیان کیجئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬گھریلو صنعتیں بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬دیہات میں گھریلو صنعتوں کا قیام دیہات سے شکہروں کککی طککرف منتقلککی ککے عمککل کککو‬
‫روکنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬گھریلو صنعتیں پاکستان کے لئے قیمتی زرِ مبادلہ کاایکذریعہ ہیں ۔‬
‫پاکستان میں تعلیم‬ ‫‪‬‬
‫کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت بیان کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫قومی تعلیمی پالیسی )‪ ۱۹۹۸‬تا ‪ (۲۰۰۸‬میں بیان کردہ تعلیم کے اہم پہلووں پککر روشککنی‬ ‫‪‬‬
‫ڈالیے؟‬
‫تعلیم کی سماجی و ثقافتی اہمیت بیان کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس طرح کی ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب کے اہم اجزاء کیا ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫تربیت اساتذہ پر ایک نوٹ تحریر کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت بیان کیجیے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں تعلیم کے میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کیا مقاصد ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬

‫ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت)پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے( کسککی ب ھی ملککک‬
‫کی ترقی اور فروغ میں تعلیم کو ایک اہم درجہ حاصل ہے۔ اسی کی بدولت افراد علم و آگہی‬
‫کی دولت سے مالمال ہوتے ہیںاور علم ایک ایسی قوت اور دولت ہے جو اسککتعمال کرنکے سکے‬
‫بڑھتی ہے۔تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ‬

‫)‪ (۱‬تعلیم نے انسان کو ارتقاءکے کئی مراحل سے گذرنے میں مککدد دی ہے ۔ جککس کککی بککدولت‬
‫انسان سائنس اور فنی ترقی کے موجودہ دور تک پہنچ سکا ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬انسان تعلیمکی مدد سے ہی زمین کی فطری قوتوں پر قابو پاسکا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬تعلیم کسی قوم کے نظریے کو سمجھنے اور اس نظریے کککو اسککتحکام بخشککنے میککں مککدد‬
‫دیتی ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬تعلیم افراد میں قومی شعور کو اجاگر کرتی ہے اور حب الککوطنی ک کے جککذبات کککو فککروغ‬
‫دیتی ہے ۔‬

‫)‪ (۵‬تعلیم کسی بھی شہری کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہی میں مککدد دیککتی ہے تککاکہ وہ‬
‫معاشرہ کی فلح و بہبود کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسک ے ۔‬

‫)‪ (۶‬تعلیم سے لوگوں کی تخلیقی صلحیتوں کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ جس سککے معاشککرے‬
‫میں صحت مند اور تعمیری تبدیلیوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۷‬تعلیمی ارتقاءاور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تعلیم کا معیار جتنکا زیکادہ بلنکد‬
‫ہوگا افراد بھی اتنے ہی ہنر مند ہوں گے اور اتنا ہی ملک ترقی کر سکے گا ۔‬

‫)‪ (۸‬تعلیم قدرتی وسائل کی تلش اور ان کے نفع آور استعمال میں مدد دیتی ہے ۔‬

‫)‪ (۹‬تعلیم انسانی وسائل کے فروغ کا سب سے بہترین ذریعکہ ہے۔ تعلیککم ککے توسککط سکے ہی‬
‫سائنسی اور تکنیکی ترقی ممکن ہوسکی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬قومی تعلیمی پالیسی )‪1998‬ءتا ‪2010‬ئ( میں بیان کرد ہ تعلیم ک ے ا ہم‬
‫پ ہلوو�¿ں پر روشنی ڈالی ے؟‬

‫قومی تعلیمی پالیسی برائے ‪1998‬ءتا ‪2010‬ءمیں تعلیککم کککی‬


‫اہمیت‬
‫قومی تعلیمی پالیسی برائے ‪1998‬ءتا ‪2010‬ءمیںملک بھر میں تعلیکم ککی اہمیکت ککے منکدرجہ‬
‫ذیل پہلوو�¿ں اور نکات پر زور دیا گیا ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬تعلیم کی سہولت تمام شہروں تک وسیع کی جائیگی اسلئے کہ یہ پاکستان کے ہر شہری کا‬
‫حق ہے ۔‬
‫)‪ (۲‬ناخواندگی کو یکسر ختم کرنے کے لئے تمام رسمی اور غیککر رسککمی ذرائع اسککتعمال کیکے‬
‫جائیں گ ے ۔ ‪2010‬ءتک ابتدائی عمر )‪5‬سال تا ‪9‬سال( کے بچککوں ککے داخلککوں کککی شککرح ‪100‬‬
‫فیصد تک بڑھائی جائے گی ۔‬
‫)‪ (۳‬لزمی ابتدائی تعلیم کا قانون )ایکٹ( منظور کرکے ‪05-2004‬تک نافذکردیا جائے گا ۔‬
‫)(‪۴‬جو لوگ اعل ٰی تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں ُان کے لئے عمومی میٹرک کککے سککاتھ‬
‫میٹرک ٹیکنیکل کی نئی اسکیم متعارف کرائی جائے گی۔ ٹیکنیکل تعلیم کی سککہولتیں بڑ ھائی‬
‫جائیں گی اور ٹیکنیکل اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اساتذہ کی تربیت کا پروگرام شککروع کیککا جککائے‬
‫گا تاکہ ان اساتذہ کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جاسک ے ۔‬
‫)‪ (۵‬ٹیکنیکل تعلیم اور سائنسی علوم کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے ثککانوی اور‬
‫اعل ٰی ثانوی درجوں تک کمپیوٹر کی تعلیم متعکارف ککرائی جکائے گکی۔ اسکاتذہ ککرام ککو فنکی‬
‫اورٹیکنیکل تربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں گ ے ۔‬
‫)‪ (۶‬تربیت اساتذہ کے اداروں کی موجککودہ گنجککائش کککو پککوری طککرح اسککتعمال کیککا جککائے گککا ۔‬
‫پرائمری اساتذہ کی تعلیمی سطح میٹرک کے بجائے انٹر میڈیت مقرر کرککے تعلیککم اسککاتذہ ککے‬
‫پروگرام کے معیار کو بلند کیا جائے گا۔ایف اے‪ ،‬ایف ایس سی اور بککی اے‪ /‬بکی ایکس سککی ککے‬
‫لئے دو متوازی پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔تعلیم اساتذہ کے نصاب پککر نظککر ثککانی کرککے‬
‫اس کو اس خطے کے دوسرے ممالک کے پروگراموں کے ہم پل ّہ بنایا جائے گا ۔‬
‫)‪ (۷‬نجی شعبوں کو غیر تجارتی بنیادوں پراور خاص طور پر دیہی علقوں میککں تعلیمکی ادارے‬
‫ک ھولنے ککے لئے مککالی امککداد کککی فراہمککی ککے لئے ایککک تعلیمککی فککاو�¿نڈیشککن )ایجوکیشککن‬
‫فاو�¿نڈیشن( قائم کی گئی ہے ۔‬
‫)‪ (۸‬ہر ضلع میں ایک” ضلعی مقتدرہ�¿ تعلیم“)ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی( قائم کککی جککائے‬
‫گی تاکہ تعلیمی پروگراموں کے نفاذ اور ان کی نگرانی کے لئے عوام کی شرکت کو یقینی بنایا‬
‫جاسک ے ۔‬
‫)‪ (۹‬تعلیم کے لئے قومی بجٹ کو کل قومی آمدنی کا ‪ 2.2‬فیصد سے بڑھا کککر ‪ 4‬فیصککد کردیککا‬
‫جائے گا ۔‬
‫)‪ (۰۱‬اسی پالیسی کے تحت دینی مدارس کے معیار تعلیم کو بلند کرنے‪ ،‬ان کو جدید اسکولوں‬
‫کے قریب لنے اور ان کے نصاب اور مضامین کو‬

‫سوال‪ :‬تعلیم کی سماجی و ثقافتی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬

‫سماجی و ثقافتی پہلو‬


‫جہالت اور ناخواندگی تمام سماجی برائیکوں ککی جکڑ ہے۔تعلیکم ککی کمکی ککی وجکہ سکے بکے‬
‫شمارایسی رسوم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے جو اسلمی تعلیمککات و اقککدار ککے منککافی ہیککں ۔‬
‫مثال کے طور پر شادی بیاہ کے مواقع پر ہوائی فائرنگ‪ ،‬رویت ہلل پر جھگککڑا اور منشککیات کککا‬
‫استعمال وغیر ہ ۔ لوگوں کی ذہنی سطح کا اظہار ان کی ثقافت اور طور طریقوںسے ہوتککا ہے ۔‬
‫وری‪ ،‬شاعری‪ ،‬ادب اور دیگککر‬ ‫اسی لئے ثقافتی اقدار کو بامقصد ہونا چاہیے ۔تعلیم کے بغیر مص ّ‬
‫فنون لطیفہ کو سراہا نہیں جاسکتا۔ روز مرہ ککے معمککولت اورمعککاملت میںخوبصککورتی تعلیککم‬
‫کی بدولت ہی ممکن ہے۔ایککک تعلیککم یککافتہ شکخص اپنکے ب ہتر انککداز گفتگککو ‪،‬خوبصککورت رویکے‬
‫اوراچھے برتاو�¿ سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے صککرف دولککت ہی کککافی‬
‫نہیں ہے ۔بلک ہ یہ تعلیم ہی ہے جککو انسککان کککو م ہذب اور متمککدن بنککاتی ہے ۔پککس رویککوں‪ ،‬طککور‬
‫طریقوں اور زندگی گذارنے کے انداز میںمفید تبدیلی کے لئے تعلیم ایک انت ہائی ا ہم ذریع کہ ہے ۔‬
‫اسی سے سماجی برائیوں کو مٹانے میں بھی مدد ملتی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس قسم کی ہے؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫رسمی تعلیمی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫نظام‬
‫ابتدائی یا‬ ‫‪(۱) 2‬‬ ‫‪‬‬
‫پرائمری سطح‬
‫)‪ (۲‬وسطی یا‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫مڈل سطح‬
‫)‪ (۳‬ثککانوی یککا‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫سیکنڈری سطح‬
‫)‪(۴‬اعلکککک ٰی‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫ہائیر‬ ‫ثکککانوی یکککا‬
‫سیکنڈری سطح‬
‫)‪ (۵‬سککند یککا‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫ڈگری کی سطح‬
‫)‪ (۶‬جککککامعہ‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫کی‬ ‫)یونیورسٹی(‬
‫سطح‬
‫)‪ (۷‬پیشہ ورانہ‬ ‫‪8‬‬ ‫‪‬‬
‫تعلیم‬

‫)‪(۸‬اعلکککک ٰی‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬


‫تعلیم‬

‫رسمی تعلیمی نظام‬


‫رسمی تعلیمی نظام سے مراد یہ ہے کہباقاعککدہ تعلیمککی ادارے ک ھولے جککائیں۔و ہاں نصککاب ک کے‬
‫مطابق کتب رائج کی جائیں۔اساتذہ کا تقرر کیا جائے اورامتحانات کا ایک ایسا نظام اور طریقہ‬
‫وضع کیا جائے جو طلبہ کی تعلیمی قابلیت کو جانچ سکے اور پھرکامیاب طلبہ اور طالبات میں‬
‫سرٹیفکٹ‪ ،‬ڈگریاں اور اسناد تقسیم کی جائیں۔رسمی تعلیم ککے لئے قاعککدے اور قککانون بنککائے‬
‫جاتے ہیںاور ان قواعد اور ضوابط سے اس نظام کی نگرانی کی جککاتی ہے۔کسککی سککرٹیفکٹ‪،‬‬
‫ڈگری یا سند کے حصول کے لئے ایک خاص سطح تک مطککالعہ اور پڑھ ہائی کککا دورانیکہ ہوتککا ہہہے ۔‬
‫رسمی تعلیم ککی روح اس ککی تنظیکم و تربیکت‪ ،‬انتظکام ونگرانککی و اختیککارمیں پوشکیدہ ہے ۔‬
‫رسمی تعلیم مکمل طور سے حکومت کے دائرہ اختیار میںآتی ہے۔پاکستان میں رسمی تعلیمی‬
‫نظام کو حسب ذیل سطحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔‬

‫)‪ (۱‬ابتدائی یا پرائمری سطح‬


‫پاکستان میں ابتدائی تعلیم پہلی سے پانچویں جماعت تک دی جاتی ہے ۔کل مدت پانچ سال ہے ۔‬
‫بچوں کو چار یا پانچ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخل کیا جاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬وسطی یا مڈل سطح‬


‫چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم کو وسطی )مڈل( سطح تک تعلیم کا نام دیککا‬
‫گیا ہے۔اس کی مدت تین سال ہے۔ ابتدائی )پرائمری( تعلیم میں کامیابی کے بعکد اسکککول ککی‬
‫جانب سے ایک سرٹیفکٹ جاری کیا جاتا ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬ثانوی یا سیکنڈری سطح‬


‫نویں اور دسویں جماعت کو ثانوی سطح کہا جاتا ہے۔ثانوی اسکول امتحانات میں کامیابی ک کے‬
‫بعد طلباءکو اعل ٰی ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کی مدت دوسال ہے۔اس درجککے‬
‫میں کامیابی کے بعد متعلقہ بورڈ ایک سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے ۔‬

‫)(‪۴‬اعل ٰی ثانوی یا ہائیر سیکنڈری سطح‬


‫گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کو اعلیٰ ثانوی درجہ کہا جاتا ہے۔ثانوی اسکککول امتحانککات میککں‬
‫کامیابی کے بعد طلباءکو اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کککی مککدت دو سککال‬
‫ہے ۔اس درجے میں کامیابی کے بعد متعلقہ بورڈ ایک سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے ۔‬

‫)‪ (۵‬سند یا ڈگری کی سطح‬


‫اعل ٰی ثانوی سطح کی تعلیم میں کامیابی کے بعد ِاس درجے کا آغاز ہوتککا ہے اورطلبہسککند ک کے‬
‫حصول کے لئے کسی کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔حکومت نے اس کی مدت دو سال سے بڑھا کککر‬
‫تین سال کردی ہے اور اب یہ پڑھائی کے تیرہویں سال سے پندرہویں سال تک جاری ر ہتی ہے ۔‬
‫کامیاب امیدواروں کو جامعہ )یونیورسٹی( سندیا ڈگری جاری کرتککی ہے۔تککاہم ملککک ک کے بعککض‬
‫حصوں میں اس وقت بھی ڈگری کورس کی مدت دو سال ہے ۔‬

‫)‪ (۶‬جامعہ )یونیورسٹی( کی سطح‬


‫جب طلبہ کسی کالج سے ڈگری کے درجے کے امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس ککے بعککد وہ‬
‫یونیورسٹی )جامعہ( کی سطح کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں۔اس کی مدت دو سال ہے‬

‫)‪ (۷‬پیشہ ورانہ تعلیم‬


‫پیشہ ورانہ تعلیم بھی رسمی تعلیم کا حصہ ہے۔اس کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیککا جاتککا‬
‫ہے ۔‬
‫)‪ (۱‬ڈپلوما‬
‫)‪ (۲‬انجینئرنگ کی سند‬
‫)‪ (۳‬میڈیکل کی سند‬
‫)‪ (۴‬تجارت )کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن( کی سند‬
‫)‪ (۵‬زرعی تعلیم کی سند‬

‫)(‪۸‬اعل ٰی تعلیم‬
‫ایم اے‪ ،‬ایم ایس سی‪ ،‬ایم بی اے اور ایم کام کے بعد مزید اعل ٰی تعلیککم حاصککل کککی جاسکککتی‬
‫ہے ۔ماسٹر کی سند حاص کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جاتی ہے ۔اس طرح ایککم‬
‫بی بی ایس بننے کے بعد ڈاکٹر طب کی مختلف شاخوں میں اختصاص حاصل کرتے ہیں۔ایس کے‬
‫لوگ اسپیشلسٹ )ماہر( ڈاکٹر کہلتے ہیں۔ رسمی تعلیم کے لئے حکومت نے پورے پاکستان میں‬
‫لتعداد ادارے کھول رکھے ہیں۔یہ نظام عموما ً حکومت کے زیرِ اہتمکام اور زیکزِ نگرانکی ہوتکا ہے‬
‫اور یہاں حکومت کے قواعد و ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔تککاہم اس رسککمی نظککام ِ تعلیککم‬
‫میں ہر سطح اور درجے کے لئے نجی تعلیمی ادارے بھی ک ھل گئے ہیککں ۔لیکککن ان نجککی اداروں‬
‫کی فیس سرکاری اداروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ عموما ً ملک کے متوسط طبقے کے لئے‬
‫ل برداشت ہوتے ہیں ۔‬
‫ناقاب ِ‬
‫سوال‪ :‬تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب ک ے ا ہم اجزاءکیا ہیں؟‬
‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫تعلیم اور پڑ ھائی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫ککککککککے منصکککککککوبے‬
‫اوراسکیمیں‬
‫)‪ (۱‬ابتکککدئی یکککا‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫پرائمری سطح‬
‫)‪ (۲‬وسککطی یککا‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫مڈل سطح‬
‫)‪ (۳‬ثانوی سطح‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪(۴‬اعل ک ٰی ثککانوی‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫سطح‬
‫)‪ (۵‬ڈگککری کککی‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫سطح‬

‫)‪ (۶‬یونیورسککٹی‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬


‫کی سطح‬

‫تعلیم اور پڑھائی کے منصوبے اوراسکیمیں‬


‫تعلیم یا مطالعہ کے منصوبوں )اسکیموں( سے مختلف درجات میں مجوزہ نصاب مراد ہوتا ہے ۔‬
‫تعلیم کے مختلف درجات اور سطحوں کے لئے تعلیمی منصوبے ایککک دوسککرے س کے قطع کا ً جککدا‬
‫ہوتے ہیں ۔یہہ منصوبے ذیل کے مطابق ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬ابتدئی یا پرائمری سطح‬
‫ابتککدائی یککا پرائمککری سکطح ککے مضککامین میککں علقککائی زبککانیں‪ُ ،‬اردو‪ ،‬گنککتی‪ ،‬سککادہ حسککاب‪،‬‬
‫مطالعہ�¿ فطرت اور اسلمیات شامل ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬وسطی یا مڈل سطح‬


‫اس اسکیم کے مضامین میککں علقککائی زبککانیں‪ُ ،‬اردو‪ ،‬انگریککزی‪ ،‬الجککبرا‪ ،‬جیومیککٹری‪ ،‬سکائنس‪،‬‬
‫معاشرتی علوم اور اسلمیات شامل ہیں ۔‬

‫)‪ (۳‬ثانوی سطح‬


‫اس سطح پر ُاردو‪ ،‬انگریزی‪ ،‬اسلمیات اور مطالعہ پاکستان تمککام گروپککوں ک کے طلب کہ ک کے لئے‬
‫لزمی مضامین ہیں ۔فنون )ہیومینٹیز( کے طلبہ کے لئے جنرل سککائنس لزمککی مضککمون ہے ۔اس‬
‫کے علوہ وہ ریاضی اور فنون کے دو مضامین بھی اختیککار کرسکککتے ہیککں۔سائنسککی گککروپ ککے‬
‫طلبہ لزمی مضامین کے ساتھ ساتھ طبیعات‪ ،‬کیمیا‪ ،‬ریاضی اور حیاتیات بھی پڑھتے ہیں ۔‬

‫)(‪۴‬اعل ٰی ثانوی سطح‬


‫اس سطح میں سائنس اور فنون دونوں گروپوں کے طلبکہ ککے لئے ُاردو‪ ،‬انگریککزی‪ ،‬اسککلمیات‬
‫اور مطالعہ پاکستان لزمی مضامین ہیں۔سائنس گروپ کے طلبہ سائنس کے تین مضککامین اور‬
‫فنون گروپ کے طلبہ فنون کے تین مضامین منتخب کرتے ہیں۔سائنس کے پھر تین گروپ بنتککے‬
‫ہیں یعنی پری میڈیکل‪ ،‬پری انجینئرنگ اور جنرل سائنس گروپ۔ کامرس گروپ کے طلبہ بھہہہی‬
‫تجارت )کامرس( کے تین مضامین منتخب کرتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۵‬ڈگری کی سطح‬


‫بی اے اور بککی ایککس سککی ککے سکطح یککا درجکے پککر فنکشککنل انگریککزی‪ ،‬مطککالعہ پاکسککتان اور‬
‫اسلمیات لزمی مضامین ہیں۔اختیاری مضامین کی ایک فہرست میں سکے تمکام گروپکوں ککے‬
‫طلبہ دو سے تین تک اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۶‬یونیورسٹی کی سطح‬


‫ماسٹرز کے درجے کے لئے طلبہ تعلیم کے کسی ایک شعبے کا مطککالعہ کرتکے ہیککں اور ہر شککعبے‬
‫میں وہ سات یا آٹھ مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں۔یہاں پر طلبہ کککو مختلککف مضککامین میککں س کے‬
‫اپنی پسند کا مضمون منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح )ایم اے‪/‬ایککم ایککس‬
‫سی( کے بعد طلبہ ان مضامین میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کرسکتے ہیں جو انہوں نے ایککم اے یککا‬
‫ایم ایس سی کی سطح پر منتخب کیے تھے۔جو لوگ پیشہ ورانہ نوعیت کی سند حاصککل کرتککے‬
‫ہیں انہیں بھی اپنے اپنے میککدانوں میککں ایککم فککل اور پککی ایککچ ڈی کرنکے کککی اجککازت ہ ہوتی ہہہے ۔‬
‫انجینئرنگ ‪ ،‬طب)میڈیکل(‪ ،‬زراعت اور تجارت )کامرس( اختیاری مضککامین ہیککں۔ان میککں طلبکہ‬
‫کے لئے انتخاب بہت وسیع نہیں ہوتا ہے ۔ ان کو طے شدہ مضامین میںسے ہی پڑھنا ہوتا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬تربیت اساتذ ہ پر ایک نوٹ تحریر کیجئ ے؟‬


‫‪Contents‬‬
‫]‪[hide‬‬

‫ت‬
‫تربیکککک ِ‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬
‫اساتذہ‬
‫)‪(۱‬‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫پرائمککککککککری‬
‫اسکککککککککککول‬
‫اساتذہ‬
‫)‪ (۲‬مککڈل‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫اسکککککککککککول‬
‫اساتذہ‬

‫ثانوی‬ ‫‪(۳) 4‬‬ ‫‪‬‬


‫اسکککککککککککول‬
‫اساتذہ‬

‫ت اساتذہ‬
‫تربی ِ‬
‫کوئی بھی تعلیمی نظام اپنے اساتذہ کی علمی سطح پر بلند ترین ہوتا ہے۔ کسککی ب ھی نظککام ِ‬
‫تعلیم میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اساتذہ مناسککب علککم‬
‫اور مہارت کے حامل ہوں اور تعلیم کے مقاصد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کککو پککورا کرن کے‬
‫ت اساتذہ کی چند مخصوص سطحیں ہیں جو اساتذہ‬ ‫کے لئے مناسب رویہ اختیار کرتے ہوں۔ تربی ِ‬
‫ش نظر رکھی گئی ہیں ۔‬ ‫کی عمومی تعلیمی قابلیت کے پی ِ‬
‫)‪ (۱‬پرائمری اسکول اساتذہ‬
‫پرائمری اسکول کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے بشرطیکہ انہوں نکے ثکانوی اسککول امتحککان‬
‫میں لزما ً کامیابی حاصل کرلی ہو ۔ان ہیں ایک سال کی تربیت مہیککا کککی جککاتی ہے ۔تربیککت کککی‬
‫تکمیل کے بعد انہیں پرائمری ٹیچرز سرٹیفکٹ )پی ٹی سی( کی سند دی جاتی ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬مڈل اسکول اساتذہ‬


‫ایسے افراد جو اف اے‪/‬ایف ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے ہوں انہیککں ایککک‬
‫سال کی تربیت دی جاتی ہے اور سرٹیفکٹ ِان ایجوکیشن )سی ٹی( کی سککند دی جککاتی ہے ۔‬
‫پی ٹی سی اور سی ٹی کی تربیت گورنمنٹ کالجز آف ایلیمینٹری ایجوکیشن )جککی سککی ای(‬
‫میں مہیا کی جاتی ہیککں۔لڑککوں اور لڑکیکوں ککے لئے علیحکدہ علیحکدہ ایلیمینکٹری کالکج ہیکں۔یکہ‬
‫ایلیمینٹری کالج ملک کے اندر ضلعی صدر مقام پر کھولے گئے ہیں ۔‬

‫)‪ (۳‬ثانوی اسکول اساتذہ‬


‫ایسے افراد جککو بککی اے‪/‬بککی ایککس سککی کککی سککند ککے حامککل ہوں انہیککں گککورنمنٹ کالککج آف‬
‫ایجوکیشن میں ایک سال کی تربیت دی جاتی ہے۔جو ”بیچلرزآف ایجوکیشن )بی ایڈ(“ کہلتککی‬
‫ہے۔یہ کالج ملک کے ہر صوبے میں چند منتخب مقامات پر کھولے گئے ہیککں۔جککو لککوگ تعلیککم ککے‬
‫کسی ایک شعبے میں خصوصی مہارت حاصل کرنککا چککاہتے ہیںککوہ ایککک سککال کککی مزیککد تربیککت‬
‫حاصل کرتے ہیں ۔جس ے ”ماسٹر آف ایجوکیشن )ایم ایڈ(“ کہتے ہیں ۔کورس کالج آف ایجوکیشن‬
‫یا جامعات کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں کرائے جاتے ہیں۔چند اسککاتذہ جامعککات ککے تعلیککم‬
‫کے میدان میں ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کرتے ہیں۔ایم ایڈ اور ایم فل اسناد کے حامککل افککراد‬
‫کالج آف ایجوکیشن میں پڑھاتے ہیں۔ جامعہ کی سطح پر اساتذہ کو تربیت دینے کے لئے پی ایچ‬
‫ڈی افراد کا تقرر کیا جاتا ہے۔ علمہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنے فاصلتی تعلیمی نظککام کککے‬
‫تحت ایسے اساتذہ کی تربیت کا آغاز کیا ہے جو تربیت اساتذہ ک کے باقاعککدہ اداروں ک کے رسککمی‬
‫کورس میں کسی وجہ سے شریک نہیں ہوسکت ے ۔ قککومی تعلیمککی پالیسککی ‪1998‬ءتککا ‪2010‬ئ(‬
‫کے تحت تربیت اساتذہ کے کورسوں کو جدید بنایا گیا ہے اور اسی کی مطابقت میں ہر سککطح‬
‫پر تربیت کی مدت اور وقفہ بھی بڑھادیا گیا ہے اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی بہتر کی گئی ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں فنسسی )ٹیکنیکسسل( اور پیشس ہ ورانس ہ تعلیسسم کسسی ا ہمیسست بیسسان‬
‫کیجئ ے؟‬

‫فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم)ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم(‬


‫جدید عہد فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا عہد ہے ۔ جس کی بدولت اقتصادی اور صنعتی ترقی کی‬
‫رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے حکومت نے ملک میں فنککی اور پیشکہ ورانکہ‬
‫تعلیم کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ہر ضلعی صدر مقام پککر پککولی ٹیکنککک انسککٹیٹیوٹ‬
‫کھولے گئے ہیں۔ان اداروں میں میٹرک میں کامیاب ہونے والے طلبہ کو اہلیت کی بنیککادپر داخککل‬
‫کیا جاتا ہے۔فارغ التحصیل طلبہ کو فنی )ٹیکنیکل( تعلیم کا ڈپلومہ دیا جاتا ہے۔حکومت نکے ملککک‬
‫بھر میں ایسےکئی منصوبے شروع کئے ہیں جن کا مقصککد ان فنککی تعلیمککی اداروں کککو آلت و‬
‫سازوسامان کی سہولتیں فراہم کرنا‪ ،‬فنی تعلیم کے نصاب ککو ب ہتر بنانککا اور فنککی تعلیکم مہیکا‬
‫کرنے والے اساتذہ تیار کرنا ہے۔حکومت پاکستان نے ایک سائنسی تعلیم کے پروگرام کا آغاز کیا‬
‫ہے جس کا مقصد ریاضی اور سائنس کی تعلیم ککے نصککابوں ککے معیککار کککو بہ ہتر کرنککا ہہہے۔ان‬
‫نصابوں سے تقریبًاچھ فیصد طلبہ کامیاب ہوں گ ے ۔‬
‫حکککو مککت پاکسککتان ن کے صککوبہ سککرحد میککں ٹککوپی )‪ (TOPI‬ک کے مقککام پککر غلم اسککحاق خککان‬
‫انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کیا ہے۔جو فنی تعلیم کا سب سے زیادہ معیککاری اور جدیککد ادارہ‬
‫ہے۔اس کا معیار بین القوامی سطح کا ہے مگر اس ادارے میں صرف مالدار افککراد ہہہی تعلیککم‬
‫حاصل کرسکتے ہیں۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی پیشہ ورانہ اور فنی تربیت کا ایک ادارہ قائم‬
‫کیا گیا ہے جو کپڑے کی صنعت کے ماہرین تیار کرتا ہے ۔‬
‫سندھ میں پولی ٹیکنیک ادارے اور کالج کراچی‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬بدین اور نواب شاہ میککں قککائم ہیککں ۔‬
‫سندھ میں ہر ضلع کے صدر مقام پر ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کئے گئے ہیں ۔‬
‫حکومت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر اس لئے زور دے رہی ہے تککاکہ ایسکے سککند یککافتہ اور تعلیککم‬
‫یافتہ فنی ہاتھ تیار کئے جاسکیں جو بین القوامی مارکیٹ میکں مقکابلے ککے لئے اعلک ٰی معیکاری‬
‫فنی مصنوعات تیار کرسکیں۔ حکومت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی بہتری پر کثیر رقککم خککرچ‬
‫کررہی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں تعلیم ک ے میدان میسسں انفارمیشسسن ٹیکنسسالوجی )اطلعسساتی‬


‫فّنییت( ک ے کیا مقاصد ہیں؟‬

‫معنی اور مفہوم‬


‫اطلعاتی فّنییت )انفارمیشن ٹیکنالوجی ‪ (IT‬مواصلت )ٹیلی کمیونیکیشن( کے میککدان میںایککک‬
‫جدید اختراع ہے۔اس فّنییت کی بدولت اعدادوشمار انٹرنیٹ کے ذریع کے ہزاروں کلککو میککٹر دور‬
‫ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کئے جاسکتے ہیں۔افراد اور اداروں نے اپنککی اپنککی ویکب‬
‫سائٹس تخلیق کی ہیں جو پلک جھپکتے ہی مطلوبہ معلومات مہیا کردیتی ہیں ۔ انککٹرنیٹ درآمککد‬
‫اور برآمد اور تحقیقاتی مواد کے حصول کا تیز رفتار ذریعہ بن گیا ہے۔اطلعاتی فّنییککت ک کے لئے‬
‫مہارت اور ہنر مندی کی ضرورت ہے تاکہ مشینوں کو چلیککا جاسککک ے۔پاکسککتان میککں اطلعککاتی‬
‫فّنییت کا مستقبل بہت روشککنہے۔کئی غیککر ملکککی کمپنیککاں وسککیع پیمککانے پککر اس میککدان میککں‬
‫سرمایہ کاری کررہی ہیں ۔‬

‫مقاصد‬
‫تعلیم کے میدان میں اطلعاتی فّنییت کے بھر پور پروگرام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬ہر درجے پر اطلعاتی فّنییت کے اطلق سے پاکستان کے نظام تعلیم کو جدید بنانا ۔‬
‫)‪ (۲‬انٹرنیٹ کے ذریعے جدید تحقیق اور تازہ اطلعات و معلومات تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬ہر عمر کے بچوں میں اطلعاتی فّنییت کو مقبول بنانا اور انہیں آئندہ عشروں کے لئے تیککار‬
‫کرنا ۔‬
‫)‪ (۴‬کمرہ جماعت میں تعلیم کے آلہ کار کے طور پر کمپیوٹر کے مختلف کککرداروں پککر زور دینککا‬
‫ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬اساتذہ کی تربیت اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے رسل و رسائل ککی ٹیکنککالوجی ککو‬
‫استعمال کرنا ۔‬
‫پاکستان ۔ ایک فلحی مملکت‬ ‫‪‬‬

‫فلحی ریاست سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪‬‬


‫اسلمی فلحی ریاست کا کیا تصور ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان کے قومی مقاصد کیا ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫خوراک میں خود کفالت کیوں ضروری ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫امن کیوں ضروری ہے؟‬ ‫‪‬‬
‫فلحی ریاست میں فرد کا کیا کردار ہونا چاہیے؟‬ ‫‪‬‬
‫تعلیم عامہ کے لیے حکومت نے کیا اقدام اٹھاءے ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫عادلنہ اور مساویانہ معاشرہ پر ایک نوٹ لکھیں؟‬ ‫‪‬‬
‫پاکستان میں مسلسل تعمیری کاوشیں کیوں ضروری ہیں؟‬ ‫‪‬‬
‫فلحی ریاست یا فلحی مملکت کے فراءض؟‬ ‫‪‬‬
‫مختصر سوالت و جوابات؟‬ ‫‪‬‬
‫سوال‪ :‬فلحی ریاست س ے کیا مراد ہے؟‬

‫فلحی ریاست سے مراد ایک ایسی ریاست ہے جو اپنے شہریوں کی بنیککادی ضککروریات‬ ‫‪‬‬
‫کا خیال رکھے اور انہیں اس قابل بنکائے ککہ وہ ُپکر امکن وُپرسککون زنکدگی گزارسککیں ۔‬
‫ریاسککت کککے مقاصککد میککں ج ہالت و ناخوانککدگی‪ ،‬غربککت و افلس اور معاشککرے س کے‬
‫ناانصافی کا خاتمہ شامل ہوتے ہیں۔اپنے شہریوں کو ایسے مواقکع اور مکاحول مہیکا کرنکا‬
‫بھی اس کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے جس میںککوہ اپنککی فطککری صککلحیتیں ُاجککاگر کککر‬
‫سکیں ۔‬

‫سوال‪ :‬ایک اسلمی فلحی ریاست کا کیا تصور ہے؟‬ ‫‪‬‬

‫فلحی مملکت کے بارے میں اسلمی تصور‬ ‫‪‬‬

‫فلحی مملکت کا تصور کوئی نیا نہیں ہے۔اسلم نے چودہ سو سال قبل فلحی مملکککت‬ ‫‪‬‬
‫کا تصور پیش کیا تھا اور خلفت راشدہ کے دور میں اس پر مکمل طور پر عمککل کیککا گیککا ت ھا ۔‬
‫ایک اسلمی فلحی ریاست کا تصور حسب ذیل ہے ۔‬

‫اسلم میں اقتدارِ اعل ٰی اللہ تبارک و تعال ٰی کے پاس ہے۔ریاست نیابتکا ً اپنکے شکہریوں‬
‫( )‪۱‬‬ ‫‪‬‬
‫کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ہر کس و ناکس کو بل کسی امتیاز ککے‬
‫انصاف فراہم کرتی ہے۔یہاں قانون کی نظر میں سب برابرہوتے ہیں۔افراد کے درمیککان فککوقیت‬
‫اور برتری کا دارومدارصرف تقویٰ )اللہ کے خوف( کی بنیاد پرہوتا ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬اسلمی فلحی ریاست میں یہ لزم ہے کہ حاکم اسلم کے بنیادی احکامات کککا پابنککد‬ ‫‪‬‬
‫ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے وال مسلمان ہو ۔حاکم تو صرف امین ہوتاہے ۔‬

‫)‪ (۳‬اسلمی فلحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے۔وہ ہمیشکہ عککوام کککی فلح و‬ ‫‪‬‬
‫بہبود کے بارے میں سوچتا ہے ۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬اسلمی فلحی ریاست میں حکومت ہمیشہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔یہ‬ ‫‪‬‬
‫تمام شہریوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔یکہ ریاسکت غیکر‬
‫مسلموں سمیت تمام افراد کو بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے ۔‬
‫ب لباب یہ ہے ککہ یکہ مسکاوات ) ہر سکطح پکر‬
‫)‪ (۵‬اسلمی فلحی ریاست کے تصور کا ل ِ‬ ‫‪‬‬
‫برابری(قائم کرتی ہے اور اس کے حکمران عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرت کے ہیککں اور ہر‬
‫شخص کی ان تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور یہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے قومی مقاصد کیا ہیں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫پاکستان کے قککومی‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫مقاصد‬
‫)‪ (۱‬اسککککککلمی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫معاشرے کا قیام‬
‫)‪ (۳‬ریاسکککت ککککی‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫حفاظت‬
‫)‪ (۴‬خود کفالت‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۵‬مسککلم ممالککک‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫کککککے سککککاتھ اتحککککاد و‬
‫یکجہتی‬
‫)‪ُ (۶‬پرامکککککککن‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫کوششیں‬

‫)‪ (۷‬فلحی ریاسکت‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬


‫کککککے قیککککام کککککے لئے‬
‫جدوجہد‬

‫پاکستان کے قومی مقاصد‬


‫پاکستان ایک آزاد‪ ،‬خودمختار اسلمی ملک ہے ۔اس کے قومی مقاصد مندرجہ ذیل ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬اسلمی معاشرے کا قیام‬


‫اسلمی تعلیمات اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ایک اسلمی معاشرہ کا قیام سب سے‬
‫اہم قومی مقصد ہے۔قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی تخلیقکا مقصد صککرف زمیککن کککا‬
‫ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ کا قیام تھا۔ جہاں اسککلمی اصککولوں کککو‬
‫بروئے کار لیا جاسکے۔اس لئے یہ ہر پاکسککتانی کککا فککرض ہے ک کہ وہ ایسککی تمککام کاوشککوں اور‬
‫کوششوں میں شریک ہوں جن کا مقصد ایسا ماحول پیدا کرنا ہو جس میں لوگ انفککرادی اور‬
‫اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں اسلمی اصولوں کے مطابق بسر کرسکیں ۔ ) ‪ (۲‬استحصال کے‬
‫خلف جدوجہد== مساوات‪ ،‬سماجی انصاف‪ ،‬باہمی عزت و احترام اور تعاون کے اصولوں پر‬
‫مبنی ایک اسلمی معاشرے کا قیام ہی ہمارا بنیادی قومی مقصد ہے ۔ی ہ اسی وقت ممکککن ہے ۔‬
‫جب ہرفردکو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مساوی مواقع حاصککل ہوں اور وہ ج ہالت‪ ،‬غربککت‬
‫اور استحصککال کککا شکککار نککہ ہو۔اسککی لئے ج ہالت‪ ،‬ناخوانککدگی‪ ،‬غربککت افلس اور معاشککی‬
‫استحصال کے خلف جدوجہدبھی ہمارا ایک قومی مقصد ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬ریاست کی حفاظت‬
‫ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنا بھی حکککومت اور عککوام کککی‬
‫مشترکہ ذمہ داری ہے ۔قومی تشخص اور آزادی کا تحفظ بھی ہمارا ایک اہم قومی مقصد ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬خود کفالت‬


‫خودکفالت ایک بہت وسیع المعنی اصطلح ہے۔لیکککن قککومی مقاصککد ککے حککوالے سکے اس ککے‬
‫معنی یہ ہیں کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پککر خککود کفیککل بنایککا جککائے۔اس ککے لئے‬
‫قومی سطح پر مسلسل کوششوں اور کاوشوں کککی ضککرورت ہے۔ اس ک کے لئے محنککت کککی‬
‫جائے‪ ،‬اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے اور تعلیککم اور سائنسککی علککوم کککو فککروغ دیککا جککائے اور‬
‫”پاکستانیت“ کا جذبہ و احساس پککروان چڑھایککا جککائے تککاکہ خککود انحصککاری کککی منککزل حاصککل‬
‫ہوسکے ۔‬

‫)‪ (۵‬مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و یکجہتی‬


‫یہ بھی ہمارا قومی مقصد ہے کہ اسلمی ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیککا جککائے‬
‫مک ہ کککی تنظیککم )آرگنائزیشککن آف‬ ‫اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر یکجککا کیککا جککائے۔ہمیککں اسکلمی ا ُ ّ‬
‫مہ کے مفادات سے‬ ‫اسلمک کنٹریز‪-‬او آئی سی( کے کردار کو زیادہ مضبوط بنانا ہے تاکہ مسلم ا ُ ّ‬
‫سو ہوکر عمل کیا جائ ے ۔‬ ‫متعلق معاملت پر یک ُ‬
‫)‪ُ (۶‬پرامن کوششیں‬
‫بین القوامی اور علقائی امن کا فککروغ‪ ،‬غیککر منصککفانہ بیککن القککوامی معاشککی اصککلحات اور‬
‫نسلی امتیاز کا خاتمہ بھی ہمارے قومی مقاصد میں شامل ہے ۔‬

‫)‪ (۷‬فلحی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد‬


‫سب سے اہم مقصدپاکستان کو فلحی ریاست بنانا ہے ۔ہمار ے وسائل محدود ہیں ۔پاکسککتان کککو‬
‫دبراور دور اندیش قیادت کککی کمککی ہے جککس‬ ‫فلحی ریاست بنانے میںسب سے بڑی رکاوٹ م ّ‬
‫کی وجہ سے اس کے وسائل بہت غیر منظم ہیں۔اس کےلئے ہمیں شککرح خوانککدگی میککں اضککافہ‬
‫کرکے‪ ،‬سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیم کوبڑہا کر اپنے وسائل کو فروغ دینا ہوگا ۔پاکستان کو فلحی‬
‫ریاست بنانے کے لئے سماجی برائیوں اور بدعنوانیوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬خوراک میں خودکفالت کیوں ضروری ہے؟‬

‫خوراک میں خودکفالت‬


‫خوراک عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔نا مناسب یا کم خوراک کا نتیجہ عوام کی خککراب صککحت‬
‫کی صورت میں نکلتا ہے۔جب عوام صککحت منککد نہیککں ہونگے تککو ان کککی کککارکردگی ب ھی کککم‬
‫ہوجائے گی جس سے ملک کی تعمیر و ترقی و فروغ کا عمل سست پڑجاتا ہے۔بیرونی ممالک‬
‫سے خوراک کی درآمد سے ترقی و فروغ کے دیگر شعبوں پر ُبرا اثر پڑتا ہے۔ خاص طککور س کے‬
‫صنعتی ترقی و فروغ پر کیونکہ غذائی اجنککاس کککی درآمککد پرکککثیر زِرمبککادلہ خککرچ ہوجاتککا ہے ۔‬
‫پاکستان کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے۔پاکستان کی آبادی کی اکثریت زراعت سککے‬
‫وابستہ ہے۔قومی آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ زرعی پیداوار اور زراعککت پککر مبنککی مصککنوعات س کے‬
‫حاصل ہوتا ہے۔ چاول‪ ،‬کپاس اور گّنا )چینی( جیسی زرعی فصلیں زِرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعککہ‬
‫ہیں۔صنعتوں کے لئے بھی زراعت بہت اہم ہے۔کپڑے کی صککنعت‪ ،‬شکککر سککازی کککی صککنعت اور‬
‫بناسپتی تیل کی صنعت جیسی بے شمار صنعتوں کا انحصار زرعی پیداوار پر ہے۔زرعی ترقککی‬
‫صرف خوراک و غذا کے لئے نہیں ہے بلکہ صککنعتی ترقککی و نشککونما ککے لئے ب ھی ضککروری ہے ۔‬
‫صنعتی مصنوعات بھی زراعت کے فروغ میں استعمال ہوتی ہیں۔ زرعکی پیکداوار بڑ ھانے سکے‬
‫ہم مندرجہ ذیل فوائد کے حامل ہوسکیں گے ۔‬
‫)‪ (۱‬قیمتی زِرمبادلہ بچا سکیں گے جو غذائی اجناس کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے ۔‬
‫)‪ (۲‬مزید صنعتیں قائم کرسکیں گے‪ ،‬پیداوار بڑھا سکیں گے اور زِرمبادلہ کماسکیں گ ے ۔‬
‫)‪ (۳‬بیرونی قرضوں کو کم کرسکیں گ ے ۔‬
‫ت خرید بڑھا سکیں گے اور معیارِ زندگی بہتر کرسکیں گ ے ۔‬
‫)‪ (۴‬عوام کی قو ِ‬
‫)‪ (۵‬تجارت اور کاروبار کو پھیلسکیں گ ے ۔‬
‫)‪ (۶‬عوام کی روزگار کے مواقع مہیا کرسکیں گے اور غربت مٹا سکیں گ ے ۔‬

‫خوراک میںخودکفیل بنانے میں حکومت کے مقاصد‬


‫حکومت زرعی شعبے کی ترقی و فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔اس کا مقصککد یکہ ہے ککہ‬
‫ملک کو خوراک کے معاملے میں خودکفیل بنایا جاسکے۔اس مقصد کے لئے حکومت نے منککدرجہ‬
‫ذیل اقدام ُاٹھائے ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬ملک میں زرعی اصلحات نافذ کی گئی ہیں۔جن کا مقصد یہ ہے کہ زمیککن کککی ملکیککت کککو‬
‫محدود کیا جائے اور زمین کی ملکیت کی ایک زیادہ سے زیادہ حد مقککرر کککی جککائے اور چ ھوٹے‬
‫کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائ ے ۔‬
‫)‪ (۲‬ترقیاتی منصوبوں میں زرعی شعبے کی ترقی اور فروغ کے لئے خطیر سرمایہ خرچ کرکے‬
‫زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬ڈیم کی تعمیر اور چند نئے علقوں میں آبی نہروں کی تعمیر کے ذریعے وسائل کو وسککعت‬
‫دی گئی ہے ۔‬
‫)‪ (۴‬زرعی ترقیاتی بینک اور امداد ِ باہمی کی انجمنیں قائم کی جارہی ہیں تاکہ کاشتکاروں کککو‬
‫قرضے دیے جاسکیں ۔‬
‫)‪ (۵‬کثیر تعداد میں زرعی ادارے قائم کیے گئے ہیں جو زرعی مسککائل ککے بککارے میککں مشککورے‬
‫دیتے ہیں جو زیادہ پیداوار کے لئے معیاری اور صحت مند بیج تجویز کرتے ہیں ۔‬
‫)‪ (۶‬حکومت کی جانب سے مصنوعی کھاد جراثیم کش ادویات‪ ،‬ٹریککٹر اور دیگکر متعلقکہ آلت‬
‫کو خریدنے کے لئے بے شمار سہولتیں مہیا کی گئی ہیککں۔ حکومککتی کوششککوں ککے نککتیجے میککں‬
‫پاکستان کئی زرعی پیداواروں میں تقریبًاخودکفیل ہوگیککا ہے ۔ ان میککں چککاول‪ ،‬کپککاس‪ ،‬گنککدم‪،‬‬
‫چینی اور مصنوعی کھاد شامل ہیں۔اس طرح غذائی اجناس کی درآمد سے بچککا ہوا زِرمبککادلہ‬
‫صنعتوں کے قیام میں خرچ ہوسکتا ہے اور وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جککب پاکسککتان خککوراک ک کے‬
‫معاملے میں خود کفیل ہوجائے گا ۔‬

‫سوال‪ :‬ساری دنیا میں امن کیوں ضروری ہے؟‬


‫موجودہ دنیا عمل ً ایک عالمی گاو�¿ں )گلوبککل ولیککج( بککن کککر رہ گئی ہے۔جدیککد سککائنی پیککش‬
‫رفت‪،‬ٹیکنالوجیزکی ترقی اورذرائع رسل و رسائل کے اضافے سے فاصلے کم ہوگئے ہیں ۔اقککوام‬
‫عالم اب خود کککو ایککک دوسککرے ککے زیککادہ قریککب محسککوس کرتککی ہیککں ۔خلءکککی تسککخیر اور‬
‫مصنوعی سیاروں کی ایجاد نے فاصلوں کو مزید کم کردیا ہے۔بھائی چککارے ککی ایککک فضاسککی‬
‫پیداہوگئی ہے۔اقوام متحدہ نے بھی اقوام عالم کو ایک دوسرے کے قریککب لنکے میککں خاصکہ ا ہم‬
‫کردار ادا کیا ہے ۔اب عالمی مسککائل تمککام اقککوام ککے لئے یکسککاں سککمجھے جککاتے ہیککں ۔عککالمی‬
‫وسائل میںبھی سب کی کسی نہ کسی طرح شرکت ہوجاتی ہے۔جدیککد ٹیکنککالوجیز ککے ثمککرات‬
‫بھی تمام اقوام پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ایک دوسرے کی امداد ککے نککتیجے میککں عککالمی مسککائل‬
‫میں کمی واقع ہوئی ہے۔کسی ہولناک تباہی‪ ،‬قحط و آفات و بربادی کی صورت میککں دنیککا ک کے‬
‫ممالک کی ایک بڑی تعداد باہم متحد ہوجاتی ہے اور دنیککا ککے اس متککاثرہ علقکے کککی امککداد و‬
‫بچاو�¿ کے لئے پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ امن اور بھائی چکارے ککے احسکاس ککے فکروغ ککی‬
‫بدولت ہی حاصل ہوسکا ہے ۔‬

‫پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے ککہ دنیککا ککے‬
‫تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔عالمی امن کو فروغ دینے ککے لئے اس نکے‬
‫ہمیشہ اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔پاکستان ایسی کئی عالمی تنظیمکوں ککا‬
‫رکن ہے جو دنیا میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔ ایک اسلمی ملک ہونے‬
‫کے ناطے سے بھی پاکستان ایسے اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔جو ایک دوسرے ک کے سککاتھ امککن و‬
‫سکون سے رہنے اور تشدد اور جارحیت کی حوصلہ شکنی ککا درس دیتکے ہیکں۔اگکر چکہ اسکلم‬
‫میں ضرورت کے وقت ہتھیار ُاٹھانے کی اجازت ہے۔لیکن بے رحمککی اور ظلککم و ناانصککافی کککی‬
‫سخت ممانعت کی گئی ہے۔ عالمی بھائی چارے اور امن کے لئے اقوام عالم کے مککابین محبککت‬
‫و یگانگت کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔جککس ککے لئے ضککروری ہے ککہ مختلککف ممالککک ککے مککابین‬
‫تنازعات کو ُپر امن طریقے سے حل کروایاجائے اور ملکوں کی آزادی اور سرحدوں ککا تحفکظ‬

‫سوال‪ :‬فلحی ریاست میں فرد کا کیا کردار ہوتا ہے؟‬

‫فلحی ریاست میں فرد کا کردار‬


‫جہاں فلحی ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتی ہے وہیں شہریوں سے ب ھی‬
‫توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاست و مملکت کے لئے اپنے فرائض اور ذمے داریاں خککوش اسککلوبی‬
‫ج ذیل ہیں ۔‬
‫سے ادا کریں گ ے ۔کسی بھی مملکت کے لئے فرد کے چندممکنہ اہم فرائض در ِ‬
‫)‪ (۱‬ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار رہے اور آزمائش کے وقت قربانی سکے ُ‬
‫گریککز نکہ‬
‫کر ے ۔‬
‫)‪ (۲‬ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے حقوق کککا احککترام کککرے اور ان کککی جککان و‬
‫مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر ے ۔‬
‫ب رسککانی‪،‬‬ ‫ت عامہ کی جککو س کہولتیں مث ً‬
‫لبجلککی‪ ،‬گیککس‪ ،‬آ ِ‬ ‫)‪ (۳‬ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ مفادا ِ‬
‫پبلک پارک‪ ،‬ذرائع نقل و حمل وغیرہ حکومت فراہم کرتی ہے وہ ُان کی حفاظت کر ے ۔‬
‫)‪ (۴‬ایک شہری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر فلحککی سککرگرمیوں میککں‬
‫ملوث ر ہے ۔‬
‫)‪ (۵‬شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ماحول کو صاف ستھرا رکھیں ۔‬
‫)‪ (۶‬تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کریں اور سرکاری یا نجککی املک‬
‫کو نقصان نہ پہنچائیںاوراحتجاج اور ہڑتالوں کے وقت گاڑیوں کی توڑ پ ھوڑ‪ ،‬ٹریفککک سککگنلز اور‬
‫مکانوں کو نقصان پہنچانے سے ُ‬
‫گریز کریں ۔‬
‫)‪ (۷‬ہر شہری کو‪ ،‬جس حد تک ممکن ہو‪ ،‬اپنے اطراف میں غریب‪ ،‬معککذور اور مسککتحق افککراد‬
‫کی مدد کرنی چاہئ ے ۔‬
‫ے کککوئی ُہنککر سککیکھے اور قککدرتی وسککائل‬‫)‪ (۸‬ہر شہری کا فککرض ہے ککہ وہ تعلیککم حاصککل کککر ‪،‬‬
‫کوسلیقے سے استعمال کرے تاکہ ترقی کی رفتار تیز تر ہو ۔‬

‫سوال‪ :‬تعلیم عام ہ ک ے لئ ے حکومت ن ے کیا اقدام ُاٹ ھائ ے ہیں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫تعلیم عامہ‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫)‪ (۱‬تعلیمی شعبے‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫میں اصلحات‬
‫)‪ (۳‬مفت تعلیم‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۴‬اسککاتذہ کککے‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫لئے سہولتیں‬
‫)‪ (۵‬وظائف‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۶‬خواندگی مہم‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۷‬تعلیککم سککب‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬
‫کے لئے‬
‫‪ (۸) 8‬سکککرکاری‪-‬‬ ‫‪‬‬
‫نجککککککی شککککککراکت‬
‫کامنصوبہ‬

‫)‪ (۹‬تعلیمکککککی‬ ‫‪9‬‬ ‫‪‬‬


‫اداروں کککککو مککککالی‬
‫امدادکی فراہمی‬

‫تعلیم عامہ‬
‫اسلم میں اور اقوام متحدہ کے منشور میں‪ ،‬تعلیم کو انسانوں کا بنیادی حککق تسککلیم کیککا گیککا‬
‫ہے ۔اس لئے ایک خاص حد تک شہریوں کے لئے تعلیم لزمککی اور مفککت ہ ہونی چککاہئے ۔اس معیککار‬
‫اور درجے تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع تمام شہریوں کے لئے یکساں ہونے چککاہئیں۔اس کککے‬
‫لئے تعلیمی اداروں کی تعداد اور دیگر تعلیمی سہولتوں میں اضافہ ہونا چککاہئ ے ۔ پاکسککتان میککں‬
‫تعلیم عامہ کا ہدف حاصل کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے‬
‫لئے مندرجہ ذیل قدم ُاٹھائے گئے ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬تعلیمی شعبے میں اصلحات‬


‫تعلیم کے میدان میں اصلحات نافذ کی گئی ہیں۔جنہیں تعلیمی شعبے کی اصلحات ”ای ایککس‬
‫آر“ کہا جاتا ہے۔ان اصلحات کا مقصد ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرانا ہےجو پاکسککتان کککی‬
‫بطورایک آزاد نظریاتی مملکت‪ ،‬ضروریات اور مطالبات ککو پککورا کرتککا ہو۔اس نئے نظککام ککے‬
‫ل تعلیم تک رسائی اور سہولت حاصل ہوپککائےگی ۔ )‪ (۲‬اسککلمیات اور‬ ‫ذریعے ہر شہری کو حصو ِ‬
‫مطالعہ پاکستان لزمی اسلمیات اور مطالعہ پاکستان کو لزمی نصاب کے طور پر شامل کیککا‬
‫گیا ہے تاکہ اسلم کی حقیقی روح کو سمجھتے ہوئے اور پاکستان کی اہمیت کا احسککاس کرت کے‬
‫ہوئے بچوں کوایک روشن خیال اور بہترین انسان بنایا جاسکے ۔‬

‫)‪ (۳‬مفت تعلیم‬


‫ایسے اقدام ُاٹھائے گئے ہیں جن سے تعلیم کی تجارت کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ۔‬
‫دسویں جماعت تک مرحلہ وار مفت تعلیم کا منصوبہ بھی روبہ عمل ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬اساتذہ کے لئے سہولتیں‬


‫اساتذہ کے لئے ملزمت کا ڈھانچہ حالت کارکو بہتر بنایا جارہا ہے تککاکہ وہ زیککادہ دلچسککپی اور دل‬
‫جمعی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں ۔‬

‫)‪ (۵‬وظائف‬
‫پاکسککتان بیککت المککال ک کے تحککت ذہیککن اور قابککل طلبککاءکے سککاتھ سککاتھ مسککتحق اور غریککب‬
‫طلباءکوبھی وظائف دینے کا ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔‬

‫)‪ (۶‬خواندگی مہم‬


‫ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خواندگی مہم شروع کردی گئی ہے تاکہ عوام میں اور خاص طور سککے‬
‫دیہی علقوں میں تعلیم کے بارے میں شعور ُاجاگر کیا جاسک ے ۔‬

‫)‪ (۷‬تعلیم سب کے لئے‬


‫پورے پاکستان میں ”تعلیم سب کے لئے“ کے نعکرہ سکے ایکک پروگکرام شکروع کیکا گیکا ہے۔اس‬
‫منصوبے کے تحت دیہات میں غیر رسمی تعلیمی اداروں کککا اجراءکیککا گیککا ہے۔ان اداروں میککں‬
‫کتابیں اور دیگر تعلیمی مواد مفت فراہم کیا جاتا ہے۔فی الحال ایسے اداروں کی تعککداد تقریبکا ً‬
‫‪ 10‬ہزار ہے جو رفتہ رفتہ بڑھ کر تقریبا ً ‪ 80‬ہزار ہوجائے گی ۔‬

‫)‪ (۸‬سرکاری‪-‬نجی شراکت کامنصوبہ‬


‫ایک منصوبہ سرکاری‪-‬نجی شراکت کا شروع کیا گیا ہے۔اس جس کے تحککت غیککر سککرکاری اور‬
‫نجی بنیاد پر قائم تنظیمیں دیہات میں ایسے ادارے قککائم کریککں گککی جککو تعلیککم ککے فککروغ اور‬
‫خواندگی کے سلسلے میں حکومت کی مدد کرسکیں ۔‬

‫)‪ (۹‬تعلیمی اداروں کو مالی امدادکی فراہمی‬


‫صوبوں اور وفاق کی سطح پر تعلیمی فاو�¿نڈیشن قائم کی گئی ہیں۔جن کککی ذم کہ داری ی کہ‬
‫ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کو مالی امداد فراہم کریں ۔‬

‫سوال‪ :‬عادلن ہ اور مساویان ہ معاشر ہ پر ایک نوٹ لک ھی ے۔‬

‫وسائل کی منصفانہ اور متناسب تقسیم‬


‫جب وسائل محدود ہوں اور ضروریات لمحدود ۔ تککو ُاس وقککت وسککائلکی منصفانہتقسککیم ککے‬
‫ذریعہ ہی فلحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔مزید یہ کہ تمام ممالک کککے وسککائل‬
‫یکساں اور برابر نہیں ہیں۔بعض علقے کم زرخیز ہیککں اور و ہاں ککے لوگککوں ککا میعککارِ زنککدگی‬
‫انتہائی پست ہے۔اس کے برعکس بعض علقے بہت زرخیز ہیں اوریہاں کے لوگ زیادہ آرام دہ اور‬
‫خوشحال زندگی بسر کرتے ہیکں۔دراصکل وسکائل ککی نامنصکفانہ تقسکیم ہی غریکب اور امیکر‬
‫کافرق پیدا کرتی ہے۔ فلحی ریاست ککے قیککام ککے لئے ضککروری ہے ککہ معاشککرے میککں پھیلککی‬
‫ناہمواریوں اور محرومیوں کو دور کیا جائے۔قومی وسائل کی منصفانہ اور متوازن تقسیم سے‬
‫ہی طبقاتی کشمکش اور علقائی عصبیتوں کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔ پاکسککتان ککے مختلککف‬
‫علقوں میں وسائل اور پیداوار کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے۔بعککض علق کے صککنعتی طککورپر‬
‫ترقی یافتہ ہیں جبککہ بعککض علقکے پککس مانکدہ ہیککں۔ذرائع نقککل و حمککل ب ھی پکورے ملککک میککں‬
‫یکساںدستیاب نہیں ہیں۔ حکومت ان مسائل پر قابو پانے کی کوششیں کررہی ہے اور ملک بھر‬
‫میں تعلیم کا جال بچھایا جارہا ہے۔ حکومت نے وسائل کی متناسب اور عادلنہ تقسککیم ک کے لئے‬
‫مندرجہ ذیل اقدامات کئے ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬تعلیم‪ ،‬صحت اور سماجی بہبود کے ادارے پورے ملک میں قائم کئے جارہے ہیں ۔‬
‫)‪ (۲‬مستحق طلباءکے لئے وظائف اور مالی امداد کا ملک گیر سطح پر انتظام کیا گیا ہے ۔‬
‫)‪ (۳‬پس ماندہ علقوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے صنعتیں قائم کی جارہی ہیں ۔‬
‫)‪ (۴‬گھریلو صنعتیں اور دسکتکاریوں کککی سرپرسکتی اور حوصکلہ افکزائی ککی جکارہی ہے تکاکہ‬
‫لوگوں کو مقامی سطح پر روزگار مل سک ے ۔‬
‫)‪ (۵‬کسانوں اور کاشتکاروں ککو مختلککف ترغیبککات اور سکہولتیں فرا ہم کرککے زرعککی پیکداوار‬
‫بڑھائی جارہی ہے ۔‬
‫)‪ (۶‬دوردراز علقوں تک زندگی کی بنیادی سہولتیں مثل ً بجلی‪ ،‬گیس اور ٹیلککی فککون مہیککا کککی‬
‫جارہی ہیں ۔‬
‫)‪ (۷‬نجکاری کے عمل کے ذریعے لوگوں کو قومی ترقی و فروغ کے پروگراموں میں حصہ لینککے‬
‫کے لئے راغب کیا جارہا ہے۔اس پالیسی کے تحت چند صنعتوں‪ ،‬کارخانوں اور مککالی اداروں کککو‬
‫نجی تحویل میں دے دیا گیا ہے تاکہ وہ قومی ترقی و فروغ کے لئے حکومت کی کوششوں میں‬
‫شریک ہوسکیں ۔‬
‫)‪ (۸‬محنت کشوں کے قوانین کی اصلحات کے ذریعے کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے ۔‬
‫یہ تحفظ انہیں روزگار کی حفاظت‪ ،‬کارکنوں ککی انتظکامیہ میککں شکرکت و حصکہ داری‪ ،‬سککالنہ‬
‫بونس اور حادثے کی صورت میں معاوضے کے ذریعہ مہیا کیا گیا ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬پاکستان میں مسلسل تعمیری کاوشیں کیوں ضروری ہیں؟‬


‫‪Contents‬‬

‫]‪[hide‬‬

‫تعمیککککری‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬


‫کاوشکککوں ککککی‬
‫ضرورت‬
‫)‪ (۱‬قککومی‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫مقاصکککککد ککککککا‬
‫شعور و آگہی‬
‫)‪ (۲‬محنککت‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫کی عظمت‬
‫)‪ (۳‬تعلیککم‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫کی کیفیت‬
‫)‪ (۴‬رہنمائی‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫اور حوصککککککککلہ‬
‫افضائی‬

‫)‪ (۵‬فلح و‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬


‫بہبککککککود کککککککے‬
‫پروگرام‬

‫تعمیری کاوشوں کی ضرورت‬


‫مسلسل تعمیری کاوشوں اور کوششوں کے معنی ایسے مثبت اور تعمیری اقدام ہیں ۔جککن کککا‬
‫تسلسل ملک کو خود انحصاری کی منزل تک پہنچا سکتا ہے اور غیر ملکی تسککلط س کے نجککات‬
‫دلسکتا ہے۔ایسی قوم جو ترقی کرنے کا عزم رکھتی ہو وہ اپنے وسائل کو بروئے کار لکر خود‬
‫کفالت کی راہ میں پیہم آگے بڑھ سکتی ہے لیکن کسی ملک کو راتوں رات فلحی ریاست نہیں‬
‫بنایا جاسکتا ۔ی ہ ایک مسلسل اور مستقل عمل ہے ۔جس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬قومی مقاصد کا شعور و آگہی‬


‫صرف وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جککو اپنکے قککومی مقاصککد کککا شککعور و آگ ہی رک ھتی ہیککں۔یکہ‬
‫مقاصد پہلے ہی سے متعین ہوتے ہیں اور تیز رفتار ترقی کے لئے قومی ترجیحات کے تعین میککں‬
‫مدد کرتے ہیںجن کی بنیاد پر منصوبے بناتے ہوئے وسککائل کککی منصککفانہ تقسککیم کککا خیککال رک ھا‬
‫جاسکتا ہے۔یہ منصوبے آہستہ آہستہ روبہ عمل آتے ہیں اور ان کے جائزوں کی روشنی میں ہی ان‬
‫پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔یہ عمل ہمیشہ جکاری رہتککا ہے۔ ان مقاصکد ککے حصکول ککے لئے ج ہدِ‬
‫ت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے ۔‬ ‫مسلسل اور مضبوط قو ِ‬

‫)‪ (۲‬محنت کی عظمت‬


‫محنت کی عظمت کا مطلب یہ ہے کہ لوگ محنت کی قدروقیمت سے آگاہ ہوں ۔نوجککوان نسککل‬
‫کو یہ سکھایا اور پڑھایا جائے کہ خود ککو وقکف کئے بغیکر اور سکخت محنکت ککے بغیکر ترقکی و‬
‫خوشحالی کا تصور صرف ایک خواب ہے۔قائد ِ اعظم نے نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ محنککت‬
‫میں عظمت محسوس کریں اور اسکو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں ۔‬

‫)‪ (۳‬تعلیم کی کیفیت‬


‫صرف عمومی تعلیم کے ذریعے قومی ترقی و فروغ ممکن نہیں ۔ سائنسی اور ٹیکنیکککل علککوم‬
‫میں پیش رفت بھی ضروری ہے ۔ ان کے ذریعے ہی قومی وسائل کو مناسب طور س کے بککروئے‬
‫کار لیا جاسکتا ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬رہنمائی اور حوصلہ افضائی‬


‫‪1947‬ءیعنی پاکستان کی آزادی کے وقت سے اب تک ہماری معیشت نے مختلف شعبوں میککں‬
‫کافی نشوونما پائی ہے۔صنعت و زراعت کو فککروغ حاصککل ہوا ہے۔ کئی بککڑے منصککوبے مکمککل‬
‫ہوچکے ہیں جبکہ چند اب بھی زیرِ تکمیل ہیں۔وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ہم ترقی ککے لئے اپنککی‬
‫جدوجہد جاری رکھیں اور پاکستان کو جلد از جلد ایک فلحی مملکت بنانے میں اپنککا کککردار ادا‬
‫کریں ۔‬

‫)‪ (۵‬فلح و بہبود کے پروگرام‬


‫ملک بھر میں ضرورت مند‪ ،‬معذور اور مستحق افراد کے لئے چند فلحی پروگرام شکروع کیکے‬
‫گئے ہیں جو مسلسل ترقی کے لئے جاری کاوشوں کا حصہ ہیں ۔ پروگرام مندرجہ ذیل ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬خواتین کے لئے انڈسٹریل ہوم کا قیام‬
‫)‪ (۲‬مراکزِ صحت کا قیام‬
‫)‪ (۳‬جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے تربیتی مراکز کا قیام‬
‫)‪ (۴‬عوام کے لئے تفریحی مقامات‬
‫)‪ (۵‬انسداد ِ گداگری کے مراکز کا قیام‬
‫)‪ (۶‬ایدھی فلحی ٹرسٹ‬

‫سوال‪ :‬فلحی ریاست یا فلحی مملکت ک ے فرائض؟‬


‫فلحی مملکت کے کچھ فرائض ایسے ہوتے ہیں جن پر عملدرامد کرکے کوئی بھی مملکت خود‬
‫کو صحیح طور پر فلحی مملکت یا فلحکی ریاسکت قکرار دے سککتی ہے ۔ فلحکی مملککت یکا‬
‫فلحی ریاست کے اہم فرائض مندرجہ ذیل ہیں ۔‬
‫)‪ (۱‬سب کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی‬
‫)‪ (۲‬امن و امان کا قیام‬
‫)‪ (۳‬نظام عدل کا قیام‬
‫)‪ (۴‬بین القوامی عدالت‬
‫)‪ (۵‬معاشی منصوبہ بندی‬
‫)‪ (۶‬تعلیم اور صحت‬
‫)‪ (۷‬عالمی امن و سلمتی‬
‫)‪ (۸‬ذرائع آمدو رفت‬
‫‪Contents‬‬
‫)‪ (۱‬سکککب ککککے لئے‬ ‫‪1‬‬ ‫‪‬‬
‫یکساں مواقع کی فراہمی‬
‫)‪ (۲‬امککن و امککان کککا‬ ‫‪2‬‬ ‫‪‬‬
‫قیام‬
‫)‪ (۳‬نظام عدل کا قیام‬ ‫‪3‬‬ ‫‪‬‬
‫)‪ (۴‬بیکککن القکککوامی‬ ‫‪4‬‬ ‫‪‬‬
‫تعلقات‬
‫)‪ (۵‬معاشککی منصککوبہ‬ ‫‪5‬‬ ‫‪‬‬
‫بندی‬
‫)‪ (۶‬تعلیم اورصحت‬ ‫‪6‬‬ ‫‪‬‬

‫)‪ (۷‬عکککالمی امکککن و‬ ‫‪7‬‬ ‫‪‬‬


‫سلمتی‬

‫)‪ (۱‬سب کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی‬


‫فلحی مملکت اپنی حدود میں آباد تمام لوگککوں کککو ترقککی اور ضککرورت کککی تکمیککل ک کے لئے‬
‫لتعلیم کا حصول ہر شہری کا حق ہوتا ہے اس لئے تعلیککم ک کے‬ ‫یکساں مواقع فراہم کرتی ہے مث ً‬
‫حصول کے مواقع فراہم کرنا فلحی مملکت کا فرض ہے۔اسی طرح عوام کی جان و مککال کککا‬
‫تحفظ اورسب کے لئے روزگار کی فراہمی بھی فلحی مملکت کے فرائض میں شامل ہے ۔‬

‫)‪ (۲‬امن و امان کا قیام‬


‫فلحی مملکت کا اّولین فرض امن و امان کا قیککام ہے تککاکہ افککراد کککی جککان و مککال محفککوظ‬
‫رہسکے۔اس بنیادی فرض میں ملک کو بیرونی حملے سے محفککوظ رکھنککا یعنککی دفککاع ک کے لئے‬
‫فوج تیار کرنا اور بین القوامی طور پر ممالک سے دفاعی تعلقات قائم کرنا بھی شککامل ہے ۔‬
‫اندرونی طور پر امن قائم کرنا انتہائی ضروری ہوتا ہے تاکہ ہر شہری کو اس کا جائز حککق مککل‬
‫سک ے ۔‬

‫)‪ (۳‬نظام عدل کا قیام‬


‫ایک ایسے نظام کا قیام فلحی مملکت کے اہم فرائض میککں شککامل ہوتککا ہے جککس میککں تمککام‬
‫افراد اپنی صلحیتوں کو ُاجاگر کرسکیں۔ ریاست ککا فکرض ہوتکا ہے ککہ وہ سکب شکہریوں ککو‬
‫ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے۔قانون کی بالدستی کو برقرار رکھنے کے لئے غیککر جانبککدار‬
‫عدلیہ کا قیام انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر شہری کو اس کا جائز حق مل سک ے ۔‬

‫)‪ (۴‬بین القوامی تعلقات‬


‫جدید دور میں کوئی ملک بھی دوسرے ملک سے تعاون کئے بغیر قکائم نہیککں رہ سکککتا ۔ہر ملکک‬
‫کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جو اس کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے اور عککالمی امککن ککے‬
‫لئے کوششوں کا ذریعہ بنتی ہے۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ہر ملک کککا عکالمی قکوانین پکر‬
‫عملدرامد کرنا ضروری ہوتا ہے اوردنیا کے تمام ممالک اسی مقصد ککے لئے اقککوام متحککدہ کککی‬
‫امن کوششوں کا ساتھ دیتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۵‬معاشی منصوبہ بندی‬


‫ایک فلحی مملکت معاشی سرگرمیوں کو اس طرح کنٹرول کرتی ہے جس سے تمام طبقات‬
‫کے مفادات اور حقوق کککا تحفککظ ہوسکککے۔ان مقاصککد ککے حصککول کےلئے ریاسککت کککو ٹ ھوس‬
‫منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے ہوتے ہے جن سے شہریوں کا معیککار زنککدگی‬
‫بلند ہو سکے اور معاشرہ ہر لحاظ سے خوشحال ہوجائ ے ۔‬

‫)‪ (۶‬تعلیم اورصحت‬


‫فلحی مملکت اپنکے شکہریوں کککو بھرپککور تعلیمککی سکہولیات مہیککاکرتی ہے تککاکہ ہر فککرد اپنککی‬
‫صلحیت کے مطابق جدید علوم اور فنون حاصل کرسکے۔اسی طرح شہریوں کککی صککحت کککا‬
‫خیال رکھنا بھی فلحی مملکت کی فرائض میں شامل ہے۔بیماریوں کی روک ت ھام ‪،‬اسککپتالوں‬
‫اور طّبی تعلیمی اداروں کا قیام بھی فلحی مملکت کا اہم فرائض میں شامل ہے ۔‬

‫)‪ (۷‬عالمی امن و سلمتی‬


‫صہ ادا کرنا ب ھی ہوتککا ہے تککاکہ دنیککا‬
‫فلحی مملکت کا کام دنیا بھر میں امن کے قیام میں اپنا ح ّ‬
‫میں چین اور سلمتی قائم ہوسکے اور دنیا جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہوجائ ے ۔‬

‫سوال‪ :‬فلحی مملکت س ے کیا مراد ہے؟ تین جملوں میں وضاحت کیجئ ے۔‬

‫)‪(۱‬۔ فلحی مملکت سے مراد ایسی ریاست ہے جو ج ہالت‪ ،‬غربکت و افلس اور ناانصکافی ککا‬
‫خاتمہ کر ے ۔‬

‫)‪ (۲‬۔ لوگوں کے لئے خوراک‪ ،‬لباس تعلیم اور رہائش کا معقول انتظام کرے ۔ اور‬

‫)‪ (۳‬۔ تمام شہریوں کو ان کی فطری صلحیتں ُاجاگر کرنے کے یکساں مواقع فراہم کر ے ۔‬

‫سوال‪ :‬مغربی دنیا ک ے فلحی مملکت ک ے جدیدتصور کو چار جملسسوں میسسں بیسسان‬
‫کیجئ ے۔‬

‫مغربی دنیا میں فلحی مملکت کا جدید تصور یہ ہے کہ‪:‬‬

‫)‪ (۱‬۔ وہ شہریوں کا معیار زندگی کو بلند کرکے انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے ۔‬

‫)‪(۲‬۔ وہ ہر شہری کو تعلیم‪ ،‬روزگار اور صلحیتوں کککو اجککاگر کرنکے ککے یکسککاں مواقککع فرا ہم‬
‫کرتی ہے ۔‬

‫)‪ (۳‬۔ ان کے سیاسی و شہری حقوق کی حفاظت کے لئے قدم ُاٹھاتی ہے ۔ اور‬

‫)‪(۴‬۔ جو لوگ اقتصادی یا دیگر وجوہات کی بناءپر زندگی کی دوڑمیں دوسروں س کے پیچ ھے رہ‬
‫گئے ہوں ان کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ دوسروں کے برابر آسکیں ۔‬
‫سوال‪ :‬اسلم ک ے فلحی مملکت ک ے تصورپر چار جمل ے تحریر کیجئ ے۔‬

‫ف خدا پر مبنی‪ ،‬خوشحال اور استحصال س کے‬


‫)‪(۱‬۔اسلمی فلحی مملکت کا بنیادی مقصد خو ِ‬
‫پاک معاشرہ تعمیر کرنا ہے ۔‬

‫)‪(۲‬۔ اس کی ذمہ داریوں میں روزگار کی فراہمی‪ ،‬ب کے روزگککاری ک کے ایککام میککں مککالی امککداد‪،‬‬
‫معذوری اور ُبڑھاپے کی صورت میں وظائف کی ادائیگی شامل ہیں ۔‬

‫)‪ (۳‬۔ وہ پوری آبادی کو صحت ور تعلیم کی سہولتیں یکساں طو ر پرمہیا کرنے کی ذمہ دار ہے ۔‬

‫)‪(۴‬۔ اسلمی ریاست کی ذمہ داریوں میں صحت منککد معاشککرتی مککاحول قککائم رکھنککا عککدل و‬
‫انصاف کو فروغ دینا اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا شامل ہئ ے ۔‬

‫سوال‪ :‬کوئی س ے چار قومی مقاصدتحریر کیجئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬۔ اسلمی تعلیمات اور اصولوں کی بنیادوں پر اسلمی معاشرہ کی تشکیل ۔‬

‫)‪ (۲‬۔ جہالت‪ ،‬غربت‪ ،‬افلس اور معاشی استحصال کے خلف جدوجہد ۔‬

‫)‪ (۳‬۔ اسلمی ممالک کے مابین اتحاد کو فروغ دینا اور انہیں ایک مرکز پر جمع کرنا ۔‬

‫)‪ (۴‬۔ غیر متعصب معاشرہ کی تشکیل کے لئے بھائی چارے اخوت اور رواداری کو فروغ دینا ۔‬

‫سوال‪ :‬مسلسل تعمیری عمل ک ے چار عناصر تحریر کیجئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬قومی مقاصد کا ادراک‬

