Professional Documents
Culture Documents
فہرست مضامین
پاکستان کا نظریاتی اساس
ل پاکستان
تشکی ِ
اسلمی جمہوریہ پاکستان میں آئینی ارتقاء
پاکستان کی سرزمیں اور آب و ہوا
پاکستان کے وسائل
پاکستان میں صنعتی ترقی
پاکستان کی ثقافت
پاکستان میں تعلیم
3.3
رسککککککوم و
رواج
نظریے کی اہمیت
نظریے کی اہمیت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر واضح ہوتی ہے۔
خیالت کا عکاس
نظریہ افکار و خیالت کا عکاس ہوتا ہے۔یہ معاشرے میں رہن سہن ،سوچ ،طرز فکر اور بککاہمی
تعلقات کے اصول متعین کرتا ہے۔
Contents
][hide
1.4
رواداری
مساوات
اسلم انسانوں کے درمیان مساوات کا علم بردار ہے ۔ اسلم رنگ و نسککل ،زبککان،و ثقککافت اور
امارت و غربت سمیت تمام امتیازات و تفریق کی نفی کرتا ہے۔ رسول اکرم نے حجت کہ الککوداع
کے موقع پر فرمایا ۔
آدم کی اولد ہیں ۔کسی عربی کو کسسسی عجمسسی پسسر اور ؑ ” تمام انسان حضرت
کسی عجمی کو کسی عربی پر ،کسی گور ے کسسو کسسال ے پسسر اور کسسسی کسسال ے کسسو
کسی گور ے پر کوئی فوقیت حاصل ن ہیں ہے۔“
اسلم میں فوقیت اور برتری کی بنیاد تقویٰ ہے نہ کہ دولککت یککا اختیککار و اقتککدار ۔ اسککلم میککں
لوگوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔کوئی کسی سے برتککر نہیککں سککوائے ان ککے جککو تقککو ٰی
یعنی پرہیزگاری اور خوف خدا اختیار کرتے ہیں ۔قانون کی نظر میککں تمککام انسککان برابککر ہیککں ۔
تمام انسانوں کو یکساں قانونی تحفظ حاصل ہے اور انہیں بہتر سماجی مقام حاصل کرنے کے
یکساں اور مساوی مواقع حاصل ہیں ۔
اخوت
اخوت کے معنی بھائی چارے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ”کل مسلم اخوة“ یعنی تمککام
مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اخوت کا اصول اسککلمی معاشککرے کککا ایککک ا ہم پہلککو ہے ۔
بھائی بھائی ہونے کی حیثیت سے وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اور خوشککی و غککم میککں شککریک
ہوتے ہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا احساس ،محبت ،باہمی تعاون اور قربانی کے جککذبات کککو
ابھارتا اور فروغ دیتا ہے ۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا ۔
” ہر مسلمان دوسر ے مسلمان کا ب ھا ئی ہے اور اپن ے ب ھائی کو تکلیف پ ہنچان ے کسسا
ذریع ہ ن ہیں بنتا ہے۔“
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا ۔
”پس میں کین ہ ن ہ رک ھو ۔حسد ن ہ کسسرو ۔ ایسسک دوسسسر ے سس ے منس ہ نس ہ پ ھیسسرواور سسسب
ب ھائی ب ھائی بن جاو ۔“
مختصر یہ کہ ایک مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے کسی قسککم کککی کککدورت نہیککں
رکھنی چاہئے اور نہ ہی حسد کرنا چاہئے۔مسلمان تو مسلمان ہیں اسلم تو غیککر مسککلموں ککے
خلف بھی سازش کرنے اور بُرے خیالت رکھنے کی بھی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
رواداری
رواداری اور برداشت اسلم کی نظر میں نہایت عظیم نیکیاں ہیں ۔ جککو انسککان کککو مشکککل و
دشواری سے بچاتی ہیں اور دوسروں ککے لیکے پیکار و محبکت ککا ذریعکہ بنکتی ہیکں۔لوگکوں ککے
درمیان سماجی تعلقات قائم کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز
کیا جائے۔ باہمی جھگڑوں سے بچنے کے لئے رواداری بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی وجکہ سکے اخککوت
اور امن کا ماحول فروغ پاتا ہے اور انسانی رشتوں میں استحکام آتا ہے ۔ رسول اکرم نے اپنے
قول و فعل سے رواداری کا درس دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قران حکیم میں فرمایا ہے ۔
”دین میں کوئی جبر ن ہیں ۔“
یہ رواداری کا ایک سنہری اصول ہے۔ اسلمی معاشرے میں غیر مسلموں ککے جککائز حقککوق کککا
احترام کیا جاتا ہے اور انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے افراد پر نظر رکھنا
ضروری ہوتا ہے جو اپنے خیالت اور نظریات کو زبردستی دوسروں پر مسلط کرنا چککاہتے ہیککں
اور دوسروں کے جذبات مجروح کرتے ہیں ۔
Contents
][hide
ب الوطنی
ح ّ
کسی بھی شخص کی اپنے وطککن سکے محبککت اور اس ککے لئے قربککانی ککا انکدرونی جکذبہ اور
ب الوطنی کہلتا ہے۔کسی آزمائش کے وقت یا اگر آزادی کو خطرہ ہو تککو اس وقککت خلوص ح ّ
لوگ اپنے قومی کردار کا مظککاہرہ کرتکے ہیککں۔ ب ھارت ککے خلف 1965ءکککی جنککگ ککے دوران
ب الوطنی کے جذبے کا زبردست مظاہرہ کیا ت ھا۔ جککو دراصککل ان ککے قککومی پاکستانیوں نے ح ّ
کردار کا مظہر تھا ۔
محنت اور مشقت
قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اس کے افراد سخت محنت و مشککقت کرت کے ہیککں ۔ اس
س فرض شناسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام اس لئے خوشککحال اور کے لئے احسا ِ
ترقی یافتہ بن سکی ہیں کیونکہ ان کے عوام میں شدید احسککاس فککرض شناسککی و ذم کہ داری
پایا جاتا ہے۔کسی بھی ملک کے وسائل اس کے افراد کی سخت محنت کی بککدولت ہی ترقککی
اور خوشحالی کا روپ دھارتے ہیں اور نشونما پاتے ہیں ۔
قومی مفاد
کسی بھی شخص کے ذاتی کردار کو لزمًاقومی مفاد کی برتری اور فوقیت کی عکاسی کرنا
چاہئے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونککا چککاہئے۔ اسککی روی کہ سکے ایمانککداری ،دیانتککداری اور
سپردگی کی صفات اور خوبیاں پھلتی اور پھولتی ہیں ۔صرف وہی قومیں زنککدہ و پائنککدہ ر ہتی
ہیں جن کے افراد اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں ۔
” ہندوستان ایک ملک ن ہیں بلک ہ ایک برصغیر ہے ج ہاں مختلسسف مسسذا ہب کس ے مسسانن ے
وال ے اور مختلف زبان ے بولن ے وال ے لوگ آباد ہیں ۔ مسلمان قسسوم کسسا اپنسسا جسسداگان ہ
مذ ہب اور ت ہذیبی شناخت ہے۔ تمام م ہذب اقوام کو مسلمانوں ک ے دینی اصولوں
اور ثقافتی اور معاشرتی اقدار کا احترام کرنا چا ہئ ے۔“
”مج ھے ایسا نظر آتا ہے کس ہ پنجسساب ،شسسمالی مغربسسی سسسرحدی صسسوب ہ سسسند ھ اور
بلوچستان ضم ہوکر ایک ریاست بنائیں گ ے۔مضبوط اور مربوط شمالی مغربسسی
مسلم ریاست کا قیام کم از کسسم شسسمالی مغربسسی ہندوسسستان کس ے مسسسلمانوںکی
آخری منزل ہے۔“
علمہ اقبال کا یہ خطبہ تحریک پاکستان میں ایک سنگ میل ثابت ہوا ۔
نظریے کے ارکان
نظریے کے بنیادی ارکا ن حسب ذیل ہیں ۔
مشترکہ مذہب
مذہب اقوام عالم کے لئے اتحادی قوت ہے۔ تمام اقوام عالم اپنے مذاہب کی بنیککاد پککر شککناخت
کی جاتی ہیں ۔ مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے سے جدا ہیں کہ ان کے عقائد مختلف ہیں ۔
مشترکہ ثقافت
عام طور سے ایسے افراد جن کی ثقافت مشترکہ ہوتی ہے۔ ان کککا طککرزِ زنککدگی ب ھی یکسککاں
ہوتا ہے اور یہ لوگ بالعموم اپنے رسم ورواج پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ۔
مشترکہ مقصد
جب لوگوں کا مقصد مشترکہ ہوتا ہے تو وہ متحدبھی ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کککا
حصول جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا مشترکہ مقصد تھا۔ اس نکے انھیککں نظریکے پاکسککتان پککر
باہم متحد کردیا تھا ۔
خالی جگہیں
) (۱نظریے پاکستان کی اسا س اسلمی فکروفلسفہ پر ہے ۔
) (۴علمہ اقبال نے ا لہٰ آباد کے مقام پر 1930میں اپنے صدارتی خطبے میککں نظری کے پاکسککتان
کے بارے میں بیان دیا ۔
) (۵قائداعظم نے فرمایا کہ ہندومت اور اسلم دومختلف معاشرتی نظام ہےں ۔
ل پاکستان
تشکی ِ
سوال :فرائض تحریک ک ے کیا مقاصد ت ھے؟
فرائض تحریک
حاجی شریعت اللہ نے بنگال کے مسلمانوں کو غیر مسلم رسوم و رواج سے چھٹکککارہ پککانے کککا
مشورہ دیا۔ انھوں نے اسلمی احکامات پککر عمککل پیککرا ہونے کککی ضککرورت پککر زور دیککا اور ان
اسلمی احکامات کو انھوں نے فرائض کا نام دیا۔ اسی لئے اسککلمی اصکولوں ککے لئے ان کککی
تبلیغ و تلقین اور مسککلمانوں ککے لئے اصککلحی تحریککک "فککرائض تحریککک"کہلتککی ہے ۔ فککرائض
تحریک کے بنیادی مقاصد یہ ہیں ۔
سوال :پنجاب اور سرحد سے معاشرتی برائیوں کو مٹانے کے لئے سید احمد کی جدوجہد بیککان
کریں؟
Contents
][hide
سوال :جدوج ہد پاکستان میں مسلم لیگ ک ے کردار پر روشنی ڈالی ے؟
Contents
][hide
) (۴نشستیں
مسلم اکثریت کے دونکوں صکوبوں یعنککی بنگککال اور پنجککاب کککی قکانون سککاز اسککمبلیوں میککں
مسلمانوں کی اکثریت مستحکم ہوگئی ۔
سوال :جدوج ہد پاکستا ن میں صوبوں ن ے کیا کردار ادا کیا ت ھا؟
Contents
][hide
][hide
][hide
][hide
مختصر سولت
) (۳اسلمی اصولوں کے مطابق برصغیر میں ایک ریاست قائم کرنا ۔
) (۴مسلمانوں کو ایسے اعمال وا فعال اور خیالت سے بچانکا جکو اسکلمی اقکدار ککے منکافی
ہوں ۔
) (۴اور انہےںمتنازع اور تشدد کی سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرنا ۔
) (۱برطانوی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان خیرسگالی ککے جکذبات اور دوسکتانہ تعلقکات
قائم کرنا اور انگریزوں کے ذہن سے مسلمانوں کے خلف شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا ۔
) (۲مشترکہ فلح و بہبود کے لئے برصغیر کی دوسری اقوام اور سیاسی جماعتوں سے تعلقات
استوار کرنا ۔
) (۳حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں ککے حقککوق کککا
تحفظ کرنا ۔
) (۱آئندہ آئین وفاقی طرز کا ہو جس میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائ ے ۔
مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک کے مطالبہ کو علمہ اقبال نے اپنے خطبہ میں اس طککرح پیککش
کیا ۔
) (۱دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان کے لئے ایک دستور ساز اسککمبلی تشکککیل دی
جائے جو ملک کے لئے دستور تیار کرے ۔ لیکن جنگ کے دوران ہندوسککتان پککر برطککانیہ کککا قبض کہ
برقرار رہے گا ۔
) (۲مجوزہ دستور وفاقی طرز کا ہوگا جس میں تمام صوبے اور ریاستیں شریک ہوں گی ۔
) (۳وفاقی دستور میں کسی بھی آئینی صوبے یا ریاست کو یکہ حککق دیککا جککائے گککا ککہ وہ چککاہے
تودس سال کے بعدوفاق سے علیحدگی
اسلمی جمہوریہ پاکستان میں آئینی ارتقاء
کسی بھی ملک کے لیے آءین یا دستور کیوں ضروری ہے؟
قرارداد ِ مقاصد کے خدوخال بیان کریں
1956کے آئین کے امتیازی خدوخال بیان کریں.
مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے علیحدہ کیوں ہوا؟
ملک میں خوشحالی کے کے لیے پاکستانیوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
1973کے آئین کے اہم نکات تحریر کریں ۔ ؟
سوال :کسی ملک ک ے لئ ے آئین یا دستور کیوں ضروری ہے؟
قوانین اور قواعد و ضوابط کے ایسے مجموعے کو آئین یا دستور کہا جاتا ہے جککو کسککی
ملک یا ریاست کا کاروبارِ حکومت چلنے کے لئے ترتیب دیاجاتا ہے۔ اس کا مقصد ِ اول یہ ہوتا ہے
کہ اس کے ذریعہ ملک یا ریاست کے عوام منظم ،پرامن اور خوشحال زندگی گزارسکیں ۔
کسی بھی ملک یا ریاست کا نظام یا کاروبار حکومت چلن کے ک کے لئے کئی ادارے وجککود
میں آتے ہیں اور ہر ادارے کے لئے قوانین اور قواعد و ضوابط ترتیب دئے جاتے ہیککں ۔ ان اداروں
کو چلنے کے لئے کچھ افراد کا تقرر بھی کیا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک نظام حکومت وجککود میککں
آجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ادارے اور افراد مل کر حکومت بناتے ہیں۔ یہ حکومت پھر قککوانین
اور قواعد وضوابط کو یکجا کرتی ہے۔ ان قواعد وقوانین و ضوابط کے مجموعے کککو جککن کککی
روشنی میں کاروبار حکومت چلیا جاتا ہے آئین یا دستور کہا جاتا ہے۔ی کہ حکککومت ک کے مختلککف
شعبوں کے اختیارات ،ان کے باہمی تعلقات نیز شکہریوں ککے حقکوق ککابھی تعیکن کرتکا ہے۔ان
مقاصد کے حصول کےلئے اور کاروبار حکومت کومو�¿ثر طور پر چلنے ککے لئے ایککک آئیککن یککا
دستور کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ آئین میں دی گئی حدود کو پار نککہ
کرسک ے ۔
][hide
جون 1955میں دوسری دستور ساز اسمبلی منتخککب ہوئی اور آئیککن سککازی کککا کککام
شروع ہوا اور ایک سال سے بھی کم عرصے میں ملک کا آئین تیار کیا گیا ۔جو 23مارچ
1956کو نافذ ہوا ۔ 1956کے آئین کے نمایاں خدوخال
اس آئین کے ابتدائیہ میں یہ کہا گیا کہ حاکمیت اور اقتدار اعل ٰی اللہ تعککال ٰی ک کے پککاس
( )۱
ہے اور پاکستان کو اسلمی جمہوریہ قرار دیا گیا ۔
) (۲ملک میں وفاقی پارلیمانی نظام حکومت قائم کیا گیا ۔
) (۴حکومت کے وفاقی نظام کے تحککت مرکککز اور پاکسککتان ککے دونککوں صککوبوں یعنککی
سابقہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری ) (Parityکی بنےاد پککر
اختیارات کا تعین کیا گےا ۔
) (۵اس بات کککی ضککمانت دی گئی ککہ مسککلمانوں کککو اسککلمی تعلیمککات ککے مطککابق
زندگی گزارنے کے تمام مواقع مہیا کئے جائیں گ ے ۔
) (۶حکومت پاکستان دنیا کے تمام مسلم ممالک سے قریبی او ر دوستانہ تعلقات قککائم
کرے گی ۔
) (۷سربراہ مملکت لزما ً مسلمان ہوگا ۔
) (۸کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلمی اصولوں یعنی قرآن و سنت کے
خلف ہو؛ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہوگا تو اس میں مناسب ترمیم کی جائے گی ۔
) (۹صدر پاکستان ایک کمیشن تشکیل دیں گے جو تمام موجودہ قوانین کا جائزہ لے گککا
اور ان میں ضروری ترامیم کی سفارش کرے گا ۔
) (10غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو مناسب تحفظ فراہم کیا گیا ۔
][hide
بھارت کا حملہ
فوجی کارروائی کے نتیجے میں عوامی لیگ کے رہنما اور بنگککالیوںکی ایککک کککثیر تعککداد ب ھارت
فرار ہوگئی۔بھارت نے پاکستان کے اندرونی معاملت میں مداخلت شروع کردی۔ب ھارت نکے یکہ
گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ مشرقی پاکستان کے لکھوں پناہ گزینوں کی وج کہ س کے اس
کی سلمتی کو خطرہ لحق ہوگیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں فککوجی کککارروائی کککو ب ھارت نکے
اپنے اوپر حملہ قرار دیا تھا۔شیخ مجیب الرحمن نے مکتی باہنی )آزادی کی فوج (ک کے نککام س کے
ایک نیم فوجی لشکر ترتیب دیا تھا۔ جس نے پاکسکتانی فکوج ککے خلف گکوریل جنکگ ککا آغکاز
کردیا ۔ اس کی حمایت میں بھارت نے بھی پاکستانی فوج پر حملکے شککروع کککردیئ ے ۔ 3دسککمبر
1971کو پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوگیا ۔ انککدرون ملککک عککوام کککی
حمایت نہ ہونے کی وجہ سے 16دسککمبر 1971کککو پاکسککتا ن کککی فککوج نکے ب ھارتی فککوج ککے
سامنے ہتھیار ڈال دیئے جبکہ مغربی پاکستان کے محاذ پر بغیر کسی بککڑے حملکے ککے جنککگ بنککد
کردی گئی ۔
سوال :ملک میں خوشحالی لن س ے ک س ے لئ ے پاکسسستانیوں کسسو کیسسا کسسردار ادا
کرنا چایئ ے؟
پاکستان ایککک عطیکہ خداونککدی ہے ۔ اس کککا اسککتحکام اور خوشککحالی پاکسککتانیوں کککی
مشترکہ ذمہ داری ہے۔پاکستان مخالف عناصر بحیثیت ملک پاکستان کو اور بحیثیت قوم
مسلمانوں کونقصان پہنچانے میں مشغول ہیں۔ان حککالت میککں ہمککاری ذمکہ داریککاں ہمکہ
جہتی ہیں۔پاکستان کے استحکام اور خوشحالی ک کے لئے ہمککارا کککردار حسککب ذیککل ہونککا
چاہئ ے ۔
) (۱ہمیں سخت محنت سے کام کرنککا چککاہئے اور قککومی نشککوونما اور فککروغ ککے تمککام
شعبوں میں ترقی کرنی چاہئے تاکہ ملک خوشحال اور معاشی طور پر آزاد ہو ۔
) (۲ہمیں لسانیت اور علقائیت سے بلند تر ہوکر سوچنا چاہئ ے ۔
) (۳ہمیں اپنے قول و فعل سے پاکستان سکے محبکت اور حکب الکوطنی ککا اظ ہار کرنکا
چایئ ے ۔
) (۴ہمیں اپنی نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانا چککائےے اور ملککک ککے دور دراز علقککوں
تک تعلیم کو پھیلنا چائےے کیونکہ لوگوں میں شککعور بیککدار کرنکے کئے لئے تعلیککم و احککد
ذریعہ ہے ۔
) (۵ہمیں خودانحصار ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اورغیککروں س کے ب ھاری قرض کے اور
امداد لینے سے پرہیز کرنی چایئے۔ یہ صرف سخت محنت اور جانفشانی سے ہی ممکککن
ہے ۔
) (۶ہمیں ایسانظام حکومت تشلیل دینا چاہئے جو معاشرتی عدل و انصکاف اور اخکوت
پر مبنی ہو ۔تمام برائیوں ،بدعنوانیوں اور بے ایمانیوں سے بچنا چایئ ے ۔
) (۷بطور پاکستانی ہمیں فخر محسوس کرنا چایئ ے ۔
)1973 (۱کے آئین کی بنیاد بھی قرارداد ِ مقاصد پر رکھی گئی تھی ۔
) (۲ملک کا نام اسلمی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اور اسلم کککو ریاسککت کککا سککرکاری
مذہب قرار دیا گیا ۔
) (۳مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنایا گیا اور یہ کہا گیا کہ
” ایسا شخص مسلمان ہے جو الل ہ پر اور حضرت محمد ﷺ پرالل ہ ک ے آخسسری
نبی ہون ے کا کامل ایمان رک ھتا ہو ۔“
) (۴سربراہ مملکت یعنی صدر اور سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم مسلمان ہوں گ ے ۔
(۵) قرار داد مقاصد کو آئین میں دیباچہ کے طور پر شامل کیا گیا جس میں یکہ ک ہا گیککا
ہے کہ تمام کائنات کا مالک ،حاکم اعل ٰی اور مقتدر اعل ٰی صرف اللہ تعال ٰی ہہہے اور عککوام
کے پاس اختیار و اقتداراللہ کی امانت ہے جسکو وہ اللہ کی مقررہ کردہ حککدود ک کے انککدر
رہتے ہوئے استعمال کرسکتے ہیں ۔
) (۶ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام رائج کیا گیا۔وزیراعظککم کککو ب ہت زیککادہ اختیککار دیئے
گئے ہیں ۔صدر مملکت کے اختیارات کککو ب ہت محکدود کردیککا گیککا ۔عملککی طککور پکر صککدر
مملکت وزیر اعظم کی رضامندی کے بغیر احکامات جاری نہیںکرسکتاتھا ۔
ن بال
) (۷پاکستان میں پہلی مرتبہ دو ایوانوں پر مشتمل پارلیمان قائم کی گئی ہے۔ایوا ِ
ن زیریں کا نام قومی اسمبلی رکھا گیا ہے ۔
کا نام سینیٹ اور ایوا ِ
) (۸صوبائی حکومت کو صوبائی خودمختاری دی گئی ہے ۔
) (۹عوام کے حقوق کے تحفط کے لئے عدلیہ کی آزادی کو ضروری تحفظککات مہیککا کی کے
گئے ہیں ۔
) (10آئین کی رو سے ایک اسککلمی نظریککاتی کونسکل قککائم ککی گئی تککاکہ وہ اسککلمی
اصولوں ککے مطککابق حکککومت کککی رہنمککائی کککر ے ۔ ۳۷۹۱ءککے آئیککن ککے تحککت یکہ ایککک
مشککاورتی ادارہ ہے جککو وفککاقی اور صککوبائی حکومتککوں کککو ایس کے اقککدامات ک کے لئے
سفارشات پیش کرتا ہے جو مسککلمانوں کککو اسککلمی اصککولوں و ضککوابط ک کے مطککابق
زندگی گزارنے میں مدد گار ثابت ہوں۔یہ کونسل موجککودہ قککوانین کککو اسککلمی سککانچے
میں ڈھالنے کے لئے بھی اپنی رائے دے سکتی ہے ۔
پاکستان کی سرزمیں اور آب و ہوا
آب و ہوا سے کیا مراد ہے؟
پاکستان میں مختلف آب و ہواءی خطے کون سے ہیں؟
آب و ہوا انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟
ماحولیاتی آلودگی سے کیا مراد ہے؟
ماحولیاتی آلودگی سے آبادی میں اضافے کا کیا تعلق ہے؟
جنوبی ایشیاء کے خطے میں پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت بیان کریں؟
پاکستان کے طبعی خدوخال مختصرا ً بیان کریں؟
شمال مشرقی پہاڑی سلسلوں کے فواءد بتاءیں؟
خالی جگہ پر کریں؟
سوال :آب و ہوا س ے کیا مراد ہے؟
آب و ہوا کسی علقے یا ملک کی طویل عرصے کی موسمی کیفیات کا مطالعہ آب و ہوا کہلتا
ہے۔موسمی کیفیات سے مراد ہوا کا دبکاو�¿ ،درجکہ حکرارت ،رطکوبت )نمکی( اور بکارش ککی
اوسط شامل ہے۔ پاکستان خطہ سرطان کے شمال میں واقع ہے جبکہ یہ ملک مون سون آب و
ہوا کے خطے کے انتہائی مغرب میں واقع ہے لہٰذا اس ملک کی آب وہوا خشک اور گرم ہے ۔
][hide
آب و ہوا کا زندگی پر اثر آب و ہوا سے انسانی حیات پر گہرے اثرات پڑتے ہیں کسی جگ کہ کککی
آب و ہوا اور موسمی کیفیات اس علقے کے مکینوں کی بودوباش ،لبککاس ،غککذا ،مصککروفیات،
کھیل ،رسوم و رواج اور اقتصادی سرگرمیوںکو زیادہ متاثر کرتی ہے۔پاکستان رقبے ک کے لحککاظ
سے ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔ اس کے مختلف خطوں کی آب و ہوا میں نمایاں فککرق ہے ۔
اس کی وجہ سے مختلف علقوں کے عوام کے رہن سہن کے طریقکوں اور رسکوم و رواج میکں
بھی فرق نظرآتا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑی علقوں میں موسککم سککرما شککدید نککوعیت کککا
ہوتا ہے۔ درجہ�¿ حرارت نقطہ انجماد سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور اکثر علقے برف سے ڈھک
جاتے ہیں۔اس شدید سردی کے باعث اس علقے کی انسانی ،حیوانی اور نباتاتی زنککدگی بککری
طرح متاثر ہوتی ہے۔اس علقے کے لوگ سردیاں شککروع ہونے سکے قبککل ہی ضککروری غککذائی
اجناس اور مویشی جمع کرنا شروع کردیتے ہیکں۔ سکردیوں میکں لکوگ گ ھروں میکں محصکور
ہوکر رہ جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ گھریلوصنعتوں اور دستکاریوں پر توجہ دیتے ہیککں ۔
کچھ لوگ موسم سرما میں روزی کمانے کی غرض سے عارضی طور پر میدانی علقوں میککں
نکل مکانی کرجاتے ہیں اور موسم گرما شروع ہوتے ہی اپنے گھروں کو واپس لککوٹ آت کے ہیککں ۔
گرمیوں کے شروع ہوتے ہی جب برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو زندگی کی گہمککا گہمککی شککروع
ہوجاتی ہے۔اس موسم کے مختصر عرصے میں درخت ،پودے ،گھاس وغیرہ جلدی پھلتکے پھ ہولتے
ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ سردیوں میں جککو چشککمے ،نککدی نککالے منجمککد ہہہوگئے تھہہے ان میککں
شفاف پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے ۔ جس سے اس علقے کے حسن میں مزید اضککافہ ہوجاتککا ہے ۔
لوگ اپنی بیرون خانہ زندگی یعنی زراعت ،تجککارت اور محنککت مککزدوری وغیککرہ دوبککارہ شککروع
کردیتے ہیں۔شمالی علقوں کے عوام کی صحت پر بھی اس سرد آب و ہوا ک کے اثککرات مرتککب
ہوتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ان کا رنگ گورا ہوتا ہہہے۔ وہ سککخت جفککا
کش اور بہادرہوتے ہیں۔ سخت طرز زندگی نے ان کو باہمت ،جرا�¿ت مند اور مضبوط بنادیککا
ہے۔ پاکستان کے میدانی علقوں کی آب و ہوا میں شدت پائی جاتی ہے یعنی موسم گرما میں
شدید گرمکی اور موسککم سکرما میکں شکدید سکردی ہوتی ہے۔سککردیوں میککں دل جمعککی اور
خوشدلی سے کام کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ گرمیوں میں کارکردگی بہت متاثر ہوتی ہے۔گرمیوں
مین ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں موٹے کپڑے استعمال میں آتے ہیں ۔ان علقوں
کی زمین اور آب و ہوا دونوں زراعت کے لئے انتہائی موزوں ہیککں ۔موسککم سککرما و گرمککا میککں
مختلف فصلیں پیدا ہوتی ہیں چونکہ ان علقوں میں کثیر مقدار میککں غککذائی اجنککاس سککبزیاں
اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔اس لیے یہاں کے لوگ بہت خوشحال ہیککں ۔ شککمالی علقککوں کککی نسککبت
میدانی علقے بہت زیادہ گنجان آباد ہیں ذرائع آمد و رفت اور نقل و حمل کے سہولتیں فراوانی