‫)‪ (۲‬مسائل اور ضروریات کا احساس ۔‬

‫)‪ (۳‬ضروری وسائل کا مہیا کرنا اورقابل عمل منصوبہ بندی ۔‬

‫)‪ (۴‬کارکردگی کا جائزہ اور حکمت عملی میں ضروری تبدیلیاں‬

‫سوال‪ :‬تعلیم کی ا ہمیت پر چارجمل ے لک ھیئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬۔تعلیم اور تربیت قومی تعمیر کے عمل کا اہم اور لزمی حصہ ہے ۔‬

‫)‪(۲‬۔ اگر کسی قوم کے نوجوان تعلیم یافتہ نہ ہوں تو اس قککوم کککی ترقککی کککی رفتککار سسککت‬
‫پڑجاتی ہے ۔‬

‫)‪(۳‬۔ ہمارے ملک میں خواندگی کککی شکرح ‪ 26‬فیصککد ہے جککو ہمککاری اقتصککادی اور معاشککرتی‬
‫ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬۔ تعلیم کی روشنی عام ہونے سے ہی فلحی مملکت کا قیام ممکن ہوگا ۔‬
‫سوال‪ :‬عالمی ب ھائی چار ے کی ضرورت پر چار جمل ے لک ھیئ ے۔‬

‫)‪(۱‬۔ آج بنی نوع انسان جن گھمبیر مسائل سے دو چار ہے انہیںحل کرنے کے لئے عکالمی سکطح‬
‫پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔‬

‫)‪(۲‬۔ ان میں خوراک کی کمی‪ ،‬توانائی کا بحران‪،‬منشیات کی اسککمگلنگ اور ایٹمککی ہتھیککاروں‬
‫کے پھیلو�¿ سے پیدا شدہ خطرات وغیرہ شامل ہیں ۔‬

‫سککلی‬
‫)‪(۳‬۔ اگر دنیامیں بھائی چارے‪ ،‬تعاون اور امن کی فضا موجود نکہ ہو تککو ان مسککائل کککا ت ّ‬
‫بخش حل تلش نہیں کیا جاسکتا ۔‬

‫)‪ (۴‬۔ ہر ملک علیحدہ علیحدہ ان مسائل پر قابو نہیں پاسکتا ۔‬

‫سوال‪ :‬فرد اور فلحی مملکت ک ے حقوق و فرائض پر چار جمل ے لک ھیئ ے۔‬

‫)‪ (۱‬۔ فرد اور فلحی مملکت کے حقوق و فرائض شانہ بشانہ چلتے ہیں ۔‬

‫)‪ (۲‬۔ فلحی مملکت اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرتی ہے ۔‬

‫)‪(۳‬۔ شہریوں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے فکرائض خلکوص اور دیکانت سکے سکرانجام‬
‫دیں اور ملک و قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار رہیں ۔‬

‫)‪(۴‬۔ فلحی مملکت اپنی عوام کککو غربککت‪ ،‬ج ہالت اور نککا انصککافی سکے محفککوظ کرنکے کیلئے‬
‫ٹھوس منصوبہ بندی کرتی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬عالمی ب ھائی چار ے اور امن ک ے لئ ے پاکسسستان کس ے کسسردار پسسر چسسار جملس ے‬
‫لک ھئ ے؟‬

‫)‪ (۱‬۔ عالمی بھائی چارے اور امن کے فروغ کیلئے پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے ۔‬

‫)‪(۲‬۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک سے خوشککگوار تعلقککات‬
‫قائم کئے جائیں ۔‬

‫)‪ (۳‬۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے ۔‬

‫)‪ (۴‬۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی اور تشدد کی سیاست کی مخالفت کی ہے ۔‬

‫سوال‪ :‬مسلسل تعمیری کاوشوں کو پاکستان میں جاری رک ھن ے کسس ے لئ ے کسسوئی‬


‫چار اقدامات تحریر کیجئ ے۔‬

‫پاکستان میں مسلسل تعمیری کاوشوں کو جاری رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری‬
‫ہیں ۔‬

‫)‪ (۱‬قوم میں قومی مقاصد کا شعور اور آگہی پیدا کی جائ ے ۔‬

‫)‪ (۲‬لوگوں کو محنت کی عظمت سے واقفیت دلئی جائ ے ۔‬


‫)‪ (۳‬ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو زیادہ فروغ دیا جائ ے ۔‬

‫)‪ (۴‬ملک میں معاشی ترقی کے منصوبوں کو مکمل کرنے اور نئے منصوبے بنانے کے رجحان کو‬
‫فروغ دیا جائ ے ۔‬
‫‪SHORT QUESTIONS ANSWERS‬‬
‫‪CHAPTER-2 MAKING PAKISTAN‬‬
‫نننننن ننننننن‬
‫سوال‪ :‬فرائض تحریک ک ے کیا مقاصد ت ھے؟‬
‫ککککک ککککک‬
‫حاجی شریعت اللکہ نکے بنگککال ککے مسککلمانوں کککو غیککر مسککلم رسککوم و رواج سکے‬
‫چھٹکارہ پانے کا مشورہ دیککا۔ ان ھوں نکے اسککلمی احکامککات پککر عمککل پیککرا ہونے کککی‬
‫ضرورت پر زور دیا اور ان اسلمی احکامات کو انھوں نے فرائض کا نام دیککا۔ اسککی‬
‫لئے اسلمی اصولوں کے لئے ان کی تبلیغ و تلقیککن اور مسککلمانوں ک کے لئے اصککلحی‬
‫تحریک "فرائض تحریک"کہلتی ہے۔ فرائض تحریک کے بنیادی مقاصد یہ ہیں۔‬
‫غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ‬
‫فرائض تحریک کا بنیادی مقصد ان غیر اسلمی رسوم و رواج و روایت کو مٹانککا اور‬
‫ختککم کرنات ھا جککو بنگککالی مسککلمانوں میککں سککرایت کککرگئے ت ھے ۔ اس تحریککک ن کے‬
‫مسلمانوں کو اسلمی تعلیمات کے مطابق صراط مستقیم پر لن کے میککں بککڑی مککدد‬
‫کی۔ ابتداءمیں انھیں بہت سی مشکلت اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آہستہ‬
‫آہستہ ان کی تحریک نے بنگالی مسلمانوں میں خود اعتمادی کا جذبہ بیدار کردیا۔‬
‫مسلمان کسانوں اور مزار عین کو ہندو زمینداروں کے ظلم و ستم سے‬
‫نجات‬
‫محمد محسن نے مسلمان کسانوں اور مزار عیککن کککو ہنککدو زمینککداروں ککے ظلککم و‬
‫ستم کے خلف جمع کیا۔ ان کی کوششوں کے نککتیجے میککں بنگککال ککے مسککلم مککزار‬
‫عین ہندو زمینداروں اور جاگیرداروں کے بہیمانہ تسلط سے آزاد ہوگئے۔ وہ بنگککال ک کے‬
‫مسلمان مزار عین کے حقوق کے عظیم علمککبردار بککن گئے۔ برطککانوی اور ہنککدوتاجر‬
‫اور زمیندار انکے خلف ہوگئے۔ لیکن انھوں نے ان کی کوئی پروا نہیککں کککی اور اپنککی‬
‫زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا مشن جاری رکھا۔ مختصرا ً یہ ککہ فککرائض تحریککک‬
‫کے نتیجے میں بنگا لی مسلمانوں کی دینی اور اخلقی حککالت ب ہت ب ہتر ہوگئی اور‬
‫بڑی حد تک مزار عین کے حقوق کا تحفظ بھی ہوگیا۔‬
‫تحریک احیاءمیں شاہ ولی اللہ کا کردار‬
‫) ک( مرہٹوں کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو نجات دلائی‬
‫شککاہ ولککی الل کہ ن کے افغانسککتان ک کے حکمککران احمککد شککاہ ابککدالی کککو خککط لک ھا اور‬
‫درخواست کی کہ وہ مرہٹوں کے ظلم و ستم سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نجککات‬
‫دلئیں۔ اس کے جوب میں احمد شاہ ابدالی ن کے ‪ 1761‬میککں بککانی پککت کککی تیسککری‬
‫جنگ میں مرہٹوں کو عبرتناک شکست دی۔ اس شکست کے بعد مرہٹ کے پ ھر کب ھی‬
‫نہیں سنبھل سکے۔‬
‫) ک( قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا‬
‫شاہ ولی اللہ کی انتہائی اہم خدمت یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ‬
‫کیا۔ اس سے لوگوں کو قرآن مجید کو سمجھنے میں بہت مد د ملی۔‬
‫) ک( حدیث‪ ،‬فقہ اور تفسیر پر کتب لکھیں‬
‫شاہ ولی اللہ نے حدیث‪ ،‬فقہ اور تفسیر پر کتابیں لکھیککں۔ ان ککی کتکابوں میککں سککب‬
‫سے زیادہ مشہور و معروف کتاب "حجتہ اللہ البالغہ" ہے۔ ان کی تصانیف کککا پیغککام ی کہ‬
‫ہے کہ اسلم ایک آفاقی مذہب ہے جو تمام انسانیت کے لئے ترقککی اور خوشککحالی کککا‬
‫ضامن ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پنجاب اور سرحد سے معاشرتی برائیککوں ککو مٹککانے ککے لئے سککید‬
‫احمد کی جدوجہد بیان کریں؟‬
‫) ک( سکھوں کے لئے اقتدار کا خاتمہ‬
‫اسلمی اقکدار اور روایکات ککی احیکاءکے لئے سککید احمکد شکہید پنجککاب اور شککمالی‬
‫مغربی صوبے سے سکھوں کا اقتدار ختم کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے پنجاب اور سرحد‬
‫میں جہاد کا آغاز کردیا۔ بدی کی قوتوں کے خلف جہاد میں شاہ اسماعیل شہید اپنے‬
‫چھ ہزار پیروکاروں کے ساتھ سید احمد کے ساتھ شریک ہوگئے۔‬
‫) ک( جہاد پر روانگی‬
‫سید احمد ‪ 1826‬میں سندھ میں آئے اور پیرپگارو سے مدد کے لئے درخواسککت کککی۔‬
‫جنہوں نے اپنے جانثار مریدوں کو انکے لشکر میں شککامل ہونے کککا حکککم دیککا جنھیککں‬
‫"حر" کہتے ہیں۔ سید احمد اپنے اہل و عیال کو پیرپگککارو کککی حفککاظت اور سککپردگی‬
‫میں دے کر خود جہاد پر روانہ ہوگئے۔‬
‫) ک( سک ھ ّ وں کے خلاف پہلی جنگ‬
‫سید احمد شہید دسمبر ‪ 1826‬میں نوشہرہ )شمالی مغربکی سککرحدی صکوبہ( پہنچکے‬
‫اور اسے اپنا مرکز اور صدر مقام بنالیا۔ سککک ّھوں ککے خلف پہلککی جنککگ ‪ 21‬دسککمبر‬
‫‪1826‬کو اکوڑہ کے قریب لڑی گئی جس میں سک ّھوں کو شکست ہوگئی۔‬
‫) ک( سک ھ ّ وں کے خلاف دوسری جنگ‬
‫سک ّھوں کے خلف دوسری جنککگ حضککرو ک کے مقککام پککر لککڑی گئی۔ اس میککں ب ھی‬
‫مسلمان فتحیاب رہے۔ان فتوحات سے پٹھانوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی اور وہ ب ھی‬
‫تحریک جہاد میں شامل ہوگئے۔ مجاہدین کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ سید احمد‬
‫کو "امیر المومنین" کا منصب دے دیا گیا۔‬
‫) ک( اسلامی قوانین کا نافذ‬
‫سید احمد شہید کے فتح کیے ہوئے علقوں میں اسلمی قوانین نافذ کردئیے گئے۔‬
‫)‪ (۶‬سید احمد ک ے خلف سازش‬
‫ً‬
‫ابتداءمیں تحریک جہاد بہت کامیابی سے جککاری ت ھی لیکککن فککوراہی سککید احمککد ک کے‬
‫خلف سازشیں شروع ہوگئیں۔ کچھ قبککائلی سککرداروں نکے آپ کککو ز ہر دے کککر قتککل‬
‫کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ)‪1780‬ء)‪1839‬نے سردار یار‬
‫محمد اور اسکےبھائی سلطان محمد کککو رشککوت دی تکاکہ وہ سکید احمککد شکہید ککی‬
‫خلفت کے خلف سازش کریں۔‬
‫) ک( مجاہدین اورسکھوں کے درمیان سخت معرکہ‬
‫سرداروں کی نافرمانیوں ککی وجکہ سکے سکید احمککد شکہید ب ہت ناامیکد اور مکایوس‬
‫ہوگئے۔ سید احمد نے بالکوٹ کو اپنا نیا صدر مقام بنالیا۔ انھہہوں ن کے مظفرآبککاد س کے‬
‫اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہاں مجاہدین اور سکھوں کے درمیان سخت معرکککہ آرائی‬
‫شروع ہوگئی۔‬
‫) ک( سید احمد اور ان کے جانثاروں کی شہادت‬
‫مسلمان بڑی بہادری اور جرا�¿ت سے لڑے لیکن ‪6‬مئی ‪ 1831‬کککو سککید احمککد اور‬
‫ان کے جانثاروںکی اکثریت کو شہید کردیا گیا۔ہزاروں مجاہدین میں سے صککرف تیککن‬
‫سو زندہ بچے اور اس طرح سید احمد ش کہید کککی خلفککت ختککم ہوگئی اور اسککلمی‬
‫ریاست قائم کرنے کا ان کا خواب شرمندہ�¿ تعبیر نہ ہوسکا۔‬
‫سوال‪ :‬علی گڑھ تحریک کے کارنامے بیان کریں؟‬
‫‪ 1857‬کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی چیرہ دسککتیوں اور‬
‫سککفاکیوں کککا نشککانہ بککن گئے۔ مسککلمانوں کککو دینککی‪ ،‬مککذہبی‪ ،‬سیاسککی‪ ،‬معاشککی‪،‬‬
‫معاشرتی اور تعلیمی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ ان حالت میں سککر سککید احمککد‬
‫خان نے برصغیر کے مسلمانوں کے رہنما اور قائد کے فرائض سککنبھال لئے۔ان ھوں نکے‬
‫مسلمانوں میں بیداری کی تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی تحریک "علککی گککڑھ تحریککک "‬
‫کہلتی ہے۔ علی گڑھ تحریک کے کارنامے‬
‫) ک( انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی تعلقات کا قیام‬
‫سرسید احمد نے انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات قائم کرن کے کککی‬
‫ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے انگریزوں کو یہ ب ھی سککمجھانے کککی کوشککش کککی ککہ‬
‫‪ 1857‬کی جنگ کے صرف مسلمان ہی ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ہندو اور ہندوستان کککی‬
‫دوسری اقوام نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انگریزوں کے ذہن سے مسککلمانوں‬
‫کے بارے میں شکوک و شککبہات دور کرنکے ککے لئے سرسککید احمککد نکے ایککک کتککابچہ "‬
‫اسباب بغاوت ہند" کے نام سے تحریر کیا تھا۔‬
‫) ک( جدید تعلیم کے لئے ترغیب‬
‫سر سید احمد کو پورا یقین تھا کہ جب تک برصغیر کے مسلمان تعلیککم نہیککں حاصککل‬
‫کریں گے اور سائنسی علوم نہیں سکھیں گے اس وقت تک وہ پسماندہ رہیں گککے اور‬
‫برصککغیر کککی دیگککر غیککر مسککلم اقککوام س کے مقککابلہ نہیککں کرسکککیں گ کے۔ان ھوں ن کے‬
‫مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انگریزی زبان سیکھنے میں دلچسپی ظکاہر کریکں تکاکہ وہ‬
‫ان سائنسی علوم سے فیض یاب ہوسکیں جن کا ماخذ مغربی علوم سے تھا۔‬
‫) ک( تعلیمی سرگرمیاں‬
‫سرسید احمد خان نے مسکلمانوں پکر زور دیککا ککہ وہ جدیکد علککوم سککیکھیں۔ اس لئے‬
‫انھوں نے ‪ 1862‬میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رک ھی۔ بعککد میککں‬
‫اس کو علی گڑھ منتقککل کردیککا گیککا۔اس ک کے بعککد سککر سککیدنے کیمککبرج یونیورسککٹی‬
‫)انگلستان( کی طرز پر علی گڑھ میں ایک اسکول قائم کیا۔ جس کو بعد میں کالککج‬
‫کی سطح تک بڑھادیا گیا۔ اس کا نام محمڈن اینگلو اورینٹککل کالککج )ایککم اے او کالککج(‬
‫رکھا گیا۔ سر سید احمد نے مسلمان نوجوان نسل ککو اس بکات پکر آمکادہ کیکا ککہ وہ‬
‫انگریزی زبان سیکھین تاکہ جدید سائنسی علوم کا حصول ان کے لئے آسان ہوجائے۔‬
‫اس پروگرام کی وجہ سے اردو زبان کے فروغ میں بھی مدد ملی۔‬
‫سوال‪ :‬دو قومی نظری ہ کیا ہے؟‬
‫دو قومی نظریہ‬
‫دو قومی نظریہ سے مراد یہ ہے کہ متحککدہ ہندوسککتان )جنککوبی ایشککیائ( میککں دو بککڑی‬
‫قومیں رہتی ہیں۔یہ قومیں ہندو اور مسلم ہیں۔یہ دونوں قومیں سککینکڑوں سککال تککک‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ رہی ہیککں۔لیکککن اپن کے مخصککوص مککذہبی اور منفککرد معاشککرتی‬
‫نظاموں کی وجہ سے باہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکیں۔‬
‫دو قومی نظریہ کا ارتقائ‬
‫ہندو یہ چاہتے تھے کہ ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ہندووں نے اردو کے مقابلے‬
‫میں ہندی زبان کے فروغ کے لئے مہم چلئی۔ ہنککدی اور اردو ک کے اس تنککازع ن کے سککر‬
‫سید کے ذہن کو بدل کر رکھ دیا اور پھر انھوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنککی‬
‫سیاسی حکمت عملی اسککتوار کککی۔ی کہ دو قککومی نظریکے کککی ابتککداءتھی۔سککر سککید‬
‫مسلمانوں کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے برصغیر کے مسککلمانوں ک کے لئے "قککوم" کککی‬
‫اصطلح استعمال کی کیونکہ ان کا مذہب جدا تھا۔ ان ککی اپنککی اقککدار اور معیشککت‬
‫بالکل جداگانہ تھی۔ سر سید کے بعد برصغیر کے کئی رہنماوں مثل ً عبدالحلیم شککرر‪،‬‬
‫مولنا محمد علی جوہر‪ ،‬چو ہدری رحمککت علککی‪ ،‬علم کہ محمککد اقبککال اورقککائداعظم‬
‫محمد علی جناح نے درست طور پر یہ اعلن کیا کہ مسلمان ایک علیحککدہ قککوم ہیککں۔‬
‫قائد اعظم نے فرمایا‬
‫”ن ہ ہندوستان ایک ملک ہے اور ن ہ ہی اس ک ے باشند ے ایک قوم ‪ ،‬ی س ہ ایسسک‬
‫برصغیر ہے جس میں کئی اقوام ہیں ۔“‬
‫قککائداعظم کککی ب کے شککمار تقککاریر اور بیانککات میککں اس امککر پککر زور دیککا گیککا ہے۔‬
‫مسلمانوں کو ایک اقلیت نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قککوم ہے۔ ان کککا اصککرار ت ھا ککہ‬
‫برصغیر کے سیاسی تعطل )ڈیڈلک( کا منصفانہ حل صرف یہی ہے کہ مسککلمانوں کککو‬
‫بحیثیت ایک علیحدہ قوم تسلیم کیا جائے۔‬
‫سوال‪ :‬جدوج ہد پاکستان میں مسلم لیگ ک ے کردار پسسر روشسسنی‬
‫ڈالی ے؟‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام‬
‫‪ 30‬سمبر ‪ 1906‬کو ایک سیاسی جماعت "آل انڈیا مسککلم لیککگ�©"ک کے نککام س کے‬
‫تشکیل دی گئی ۔ علی گڑھ کو اس کا صدر مقام بنایا گیا اور جلد ہی سکر آغکا خکان‬
‫)مرحککو م( کککو آل ان کڈیا مسککلم لیککگ کککا صککدر اورسککید علککی حسککین بلگرامککی کککو‬
‫سیکریڑی جنرل مقرر کیا گیا۔‬
‫آزادی کی جدوجہد میں مسلم لیگ کا کردار‬
‫‪ 1906‬میکں مسکلم لیکگ ککی تشککیل ککے بعکد ہی سکے اس نکے جنککوبی ایشککیاءکے‬
‫مسلمانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم کی شکل اختیار کرلی۔ جہاں سکے وہ اپنکے حقککوق‬
‫اور انگریزوں سے حصول آزادی کے لئے جدوج ہد کرسکککتے ت ھے۔ مسککلم لیککگ ککہ یکہ‬
‫جدوج ہد بککے شککمار مشکککلت سککے گککزری۔ مسککلم لیککگ کککے کککردار کوذیککل میککں‬
‫مختصرًابیان کیا گیا ہے۔‬
‫) ک( حقوق کا تحفظ‬
‫ایک نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پراپنے قیام کے بعد مسلم لیگ کا فککوری ہدف‬
‫یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفککظ ک کے لئے مناسککب اقککدام اٹ ھائے‬
‫جائیں اور حکومت کو ان کے مسائل اور مطالبات سکے آگککاہ کیککا جککائے۔ ایککک جککانب‬
‫مسلم لیگ نے انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے لئے ہندووں کے سککاتھ ہاتھ ملن کے‬
‫اور تعاون کرنکے میککں انت ہائی متککوازن رویکہ اختیککار کیککا اور دوسککری جککانب اس نکے‬
‫مسلمانوں اور برطانوی سرکار کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کی‬
‫۔‬
‫) ک( کانگریس کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ‬
‫قائداعظم محمد علی جناح نے اکتوبر ‪ 1913‬میں مسلم لیگ میککں شککمولیت اختیککار‬
‫کی۔ ان کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان دسمبر ‪ 1916‬میں‬
‫ایک سمجھوتہ طے پایا جو میثاق لکھن�¿و کے نام سے معروف ہے۔ اس میثککاق کککی‬
‫رو سے کانگریس نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسککلیم کرلیککا اور ہندوسککتانی‬
‫مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا۔‬
‫) ک( مسلمانوں کی تعداد‬
‫مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد ایک تہائی طے پائی۔‬
‫) ک( نشستیں‬
‫مسلم اکثریت کے دونوں صوبوں یعنی بنگال اور پنجاب کی قککانون سککاز اسککمبلیوں‬
‫میں مسلمانوں کی اکثریت مستحکم ہوگئی۔‬
‫) ک( متناسب نمائندگی‬
‫ان صوبوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ وہاں ان کی نمائندگی ان ککے آبککادی‬
‫کے تناسب سے زیادہ کردی گئی۔‬
‫سوال‪ :‬جدوج ہد پاکستا ن میں صوبوں ن ے کیا کردار ادا کیا ت ھا؟‬
‫تحریک پاکستان میں صوبوں کا کردار‬
‫برصغیر کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد کی بدولت پاکسککتان وجککود میککں آیککا ہے۔‬
‫تمام صوبوں کی عوام نے تحریک پاکستان کو مقبککول بنککانے میککں حص کہ لیککا۔ مسککلم‬
‫رہنماوں نے برصغیر کے کونے کونے تک پاکستان کککا پیغککام پہنچایککا۔ تحریککک پاکسککتان‬
‫میں مختلف صوبوں کا کردار مندرجہ ذیل ہے۔‬
‫) ک( صوبہ پنجاب‬
‫آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پنجکاب سکب سکے بکڑا صکوبہ ت ھا۔لیککن ہنکدووں اور‬
‫انگریزوں کی باہمی سازشوں اور ملی بھگت سے یہاں کے عوام کو دبا کر رکھا گیا۔‬
‫قرارداد پاکستان بھی پنجاب ککے سککب سکے بککڑے شکہر اور دارلحکککومت ل ہور میککں‬
‫‪23‬مارچ ‪ 1940‬کو منظور کی گئی۔اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاکسککتان ککے تصککور‬
‫کو پورے پنجاب میں مشہور کیا۔ ‪46-1945‬کے انتخابات میں مسلم لیککگ ن کے پنجککاب‬
‫کی صوبائی اسمبلی میں تقریبا ً نوے فیصد مسلم نشستوںپر کامیابی حاصککل کرکککے‬
‫اکثریت حاصل کرلی۔ پنجاب کے علماءاورمذہبی عمائدین ن کے پنجککاب ک کے عککوام کککو‬
‫آزادی کے لئے آمادہ کیا۔انھوں نے پنجاب مسککلم اسککٹوڈنٹس فیڈریشککن قککائم کککی اور‬
‫آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔‪ 1941‬میں قائداعظم نے اسلمیہ کالککج ل ہور میککں‬
‫منعقدہ پاکستان ککانفرنس ککی صککدارت فرمککائی۔پنجککاب ککے طلبکہ نکے پنجکاب ککی‬
‫یونینسٹ حکومت کی بھرپور مخالفت کی۔ پنجاب کی خواتین نے ب ھی اس تحریککک‬
‫میں پورا حصہ لیا۔پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ایک بہادر خاتون‬
‫صغر ٰی فاطمہ نے پنجاب سیکریٹریٹ سے برطانوی جھنڈا اتار پھینکا اور اس کی جگہ‬
‫مسلم لیگ کا جھنڈا لہرادیا۔‬
‫) ک( صوبہ سندھ‬
‫صوبہ سندھ کو باب السلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس صککوبے میککں مسککلمانوں‬
‫کی اکثریت کو کم کرنے کے لئے انگریزوں نے اس کککو صککوبہ بمککبئی کککا حص کہ بنادیککا۔‬
‫مسلم لیگ کی جدوجہد کی بدولت ‪ 1935‬کے حکومت ہندکے اےک قانون )ایکٹ( کے‬
‫تحت سندھ کو علیحدہ صوبے کککی حیککثیت حاصککل ہوگئی۔ مسککلم لیککگ کککا پہلسککالنہ‬
‫اجلس دسمبر ‪ 1907‬میں کراچی میں ہوا۔ سندھ پہل صوبہ تھا۔جس میںمسککلم لیککگ‬
‫نے اکتوبر ‪ 1938‬میں ایک قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسککلم‬
‫اکثریتی صوبوں کو مسلمانوںکو حکومت قائم کی جائے۔ یہ قرارداد مارچ ‪ 1940‬کی‬
‫قرارداد پاکستان کی پیش خیمہ بنی۔ ‪ 46-1945‬کے انتخابات میں صوبہ سککندھ میککں‬
‫مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کرکے اپنی حکومت بنالی۔ سککندھ ککے مسککلمانوں کککی‬
‫خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ سر عبداللہ ہارون‪ ،‬محمد ایککوب ک ھوڑو‪ ،‬قاضککی فضککل‬
‫اللہ‪ ،‬شیخ عبدالمجید سندھی‪ ،‬سر غلم حسین ہدایت اللہ‪ ،‬پیرالہٰ ی بخککش‪ ،‬جککی النککا‬
‫اور قاضی محمد اکبر وہ ممتاز رہنما اور قککائدین ت ھے جن ھوں نکے صککوبہ سککندھ میککں‬
‫مسلم لیگ کو مقبول بنایا۔ سندھ کے علماءاور دینککی رہنمککاوں نکے ب ھی اس تحریککک‬
‫میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پوری جدوج ہد آزادی ککے دوران سکندھ ککے عکوام تحریکک‬
‫پاکستان کے وفادار اور جانثار رہے۔‬
‫) ک( صوبہ بلوچستان‬
‫رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ تھا۔مگر انگریزوں نے اس کے ہمیش کہ‬
‫پسماندہ رکھنے کی کوشش کککی۔بلوچسککتان ککے قاضککی محمککد عی ٰسککی ‪ 1939‬میککں‬
‫مسلم لیگ کی مجلس عاملہ )ورکنگ کمیٹی( میں شامل ہوئے۔ انھوں نے بلوچسککتان‬
‫میں مسلم لیگ قائم کی اور کئی قبائلی رہنما اس میں شامل ہوگئے۔جلد ہی مسلم‬
‫لیگ بلوچستان کی ایک مقبول جماعت بن گئی۔میر جعفر خککان جمککالی‪ ،‬میککر قککادر‬
‫بخش زہری‪ ،‬سکردار بکاز خکان اور نکواب محمکد خکان جکوگیزئی نکے بلوچسکتان ککے‬
‫مختلف علقوں میں مسلم لیگ کے اجلس منعقد کئے اور عککوام تککک قککائداعظم کککا‬
‫پیغام پہنچایا۔ ‪ 23‬مارچ ‪ 1941‬کو کوئٹہ میں یوم پاکستان منایا گیا۔ جس میں قاضککی‬
‫محمد عی ٰسی کی قیادت میں لوگککوں ککی ایکک بکڑی ریلککی نکککالی گئی۔‪ 1943‬میککں‬
‫بلوچستان مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن قائم ہوئی۔قیام پاکستان کے وقت بلوچسککتان‬
‫کے شاہی جرگے نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔‬
‫) ک( صوبہ سرحد‬
‫صوبہ سرحد کے عوام اپنی بہادری اور مذہبی ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں۔قائداعظم‬
‫ککے مطککالبے پککر ‪ 1927‬میککں دسککتوری اصککلحات کککا آغککاز ہوا۔‪ 1940‬میککں سککردار‬
‫اورنگزیککب نکے قککرارداد پاکسککتان کککی تائیککد و توثیککق کککی۔سککردار اورنگزیککب خککان‪،‬‬
‫جسٹس سجاد احمد خان اور خان بہادر الل کہ خککان کککی کوششککوں س کے ‪ 1939‬میککں‬
‫ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔یہ کانفرنس سککرحد ک کے مسککلمانوں‬
‫میں تحریک آزادی کی روح پھونکنے کا ذریعہ بنکی۔کئی اضکلع میککں مسکلم لیککگ ککے‬
‫دفاتر کھولے گئے۔مسلم لیگ نے ‪ 1947‬میں صوبے میں سول نافرمککانی کککی تحریککک‬
‫شروع کردی۔کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث‬
‫کردیا گیا۔تقریبا ً آٹھ ہزار کارکنان کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔لیکن مسلم لیککگ‬
‫کی تحریک بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔مککذہبی رہنمککاوں ن کے اس تحریککک‬
‫میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔اسلمیہ کالج پشککاور اور ای کڈورڈ کالککج ک کے طلب کہ تصککور‬
‫پاکستان کو نمایاں کرنے میں سرفہرست تھے۔اس تحریک کے نتیجے میککں کککانگریس‬
‫کے پیروں تلکے زمیکن نککل گئی اور اس صککوبے میکں اس ککا زور ٹککوٹ گیکا اوری ہاں‬
‫مسلم لیگ ایک مقبول سیاسی جمککاعت بککن گئی۔اس طککرح ‪ 14‬اگسککت ‪ 1947‬کککو‬
‫شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔‬
‫سوال‪ :‬ایک نظریاتی ریاست ک ے ش ہریوں کسسی کیسسا ذم س ہ داریسساں‬
‫ہیں؟‬
‫نظریاتی ریاست کے شہریوں کی ذمہ داریاں‬
‫قائد اعظم نے ‪ 15‬جون ‪ 1948‬کو قوم سے خطاب کیا اور انھیں صوبائیت اور نسل‬
‫پرستی کے خطرات سے ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ ”اب ہم بلوچی‪ ،‬پٹھان‪ ،‬سککندھی‪،‬‬
‫پنجابی اور بنگالی کے بجائے صرف پاکستانی ہیں۔ہماری سوچ اور فعل و عمل ایککک‬
‫پاکستانی کے شایان شان ہونا چاہئے اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر کر نککا چککاہئے۔“‬
‫جدوجہد پاکستان کے پس منظر میں یہ فکر و فلسفہ کارفرمککا ت ھا ک کہ ایککک اسککلمی‬
‫ریاست قائم کی جائے جہاں مسککلمان اسککلم ککے ابککدی اصککولوں ککے مطککابق اپنککی‬
‫زندگی گزارسکیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کا تصور ایک نظریاتی ریاسککت کککا‬
‫تھا اور ایک نظریاتی ریاست اپنے عوام سے مندرجہ ذیل ذمہ داریوں کا تقاض کہ کرتککی‬
‫ہے۔‬
‫) ک( اسلامی قوانین کا نفاذ‬
‫افراد اپنی زندگی اسلمی تعلیمات کے مطابق بسر کرنکے ککی کوشکش کریکں گکے۔‬
‫جواس ملک کی بنیادی اساس ہے۔اس اصول کا تقاضہ تھا ک کہ اسککلمی شککریعت ک کے‬
‫مطابق قوانین و قواعد و ضوابط مرتب کئے جائیں۔‬
‫) ک( جمہوری نظام کا قیام‬
‫شہری ایک ایسا جمہوری نظام قککائم کرن کے ک کے لئے جدوج ہد کریککں گ کے۔ جککس کککی‬
‫بنیادیں اسلمی اصولوں پر رکھی گئی ہوں۔ مغربی طرز کا جمہوری نظام پاکستان‬
‫کے لئے مناسب نہیں ہے۔سب کے لئے آزادی‪ ،‬احترام‪ ،‬عزت و تکریم اور مسککاوات کککا‬
‫جمہوری اصول ہی زندگی گزارنے کا واحد مناسب طریقہ ہے۔‬
‫) ک( وفادار اور محب وطن شہری‬
‫نظریاتی ریاست کے ہر شہری کو وفادار اور محب وطن ہونا چاہئے اور آزمائش کککے‬
‫وقت ریاست و مملکت کے لئے قربانی دینے ک کے لئے تیککار رہنککا چککاہئے۔ اس کککا ذاتککی‬
‫مفاد ریاست و مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چاہئے۔‬
‫) ک( رزق حلال‬
‫ہر شہری کو رزق حلل کمانا چاہئے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھہہوکے میککں ملککوث‬
‫نہیں ہونا چایئے۔ اس کا ذاتی مفاد ریاست و مملکت کے مفککاد س کے بککالتر نہیککں ہونککا‬
‫چایئے۔‬
‫) ک( تعلیم یافتہ اور مہذب‬
‫شہریوں کا رویہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب شخص کا ہونا چایئے ان ک کے لئے ی کہ لزمککی‬
‫ہو کہ وہ خود تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم ہی کامیابیوں کی کلید ہے۔‬
‫) ک( ریاست کے قوانین کا احترام‬
‫شہریوں کو ریاست کے قوانین کککا احککترام کرنککا چککاہئے اور قککانون نافککذ کرنکے والکے‬
‫اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انکو کبھی تشدد پر نہیں اترنا چایئے اور قوانین و‬
‫قواعد و ضوابط کی خلف ورزی سے بچنا چایئے۔‬
‫) ک( ترقی کے فروغ کا ذریعہ‬
‫شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میکں حصکہ لینکا چکاہئے جکو قکومی یکج ہتی‪ ،‬وقکار اور‬
‫ترقی کو فروغ دیتی ہوں۔ان کو سککماج دشککمن عناصککر کککی سککرگرمیوں ککے خلف‬
‫حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔‬
‫) ک( فلاح و بہبود‬
‫شہریوں کو سخت محنت کش ہونا چاہئے اور معاشکرے ککی فلح و بہبکود میکں حصکہ‬
‫لینا چاہئے۔‬
‫) ک( فرائض کی ادائیگی‬
‫شہریوں کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہنا چککاہئے اور اپن کے فککرائض پککوری‬
‫ذمہ داری اور توجہ سے ادا کرنے چاہئے۔ انھیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے‬
‫چاہئیں۔‬
‫) ‪ (10‬انسانی عظمت‬
‫شہریوں کو اسلمی اخوت اور انسانی عظمت کے لئے کام کرنا چاہئے۔‬
‫سوال‪ :‬قائداعظم ک ے کردار کی و ہ نمایاں صفات واضسسح کریسسں‬
‫جو ان ھیں دوسروں ک ے لئ ے نمون ہ بناتی ہیں؟‬
‫قائد اعظم کا کردار‬
‫) ک( بااصول شخصیتص‬
‫قائداعظم ایک بااصول شخص تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنے قول اور وعدہ کککو نبھایککا‬
‫اوراس کے مطابق اپنے عمل کو یقینی بنایا۔‬
‫) ک( ذہین سیاسی رہنما‬
‫قائداعظم ایک ذہین سیاسی رہنما تھے اور انہوں نے اپنی ذات میں بہت سی صککفات‬
‫جمع کرلی تھیں مثل ً تدبیر‪ ،‬حوصلہ‪ ،‬جرات‪ ،‬احساس ذمہ داری‪ ،‬وقککار‪ ،‬عظمککت‪ ،‬ع ہد‬
‫کی پاسداری‪ ،‬راست گوئی اور اپنے مقصد سے خلوص۔‬
‫) ک( جرات مند شخص‬
‫قائد اعظم ایک ایماندار‪ ،‬دیککانت دار‪ ،‬اور جککرات منککد شککخص ت ھے اور برصککغیر ک کے‬
‫مسلمانوں کی بہبود اور ان کے مفاد میں جو کچکھ ہوتککا ت ھااس پککر بککات کرنکے میککں‬
‫جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔‬
‫) ک( جازب نظر شخصیت‬
‫قائد اعظم دلفریب اور انتہائی جازب نظر شخصیت کے حامل ت ھے۔ ان ک کے انککداز و‬
‫اطوار انتہائی سلجھے ہوئے تھے اور مجالس میں ان کی موجودگی دوسروں کککے لئے‬
‫کشش کا باعث ہوتی تھی۔‬
‫) ک( مضبوط کردار کے مالک‬
‫قائد اعظم انتہائی مضبوط کردار ککے مالککک ت ھے اور ان ھوں نکے اصککولوں پککر کب ھی‬
‫سمجھوتہ نہیں کیا۔ خاص طور سے مسلمانوں اور پاکستان کے مفاد پر۔‬
‫) ک( ثابت قدم شخص‬
‫قائدا عظم ایک پر عزم‪ ،‬مستقل مزاج اور ثککابت قککدم شککخص ت ھے جککو کب ھی ب ھی‬
‫تھکتے نہیں تھے۔‬
‫) ک( پاکستان سے دلی وابستگی‬
‫قائد اعظم نے اپنی زندگی پاکستان کے لئے وقف کردی تھی۔یہ ان کی وسعت نظککر‪،‬‬
‫جرات‪ ،‬بے لوث خدمت اور وابستگی ہی تھی جس کی بدولت وہ دنیککا ک کے نقش کہ پککر‬
‫ظاہر ہونے کے فورا ً بعد پاکستان کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرسکے۔‬
‫) ک( طلبہ اور نوجوان نسل کے حامی‬
‫قائد اعظم طلبہ کی نوجوان نسل کے ب ہت بککڑے حککامی اور معککترف ت ھے اور انھیککں‬
‫اسلم اور پاکستان کا مستقل اسلحہخانہ تصور کرتے تھے۔‬
‫سوال‪ :‬بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم کا کردار بیان کریں؟‬
‫قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل‬
‫قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو ورثہ میں بے شمار مسائل ملے۔ ان مسائل میککں‬
‫بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی‪ ،‬پاکستان اوربھارت کے درمیککان اثککاثوں ککی‬
‫تقسیم‪ ،‬نہری پانی کا تنازعہ اور کشمیر کا مسککئلہ شککامل ت ھا۔ان حککالت میںبحیککثیت‬
‫گورنر جنرل قائداعظم نے اپنا فرض منصبی ذیل میکں دی گئی تفصکیل ککے مطکابق‬
‫ادا کیا۔‬
‫) ک( قومی یکجہتی‬
‫پاکستان کے ابتدائی مسائل کا تقاضا تھا کہ اس نئی مملکت ک کے عککوام ک کے درمیککان‬
‫قومی یکجہتی اور بھرپور تعاون کککا جککذبہ پککروان چڑ ھے۔ ب ھارت نکے کب ھی دل سکے‬
‫پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیاتھا اور ہندو رہنمککاو�¿ں کککا خیککال خککام ت ھا ککہ‬
‫پاکستان کا وجود جلد ختم ہوجائے گا اور برصغیر پھرسے متحککد ہوجککائے گککا۔لیکککن یکہ‬
‫قائداعظم کی ذہانت اور لیاقت تھی جس کے ذریعہ انہوں نکے ی ہاں ککے لوگککوں میککں‬
‫قومی روح‪ ،‬پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کا جذبہ بیدار کر دیا۔نتیجت کا ً قککومی‬
‫اتحاد و اتفاق نے فروغ پایا اور پاکستان ایک زندہ حقیقت بن گیا۔‬
‫) ک( مہاجرین کی بحالی‬
‫تقسیم ہند کے نتیجے میں ‪ 6.5‬ملین )‪ 65‬لکھ( مسلمان بے گھر کردئے گئے اور انھیں‬
‫پاکستان ہجرت کرنے اور پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی بحالی ایک مشکل کام‬
‫تھا۔قائد اعظم نے ان مہاجرین کی بحالی پر فککوری تککوجہ دی اور حکککومت پاکسککتان‬
‫کی طرف سے ایک "قائد اعظم ریلیف فنڈ"قککائم کردیککا گیککا۔ان ھوں نکے لوگککوں سکے‬
‫عطیات جمع کرانے کی اپیل کی۔قائد اعظم اکتوبر ‪ 1947‬میں لہور تشریف لے گئے‬
‫تاکہ مشرقی پنجاب سے ترک وطن کرکے آنے والے مہاجرین کا مسائل کککاخود جککائزہ‬
‫لے سکیں اور ان کی خوراک و رہائش کا بندوبست کیا جاسکے۔انھوں نے ‪ 30‬اکتککوبر‬
‫‪ 1947‬کو لہور میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا اور یہ اعلن کیککا ککہ یکہ تمککام‬
‫پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مہاجرین کککی ہرممکککن مککدد کریککں۔جن ہوں نکے‬
‫پاکستان کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑا اورجنھیں ہندووں اور سک ّھوں کککے ہاتھوں‬
‫نقصان اٹھانا پڑا ۔‬
‫) ک( سرکاری افسران کے رویے میں تبدیلی‬
‫قائداعظم نے سرکاری افسران کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو عوام کا خادم سمجھیں۔‬
‫‪ 25‬مارچ ‪ 1948‬کو قائد اعظم ن کے سککرکاری ملزمیککن س کے خطککاب کیککا اور ان کککو‬
‫ہدایت کی کہ وہ سیاسی یا گروہی وابستگی سے بلنککد ہہہوکر عککوام ککے خککادمین کککی‬
‫حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں۔اس طککرح عککوام کککی نظککروں‬
‫میں ان کا مقام بلند ہوگا۔‬
‫) ک( صوبائی اور نسلی امتیاز کی نفی‬
‫قائد اعظم نے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ خودکو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس‬
‫کر یں اور ہر قسکم ککے نسکلی امتیکاز اور علقکائی تعصکبات سکے خکود ککو علیحکدہ‬
‫رکھیں۔انھوں نے تمام صوبوں کا دورہ کیا اور ان کے مسائل حل کرنکے ککی کوشککش‬
‫کی ۔ آزاد قبائلی علقے وزیرستان ایجنسی سے مسلح افواج کو ہٹالیا گیککا۔اس سککے‬
‫اس علقے کو یہ پیغام دینا مقصود تھا ک کہ وہ ب ھی پاکسککتان کککا جککز ہے۔مختلککف آزاد‬
‫ریاستوں کو پاکستان میں شامل کرلیا گیککا۔ کراچککی کککو پاکسککتان کککا دارالحکککومت‬
‫قرار دیا گیا۔‬
‫) ک( پاکستانی معیشت کے رہنما اصولوں کا تعین‬
‫یکم جولئی ‪ 1948‬کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان )بینک دولت پاکستان( افتتاح کرت کے‬
‫ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان ککے لئے مغربککی معاشککی اور اقتصککادی نظککام‬
‫غیر مناسب ہے اور اس سے ملک کے عوام میں خوشحالی نہیں آسکککتی۔ ہمیکں ایکک‬
‫ایسا نظام تشکیل دینا ہے جس کی بنیاد اسلمی مساوات اور عدل اجتماعی پر ہو۔‬
‫اس طرح شاید ہم ساری دنیا میں ہم ایک نیا سماجی نظام متعارف کراسکیں گے۔‬
‫) ک( خارجہ پالیسی‬
‫آزادی کے فورا ً بعد قائد اعظم نے پاکستا ن کو اقوام متحککدہ کککا رکککن بنککانے ک کے لئے‬
‫اپنی توجہ مرکوز کی۔ان کی رہنمائی میںپاکستان کے بہت جلد بے شمار ممالککک سکے‬
‫سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ‬

‫اسلہاہمہیہہ جہمہہہوہرہیہہہہہ پہاکستانہ میںہ آہئینیہ‬


‫سوال‪ :‬کسی ملک ک ے لئ ے آئین یا دستور کیوں ضروری ہے؟‬
‫آئین کے معنی‬
‫قوانین اور قواعد و ضوابط کے ایسے مجموعے کو آئین یککا دسککتور ک ہا جاتککا ہے جککو‬
‫کسی ملک یا ریاست کا کاروبارِ حکومت چلنکے ککے لئے ترتیکب دیاجاتکا ہے۔ اس ککا‬
‫مقصدِ اول یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ ملک یا ریاسککت ک کے عککوام منظککم‪ ،‬پرامککن اور‬
‫خوشحال زندگی گزارسکیں۔‬
‫آئین کی ضرورت‬
‫کسی بھی ملک یا ریاسکت ککا نظکام یکا کاروبکار حککومت چلنکے ککے لئے کئی ادارے‬
‫وجود میں آتے ہیں اور ہر ادارے کے لئے قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دئے جککاتے‬
‫ہیں۔ ان اداروں کو چلنے کے لئے کچھ افراد کا تقرر بھی کیا جاتا ہے۔ اس طککرح ایککک‬
‫نظام حکومت وجود میککں آجاتککا ہے۔ دوسککرے الفککاظ میککں ادارے اور افککراد مککل کککر‬
‫حکومت بناتے ہیں۔ یہ حکومت پھر قوانین اور قواعد وضوابط کو یکجا کرتی ہے۔ ان‬
‫قواعد وقوانین و ضوابط کے مجموعے کو جککن کککی روشککنی میککں کاروبککار حکککومت‬
‫چلیا جاتا ہے آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔یہ حکومت کے مختلف شعبوں ک کے اختیککارات‪،‬‬
‫ان کے باہمی تعلقات نیز شہریوں ککے حقککوق ککابھی تعیکن کرتککا ہے۔ان مقاصکد ککے‬
‫حصول کےلئے اور کاروبار حکومت کومو�¿ثر طور پر چلن کے ک کے لئے ایککک آئیککن یککا‬
‫دستور کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تککاکہ کککوئی ب ھی شککخص یککا ادارہ آئیککن میککں دی گئی‬
‫حدود کو پار نہ کرسکے۔‬
‫سوال‪ :‬قراداد مقاصد کے اہم خدوخال بیان کریں؟‬
‫قرادادِ مقاصد ‪1949‬‬
‫پاکستان کی آئینی ارتقاءکی تاریخ میں قراداد مقاصد ایک انت ہائی ا ہم دسککتاویز ہے‬
‫اوراسے آئین سازی میں بنیادی قدم قرار دےا جاسکککتاہے۔اس کے ‪ 12‬مککارچ ‪1949‬کککو‬
‫منظور کیا گیا۔ اس قراداد میں اسلم کو پاکستان کی اساس قرار دیا گیا ہے۔‬
‫ِمقاصدکے نمایاں خدوخال‬ ‫قراداد ک‬
‫) ک( مقتدراعل ی ٰ اللہ تعال ی ٰ ہے‬
‫اس قرارداد میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ ساری کائنات کا مالککک اور‬
‫مقتدراعل ٰی صرف اللہ تعال ٰی ہے۔اقتدار مسلمانوں ککے پکاس اللکہ ککی امکانت ہے اور‬
‫اس اقتدار کو اسلم کی مقررہ کردہ حدود کے اندر رہ کر عوام کے منتخککب نمائنککدے‬
‫استعمال کریں گے۔‬
‫) ک( اسلام کے اصول کا نفاذ‬
‫اسلم کے پیش کردہ جمہوریت‪ ،‬مساوات اور عدل اجتمککاعی )معاشککرتی عککدل( ککے‬
‫اصول اور تصورات ملک میں نافذ کئے جائیں گے۔‬
‫) ک( بہتر اور مناسب ماحول‬
‫مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن مجیککد اور سککنت نبککوی میککں‬
‫پیش کردہ اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے بہتر اورمناسب ماحول فراہم کیا جائے‬
‫گا۔‬
‫) ک( اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ‬
‫تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ان کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے اور‬
‫اپنی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے پوری آزادی ہوگی۔‬
‫) ک( صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگی‬
‫پاکستان ایک وفاقی ریاست ہوگا۔ آئین میں متعین ککردہ حکدود ککے انکدر رہتکے ہوئے‬
‫تمام صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوگی۔‬
‫) ک( عدلیہ کی آزادی‬
‫عوام کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا جائے گا۔‬
‫سوال‪ 1956 :‬ک ے آئین ک ے امتیازی خووخال بیان کریں؟‬
‫‪1956‬کا آئین‬
‫جون ‪ 1955‬میں دوسری دستور ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور آئین سازی کککا کککام‬
‫شروع ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ملک کا آئین تیککار کیککا گیککا۔جککو ‪23‬‬
‫مارچ ‪1956‬کو نافذ ہوا۔ ‪ 1956‬کے آئین کے نمایاں خدوخال‬
‫اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حککاکمیت اور اقتککدار اعل ک ٰی الل کہ تعککال ٰی ک کے‬
‫( )‪۱‬‬
‫پاس ہے اور پاکستان کو اسلمی جمہوریہ قرار دیا گیا۔‬
‫)‪ (۲‬ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا۔‬
‫)‪ (۳‬صدر نے گورنر جنرل کی جگہ لے لی۔‬
‫)‪ (۴‬حکومت کے وفاقی نظام کے تحت مرکز اور پاکستان کے دونککوں صککوبوں یعنککی‬
‫سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری )‪ (Parity‬کی بن ےاد‬
‫پر اختیارات کا تعین کیا گےا۔‬
‫)‪ (۵‬اس بات کی ضمانت دی گئی کہ مسلمانوں کککو اسککلمی تعلیمککات ک کے مطککابق‬
‫زندگی گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گے۔‬
‫)‪ (۶‬حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک س کے قریککبی او ر دوسککتانہ تعلقککات‬
‫قائم کرے گی۔‬
‫)‪ (۷‬سربراہ مملکت لزما ً مسلمان ہوگا۔‬
‫)‪ (۸‬کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلمی اصولوں یعنی قرآن و سککنت‬
‫کے خلف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے‬
‫گی۔‬
‫)‪ (۹‬صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لککے‬
‫گا اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا۔‬
‫سوال‪ :‬مشرقی پاکستان مغربی پاکستان س س ے کیسسوں علیحسسد ہ‬
‫ہوا؟‬
‫مشرقی پاکستان کی علیحدگی‬
‫‪ 14‬اگست ‪ 1947‬کو پاکستان دو حصوں میں وجود میں آیا یعنی مشرقی پاکسککتان‬
‫اور مغربی پاکستان۔ ‪ 1971‬میں مشرقی پاکستان کی علیحککدگی ککے وقککت تککک یکہ‬
‫ایک ہی ملک رہا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط یا علیحدگی کے اسباب منککدرجہ ذیککل‬
‫ہیں۔‬
‫) ک( مشرقی یا مغربی پاکستان کا جغرافیائی محل و قوع‬
‫پاکستان کے ان دونوں حصوں کے درمیان تقریبًاسولہ سو کلو میڑ کککا فاصککلہ ت ھا اور‬
‫درمیان میں بھارت اور سمندر حائل ت ھے اسککی لئے دونککوں حصککوں ککے عککوام ایککک‬
‫دوسرے کے زیادہ قریب نہیں آسکے۔جس کے سبب مشرقی اور مغربی پاکستان کککے‬
‫عوام کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ بھارت نے کبھی بھی برصغیر کککی تقسککیم‬
‫اور قیام پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیاتھااس نے ان غلط فہمیوں کا فائدہ اٹھانککا‬
‫شروع کردیا اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس نے مغربککی‬
‫پاکستان کے خلف من گ ھڑت اور جھوٹککا پروپیگنکڈا شککروع کردیککا۔اس پروپیگنکڈا نکے‬
‫دونوں صوبوں کے عوام میں بداعتمادی پیدا کردی جس سے شدید نقصان پہنچا۔‬
‫) ک( معاشرتی اور سماجی ڈھانچے میں فرق‬
‫دونوں صوبوں کے عوام ککے مسکائل ب ہت مختلکف ت ھے۔اس لئے ان ککے مکابین ایکک‬
‫دوسرے سے آگاہی پروان نہیں چڑھ سکی۔ مشرقی پاکسککتان ک کے افسککران کککا روی کہ‬
‫اپنے لوگوں کے ساتھ کافی دوستانہ تھا اور وہ عوام کے زیادہ قریب تھے۔انھوں نے اپنے‬
‫عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کی۔اس کے مقابلے میں مغربککی پاکسککتان‬
‫کے وہ افسران جو مشرقی پاکستان میں تعینات کیے جاتے تھے‪ ،‬ان کا رویہ وہاں کککے‬
‫عوام کے ساتھ بالکل مختلف اور متکّبرانہ تھا۔وہ عوام سے فاصلہ کے اصول پر عمککل‬
‫کرتے تھے۔اس کی وجہ سے مغربی پاکستان کے خلف نفرت کا احساس پیککدا ہوگیککا۔‬
‫مشرقی پاکستان کے عوام یہ سمجھتے تھے کہ انھیں حکککومت ک کے عمککل و فعککل اور‬
‫نظم و نسق میں جائز اور حقیقی حصہ دار نہیں بنایا گیا ہے۔‬
‫) ک( مارشل لا‬
‫بار بار ماشل لءکے نفاذ نے بھی مشرقی پاکستان کے عوام میں احساس محرومککی‬
‫پیدا کردیا تھا۔جنککرل محمککد ایککوب خککان سیاسککتدانوں کککو یکہ الککزام دیتکے ت ھے ککہ وہ‬
‫پارلیمانی نظام حکومت کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں جککب ککہ عککوامی رہنمککا یکہ یقیککن‬
‫رکھتے تھے کہ پارلیمککانی نظککام حکککومت ککے قیککام میککں مارشککل لءسککب سکے بککڑی‬
‫رکاوٹ ہے۔ اس طرح ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکے گی۔‬
‫) ک( زبان کا مسئلہ‬
‫سرکاری زبان کے مسئلے پر مشککرقی پاکسککتان ک کے عککوام کووفککاقی حکککومت کککی‬
‫پالیسی سے اختلف تھا۔ اس مسککئلہ پککر حکککومت ککے خلف مظککاہرے ہوئے اور کئی‬
‫بنگالی طلبہ کی جان قربان ہوگئی۔ اس سے بنگالیوں کے ذہنوں میککں مزیککد اشککتعال‬
‫پیدا ہوا۔‬
‫) ک( صوبائی خودمختاری‬
‫مشرقی پاکستان مکمل صوبائی خودمختاری چاہتا تھا۔اس مطالبہ کواس وقککت تککک‬
‫تسلیم نہیں کیا گیا جب تک بھارت نے ‪ 1971‬میں مشککرقی پاکسککتان پککر حمل کہ نہیککں‬
‫کردیا۔اگر یہ مطالبہ پہلے تسلیم کرلیا جاتا تو شاید مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔‬
‫) ک( معاشی اور اقتصادی محرومی اور پروپیگنڈہ‬
‫عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمن نے بنگال میں یہ پروپیگن کڈہ اور تش کہیر کرنککا‬
‫شروع کردیا کہ بنگالیوں کو معاشککی اور اقتصککادی طککور پککر محککروم رک ھا گیککا ہے۔‬
‫عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لئے علیحدہ اقتصادی نظام کا مطککالبہ کردیککااور‬
‫اپنا چھ نکاتی منشور پیش کیا۔ ملک کی دیگر جماعتوں نے شیخ مجیب الرحمن کککی‬
‫تجاویز کو رد کردیا ۔کہا جاتا ہے ککہ اس نکے ب ھارت ککے سککاتھ خفیکہ تعلقککات جککوڑنے‬
‫شروع کردئے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو نے اپنے پروگراموں ک کے ذریع کے بنگککالیوں ک کے دلککوں‬
‫میں مغربی پاکستان کے عوام کے خلف نفرت پیدا کرنا شروع کردی۔‬
‫) ک( ہندو اساتذہ کا کردار‬
‫مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کی ایککک کککثیر تعککداد پڑ ھارہی‬
‫تھی۔انھوں نے ایک منصوبے کے تحت ایسا ادب اور لٹریچر تیار کیا جس کککی بککدولت‬
‫بنگالیوںکے ذہنوں میں مغربی پاکستان کے عوام کے خلف منفی جذبات اور خیککالت‬
‫پروان چڑھنے لگے۔‬
‫) ک( بین الاقوامی سازشیں‬
‫مشرقی پاکستان میں تقریبًادس ملین ) ایک کڑوڑ( ہندو اقلیت آباد تھی۔ہندوو �¿ں‬
‫کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھارت ان کی پشت پناہی کرر ہا ت ھا۔ب ھارت مشککرقی‬
‫پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہ رہاتھا تاکہ ہندوو�¿ں کی معاشککی اور اقتصککادی حککالت‬
‫مستحکم ہوسکے۔بے شککمار ہنککدو ب ھارت ک کے لئے جاسوسککی کرت کے ت ھے۔روس ب ھی‬
‫پاکستان کا مخالف تھا کیونکہ پاکستان نے امریکہ کو اپنے ہاں فکوجی اڈے قکائم کرنکے‬
‫کی اجکازت دے دی ت ھی۔دوسکری جکانب خکود امریککہ ب ھی مشککرقی پاکسککتان ککی‬
‫علیحدگی چاہتا تھا۔ان حالت میں روس نے پاکستان پربھارت کے حملے اور جارحیت‬
‫کی حمایت کی۔‬
‫‪ 1970‬میں شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت‬
‫‪ 1970‬کے عام انتخابات میں شککیخ مجیککب الرحمککن ککی عککوامی لیکگ نکے مشککرقی‬
‫پاکستان میں واضح اکثریت اور برتری حاصل کرلککی اور ‪ 162‬نشسککتوں میککں س کے‬
‫‪ 160‬پر کامیابی حاصل کی۔ان کے علوہ عوامی لیگ نکے خککواتین ککے لئے مخصککوص‬
‫تمام نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی۔انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد‬
‫شیخ مجیب الرحمن نے اپنے مطالبات میں اضافہ کرنا شروع کردیا لیکککن اس وقککت‬
‫کے فوجی حکمرانوں نے ان مطالبات کو نظر انداز کردیا۔‬
‫بھارت کا حملہ‬
‫فوجی کارروائی کے نتیجے میں عوامی لیگ کے رہنما اور بنگالیوںکی ایک کثیر تعککداد‬
‫بھارت فرار ہوگئی۔بھارت نے پاکستان کے انککدرونی معککاملت میککں مککداخلت شککروع‬
‫کردی۔بھارت نے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مشرقی پاکستان ک کے لک ھوں‬
‫پناہ گزینوں کی وجہ سے اس کی سلمتی کو خطرہ لحق ہوگیا ہے۔ مشرقی پاکستان‬
‫میں فوجی کارروائی کو بھارت نے اپنے اوپر حملہ قرار دیا تھا۔شیخ مجیککب الرحمککن‬
‫نے مکتی باہنی )آزادی کی فوج (کے نام سے ایک نیم فککوجی لشکککر ترتیککب دیککا ت ھا۔‬
‫جس نے پاکستانی فوج کے خلف گوریل جنگ کا آغاز کردیککا۔ اس کککی حمککایت میککں‬
‫بھارت نے بھی پاکستانی فوج پر حملے شروع کردیئے۔‪ 3‬دسمبر ‪ 1971‬کککو پاکسککتان‬
‫اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اندرون ملک عوام کککی حمککایت ن کہ‬
‫ہونے کی وجہ سے ‪ 16‬دسککمبر ‪ 1971‬کککو پاکسککتا ن کککی فککوج نکے ب ھارتی فککوج ککے‬
‫سامنے ہتھیار ڈال دیئے جبکہ مغربی پاکستان کے محاذ پر بغیر کسی بککڑے حمل کے ک کے‬
‫جنگ بند کردی گئی۔‬
‫سوال‪ :‬ملک میں خوشحالی لن ے کس ے لئ ے پاکسسستانیوں کسسو کیسسا‬
‫کردار ادا کرنا چایئ ے؟‬
‫پاکستان ایک عطیہ خداوندی ہے۔ اس کککا اسککتحکام اور خوشککحالی پاکسککتانیوں کککی‬
‫مشترکہ ذمہ داری ہے۔پاکستان مخالف عناصر بحیثیت ملک پاکستان کککو اور بحیککثیت‬
‫قوم مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں مشغول ہیں۔ان حالت میں ہماری ذمہ داریاں‬
‫ہمہ جہتی ہیں۔پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لئے ہمارا کککردار حسککب ذیککل‬
‫ہونا چاہئے۔‬
‫)‪ (۱‬ہمیں سخت محنت سے کام کرنا چاہئے اور قومی نشوونما اور فککروغ ک کے تمککام‬
‫شعبوں میں ترقی کرنی چاہئے تاکہ ملک خوشحال اور معاشی طور پر آزاد ہو۔‬
‫)‪ (۲‬ہمیں لسانیت اور علقائیت سے بلند تر ہوکر سوچنا چاہئے۔‬
‫)‪ (۳‬ہمیں اپنے قول و فعل سے پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کککا اظ ہار کرنککا‬
‫چایئے۔‬
‫)‪ (۴‬ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانا چائےے اور ملک کے دور دراز علقوں‬
‫تک تعلیم کو پھیلنا چائےے کیونکہ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کئے لئے تعلیم و احککد‬
‫ذریعہ ہے۔‬
‫)‪ (۵‬ہمیں خودانحصار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اورغیروں سے بھاری قرضے اور‬
‫امداد لینے سے پرہیز کرنی چایئے۔ یہ صککرف سککخت محنککت اور جانفشککانی سکے ہی‬
‫ممکن ہے۔‬
‫)‪ (۶‬ہمیں ایسانظام حکومت تشککلیل دینککا چککاہئے جککو معاشککرتی عککدل و انصککاف اور‬
‫اخوت پر مبنی ہو۔تمام برائیوں‪ ،‬بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے بچنا چایئے۔‬
‫)‪ (۷‬بطور پاکستانی ہمیں فخر محسوس کرنا چایئے۔‬
‫سوال‪ 1973 :‬ک ے آئین ک ے ا ہم نکات تحریر کریں؟‬
‫)‪1973 (۱‬کے آئین کی بنیاد بھی قرارداد ِ مقاصد پر رکھی گئی تھی۔‬
‫)‪ (۲‬ملک کا نام اسلمی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اور اسلم کو ریاست کا سرکاری‬
‫مذہب قرار دیا گیا۔‬
‫)‪ (۳‬مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ‬
‫” ایسا شخص مسلمان ہے جو الل س ہ پسسر اور حضسسرت محمسسد ﷺ پرالل س ہ ک س ے‬
‫آخری نبی ہون ے کا کامل ایمان رک ھتا ہو ۔“‬
‫)‪ (۴‬سربراہ مملکت یعنی صدر اور سربراہ حکومت یعنی وزیراعظککم مسککلمان ہوں‬
‫گے۔‬
‫)‪ (۵‬قرار داد مقاصد کو آئین میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا جککس میککں یکہ ک ہا‬
‫گیا ہے کہ تمام کائنات کا مالک‪ ،‬حاکم اعل ٰی اور مقتدر اعل ٰی صرف اللہ تعال ٰی ہے اور‬
‫عوام کے پاس اختیار و اقتداراللہ کی امانت ہے جسکو وہ اللہ کی مقککررہ کککردہ حککدود‬
‫کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرسکتے ہیں۔‬
‫)‪ (۶‬ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام رائج کیا گیا۔وزیراعظم کو بہت زیادہ اختیککار دیئے‬
‫گئے ہیں۔صدر مملکت کے اختیارات کو بہت محدود کردیا گیککا۔عملککی طککور پککر صککدر‬
‫مملکت وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر احکامات جاری نہیںکرسکتاتھا۔‬
‫ن‬
‫)‪ (۷‬پاکستان میں پہلی مرتبہ دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمان قائم کی گئی ہے۔ایککوا ِ‬
‫ن زیریں کا نام قومی اسمبلی رکھا گیا ہے۔‬ ‫بال کا نام سینیٹ اور ایوا ِ‬
‫)‪ (۸‬صوبائی حکومت کو صوبائی خودمختاری دی گئی ہے۔‬
‫)‪ (۹‬عوام کے حقوق کے تحفط کے لئے عدلیہ کککی آزادی کککو ضککروری تحفظککات مہیککا‬
‫کیے گئے ہیں۔‬
‫)‪ (10‬آئین کی رو سے ایک اسلمی نظریاتی کونسل قائم کککی گئی تککاکہ وہ اسککلمی‬
‫اصولوں کے مطابق حکومت کی رہنمککائی کککرے۔ ‪۳۷۹۱‬ءک کے آئیککن ک کے تحککت ی کہ ایککک‬
‫مشاورتی ادارہ ہے جککو وفککاقی اور صککوبائی حکومتککوں کککو ایس کے اقککدامات ککے لئے‬
‫سفارشات پیش کرتا ہے جو مسلمانوں کو اسلمی اصککولوں و ضککوابط ککے مطککابق‬
‫زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوں۔یہ کونسل موجودہ قوانین کو اسلمی سککانچے‬
‫میں ڈھالنے کے لئے بھی اپنی رائے دے سکتی ہے۔‬
‫پہاکستانہ کی سرزہمیںہ اہوہرہہ آہبہ وہ ہہوہاہہہ‬
‫سوال‪ :‬آب و ہوا س ے کیا مراد ہے؟‬
‫آب و ہوا کسی علقے یا ملک کی طویل عرصے کی موسمی کیفیات کککا مطککالعہ آب‬
‫و ہوا کہلتا ہے۔موسمی کیفیات سے مککراد ہوا کککا دبککاو�¿‪ ،‬درج کہ حککرارت‪ ،‬رطککوبت‬
‫)نمی( اور بارش کی اوسط شامل ہے۔ پاکستان خطہ سرطان کے شمال میککں واقککع‬
‫ہے جبکہ یہ ملک مون سون آب و ہوا کے خطے کے انتہائی مغککرب میککں واقککع ہہہے لٰہہہ ذا‬
‫اس ملک کی آب وہوا خشک اور گرم ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے مختلف آب و ہوائی خط ے کون س ے ہیں؟‬
‫سالنہ درجہ حرارت‪،‬سالنہ بارش اورمجموعی فضائی کیفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے‬
‫پاکستان کو مندرجہ ذیل چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔‬
‫)‪ (۱‬بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ‬
‫)‪ (۲‬بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ‬
‫)‪ (۳‬بری آب و ہوا کا میدانی خطہ‬
‫)‪ (۴‬بری آب و ہوا کا ساحلی خطہ‬
‫) ک( بری آب و ہوا کا پہاڑی خطہ‬
‫آب و ہوا کے اس خطہ میں پاکستان ک کے تمککام شککمال مشککرقی اور شککمال مغربککی‬
‫پہاڑی علقے شامل ہیں۔ یہاں کا موسم سرما سکرد تریکن ہوتکا ہے اور عمومکا ً بکرف‬
‫باری ہوتی ہے۔موسم گرما ٹھنڈا ہوتا ہے جبکہ موسککم سککرما اور ب ہار میککں بککارش اور‬
‫اکثر دھند رہتی ہے۔‬
‫) ک( بری آب و ہوا کا سطح مرتفع خطہ‬
‫آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علقہ آتا ہے۔مئی سے وسط سککتمبر‬
‫تک گرم اور گرد آلود ہوائیں مسلسل چلتی ر ہتی ہیککں۔سککبی اور جیکککب آبککاد اسککی‬
‫خطہ میں واقع ہیں۔جنوری اور فروری کے مہینوں میں کچھ بارشیں ہوتی ہیں۔موسم‬
‫شدید گرم اور خشک رہتا ہے جبکہ گرد آلککود ہوائیں اس خط کے کککی ا ہم خصوصککیت‬
‫ہیں۔‬
‫) ک( بری آب و ہوا کا میدانی خطہ‬
‫آب و ہوا کے اس خطہ میں زیادہ تر بلوچستان کا علقہ آتا ہے۔ دریائے سندھ کا بککالئی‬
‫علقہ)صوبہ پنجاب( اور زیریں میدان )صوبہ سندھ( شکامل ہیکں۔ اس خطکہ ککی آب و‬
‫ہوا میں موسم گرما میں زیادہ درجہ حرارت رہتا ہے اور موسککم گرمککا ککے آخککر میککں‬
‫مون سون ہواو�¿ں سے شمالی پنجککاب میککں زیککادہ بارشککیں ہوتی ہیککں جبککہ بقیکہ‬
‫میدانی علقے میں بارشیں کم ہوتی ہیککں موسککم سککرما میککں ب ھی بککارش کککی ی ہی‬
‫صورتحال رہتی ہے۔ تھر اور جنککوب مشککرقی صککحرا خشککک تریکن علقکے ہیکں یعنککی‬
‫بارش بہت کم ہوتی ہے۔پشاور کے میدانی علقے میں طوفککان بککادو بککاراں آت کے ہیککں۔‬
‫پشاور میں موسم گرما میں گرد کے طوفان اکثر چلتے ہیں۔‬
‫) ک( بری آب و ہوا کاساحلی خطہ‬
‫آب و ہوا کے اس خطہ میں صوبہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علقے شامل ہیککں۔‬
‫سالنہ اور روزانہ درجہ حرارت میں بہت کم فرق ہوتا ہے۔موسم گرما ک کے دوران نیککم‬
‫بحری )سمندر سے آنے والی ہوائیں( چلتی ہیں۔ہوا میں نمککی زیککادہ ہوتی ہے۔سککالنہ‬
‫اوسطا ً درجہ حرارت ‪ 32‬درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔بارش ‪ 180‬ملککی میککٹر س کے کککم‬
‫ہوتی ہے۔مئی اور جون گرم ترین مہینے ہیں۔لسککبیلہ ک کے سککاھلی میککدان میککں بککارش‬
‫موسم گرما اور سرما دونوں موسموں میں ہوتی ہیں۔ پاکستان اگر چہ مککون سککون‬
‫آب و ہوا کے خطے میں واقع ہے لیکن اس کے انتہائی مغرب میں ہونے کی وجککہ سککے‬
‫اس خطے کی خصوصیات کا حامل نہیںہے۔لہٰذا پاکستان کی آب و ہوا خشک اور گککرم‬
‫ہے۔ درجہ حرارت میں انتہائی اختلف ہے۔ پاکستان کا بہت بڑا حصہ سککمندر سککے دور‬
‫واقع ہے۔‬
‫سوال‪ :‬آب و ہوا انسانی زندگی پر کیس ے اثرانداز ہوتی ہے؟‬
‫آب و ہوا کا زندگی پر اثر آب و ہوا سے انسانی حیات پر گہرے اثرات پڑتے ہیں کسی‬
‫جگہ کی آب و ہوا اور موسمی کیفیات اس علقے کے مکینوں کی بودوبککاش‪ ،‬لبککاس‪،‬‬
‫غذا‪ ،‬مصروفیات‪ ،‬کھیل‪ ،‬رسوم و رواج اور اقتصادی سرگرمیوںکو زیادہ متککاثر کرتککی‬
‫ہے۔پاکستان رقبے کے لحاظ سکے ایککک وسککیع و عریککض ملککک ہہہے ۔ اس ک کے مختلککف‬
‫خطوں کی آب و ہوا میں نمایاں فرق ہے۔ اس کککی وج کہ س کے مختلککف علقککوں ککے‬
‫عوام ککے ر ہن سکہن ککے طریقکوں اور رسکوم و رواج میکں ب ھی فکرق نظرآتکا ہے۔‬
‫پاکستان کے شمالی پہاڑی علقککوں میککں موسککم سککرما شککدید نککوعیت کککا ہوتککا ہے۔‬
‫درجہ�¿ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور اکککثر علقکے بککرف سکے‬
‫ڈھک جاتے ہیں۔اس شککدید سککردی ککے بککاعث اس علقکے کککی انسککانی‪ ،‬حیککوانی اور‬
‫نباتاتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔اس علقکے ککے لکوگ سککردیاں شکروع ہونے‬
‫سے قبل ہی ضککروری غککذائی اجنککاس اور مویشککی جمککع کرنککا شککروع کردیتکے ہیککں۔‬
‫سردیوں میں لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ی ہی وج کہ ہے ک کہ ی ہاں ککے‬
‫لوگ گھریلوصنعتوں اور دستکاریوں پر توجہ دیتے ہیں۔کچھ لککوگ موسککم سککرما میککں‬
‫روزی کمانے کی غکرض سکے عارضکی طککور پکر میکدانی علقککوں میککں نکککل مکککانی‬
‫کرجاتے ہیں اور موسم گرما شروع ہوتے ہی اپنے گ ھروں ککو واپکس لکوٹ آتکے ہیکں۔‬
‫گرمیوں کے شروع ہوتے ہی جب برف پگھلنا شککروع ہوتی ہے تککو زنککدگی کککی گہمککا‬
‫گہمی شروع ہوجاتی ہے۔اس موسم کے مختصر عرصکے میکں درخکت‪ ،‬پکودے‪ ،‬گ ھاس‬
‫وغیرہ جلدی پھلتے پھولتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ سردیوں میں جو چشکمے‪ ،‬نکدی‬
‫نالے منجمد ہوگئے تھے ان میں شکفاف پکانی بہنکا شکروع ہوجاتکا ہے۔ جکس سکے اس‬
‫علقے کے حسن میں مزیککد اضککافہ ہوجاتککا ہے۔لککوگ اپنککی بیککرون خککانہ زنککدگی یعنککی‬
‫زراعت‪ ،‬تجارت اور محنت مزدوری وغیرہ دوبارہ شروع کردیتے ہیں۔شمالی علقککوں‬
‫کے عوام کی صککحت پککر ب ھی اس سککرد آب و ہوا ککے اثککرات مرتککب ہوتے ہیککں۔ وہ‬
‫جسمانی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ گورا ہوتا ہے۔ وہ سخت جفا کش‬
‫اور بہادرہوتے ہیں۔ سخت طرز زندگی نے ان کو باہمت‪ ،‬جرا�¿ت منککد اور مضککبوط‬
‫بنادیا ہے۔ پاکستان کے میدانی علقوں کی آب و ہوا میں شدت پائی جککاتی ہے یعنککی‬
‫موسم گرما میں شدید گرمی اور موسم سرما میں شدید سردی ہوتی ہے۔سردیوں‬
‫میککں دل جمعککی اور خوشککدلی سکے کککام کرنککا آسککان ہوتککا ہے جبک کہ گرمیککوں میککں‬
‫کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔گرمیوں مین ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں جبکککہ سککردیوں‬
‫میں موٹے کپڑے استعمال میں آتے ہیں۔ان علقککوں کککی زمیککن اور آب و ہوا دونککوں‬
‫زراعت کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔موسم سککرما و گرمککا میکں مختلکف فصکلیں پیککدا‬
‫ہوتی ہیں چونکہ ان علقوں میں کثیر مقدار میں غذائی اجناس سبزیاں اور پھل پیدا‬
‫ہوتے ہیں۔اس لیے یہاں ککے لککوگ بہہہت خوشککحال ہیککں۔ شککمالی علقککوں کککی نسککبت‬
‫میدانی علقے ب ہت زیککادہ گنجککان آبککاد ہیککں ذرائع آمککد و رفککت اور نقککل و حمککل ککے‬
‫سہولتیں فراوانی کے ساتھ دستیاب ہیں۔ یہاںکے عوام بالواسطہ یا بلواسککطہ زراعککت‬
‫سے وابستہ ہیں۔ یہاں تعلیم اور زندگی کی دیگر تمام سہولتیں میسر ہیککں۔عککوام ککے‬
‫پاس روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ پاکستان ککے جنککوبی حصکے اور علقکے‬
‫زیادہ ترریگستان اور صحراہیں۔ ےہاں سخت گرمی ہوتی ہے۔ گرد آلود آندھیاں چلککتی‬
‫ہیں اور ریت کے طوفان بکثرت آتے ہیں۔یہاں کے رہنے والے خودکو گرمی اورلککو س کے‬
‫بچانے کی خاطر موٹے موٹے کپڑے پہنتے ہیککں اور سککر پککر پگککڑی بانککدھتے ہیںککاور اپنکے‬
‫جسموں کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں ۔ ی کہ لککوگ راتککوں کککو سککفر کرتکے ہیککں‬
‫کیونکہ کہ راتوں کو صحرا نسبتا ً ٹھنڈے ہوتے ہیں۔یہاں کے لوگ بھیڑ‪ ،‬بکریککاں اور دیگککر‬
‫مویشی پالتے ہیں۔جن علقوں میں نہروں کے ذریعے آبپاشی ہوتی ہے وہ زیککر کاشککت‬
‫ہے۔ سطع مرتفع بلوچستان کی آب و ہوا بھی شدید قسم کی ہے۔ موسم سرما میں‬
‫اکثر علقوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور بعض مقامات پر برف بککاری ب ھی ہوتی‬
‫ہے ۔ سردیوں میں عوام اندرون خانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیںکاور زیکادہ تکر‬
‫وقت فروخت کرنے کے لئے تحفے تحائف تیار کرنے میں گزارتے ہیں۔ان سرد علقوں‬
‫کے بعض لوگ گرم علقوں کی طرف نقل مکانی کرجاتے ہیںاور گرمیوں میں واپس‬
‫لوٹ آتے ہیں۔ موسم گرما میں بلوچستان کے میدانی علقے انتہائی گککرم ہوتے ہیککں۔‬
‫لوگ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے ہیں۔ مصنوعی ندی نالوں کے ذریعے پانی جمککع کیککا جاتککا‬
‫ہے جنہیں”کاریز“کہا جاتا ہے۔آجکل ان میں سے بیشتر کاریز خشک ہوگئے ہیں۔‬

‫شدید سرد علقوں کے لوگ گرم اونی اور موٹے کپڑے پہنتے ہیں۔ چھوٹے کمککروں ککے‬
‫مکانات بناتے ہیں تاکہ وہ جلدی اور آسانی سکے گکرم ہوسکککیں۔ان علقکوں ککے رہنکے‬
‫والے افراد ایسی غذا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں پروٹین اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے‬
‫تاکہ ان کو مناسب حرارت مل سکے وہ چکنا گوشت اور گندم اور مکئی کککی روٹککی‬
‫کھاتے ہیں۔وہ چائے اور کافی پیتے ہیں۔سرد علقوں میں نقل و حرکککت ب ہت کککم اور‬
‫دشوار ہوتی ہے۔برف باری کے سبب سڑکیں بند ہوجاتی ہیںاور لوگ اپنے گھروں میں‬
‫محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔اس لئے سککرد علقککوں میککں آبککادی کککم ہوتی ہے۔موسککم‬
‫سرما میں کوئی تفریح اور دلچسپی بھی نہیں ہوتی ہے۔ موسکم گرمکا مختصککر مگکر‬
‫بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ سرد علقوں میں ملزمتوں کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیککں۔‬
‫اس لئے ان علقوں کے عوام زیادہ خوشحال نہیں ہیں۔‬
‫سرد علقوں کے مقابلے میں میککدانی اور صککحرائی علقککوں میککں رہنکے والکے افککراد‬
‫گرمیوں کے موسم کی وجہ سے ڈھیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ا�‪±‬ن کے مکانات کھلککے اور‬
‫ہوادار ہوتے ہیں۔گرم علقوں کے عککوام گنککدم ککی روٹککی اور مچھلککی کھ ہاتے ہیککں۔ وہ‬
‫مختلف اقسام کے شربت پیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سارا سال کھیتی باڑی اور زراعت‬
‫میں مصروف رہتے ہیں۔یہاں کے رہنے والکے افرادمختلککف قسککم ککی ملزمکتیں کرتکے‬
‫ہیں۔ جن میں کاروباری‪ ،‬تجارتی اور سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میککں ملزمککتیں‬
‫شامل ہیں۔ملزمتوں کے مواقکع اور دیگککر سکہولیات ککی فراہمککی کککی وجکہ سکے ان‬
‫علقوں میں آبادی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں کے عوام سرد علقوں کے عوام کے مقابلے‬
‫میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬ماحولیاتی آلودگی س ے کیا مراد ہے؟‬
‫ماحولیاتی آلودگی‬
‫آلودگی کے معنی یہ ہیں کہ زمین‪ ،‬پانی اور فضا میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں جککو‬
‫انسان اور حیوانی حیات پر مضر اثرات کا باعث ہوں۔جب مختلککف عوامککل‪ ،‬جککو ک کہ‬
‫درِج ذیل ہیں‪ ،‬ہمارے ماحول میں تبدیلیاں لتے ہیں تککو اسککی کککو ماحولیککاتی آلککودگی‬
‫کہتے ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬فضائی آلودگی‬
‫)‪ (۲‬آبی آلودگی‬
‫)‪ (۳‬زمینی آلودگی‬
‫سوال‪ :‬ماحولیاتی آلودگی س ے آبادی ک ے اضسساف ے کسا کیسا تعلسق‬
‫ہے؟‬
‫ماحولیاتی مسائل‬
‫ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے اس کککی‬
‫وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی‪ ،‬تیز رفتار صنعتی ترقی اور بڑی اور چھوٹی گاڑیوں‬
‫سے نکلنے وال د ھواں شککامل ہیککں۔ ماحولیککات ککا علککم ایککک نئے علککم ککے طککور پککر‬
‫ا�‪±‬بھر رہا ہے تاکہ پانی‪ ،‬ہوا‪ ،‬فضا اور زمین میں آلککودگی سکے لوگککوں کککو آگککاہ کیککا‬
‫جاسکے اور ان میںاس کی بابت شعور پیدا ہوسکے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں‬
‫شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬جنوبی ایشاءک ے خط ے میں پاکستان ک ے محسسل و وقسسوع‬
‫کی ا ہمیت بیان کریں؟‬
‫پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت‬
‫پاکستان کا محل و وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکسککتان جککس خط کے میککں‬
‫واقع ہے اس کی دفاعی‪ ،‬فوجی‪ ،‬اقتصکادی اور سیاسکی اہمیکت نمایکاں ہے۔ منکدرجہ‬
‫ذیل عوامل یا وجوہات کی بناءپر اس کی اہمیت عیاں ہے۔‬
‫) ک( تجارتی شاہراہ‬
‫شمال میں یہ چین سے جڑا ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم بّری اور زمینی راستے س کے چیککن‬
‫اور پاکستان کو باہم ملتی ہے۔ یہ شاہراہ سلسکلہ قراقکرم ککی چٹکانوں ککو ککاٹ ککر‬
‫بنائی گئی ہے اور یہ چین اور پاکستان کے مابین اہم تجارتی شاہراہ ہے۔ پاکسککتان ک کے‬
‫چین سے ساتھ انہتائی دوستانہ تعلقات ہیں۔‬
‫) ک(ب ر ّ ی اور بحری راستوں کی سہولت‬
‫پاکستان افغانسککتان کککو تجککارت ککے لئے بکّری اور بحککری راستوںسکے را ہداری کککی‬
‫سہولت مہیا کرتا ہے۔‬
‫) ک( وسطی ایشیاءسے خوشگوارتعلقات‬
‫چین کے مغرب میں افغانستان کے علقے کی ایککک تنککگ پککٹی واخککان‪ ،‬پاکسککتان کککی‬
‫شمالی سرحد کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ پاکستان نے وسککطی ایشککیاءکے اس‬
‫ملک کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہیں۔‬
‫) ک( مسلم ممالک سے خوشگوار تعلقات‬
‫پاکستان کے مشککرق میککں ب ھارت واقککع ہے۔ ب ھارت ککے مشککرق میککں بنگلکہ دیککش‪،‬‬
‫ملئشیا‪ ،‬انڈونیشیا اور برونائی دارالسلم کے مسلم ممالک واقع ہیککں۔ پاکسککتان ک کے‬
‫ان تمام ممالک سے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔‬
‫) ک( ) ایکو( کے بنیادی اراکین‬
‫پاکستان کی جنوب مغربکی سکرحد پکر ایکران واقکع ہے۔ پاکسکتان ایکران اور ترککی‬
‫اقتصادی تعاون کی تنظیم )ایکو( کے بنیادی اراکین ہیں اس تعککاون ک کے نککتیجے میککں‬
‫تمام رکن ممالک کے مابین انتہائی دوستانہ تعلقات قائم ہیککں۔ ان ممالککک ن کے بککاہمی‬
‫دلچسپی کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔‬
‫) ک( کراچی بحرہ عرب کی اہم بندرگاہ‬
‫پاکستان تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کے نزدیک اور مغرب میں مراکککش س کے‬
‫لے کر مشرق میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی مسلم دنیا کے درمیان میں واقع ہے۔ب کے‬
‫شمار مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار خلیجی ممالک کی تیل پیداوار پککر‬
‫ہے۔یہ تیل دوسرے ممالک کو بحیرہ عرب کے ذریعے بھیجا جاتککا ہہہے اور کراچککی بحیککرہ‬
‫عرب کی انتہائی اہم بندرگاہ ہے۔‬
‫) ک( مشرق وسط ی ٰ اور خلیج کے مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات‬
‫مشرق وسط ٰی اور خلیج کے مسلم ممالک سے پاکستان کے انتہائی دوستانہ تعلقککات‬
‫ہیں۔ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہہہے۔ سککعودی عککرب اور‬
‫عرب امارات جیسے ممالک پاکستانیوں کے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔‬
‫) ک( کراچی ایک بین الاقوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ‬
‫کراچی ایک بین القوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ ہے ۔ یہ ہوائی اور بحری راسککتوں س کے‬
‫یورپ کو ایشیا سے ملتا ہے۔وہ تمام ممالک جو مشرق وسککط ٰی اور وسککط ایشککیائی‬
‫ممالک سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے محل و وقککوع کککو نظککر انککداز نہیککں‬
‫کرسکتے۔‬
‫) ک( گندھارا کی قدیم تہذیبیں اور سیاحت‬
‫پاکستان میں وادی سندھ اور گندھارا کی قدیم تہذیبیں ہیںاور سیاحت کے نقطہ نظککر‬
‫سے یہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بے شمار سیاح وادی کاغکان‪ ،‬سککوات اور پاکسککتان ککے‬
‫شمالی علقوں کی سیاحت کو پسند کرتے ہیں۔‬
‫) کک( دوستانہ تعلقات‬
‫پاکستان‪ ،‬افغانستان اور ترکمانستان نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جککس ک کے‬
‫تحت پاکستان کو افغانستان کے راستے گزرنے والی پائپ لئن کے ذریعے گیککس مہیککا‬
‫کی جائے گی۔ یہ منصوبہ ایک دوسرے کے مابین دوسککتانہ تعلقککات کککو پککروان چڑ ھانے‬
‫میں مددگار ثابت ہوگا۔ پاکستان کی رضامندی سکے ب ھارت ب ھی اس منصککوبے سکے‬
‫فائدہ اٹھاسکتا ہے۔‬
‫) کک( مسئلہ کشمیر‬
‫پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پورے جنککوبی ایشککیاءکے‬
‫خطے میں امن قائم ہوجککائے گککا اور تجککارت کککو فککروغ ملکے گککا۔دونککوں ممالککک ککے‬
‫درمیان خوشگوار‪ ،‬سیاسککی اور اقتصککادی تعلقککات سکے اس خطکے میککں غربککت اور‬
‫افلس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔‬
‫) کک( ساتویں ایٹمی قوت‬
‫پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اورمسلم دنیا میں اس کو انت ہائی تحسککین‬
‫اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مسلم ممالک کککی نظریککں پاکسککتان پککر لگککی‬
‫ہوئی ہیں کہ وہ کئی میدانوں میں مشترکہ ترقی اور فکروغ ککے لئے قکائدانہ ککردار ادا‬
‫کرے گا اور رہنمائی فراہم کرے گا۔حالیہ دنوں میں یہ بیرونی سرمایہ گککاری کککا مرکککز‬
‫بن گیا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے طبعی خدوخال مختصرا ً بیان کریں؟‬
‫پاکستان کے طبعی خدوخال‬
‫پاکستان کی ارضی سطح کو طبعی خدوخال کے لحاظ سے منککدرجہ ذیککل چککار بککڑے‬
‫صوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔‬ ‫ح ّ‬
‫)‪ (۱‬پہاڑی سلسلے‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع‬
‫)‪ (۳‬میدانی علقے‬
‫)‪ (۴‬ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے‬
‫) ک( پہاڑی سلسلے ) سلسلہ کوہ(‬
‫صوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول شککمالی اور‬ ‫پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کو دو ح ّ‬
‫شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اوردوم مغربی اور شمال مغربی پہاڑی سلسلہ۔ )اول(‬
‫شمالی اور شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اس حصےمیں کو ِہ ہمالیہاور کککو ِہ قراقککرم‬
‫شامل ہیں۔ سلسلہکو ِہ ہمالیہ‬
‫)‪ (۱‬شوالک کی پہاڑیاں‪/‬ہمالیہ بیرونی کاسلسلہ‬
‫)‪ (۲‬پیر پنجال‪ /.‬ہمالیہ صغیر کا سلسلہ‬
‫)‪ (۳‬ہمالیہ کبیر کا سلسلہ‬
‫)(‪ ۴‬کو ِہ لداخ‪/‬ہمالیہ کا اندرونی سلسلہ‬
‫) دوم( شمال مغربی اور مغربی پہاڑی سلسلہ‬
‫پاکستان کے شمال میں واقع سلسککلہکککو ِہ یککا پ ہاڑی سلسککلہ کککو ہمککالیہ کککی مغربککی‬
‫شاخیں بھی کہا جاتا ہے۔ شکمالی پ ہاڑیوں ککے مقکابلے میکں یکہ ککم بلنکد ہیکں۔ پ ہاڑی‬
‫صوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‬ ‫سلسلوں کو مندرجہ ذیل ح ّ‬
‫)‪ (۱‬سلسلہکو ِہ ہندو کش‬
‫)‪ (۲‬سلسلہکو ِہ سفید‬
‫)‪ (۳‬وزیرستان کی پہاڑیاں‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع‬
‫پاکستان میں مندرجہ ذیل دو سطع مرتفع واقع ہیں‬
‫)‪ (۱‬سطع مرتفع پوٹھوہار‬
‫)‪ (۲‬سطع مرتفع بلوچستان‬
‫)‪ (۳‬میدانی علقے‬
‫پاکستان کے میدانی علقے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریاو�¿ں کی لئی ہوئی‬
‫صککوں میککں تقسککیم کئے‬ ‫مٹی سے بنے ہیں۔ یہ وسیع و عریککض میککدانی علق کے تیککن ح ّ‬
‫جاسکتے ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬دریائے سندھ کا بالئی میدان‬
‫)‪ (۲‬دریائے سندھ کا زیریں میدان‬
‫)‪ (۳‬دریائے سندھ کا ڈیلٹائی میدان‬
‫)‪ (۴‬ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے‬
‫پاکستان کے جنوب مشرق میں ایک وسیع و عریض علقہ ریت کے ٹیلککوں س کے ب ھرا‬
‫ہوا ہے۔یہ ٹیلے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔پاکستان کے ریگستانی علقککوں میککں بارشککیں‬
‫بہت کم ہوتی ہیں ۔ اس لئے ان ریگستانوں میں قدرتی نباتات نہیں پائی جککاتی ہیککں۔‬
‫پاکستان کے کچھ میدانی علقے بھی ریگستانی یا نیم ریگسککتانی علق کے کہلئے جککاتے‬
‫ہیں کیوں کے ان کے طبعی حالت میدانی علقوں سے مختلف ہیں۔ ان میں سے چند‬
‫صوبہ پنجاب میں اور کچھ صوبہ سندھ میں واقع ہیں یہ علقے حسب ذیل ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬تھل کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۲‬چولستان کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۳‬تھر اور نارا کا ریگستانی علقہ‬
‫)‪ (۴‬چاغی اور خاران کا ریگستانی علقہ‬
‫سوال‪ :‬شمالی مشرقی پ ہاڑی سلسلوں ک ے فوائد بتائی ے؟‬
‫شمالی اور شمالی مشرقی پہاڑی سلسلے کے فوائد‬
‫)‪ (۱‬یہ پہاڑ پاکستان کے لئے بہت مفید ہیں۔ یہ اپنی بلند اور ناہموار سطح کی وجہ سے‬
‫پاکستان کو شمال کی جانب سے ایک قدرتی حصار اور دفاع مہیا کرتا ہے۔‬
‫)‪ (۲‬ی کہ پاکسککتان کککی قطککب شککمالی س کے اٹھن کے والککی خککون جمککادینے والککی سککرد‬
‫ہواو�¿ں سے محفوظ رکھتی ہے ورنہ موسم سرما میں پنجاب و سرحد بککرف س کے‬
‫ڈھک جاتے اور سردیوں کی طویل لہر اور طویل دورانیہ سے زنککدگی انتہہہائی دشککوار‬
‫ہوجاتی۔‬
‫)‪ (۳‬مون سون کے موسم میں ان پہاڑیوں کی وجہ سے پنجککاب اور شککمالی علقککوں‬
‫میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ انہیں بارشوں کا پانی دریاّوںکے راستے آبپاشککی کککا‬
‫ذریعہ بن جاتا ہے۔‬
‫سی فیصد( جنگلت ان ہی پہاڑوںمیں واقککع ہیککں اگککر چ کہ‬ ‫)‪ (۴‬ہمارے ملک کے ‪) %80‬ا ّ‬
‫ہمارے ملک کے ‪4.5‬فیصد جغرافیائی رقبے میں جنگلت پھیلے ہوئے ہیںلیکن یہ جنگلت‬
‫بہت گھنے ہیں اور ملک کے لئے دولت و سرمایہ کا ذریعہ ہے۔‬
‫)‪ (۵‬موسم سرما میں یہ پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں جو موسم گرمککا میککں پگھلککتی‬
‫ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرتی ہے جو زراعت کے کام آتا ہے۔‬

‫پاکستان کے وسائل‬
‫سوال‪ :‬وسائل ک ے معنی اور ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬
‫وسائل کے معنی‬
‫دنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں۔ اّول انسانی وسائل ہیںجس کا مطلب یہ‬
‫ہے کہ مختلف کاموں کو سککرانجام دین کے ک کے لئے انسککانوں میککں کککس قککدر قککابلیت‪،‬‬
‫صلحیت اور اہلیت ہے۔ مختلف پیشوں کی نوعیت کے لحاظ س کے لوگککوں میککں ایککک‬
‫دوسرے سے امتیاز کیا جاتا ہے۔جب تمام پیشوں کو باہم ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تککو‬
‫اسی کو انسانی وسائل کہا جاتا ہے۔ وسائل کی دوسری قسم قدرتی وسائل کہلتی‬
‫ہے جو قدرت نے مہیا کئے ہیں قدرتی وسائل پیداوار کا ذریعہ ہیں۔‬
‫قومی ترقی میں وسائل کی اہمیت‬
‫یہ وسائل مندرجہ ذیل وجوہات کی بناءپر اہم ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬یہ کسی بھی قوم کی حقیقی دولت اور سرمایہ ہیں۔ایسے ممالک نکے ب ہت زیککادہ‬
‫ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے جہاں انسانی اور قدرتی وسائل موجود ہوں۔تاہم‬
‫ترقککی اور خوشککحالی کککا انحصککار ان وسککائل ککے دانشککمندانہ اور ذ ہانت ککے سککاتھ‬
‫مناسب استعمال پر ہے۔دنیا میں کئی ممالککک ایسکے ہیککں ج ہاں انسککانی اور قککدرتی‬
‫وسائل موجود ہیں لیکن منصوبہ بندی اور محنت و مشقت کے فقدان کککی وجکہ سکے‬
‫ان وسائل سے فائدہ نہیں ا�‪±‬ٹھایا جارہا۔‬
‫)‪ (۲‬یہ وسائل کسی بھی ملک کی حفاظت اور سککلمتی کککا ذریعکہ ہیککں۔ انسککانی اور‬
‫مادی وسائل ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے میکں مکددگار ثککابت ہوت ہیککں۔ ان ہی‬
‫قدرتی وسائل سے مظبوط فککوجی نظککام تشکککیل دینکے ککے لئے درکککار تمککام مککادی‬
‫ضروریات مہیا ہوتی ہیںاور انسانی وسائل ان قدرتی وسائل کو استعمال کرنے میککں‬
‫مدد کرتے ہیں۔‬
‫)‪ (۳‬یہ وسائل کسی ملک کی شہرت اور احترام کا سبب بنتے ہیں۔ مثال کے طور پککر‬
‫تمام مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنی جانب راغب کرتے ہیککں تککاکہ‬
‫وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے کثیر وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں۔‬
‫)‪ (۴‬یہ وسائل کسی ملک کی مادی ضروریات کو پککورا کرن کے میککں مککدد کرت کے ہیککں۔‬
‫اسی میں ضروریات زندگی آسائش اور عیش و آرام سب شامل ہے۔‬
‫)‪ (۵‬یہ وسائل تجارت اور کاروبار کو پروان چڑھانے میںمدد کرتے ہیں۔ ان وسائل سے‬
‫مال مال ممالک نکے سککاری دنیککا کککی تجککارت پککر قبضکہ کرلیکا ہے۔ ان کککی معیشککت‬
‫مضبوط ہے اور وہاں کے عوام کی قکوت خریکد ب ہت زیکادہ ہے اور وہ ایکک خوشکحال‬
‫زندگی گزاررہے ہیں۔‬
‫)‪ (۶‬ان وسائل سے کسی ملک کی تیز رفتار ترقککی اور خوشککحالی میککں مککدد ملککتی‬
‫ہے۔‬
‫)‪ (۷‬ان وسائل سے لوگوں کی پیٹ بھر کے غذا اور زندگی کی دیگر آسائشیں ملککتی‬
‫ہیں۔یہ قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان س کے قککومی اتحککاد اور ذاتککی‬
‫ککردار مضکبوط ہوتککا ہے۔ ان وسکائل سکے ایمانکداری‪ ،‬دیکانت داری‪ ،‬حکق گکوئی اور‬
‫رواداری و برداشت کی اعل ٰی صفات کو فروغ‬
‫سوال‪ :‬مختلف قسموں ک ے وسائل کا نام بتائی ے؟‬
‫انسانی وسائل‬
‫ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیککں مککل کککر انسککانی‬
‫وسائل کو تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں‬
‫کی لیاقت‪ ،‬قابلیت‪ ،‬اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسکانی وسککائل ہیککں‬
‫اور کسی بھی ملک کے لئے یہ انسانی وسائل ہی انسانی طککاقت کہلت کے ہیککں۔ اسککی‬
‫انسانی طاقت کی مختلف ملزمتوں میں درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابککل تککوجہ‬
‫ہے کہ دس سکال سکے زائد عمکر ککا ککوئی بھ ہی فکرد جکو اپنکے لئے ککام کرتکا ہہہے یکا‬
‫دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانہ ملزمت کرتا ہے وہ ایک باروزگار شخص‬
‫تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طککاقت مختلککف پیشککوں اور روزگککاروں س کے‬
‫وابستہ ہے۔ مثل ً زراعککت‪ ،‬کککان کنککی‪ ،‬عمکارت سککازی‪ ،‬تجککارت‪ ،‬مواصککلت‪ ،‬سککرکاری‬
‫ملزمتیں اور دیگر تمام بامعاوضہ کام۔‬
‫قدرتی وسائل‬
‫ایسے وسائل جو اللکہ تعککال ٰی نکے دنیککا ککے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی‪ ،‬جنگلت‪،‬‬
‫معدنیات اور پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسککائل کہلت کے ہیککں۔ ی کہ‬
‫وسائل عطیہ خداوندی ہیں۔انسان ان کا کھوج لگککا سکککتا ہے اور ان قککدرتی وسککائل‬
‫سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬جنگلت ک ے کیا فائد ہ ہیں؟‬
‫جنگلت جنگلت کسی بھی ملک کی معیشت کا لزمی جککز ہیککں۔ملککک کککی متککوازن‬
‫معیشت کے لئے ضروری ہے ک کہ اس ک کے ‪ 25‬فیصککد رقب کے پککر جنگلت ہوں۔جنگلت‬
‫قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پاکستان میں صرف ‪ 45‬فیصد رقبے پر جنگلت‬
‫پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جنگلت کا رقبہ اس لئے بھی کم ہور ہا ہے ککہ ی ہاں پککر‬
‫جنگلت کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا جارہا ہے۔ مکانات کککی تعمیککر ککے لئے جنگلت‬
‫کی زمین کو استعمال کی جارہا ہے اور پھر ہر سال دریککا ب ھی کٹککاوّ کککا کککام کرر ہے‬
‫ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنگلت کے اگانے کے لئے مزید زمیککن مختککص کککی جکائے‬
‫اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔‬
‫جنگلات کے فوائد‬
‫جنگلت کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬جنگلت ملک کے اہم وسائل میکں سکے ایکک ہیکں اور یکہ اس ملکک ککی عمکارتی‬
‫لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔‬
‫)‪ (۲‬جنگلت زمین کی زرخیزی قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔‬
‫)‪ (۳‬جنگلت درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے موسم کککو خککاص‬
‫طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔‬
‫)‪ (۴‬جنگلت سے حاصل شدہ جڑی بوٹیاں ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔‬
‫)‪ (۵‬جنگلت جنگلی حیات کا ذریعہ اورسبب ہیں۔بے شمار جنگلی جانور یعنککی شککیر‪،‬‬
‫چیتا‪ ،‬اور ہرن وغیرہ جنگلت میں پائے جاتے ہیں۔‬
‫)‪ (۶‬جنگلت جلئے جانے والی لکڑی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔‬
‫)‪ (۷‬جنگلت زمین کے حسن و دلفریبی میں اضافہ کرتے ہیں۔‬
‫)‪ (۸‬جنگلت بہت سے وسائل کا ذریعہ اور ماخککذ ہیککں۔مثل ً جنگلت سکے حاصککل کککردہ‬
‫لکڑی فرنیچر‪ ،‬کاغذ‪ ،‬ماچس اور کھیلوں کا سامان تیککار کرنکے میککں اسککتعمال ہوتی‬
‫ہیں۔‬
‫)‪ (۹‬جنگلت پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کککو تیککزی سکے پگھلنکے سکے روکتکے ہیککں اور‬
‫زمین کے کٹاو�¿ پر بھی قابو رکھتے ہیں۔‬
‫)‪ (۰۱‬جنگلت انسانوں اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھیوں اور طوفان کی تبکاہی‬
‫اور بربادی سے محفوظ رکھتے ہیں۔‬
‫)‪ (۱۱‬جنگلت فضاءمیں کابن ڈائی آکسائیڈ)‪ (Carbon Dioxide‬کی مقدار کو بڑھنے‬
‫نہیں دیتے کیوں کہ انھیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یکہ آکسککیجن خککارج‬
‫کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لزمی ہے۔‬
‫)‪ (۲۱‬بھیڑ‪ ،‬بکری‪ ،‬اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلت سکے حاصککل کرتکے‬
‫ہیں۔‬
‫)‪ (۳۱‬جنگلت تفریحککی مقامککات ککے کککام آتکے ہیککں اور لککوگ ان ککے خوبصککورت ان‬
‫حسین مناظر سے لطف اندوزہوتے ہیں۔‬
‫)‪ (۴۱‬جنگلت مختلف اقسام کے جانوروں اور پرندوں کککی افککزائش اور نشککونما کککا‬
‫ذریعہ بنتے ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے معدنی وسائل ک ے نام بتائ ے؟‬
‫معدنیات‬
‫رزمین دفن ہیں۔ اللہ تعککال ٰی نکے پاکسککتان کککو بھرپککور‬ ‫معدنیات قدرتی دولت ہیںجو زی ِ‬
‫معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یکہ معککدنی وسککائل تیککز رفتککار اقتصککادی اور‬
‫صنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔پاکسککتان ک کے ا ہم معککدنی‬
‫وسائل مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫) ک( معدنی تیل‬
‫دورِ جدید میں معدنی تیل ایک اہم قمتی سرمایہ ہے۔ یہ توانککائی پیککدا کرنکے کککا ذریعکہ‬
‫ہے۔ معدنی تیل خام حالت میں پایا جاتا ہے۔جس کو تیل صاف کرنے کے کارخانہ )آئل‬
‫ریفائنری( میں صاف کیا جاتا ہے اور اس سے پیٹرول اور دیگر مصنوعات یعنی مٹی‬
‫کا تیل‪ ،‬ڈیزل‪ ،‬پلسٹک اور موم بتی وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ملکی‬
‫ضروریات کا صرف ‪ 15‬فیصد تیل پیدا ہوتا ہے بقیہ ‪ 85‬فیصککد حص کہ دوسککرے ممالککک‬
‫سے درآمد کرکے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تیککل ک کے ذخککائر‬
‫سطع مرتفع‪ ،‬پوٹوہار‪ ،‬کھوڑ‪ ،‬ڈھلیاں‪ ،‬کوٹ میال‪،‬ضلع اٹک میں سککارنگ‪،‬ضککلع چکککوال‬
‫میں بالکسر‪ ،‬ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میں ڈھوڈک اور سندھ میککں‬
‫بدین‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬دادو اور سانگھڑ کے علقوں میں پائے جاتے ہیککں۔ تیککل او گیککس کککی‬
‫تلش کے لئے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشککن )‪ (OGDC‬بنککائی گئی‬
‫ہے۔ یہ ادارہ تیل کے مزید ذخائر تلش کرنے میں کوشاں ہے۔‬
‫قدرتی گیس‬
‫صنعتوں کو رواں رکھنے کے لئے قدرتی گیس مطلوب ہوتی ہے۔ اس کو گاڑیوں میککں‬
‫اور گھریلو ککاموں )امککورِ خکانہ داری( ککے لئے ب ھی اسکتعمال کیکا جاتکا ہے۔ اس ککا‬
‫استعمال بہت عام ہوگیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سسککتی ہوتی ہے۔ملککک‬
‫کی توانائی کا تقریبا ً‪ 35‬فیصد قدرتی گیس سے پورا ہوتا ہے۔ پاکستان میں گیس کے‬
‫وسیع ذخائر ہیں۔ پاکستان میں قدرتی گیس سب سے پہل کے ‪ 1952‬میککں بلوچسککتان‬
‫میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی۔اس کے بعد یکہ گیککس‬
‫سندھ اور پوٹوہار سمیت ‪ 13‬مقامات سے دریافت ہوئی۔گیککس ککے ذخککائر ککے سککب‬
‫سے اہم مقامات بلوچستان میں سککوئی‪ُ ،‬اچ اور َزن‪ ،‬سککندھ میککں خیرپککور‪ ،‬مزرانککی‪،‬‬
‫سیری‪ ،‬ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک‪ ،‬پیرکوہ‪ ،‬ڈھلیان اور میال شککامل‬
‫ہیں۔اس وقت قدرتی گیس پائپ لئنوں ک کے ذریع کے ملککک ک کے مختلککف علقککوں تککک‬
‫پہنچائی گئی ہے۔یہ گیس سیمنٹ‪ ،‬مصنوعی کھاد اور عمومی صنعتوں میں اسککتعمال‬
‫ہوتی ہے۔ اس کو حکرارت ککے ذریعکے بجلکی یکا تھرمکل بجلکی پیکدا کرنکے میکں بھ ہی‬
‫استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫کوئلہ‬
‫پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے۔لیکن یہ کوئلہ بہت اچھی قسم‬
‫کا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔پاکستان میں ملککک‬
‫کی ضرورت کا صرف ‪ 11‬فیصد کوئلہ نکلتا ہے۔ پنجاب میں ڈنڈوت‪ ،‬مکککڑوال اور پکڈھ‬
‫سے کوئلہ ملتا ہے۔بلوچستان میں شارگ‪ ،‬خوست‪ ،‬ہرنائی‪ ،‬سار‪ ،‬ڈیگککاری‪ ،‬شککیری اور‬
‫مچھ میں کوئلہ دستیاب ہے۔سندھ میں کوئلہ کی کانیں ضلع ٹھٹھہ میں جھمپر اور ضلع‬
‫جامشورو میں لکھڑا میں ہیں۔حال ہی میں ضلع تھرپارکر )سندھ ( بہت کثیر مقککدار‬
‫میں کوئلہ دستیاب ہوا ہے۔ صوبہ سرحد میں گلخیل سے بھی کوئلہ نکلتا ہے۔‬
‫خام لوہا‬
‫یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا‪ ،‬فولد‪ ،‬مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے کککے‬
‫کام آتی ہے۔کال باغ کے علقے میں خام لوہے یا لوہے کی معککدن ک کے سککب س کے بککڑے‬
‫ذخائر پائے جاتے ہیں۔دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے ‪ 32‬کلومیٹر جنککوب‬
‫میں لنگڑبال اور چترال میں دستیات ہوئے ہیں۔بلوچستان میں خام لککوہے) لککوہے کککی‬
‫معدن(خضدار‪ ،‬چل غازی اور مسلم باغ میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پایا جککانے وال‬
‫لوہا بہت معیاری اور عمدہ نہیں ہے اور یہ ملک کککی صککرف ‪ 16‬فیصککد ضککروریات کککو‬
‫پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔‬
‫کرومائیٹ‬
‫یہ ایک سفید رنگ کی د ھات ہے جککو فککولد سککازی‪ ،‬طیککارہ سککازی‪ ،‬رنککگ سککازی اور‬
‫تصویر کشی کے لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔دنیا میں کرمائیٹ کے سے سب سے‬
‫بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں۔اس کا زیادہ حصہ برآمد کرکے ذرمبککادلہ کمایککا جاتککا ہے۔‬
‫اس کے ذخائر بلوچستان میں مسلم باغ‪ ،‬چاغی اور خاران اور صوبہ سککرحد اور آزاد‬
‫قبائلی علقوں میں مالکنڈ‪ ،‬مہمند ایجنسی اور شککمالی وزیرسککتان میککں پککائے جککاتے‬
‫ہیں۔‬
‫تانبا‬
‫تانبا برقی آلت سازی میں استعمال ہوتا ہے۔برقی تار بھی تانبے سکے بنایکا جاتکا ہے۔‬
‫بلوچستان میں ضلع چاغی میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔‬
‫جپسم‬
‫جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیل پتھر ہے۔یہ سیمنٹ‪ ،‬کیمائی کھاد‪ ،‬پلسٹر آف پیککرس‬
‫اور رنگ کا پاو�¿ڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔جپسم جن علقوں سے حاصل ہوتککا‬
‫ہہہے۔ان میککں پنجککاب ک کے ضککلع جہلککم‪ ،‬میککانوالی اور ڈیککرہ غککازی خککان‪ ،‬سککرحد میککں‬
‫سی اور لورالئی شامل ہیں۔‬ ‫کوہاٹ‪،‬سندھ میں روہڑی اور بلوچستان میں کوئٹہ‪ ،‬س ّ‬
‫نمک‬
‫دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسککیع ذخککائر پاکسککتان میککں پککائے جککاتے‬
‫ہیں۔کوہستان نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے۔یہ نمک بہت عمدہ اور‬
‫معیاری ہے۔نمک کی سب سے بڑی کان کھیوڑو )ضلع جہلککم(میککں ہے۔ واڈچ ھا )ضککلع‬
‫خوشاب(‪ ،‬کال باغ )ضلع میانوالی( اور بیادرخیل )ضلع کرک( سے بھی نمککک حاصککل‬
‫ہوتا ہے۔ کراچی کے قریب ماری پور اور ساحل مکران ککے علقکے میککں سککمندر ککے‬
‫پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے۔‬
‫چونے کا پتھر‬
‫چونے کا پتھر زیادہ تر سیمنٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جککب اس کککو جلیککا‬
‫جاتا ہے تو اس سکے چونکا حاصکل ہوتکا ہے۔جکو گ ھروں میکں سککفیدی کرنکے ککے لئے‬
‫استعمال ہوتا ہے۔اس کو شیشہ ‪ ،‬صابن‪،‬کاغذ‪ ،‬رنگ کی صنعتوں میککں ب ھی اسککتعمال‬
‫کیا جاتاہے۔چونے کے پتھر سے وسیع ذخککائر ڈنکڈوت )ضککلع جہلککم(‪ ،‬حیککدرآبادکے قریککب‬
‫مغل کوٹ اور گنجو ٹکر‪ ،‬منگھوپیر اور رانی پور )سندھ( میں پائے جاتے ہیں۔‬
‫سن گ ِ مر مر‬
‫گ مر مر بکثریت پایا جاتا ہے۔‬ ‫پاکستان میں مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سن ِ‬
‫یہ چاغی‪ ،‬مردان‪ ،‬سوات کے اضلع اور خیبر ایجنسی میں پایا جاتا ہے۔اپنی نزاکککت و‬
‫گ مر مر دنیا میککں سککب س کے زیککادہ عمککدہ‬ ‫نفاست ورنگ کی بنیاد پر پاکستان کا سن ِ‬
‫گ مککر مککر ضککلع اٹککک میکں کالچٹککا کککی‬ ‫اورمعیاری سمجھا جاتاہے۔سیاہ و سککفید سککن ِ‬
‫گ مر مر سکے سککاختہ اشککیاءکی برآمککد سکے پاکسککتان کککی‬ ‫پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سن ِ‬
‫گ مر مر کی صنعت ملک کے لئے کثیر زرمبادلہ کمارہی ہے۔‬ ‫سن ِ‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے زرعی مسائل کیا ہے؟‬
‫پاکستان کے زرعی مسائل‬
‫زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیادہ افراد زراعت کے‬
‫شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غککذائی اجنککاس کککی‬
‫فصلیں کاشت کی جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کککی شککرح ب ہت پسککت ہے۔ اس کککی‬
‫وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫) ک( پست شرح خواندگی‬
‫ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیککر‬
‫تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔ُانھیں جراثیم کککش ادویککات‬
‫کے استعمال‪ ،‬معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کککے‬
‫بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکککڑ پیککداوار ملککک کککی‬
‫ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ُان روایتی طریقوں پر‬
‫یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔‬
‫) ک( کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد‬
‫زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشککت رقبکے کککو‬
‫بڑھانے کا عمل بہت سست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل کہ فی کس زیرِ کاشککت رقب کہ کککم‬
‫ہوگیا ہے۔‬
‫) ک( غیر مشینی کاشتکاری‬
‫ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل‪ ،‬گککوبر ککی کھ ہاد‪ ،‬غیککر تصککدیق شککدہ‬
‫مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے ک کہ فککی‬
‫ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمککارے کسککان انت ہائی محنککتی‬
‫اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ‪،‬‬
‫ٹیوب ویل‪ ،‬کھاد‪ ،‬تصدیق شدہ معیککاری بیککج اور بیجککوں کککی ایککک منظککم اور ترتیککب‪،‬‬
‫مشینی کاشتکاری کے اہم اور لزمی اجزاءہیککں۔ ہمککارا کسککان اور کاشککتکار مشککینی‬
‫کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کککا شکککار ہے۔ ُاس کککی وجکہ شککاید‬
‫پرانے خیالت یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یہ کہ اس کے پاس بہت کم خط کہ اراضککی‬
‫ہے۔‬
‫زرعی اراضی کی حدود‬
‫پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میککں تقسککیم کیککا جاتککا ہے۔ جککاگیردار اور‬
‫زمین دار گروہ ککے پککاس زمیککن ککے بککڑے بککڑے قطعککات ہیککں۔لیکککن وہ ان میککں خککود‬
‫کاشتکاری نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے بہت بڑے بڑے خط کہ اراضککی کاشککت ہونے س کے رہ‬
‫جاتے ہیں اور غیر آباد اور بنجر ہیں۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پککانی س کے‬
‫کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمین ‪12‬تا ‪ 15‬ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیککں ہے۔ وہ‬
‫ان چھوٹے خطہ�¿ اراضی پر مشینی کاشتکاری اختیککار نہیککں کرسکککتے اور مشککینی‬
‫کاشتکاری کے بغیر پیداوار کم ہی رہے گی۔ اسی لئے وہ دوسککرے کککاموں کککی جککانب‬
‫اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔‬
‫محکمہ زراعت کا کردار‬
‫محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیونکہ ہمارے کسان اور کاشککتکار کککو‬
‫محکمہ زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کککو اپن کے‬
‫قدیم طریقوں اور اپنے آباو�¿اجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔‬
‫دوسری جانب محکمہ زراعت کے اہل کار بھی اپنی مو�¿ثر کارکردگی دکھانے میککں‬
‫ناکام رہے ہیں۔فرائض سکے غفلککت برتنککا‪ ،‬مناسککب موقککع پککر مشککورہ کککا نکہ ملنککا اور‬
‫کاشککتکاروں اور کسککانوں کککو زرعککی آگ ہی دین کے میککں سسککتی اور عککدم دلچسککپی‬
‫کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کی چند وجوہات ہیں۔اسککی طککرح زرعککی‬
‫پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے۔‬
‫زمین کا کٹاو‬
‫بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آنککدھی‪ ،‬طوفککان‪ ،‬بککرف بککاری اور زلزلکے‬
‫زمین کے کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹادیتے‬
‫ہیں اور نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضککی کککو‬
‫ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسککیم ہوگئی‬
‫ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پیداوار محدودہوگئی ہے۔‬
‫ناکافی ذرائع نقل و حمل‬
‫ہمارے دیہات اور گاو�¿ں زرعی پیداوار کے خاص علقے ہیں۔لیکککن ان ک کے لئے پخت کہ‬
‫سڑکیں موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خسککتہ ہے۔ جککس‬
‫کی وجہ سے نقل و حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار‬
‫بحفاظت منڈی تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیککداوار پککر‬
‫قناعت کرلیتے ہیں۔‬
‫غیر مناسب حالات‬
‫دیہات میککں ر ہائش ککے نککاقص انتظککام‪ ،‬طککبیعی سکہولیات ککے فقککدان اور دوسککری‬
‫ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان ککے افکرادِ خکانہ‬
‫کی صحت متاثر ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طاقت گھٹ جککاتی ہے اور اس‬
‫کا ُبرا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑتا ہے۔‬
‫فصلوں کی فروخت پر اثر‬
‫آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیداوار کا‬
‫مناسب صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کککے‬
‫لئے مشکلت پیدا کرتے رہتے ہیککں۔ اس کککی وج کہ س کے کاشککتکار دل برداشککتہ ہوجککاتے‬
‫ہیںاور اس لئے بھی وہ پیداوار بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے زرعی وسائل کون س ے ہیں؟‬
‫زرعی نظام‬
‫پاکستان میں سال میں دو مرتبہ بڑی فصلیں بوئی جاتی ہیں۔اکتوبر اور نومککبر میککں‬
‫بوئی جانے والی فصل کو ربیع کی فصل کہا جاتا ہے۔اس کککی کٹککائی اپریککل اور مئی‬
‫میں ہوتی ہے۔ربیع کی فصلوں میں گندم‪ ،‬جوں‪ ،‬تیل کے بیج اور تمبکاکو شکامل ہیکں۔‬
‫دوسری فصل خریف ہے جو مئی اور جون کے مہینوں میں بوئی جاتی ہے اور اکتککوبر‬
‫نومبر میں اس کی کٹائی ہوتی ہے۔ خریف کی فصککلوں میککں چککاول‪ ،‬مکئی‪ ،‬کپککاس‪،‬‬
‫ل ذکر ہیں۔‬
‫گّنا‪ ،‬جوار اور باجرا قاب ِ‬
‫زرعی پیداوار‬
‫ربیع اور خریف کی فصلوں کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی نقد آور‬
‫فصلیں اور غذائی فصلیں۔ نقد آور فصلیں یہ فصلیں زِرمبادلہ کمانے کا خاص اور اہم‬
‫ذریعہ ہیں ان میں مندرجہ ذیل فصلیں شامل ہیں۔‬
‫) ک( کپاس‬
‫کپاس پاکستان کی سب سے اہم نقد آور فصل ہے اور ملک کی معیشت کو ب ہتر اور‬
‫مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔ کپاس کو پاکستان کا نقککدی ریشکہ ب ھی کہتکے ہیککں۔کپککاس‬
‫زیادہ تر صوبہ پنجاب اور سندھ میں کاشت کی جاتی ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد‬
‫میں صرف چند مقامات پر اور محدود پیمانے پر کپاس کاشککت ہوتی ہے۔ پاکسککتان‬
‫میں دو قسم کی کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ایک دیہی کپککاس اور دوسککری امریکککن‬
‫کپاس۔ امریکن کپاس کا ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کی کاشت پککر زیککادہ تککوجہ‬
‫دی جارہی ہیں کیونکہ کپاس وافر مقدار میں ملتی ہے اسی لئے ملک میں کپککڑے ک کے‬
‫کئی کارخانے لگائے گئے ہیں۔ کپڑے کے یہ کارخانے بہت ہی نفیس سوتی کپڑا‪ ،‬سککوتی‬
‫دھاگہ اور ریشہ اور دیگر سوتی اشیاءتیار کرتے ہیں۔‬
‫) ک( گ ن ّ ا‬
‫گّنا بھی ایک بہت اہم نقد آور فصل ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں میں بویا جاتککا‬
‫ہے۔ لیکن اس کی پیداوار کے خاص صوبے پنجکاب‪ ،‬سکندھ اور سکرحد ہیکں۔گّنکا شککر‬
‫سازی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کی باقیات سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان‬
‫میں اپنی ضرورت سے زائد شکر پیدا ہوتی ہے جس کو برآمد کرکے قیمتی زِرمبککادلہ‬
‫کمایا جاتا ہے۔‬
‫) ک( تمباکو‬
‫تمباکو بھی پاکستان کی ایک نقد آور فصل ہے۔ تمباکو خاص طور سے صککوبہ سککرحد‬
‫میں پشاور اور مردان کے اضلع میں پیککدا ہوتککا ہے۔ اس کککو سککیگریٹ سککازی میککں‬
‫استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کککو سککگار میککں ب ھی اسککتعمال کیککا جاتککا ہے۔ملککک میککں‬
‫سککیگریٹ سککازی کککی کئی بککڑی فیکڑیککاں کککام کرر ہی ہیککں۔ تمبککاکو اور اس کککی‬
‫مصنوعات دوسرے ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہیں۔‬
‫) ک( تیل کے بیج‬
‫پاکستان میں مختلف اقسام کے تیل کے بیج پیدا ہوتے ہیں۔ کپاس کی قیمتی پیککداوار‬
‫بنولہ سب سے اہم بیج ہے۔دیگر تیل کے بیجوں میں سرسوں کا تیل‪،‬السی اور سورج‬
‫مکھی شامل ہیں۔لیکن تیل کے کے بیجوں کی پیداوار ملکی ضروریات کا مقابلہ نہیں‬
‫کرپاتی۔اس لئے تیل کے بیج غیر ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔‬
‫غذائی فصلیں‬
‫یہ وہ فصلیں ہیں جو عوام کو غذا فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں یہ غککذائی فصککلیں منککدرجہ‬
‫ذیل ہیں۔‬
‫) ک( گندم‬
‫گندم پاکستان کی بنیادی غذائی جنس ہے۔اسی سے آٹا تیار کیککا جاتککا ہے۔ روٹککی اور‬
‫دیگر غذائی اشیاءآٹے سے ہی تیار ہوتی ہیں۔گندم کی پیداوار کی تین چوت ھائی حص کہ‬
‫صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب کے بعد صوبہ سندھ گی ہوں بکککثرت پیککدا کرتککا‬
‫ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی گیہوں پیدا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پیداوار پنجاب‬
‫اور سندھ کے مقابلے میں کم ہے۔گندم میں پاکستان کی خود کفالت کا انحصار پککانی‬
‫کی فراہمی پر ہے۔جب قدرت مہربان ہوتی ہے تو ضرورت سے زیادہ گندم پیککدا ہوتی‬
‫ہے۔ بعض اوقات گندم غیر ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ گندم ہماری روزمکرہ ککی‬
‫غذا کا ایک انتہائی اہم جز ہے۔‬
‫) ک( چاول‬
‫گندم کے بعد چاول پاکستان کی دوسری اہم غذائی جنس ہے۔پاکسککتان عمککدہ چککاول‬
‫کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اس کو دوسرے ممالک میں برآمککد ب ھی‬
‫کیا جاتاہے۔چاول کی کاشت پنجاب اور سندھ کے نہری علقوں میں ہوتی ہے کیوں کہ‬
‫اس کی کاشت کے لئے وافر مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔گوجرانککوالہ‪ ،‬سککیالکوٹ ‪،‬‬
‫شیخوپورہ ‪ ،‬سرگودھا اور ساہیوال چاول کی پیداور کے لئے بہت اہم ہیں ۔ سندھ میں‬
‫سکھر ‪ ،‬شککارپور ‪ ،‬لڑکککانہ اور دادو چکاول ککی کاشککت ککے لئے مشکہور ہیکں۔چکاول‬
‫پنجاب اور سندھ کے لوگوں کی غذا کا ایک اہم جز ہے۔ صککوبہ سککرحد ک کے ب ھی کچ کھ‬
‫علقوں میں چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ پاکستان میں یککوں تککو کئی قسککم کککا چکاول‬
‫ہوتا ہے لیکن ان میں دو قسمیں اہہہم ہیککں یعنککی باسککمتی چککاول اور آئی آر آر آئی )‬
‫‪ (IRRI‬چاول ہے۔ جو بین القککوامی تحقیقککی ادارہ بکرائے چکاول منیل ککا منتخکب ہے۔‬
‫چاول کی کاشت کے لئے رقبے کا تقریبا ً ‪ 70‬فیصد ان ہی دو قسموں کے لئے مختککص‬
‫ہے۔پاکستان میں چاول کی پیداوار میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان چاول کککی‬
‫پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ باسمتی چاول برآمد بھی کرتا ہے۔‬
‫) ک( مکئی‬
‫مکئی غذائی فصل ہے۔لیکن جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔‬
‫اس کی سب سے زیادہ کاشت صوبہ سرحد میں ہوتی ہے ج ہاں مککردان‪ ،‬ایبککٹ آبککاد‪،‬‬
‫مانسہرہ‪ ،‬سوات اور پشاور کے اضلع خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ صوبہ پنجاب میں‬
‫فیصل آباد اور ساہیوال کے اضلع مکئی کی کاشت کے لئے مشہور ہیں۔‬
‫) ک( جوار اور باجرا‬
‫غذائی اجناس کے حصول کے لئے جوار اور باجرا کو کاشت کیا جاتاہے۔ اس سے سبز‬
‫اور خشک کھاس بھی پیدا ہوتی ہے۔جو بہت سے جانوروں کے لئے چارے کے طککور پککر‬
‫استعمال ہوتی ہے۔یہ خریف کی فصلیں ہیں۔جن کی کاشت ایسے علقوں میککں ب ھی‬
‫ہوسکتی ہے۔ جہاں مٹی زیادہ اچھی نہیں ہے اور جو خشک سالی کا شکار ہہہوتے رہت کے‬
‫ہیں۔ان کی کاشت پنجاب اورسندھ تک محدود ہے۔صکوبہ پنجکاب میکں اٹکک‪ ،‬گجککرات‪،‬‬
‫سیالکوٹ اور سرگودھا کے اضلع میں باجرے کی کاشت نسبتا ً زیادہ ہوتی ہے۔ سککندھ‬
‫کے اضلع عمر کوٹ‪ ،‬تھرپارکر اور میرپورخاص باجرے کی پیداوار کککے لئے پاکسککتان‬
‫میں سرفہرست ہیں۔جوار کی کاشت کے لئے بھی پنجکاب ککے شکمالی اضکلع یعنکی‬
‫اٹک‪ ،‬راولپنڈی‪ ،‬جہلم اور سرگودھا مشہور ہیککں۔ سککندھ میککں سکککھر‪ ،‬خیرپککور‪ ،‬نککواب‬
‫شاہ‪ ،‬نوشہرہ فیروز‪ ،‬سانگھڑ اور دادو کے اضلع جوار کککی کاشککت ک کے خککاص علق کے‬
‫ہیں۔‬
‫) ک( دالیں‬
‫ملک میکں مختلکف قسککم ککی دالیکں ب ھی کاشکت ککی جکاتی ہیکں۔ ان دالکوں میکں‬
‫سرفہرست چنا ہے۔ اس کی کاشت کے لئے میانوالی اور سرگودھا کے بارانی علقککے‬
‫اہم مراکز ہیں۔صوبہ سرحد میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خککان ک کے اضککلع میککں بککڑے‬
‫پیمانے پر چنے کی کاشت ہوتی ہے۔ دوسککری دالیککں مثل ً مونککگ‪ ،‬مسککور‪ ،‬مککاش کککی‬
‫کاشت بھی ملک کے دیگر علقوں کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫) ک( جو ) جئی(‬
‫جو یا جئی کی کاشت بہت وسیع علقے میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کم زرخیز اور‬
‫خشک علقوں میں بویا جاتا ہے۔عام طور سے غریب لککوگ اس کککو اسککتعمال کرت کے‬
‫ہیں۔اس کو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫) ک( پھل اور سبزیاں‬
‫ش نظر رکھتے ہوئے ُاگککائی‬ ‫مختلف سبزیاں مقامی طور اور مقامی ضروریات کو پی ِ‬
‫جاتی ہیں۔یہ پورے ملک میں کاشت کی جاتی ہیککں۔ا ہم سککبزیوں اور ترکککاریوں میککں‬
‫آلو‪ ،‬شلجم‪ ،‬ٹماٹر‪ ،‬بھنڈی‪ ،‬بینگن‪ ،‬پالک‪ ،‬پیاز‪ ،‬مولی‪ ،‬مٹر‪ ،‬چقندر‪ ،‬بند گوبھی اور گاجر‬
‫وغیرہ شککامل ہیککں۔سککبزی اور ترکککاری کککی پیککداوار میککں پاکسککتان خککود کفیککل ہے۔‬
‫پاکستان آلو اورپیاز دوسرے ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔ پاکستان میککں ب کے شککمار‬
‫اقسام کے بہت خوش ذائقہ پھل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آب و ہوا کے فرق کی وج کہ س کے‬
‫یہ مخصوص علقوں میں کاشت کیے جاتے ہیککں۔بلوچسککتان اور صککوبہ سککرحد پھلککوں‬
‫کی پیداوار کے خاص علقے ہیں۔ ان کے پھلوں میککں انگککور‪ ،‬سککیب‪ ،‬انککار‪ ،‬آلککو بخککارہ‪،‬‬
‫ق ٰی‪ ،‬خوبانی‪ ،‬آڑواور چیری شامل ہیں۔ سندھ میں پھلوں کککی صککرف چنککد اقسککام‬ ‫من ّ‬
‫می‪ ،‬مککالٹے‪،‬‬ ‫ہیں۔ جن میں آم‪ ،‬کھجور‪ ،‬کیل‪ ،‬تربوزاورخربوزہ ہیں۔پنجاب میں آم‪ ،‬موس ّ‬
‫کینو‪ ،‬مشک‪ ،‬سردا‪ ،‬گرما‪ ،‬تربوزاور کھجوریں کاشت کی جاتی ہیں۔صوبہ سککرحد اور‬
‫بلوچستان میں خشک میوہ جات‪ ،‬مثل ً بادام‪ ،‬پستہ اور اخروٹ کاشت کئے جاتے ہیککں۔‬
‫تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی برآمد سے پاکستان کثیر زِرمبادلہ کماتا ہے۔‬

‫سوال‪ :‬ایٹمی )نیو کلیائی( توانائی پر ایک نوٹ لک ھئ ے؟‬

‫جوہر توانائی ) ایٹمی یانیو کلیائی توانائی(‬


‫توانائی کا ایک اور ذریعہ جوہری )ایٹمی( طاقت یا مرکزائی )نیو کلیائی( توانائی ہے۔‬
‫بھورے رنگ کا ایک تابکار عنصر یورینیم جوہری یا ایٹمی توانککائی پیککدا کرن کے ک کے لئے‬
‫استعمال ہوتا ہے۔ پاکسککتان میککں دو جککوہری )ایٹمککی( بجلککی کککام کرر ہے ہیککں۔ ایککک‬
‫کراچی میں ہے جس نے ‪ 1971‬میںبجلی پیدا کرنا شروع کی تھی اور دوسککرا چشککمہ‬
‫)میانوالی( میں ہے۔ چشمہ پلنٹ نے ‪ 2002‬میں بجلی پیدا کرنککا شککروع کککی ہے۔اس‬
‫کی پیداواری صلحیت ‪ 300‬میگا واٹ ہے۔ جککوہری طککاقت کککا تیسککرا منصککوبہ ب ھی‬
‫چشمہ کے مقام پر چین کے تعاون سے زیرِ تعمیر ہے۔ جوہری بجلککی گ ھروں کککو اس‬
‫لئے فوقیت دی جاتی ہے کیوںکہ ان سے صککارفین کککو سسککتی بجلککی مہیککا ہوتی ہے۔‬
‫جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر‬
‫اس کو زرعی تحقیق کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصکد ککے لئے تیکن مراککز‬
‫فیصل آبکاد )پنجککاب(‪ ،‬پشکاور )صککوبہ سککرحد( اور ٹنکڈوجام )سکندھ( میککں زرعکی اور‬
‫غذائی تحقیق کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ ان کے علوہ صوبہ سککرحد میککں قککومی ادارہ‬
‫برائے غذا اورزراعت )‪ (NIFA‬بھی کام کررہا ہے۔ سرطان )کینسر( ک کے علج ک کے لئے‬
‫بھی جوہری توانائی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے کراچی‪ ،‬جام شورو‪،‬‬
‫لڑکانہ‪ ،‬لہور‪ ،‬ملتان‪ ،‬بہاولپور‪ ،‬اسلم آباد‪ ،‬پشاور‪ ،‬کوئٹہ‪ ،‬فیصل آباد اور ایبٹ آباد میں‬
‫واقع جوہری توانائی کے ادارے کام کررہے ہیں۔‬
‫سسسوال‪ :‬انسسسانی وسسسائل اور دیگسسر وسسسائل کسسس طسسرح ایسسک‬
‫دوسر ے پر منحصر ہیں؟‬
‫انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا باہمی انحصار انسککانی وسککائل اور دیگککر وسککائل‬
‫کی اپنی اپنی جگہ آزادانہ اور علیحدہ قدروافادیت ہے۔ لیکن یہ سب وسائل بککاہم ایککک‬
‫دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ زنککدگی گزارن کے‬
‫کے لئے انسانوں کی بے شمار ضروریات ہیں۔ ان میں زندگی کی بنیککادی ضککروریات‬
‫یعنی روٹی‪ ،‬کپڑا اور مکان )غذا‪ ،‬چادر اور چار دیواری( شامل ہیں۔اسی طککرح چنککد‬
‫سہولتیں اور آسائشیںبھی انسانی ضروریات کا حصہ ہیں۔ مگککر ان کککا شککمار بنیککادی‬
‫ت زندگی کے بعد ہوتا ہے۔یہ ضروریات صرف دوسرے وسککائل کککی مککدد س کے‬ ‫ضروریا ِ‬
‫ہی پوری ہوسکتی ہیں۔ ان وسککائل میککں زرعککی اورمعککدنی وسککائل شککامل ہیککں۔ ان‬
‫وسائل کو تلش کرنے اور ان سے فیضیاب ہونے کے لئے انسانی کوشش اور جدوجہد‬
‫کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر انسانی علم‪ ،‬مہارت و ہنر مندی اورمحنت و جفاکشککی کککو‬
‫خارج کردیا جائے تو ان وسائل کے ثمرات کب ھی ب ھی حاصککل نہیککں ہوسکککتے۔چککونکہ‬
‫انسان نے تیل‪ ،‬گیس اور سونے کے وسائل کو تلش کیا اور ُانھیں نفع بخش طور پککر‬
‫استعمال کیااسی لئے یہ دولت اور سرمایہ بن گئے اور ان کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے۔‬
‫دوسری جانب ان وسائل کے بغیر انسانی زندگی بے رنگ اور بے مزہ ہوتی یککا شککاید‬
‫انسانی بقاءہی ناممکن ہوجاتی۔ اس لئے انسانی وسککائل اور دیگککر وسککائل کککا ایککک‬
‫دوسرے پر دارومدار ہے۔‬
‫سوال‪ :‬زندگی میں اعتدال پسندی پر ایک نوٹ لک ھیئ ے؟‬
‫زندگی میں اعتدال پسککندی زنککدگی میککں اعتککدال پسککندی کککامطلب یکہ ہے ککہ اپنکے‬
‫موجودہ وسائل کے اندر رہا جائے )چادر کے مطابق پاو�¿ں پھیلئے جائیں( ایک قککول‬
‫ہے کہ چیز کی کثرت ُبری ہوتی ہے۔ اعتدال پسندی مناسب سوچ‪ ،‬رویے اور عمل ککے‬
‫ایک طریقے کا نام ہے۔ ُاس شخص کواعتدال پسند کہا جاسکتا ہے جو ذاتی احتسککاب‬
‫کرتا ہو اور پھر اپنے مستقل کی زندگی کے لئے ایک لئحہ عمل طے کرتککاہو۔ جولککوگ‬
‫اپنی زندگی اعتدال کے مطابق نہیں گزارتکے ہیککں وہ شککدید تکلیککف اور مشکککلت کککا‬
‫شکار ہوجاتے ہیں۔ اعتدال پسندی زندگی کے تمام معاملت یعنی اقتصادی سککماجی‬
‫سلجھے ہوئے رویہ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اعتککدال‬ ‫اور سیاسی معاملت میں معقول اور ُ‬
‫پسندی سے معاشرے میں امن و خوشحالی آتی ہے۔ بے جا خواہش پرستی ہی تمککام‬
‫ُبرائیوں کی جڑ ہےلیکن اعتدال کی را ِہ عمل اختیار کرنے سے انسان ُپر سکککون اور‬
‫آرام دہ زندگی گزارتا ہے۔ بحیثیت قوم پاکستانی بہت جذباتی ہیں۔ کسی بھی معاملے‬
‫میں یا تو ہم پوری طرح شریک ہوجاتے ہیں یا ہم بالکککل پککرواہ نہیککں کرتکے۔ جککس کککا‬
‫نتیجہ ہمارے اپنے فرائض سے غفلت اور بے اعتمادی کی صورت میں نکلتککا ہے۔اسککی‬
‫رویہ نے معاشرے کو پسماندہ رکھا ہوا ہے۔ ہمارے انتہائی شدید جذبات اور احساسککات‬
‫نے ہمیں جذباتی قوم کاخطاب دلوادیا ہے۔ کب ھی کب ھار جککذبات عارضککی اور وقککتی‬
‫کامیابی کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن طویل مدت میں ان کککا نککتیجہ مختلککف ب ھی‬
‫نکل سکتا ہے۔ یہ سب لوگوں کے علم میں ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہنا خوشککحالی‬
‫کی ضمانت ہے۔ جو لوگ اپنی خواہشات پر قککابو رکھت کے ہیککں اور خککود کککو روک کککر‬
‫رکھتے ہیں وہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پھر خیال رکھیں ک کہ ضککرورت س کے زیککادہ‬
‫مداخلت کرنے والی قوم اپنے شدت پسککند اصککولوں اور سککرگرمیوں کککی وج کہ س کے‬
‫ہمیشہ دشورایوں اور مشکلت کا شکار رہتی ہے۔ اسی لئے اسلم نے تمام شعبہ ہائے‬
‫حیات میں اعتدال کا درس دیکا ہے اورخکود پکر یعنکی اپنکے نفکس پکر قکابو پکانے ککے‬
‫ضرورت پر زور دیا ہے۔‬
‫پاکستانہ میںہ صنعتی ترقی‬
‫سوال‪ :‬صنعت س ے کیا مراد ہے؟‬
‫صنعت‬
‫فیکٹریوں میں مشین کے ذریعے تیار ہونے والککی اشککیاءکے کککام اور طریقکہ عمککل کککو‬
‫صنعت کہتے ہیں۔وسیع تر مفہوم میں صنعت کے معنی یہ ہیں کہ خام مال سے ایسککی‬
‫مککدن ک کے‬ ‫اشیاءتیار کی جائیں جن کی انسانوں کے لئے کچ کھ افککادیت ہو۔ ت ہذیب و ت ّ‬
‫ابتدائی دور میں صنعت جدید دور کی صنعت کے مقابلے میں انتہائی سادہ اور نسبتا ً‬
‫پست سطح کی تھی۔ اس طرح صنعت کا آغاز پست سطح سے ہی ہوا تھا۔لیککن یکہ‬
‫آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی اور اب صنعت پیداوار کا ایک بہت بڑا شککعبہ اور حص کہ‬
‫ہے۔ کئی مختلف صنعتیں ضم ہوکر ایک اکائی بن گئی ہیں۔اس میککں بککڑے پیمککانے پککر‬
‫مال کی تیاری سے پیداواری لگت کم ہوگئی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬قومی ترقی کی تعریف کیجئ ے؟‬
‫قومی ترقی کی تعریف‬
‫اقتصادی اور سماجی شعبوں میں ترقی ککا عمکل قکومی ترقکی کہلتکا ہے۔ وسکائل‬
‫دریافت کئے جاتے ہیںاور پھر ُان کو عوام الناس ککے زیککادہ سکے زیککادہ فککائدے ککے لئے‬
‫استعمال کیا جاتا ہے۔عوام کککا جککو معیککارِ زنککدگی ہوتککا ہے۔ وہ معاشککی اور سککماجی‬
‫تحفظ کی حمایت کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میککں یکہ ک ہا جاسکککتا ہے ککہ قککومی ترقککی‬
‫انسانی اور قدرتی وسائل کی قککوت اور اسککتحکام کککی عکککاس ہوتی ہے۔جککن کککی‬
‫بدولت زندگی انتہائی سہل اور ُپر آسائش ہوجاتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان میں کپساس اور شسکر سسازی کسی صسنعت پسر‬
‫نوٹ لک ھیئ ے؟‬
‫کپڑے کی صنعت‬
‫یہ صنعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔پاکستان میں کثیر تعداد میں کپڑے‬
‫کے بڑے اور چھوٹے کارخانے ہیں۔ان کارخانوں میں بہت نفیس اقسام ک کے کپککڑے تیککار‬
‫کیے جاتے ہیں۔پاکستان سوتی کپڑے ککی صکنعت میکں خودکفیکل ہوگیکا ہے۔ہر سکال‬
‫سوتی کپڑوں اور دھاگے کی برآمد سے کروڑوں روپے زِرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔سککوتی‬
‫کپڑے کی صنعت کے اہم مراکز پنجاب میں فیصککل آبککاد‪ ،‬ل ہوراور ملتککان ہیککں۔سککندھ‬
‫میں کراچی اور حیدر آباد ہیں۔صوبہ سرحد میں یہ مراکز پشاور‪ ،‬ڈیرہ اسماعیل خان‪،‬‬
‫نوشہرہ‪ ،‬بنوں‪ ،‬ہری پور‪ ،‬اور سوات میں واقع ہیں۔ بلوچستان میں کپڑے کککی صککنعت‬
‫کے دو مراکز ُاتھل اور کوئٹہ ہیں۔ پاکستان کے صکنعتی مککزدوروں ککی تقریبکا ً پچکاس‬
‫فیصد تعداد سوتی کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ پاکسککتان کککی آزادی ککے وقککت‬
‫ملک میں سوتی کپڑے کے صرف تین کارخانے تھے۔ُاس کے مقابلے میں اب کپڑے ک کے‬
‫تقریبا ً ‪ 500‬کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میککں اونککی کپککڑے کککی صککنعت ب ھی پککائی‬
‫جاتی ہے۔لیکن یہ سوتی کپڑے کی صنعت کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وج کہ ی کہ ہے‬
‫کہ پاکستان میں پائی جانے والی اون بہت اعل ٰی معیار کا نہیککں ہے۔ اسککی لئے ہمککاری‬
‫اون کا زیادہ تر حصہ قالین سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکسککتان میککں اونککی کپککڑے‬
‫کے لئے بڑے کارخانے کے مراکز سندھ میں کراچککی‪ ،‬پنجککاب میککں ل ہور اور قائدآبککاد‪،‬‬
‫بلوچستان میں ہرنائی‪ ،‬مستونگ اور سرحد میں بنککوں اور نوش کہرہ میککں واقککع ہیککں۔‬
‫جہاں اونی کپڑا کمبل اور اونی دھاگہ تیار ہوتا ہے۔اس وقککت پککورے ملککک میککں اونککی‬
‫کپڑے کے تقریبا ً ‪ 70‬کارخانے ہیں۔ پاکستان میں ریشمی کپڑے کککی صککنعت ب ھی ہے۔‬
‫ریشمی کپڑا بنانے کے لئے دو اقسام کے ریشم استعمال کئے جککاتے ہیککں۔ پہل قککدرتی‬
‫ریشم جو ریشم کے کپڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔قدرتی ریشم ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اس‬
‫لئے کہ یہ اب بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے۔ اس کککی جگ کہ اب مصککنوعی ریشککم مقبککولیت‬
‫حاصل کرتا جارہا ہے۔لہورکے قریب ایککک بسککتی کالشککاہ کککاکو میککں ایککک ریشککم کککا‬
‫کارخانہ کام کررہا ہے۔جہاں مصنوعی ریشم تیار ہورہی ہے۔ اس کو ریان کہا جاتککا ہے۔‬
‫اس کے علوہ خام ریشم اور ریشمی دھاگہ اور ریشہ بیرونی ممالک سے بھی درآمککد‬
‫کیا جاتا ہے۔ کراچی ریشمی کپڑے کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔اس کے علوہ‬
‫ریشمی کپڑا فیصل آباد‪ ،‬لہور‪ ،‬ملتان‪ ،‬گوجرانوالہ‪ ،‬پشاور‪ ،‬سککوات‪ ،‬سکککھر اور حیککدر‬
‫آباد میں بھی تیار کیا جاتا ہے۔‬
‫چینی کی صنعت‬
‫یہ ملک کی بڑھتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ ‪ 1947‬میں پاکستان نے چینی کے‬
‫صرف دو کارخانوںسے اپنے سفر کککا آغککاز کیککا ت ھا۔ ایککک کارخککانہ صککوبہ پنجککاب میککں‬
‫گوجرانوالہ کے نزدیک راہوالی میں اور دوسرا صوبہ سرحد میں تخت بائی ککے مقکام‬
‫پر تھا۔چینی گن ّے سے حاصل کی جاتی ہے۔ جککو تیککن صککوبے یعنککی پنجککاب‪ ،‬سککندھ اور‬
‫سرحد میں بڑی مقدارمیں کاشت کیا جاتا ہے۔اس لئے حکومت نے ان علقککوں میککں‬
‫چینی کے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا جہاں گن ّککا کاشککت کیککا جاتککا ہے۔ ملککک میککں ‪78‬‬
‫چینی کے کارخانے ہیں۔جن میں ‪ 40‬پنجاب میں‪ 32 ،‬سککندھ میککں اور ‪ 6‬سککرحد میککں‬
‫ہیں۔جن کی پیداوار کی صلحیت ‪ 5‬ملین ٹن ہے۔شکر ککی پیککداوار میکں پاکسککتان نکہ‬
‫صرف خود کفیل ہے بلکہ چینی کی برآمد سے قیمکتی زِرمبکادلہ ب ھی کمایکا جاتکا ہے۔‬
‫پاکستان کی شکر اعل ٰی معیار کی ہوتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬قومی ترقی میسسں ذرائع آمسسد و رفسست کسسس طسسرح مسسدد‬
‫کرت ے ہیں؟‬
‫ذرائع نقل و حمل و آمد و رفت کے معنی و مف ہوم ذرائع آمککد و رفککت سکے مککراد وہ‬
‫ذرائع ہیں جن کی بدولت افراد سفر کرتے ہیںاور اشیاءکو ایک جگہ سے دوسری جگ کہ‬
‫منتقل کرتے ہیں۔یہ ذرائع قدیم بھی ہیں اور جدیکد ب ھی۔ قکدیم ذرائع آمکدورفت میکں‬
‫سڑکیں اور بحری سفر شامل ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فککروغ ک کے سککاتھ ہی‬
‫ذرائع آمدورفت بہت بہتر ہوگئے ہیں۔موٹر کاروںنے گاڑیوں اور جانوروں کککی جگ کہ ل کے‬
‫لی ہے۔کشتیوں کی جگکہ جدیکد بحکری ج ہاز آگئے ہیکں اور اب فضکا ککے ذریعکے ب ھی‬
‫سفرمقبول ہوتا جارہا ہے۔‬
‫ذرائع آمدورفت کی اہمیت‬
‫کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ذرائع آمدورفت کککی ب ہت اہمیککت ہے۔ یکہ معاشککی‬
‫ترقی میں مدد دیتے ہیں۔ ان کی مدد سے خام مال کارخانوں تک پہنچایا جاتا ہے اور‬
‫تیار مال منڈیوں تک لے جایا جاتا ہے۔ ان سے بیروزگککاری میککں کمککی واقککع ہوتی ہے‬
‫کیونکہ لوگ دوردراز کے مقامات پککر ب ھی ملزمککت کرسکککتے ہیککں اور بکککثرت سککفر‬
‫کرسکتے ہیں۔مختصرا ً یہ کہ ذرائع آمدورفت مندرجہ ذیل مقاصد میں مدد کرتے ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬ملک کی زراعت اور صنعت کو فروغ دینا۔‬
‫)‪ (۲‬مقامی‪ ،‬قومی اور بین القوامی تجارت کو فروغ دینا۔‬
‫)‪ (۳‬لوگوں کے ملک کے مختلف علقوں میں سفر س کے اتحککاد اور قککومی اور ب ھائی‬
‫چارے کو پروان چڑھانا۔‬
‫)‪ (۴‬مسلح افواج کی تیز رفتار حرکت سے ملک کے دفاع کو مضککبوط اور مسککتحکم‬
‫کرنا۔‬
‫)‪ (۵‬علوم و فنون کککو فککروغ دینککا اور ان ککے فککائدے ملککک ککے دوسککرے حصککوں تککک‬
‫پہنچانا۔‬
‫)‪ (۶‬ملک میں امن و امان برقرار رکھنے میں مدد کرنااور سیلب‪ ،‬زلزل کہ اور آگ لککگ‬
‫جانے جیسی قدرتی آفت کی صورت میںجلد از جلد‬