کے ساتھ دستیاب ہیں۔ یہاںکے عوام بالواسطہ یا بلواسطہ زراعت سے وابستہ ہیککں۔ ی ہاں تعلیککم
اور زندگی کی دیگر تمام سہولتیں میسر ہیککں۔عککوام ککے پککاس روزگککار ککے بکے شککمار مواقککع
موجود ہیں۔ پاکستان کے جنوبی حصے اور علقے زیادہ ترریگستان اور صحراہیں۔ ےہاں سکخت
گرمی ہوتی ہے۔ گرد آلود آندھیاں چلتی ہیں اور ریت کے طوفان بکثرت آتے ہیں۔یہاں ک کے رہن کے
والے خودکو گرمی اورلو سے بچانے کی خاطر موٹے موٹے کپکڑے پہنتکے ہیککں اور سکر پکر پگککڑی
باندھتے ہیںاور اپنے جسموں کو کپڑوں سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں ۔ یہ لوگ راتوں کو سفر کرتککے
ہیں کیونکہ کہ راتوں کو صحرا نسککبتا ً ٹھنکڈے ہہہوتے ہیککں۔یہہہاں ککے لککوگ بھیککڑ ،بکریککاں اور دیگککر
مویشی پالتے ہیں ۔جن علقوں میں نہروں کے ذریعے آبپاشی ہوتی ہے وہ زیر کاشت ہے ۔ سککطع
مرتفع بلوچستان کی آب و ہوا بھی شدید قسم کی ہے ۔ موسم سرما میں اکککثر علقککوں میککں
شدید سردی پڑتی ہے اور بعض مقامات پر برف بککاری ب ھی ہوتی ہے ۔ سککردیوں میککں عککوام
اندرون خانہ سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیںاور زیادہ تر وقت فروخککت کرن کے ک کے لئے تحف کے
تحائف تیار کرنے میں گزارتے ہیں۔ان سرد علقوں کے بعض لوگ گرم علقوں کی طرف نقککل
مکانی کرجاتے ہیںاور گرمیوں میککں واپککس لککوٹ آتکے ہیککں۔ موسککم گرمککا میککں بلوچسککتان ککے
میدانی علقے انتہائی گرم ہوتے ہیں۔لوگ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتے ہیں۔ مصنوعی ندی نککالوں ک کے
ذریعے پانی جمع کیا جاتا ہے جنہیں”کاریز“کہا جاتا ہے۔آجکل ان میکں سکے بیشکتر ککاریز خشککک
ماحولیاتی آلودگی
آلودگی کے معنی یہ ہیں کہ زمین ،پانی اور فضا میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں جو انسان اور
ج ذیکل ہیککں ،ہمکارے
حیوانی حیات پر مضر اثرات کا باعث ہوں۔جب مختلف عوامل ،جککو ککہ در ِ
ماحول میں تبدیلیاں لتے ہیں تو اسی کو ماحولیاتی آلودگی کہتے ہیں ۔
) (۱فضائی آلودگی
) (۲آبی آلودگی
) (۳زمینی آلودگی
ماحولیاتی مسائل
ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے اس کککی وجو ہات
میں بڑھتی ہوئی آبادی ،تیز رفتار صنعتی ترقکی اور بکڑی اور چ ھوٹی گکاڑیوں سکے نکلنکے وال
دھواں شامل ہیں۔ ماحولیات کا علم ایک نئے علم کے طور پر ا�±بھر رہا ہے تککاکہ پککانی ،ہوا،
فضا اور زمین میں آلودگی سے لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے اور ان میںاس کی بابت شعور پیککدا
ہوسکے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی روز بروز بڑھ رہہہی
ہے ۔
سوال :جنوبی ایشاءک ے خط ے میں پاکستان ک ے محل و وقسسوع کسسی ا ہمیسست بیسسان
کریں؟
Contents
][hide
) (۱پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ڈیورنڈ لئن کہلتی ہے ۔
) (۵پاکستان کے شمالی علقوں کے عوام موسم سککرما میککں انککدرون خککانہ سککرگرمیوں میککں
مشغول رہتے ہیں ۔
وسائل کے معنی
دنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں۔ اّول انسانی وسائل ہیںجککس کککا مطلککب ی کہ ہے ک کہ
مختلف کاموں کو سرانجام دینے کے لئے انسانوں میں کس قکدر قککابلیت ،صکلحیت اور اہلیکت
ہے ۔ مختلف پیشوں کی نوعیت کے لحاظ سے لوگوں میں ایک دوسرے سے امتیاز کیا جاتککا ہہہے ۔
جب تمام پیشوں کو باہم ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تو اسی کککو انسککانی وسککائل ک ہا جاتککا ہے ۔
وسائل کی دوسری قسم قدرتی وسائل کہلتی ہے جو قدرت نے مہیا کئے ہیککں قککدرتی وسککائل
پیداوار کا ذریعہ ہیں ۔
قدرتی وسائل
ایسے وسائل جو اللہ تعال ٰی نے دنیا کے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی ،جنگلت ،معککدنیات اور
پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسائل کہلتے ہیککں۔ یکہ وسککائل عطیکہ خداونککدی
ہیں ۔انسان ان کا کھوج لگا سکتا ہے اور ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔
انسانی وسائل
ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیں مل کککر انسککانی وسککائل کککو
تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں کی لیاقت ،قککابلیت،
اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسانی وسائل ہیں اور کسی بھی ملککک ککے لئے ی کہ
انسانی وسائل ہی انسانی طاقت کہلتے ہیں ۔ اسی انسانی طاقت کی مختلف ملزمتوں میککں
درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ دس سال سے زائد عمر کا کوئی بھی فککرد جککو
اپنے لئے کام کرتا ہے یا دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانکہ ملزمککت کرتککا ہے وہ ایککک
باروزگار شخص تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طاقت مختلف پیشککوں اور روزگککاروں
سے وابستہ ہے ۔ مثل ً زراعت ،کان کنی ،عمارت سازی ،تجارت ،مواصلت ،سککرکاری ملزمککتیں
اور دیگر تمام بامعاوضہ کام ۔
قدرتی وسائل
ایسے وسائل جو اللہ تعال ٰی نے دنیا کے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی ،جنگلت ،معککدنیات اور
پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسائل کہلتے ہیککں۔ یکہ وسککائل عطیکہ خداونککدی
ہیں ۔انسان ان کا کھوج لگا سکتا ہے اور ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔
][hide
1
معککدنیا
ت
(۱) 2
معدنی
تیل
3
قدرتی
گیس
4
کوئلہ
خام 5
لوہا
6
کرومائ
یٹ
تانبا 7
8
جپسم
9
نمک
10
چکککونے
کا پتھر
11
گ
سکککن ِ
مر مر
معدنیات
رزمین دفن ہیککں۔ اللکہ تعککال ٰی نکے پاکسککتان کککو بھرپککور معککدنی
معدنیات قدرتی دولت ہیںجو زی ِ
وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یہ معدنی وسککائل تیککز رفتککار اقتصککادی اور صککنعتی ترقککی ککے
فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔پاکستان کے اہم معدنی وسائل مندرجہ ذیل ہیں ۔
قدرتی گیس
صنعتوں کو رواں رکھنے ککے لئے قککدرتی گیککس مطلککوب ہوتی ہے ۔ اس کککو گککاڑیوں میککں اور
گھریلو کاموں )امورِ خانہ داری( کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا اسککتعمال ب ہت عککام
ہوگیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سستی ہوتی ہے۔ملک کی توانائی کا تقریبککا ً 35فیصککد
قدرتی گیس سے پورا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں ۔ پاکستان میککں قککدرتی
گیس سب سے پہلے 1952میں بلوچستان میککں ڈیککرہ بگککٹی ک کے قریککب سککوئی ک کے مقککام پککر
دریافت ہوئی تھی۔اس کے بعد یہ گیککس سککندھ اور پوٹو ہار سککمیت 13مقامککات سکے دریککافت
ہوئی۔گیس کے ذخائر کے سب سے اہم مقامات بلوچستان میں سوئیُ ،اچ اور َزن ،سندھ میککں
خیرپور ،مزرانی ،سیری ،ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک ،پیرکوہ ،ڈھلیان اور میال
شامل ہیں۔اس وقت قدرتی گیس پائپ لئنوں کے ذریعے ملک کے مختلف علقوں تک پہنچککائی
گئی ہے ۔ی ہ گیس سیمنٹ ،مصنوعی کھاد اور عمومی صنعتوں میں استعمال ہوتی ہے ۔ اس کککو
حرارت کے ذریعے بجلی یا تھرمل بجلی پیدا کرنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
کوئلہ
پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے۔لیکن یہ کوئلہ بہت اچھی قسککم کککا نہیککں
ہے اور نہ ہی اس سے ملک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔پاکستان میں ملک کککی ضککرورت کککا
صرف 11فیصد کککوئلہ نکلتککا ہے ۔ پنجککاب میککں ڈنکڈوت ،مکککڑوال اور پکڈھ سکے کککوئلہ ملتککا ہے ۔
بلوچستان میں شارگ ،خوست ،ہرنائی ،سار ،ڈیگاری ،شیری اور مچھ میں کوئلہ دسککتیاب ہے ۔
سندھ میں کوئلہ کی کانیں ضلع ٹھٹھہ میں جھمپر اور ضلع جامشورو میں لکھڑا میں ہیں ۔حککال
ہی میں ضلع تھرپارکر )سندھ ( بہت کثیر مقدار میں کوئلہ دستیاب ہوا ہہہے۔ صککوبہ سککرحد میککں
گلخیل سے بھی کوئلہ نکلتا ہے ۔
خام لوہا
یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا ،فولد ،مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے ک کے کککام آتککی
ہے ۔کال باغ کے علقے میں خام لوہے یا لوہے کی معدن کے سب سے بڑے ذخائر پائے جککاتے ہیککں ۔
دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے 32کلومیٹر جنوب میں لنگڑبککال اور چککترال میککں
دستیات ہوئے ہیں۔بلوچستان میں خام لوہے) لوہے کی معدن(خضدار ،چل غازی اور مسلم بککاغ
میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پایا جانے وال لوہا بہت معیاری اور عمدہ نہیں ہے اور یہ ملککک کککی
صرف 16فیصد ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملککز میککں درآمککد شککدہ خککام لو ہا
استعمال ہوتا ہے ۔
کرومائیٹ
یہ ایک سفید رنگ کی دھات ہے جو فولد سازی ،طیارہ سازی ،رنگ سازی اور تصویر کشی کے
لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔دنیا میں کرمائیٹ کے سے سب سے بڑے ذخککائر پاکسککتان میککں
ہیں۔اس کا زیادہ حصہ برآمد کرکے ذرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔اس کے ذخائر بلوچستان میککں مسککلم
باغ ،چاغی اور خاران اور صوبہ سرحد اور آزاد قبائلی علقوں میں مالکنڈ ،مہمند ایجنسی اور
شمالی وزیرستان میں پائے جاتے ہیں ۔
تانبا
تانبا برقی آلت سازی میں استعمال ہوتا ہے ۔برقی تار بھی تانبے سے بنایککا جاتککا ہے ۔بلوچسککتان
میں ضلع چاغی میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں ۔
جپسم
جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیل پتھر ہے۔یہ سیمنٹ ،کیمائی کھاد ،پلسکٹر آف پیککرس اور رنککگ
کا پاو�¿ڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے ۔جپسم جن علقوں سے حاصل ہوتا ہے ۔ان میککں پنجککاب
کے ضککلع جہلککم ،میککانوالی اور ڈیککرہ غککازی خککان ،سککرحد میککں کو ہاٹ،سککندھ میککں رو ہڑی اور
سی اور لورالئی شامل ہیں ۔ بلوچستان میں کوئٹہ ،س ّ
نمک
دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسیع ذخائر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔کوہسککتان
نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے ۔ی ہ نمک بہت عمدہ اور معیککاری ہے ۔نمککک کککی
سب سے بڑی کککان کھیککوڑو )ضککلع جہلککم(میککں ہے۔ واڈچ ھا )ضککلع خوشککاب( ،کککال بککاغ )ضککلع
میانوالی( اور بیادرخیل )ضلع کرک( سے بھی نمک حاصل ہوتا ہے۔ کراچی کے قریب ماری پککور
اور ساحل مکران کے علقے میں سمندر کے پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے ۔
چونے کا پتھر
چونے کا پتھر زیادہ تر سیمنٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اس کو جلیککا جاتککا ہے تککو
اس سے چونا حاصل ہوتا ہے ۔جو گھروں میں سفیدی کرنے ککے لئے اسککتعمال ہوتککا ہے ۔اس کککو
شیشہ ،صابن،کاغذ ،رنگ کی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتاہے۔چونے کے پتھر س کے وسککیع
ذخائر ڈنڈوت )ضلع جہلم( ،حیدرآبادکے قریب مغل کوٹ اور گنجو ٹکر ،منگھوپیر اور رانککی پککور
)سندھ( میں پائے جاتے ہیں ۔
گ مر مر
سن ِ
گ مر مر بکثریت پایا جاتا ہے۔ی کہ چککاغی،پاکستان میں مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سن ِ
مردان ،سوات کے اضلع اور خیبر ایجنسی میں پایا جاتا ہے۔اپنی نزاکت و نفاسککت ورنککگ کککی
گ مر مر دنیا میں سب سے زیادہ عمدہ اورمعیاری سمجھا جاتککاہے۔سکیاہ بنیاد پر پاکستان کا سن ِ
گ مر مر سککے سککاختہ گ مر مر ضلع اٹک میں کالچٹا کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سن ِ و سفید سن ِ
گ مر مر کی صنعت ملک کے لئے کککثیر زرمبککادلہ کمککارہی اشیاءکی برآمد سے پاکستان کی سن ِ
ہے ۔
][hide
زمین کا کٹاو�
بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آندھی ،طوفان ،بککرف بککاری اور زلزل کے زمیککن ک کے
کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹککادیتے ہیککں اور نکتیجہ کککم
پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ
زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کککی وجکہ سکے بککڑے پیمککانے پککر
پیداوار محدودہوگئی ہے ۔
ناکافی ذرائع نقل و حمل
ہمارے دیہات اور گاو�¿ں زرعی پیداوار کے خاص علقکے ہیکں۔لیککن ان ککے لئے پختکہ سکڑکیں
موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خستہ ہے۔ جس کی وجہ س کے نقککل و
حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار بحفاظت منڈی تک نہیککں پہنککچ
پاتی ہے ۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیداوار پر قناعت کرلیتے ہیں ۔
][hide
زمین کا کٹاو�
بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آندھی ،طوفان ،بککرف بککاری اور زلزل کے زمیککن ک کے
کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹککادیتے ہیککں اور نکتیجہ کککم
پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضی کو ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ
زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسیم ہوگئی ہے جس کککی وجکہ سکے بککڑے پیمککانے پککر
پیداوار محدودہوگئی ہے ۔
سوال :انسانی وسائل اور دیگر وسائل کس طرح ایک دوسر ے پر منحصر ہیں؟
انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا باہمی انحصار انسانی وسککائل اور دیگککر وسککائل کککی اپنککی
اپنی جگہ آزادانہ اور علیحدہ قدروافادیت ہے۔ لیکن یہ سب وسائل باہم ایک دوسکرے پکر انحصکار
کرتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے انسانوں کی بے شککمار
ضروریات ہیں ۔ ان میں زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی روٹی ،کپککڑا اور مکککان )غککذا ،چککادر
اور چار دیواری( شامل ہیں۔اسی طرح چند سہولتیں اور آسائشککیںبھی انسککانی ضککروریات کککا
ت زنککدگی ککے بعککد ہوتککا ہے۔یکہ ضککروریات صککرف حصہ ہیں۔ مگر ان کا شمار بنیککادی ضککروریا ِ
دوسرے وسائل کی مدد سے ہی پوری ہوسکتی ہیں ۔ ان وسائل میں زرعی اورمعککدنی وسککائل
شامل ہیں۔ ان وسائل کو تلش کرنے اور ان سے فیضیاب ہونے ک کے لئے انسککانی کوشککش اور
جدوجہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر انسانی علم ،مہارت و ہنر منککدی اورمحنککت و جفاکشککی کککو
خارج کردیا جائے تو ان وسائل کے ثمرات کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتے۔چونکہ انسان نے تیل،
گیس اور سونے کے وسائل کو تلش کیا اور ُانھیں نفع بخش طور پر استعمال کیااسککی لئے ی کہ
دولت اور سرمایہ بن گئے اور ان کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ان وسائل کے بغیککر
انسانی زندگی بے رنگ اور بے مزہ ہوتی یککا شککاید انسککانی بقککاءہی نککاممکن ہوجککاتی۔ اس لئے
انسانی وسائل اور دیگر وسائل کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے ۔
زندگی میں اعتدال پسندی زندگی میں اعتدال پسندی کامطلب یہ ہے کہ اپن کے موجککودہ وسککائل
کے اندر رہا جائے )چادر کے مطابق پاو�¿ں پھیلئے جائیں( ایک قول ہے کہ چیز کی کثرت ب ُککری
ہوتی ہے ۔ اعتدال پسندی مناسب سوچ ،رویے اور عمل کے ایک طریقے کا نام ہہہے ۔ ُاس شککخص
کواعتدال پسند کہا جاسکتا ہے جو ذاتی احتساب کرتا ہو اور پھر اپنے مستقل کککی زنککدگی ک کے
لئے ایک لئحہ عمل طے کرتاہو۔ جولوگ اپنی زنکدگی اعتکدال ککے مطکابق نہیکں گزارتکے ہیکں وہ
شدید تکلیف اور مشکلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اعتدال پسندی زندگی کے تمام معاملت یعنی
سلجھے ہوئے رویہ کا تقاضہ کرتی ہے ۔ اقتصادی سماجی اور سیاسی معاملت میں معقول اور ُ
اعتدال پسندی سے معاشرے میں امن و خوشحالی آتی ہے۔ بے جککا خککواہش پرسککتی ہی تمککام
ُبرائیوں کی جڑ ہےلیکن اعتدال کی را ِہ عمل اختیار کرنکے سکے انسککان پ ُککر سکککون اور آرام دہ
زندگی گزارتا ہے۔ بحیثیت قوم پاکستانی بہت جذباتی ہیں۔ کسی ب ھی معککاملے میککں یککا تککو ہم
پوری طرح شریک ہوجاتے ہیں یا ہم بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ جس کا نککتیجہ ہمککارے اپن کے فککرائض
سے غفلت اور بے اعتمادی کی صورت میں نکلتا ہے۔اسی رویہ نے معاشرے کککو پسککماندہ رک ھا
ہوا ہے ۔ ہمارے انتہائی شدید جذبات اور احساسات نے ہمیں جذباتی قوم کاخطککاب دلوادیککا ہہہے ۔
کبھی کبھار جذبات عارضی اور وقتی کامیابی کا باعث تو بککن سکککتے ہیککں لیککن طویکل مکدت
میں ان کا نتیجہ مختلف بھی نکل سکتا ہے۔ یہ سب لوگوں کے علم میں ہے کہ اپنکے وسککائل ککے
اندر رہنا خوشحالی کی ضمانت ہے۔ جو لوگ اپنی خواہشات پر قککابو رکھتکے ہیککں اور خککود کککو
روک کر رکھتے ہیں وہ خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ پھر خیکال رکھیکں ککہ ضکرورت سکے زیککادہ
مداخلت کرنے والککی قککوم اپنکے شککدت پسککند اصککولوں اور سککرگرمیوں کککی وجکہ سکے ہمیشکہ
دشورایوں اور مشکلت کا شکار رہتی ہے۔ اسککی لئے اسککلم نکے تمککام شککعبہ ہائے حیککات میککں
اعتدال کا درس دیا ہے اورخود پر یعنی اپنے نفس پر قابو پانے کے ضرورت پر زور دیا ہے ۔
) (۱وہ لوگ جو مختلف کاموں میں ہوتے ہیں انسانی وسائل کہلتے ہیں ۔
) (۲پہاڑی جنگلت شمالی پہاڑی علقوں میں پائے جاتے ہیں ۔
) (۳پاکستان میں قدرتی گیس جس مقام پر پہلی مرتبہ پائی گئی وہ علقہ سوئی کہلتا ہے ۔
صنعت
فیکٹریوں میں مشین کے ذریعے تیار ہونے والی اشیاءکے کام اور طریقہ عمل کککو صککنعت کہتکے
ہیں۔وسیع تر مفہوم میں صنعت کے معنی یہ ہیں کہ خام مال سے ایسککی اشککیاءتیار کککی جککائیں
مدن کے ابتدائی دور میں صنعت جدیککد دور جن کی انسانوں کے لئے کچھ افادیت ہو۔ تہذیب و ت ّ
کی صنعت کے مقابلے میں انتہائی سادہ اور نسبتا ً پست سطح کی تھی ۔ اس طرح صککنعت کککا
آغاز پست سطح سے ہی ہوا تھا۔لیکن یہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتی گئی اور اب صنعت پیککداوار
کا ایک بہت بڑا شعبہ اور حصہ ہے ۔ کئی مختلف صنعتیں ضم ہوکر ایک اکائی بککن گئی ہیککں ۔اس
میں بڑے پیمانے پر مال کی تیاری سے پیداواری لگت کم ہوگئی ہے ۔
سوال :پاکستان میں کپاس اور شکر سازی کی صنعت پر نوٹ لک ھیئ ے؟
کپڑے کی صنعت
یہ صنعت پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔پاکستان میں کثیر تعداد میں کپککڑے ککے بککڑے
اور چھوٹے کارخانے ہیں ۔ان کارخانوں میں بہت نفیس اقسککام ککے کپککڑے تیککار کیکے جککاتے ہیککں ۔
پاکستان سوتی کپڑے کی صنعت میں خودکفیل ہوگیا ہے۔ہر سال سوتی کپڑوں اور دھاگے کککی
برآمد سے کروڑوں روپے زِرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔سوتی کپڑے کی صنعت کے ا ہم مراکککز پنجککاب
میں فیصل آباد ،لہوراور ملتان ہیں۔سندھ میں کراچی اور حیدر آباد ہیں۔صککوبہ سککرحد میککں یکہ
مراککز پشکاور ،ڈیکرہ اسککماعیل خکان ،نوشکہرہ ،بنکوں ،ہری پکور ،اور سکوات میکں واقکع ہیککں ۔
بلوچستان میں کپککڑے کککی صککنعت ککے دو مراکککز ُات ھل اور کککوئٹہ ہیککں۔ پاکسککتان ککے صککنعتی
مزدوروں کی تقریبا ً پچاس فیصد تعداد سوتی کپڑے کی صنعت سے وابستہ ہیں ۔ پاکستان کککی
آزادی کے وقت ملک میں سوتی کپڑے کے صرف تیکن کارخکانے ت ھے۔ُاس ککے مقککابلے میککں اب
کپڑے کے تقریبا ً 500کارخانے موجود ہیں۔ پاکستان میں اونی کپڑے کی صنعت بھی پائی جاتی
ہے۔لیکن یہ سوتی کپڑے کی صنعت کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکسککتان میککں
پائی جانے والی اون بہت اعل ٰی معیار کا نہیں ہے۔ اسی لئے ہماری اون کا زیکادہ تکر حصکہ قکالین
سازی میں استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں اونی کپڑے کے لئے بڑے کارخککانے ککے مراکککز سککندھ
میں کراچی ،پنجاب میں لہور اور قائدآباد ،بلوچستان میں ہرنائی ،مسککتونگ اور سککرحد میککں
بنوں اور نوشہرہ میں واقع ہیں ۔ج ہاں اونی کپڑا کمبل اور اونککی د ھاگہ تیککار ہوتککا ہے ۔اس وقککت
پورے ملک میں اونی کپڑے کے تقریبا ً 70کارخانے ہیں۔ پاکستان میں ریشمی کپڑے کی صککنعت
بھی ہے۔ ریشمی کپڑا بنانے کے لئے دو اقسام کے ریشککم اسککتعمال کئے جککاتے ہیککں۔ پہل قککدرتی
ریشم جو ریشم کے کپڑوں سے حاصل ہوتا ہے۔قدرتی ریشم ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اس لئے کککہ یککہ
اب بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے ۔ اس کی جگہ اب مصنوعی ریشم مقبولیت حاصل کرتا جارہا ہے ۔
لہورکے قریب ایک بستی کالشاہ کاکو میں ایک ریشم کا کارخانہ کام کررہا ہے۔جہاں مصککنوعی
ریشم تیار ہورہی ہے۔ اس کو ریان کہا جاتا ہے۔ اس کے علوہ خام ریشم اور ریشمی د ھاگہ اور
ریشہ بیرونی ممالک سے بھی درآمد کیا جاتا ہے۔ کراچی ریشمی کپڑے کی صنعت کا سب سے
بڑا مرکز ہے۔اس کے علوہ ریشمی کپڑا فیصل آباد ،لہور ،ملتان ،گوجرانوالہ ،پشککاور ،سککوات،
سکھر اور حیدر آباد میں بھی تیار کیا جاتا ہے ۔
چینی کی صنعت
یہ ملک کی بڑھتی ہوئی صنعتوں میں سے ایک ہے ۔ 1947میں پاکستان نے چینی کے صککرف دو
کارخانوںسے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ایک کارخککانہ صککوبہ پنجککاب میککں گوجرانککوالہ ککے نزدیککک
راہوالی میں اور دوسرا صوبہ سرحد میں تخت بائی کے مقام پر تھا۔چینی گن ّے سے حاصل کی
جاتی ہے ۔ جو تین صوبے یعنی پنجاب ،سندھ اور سرحد میں بڑی مقدارمیں کاشت کیا جاتا ہے ۔
اس لئے حکومت نے ان علقوں میں چینی کے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا جہاں گّنا کاشت کیککا
جاتا ہے ۔ ملک میں 78چینی کے کارخانے ہیں ۔جن میں 40پنجکاب میکں 32 ،سکندھ میکں اور 6
سرحد میں ہیں ۔جن کی پیداوار کی صلحیت 5ملین ٹن ہے۔شکر کی پیداوار میں پاکسککتان ن کہ
صرف خود کفیل ہے بلکہ چینی کی برآمد سے قیمتی زِرمبادلہ بھی کمایا جاتا ہے۔پاکسککتان کککی
شکر اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے ۔
سوال :قومی ترقی میں ذرائع آمد و رفت کس طرح مدد کرت ے ہیں؟
ذرائع نقل و حمل و آمد و رفت کے معنی و مفہوم ذرائع آمککد و رفککت سکے مککراد وہ ذرائع ہیککں
جن کی بدولت افراد سفر کرتے ہیںاور اشیاءکو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیککں۔یککہ
ذرائع قدیم بھی ہیں اور جدید بھی ۔ قدیم ذرائع آمدورفت میں سڑکیں اور بحری سککفر شککامل
ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ہی ذرائع آمدورفت بہت بہہہتر ہہہوگئے ہیککں ۔مککوٹر
کاروںنے گاڑیوں اور جانوروں کی جگہ لے لی ہے۔کشتیوں کی جگہ جدیککد بحککری ج ہاز آگئے ہیککں
اور اب فضا کے ذریعے بھی سفرمقبول ہوتا جارہا ہے ۔
قومی شاہراہ
یہ پاکستان کی سب سے قدیم اور سب سے اہم شاہراہ ہے ۔ اس کککی لمبککائی 1735کلککو میککٹر
ہے۔ یہ کراچی سے شروع ہوکر پشاور اور تورخم تک جاتی ہے۔ ی کہ شککاہراہ اس سککڑک پککر واقککع
مختلف شہروں مثل ً حیدرآباد ،خیرپور ،سکھر ،بہاولپور ،ملتان ،ل ہور ،راولپنکڈی اور پشککاور کککو
آپس میں ملتی ہے ۔
) (۱کراچی ،کوئٹہ شاہراہ براستہ خضدار
) (۲کراچی ،کوئٹہ شاہراہ براستہ جیکب آباد
) (۳کوئٹہ،پشاور شاہراہ
) (۴کوئٹہ ،ملتان شاہراہ براستہ لورالئی
) (۵اٹک ،ملتان شاہراہ
شارا ِہ علقائی تعاون برائے ترقی )آر سی ڈی ہائی وے(
) (۶ہ
) (۷شاہراہ انڈس ہائی وے
) (۸کراچی ،حیدرآباد سپر ہائی وے
) (۹لہور ،اسلم آباد موٹروے
ای کامرس
یہ انگریزی لفظ الیکٹرانک کامرس سے نکل ہے۔اسکے معنی ہیں ک کہ کمپیککوٹر اور انککٹرنیٹ کککی
مدد سے تجارت کرنا ۔ الیکٹرانکک تجکارت ککے ذریعکے معلملت ب ہت جلکدی طکے ہوجکاتے ہیکں ۔
الیکٹرانککک تجککارت اطلعککی خفیککت )انفارمیشککن ٹیکنککالوجی( کککی ایککک شککاخ ہے۔ اس س کے
کاروباراور تجارت کا تازہ ترین درست ریکارڈرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ہمککاری درآمککدات اور
برآمدات کے لئے بھی سہولت مہیا کرتی ہے۔پاکستان میں اب ای تجارت اپنی بنیککادیں مضککبوط
ف اّول کے تجارتی اداروں سے ان کککی ویککب سککائٹ کررہی ہے۔ای تجارت کے ذریعے دنیا کے ص ّ
کے توسط سے رابطہ کیاجاسککتا ہے اور ان ککے فرا ہم ککردہ سکاما ن ککی تفصکیلت ،ان ککی
قیمتیں ،مقدار اور ان کے سامان کی رسد کے وقت کی دریککافت کککی جاسکککتی ہے۔ادائیگیککاں
انٹرنیٹ کے ذریعے کی جاسکتی ہیں۔ پاکستان میں گھر بیٹھے نیویارک ،سنگا پور ،ہانککک کانککگ،
لندن وغیرہ کے اسٹاک ایکسچینج سے حصککص خریککدے اور فروخککت کئے جاسکککتے ہیککں ۔ شککرط
صرف یہ ہے کہ ان کے پاس اکائنٹ کھول ہوا ہو۔ای تجارت نے کاروبار کککو تیککز رفتککار ،س کہل اور
بہتر بنادیا ہے ۔
سوال :پاکستان میں صنعتی ترقی ک ے فروغ ک ے لئ ے کیا اقدامات ُاٹ ھائ ے جائیں؟
صنعتی ترقی کے لئے اقدامات