‫سوال‪ :‬کراچی س ے پشاور تک قومی شا ہرا ہ پر کون س ے شسس ہر‬


‫واقع ہیں؟‬
‫قومی شاہراہ‬
‫یہ پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے اہم شاہراہ ہے۔ اس ککی لمبکائی ‪1735‬‬
‫کلو میٹر ہے۔ یہ کراچی سے شروع ہوکر پشاور اور تورخم تککک جککاتی ہے۔ ی کہ شککاہراہ‬
‫اس سڑک پر واقع مختلف شہروں مثل ً حیدرآباد‪ ،‬خیرپککور‪ ،‬سکککھر‪ ،‬ب ہاولپور‪ ،‬ملتککان‪،‬‬
‫لہور‪ ،‬راولپنڈی اور پشاور کو آپس میں ملتی ہے۔‬
‫)‪ (۱‬کراچی‪ ،‬کوئٹہ شاہراہ براستہ خضدار‬
‫)‪ (۲‬کراچی‪ ،‬کوئٹہ شاہراہ براستہ جیکب آباد‬
‫)‪ (۳‬کوئٹہ‪،‬پشاور شاہراہ‬
‫)‪ (۴‬کوئٹہ‪ ،‬ملتان شاہراہ براستہ لورالئی‬
‫)‪ (۵‬اٹک‪ ،‬ملتان شاہراہ‬
‫شارا ِہ علقائی تعاون برائے ترقی )آر سی ڈی ہائی وے(‬ ‫)‪ (۶‬ہ‬
‫)‪ (۷‬شاہراہ انڈس ہائی وے‬
‫)‪ (۸‬کراچی‪ ،‬حیدرآباد سپر ہائی وے‬
‫)‪ (۹‬لہور‪ ،‬اسلم آباد موٹروے‬
‫سوال‪ :‬ای تجارت ک ے کیا معنی ہیں؟‪ommerceC-E‬‬
‫ای کامرس‬
‫یہ انگریزی لفظ الیکٹرانک کامرس س کے نکل ہے۔اسکککے معنککی ہیککں ک کہ کمپیککوٹر اور‬
‫انٹرنیٹ کی مدد سے تجارت کرنا۔ الیکٹرانک تجارت کے ذریعے معلملت بہت جلککدی‬
‫طے ہوجاتے ہیں۔الیکٹرانک تجارت اطلعی خفیت )انفارمیشن ٹیکنککالوجی( کککی ایککک‬
‫شاخ ہے۔ اس سے کاروباراور تجارت کککا تککازہ تریککن درسککت ریکککارڈرکھنے میککں مککدد‬
‫ملتی ہے۔ یہ ہماری درآمدات اور برآمدات کے لئے بھی سہولت مہیا کرتی ہے۔پاکستان‬
‫میں اب ای تجارت اپنی بنیادیں مضبوط کررہی ہے۔ای تجککارت ککے ذریعکے دنیککا ککے‬
‫ف اّول ک کے تجککارتی اداروں س کے ان کککی ویککب سککائٹ ک کے توسککط س کے رابط کہ‬‫صک ّ‬
‫کیاجاسکتا ہے اور ان کے فراہم کردہ ساما ن کی تفصککیلت‪ ،‬ان کککی قیمککتیں‪ ،‬مقککدار‬
‫اور ان کے سامان کی رسد کے وقت کی دریافت کی جاسکتی ہے۔ادائیگیاں انٹرنیٹ‬
‫کے ذریعے کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں گھر بیٹھے نیویارک‪ ،‬سنگا پور‪ ،‬ہانک کانگ‪،‬‬
‫لندن وغیرہ کے اسٹاک ایکسچینج سے حصص خریدے اور فروخت کئے جاسکتے ہیککں۔‬
‫شرط صرف یہ ہے کہ ان کے پاس اکائنٹ کھول ہوا ہو۔ای تجارت نے کاروبککار کککو تیککز‬
‫رفتار‪ ،‬سہل اور بہتر بنادیا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکسسستان میسسں صسسنعتی ترقسسی کس ے فسسروغ کس ے لئ ے کیسسا‬
‫اقدامات ُاٹ ھائ ے جائیں؟‬
‫صنعتی ترقی کے لئے اقدامات‬
‫مندرجہ ذیل اقدامات سے صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔‬
‫)‪ (۱‬ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے تاکہ سرمایہ کار جان و مککال‬
‫کھوجانے کے ڈر سے آزاد ہوکر سرمایہ کاری کرسکے۔‬
‫)‪ (۲‬تجارت کے لئے قائدے اور قوانین آسان اور سہل بنائے جائیں۔‬
‫)‪ (۳‬عملے کی تربیت کے دوران محنت کی عظمت کا احساس ُاجاگر کیککا جککائے تککاکہ‬
‫ان میں کام سے وابستگی کا احساس ہو اور پیداوار بڑھنے کے لئے وہ سکخت محنکت‬
‫کریں۔‬
‫)(‪۴‬کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام قائم کیا جائے تیار شدہ مال کے معیار اور اعل ٰی و‬
‫صف پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چایئے۔‬
‫)‪ (۵‬بازار کاری )مارکیٹنککگ( اور تجککارتی نظککم و نسککق )بزنککس ایڈمنسٹریشککن( کککی‬
‫تعلیم کا معیار مزید بہتر بنایا جائے۔‬
‫)‪ (۶‬صنعتی پالیسیاں بالکل صاف‪،‬شفاف‪ ،‬واضح اور پائیدار ہونی چاہئےں۔‬
‫)‪ (۷‬بیرونی ممالک کی اشیاءکی اسمگلنگ پر سختی ہونی چاہئے۔‬
‫)‪ (۸‬حکومت کو صنعت کاروں کی ٹیکسوں میں رعایت‪ ،‬بہتر پیداوار کے لئے زِرتلفی‬
‫)سبسڈی( اور کارکنان کی تربیت کی شکل میں ترغیبات دینی چاہئیں۔‬
‫)‪ (۹‬کارکنوں کے حالت کار بہتر بنائے جائیں اور ان کی اجرتیں بڑھائی جائیں۔‬
‫ننننننن نن ننننن‬
‫سوال‪ :‬ثقافت کی خصوصیات بیان کیجئ ے؟‬
‫ثقافت کے معنی اور مفہوم‬
‫ثقافت کے لفظی معنی ہیں ”کچھ ُاگانا۔“ اس کو ”طرزِ زنکدگی“ ب ھی ک ہا جاتکا ہے۔‬
‫کسی بھی قوم کی ثقافت میں بہت سکے عوامکل شکامل ہوتے ہیکں۔اس میکں طکرِز‬
‫ن‬‫زندگی‪ ،‬زبان‪ ،‬ادب‪ ،‬مذہب‪ ،‬رسککوم و رواج‪ ،‬نظریکہ حیککات‪،‬عمککارت سککازی اور فنککو ِ‬
‫لطیفہ شامل ہیں۔ثقافت کے یہ تمام پہلو سککاتھ سککاتھ بڑھتکے اور پککروان چڑھتکے ہیککں۔‬
‫ثقافت کککا ہر ایککک پہلککو اور عنصککر قککوم ککے ماضککی اور حککال کککا عکککاس ہوتککا ہے۔‬
‫جغرافیائی حالت اور ماحول کا بھی قوم کی ثقافت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ حککالت اور‬
‫ماحول میں زمین‪ ،‬آب و ہوا‪ ،‬نباتات‪ ،‬معدنی وسائل اور حیوانات بھی شامل ہیں۔‬
‫ثقافت کی خصوصیات‬
‫) ک( تاریخ اور نظریے کی عکاسی‬
‫ہر ثقافت کا اپنا مخصوص مزاج ہوتا ہے۔ جو ایک تہذیب اور ثقافت رکھنے والککوں کککو‬
‫ی�©�©زکرتا ہے۔ یہثقافت کسکی قکوم یکا ملککک ککی تاریکخ اور‬ ‫دوسروں سے مم ّ‬
‫نظریے کے تسلسل کی عکاسی کرتی ہے۔‬
‫) ک( دوسری ثقافتوں پر اثرانداز‬
‫ثقافت ایک قوت ہے۔ جو دوسروں کو متاثر کرتی ہے۔ مثبت سوچ و فکر کککی حامککل‬
‫ثقافت جلد ہی دوسری ثقافتوں پر اثر انداز ہوجاتی ہے۔‬
‫) ک( ثقافت میں تبدیلی‬
‫دوسری ثقافتوں سکے ملپ اور رابطکے ککی صکورت میککں ثقکافت ککے مظکاہر میککں‬
‫تبدیلی آسکتی ہے۔ایک وقت تھا کہ مسلم ثقافت نکے دنیککا کککی دوسککری ثقکافتوں کککو‬
‫متاثر کیا تھا۔ ثقافتی سوچ و فکر کی قوت اس وقت تککک پُراثککر ر ہتی ہے جککب تککک‬
‫لوگوں کا کردار اس ثقافت پر یقین اور اعتماد کا اظہار کرتا رہتا ہے۔وقت گزرنے کے‬
‫ساتھ تبدیلی اور دوسری ثقافتوں کے ساتھ ملپ کے عمل سے گککذر کککر نئی ثقککافت‬
‫وجود میں آتی ہے۔‬
‫) ک( انفرادی شناخت اور پہچان‬
‫کسی بھی ثقافت کی اپنی انفرادی شناخت اور پہچان اس کو دوسروں میں مقبول‬
‫بناتی ہے۔ماضی میں مسککلم ثقککافت اس لئے بککام عککروج پککر پہنچککی ت ھی کیککونکہ ہر‬
‫مسلمان اپنے ذاتی کردار اور اقدار میں بہت توانا اور مستحکم تھا۔‬
‫) ک( توانا اقدار‬
‫ہر ثقافت کی چند بڑی توانا اقدار ہوتی ہیں۔ توانا‪ ،‬مستحکم اور مستقل اقککدار کککی‬
‫حامل ثقافت دوسری ثقافتوں کو خکود میکں جکذب کرلیکتی ہے۔جکس طکرح مسکلم‬
‫ثقافت نے ُاس وقت کیا جب مسلمانوں نے کئی دوسرے ممالک کو فتح کرلیا ت ھا۔ان‬
‫ثقافتوں کے مسلم ثقافت میککں جککذب ہونے کککی وجکہ اسککلم کککی توانککا‪ ،‬پائیککدار اور‬
‫مستقل اقدار تھیں۔‬
‫ص ہ کیوں ہے؟‬
‫سوال‪ :‬کوئی زبان ثقافت کا ا ہم ح ّ‬
‫زبان ثقافت کا سب سے اہم جککز ہے۔ کیککونکہ خیککالت‪ ،‬احساسککات‪ ،‬اور جککذبات ک کے‬
‫اظہار کے لئے زبان ہی مو�¿ثر ترین ذریعہ ہے۔زبان قوم کی شککناخت ہوتی ہے ی ہی‬
‫وجہ ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کککو عزیککز رک ھتی ہے اور اسکککے فککروغ و ارتقککاءکے لئے‬
‫مناسب اقدامات کرتی ہے۔‬
‫دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں ج ہاں ایککک سکے زیککادہ زبکانیں بککولی جکاتی ہیککں۔‬
‫صہ ہوتی ہے۔‬ ‫کسی ملک میں بولی جانے والی تمام زبانیں ُاس ملک کی ثقافت کا ح ّ‬
‫البتہ ِان میں سے کسی ایک زبان کو قومی رابطہ ککے زبککان )‪(Lingua Franka‬ککے‬
‫طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اسی کو قومی زبان کہتے ہیں۔‬
‫قومی زبان کے ذریعے مختلف علقوں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لنے‬
‫میں مدد ملتی ہے۔ یہ اتحاد اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کاایک ذریع کہ ہے۔قککومی‬
‫زبان کو ملک کی دوسری زبانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکککن اس مطلککب یکہ‬
‫س پشت ڈال دیککا جاتککا ہے۔ علقککائی زبککانوں کککو کسککی‬ ‫نہیں کہ دوسری زبانوں کو پ ِ‬
‫صورت میں بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ تمام صوبائی زبانیں قوم کککا مجمککوعی‬
‫اثاثہ ہیں‪.‬‬
‫سوال‪ :‬پاکستان کی قومی زبان پر نوٹ لک ھیں؟‬
‫پاکستان میں ‪ 30‬سے زائد زبانیں بکولی جکاتی ہیکں۔ہمکارے ملکک ککی بکڑی صکوبائی‬
‫زبانیں سندھی‪ ،‬پنجابی‪ ،‬پشتو اور بلوچی ہے۔یہ زبانیں زیادہ تر اپنے اپنے علقککوں کککی‬
‫نمائندگی کرتی ہیں اور انھیں صوبائی زبانیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان کککی قککومی زبککان‬
‫اردو ہے جو لب و لہجے کے معمولی فرق کے ساتھ پاکسکتان ککے تمککام علقکوں میکں‬
‫بولی اور سمجھی جاتی ہے۔‬
‫اردو‬
‫صہ ہے۔ اب سے تقریبا ً تین ہزار سال قبککل لککوگ وسککط‬ ‫اردو ہمارے ثقافتی ورثے کا ح ّ‬
‫صے میں آباد ہوگئے تھے۔جیسے ہی ان کککی‬ ‫ایشیاءسے آکر جنوبی ایشیاءکے شمالی ح ّ‬
‫تعداد میں اضافہ ہوا انھوں نے رفتہ رفتہ یہاں کے قدیم باشندوں کو جنوب کککی جککانب‬
‫دھکیل دیا اور یہ لوگ سنسکرت سے بگڑی ہوئی زبان پراکرت بککولتے ت ھے جککو عککام‬
‫لوگوں کی زبان کہلنے لگی۔ تقریبا ً پندرہ سو سال تک عام لوگ پراکرت بولتے ر ہے۔‬
‫راجہ بکرماجیت نے سرکاری اور ادبی کاموں کے لئے ایک بار پھر‬
‫سنسکر ت زبان رائج کردی۔ لیکن عوام کی زبان پر پراکرت ہی رہی۔ وقت گزرنککے‬
‫کے ساتھ ساتھ پراکرت زبان نے چار منفرد اور نمایاں شکککلیں اختیککار کرلیککں اور ان‬
‫ہی مقامی شکلوں میں سے ایک شکل ”برج بھاشا“ کہلئی۔یہ زبان دریککائے گنگککا اور‬
‫جمنا کے درمیان اور ان کے اطراف کے علقوں میں بولی جاتی تھی۔‬
‫مسلمانوں کے مختلف خاندانوں نے بّر صغیر جنوبی ایشیاءپر حکومت کی۔پہلے ی ہاں‬
‫مسلمانوں کی اور پھر مغلوں کی حکومت قائم ہوئی۔ان لوگوں کککی زبککان فارسککی‬
‫تھی۔‬
‫مغلوں کے دورِ حکومت میں کئی یورپی اقککوام جنککوبی ایشککیاءمیں کسککی نکہ کسککی‬
‫مقصد سے آئیں۔اس طرح کچھ فرانسیسی اور پرتگالی الفاظ بھی برج بھاشککا میککں‬
‫شامل ہوگئے اور یوں شاہ جہاں )‪1627‬ءتا ‪1658‬ئ(کے عہد میں بککرج بھاشککا داخلککی‬
‫طور پر بدل گئی اور یہ ایک نئی زبان معلوم ہونے لگککی۔اس نئی زبککان کککو ہنککدو اور‬
‫مسلمان سمجھ اور بول سکتے تھے اور چونکہ مغل بادشاہوں کی فوج میں ہر قککوم‬
‫و مذہب کے سپاہی ہوتے تھے۔اس لئے یہ فوجیوں کے لشکر کی زبان بککن گئی۔فککوجی‬
‫لشکر کو ترکی زبان میں ُاوردو کہتے ہیں۔لہٰذا لشکر میں بولی جانے والککی زبککان کککا‬
‫نککام ”ُاوردو“ پڑگیککا۔ ُاوردو کککا لفککظ خککود منگککولی زبککان کککے لفککظ ُاوردو ) یعنککی‬
‫پڑاو�¿ یا لشکر( سے ماخوذ ہے۔فارسی زبان کے زیرِ اثر لفککظ ”ُاوردو“ زیککادہ ملئم‬
‫ہوکر ”ُاردو“ ہوگیا۔اس زبان کا شکوہ اور شان و شککوکت ترکککی الفککاظ کککی مرہ ہون‬
‫منت ہے اور اس کی مٹھاس اور شیریں بیانی اور دلکشی فارسی الفاظ کے طفیککل‬
‫ہے۔عربی کے وہ الفاظ جو ترکی اور فارسی نے مسککتعار کئے ہہہوئے ہیککں وہ بھہہی اس‬
‫نئی زبان ُاردو نے اختیار کرلئے۔‬
‫مغل بادشاہوں کے آخری دو سو سککال ) ‪ 1658‬ءتککا ‪1857‬ئ( میککں علمککاءدین‪ ،‬ا ہل‬
‫علم و دانشککور اور شکعراءنے ُاردو زبکان کککو اظ ہار خیککال کککا ذریعکہ بنایککا۔ُاس وقککت‬
‫دوسری زبان فارسی تھی۔اس طرح اس زبان کی ترقی اور توسیع ترویج کو مہمیز‬
‫مل گئی۔اردو زبان کی شناخت کچھ ایسی ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں‬
‫شامل ہوکر اجنبی معلوم نہیں ہوتے بلکہ مستعمل ہونے پر اسی زبان کککا جککز معلککوم‬
‫ہونے لگتے ہیں۔‬
‫ک پاکستان کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ پاکستان کککے‬ ‫ُاردو نے تحری ِ‬
‫تمام صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور قومی اتحاد کی علمت ہے۔مقامی‬
‫زبانوں کے بے شمار الفاظ اب اردو زبان میککں اپنککی جگ کہ بنککارہے ہیککں۔اردو ن کے خککود‬
‫مقامی زبانوں کو ب ہت متککاثر کیکا ہے اور اس ککے الفککاظ اب بککڑی بکے تکلفککی سکے‬
‫سندھی اور پنجابی زبان کی روز مّرہ گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔‬
‫اردو نے پاکستان میں بہت ترقی کی ہے اور فکروغ پایکا ہے۔اردو ادب میکں نظکم ککا‬
‫بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے۔ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کاوشوں سکے اسکے‬
‫مال مال کردیا ہے اور پاکستان کے عوام الناس میں اس کو مقبککول بنککانے میککں ا ہم‬
‫کردار ادا کیا ہے۔ُاردو ڈرامکوں‪ُ ،‬اردو فیچککر فلمکوں اور ُاردو میکں میٹ ھے اور شککیریں‬
‫نغموں نے ان کے مطالب اور مفہوم کو سککمجھنا آسکان کردیکا ہے۔اردو ذریعکہ تعلیکم‬
‫بھی ہے اور امتحان کا ذریعہ بھی۔جدید علککوم اور مضککامین کککا ُاردو میککں ترجمکہ کیککا‬
‫جارہا ہے۔ُاردو زبان کی ترقی کے لئے وفاقی سطح ککے دو کالککج یعنککی ُاردو سککائنس‬
‫کالج اور ُاردو آرٹس کالج کراچی میں قائم کئے گئے ہیں۔جنہیں اب ُاردو یونیورسککٹی‬
‫کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ حکومت نکے ایککک ادارہ ” مقتککدرہ قککومی زبککان“ ککے نککام سکے‬
‫اسلم آباد میں قائم کیا ہے۔جس کا مقصد و مدعا اردو زبان کی ترقی وترویج ہے۔‬

‫سوال‪ :‬بحیثیت قومی زبان اردو کی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬


‫قومی زبان کی اہمیت‬
‫ہر قوم کو اپنی پہچان اور شناخت کے لئے چند علمتوں کی ضرورت ہوتی ہہہے۔زبککان‬
‫بھی کسی قوم کی بہت بڑی پہچان ہوتی ہے۔پاکستان چار صککوبوں پککر مشککتمل ایککک‬
‫مضبوط اور مستحکم وفاق کککا نککام ہے اور اس کککی قککومی زبککان اردو ہے۔بحیککثیت‬
‫قومی زبان اس کی اہمیت مندرجہ ذیل ہے۔‬
‫) ک( رابطے کا ذریعہ‬
‫یہ پاکستان کے عوام کے درمیان تعلقات بڑھانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔یکہ پاکسککتان ککے‬
‫چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اسی لئے یہ قککومی اتحککاد و یکج ہتی‬
‫اور استحکام کا ذریعہ ہے۔‬
‫) ک( تحری ک ِ پاکستان میں کردار‬
‫ک پاکستان اپنی ابتدائی منزلوں میککں ت ھی تککو ُاس وقککت ُاردو سککب س کے‬ ‫جب تحری ِ‬
‫زیادہ پسندیدہ زبان تھی۔یہ زبان جنوبی ایشیاء)برصغیرپاک و ہند( پککر مسککلمانوں ک کے‬
‫دورِ حکومت میں پروان چڑ ھی ۔ُاردو زبککان اب اور منفککرد اور نمایککاں ہوگئی ت ھی‬
‫کیونکہ اس نے عربی‪ ،‬فارسی‪ ،‬ترکی اور انگریزی کے ذخیرہ الفککاظ کککو خککوب جککذب‬
‫کرلیا تھا۔اسلمی ثقافت نے اسے ایک علیحدہ پہچان دی اور اس کو مسککلمانوں میککں‬
‫مقبول بنادیا۔اس اعتبار سے اکثر مسلم قائدین اور رہنماو�¿ں مثل ً سر سید احمککد‬
‫خان‪ ،‬شیخ عبدالمجید سندھی‪ ،‬علمہ اقبال‪ ،‬حسرت مو ہانی‪ ،‬علم کہ شککبلی نعمککانی‪،‬‬
‫داعظم اور دیگر اکابرین نے ہندی کے مقابلے میں ُاردو زبان کی حمایت کرک کے ی کہ‬ ‫قائ ِ‬
‫ثابت کردیا تھا کہ ُاردو برصغیر کی واحد زبان ہے جس میں اسلمی ادب کثرت سککے‬
‫پایا جاتا ہے۔ُاردو نے عوام کے مابین اتحاد و اتفاق پیدا کیا۔‬
‫) ک( مشترکہ رشتہ‬
‫بحیثیت قومی زبان ُاردو اور صوبائی زبانوں میں بہت قریبی اور بے تکلفی کا رشککتہ‬
‫پایا جاتا ہے۔یہ تمام زبانیں عربی‪ ،‬فارسی اور انگریزی سے متککاثر ہیککں اور اسککی لئے‬
‫ان زبانوں میں بے شمار مشترکہ الفاظ ہیں۔تمام زبانوں میں یکساں موضوعات پککر‬
‫کتابیں اور لٹریچر دستیاب ہے۔‬
‫) ک( ذرائع ابلاغ ) ذرائع رسل و رسائل(‬
‫ریڈیو‪ ،‬ٹیلی ویژن اور پریس ابلغ کے خاص ذرائع ہیکں۔ یکہ قکومی اتحکاد و اتفکاق ککے‬
‫فروغ کے لئے قومی اور صوبائی زبانوں کی مدد سے ا ہم کککردار ادا کرر ہے ہیککں۔ان‬
‫زبانوں کے مشترکہ سرمائے سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔اس سے زبان کککو تقککویت‬
‫ملتیہے اور پاکستان کے مختلف علقوں کے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔‬
‫) ک( فائدے کا ذریعہ‬
‫صوبائی زبانوں کی تحریریں مثل ً لوک کہانیاں‪ ،‬مضامین و مقالت‪ ،‬شاعری اور گیت‬
‫ُاردو میں ترجمہ کیے جاتے ہیں تاکہ انکو سمجھ کر لوگ زیادہ سے زیادہ فککائدے حاصککل‬
‫کرسکیں اور لوگوں ککے درمیکان خیرخکواہی اور نیکک خواہشککات ککے جکذبات فکروغ‬
‫پاسکیں اور ملک میں باہمی افہام و تفہیم میں اضافہ ہوسکے۔‬
‫) ک( رابطہ‬
‫پاکستان چار صوبوں کا ایک وفاق ہے۔ پاکستان کے مختلف صککوبوں ک کے مککابین اردو‬
‫رابطے کی زبان کا فریضہ سرانجام دیکتی ہے۔ اس طکرح ُاردو قکومی زبکان اتحکاد و‬
‫اتفاق کے لئے ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔‬
‫) ک( بین الاقوامی زبان‬
‫ن ملک بھی پھیل ہوا ہے۔ُاردو‬ ‫ُاردو ادب صرف سارے ملک میں چھایا ہوا ہے بلکہ بیرو ِ‬
‫کا شمار بین القوامی زبانوں میں ہوتا ہے۔‬
‫) ک( مشترک ذریعہ‬
‫ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے۔جو اس کے عوام کے مابین اتحاد و روابط کککے ذریعککے‬
‫کے طور پر کام آتی ہے۔مسلمانوں کو باہم یکجا کرنے والی قککوت اسککلم ہے۔اسککلم‬
‫کے پیغام کی تبلیغ کے لئے ُاردو ایککک مشککترک ذریعکہ بنککی ہے اور اسککی وجکہ سکے یکہ‬
‫پاکستان کی قومی زبان ہے۔‬
‫سوال‪ :‬قومی زندگی میں مشترک ہ ثقافتی مظسسا ہر کسسون کسسون‬
‫س ے ہیں؟‬
‫قومی زندگی میں مشترکہ ثقافتی اظہار‬
‫پاکستان کے چکاروں صککوبوں کککی اپنککی اپنکی صککوبائی زبکانیں موجککود ہیککں۔مختلککف‬
‫صوبوں کے رہنے والوں کے رسم و رواج اور رہن سہن میں معمولی فککرق ب ھی ہے۔‬
‫لیکن پاکستان کے ثقافتی ورثے کا نمایاں تشخص اسلمی تہذیب ہے۔اس نظککام میککں‬
‫مساوات‪ ،‬بھائی چارے‪ُ ،‬اخوت‪ ،‬عدل و انصاف‪ ،‬حککق گککوئی اور سککچائی کککو مرکککزی‬
‫اہمیت حاصل ہے۔اس نطام حیات نے علم و ادب‪ ،‬تعمیککرات‪ ،‬خطککاطی اور لسککانیات‬
‫کو متاثر کیا۔ان کے حوالے سے ہمیں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔اسکلم نکے پاکسککتان ککے‬
‫عوام کو ُاخوت کے ایک رشتے میں پرودیا ہے۔ اسی لئے قومی زندگی میککں مشککترکہ‬
‫ثقافتی اظہار حسب ذیل ہے۔‬
‫) ک( ملی جلی ثقافت‬
‫پاکستان میں ملی جلی ثقافت پائی جاتی ہے اور اپنے اسی ڈھانچے ککی بنیکاد پککر یکہ‬
‫بہت اہم ہے۔ہر خطے کے لوگ اپنے اطراف کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں۔ماحول کککے‬
‫اثرات ان کے لباس‪ ،‬غذا اور طرزِ زندگی سکے ظکاہر ہوتے ہیکں۔پاکسکتان میکں لکوگ‬
‫مختلف خطوں سے آکر آباد ہوئے ہیں۔ان میں عرب‪ ،‬ایرانی‪ ،‬اور تککرک وغیککرہ شککامل‬
‫ہیں۔یہ سب لوگ اپنے اپنے خطوں کے رسوم و رواج کے پیروکار تھہہے۔ ان ک کے لبککاس‪،‬‬
‫جدا تھی۔اب یہ تمام ثقافتیں ایک دوسرے میں شککامل ہوگئی ہیںککاور‬ ‫زبان اور ثقافت ُ‬
‫ُانھوں نے مشترکہ پاکستانی ثقافت پیدا کردی ہے۔‬
‫) ک( مردوں اور خواتین کی حیثیت و مرتبہ‬
‫پاکستانی ثقافت میں مرد کککو منفککرد اور ممتککار مرتبکہ حاصککل ہے۔مککرد خانککدان کککا‬
‫سربراہ ہے۔ُاس کو برتری اور فوقیت حاصل ہے۔لیکن عورت کو بھی خاندان کککا ایککک‬
‫اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔جو چار دیواری کے اندر خانکدانی معکاملت چلتکی ہے اور‬
‫اس چار دیواری کے اندر ُاسی کا حکم چلتا ہے۔خانہ داری اور بچوں کی پککرورش اور‬
‫نگہداشت کسی بھی خاندان میں عورت کی ذمہ داری ہے۔نیز یہ کہ اسلمی اصککولوں‬
‫کے تحت عورت کو تعلیم کا حکق‪ ،‬ملکیکت ککا حکق اور تجکارت ککا حکق حاصکل ہے۔‬
‫اسلمی تعلیمات کی روشنی میں خواتین و مردوں کے حقوق و فرائض کا تعین کیککا‬
‫گیا ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں ان اصولوں کی پیروی کی جاتی ہے اور‬
‫اس طرح پاکستان کا مشترکہ ثقافتی ورثہ تشکیل پاتا ہے۔‬
‫) ک( معاشرتی زندگی‬
‫پاکستان میں معاشرتی زندگی بہت سادہ ہے۔لوگ قدیم روایات پر یقین رکھتے ہیککں۔‬
‫ان کے رسوم و رواج سادہ اور دلچسپ ہیں۔مشترکہ خاندانی نظککام اختیککار کیککا جاتککا‬
‫ہے۔لوگوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور بچوں سے پیار کرنا سکھایا جاتا ہے۔لککوگ ایکک‬
‫دوسرے سے پیار و محبت اور احترام کے رشتے سے جڑے ہوئے ہیں۔خواتین کا احترام‬
‫اور ان کی عزت کی جاتی ہے۔لوگوں کی اکثریت دیہات میککں ر ہتی ہے اور زراعککت‬
‫اور مویشی پالنے سے منسلک ہیں۔شادیاں روایتی طریقوں س کے منککائی جککاتی ہیککں۔‬
‫شہر میں بہت رنگینی اور حسن ہوتا ہے۔شادیوں پر ککثیر رقکم خکرچ ککی جکاتی ہے۔‬
‫شہروں میں بہت سے افراد قومی معیشت کے مختلکف شکعبوں میکں ملزمکت ب ھی‬
‫کرتے ہیں۔اسی لئے پاکستان کے تمام حصوں میں معاشکرتی زنککدگی تقریبکا ً یکسککاں‬
‫ہے۔ تاہم چندتہواروں اور مواقع کو منانے میں آب و ہوا اور ماحولیاتی حالت کے زیککر‬
‫ِاثر تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے۔‬
‫) ک( غذا ) خوراک(‬
‫پاکستان کے عوام کی اکثریت سادہ غذا کھاتی ہے۔یہ لوگ گندم کککی روٹککی‪ ،‬گوشککت‪،‬‬
‫دالیں اور سبزیاں کھاتے ہیں۔اور چائے‪ ،‬سادہ پانی یا مشروبات پیتے ہیں۔یہاں مقککامی‬
‫اور ملک کے دوسرے علقوں کے پھل بھی ک ھائے جککاتے ہیککں۔ اسککی لئے خککوراک کککی‬
‫عادات بھی ہر صوبے میں تقریبا ً مشترک ہیں۔‬
‫) ک( تفریحات‬
‫ہماری تفریحات اور فارغ اوقات ککے مشکاغل ملتکے جلتکے ہیکں۔کھیلکوں میکں ہ ہاکی‪،‬‬
‫شتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام‬ ‫کرکٹ‪ ،‬اسکوائش‪ ،‬کبڈی اور ک ُ‬
‫لوگ ان کھیلوں میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یکہ ہمککارے قککومی کھیککل بککن گئے‬
‫ہیں۔ یہ کھیل ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں۔‬
‫) ک( مذہبی تفریحات ) تہوار(‬
‫مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا‬
‫ہے۔شادی ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہہہے اور اسکی لئے یکہ اسکلمی روایکات‬
‫اور رنگ کی عکاس ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشککین اور‬
‫میٹھے گیت گاتے ہیں‪ ،‬تحفے تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگککوں کککی‬
‫دعوتیں کرتے ہیں۔شادی کے موقع پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔‬
‫شادی خوشی‪ ،‬مسرت اور لہ ّہ گل ّہ کا ذریعہ بنتی ہے۔اس سے بھی ہمککارے مشککترکہ اور‬
‫مماثل ثقافتی ورثے کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیدائش و مککوت ک کے چنککد رسککوم و‬
‫رواج ہیں۔ بچے کی پیدائش اور خاص طور پر لڑکے کی پیدائش پککر خوشککیاں منککائی‬
‫جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں۔ کسی شخص ک کے انتقککال پککر‬
‫لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں۔ اس موقککع پککر ہمسککائے‪،‬‬
‫اعّزہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرتے ہیککں۔ اس طککرح‬
‫لوگ ایک دوسرے کے سککاتھ اخککوت و محبککت ککے جککذبات ُاب ھارتے ہیککں۔ اسککی طککرح‬
‫عیدلفطر اور عید الضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جوش و جذبےسے منایا جاتا‬
‫ہے۔ لوگ نئے لباس پہنتے ہیںاور مختلف قسککم ککے لککذیز پکککوان پکککاتے ہیککں۔ ان تمککام‬
‫مواقع پر اخوت و محبت کے عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے۔‬
‫) ک( ا ُ خوت و محبت کا ایک ہی پیغام‬
‫ہمارے ثقافتی ورثے کا اظہار ہمارے مذہبی ادب )لٹریچر( اور اقدار سے ظاہر کیا جاتا‬
‫ہے۔ُاخوت و محبت کا ایک ہی پیغام ہے جو ہمارے صککوفیوں نکے مختلککف زبکانوں میککں‬
‫پہنچایا ہے۔مختلف ادیبوں نے مختلف زبانوں میں ادب تخلیق کیا ہے وہ امن‪ ،‬انسانیت‪،‬‬
‫تصوف‪ ،‬عدل و انصاف‪ ،‬محبت کا پیغام اور درس دیتا ہے۔شاہ عبدالطیف بھٹککائی اور‬
‫سچل سرمست نے سندھ بھر میں؛ سلطان باہو‪ ،‬بلھے شاہ‪ ،‬اور وارث شاہ نے پنجککاب‬
‫میں؛ رحمان بابااور خوشحال خٹک نے سرحد میں اورگل خان نصککیر ن کے بلوچسککتان‬
‫میں ہمیں محبت اور ُاخوت کا ایک جیسا درس دیا ہے۔‬
‫) ک( ذرائع ابلاغ‬
‫ریڈیو‪ ،‬ٹیلی ویژن‪ ،‬اخبارات و رسائل اور ذرائع آمدورفت کے ذریع کے س کے قککومی ہم‬
‫آہنگی‪ ،‬ربط اور مشترکہ قومی ثقافت نشونما پارہی ہے۔‬
‫) ک( نظام تعلیم‬
‫قومی سطح پر اختیار کیے جانے والے تعلیمی نظام کی وساطت سے قککومی ثقککافت‬
‫کی نشونما ہوتی ہے اور یہ پروان چڑھتی ہے۔ہمارے تعلیمی نظککام کککی یکسککانیت اور‬
‫پڑھائے جانے والے مضامین‪ ،‬نگرانی کا نظام اور طریقہ امتحککان و جانککچ س کے قککومی‬
‫جذبہ و روح بیدار کرنے میں مدد ملتی ہے اور بچوں کے درمیان مشترکہ ثقافتی اقدار‬
‫کو فروغ ملتا ہے اور نئی نسل کا ثقافتی ورثے سے لگاو�¿ پیدا ہوتا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے فنون اور دستکاریوں پر ایک نسسوٹ تحریسسر‬
‫کیجئ ے۔‬
‫ادب اور فنو ن ِ لطیفہ‬
‫ن لطیفہک ہا جاتککا ہے۔مسککلم دوِر‬ ‫ن تعمیر اور موسیقی کو فنککو ِ‬ ‫وری‪ ،‬خطاطی‪ ،‬ف ِ‬ ‫مص ّ‬
‫حکومت کے دوران جنوبی ایشیاء)برصغیر پاک و ہند( میککں یکہ فنککون خکوب پھلکے اور‬
‫پھولے۔ُان کی یہ کامیابیاں اور کامرانیاں ہمارا قومی ورثہ ہیککں۔پاکسککتان میککں ہمککارے‬
‫وری کی۔ہمارے خطاطوں نے قرآن پاک کی آیات کککو‬ ‫وروں نے اعل ٰی پائے کی مص ّ‬ ‫مص ّ‬
‫نہایت خوبصورت انداز میں رقم اور اسلمی اور قرآنی خطککاطی ک کے اعل ک ٰی نمککونے‬
‫ن تعمیکر ککا‬ ‫تخلیق کیے ہیں۔خوبصورت عمارت میکں ب ھی مسکلمانوں ککا روایکتی فک ِ‬
‫عکس نظر آتا ہے۔موسیقی کے شعبے میں بھی قدیم موسیقی اور جدید سککروں ک کے‬
‫امتزاج سے نئے نئے تجربات کیے گئے۔ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈرامککوں ک کے ذریع کے ب ھی‬
‫گ تراشککی‪ ،‬نقاشککی اور د ھاتوں اور لککوہے سکے‬ ‫ن لطیفہ کو پروان چڑھایا گیا۔سککن ِ‬ ‫فنو ِ‬
‫زیورات سازی‪ ،‬ظروف سازی اور اسلحہ سازی میںبہترین اور شاہکار نمککونے تخلیککق‬
‫کئے گئے ہیں۔‬
‫دستکاریاں‬
‫پاکستان کے تمام علقوں میں دستکاری کا اعل ک ٰی اور معیککاری کککام نسککل در نسککل‬
‫سے ہوتا چل آرہا ہے۔یہ دستکاریاں عام طور پر خواتین اپنے گھروں میککں کرتککی ہیککں۔‬
‫سندھ میں لباس پر شیشہ سازی اور کندہ کاری کا نہایت نفیککس کککام ہوتککا ہے اور یکہ‬
‫اپنی جگہ خود بڑا منفرد ہے۔سندھی اجرک بہت مشہور اور مقبککول ہے۔کراچککی میککں‬
‫سیپیوں اور پتھروں سے زیور اور آرائشی اشککیاءبنائی جککاتی ہے۔صککوبہ سککرحد میککں‬
‫کڑھائی‪ ،‬مینا کاری‪ ،‬اورکشیدہ کاری کا اعل ٰی اور معیاری کام ہوتا ہے۔دسککتکاری ک کے‬
‫میدان میں پنجاب کا بھی بڑا حصہ ہے۔‬
‫ملتان کی اونٹ کی کھال سے بنے ہوئے لیمپ اور دیگر مختلکف اشکیاءنیز نیلکے رنکگ‬
‫کی میناکاری والے برتن‪ ،‬بہاولپور کی مٹی کی نککازک صککراحیاں و دیگککر ظککروف۔ ی کہ‬
‫سب ان علقوں کے لوگوں کے نفیس اور فنکارانہ کام کے عکاس ہیککں۔چنیککوٹ میککں‬
‫لکڑی پر کندہ کاری وال فرنیچر تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کڑھائی‪ ،‬کشیدہ کککاری اور‬
‫شیشے کا کام بھی بہت اعل ٰی معیار کا ہوتا ہے۔ دستکاری کی یہ صککفت پاکسککتان ککے‬
‫اکثر شہروں‪ ،‬دیہاتوں اور قصبوں میں قائم ہے۔جس سے ایک طککرف ان کککو روزگککار‬
‫ملتا ہے اور دوسری جانب ہماری ثقافت کککو فککروغ حاصککل ہوتککا ہے۔ دسککتکاریاں زِر‬
‫مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬ت ہواروں کی ہماری ثقافت ک ے لئ ے ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬
‫تہوار‬
‫پاکستان میں ہر سککال کئی ت ہوار اور میلکے منعقککد ہوتے ہیںکاور ی ہاںکے لوگکوں ککی‬
‫ب ذیل ہیں۔‬ ‫خوشی اور مسرت کا باعث بنتے ہیں۔یہ تہوار اور میلے حس ِ‬
‫) ک( عید الفطر‬
‫عید الفطر ما ِہ رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شککوال کککو منککائی جککاتی ہے۔ ُان‬
‫مسلمانوں کے لئے جنہوں نے پورےما ِہ رمضان میں روزے رکھے ہوں الل کہ تعککال ٰی کککی‬
‫جانب سے انعام و اکرام ہے۔لوگ عید پر اچھے اچھے لباس پہنتے ہیککں۔ سککویاں ک ھاتے‬
‫ہیں۔ مالدار لوگ غرباءاور مساکین کی نقدرقوم کے ذریعے مدد کرتے ہیں۔‬
‫) ک( عید الاضحی‬
‫عید الضحی ماہ ذی الحجہ کی دس تاریخ کو منائی جاتی ہے۔یہ عیککد ُاس قربککانی یککاد‬
‫میککں منککائی جککاتی ہے جککو حضککرت ابراہیککم نککے اللککہ تعککال ٰی کککے حکککم سککے اپنککے‬
‫فرزندحضرت اسماعیل ؑ کی قربان کرکے پیش ککی ت ھی۔عیککد الضککحی ککے روز ہر‬
‫صککاحب حیککثیت اپنککی طککرف س کے جککانور کککی قربککانی دے کککر عزیککزوں‪ ،‬دوسککتوں‪،‬‬
‫ل محلہ اور غرباءمیں گوشت تقسیم کرتکے ہیککں۔قربککانی ذی الحجکہ کککی‬ ‫ہمسایوں‪ ،‬اہ ِ‬
‫دس‪ ،‬گیارہ اور بارہ تاریخ یعنی ‪ 3‬روز تک کی جاسکتی ہے‬
‫پاکستانہ میںہ تعلیمہ‬
‫سوال‪ :‬کسسی ملسک کسی ترقسی میسں تعلیسم کسی ا ہمیست بیسان‬
‫کیجئ ے؟‬
‫ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت)پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے حککوالے س کے( کسککی‬
‫بھی ملک کی ترقی اور فروغ میں تعلیم کککو ایککک ا ہم درجکہ حاصککل ہے۔ اسککی کککی‬
‫بدولت افراد علم و آگہی کی دولت سے مالمال ہوتے ہیںاور علککم ایککک ایسککی قککوت‬
‫اور دولت ہے جو استعمال کرنے سے بڑھتی ہے۔تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ‬
‫)‪ (۱‬تعلیم نے انسان کو ارتقاءکے کئی مراحل سے گذرنے میں مدد دی ہے۔ جس کککی‬
‫بدولت انسان سائنس اور فنی ترقی کے موجودہ دور تک پہنچ سکا ہے۔‬
‫)‪ (۲‬انسان تعلیمکی مدد سے ہی زمین کی فطری قوتوں پر قابو پاسکا ہے۔‬
‫)‪ (۳‬تعلیم کسی قوم کے نظریے کو سمجھنے اور اس نظری کے کککو اسککتحکام بخشککنے‬
‫میں مدد دیتی ہے۔‬
‫)‪ (۴‬تعلیم افراد میں قومی شعور کو اجاگر کرتی ہے اور حب الوطنی کے جذبات کو‬
‫فروغ دیتی ہے۔‬
‫)‪ (۵‬تعلیم کسی بھی شہری کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہی میں مدد دیتی ہے‬
‫تاکہ وہ معاشرہ کی فلح و بہبود کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسکے۔‬
‫)‪ (۶‬تعلیم سے لوگوں کی تخلیقی صلحیتوں کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ جس سککے‬
‫معاشرے میں صحت مند اور تعمیری تبدیلیوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔‬
‫)‪ (۷‬تعلیمی ارتقاءاور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تعلیم کا معیککار جتنککا‬
‫زیادہ بلند ہوگا افراد بھی اتنے ہی ہنر مند ہوں گے اور اتنا ہی ملک ترقی کر سکے گا۔‬
‫)‪ (۸‬تعلیم قدرتی وسائل کی تلش اور ان کے نفع آور استعمال میں مدد دیتی ہے۔‬
‫)‪ (۹‬تعلیم انسانی وسائل کے فروغ کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ تعلیککم ک کے توسککط‬
‫سے ہی سائنسی اور تکنیکی ترقی ممکن ہوسکی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬قومی تعلیمی پالیسی )‪1998‬ءتسسا ‪2010‬ئ( میسسں بیسسان‬
‫کرد ہ تعلیم ک ے ا ہم پ ہلو پر روشنی ڈالی ے؟‬
‫قہومی تعلیمہی پالیسہی بہرائے ‪ 1998‬ءتہا ‪ 2010‬ءمیہں تعلیہم کہی‬
‫اہمیت‬
‫قومی تعلیمی پالیسی برائے ‪1998‬ءتا ‪2010‬ءمیںملک بھر میں تعلیم کی اہمیت کککے‬
‫مندرجہ ذیل پہلوو�¿ں اور نکات پر زور دیا گیاہے۔‬
‫)‪ (۱‬تعلیم کی سہولت تمام شہروں تک وسیع کی جائیگی اسلئے کہ یہ پاکستان کے ہر‬
‫شہری کا حق ہے۔‬
‫)‪ (۲‬ناخواندگی کککو یکسککر ختککم کرنکے ککے لئے تمککام رسککمی اور غیککر رسککمی ذرائع‬
‫استعمال کیے جائیں گے۔ ‪2010‬ءتک ابتدائی عمر )‪5‬سال تکا ‪9‬سکال( ککے بچکوں ککے‬
‫داخلوں کی شرح ‪ 100‬فیصد تک بڑھائی جائے گی۔‬
‫)‪ (۳‬لزمی ابتدائی تعلیم کا قککانون )ایکککٹ( منظککور کرککے ‪05-2004‬تککک نافککذکردیا‬
‫جائے گا۔‬
‫)(‪۴‬جو لوگ اعل ٰی تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں ُان کے لئے عمومی میککٹرک‬
‫کے ساتھ میٹرک ٹیکنیکل کی نئی اسکیم متعارف کرائی جککائے گککی۔ ٹیکنیکککل تعلیککم‬
‫کی سہولتیں بڑھائی جائیں گککی اور ٹیکنیکککل اور پیشکہ ورانکہ تعلیککم ککے اسککاتذہ کککی‬
‫تربیت کا پروگرام شروع کیا جائے گا تاکہ ان اساتذہ کی بڑھتی ہوئی طلککب کککو پککورا‬
‫کیا جاسکے۔‬
‫)‪ (۵‬ٹیکنیکل تعلیم اور سائنسی علوم کا دائرہ وسیع کیا جائے گا۔ اس مقصد ک کے لئے‬
‫ثانوی اور اعل ٰی ثانوی درجوں تککک کمپیککوٹر کککی تعلیککم متعککارف کککرائی جککائے گککی۔‬
‫اساتذہ کرام کو فنی اورٹیکنیکل تربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔‬
‫)‪ (۶‬تربیت اساتذہ کے اداروں کی موجودہ گنجائش کو پوری طرح استعمال کیا جککائے‬
‫گا۔پرائمری اساتذہ کی تعلیمی سطح میٹرک کے بجائے انٹر میڈیت مقرر کرکے تعلیککم‬
‫اساتذہ کے پروگرام کے معیار کو بلند کیا جائے گا۔ایف اے‪ ،‬ایف ایس سی اور بی اے‪/‬‬
‫بی ایس سی کے لئے دو متوازی پروگرام متعارف کرائے جائیں گے۔تعلیم اساتذہ کککے‬
‫نصاب پر نظر ثانی کرکے اس کو اس خطے کے دوسرے ممالک ککے پروگرامکوں ککے‬
‫ہم پل ّہ بنایا جائے گا۔‬
‫)‪ (۷‬نجی شعبوں کو غیر تجارتی بنیادوں پککراور خککاص طککور پککر دی ہی علقککوں میککں‬
‫تعلیمککی ادارے ک ھولنے کککے لئے مککالی امککداد کککی فراہمککی کککے لئے ایککک تعلیمککی‬
‫فاو�¿نڈیشن )ایجوکیشن فاو�¿نڈیشن( قائم کی گئی ہے۔‬
‫)‪ (۸‬ہر ضلع میں ایک” ضلعی مقتدرہ�¿ تعلیم“)ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ات ھارٹی( قکائم‬
‫کی جائے گی تاکہ تعلیمی پروگراموں کے نفاذ اور ان کی نگرانی ک کے لئے عککوام کککی‬
‫شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔‬
‫)‪ (۹‬تعلیم کے لئے قومی بجٹ کو کل قومی آمککدنی کککا ‪ 2.2‬فیصککد س کے بڑ ھا کککر ‪4‬‬
‫فیصد کردیا جائے گا۔‬
‫)‪ (۰۱‬اسی پالیسی کے تحت دینی مدارس کے معیار تعلیم کو بلند کرنے‪ ،‬ان کو جدید‬
‫اسکولوں کے قریب لنے اور ان کے نصاب اور مضامین کو‬
‫سوال‪ :‬تعلیم کی سماجی و ثقافتی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬
‫سماجی و ثقافتی پہلو‬
‫جہالت اور ناخواندگی تمام سماجی برائیوں کی جڑ ہے۔تعلیم کی کمی کی وجہ سککے‬
‫بے شمارایسی رسوم و رواج پر عمل کیا جاتا ہے جو اسلمی تعلیمککات و اقککدار ک کے‬
‫منافی ہیں۔مثال کے طور پر شادی بیاہ کے مواقع پککر ہوائی فائرنککگ‪ ،‬رویککت ہلل پککر‬
‫جھگڑا اور منشیات کا استعمال وغیکرہ۔ لوگکوں ککی ذہنکی سکطح ککا اظ ہار ان ککی‬
‫ثقافت اور طور طریقوںسے ہوتا ہے۔اسی لئے ثقافتی اقدار کو بامقصکد ہونکا چکاہیے ۔‬
‫وری‪ ،‬شاعری‪ ،‬ادب اور دیگر فنون لطیفہ کو سراہا نہیں جاسکککتا۔‬ ‫تعلیم کے بغیر مص ّ‬
‫روز مرہ کے معمولت اورمعاملت میںخوبصورتی تعلیم کی بدولت ہی ممکن ہے۔ایک‬
‫تعلیم یافتہ شخص اپنے بہتر انداز گفتگو ‪،‬خوبصورت رویے اوراچھے برتاو�¿ سے ہی‬
‫پہچانا جاتا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے صرف دولککت ہی کککافی نہیککں ہے۔بلککہ یکہ‬
‫تعلیم ہی ہے جو انسان کو مہذب اور متمدن بناتی ہے۔پس رویوں‪ ،‬طور طریقوں اور‬
‫زندگی گذارنے کے انداز میںمفید تبدیلی کے لئے تعلیم ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔اسککی‬
‫سے سماجی برائیوں کو مٹانے میں بھی مدد ملتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس قسم کسسی‬
‫ہے؟‬
‫رسمی تعلیمی نظام‬
‫رسمی تعلیمی نظام سے مککراد یکہ ہے کہباقاعککدہ تعلیمککی ادارے ک ھولے جککائیں۔و ہاں‬
‫نصاب کے مطابق کتب رائج کی جائیں۔اساتذہ کا تقرر کیا جائے اورامتحانات کا ایککک‬
‫ایسا نظام اور طریقہ وضع کیا جائے جو طلبہ کی تعلیمی قابلیت کو جانککچ سکککے اور‬
‫پھرکامیاب طلبہ اور طالبات میں سرٹیفکٹ‪ ،‬ڈگریاں اور اسککناد تقسککیم کککی جککائیں۔‬
‫رسمی تعلیم کے لئے قاعدے اور قانون بنائے جاتے ہیںاور ان قواعککد اور ضککوابط س کے‬
‫اس نظام کی نگرانی کی جاتی ہے۔کسی سرٹیفکٹ‪ ،‬ڈگری یا سککند ککے حصککول ککے‬
‫لئے ایک خاص سطح تک مطالعہ اور پڑھائی کا دورانیہ ہوتا ہے۔رسمی تعلیم کککی روح‬
‫اس کی تنظیم و تربیککت‪ ،‬انتظککام ونگرانککی و اختیککارمیں پوشککیدہ ہے۔رسککمی تعلیککم‬
‫مکمل طور سے حکومت کے دائرہ اختیار میںآتی ہے۔پاکسککتان میککں رسککمی تعلیمککی‬
‫نظام کو حسب ذیل سطحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔‬
‫) ک( ابتدائی یا پرائمری سطح‬
‫پاکستان میں ابتدائی تعلیم پہلی سے پانچویں جماعت تککک دی جککاتی ہے۔کککل مککدت‬
‫پانچ سال ہے۔بچوں کو چار یا پانچ سال کی عمر میں پہلی جمککاعت میککں داخککل کیککا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫) ک( وسطی یا مڈل سطح‬
‫چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم کو وسطی )مڈل( سطح تک تعلیککم‬
‫کا نام دیا گیا ہے۔اس کی مدت تین سال ہے۔ ابتدائی )پرائمری( تعلیم میککں کامیککابی‬
‫کے بعد اسکول کی جانب سے ایک سرٹیفکٹ جاری کیا جاتا ہے۔‬
‫) ک( ثانوی یا سیکنڈری سطح‬
‫نویں اور دسویں جماعت کو ثانوی سطح کہا جاتا ہے۔ثانوی اسکککول امتحانککات میککں‬
‫کامیابی کے بعد طلباءکو اعل ٰی ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔اس کی مککدت‬
‫دوسال ہے۔اس درجے میں کامیابی کے بعد متعلقہ بککورڈ ایککک سککرٹیفکٹ جککاری کرتککا‬
‫ہے۔‬
‫) ک( اعل ی ٰ ثانوی یا ہائیر سیکنڈری سطح‬
‫گیارہویں اور بارہویں جمکاعتوں ککو اعلک ٰی ثکانوی درجکہ ک ہا جاتکا ہے۔ثکانوی اسککول‬
‫امتحانات میں کامیابی کے بعد طلباءکو اعل ٰی ثانوی جماعتوں میں داخل کیا جاتا ہے۔‬
‫اس کککی مککدت دو سککال ہے۔اس درج کے میککں کامیککابی ک کے بعککد متعلق کہ بککورڈ ایککک‬
‫سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے۔‬
‫) ک( سند یا ڈگری کی سطح‬
‫اعل ٰی ثانوی سککطح کککی تعلیککم میککں کامیککابی ککے بعککد ِاس درجکے کککا آغککاز ہوتککا ہے‬
‫اورطلبہسند کے حصول کے لئے کسی کالج میں داخلہ لیتے ہیں۔حکومت نککے اس کککی‬
‫مدت دو سال سے بڑھا کر تین سال کردی ہے اور اب یکہ پڑ ھائی ککے تیر ہویں سککال‬
‫سے پندرہویں سال تک جاری رہتی ہے۔کامیکاب امیکدواروں ککو جکامعہ )یونیورسکٹی(‬
‫سندیا ڈگری جاری کرتی ہے۔تاہم ملک کے بعض حصکوں میکں اس وقکت ب ھی ڈگکری‬
‫کورس کی مدت دو سال ہے۔‬
‫) ک( جامعہ ) یونیورسٹی( کی سطح‬
‫جب طلبہ کسی کالج سے ڈگری کے درجے کے امتحان میں کامیاب ہو جککاتے ہیککں۔اس‬
‫کے بعد وہ یونیورسٹی )جامعہ( کی سطح کی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں۔اس کککی مککدت‬
‫دو سال ہے‬
‫) ک( پیشہ ورانہ تعلیم‬
‫پیشہ ورانہ تعلیم بھی رسمی تعلیککم کککا حصکہ ہے۔اس کککو منککدرجہ ذیککل اقسککام میککں‬
‫تقسیم کیا جاتا ہے۔‬
‫)‪ (۱‬ڈپلوما‬
‫)‪ (۲‬انجینئرنگ کی سند‬
‫)‪ (۳‬میڈیکل کی سند‬
‫)‪ (۴‬تجارت )کامرس اور بزنس ایڈمنسٹریشن( کی سند‬
‫)‪ (۵‬زرعی تعلیم کی سند‬
‫) ک( اعل ی ٰ تعلیم‬
‫ایم اے‪ ،‬ایم ایس سی‪ ،‬ایم بی اے اور ایم کام کے بعد مزید اعلک ٰی تعلیکم حاصکل ککی‬
‫جاسکتی ہے۔ماسٹر کی سند حاص کرنے کے بعکد پکی ایکچ ڈی ککی سکند حاصکل ککی‬
‫جاتی ہے۔اس طرح ایم بی بی ایس بننے کے بعد ڈاکٹر طب کی مختلف شاخوں میں‬
‫اختصاص حاصل کرتے ہیں۔ایسے لوگ اسپیشلسٹ )ماہر( ڈاکٹر کہلتکے ہیکں۔ رسکمی‬
‫تعلیم کے لئے حکومت نے پورے پاکستان میں لتعداد ادارے کھول رکھے ہیں۔یککہ نظککام‬
‫عموما ً حکومت کے زیرِ اہتمام اور زیزِ نگرانی ہوتا ہے اور یہاں حکومت ککے قواعککد و‬
‫ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔تککاہم اس رسکمی نظککام ِ تعلیککم میکں ہر سککطح اور‬
‫درجے کے لئے نجی تعلیمی ادارے بھی کھل گئے ہیں۔لیکن ان نجی اداروں کککی فیککس‬
‫سرکاری اداروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ عموما ً ملک کے متوسط طبقے کے لئے‬
‫ل برداشت ہوتے ہیں۔‬ ‫ناقاب ِ‬
‫سوال‪ :‬تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب ک ے ا ہم اجزاءکیا ہیں؟‬
‫تعلیم اور پڑھائی کے منصوبے اوراسکیمیں‬
‫تعلیم یا مطالعہ کے منصوبوں )اسکیموں( سے مختلککف درجککات میککں مجککوزہ نصککاب‬
‫مراد ہوتا ہے۔تعلیم کے مختلف درجککات اور سککطحوں ککے لئے تعلیمککی منصککوبے ایککک‬
‫دوسرے سے قطعا ً جدا ہوتے ہیں۔یہ منصوبے ذیل کے مطابق ہیں۔‬
‫) ک( ابتدئی یا پرائمری سطح‬
‫ابتدائی یککا پرائمککری سککطح ککے مضککامین میککں علقککائی زبککانیں‪ُ ،‬اردو‪ ،‬گنککتی‪ ،‬سککادہ‬
‫حساب‪ ،‬مطالعہ�¿ فطرت اور اسلمیات شامل ہیں۔‬
‫) ک( وسطی یا مڈل سطح‬
‫اس اسکیم کے مضامین میکں علقکائی زبکانیں‪ُ ،‬اردو‪ ،‬انگریکزی‪ ،‬الجکبرا‪ ،‬جیومیکٹری‪،‬‬
‫سائنس‪ ،‬معاشرتی علوم اور اسلمیات شامل ہیں۔‬
‫) ک( ثانوی سطح‬
‫اس سطح پر ُاردو‪ ،‬انگریزی‪ ،‬اسلمیات اور مطالعہ پاکستان تمام گروپوں ک کے طلب کہ‬
‫کے لئے لزمی مضامین ہیں۔فنون )ہیومینٹیز( کے طلبہ کے لئے جنککرل سککائنس لزمککی‬
‫مضمون ہے۔اس کے علوہ وہ ریاضی اور فنون کے دو مضامین ب ھی اختیککار کرسکککتے‬
‫ہیں۔سائنسی گروپ کے طلبہ لزمی مضامین کے ساتھ ساتھ طبیعات‪ ،‬کیمیا‪ ،‬ریاضککی‬
‫اور حیاتیات بھی پڑھتے ہیں۔‬
‫) ک( اعل ی ٰ ثانوی سطح‬
‫اس سطح میں سائنس اور فنون دونوں گروپوں ک کے طلب کہ ک کے لئے ُاردو‪ ،‬انگریککزی‪،‬‬
‫اسلمیات اور مطالعہ پاکستان لزمی مضامین ہیں۔سائنس گروپ کے طلبہ سککائنس‬
‫کے تین مضامین اور فنون گروپ کے طلبہ فنون کے تین مضامین منتخب کرتے ہیککں۔‬
‫سائنس کے پھر تین گروپ بنتے ہیں یعنککی پککری میکڈیکل‪ ،‬پککری انجینئرنککگ اور جنککرل‬
‫سائنس گروپ۔ کامرس گروپ کے طلبہ ب ھی تجککارت )کککامرس( ک کے تیککن مضککامین‬
‫منتخب کرتے ہیں۔‬
‫) ک( ڈگری کی سطح‬
‫بی اے اور بی ایس سی کے سطح یا درجے پر فنکشککنل انگریککزی‪ ،‬مطککالعہ پاکسککتان‬
‫اور اسلمیات لزمی مضامین ہیں۔اختیاری مضامین کی ایک فہرست میں سے تمککام‬
‫گروپوں کے طلبہ دو سے تین تک اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔‬
‫) ک( یونیورسٹی کی سطح‬
‫ماسٹرز کے درجے کے لئے طلبہ تعلیم کے کسی ایک شعبے کا مطالعہ کرتے ہیں اور ہر‬
‫شعبے میں وہ سات یا آٹھ مضامین کا مطککالعہ کرتکے ہیککں۔ی ہاں پککر طلبکہ کککو مختلککف‬
‫مضامین میں سے اپنی پسند کا مضمون منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ یونیورسککٹی‬
‫کی سطح )ایم اے‪/‬ایم ایس سی( کے بعد طلبہ ان مضامین میں ایم فککل اورپککی ایککچ‬
‫ڈی کرسکتے ہیں جو انہوں نے ایم اے یا ایم ایس سی کی سطح پر منتخب کیے تھہہے۔‬
‫جو لوگ پیشہ ورانہ نوعیت کی سند حاصل کرتے ہیں انہیککں ب ھی اپن کے اپن کے میککدانوں‬
‫میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انجینئرنککگ ‪ ،‬طککب)می کڈیکل(‪،‬‬
‫زراعت اور تجارت )کامرس( اختیاری مضامین ہیں۔ان میں طلبہ کے لئے انتخاب بہت‬
‫وسیع نہیں ہوتا ہے۔ ان کو طے شدہ مضامین میںسے ہی پڑھنا ہوتا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬تربیت اساتذ ہ پر ایک نوٹ تحریر کیجئ ے؟‬
‫تربی ت ِ اساتذہ‬
‫کوئی بھی تعلیمی نظام اپنے اساتذہ کی علمی سطح پر بلنککد تریککن ہوتککا ہے۔ کسککی‬
‫بھی نظام ِ تعلیم میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے ک کہ‬
‫اساتذہ مناسب علم اور مہارت کے حامل ہوں اور تعلیم کے مقاصککد ک کے حصککول اور‬
‫ت اسککاتذہ‬
‫اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے مناسب رویہ اختیار کرتے ہوں۔ تربی ک ِ‬
‫ش نظر‬ ‫کی چند مخصوص سطحیں ہیں جو اساتذہ کی عمومی تعلیمی قابلیت کے پی ِ‬
‫رکھی گئی ہیں۔‬
‫) ک( پرائمری اسکول اساتذہ‬
‫پرائمری اسکول کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے بشرطیکہ انہوں نے ثانوی اسکککول‬
‫امتحان میں لزما ً کامیابی حاصل کرلی ہو۔انہیں ایک سال کی تربیت مہیا کی جککاتی‬
‫ہے۔تربیت کی تکمیل کے بعد انہیں پرائمری ٹیچرز سرٹیفکٹ )پی ٹی سی( کی سککند‬
‫دی جاتی ہے۔‬
‫) ک( مڈل اسکول اساتذہ‬
‫ایسے افراد جو اف اے‪/‬ایف ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصککل کرچککے ہوں‬
‫انہیں ایک سال کی تربیت دی جاتی ہے اور سرٹیفکٹ ِان ایجوکیشن )سی ٹککی( کککی‬
‫سککند دی جککاتی ہے۔ پککی ٹککی سککی اور سککی ٹککی کککی تربیککت گککورنمنٹ کککالجز آف‬
‫ایلیمینٹری ایجوکیشن )جی سی ای( میں مہیا کی جاتی ہیں۔لڑکوں اور لڑکیککوں ک کے‬
‫لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمینٹری کالج ہیں۔یہ ایلیمینٹری کالج ملک کے اندر ضککلعی صککدر‬
‫مقام پر کھولے گئے ہیں۔‬
‫) ک( ثانوی اسکول اساتذہ‬
‫ایسے افراد جو بی اے‪/‬بی ایس سی کی سند کے حامل ہوں انہیں گورنمنٹ کالج آف‬
‫ایجوکیشن میں ایک سال کی تربیت دی جاتی ہے۔جککو ”بیچلککرزآف ایجوکیشککن )بککی‬
‫ایڈ(“ کہلتی ہے۔یہ کالج ملک کے ہر صوبے میں چنککد منتخککب مقامککات پککر ک ھولے گئے‬
‫ہیں۔جو لوگ تعلیم کے کسی ایک شعبے میں خصوصی مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیںوہ‬
‫ایک سال کی مزید تربیت حاصل کرتے ہیں۔جسے ”ماسٹر آف ایجوکیشن )ایم ایککڈ(“‬
‫کہتے ہیں۔کورس کالج آف ایجوکیشن یا جامعات کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشککن میککں‬
‫کرائے جاتے ہیں۔چند اساتذہ جامعات کے تعلیم کے میدان میں ایم فل اور پی ایککچ ڈی‬
‫بھی کرتے ہیں۔ایم ایڈ اور ایم فل اسناد کے حامککل افککراد کالککج آف ایجوکیشککن میککں‬
‫پڑھاتے ہیں۔ جامعہ کی سطح پر اساتذہ کو تربیت دینے کے لئے پککی ایککچ ڈی افککراد کککا‬
‫تقرر کیا جاتا ہے۔ علمہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپن کے فاصککلتی تعلیمککی نظککام ک کے‬
‫تحت ایسے اساتذہ کی تربیت کا آغاز کیا ہے جو تربیت اساتذہ کے باقاعدہ اداروں کککے‬
‫رسمی کورس میں کسی وجہ سکے شککریک نہیککں ہوسکککتے۔ قککومی تعلیمککی پالیسککی‬
‫‪1998‬ءتا ‪2010‬ئ( کے تحت تربیت اساتذہ کے کورسککوں کککو جدیککد بنایکا گیکا ہے اور‬
‫اسی کی مطابقت میں ہر سطح پر تربیت کی مدت اور وقفہ بھی بڑھادیا گیا ہے اور‬
‫اساتذہ کی تنخواہیں بھی بہتر کی گئی ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان میں فنی )ٹیکنیکل( اور پیش ہ وران ہ تعلیم کی‬
‫ا ہمیت بیان کیجئ ے؟‬
‫فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم) ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم(‬
‫جدید عہد فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کا عہد ہے۔ جس کی بدولت اقتصادی اور صککنعتی‬
‫ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے حکومت نے ملک میککں‬
‫فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی ہے۔ہر ضلعی صدر مقککام‬
‫پر پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ کھولے گئے ہیں۔ان اداروں میں میٹرک میکں کامیککاب ہونے‬
‫والے طلبہ کو اہلیت کککی بنیککادپر داخککل کیککا جاتککا ہے۔فککارغ التحصککیل طلبکہ کککو فنککی‬
‫)ٹیکنیکل( تعلیم کا ڈپلومہ دیا جاتا ہے۔حکومت نے ملک ب ھر میککں ایس کےکئی منصککوبے‬
‫شروع کئے ہیں جن کا مقصد ان فنککی تعلیمککی اداروں کککو آلت و سازوسککامان کککی‬
‫سہولتیں فراہم کرنا‪ ،‬فنی تعلیم کے نصاب کو بہتر بنانا اور فنی تعلیم مہیا کرنے والے‬
‫اساتذہ تیار کرنا ہے۔حکومت پاکستان نے ایک سائنسی تعلیم کے پروگرام کا آغاز کیککا‬
‫ہے جس کا مقصد ریاضی اور سائنس کی تعلیم کے نصابوں کے معیار کککو بہہہتر کرنککا‬
‫ہے۔ان نصابوں سے تقریبًاچھ فیصد طلبہ کامیاب ہوں گے۔‬
‫حکو مت پاکستان نے صوبہ سرحد میں ٹوپی )‪ (TOPI‬کے مقام پر غلم اسحاق خککان‬
‫انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کیا ہے۔جو فنی تعلیم کا سب س کے زیککادہ معیککاری اور‬
‫جدید ادارہ ہے۔اس کا معیار بین القوامی سطح کککا ہے مگککر اس ادارے میککں صککرف‬
‫مالدار افراد ہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کی پیشہ وران کہ‬
‫اور فنی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو کپڑے کی صنعت کے ماہرین تیار کرتا‬
‫ہے۔‬
‫سندھ میں پولی ٹیکنیک ادارے اور کالج کراچی‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬بککدین اور نککواب شککاہ میکں‬
‫قائم ہیں۔سندھ میں ہر ضلع کے صدر مقام پر ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بھی قککائم کئے گئے‬
‫ہیں۔‬
‫حکومت فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم پر اس لئے زور دے رہی ہے تککاکہ ایسکے سککند یککافتہ‬
‫اور تعلیم یافتہ فنی ہاتھ تیار کئے جاسکیں جو بین القوامی مارکیٹ میں مقککابلے ک کے‬
‫لئے اعل ٰی معیاری فنی مصنوعات تیار کرسکیں۔ حکومت فنی اور پیشکہ ورانکہ تعلیککم‬
‫کی بہتری پر کثیر رقم خرچ کررہی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان میں تعلیم ک ے شعب ے میں ا ہم مسائل کیا ہے؟‬
‫شعبہ تعلیم میں مسائل‬
‫پاکستان کو شعبہ تعلیم میں مندرجہ ذیل مسائل کا سامنا ہے۔‬
‫) ک( جاگیرداروں اور زمینداروں کا طر ز ِ عمل‬
‫غریب بچوں کی تعلیم کی راہ میکں جکاگیردارانہ نظکام سکب سکے بککڑی رککاوٹ ہے۔‬
‫والدین اتنے غریب ہیں کہ بمشکل ہی اپنے بچوں کککی تعلیککم ککے اخراجککات برداشککت‬
‫کرسکتے ہیں۔دوسری جانب دیہی علقوں میں جاگیردار اور زمینککدار غریککب والککدین‬
‫کے بچوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔وہ غریب بچوں سے بہت کم معاوضہ‬
‫پر کام لینا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دیہی علقوں میں خواندگی کی شرح میں اضافہ‬
‫نہیں ہوا ہے۔اس طرح بچیوں کی تعلیم کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔‬
‫) ک( سیاستدانوں اور اعل ی ٰ سرکاری حکام کا رویہ‪:‬‬
‫سیاستدان بباطن تعلیم کے فروغ اور اس کے پھیلو�¿کے خلف ہیں۔اس کی وجہ یہ‬
‫ہے کہ تعلیم کے ذریعے عوام میں شعور بیدار ہوگا جکس سکے ُان ککی بکدعنوانیاں اور‬
‫بے قاعدگیاں بے نقاب ہوجائیں گی۔‬
‫) ک( تر ک ِ تعلیم‬
‫ک تعلیم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔تقریبا ً ‪ 85‬فیصککد بچ کے‬ ‫بچوں میں ہر سطح پر تر ِ‬
‫پرائمری اسکولوں میں داخل ہوتے ہیں۔لیکن بمشکل ‪ 56‬فیصد بچے اپنککی پرائمککری‬
‫تعلیم کا پانچ سککالہ دور مکمککل کرپککاتے ہیککں۔وسککطی )مکڈل( سککطح پککر ایککک نمایککاں‬
‫ک تعلیم کی سب سے اہم وجہ والککدین‬ ‫اکثریت درمیان میں تعلیم ترک کردیتی ہے۔تر ِ‬
‫کی معاشی حالت ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کککی تعلیککم ککے اخراجککات براداشککت نہیککں‬
‫کرپاتے ہیں۔‬
‫) ک( اساتذہ کی غیر حاضری‬
‫دیہی علقوں میں اساتذہ کی غیر حاضری نے بھی تعلیککم ک کے فککروغ کککو بککری طککرح‬
‫متاثر کیا ہے۔دیہات میں اساتذہ کی کمی‪ ،‬فرضی اور جعلی )گھوسٹ( اسکککولوں کککا‬
‫وجود اور دیہی اسکولوں کی مو�¿ثر نگرانی نہ ہونے کے سبب تعلیم کے فروغ کککی‬
‫رفتار انتہائی سست پڑ گئی ہے۔‬
‫) ک( نجی تعلیمی اداروں کی بھاری فیس‬
‫نجی شعبے کے اسکولوں میں مہیا کردہ سہو لتوں کے مقابلے میں ب ہت زیککادہ ب ھاری‬
‫فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔اساتذہ سے ضرورت سے زیادہ کککام کیککا جاتککا ہے۔لیکککن‬
‫تنخواہیںکم دی جاتی ہیں۔حکککومت کککو ایسکے اسکککولوں کککی سککخت نگرانککی کرنککی‬
‫چاہئے۔ نجی اسکولوں میں صرف رجسٹریشن فیس ‪ 2‬سو روپے سے ‪ 10‬ہزار روپ کے‬
‫تک ہے جبکہ ماہانہ فیس بھی ہزاروں میں ہوتی ہے۔اساتذہ کککا معیککار ب ھی واجککبی سککا‬
‫ہوتا ہے لیکن یہ اپنے اثر و رسوخ اور ذاتی تعلقات سے فائدہ اٹھاتے ھیں۔‬
‫) ک( سازوسامان کی سہولتوں کی کمی‬

‫تعلیم کے معیار میں پستی اور زوال کا ایک سبب پرائمری اسکولوں کی باقاعدہ عمککارتیں نکہ ہونککا‬
‫بھی ہے۔اکثر اسکولوںکی نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی انہیں بیت الخلءاور صککاف پککانی کککی س کہولت‬
‫سر ہے۔ان اسکولوں میں فرنیچر کی بھی کمی ہے۔دیہی علقوں میں اکثر اسکول صرف ”واحد‬ ‫می ّ‬
‫کمرہ اسکول“ ہیں۔یہ سب بہت بری حالت میں ہیں۔ان اسکولوں میککں تعلیککم کککا معیککار ب ھی ب ہت‬
‫پست ہے۔‬
‫) ک( درسی کتب کی عدم دستیابی‬
‫درسی کتب کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے بے شمار طلبہ انہیککں خریککدنے سکے قاصککر‬
‫ہیں۔نجی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں رائج درسی کتابیں بہت مہنگککی‬
‫ہیں۔اعل ٰی تعلیم اور پیشہ ورانہ نصابوں کی اکثر درسی کتب درآمد کی جاتی ہیں اور‬
‫وہ بہت مہنگی ہیں۔‬
‫) ک( طلبہ کے لئے رہائش‬
‫فنی اور میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے لئے ہوسٹل کی رہائش بھی مسئلہ بکن گئی ہے۔‬
‫ان اداروں میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ س کے ہوسککٹل کککی ر ہائش مہیککا‬
‫نہیں ہے۔‬
‫) ک( سیاسی مداخلت‬
‫تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملت اور خصوصا ً اساتذہ کککی تقرریککوں اور تبککادلوں‬
‫میں عوامی نمائندے مککداخلت کرتکے ہیککں۔اہلیککت کککو نظککر انککداز کردیککا جاتککا ہے اور‬
‫تقرریوں میں جانب داری برتی جاتی ہے یا سیاسی سفارشیں کی جاتی ہیں۔‬

‫سسسوال‪ :‬پاکسسستان میسسں تعلیسسم کسس ے میسسدان میسسں انفارمیشسسن‬


‫ٹیکنالوجی )اطلعاتی فّنییت( ک ے کیا مقاصد ہیں؟‬
‫معنی اور مفہوم‬
‫اطلعککاتی فّنییککت )انفارمیشککن ٹیکنککالوجی ‪ (IT‬مواصککلت )ٹیلککی کمیونیکیشککن( ککے‬
‫میدان میںایک جدید اختراع ہے۔اس فّنییت کی بدولت اعدادوشمار انٹرنیٹ کے ذریعے‬
‫ہزاروں کلو میٹر دور ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کئے جاسکتے ہیں۔افککراد‬
‫اور اداروں نے اپنی اپنی ویب سائٹس تخلیق کی ہیں جککو پلککک جھپکت کے ہی مطلککوبہ‬
‫معلومات مہیا کردیتی ہیں۔ انٹرنیٹ درآمد اور برآمد اور تحقیقاتی مواد کککے حصککول‬
‫کا تیز رفتار ذریعہ بکن گیکا ہے۔اطلعکاتی فّنییککت ککے لئے م ہارت اور ہنککر منکدی ککی‬
‫ضرورت ہے تاکہ مشینوں کو چلیا جاسکے۔پاکستان میں اطلعاتی فّنییت کا مستقبل‬
‫بہت روشنہے۔کئی غیر ملکی کمپنیاں وسیع پیمانے پر اس میدان میں سککرمایہ کککاری‬
‫کررہی ہیں۔‬
‫مقاصد‬
‫تعلیم کے میدان میں اطلعاتی فّنییت کے بھر پور پروگرام کے منککدرجہ ذیککل مقاصککد‬
‫ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬ہر درجے پر اطلعاتی فّنییت کے اطلق سے پاکستان کے نظککام تعلیککم کککو جدیککد‬
‫بنانا۔‬
‫)‪ (۲‬انٹرنیٹ کے ذریعے جدید تحقیق اور تازہ اطلعات و معلومات تک رسائی حاصککل‬
‫کرنا ہے۔‬
‫)‪ (۳‬ہر عمر کے بچوں میں اطلعاتی فّنییت کو مقبول بنانا اور انہیککں آئنککدہ عشککروں‬
‫کے لئے تیار کرنا۔‬
‫)‪ (۴‬کمرہ جماعت میں تعلیم کے آلہ کار کے طور پر کمپیوٹر کے مختلف کرداروں پککر‬
‫زور دینا ہے۔‬
‫)‪ (۵‬اساتذہ کی تربیککت اور دیگککر تعلیمککی سککرگرمیوں ککے لئے رسککل و رسککائل کککی‬
‫ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا۔‬

‫ننننننن ن اہیک فلہاہحیہ مہمہلکت‬


‫سوال‪ :‬فلحی ریاست س ے کیا مراد ہے؟‬
‫فلحکی ریاسکت سکے مککراد ایکک ایسکی ریاسکت ہے جککو اپنکے شکہریوں ککی بنیککادی‬
‫ضروریات کا خیال رکھے اور انہیں اس قابل بنائے ک کہ وہ پ ُککر امککن وُپرسکککون زنککدگی‬
‫گزارسکککیں۔ریاسککت کککے مقاصککد میککں ج ہالت و ناخوانککدگی‪ ،‬غربککت و افلس اور‬
‫معاشرے سے ناانصافی کا خاتمہ شامل ہوتے ہیں۔اپنے شکہریوں کککو ایسکے مواقککع اور‬
‫ماحول مہیا کرنا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہوتککا ہے جککس میںککوہ اپنککی فطککری‬
‫صلحیتیں ُاجاگر کر سکیں۔‬
‫سوال‪ :‬ایک اسلمی فلحی ریاست کا کیا تصور ہے؟‬
‫فلاحی مملکت کے بارے میں اسلامی تصور‬
‫فلحی مملکت کا تصور کوئی نیا نہیکں ہے۔اسککلم نکے چکودہ سککو سکال قبکل فلحکی‬
‫مملکت کا تصور پیش کیا تھا اور خلفت راشدہ کے دور میں اس پر مکمل طککور پککر‬
‫عمل کیا گیا تھا۔ایک اسلمی فلحی ریاست کا تصور حسب ذیل ہے۔‬
‫ً‬
‫اسلم میں اقتکدارِ اعلک ٰی اللکہ تبکارک و تعکال ٰی ککے پکاس ہے۔ریاسکت نیابتکا اپنکے‬ ‫( )‪۱‬‬
‫شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ہر کس و ناکس کککو‬
‫بل کسی امتیاز کے انصاف فراہم کرتی ہے۔یہاں قانون کی نظر میں سککب برابر ہوتے‬
‫ہیں۔افراد کے درمیان فوقیت اور برتری کا دارومدارصرف تقو ٰی )اللہ کے خوف( کی‬
‫بنیاد پرہوتا ہے۔‬
‫)‪ (۲‬اسلمی فلحی ریاست میں یہ لزم ہے کہ حاکم اسککلم ککے بنیککادی احکامککات کککا‬
‫پابند ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے وال مسلمان ہو۔حاکم تو صرف امین ہوتاہے۔‬
‫)‪ (۳‬اسلمی فلحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ عوام کی فلح و‬
‫بہبود کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے۔‬
‫)‪ (۴‬اسلمی فلحی ریاست میں حکومت ہمیشہ اپنے عوام کے سککامنے جوابککدہ ہوتی‬
‫ہے۔یہ تمام شہریوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہہہہے۔‬
‫یہ ریاست غیر مسلموں سمیت تمام افراد کو بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے۔‬
‫ب لباب یہ ہے کہ یہ مساوات ) ہر سککطح پککر‬ ‫)‪ (۵‬اسلمی فلحی ریاست کے تصور کا ل ِ‬
‫برابری(قائم کرتی ہے اور اس کے حکمران عام آدمی کی طرح زنککدگی بسککر کرت کے‬
‫ہیں اورہر شخص کی ان تک رسائی حاصل ہ ہوتی ہہہے اور یکہ اپنکے عکوام ککے سککامنے‬
‫جوابدہ ہوتے ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے قومی مقاصد کیا ہیں؟‬
‫پاکستان کے قومی مقاصد‬
‫پاکستان ایک آزاد‪ ،‬خودمختار اسلمی ملک ہے۔اس ککے قککومی مقاصککد منککدرجہ ذیککل‬
‫ہیں۔‬
‫) ک( اسلامی معاشرے کا قیام‬
‫اسلمی تعلیمات اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ایک اسلمی معاشرہ کا قیام‬
‫سب سے اہم قومی مقصد ہے۔قائد اعظم نکے فرمایککا ت ھا ککہ پاکسککتان کککی تخلیقکککا‬
‫مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ کا قیام‬
‫تھا۔ جہاں اسلمی اصولوں کو بروئے کککار لیککا جاسکککے۔اس لئے ی کہ ہر پاکسککتانی کککا‬
‫فرض ہے کہ وہ ایسی تمام کاوشوں اور کوششوں میں شککریک ہوں جککن کککا مقصککد‬
‫ایسا ماحول پیدا کرنا ہو جس میں لوگ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیاں‬
‫اسلمی اصولوں کے مطابق بسر کرسککیں۔ )‪ (۲‬استحصکال ککے خلف جدوج ہد==‬
‫مساوات‪ ،‬سماجی انصاف‪ ،‬باہمی عزت و احترام اور تعکاون ککے اصککولوں پککر مبنکی‬
‫ایک اسلمی معاشرے کا قیام ہی ہمارا بنیادی قومی مقصد ہے۔یہ اسی وقککت ممکککن‬
‫ہے۔ جب ہرفردکو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے ککے مسکاوی مواقکع حاصکل ہ ہوں اور وہ‬
‫جہالت‪ ،‬غربت اور استحصال کا شکککار ن کہ ہو۔اسککی لئے ج ہالت‪ ،‬ناخوانککدگی‪ ،‬غربککت‬
‫افلس اور معاشی استحصال کے خلف جدوجہدبھی ہمارا ایک قومی مقصد ہے۔‬
‫) ک( ریاست کی حفاظت‬
‫ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنککا ب ھی حکککومت اور‬
‫عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔قومی تشخص اور آزادی کا تحفظ بھی ہمارا ایک اہم‬
‫قومی مقصد ہے۔‬
‫) ک( خود کفالت‬
‫خودکفالت ایک بہت وسیع المعنی اصطلح ہے۔لیکن قککومی مقاصکد ککے حککوالے سکے‬
‫اس کے معنی یہ ہیں کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طککور پککر خککود کفیککل بنایککا‬
‫جائے۔اس کے لئے قومی سطح پر مسلسل کوششوں اور کاوشوں کی ضرورت ہے۔‬
‫اس کے لئے محنت کی جائے‪ ،‬اپنے وسائل پر انحصار کیا جائے اور تعلیم اور سائنسی‬
‫علوم کو فروغ دیا جائے اور ”پاکستانیت“ کا جذبہ و احساس پروان چڑھایا جائے تککاکہ‬
‫خود انحصاری کی منزل حاصل ہوسکے۔‬
‫) ک( مسلم ممالک کے ساتھ اتحاد و یکجہتی‬
‫یہ بھی ہمارا قومی مقصد ہے کہ اسلمی ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کو فروغ‬
‫مک ہ کککی تنظیککم‬ ‫دیا جائے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیککا جککائے۔ہمیککں اسککلمی ا ُ ّ‬
‫)آرگنائزیشن آف اسلمک کنٹریز‪-‬او آئی سی( کے کردار کککو زیککادہ مضککبوط بنانککا ہے‬
‫سو ہوکر عمل کیا جائے۔‬ ‫مہ کے مفادات سے متعلق معاملت پر یک ُ‬ ‫تاکہ مسلم ا ُ ّ‬
‫) ک( پ ُ رامن کوششیں‬
‫بیککن القککوامی اور علقککائی امککن کککا فککروغ‪ ،‬غیککر منصککفانہ بیککن القککوامی معاشککی‬
‫اصلحات اور نسلی امتیاز کا خاتمہ بھی ہمارے قومی مقاصد میں شامل ہے۔‬
‫) ک( فلاحی ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد‬
‫سب سے اہم مقصدپاکستان کو فلحی ریاست بنانا ہے۔ہمککارے وسککائل محککدود ہیککں۔‬
‫دبراور دور انککدیش‬ ‫پاکستان کو فلحی ریاسککت بنککانے میںسککب سکے بککڑی رکککاوٹ مک ّ‬
‫قیادت کی کمی ہے جس کی وجہ سے اس کے وسائل بہت غیر منظم ہیں۔اس کےلئے‬
‫ہمیں شرح خواندگی میں اضافہ کرکے‪ ،‬سائنسی اور ٹیکنیکل تعلیککم کوبڑہہہا کککر اپنکے‬
‫وسائل کو فروغ دینا ہوگا۔پاکستان کو فلحی ریاست بنانے کے لئے سککماجی برائیککوں‬
‫اور بدعنوانیوں کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔‬
‫سوال‪ :‬خوراک میں خودکفالت کیوں ضروری ہے؟‬
‫خوراک میں خودکفالت‬
‫خوراک عوام کی بنیادی ضرورت ہے۔نا مناسب یککا کککم خککوراک کککا نککتیجہ عککوام کککی‬
‫خراب صحت کی صورت میں نکلتا ہے۔جب عوام صحت مند نہیں ہونگے تککو ان کککی‬
‫کارکردگی بھی کم ہوجائے گی جس سے ملک کی تعمیر و ترقککی و فککروغ کککا عمککل‬
‫سست پڑجاتا ہے۔بیرونی ممالک سے خوراک کی درآمد سے ترقی و فروغ ک کے دیگککر‬
‫شعبوں پر ُبرا اثر پڑتا ہے۔ خاص طور سے صنعتی ترقککی و فککروغ پککر کیککونکہ غککذائی‬
‫اجناس کی درآمد پرکثیر زِرمبادلہ خرچ ہوجاتا ہے۔پاکستان کککی معیشککت زراعککت پککر‬
‫انحصار کرتی ہے۔پاکستان کککی آبککادی کککی اکککثریت زراعککت سکے وابسککتہ ہے۔قککومی‬
‫آمدنی کا زیادہ بڑا حصہ زرعی پیداوار اور زراعت پککر مبنککی مصککنوعات سکے حاصککل‬
‫ہوتا ہے۔ چاول‪ ،‬کپاس اور گّنا )چینی( جیسی زرعی فصککلیں زِرمبککادلہ کمککانے کککا اہہہم‬
‫ذریعہ ہیں۔صنعتوں کے لئے بھی زراعت بہت اہم ہے۔کپککڑے کککی صککنعت‪ ،‬شکککر سککازی‬
‫کی صنعت اور بناسپتی تیل کی صنعت جیسی بے شمار صنعتوں کا انحصککار زرعککی‬
‫پیداوار پر ہے۔زرعی ترقی صرف خوراک و غذا کے لئے نہیں ہے بلکہ صککنعتی ترقککی و‬
‫نشونما کے لئے بھی ضروری ہے۔ صککنعتی مصککنوعات ب ھی زراعککت ککے فککروغ میکں‬
‫استعمال ہوتی ہیں۔ زرعککی پیککداوار بڑ ھانے سکے ہم منککدرجہ ذیککل فککوائد ککے حامککل‬
‫ہوسکیں گے۔‬
‫)‪ (۱‬قیمتی زِرمبادلہ بچا سکیں گے جو غذائی اجناس کی درآمد پر خرچ ہوتا ہے۔‬
‫)‪ (۲‬مزید صنعتیں قائم کرسکیں گے‪ ،‬پیداوار بڑھا سکیں گے اور زِرمبککادلہ کماسکککیں‬
‫گے۔‬
‫)‪ (۳‬بیرونی قرضوں کو کم کرسکیں گے۔‬
‫ت خرید بڑھا سکیں گے اور معیارِ زندگی بہتر کرسکیں گے۔‬ ‫)‪ (۴‬عوام کی قو ِ‬
‫)‪ (۵‬تجارت اور کاروبار کو پھیلسکیں گے۔‬
‫)‪ (۶‬عوام کی روزگار کے مواقع مہیا کرسکیں گے اور غربت مٹا سکیں گے۔‬
‫خوراک میںخودکفیل بنانے میں حکومت کے مقاصد‬
‫حکومت زرعی شعبے کی ترقی و فروغ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔اس کا مقصکد‬
‫یہ ہے کہ ملک کو خوراک کے معاملے میں خودکفیل بنایا جاسکککے۔اس مقصککد ک کے لئے‬
‫حکومت نے مندرجہ ذیل اقدام ُاٹھائے ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬ملک میں زرعی اصلحات نافذ کی گئی ہیں۔جن کا مقصد ی کہ ہے ک کہ زمیککن کککی‬
‫ملکیت کو محدود کیا جائے اور زمین کی ملکیت کی ایک زیادہ سے زیککادہ حککد مقککرر‬
‫کی جائے اور چھوٹے کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔‬
‫)‪ (۲‬ترقیاتی منصوبوں میں زرعی شعبے کی ترقی اور فروغ کے لئے خطیککر سککرمایہ‬
‫خرچ کرکے زراعت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔‬
‫)‪ (۳‬ڈیم کی تعمیر اور چند نئے علقوں میں آبی نہروں کی تعمیر کے ذریعککے وسککائل‬
‫کو وسعت دی گئی ہے۔‬
‫)‪ (۴‬زرعی ترقیاتی بینک اور امکدادِ بکاہمی ککی انجمنیکں قکائم ککی جکارہی ہیکں تکاکہ‬
‫کاشتکاروں کو قرضے دیے جاسکیں۔‬
‫)‪ (۵‬کثیر تعداد میں زرعی ادارے قائم کیے گئے ہیں جو زرعی مسائل ک کے بککارے میککں‬
‫مشورے دیتے ہیں جو زیادہ پیداوار کے لئے معیاری اور صککحت منککد بیککج تجککویز کرت کے‬
‫ہیں۔‬
‫)‪ (۶‬حکومت کی جانب سے مصنوعی کھاد جراثیککم کککش ادویککات‪ ،‬ٹریکککٹر اور دیگککر‬
‫متعلقہ آلت کککو خریککدنے ککے لئے بکے شککمار سکہولتیں مہیککا کککی گئی ہیککں۔ حکومککتی‬
‫کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کئی زرعی پیداواروں میککں تقریبًاخودکفیککل ہوگیککا‬
‫ہے۔ ان میں چاول‪ ،‬کپاس‪ ،‬گنککدم‪ ،‬چینککی اور مصککنوعی کھہہاد شککامل ہیککں۔اس طککرح‬
‫غذائی اجناس کی درآمد سے بچا ہوا زِرمبادلہ صنعتوں کے قیام میں خرچ ہوسکتا ہے‬
‫اور وہ دن زیادہ دور نہیں ہے جب پاکستان خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوجککائے‬
‫گا۔‬
‫سوال‪ :‬ساری دنیا میں امن کیوں ضروری ہے؟‬
‫موجودہ دنیا عمل ً ایک عالمی گاو�¿ں )گلوبل ولیج( بن کر رہ گئی ہے۔جدیککد سککائنی‬
‫پیش رفت‪،‬ٹیکنالوجیزکی ترقی اورذرائع رسل و رسائل کے اضافے س کے فاصککلے کککم‬
‫ہوگئے ہیں۔اقوام عالم اب خود کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب محسوس کرتی ہیککں۔‬
‫خلءکی تسخیر اور مصنوعی سیاروں کی ایجاد نے فاصلوں کو مزید کم کردیککا ہے۔‬
‫بھائی چارے کی ایک فضاسی پیداہوگئی ہے۔اقوام متحدہ نے بھی اقوام عالم کککو ایککک‬
‫دوسرے کے قریب لنے میں خاصہ اہم کردار ادا کیا ہے۔اب عالمی مسائل تمام اقوام‬
‫کے لئے یکساں سمجھے جاتے ہیں۔عالمی وسائل میںب ھی سکب ککی کسکی نکہ کسکی‬
‫طرح شرکت ہوجاتی ہے۔جدید ٹیکنالوجیز کے ثمرات بھی تمام اقوام پککر اثرانککداز ہو‬
‫رہے ہیں۔ایک دوسرے کی امداد کے نتیجے میں عالمی مسائل میں کمککی واقککع ہوئی‬
‫ہے۔کسی ہولناک تباہی‪ ،‬قحط و آفات و بربادی کی صورت میں دنیا ککے ممالککک کککی‬
‫ایک بڑی تعداد باہم متحککد ہوجککاتی ہے اور دنیککا ککے اس متککاثرہ علقکے کککی امککداد و‬
‫بچاو�¿ کے لئے پہنچ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ امککن اور ب ھائی چکارے ککے احسککاس ککے‬
‫فروغ کی بدولت ہی حاصل ہوسکا ہے۔‬
‫پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ‬
‫دنیا کے تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جککائیں۔عککالمی امککن کککو فککروغ‬
‫دینے کے لئے اس نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کککی ہے۔پاکسککتان‬
‫ایسی کئی عالمی تنظیموں کا رکن ہے جو دنیا میں بھائی چارے اور امککن ککے فککروغ‬
‫کے لئے کوشاں ہے۔ ایکک اسکلمی ملکک ہونے ککے نکاطے سکے ب ھی پاکسککتان ایسکے‬
‫اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔جو ایک دوسککرے ککے سککاتھ امککن و سکککون سکے رہنکے اور‬
‫تشدد اور جارحیت کی حوصلہ شکنی کا درس دیتے ہیں۔اگر چہ اسلم میں ضککرورت‬
‫کے وقت ہتھیار ُاٹھانے کی اجازت ہے۔لیکن بے رحمی اور ظلم و ناانصافی کی سخت‬
‫ممانعت کی گئی ہے۔ عالمی بھائی چککارے اور امککن ک کے لئے اقککوام عککالم ک کے مککابین‬
‫محبت و یگانگت کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔جس کے لئے ضروری ہے کہ مختلف ممالک‬
‫کے مابین تنازعات کو ُپر امن طریقے سے حل کروایاجائے اور ملکوں کککی آزادی اور‬
‫سرحدوں کا تحفظ کیا جائے۔‬
‫سوال‪ :‬فلحی ریاست میں فرد کا کیا کردار ہوتا ہے؟‬
‫فلاحی ریاست میں فرد کا کردار‬
‫جہاں فلحککی ریاسککت اپنکے شکہریوں کککی بنیککادی ضککروریات پککوری کرتککی ہے وہیککں‬
‫شہریوں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ریاست و مملکت کے لئے اپنے فککرائض اور‬
‫ذمے داریاں خوش اسلوبی سے ادا کریں گے۔کسککی ب ھی مملکککت ک کے لئے فککرد ک کے‬
‫چندممکنہ اہم فرائض درِج ذیل ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار ر ہے اور آزمککائش ک کے وقککت قربککانی‬
‫سے ُ‬
‫گریز نہ کرے۔‬
‫)‪ (۲‬ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے حقوق کا احترام کرے اور ان کککی‬
‫جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔‬
‫ب‬‫لبجلککی‪ ،‬گیککس‪ ،‬آ ِ‬‫ت عامہ کی جو س کہولتیں مث ً‬ ‫)‪ (۳‬ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ مفادا ِ‬
‫ُ‬
‫رسانی‪ ،‬پبلک پارک‪ ،‬ذرائع نقل و حمککل وغیککرہ حکککومت فرا ہم کرتککی ہے وہ ان کککی‬
‫حفاظت کرے۔‬
‫)‪ (۴‬ایک شہری کککا یکہ ب ھی فککرض ہے ککہ وہ انفککرادی یککا اجتمککاعی طککور پککر فلحککی‬
‫سرگرمیوں میں ملوث رہے۔‬
‫)‪ (۵‬شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔‬
‫)‪ (۶‬تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس باقاعدگی سے ادا کریککں اور سککرکاری یککا‬
‫نجی املک کو نقصان نہ پہنچائیںاوراحتجاج اور ہڑتککالوں ک کے وقککت گککاڑیوں کککی تککوڑ‬
‫گریز کریں۔‬ ‫پھوڑ‪ ،‬ٹریفک سگنلز اور مکانوں کو نقصان پہنچانے سے ُ‬
‫)‪ (۷‬ہر شہری کو‪ ،‬جککس حککد تککک ممککن ہو‪ ،‬اپنکے اطکراف میککں غریککب‪ ،‬معکذور اور‬
‫مستحق افراد کی مدد کرنی چاہئے۔‬
‫ے ککوئی ُہنککر سککیکھے اور قکدرتی‬ ‫)‪ (۸‬ہر شہری کا فرض ہے ککہ وہ تعلیککم حاصککل کککر ‪،‬‬
‫وسائل کوسلیقے سے استعمال کرے تاکہ ترقی کی رفتار تیز تر ہو۔‬
‫سوال‪ :‬تعلیم عام ہ ک ے لئ ے حکومت ن ے کیا اقدام ُاٹ ھائ ے ہیں؟‬
‫تعلیم عامہ‬
‫اسلم میں اور اقوام متحدہ کے منشور میں‪ ،‬تعلیم کو انسانوں کا بنیادی حق تسلیم‬
‫کیا گیا ہے۔اس لئے ایک خاص حد تک شہریوں کے لئے تعلیککم لزمککی اور مفککت ہونی‬
‫چاہئے۔اس معیار اور درجے تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقککع تمککام ش کہریوں ک کے لئے‬
‫یکساں ہونے چاہئیں۔اس کے لئے تعلیمی اداروں کی تعداد اور دیگر تعلیمی سہولتوں‬
‫میں اضککافہ ہونککا چککاہئے۔ پاکسککتان میککں تعلیککم عککامہ کککا ہدف حاصککل کرنکے ککے لئے‬
‫کوششیں جاری ہیں۔ ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے لئے مندرجہ ذیککل قککدم ُاٹ ھائے‬
‫گئے ہیں۔‬
‫) ک( تعلیمی شعبے میں اصلاحات‬
‫تعلیم کے میدان میں اصلحات نافذ کی گئی ہیں۔جنہیں تعلیمی شعبے کی اصککلحات‬
‫”ای ایس آر“ کہا جاتا ہے۔ان اصلحات کا مقصد ایک ایسا نظام تعلیم متعارف کرانککا‬
‫ہےجو پاکستان کی بطورایک آزاد نظریاتی مملکت‪ ،‬ضروریات اور مطالبات کو پککورا‬
‫ل تعلیم تککک رسککائی اور س کہولت‬ ‫کرتا ہو۔اس نئے نظام کے ذریعے ہر شہری کو حصو ِ‬
‫حاصل ہوپائےگی۔ )‪ (۲‬اسلمیات اور مطالعہ پاکسککتان لزمککی اسککلمیات اور مطککالعہ‬
‫پاکستان کو لزمی نصاب کے طور پر شامل کیا گیا ہے تاکہ اسککلم کککی حقیقککی روح‬
‫کو سمجھتے ہوئے اور پاکستان کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے بچوں کوایک روشن‬
‫خیال اور بہترین انسان بنایا جاسکے۔‬
‫) ک( مفت تعلیم‬
‫ایسے اقدام ُاٹھائے گئے ہیں جن سے تعلیم کی تجارت کے رجحان کی حوصکلہ شکککنی‬
‫ہوتی ہے۔دسویں جماعت تک مرحلہ وار مفت تعلیم کا منصوبہ بھی روبہ عمل ہے۔‬
‫) ک( اساتذہ کے لئے سہولتیں‬
‫اساتذہ کے لئے ملزمت کا ڈھانچہ حالت کارکو بہتر بنایا جارہا ہے تاکہ وہ زیادہ دلچسپی‬
‫اور دل جمعی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔‬
‫) ک( وظائف‬
‫پاکستان بیت المال کے تحت ذہین اور قابل طلباءکے ساتھ ساتھ مستحق اور غریککب‬
‫طلباءکوبھی وظائف دینے کا ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے۔‬
‫) ک( خواندگی مہم‬
‫ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خواندگی مہم شروع کردی گئی ہے تاکہ عوام میں اور خککاص‬
‫طور سے دیہی علقوں میں تعلیم کے بارے میں شعور ُاجاگر کیا جاسکے۔‬
‫) ک( تعلیم سب کے لئے‬
‫پورے پاکستان میں ”تعلیم سب کے لئے“ کے نعرہ سے ایک پروگککرام شککروع کیککا گیککا‬
‫ہے۔اس منصوبے کے تحت دیہات میں غیر رسمی تعلیمی اداروں کا اجراءکیا گیا ہہہہے۔‬
‫ان اداروں میں کتابیں اور دیگر تعلیمی مواد مفککت فرا ہم کیککا جاتککا ہے۔فککی الحککال‬
‫ایسے اداروں کی تعداد تقریبا ً ‪ 10‬ہزار ہے جو رفتہ رفتہ بڑھ کر تقریبا ً ‪ 80‬ہزار ہوجائے‬
‫گی۔‬
‫) ک( سرکاری‪ -‬نجی شراکت کامنصوبہ‬
‫ایک منصوبہ سرکاری‪-‬نجی شراکت کا شروع کیککا گیککا ہے۔اس جککس ک کے تحککت غیککر‬
‫سرکاری اور نجی بنیاد پر قائم تنظیمیں دیہات میں ایسے ادارے قائم کریں گککی جککو‬
‫تعلیم کے فروغ اور خواندگی کے سلسلے میں حکومت کی مدد کرسکیں ۔‬
‫) ک( تعلیمی اداروں کو مالی امدادکی فراہمی‬
‫صوبوں اور وفاق کی سطح پر تعلیمی فاو�¿نڈیشن قائم کی گئی ہیں۔جن کی ذمہ‬
‫داری یہ ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کو مالی امداد فراہم کریں۔‬
‫سوال‪ :‬عادلن ہ اور مساویان ہ معاشر ہ پر ایک نوٹ لک ھی ے۔‬
‫وسائل کی منصفانہ اور متناسب تقسیم‬
‫جککب وسککائل محککدود ہوں اور ضککروریات لمحککدود ۔ تککو ُاس وقککت وسککائلکی‬
‫منصفانہتقسیم کے ذریعہ ہی فلحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔مزیککد‬
‫یہ کہ تمام ممالک کے وسائل یکساں اور برابر نہیں ہیں۔بعض علقکے ککم زرخیکز ہیکں‬
‫اور وہاں کے لوگوں کا میعارِ زندگی انتہائی پست ہے۔اس کے برعکککس بعککض علق کے‬
‫بہت زرخیز ہیں اوریہاں کے لوگ زیادہ آرام دہ اور خوشحال زندگی بسککر کرت کے ہیککں۔‬
‫دراصل وسائل کی نامنصفانہ تقسیم ہی غریب اور امیر کافرق پیدا کرتی ہے۔ فلحی‬
‫ریاسککت ک کے قیککام ک کے لئے ضککروری ہے ک کہ معاشککرے میککں پھیلککی نککاہمواریوں اور‬
‫محرومیوں کو دور کیا جائے۔قومی وسائل کی منصفانہ اور متوازن تقسککیم سکے ہی‬
‫طبقاتی کشمکش اور علقائی عصبیتوں کا قلع قمع کیککا جاسکککتا ہے۔ پاکسککتان ککے‬
‫مختلف علقوں میں وسائل اور پیداوار کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے۔بعکض علقکے‬
‫صنعتی طورپر ترقی یافتہ ہیں جبکہ بعض علقے پککس مانککدہ ہیککں۔ذرائع نقککل و حمککل‬
‫بھی پورے ملک میں یکساںدستیاب نہیں ہیں۔ حکومت ان مسکائل پکر قکابو پکانے ککی‬
‫کوششیں کررہی ہے اور ملک بھر میں تعلیم کا جال بچھایککا جار ہا ہے۔ حکککومت ن کے‬
‫وسائل کی متناسب اور عادلنہ تقسیم کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات کئے ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬تعلیم‪ ،‬صحت اور سماجی بہبود کے ادارے پورے ملک میں قائم کئے جارہے ہیں۔‬
‫)‪ (۲‬مستحق طلباءکے لئے وظائف اور مالی امداد کا ملک گیر سطح پککر انتظککام کیککا‬
‫گیا ہے۔‬
‫)‪ (۳‬پس ماندہ علقوں میں روزگار کے مواقع پیککدا کرنکے ککے لئے صککنعتیں قکائم ککی‬
‫جارہی ہیں۔‬
‫)‪ (۴‬گھریلو صنعتیں اور دستکاریوں کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے‬
‫تاکہ لوگوں کو مقامی سطح پر روزگار مل سکے۔‬
‫)‪ (۵‬کسانوں اور کاشتکاروں کو مختلف ترغیبات اور س کہولتیں فرا ہم کرک کے زرعککی‬
‫پیداوار بڑھائی جارہی ہے۔‬
‫)‪ (۶‬دوردراز علقوں تک زندگی کی بنیادی سہولتیں مثل ً بجلی‪ ،‬گیس اور ٹیلکی فکون‬
‫مہیا کی جارہی ہیں۔‬
‫)‪ (۷‬نجکاری کے عمل کے ذریعے لوگوں کو قومی ترقی و فروغ کے پروگراموں میککں‬
‫حصہ لینے کے لئے راغب کیا جارہا ہے۔اس پالیسی کے تحت چنککد صککنعتوں‪ ،‬کارخککانوں‬
‫اور مالی اداروں کو نجی تحویل میں دے دیا گیا ہے تاکہ وہ قومی ترقککی و فککروغ ککے‬
‫لئے حکومت کی کوششوں میں شریک ہوسکیں۔‬
‫)‪ (۸‬محنت کشوں کے قوانین کی اصلحات کے ذریعے کارکنوں کے حقوق کککا تحفککظ‬
‫کیا گیا ہے۔یہ تحفظ انہیں روزگار کی حفاظت‪ ،‬کارکنوں کی انتظککامیہ میککں شککرکت و‬
‫حصہ داری‪ ،‬سالنہ بونس اور حادثے کی صورت میں معاوضے کے ذریعکہ مہیککا کیککا گیککا‬
‫ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان میں مسلسل تعمیری کاوشیں کیوں ضروری‬
‫ہیں؟‬
‫تعمیری کاوشوں کی ضرورت‬
‫مسلسل تعمیری کاوشوں اور کوششوں کے معنی ایسے مثبککت اور تعمیککری اقککدام‬
‫ہیں۔جن کا تسلسل ملک کو خود انحصاری کککی منککزل تککک پہنچککا سکککتا ہہہے اور غیککر‬
‫ملکی تسلط سے نجات دلسکتا ہے۔ایسی قوم جو ترقی کرنے کا عزم رک ھتی ہو وہ‬
‫اپنے وسائل کو بروئے کار لکر خود کفالت کی راہ میں پیہم آگے بڑھ سکتی ہے لیکککن‬
‫کسی ملک کو راتوں رات فلحی ریاسککت نہیککں بنایککا جاسکککتا۔ی کہ ایککک مسلسککل اور‬
‫مستقل عمل ہے۔جس کے مندرجہ ذیل پہلو اہم ہیں۔‬
‫) ک( قومی مقاصد کا شعور و آگہی‬
‫صرف وہی اقوام ترقی کرتی ہیں جو اپنے قومی مقاصککد کککا شککعور و آگ ہی رک ھتی‬
‫ہیں۔یہ مقاصد پہلکے ہہہی سکے متعیککن ہہہوتے ہیککں اور تیککز رفتککار ترقککی ککے لئے قککومی‬
‫ترجیحات کے تعین میں مدد کرتے ہیںجن کی بنیاد پر منصوبے بناتے ہوئے وسککائل کککی‬
‫منصفانہ تقسیم کا خیال رکھا جاسکتا ہے۔یہ منصوبے آہستہ آہسککتہ روبکہ عمکل آتکے ہیککں‬
‫اور ان کے جائزوں کی روشنی میں ہی ان پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔یہ عمل ہمیشککہ‬
‫ت ارادی‬ ‫جاری رہتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے جہدِ مسلسکل اور مضکبوط قکو ِ‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫) ک( محنت کی عظمت‬
‫محنت کی عظمت کا مطلب یہ ہے کہ لککوگ محنککت کککی قککدروقیمت سکے آگککاہ ہوں۔‬
‫نوجوان نسل کو یہ سکھایا اور پڑھایا جککائے ک کہ خککود کککو وقککف کئے بغیککر اور سککخت‬
‫محنت کے بغیر ترقی و خوشحالی کا تصور صککرف ایککک خککواب ہے۔قککائدِ اعظککم نکے‬
‫نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ محنت میں عظمت محسوس کریں اور اسکککو اپنککی‬
‫زندگی کا مقصد بنالیں۔‬
‫) ک( تعلیم کی کیفیت‬
‫صرف عمومی تعلیم ککے ذریعکے قککومی ترقککی و فککروغ ممکککن نہیککں۔ سائنسککی اور‬
‫ٹیکنیکل علوم میں پیش رفت بھی ضروری ہے ۔ ان کے ذریعے ہی قومی وسککائل کککو‬
‫مناسب طور سے بروئے کار لیا جاسکتا ہے۔‬
‫) ک( رہنمائی اور حوصلہ افضائی‬
‫‪1947‬ءیعنی پاکستان کی آزادی کے وقت سے اب تککک ہمککاری معیشککت نکے مختلککف‬
‫شعبوں میں کافی نشوونما پائی ہے۔صنعت و زراعت کو فروغ حاصککل ہوا ہے۔ کئی‬
‫بڑے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ چند اب بھی زیرِ تکمیل ہیں۔وقت کی ضککرورت‬
‫یہ ہے کہ ہم ترقی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور پاکستان کو جلد از جلد ایککک‬
‫فلحی مملکت بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔‬
‫) ک( فلاح و بہبود کے پروگرام‬
‫ملک بھر میں ضرورت مند‪ ،‬معذور اور مستحق افراد کے لئے چنککد فلحککی پروگککرام‬
‫شروع کیے گئے ہیں جو مسلسل ترقی کے لئے جاری کاوشوں کا حصہ ہیں۔ پروگککرام‬
‫مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬خواتین کے لئے انڈسٹریل ہوم کا قیام‬
‫)‪ (۲‬مراکزِ صحت کا قیام‬
‫)‪ (۳‬جسمانی طور پر معذور افراد کے لئے تربیتی مراکز کا قیام‬
‫)‪ (۴‬عوام کے لئے تفریحی مقامات‬
‫)‪ (۵‬انسدادِ گداگری کے مراکز کا قیام‬
‫)‪ (۶‬ایدھی فلحی ٹرسٹ‬
‫سوال‪ :‬فلحی ریاست یا فلحی مملکت ک ے فرائض؟‬
‫فلحی مملکت کے کچھ فرائض ایسے ہوتے ہیں جن پر عملدرامککد کرک کے کککوئی ب ھی‬
‫مملکت خود کو صحیح طور پر فلحی مملکت یا فلحی ریاست قرار دے سکتی ہے۔‬
‫فلحی مملکت یا فلحی ریاست کے اہم فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬سب کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی‬
‫)‪ (۲‬امن و امان کا قیام‬
‫)‪ (۳‬نظام عدل کا قیام‬
‫)‪ (۴‬بین القوامی عدالت‬
‫)‪ (۵‬معاشی منصوبہ بندی‬
‫)‪ (۶‬تعلیم اور صحت‬
‫)‪ (۷‬عالمی امن و سلمتی‬
‫)‪ (۸‬ذرائع آمدو رفت‬
‫) ک( سب کے لئے یکساں مواقع کی فراہمی‬
‫فلحی مملکت اپنی حدود میں آباد تمام لوگوں کو ترقککی اور ضککرورت کککی تکمیککل‬
‫لتعلیم کا حصول ہر شہری کککا حککق ہوتککا ہے‬‫کے لئے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے مث ً‬
‫اس لئے تعلیم کے حصول کے مواقع فراہم کرنا فلحی مملکککت کککا فککرض ہے۔اسککی‬
‫طرح عوام کی جان و مککال کککا تحفککظ اورسککب ککے لئے روزگککار کککی فراہمککی ب ھی‬
‫فلحی مملکت کے فرائض میں شامل ہے۔‬
‫) ک( امن و امان کا قیام‬
‫فلحی مملکت کا اّولین فرض امن و امان کا قیکام ہے تکاکہ افکراد ککی جکان و مکال‬
‫محفوظ رہسکے۔اس بنیادی فرض میں ملک کو بیرونککی حمل کے س کے محفککوظ رکھنککا‬
‫یعنی دفاع کے لئے فوج تیککار کرنککا اور بیککن القککوامی طککور پککر ممالککک سکے دفککاعی‬
‫تعلقات قائم کرنا بھی شامل ہے۔اندرونی طور پر امن قائم کرنا انتہائی ضروری ہوتا‬
‫ہے تاکہ ہر شہری کو اس کا جائز حق مل سکے۔‬
‫) ک( نظام عدل کا قیام‬
‫ایک ایسے نظام کا قیام فلحی مملکت کے اہم فرائض میں شامل ہوتا ہے جس میں‬
‫تمام افراد اپنی صلحیتوں کو ُاجاگر کرسکیں۔ ریاست کا فرض ہوتا ہے ک کہ وہ سککب‬
‫شہریوں کو ترقی کے یکساں مواقکع فرا ہم ککرے۔قکانون ککی بالدسکتی ککو برقکرار‬
‫رکھنے کے لئے غیر جانبدار عدلیہ کا قیام انتہائی ضروری ہے تاکہ ہر شہری کککو اس کککا‬
‫جائز حق مل سکے۔‬
‫) ک( بین الاقوامی تعلقات‬
‫جدید دور میں کوئی ملک بھی دوسرے ملک سے تعاون کئے بغیر قائم نہیں رہ سکککتا۔‬
‫ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے جو اس کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہہہے اور‬
‫عالمی امن کے لئے کوششوں کا ذریعہ بنتی ہے۔دنیا میں امن قائم کرن کے ک کے لئے ہر‬
‫ملک کا عالمی قوانین پر عملدرامد کرنا ضروری ہوتکا ہے اوردنیکا ککے تمکام ممالکک‬
‫اسی مقصد کے لئے اقوام متحدہ کی امن کوششوں کا ساتھ دیتے ہیں۔‬
‫) ک( معاشی منصوبہ بندی‬
‫ایک فلحی مملکت معاشی سرگرمیوں کو اس طرح کنٹرول کرتککی ہے جککس س کے‬
‫تمام طبقات کے مفادات اور حقوق کا تحفظ ہوسکے۔ان مقاصککد ککے حصککول کےلئے‬
‫ریاست کو ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے ہوتے ہے جککن‬
‫سے شہریوں کا معیار زنکدگی بلنکد ہو سککے اور معاشکرہ ہر لحکاظ سکے خوشکحال‬
‫ہوجائے۔‬
‫) ک( تعلیم اورصحت‬
‫فلحی مملکت اپنے شہریوں کو بھرپور تعلیمی سہولیات مہیککاکرتی ہے تککاکہ ہر فککرد‬
‫اپنی صلحیت کے مطابق جدید علوم اور فنون حاصل کرسکے۔اسی طککرح ش کہریوں‬
‫کی صحت کا خیال رکھنا بھی فلحی مملکت کی فرائض میں شککامل ہے۔بیمککاریوں‬
‫کی روک تھام ‪،‬اسپتالوں اور طّبی تعلیمی اداروں کا قیام بھی فلحی مملکت کا اہم‬
‫فرائض میں شامل ہے۔‬
‫) ک( عالمی امن و سلامتی‬
‫صہ ادا کرنا بھی ہوتککا ہے‬‫فلحی مملکت کا کام دنیا بھر میں امن کے قیام میں اپنا ح ّ‬
‫تاکہ دنیا میں چیککن اور سککلمتی قککائم ہوسکککے اور دنیککا جنککگ کککی تبککاہ کککاریوں سکے‬
‫محفوظ ہوجائے۔‬
‫مختصر سو ‪I‬لت‬
‫سوال‪ :‬سید احمد ش ہید کی تحریک ک ے مقاصد تحریر کریں؟‬
‫)‪ (۱‬اللہ کی توحید کی تبلیغ کرنا۔‬
‫)‪ (۲‬اسلمی تعلیمات کی احیائ۔‬
‫)‪ (۳‬اسلمی اصولوں کے مطابق برصغیر میں ایک ریاست قائم کرنا۔‬
‫)‪ (۴‬مسلمانوں کو ایسے اعمال وا فعال اور خیالت سے بچانا جو اسلمی اقدار کککے‬
‫منافی ہوں۔‬
‫سوال‪ :‬علی گڑ ھ تحریک ک ے مقاصد بیان کریں؟‬
‫)‪ (۱‬مسلمانوں مےں عمومی بیداری اور شعور بیدار کرنا۔‬
‫)‪ُ (۲‬ان کے انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی پر مبنی تعلقات کا قیام۔‬
‫)‪ (۳‬انہیں جدید تعلیم کے لئے ترغیب و تحریک دینا۔‬
‫)‪ (۴‬اور انہےںمتنازع اور تشدد کی سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرنا۔‬
‫سوال‪ :‬مسلم لیگ ک ے قیام ک ے اغراض و مقاصد تحریر کریں؟‬
‫)‪ (۱‬برطانوی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان خیرسگالی کے جذبات اور دوسککتانہ‬
‫تعلقات قائم کرنا اور انگریزوں کے ذہن سے مسلمانوں کے خلف شکککوک و شککبہات‬
‫کا ازالہ کرنا۔‬
‫)‪ (۲‬مشترکہ فلح و بہبود کے لئے برصغیر کی دوسری اقککوام اور سیاسککی جمککاعتوں‬
‫سے تعلقات استوار کرنا۔‬
‫)‪ (۳‬حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے مسککلمانوں ک کے‬
‫حقوق کا تحفظ کرنا۔‬
‫سوال‪ :‬قائد اعظم ک ے چود ہ نکات میں س ے چار نکات لک ھیں؟‬
‫)‪ (۱‬آئندہ آئین وفاقی طرز کا ہو جس میں صوبوں ککو زیکادہ سکے زیکادہ خودمختکاری‬
‫دی جائے۔‬
‫)‪ (۲‬سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کردیا جائے۔‬
‫)‪ (۳‬مسلمانوں کو ہر قسم کا مذہبی و ثقافتی تحفظ دیا جائے۔‬
‫)‪ (۴‬تمام فرقوں کو یکساں اور مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو۔‬
‫سوال‪ :‬علم ہ اقبال ن ے خطب ہ آل ہ ٰ آباد میں کیا ک ہا؟‬
‫مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے مطالبہ کو علمہ اقبال نکے اپنکے خطبکہ میککں اس‬
‫طرح پیش کیا۔‬
‫”میری خوا ہش ہے ک ہ پنجاب‪ ،‬سسسرحد‪ ،‬سسسند ھ اور بلوچسسستان کسسو مل کسسر‬
‫ایک ریاست بنادی جائ ے۔ خوا ہ ہندوستان برطانوی سلطنت کسس ے انسسدر ر ہ‬
‫کر آزادی حاصل کر ے۔ مج ھے شسسمالی مغربسسی مسسسلم ریاسسست کسسا قیسسام‬
‫مسلمانوں یا کم از کم شمالی مغربی علقوں ک ے مسلمانوں کا مقسسدر‬
‫نظر آتا ہے۔“‬
‫سوال‪ :‬کرپس مشن کی تجاویز کیا ت ھی؟‬
‫کرپس نے ‪ 29‬مارچ ‪1942‬کو اپنی تجاویز کا اعلن کیاجو یہ تھیں۔‬
‫)‪ (۱‬دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان کے لئے ایککک دسککتور سککاز اسککمبلی‬
‫تشکیل دی جائے جو ملک کے لئے دستور تیار کرے ۔ لیکن جنگ کے دوران ہندوسککتان‬
‫پر برطانیہ کا قبضہ برقرار رہے گا۔‬
‫)‪ (۲‬مجوزہ دستور وفاقی طرز کا ہوگا جس میککں تمککام صککوبے اور ریاسککتیں شککریک‬
‫ہوں گی۔‬
‫)‪ (۳‬وفاقی دستور میں کسی بھی آئینی صوبے یا ریاست کو یہ حق دیا جائے گا ک کہ وہ‬
‫چاہے تودس سال کے بعدوفاق سے علیحدگی‬
‫مختصر سوال و جواب‬
‫سوال‪ :‬پاکستانی ثقافت پر تین جمل ے لک ھیں ۔‬
‫)‪ُ (۱‬اردو ہماری قومی زندگی کی مشترکہ قدر ہے چونکہ یہ پورے ملک میں بککولی اور‬
‫سمجھی جاتی ہے ۔اسلئے اس سے قومی ثقافت و یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے۔‬
‫ن تعمیر میں پاکستان کاثقافتی ورثہ بے حد شاندار ہے۔ مسلمان بادشاہوں کککی‬ ‫)‪ (۲‬ف ِ‬
‫ن تعمیراس کامنہ بولتا ثبوت ہے۔‬ ‫عمارات اور ان کا اعل ٰی ف ِ‬
‫)‪ (۳‬مشترکہ ثقافتی ورثے کا اظہار علقائی شاعری اور ادب کی ان قدروں سے ہوتا‬
‫ہے جو تمام علقوں کے ادب میں یکساں موجود ہیں‬
‫۔ سوال‪ُ :‬اردو کی تین خصوصیات بیان کیجئ ے ۔‬
‫)‪ُ (۱‬اردو زبان کے اندر دوسری زبان کے الفاظ جذب کرنے کی صلحیت موجکود ہے۔‬
‫اس سے مشترکہ ثقافتی قدروں کو فروغ ملتا ہے۔‬
‫)‪ُ (۲‬اردو زبان قومی یکجہتی اور اتحاد کا تصور ُابھارتی ہے۔‬
‫)‪ُ (۳‬اردو زبان پاکستان کے ہر حصکے میککں بککولی اور سککمجھی جککاتی ہے۔اس لئے یکہ‬
‫رابطہ کی زبان کہلتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬ثقافت ک ے کوئی چار عناصر تحریر کیجئ ے۔‬
‫)‪ (۱‬رسوم و رواج‬
‫)‪ (۲‬عقیدہ و مذہب‬
‫)‪ (۳‬رہن سہن اور لباس‬
‫)‪ (۴‬زبان‬
‫سوال‪ :‬پاکستان ک ے قومی لباس پر تین جمل ے لک ھیں�© ۔‬
‫)‪ (۱‬پاکستان کا قومی لباس نہایت سادہ اور باوقار ہے‬
‫کرتا‪ ،‬شیروانی اور ٹوپی یا پگڑی پہنتے ہیں۔عورتوں کا عام‬ ‫)‪ (۲‬مرد شلوار قمیض یا ُ‬
‫لباس شلوار‪ ،‬قمیض اور دوپٹہ ہے۔‬
‫)‪ (۳‬پاکستان کا قومی لباس بارعب اور باوقار ہونے ککے سکاتھ سکاتھ پہننکے والکے ککے‬
‫اعل ٰی ذوق کا مظہربھی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬پاکستان کسسی کونسسسی دسسستکاریاں زیسساد ہ مشس ہور ہیسسں؟ ان کسسی‬
‫ا ہمیت پر تین جمل ے بیان کریں ۔‬
‫صوبہ سندھ میں شیشے کا کام‪ ،‬سوسی اور چاندی کے زیورات‪ ،‬ملتان میں اونٹ کے‬
‫چمڑے سے بنی ہوئی مختلف اشیائ‪ ،‬نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن‪ ،‬بہاولپور میں‬
‫مٹی کی نازک صراحیاں اور دیگر ظککروف‪ ،‬چنیککوٹ میککں لکککڑی پککر کنککدہ کککاری وال‬
‫فرنیچر کا کام ہوتا ہے۔کراچی میں سیپیوں اور پتھروں سے قسم قسم کی آرائشککی‬
‫چیزیں بنتی ہیں‪،‬جبکہ بلوچستان اور سرحد کککی کشککیدہ کککاری مش کہور ہے۔ یکہ تمککام‬
‫اشیاءزرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬گ ھریلو صنعتوں ک ے تین فوائد بیان کیجئ ے۔‬
‫)‪ (۱‬گھریلو صنعتیں بے شمار لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔‬
‫)‪ (۲‬دیہات میں گھریلو صنعتوں کا قیام دیہات سے ش کہروں کککی طککرف منتقلککی ک کے‬
‫عمل کو روکنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‬
‫)‪ (۳‬گھریلو صنعتیں پاکستان کے لئے قیمتی زرِ مبادلہ کاایکذریعہ ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬فلحی مملکت سس ے کیسسا مسسراد ہے؟ تیسسن جملسسوں میسسں وضسساحت‬
‫کیجئ ے۔‬
‫)‪(۱‬۔ فلحی مملکت سے مککراد ایسککی ریاسککت ہے جککو ج ہالت‪ ،‬غربککت و افلس اور‬
‫ناانصافی کا خاتمہ کرے۔‬
‫)‪(۲‬۔ لوگوں کے لئے خوراک‪ ،‬لباس تعلیم اور رہائش کا معقول انتظام کرے ۔ اور‬
‫)‪(۳‬۔ تمام شہریوں کو ان کی فطری صلحیتں ُاجاگر کرنے کے یکساں مواقککع فرا ہم‬
‫کرے۔‬
‫سوال‪ :‬مغربی دنیا ک ے فلحی مملکت کس ے جدیدتصسسور کسسو چسسار جملسسوں‬
‫میں بیان کیجئ ے۔‬
‫مغربی دنیا میں فلحی مملکت کا جدید تصور یہ ہے کہ‪:‬‬
‫)‪(۱‬۔ وہ شہریوں کا معیار زندگی کو بلند کرکے انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیککا‬
‫کرتی ہے۔‬
‫)‪(۲‬۔ وہ ہر شہری کو تعلیم‪ ،‬روزگار اور صلحیتوں کو اجاگر کرنے کے یکسککاں مواقککع‬
‫فراہم کرتی ہے۔‬
‫)‪(۳‬۔ ان کے سیاسی و شہری حقوق کی حفاظت کے لئے قدم ُاٹھاتی ہے۔ اور‬
‫)‪(۴‬۔ جو لوگ اقتصادی یا دیگر وجوہات کی بناءپر زندگی کی دوڑمیں دوسروں س کے‬
‫پیچھے رہ گئے ہوں ان کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ دوسروں کے برابر آسکیں۔‬
‫سوال‪ :‬اسلم ک ے فلحی مملکت ک ے تصورپر چار جمل ے تحریر کیجئ ے۔‬
‫ف خککدا پککر مبنککی‪ ،‬خوشککحال اور‬ ‫)‪(۱‬۔اسلمی فلحی مملکت کککا بنیککادی مقصککد خککو ِ‬
‫استحصال سے پاک معاشرہ تعمیر کرنا ہے ۔‬
‫)‪(۲‬۔ اس کی ذمہ داریوں میں روزگار کی فراہمی‪ ،‬بے روزگاری کے ایککام میککں مککالی‬
‫امداد‪ ،‬معذوری اور ُبڑھاپے کی صورت میں وظائف کی ادائیگی شامل ہیں۔‬
‫)‪(۳‬۔ وہ پوری آبادی کو صحت ور تعلیم کی سہولتیں یکساں طو ر پرمہیککا کرن کے کککی‬
‫ذمہ دار ہے۔‬
‫)‪(۴‬۔ اسلمی ریاست کی ذمہ داریوں میں صحت مند معاشرتی مککاحول قککائم رکھنککا‬
‫عدل و انصاف کو فروغ دینا اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا شامل ہئے۔‬
‫سوال‪ :‬کوئی س ے چار قومی مقاصدتحریر کیجئ ے۔‬
‫)‪(۱‬۔ اسلمی تعلیمات اور اصولوں کی بنیادوں پر اسلمی معاشرہ کی تشکیل۔‬
‫)‪(۲‬۔ جہالت‪ ،‬غربت‪ ،‬افلس اور معاشی استحصال کے خلف جدوجہد۔‬
‫)‪(۳‬۔ اسلمی ممالک کے مابین اتحاد کو فروغ دینا اور انہیں ایک مرکز پر جمع کرنا۔‬
‫)‪(۴‬۔ غیر متعصب معاشرہ کی تشکیل ک کے لئے ب ھائی چککارے اخککوت اور رواداری کککو‬
‫فروغ دینا۔‬
‫سوال‪ :‬مسلسل تعمیری عمل ک ے چار عناصر تحریر کیجئ ے۔‬
‫)‪ (۱‬قومی مقاصد کا ادراک‬
‫)‪ (۲‬مسائل اور ضروریات کا احساس۔‬
‫)‪ (۳‬ضروری وسائل کا مہیا کرنا اورقابل عمل منصوبہ بندی۔‬
‫)‪ (۴‬کارکردگی کا جائزہ اور حکمت عملی میں ضروری تبدیلیاں‬
‫سوال‪ :‬تعلیم کی ا ہمیت پر چارجمل ے لک ھیئ ے۔‬
‫)‪(۱‬۔تعلیم اور تربیت قومی تعمیر کے عمل کا اہم اور لزمی حصہ ہے۔‬
‫)‪(۲‬۔ اگر کسی قوم کے نوجوان تعلیم یافتہ نہ ہوں تو اس قوم کی ترقککی کککی رفتککار‬
‫سست پڑجاتی ہے۔‬
‫)‪(۳‬۔ ہمارے ملک میں خوانککدگی کککی شککرح ‪ 26‬فیصککد ہے جککو ہمککاری اقتصککادی اور‬
‫معاشرتی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔‬
‫)‪(۴‬۔ تعلیم کی روشنی عام ہونے سے ہی فلحی مملکت کا قیام ممکن ہوگا۔‬
‫سوال‪ :‬عالمی ب ھائی چار ے کی ضرورت پر چار جمل ے لک ھیئ ے۔‬
‫)‪(۱‬۔ آج بنی نوع انسان جن گھمبیر مسککائل سکے دو چککار ہے انہیںحککل کرنکے ککے لئے‬
‫عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔‬
‫)‪(۲‬۔ ان میں خوراک کی کمی‪ ،‬توانائی کا بحران‪،‬منشیات کی اسککمگلنگ اور ایٹمککی‬
‫ہتھیاروں کے پھیلو�¿ سے پیدا شدہ خطرات وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫)‪(۳‬۔ اگر دنیامیں بھائی چارے‪ ،‬تعاون اور امن کی فضا موجود نہ ہو تو ان مسائل کککا‬
‫سلی بخش حل تلش نہیں کیا جاسکتا۔‬ ‫ت ّ‬
‫)‪(۴‬۔ ہر ملک علیحدہ علیحدہ ان مسائل پر قابو نہیں پاسکتا۔‬
‫سوال‪ :‬فسسرد اور فلحسی مملکست کس ے حقسسوق و فسرائض پسر چسار جملس ے‬
‫لک ھیئ ے۔‬
‫)‪(۱‬۔ فرد اور فلحی مملکت کے حقوق و فرائض شانہ بشانہ چلتے ہیں۔‬
‫)‪(۲‬۔ فلحی مملکت اپنے شہریوں کی ضروریات پوری کرتی ہے۔‬
‫)‪(۳‬۔ شہریوں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے فککرائض خلککوص اور دیککانت سکے‬
‫سرانجام دیں اور ملک و قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار رہیں۔‬
‫)‪(۴‬۔ فلحی مملکت اپنی عوام کو غربت‪ ،‬جہالت اور نا انصافی سکے محفکوظ کرنکے‬
‫کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کرتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬عالمی ب ھائی چار ے اور امن ک ے لئ ے پاکستان ک ے کسردار پسر چسار‬
‫جمل ے لک ھئ ے؟‬
‫)‪(۱‬۔ عالمی بھائی چارے اور امن کے فروغ کیلئے پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبککت ر ہا‬
‫ہے۔‬
‫)‪(۲‬۔ پاکستان کککی ہمیشکہ سکے یکہ خککواہش ر ہی ہے ککہ دنیککا ککے تمککام ممالککک سکے‬
‫خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔‬
‫)‪(۳‬۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔‬
‫)‪(۴‬۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی اور تشدد کی سیاست کی مخالفت کی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬مسلسل تعمیری کاوشوں کو پاکستان میسسں جسساری رک ھن س ے ک س ے‬
‫لئ ے کوئی چار اقدامات تحریر کیجئ ے۔‬
‫پاکسکتان میکں مسلسکل تعمیکری کاوشکوں ککو جکاری رکھنکے ککے لئے منکدرجہ ذیکل‬
‫اقدامات ضروری ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬قوم میں قومی مقاصد کا شعور اور آگہی پیدا کی جائے۔‬
‫)‪ (۲‬لوگوں کو محنت کی عظمت سے واقفیت دلئی جائے۔‬
‫)‪ (۳‬ملک میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو زیادہ فروغ دیا جائے۔‬
‫)‪ (۴‬ملک میں معاشی ترقی کے منصوبوں کو مکمل کرنے اور نئے منصککوبے بنککانے ککے رجحککان کککو‬
‫فروغ دیا جائے۔‬
‫خالی جگہ پر کریں‬
‫)‪ (۱‬نظریے پاکستان کی اسا س اسلمی فکروفلسفہ پر ہے۔‬
‫)‪ (۲‬اسلم سب سے زیادہ جمہوری نظام ہے۔‬
‫)‪ (۳‬چیزوں کو ان کے درست مقام پر ترتیب دینا عدل کہلتا ہے۔‬
‫)‪ (۴‬علمہ اقبال نے ا لہٰ آباد کے مقام پر ‪ 1930‬میں اپنے صدارتی خطبے میں نظریککے‬
‫پاکستان کے بارے میں بیان دیا۔‬
‫)‪ (۵‬قائداعظم نے فرمایا کہ ہندومت اور اسلم دومختلف معاشرتی نظام ہےں۔‬
‫)‪ (۶‬ایمان کی بنیاد اللہ کی توحید اور رسالت نبوی ہے‬
‫)‪ (۷‬اخوت کے معنی ہیں بھائی چارہ‬
‫)‪ (۸‬کردار‪ ،‬عادت واطوار کا مجموعہ ہے‬
‫)‪ (۹‬اسلمی نظریہ کے ذرائع قرآن مجید اور سنت نبوی ہے۔‬
‫)‪ (۱‬پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ڈیورنڈ لئن کہلتی ہے۔‬
‫)‪ (۲‬پاکستان کو چار آب و ہوائی خطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‬
‫)‪ (۳‬فضائی کّرہ میں پانی کی تبخیر تقریبا ً چار فیصد ہے۔‬
‫)‪ (۴‬پانی انسانی جسم کے وزن کا تقریبا ً دس فیصد ہے۔‬
‫)‪ (۵‬پاکسککتان کککے شککمالی علقککوں کککے عککوام موسککم سککرما میککں انککدرون خککانہ‬
‫سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔‬
‫)‪ (۶‬پاکستان کے جنوب مغرب میں ہمارا ہمسایہ ملک ایران ہے۔‬
‫)‪ (۷‬بلوچستان کا رقبہ ‪ 347190‬مّربع کلومیٹر ہے۔‬
‫)‪ (۸‬دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ہے۔‬
‫)‪ (۱‬وہ لوگ جو مختلف کاموں میں ہوتے ہیں انسانی وسائل کہلتے ہیں۔‬
‫)‪ (۲‬پہاڑی جنگلت شمالی پہاڑی علقوں میں پائے جاتے ہیں۔‬
‫)‪ (۳‬پاکستان میں قدرتی گیس جس مقام پر پہلی مرتب کہ پککائی گئی وہ علق کہ سککوئی‬
‫کہلتا ہے۔‬
‫)‪ (۴‬زندگی میں اعتدال پسندی کے معنی وسائل کے اندر رہنا ہے۔‬
‫)‪ (۱‬معاشی ترقی کے لئے صنعت میں استحکام ضروری ہے۔‬
‫)‪ (۲‬چینی کی پیداوار میں پاکستان خود کفیل ہے۔‬
‫)‪ (۳‬مزدور انجمنوں )ٹریڈ یونین( کا منفی رویہ ہماری صنعت کے لئے ایک ا ہم مسککئلہ‬
‫ہے۔‬
‫)‪ (۴‬پاکستان میں آمدورفت کے تین ذرائع سڑکیں‪ ،‬ریلوے اور فضائی راستہ ہے۔‬
‫)‪ (۵‬کپاس اور چاول پاکستان کی اہم برآمدات ہیں۔‬
‫)‪ (۱‬پاکستان کی قومی زبان ُاردو ہے۔‬
‫)‪ (۲‬پاکستان کی ثقافت ایک مشترک ہ ثقافت ہے۔‬
‫)‪ (۳‬پاکستان کا قومی لباس شلوار اور قمیض ہے۔‬
‫)‪ (۴‬پاکستان میں چار زبانیں بولی جاتی ہیں۔‬
‫)‪ (۵‬بلوچستان میں دو زبانیں پشتو اور برا ہوی بولی جاتی ہے۔‬
‫)‪ (۶‬بلوچی زبان کے دو عظیم شعراءگل خان نصیر اور آزاد جمال الدین ہیں۔‬
‫)‪ (۷‬شاہ حسین ایک عظیم پنجابی شاعر تھے۔‬
‫)‪ (۸‬آزادی کے بعد سندھی زبان نے نثر اور نظم میں بے پناہ ترقی کی۔‬
‫)‪ (۹‬پاکستان کے اکثر لوگ ساد ہ غذا کھاتے ہیں۔‬
‫)‪ُ (۰۱‬اخوت اور محبت کا ایک ہی پیغام جو ہمارے صوفیوں نے مختلککف زبککانوں میککں‬
‫دیا ہے۔‬
‫)‪ (۱۱‬عید الفطر شوال کے مہینے میں منائی جاتی ہے۔‬
‫حضرت عیس ٰی کا یوم ِ ولدت مناتے ہیں۔‬
‫)‪ (۲۱‬عیسائی ‪ 25‬دسمبر کو‬
‫پاكستان كی خارج ہ پالیسی ك ے مقاصد‬

‫پاكستان ‪14‬اگست ‪1947‬ء كو دنیا كے نقشہ پر ابھرا اور برطانوی ہندوستان سے خارجہ پالیسی‬
‫كو ورثہ میں پایا لیكن آزادی كے بعد نظریہ پاكستان اور تحریك پاكستان كے مقاصد كو پیش نظر‬
‫ركھتے ہوئے خارجہ پالیسی كی تشكیل نو كی گئی۔ پاكستان كی خارجہ پالیسی كے اہم مقاصد‬
‫مندرجہ ذی ہیں۔‬

‫قومی سلمتی‬
‫پاكستان كی خارجہ پالیسی كا سب سے اہم مقصد قومی سلمتی و تحفظ ہے۔ پاكستان دنیا كے‬
‫نقبہ پر نیا نیا ابھرا تھا اور ضرورت تھی كہ اس كی سلمتی و تحفظ كا مناسب بندوبست كیا‬
‫جائے۔ لہٰذا پاكستان نے ملكی سلمتی كو خارجہ پالیسی كی بنیاد بنایا اور بیرون ممالك كے ساتھ‬
‫تعلقات میں قومی سلمتی كو ہمیشہ اہمیت دی۔ آج بھی پاكستان كی خارجہ پالیسی میں قومی‬
‫سلمتی بنیادی نصب العین ہے۔ پاكستان دوسرے ممالك كی علقائی سالمیت كا احترام كرتاہے۔‬
‫اور دوسرے ممالك سے بھی یہ توقع ركھتاہے۔ كہ وہ بھی پاكستان كی قومی سلمتی كا احترا م‬
‫كریں۔‬

‫معاشی ترقی‬
‫پاكستان ایك ترقی پذیر ملك ہے اور معاشی طور پر اپنی ترقی چاہتا ہے۔ لہٰذ ا پاكستان ان تمام‬
‫ممالك كے ساتھ اچھے تعلقات قائم كرنا چاہتا ہے جن كے ساتھ تجارت كر كے یا جن ممالك سے‬
‫معاشی مدد حاصل كر كے معاشی طورپر ترقی كر سكے۔ نئے اقتصادی رجحانات كو مدنظر‬
‫ركھتے ہوئے پاكستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں كی ہیں۔ خصوصا ً آزاد تجارت ‪ ٬‬آزاد‬
‫اقتصادیات اور نجكاری كو اپنایا ہے۔‬

‫نظریاتی تحفظ‬
‫پاكستان ایك نظریاتی مملكت ہے اور اس كی بنیاد نظریہ پاكستان یا نظریہ اسلم پر ہے۔ پاكستان‬
‫كی خارجہ پالیسی كا اہم مقصد پاكستان كی نظریاتی سرحدوں كا تحفظ ہے۔ پاكستان كا‬
‫استحكام بھی نظریہ پاكستان كے تحفظ میںمضمرہے۔ یہ اپنے نظریہ كا تحفظ اسلمی ممالك كے‬
‫ساتھ بہتر تعلقات قائم كر كے ہی كر سكتاہے۔ لہٰذا پاكستان نے ہمیشہ اسلمی ممالك كے ساتھ بہتر‬
‫تعلقات استوار كیے ہیں۔ اس كے تینوں دساتیر میں اسلمی ملكوں كے ساتھ قریبی تعلقات پر زور‬
‫دیا گیا ہے۔ پاكستان نے اسلمی كانفرنس كی تنظیم اور اقتصادی تعاون كی تنظیم كے قیام میں‬
‫اہم كردار ادا كیا ہے۔‬

‫پاكستان كی خارج ہ پالیسی كی تشكیل ك ے ذرائع‬


‫پاكستان كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے مندرجہ ذیل ذرائع ہیں‪:‬‬

‫انتظامی تكون‬
‫انتظامی تكون سے مراد قومی سطح كے تین اہم انتظامی عہدے ہیں‪ ٬‬صدر پاكستان‪ ٬‬وزیر اعظم‬
‫پاكستان اور فوج كا سربراہ ہیں۔ پاكستان كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے ضمن میں انتظامی‬
‫تكون اہم كردار ادا كرتی ہے۔ یہ تكون پاكستان كی خارجہ پالیسی كو منظور یا نامنظور كر سكتی‬
‫ہے۔ موجودہ پالیسی میںتبدیلی ل سكتی ہے یا پالیسی كو بالكل مختلف سمت میں چل سكتی ہے‬
‫لیكن سابقہ پالیسی سے ہٹنا بہت مشكل ہوتاہے انتظامی تكون عام طور پر سابقہ خارجہ پالسی كو‬
‫مدنظر ضرور ركھتی ہے یا نئی پالیسی تشكیل دیتے ہوئے بیرون مالك سے كیے وعدوں سے‬
‫منحرف نہیں ہو سكتی۔‬

‫وزارت خارج ہ‬
‫پاكستان كی وزارت خارجہ خارجہ پالیسی تشكیل دیتے ہوئے بہت اہم كردار ادا كرتی ہے۔ وزارت‬
‫ں یہ خارجہ‬‫خارجہ میں عام طورپر خارجہ پالیسی كے ماہرین اور اعل ٰی پایہ كے بیوروكریت ہوتے ہی َ‬
‫پالیسی كے بنیادی مقاصد اور اصولوں كو مدنظر ركھتے ہوئے خارجہ پالیسی تیار كرتے ہیں۔ یہ‬
‫خارجہ پالیسی كی ترجیحات كو سامنے ركھتے ہوئے پالیسی كے منصوبے و پروگرام بناتے ہیں اور‬
‫خارجہ پالیسی كی تشكیل كے ضمن میں انتظامی تكون كی رہنمائی كرتے ہیں ۔ نئی آئینہ تبدیلیوں‬
‫كے مطابق نیشنل سیكیورٹی كونسل میں انتظامی تكون كا نعم البدل بنتی جا رہی ہے۔‬

‫خفی ہ ادار ے‬
‫پاكستان كے خفیہ ادارے پاكستا ن كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے سلسلے میں اہم كردار ادا‬
‫كرتے ہیں۔ یہ ادارے دوسرے ممالك كی خارجہ پالیسیوں كے مقاصد كے متعلق مكمل اطلعات‬
‫فراہم كرتے ہیں جن كو مدنظر ركھتے ہوئے پاكستان اپنی خارجہ پالیسی تشكیل دیتا ہے۔‬

‫سیاسی جماعتیں و پریشر گروپ‬


‫پاكستان كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے ضمن میں پاكستانی كی سیاسی جماعتیں و پریشر‬
‫گروپ بھی اہم كردار ادا كرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں خارجہ پالیسی كو خاص‬
‫جگہ دیتی ہیں اور اگر وہ انتخاب جیت جائیں تو اپنے نقطہ نظر كو خارجہ پالیسی میں پیش نظر‬
‫ركھتی ہیں۔‬

‫اسی طرح پریشر گروپ بھی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے عمل كو متاثر كرتے ہیں اور حكومت‬
‫كو خارجہ پالیسی كی ترجیحات كو وقت كے تقاضوں كے مطابق بدلنے پر مجبور كر دیتے ہیں۔‬

‫پارلیمنٹ‬
‫وزار ت خارجہ انتظامیہ كی ہدایت كے مطابق خارجہ پالیسی تشكیل دیتی ہے۔ اور بض اوقات‬
‫قومی اسمبلی اور سینٹ كے سامنے منظوری كے لیے پیش كرتی ہے۔ بحث و تمحیص كے بعد‬
‫پارلیمنٹ عام طور پر طے شدہ خارجہ پالیسی كی منظوری دے دیتی ہے یا اس میں مناسب‬
‫تبدیلیوں كی سفارش كرتی ہے۔‬

‫اسلمی جم ہوری ہ پاكستان كی خارج ہ پالیسی‬


‫خارج ہہ پالیسی كی تعریف‬
‫خارجہ پالیسی بیرونی ممالك سے تعلقات قائ كرنے ان كو فروغ دینے اور قومی مفاد كے حصول‬
‫كے لیے بین القوامی سطح پر مناسب اقدامات اٹھانے كا نام ہے ۔‬

‫پاكستان كی خارج ہ پالیسی ك ے بنیادی اصول‬


‫پاكستان كی خارجہ پالیسی كی بنیاد بنیادی اصولوںپر ركھی گئی ہے ۔‬

‫‪١‬۔ پر امن بقائ ے با ہمی‬


‫پاكستان پر امن بقائے باہمی پر یقین ركھتاہے اور دوسروں كی آزادی خود مختاری اور اقتدار‬
‫اعل ٰی كا احترام كرتا ہے نیز دوسرے ممالك سے بھی یہی توقع ركھتا ہے۔ پاكستان نے ہمیشہ‬
‫دوسروں كے اندرونی معاملت میں عدم دلچسی كا اظہار كیا ہے۔ استعماریت اور جارحیت كا ہر‬
‫شكل میں مخالف رہا ہے ۔‬

‫‪٢‬۔ غیر جانبداریت‬


‫پاكستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی كرتے ہوئے غیر جانبداریت كی پالیسی اپنائی‬
‫ہے۔ جس سے مراد یہ ہے كہ كسی بھی ہلك كرنے كے ساتھ خود كو وابستہ نہ كیا جائے اور تمام‬
‫ممالك كے ساتھ بہتر تعلقات مستحكم كیے جائیں۔ اس لیے پاكستان اب روس امریكہ‪ ٬‬چین ‪٬‬‬
‫برطانیہ‪ ٬‬فرانس و دیگر ممالك كے ساتھ بہتر تعلقات قائم كر رہا ہے ۔ پاكستان اب غیر ممال كی‬
‫تنظیم )‪(NAM‬كا باقاعدہ ركن بھی بن چكا ہے ۔‬
‫‪٣‬۔ دو طرف ہ تعلقات‬
‫پاكستان دو طرفہ تعلقات كی بنیا د پر تمام ممالك كے ساتھ روابط بڑھانا چاہتاہے۔ اور اپنے ہمسایہ‬
‫ممالك كے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات كی بنیاد پر اپنے جھگڑے پر امن طریقے سے طے كرنا چاہتا‬
‫ہے۔ اسی لیے پاكستان نے ہندوستان كو كشمیر كے مسئلہ كے حل كے لیے كئی دفعہ مذاكرات كی‬
‫پیش كش كی ہے ۔‬

‫‪٤‬۔ اقوام متحد ہ ك ے چارٹر پر عمل‬


‫پاكستان اقوام متحدہ كے چارٹر پر مكمل اتفاق ركھتا ہے۔ اور اس پر عمل كرنے كا سختی سے‬
‫پابند ہے ۔ اس لیے اس نے ہمیشہ اقوام متحدہ كے تمام اقدامات كی مكمل حمایت كی ہے ۔ اور اس‬
‫كے فیصلوں پر عمل درآمد كرنے ك لیے فوجی معاونت بھی كی ہے ۔‬

‫‪٥‬۔ حق خود ارادیت كی حمایت‬


‫پاكستان محكوم اقوام كے حق خود ارادیت كی حمایت كرتا ہے۔ اس كا موقف ہے كہ ہر قسم كو‬
‫اپنے سیاسی مستقبل كا فیصلہ كرنے كا حق ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے كہ پاكستان نے نو آبادیات كے‬
‫خاتمہ كے مطالبے نیز ایشیا افریقہ اور یورپ میں حق خود ارااادیت كی تمام تحریكوں كی بھرپور‬
‫حمایت كی ہے۔ پاكستان نے كشمیر‪ ٬‬فلسطین‪ ٬‬بوسنیا‪ ٬‬نمیبیا اور ویت نام كی جدوجہد آزادی میں‬
‫اہم كردار اد ا كیا ہے ۔ اور افغانستان میں سابقہ سویت یونین كی فوجی مداخلت كی سخت‬
‫مخالفت كی ہے ۔‬

‫‪٦‬۔ عالم اسلم كا اتحاد‬


‫پاكستان عالم اسلم كے اتحاد كا حامی ہے اور اسلمی ممالك كے ساتھ بہتر تعلقات قائم ركھنے‬
‫كی پالیسی پر گامزن ہے۔ اسلمی دنیا میں اختلف كی صورت میں پاكستان ہمیشہ پیش پیش رہا‬
‫مشرق وسط ٰی كا مسئلہ ہو یا افغانستان كی‬ ‫ہے۔ ایران عراق جنگ ہو‪ ٬‬كویت عراق تنازعہ ہو‪٬‬‬
‫آزادی كا مسئلہ ہو پاكستان نے ہمیشہ موثر كردار ادا كیا ہے۔ یہ اسلمی ممالك كی تنظیم ‪OIC‬كا‬
‫سرگرم ركن ہے۔ پاكستان نے اقتصادی تعاون كی تنظیم ‪ECO‬كو قائم كر كے وسطی ایشیا كے‬
‫مسلم ممالك كو ایك پلیٹ فارم پر اكٹھے ہونے كا موقع دیا ہے تاكہ اپنی اقتصادی ترقی كے ساتھ‬
‫ساتھ باہمی تعاون و اتحاد بھی قائم كر سكیں ۔‬

‫‪٧‬۔ تخفیف اسلح ہ كی حمایت‬


‫پاكستان تخفیف اسلحہ كا حامی ہے اور اس نے ان تمام بین القوامی كوششوں كی حمایت كی‬
‫ں پاكستان از خود اسلحہ كی دوڑ میں شامل نہیں ہوا۔وہ‬‫ہے جو تخفیف اسلحہ كے لیے كی گئی ہی َ‬
‫ایٹمی توانائی كو پر امن مقاصد كے لیے استعمال كرنے كے حق میں ہے اور دنیا میں ایٹمی جنگ‬
‫كے خطرات كے اسباب كے لیے ہر وقت تیار ہے۔ پاكستان جنوبی ایشیا كو ایٹمی ہتھیاروں سے پاك‬
‫ركھنے كا خواہش مند ہے اور یہ تجویز ہندوستان كو كئی دفعہ پیش كی جا چكی ہے ۔‬

‫‪٨‬۔ نسلی امتیاز كا خاتم ہ‬


‫پاكستان نسلی امتیاز كا خاتمہ چاہتا ہے۔ ماضی میں بھی پاكستان نے جنوبی افریقہ‪ ٬‬نمیبیا‪ ٬‬اور‬
‫روڈیشیا میںسیاہ فام لوگوں كے ساتھ نسلی امتیاز پر آواز اٹھائی اور نسلی متیاز كے خاتمہ كے لیے‬
‫ان كی حمایت كی۔ پاكستان كے اندر بھی نسلی امتیاز كا مكمل خاتمہ كیا گیا ہے ارو تمام اقلیتوں‬
‫كو برابر كے حقوق دیے گئے ہیں ۔‬

‫‪٩‬۔ امن و آشتی كا فروغ‬


‫پاكستان دنیا میں امن و آشتی كا فروغ چاہتا ہے۔ پاكستان نے ہمیشہ سامراجی طاقتوں كے خلف‬
‫آواز اٹھائی ہے۔ مظلوم و مغلوب اقوام كی حمایت كی ہے اور سامراجی قوتوں كے خلف‬
‫برسرپیكار رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن وا ٓشتی كے لیے پاكستان نے بار بار بھارت كو مذاكرات‬
‫كی دعوت دی ہے ۔‬

‫‪10‬۔ ہمسای ہ ممالك س ے تعلقات‬


‫پاكستان نے اپنے تما م ہمسایہ مملك بشمول ہندوستان كے ساتھ دوستانہ تعلقات ركھنے كا حامی‬
‫ہے۔ پاكستان ہمسایہ ممالك سے تمام تنازعات حل كرنے كا بھی حامی ہے۔ اس لیے پاكستان‬
‫ہندوستان كے ساتھ تمام تنازعات بشمول كشمیر مذاكرات كے ذریعے پر امن طریقے سے حل كرنا‬
‫چاہتا ہے اور ہندوستان كو بار بار مذاكرات كی دعوت دے چكا ہے۔ اورامید ہے كہ مستقبل میں‬
‫ہمسایہ ممالك سے ہمارے تعلقات مزید بہتر ہوجائیں گے ۔‬

‫‪١١‬۔ بین القوامی اورعلقائی تعاون‬


‫پاكستان تمام بین القوامی اور علقائی تنظیموں كا سرگرم ركن ہے ۔ ان اداروں میں اقوام‬
‫متحدہ غیر وابستہ ممالك كی تنظیم‪ ٬‬اسلمی كانفرنس كی تنظیم‪ ٬‬اقتصادی تعاون كی تنظیم اور‬
‫سارك اہم ہیں۔ پاكستان بین القوامی و علقائی تعاون كے لیے ان اداروں كی ہمیشہ حمایت كرتا‬
‫رہا ہے ۔ اور عالمی امن كے لیے ان اداروں كی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا ہے ۔‬
‫قدیم واد ی سند ھ كی خصوصیات‬

‫‪١‬۔ تعمیرات‬
‫وادی سندھ كی قدیم تہذیب شہری تھی۔ موہنجوداڑو اورہڑپہ ہم عصر شہر تھے اور دونوں میں بہت‬
‫ں دونوں رقبے كے لحاظ سے بڑے اور كافی گنجان آباد ت ھے ۔ فن‬ ‫سی ملتی جلتی خصوصیات تھی َ‬
‫تعمیر قابل تعریف تھا شہروں كو باقاعدہ بازاروں گلیوں اور محلوں كی صورت میں بسایا گیا تھا ۔‬
‫گھروںمیں پانی كی نكاسی كاعمدہ بندوبست تھا ۔ پكی نالیاں تھیں جو اوپر سے ڈھكی ہوئی تھیں ۔‬
‫گھر كشادہ اورہوا دار ت ھے ۔ پختہ اور كچی دونوں اقسام كی اینٹیں استعمال كی گئی تھیں ۔ سڑكیں‬
‫اور گلیاں چوڑی اور سیدھی تھیں۔ گھروں كیاندر غسل خانے تھے اور محلے میں حمام بنائے گئے‬
‫تھے۔ عمارتوں كے فر ش پختہ اینٹوں كے بنے ہوئے تھے۔ تعمیرات كا عمدہ اور پختہ ذوق ہر جگہ‬
‫جھلكتا نظر آتا تھا۔ ہڑپہ یا موہنجوداڑو جائیں تو آثار قدیمہ دكھ كر عقل حیران رہ جاتی ہے كہ‬
‫كھدائی كے بعد گلیاں اور بازارمكانات اور دیگر عمارتیں باہر نكل آئی ہیںجوپانچ ہزار سال پہلے كے‬
‫باسیوں كے ذوق اور شعور كا پتہ دیتی ہیں۔ كنوئیں بھی دریافت ہوئے جن سے پانی كی بہم رسائ‬
‫كے انتظام كا پتہ چلتا ہے۔ گھروں كے نیچے تہہ خانے بھی بنائے جاتے تھے تاكہ موسم كی شدت سے‬
‫بچا جس سكے۔ تہہ خانوں میں روشنی اور ہوا كے گزر كا اہتمام بھی موجود تھا۔ یقینا قدیم تہذیب‬
‫كے فن تعمیر كے حوالیسے بہت ترقی یافتہ تھی ۔‬

‫‪٢‬۔ لباس و زیورات‬


‫كپاس بونے اور كپڑاتیار كرنے كے شواہد بھی ملے ہیں۔ قدیم تہذیب سے وابستہ لوگ روئی اور‬
‫كپڑے كے استعمال سے پوری طرح آشنا تھے۔۔ بعض بت اور مجسمے جو كھدائ كے بعد دریافت‬
‫ں‬
‫ہوئے ہیں لباس زیب تن كیے ہوئے ہیں۔ شال اوڑھے اور سل ہوا لباس پہننے كے ثبوت بھی ملے ہی َ‬
‫ایسے اوزار بھی ملے ہیں جن س روئی كاتی جاتی تھی۔ لباس پركڑھائی ارو بیل بوٹے كاكام كرنے‬
‫كا بھی رواج ہے۔ سلئی اور كڑھائی كے فن سے اس دور كے لوگوں كے فیشن اور شوق كا پتہ‬
‫چلتا ہے ۔ خواتین لہنگا اورچادر استعمال كرتی تھیں ۔‬

‫خواتین میں زیورات كا استعمال عام تھا۔ كھدائی كے بعد كئی قسموں كے زیورات ملے ہیں مثل ً‬
‫ہار ‪ ٬‬بالیاں‪ ٬‬انگوٹھیاں اورچوڑیاں وغیرہ۔ جواہرات كا استعمال بھی كیا جاتاتھا جو غالبا ً وسط‬
‫ایشئا سے منگوائے جاتے ت ھے ۔ ہاتھی كے دانت سے زیورات بنانے كا رواج بھی تھا ۔‬