مندرجہ ذیل اقدامات سے صنعتی ترقی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے ۔
) (۱ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنائی جائے تاکہ سرمایہ کار جان و مککال کھوجککانے
کے ڈر سے آزاد ہوکر سرمایہ کاری کرسک ے ۔
) (۲تجارت کے لئے قائدے اور قوانین آسان اور سہل بنائے جائیں ۔
) (۳عملے کی تربیت کے دوران محنت کی عظمت کا احساس ُاجاگر کیا جائے تاکہ ان میں کام
سے وابستگی کا احساس ہو اور پیداوار بڑھنے کے لئے وہ سخت محنت کریں ۔
)(۴کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام قائم کیا جائے تیار شدہ مال کے معیار اور اعل ٰی و صککف پککر
کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چایئ ے ۔
) (۵بازار کاری )مارکیٹنگ( اور تجارتی نظم و نسق )بزنس ایڈمنسٹریشن( کی تعلیم کا معیار
مزید بہتر بنایا جائ ے ۔
) (۶صنعتی پالیسیاں بالکل صاف،شفاف ،واضح اور پائیدار ہونی چاہئےں ۔
) (۷بیرونی ممالک کی اشیاءکی اسمگلنگ پر سختی ہونی چاہئ ے ۔
) (۸حکککومت کککو صککنعت کککاروں کککی ٹیکسککوں میککں رعککایت ،ب ہتر پیککداوار ک کے لئے زِرتلفککی
)سبسڈی( اور کارکنان کی تربیت کی شکل میں ترغیبات دینی چاہئیں ۔
) (۹کارکنوں کے حالت کار بہتر بنائے جائیں اور ان کی اجرتیں بڑھائی جائیں ۔
][hide
ص ہ کیوں ہے؟
سوال :کوئی زبان ثقافت کا ا ہم ح ّ
زبان ثقافت کا سب سے اہم جز ہے۔ کیونکہ خیالت ،احساسات ،اور جذبات ککے اظ ہار ککے لئے
زبان ہی مو�¿ثر ترین ذریعہ ہے۔زبان قوم کی شناخت ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک کہ ہر قککوم اپنککی
زبان کو عزیز رکھتی ہے اور اسکے فروغ و ارتقاءکے لئے مناسب اقدامات کرتی ہے ۔
دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ زبککانیں بککولی جککاتی ہیککں ۔ کسکی ملککک
صہ ہوتی ہے۔البتہ ِان میں سے کسی میں بولی جانے والی تمام زبانیں ُاس ملک کی ثقافت کا ح ّ
ایک زبان کو قومی رابطہ کے زبان )(Lingua Frankaکے طور پر اسکتعمال کیککا جاتککا ہے اور
اسی کو قومی زبان کہتے ہیں ۔
قومی زبان کے ذریعے مختلف علقوں کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لنے میں مککدد
ملتی ہے ۔ یہ اتحاد اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کاایک ذریعہ ہے ۔قککومی زبککان کککو ملککک کککی
س
دوسری زبانوں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں کو پ ِ
پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔ علقائی زبانوں کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیککں کرنککا چککاہئ ے ۔
تمام صوبائی زبانیں قوم کا مجموعی اثاثہ ہیں جو کہ اپنے اپنے مخصوص علقککوں میککں بتدریککج
پھلتی اور پھولتی رہتی ہے ۔
][hide
) (۲تحریککککک ِ
ک 3
پاکستان میں کردار
) (۳مشترکہ رشتہ 4
) (۴ذرائع ابلغ 5
)ذرائع رسککککککککککل و
رسائل(
) (۵فکککائدے ککککا 6
ذریعہ
) (۶رابطہ 7
) (۷بین القوامی 8
زبان
) (۶رابطہ
پاکستان چار صوبوں کا ایک وفاق ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں کے مابین اردو رابطکے کککی
زبان کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس طرح ُاردو قومی زبان اتحکاد و اتفکاق ککے لئے ایکک ا ہم
کردار ادا کررہی ہے ۔
سوال :قومی زندگی میں مشترک ہ ثقافتی مظا ہر کون کون س ے ہیں؟
Contents
][hide
) (۵تفریحات
ہماری تفریحات اور فارغ اوقککات ککے مشککاغل ملت کے جلت کے ہیککں۔کھیلککوں میککں ہہہاکی ،کرکککٹ،
شتی پورے ملک میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔تمام لککوگ ان کھیلککوں اسکوائش ،کبڈی اور ک ُ
میں دلچسی لیتے ہیں اور اسی لئے یہ ہمارے قومی کھیل بن گئے ہیں۔ یہ کھیککل ہمککارے مشککترکہ
اور مماثل ثقافت کے عکاس ہیں ۔
) (۶مذہبی تفریحات )تہوار(
مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثے کا مشاہدہ ہماری مذہبی تہواروںمیں بھی کیا جاسکتا ہے۔شادی
ایک مقدس اور پاکیزہ مذہبی فریضہ ہے اور اسی لئے یہ اسلمی روایککات اور رنککگ کککی عکککاس
ہے۔شادی کے موقع پر لوگ رنگین لباس پہنتے ہیں۔ دلنشین اور میٹھہہے گیککت گککاتے ہیککں ،تحف کے
تحائف لیتے اور دیتے ہیں اور لذیز کھانوں پر لوگوں کی دعککوتیں کرتکے ہیککں۔شککادی ککے موقککع
پرگھروں کو رنگین روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔شادی خوشی ،مسککرت اور لہک ّہگل ّک ہ کککا ذریعکہ
بنتی ہے ۔اس سے بھی ہمارے مشترکہ اور مماثل ثقافتی ورثکے کککا اظ ہار ہوتککا ہے ۔ اسککی طککرح
پیدائش و موت کے چند رسوم و رواج ہیں۔ بچکے کککی پیککدائش اور خککاص طککور پککر لڑککے کککی
پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ ایککک دوسککرے کککو تحفکے تحککائف دیکے جککاتے ہیککں ۔ کسککی
شخص کے انتقال پر لوگ غم ذدہ خاندان کے ساتھ دکھ و غم میںشریک ہوتے ہیں ۔ اس موقع پککر
ہمسائے ،اعّزہ و اقرباءاور احباب غم زدہ خاندان کے لئے کھانے کاانتظام کرت کے ہیککں ۔ اس طککرح
لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت کے جذبات ُابھارتے ہیککں ۔ اسککی طککرح عیککدلفطر اور
عید الضحی ہمارے مذہبی تہوارہیں۔ جنہیں جکوش و جذبےسکے منایکا جاتکا ہے۔ لکوگ نئے لبکاس
پہنتے ہیںاور مختلف قسم کے لذیز پکوان پکاتے ہیککں۔ ان تمککام مواقککع پککر اخککوت و محبککت ک کے
عظیم جذبات کااظہار کیا جاتا ہے ۔
سوال :پاکستان ک ے فنون اور دستکاریوں پر ایک نوٹ تحریر کیجئ ے۔
ن لطیفہ
ادب اور فنو ِ
ن لطیفہکہا جاتا ہے۔مسلم دورِ حکککومت ک کے ن تعمیر اور موسیقی کو فنو ِ وری ،خطاطی ،ف ِ مص ّ
دوران جنوبی ایشیاء)برصغیر پاک و ہند( میں یہ فنون خوب پھلے اور پھولے۔ُان کی یہ کامیابیاں
وری وروں نے اعل ٰی پککائے کککی مص ک ّ
اور کامرانیاں ہمارا قومی ورثہ ہیں۔پاکستان میں ہمارے مص ّ
کی۔ہمارے خطاطوں نے قرآن پاک کی آیات کو نہایت خوبصورت انداز میککں رقککم اور اسککلمی
اور قرآنی خطاطی کے اعل ٰی نمونے تخلیق کیے ہیں۔خوبصورت عمارت میں بھی مسلمانوں کا
ن تعمیر کا عکس نظر آتا ہے۔موسیقی کے شعبے میں بھی قدیم موسککیقی اور جدیککد روایتی ف ِ
سروں کے امتزاج سے نئے نئے تجربات کیے گئے۔ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں ککے ذریعکے ب ھی
گ تراشککی ،نقاشککی اور د ھاتوں اور لککوہے سکے زیککورات ن لطیفہ کو پروان چڑھایا گیککا۔سککن ِفنو ِ
سازی ،ظروف سازی اور اسلحہ سازی میںبہترین اور شاہکار نمونے تخلیق کئے گئے ہیں ۔
دستکاریاں
پاکستان کے تمام علقوں میں دستکاری کا اعل ٰی اور معیاری کام نسل در نسل س کے ہوتککا چل
آرہا ہے۔یہ دستکاریاں عام طور پر خواتین اپنے گ ھروں میککں کرتککی ہیککں۔سککندھ میککں لبککاس پککر
شیشہ سازی اور کندہ کاری کا نہایت نفیس کام ہوتا ہے اور یکہ اپنککی جگکہ خککود بککڑا منفککرد ہے ۔
سندھی اجرک بہت مشکہور اور مقبککول ہے۔کراچککی میککں سککیپیوں اور پت ھروں سکے زیککور اور
آرائشی اشیاءبنائی جاتی ہے۔صوبہ سرحد میں کڑھائی ،مینا ککاری ،اورکشککیدہ ککاری ککا اعلک ٰی
اور معیاری کام ہوتا ہے ۔دستکاری کے میدان میں پنجاب کا بھی بڑا حصہ ہے ۔
ملتان کی اونٹ ککی ک ھال سکے بنکے ہوئے لیمکپ اور دیگکر مختلکف اشکیاءنیز نیلکے رنکگ ککی
میناکاری والے برتن ،بہاولپور کی مٹی کی نازک صراحیاں و دیگر ظروف۔ یہ سککب ان علقککوں
کے لوگوں کے نفیس اور فنکارانہ کام کے عکاس ہیککں۔چنیککوٹ میککں لکککڑی پککر کنککدہ کککاری وال
فرنیچر تیار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کڑھائی ،کشیدہ ککاری اور شیشکے ککا ککام ب ھی ب ہت اعلک ٰی
معیار کا ہوتا ہے۔ دستکاری کی یہ صفت پاکستان کے اکککثر شکہروں ،دی ہاتوں اور قصککبوں میککں
قائم ہے۔جس سے ایک طرف ان کو روزگار ملتا ہے اور دوسری جانب ہماری ثقافت کو فککروغ
حاصل ہوتا ہے ۔ دستکاریاں زرِ مبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی ہیں ۔
تہوار
پاکستان میں ہر سال کئی تہوار اور میلے منعقککد ہوتے ہیںککاور ی ہاںکے لوگککوں کککی خوشککی اور
ب ذیل ہیں ۔ مسرت کا باعث بنتے ہیں ۔ی ہ تہوار اور میلے حس ِ
) (۱عید الفطر
عید الفطر ما ِہ رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔ ُان مسلمانوں کے
لئے جنہوں نے پورےما ِہ رمضان میں روزے رکھے ہوں اللہ تعال ٰی کی جککانب س کے انعککام و اکککرام
ہے ۔لوگ عید پر اچھے اچھے لباس پہنتے ہیں ۔ سویاں کھاتے ہیں ۔ مالدار لککوگ غربککاءاور مسککاکین
کی نقدرقوم کے ذریعے مدد کرتے ہیں ۔
) (۵بلوچستان میں دو زبانیں پشتو اور برا ہوی بولی جاتی ہے ۔
) (۶بلوچی زبان کے دو عظیم شعراءگل خان نصیر اور آزاد جمال الدین ہیں ۔
) (۸آزادی کے بعد سندھی زبان نے نثر اور نظم میں بے پناہ ترقی کی ۔
)ُ (۰۱اخوت اور محبت کا ایک ہی پیغام جو ہمارے صوفیوں نے مختلف زبانوں میں دیا ہے ۔
)ُ (۱اردو ہماری قومی زندگی کی مشترکہ قدر ہے چونکہ یہ پورے ملک میں بککولی اور سککمجھی
جاتی ہے ۔اسلئ ے اس سے قومی ثقافت و یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے ۔
ن تعمیر میں پاکستان کاثقافتی ورثہ بے حد شاندار ہے۔ مسلمان بادشاہوں کککی عمککارات ) (۲ف ِ
ن تعمیراس کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔
اور ان کا اعلیٰ ف ِ
) (۳مشترکہ ثقافتی ورثے کا اظہار علقائی شاعری اور ادب کی ان قککدروں سکے ہوتککا ہے جککو
تمام علقوں کے ادب میں یکساں موجود ہیں ۔ سوالُ :اردو کی تیسسن خصوصسسیات بیسسان
کیجئ ے۔
)ُ (۱اردو زبان کے اندر دوسری زبان کے الفاظ جذب کرنے کی صککلحیت موجککود ہے۔اس سکے
مشترکہ ثقافتی قدروں کو فروغ ملتا ہے ۔
)ُ (۳اردو زبان پاکستان کے ہر حصے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس لئے یہ رابطہ کی زبان
کہلتی ہے ۔
سوال :ثقافت ک ے کوئی چار عناصر تحریر کیجئ ے۔
) (۴زبان
)(۳پاکستان کا قومی لباس بارعب اور باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ پہننے والے کے اعل ٰی ذوق کا
مظہربھی ہے ۔
سوال :پاکستان کی کونسی دستکاریاں زیاد ہ مش س ہور ہیسسں؟ ان کسسی ا ہمیسست پسسر
تین جمل ے بیان کریں ۔
صوبہ سندھ میں شیشے کا کام ،سوسی اور چاندی کے زیورات ،ملتان میککں اونککٹ ک کے چمککڑے
سے بنی ہوئی مختلف اشیائ ،نیلے رنگ کی میناکاری والے برتن ،بہاولپور میں مٹی کککی نککازک
صراحیاں اور دیگر ظروف ،چنیوٹ میں لکڑی پر کندہ کاری وال فرنیچر کا کام ہوتا ہے۔کراچی
میں سیپیوں اور پتھروں سے قسم قسم کی آرائشککی چیزیککں بنککتی ہیککں،جبک کہ بلوچسککتان اور
سرحد کی کشیدہ کاری مشہور ہے ۔ یہ تمام اشیاءزرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ بن رہی ہیں ۔
) (۲دیہات میں گھریلو صنعتوں کا قیام دیہات سے شکہروں کککی طککرف منتقلککی ککے عمککل کککو
روکنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔
) (۳گھریلو صنعتیں پاکستان کے لئے قیمتی زرِ مبادلہ کاایکذریعہ ہیں ۔
پاکستان میں تعلیم
کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت بیان کیجیے؟
قومی تعلیمی پالیسی ) ۱۹۹۸تا (۲۰۰۸میں بیان کردہ تعلیم کے اہم پہلووں پککر روشککنی
ڈالیے؟
تعلیم کی سماجی و ثقافتی اہمیت بیان کیجیے؟
پاکستان میں رسمی تعلیم کی ساخت کس طرح کی ہے؟
تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب کے اہم اجزاء کیا ہیں؟
تربیت اساتذہ پر ایک نوٹ تحریر کیجیے؟
پاکستان میں فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت بیان کیجیے؟
پاکستان میں تعلیم کے میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کیا مقاصد ہیں؟
سوال :کسی ملک کی ترقی میں تعلیم کی ا ہمیت بیان کیجئ ے؟
ترقی کے لئے تعلیم کی اہمیت)پاکستان کی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے( کسککی ب ھی ملککک
کی ترقی اور فروغ میں تعلیم کو ایک اہم درجہ حاصل ہے۔ اسی کی بدولت افراد علم و آگہی
کی دولت سے مالمال ہوتے ہیںاور علم ایک ایسی قوت اور دولت ہے جو اسککتعمال کرنکے سکے
بڑھتی ہے۔تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ
) (۱تعلیم نے انسان کو ارتقاءکے کئی مراحل سے گذرنے میں مککدد دی ہے ۔ جککس کککی بککدولت
انسان سائنس اور فنی ترقی کے موجودہ دور تک پہنچ سکا ہے ۔
) (۳تعلیم کسی قوم کے نظریے کو سمجھنے اور اس نظریے کککو اسککتحکام بخشککنے میککں مککدد