‫‪٣‬۔ ك ھلون ے‬
‫بچوں كے لیے كھلونے تیار كیے جاتے تھے جو عموما ً مٹی كے بنے ہوتے ت ھے ۔ جانوروں اور انسانوں‬
‫كے مجسمے اور روز مرہ استعمال كی چیزوں كے نمونے بھی تیار كیے جاتے ت ھے ۔ مٹی كی بنی‬
‫ہوئی گڑیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ گھوڑے اور رتھ كی طرح كے كھلونے بھی كھدائی كے بعدملے‬
‫ہیں۔ رتھ سے ثابت ہواكہ قدیم لوگ پہیے كے استعمال سے آشنا تھے۔ كھلونوں كی موجودگی سے‬
‫معاشرت زندگی میں خاندان اور بچوں كی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔‬

‫‪٤‬۔ روزمر ہ كی گ ھریلو اشیا‬


‫قدیم باشندے كانسی تانبے اور ہاتھی دانت كے استعمال سے واقف تھے۔ البتہ لوہے كے بارے میں ان‬
‫كے علم كی تصدیق نہیں ہو سكی۔ گھر می استعمال ہونے والے برتن تانبے اور كانسی كے بھی‬
‫بنائے جاتے تھے۔ زیادہ تر برتن مٹی كے بنے ہوتے تھے۔ مٹی كے پیالے گھڑے۔ تھالیاں مٹكے اور دیگر‬
‫ظروف بڑی تعداد میں كھدائی كے بعد نكالے گئے۔ ہاتھی دانت اورجانوروں كی ہڈیوں سے بنی‬
‫ہوئی اشیا بھی ملی ہیں۔ یہ اشیائ آج بھی ہڑپہ اور موہنجوداڑو كے عجائب گھروں میں دیكھی جا‬
‫سكتی ہیں۔ پاكستان كے بڑے عجائب گھروں میں بھی كھدائی كے بعد حاصل ہونے والی اشیائ‬
‫ں طلبا و طالبات ان كا مشاہدہ كركے وادی‬ ‫عام طورپر لوگوں كو دكھانے كے لیے ركھی گئی ہی َ‬
‫سندھ كی قدیم تہذیب كے بارے میں بڑی قیمتی معلومات حاصل كر سكتے ہیں ۔‬
‫‪٥‬۔ جنگی ہت ھیار‬
‫وادی سندھ كے قدیم باشندے تلوار‪ ٬‬نیزے‪ ٬‬بھالے‪ ٬‬تیر كمان‪ ٬‬كلہاڑی خنجر آری چاقوجیسے جنگی‬
‫آلت سے آگاہ تھے۔ یہ ہتھیار زیادہ تعداد میں دریافت نہیں ہوئے اور كوئی بھی ہتھیار لوہے كا بنا ہوا‬
‫نہیں تھا۔ كانسی اور تانبے كے ہتھیاروں سے جنگ كی جاتی تھی۔ وسطی ایشیا سے آنے والے حملہ‬
‫آوروں نے علقے پرآسانی سے قبضہ كر لیا اور مقامی باشندوں كو شكست دے كر یا تو غلم بنا‬
‫لیا یا پھر ان كو برصغیر كے دوسرے حصوں میںبھاگ جانے پر مجبور كردیا۔ جنگی امور میں وہ‬
‫لوگ زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے۔ اس سے ان كے امن پسند ہونے كا بھی پتہ ملتا ہے۔ وہ لوگ جنگوں‬
‫میں رتھ كا استعمال بھی كرتے ت ھے ۔‬

‫‪٦‬۔ تجارت‬
‫اندازہ لگایا گیا ہے كہ وادی سندھ كے قدیم باشندوں كے تجارتی تعلقات دوردراز كے علقوں‬
‫میںرہنے والے لوگوں سے تھی۔ وہ اپنی اشیا انہیں بھیجتے اور ان سے ملنے والی اشیائ درآمد‬
‫كرتیت ھے ۔ تانبا ‪ ٬‬كانسی ‪ ٬‬ٹین اور چاندی كے استعمال سے وہ لوگ واقف تھے لیكن یہ اشیا وادی‬
‫سندھ میں مہیا نہیںتھیں۔ ظاہر ہے كہ وہ باہر سے منگواتے ہوں گے۔ یوں كہا جا سكتا ہے كہ ان كے‬
‫تجارتی رابطے مختلف علقوں میں ت ھے ۔ افغانستان وسط ایشیا‪ ٬‬ایران اور خراسان كے علقوں‬
‫میں بسنے والے لوگوں سے ان كا لین دین تھا۔ كھدائی میں ملنے والی اشای میں جواہرات بھی‬
‫ملے ہیںنیز كئی اقسام كے زیورات كا بھی استعمال كیا جاتاتھا۔ یہ چیزیں بھی وہ دوسرے علقوں‬
‫سے حاصل كرتے تھے۔ ماہرین نے ان ہی حقائق كی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے كہ وہ تجارت سے بخوبی‬
‫آگاہ تھے اوراپنی وادی سے باہر كا تجارتی سفر بھی كرتے رہتے ت ھے ۔‬

‫‪٧‬۔ اعتقادات‬
‫كھدائی كی گئی تو بت برآمد ہوئ ے ۔ بتوں كی وجہ سے قیاس كیا جاتا ہے كہ وہ لوگ بت پرست ت ھے ۔‬
‫پتھروں اور دھاتوں كے بنائے ہوئے بتوں كی پرستش كرتے ت ھے ۔ سورج چاند اور ستاروں كی پوجا‬
‫كا بھی رواج تھا ۔ وہ اپنے مردہ افراد كو زمین میں دفن كرتے تھے۔ مشتركہ طورپرعبادت كرنے كے‬
‫لیے مخصوص عمارتیں بنائی گئی تھیں ۔‬

‫‪٨‬۔ جانور‬
‫مچھلی ‪ ٬‬بھینس‪ ٬‬خرگوش‪ ٬‬سانپ‪ ٬‬ہاتھی ‪٬‬گینڈے اور شیر سمیت كچھ جانور اس دور میں پائے‬
‫ں پتھر اور‬
‫جاتے تھے كیونكہ ان جانوروں كی شكلیں دیوار وں اور مختلف مہروں پر بنائی گئی تھی َ‬
‫تانبے كی نبی ہوئی مہروں پر جانوروںكی تصاویر سے ظاہر ہوتاا ے كہ وہ لوگ ان جانوروں كی‬
‫موجودگی سے آگاہ تھے۔ اور اپنی روز مرہ كی زندگی میں ان كااستعماال كرتے تھے مچھلی شیر‬
‫اور گینڈے كی موجودگی ظاہركرتی ہیكہ وہ شكار سے بھی رغبت ركھتے ت ھے ۔‬

‫‪٩‬۔ خوراك‬
‫جو ‪ ٬‬گندم‪ ٬‬مچھلی اور كھجور ان كی خوراك تھی ۔ وہ كھیتی باڑی سے كافی حد تك آگاہ ت ھے ۔ جو‬
‫گندم اور كپاس بوتے تھے۔ كھجور كی گٹھلیاں بھی كھدائی یں دستیاب ہوئی ہیں۔ اور مچھلی‬
‫پكڑنے كا بھی سامان مل ہے۔ جس سے ان لوگوں كی خوراك كا پتہ چلتا ہے۔ اناج كے گوداموں كی‬
‫تعمیر كا سراغ بھی موہنجودڑو اور ہڑپہ كی كھدائی كے بعد مل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ‬
‫لوگ بہت ترقی یافتہ اور مہذب ت ھے ۔‬

‫‪٠١‬۔ گند ھارا‬


‫وادی سندھ كی قدیم تہذیب ‪5000‬سال پہلے موجود تھی۔ وسطی ایشیائی علقوںسے آنے واے‬
‫گروہوں اور لشكروں نے وادی سندھ كی ثقافت میں اپنے رنگ بھی شامل كے۔ كشن خاندان كے‬
‫مہاراجہ كنشك كے دور میں گندھارا ٓرٹ كو بہت عروج حاصل ہوا گندھارا كا علقہ وادی سندھ كے‬
‫شمال میں واقع ہے راولپنڈی سے پشاور تك كا علقہ گندھار ا كہلتا تھا اور ا س كا مركزی شہر‬
‫ٹیكسل تھا ۔ ‪2500‬سال پہلے گندھارا تہذیب و ثقافت كا ایك ممتاز مركز تھا۔ یہاں تعلیمی سہولتیں‬
‫بہت معیاری تھیں ٹیكسل میں یونیورسٹی موجو د تھی۔ جہاں دور دراز سے آئے ہوئے علم كے‬
‫متلشی آتے اور فیض یاب ہوتے ت ھے ۔‬

‫ثقافتی اعتبار سے ‪2500‬سال پہلے كا زمانہ گندھارا میں بڑا ہی اہم اورمنفر د تھا ۔ علم و حكمت‬
‫كے علوہ مختلف فنون میں بھی وہ لو گ كمال حاصل كرتے ت ھے ۔ سنگ تراشی كا فن خصوصا ً‬
‫ں گندھارا كی تہذیب كو حملہ آوروںنے آ‬ ‫نمایاں تھا۔ اس دور كی عبارات لكھی ہوئی پائی جاتی ہی َ‬
‫كر بہت نقصان پہنچایا۔ ایران وسط ایشیا اور یونان سے آنے والے لشكروں نے گندھارا آرٹ كو تباہ‬
‫كر دیا اور ساتھ ہی ساتھ مقامی لوگوں كو اپنے فنون سے بھی آگاہ كیا۔ ان علقوں سے آنے والے‬
‫لشكریوں كے ہمراہ اہل علم اہل حرفہ اورفنكاربھی آئے اور یوں گندھارا میں مختلف تہذیبوں كے‬
‫ملپ سے نئے نئے اثرات مرتب ہوئے۔ یونانیوںنے مجسمہ سازی كے فن پر گہرا اثر ڈال۔ روز مرہ‬
‫زندگی كے مختلف پہلو بھی متاثر ہوئے مقامی آادی نے لباس خوراك اوررہائش كے حوالے سے نئے‬
‫طور طریقے دیكھے۔ عمارتوں كی تعمیر اور آرائش كے اموربھی بدلے اور وادی سندھ كی تہذیب و‬
‫ثقافت میں یونانی اوردیگر علقوں كے رنگوں كا اضافہ ہوا ۔‬

‫گندھارا آرٹ كے مختلف ادوار كے نمونے پاكستان كے عجائب گھروں میںركھے گئے ہیں ۔ یونانی اور‬
‫وسطی ایشیائی اثرات قبول كر كے مقامی آبادی نے جو بن پارے تخلیق كیے وہ بھی عجائب گھرو‬
‫ں میںموجو د ہیں۔ كثیر تعدادمیں بڑے ہی نادر نمونے ٹیكسل كے عجائب گھر میں دیھے جا سكتے‬
‫ہیں۔ ٹیكسل راولپنڈی سے ‪40‬كلومیٹر كے فاصلیئ پر ہے۔ جہاں ہر سال كثیر تعداد میں ملكی اور‬
‫غیر ملكی سیاح مشرق و مغرب كے حسین امتزاج پر مبنی قدیم تہذیب و ثقافت كا مشاہدہ كرنے‬
‫آتے ہیں ۔‬

‫اچ ھے نظام حكومت میں ركاوٹیں اور ان كا حل‬


‫اچھے نظام حكومت )‪ (Good Governance‬كو لگو كرنے میں ركاوٹوں اور ان كے حل كی‬
‫وضاحت درج ذیل نكات كریں گے ۔‬
‫‪١‬۔ افسر شا ہی كا روی ہ‬
‫پاكستان كے قیام سے لے كر آج تك افسر شاہی انتہائی طاقت ور رہی ہے۔ افسر شاہی نہ كسی‬
‫كو اختیارات دینے كے حق میں ہے اور نہ ہی كسی كے سامنے جواب دہ ہونے كے لیے تیار ہے ۔ افسر‬
‫شاہی كے اس رویہ كی وجہ سے اچھے نظام حكومت كو لگو كرنے میں بڑی ركاوٹ پیدا ہو رہی‬
‫ہے ۔ جب تك افسر شاہی كا رویہ بدل نہ جائے اس وقت تك اچھے نظام حكومت كا قیام ناممكن ہے ۔‬

‫‪٢‬۔ جاگیردارن ہ نظام‬


‫جاگیردارانہ اور زمیندارطبقہ بھی اچھی حكومت كے قیام كے راستے میں ركاوٹ ہے۔ جاگیردارانہ‬
‫نظام بھی پاكستان كو ورثہ میں مل تھا۔ ابھی تك اسی طرح قائم ہے ۔ ابتد ا سے لے كر آج تك‬
‫حكومتوں میں اس طبقہ كا كردار موثر رہا ہے اس لیے انہوں نے كوئی ایسی پالیسی نہیں بننے دی‬
‫جو ان كے مفاد كے خلف تھی یا اچھی حكومت كے لیے ضروری تھی ۔‬

‫‪٣‬۔ انتظامی ہ كا سیاست میں ملوث ہونا‬


‫پاكستان كی یہ بدقسمتی رہی ہے كہ انتظامیہ كے لوگ ہمیشہ كسی نہ كسی طرح سیاست میں‬
‫ملوث رہے ہیں۔ اور كوئی ایسا منتظم نہ تھا جو غیر جانبدار رہ كر نظام حكومت چلتا۔ بہت سے‬
‫افسر شاہی كے لوگ مخصوص سیاسی جماعتوں كی جماعت میں ملك كے قیمتی وسائل خرچ‬
‫كرتے رہے ہیں ۔‬

‫‪٤‬۔ وسائل كی كمی‬


‫اچھا نظام حكومت قائم كرنے كے لیے جدید دور كے تقاضوں كو پورا كرنا ضروری ہے یعنی اس كے‬
‫وسائل كی ضرورت ہوتی ہے جبكہ پاكستان كے پاس وسائل كی كمی ہے۔ جس وجہ سے ہم اچھے‬
‫نظام حكومت كی شرائط پر پورا نہیں اتر سكت ے ۔‬

‫‪٥‬۔ آئینی تحفظات كا ن ہ ہونا‬


‫پاكستان كے آئین میں بھی ایسے كوئی تحفظات نہیں ہیں جو اچھے نظام حكومت كے قیا م میں‬
‫معاون ثابت ہوتے ہیں اگر كوئی سول انتظامیہ كا فرد اچھے نظا م حكومت كی طرف قدم بڑھاتا‬
‫ہے تو اس كو كئی قسم كی مخالفتوں كا سامنا كرنا پڑتا ہے۔ آئینی تحفظات نہ ہونے كی وجہ سے‬
‫وہ قدم آگے بڑھانے كی بجائے پیچھے چل جاتا ہے ۔‬

‫‪٦‬۔ احتسابی عمل كا ن ہ ہونا‬


‫پاكستان میں احتساب كا نظام ابھی تك قائم نہیں ہو سكا حالنكہ ہر آنے والی حكومت احتساب كا‬
‫نعرہ لگاتی ہے۔ اگر كوئی حكومت احتساب كا كوئی نظام بھی قائم كرتی ہے تو بڑا پیچیدہ ہوتاہے‬
‫جس سے اس حكومت كے اہلكار بڑی مہارت سے بچ جاتے ہیں یا یہ حكومت صرف اپنے مخالفین‬
‫كا احتساب كرتی ہے ۔‬

‫‪٧‬۔ ملزمین كی قلیل تنخوا ہیں‬


‫پاكستان كے سركاری ملزمین كی تنخواہیں بہت قلیل ہیں۔ وہ اپنی تنخواہوں میں اپنا اور اپنے‬
‫خاندان كا گزر بسر نہیں كر سكت ے ۔ دوسری طرف ان كے پاس بے شمار اختیارات ہوتے ہیں ۔ ایك‬
‫دستخط كرنے سے كسی كو لكھوں كا فائدہ ہو سكتا ہے لہٰذا وہ بھی اس فائدہ میںسركاری ملزم‬
‫كو حصہ در بناتا ہے ۔ جو اچھے نظام حكومت كے قیام كے راستے میں بڑی ركاوٹ ہے ۔‬

‫اچ ھے نظام حكومت ك ے لی ے اقدامات‬


‫‪i‬۔ افسر شاہی كے رویے كو بدل جائے اور ان كو بتایا جائے كہ آ پ كو عوا م كی خدمت كے لیے‬
‫بھرتی كیا گیا ہے لہٰذا صرف عوام كی خدمت كا كام كریں ۔‬

‫‪ii‬۔ جاگیردارانہ نظام كو ختم كیا جائے۔ یہ كام ہمیں پاكستان كے بننے كے فورا ً بعد كر لینا چاہیے تھا‬
‫لیكن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ دیر آید درست آید كے مترادف اب بھی یہ كام ہمیں فوری طور پر‬
‫كر لینا چاہی ے ۔‬

‫‪iii‬۔ سول انتظامیہ كا سیاست سے ہرگز كوئی تعلق نہیں ہوتا ان كو باور كرایا جائے كہ آپ غیر‬
‫سیاسی‪ ٬‬غیر جماعتی‪ ٬‬اور غیر جانبدار ہیں لہٰذا غیر جانبداری سے حكومت كے نظام كو چلیا‬
‫جائ ے ۔‬

‫‪iv‬۔پاكستان میں اللہ تعال ٰی كے فضل سے بے شما ر وسائل ہیں۔ ہمیں ایماندرانہ طور پر ان‬
‫وسائل كو استعمال میںلنا چاہی ے ۔‬

‫‪v‬۔ پاكستان میں احتسابی نظام غیر جانبدار اورپائیدار ہونا چاہیے۔ ہر با اقتدار فرد كو اپنے اقتدار‬
‫كا حساب دینا چاہی ے ۔ حضرت عمر جیسا احتسابی نظام قائم كركے اچھا نظام حكومت قائم كیا‬
‫جا سكتا ہے ۔‬

‫‪vi‬۔ سركاری ملزمین كی تنخواہیں مہنگائی كے حساب سے بڑھائی جائیں اور ساتھ ہی سادگی‬
‫اور اسل م كی روح ان كے اندر پیدا كی جائ ے ۔‬
‫مقامی حکومتوں کی اختیارات كی تقسیم كا منصوب ہ‬
‫یہ منصوبہ باقاعدہ طورپر ‪14‬اگست ‪2001‬ء كو لگو كیا گیا جس كی بنیاد درج ذیل نكات پر ہے ۔‬
‫‪i‬۔ سیاسی اختیارات كی نچلی سطح تك تقسیم۔‬
‫‪ii‬۔ انتظامی اختیارات كی عدم مركزیت۔‬
‫‪iii‬۔ وسائل كی ضلعی سطح پر منتقلی۔‬
‫‪iv‬۔ مقامی معاملت میں عوام كی شركت۔‬
‫مقامی حكومتوں كے موجودہ آرڈیننس ‪2001‬ء میں مقامی حكومتوں كو تین درجوں میں تقسیم‬
‫كیا گیا ہے ۔‬
‫﴿الف﴾ ضلعی حكومت ﴿ب﴾ تحصیل یا ٹائون حكومت ﴿ج﴾ یونین حكومت‬
‫ان كی تفصیلت درج ذیل میں پیش كی جاتی ہیں ۔‬
‫﴿الف ﴾ ضلعی حكومت‬

‫ضلعی حكومت ناظم نائب ناظم‪ ٬‬ضلع كونسل اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جس‬
‫كاسربراہ ناظم ہوتاہے۔ ناظم كی مدد كے لیے ضلعی رابطہ آفیسر )‪(DCO‬ہوتاہے ضلع ناظم اس‬
‫بات كو یقینی بناتااہے كہ ضلعی انتظامیہ صحیح طورپر كام كر رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ كا سربراہ‬
‫ضلعی رابطہ آفیسر )‪(DCO‬ہوتا ہے ۔‬

‫‪١‬۔ ضلعی ناظم‬


‫ناظم كا انتخاب متعلقہ ضلع كے تمام كونسلر چار سا ل كے لیے كرتے ہیں۔ ناظم كے لیے ضروری‬
‫ہے كہ وہ میٹرك پاس ہو‪ ٬‬متعلقہ ضلع كا باشندہ ہو اور پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل كر ے ۔‬
‫ناظم ضلعی حكومت كا سربراہ ہوتاہے۔ اور ضلع میں سیاسی قیادت فراہم كرتاہے۔ یہ ضلع‬
‫كونسل سے منظور شدہ ترقیاتی منصوبوں كو عملی جامہ پہناتاہے اور ضلع میں امن و امان قائم‬
‫كرتاہے۔ ضلع كے سالنہ ترقیاتی منصوبوں كی نگرانی بھی اسی كی ذمہ داری ہے۔ وہ ضلع كونسل‬
‫میں بجٹ پیش كرتا ہے ۔ اور ضلع میںدیگر سرگرمیاں سر انجام دیتا ہے ۔‬

‫‪٢‬۔ نائب ناظم‬


‫نائب ناظم كا انتخاب بھی متعلقہ ضلع كے تمام كونسلرز چار سال كے لیے كرتے ہیں ۔ نائب ناظم‬
‫كی بھی كم ا زكم قابلیت میٹرك ہوتی ہے۔ اپنے ضلع كا رہنے وال ہو اور كم از كم پچاس فیصد‬
‫سے زیادہ ووٹ حاصل كرے۔ نائب ناظم ضلع كونسل كا سربراہ ہوتاہے اور اس كے اجلسوں كی‬
‫صدارت كرتا ہے ۔ وہ دوران اجلس ہر قسم كا نظم وضبط قائم ركھتا ہے ۔‬

‫‪٣‬۔ ضلع كونسل‬


‫متعلقہ ضلع كے اندر تمام یونین كونسلوں كے ناظم بلحاظ عہدہ ضلع كونسل كے ممبر ہوتے ہیں ۔‬
‫ضلع كونسل كے اركان كی كل تعداد كی تینتیس فیصد نشستیں عورتوں كے لیے پانچ فیصد‬
‫كسانوں اور مزدوروں كے لیے اور پانچ فیصد اقلیتوں كے لیے مخصوص ہوتی ہیں ۔‬

‫ضلع كونسل ك ے فرائض‬


‫‪i‬۔ ضلع كونسل كو قانون سازی كا اختیار ہوتا ہے ۔‬
‫‪ii‬۔ ضلع كونسل ضلع حكومت كے لیے بجٹ كی منظوری دیتی ہے ۔‬
‫‪iii‬۔ اسے ضلع كے اندر ہر قسم كے ٹیكس لگانے اور ان میں كمی بیشی كا اختیار ہوتا ہے ۔‬
‫‪iv‬۔ وہ مخصوص كمیٹیوں كے ذریعے ضلعی انتظامیہ كے معاملت كی نگرانی كرتی ہے ۔‬
‫‪v‬۔ ضلع كونسل بے شمار كمیٹیوں كا انتخاب كرتی ہے ۔‬
‫‪vi‬۔ وہ ضلعی حكومت كی پیش كردہ تجاویز اور منصوبوں كی منظوری دیتی ہے ۔‬

‫‪4‬۔ ضلعی انتظامی ہ‬


‫ضلعی انتظامیہ ایك رابطہ آفسیر كے ذریعے چلئی جاتی ہے ۔ جو گریڈ ‪19‬یا ‪20‬كا سركاری ملزم‬
‫ہوتاہے۔ جس كی تقرری صوبائی حكومت كرتی ہے اور جسے ضلعی رابطہ آفسیر )‪(DCO‬كہا‬
‫جاتاہے۔ ضلعی رابطہ آفیسر كی معاونت كے لیے ہر محكمہ كا ایك سربراہ ہوتاہے جسے ضلعی‬
‫ایگزیكٹو آفیسر )‪(EDO‬كہا جاتا ہے ۔‬

‫ضلعی انتظامیہ میں ‪12‬محكمے ہوتے ہیں جودرج ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔ انسانی وسائل ‪ii‬۔ سول ڈیفنس ‪iii‬۔ زراعت و جنگلت ‪iv‬۔ دیہی ترقی ‪v‬۔‬
‫‪vi‬۔ امور مالیات و منصوبہ بندی ‪vii‬۔ صحت ‪viii‬۔ انفارمیشن ٹیكنالوجی ‪ix‬۔‬ ‫تعلیم‬
‫قانون ‪x‬۔ خوا ندگی ‪xi‬۔ نظم و ضبط ‪xii‬۔ مال ‪٬‬وركس و خدمات‬
‫ضلعی رابط ہ آفیسر )‪(DCO‬ك ے فرائض‬
‫‪i‬۔ ضلع ك ے تمام محكموں س ے رابط ہ رك ھ كر ان كو قانون ك ے مطابق چلنا ۔‬

‫‪ii‬۔ ضلع میں مناسب منصوب ہ بندی كرت ے ہوئ ے ضلعی انتظامی ہ كو موثر بنانا ۔‬

‫‪iii‬۔ ضلع میں تمام منصوبوں اور پراجیكٹوں كی تیاری كرنا‪ ٬‬ضلع كونسل س ے‬
‫منظوری حاصل كرنا اورنگرانی كرنا۔‬

‫‪iv‬۔ ضلع ناظم كی انتظامی و مالی فرائض كی سر انجام د ہی میںمدد كرنا ۔‬

‫‪v‬۔ ضلع ك ے لی ے بجٹ تیار كر ك ے ضلع كونسل س ے منظوری حاصل كرنا ۔‬

‫ضلعی ایگزیكٹو آفیسر )‪(EDO‬ك ے فرائض‬

‫‪i‬۔ اپن ے محكم ہ كی كاركردگی كو بڑ ھانا‬

‫‪ii‬۔ اپن ے محكم ے كی عوام كی خدمت ك ے ضمن میں كاركردگی كو بڑ ھاتا ہے۔‬

‫‪iii‬۔ ضلع كی نگران كمیٹیوں كو محكم ہ س ے متعلق ہ اطلعات ب ہم پ ہنچاتا ہے۔‬

‫‪iv‬۔ وفاقی و صوبائی حكومتوں ك ے قوانین كو لگوكرتا ہے۔‬

‫‪v‬۔ اپن ے محكم ہ كی ترقی ك ے منصوب ے تیار كرتا ہے۔‬


‫مقامی حكومتوں کا تاریخی پس منظر‬

‫پاكستان كے قیام سے قبل جنوبی ایشیا میںمقامی حكومتوں كا نظام وائسرائے لرڈ پن نے‬
‫‪1884‬ء می ایك ایكٹ كے ذریعے نافذ كیا اور اس نے ضلع اور تحصیل كی سطح پر مقامی بورڈ‬
‫قائم كیے جن كے ذمے مقامی لوگوں كے مسائل حل كرنا تھے۔ لیكن یہ ادارے لوگوں كے مسائل‬
‫حل كرنے میںناكام رہے كیونكہ ان كے پاس نہ تو اختیارات تھے اورنہ وسائل ت ھے ۔‬

‫پاكستان كے قیام كے بعد لرڈ پن كے نظام كو اپنایا گیا لیكن ا س كاكوئی خاطرخواہ فائدہ ہن ہوا‬
‫كیونكہ اس نظام كو سیاسی ہتھكنڈے كے طور پر استعمال كیا جانے لگا ۔ ‪1958‬ء تك یہ نظام‬
‫مكمل طورپرمعطل ہو چكا تھا اور مارشل لئ كے نفاذ كے بعد اس كو منسوخ كر دیا گیا ۔‬

‫صدر ایوب خاں نے بنیادی جہوریتوں كا حكم نامہ ‪27‬اكتوبر ‪1959‬ء كو جاری كیا جس كے مطابق‬
‫پاكستان میں مقامی حكومتوں كاایك نظام لگو كیا گیا جسے بنیادی جمہوریت كا نام دیا گیا ۔اک‬
‫جس كا اہم مقصد یہ تھا كہ اختیارات نچلی سطح تك منتقلی اورعوام كے مسائل كا حل بنیادی‬
‫سطح پر ان كے اپنے نمائندوں كے ذریعے كیا جائے یہ نظا م كوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لسكا اور نہ‬
‫ہی لوگوں كو حل كر سكا كیونكہ اس كو انتخابی ادارہ كے طور پر استعمال كیاگیا لہٰذا حكومت‬
‫كی تبدیلی كے ساتھ ہی یہ نظام ختم ہو گیا ۔‬

‫‪1970‬ء كے انتخابات كے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو كو مغربی پاكستان اور شیخ مجیب‬
‫الرحمن كوشرقی پاكستان میں اكثریت حاصل ہوئی۔ اقتدار عوامی نمائندوں كے حوالے نہ كیا گیا‬
‫جس كے نتیجہ میں مشرقی پاكستان الگ ہو گیا اور مغربی پاكستان میں حكومت ذوالفقار علی‬
‫بھٹو كے حوالے كر دی گئی۔ بھٹو سیاسی عمل كے ذریعے مقامی حكومتوں كو قائم كرنے میں‬
‫ناكام رہا ۔‬
‫ضیاء الحق كے برسراقتدار آنے كے بعد مقامی حكومتوں كے نظا م كو دوبار ہ نافذ كیاگیااور‬
‫مقامی حكومتوں كے انتخابات دو دفعہ كرائے گئے یہ نظام مضبو ط بنیادوں پر قائم كیا گیا اور‬
‫مرحلہ وار ترقی كرتا رہا ۔‬

‫اس طرح مقامی حكومت كا یہ نظام سال ہا سال چلتا رہامگر عوام كی اكثریت كوكوئی خاطر‬
‫خواہ فائدہ نہ ہو سكا۔ موجودہ نظام كی خامیاں دور كرنے كیلیے جنر ل پرویز مشرف كی حكومت‬
‫نے ‪12‬اكتوبر ‪1999‬كو حكومت سنبھالنے كے بعد مقامی حكومتوں كے نظاما میں واضح تبدیلیاں‬
‫لنے كا وعدہ كیا تاكہ اقتدار عوام كی نچلی سطح تك منتقل ہو سكے۔ صدر پاكستان نے نئے نظام‬
‫كے تحت مرحلہ وار انتخابات دسمبر ‪2000‬اور اگست ‪2001‬كے درمیان كروائے اور اس كا اجراء‬
‫‪14‬اگست ‪ 2001‬ء كو ہوا ۔ یہ نظام تین درجاتی ہے اور جس میں ضلعی حكومتیں تحصیل كی‬
‫حكومتیں اوریونین كی حكومتیں شامل ہیں ۔ تفصیل حسب ذیل ہے ۔‬
‫‪1973‬ء ك ے آئین میں ش ہریوں ك ے حقوق‬

‫پاكستان كے آئین ‪ 1973‬میں بھی شہریوں كو بے شمار بنیادی حقوق دیے گئے ہیں۔ مزید یہ پابندی‬
‫بھی عائد كی گئی ہے كہ حكومت بنیادی حقوق كو سلب كرنے كے لیے كوئی قانو ن نہیں بنا سكتی‬
‫پاكستان میں شہریوں كو ملنے والے حقوق مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔ كسی ش ہری كو زندگی س ے محروم ن ہیں كیا جا سكتا ۔‬

‫‪ii‬۔ كسی شہری كو وجوہات بتائے بغیر گرفتار نہیں كیا جا سكتا یا گرفتاری كے بعد ‪24‬گھنٹے كے‬
‫اندر كسی مجسٹریٹ كی عدالت میں پیش كیا جاتا ہے ۔‬

‫‪iii‬۔ كسی ش ہری كو سابق ہ جرم كی سزا ن ہیں دی جا سكتی ۔‬

‫‪iv‬۔ كسی فرد كوایك ہی جرم پر دو ہری سزا ن ہیں دی جا سكتی ۔‬

‫‪v‬۔ ہر ش ہری كو پاكستان میں نقل و حركت پر مكمل آزادی حاصل ہے۔‬

‫‪vi‬۔ ہر شیری كو پر امن طور پر اكٹ ھے ہون ے كی اجازت ہے۔‬

‫‪vii‬۔ ہر ش ہری كوانجمن یا یونین بنان ے كا حق حاصل ہے۔‬

‫‪viii‬۔ ہر فرد كو تجارت كاروبار یا كوئی پیش ہ اپنان ے كی مكمل اجازت ہے۔‬

‫‪ix‬۔ ہر ش ہری كی تقریر كی آزادی حاصل ہے۔‬

‫‪x‬۔ ہر ش ہری كو كسی مخصوص مذ ہب ك ے پرچار كا حق حاصل ہے۔‬

‫‪xi‬۔ ہر شخص كو جائیدا د خریدن ے كی مكمل آزادی حاصل ہے۔‬

‫‪xii‬۔ كسی ش ہری كو جائیداد رك ھن ے ك ے حق س ے محروم ن ہیں كیاجا سكتا ۔‬

‫‪xiii‬۔ تمام ش ہری بل امتیاز مذ ہب رنگ نسل اور جنس ك ے قانون كی نظر میں‬
‫برابر ہیں اور معاشرتی طور پراك جیسا مقام ركھتے ہیں ۔‬

‫‪xiv‬۔ ہر ش ہری كو ملزمت میں امتیاز ن ہ برتن ے كی آزادی حاصل ہے۔‬


‫‪xv‬۔ ہر ش ہری كو اس كی زبان و ثقافت ك ے تحفظ كا حق حاصل ہے۔‬

‫ش ہریوں ك ے فرائض‬
‫شہریوں كو جو حقوق دیے جاتے ہیں ان كے بدلے ان پر كچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن كو‬
‫فرائض كہتے ہیں۔شہریوں كے اہم فرائض درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪١‬۔ وفاداری‬
‫ہر شہری اپنے ملك كاوفادار ہو اور اس كی حفاظت كے لیے ہر قربانی دینے كے لیے تیار ہو ۔‬

‫‪٢‬۔ قوانین كی پابندی‬


‫تمام شہری ریاست كے قوانین كی پابندی كرتے ہیں ۔ اورقانون شكنی سے باز رہتے ہیں ۔‬

‫‪٣‬۔ ٹیكسوں كی ادائیگی‬


‫ہر شہری وقت پر اپنے ملك كے ٹیكسوں كی ادائیگی كا ذمہ دار ہے ۔‬

‫‪٤‬۔ ووٹ كا صحیح استعمال‬


‫ووٹ كا صحیح استعما ل بھی ہر شہری كی اہم ذمہ داری ہے ۔‬

‫‪٥‬۔ خدمت خلق‬


‫ہر شہری كا یہ فرض ہے كہ وہ عوام كی خدمت كے كاموںمیں حصہ لے ۔‬

‫‪٦‬۔ تعلیم كا حصول‬


‫ہر شہری كا فرض ہے كہ وہ خود بھی تعلیم حاصل كرے اور اپنے بچوں كو بھی تعلیم دلنے كا‬
‫بندوبست كر ے ۔‬

‫‪٧‬۔ قومی مفاد‬


‫ہر شہری كی ذمہ داری ہے كہ و ہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد كو ترجیح دے ۔‬

‫‪1973‬ء ك ے آئین میں ش ہریوں ك ے فرائض‬


‫پاكستان میں موجودہ ‪1973‬ء كے آئین میں بھی شہریوں كو چند ایك فرائض سونپے گئے ہیں جہیں‬
‫وہ ہر صورت میں پورا كرنے كے پابند ہیں ۔‬

‫یہ كم و بیش وہی فرائض ہیں جن كا ذكر اوپر كیا گیا ہے۔ یعنی ملك كا وفادار ہونا‪ ٬‬قوانین كی‬
‫پابندی ٹیكسوں كی بروقت ادائیگی‪ ٬‬ووٹ كا صحیح استعمال اورقومی مفادكا تحفظ وغیر ہ ۔ اگر‬
‫پاكستان كا كوئی شہری ان فرائض كو پورا نہیں كرتا تو وہ ملك و قوم دونوں كا مجرم ہے اور‬
‫اسے معاشرے میں عزت كی نگاہ سے نہیں دیكھا جا سكتا۔ ا ن فرائض كو پورا كرنا ہر شہری كا‬
‫اخلقی و قانونی فرض ہے كیونكہ ایك شہری كا حق دوسرے شہری كا فرض ہوتا ہے ۔ اور اسی‬
‫طرح دوسرے كا حق پہلے كا فرض ہے۔ ہر معاشرہ میں حقوق و فرائض میں توازن قائم ركھنا‬
‫ضروری ہوتاہے كیونكہ حقوق و فرائض لزم و ملزوم ہیں۔ جس معاشرہ میں توازن قائم نہیں رہتا‬
‫اس میں ظلم و ناانصافی كا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شہری كو چاہیے كہ وہ جہاں اپنے حقوق‬
‫سے فائدہ حاصل كرتاہے وہاں اپنے فرائض كو بھی خوش اسلوبی سے نبھائ ے ۔‬

‫انسانی حقوق‬
‫انسانی حقوق كا تصور سب سے پہلے ہمار ے حضور پاك صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ‬
‫سو سال پہلے دیا تھا۔ یہ باقاعدہ انسانی حقوق كا چارٹر تھا۔ جس نے بنیادی انسانی حقوق كی‬
‫بنیاد ركھی۔ جدید دورمیں بھی انسانی حقوق كو كافی اہمیت دی گئی۔ ہر ملك جمہوریت كی‬
‫طرف رواں دواں ہوا اور دساتیر كو اپنانا شروع كیا۔ فرانس كی تقلید كرتے ہوئے ہر ملك كے‬
‫دستور میں بنیاد ی حقوق كا ایك باب شامل كیاجانے لگا۔ اسی طرح پاكستان نے جب ‪ 1956‬ء‬
‫میں پہل دستورنافز كیا تو بنیادی حقوق كا ایك باب اس كا ضروری حصہ بنا ۔ اس دستوركی‬
‫منسوخی كے بعد جب ‪1962‬ء میں دوسرا دستور بنایا گیا تو بنیادی حقوق كا باب اس میں شامل‬
‫نہ تھا۔ عواام كے مطالبہ كے پیش نظر دستور میں دوسری تر میم كے ذریعے اس باب كو امل كیا‬
‫گیا ۔ دستور ‪1973‬ء اور قومی اسمبلی میں متفقہ طور پرمنظور ہوا۔ جس میں بھی بنیادی حقوق‬
‫كا باب امل كیا گیا لہذا انسانی بنیادی حقوق عموما ً ملكی دساتیر كے عطاكردہ ہوتے ہیں ۔‬

‫انسانی حقوق كی خصوصیات‬

‫انسانی بنیادی حقوق كی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔ انسانی بنیاد ی حقوق كسی كی بخشش ن ہیں ہوت ے بلك ہ ہر انسان پیدا ہوت ے ہیں‬
‫ان حقوق كا دعویدار بن جاتا ہے۔‬

‫‪ ii‬۔ انسانی بنیاد ی حقوق كی حیثیت ہم ہ گیر ہوتی ہے۔‬

‫‪iii‬۔ انسانی بنیادی حقوق كو حكومت غصب ن ہیں كر سكتی ۔‬

‫‪iv‬۔ انسانی بنیاد ی حقوق كا محافظ ملكی دستور ہوتا ہے۔‬

‫‪v‬۔ انسانی بنیادی حقوق كوقانونی حقوق س ے بڑ ھ كر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔‬

‫‪vi‬۔ بنیادی حقوق كا تحفظ ملكی عدالتیں كرتی ہیں ۔‬

‫خطب ہ حجت ہ الوداع اور انسانی حقوق‬


‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت كے دسویں سال حج كا ارادہ فرمایا اور عرب‬
‫كے تمام علقوں میں اپنا پیغام بھجوایا كہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سال حج كرنے كا‬
‫فیصلہ فرمایا ہے ا س لیے تمام مسلمانوں كو دعوت دی جاتی ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‬
‫كے ساتھ شریك حج ہوں ۔‬
‫ش ہریوں ك ے حقوق و فرائض‬

‫ش ہریوں ك ے حقوق‬
‫وہ مطالبات جو شہری اپنی بھلئی كے لیے كرتے ہیں اور جن كو حكومت تسیم كر لیتی ہے اور ان‬
‫كو پورا كرتی ہے شہریوں كے حقوق كہلتے ہیں ۔ حقوق دو طرح كے ہوتے ہیں‪:‬‬

‫‪١‬۔ اخلقی حقوق‬


‫اخلقی حقوق كی اساس كسی معاشرہ میں رائج اخلقی اقدار پر ہوتی ہے۔ جس قسم كے‬
‫اخلقی اقدر كسی معاشرے میں رائج ہوں گے اس نوعیت كے اخلقی حقوق اس معاشرہ كے‬
‫افراد كو حاصل ہوںگے۔ مثل ً والدین كی خدمت ان كا حق ہے اور شوہر كا حق ہے كہ بیوی اس كی‬
‫فرماں بردار بن ے ۔ ان حقوق كے ادا نہ كرنے پر قانون متحرك نہیں ہو سكتا ۔‬

‫‪٢‬۔ قانونی حقوق‬


‫وہ حقوق جنہیں ریاست تسلیم كرتی ہے اگر كوئی ان حقوق كی خلف ورزی كرتا ہے تو اس كو‬
‫سزا دی جاتی ہے۔ یعنی حقوق كے پیچھے ریاست كی طاقت ہوتی ہے اور قانونی حقوق كی درج‬
‫ذیل اقسام ہیں ۔‬

‫﴿ب﴾ سیاسی حقوق‬ ‫﴿الف﴾ معاشرتی حقوق‬

‫﴿الف ﴾ معاشرتی حقوق‬

‫یہ وہ حقوق ہیں جن كے بغیر مہذب زندگی گزرنا ناممكن ہوتی ہے اوران كی عدم موجودگی میں‬
‫كسی مہذب معاشرہ كا قیام ناممكن ہے۔ یہ حقوق مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔ حق زندگی‬
‫ہر شہری كو زندہ رہنے كابنیادی حق حاصل ہے ۔‬

‫‪ii‬۔ ر ہائش كا حق‬


‫ریاست كا شہری ریاست كے جس حصہ میں رہائش ركھنا چاہے اس كو حق حاصل ہے ۔‬

‫‪iii‬۔ حق جائیداد‬
‫ہر شہری كو جائیداد ركھنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪iv‬۔ حق خاندان‬
‫ہر شہری كو اپنی مرضی سے شادی كرنے اور خاندان ركھنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪v‬۔ حق ملزمت و كاروبار‬


‫ہر شہری كو اپنی مرضی كی ملزمت اور پیشہ یا كاروبار كرنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪vi‬۔ حق عقید ہ و مذ ہب‬


‫ہر شخص كو اپنی مرضی كا مزہب اختیار كرنے اور عقائد كے مطابق عبادا ت كرنے كا حق حاصل‬
‫ہے ۔‬

‫‪vii‬۔ حق تحریر و تقریر‬


‫ہر شہری كو تحریر و تقریر كی آزادی كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪viii‬۔ حق انجمن سازی‬


‫ہر شخص كو انجمن سازی یا پہلے سے موجود انجمن میں شامل ہونے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪ix‬۔ حق زبان و ثقافت‬


‫ہر شخص كو اپنی زبان اور ثقافت كی ترقی اور حفاظت كے لیے مناسب اقدامات كرنے كا حق‬
‫حاصل ہے ۔‬

‫‪x‬۔ حق تعلیم‬
‫ہر شہری كو حصول تعلیم كی سہولتیں حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪xi‬۔ حق معا ہد ہ‬
‫ہر فرد كو دوسرے كے ساتھ كاروبار كے لیے معاہدے كرنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪xii‬۔ آزادی نقل و حركت‬


‫شہریوں كو ریاست كے اندر نقل و حركت كی پوری آزادی ہوتی ہے ۔‬

‫‪xiii‬۔ حق مساوات‬
‫ہر شہری قانون كی نظر میں برابر ہے اور وہ مساوی سماجی حیثیت كا مالك ہے ۔‬

‫﴿ب﴾ سیاسی حقوق‬

‫جمہوریت كی بقا او رشہری كی سیاسی نشوونما كے لیے سیاسی حقوق ضروری ہیں۔ ہر شہری‬
‫كو مندرجہ ذیل سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔‬

‫‪i‬۔ حق رائ ے د ہی‬


‫ہر شہری اپنی مرضی سے اپنی پسند كے امیدوار كو ووٹ دے سكتا ہے ۔‬

‫‪ii‬۔ حق نمائندگی‬
‫ہر فرد كو الیكشن میں امیدوار بننے كا بھی حق حاصل ہے ۔‬

‫‪ iii‬۔ حق منصب و ع ہد ہ‬
‫منتخب ہونے كے بعد ہر شہری كو سركاری عہدہ حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪iv‬۔ حق تنقید‬
‫ہر فردكو حكومت پر تنقید كرنے كا یا اپنی رائے پیش كرنے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪v‬۔ حق جماعت‬
‫ہر شخص كو كسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے یا اپنی جماعت بنانے كا حق حاصل ہے ۔‬

‫‪Vi‬۔ حق عرضداشت‬
‫ہر شہری كو حكومت كے نام شكایتی عرضی بھیجنے كا حق حاصل ہے ۔‬
‫‪٣‬۔ دستور پاكستان ‪ 1973‬میں اسلمی دفعات‬

‫صدر ایوب خان اپنے خلف عوامی تحریك كے نتیجے میں ‪25‬مارچ ‪1969‬ء كو مستعفی ہو گئ ے ۔‬
‫جنرل محمد یحح ٰی خان نے ملك میں مارشل لء لگا كر آئین منسوخ كر دیا۔ جنرل یحی ٰی خاں نے‬
‫ددسمبر ‪1970‬ء میں اسمبلیوں كے انتخابات كروائے۔ انتخابات كے نتیجے میں مشرقی پاكستان‬
‫میں شیخ مجیب الرحمن كو اور مغربی پاكستان میں ذوالفقار علی بھٹو كو اكثریت حاصل ہو‬
‫گئی۔ بدقسمتی سے اقتدار كی منتقلی كا كوئی سمجھوتہ طے نہ پا سكا اور ہندوستان كی‬
‫مداخلت كی وجہ سے ‪16‬دسمبر ‪1971‬ء كو مشرقی پاكستان الگ ہو كر بنگلہ دیش بن گیا ۔‬

‫‪20‬دسمبر ‪1971‬ء جو فوجی حكومت نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو كے حوالے كر دیا جس نے اریل‬
‫‪ 12‬اپریل ‪1972‬كو ملك میں ایك عبوری آئین لگو كیا اس دوران مستقل آئین كا مسودہ اسمبلی‬
‫میں پیش ہوا جو اپریل ‪1973‬ء كو منظور ہوا او ر جسے ‪14‬اگست ‪ 1973‬كو نافذ كر دیا گیا ۔‬

‫دستور ‪1973‬ء میں وہ تمام اسلمی دفعات شامل كی گئیں جو پہلے دساتیر میں موجود تھیں بلكہ‬
‫ان میں اضافہ بھی كیا گیا۔ نمایاں اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔الل ہ تعال ٰی كی حاكمیت‬


‫‪1973‬ء كے آئین كے مطابق قرارداد مقاصد كو ابتدائیہ میں شامل كیا گیا جس كے مطابق كل‬
‫كائنات كا حاكم مطلق اللہ تعال ٰی ہے اور اقتدار اعل ٰی اسی كی ذات كو حاصل ہے۔ پاكستان كے‬
‫عوام اقتدار اعل ٰی كو اللہ تعال ٰی كی مقدس امانت سمجھتے ہوئے اس كی مقرر كردہ حد ود‬
‫میںرہتے ہوئے استعما ل كریں گ ے ۔‬

‫‪ ii‬ملك كا نام‬
‫ملک كا نام اسلمی جمہوریہ پاكستان ہوگا ۔‬

‫‪iii‬۔ سركاری مذ ہب‬


‫ملك كا سركاری مذہب اسلم ہو گا ۔‬

‫‪iv‬۔ صدر اور وزیر اعظم‬


‫صد ر اور وزیر اعظم دونوں مسلمان ہوں گے جو اللہ تعال ٰی كو واحد اور حضرت محمد صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم كو اللہ تعال ٰی كا آخری رسول مانتے ہوں گ ے ۔‬

‫‪v‬۔ مسلمان كی تعریف‬


‫‪ 1973‬ءكے آئین میں پہلی دفعہ مسلمان كی تعریف شامل كی گئی۔ جس كی رو سے توحید‪٬‬‬
‫اللہ تعال ٰی كی كتابوں پر ایمان لنے كے علوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ‬
‫رسالت‪٬‬قیامت‪٬‬‬
‫وسلم كو آخری نبی تسلیم كرناا لزمی ہے ۔‬

‫‪vi‬۔ اسلمی قوانین كا نفاذ‬


‫موجودہ قوانین كو اسلمی صولوں كے مطابق ڈھال جائے گااور كوئی قانون ایسا نہیں بنایا جائے گا‬
‫جو اسلمی كی تعلیمات كے متصادم ہو ۔‬

‫‪vii‬۔ لزمی اسلمی تعلیمات‬


‫قرآن اور اسلمیات كی تعلیم سكولوں اور كالجوں میں لزمی ہو گی ۔‬

‫‪viii‬۔ عربی كی تعلیم اور قرآن پاك كی طباعت‬


‫سكولوں میں چھٹی سے آٹھویں تك عربی كی تعلیم لزمی ہو گی اور قرآن پاك كی طباعت‬
‫غلطیوں سے پاك كی جائے گی ۔‬

‫‪ix‬۔ اسلمی اقدار‬


‫اسلمی اقدار یعنی جمہوریت انصاف رواداری آزادی اورمساوات آئین كا حصہ ہوں گ ے ۔‬

‫‪x‬۔ مسلمان كی طرز زندگی‬


‫ایسے حالت مہیا كیے جائیں گے كہ مسلمان انفرادی طورپر یا اجتماعی طورپر اپنی زندگیاں‬
‫اسلم كے مطابق ڈھال سكیں گ ے ۔‬

‫‪xi‬۔ زكو ۃ و عشر‬


‫‪ 1973‬ء كے آئین كے مطابق حكومت زكوۃ و عشر كا نظام قائم كرے گی اور زكوۃ كونسلیں بھی‬
‫قائم كی جائیں گی ۔‬

‫‪xii‬۔ سود كا خاتم ہ‬


‫حكومت سود كے نظام كو ختم كرے گی اور ملكی معیشت كو سود سے پاك كیا جائے گا ۔‬

‫‪xiii‬۔ اسلمی نظریاتی كونسل‬


‫اسلمی نظریاتی كونسل قائم كی جائے گی جو قوانین كی اسلمی تعلیمات كے مطابق بنانے میں‬
‫قانون ساز اداروں كی راہنمائی كرے گی اور موجودہ قوانین كو بھی اسلم كے مطابق ڈھالے گی ۔‬
‫‪٢‬۔ دستور پاكستان ‪ 1962‬میں اسلمی دفعات‬

‫ملك میں سیاسی انتشار كے باعث جنرل ایوب خاں نے ‪1956‬ء كا آئین منسوخ كر كے اكتوبر‬
‫‪ 1958‬ئ كو ملك میں مارشل لء لگا دیا اور نئے آئن كی تیاری كے لیے ایك كمیشن مقرر كر دیا ۔‬
‫كمیشن نے ایك مسودہ تیار كیا جس میں تمام اختیارات كا سرچشمہ صدر كو بنا دیا گیا ‪8‬جون‬
‫‪ 1962‬ء كو نئے دتور كو لگو كیا گیا جس كی اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔الل ہ تعال ٰی كی حاكمیت‬


‫قرارداد مقاصد كو بھی ‪1962‬ء كے دستور كے ابتدائیہ میں شامل كیا گیا جس كے مطابق تمام‬
‫اختیارات كی مالك اللہ تعال ٰی كی ذات ہے۔ اور وہ یہ اختیارات مسلمانوں كو تفویض كرتا ہے جو‬
‫اس كو مقدس امانت سمجھ كر استعمال كریں گ ے ۔‬

‫‪ii‬۔ ملك كا نام‬


‫دستور میں ملك كا نام جمہوریہ پاكستان تجویز كیا گیا بعد میں ایك ترمیم كے ذریعے ملك كا نام‬
‫اسلمی جمہوریہ پاكستان ركھا گیاا ۔اک‬

‫‪iii‬۔ اسلمی قوانین‬


‫كوئی ایسا قانون لگو نہیںكیا جائے گا جواسلمی تعلیمات كے منافی ہو اور تمام موجودہ قوانین‬
‫كو اسلمی تعلیمات كے مطابق ڈھال جائے گ ۔اک‬

‫‪iv‬۔ صدر مملكت‬


‫ملك كا سربراہ صدر مسلما ن ہو گا ۔‬

‫‪v‬۔ قرآن و اسلمیات كی تعلیم‬


‫قرآن و اسلمیات كی تعلیم مسلمانوں كے لیے لزمی قرار دی جائے گی ۔‬

‫‪vi‬۔ اسلمی ادار ے‬


‫حكومت زكوۃ اوقاف اور مساجد كی تنظیم كے لیے ادارے قائم كرے گی ۔‬

‫‪vii‬۔ اسلمی مشاورتی كونسل‬


‫اسلمی مشاورتی كونسل قائم كی جائے گی جو مركزی اور صوبائی حكومتوں كو مسلمانان‬
‫پاكستان كی زندگیوں كو اسلم كے مطابق ڈھالنے كے سلسلے میں اقدامات تجویز كرے گی ۔‬

‫‪viii‬۔ ادار ہ تحقیقات اسلمی ہ‬


‫حكومت ادارہ تحقیقات اسلمیہ قائم كرے گی جو اسلمی احكام كے بارے میں اپنی رائے دے گا ۔‬
‫‪١‬۔ دستور پاكستان ‪ 1956‬میں اسلمی دفعات‬

‫دوسری دستور ساز اسمبلی كا انتخاب ‪23‬جون ‪1955‬ء كو ہوا ۔ ‪80‬اركان پر مشتمل اسمبلی‬
‫معرض وجودمیں آئی۔ چوہدری محمد علی ملك كے وزیر اعظم بنے۔ وزیر اعظم بنتے ہی انہوںنے‬
‫دستور سازی كا كام شروع كر دیا۔ آئین كا مسودہ ‪9‬جنوری ‪1956‬ء كو دستور ساز اسمبلی میں‬
‫پیش كیا گیا جسے ‪29‬فروری ‪1956‬كومنظور كر لیا گیا۔ گورنر جنرل كی نظور ی كے بعد یہ‬
‫‪23‬مارچ ‪1956‬ء كو نافذ ہوا۔ اس آئین كی اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪i‬۔ ملك كا نام‬


‫اس دستور كے مطابق ملك كا نام اسلمی جمہوریہ پاكستان ركھا گیا ۔‬

‫‪ii‬۔الل ہ تعال ٰی كی حاكمیت‬


‫قرارداد مقاصد كو دستور كے ابتدائیہ میں شامل كر لیا گیا جس كے مطابق پوری كائنات پر اللہ‬
‫تعالی كی حاكمیت ہے ۔‬
‫ٰ‬

‫‪iii‬۔ مسلمان صدر‬


‫دستور كے مطابق ملك كا صدر مسلمان ہو گا ۔‬

‫‪iv‬۔ اسلمی قانون‬


‫ایسا كوئی قانون نافذ نہیں كیا جائے گا جو قران و سنت كی تعلیمات كے خلف ہو اورموجودہ‬
‫قوانین كو اسلم كے مطابق ڈھال جائے گا ۔‬

‫‪v‬۔ ادار ہ تحقیقات اسلمی‬


‫دستور كے مطابق ادارہ تحقیقات اسلمی قائم كیاجائے گا جو اسلمی احكام كی تدوین و نفاذ كے‬
‫بارے میں تحقیق كرے گاا ۔‬

‫‪vi‬۔ سود كا خاتم ہ‬


‫ملك میں سود كا جلد از جلد خاتمہ كر دیاجائے گا ۔‬

‫‪vii‬۔ اتحاد عالم اسلم‬


‫پالیسی كے رہنما اصولوں میں كہا گیا كہ پاسكتان كے دیگر اسلمی ممالك كے ساتھ دوستانہ‬
‫تعلقات قائم كیے جائیں گ ے ۔‬
‫بنیادی اصولوں كی كمیٹی‬

‫قرارداد مقاصد كی منظور ی كے بعد دستور ساز اسمبلی نے متعدد كمیٹیاں قائم كیں جن میں‬
‫بنیادی اصولوں كی كمیٹی بھی شامل تھی جس كے سربراہ وزیر اعظم لیاقت علی كاں تھے اس‬
‫كمیٹی نے عبوری رپورٹ ‪28‬ستمبر ‪1950‬ء كو لیاقت علی كاں كی سربراہی میں پیش كی‬
‫نامكمل ہونے كی وجہ سے اس پر شدید رد عمل ہوا وا رنظر ثانی كے لیے كہا گیا۔ چنانچہ دوسری‬
‫رپورٹ ‪22‬ستمبر ‪1952‬ء كو خواجہ ناظم الدین كی سربراہی میں پیش ہوئی ۔ اس رپورٹ میں‬
‫ایك حصہ اسلمی اصولوں كے لیے مخصوص كیا گیا تھا جس میں كہا گیا تھا كہ‪:‬‬

‫)‪ (i‬قرارداد مقاصد كو آئین كے ابتدائیہ میں شامل كیا جائے گا ۔‬


‫)‪ (ii‬مسلمانوں كو انفرادی یا اجتماعی طورپر قرآن و سنت كی تعلیمات كے مطابق زندگیاں‬
‫گزارنے كے مواقع دیے جائیں گ ے ۔‬
‫)‪ (iii‬شراب جوئے اور سود كو غیر قانونی قرار دیا جائے گا ۔‬
‫)‪ (iv‬موجودہ قوانین كو اسلمی اصولوں كے مطابق ڈھال جائے گا ۔‬
‫)‪ (v‬ملكی معاشی پالیسی ایسی بنائی جائے جس میں چند ہاتھوں میں دولت كے ارتكاز كو روكا‬
‫جائے اور ملك خوشحالی كی راہ پر گامزن كیا جائ ے ۔‬
‫)‪ (vi‬كسانوں اور مزدوروں كو مناسب حقوق دیے جائیں ۔‬
‫)‪ (vii‬قرآن و سنت كے خلف كوئی قانون نہ بنایا جائے اور صرف سپریم كورٹ كو یہ اختیار‬
‫دیاجائے كہ وہ فیصلہ كرے كہ كون سا قانون قرآن و سنت كے خلف ہے ۔‬
‫)‪ (viii‬نیكی كا حكم دینے اور بدی كے روكنے كے لیے ایك ادارہ قائم كیا جائ ے ۔‬
‫پاكستان كو اسلمی جم ہوری ہ بنان ے ك ے اقدام‬

‫جنوبی ایشیا كے مسلمانوں كی ایك طویل جدوجہد كے نتیجے میں پاكستان ‪14‬اگست ‪1947‬ء كو‬
‫ایك نئے اسلمی ملك كی حیثیت سے دنیا كے نقشے پر ابھرا۔ تحریك پاكستان دو قومی نظریہ كی‬
‫مرہون منت تھی اور دو قومی نظریہ‪ ٬‬نظریہ اسلام كی بنیادپر قائم ہو ا تھا۔ لہٰذا نظریہ اسلم اور‬
‫پاكستان كا آپس میں چولی دامن كا ساتھ ہے۔ قیا م پاكستان كے بعد ضرورت اس امر كی تھی كہ‬
‫پاكستان كو اسلمی جمہوریہ بنایاجائ ے ۔ اس ضمن میں مارچ ‪1949‬ء میں پاكستان میں پہلی‬
‫دستور ساز اسمبلی نے پہل قدم اٹھایا جسے قرارداد مقاصد كا نام دیا گیا جس كا ملی آئین كے‬
‫بنیادی اصولو ں كی وضاحت كرنا تھی۔ قرارداد مقاصد كے بعد پاكستان كو اسلمی جمہوریہ بنانے‬
‫كے لیے بعد میں آنے والی حكومتو ں نے كئی اقدام كیے جن كا ذكر تفصل سے آئے گا ۔‬

‫قراداد مقاصد‬
‫پاكستان كے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد‬
‫پیش كی جو ‪12‬مارچ ‪ 1949‬ء كو منظور ہوئی۔ اس كی منظوری سے پاكستان كو اسلمی‬
‫جمہوریہ بنانے كے یلے ایك راستہ معین ہو گیا۔ قرارداد مقاصد كے اہم نكات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪١‬۔اللہ تعال ٰی كی حاكمیت‬


‫تمام كائنات پر اقتدار اعل ٰی ﴿حاكمیت ﴾ كا مالك صرف اللہ تعال ٰی كی ذات ہے۔ وہ یہ اختیار پاكستان‬
‫كے مسلمانوں كو تفویض كرتا ہے جو اسے مقدس امانت كے طور پر اللہ كی مقرر كردہ حدود كے‬
‫مطابق استعمال كریں گ ے ۔‬

‫‪٢‬۔ اسلمی اصولوں كی پابندی‬


‫ریاست اپنے اختیارات كا استعمال عوام كے منتخب نمائندوں كے ذریعے كرے گی۔ جمہوریت‪٬‬‬
‫آزادی‪ ٬‬مساوات اور رواداری اور معاشرتی انصاف كے اسلمی اصولوں كو ملك میں نافذ كیاجائے‬
‫گا ۔‬

‫‪٣‬۔ اسلمی طرز حیات‬


‫مسلمانوں كو انفرادی اور اجتماعی شعبوں میں اپنی زندگیاں قرآن و سنت كی تعلیمات كی‬
‫روشنی میں گزارنے كے قابل بنایا جائے گا ۔‬

‫‪٤‬۔ اقلیتوں كے حقوق‬


‫غیر مسلم اقلیتوں كو اپنے مذہب اور عقائد پر عمل كرنے اور اپنی ثقافت اور روایات كو ترقی‬
‫دینے كی مكمل آزادی ہو گی۔ اقلیتوں اور دیگر پسماندہ طبقوں كے جائز حقوق كی حفاظت كا‬
‫انتظام كیا جائے گا ۔‬

‫‪٥‬۔ وفاقی نظام‬


‫ملك میں وفاقی نظام حكومت قائم كیاجائے گا جس میں صوبوں كو مقررہ آئینہ حدودمیں خود‬
‫مختاری حاصل ہو گی ۔‬

‫‪٦‬۔ بنیادی حقوق‬


‫عوام كو تمام بنیادی حقوق حاصل ہو ں گے۔ مزید برآں فكر و اظہار اور عقیدے و عبادات كے‬
‫علوہ تنظیم سازی كی بھی آزادی ہو گی ۔‬

‫‪٧‬۔ آزاد عدلیہ‬


‫عدلیہ اپنے كاموں میں بالكل آزاد ہو گی اور بغیر كسی دبائو كے كام كرے گی ۔‬

‫قرارداد مقاصد كی اہمیت‬


‫)‪ (i‬قرارداد مقاصد كا منظور ہونا آزادی كے بعدپہل قدم تھا جس كو پہلی دستور ساز اسمبلی نے‬
‫سرانجام دیا۔ ا سكی منظوری سے جنوبی ایشیا كے مسلمانوں كو قیام پاكستان كے مقصدحاصل‬
‫ہو گیا ۔‬
‫)‪ (ii‬قرارداد مقاصد كو پاكستان كی دستو ر سازی كی تاریخ میں میگنا كارٹا كی حیثیت حاصل‬
‫ہو گئی۔ اس كو پاكستان كے تینوں دساتیر میں دیباچہ كے طور پر شامل كیا گیا اور اسی كے‬
‫متعین كیے ہوئے اسلمی اصولوں كو تمام دساتیر میں اپنایا گیا ۔‬
‫)‪ (iii‬قرارداد مقاصد كی منظوری سے مسلمانوں كے نمائندوں نے جمہوریت كے سنہری اصولوں‬
‫كو اپنا لیا۔ اسلمی ریاست كو جغرافیائی نسلی اور قومی حدود سے بلند كرتے ہوئے انسانی‬
‫بنیادوں پر تعمیر كرنے كا عزم كیا ۔‬

‫پاكستان كا محل وقوع‬

‫پاكستان ‪231/2‬درجے سے ‪37‬درجے عرض بلد شمالی اور ‪61‬درجے سے ‪77‬درجے طول بلد‬
‫مشرق كے درمیان پھیل ہوا ہے اس كی مشرقی سرحد بھارت شمالی سرحد چین اور مغربی‬
‫سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے ۔ پاكستان كے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے ۔‬

‫محل وقوع كی ا ہمیت‬


‫پاكستان كو اپنے محل وقوع كے لحاظ سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلكہ پوری دنیا میں خصوصی‬
‫اہمیت حاصل ہے ۔ درج ذیل نكات پاكستان كے محل وقوع كی اہمیت كو واضح كرتے ہیں ۔‬

‫‪١‬۔ خلیج فارس س ے ملحق ہ مسلم ممالك‬


‫پاكستان كے جنوب مغرب میں خلیج فارس واقع ہے۔ جس كے ساتھ ایران كویت‪ ٬‬عرق‪ ٬‬سعودی‬
‫عرب‪ ٬‬قطر‪٬‬بحرین‪ ٬‬اومان اور عرب عمارات كی حدود ملتی ہیں۔ یہ ممالك تیل كی پیداوار كے‬
‫لحاظ سے بہت اہم ہیں اورمسلم برادری سے تعلق ركھتے ہیں ۔ پاكستان كے ان ممالك سے‬
‫دوستانہ تعلقات ہیں ۔‬

‫‪٢‬۔ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالك‬


‫پاكستان كے شمال مغرب میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالك میں قازقستان ‪ ٬‬ازبكستان‬
‫‪ ٬‬تاجكستان‪ ٬‬تركمانستان‪ ٬‬اور كرغیزستان ہیں جو سمندر سے بہت دور ہیں اور ان كا اپنا كوئی‬
‫ساحل نہیں ہے ۔ اس لیے ان كو سمندر تك پہنچنے كے لیے پاكستان كی سرزمین سے گزرنا پڑتا ہے ۔‬
‫یہ ممالك بھی تیل اور گیس كی پیداوار كے اعتبار سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ زرعی لحاظ سے‬
‫بھی ان كا شمار زیادہ پیداوار كے علقوں میں ہوتاہے۔ ان كی كل آبادی پاكستان سے بھی كم ہے‬
‫مگر رقبہ كے لحاظ سے ہم سے چھے گنا بڑے ہیں۔ اگر ان مماالك كو موٹر وے كے ذریعے مل دیا‬
‫جائے تو پاكستان كو فائدہ ہو گا اور تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا ۔‬

‫‪٣‬۔ چین‬
‫شمالی پہاڑوں كے شمال میں چین واقع ہے۔ شاہراہ ریشم پاكستان اور چین كو ملتی ہے۔ یہ‬
‫پاكستان اور چین نے مل كر بنائی ہے۔ اور ان كے مابین بہت اچھے تعلقات ہیں۔ چین نے ہر مشكل‬
‫وقت میں پاكستان كا ساتھ دیا ہے اور پاكستان بھی چین كی دوستی پر فخر كرتا ہے پاكستان‬
‫میں كئی ترقیاتی منصوبے چین كی مدد سے چل رہے ہیں چین دفاعی طورپر بھی پاكستان كی‬
‫ہمیشہ حمایت كی ہے ۔چین پاكستان دوستی بے مثال ہے ۔‬

‫‪٤‬۔ ب ھارت‬
‫ہمارے مشرق میں بھارت كا ملك ہے جو آبادی میں چین كے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ‬
‫ایك زرعی ملك اور صنعتی ملك ہونے كے علوہ ایك بہت بڑی ایٹمی طاقت بھی ہے۔ آزدی كے بعد‬
‫اس كے اور ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ان دونوں ممالك كے درمیان اب تك تین جنگیں ہو چكی‬
‫ہیں جس كی وجہ سے ا س خطے میں امن نہ ہونے كے باعث ترقی نہیں ہو سكی ۔ دونوں ممالك‬
‫اپنے دفاع كے لیے اپنی آمدن كا زیادہ سے زیادہ حصہ جنگی ہتھیاروں پر خرچ كر رہے ہیں ۔‬
‫دونوںممالك ایٹمی ہتھیاروں اور میزائ كی دوڑ میں بہت آگے نكل چكے ہیں اور اگر اب جنگ ہوتی‬
‫ہے تو یہ مكمل تباہی ہو گی اور كسی كے ہاتھ كچھ نہ آئے گا۔ ان كے درمیان دشمنی كی سب سے‬
‫بڑی خلیج مسئلہ كشمیر ہے اگر دونوں ممالك كشمیر كا مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل‬
‫كرلیں تو پورے جنوبی ایشئا میں امن و خوشحالی كا باعث ہو گا ۔‬
‫‪i‬۔ سفارت خانوں كا قیام‬
‫دنیا كے اكثر ممالك میں پاكستان كے سفارت خانے اور سفارتی مشن قائم كیے اور تمام ممالك‬
‫سے تعلقات استوار كرنے كی ابتدا كر دی گئی۔ قائد اعظم نے مختصر مدت میں بڑی تیزی سے‬
‫پاكستان كو خارجی دنیا سے متعارف كرایا۔ سفارت كاروں كو خصوصی ہدایات جاری كی گئیں كہ‬
‫وہ بھرپور انداز میں اپنے فرائض ادا كریں اور اپن ذمہ داریاں صحیح معنوں میں مشن سمجھ كر‬
‫اداكریں۔ آپ نے انہیں ہدایت كی كہ سیاسی‪ ٬‬سفارتی‪ ٬‬فوجی ‪ ٬‬تجارتی اورمعاشی شعبوں میں‬
‫قومی مقاصد كے حصول كے لیے كوشاں ہوں ۔‬

‫‪2‬۔ اقوام متحد ہ كی ركنیت‬


‫پاكستان ‪30‬ستمبر ‪1947‬ء كو اقوام متحدہ كا ركن بنا اور عہد كیا گیا كہ پاكستان دنیا میں امن‬
‫وآشتی كے لیے اپنا مثبت كردار نبھاتا رہے گا۔ پاكستان نے طے كیا كہ وہ عالمی برادری میں اپنا‬
‫كردار بھرپور طور پر نبھائے گا اور اقوام متحدہ كے فیصلوں پر پوری طرح عمل درآمد كرتا رہے‬
‫گا ۔ اسلمی ممالك نے پاكستان كی تشكیل كا بڑے جوش و خروش سے خیر مقدم كیا ۔ اور توقع‬
‫ظاہر كی كہ پاكستان اسلمی دنیا كی ترقی خوشحالی اور بہبود كے لیے اپنے فرائض نبھائے گا ۔‬

‫‪ 3‬۔ مسلم ریاستوں س ے خصوصی تعلقات‬


‫یوں تو پاكستان كی خارجہ پالیسی كا بنیادی اصول قرار پایا كہ تمام ممالك سے پاكستان اچھے‬
‫تعلقات كے قیا م كے لیے كوشاں رہے گا۔ تاہم مسلم ممالك سے بڑے ہی خصوصی تعلقات قائم‬
‫كیے جائیں گے۔ پاكستان قائم ہوا تو یہ دنیا میں آبادی كے لحاظ سے سب سے بڑا اسلمی ملك تھا‬
‫اوراس كا قیام مسلم ممالك كے حوصلے اور تقویت كا باعث بھی بنا۔ پاكستان نے اسلمی دنیا‬
‫سے اپنی وابستگی كا اظہار كیا ۔‬

‫‪4‬۔ ب ھارت س ے تعلقات‬


‫پاكستا ن كا قیام ہندوئوں كی منفی كوششوں كے باوجود ممكن ہو گیا تو بھارت ن پاكستان كو‬
‫زیر كرنے اور اسے ابتدا ہی میں كمزور اور ناكام ریاست بنانے كے لیے اقدامات شروع كر دی ے ۔‬
‫پانی كا مسئلہ مہاجرین كی آمد سرحدوں كا تعین اور ایسے ہی كئی اور مسائل نے جنم لیا ۔‬
‫پاكستان كے حصے كے اثاثے دینے سے بھارت مسلسل گریزاں رہا۔ جونا گڑھ مناوادر حیدر آباد دكن‬
‫اور جموں و كشمیر كی ریاستوں پر بھارت نے فوج كش كر كے غاصبانہ قبضہ كر لیا ۔ پاكستان كو‬
‫اپنے وجود كو برقرار ركھنے كے لیے بڑی تگ و دو كرنا پڑی۔ بھارت پاكستان كے وجود ہی كا سرے‬
‫سے مخالف تھا۔ ایسے میں پاكستان كی خارجہ پالیسی كا بنیادی نقطہ بھارتی عزائم كو ناكام بنانا‬
‫تھا۔ كشمیری عوام نے اپنی آزادی كے لیے جدوجہد شروع كی تو پاكستان نے اخلقی سیاسی‬
‫سفارتی اور فوجی حمایت جاری ركھی۔ حت ٰی كہ كشمیری مجاہدین اپنابہت سا علقہ آزاد كرانے‬
‫میں كامیاب ہو گئے۔ یہ علقہ اب آزاد كشمیر كہلتا ہے۔ بھارت كو جب كشمیر جاتا ہوا دكھائی دیا‬
‫تو وہ اقوام متحدہ كی سلمتی كونسل میں اپنا مقدمہ لے گیا۔ پاكستان نے اقوام متحدہ اور دولت‬
‫مشتركہ میں كشمیریوں كے حق خود ارادیت كا مقدمہ بری اچھی طرح لڑا۔ بھارت نے وعدہ كیا كہ‬
‫وہ كشمیر میں رائے شماری كے ذریعے ہونے والے عوامی فیصلے كو تسلیم كرے گا۔ لیكن جونہی‬
‫ریاست پر اس كی گرفت مضبوط ہوئی وہ اپنے وعدوں سے مكر گیا۔ وہ اقوام متحدہ كی‬
‫قراردادوںپر عمل كرنے سے مسلسل گریزاں رہا ۔‬

‫بھارت نے پاكستان كو نقصان پہنچانے كی بہت كوشش كی لیكن پاكستان كی خارجہ پالیسی نے‬
‫اس كے تمام عزائم ناكام بنا دیے۔ خارجہ امور میں پاكستان كی ابتدائی كامیابیاں اور بھارت كی‬
‫جانب سے جارہانہ اقدامات كا ناكام ہونا بنیادی طور پر قائد اعظم كی عمدہ قیادت ہی كی بدولت‬
‫تھا ۔‬

‫‪٦‬۔ طلبا كو نصیحت‬


‫قائد اعظم نئی نسل كی افادیت سے آگاہ تھے۔ وہ انہیں پاكستان كے مستقبل كا معمار قرار دیتے‬
‫رہے۔ نوجوان مسلم طلبا نے اپنے قائد كی آواز پر لبیك كہا اورگائوں گائوں قریہ قریہ اور شہر شہر‬
‫پھیل گئے۔ جب پاكستان بن گیا تو طلب كو نصیحت كرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا كہ اب طلبا‬
‫تعلیم پر ساری توجہ مركوز كر دیں ۔ ‪27‬نومبر ‪1947‬ئ كو آل پاكستان ایجوكیشن كانفرنس سے‬
‫خطاب كرتے ہوئے فرمایا اگر ہم فوری طور پر اور نتیجہ خیز ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیمی‬
‫شعبے پر پوری توجہ مركوز كرنی ہو گی‪٬٬‬۔‬

‫قائد اعظم نے طلبا پر اپنے گہرے اعتماد كا اظہار كیا ار ہمیشہ انہیں قوم كا قیمتی ترین سرمایہ‬
‫كہتے رہے۔ ایك دفعہ طلبا كو خطاب كرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫"پاكستان كو اپنے طلباپر فخر ہے جو ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے اور قوم كی توقعات پر پورے‬
‫اترے۔ طلبائ ہمارا مستقبل ہیں وہ مستقبل كے معمار بھی ہیں۔ ان سے قوم نظم و ضبط چاہتی‬
‫ہے تاكہ وہ وقت كے چیلنجوں كا مقابلہ كر سكیں" ۔‬

‫انہوںنے اپنی تقریروں میں ہمیشہ طلبا میں حوصلہ پیدا كرنے والے الفاظ ادا كیے ۔ كیونكہ آنے والے‬
‫اوقات میں طلبائ نے بہت اہم كردار ادا كرنا تھا اورنئی قوم كو مضبوط اور مستحكم بنانا تھا ۔‬
‫قائد اعظم نے طلبا كو سیاست سے دور رہنے كا درس دیا اور كہا كہ وہ اپنی تمام تر قوت اور‬
‫صلحیت تعلیمی شعبے میں اعل ٰی درجے حاصل كرنے كے لیے استعمال كریں۔ مسلم طلبائ نے‬
‫آزادی كی جدوجہد اور اس كی كامیابی كے بعد بھی قائد اعظم كی نصیحتوں پر عمل كیا ۔‬
‫پاكستان ك ے متعلق قائد اعظم كی سیاسی بصیرت‬

‫قائد اعظم نے اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی و معاملہ فہمی سے قوم كو اپنے قدموں پر‬
‫كھڑا كر دیا ہے اور مختلف مقامات اٹھا كر خطرات كو دور كرتے ہوئے پاكستان كو سالمیت اور‬
‫استحكام دینے میں شاندار كامیابیاں حاصل كیں۔ قوم كو مایوسیوں سے نكال كا قائد اعظم نے‬
‫پر اعتماد فضا فراہم كی۔ عظیم قائد كو آزادی كے حصول كے بعد ایك سال اور ایك ماہ كام كرنے‬
‫كا موقع اللہ پاك نے دیا اور اس مختصر عرصے میں انہوںنے قوم كو ترقی اور خوشحالی كی راہ‬
‫پر ڈال دیا ۔‬