دیتی ہے ۔
) (۴تعلیم افراد میں قومی شعور کو اجاگر کرتی ہے اور حب الککوطنی ک کے جککذبات کککو فککروغ
دیتی ہے ۔
) (۵تعلیم کسی بھی شہری کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہی میں مککدد دیککتی ہے تککاکہ وہ
معاشرہ کی فلح و بہبود کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرسک ے ۔
) (۶تعلیم سے لوگوں کی تخلیقی صلحیتوں کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔ جس سککے معاشککرے
میں صحت مند اور تعمیری تبدیلیوں کا عمل تیز ہوجاتا ہے ۔
) (۷تعلیمی ارتقاءاور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تعلیم کا معیار جتنکا زیکادہ بلنکد
ہوگا افراد بھی اتنے ہی ہنر مند ہوں گے اور اتنا ہی ملک ترقی کر سکے گا ۔
) (۸تعلیم قدرتی وسائل کی تلش اور ان کے نفع آور استعمال میں مدد دیتی ہے ۔
) (۹تعلیم انسانی وسائل کے فروغ کا سب سے بہترین ذریعکہ ہے۔ تعلیککم ککے توسککط سکے ہی
سائنسی اور تکنیکی ترقی ممکن ہوسکی ہے ۔
سوال :قومی تعلیمی پالیسی )1998ءتا 2010ئ( میں بیان کرد ہ تعلیم ک ے ا ہم
پ ہلوو�¿ں پر روشنی ڈالی ے؟
][hide
)(۸اعل ٰی تعلیم
ایم اے ،ایم ایس سی ،ایم بی اے اور ایم کام کے بعد مزید اعل ٰی تعلیککم حاصککل کککی جاسکککتی
ہے ۔ماسٹر کی سند حاص کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جاتی ہے ۔اس طرح ایککم
بی بی ایس بننے کے بعد ڈاکٹر طب کی مختلف شاخوں میں اختصاص حاصل کرتے ہیں۔ایس کے
لوگ اسپیشلسٹ )ماہر( ڈاکٹر کہلتے ہیں۔ رسمی تعلیم کے لئے حکومت نے پورے پاکستان میں
لتعداد ادارے کھول رکھے ہیں۔یہ نظام عموما ً حکومت کے زیرِ اہتمکام اور زیکزِ نگرانکی ہوتکا ہے
اور یہاں حکومت کے قواعد و ضوابط کی پیروی کی جاتی ہے۔تککاہم اس رسککمی نظککام ِ تعلیککم
میں ہر سطح اور درجے کے لئے نجی تعلیمی ادارے بھی ک ھل گئے ہیککں ۔لیکککن ان نجککی اداروں
کی فیس سرکاری اداروں سے بہت زیادہ ہوتی ہے اور یہ عموما ً ملک کے متوسط طبقے کے لئے
ل برداشت ہوتے ہیں ۔
ناقاب ِ
سوال :تعلیم کی ثانوی سطح پر نصاب ک ے ا ہم اجزاءکیا ہیں؟
Contents
][hide
ت
تربیکککک ِ 1
اساتذہ
)(۱ 2
پرائمککککککککری
اسکککککککککککول
اساتذہ
) (۲مککڈل 3
اسکککککککککککول
اساتذہ
ت اساتذہ
تربی ِ
کوئی بھی تعلیمی نظام اپنے اساتذہ کی علمی سطح پر بلند ترین ہوتا ہے۔ کسککی ب ھی نظککام ِ
تعلیم میں اساتذہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اساتذہ مناسککب علککم
اور مہارت کے حامل ہوں اور تعلیم کے مقاصد کے حصول اور اپنی ذمہ داریوں کککو پککورا کرن کے
ت اساتذہ کی چند مخصوص سطحیں ہیں جو اساتذہ کے لئے مناسب رویہ اختیار کرتے ہوں۔ تربی ِ
ش نظر رکھی گئی ہیں ۔ کی عمومی تعلیمی قابلیت کے پی ِ
) (۱پرائمری اسکول اساتذہ
پرائمری اسکول کے اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے بشرطیکہ انہوں نکے ثکانوی اسککول امتحککان
میں لزما ً کامیابی حاصل کرلی ہو ۔ان ہیں ایک سال کی تربیت مہیککا کککی جککاتی ہے ۔تربیککت کککی
تکمیل کے بعد انہیں پرائمری ٹیچرز سرٹیفکٹ )پی ٹی سی( کی سند دی جاتی ہے ۔
سوال :پاکستان میں فنسسی )ٹیکنیکسسل( اور پیشس ہ ورانس ہ تعلیسسم کسسی ا ہمیسست بیسسان
کیجئ ے؟
مقاصد
تعلیم کے میدان میں اطلعاتی فّنییت کے بھر پور پروگرام کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں ۔
) (۱ہر درجے پر اطلعاتی فّنییت کے اطلق سے پاکستان کے نظام تعلیم کو جدید بنانا ۔
) (۲انٹرنیٹ کے ذریعے جدید تحقیق اور تازہ اطلعات و معلومات تک رسائی حاصل کرنا ہے ۔
) (۳ہر عمر کے بچوں میں اطلعاتی فّنییت کو مقبول بنانا اور انہیں آئندہ عشروں کے لئے تیککار
کرنا ۔
) (۴کمرہ جماعت میں تعلیم کے آلہ کار کے طور پر کمپیوٹر کے مختلف کککرداروں پککر زور دینککا
ہے ۔
) (۵اساتذہ کی تربیت اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے رسل و رسائل ککی ٹیکنککالوجی ککو
استعمال کرنا ۔
پاکستان ۔ ایک فلحی مملکت
فلحی ریاست سے مراد ایک ایسی ریاست ہے جو اپنے شہریوں کی بنیککادی ضککروریات
کا خیال رکھے اور انہیں اس قابل بنکائے ککہ وہ ُپکر امکن وُپرسککون زنکدگی گزارسککیں ۔
ریاسککت کککے مقاصککد میککں ج ہالت و ناخوانککدگی ،غربککت و افلس اور معاشککرے س کے
ناانصافی کا خاتمہ شامل ہوتے ہیں۔اپنے شہریوں کو ایسے مواقکع اور مکاحول مہیکا کرنکا
بھی اس کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے جس میںککوہ اپنککی فطککری صککلحیتیں ُاجککاگر کککر
سکیں ۔
فلحی مملکت کا تصور کوئی نیا نہیں ہے۔اسلم نے چودہ سو سال قبل فلحی مملکککت
کا تصور پیش کیا تھا اور خلفت راشدہ کے دور میں اس پر مکمل طور پر عمککل کیککا گیککا ت ھا ۔
ایک اسلمی فلحی ریاست کا تصور حسب ذیل ہے ۔
اسلم میں اقتدارِ اعل ٰی اللہ تبارک و تعال ٰی کے پاس ہے۔ریاست نیابتکا ً اپنکے شکہریوں
( )۱
کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ہر کس و ناکس کو بل کسی امتیاز ککے
انصاف فراہم کرتی ہے۔یہاں قانون کی نظر میں سب برابرہوتے ہیں۔افراد کے درمیککان فککوقیت
اور برتری کا دارومدارصرف تقویٰ )اللہ کے خوف( کی بنیاد پرہوتا ہے ۔
) (۲اسلمی فلحی ریاست میں یہ لزم ہے کہ حاکم اسلم کے بنیادی احکامات کککا پابنککد
ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے وال مسلمان ہو ۔حاکم تو صرف امین ہوتاہے ۔
) (۳اسلمی فلحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے۔وہ ہمیشکہ عککوام کککی فلح و
بہبود کے بارے میں سوچتا ہے ۔ وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے ۔
) (۴اسلمی فلحی ریاست میں حکومت ہمیشہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔یہ
تمام شہریوں کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔یکہ ریاسکت غیکر
مسلموں سمیت تمام افراد کو بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے ۔
ب لباب یہ ہے ککہ یکہ مسکاوات ) ہر سکطح پکر
) (۵اسلمی فلحی ریاست کے تصور کا ل ِ
برابری(قائم کرتی ہے اور اس کے حکمران عام آدمی کی طرح زندگی بسر کرت کے ہیککں اور ہر
شخص کی ان تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور یہ اپنے عوام کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں ۔
][hide
پاکستان ایک ذمہ دار اور امن پسند ملک ہے اور اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے ککہ دنیککا ککے
تمام ممالک سے خوشگوار تعلقات قائم کئے جائیں۔عالمی امن کو فروغ دینے ککے لئے اس نکے
ہمیشہ اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔پاکستان ایسی کئی عالمی تنظیمکوں ککا
رکن ہے جو دنیا میں بھائی چارے اور امن کے فروغ کے لئے کوشاں ہے۔ ایک اسلمی ملک ہونے
کے ناطے سے بھی پاکستان ایسے اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔جو ایک دوسرے ک کے سککاتھ امککن و
سکون سے رہنے اور تشدد اور جارحیت کی حوصلہ شکنی ککا درس دیتکے ہیکں۔اگکر چکہ اسکلم
میں ضرورت کے وقت ہتھیار ُاٹھانے کی اجازت ہے۔لیکن بے رحمککی اور ظلککم و ناانصککافی کککی
سخت ممانعت کی گئی ہے۔ عالمی بھائی چارے اور امن کے لئے اقوام عالم کے مککابین محبککت
و یگانگت کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔جککس ککے لئے ضککروری ہے ککہ مختلککف ممالککک ککے مککابین
تنازعات کو ُپر امن طریقے سے حل کروایاجائے اور ملکوں کی آزادی اور سرحدوں ککا تحفکظ
][hide
تعلیم عامہ
اسلم میں اور اقوام متحدہ کے منشور میں ،تعلیم کو انسانوں کا بنیادی حککق تسککلیم کیککا گیککا
ہے ۔اس لئے ایک خاص حد تک شہریوں کے لئے تعلیم لزمککی اور مفککت ہ ہونی چککاہئے ۔اس معیککار
اور درجے تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع تمام شہریوں کے لئے یکساں ہونے چککاہئیں۔اس کککے
لئے تعلیمی اداروں کی تعداد اور دیگر تعلیمی سہولتوں میں اضافہ ہونا چککاہئ ے ۔ پاکسککتان میککں
تعلیم عامہ کا ہدف حاصل کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ ملک میں تعلیم کو عام کرنے کے
لئے مندرجہ ذیل قدم ُاٹھائے گئے ہیں ۔
) (۵وظائف
پاکسککتان بیککت المککال ک کے تحککت ذہیککن اور قابککل طلبککاءکے سککاتھ سککاتھ مسککتحق اور غریککب
طلباءکوبھی وظائف دینے کا ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے ۔
][hide
سوال :فلحی مملکت س ے کیا مراد ہے؟ تین جملوں میں وضاحت کیجئ ے۔
)(۱۔ فلحی مملکت سے مراد ایسی ریاست ہے جو ج ہالت ،غربکت و افلس اور ناانصکافی ککا
خاتمہ کر ے ۔
) (۲۔ لوگوں کے لئے خوراک ،لباس تعلیم اور رہائش کا معقول انتظام کرے ۔ اور
) (۳۔ تمام شہریوں کو ان کی فطری صلحیتں ُاجاگر کرنے کے یکساں مواقع فراہم کر ے ۔
سوال :مغربی دنیا ک ے فلحی مملکت ک ے جدیدتصور کو چار جملسسوں میسسں بیسسان
کیجئ ے۔
) (۱۔ وہ شہریوں کا معیار زندگی کو بلند کرکے انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کرتی ہے ۔
)(۲۔ وہ ہر شہری کو تعلیم ،روزگار اور صلحیتوں کککو اجککاگر کرنکے ککے یکسککاں مواقککع فرا ہم
کرتی ہے ۔
) (۳۔ ان کے سیاسی و شہری حقوق کی حفاظت کے لئے قدم ُاٹھاتی ہے ۔ اور
)(۴۔ جو لوگ اقتصادی یا دیگر وجوہات کی بناءپر زندگی کی دوڑمیں دوسروں س کے پیچ ھے رہ
گئے ہوں ان کی مدد کرتی ہے تاکہ وہ دوسروں کے برابر آسکیں ۔
سوال :اسلم ک ے فلحی مملکت ک ے تصورپر چار جمل ے تحریر کیجئ ے۔
)(۲۔ اس کی ذمہ داریوں میں روزگار کی فراہمی ،ب کے روزگککاری ک کے ایککام میککں مککالی امککداد،
معذوری اور ُبڑھاپے کی صورت میں وظائف کی ادائیگی شامل ہیں ۔
) (۳۔ وہ پوری آبادی کو صحت ور تعلیم کی سہولتیں یکساں طو ر پرمہیا کرنے کی ذمہ دار ہے ۔
)(۴۔ اسلمی ریاست کی ذمہ داریوں میں صحت منککد معاشککرتی مککاحول قککائم رکھنککا عککدل و
انصاف کو فروغ دینا اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنا شامل ہئ ے ۔
) (۱۔ اسلمی تعلیمات اور اصولوں کی بنیادوں پر اسلمی معاشرہ کی تشکیل ۔
) (۲۔ جہالت ،غربت ،افلس اور معاشی استحصال کے خلف جدوجہد ۔
) (۳۔ اسلمی ممالک کے مابین اتحاد کو فروغ دینا اور انہیں ایک مرکز پر جمع کرنا ۔
) (۴۔ غیر متعصب معاشرہ کی تشکیل کے لئے بھائی چارے اخوت اور رواداری کو فروغ دینا ۔
) (۱۔تعلیم اور تربیت قومی تعمیر کے عمل کا اہم اور لزمی حصہ ہے ۔
)(۲۔ اگر کسی قوم کے نوجوان تعلیم یافتہ نہ ہوں تو اس قککوم کککی ترقککی کککی رفتککار سسککت
پڑجاتی ہے ۔
)(۳۔ ہمارے ملک میں خواندگی کککی شکرح 26فیصککد ہے جککو ہمککاری اقتصککادی اور معاشککرتی
ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
) (۴۔ تعلیم کی روشنی عام ہونے سے ہی فلحی مملکت کا قیام ممکن ہوگا ۔
سوال :عالمی ب ھائی چار ے کی ضرورت پر چار جمل ے لک ھیئ ے۔
)(۱۔ آج بنی نوع انسان جن گھمبیر مسائل سے دو چار ہے انہیںحل کرنے کے لئے عکالمی سکطح
پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔
)(۲۔ ان میں خوراک کی کمی ،توانائی کا بحران،منشیات کی اسککمگلنگ اور ایٹمککی ہتھیککاروں
کے پھیلو�¿ سے پیدا شدہ خطرات وغیرہ شامل ہیں ۔
سککلی
)(۳۔ اگر دنیامیں بھائی چارے ،تعاون اور امن کی فضا موجود نکہ ہو تککو ان مسککائل کککا ت ّ
بخش حل تلش نہیں کیا جاسکتا ۔
سوال :فرد اور فلحی مملکت ک ے حقوق و فرائض پر چار جمل ے لک ھیئ ے۔
) (۱۔ فرد اور فلحی مملکت کے حقوق و فرائض شانہ بشانہ چلتے ہیں ۔
)(۳۔ شہریوں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے فکرائض خلکوص اور دیکانت سکے سکرانجام
دیں اور ملک و قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار رہیں ۔
)(۴۔ فلحی مملکت اپنی عوام کککو غربککت ،ج ہالت اور نککا انصککافی سکے محفککوظ کرنکے کیلئے
ٹھوس منصوبہ بندی کرتی ہے ۔
سوال :عالمی ب ھائی چار ے اور امن ک ے لئ ے پاکسسستان کس ے کسسردار پسسر چسسار جملس ے
لک ھئ ے؟
) (۱۔ عالمی بھائی چارے اور امن کے فروغ کیلئے پاکستان کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے ۔
)(۲۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک سے خوشککگوار تعلقککات
قائم کئے جائیں ۔
) (۳۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی ہے ۔
) (۴۔ پاکستان نے ہمیشہ دہشت گردی اور تشدد کی سیاست کی مخالفت کی ہے ۔