‫‪١‬۔ م ہاجرین كی آباد كاری‬


‫قائد اعظم نے جس مسئلے كی طرف فوری توجہ مبذول كرائی وہ مہاجرین كی آباد كاری كا‬
‫مسئلہ تھا۔ انہوںنے اپنا ہیڈ كوارٹر كراچی سے لہور منتق كر دیا جہں وہ اپنے سامنے مہاجرین كو آباد‬
‫كرنے كے لیے بنائے گئے منصوبو ں پر عمل كرا سكیں۔ حكومت نے مہاجرین كی مدد كے لیے اہل‬
‫ثروت كو دعوت دی۔ قائد اعظم ریلیف فنڈبرائے مہاجری قائم كیا گیا۔ عوام نے بڑے كھلے دل سے‬
‫ریلیف فنڈ میں رقوم جمع كروائیں۔ سماجی نتظیموں كے كاركنوں میں كیمپہوں میں آئے ہوئے‬
‫مہاجرین كے مسائل حل كرنے كی كوشش كی ۔ خوراك ‪ ٬‬كپڑا‪ ٬‬دوائیں ‪ ٬‬خیمے كمبل اور دیگر‬
‫اشیائ بہم پہنچائی گئیں ۔‬

‫قائد اعظم نے عوام كے حوصلوں كو ابھارا۔ انہیں قوت ارادی اورہمت كے ساتھ حالت كامقابلہ‬
‫كرنے كی تلقین كی ۔ انہوںنے قوم كو پر اعتماد ركھنے كے لیے مختلف جلسوںمیں تقاریر كیں ۔ ایك‬
‫بار فرمایا‪:‬‬

‫‪٫٫‬تاریخ میں ایسی كئی مثالیں وجود ہیں كہ نوجوان قوموں نے اپنے كردار كی پختگی اور پكے‬
‫ارادے كی بدولت اپنے آ پ كو مضبوط بنایا۔ ہماری تاریخ بہادر ی اور عظمت كی داستانوں سے‬
‫بھری ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے آ پ میں مجاہدوں كی سی روح پیداكرنی ہو گی‪٬٬‬۔‬
‫بھارت نے لكھوں افراد كو پاكستان دھكیل كر سمجھا تھا كہ معاشی دبائو اوربحران پاكستان كو‬
‫لے ڈوبے گا لیكن پاكستانی قوم نے اپنے قائد كی نصیحت پر عمل كرتے ہوئے مردانہ وارمقابلہ كیا ۔‬
‫یكجہتی اور اتحاد كے ساتھ آنے والے طوفان كا سامنا كیا۔ دل گرفتہ مہاجرین كو رفتہ رفتہ گھروں‬
‫میں بسایا گیاا۔ پاكستان سے بھارت چلے جانے والے ہندوئوں اور سكھوں كی متروكہ املك‬
‫مہاجرین كو الٹ كی گئیں ۔ ان كے لیے روزگار كے ذرائع پیدا كیے گئ ے ۔ پاكستان كی انتظامی‬
‫مشینری نے روایتی دفتر شاہی سے دور رہتے ہوئے عوام كے تعاون كے ساتھ مہاجرین كوآباد كیا ۔‬
‫قائد اعظم نے لہو ر میںایك اجتماع میں تقریر كرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬

‫‪٫٫‬ہم پاكستانی عوام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے كہ ہم ان مہاجرین كو بسانے كے لیے ہر ممكن امداد‬
‫مہیا كریں جو پاكستان آ رہے ہیں ان لوگوں كو یہ مسائل اس لیے درپیش ہیں كہ وہ مسلم قوم سے‬
‫تعلق ركھتے ہیں‪٬٬‬۔‬

‫‪٢‬۔ قومی خدمت كے لیے سركاری ملزمین كو نصیحت‬


‫قائد اعظم نے ‪11‬اكتوبر ‪ 1947‬ئ كو سركاری ملزمین سے خطاب كرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫‪٫٫‬ہمارے لیے یہ چیلنج ہے كہ اگر ہمیں ایك قوم كی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو ہمیں مضبوط ہاتھوں‬
‫سے ان مشكلت كامقابلہ كرنا ہو گ۔ ہمارے عوام غیر منظم اور پریشان ہیں ۔ مشكلت نے انہیں‬
‫الجھایا ہواہے۔ ہمیں انہیں مایوسی كے چكر سے باہر نكالنا ہے اور ان كی حوصلہ افزائی كرنی ہو‬
‫گی۔ اس وقت انتظامیہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے عوام اس كی جانب راہنمائی كے لیے‬
‫دیكھ رہے ہیں ۔ ‪٬٬‬‬
‫بڑے نامساعد حالت تھے لیكن سركاری افسروں اور دیگر ملزمین نے قومی جذبے اور اجتماعی‬
‫سوچ كے ساتھ اپنے فرائض ادا كرتے ہوئے قوم كی خدمت كی۔ انہوںنے اپنے قائد كے فرمان كے‬
‫مطابق عمل كیا اور قوم كے مسائل كے گرداب سے نكال ۔‬
‫قائد اعظم نے سركاری افسروں كو بار بار تلقین كی كہ وہ اب آزاد قوم كے لیے كام كر رہے ہیں ۔‬
‫انہیں اپنے روز مرہ رویوں میں مثبت تبدیلی لنا چاہیے اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے قوم‬
‫كی خدمت كرنی چاہی ے ۔ قائد اعظم نے سركاری ملزمین كو ان كے نئے كردار سے آگاہ كرتے ہوئے‬
‫بتایا كہ ہو اب حاكم نہیں بلكہ قوم كے خدمت گار ہیں ۔‬
‫‪25‬مارچ ‪1948‬ئ كو سركاری ملزمین سے خطاب كرتے ہوئے قائد اعظم نے یہ الفاظ ادا كیے‪:‬‬

‫‪٫٫‬آپ اپنے جملہ فرائض قوم كے خاد م بن كر ادا كیجیے۔ آپ كا تعلق كسی سیاسی جماعت سے‬
‫نہیں ہونا چاہیے۔ اقتدار كسی بھی جماعت كومل سكتا ہے۔ آپ ثابت قد می اور ایمان اور عدل كے‬
‫ساتھ اپنے فرائض بجا لئیے۔ اگر آپ میری نصیحت پر عمل كریں گے تو عوام كی نظروں میں آ‬
‫پ كے رتبے میں اضافہ ہو گا‪٬٬‬۔‬
‫‪٣‬۔ صوبائیت اور نسل پرستی س ے گریز‬
‫قائد اعظم جانتے تھے كہ اگرپاكستانی عوام آنے والے سالوںمیں صوبائیت اورنسل پرستی ذات‬
‫پات اور دیگر تعصبات میں الجھ گئے تو قومی یكجہتی كو بہت نقصان پہنچے گا۔ انہوںنے پاكستانیوں‬
‫میں قومی یكجہتی كے فروغ اور باہم اتحاد كے قیام پر زور دیا ۔ ان كی نصیحت تھی كہ عوا م كو‬
‫علقائی نسلی اورلسانی بنیادوں پر سوچنے كی بجائے قوی سوچ اپنانی چاہی ے ۔ قائد اعظم نے‬
‫ریاستوں اور قبائلی علقوں كی اہمیت كے پیش نظر ایك وزیر برائے سٹیٹس و قبائلی امور بنایا ۔‬
‫مختلف ریاستوں كے حكمرانوں سے رابطے كیے اور انہیں قومی دھارے پر پوری طرح شامل كرنے‬
‫اور پاكستانی رویہ اپنانے كا مشورہ دیا ۔‬
‫پاكستان دشمنوں نے ملك خداداد كے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی عوام میں گمراہ كن خبریں‬
‫پھیلئیں۔ انہیں باور كرانے كی كوشش ی كہ پاكستان كمزور ہونے كے سبب زیادہ عرصہ قائم نہیں‬
‫رہ سكے گا ۔ عوام میں بھلئی علقائی صوبائ یاور لسانی تعصبات كو ہوا دی گئی ۔ مایوسی اور‬
‫كوششں بالخر ناكام ہو گئیں ۔ قائد اعظم كی سربراہی میں‬‫ٰ‬ ‫لتعلقی كی فضا بناے كی گمراہ كن‬
‫پاكستانی عوام نے قومی جذبوں كو ابھارنے ركھا اور دیگر تعصبات كو كوئی اہمیت نہ دی كیونكہ‬
‫عوام كو پاكستان دشمن عناصر كے عزائم سے قائداعظم نے بروقت باخبر كر دیا تھا۔ انہوںنے‬
‫پاكستانی عوام كو واضح كر دیا كہ ان كی قوت اتحاد میں ہے۔ وہ جب تك متحد و یكجا رہیں گے‬
‫كوئی قوت انہیں نقصان نہیں پہنچا سكے گی۔ اتحاد تنظیم یقین محكم كا نعرہ اسی حوالے سے‬
‫قائد اعظم نے اپنی قوم كو دیا تھا ۔‬
‫‪٤‬۔ معیشت ك ے لی ے ر ہنما اصول‬
‫لكھوں افراد كا نقل مكا نی كرنا ‪ ٬‬قتل و غارت لوٹ مار كشمیر میں جنگ آزادی انتظامی‬
‫مشینری كے مسائل ‪ 1948‬ئ كے سیلب اور بھارت كی طرف سے پاكستان كواثاثوں میں سے‬
‫حصہ جائز نہ ملنا‪ ٬‬بے روزگاری اور غربت یہ سارے عناصر قوم اور اس كے قائد كے لیے بہت بڑا‬
‫چیلنج ت ھے ۔ بھارت جان بوجھ كر پاكستان كی معیشت كو تباہ كرنے كے درپے تھا ۔ افراتفری اور‬
‫معاشرتی توڑ پھوڑ پاكستان كے معاشی حالت كو بہتر بنانے كی راہ میں ركاوٹ تھی۔ ایسے حالت‬
‫میں قائد اعظم ملك كی معیشت كو سنبھال اوراسے اپنے قدموں پر كھڑا كرنے اور عوام كی‬
‫مشكلت كو دور كرنے كے لیے پورے عزم كے ساتھ آگے بڑ ھے ۔‬
‫‪i‬۔ ریزرو بنك آ ف انڈیا دونوںممالك كی بینكنگ كی ضروریات كا ذمہ دار تھا۔ بنك میں ہندوئوں كی‬
‫اجارہ داری تھی۔ اور ان سے پاكستان كی ترقی كے كردار كی توقع كرنا عبث تھا۔ قائد اعظم نے‬
‫سٹیٹ بینك آف پاكستان كی بنیاد ركھی۔ یہ بنك یكم جولئی ‪1948‬ئ كو وجود میں آیا قائد اعظم‬
‫نے اس كی افتتاحی تقریب میں تقریر كرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬

‫‪٫٫‬سٹیٹ بنك آف پاكستان معاشی شعبے میں ہمارے عوام كی حاكمیت كا نشا ن ہے ۔ مغربی طرز‬
‫معیشت ہمیں فائدہ نہیں دیتا۔ ہمیں انصاف اور مساوات پر مبنی اپنا جداگانہ معاشی نظا م لنا ہو‬
‫گا۔ مغربی معاشی نظام نے تو انسانیت كے لیے كئی دشواریاں پیدا كر دی ہی ں۔ اگر ہم ایسا كر‬
‫پاتے ہی تو ہم مسلم قوم كی حیثیت سے پورے عالم كو ایسا معاشی نظام دے سكیں گے جو‬
‫انسانوں كے لیے امن كا پیغام بنے گا۔ امن ہی انسانوں كی بقا اور اچھی معیشت كو قائم كر‬
‫سكتا ہے‪٬٬‬۔‬
‫‪ii‬۔ مہاجرین كی امداد كے لیے آپ نے عوام كو دل كھول كر چندہ دینے كی تلقین كی اور ایك‬
‫ریلیف فنڈ قائد اعظم ریلیف فنڈ برائے مہاجرین قائم كیا اس رقم سے انہوںنے مہاجرین كی آباد‬
‫كاری اور انہیں روزگار مہیا كرنے كا اہتمام كیا ۔ یو ں ملكی معیشت كو كافی حدتك سہارا مل ۔‬
‫‪٥‬۔ انتظامی ہ میں اصلحات‬
‫پاكستان بننے كے بعد انتظامی مشینری نہ ہونے كے برابر تھی۔ بڑی تعداد میں دفتری عملہ‬
‫پاكستان سے ہندوستان چل گیا ۔ دفاتر میں كام كرنے كا تجربہ ركھنے والے مسلمانوں كی تعدا د‬
‫كافی كم تھی۔ وسائل نا پید تھے بھارت نے جان بوجھ كر تاخیری حربے استعمال كیے جو تھوڑے‬
‫بہت مسلمان بھارت میں انتظامی امور كی سوجھ بوجھ ركھتے تھے اور پاكستان آنا چاہتے تھے ان‬
‫كی راہ میں ركاوٹیں پیدا كی گئیں ۔‬
‫قائد اعظم نے انتظامی مشینری كو سمجھتے ہوئے فوری اقدام كی ے ۔ كراچی كو دارالحكومت بنایا‬
‫گیا۔ جو تھوڑی بہت تعداد سركاری ملزمین كی دفتروں میں پہنچی قائد اعظم نے انہیں قومی‬
‫جذبے سے كام كرنے كو كہا۔ نئی نئی آزادی ملی تھی ہر دل میں امنگ تھی مقصد او رخواہش تھی‬
‫كہ پاكستان جلد از جلد اپنے قدموں پر كھڑا ہو جائے۔ دفتری ساز و سامان سٹیشنری وغیرہ‬
‫ناپیدتھی لیكن كام كیا گیا اور دیكھتے ہی دیكھتے ایك مربوط نظام ترتیب پا گیا۔ بھارت سے‬
‫سركاری ملزمین لنے كے لیے خصوصی بندوبست كیے گئے۔ ٹاٹا ائیر كپنی سے سمجھوتہ ہوا اور‬
‫ملزمین كی منتقلی كا كام آگے بڑھا ۔‬
‫چودھری محمد علی جو بعد میں پاكستان كے وزیر اعظم بنے ایك بیوروكریٹ تھے انہوںنے سول‬
‫سروس كو نئے سرے سے آراستہ و منظم كیا ۔ سول سروس رولز بن ے ۔ نیوی ائر فورس اور بری‬
‫فوج كے ہیڈكوارٹر بنائے گئ ے ۔ فارن سروس اكائونٹ سروس اور دوسری سروسز كا آغاز كیا گیا ۔‬
‫انتظامی مشینری ترتیب پا گئی۔ تو مختلف منصوبوں پر تیزی سے كام شروع ہو گیا اور ملك میں‬
‫حالت كافی حد تك معمول پر آ گئ ے ۔ مشینری كو ترتیب دینے میں قائد اعظم كا مركزی رول تھا ۔‬

‫‪٦‬۔ خارج ہ پالیسی ك ے ر ہنما اصول‬


‫قائد اعظم محمد علی جناح نے پاكستان كی خارجہ پالیسی تشكیل كرتے ہوئے واضح كیا كہ‬
‫پاكستان اصولوں اور قومی مفادات كا دھیان ركھتے ہوئے دوسرے ممالك سے اپنے تعلقات كا تعین‬
‫كرے گا۔ تمام قوموں سے برادرانہ تعلقات قائم كیے جائیں گے۔ خارجہ پالیسی كے خدوخال كے‬
‫حوالے سے قائد اعظم نے قیام پاكستان كے عد فورا ً درج ذیل اقدامات اٹھائ ے ۔‬

‫اسلمی جم ہوری ہ پاكستان كی ابتدائی مشكلت‬

‫اللہ كے فضل و كرم سے اسلمی جمہوریہ پاكستان ‪14‬اگست ‪1947‬ئ كو وجود میں آ گیا لیكن‬
‫كانگرس نے پاكستان كے قیام كو دل سے كبھی قبول نہ كیا۔ لرڈ مائونٹ بیٹن اور سر ریڈ كلف نے‬
‫كانگرسی رہنمائوں كو یہ كہہ كر راضی كر لیا كہ كمزور پاكستان بعد میں ہندوستان میں ضم كیا‬
‫جا سكے گا۔ قائد اعظم كی عظیم قیادت میں پاكستانیوںنے مشكل حالت كے باوجود اپنی آزادی‬
‫كے تحفظ كا بھرپور عزم كیا۔ انہوںنے حالت كا بہادری سے مقابلہ كیا اور رفتہ رفتہ مسائل پر قابو‬
‫پا لیا۔ قوم نے مثالی جذبوں‪ ٬‬محنت اور دیانت كا زبردست مظاہرہ كیا ۔ ہندو اكثریت كے صوبوں‬
‫سے ہجرت كر كے آنے والے مسلمان خاندانوں پر جو گزری وہ ظلم كی اندوہناك داستان ہے۔ یہ‬
‫صبر استقامت اور قربانیوں كی لثانی مثال بھی ہے۔ یہ اللہ تعال ٰی كا كرم ہے كہ تمام مشكلت اور‬
‫مخالفتوں كے باوجود پاكستان بنا اور قائم و دائم ہے۔ مملكت خداداد كے ابتدائی سالوں میں جن‬
‫مسائل كا قوم كو سامنا كرنا پڑا وہ درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫ابتدائی مشكلت‬
‫‪١‬۔ ری ڈكلف ایوار ڈ كی ناانصافیاں‬
‫‪3‬جون ‪1947‬ئ كے منصوبہ كے تحت طے پایا تھا كہ پنجاب اور بنگال كے صوبوں كو مسلم اور غیر‬
‫مسلم اكثریتی علقوں میں تبدیل كر دیا جائے گا۔ مسلم اكثریتی علقے پاكستان اور باقی علقے‬
‫ہندوستان كا حصہ بنیں گے۔ علقوں كی حد بندی كے لیے ایك كمشن بنانے اور اس كی ثالثی كو‬
‫قبول كرنے پر اتفاق رائے ہوا ۔ ایك برطانوی ماہر قانون سر ریڈ كلف كو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔‬
‫سر ریڈ كلف نے لرڈ مائونٹ بیٹن كے دبائو میں آ كر غیر منصفانہ تقسیم كی۔ مسلم اكثریت كے‬
‫بعض تسلیم شدہ علقوں كو ایك سازش كے تحت ہندوستان میں شامل كر دیا گیا۔ آبادی كے‬
‫مطابق طے پانے والے نقشے اور اس پر كھینچی گئی لكیر كو بدل دیاگیا۔ اس امر كا اعتراف ریڈ‬
‫كلف كے پرائیویٹ سیكرٹری نے كیا اور اب تو یہ ایك تاریخی حقیقت مانی جا چكی ہے كہ نا‬
‫انصافی كرتے ہوئے بعض اہم ترین علقوں سے پاكستان كو محروم كر دیا گیا ۔ ضلع گوردارسپور‬
‫كی تین تحصیلیں گورداسپور‪ ٬‬پٹھانكوٹ‪ ٬‬اور بٹالہ كے علوہ ضلع فیروز پور كی تحصیل زیرہ اور‬
‫بعض دوسرے علقے بھارت كو سونپ دیے گئے۔ گورداسپور كے علقوں كو ہندوستان میں شامل‬
‫كرنے سے ریاست جموں و كشمیر كا راستہ ہندوستان كو دے دیا گیا ۔‬

‫سر ریڈ كلف كے ایوارڈ سے نہ صرف مسلمانوں كو ان كے علقوںا ور حقوق سے محروم كیا گیا‬
‫بلكہ دونوں قوموں كے درمیان مستقل مخالفت كا بیج بو دیا گیا۔ آج مسئلہ كشمیر موجود ہے‬
‫اوردونوں ملك اب تك ‪1948‬ئ ‪1965 ،‬ئ اور ‪ 1971‬ئ كی تین بڑی جنگیںلڑ چكے ہیں ۔‬

‫‪٢‬۔ انتظامی مشكلت‬


‫پاكستان كے علقوں میں سركاری ملزمتوں پر فائز غیر مسلم بڑی تعداد میں ہندوستان چلے‬
‫گئ ے ۔ دفاتر خالی ہو گئ ے ۔ دفاتر میں فرنیچر‪ ٬‬سٹیشنری‪ ٬‬ٹائپ رائٹروں وغیرہ كی كمی تھی ۔ اكثر‬
‫دفاتر نے كھلے آسمان تلے كام كا آغاز كیا ۔ ہندو ہندوستان جاتے ہوئے دفتری ریكارڈ تباہ كر گئ ے ۔‬
‫اس كی وجہ سے دفاتر میں كام كرنے میں بڑی دشواریاں پیش آئیں ۔‬

‫‪٣‬۔ م ہاجرین كی آمد‬


‫قیام پاكستان كے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں نے اپنے نئے وطن آنے كا فیصلہ كیا۔ لكھوں‬
‫خاندان اپنا سب كچھ چھوڑ چھاڑ كر پاكستان كی طرف روانہ ہوئے۔ جو مسلمان بھارت میں رہنا‬
‫چاہتے تھے انہیں ہندوئوں اور سكھوں نے قتل و غارت كا نشانہ بنایا۔ بچے كھچے خاندانوں كو‬
‫مجبورا ً پاكستان كی طرف ہجرت كرنا پڑی ۔ دوران ہجرت لكھوں افرا د حملو ں میں شہید ہوئ ے ۔‬
‫پاكستان تك پہنچنے والے افراد كی تعداد تقریبا ً ایك كروڑ پچیس لكھ سے تجاوز كر گئی۔ یہ بے گھر‬
‫لٹے پٹے پریشان حال مسلمان پاكستان آئے تو انہیں عارضی كیمپوں میں ركھا گیا ۔ ان كی خوراك‬
‫رہائش ادویات اور دیگر ضروریات كی فراہمی كے لیے حكومت پاكستان نے تیزی سے منصوبہ‬
‫بندی كی ۔ مقامی عوام نے اپنے مسلمان بھائیوں كو خوش آمدید كہا ۔ حكومت اور عوام كی‬
‫مشتركہ كوششوں سے مہاجرین كی ضروریات پوری كی گئیں۔ تعدا د اتنی زیادہ تھی كہ كیمپوں‬
‫میں گنجائش نہ رہی۔ لوگوں كو جہاں سرچھپانے كو جگہ ملتی ڈیرے ڈال لیتے۔ مہاجرین كی بحالی‬
‫ایك بہت بڑا چیلنج تھا۔ دنیا میں ہجرت كی اتنی بڑی تعداد كا واقعہ كہیں رونما نہیں ہوا تھا۔ ہجرت‬
‫كے دوران ایسے واقعات بھی ہوئے كہ مسلمانوں كی قتل و غارت میں بھارتی فوج ہندوئوں اور‬
‫سكھوں كے ساتھ شامل تھی ۔‬

‫‪٤‬۔ اثاثوں كی تقسیم‬


‫برصغیر كی تقسیم كے بعد اثاثوں كی تقسیم كی پاكستان اور بھارت میں متناسب تقسیم كا‬
‫تقاضا تھا لیكن یہاں بھی بھارتی حكمرانوں نے ناانصافی سے كام لیا۔ وہ بہانے بہانے سے پاكستان‬
‫كو اس كا حصہ دینے سے گریز كرتے رہے۔ وہ پاكستان كی معیشت تباہ كرنے كے لیے ہر ممكن حربے‬
‫استعمال كر رہے تھے۔ انہوںنے پاكستان كے حصے كے اثاثے روك لیے۔ متحدہ برصغیر كے ریزرو گنك‬
‫میں تقسیم كے وقت چار بلین روپے جمع ت ھے ۔ی ہ رقم دونوں ممالك میں بانٹی جانی تھی ۔ تناسب‬
‫كے لحاظ سے پاكستان كا حصہ ‪750‬مین روپے تھا ۔ یہ حصہ دینے پر بھارت آمادہ نہیں تھا ۔ پاكستان‬
‫كی طرف سے مسلسل رابطے ور بین القوامی سطح پراپنی ساكھ قائم ركھنے كی مجبوری كی‬
‫وجہ سے بھارت نے ایك قسط میں ‪200‬ملین روپے دیے۔ باقی رقم كو روك لیا۔ بھارتی وزیرپٹیل نے‬
‫پاكستان كو كہا كہ وہ كشمیر پر بھارت كا حق تسیم كر لے تو ساری رقم ادا كر دی جائے گی ۔‬
‫پاكستان نے سودے بازی نہ كی ۔ ادھر گاندھی كو بین القوامی برادری میں شرمندہ ہونے كاخوف‬
‫تھا ۔ اس نے ساری رقم پاكستان كو ادا كرنے كو كہا ۔ مجبورا ً ‪500‬ملین روپ كی ایك قسط‬
‫پاكستان كے حوالے كی گئی ۔ بقایا ‪50‬ملین روپے ابھی تك بھارت كے ذمے واجب الدا ہیں ۔ اس‬
‫حوالے سے نومبر ‪1947‬ئ میں دہلی میں دونوں ممالك كے نمائندوں كی میٹنگ بھی ہوئی جس‬
‫میں معاہدہ ہوا اور دونوں مالك نے معاہدے كی توثیق كر دی لیكن معاہدے پر عمل درآمد ابھی تك‬
‫نہیں ہو سكا ۔‬
‫‪٥‬۔ فو ج كی تقسیم‬
‫یہ ضروری تھا كہ برصغیر كی تقسیم كے بعد فوجی اثاثوں كو دونوں ممالك میں تناسب كے‬
‫مطابق تقسیم كر دیا جاتا لیكن ا س معاملے میں بھی انصاف سے كام نہ لیا گیا۔ بھارت پاكستان‬
‫كو كمزور ركھنا چاہتا تھا تاكہ وہ بھارت كاحصہ بننے پر مجبور ہو جائے۔ تقسیم سے پہلے متحدہ‬
‫ہندوستان كاكمانڈر بھی چاہتاتھا كہ افواج كو بانٹا نہ جائے اور انہیں ایك ہی كمانڈ كے تحت ركھا‬
‫جائے۔ مسلم لیگ نے اس كے موقف كو تسلیم نہ كیا اور اصرار كیا كہ فوجی وسائل اور اثاثے‬
‫دونوںممالك میں بانٹ دیے جائیں۔ حكومت برطانیہ كو یہ مطالبہ ماننا پڑاا اور پاكستان میں تمام‬
‫فوجی اثاثے ‪64‬فیصد اور ‪36‬فیصد كے تناسب سے تقسیم كر دیے جائیں۔ متحدہ بھارت میں‬
‫آرڈیننس فیكٹریاں كام كر رہی تھیں ارو ان میں سے ایك بھی ایسی نہیں تھی جہ جسے پاكستان‬
‫كو ملنے والے علقوں میںبنایا گیا ہو۔ بھارتی كابینہ آرٹیننس فیكٹری تو كیا اس كی مشینری كا‬
‫كوئی پرزہ بھی پاكستان میںمنتقل كرنے پر آمادہ نہ تھی۔ كافی تكرار كے بعد طے پایا كہ آرڈیننس‬
‫فیكٹریوں كے حوالے سے پاكستان كو ‪60‬ملین روپے دیے جائیں گے تاكہ وہ اپنی آرڈیننس فیكٹری‬
‫قائم كر سكے۔ عام فوجی اثاثوں كی تقسیم كا جو فارمول بھی بنایا گیا حكومت ہند نے اسے‬
‫مسترد كر دیا ۔ تنگ آ كر كمانڈر انچیف نے اپنے عہدے سے استعف ٰی دے دیا۔ جس سے حالت مزید‬
‫پیچیدہ ہو گئے۔ یوں پاكستان كو اپناجائز حصہ لینے سے محروم كر دیا گیا۔ جہاں تك افواج كا تعلق‬
‫تھا ہر فوجی كو اختیار دیا گیاا كہ وہ دونوں میں سے جس ملك كی فوج كا حصہ بننا چاہیں بن جائے‬
‫ظاہر ہے كہ مسلمان فوجیوں نے پاكستان سے وابستگی كا اظہار كیا ۔‬
‫‪٦‬۔ دریائی پانی كا مسئل ہ‬
‫تقسیم برصغیر نے دریائوں كے قدرتی بہائو پر اثرڈال۔ بین القوامی قانون كے مطابق دریا كا‬
‫قدرتی راستہ برقرار ركھا جاتا ہے اور جن دو یا زیادہ ممالك میں سے دریا گزرتا ہے وہ اس كے پانی‬
‫سے مستفید ہوتے ہیں۔ كوئی ملك دریا كا رخ بدل كر كسی دوسرے ملك كو آبی وسیلہ سے‬
‫محروم نہیں كر سكتا۔ برصغیر میں اس حوالے سے بھی بحران پیدا ہواا۔ پنجاب اور سندھ كو‬
‫دریائے سندھ اور اس كے معاون دریا جہہلم چناب راوی ستلج اور بیاس سیراب كرتے آ رہے ہیں ۔‬
‫پنجاب دو حصوںمیں منقسم ہوا تو دریائوں كی بھی تقسیم عمل میں آ گئی ۔ راوی ستلج اور‬
‫بیاس بھارت كی سرزمین سے گزر كر پاكستان میں داخل ہوتے ہیں۔ بھارت سے انصاف كی توقع‬
‫نہیں تھی۔ ا س نے اپریل ‪1948‬ئ میں مغربی پنجاب كو آنے واالے پانی كا راستہ روك لیا۔ یہ قدم‬
‫پنجاب اور سندھ كی معیشت كو تبا ہ كرنے كے مترادف تھا كیونكہ ا ن علقوں میں فصلوں كی‬
‫آبیاری كا یقینی ذریعہ دریا ہی ہیں۔ بارشیں بہت كم ہوتی ہیں۔ بھارت كی طرف سے پانی كی‬
‫بندش سوكھے اور قحط كا باعث بن سكتی تھی ۔ پاكستان كی زراعت كا دارومدار مكمل طور پر‬
‫دریائی پانی پر ہے۔ ایك بڑی زیادتی ریڈكلف كی سربراہی میں بننے والے كمیشن نے كی۔ اس نے‬
‫سرحد كا تعین كرتے وقت اكثر ہیڈ وركس مسلم اكثریتی علقو ں میں ہونے كے باوجود بھارت كے‬
‫حوالے كر دیے یہ سازش پاكستانی زراعت اور معیشت كی تباہی كا سبب بن سكتی تھی۔ بھارت‬
‫نے دریائے ستلج پر ڈیم بنانے كا فیصلہ كیا تو پاكستان نے سخت احتجاج كیا۔ اگر بند بنتا تو تباہی‬
‫اور قحط كا سامنا كرنا پڑتا ۔ اس لیے عالمی برادری كو اپنے مسئلہ سے آگاہ كیا گیا ۔‬
‫عالمی بینك نے صورت حال كا جائزہ لے كر پاكستان كی مدد كا اعلن كیا ۔ كثیر رقوم مختص كی‬
‫گئیں اور كافی غور و فكر كے بعد عالمی بینك كی مدد سے دونوں ممالك میں ایك معاہدہ سندھ‬
‫طاس طے پا گیا۔ تین دریائوں ﴿راوی ستلج اور بیاس﴾ پر بھارت كا حق مان لیا گیا اور دوسرے تین‬
‫دریا ﴿سندھ جہلم اور چناب﴾ پاكستان كو سونپ دیے گئے منگل اور تربیل دو بڑے ڈیم اورسات لنك‬
‫كینال بنائے جانے كا منصوبہ بنا۔ سندھ طاس اس منصوبہ كی بدولت دریائی پانی كا مسئلہ كافی‬
‫حد تك حل ہو گیا اور حكومت پاكستان كی فكر دور ہوئی ۔‬

‫‪٧‬۔ ریاستوں كا تنازع ہ‬


‫انگریزوں كے دور حكومت میں ‪635‬ریاستیں تھیں جہاں نواب اور مہاراجے داخلی طور پر‬
‫حكمران تھے۔ ان پر كنٹرول برطانوی حكومت كو حاصل تھا ریاستوں میں برصگیر كی كل آبادی‬
‫كا ایك چوتھائی رہائش پذیرتھاا ااور ایك تہائی علقے پر یہ مشتمل تھیں ۔ آزادی كی منزل قریب‬
‫آئی تو ریاستوں كے مسقبل كے بارے میں بھی سوچا جانے لگا۔ كابینہ مشن پلن كے حوالے سے‬
‫ریاستوں سے حكمرانوں كو كہا گیا كہ وہ مستقبل میں اپنی حیثیت اور مفادات كے تحفظ كے لیے‬
‫دستور سازی كے عمل میں شریك ہوں۔ حكمرانوں كو كابینہ مشن نے یہ بھی تلقین كی تھی كہ وہ‬
‫فیصلہ كرتے وقت اپنے عوام كی پسند اور مذہبی رشتوں كو دھیان ركھیں ۔‬
‫حكومت برطانیہ نے ‪20‬فروری ‪1947‬ئ كو انڈیا اور انڈین ریاستوں پر اپناكنٹرو ل اٹھا لینے كا‬
‫فیصلہ كیا ۔ اسی اعلن كے تحت ریاستوں نے ہندوستان یا پاكستان سے وابستہ ہونے كافیصلہ كر لیا ۔‬
‫صرف درج ذیل ریاستوں خی طرف سے كوئی قدم فوری طور پر نہ اتھایا گیا ۔ ان ریاستوں پر‬
‫بھارتی افواج نے فوج كشی كر كے قبضہ كر لیا ۔‬

‫تین جون ‪ 1947‬ك ے منصوب ے ك ے ا ہم نكات‬


‫حكومت نے تقسیم برصغیر كا فیصلہ كر لیا۔ دومملكتوں كے قیام كا اصولی موقف تسلیم كر كے‬
‫حكومت نے تفاصیل طے كیں اور مختلف صوبوں اور ریاستوں كے مستقبل كے بارے میں لئحہ‬
‫عمل مرتب كیا ۔‬

‫‪١‬۔ غیر مسلم اكثریتی صوب ے‬


‫آسام۔ یوپی۔ سی پی۔ مدراس ۔ بمبئی ﴿ممبئی﴾ بہار اور اڑیسہ جیسے صوبے جہاں مسلمانوں كی‬
‫تعداد غیر مسلموں كے مقابلے میں كم تھی ہندوستان میں شامل كرنے كا فیصلہ كیا گیا ۔‬
‫‪٢‬۔ صوب ہ پنجاب‬
‫صوبہ پنجاب كو دو حصوں میں تقسیم كرنے كا فیصلہ ہوا ۔ مسلم اكثریتی علقوں كو پاكستان اور‬
‫غیر مسلم اكثریتی علقوں كو ہندوستان میں شامل ہونا تھا۔ مسلم اكثریتی علقوںكا تعین كرنے‬
‫كے لیے ایك كمشن پلن بنانے كا اعلن كیا گیا ۔‬

‫‪٣‬۔ صوب ہ بنگال‬


‫صوبہ بنگال كے مستقبل كا فیصلہ بھی پنجاب كے انداز میں كیا گیا۔ مسلم اكثریتی علقے مشرقی‬
‫بنگال اور مسلم اقلیتی علقے مغربی بنگال نامی صوبے میں شامل ہونا ت ھے ۔ مشرقی بنگال كو‬
‫پاكستان میں شامل كرنے كا فیصلہ كیا گیا ۔‬

‫‪٤‬۔ صوب ہ سند ھ‬


‫صوبہ سندھ كے ممبران اسمبلی كو حق دیا گیا كہ وہ پاكستان یا ہندوستان میں سے جس ملك میں‬
‫اپنے صوبہ كو وابستہ كرنا چاہیں كر لیں ۔‬

‫‪٥‬۔ بلوچستان‬
‫بلوچستان كو ابھی مكمل صوبائی درجہ نہیں مل تھا۔ طے پایا كہ وہاں شاہی جرگہ بلیا جائے گا اور‬
‫نیز كوئٹہ كی میونسپل كمیٹی كے اركان كی رائے لی جائے گی ان كی مرضی كے مطابق‬
‫بلوچستان كے مستقبل كا فیصلہ ہو گا ۔‬

‫‪٦‬۔ سل ہٹ‬
‫آسام كا ضلع سلہٹ مسلم اكثریتی تھا وہاں كے عوام نے مسلم لیگ كا بھرپور ساتھ دیاتھا ۔ جون‬
‫‪1947‬ئ كے منصوبے میں طے پایا كہ ایك ریفرنڈم كے ذریعے عوام كو موقع دیا جائے گا كہ وہ‬
‫ہندوستان یا پاكستان میں سے كسی ایك كے ساتھ ملنے كا فیصلہ كر لیں ۔‬

‫‪٧‬۔ صوب ہ سرحد‬


‫شمالی مغربی سرحدی صوبہ كے عوام كو ایك ریفرنڈم كے ذریعے سے یہ فیصلہ كرنے كا اختیار دیا‬
‫گیا كہ وہ پاكستان یا ہندوستان میں سے كسی ایك كا حصہ بن جائیں ۔‬

‫‪٨‬۔ ریاستیں‬
‫برصغیر میں ‪635‬ریاستیں تھیں جہاں نواب اور راجے حكومت كر رہے تھے۔ وہ داخلی طور پر‬
‫بااختیار تھے لیكن انہیں خارجی اقتدار اعل ٰی حاصل نہیں تھا۔ ہر ریاست كو حق دیا گیا كہ وہ دونوں‬
‫ممالك میں سے جس سے چاہیں الحاق كر لیں۔ ایسا كرتے وقت ہرریاست اپنی جغرافیائی حیثیت‬
‫اور مخصوص حالت كو پیش نظر ركھے گی ۔‬
‫تین جون ‪ 1947‬كا منصوب ہ‬
‫لر ڈ مائونٹ بیٹن كا تقرر‬
‫لرڈ ویول بطوروائسرائے نہ تو ویول پلن كو كامیاب بناسكا اور نہ ہی كابینہ مشن پلن كی كامیابی‬
‫سے ہمكنار ہوا۔ كانگرس كی خوشنودی حاصل كرنے كی كوشش میں آدھے كابینہ مشن پلن پر‬
‫عمل درآمد كرنے كی كوشش كی یعنی صوبوں كے گروپ نہ بنانے اور عبوری حكومت و آئین‬
‫سازی كے كامو ں پر عمل درآمد شروع كر دیا۔ قائد اعظم نے مصلحتا ً عبوری حكومت میں تو‬
‫مسلم لیگ كو شریك ہونے كی اجاز ت دے دی لیكن انہوںنے آئین ساز اسمبلی كے اجلسوں كا‬
‫بائیكاٹ كرنے كا فیصلہ كیا ۔ قائد اعظم پورے پلن پر عمل درآمد چاہتے ت ھے ۔ اس طرح آئین سااز‬
‫كا عمل جاری نہ ہو سكا اور جو تعطل پیدا ہوا اس سے مایوس ہو كر حكومت برطانیہ نے نئی راہ‬
‫اختیار كرنے كا فیصلہ كر دیا ۔‬
‫برطانوی وزیر اعظم نے ‪20‬فروری ‪1947‬ئ كو اعلان كیا كہ برصغیر سے برطانوی راج جون‬
‫‪1948‬ئ تك ختم ہو جائے گا۔ اقتدار كی منتقلی كے آخری مرحلے پر عمل درآمد كے لیے برطانوی‬
‫حكومت نے لرڈ ویول كی جگہ لرڈ مائونٹ بیٹن كو وائسرائے بنا كر بھیجا ۔‬
‫سیاسی قائدین س ے مذاكرات‬
‫مائونٹ بیٹن نے آخری وائسرائے كی حیثیت سے اختیارات سنبھالتے ہی مختلف قائدین سے‬
‫ملقاتین شروع كر دیں۔ قائد اعظم كا موقف حقائق اور اصولوںپر مبنی تھا۔ وہ پاكستان سے كم‬
‫كسی اور حل كو قبول كرنے پر آمادہ نہ ت ھے ۔ ‪ 46-1945‬كے انتخابات نے ان كے نقطہ نظر كو‬
‫بالكل واضح ثابت كر دیا تھا۔ وائسرائے كو یقین ہو گیا كہ وہ كسی صورت تخلیق پاكستان كو نہ‬
‫روك سكے گا اور متحدہ ہندوستان كا خواب بھی پورا نہیں ہو گا۔ اس لیے مائونٹ بیٹن نے‬
‫كانگرسی لیڈروںكو تقسیم پر آمادہ كر لیا۔ اندرون خانہ انہیں باور كرایا كہ ایسا كمزور اور كٹا‬
‫پھٹاپاكستان بنایا جائے گا جو زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سكے گا۔ آنے والے دنوں میں اس نے اپنا وعدہ‬
‫پورا كر دكھایا لیكن خدائے ذوالجلل كے كرم سے پاكستان بنا اور قائم بھی رہا ۔ پاكستان كو ختم‬
‫كرنے كی ناپاك كانگرسی عزائم ناكام ہوئے۔ مائونٹ بیٹن اور نہرو كی سازشیں نہ پاكستان كو‬
‫بننے سے روك سكیں اورنہ اسے بعد ازاں انڈین یونین میں ضم كرنے میں كامیاب ہوئیں ۔‬

‫مائونٹ بیٹن نے برصغیر كو آزادی دینے كا منصبوبہ تیار كیا۔ دونوں بڑی جماعتوں سے مثبت رویہ‬
‫كی یقین دہانی لے كر منصوبے كو برطانوی حكومت سے منظور كروایا ۔ ‪3‬جون ‪ 1947‬ئ كے‬
‫منصوبے كی تفصیل درج ذیل ہے ۔‬

‫جون ‪1947‬ئ ك ے منصوب ے پر عمل‬


‫غیر مسلم اكثریتی صوبے تو ہندوستان كا حصہ بننے ہی تھے۔ ان كے بارے میں كوئی ایسا مسئلہ‬
‫نہیں تھا اسی لیے تمام غیر مسلم اكثریتی صوبے ہندوستان كا حصہ بنا دیے گئ ے ۔‬
‫سلہٹ میں ریفرنڈم ہوا۔ عوام كی بہت بڑی اكثریت نے پاكستان كے حق میں فیصلہ كیا تو ضلع‬
‫سلہٹ كو مشرقی پاكستان سے ملحق كر دیا گیا ۔‬
‫سندھ كی اسمبلی كے اركان نے بہت بڑی اكثریت كے ساتھ پاكستان میں شركت كے حق میں‬
‫ووٹ دی ے ۔‬
‫بلوچستان میں شاہی جرگے اور كوئٹہ میونسپلٹی كے اركان نے پاكستان كے حق میں اپنے ووٹ‬
‫دی ے ۔ اس طرح بلوچستان پاكستان كا حصہ بنا ۔‬
‫صوبہ سرحد میں عوام سے براہ راست ریفرنڈم كے ذریعے رائے مانگی گئی تھی۔ انہوںنے‬
‫پاكستان كے حق میں رائے دی ۔ اس طرح یہ صوبہ بھی پاكستان میں شامل ہو گیا ۔‬
‫پنجاب اور بنگال دونوںصوبوں كوقسیم كرنے كا فیصلہ ہونا تھا۔ ا س مقصد ك لیے سر ریڈ كلف‬
‫ایك انگریز وكیل كو ثالث مقرر كیا گیا۔ اس كی مدد كے لیے مسلم لیگ اور كانگرس نے دو دو‬
‫وافر افراد كو نامزد كیا۔ ثالثی حد بندی كمشن نے پنجاب اور بنگال دونوں صوبوںكو تقسیم كر‬
‫دیا۔سر ریڈ كلف نے بددیانتی سے كام لیتے ہوئے كانگرسی رہنمائوں كے اشاروں پر فیصلے كیے اور‬
‫بعض مسلم اكثریتی علقوں سے پاكستان كو محروم كر دیا۔ چونكہ اسے ثاالث تسلیم كیا جا چكا‬
‫تھا اس لیے قائد اعظم نے ریڈ كلف ایوارڈ كو پوری طرح مان لیا ۔‬
‫ریاستو ں میں سے بہت بڑی تعداد نے ازخود دونوں میں سے كسی ملك سے الحاق كر لیا ۔‬
‫ریاست جموں و كشمیر ریاست حیدر آباد دكن‪ ٬‬ریاست جونا گڑھ‪ ٬‬منگرول اورریاست مناوادركا‬
‫فیصلہ نہ ہو سكا ۔ انڈیا نے بعد ازاں فوج كشی كر كے ان ریاستوں پر قبضہ كر لیا ۔ ریاست جموں و‬
‫كشمیر كے علوہ باقی ریاستوں میں مسلمان اقلیت میں تھے اور اس لیے پاكستان نے صرف‬
‫مسلم اكثریت ریاست جموں و كشمیر كے حوالے سے عوامی حقوق كا سوال اٹھایا ۔ پاكستان كا‬
‫موقف یہ رہا كہ ہر ریاست كے عوام كے حق خو د ارادیت كا احترام ہونا چاہیے اور ان كی مرضی‬
‫سے ریاست كے مستقبل كے بارے میں فیصلہ كیا جانا چاہی ے ۔‬

‫خطب ہ حجت ہ الوداع‬


‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‪25‬ذی القعدہ ‪10‬ہجری كو ایك لكھ چالیس ہزار جانثاروں‬
‫كے ساتھ روانہ ہوئے ‪4‬ذوالحج ‪10‬ہجری كو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مكہ پہنچ گئے۔ اور اس كے‬
‫بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج ادا فر مایا ۔‬
‫آخری خطب ہ‬
‫حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میدان عرفات میں جبل الرحمت كے قریب كھڑے ہو‬
‫كر آخری خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫‪٫٫‬اے لوگو میرے الفاظ غور سے سنو كیونكہ میں یہ نہیں جانتا كہ اگلے سال بھی میں آپ كے‬
‫درمیان ہوں گا۔ یاد ركھیے كہ آپ نے اپنے خدا كے سامنے پیش ہونا ہے جو آپ سے آپ كے كاموں كا‬
‫حساب لے گا ۔‬
‫اے لوگو آاپ كو اپنی بیویوں پر حق حاصل ہے اور ان كے ساتھ نرمی سے پیش آئو۔ یقینا وہ اللہ‬
‫كے حك سے آپ كی حفاظت میں ہیں اور اللہ كے حكم سے آپ پر حلل ہیں ۔‬
‫اپنے غلموں كو وہی كھلئو اور وہی پہنائو جو تم خود اپنے لیے كھانااورپہننا پسند كرتے ہو۔ اگر وہ‬
‫كوئی غلطی كریں تو اور آپ انہیں معاف كرنے كے لیے تیار نہ ہوں تو تب آزاد كر دیں اور ان كے‬
‫ساتھ سختی سے مت پیش آئیں ۔‬
‫اے لوگو میرے الفاظ سن لو اور یاد ركھو كہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ جب تم‬
‫آپس میں بھائی بھائی ہو تو اپنے بھائی كا مال ت لو جس كو وہ خوشی سے دینا نہ چا ہے ۔ ناانصافی‬
‫كرنے سے اپنے آپ كو دور ركھو ۔‬
‫اللہ كی دن میں پانچ بار عبادت كرو۔ ماہ رمضان میں روزے ركھو۔ اپنے مال پر زكوۃ دو اور اللہ كے‬
‫گھر كا حج ادا كرو ۔‬
‫وہ لو گ جو آج موجود ہیں ان كو بتائیں جو آج موجود نہیں ہیں‪٬٬‬۔‬
‫خلص ہ‬
‫خطبہ حجتہ الوداع انسانی حقوق كا ایك مسلمہ بین القوامی چارٹرہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وآلہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫‪i‬۔ تمام كائنات اللہ تعالی ٰ كی ہے ۔‬
‫‪ii‬۔ تمام لوگ حضرت آدم كی اولد ہیں ۔ تمام انسان برابر اور ایك دوسرے كے بھائی ہیں ۔ كسی‬
‫كو كسی پر فوقیت حاصل نہیں ۔‬
‫‪iii‬۔ ہر فرد كی زندگی جائیداد اور عزت دوسرے كے لیے مقدس ہے ۔‬
‫‪iv‬۔ عورتوں كے حقوق مسلمہ ہیں۔ ان كے ساتھ نرمی كا سلوك كیا جائے۔ عرب معاشرہ میں‬
‫عورت كو پہلی دفعہ حقوق دیے گئے اور بلند درجہ عطا فرمایا گیا ۔‬
‫‪v‬۔ خطبہ میں غلموں كے حقوق كو بھی محفوظ كیا گیا اورلوگوں سے كہا گیا كہ ان كے لیے تم‬
‫وہی پسند كرو جو تم اپنے ساتھ پسند كرتے ہو ۔‬
‫‪vi‬۔ گورے اور كالے پر اور عربی كو عجمی پر كوئی فوقیت حاصل نہیں یعنی گورا كالعربی اور‬
‫عجمی آپس میں برابر ہیں ۔‬
‫ا ن تمام حقائق كو سامنے ركھتے ہوئے ہم یہ كہہ سكتے ہیں كہ خطبہ حجتہ الوداع عالمی انسان‬
‫حقوق كا ایك مكمل او رجامع چارٹر ہے جس میں تمام انسانوں كو برابر كردیا گیا ہے۔ ہر قسم‬
‫كی اونچ نیچ ختم كر دی گئی ہے ۔ اور غلام كو مالك كے برابر حقوق دیے گئے ہیں ۔‬
‫شمل ہ كانفرنس ‪1945‬‬
‫پس منظر‬
‫‪1942‬ئ میں كرپس مشن كی ناكامی كے بعد انڈین نیشنل كانگرس نے حكومت برطانیہ پر دبائو‬
‫ڈالنا شروع كر دیا كہ وہ ہندوستان سے اپنا اقتدار ختم كر دے اور اختیارات اكثریتی جماعت كو‬
‫منتقل كر دے۔ گاندھی نے اپنی تحریكوں كو تیز تر كر دیا۔ عوام كو كہا گیا كہ وہ عدالتوں اور‬
‫دفتروں كا بائیكاٹ كریں۔ سول نافرمانی كی تلقین كی گئی ۔ جلسوں اور جلوسوں كے ذریعے‬
‫قوت كا زبردست مظاہرہ جاری رہا۔گاندھی نے ہندوستان چھوڑ دو تحریك كا آغاز كیا۔ گاندھی اور‬
‫اس كی جماعت انڈین نیشنل كانگرس توقعات لگائے بیٹھی تھی كہ جنگ میں برطانیہ كو شكست‬
‫ہو گی ۔ ا س نے مسلم لیگ كو نظر انداز كرتے ہوئے حكومت كو جھكانے كا ہر حربہ استعمال كیا ۔‬
‫توقعات پوری نہ ہوئیں ۔ بتدریج جنگ كا پانسہ برطانیہ اور اس كے اتحادیوں كے حق میں پلٹنے لگا ۔‬
‫حالت بدل گئے تو كانگرس نے مسلم لیگ كو ساتھ مل كر اپنے دبائو كو بڑھانا چاہا۔ گاندھی جناح‬
‫مذاكرات ہوئے۔ گاندھی نے جناح كو مشتركہ جدوجہد میں شامل ہونے كی دعوت دی لیكن وہ ایسے‬
‫جال میں پھنسنے ولے نہیںت ھے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاكستان كی تخلیق كے علوہ كئی‬
‫دوسرے فارمولے پر غور كرنے سے انكار كر دیا ۔‬
‫ویول پلن‬
‫لرڈ ویول ہندوستان میں برطانوی وائسرائے تھا۔ اس نے برصغیر كے مسائل پر غوركرنے كے لیے‬
‫ایك كانفرنس بلنے كا اعلن كیا تاكہ مستقبل كے آئین حكومت كی تشكیل اور اسمبلیوں كے چنائو‬
‫كے متعلق بنیادی فیصلے كیے جائیں ۔ ویول پلن میں درج ذیل نكات شامل ت ھے ۔‬
‫‪١‬۔ مستقبل كا دستور برصغیر كی تمام سیاسی جماعتوں كی مرضی سے بنایاجائے گا ۔‬
‫‪٢‬۔ گورنر جنرل كی انتظامی كونسل بنائی جائے گی اور كونسل میں برصغیر كی سیاسی قوتوں‬
‫كے نمائندے شریك كیے جائیںگ ے ۔ ان میں چھے ہندو اور پانچ مسلمان ہوںگ ے ۔‬
‫‪٣‬۔ گورنر جنرل اپنی انتظامی كونسل كی صدارت كرے گا اور كمانڈر انچیف كے علوہ دوسرے‬
‫تمام اركان كونسل كا تعلق برصغیر سے ہو گا ۔اركان كا چنائو گورنر جنر ل خود كرے گا ۔‬
‫‪٤‬۔ مركز میں انتظامی كونسل كو تشكیل دینے كے بعد تمام صوبوں میں بھی انتظامی كونسلیں‬
‫منظم كی جائیں گی ۔‬
‫شمل ہ كانفرنس كا انعقاد‬
‫ویول پلن پر غوركرنے كے لیے مختلف سیاسی جماعتوں كے اركان شملہ كانفرنس میں شمولیت‬
‫كی دعوت دی گئی ۔ كانفرنس ‪1945‬ئ میں صحت افزا مقام شملہ میں بلئی گئی ۔ اس میں‬
‫شریك ہونے والے اركان یہ تھے‪:‬‬
‫‪١‬۔ كانگرس‪ :‬پن ڈت ن ہرو ابو الكلم آزاد بلدیو سنگ ھ۔‬
‫‪٢‬۔ مسلم لیگ‪ :‬قائد اعظم ‪ ٬‬لیاقت علی خاں‪ ٬‬سردار عبدالرب نشتر۔‬
‫‪٣‬۔ تمام صوبوں ك ے وزرائ ے اعلیٰ۔۔‬
‫‪٤‬۔ یونینسٹ اور دیگر پارٹیوں ك ے نمائند ے۔‬
‫شمل ہ كانفرنس كی ناكامی‬
‫بڑی توقعات كے ساتھ تمام مندوبین نے شملہ كانفرنس میں شركت كی۔ كانگرس خوش تھی كہ‬
‫اسے حكومت سازی كا موقع ملنے وال تھا۔ البتہ اس ن كانفرنس میں شركت سے پہلے ہی‬
‫وضاحت كر دی تھی كہ وہ برصغیر كی تقسیم كے كسی فارمولے كو نہیں مانے گی ۔ حكومت‬
‫سازی پر گفتگو كاآغاز ہوا ۔ پانچ نامزد مسلمان وزرا كی نا مزدگی كا مسئلہ پیش ہوا ۔ تو قائد‬
‫اعظم كا موقف تھا كہ پانچوں مسلم وزرا كو مسلم لیگ نامزد كرے گی۔ كانگرس چاہتی تھی كہ‬
‫ایك مسلمان نشست اسے ملے اور ا س پر ابو الكلم آزاد كا تقر ر ہو۔ قائد اعظم ڈٹ گئے كیونكہ‬
‫وہ صر ف اور صرف مسلم لیگ كو مسلمانوں كی واحد نمائندہ جماعت منوانا چاہتے ت ھے ۔‬
‫وائسرائے نے ابو الكلم كی بجائے پنجاب كے وزیر اعل ٰی اور یونینسٹ پارٹی كے صدر ملك خضر‬
‫حیات كی نامزدگی پر قائد اعظم كو راضی كرنا چاہا لیكن وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ وہ چاہتے‬
‫تھے كہ حكومت اور كانگرس صرف مسلم لیگ كو مسلمانوں كی نمائندگی كرنے كا حق دارمان‬
‫لیں ۔ تینوںفریق متفق نہ ہو سكے اور شملہ كانفرنس كوئی نتیجہ اخذ كیے بغیر ختم ہو گئی ۔‬
‫كانفرنس كی ناكامی كا ذم ہ دار‬
‫كانگرس نے قائد اعظم كو شملہ كانفرس كی ناكامی كا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ویول نے بھی قائداعظ‬
‫كے بے لچك رویے پر تنقید كی۔ قائد اعظم نے اخباری بیان میں كہا كہ شملہ كانفرنس میں پیش‬
‫ہونے وال ویول پلن دراصل وائسرائے اور گاندھی كا پھیلیا گیا مشتركہ جال تھا ۔ اگر مسلم لیگ‬
‫پلن قبول كر لیتی تو اسے پاكستان كے حصول میں كبھی كامیابی نہ ہوتی ۔‬
‫بظاہر نتیجہ نكالجا سكتا ہے كہ قائد اعظم كے سخت اور غیر لچك دار رویے كی وجہ سے بات آگے‬
‫نہ بڑھ سكی لیكن آنے والے سال میں ہونے والے عام انتخابات ‪46-1945‬كے نتائج نے ثابت كر دیا كہ‬
‫مسلمان صرف اور صرف مسلم لیگ كے ساتھ تھے۔ انہوںنے كانگرس یونینسٹ پارٹی اور مسلم‬
‫مذہبی جماعتوں كو مسترد كرتے ہوئے مسلم لیگ كو ووٹ دے كر اپنی مكمل نمائندگی كا اختیار‬
‫دے دیا انتخابی نتائج نے قائد اعظم كی فراست اور ان كے موقف كی صداقت كا ثبوت فراہم كر‬
‫دیا ۔‬
‫عبوری حكومت ‪1946‬‬
‫مناسب تو یہ تھا كہ وائسرائے مسلم لیگ كو عبوری حكومت تشكیل دینے كی دعوت دیتا كیونكہ‬
‫اس جماعت نے پورا پلن منظور كر لیا تھا۔ پلن میں درج تھا كہ ایك بھی بڑ ی جماعت آمادہ ہو‬
‫گئی تو مكمل پلن نافذ كردیا جائے گا لیكن ایسا نہ ہوا۔ وائسرائے نے انڈین نیشنل كانگرس اور آل‬
‫انڈیا مسلم لیگ دونوں كو حكومت سازی كی دعوت دی۔ پنڈت نہرو كو وزیر اعظم كاعہدہ سونپا‬
‫گیا ۔ پلن كے مطابق كانگرس اور مسلم لیگ نے بالترتیب چھے اور پانچ وزرائ نامزد كرنے ت ھے ۔‬
‫كانگرس نے فوری طور پر كابینہ بنانا شروع كر دی۔ پنڈت نہرو نے مسلم لیگ كو پانچ اركاننامزد‬
‫كرنے كی دعوت دی۔ مسلم لیگ حكومت كی بدعہدی سے مایوس اور ناراض تھی۔ وائسرائے نے‬
‫بھی مسل لیگ كو عبوری حكومت میں شامل ہونے كے لیے كہ لیكن مسلم لیگ نے اپنی ناراضگی‬
‫كا اظہار كیا۔ بات آگے نہیںبڑھ رہی تھی۔ مسلم لیگ كونسل كے اجلس میں سوچا گیا كہ ‪-1937‬‬
‫‪39‬ئ كی كانگرسی وزاروتوں كے دور كاا ری پلے نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ ہند و دوبارہ ظلم و زیادتیاں‬
‫كریں گے۔ مزد یہ بھی نظر آ رہا تھا كہ انگریز ہندوستان چھوڑنے والے تھے۔ ایسے حالت میں اگر‬
‫كانگرس كی حكومت كی اجارہ داری ہوتی تو مسلمانوں كے لیے بہت سے مسائل كھڑے ہوجاتے‬
‫حكومتی زیادتیوں كے باوجود یہ طے پایا كہ وائسرائے كی دعوت قبول كر لی جائے اور عبور ی‬
‫حكومت میںمسلم لیگ پانچ وزرائ كو بھیج د ے ۔ قائد اعظم نے وائسرائے سے بات چیت كے بعد‬
‫اس سے تعاون پر آمادگی كا اظہار كیا ۔ راست اقداام كا فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا ۔ مسلم لیگ‬
‫نے عبوری حكومت میں شریك ہو كر اپنا كردار ادا كرنے كا اعلن كر دیا ۔ پانچ لیگی وزرائ درج‬
‫ذیل ت ھے ۔‬
‫‪١‬۔ لیاقت علی خاں ‪٢‬۔ عبدالرب نشتر ‪٣‬۔ آئی آئی چندریگر ‪٤‬۔ راجہ غضنفر علی خاں ‪٥‬۔‬
‫جوگندرناتھ منڈل‬
‫جوگندر ناتھ منڈل كا تعلق اچھوت برادری سے تھا۔ مسلم لیگ نے انہیں نامزد كر كے ثابت كر دیا كہ‬
‫وہ نہ صرف مسلمانوں بلكہ اقلیتوں كے حقوق كے محافظ ہونے كا كردار ادا كر رہی ہے ۔ كانگرس‬
‫نے ایك مسلمان ابوالكلم كو كابینہ میں شامل كركے یہ كہنا چاہا كہ وہ مسلمانوں كی بھی نمائندگی‬
‫كرتی ہے ۔‬
‫كابین ہ مشن پلن ‪ 1946‬ئ‬
‫عام انتخابات مكمل ہوئے۔ ادھر برطانیہ میںلیبر پارٹی برسراقتدار آ گئی۔ وزیر اعظم لرڈ اٹلی نے‬
‫برصغیر كے مستقبل كے بارے میں سیاسی جماعتوں سے رابطہ كرنے كی غرض سے ایك‬
‫خصوصی مشن بھیجنے كا فیصلہ كیا ۔ ا مشن میں تین درج ذیل وزرائ شامل ت ھے ۔‬
‫‪١‬۔ سر سٹیفورڈ كرپس ‪٢‬۔ ای۔ وی ۔ الیگزینڈر ‪٣‬۔ سر پیتھك لرنس‬
‫مذاكرات‬
‫مشن كے اركان نے برصغیر میں آ كر مختلف سیاسی رہنمائوں سے مذاكرات كی ے ۔ گورنروں اور‬
‫اعلی سے تبادلہ خیال كیا ۔ گورنر جنرل كی آرائ بھی حاصل كیں ۔ مذاكرات‬ ‫ٰ‬ ‫صوبوں كے وزرائے‬
‫میں دونوں بڑی جماعتوں كے موقف بالكل واضح تھے۔ مسلم لیگ نے تقسیم اور تخلیق پاكستان‬
‫كو مسائل كا واحد حل قرا ر دیا جبكہ كانگرس نے واحد قوم كی بنیاد پر جنوبی ایشیا میں كسی‬
‫بھی طرح كی تقسیم كی شدید مخالفت كی۔ اس نے دو قومی نظریہ كو مسترد كیا اور پاكستان‬
‫كے تصور كو سختی سے جھٹلیا ۔‬
‫مذاكرات میںتنائو كی كیفیت بھی رہی كیونكہ مشن كو ہندوستان بھیجتے وقت وزیر اعظم برطانیہ‬
‫نے پارلیمنٹ میں بیان دیا كہ كسی اقلیت كو ویٹو پاور استعمال كرنے كی اجازت نہیں دی جائے‬
‫گی۔ اور نہ ملكی ترقی كی راہ كو بند كرنے دیا جائے گا۔ كانگرس بیان سے بہت خوش ہوئی لیكن‬
‫قائد اعظم نے بیان پر كڑی تنقید كی۔ انہوںنے وزیر اعظم كوجواب دیا اكہ مسلم لیگ مسلمانوں‬
‫كے حقوق كے تحفظ كے لیے كوشاں ہے اور وہ دو قومی نظریہ كی بنیاد پر آئینی مسائل حل كرنا‬
‫چاہتی ہے۔ قائد اعظم نے مشن سے با ت چیت كے دوران كہا كہ برصغیر ایك ملك نہیں اورنہ یہ ایك‬
‫قوم كا وطن ہے۔ مسلمان جداگانہ تشخص ركھنے والی قوم ہے جسے اپنے مستقبل كے بارے میں‬
‫تعین كرنے كاپورا پورا حق حاصل ہے ۔‬
‫كابین ہ مشن كی تجاویز‬
‫كابینہ مشن نے مذاكرات كے بعد درج ذیل تجاویز پیش كر دیں ۔‬
‫‪١‬۔ ان ڈین یونین‬
‫برصغیر كو ایك یونین كی شكل دی جائے گی۔ یونین میں كئی صوبے اور متعدد ریاستیں شامل‬
‫ہوںگی ۔ وفاق بنایا جائے گا ۔ مركز كے پاس دفاع امور خارجہ اور مواصلت كے محكمے ہوں گے ۔‬
‫باقی امور صوبوں كے حوالے كر دیے جائیں گ ے ۔ مركز كو محصولت عائد كرنے كا اختیار ہو گا ۔‬
‫‪٢‬۔ صوبائی گروپ‬
‫صوبوں كو تین گروپوں میں بانٹا جائے گا۔ تفصیل درج ذیل ہو گی‪:‬‬
‫گروپ اے‪ :‬بمبئی‪ ٬‬مدراس‪ ٬‬یوپی ۔ اڑیسہ ۔ سی پی‬
‫گروپ بی‪ :‬پنجاب ‪٬‬سرحد ‪ ٬‬سندھ‬
‫گروپ سی‪ :‬بنگا ل ‪ ٬‬آسام‬
‫یہ ایك نئی نوعیت كا وفاق ہو گا جس میں مركزی تنظیم صوبائی تنظیم اور گروپ تنظیم بنائی‬
‫جائے گی۔ مركز اور صوبوں كے اختیارات تو كابینہ مشن تجاویز میں واضح كر دیے گئے ہیں لیكن‬
‫صوبوں كی تنظیم اور ہر صوبہ كی تنظیم كے درمیان اختیارات اور امور كی تقسیم كے بارے میں‬
‫كہا گیا كہ ان كا فیصلہ صوبہ كی تنظیم اور گروپ كی تنظیم خود كرے گی ۔‬
‫صوبے اور ریاستیں مركزی قانون ساز اسمبلی اور كابینہ میں نشستیں حاصل كریںگ ے ۔ اس كا‬
‫دارومدار ان كی آباد ی پر ہو گا۔ آبادی كے تناسب كو پیش نظر ركھتے ہوئے ہر صوبہ كو نمائندگی‬
‫دی جائے گی ۔‬
‫‪٣‬۔ آئین ساز اسمبلی‬
‫صوبائی اسمبلیوں كے اركان مركزی آئین ساز اسمبلی كا چنائو كریں گ ے ۔ مركزی آئین ساز‬
‫اسمبلی پورے برصغیر كے لیے ایك آئین كی تشكیل دے گی۔ مركزی آئین بن جائے گا تو تینوں‬
‫صوبائی گروپ اپنے اپنے آئین بنائیں گ ے ۔‬
‫عبوری حكومت فوری طور پر قائم كی جائے گی۔ یہ حكومت آئین كی تشكیل تك عبوری طورپر‬
‫نظام چلئے گی ۔ عبوری حكومت میں بڑی سیاسی جماعتوں كے نمائندے شامل كیے جائیں گ ے ۔‬
‫عبوری حكومت میں شامل تمام وزرائ مقامی ہوں گے۔ كوئی انگریز كابینہ میں شامل نہیں‬
‫كیاجائے گا كابینہ انتظامی امور میںبااختیار ہو گی ۔‬
‫مركزی آئین بننے اور عارضی حكومت كے قیام كے بعد اگركوئی صوبہ ضروری سمجھے تو وہ اپنا‬
‫گروپ تبدیل كر سكے گا۔ ہر صوبے كو اپنی پسند كے صوبائی گروپ میں شمولیت كا اختیار ہو‬
‫گا ۔‬
‫‪٤‬۔ ہندیونین س ے علیحدگی‬
‫صوبوں كے تینوں گروپوں میں سے كوئی ایك یا دو صوبے یونین سے علیحدہ ہونے كا فیصلہ كرنا‬
‫چاہیں تو انہیں اس امر كی اجازت ہو گی لیكن علیحدگی كا یہ فیصلہ دس سال گزرنے كے بعد كیا‬
‫جا سكے گا۔ اس نكتہ نے گروپ بی اور گروپ سی كے مسلم اكثریتی علقوں كو حق دے دیا كہ وہ‬
‫دس سال بعدپاكستان بنا سكیں گ ے ۔ اور از خودتقسی كا عمل پورا ہو جائے گا ۔‬
‫‪٥‬۔ حق استرداد‬
‫اگر كوئی سیاسی جماعت كابینہ مشن تجاویز كو ناپسند كرتی ہے تو وہ انہیں مسترد كر سكے گی‬
‫البتہ عبوری حكومت میں شامل ہونے كا حق صرف اس سیاسی جماعت كو دیا جائے گا جو‬
‫تجاویز كو قبول كرلے گی۔ یہ نكتہ كانگرس كو خوش كرنے كے لیے مشن نے اپنی تجاویز میں‬
‫شامل كر دیا تھا۔ ان كا خیال تھا كہ مسلم لیگ كا مطالبہ ‪٫٫‬پاكستان‪ ٬٬‬نہیں مانا جا رہا اس لیے وہ‬
‫تجاویز كو رد كر دے گی۔ یوں كانگرس پلن كی منظوری دے كر بل شركت غیرے مركزی عبوری‬
‫حكومت پر قابض ہو جائے گی ۔‬
‫سیاسی جماعتوں كا رد عمل‬
‫‪١‬۔ ان ڈین نیشنل كانگرس‬
‫كانگر سی حلقوں نے فوری رد عمل كے طور پر كابینہ مشن كے پلن كو بہت پسند كیا ۔ كانگرسی‬
‫سیاست دانوں اور اخبارات نے بے پناہ مسرت كا اظہار كیا۔ كانگرس كے عام اركان گلیوں بازاروں‬
‫میں خوشیاں مناتے پھر رہے تھے۔ ایك دوسرے كومبارك باد دے رہے تھے اور كابینہ مشن پان كو‬
‫مسلم لیگ كی شكست كا نام دے رہے تھے۔ نہرو نے كہا كہ‪:‬‬
‫‪٫٫‬پلن ن ے جناح ك ے پاكستان كو دفن كر دیا ہے‪٬٬‬۔‬
‫آبزرور نے لكھا‪:‬‬
‫‪٫٫‬كانگرس كو پلن منظور كر لینا چاہیے كیونكہ یہ مسلمانوں كے خوب كو بكھیر چكا ہے‪٬٬‬۔‬
‫‪٢‬۔ مسلم لیگ‬
‫مسلم لیگ كے كاركن مایوس تھے ۔ وہ كابینہ پلن كو پاكستان مخالفوں كی فتح سمجھ رہے ت ھے ۔‬
‫ان كا خیال تھا كہ پلن میں پاكستان كا ذكرنہیں آیا اور مسلم لیگ كا مطالبہ مسترد كر دیا گیا ہے ۔‬
‫قائد اعظم نے فرمایا‪:‬‬
‫‪٫٫‬مجھے افسوس ہے كہ مشن كے پلن میں مسلمانوں كے مطالبے كو نظر انداز كر دیا گیا ہے ۔ ہم‬
‫پورے وثوق سے كہتے ہیں كہ برصغیر كے مسائل كا حل دو آزاد ریاستوں كے قیام میں مضمر ہے‪٬٬‬۔‬
‫ڈیلی ٹیلی گراف نے لكھا‪:‬‬
‫‪٫٫‬مسلمانوں سے زیادتی كی گئی ہے حالنكہ انتخابی نتائج نے صورت حال كو واضح كر دیا تھا‪٬٬‬۔‬
‫‪٣‬۔ گاندھی‬
‫كابینہ مشن پلن كے اعلن پر گاندھی نے اپنے اخباری بیان میں كہا كہ پلن كے تحت جو نظام قائم‬
‫ہوا‪ ٬‬اس میں ناپسندیدہ حصو ں كو جب بھی مقننہ چاہے گی بدل سكے گی۔ مقصد یہ كہ مقننہ كی‬
‫حاكمیت كے تصور كا بہانہ بنا كر ہندو اكثریت مقننہ میں اپنی پسند كے فیصلے كرا سكتی تھی ۔‬
‫گاندھی كے بیان نے مسلمان قوم كی مایوسی میں اور اضافہ كر دیا ۔‬
‫حتمی فیصل ے‬
‫فوری طور پر كانگرس مطمئن اور مسلم لیگ مایوس نظر آئی۔ صاف نظر آ رہا تھا كہ كانگرس‬
‫پلن كی منظوری دے گی اور مسلم لیگ كا فیصلہ اس كے برعكس ہو گا لیكن كانگرس نے‬
‫مناسب سمجھا كہ پہلے مسلم لیگ كے حتمی فیصلے كا انتظار كر لے۔ مسلم لیگ كونسل نے قائد‬
‫اعظم كو اختیار دے دیا كہ وہ جو فیصلہ كریں مناسب سمجھیں كر دیں۔ قائد اعظم نے تمام‬
‫حلقوں كی توقعاات كے برعكس كابینہ مشن پلن كو منظور كر لیا ۔ كانگرس پریشان ہو گئی ۔ اب‬
‫لیگی خوش اور كانگرسی مایوس دكھائی دینے لگے۔ قائد اعظم نے پلن كے ایك نكتے كی روشنی‬
‫میں بیان دیا كہ پلن پر عمل درآمد ہو جاتا ہے تو دس سال كے بعد مسلم اكثریتی علقوں كو‬
‫علیحدہ آزاد مملكت بنانے كا موقع مل جائے گا۔ كانگرسی لیڈر بہت الجھ گئے۔ وہ قائد اعظم كے‬
‫تدبر اور دور اندیشی اور موقف منوانے كی صلحیتوں سے آگاہ تھے۔ بڑے غور و فكر كے بعد‬
‫كانگرس نے آدھا پلن ماننے كا اعلن كردیا۔ وہ عبوری حكومت كی تشكیل اور آئین سزی پر تو‬
‫راضی ہو گئی لیكن اس نے صوبوں كی گروپ بندی كو مسترد كر دیا ۔‬
‫مسلم لیگ اور قائد اعظم نے وائسرائے اور كابینہ مشن كے اركان كو كہاكہ وہ پلن كو مكمل طور‬
‫پر نافذ كر دے كیونكہ ایك بڑی جماعت یعنی مسلم لیگ نے اسے قبول كر لیا تھا۔ حكومت اپنے‬
‫وعدے سے مكر گئی اور كانگرس كے بغیر عبوری حكومت كی تشكیل پر رضامند نہ ہوئی ۔‬
‫صوبائی گروپوں كی تشكیل كا كام بھی روك دیا گیا۔ عمل ً حكومت نے كانگرس سے خوف زدہ‬
‫ہوكر اصولوں سے انحراف كیا ۔ قائد اعظم كو وعدہ خلفی پر بہت دكھ ہوا اور انہوںنے راست‬
‫اقدام كا اعلن كردیا۔ مسلم لیگ نے ‪16‬اگست ‪1946‬ئ كو یوم راست اقدام قرار دیا ۔‬
‫كابینہ مشن پلن كا جو حصہ كانگرس نے منظور كر لیا تھا رائج كیے جانے كا فیصلہ ہوا۔ وائسرائے‬
‫نے آئین سازی شروع كرنے اور عبوری حكومت قائم كرنے كا حتمی فیصلہ كر لیا ۔‬
‫اتخابات ‪46-1945‬‬
‫برصغیر میں عام انتخابات منعقد كروانا ضروری تھا۔ جنگ عظیم دوم كے خاتمے اور شملہ‬
‫كانفرنس كی ناكامی كے بعد یہ اندازہ لگانا لزم ہو گیاتھا كہ مختلف سیاسی جماعتوں كی عوام‬
‫میں كیا حیثیت ہے۔ اور وہ برصغیر كے مستقبل كے بارے میں كس جماعت كے موقف سے ہم‬
‫آہنگی ركھتے ہیں۔ شملہ كانفرنس كی ناكامی كی ساری ذمہ داری ہندو پریس نے قائد اعظم پر‬
‫ڈال دی تھی۔ یہ جاننے كے لیے كہ قائد اعظم كا موقف درست تھا یا غلط واحد طریقہ یہ تھا كہ‬
‫عوام سے رجوع كر كے ان كی رائے معلوم كی جاتی۔ حكومت برطانیہ پر امریكہ كا دبائو بھی تھا‬
‫كہ برصغیر كے سیاسی مسائل كا حل ڈھونڈ اجائے۔ اس صورت حال میں برطانوی حكومت نے‬
‫عوامی رجحانات كا پتہ چلنے كی خاطر عام انتخابات كے انعقاد كا اعلن كردیا ۔ دسمبر ‪1945‬ئ‬
‫میں مركزی اسمبلی اور جنوری ‪1946‬ئ میں صوبائی اسمبلیوں كے انتخابات كروانے كا فیصلہ‬
‫ہوا ۔ تمام جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لینے كا اعلن كر دیا ۔‬

‫كانگرس كا منشور‬
‫كانگرس كا منشور تھا كہ جنوبی ایشیا كو ایك وحدت كی صورت میں آزاد كر دیا جائے گا ۔ تقسیم‬
‫كی كوئی سكیم قابل قبول نہ ہو گی۔ اكھنڈ بھارت قائم رہے گا۔ كانگرس كا دعو ٰی تھا كہ وہ‬
‫برصغیر میں رہنے والے تمام گروہوں اور فرقوں كی نمائندہ جماعت ہے اور مسلمان بھی كانگرس‬
‫كے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہیں ۔‬

‫مسلم لیگ كا منشور‬


‫مسلم لیگ نے انتخابی اكھاڑے میں قدم اس دعوے كے ساتھ ركھا كہ وہ برصغیر كے مسلمانوں كی‬
‫واحد نمائندہ جماعت ہے۔ مسلمان مسلم لیگ كے علوہ كسی اور جماعت سے وابستگی نہیں‬
‫ركھتے۔ مسلم لیگ چاہتی ہے كہ قرارداد پاكستان كے مطابق جنوبی ایشیا كو تقسیم كر دیا جائے‬
‫اور مسلم اكثریتی علقوں میں مسلمانوں كو مكمل اقتدار اعلیٰ حاصل ہو جائ ے ۔ قائد اعظم كا‬
‫دعوی تھا كہ عام انتخابات پاكستان كے بارے میں استصواب رائے ہوں گ ے ۔ اگر مسلمان مسلم‬
‫ٰ‬
‫لیگ كا ساتھ دیں تو پاكستان بننے دیا جائے ورنہ اس مطالبہ كو از خود مسترد سمجھا جائ ے ۔‬