پاکستان میں مسلسل تعمیری کاوشوں کو جاری رکھنے کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری
ہیں ۔
) (۱قوم میں قومی مقاصد کا شعور اور آگہی پیدا کی جائ ے ۔
) (۴ملک میں معاشی ترقی کے منصوبوں کو مکمل کرنے اور نئے منصوبے بنانے کے رجحان کو
فروغ دیا جائ ے ۔
SHORT QUESTIONS ANSWERS
CHAPTER-2 MAKING PAKISTAN
نننننن ننننننن
سوال :فرائض تحریک ک ے کیا مقاصد ت ھے؟
ککککک ککککک
حاجی شریعت اللکہ نکے بنگککال ککے مسککلمانوں کککو غیککر مسککلم رسککوم و رواج سکے
چھٹکارہ پانے کا مشورہ دیککا۔ ان ھوں نکے اسککلمی احکامککات پککر عمککل پیککرا ہونے کککی
ضرورت پر زور دیا اور ان اسلمی احکامات کو انھوں نے فرائض کا نام دیککا۔ اسککی
لئے اسلمی اصولوں کے لئے ان کی تبلیغ و تلقیککن اور مسککلمانوں ک کے لئے اصککلحی
تحریک "فرائض تحریک"کہلتی ہے۔ فرائض تحریک کے بنیادی مقاصد یہ ہیں۔
غیر اسلامی رسوم و رواج کا خاتمہ
فرائض تحریک کا بنیادی مقصد ان غیر اسلمی رسوم و رواج و روایت کو مٹانککا اور
ختککم کرنات ھا جککو بنگککالی مسککلمانوں میککں سککرایت کککرگئے ت ھے ۔ اس تحریککک ن کے
مسلمانوں کو اسلمی تعلیمات کے مطابق صراط مستقیم پر لن کے میککں بککڑی مککدد
کی۔ ابتداءمیں انھیں بہت سی مشکلت اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آہستہ
آہستہ ان کی تحریک نے بنگالی مسلمانوں میں خود اعتمادی کا جذبہ بیدار کردیا۔
مسلمان کسانوں اور مزار عین کو ہندو زمینداروں کے ظلم و ستم سے
نجات
محمد محسن نے مسلمان کسانوں اور مزار عیککن کککو ہنککدو زمینککداروں ککے ظلککم و
ستم کے خلف جمع کیا۔ ان کی کوششوں کے نککتیجے میککں بنگککال ککے مسککلم مککزار
عین ہندو زمینداروں اور جاگیرداروں کے بہیمانہ تسلط سے آزاد ہوگئے۔ وہ بنگککال ک کے
مسلمان مزار عین کے حقوق کے عظیم علمککبردار بککن گئے۔ برطککانوی اور ہنککدوتاجر
اور زمیندار انکے خلف ہوگئے۔ لیکن انھوں نے ان کی کوئی پروا نہیککں کککی اور اپنککی
زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا مشن جاری رکھا۔ مختصرا ً یہ ککہ فککرائض تحریککک
کے نتیجے میں بنگا لی مسلمانوں کی دینی اور اخلقی حککالت ب ہت ب ہتر ہوگئی اور
بڑی حد تک مزار عین کے حقوق کا تحفظ بھی ہوگیا۔
تحریک احیاءمیں شاہ ولی اللہ کا کردار
) ک( مرہٹوں کے ظلم و ستم سے مسلمانوں کو نجات دلائی
شککاہ ولککی الل کہ ن کے افغانسککتان ک کے حکمککران احمککد شککاہ ابککدالی کککو خککط لک ھا اور
درخواست کی کہ وہ مرہٹوں کے ظلم و ستم سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نجککات
دلئیں۔ اس کے جوب میں احمد شاہ ابدالی ن کے 1761میککں بککانی پککت کککی تیسککری
جنگ میں مرہٹوں کو عبرتناک شکست دی۔ اس شکست کے بعد مرہٹ کے پ ھر کب ھی
نہیں سنبھل سکے۔
) ک( قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا
شاہ ولی اللہ کی انتہائی اہم خدمت یہ ہے کہ آپ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ
کیا۔ اس سے لوگوں کو قرآن مجید کو سمجھنے میں بہت مد د ملی۔
) ک( حدیث ،فقہ اور تفسیر پر کتب لکھیں
شاہ ولی اللہ نے حدیث ،فقہ اور تفسیر پر کتابیں لکھیککں۔ ان ککی کتکابوں میککں سککب
سے زیادہ مشہور و معروف کتاب "حجتہ اللہ البالغہ" ہے۔ ان کی تصانیف کککا پیغککام ی کہ
ہے کہ اسلم ایک آفاقی مذہب ہے جو تمام انسانیت کے لئے ترقککی اور خوشککحالی کککا
ضامن ہے۔
سوال :پنجاب اور سرحد سے معاشرتی برائیککوں ککو مٹککانے ککے لئے سککید
احمد کی جدوجہد بیان کریں؟
) ک( سکھوں کے لئے اقتدار کا خاتمہ
اسلمی اقکدار اور روایکات ککی احیکاءکے لئے سککید احمکد شکہید پنجککاب اور شککمالی
مغربی صوبے سے سکھوں کا اقتدار ختم کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے پنجاب اور سرحد
میں جہاد کا آغاز کردیا۔ بدی کی قوتوں کے خلف جہاد میں شاہ اسماعیل شہید اپنے
چھ ہزار پیروکاروں کے ساتھ سید احمد کے ساتھ شریک ہوگئے۔
) ک( جہاد پر روانگی
سید احمد 1826میں سندھ میں آئے اور پیرپگارو سے مدد کے لئے درخواسککت کککی۔
جنہوں نے اپنے جانثار مریدوں کو انکے لشکر میں شککامل ہونے کککا حکککم دیککا جنھیککں
"حر" کہتے ہیں۔ سید احمد اپنے اہل و عیال کو پیرپگککارو کککی حفککاظت اور سککپردگی
میں دے کر خود جہاد پر روانہ ہوگئے۔
) ک( سک ھ ّ وں کے خلاف پہلی جنگ
سید احمد شہید دسمبر 1826میں نوشہرہ )شمالی مغربکی سککرحدی صکوبہ( پہنچکے
اور اسے اپنا مرکز اور صدر مقام بنالیا۔ سککک ّھوں ککے خلف پہلککی جنککگ 21دسککمبر
1826کو اکوڑہ کے قریب لڑی گئی جس میں سک ّھوں کو شکست ہوگئی۔
) ک( سک ھ ّ وں کے خلاف دوسری جنگ
سک ّھوں کے خلف دوسری جنککگ حضککرو ک کے مقککام پککر لککڑی گئی۔ اس میککں ب ھی
مسلمان فتحیاب رہے۔ان فتوحات سے پٹھانوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی اور وہ ب ھی
تحریک جہاد میں شامل ہوگئے۔ مجاہدین کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی۔ سید احمد
کو "امیر المومنین" کا منصب دے دیا گیا۔
) ک( اسلامی قوانین کا نافذ
سید احمد شہید کے فتح کیے ہوئے علقوں میں اسلمی قوانین نافذ کردئیے گئے۔
) (۶سید احمد ک ے خلف سازش
ً
ابتداءمیں تحریک جہاد بہت کامیابی سے جککاری ت ھی لیکککن فککوراہی سککید احمککد ک کے
خلف سازشیں شروع ہوگئیں۔ کچھ قبککائلی سککرداروں نکے آپ کککو ز ہر دے کککر قتککل
کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ)1780ء)1839نے سردار یار
محمد اور اسکےبھائی سلطان محمد کککو رشککوت دی تکاکہ وہ سکید احمککد شکہید ککی
خلفت کے خلف سازش کریں۔
) ک( مجاہدین اورسکھوں کے درمیان سخت معرکہ
سرداروں کی نافرمانیوں ککی وجکہ سکے سکید احمککد شکہید ب ہت ناامیکد اور مکایوس
ہوگئے۔ سید احمد نے بالکوٹ کو اپنا نیا صدر مقام بنالیا۔ انھہہوں ن کے مظفرآبککاد س کے
اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ وہاں مجاہدین اور سکھوں کے درمیان سخت معرکککہ آرائی
شروع ہوگئی۔
) ک( سید احمد اور ان کے جانثاروں کی شہادت
مسلمان بڑی بہادری اور جرا�¿ت سے لڑے لیکن 6مئی 1831کککو سککید احمککد اور
ان کے جانثاروںکی اکثریت کو شہید کردیا گیا۔ہزاروں مجاہدین میں سے صککرف تیککن
سو زندہ بچے اور اس طرح سید احمد ش کہید کککی خلفککت ختککم ہوگئی اور اسککلمی
ریاست قائم کرنے کا ان کا خواب شرمندہ�¿ تعبیر نہ ہوسکا۔
سوال :علی گڑھ تحریک کے کارنامے بیان کریں؟
1857کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان انگریزوں کی چیرہ دسککتیوں اور
سککفاکیوں کککا نشککانہ بککن گئے۔ مسککلمانوں کککو دینککی ،مککذہبی ،سیاسککی ،معاشککی،
معاشرتی اور تعلیمی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ ان حالت میں سککر سککید احمککد
خان نے برصغیر کے مسلمانوں کے رہنما اور قائد کے فرائض سککنبھال لئے۔ان ھوں نکے
مسلمانوں میں بیداری کی تحریک کا آغاز کیا۔ ان کی تحریک "علککی گککڑھ تحریککک "
کہلتی ہے۔ علی گڑھ تحریک کے کارنامے
) ک( انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی تعلقات کا قیام
سرسید احمد نے انگریزوں کے ساتھ خیرسگالی اور دوستانہ تعلقات قائم کرن کے کککی
ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے انگریزوں کو یہ ب ھی سککمجھانے کککی کوشککش کککی ککہ
1857کی جنگ کے صرف مسلمان ہی ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ہندو اور ہندوستان کککی
دوسری اقوام نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انگریزوں کے ذہن سے مسککلمانوں
کے بارے میں شکوک و شککبہات دور کرنکے ککے لئے سرسککید احمککد نکے ایککک کتککابچہ "
اسباب بغاوت ہند" کے نام سے تحریر کیا تھا۔
) ک( جدید تعلیم کے لئے ترغیب
سر سید احمد کو پورا یقین تھا کہ جب تک برصغیر کے مسلمان تعلیککم نہیککں حاصککل
کریں گے اور سائنسی علوم نہیں سکھیں گے اس وقت تک وہ پسماندہ رہیں گککے اور
برصککغیر کککی دیگککر غیککر مسککلم اقککوام س کے مقککابلہ نہیککں کرسکککیں گ کے۔ان ھوں ن کے
مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انگریزی زبان سیکھنے میں دلچسپی ظکاہر کریکں تکاکہ وہ
ان سائنسی علوم سے فیض یاب ہوسکیں جن کا ماخذ مغربی علوم سے تھا۔
) ک( تعلیمی سرگرمیاں
سرسید احمد خان نے مسکلمانوں پکر زور دیککا ککہ وہ جدیکد علککوم سککیکھیں۔ اس لئے
انھوں نے 1862میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رک ھی۔ بعککد میککں
اس کو علی گڑھ منتقککل کردیککا گیککا۔اس ک کے بعککد سککر سککیدنے کیمککبرج یونیورسککٹی
)انگلستان( کی طرز پر علی گڑھ میں ایک اسکول قائم کیا۔ جس کو بعد میں کالککج
کی سطح تک بڑھادیا گیا۔ اس کا نام محمڈن اینگلو اورینٹککل کالککج )ایککم اے او کالککج(
رکھا گیا۔ سر سید احمد نے مسلمان نوجوان نسل ککو اس بکات پکر آمکادہ کیکا ککہ وہ
انگریزی زبان سیکھین تاکہ جدید سائنسی علوم کا حصول ان کے لئے آسان ہوجائے۔
اس پروگرام کی وجہ سے اردو زبان کے فروغ میں بھی مدد ملی۔
سوال :دو قومی نظری ہ کیا ہے؟
دو قومی نظریہ
دو قومی نظریہ سے مراد یہ ہے کہ متحککدہ ہندوسککتان )جنککوبی ایشککیائ( میککں دو بککڑی
قومیں رہتی ہیں۔یہ قومیں ہندو اور مسلم ہیں۔یہ دونوں قومیں سککینکڑوں سککال تککک
ایک دوسرے کے ساتھ رہی ہیککں۔لیکککن اپن کے مخصککوص مککذہبی اور منفککرد معاشککرتی
نظاموں کی وجہ سے باہم ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکیں۔
دو قومی نظریہ کا ارتقائ
ہندو یہ چاہتے تھے کہ ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ہندووں نے اردو کے مقابلے
میں ہندی زبان کے فروغ کے لئے مہم چلئی۔ ہنککدی اور اردو ک کے اس تنککازع ن کے سککر
سید کے ذہن کو بدل کر رکھ دیا اور پھر انھوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنککی
سیاسی حکمت عملی اسککتوار کککی۔ی کہ دو قککومی نظریکے کککی ابتککداءتھی۔سککر سککید
مسلمانوں کے پہلے رہنما تھے جنہوں نے برصغیر کے مسککلمانوں ک کے لئے "قککوم" کککی
اصطلح استعمال کی کیونکہ ان کا مذہب جدا تھا۔ ان ککی اپنککی اقککدار اور معیشککت
بالکل جداگانہ تھی۔ سر سید کے بعد برصغیر کے کئی رہنماوں مثل ً عبدالحلیم شککرر،
مولنا محمد علی جوہر ،چو ہدری رحمککت علککی ،علم کہ محمککد اقبککال اورقککائداعظم
محمد علی جناح نے درست طور پر یہ اعلن کیا کہ مسلمان ایک علیحککدہ قککوم ہیککں۔
قائد اعظم نے فرمایا
”ن ہ ہندوستان ایک ملک ہے اور ن ہ ہی اس ک ے باشند ے ایک قوم ،ی س ہ ایسسک
برصغیر ہے جس میں کئی اقوام ہیں ۔“
قککائداعظم کککی ب کے شککمار تقککاریر اور بیانککات میککں اس امککر پککر زور دیککا گیککا ہے۔
مسلمانوں کو ایک اقلیت نہ سمجھا جائے بلکہ یہ ایک قککوم ہے۔ ان کککا اصککرار ت ھا ککہ
برصغیر کے سیاسی تعطل )ڈیڈلک( کا منصفانہ حل صرف یہی ہے کہ مسککلمانوں کککو
بحیثیت ایک علیحدہ قوم تسلیم کیا جائے۔
سوال :جدوج ہد پاکستان میں مسلم لیگ ک ے کردار پسسر روشسسنی
ڈالی ے؟
آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام
30سمبر 1906کو ایک سیاسی جماعت "آل انڈیا مسککلم لیککگ�©"ک کے نککام س کے
تشکیل دی گئی ۔ علی گڑھ کو اس کا صدر مقام بنایا گیا اور جلد ہی سکر آغکا خکان
)مرحککو م( کککو آل ان کڈیا مسککلم لیککگ کککا صککدر اورسککید علککی حسککین بلگرامککی کککو
سیکریڑی جنرل مقرر کیا گیا۔
آزادی کی جدوجہد میں مسلم لیگ کا کردار
1906میکں مسکلم لیکگ ککی تشککیل ککے بعکد ہی سکے اس نکے جنککوبی ایشککیاءکے
مسلمانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم کی شکل اختیار کرلی۔ جہاں سکے وہ اپنکے حقککوق
اور انگریزوں سے حصول آزادی کے لئے جدوج ہد کرسکککتے ت ھے۔ مسککلم لیککگ ککہ یکہ
جدوج ہد بککے شککمار مشکککلت سککے گککزری۔ مسککلم لیککگ کککے کککردار کوذیککل میککں
مختصرًابیان کیا گیا ہے۔
) ک( حقوق کا تحفظ
ایک نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پراپنے قیام کے بعد مسلم لیگ کا فککوری ہدف
یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفککظ ک کے لئے مناسککب اقککدام اٹ ھائے
جائیں اور حکومت کو ان کے مسائل اور مطالبات سکے آگککاہ کیککا جککائے۔ ایککک جککانب
مسلم لیگ نے انگریزوں کو برصغیر سے نکالنے کے لئے ہندووں کے سککاتھ ہاتھ ملن کے