‫انتخابی م ہم‬
‫تمام جماعتوںنے زبردست مہم چلئی۔ كانگرس ہر صورت میں مسلم لیگ كے عزائم كو ناكام بنانا‬
‫چاہتی تھی۔ اس كے قائدین نے پورے ملك میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تك دورے‬
‫كیے۔ كانگرس نے یونینسٹ پارٹی مجلس احرار‪ ٬‬جمعیت العلمائے ہند اور دیگر مسلم جماعتوں‬
‫سے انتخابی اتحاد كیے اور مسلم لیگ كا راستہ روكنے كا ہر ممكن قدم اٹھایا ۔ دوسری جانب‬
‫انتخابات چونكہ مسلمانوں كے لیے موت و حیات كا معاملہ تھا اس لیے مسلم لیگ كے لیڈروںنے ملك‬
‫گیر دورے كیے۔ قائد اعظم نے اپنی خرابی صحت كے باوجود طوفانی دورے كر كے مسلمانوںكو‬
‫وقت كی ضرورت سے آگاہ كیا۔ مسلم لیگ تیزی سے مقبولیت حاصل كرنے لگی۔ بہت سے‬
‫مسلمان رہنما اپنی جماعتوں سے قطع تعلق كر كے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ قائد اعظم نے‬
‫اپنے جلسوں میں كھلم كھل كانگرس كوچیلنج كیا كہ انتخابات میںمسلم للیگ پاكستان كے بارے‬
‫میں اپنے مطالبے كو سچا ثابت كرے گی اور مسلمانان برصغیر پاكستان تخلیق كر كے دم لیں گ ے ۔‬
‫مسلم عوام نے زبردست جذبات كا اظہار كیا۔ مسلم طلبائ و طالبات میدان میں نكل آئے۔ شہر‬
‫شہر اور قریہ قریہ لیگی كاركنوں كی ٹولیاں پہنچیں۔ فضا پاكستان زندہ باد كے نعروں سے گونجنے‬
‫لگی۔ بن كے رہے گا پاكستان۔ لے كے رہیں گے پاكستان ۔ اور پاكستان كا مطلب كیا ل الہ ال اللہ كے‬
‫نعرے زبان زد عام تھے ۔ ہر آنے وال دن مسلم لیگ كے موقف كو مضبوط تر بناتا گیا ۔‬

‫انتخابات ك ے نتائج‬
‫مركزی قانون ساز اسمبلی كے انتخابات دسمبر ‪1945‬میں كروائے گئے۔ یہ جداگانہ طریق انتخاب‬
‫كی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ پورے برصغیر میںمسلمانوں كے لیے ‪30‬نشستیں مخصوص تھیں ۔‬
‫مسلم لیگ نے ہر نشست پر اپنے نمائندے كھڑے كیے۔ كسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہ‬
‫كیا اور اكیلے كئی جماعتوںكا مقابلہ كیا ۔ نتائج منظر عام پر آئے تو مسلم لیگ فاتح نكلی ۔ تمام‬
‫‪30‬مخصوص مسلم نشستوں پر مسلم لیگ كے ٹكٹ پر كھڑے ہونے والے امیدوا ر كا میاب ہوئ ے ۔‬
‫یوں سو فیصد كامیابی مسلم لیگ كو ملی۔ یہ شاندار اور مثالی فتح تھی۔ یہ وہ جادو تھا جو سر‬
‫چڑھ كر بول ۔ ‪1946‬ئ میں صوبائی اسمبلیوں كے انتخابات ہوئے۔ مسلمانوں نے تمام صوبائی‬
‫اسمبلیوں میں مجموعی طورپر ‪495‬نشستیں مخصوص تھیں۔ مسلم لیگ نے ‪434‬نشستیں جیت‬
‫لیں اور صوبائی سطح پر بھی شاندار فتح حاصل كی۔ سیاسی جماعتوں نے كانگرس كی حمایت‬
‫كی تھی لیكن مسلم لیگ نے ان سب كو شكست دی۔ اب پاكستان بننے سے دنیا كی كوئی طاقت‬
‫روك نہیں سكتی تھی ۔ انتخابی نتائج نے پاكستان كی بنیاد مضبوط كر دی تھی ۔‬

‫كرپس مشن‬
‫سرسٹیفورڈ كرپس كی قیادت میں ایك مشن ‪1942‬ئ میں برصغیر آیا ۔ مسلمان تقسیم‬
‫ہندوستان كا مطالبہ قراردادپاكستان كے ذریعے كر چكے تھے۔ كانگرسی رہنما جنگ عظیم دوم )‬
‫‪(1945-1939‬میں جاپانیوں كی ابتدائی كامیابیوں كی وجہ سے حكومت كے خلف تحریكیں چل‬
‫رہے تھے اور توقع كر رہے تھے كہ جاپانی افواج برطانوی حكمرانوں كو برصغیر سے نكال كر اقتدار‬
‫اعلیٰ ہندوستانیوں كے سپرد كر دیں گی ۔‬
‫كرپس تجاویز‬
‫كرپس مشن اپنے ساتھ درج ذیل تجاویز لیا ۔‬
‫‪١‬۔ جنگ كے بعد برصغیر كو ڈومینین كا درجہ دیا جائ ے ۔‬
‫‪٢‬۔ دفاع‪ ٬‬امور خارجہ مواصلت وغیرہ سمیت تمام شعبے ہندوستانیوں كے سپر د كردیے جائیں‬
‫گے ۔‬
‫‪٣‬۔ آئین سازی كے لیے ایك مركزی اسمبلی منتخب كی جائے گی جس كے لیے چنائو كا اختیار‬
‫صوبائی قانون ساز اسمبلیوں كے اركان كو حاصل ہو گا ۔‬
‫‪٤‬۔ اقلیتوں كے حقوق كے تحفظ كے لیے مناسب اقدام اٹھائے جائیں گ ے ۔‬
‫‪٥‬۔ آئین مكمل ہو گیاتو اسے ہر صوبے كی توثیق كے لیے بھیجا جائے گا۔ جو صوبے آئین كو پسند‬
‫نہیںكریں گے وہ با اختیار ہوں گے كہ مركز سے علیحدہ ہو كر اپنی آزاد حیثیت قائم كر لیں ۔‬

‫سیاسی جماعتوں كا رد عمل‬


‫‪١‬۔ قائد اعظم اور آ ل انڈیا مسلم لیگ نے كرپس مشن اور حكومت برطانیہ كا شكریہ ادا كیا‬
‫كیونكہ ان كا مطالبہ ماننے كا اشارہ تجاویز میں موجود تھاا۔ یعنی مسلم اكثریت والے صوبے آئین‬
‫كو مسترد كر كے اپنی جداگانہ حیثیت قائم كر سكتے ت ھے ۔ یوں پاكستان كی تخلیق كا امكان‬
‫موجود تھا۔ اقلیتوں كے حقوق كے تحفظ كے حوالے سے بھی مسلم لیگ نے اپنے اطمینان كا اظہار‬
‫كیا ۔‬
‫‪٢‬۔ كافی غور و فكر كے بعد آل انڈیا مسلم لیگ نے اس بنیاد پر كرپس تجاویزماننے سے انكار كر‬
‫دیا كہ پاكستان كے مطالبے كو صاف صاف الفاظ میں اور فوری طور پرتجاویز میں تسلیم نہیںكیا‬
‫گیا تھا ۔‬
‫‪٣‬۔ گاندھی اور ان كی سیاسی جماعت انڈین نیشنل كانگرس نے تجاویز كو مسترد كردیا۔ انہوںنے‬
‫صوبوں كو آئین كے مسترد كرنے والے اختیار كو سخت ناپسند كیا۔ تقسیم كے حوالے سے كسی‬
‫بھی قسم كی واضح یا مبہم تجویز كو كانگرس ماننے پر آمادہ نہیں تھی۔ كانگرس نے كرپس‬
‫تجاویز كا مذاق اڑایا اورایك ایسے بینك كا چیك كہا جو دیوالیہ ہونے جا رہا ہو ۔ كانگرس جنگ عظیم‬
‫دوم میں انگریزوں كے اكھڑتے ہوئے پائوں دیكھ كر طے كر چكی تھی كہ اب برصغیر كے مستقبل‬
‫كا فیصلہ انگریزوں كی بجائے جاپانی كریں گ ے ۔‬
‫‪٤‬۔ كرپس تجاویز ناكا م ہو گئیں ۔ كرپس نے ناكامی كی زمہ داری قبول كی اور كسی جماعت‬
‫كو اس كا ذمہ دار نہ ٹھہرایا ۔‬
‫قرارداد پاكستان‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ كا سالنہ اجلس ‪23‬مارچ ‪1940‬ئ كو لہور كے تاریخی پارك اقبال پارك میں‬
‫منعقد ہوا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اس اجلس كی صدارت كی اورپورے برصغیر سے‬
‫بہت بڑی تعداد میں مسلمان عوام نے اجلس میں شركت كی۔ اجلس میں قرارداد لہور كے نام‬
‫سے ایك قرارداد صوبہ بنگال كے راہنما مولوی فضل حق نے پیش كی اور زبردست نعروں كے‬
‫ساتھ حاضرین نے قرارداد كومنظور كیا ۔ مسلمانوں نے اپنی منزل كا تعین كر لیا۔ وہ بڑا تاریخی‬
‫دن تھا ۔ اس دن كی یاد تازہ ركھنے كے لیے اقبال پارك میں مینار پاكستان بنایا گیا ہے ۔‬

‫قرارداد پاكستان كا پس منظر‬


‫پاكستان كا مطالبہ پوری مسلم قوم نے بڑے غور و فكر كے بعد كیا۔ انہیں ایسا نہیں تھا كہ یہ مطالبہ‬
‫وقتی یا غصے كے تحت كر دیا گیا ہو ۔ مسلم اكابرین ‪1857‬ئ كی جنگ آزادی كی ناكامی اور‬
‫مسلسل اس فكر میں تھے كہ مسلمانوں كو پرسكون‪ ٬‬محفوظ اور باوقار ماحول كیسے فراہم كیا‬
‫جائے ۔ مسلمان ایك الگ قوم تو تھے ہی ‪ ٬‬انہیں تحفظات دینے كی بات ہوتی رہی لیكن وہ اپنے‬
‫مستقبل كے متعلق مطمئن نہیں تھے۔ كئی مسلم شخصیات نے جداگانہ مسلم مملكت كے قیام‬
‫كی طرف اپنی تقاریر اور تحریروں میں اشاریے دی ے ۔ سید جمال الدین افغانی عبدالحلیم شرر‪٬‬‬
‫مولنا محمد علی جوہر اور خیری برادران كے نام خصوصا ً قابل ذكر ہیں۔ سی آر داس اور للہ‬
‫لجپت رائے جیسے ہندو بھی برصغیر كے سیاسی مسئلے كا حل علیحدہ مسلم مملكت كے قیام‬
‫میں ڈھونڈ رہے تھے ۔ كئی انگریز ماہرین و مصنفین نے تقسیم برصغیر كو قابل عمل اورفطری‬
‫حل قرار دیا ۔ ان میں بلنٹ جان برائیٹ اور روس كے مارشل سٹالن كا نام لیا جاتا ہے ۔ تقسیم كا‬
‫مطالبہ بتدریج پروان چڑھا ۔‬
‫‪١‬۔ علمہ محمد اقبال نے ‪1930‬ئ میں مسلم لیگ كے سالنہ اجلس كی صدارت كرتے ہوئے خطبہ‬
‫الہ آباد دیا تو انہوںنے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم مملكت كے قیام كو مسلمانوں كا مستقب‬
‫ٹھہرایا ۔‬
‫‪٢‬۔ چوہدری رحمت علی نے بحیثیت طالب علم ‪1933‬ئ میں مسلمانوں كے لیے ایك سے زیادہ‬
‫آزاد مملكتوں كے قیام كی تجویز ایك پمفلٹ اب نہیں تو پھر كبھی نہیں )‪(Now or Never‬میں‬
‫پیش كی ۔‬
‫‪٣‬۔ سندھ مسلم لیگ نے ‪1938‬ئ میں اپنے سالنہ اجلس میں تقسیم كے حق میں قرار داد منظور‬
‫كی ۔‬
‫‪٤‬۔ قائد اعظم نے سید حسن ریاض مصنف پاكستان ناگزیر تھا۔ كو ایك انٹرویو دیتے ہوئے بتایا كہ‬
‫وہ ‪1930‬ئ میں ہی علیحدہ مسلم مملكت كے قیام كی جدوجہد كا فیصلہ كر چكے ت ھے ۔ ‪1940‬ئ‬
‫تك قائد اعظم نے قوم كو ذہنی طورپر رفتہ رفتہ تیار كیا ۔‬
‫قائد اعظم كا خطب ہ صدارت‬
‫قائد اعظم نے مسلم لیگ كے ‪ 1940‬ئ كے اس لہور اجلس كی صدارت كرتے ہوئے اپنے خطبے‬
‫میں مسلمانوں كی جدوجہد كے لیے سمت كا تعین كردیا۔ ان كے خطبے كے اہم نكات درج ذیل‬
‫ت ھے ۔‬
‫‪١‬۔ مسلمان ایك علیحدہ قوم ہیں اور اپناجداگانہ سماجی ‪ ٬‬ثقافتی اور مذہبی نظام ركھتے ہیں ۔‬
‫‪٢‬۔ برصغیر ایك ملك نہیں اور ہندو مسلم تنازعہ فرقہ وارانہ نہیں بلكہ بین القوامی مسئلہ ہے ۔ جس‬
‫كا حل برصغیر میں ایك سے زیادہ ریاستوں كا قیام ہے ۔‬
‫‪٣‬۔ متحدہ برصغیر میں مسلمانوں كے حقوق محفوظ رہنے كا امكان نہیں ہے ۔‬
‫‪٤‬۔ انہوںنے مختلف ملكوں كی تقسیم كی مثالیں دیتے ہوئے یہ بھی بتایا كہ برطانیہ سے آئر لینڈ الگ‬
‫ہوا نیز چیكو سلواكیہ بھی تقسیم كے نتیجہ میں قائم ہوا۔ ایسے میں اگر جنوبی ایشیا كو تقسیم كر‬
‫كے مسلمانوں كو جداگانہ مملكت بنانے كا حق دے دیا جائے تو یہ فیصلہ پوری طرح تاریخی منطقی‬
‫اور جائز ہو گا ۔‬
‫قرارداد ك ے بنیادی نكات‬
‫‪١‬۔ باہم متصل اكائیوں كی نئے خطوں كی صورت میں حد بندی كر دی جائ ے ۔ شمال مغرب اور‬
‫مشرق میں مسلم اكثریت والے علقوں میں آزاد مسلم مملكتیں قائم كی جائیں ۔‬
‫‪٢‬۔ برصغیر كے لیے تقسیم كے علوہ كسی دوسری سكیم كو منظور نہیں كیا جائے گا ۔‬
‫‪٣‬۔ تقسیم ہوجاتی ہے تو ہندو اكثریتی علقوں میں مسلم اقلیت كے حقوق كے تحفظ كا مناسب‬
‫بندوبست كیاجائ ے ۔‬
‫قرارداد پر رد عمل‬
‫‪١‬۔ قرارداد كا منظور ہونا تھا كہ ہندو پریس اور ہندو قائدین نے مطالبے كے خلف اظہار رائے كرنا‬
‫شروع كر دیا۔ قرارداد كامذاق اڑایا گیا۔ گاندھی جی اور ہندوئوں نے بالخصوص قرارداد كی‬
‫مخالفت كرتے ہوئے اسے قطعا ً مسترد كردیا ۔ مسلم لیگ قرارداد كو ‪٫٫‬قرارداد لہور‪ ٬٬‬پكار رہی‬
‫تھی لیكن ہندو پریس نے طنزا ً اسے ‪٫٫‬قراردا د پاكستان‪ ٬٬‬لكھنا شروع كر دیا۔ مسلمان قائدین نے‬
‫نئی اصطلح كو اپنا لیا اور آج اسے ‪٫٫‬قرارداد پاكستان‪ ٬٬‬ہی كہا جا رہا ہے ۔‬
‫‪٢‬۔ مولنا شبیر احمد عثمانی ‪ ،‬مولنا اشرف علی تھانوی اورمولنا ظفر احمد انصاری وہ‬
‫علمائ تھے جنہوںنے اس قرارداد كا بھرپور ساتھ دیا ۔‬
‫‪٣‬۔ برطانوی پریس نے قرارداد كو زیادہ اہمیت نہ دی ۔‬
‫عام تصور تھا كہ تقسیم كی تجویز مسترد ہو جائے گی ۔ لیكن مسلمانان برصغیر نے اپنے مستقبل‬
‫كا فیصلہ كر لیا تھا ۔ چند ہی سالوں بعد انہوںنے اپنی بے پناہ جدوجہد كے نتیجے میں پاكستان بنا لیا ۔‬
‫مطالب ہ پاكستان ك ے محركات‬

‫پاكستان كا مطالبہ كیوں ہوا؟ اس كی تخلیق كی ضرورت كیوں محسوس كی گئی؟ ہم ذیل میں‬
‫ان محركات كا ذكر كرتے ہیں ۔ جو پاكستان كو وجود میں لنے كا باعث بن ے ۔‬

‫‪١‬۔ فرق ہ واران ہ فسادات‬


‫ہندو مسلم فسادات كی نظر ہر سال كئی جانیں ہو جاتی تھیں۔ ہندو منظم انداز میں اپنی فرقہ‬
‫وارانہ تنظیموں كے ذریعے مسلمانوں كا قتل عام كرتے۔ ہندئووں كی تعداد زیادہ تھی اس لیے‬
‫انگریزوں كے چلے جانے كے بعد وہ مسلمانوں كی زندگی مكمل عذاب میں مبتل كر دیت ے ۔‬
‫مسلمانوں كے خون سے ہولی كھیلی جاتی اوركوئی ہندوئوں كو روكنے وال نہ ہوتا۔ ہندو اپنے عزائم‬
‫كو چھپا كر نہیں ركھتے تھے۔ ان كے كئی لیڈروں اور تنظیموں نے اپنا بنیادی مقصد ٹھہرایا تھا كہ‬
‫برصغیر آزاد ہو گا تو یہاں رام راج قائم كر دیا جائے گا ۔‬

‫‪٢‬۔ معاشرتی حالت‬


‫ہندو سماج میں ذات پات اوررنگ و نسل كی تمیز نے مسلمانوں كو خوف زدہ كیا كہ آزادی كے‬
‫حصول كے بعد ہندو مسلمانوں كو دوسرے درجے كا شہری بنا دیں۔ ان كا معاشرتی مقام ہندوئوں‬
‫كے مقابلے پر بہت كم ہو گا۔ مسلمان سیاسی آزادی سے بھی محروم رہتے اور معاشرتی طورپر‬
‫ہندوئو ں كی مستقل غلمی كا شكار ہو جاتے اس لیے ایك منصفانہ ماحول اور مساوات پر مبنی‬
‫نظام كی تكمیل كا خواب پورا كرنے كے لیے جداگانہ مسلم مملكت كا قیام ضروری سمجھا گیا ۔‬

‫‪٣‬۔ مسلم زبان و ثقافت‬


‫ہندو قوم انگریز حكومت كی موجودگی میں ایڑی چوٹی كا زور لگاتی رہی كہ ہندی كو ملك بھر‬
‫كی زبان كا درجہ مل جائ ے ۔ وہ اردو زبان اور مسلم ثقافت كو مٹانے كے درپے تھی ۔ مسلمان اپنی‬
‫ثقافتی قدروں كوپامال ہونے سے بچانے كے لیے مجبور ہو گئے كہ پاكستان كے قیام كا مطالبہ كریں ۔‬

‫‪٤‬۔ دوقومی نظری ہ‬


‫مسلمانو ں كا دعو ٰی تھا كہ وہ ایك الگ قوم ہیں اور اس كا علیحدہ قومی تشخص ہمیشہ سے قائم‬
‫ہے۔ وہ علیحدہ ثقافت‪ ٬‬زبان‪ ٬‬رسوم و رواج‪ ٬‬انداز زندگی اور مذہب كے حامل ہیں۔ اس لیے وہ ایك‬
‫مكمل قوم ہیں ۔ ان كا حق تھا كہ وہ ان علقوں میں اپنی پسند كا سیاسی نظام لتے جہاں وہ‬
‫اكثریت میں ت ھے ۔ بحیثیت قو م وہ اپناجداگانہ وجود قائم ركھنا چاہتے ت ھے ۔‬

‫‪٥‬۔ كانگرسی وزارتیں‬


‫‪1937‬ئ سے ‪1939‬ئ تك برصغیر میں كانگرسی وزارتیں قائم رہیں۔ اس دوران میں ہندوئوں نے‬
‫اپنے اقتدار كا استعمال مسلمان قوم كو دبانے اور ان كے حقوق سے محروم كرنے كے لیے كیا ۔‬
‫تعصب كی اس تصویر نے مسلمانوں كو الگ وطن حاصل كرنے پر مجبور كیا۔ انہیں علم تھا كہ‬
‫جمہوریت اكثریت كی حكومت كا نام ہے اور اكثریت ہندوئوں كی تھی ۔ یوں مسلمان مستقل‬
‫طورپر ہندوئوں كی غلمی كا شكار ہو جات ے ۔‬

‫‪٦‬۔ اسلمی نظام كا قیا م‬


‫اسلم ایك مكمل ضابطہ حیات ہے۔ مسلمان اسلمی نظام كو عملی طور پر نافذ دیكھنا چاہتے‬
‫تھے۔ یہ ہندو اكثریت والے جنوبی ایشیا میں ممكن نہ تھا اس لیے شمال مشرق اور شمال مغرب‬
‫كے اكثر مسلم اكثریتی علقوں میں پاكستان كے قیام كا مطالبہ كیا گیا تاكہ مسلمان پاكستان كو‬
‫اسلمی نظام كی ایك تجربہ گاہ بنا سكیں۔ وہ پاكستان پورے عالم اسلم كے لیے ایك قوت كی‬
‫شكل میں دیكھنے كا خواب دیكھ رہے تھے۔ پاكستان ان كے نزدیك عالمی سطح پر اسلمی تحریك‬
‫كا نقطہ آغاز تھا ۔‬
‫تحریك خلفت‬
‫‪1914‬ئ میں جنگ عظیم اول كا آغاز ہوا ۔ برطانیہ فرانس امریكہ اور روس اتحادی ت ھے ۔ دوسری‬
‫جانب جرمنی آسٹریا اور تركی كا اشتراك تھا ۔ تركی كو دنیا بھر كے مسلمانوں كا مركز مانا جاتا‬
‫تھا ۔ تركی كے خلیفہ كو برصغیر كے مسلمان اپنا خلیفہ تسلیم كرتے ت ھے ۔ تركی ان دنوں زوال پذیر‬
‫تھا۔ امكان تھا كہ اسے شكست ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں مسلمانوں كامركز ختم ہونے كا‬
‫خدشہ تھا۔ گمان تھا كہ تركی كو شكست دینے كے بعد اس كے علقے اتحادی ملك آپس میں بانٹ‬
‫لیں گ ے ۔ اور اس كا اقتدار اعلیٰ ختم ہوجائے گا ۔ ان دنوں تركی ایك بہت ہی وسیع ملك تھا ۔ جس‬
‫كی سرحدیں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تك پھیلی ہوئی تھیں ۔ حجا ز مقدس كی سرزمین‬
‫بھی تركوں كے كنٹرول میں تھی۔ یوں مكہ معظمہ اور مدینہ منورہ كے شہر میں بھی اتحادیوں كے‬
‫قبضے میںجا سكتے تھے۔ ان حالت كو دیكھتے ہوئے برصغیر كے مسلمانوں نے ‪1919‬ئ میں ایك‬
‫بہت بڑی تحریك كا آغاز كردیا۔ خلفت كے تحفظ كی اس تحریك كو تحریك خلفت كا نام دیا جاتا‬
‫ہے ۔‬

‫تحریك ك ے قائدین‬
‫مولنا محمد علی جوہر‪ ٬‬مولنا شوكت علی‪ ٬‬مولنا حسرت موہانی‪ ٬‬مولنا ظفر علی خاں‪ ٬‬ابو‬
‫الكلم آزاد‪ ٬‬حكیم اجمل خاں اورمتعدددوسرے راہنمائوں نے اپنی داخلی سیاست كو نظر‬
‫اندازكرتے ہوئے تمام تر توجہ خلفت كے مسئلہ پر مركوز كر دی۔ انہوںنے ایك خلفت كمیٹی قائم‬
‫كی مجلس خدام كعبہ كو منظم كیا اور زبردست سرگرمیوں كا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ مولنا‬
‫عبدالباری ‪ ٬‬مشیر حسین قدوائی اور مولنا سید سلیمان ندوی وغیرہ مولنا محمد علی جوہر كی‬
‫قیادت میں ایك وفد كی صورت میں برطانوی وزیر اعظم سے ملقات كر كے اسے ہندوستانی‬
‫مسلمانوں كے جذبوں سے آگاہ كرنے گئ ے ۔ وفد برطانوی سیاست دانوں سے مل ۔ مغربی ممالك‬
‫میں مختلف شہروں میں جلسے منعقد كے۔ واپس آئے تو برصغیر كے طول و عرض میں جلوس‬
‫نكالے اور جلسوں كا اہتمام كیا۔ تحریك خلفت كو برصغیر میں چلئی جانے والی تمام تحریكوں‬
‫میں سب سے زیادہ پر جوش اور زبردست مانا جاتا ہے ۔‬

‫تحریك ك ے مقاصد‬
‫تحریك خلفت ایك كثیر المقاصد تحریك تھی۔ اس نے برصغیر كے مسلمانوں كو ایك پلیٹ فارم پر‬
‫منظم كیا۔ وقتی طور پر آل انڈیا مسلم لیگ كی طرف سے مسلم عوام كی توجہ ہٹ گئی۔ وہ‬
‫خلفت كے تحفظ كے لیے جان و مال كی بازی لگائے بیٹھے تھے۔ تحریك كے سامنے تین اہم مقاصد‬
‫درج ذیل تھے‪:‬‬
‫تركی بحیثیت ایك مملكت قائم ر ہے ۔ شكست كی صورت میں اس كی جغرافیائی سرحدیں‬
‫جوں كی توں رہیں ۔ اس كے ٹكڑے نہ كیے جائیں ۔‬
‫خلیفہ موجود رہے اور تركی میں خلفت كا ادارہ اپنی حیثیت برقرار رك ھے ۔‬
‫حجاز مقدس كی حرمت پر كوئی آنچ نہ آئے۔ غیر مسلم افواج ان دونوں شہروں میں داخل نہ‬
‫ہوں ۔‬
‫تحریك كی سرگرمیاں‬
‫ً‬
‫تحریك خلفت كے تحت وفود بھیجے گئے۔ وفود نے یورپ ممالك اور خصوصا برطانیہ میں‬
‫برصغیر كی مسلم رائے عامہ سے حكومتوں كو آگاہ كیا ۔‬
‫ڈاكٹروں اور نرسوں كے گروپ ترك مجاہدوں كی مرہم پٹی كے لیے بھیجے گئے۔ ادویات بھی‬
‫فراہم كی گئی ۔‬
‫ترك حكومت كو رقوم مہیا كی گئیں۔ مسلم عوام نے كثیر دولت كرنسی‪ ٬‬سونے اور چاندی كی‬
‫صورت میں جمع كر كے تركی كی مالی امداد كے لیے روانہ كی ۔‬
‫برصغیر كے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے جلوس نكالے گئے۔ جلسے منظم كیے‬
‫گئے ہڑتالیں كی گئیں اور مسلم عوام نے بڑی تعداد میں گرفتاریاں پیش كیں۔ تحریك كے لیڈروں‬
‫كوجیلوں میں بند كر دیا گیا لیكن تحریك كی آب و تاب میں كوئی فرق نہ آیا ۔‬
‫تحریك خلفت میں مولنا محمد علی جوہر اور مولنا شوكت علی كی اماں كا كردار بھی‬
‫اہمیت كا حامل تھا۔ ان دنوں میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا‪٫٫ :‬كہتی ہے اماں محمد علی كی جان بیٹا‬
‫اپنی خلفت پہ دے دو‪٬٬‬۔‬
‫مسلم صحافت نے بھی زور دار كردار ادا كیا۔ مولنا ظفر علی خاں نے زمیندار مولنا آزاد نے‬
‫الہلل اورمولنا محمد علی جوہر نے كامریڈ و ہمدرد اخبار كے ذریعے مسلم عوام كے ذہنوں میں‬
‫طوفان پیدا كردیا ۔‬
‫گاند ھی كا كردار‬
‫گاندھی كو موقع مل گیا كہ وہ مسلمانوں كو اپنے مقاصد كے لیے استعمال كر سكے۔ اس نے كھلم‬
‫كھل تحریك خلفت كی حمایت كی۔ تحریك كے جلسوں میں شركت كی اور مسلمانوں كو اپنے‬
‫پورے تعاون كا یقین دلیا۔ انڈین نیشنل كانگریس نے گاندھی كے ایما پر تحریك كا پورا پورا ساتھ‬
‫دیا۔ گاندھی نے جنگ عظیم اول كے دوران تحریك عدم تعاون تحریك ترك موالت اور سول‬
‫نافرمانی كی تحریك شروع كر ركھی تھی۔ تحریك خلفت كی حمایت كر كے وہ مسلمانوں كو‬
‫اپنی تحریك میں شامل كرنے میں كامیاب ہو گیا۔ اس نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ‪:‬‬
‫حكومت كی طرف سے دیے گئے القابات واپس كر دیں ۔‬
‫سركاری ملزمتوں سے استعفے دے دیں ۔‬
‫تعلیم چھوڑ كرسڑكوں پر نكل آئیں ۔‬
‫گرفتاریاں دیں ۔ محصول دینے سے انكار كر دیں ۔‬
‫حكومت كی جانب سے ملنے والی مالی امداد لینے سے انكار كر دیں ۔‬
‫اپنا گھربار بیچ كر افغانستان‪ ٬‬ایران یا كسی دوسرے مسلم ملك میں ہجرت كر جائیں ۔‬
‫مسلمان راہنما گاندھی كی سازش كو سمجھ نہ سكے اور اس كی باتوں میں آ كر ایسے اقدام‬
‫اٹھائے كہ مسلمانوں كی معیشت تعلیم اور سماجی حالت پر بے حد برا اثر ڈال۔ لكھوں مسلمان‬
‫اپنا سب كچھ بیچ كر افغانستان كی طرف ہجرت كی غرض سے چل پڑ ے ۔ لیكن حاكم افغانستان‬
‫نے انہیں افغانستان كے اندر داخل ہونے كی اجازت نہ دی۔ مجبورا مسلمان واپس آئے اوریہاں‬
‫بربادی‪ ٬‬بھوك اور بدحالی ان كی منتظر تھی۔ بے پناہ نقصان اٹھانے كے بعد مسلمانوں كی آنكھیں‬
‫كھلیں اور انہیں گاندھی كا اصلی چہرہ پہچاننے كا موقع مل ۔‬

‫تحریك كا انجام‬
‫برصغیر كے مسلمانوں نے گاندھی كا پوراپورا ساتھ دیاتھا۔ لیكن جنگ عظیم اول كے خاتمے پر جب‬
‫گاندھی جی نے محسوس كر لیا كہ وہ حكومت كو بلیك میل كركے اپنے مقاصد حاصل نہیں كر‬
‫سكے گا تو ا س نے مسلمان قائدین سے پوچھے بغیر اپنی تحریكوں كے خاتمے كا اعلن كر دیا‬
‫جس سے مسلمانوں كوشدید مایوسی ہوئی ۔‬
‫دوسری جانب تركی شكست كے قریب پہنچ چكا تھا۔ كہ ایك جرنیل غازی مصطفی كمال پاشا نے‬
‫بكھری ہوئی ترك افواج كو دوبارہ یكجا كیا ان میں نیا حوصلہ پیدا كیا۔ مصطفی كمال پاشا نے‬
‫ترك خلیفہ كو اقتدار سے الگ كر كے ملك كی سربراہی خود سنبھال لی ۔‬
‫روس اور برطانیہ دونو ں تركی پر قبضہ كا ارادہ ركھتے تھے لیكن ان كی باہمی رقابت تركی كی‬
‫سلمتی كا سبب بن گئی۔ اتحادیوں نے مصطفی كمال پاشا سے ایك معاہدہ معاہدہ لوازن كے نام‬
‫البتہ مشرق وسط ٰی اور شمالی افریقہ كے علقوں‬ ‫سے طے كیا۔ یوں تركی كا اقتدار اعل ٰی بچ گیا‪٬‬‬
‫پر تركی كا كنٹرول ختم ہو گیا ۔ حجاز مقدس كوعربوں كے حوالے كر دیا گیا ۔ یوں درحقیقت‬
‫خلفت كے مقاصد كسی حد تك پورے ہو گئے كیونكہ تركی محفوظ رہا‪ ٬‬حجاز مقدس میں غیر‬
‫مسلم افواج داخل نہ ہوئیں اور وہاں كا كنٹرول عرب مسلمانوں نے سنبھال لیا۔ خلفت كا ادارہ‬
‫ختم ہو گیا كہ لیكن اس كا خاتمہ اتحادیوں نے انہیں خود ترك افواج اور ان كے سالر اعل ٰی غازی‬
‫مصطفی كمال پاشا نے كیا ۔‬
‫آل ان ڈیا مسلم لیگ كا قیام‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام ‪1906‬ئ میں ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل‬
‫كانفرنس كے سالنہ اجلس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم‬
‫عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلس میں شركت كی ۔‬
‫اجلس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل‬
‫دی جائ ے ۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا ۔ لیكن‬
‫بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی‬
‫پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگ ے ۔ ڈھاكہ اجلس كی صدارت وقار الملك نے كی ۔‬
‫مولنامحمد علی جوہر‪ ٬‬مولنا ظفر علی خاں‪ ٬‬حكیم اجمل خاں‪ ٬‬اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت‬
‫بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہل صدر سر آغا خان كو چنا‬
‫گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن‬
‫برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا ۔‬

‫مسلم لیگ ك ے قیام ك ے اسباب‬


‫‪١‬۔ ان ڈین نیشنل كانگرس كا ہندوئوں كی جماعت بننا‬
‫انڈین نیشنل كانگرس بطور سیاسی جماعت صرف ہندوئوں كی جماعت بن كر رہ گئی تھی ۔‬
‫كانگرس پر انتہا پسند اور ہندو فرقہ پرست ہندو قابض ہو چكے تھے اس لیے مسلمانوں كی ایك‬
‫علیحدہ سیاسی جماعت كا قیام وقت كی اہم ضرورت تھی ۔‬
‫‪٢‬۔ فرق ہ واریت‬
‫مسلمانوں كے خلف ہندوئوں نے اپنی انتہا پسند اورمتشدد تحریكوں كا آغاز كر دیاتھا۔ ہندو مہا‬
‫سبھا سنگھٹن اور آریہ سماج جیسی تحریكوں سے مسلمانوں كے وجود كو خطرہ تھا۔ ان سے عہدہ‬
‫برا ہونے كے لیے مسلمانوں نے مسلم لیگ قائم كر لی ۔‬
‫‪٣‬۔ تقسیم بنگال كی مخالفت‬
‫مشرقی بنگال كا نیا صوبہ ‪1905‬ئ میں وجود میں آیا‪ ٬‬جہاں مسلمانوں كی اكثریت تھی۔ صوبہ‬
‫بنگال كی تقسیم كی ہندوئوں نے شدید مخالفت كی ۔ وہ مسلمانوں كی بہبود كے لیے اٹھائے جانے‬
‫والے اقدام كو برداشت نہیں كر سكتے تھے۔ انہوںنے تقسیم بنگال كے خاتمے كے لیے بہت بڑی‬
‫تحریك شروع كر دی ۔ یہ مخالفت بھی مسلمانوں كی سیاسی تنظیم كی تخلیق كاباعث بنی ۔‬
‫‪٤‬۔ اردو ہندی تنازع ہ‬
‫ہندو پورا زور لگا رہے تھے كہ دفتروں میں اردو كی جگہ ہندی رائج كر دی جائے۔ وہ دیونا گری رسم‬
‫الخط كو ملك بھر میں رائج كرنے كی كوشش میں تھے۔ ان كے دبائو میں آ كر بعض انگریز گورنر‬
‫بھی ان كی مدد پر آمادہ ہوگئے۔ ایسے میں مسلمانوں نے اردو كے دفاع كے لیے تحریك چلئی اور‬
‫اس تحریك كو مضبوط بنانے كے لیے مسلم لیگ قائم كی گئی تاكہ حكومت كو مسلمانوں كے‬
‫مطالبات اور احساسات پہنچائے جا سكیں۔ مسلمان اپنی زبان اور ثقافت كا تحفظ كرنا چاہتے‬
‫ت ھے ۔‬
‫‪٥‬۔ سیاسی اصلحات كا اعلن‬
‫برطانیہ میں انتخابات میں لبرل پارٹی كی كامیابی كے بعد برصغیر میں سیاسی اصلحات لنے كا‬
‫اعلن كیا گیا۔ سیاسی اداروں كی تشكیل كا سلسلہ شروع ہونے كا امكان بنا تو مسلمانوں نے‬
‫اپنی جائز نمائندگی كے حصول كے لیے ایك سیاسی جماعت كو وجود دینا بہت ضروری تھا ۔‬
‫‪٦‬۔ شمل ہ وفد‬
‫سرآغا خان كی قیادت میں مسلمانوں كا ایك نمائندہ وفد یكم اكتوبر ‪1906‬ئ كو برطانوی‬
‫وائسرائے لرڈ منٹو سے مل۔ وفد نے مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی اقتصادی اور دیگر حقوق كے‬
‫حصول كے لیے ایك عرضداشت پیش كی۔ مسلمانوں نے انتخابات میں اپنے لیے جداگانہ انتخابی‬
‫طریقہ اپنانے كا مطالبہ كیا۔ وائسرائے نے حوصلہ افزا باتیں كیں۔ وفد نے محسوس كیاكہ سیاسی‬
‫جماعت كی تشكیل كا وقت آ گیا ہے اورچند ہفتوں میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم كر دی گئی ۔‬
‫مسلم لیگ ك ے قیام ك ے مقاصد‬
‫‪١‬۔ حكومت اور مسلمانوں كے درمیان بہتر تعلقات استوار كرنا اور مسلمانوں میں وفاداری كے‬
‫جذبات پیدا كرنا ۔‬
‫‪٢‬۔ برصغیر كی دیگر اقوام اور سیاسی جماعتوں سے اجتماعی بھلئی كے لیے رابطے قائم كرنا ۔‬
‫‪٣‬۔ مسلم قوم كے حقوق كا تحفظ كرنا اور اس مقصد كے لیے حكومت اور دیگر حلقوں كے ساتھ‬
‫مل كر كام كرنا ۔‬
‫آل انڈیا مسلم لیگ نے سر آغاخاں‪ ٬‬وقار الملك اور بعد ازاں قائد اعظم محمد علی جناح كی‬
‫قیادت میں مسلمانوں كے تشخص اور حقوق ماننے پر مجبور كر دیا ۔ ‪1909‬ئ میں جداگانہ طریق‬
‫انتخاب رائج كروایا‪ ٬‬قانون سز اسمبلیوں میں مسلمانوں كے لیے علیحدہ نشستیں حاصل كیں اور‬
‫دیگر جماعتوں سے برصغیر كے مستقبل كے بارے میں مذاكرات كیے۔ طویل جدوجہد كے بعد‬
‫مسلم لیگ اپنی علیحدہ مملكت پاكستان بنانے میں كامیاب ہو گئی ۔‬
‫تحریك علی گڑ ھ‬
‫‪1857‬ئ كی جنگ آزادی میں ناكامی كے بعد مسلمان قوم تباہ كرنے میں برطانوی حكومت اور‬
‫ہندو اكثریت نے كوئی كثر نہ چھوڑی۔ اگرچہ ہندوئوں كی ایك بڑی تعداد جنگ آزادی میں‬
‫مسلمانوں كی ہم ركاب تھی لیكن وہ انگریزوں كو یہ باور كرانے میں كامیاب رہے كہ آزادی كی‬
‫جدوجہد میں صرف مسلمانوں نے شركت كی تھی۔ یوں حكومتی عتاب كانشانہ صرف مسلمان‬
‫بن ے ۔‬
‫مسلمانوں كو بے دریغ قتل كیا گیا ۔ ان كی جائدادیں لوٹ لی گئیں ۔‬
‫مسلمانوں كو نوكریوں سے نكال دیا گیا اور ان كی جاگیریں چھین لی گئیں ۔‬
‫تعلیم كے دروازے مسلمانوں پر عمل ً بند كر دیے گئ ے ۔‬
‫مسلمانوں كو معاشی و معاشرتی طورپر بری طرح كچل دیا گیا ۔‬
‫مساجد اور مدرسوں كو بند كر دیا گیا ۔‬
‫مسلمان ایك تبہ حال قوم بنا دی گئی ۔‬
‫چند انگریز مصنفین كی تحریروں كے اقتباسات دیكھیے‪:‬‬
‫ولیم ہنٹر‪:‬‬
‫‪٫٫‬مسلمان ہونا جرم قرار پایا گیا۔ مسلمانوں كی جائیدادیں اور جاگیریں ہندوئوں اور سكھوں میں‬
‫تقسیم كر دی گئیں‪٬٬‬۔‬
‫لرڈ رابرٹ‪:‬‬
‫‪٫٫‬میرا گزر دہلی كے چاندنی چوك سے ہوا تو ہر جانب لشوں كے انبار ت ھے ۔‪٬٬‬‬
‫باسورت ھ سمت ھ‪:‬‬
‫‪٫٫‬انگریز فوجی شكاری كتوں كی طرح گلیوں میں پھیل گئے اورایك دوسرے مكان میں داخل ہو‬
‫كر سب كچھ لوٹنے لگے‪٬٬‬۔‬
‫مسلمانوں كی تباہی كے حوالے سے سرسید نے لكھا‪:‬‬
‫‪٫٫‬كوئی بل آسمان سے ایسی نہیں اتری جس نے زمین پر پہنچنے سے پہلے كسی مسلمان كا گھر نہ‬
‫ڈھونڈا ہو‪٬٬‬۔‬
‫سرسید احمد خاں اور تحریك علی گڑ ھ‬
‫اللہ تعال ٰی نے مسلمانوں كے تحفظ كے لیے سرسید احمد خاں كی شك میں ایك عظیم راہنما‬
‫بھیجا۔ ان كی دور رس نگاہوں نے ساری صورت حال اچھی طرح بھانپ لی تھی۔ ملت اسلمیہ كو‬
‫ناپید ہونے سے بچانے كے لیے آپ نے برصغیر میں ایك بہت بڑی تحریك كا آغاز كیا۔ سر رچرڈ‬
‫سائمنڈ نے اس بات كا اعتراف كیا ہے كہ پاكستانی عوام سر سید كے بارے میںصحیح دعو ٰیكرتے ہیں‬
‫كہ وہ اس ملك كے خالقوں اور بانیوں میں سے ایك ت ھے ۔ ا س تحریك كے دیگر قائدین میں سے‬
‫محسن الملك‪ ٬‬وقار الملك‪ ٬‬مولنا شبلی نعمانی‪ ٬‬مولنا الطاف حسین حالی‪ ٬‬اور مولنا چراغ‬
‫علی خاص طور پر قابل ذكر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ كارہائے نمایاں انجام دیے كہ آنے والی مسلم‬
‫نسلیں ان كی جتین بھی قدر كریں كم ہے۔ سرسید اور ان كے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریك كو‬
‫ایك ہمہ گیر اور جامع تحریك بنا دیا ۔ یوں مسلمانوں كی نشاۃ الثانیہ كا آغازہوا ۔ ان كی كاركردگی‬
‫كے مختلف پہلو درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫تعلیمی خدمات‬
‫سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا‬
‫سكتی ہے۔ انہوںنے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے‬
‫شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوںنے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے‬
‫حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس‪ ٬‬جدید ادب اور‬
‫معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی‬
‫كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں ۔‬
‫‪ 1859‬میں سرسید نے مراد آباد اور ‪1862‬ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كی ے ۔ ان مدرسو ں‬
‫میں فارسی كے علوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا ۔‬
‫‪1875‬ئمیں انہوںنے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم اے او‬
‫كالج اور آپ كی وفات كے بعد ‪1920‬ئ میں ایونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا ۔ ان اداروں میں‬
‫انہوںنے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں ۔‬
‫‪1863‬ئ میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ بنایا۔ اس ادارے‬
‫كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئی كتب كے اردو تراجم كرانا تھا ۔ بعد ازاں ‪1876‬ء‬
‫میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی‬
‫زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھتے ہی دیكھتے‬
‫مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا ۔ سوسائٹی كی‬
‫خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔‬
‫‪1886‬ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی‬
‫گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے‬
‫بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علقوں‬
‫میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لہور میں اسلمیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ‪٬‬‬
‫پشاور میں اسلمیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس‬
‫مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی ۔‬

‫ادبی خدمات‬
‫سرسید خود بہت عمدہ انشائ پرداز تھے۔ اور خوش قسمتی سے انہیں بہت اچھے دانشور دوستوں‬
‫كا ساتھ بھی مل گیا۔ سرسید نے ادب كو قومی ترقی كا ایك ذریعہ بناتے ہوئے مختلف موضوعات‬
‫پر قلم اٹھایا ۔ اس دور كی درج ذیل تحریروں نے انقلب برپا كردیا ۔‬
‫‪١‬۔ سرسید احمد خاں ‪ :‬آثار الصنادید ۔ تبین الكلم ۔ آئین اكبری ۔ تفسیر قرآن ۔ خطبات احمدی ہ ۔‬
‫رسالہ تہذیب الخلق‬
‫‪٢‬۔ مولنا شبلی نعمانی‪ :‬سیرت النبی ۔ الفاروق ۔ الغزالی‬
‫‪٣‬۔ مولنا نذیر احمد‪ :‬مراۃ العروس ۔ توبتہ انصوح ۔ ابن الوقت‬
‫حالی موازنہ دبیر و انیس ۔ دیوان حالی‬‫۔‬ ‫‪٤‬۔ مولنا حالی‪ :‬مسدس‬
‫معاشرتی و معاشی خدمات‬
‫سرسید نے مسلمانوں كو كھویا ہوا مقام واپس دلنے كے لیے متعدد كامیاب اقدام اٹھائے ۔رسالہ‬
‫اسباب بغاوت ہند لئ محمڈنز آف انڈیا اور تبین الكلم جیسی كتب تحریر كر كے مسلمانوں اور‬
‫حكومت برطانیہ كے درمیان تعلقات كو بہتر بنانے اور مسلمانوں كے خلف جاری جبر كی مہم كو‬
‫روكنے میں كامیابی حاصل كی ۔ مسلمانوں كی بڑی تعداد كے لیے ملزمت كے بند دروازے كھلوائ ے ۔‬
‫مختلف شعبوں میں مسلمان نئے سرے سے شامل كیے گئے۔ ان كے خلف انتقامی كاروائیوں كا‬
‫سلسلہ بند ہو گیا ۔‬
‫سیاسی خدمات‬
‫آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم كے حصول‬
‫اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاكہ وہ ہندوئوں كے برابر مقام حاصل كر سكیں ۔‬
‫سرسید ہندو مسلم اختلفات كو ختم كر كے تعاون اور اتحاد كی راہ رپ گامزن كرنے كے حق میں‬
‫بھی تھے۔ انہوںنے دونوں قوموں كو ایك دوسرے كے قریب لنے كی مسلسل كوششیں كیں۔ اپنے‬
‫تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی كیے اور ہندو طلبائ كو داخلے دیے ہندوئوں نے اردو كے‬
‫مقابل ہندی كو سركاری دفاتر كی زبان ك درجہ دلوانے كے لیے كوششیں شروع كر دیں ۔ ‪1857‬ئ‬
‫میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید كو بددل كر دیا اور اانہوںنے صرف اور صرف مسلمانوں كے‬
‫حقوق كے تحفظ كے لیے اپنی تحریك كے ذریعے كام شروع كر دیا۔ زبان كا تنازعہ سرسید كی‬
‫سوچ اور عمل كو بدل گیا۔ انہوںنے دو قومی نظریہ كی بنیادپر برصغیر كے سیاسی اور دیگر‬
‫مسائل كے حل تلش كرنے كا فیصلہ كیا ۔‬
‫سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك‬
‫علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا ۔ دو‬
‫قومی نظریہ كی اصطلح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوںنے كہا كہ مسلمان‬
‫جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم وك درجہ‬
‫ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی حیثیت كے حوالے سے سرسید احمد نے ان كے یلے لوكل‬
‫كونسلوں میں نشستوں كی تخصیص چاہی اعل ٰی سركاری ملزمتوں كے لیے كھلے مقابلے كے‬
‫امتحان كے خلف مہم چلئی‪ ٬‬اكثریت كی مرضی كے تحت قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو‬
‫ناپسند كیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں كی علیحدہ پہچان كروائی اور دو قومی نظریہ كی بنیاد پر ان كے‬
‫لیے تحفظات مانگ ے ۔‬
‫سر سید مسلمانوں كوسیاست سے دور ركھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوںنے مسلمانوں كو ‪1885‬ئ‬
‫میں ایك انگریز اے او ہیوم كی كوششوں سے قائم ہونے والی انڈین نیشنل كانگریس سے‬
‫دورركھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا‬
‫طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید كی قومی و‬
‫سیاسی خدمات كے حوالے سے لكھا ہے‪:‬‬
‫‪٫٫‬قصر پاكستان كی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے ركھی تھی‪٬٬‬۔‬
‫نظری ہ پاكستان ك ے اجزائ ے تركیبی‬
‫برصغیر كے مسلمانوں نے ایك علیحدہ ریاست اس لیے حاصل كی تاكہ اللہ تعال ٰی كے حتمی ااور‬
‫قطعی اقتدار اعلیٰ كے تصور كو عملی جامہ پہنایا جا سك ے ۔ اس ذات عظیم كی برتر اور مطلق‬
‫قوت كو نافذ كا جائے اورایك ایسا نظام رائج ہو جس میں قرآن پاك اور احادیث رسول مقبول‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی اصولوں كو اپنایا گیا ہو ۔‬
‫اسلم محض عبادات اور رسومات كے مجموعہ كا نام نہیں بلكہ ایك مكمل ضابطہ حیات ہے ۔ جو‬
‫انسانی زندگی كے تمام تقاضوں كو پورا كرنے كی مكمل صلحیت ركھتا ہے ۔ اس میں معاشرت‬
‫اخلقیات اور سیاسیات كے تمام مقاصد كو پورا كرنے كا سامان موجود ہے ۔ اسلمی نظام جدید‬
‫تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور ہر دور كے لیے مكمل طور پر قابل عمل ہے ۔‬
‫‪:‬اسلمی نظام ك ے اجزائ ے تركیبی درج ذیل ہیں‬
‫‪١‬۔ عقائد و عبادات‬
‫پاكستان كے قیام كا مطالبہ كیا گیا تو ا س كے پس منظر میں یہ سوچ بھی كارفرما تھی كہ‬
‫مسلمان اپنے عقائد كے مطابق زندگی گزار سكیں اور عبادات كی ادائیگی میں كوئی ركاوٹ‬
‫محسوس نہ كریں ۔ عقائد میں توحید‪ ٬‬رسالت‪ ٬‬یوم آخرت‪ ٬‬فرشتوں اورالہامی كتابوں پر ایمان‬
‫ں اسل م میں جہاد كو بھی بہت اہم مقام‬ ‫لزم ہے ۔ عبادات میں نماز‪ ٬‬روزہ‪ ٬‬زكوۃ ‪ ٬‬حج شامل ہی َ‬
‫حاصل ہے۔ اللہ پاك كے علوہ كسی دوسرے كی عبادت نہ كرنا اور اپنے شب و روز اسی ذات‬
‫برحق كی خوشنودی كے لیے گزارنا اسلم ہے۔ اس عظیم ترین ہستی كے لیے اپنی جان اورمال كو‬
‫قربان كرنے كے لیے ہر وقت تیار رہنا جہاد ہے۔ جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں كی تلقی كی‬
‫گئی ہے ۔ تماام عبادات اور جہاد كا بنیادی مقصد اپنے آپ كو اللہ تعالیٰ كی منشا كا پابند بنانا ہے ۔‬
‫عبادات مسلمانوں كو اللہ كی راہ میں چلنے اور اسی كی خاطر جینے اور مرنے كے لیے تیار كرتی‬
‫ہیں۔ اور اللہ پاك كے علوہ كسی دوسرے كامحتاج بننے سے روكتی ہیں۔ یہ كردار تعمیر كرنے میں‬
‫معاون ثابت ہوتی ہیں اور ایك مثالی اسلمی ریاست اور معاشرے كی تشكیل كی راہ ہموار كرتی‬
‫ہیں ۔‬
‫‪ ٢‬۔ جم ہوری اقدار كا فروغ‬
‫اسلمی ریاست اور معاشرے كی بنیاد مشاورت ہے۔ اسلمی معاشرے میں جمہوریت كو فروغ‬
‫حاصل ہوتا ہے۔ عوام كے حقوق كا خیال ركھا جاتا ہے۔ انہیں مساوی درجہ ملتا ہے ۔ او ر وہ قانون‬
‫كے دائرے كے اندر رہ كر زندگی گزارتے ہیں ۔ قوانین انہیں تحفظ مہیا كرتے ہیں ۔ قانون كی نظر‬
‫میں سب برابر ہوتے ہیں ۔ افراد میں رگ‪ ٬‬نسل ‪ ٬‬ذات‪ ٬‬پات یا زبان كی بنیاد پر كوئی تمیز روا نہیں‬
‫ركھی جاتی ۔ حكومتی نظام سب لوگوں كی بھلئی كو پیش نظر ركھ كر چلیا جاتا ہے ۔ حكومت‬
‫اللہ تعال ٰی كے احكامات كی پابندی كرتی ہے اور فرائض كی ادائیگی میں اللہ تعال ٰی كے علوہ اپنے‬
‫عوام كو بھی جواب دہ ہوتی ہے۔ امیر المومنین اپنی ذمہ داریاںنبھاتا ہے۔ وہ اللہ تعال ٰی كے احكامات‬
‫كی روشنی میں فیصلے كرتا ہے۔ اقتدار اعل ٰی تو اللہ تعال ٰی كو حاصل ہوتا ہے البتہ امیر المومنین‬
‫اعلی كو اس كی منشا كے مطابق استعمال كرتا ہے ۔ عام لوگوں كو حكومت‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی كے اقتدار‬
‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫كی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید كا حق ملتا ہے۔ خلیفہ اول حضرت ابوبكر صدیق نے خلیفہ كے‬
‫طو رپر اختیارات سنبھالے تو صاف صاف كہہ دیا كہ عوام ان كے احكامات پر اس وقت عمل كریں‬
‫جب وہ احكامات اللہ اور ا س كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے احكامات سے متصادم نہ‬
‫ہوں ۔‬
‫پاكستان كا قیام عمل میں لیا گیا تو درج بال جمہوری تصورات كو عملی شكل دینا مقصود تھی ۔‬
‫یہ بھی ضروری تھا كہ ابتدائی اسلمی دور كے معاشرتی خدوخال كو اپنایا جائے اور اسلمی اقدار‬
‫كونئے سرے سے نافذ كیا جائے۔ پاكستان كو اسلمی معاشرے كے خطوط پر استوار كرنے كا فیصلہ‬
‫كیا گیا ۔ اسلمی جمہوریت كا تصور مغربی تصور جمہوریت سے بہت مختلف ہے ۔ قائد اعظم نے‬
‫‪14‬فروری ‪1948‬ئ كو سبی كے مقام پر تقریر كرتے ہوئے قیام پاكستان كی غرض و غائیت یوں‬
‫بیان كی ۔‬
‫‪٫٫‬آئو ہم اپنے جمہوری نظام كو اسلمی رنگ میں اسلمی اصولوں كے مطابق بنیاد فراہم كریں ۔‬
‫اللہ ذوالجلل نے ہمیں سكھایا ہے كہ ہم ریاستی امور كو باہم صلح مشورے سے طے كریں ‪٬٬‬۔‬
‫‪٣‬۔ معاشرتی انصاف اور مساوات‬
‫اسلم امن اخوت اور بھائی چارے كا درس دیتا ہے ۔ برصغیر كے مسلمانوں نے پاكستان كی تخلیق‬
‫كا فیصلہ كرتے ہوئے اس خواہش كا واضح اظہار كیا ہے كہ وہ صحیح اسلمی معاشر ے كا دوبارہ‬
‫قیام عمل میں لنا چاہتے تھے۔ وہ عدل ‪ ٬‬مساوات اور معاشرتی بہبود كے تقاضوں كو پورا كرنا‬
‫چاہتے تھے ۔اور پاكستان كوجدید دنیا كے سامنے ایك مثال بنا كر پیش كرنا چاہتے تھے تاكہ دنیا كی‬
‫دوسری اقوام ان كے نظام سے متاثر ہو كر ان كی تقلید كرنے لگیں ۔‬
‫ایك منصفانہ معاشرے كا قیام عمل میں لتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے عدل اور سماجی‬
‫مساوات پر زور دیا ۔ معاشرت میں ذات پات‪ ٬‬رنگ و نسل اورزبان و ثقافت كی تمیز روا ركھے‬
‫بغیر انسانوں كو برابر درجہ دیے جانے كا عزم ہوا۔ ریاست میں سب افراد كے لیے مساوی قانون‬
‫اور یكساں عدالتی نظام قائم كیا جانا مقصودتھا۔ آزاد عدلیہ اور قانون كی حكمرانی عوام میں‬
‫مساوات اور انصاف كے قیام كی بنیادی شرائط ہیں۔ اسلمی ریاست نے انصاف كی سر بلندی‬
‫پر زور دیا۔ خلفائے راشدین نے انصاف كی فراہمی كے لیے مساوات اور قانون كی حاكمیت كے‬
‫اصولوں پر سختی سے عمل كیا ۔ حضرت عمر فاروق نے انپے بیٹے كی سزا بھی معاف نہ كی ۔‬
‫انہوںنے انصاف اور قانون كی بال دستی اور مساوی سلوك كی درخشندہ مثالیں قائم كیں ۔‬
‫اسلم عورت كو باوقار مقام دیتا ہے۔ عورت ماں ہو یا بہن بیوی ہ ویا بیٹی ‪ ٬‬ہر كردار میں اہم‬
‫تسلیم كی گئ یہے۔ ماں كے قدموں تلے جنت كا تصور اسلم ہی نے دیا ہے۔ اسلم نے خواتین كو‬
‫معاشرتی‪ ٬‬معاشی ثقافتی اور خاندانی غرضیكہ ہر پہلو میں مكمل تحفظ فراہم كیا ہے ۔ اسلمی‬
‫معاشرہ بوڑھوں ناداروں اور یتیموں اور بیوائوں كی تمام ضرورتوں كی تكمیل كا ذمہ دار ہے ۔‬
‫قرآن و حدیث میں عورت كے حقوق كا تذكرہ مردوں سے پہلے كیا گیا ہے۔ عورتوں كو اسلم نے‬
‫پہلی مرتبہ وراثت میں حصے دار قرار دیاا۔ وہ انہیں محفوظ اور مطمئن زندگی فراہم كرتا ہے‬
‫اسلمی نظام میں ہر فرد كو ہر پہلو سے انصاف فراہم كرنا حكومت كی ذمہ داری ہے ۔‬
‫اسلمی ریاست میں دولت كا چند ہاتھوں میں ارتكاز نہیں ہوتا بلكہ دوت كی منصفانہ تقسیم كا‬
‫ایك مرباط نظام ہوتا ہے۔ پاكستان بنانے كا فیصلہ ہوا تو مندرجہ بال تمام اقدار كو اپنانے اور‬
‫ریاست كو ایك ایسی مثالی ریاست بنانے كا خواب دیكھا گیا جس میں اخوت بھائی چارہ برداشت‬
‫اور باہمی تعاون كے جذبوں كو فروغ دیا جانا تھا ۔‬
‫‪٤‬۔ ش ہریوں ك ے حقوق و فرائض‬
‫پاكستان جیسی اسلمی ریاست كا قیام عمل میں لیا گیا تو ایك طرف شہریوں كے حقوق اور‬
‫تحفظات كی اہمیت تسلیم كی گئی تو دوسری جانب ان كے فرائض پر بھی بھرپور زور دیا گیا ۔‬
‫ایك اسلمی معاشرے میں حقوق كے ساتھ ساتھ فرائض كا ذكر بھی خصوصی طور پر كیا جاتا ہے ۔‬
‫ایك فرد كا حق دوسرے فرد كا حق بن جاتاہے۔ حقوق و فرائض كا چولی دامن كا ساتھ ہے۔ یہ لزم‬
‫و ملزوم ہیں ۔فرائض ادا كركے ہی ایك فرد حقوق حاصل كرنے كے قابل بنتا ہے ۔ فرائض كا تعلق‬
‫انسان كیذاتی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں سے ہوتا ہے ۔ اسلمی ریاست كو حقوق و فرائض كا‬
‫باہمی توازن ایك كامیاب ریاست بنا دیتا ہے ۔‬
‫ایك اسلمی ریاست میں تمام شہریوں كو كسی تمیز كے بغیر مختلف بنیادی حقوق مہیاكیے جاتے‬
‫ہیں۔ حقو ق وہ سہولتیں ہیں جو شہریوں كو ریاست كی طرف سے دی جاتی ہیں تاكہ وہ معارے‬
‫میں بہت اچھی زندگی بسر كرنے كے قابل ہو سكیں ۔ ان كی جان و مال اور عزت كی حفاظت‬
‫كی جاتی ہے اور انہیں علم و صحت كے حصول میں مدددی جاتی ہے۔ اسلم نے صدیوں پہہلے ان‬
‫انسانی حقوق كا واضح اعلن كردیا تھا جو مغربی دنیا میں بیسویں صدی میں دیے گئ ے ۔ حقوق‬
‫كے حوالے سے امیر و غریب گورے و كالے اورعربی و عجمی میں كوئی فرق روا نہ ركھا گیا ۔ قیام‬
‫پاكستان كی غرض و غائیت یہ تھی كہ انسانوں كو برابر حقوق ملیں اور وہ اپنی ترقی كے یكساں‬
‫مواقع حاصل كر سكیں۔ ان میں احساس كمتری نہ ہو اور نہ نسلی برتری كا كوئی احساس‬
‫موجود ہو۔ تاكہ ایك مثالی معاشرتی نظام دنیا كے روبرو لیا جا سكے۔ افراد كو حقوق كی فراہمی‬
‫اور تحفظ كا فرض اسلمی ریاست پر عائد كیا گیا ہے ۔‬
‫پاكستان میں اقلیتوں كو تحفظ دینے كی سوچ تھی قیام پاكستان كے پس منظر میں شامل تھی ۔‬
‫قائد اعظم نے یہ بھی واضح كر دیا كہ پاكستان میں اقلیتوں كا پور ا خیال ركھا جائ ے ۔ اسلم كسی‬
‫صورت میں بھی یہ اجازت نہیں دیتا كہ اسلمی معاشرے میں زندگی گزارنے والی اقلیتوں كے جان‬
‫و مال عزت اور مذہبی روایات كا تحفظ نہ كیا جائ ے ۔‬
‫پاكستان میں اسلمی معاشرے كے از سر نو قیام كا خواب دیكھا گیا۔ انسانی عظمت كو نئے‬
‫سرے سے اجاگر كرنے اور عدل و انصا ف پر مبنی معاشرے كے لیے اسلمی اصولوں كو اپنانے كا‬
‫فیصہ ہوا ۔ قیام پاكستان درحقیقت اسلمی معاشرے كے قیام كی طرف ایك بڑا اہم قدم ہے تاكہ‬
‫مسلمان اپنے مذہبی اصولوں كے مطابق روز مرہ اجتماعی اور انفرادی زندگی گزار سكیں ۔‬
‫اخوت و ب ھائی چار ہ ‪٥‬۔‬
‫دین اسلم امن كا داعی ہے اور مسلمانوں كے مابین اخوت اور بھائی چارے كے جذبوں كو فروغ‬
‫دینے پر زور دیتا ہے۔ بھائی چارے سے محبت‪ ٬‬خلوص قربانی احساس اور شقت میں اضافہ ہوتا‬
‫ہے۔ تمام مسلمان ایك دوسرے كے بھائی ہیں۔ ایك كا دكھ سبھی مسلمانوں كا دكھ اور ایك كی‬
‫خوشی سبھی مسلمانوں كی خوشی ہے۔ مسلمان ایك دوسرے كی مدد اور ضروریات پوری‬
‫كرتے ہیں۔ اسلمی ریاست میں یہی اعل ٰی و ارفع جذبے ریاست كو مضبوط سے مضبوط تر بناتے‬
‫چلے جاتے ہیں ۔‬
‫پاكستان مسلمانان برصغیر كی جدوج ہد كا نتیج ہ‬
‫پاكستان كی تخلیق ایك زبردست اور مسلسل جدوجہد كے بعد ممكن ہوئی۔ برصغیر پاك و ہند‬
‫میں مسلمان صدیوں سے حكمرانی كرتے آ رہے تھے كہ یورپی اقوام نے ادھر كا رخ كیاا ۔ انگریز‬
‫تجارت كی غرض سے آئے اور برصغیر كے عوام كے باہمی اختلفات سے فائدہ اٹھا كر اقتدار پر‬
‫قابض ہو گئے۔ ٹیپو سلطان اورنواب سراج الدولہ كو غداروں كی وجہ سے ناكامیوں كا سامنا كرنا‬
‫پڑا تو انگریز پور ے علقے پر چھا گئے برصغیر كو انگریزوں سے آزاد كرانے كی كئی كوششیں كے‬
‫بعد دیگرے ناكام ہو گئیں ۔ ‪1857‬ئ كی جنگ آزادی كے باوجود مسلمان غامی كی زنجیریں نہ توڑ‬
‫سكے۔ انیسویں صدی كے دوسرے نصف میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں كو تحریك علی‬
‫گڑھ كے ذریعے نئے سرے سے بیدار كا۔ انہیں جدید تعلیم كے حصول كی جانب راغب كیا نیز‬
‫معاشرتی اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں كو ہندو قوم كے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ كے‬
‫نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم كر لی۔ مسلمان دوہر ی غلمی سے نجات چاہتے تھے۔ وہ‬
‫جدوجہد انگریزو ں كے خلف بھی كرتے رہے اور ہندو قوم كی متوقع غلمی سے چھٹكارے كے لیے‬
‫بھی كوشاں رہے۔ ہندو راہنما انگریزوں كو برصغیر سے نكال كر جمہوریت كے نام پر اپنی حكومت‬
‫كے خواب دیكھ رہے تھے۔ جمہوریت اكثیرت كی حكومت ہوتی ہے اورہندو برصغیر میں اكثیرت میں‬
‫ت ھے ۔ اس لیے انگریز حكومت كے خاتمے كے بعد اقتدار اكثریتی قوم كو منتقل ہو جانا تھاا ۔ یوں‬
‫مسلمان ہندو كی مستقل غلمی كا شكار ہوجاتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم جیسے جری‬
‫ذہین اور بے مثل رہنما كی قیادت میں مسلمان عوام كی راہنمائی كی اور بالخر پاكستان كے نام‬
‫سے ایك آزاد اوار خود مختار ریاست بنانے میں كامیاب ہو گئی۔ اپنی منزل تك پہنچنے كے لیے‬
‫مسلم قوم كو بھرپور جدوجہد كرنا پڑی اور بے مثال قربانیوں اور مشكل حالت كے بعد وہ اپنا‬
‫مقصد پانے میں كامیاب ہو گئ ے ۔‬
‫پاكستان كے لیے جدوجہد میں عوام اور ان كے راہنمائوں نے بڑی قربانیاں دیں ۔ انگریزوں كی‬
‫حكومت كے خاتمے اور ہندوئوں كی متوقع اجارہ داریوںسے چھٹكارا پانے كے لیے متعد د شخصیات‬
‫نے بے شمار اور عظیم خدمات انجام دیں۔ ان سرگرمیو ں میں مسلم خواتین اورنوجوان طلبہ و‬
‫طالبات نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔ علمائے كرام اور مشائخ عظام نے بھی ملت كی راہنمائی كی ۔‬
‫مختلف صوبوں اور علقوں كی كئی عظیم مسلم شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں قومی فلح و‬
‫بہبود كے لیے كردار نبھایا۔ وہ اپنے قول و فل سے برصغیر كی امت مسلمہ كی آزادی اور خوشگوار‬
‫مستقبل كے لیے كوشاں رہے مثل صوبہ سرحد سے سردار اورنگ زیب خاں پیر مانكی شریف ور‬
‫صاحبزادہ عبدالقیوم نمایاں ت ھے ۔ بلوچستان سے تعلق ركھنے والےٰ قاضی محمد عیسی ۔ٰ نواب‬
‫محمد خاں جوگیزئی اور میر سہراب خاں شہید كی خدمات قابل ذكر ہیں۔ میر سہراب خاں نے تو‬
‫اپنی جان قومی آزادی پر نچھاور كر دی ۔ سندھ میں پیر صبغت اللہ كا نام بڑا اہم ہے جنہوںںے‬
‫جروں نكی قیادت كرتے ہوئے انگریز حكومت كے خلف جدوجہد كی اور شہادت كا رتبہ حاصل كیا ۔‬
‫سر عبداللہ ہارون اور آغا حسن آفندی جیسی عظیم شخصیات كا تعلق بھی سندھ سے تھا ۔ اسی‬
‫طرح پنجاب بنگال اور دیگر صوبوں سے تعلق ركھنے والے متعدد لوگوں نے قو م كے لیے قابل قدر‬
‫خدمات انجام دیں۔ ان كی كوششوں سے اور خدمات كی بدولت آج پاكستان ایك آزاد اور خود‬
‫مختار مسلم مملكت كے طور پر اپنا وجو د ركھتاہے۔ اور پاكستانی قوم آزاد فضا میں سانس لے‬
‫رہی ہے ۔‬
‫برصغیر كے مسلمان اكابرین نے گزشتہ دو سو سالوں میں كارہائے نمایاں انجام دیے اور بڑے‬
‫مشكل حالت میں اپنا مقصد حاصل كرنے میں كامیاب رہے۔ اس جدوجہد كے دوران اس راہ میں‬
‫اہم سنگ میل آئے ۔ ذیل میں ان كا تفصیلی ذكر كرتے ہیں ۔‬
‫علم ہ محمد اقبال اورنظری ہ پاكستان‬
‫علمہ محمد اقبالنے نظریہ پاكستان كے حوالے سے دعو ٰی كیا كہ ہندو اور مسلمان ایك مملكت‬
‫میں اكٹھے نہیں رہ سكتے اور مسلمان جلد یا بدیر اپنی جداگانہ مملكت بنانے میںكامیاب ہو جائیں‬
‫گے۔ علمہ اقبال نے برصغیر میں واحد قوم كے وجود كا تصور مسترد كر دیاا ور مسلم قوم كی‬
‫جداگانہ حیثیت پر زور دیا۔ اسل م كو ایك مكمل نظام مانتے ہوئے علمہ محمد اقبال نے اسی بنیاد‬
‫پربرصغیر كے شمال مغرب میں علیحدہ مسلم ریاست كے قیام كا تصور آل انڈیا مسلم لیگ كے‬
‫سالنہ اجلس منعقدہ ‪1930‬ئ میں پیش كیاانہوںنے واضح كہا كہ‪:‬‬
‫‪٫٫‬انڈیا ایك برصغیر ہے ملك نہیں۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق ركھنے اور مختلف زبانیں بولنے‬
‫والے لوگ رہتے ہیں۔ مسلم قوم اپنی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی پہچان ركھتی ہے‪٬٬‬۔‬
‫قائد اعظم اورنظری ہ پاكستان‬
‫وہ بطل عظیم جس نے مسلمانان برصغیر كو باوقار اور محفوظ مقام تك پہنچایا اورایك علیحدہ و‬
‫مسلم مملكت كے قیام كا تصور عملی شكل میں ڈھا ل دیا وہ قائد اعظم ہی كی ہستی تھی ۔‬
‫انہوںنے نظریہ پاكستان كی وضاحت ان الفاظ میں كی ۔‬
‫‪٫٫‬پاكستان تو اسی روز وجود میں آ گیا تھا جب پہل ہندو مسلمان ہوا تھا‪٬٬‬۔‬
‫‪1943‬ئ كے سالنہ جلسہ منعقدہ كراچی میںقائد اعظم نے پاكستان اور اسلم كے باہمی رشتے كو‬
‫واضح كرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫‪٫٫‬وہ كون سا رشتہ ہے جس سے منسلك ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد كی طرح ہیں؟ وہ كون‬
‫سی چٹان ہے جس پر اس ملت كی عمارت استوار ہے ؟ وہ كون سا لنگر ہے جس سے اس امت‬
‫كی كشتی محفوظ كر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر خدا تعال ٰی كی كتاب قرآن مجید ہے‪٬٬‬۔‬
‫مارچ ‪1944‬ئ میں طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫‪٫٫‬ہمارا راہنما اسلم ہے اور یہی ہماری زندگی كا مكمل ضابطہ ہے‪٬٬‬۔‬
‫‪21‬مارچ ‪1948‬ئ كو ڈھاكہ كے عوام سے خطاب كرتے ہوئے كہا‪:‬‬
‫‪٫٫‬میں چاہتا ہوں كہ آپ سندھی‪ ٬‬بلوچی ‪ ٬‬پنجابی ‪ ٬‬پٹھان اور بنگالی بن كر بات نہ كریں ۔ یہ كہنے‬
‫میں كیا فائدہ ہے كہ ہم پنجابی ‪ ٬‬سندھی یا پٹھان ہیں ہم تو بس مسلمان ہیں‪٬٬‬۔‬
‫آپ نے علی گڑھ میں خطاب كرتے ہوئے نظریہ پاكستان كو ان الفاظ میں واضح كیا‪:‬‬
‫‪٫٫‬پاكستان كے مطالبے كا محرك اور مسلمانوں كے لیے جداگانہ مملكت كی وجہ كیا تھی؟ تقسیم‬
‫ہند كی ضرورت كیوں محسوس ہوئی؟ اس كی وجہ ہندوئوں كی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں كی‬
‫چال یہ اسلم كا بنیادی مطالبہ ہے‪٬٬‬۔‬
‫قائد اعظم نے برصغیر كے تاریخی تناظر میں موقف اختیار كیا كہ جنوبی ایشیائ كے مسلمان‬
‫ہرگز اقلیت نہیں۔ وہ ایك مكمل قوم ہیں اورحق ركھتے ہیں كہ جن علقوں میں ان كی اكثریت ہے‬
‫وہاں وہ اپنی علیحدہ ریاست قائم كر لیں ۔‬
‫اسلمی جم ہوری ہ پاكستان كا قیام‬
‫نظری ہ پاكستان‬
‫پاكستان مملكت خداداد ایك ٹھوس نظریے كی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پاكستان كے نظریے كی‬
‫اساس دین اسل م ہے جو مسلمانوں كی زندگی كے تمام شعبوں میں راہنمائی كرتا ہے ۔ اسلمی‬
‫نظام حیات انسانی زندگی كے تمام پہلوئوں كا احاطہ كرتاہے۔ یہ معاشرتی اخلقی‪ ٬‬سیاسی ‪٬‬‬
‫مذہبی اور معاشی شعبوں كے حوالے سے بنیادی اصولوں كا حامل ہے ۔ اسلمی نظام قرآن پاك‬
‫اور حضور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی سنت اور احادیث پر استوار ہے۔ یہی نظام‬
‫ہمارے پیارے وطن پاكستان كی بنیاد قرار پایا۔ برصغیر كے مسلمان انگریز دور حكومت میں‬
‫دوسری اقوام كے ساتھ غلمی كی زندگی بسر كر رہے تھے۔ وہ آزادانہ خود مختار حیثیت چاہتے تھے‬
‫لیكن انگریزوں كی غلمی سے چھٹكارا پانے كے بعد بھی انہیں اپنے مقصدمیں كامیابی دكھائی نہیں‬
‫دے رہی تھی۔ ہندو اكثریت كا غلبہ صاف نظر آ رہا تھا۔ بڑے غور و فكر كے بعد مسلمانوں نے یہ‬
‫فیصلہ كیا كہ انگریزوں كی حكوت كے خاتمے كے بعد ایسے علقوں میں ایك مسلم مملكت قائم ہو‬
‫جائے جہاں مسلمان اكثریت میں ہیں۔ یوں مسلمان دائمی غلمی سے بھی چھٹكارا پا لیں گے‬
‫اورایك مخصوص خطہ زمین پر دین اسلم كے اصولوں كے مطابق نظام رائج كرنے میں كامیاب ہو‬
‫جائیں گ ے ۔ یہ سو چ رفتہ رفتہ مضبوط ہوئی اور بالخر مسلمانوں كا نصب العین بن گئی ۔ منزل‬
‫مقصود پانے كے لیے مسلمانوں نے ایك عظیم تحریك كا آغاز كیا۔ علیحدہ اسلمی مملكت كا قیام‬
‫ایك مقصد بنا اور یہی مقصد نظریہ پاكستان كی تخلیق كا باعث بنا ۔‬
‫نظریہ اسلم ہی نظریہ پاكستان ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی حضرت شاہ ولی اللہ ‪ ،‬حضرت سید‬
‫احمد شہید ‪ ،‬سرسید احمد خاں‪ ٬‬علمہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسی عظیم ہستیوںنے اس‬
‫پودے كی آبیاری كی۔ ان كا خواب تھا كہ مسلمان اسلمی معاشرت‪ ٬‬ثقافت‪ ٬‬معیشت اور‬
‫اخلقیات پر مبنی نظام رائج كریں اوریہ خواب سال ہا سال كی كاوشوں اور قربانیوں كے بعد‬
‫شرمندہ تعبیر ہوا ۔‬

You might also like