اور تعاون کرنکے میککں انت ہائی متککوازن رویکہ اختیککار کیککا اور دوسککری جککانب اس نکے
مسلمانوں اور برطانوی سرکار کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کی
۔
) ک( کانگریس کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ
قائداعظم محمد علی جناح نے اکتوبر 1913میں مسلم لیگ میککں شککمولیت اختیککار
کی۔ ان کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان دسمبر 1916میں
ایک سمجھوتہ طے پایا جو میثاق لکھن�¿و کے نام سے معروف ہے۔ اس میثککاق کککی
رو سے کانگریس نے مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسککلیم کرلیککا اور ہندوسککتانی
مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کے مطالبے کو بھی تسلیم کیا گیا۔
) ک( مسلمانوں کی تعداد
مرکزی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اراکین کی تعداد ایک تہائی طے پائی۔
) ک( نشستیں
مسلم اکثریت کے دونوں صوبوں یعنی بنگال اور پنجاب کی قککانون سککاز اسککمبلیوں
میں مسلمانوں کی اکثریت مستحکم ہوگئی۔
) ک( متناسب نمائندگی
ان صوبوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔ وہاں ان کی نمائندگی ان ککے آبککادی
کے تناسب سے زیادہ کردی گئی۔
سوال :جدوج ہد پاکستا ن میں صوبوں ن ے کیا کردار ادا کیا ت ھا؟
تحریک پاکستان میں صوبوں کا کردار
برصغیر کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد کی بدولت پاکسککتان وجککود میککں آیککا ہے۔
تمام صوبوں کی عوام نے تحریک پاکستان کو مقبککول بنککانے میککں حص کہ لیککا۔ مسککلم
رہنماوں نے برصغیر کے کونے کونے تک پاکستان کککا پیغککام پہنچایککا۔ تحریککک پاکسککتان
میں مختلف صوبوں کا کردار مندرجہ ذیل ہے۔
) ک( صوبہ پنجاب
آبادی اور وسائل کے اعتبار سے پنجکاب سکب سکے بکڑا صکوبہ ت ھا۔لیککن ہنکدووں اور
انگریزوں کی باہمی سازشوں اور ملی بھگت سے یہاں کے عوام کو دبا کر رکھا گیا۔
قرارداد پاکستان بھی پنجاب ککے سککب سکے بککڑے شکہر اور دارلحکککومت ل ہور میککں
23مارچ 1940کو منظور کی گئی۔اس کے بعد مسلم لیگ ن کے پاکسککتان ککے تصککور
کو پورے پنجاب میں مشہور کیا۔ 46-1945کے انتخابات میں مسلم لیککگ ن کے پنجککاب
کی صوبائی اسمبلی میں تقریبا ً نوے فیصد مسلم نشستوںپر کامیابی حاصککل کرکککے
اکثریت حاصل کرلی۔ پنجاب کے علماءاورمذہبی عمائدین ن کے پنجککاب ک کے عککوام کککو
آزادی کے لئے آمادہ کیا۔انھوں نے پنجاب مسککلم اسککٹوڈنٹس فیڈریشککن قککائم کککی اور
آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔ 1941میں قائداعظم نے اسلمیہ کالککج ل ہور میککں
منعقدہ پاکستان ککانفرنس ککی صککدارت فرمککائی۔پنجککاب ککے طلبکہ نکے پنجکاب ککی
یونینسٹ حکومت کی بھرپور مخالفت کی۔ پنجاب کی خواتین نے ب ھی اس تحریککک
میں پورا حصہ لیا۔پنجاب میں سول نافرمانی کی تحریک کے دوران ایک بہادر خاتون
صغر ٰی فاطمہ نے پنجاب سیکریٹریٹ سے برطانوی جھنڈا اتار پھینکا اور اس کی جگہ
مسلم لیگ کا جھنڈا لہرادیا۔
) ک( صوبہ سندھ
صوبہ سندھ کو باب السلم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس صککوبے میککں مسککلمانوں
کی اکثریت کو کم کرنے کے لئے انگریزوں نے اس کککو صککوبہ بمککبئی کککا حص کہ بنادیککا۔
مسلم لیگ کی جدوجہد کی بدولت 1935کے حکومت ہندکے اےک قانون )ایکٹ( کے
تحت سندھ کو علیحدہ صوبے کککی حیککثیت حاصککل ہوگئی۔ مسککلم لیککگ کککا پہلسککالنہ
اجلس دسمبر 1907میں کراچی میں ہوا۔ سندھ پہل صوبہ تھا۔جس میںمسککلم لیککگ
نے اکتوبر 1938میں ایک قرارداد منظور کی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسککلم
اکثریتی صوبوں کو مسلمانوںکو حکومت قائم کی جائے۔ یہ قرارداد مارچ 1940کی
قرارداد پاکستان کی پیش خیمہ بنی۔ 46-1945کے انتخابات میں صوبہ سککندھ میککں
مسلم لیگ نے اکثریت حاصل کرکے اپنی حکومت بنالی۔ سککندھ ککے مسککلمانوں کککی
خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ سر عبداللہ ہارون ،محمد ایککوب ک ھوڑو ،قاضککی فضککل
اللہ ،شیخ عبدالمجید سندھی ،سر غلم حسین ہدایت اللہ ،پیرالہٰ ی بخککش ،جککی النککا
اور قاضی محمد اکبر وہ ممتاز رہنما اور قککائدین ت ھے جن ھوں نکے صککوبہ سککندھ میککں
مسلم لیگ کو مقبول بنایا۔ سندھ کے علماءاور دینککی رہنمککاوں نکے ب ھی اس تحریککک
میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پوری جدوج ہد آزادی ککے دوران سکندھ ککے عکوام تحریکک
پاکستان کے وفادار اور جانثار رہے۔
) ک( صوبہ بلوچستان
رقبے کے لحاظ سے بلوچستان سب سے بڑا صوبہ تھا۔مگر انگریزوں نے اس کے ہمیش کہ
پسماندہ رکھنے کی کوشش کککی۔بلوچسککتان ککے قاضککی محمککد عی ٰسککی 1939میککں
مسلم لیگ کی مجلس عاملہ )ورکنگ کمیٹی( میں شامل ہوئے۔ انھوں نے بلوچسککتان
میں مسلم لیگ قائم کی اور کئی قبائلی رہنما اس میں شامل ہوگئے۔جلد ہی مسلم
لیگ بلوچستان کی ایک مقبول جماعت بن گئی۔میر جعفر خککان جمککالی ،میککر قککادر
بخش زہری ،سکردار بکاز خکان اور نکواب محمکد خکان جکوگیزئی نکے بلوچسکتان ککے
مختلف علقوں میں مسلم لیگ کے اجلس منعقد کئے اور عککوام تککک قککائداعظم کککا
پیغام پہنچایا۔ 23مارچ 1941کو کوئٹہ میں یوم پاکستان منایا گیا۔ جس میں قاضککی
محمد عی ٰسی کی قیادت میں لوگککوں ککی ایکک بکڑی ریلککی نکککالی گئی۔ 1943میککں
بلوچستان مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن قائم ہوئی۔قیام پاکستان کے وقت بلوچسککتان
کے شاہی جرگے نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔
) ک( صوبہ سرحد
صوبہ سرحد کے عوام اپنی بہادری اور مذہبی ذہنیت کی شہرت رکھتے ہیں۔قائداعظم
ککے مطککالبے پککر 1927میککں دسککتوری اصککلحات کککا آغککاز ہوا۔ 1940میککں سککردار
اورنگزیککب نکے قککرارداد پاکسککتان کککی تائیککد و توثیککق کککی۔سککردار اورنگزیککب خککان،
جسٹس سجاد احمد خان اور خان بہادر الل کہ خککان کککی کوششککوں س کے 1939میککں
ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔یہ کانفرنس سککرحد ک کے مسککلمانوں
میں تحریک آزادی کی روح پھونکنے کا ذریعہ بنکی۔کئی اضکلع میککں مسکلم لیککگ ککے
دفاتر کھولے گئے۔مسلم لیگ نے 1947میں صوبے میں سول نافرمککانی کککی تحریککک
شروع کردی۔کارکنان کی ایک بڑی تعداد کو بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث
کردیا گیا۔تقریبا ً آٹھ ہزار کارکنان کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا۔لیکن مسلم لیککگ
کی تحریک بڑی تیزی سے پھلتی پھولتی چلی گئی۔مککذہبی رہنمککاوں ن کے اس تحریککک
میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔اسلمیہ کالج پشککاور اور ای کڈورڈ کالککج ک کے طلب کہ تصککور
پاکستان کو نمایاں کرنے میں سرفہرست تھے۔اس تحریک کے نتیجے میککں کککانگریس
کے پیروں تلکے زمیکن نککل گئی اور اس صککوبے میکں اس ککا زور ٹککوٹ گیکا اوری ہاں
مسلم لیگ ایک مقبول سیاسی جمککاعت بککن گئی۔اس طککرح 14اگسککت 1947کککو
شمالی مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔
سوال :ایک نظریاتی ریاست ک ے ش ہریوں کسسی کیسسا ذم س ہ داریسساں
ہیں؟
نظریاتی ریاست کے شہریوں کی ذمہ داریاں
قائد اعظم نے 15جون 1948کو قوم سے خطاب کیا اور انھیں صوبائیت اور نسل
پرستی کے خطرات سے ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ ”اب ہم بلوچی ،پٹھان ،سککندھی،
پنجابی اور بنگالی کے بجائے صرف پاکستانی ہیں۔ہماری سوچ اور فعل و عمل ایککک
پاکستانی کے شایان شان ہونا چاہئے اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر کر نککا چککاہئے۔“
جدوجہد پاکستان کے پس منظر میں یہ فکر و فلسفہ کارفرمککا ت ھا ک کہ ایککک اسککلمی
ریاست قائم کی جائے جہاں مسککلمان اسککلم ککے ابککدی اصککولوں ککے مطککابق اپنککی
زندگی گزارسکیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کا تصور ایک نظریاتی ریاسککت کککا
تھا اور ایک نظریاتی ریاست اپنے عوام سے مندرجہ ذیل ذمہ داریوں کا تقاض کہ کرتککی
ہے۔
) ک( اسلامی قوانین کا نفاذ
افراد اپنی زندگی اسلمی تعلیمات کے مطابق بسر کرنکے ککی کوشکش کریکں گکے۔
جواس ملک کی بنیادی اساس ہے۔اس اصول کا تقاضہ تھا ک کہ اسککلمی شککریعت ک کے
مطابق قوانین و قواعد و ضوابط مرتب کئے جائیں۔
) ک( جمہوری نظام کا قیام
شہری ایک ایسا جمہوری نظام قککائم کرن کے ک کے لئے جدوج ہد کریککں گ کے۔ جککس کککی
بنیادیں اسلمی اصولوں پر رکھی گئی ہوں۔ مغربی طرز کا جمہوری نظام پاکستان
کے لئے مناسب نہیں ہے۔سب کے لئے آزادی ،احترام ،عزت و تکریم اور مسککاوات کککا
جمہوری اصول ہی زندگی گزارنے کا واحد مناسب طریقہ ہے۔
) ک( وفادار اور محب وطن شہری
نظریاتی ریاست کے ہر شہری کو وفادار اور محب وطن ہونا چاہئے اور آزمائش کککے
وقت ریاست و مملکت کے لئے قربانی دینے ک کے لئے تیککار رہنککا چککاہئے۔ اس کککا ذاتککی
مفاد ریاست و مملکت کے مفاد سے بالتر نہیں ہونا چاہئے۔
) ک( رزق حلال
ہر شہری کو رزق حلل کمانا چاہئے اور کبھی بھی کسی فراڈ یا دھہہوکے میککں ملککوث
نہیں ہونا چایئے۔ اس کا ذاتی مفاد ریاست و مملکت کے مفککاد س کے بککالتر نہیککں ہونککا
چایئے۔
) ک( تعلیم یافتہ اور مہذب
شہریوں کا رویہ ایک تعلیم یافتہ اور مہذب شخص کا ہونا چایئے ان ک کے لئے ی کہ لزمککی
ہو کہ وہ خود تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم ہی کامیابیوں کی کلید ہے۔
) ک( ریاست کے قوانین کا احترام
شہریوں کو ریاست کے قوانین کککا احککترام کرنککا چککاہئے اور قککانون نافککذ کرنکے والکے
اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ انکو کبھی تشدد پر نہیں اترنا چایئے اور قوانین و
قواعد و ضوابط کی خلف ورزی سے بچنا چایئے۔
) ک( ترقی کے فروغ کا ذریعہ
شہریوں کو ایسی سرگرمیوں میکں حصکہ لینکا چکاہئے جکو قکومی یکج ہتی ،وقکار اور
ترقی کو فروغ دیتی ہوں۔ان کو سککماج دشککمن عناصککر کککی سککرگرمیوں ککے خلف
حکومت کی مدد کرنی چاہئے۔
) ک( فلاح و بہبود
شہریوں کو سخت محنت کش ہونا چاہئے اور معاشکرے ککی فلح و بہبکود میکں حصکہ
لینا چاہئے۔
) ک( فرائض کی ادائیگی
شہریوں کو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لئے تیار رہنا چککاہئے اور اپن کے فککرائض پککوری
ذمہ داری اور توجہ سے ادا کرنے چاہئے۔ انھیں تمام ٹیکس پورے اور بر وقت ادا کرنے
چاہئیں۔
) (10انسانی عظمت
شہریوں کو اسلمی اخوت اور انسانی عظمت کے لئے کام کرنا چاہئے۔
سوال :قائداعظم ک ے کردار کی و ہ نمایاں صفات واضسسح کریسسں
جو ان ھیں دوسروں ک ے لئ ے نمون ہ بناتی ہیں؟
قائد اعظم کا کردار
) ک( بااصول شخصیتص
قائداعظم ایک بااصول شخص تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنے قول اور وعدہ کککو نبھایککا
اوراس کے مطابق اپنے عمل کو یقینی بنایا۔
) ک( ذہین سیاسی رہنما
قائداعظم ایک ذہین سیاسی رہنما تھے اور انہوں نے اپنی ذات میں بہت سی صککفات
جمع کرلی تھیں مثل ً تدبیر ،حوصلہ ،جرات ،احساس ذمہ داری ،وقککار ،عظمککت ،ع ہد
کی پاسداری ،راست گوئی اور اپنے مقصد سے خلوص۔
) ک( جرات مند شخص
قائد اعظم ایک ایماندار ،دیککانت دار ،اور جککرات منککد شککخص ت ھے اور برصککغیر ک کے
مسلمانوں کی بہبود اور ان کے مفاد میں جو کچکھ ہوتککا ت ھااس پککر بککات کرنکے میککں
جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔
) ک( جازب نظر شخصیت
قائد اعظم دلفریب اور انتہائی جازب نظر شخصیت کے حامل ت ھے۔ ان ک کے انککداز و
اطوار انتہائی سلجھے ہوئے تھے اور مجالس میں ان کی موجودگی دوسروں کککے لئے
کشش کا باعث ہوتی تھی۔
) ک( مضبوط کردار کے مالک
قائد اعظم انتہائی مضبوط کردار ککے مالککک ت ھے اور ان ھوں نکے اصککولوں پککر کب ھی
سمجھوتہ نہیں کیا۔ خاص طور سے مسلمانوں اور پاکستان کے مفاد پر۔
) ک( ثابت قدم شخص
قائدا عظم ایک پر عزم ،مستقل مزاج اور ثککابت قککدم شککخص ت ھے جککو کب ھی ب ھی
تھکتے نہیں تھے۔
) ک( پاکستان سے دلی وابستگی
قائد اعظم نے اپنی زندگی پاکستان کے لئے وقف کردی تھی۔یہ ان کی وسعت نظککر،
جرات ،بے لوث خدمت اور وابستگی ہی تھی جس کی بدولت وہ دنیککا ک کے نقش کہ پککر
ظاہر ہونے کے فورا ً بعد پاکستان کے بڑے بڑے مسائل کو حل کرسکے۔
) ک( طلبہ اور نوجوان نسل کے حامی
قائد اعظم طلبہ کی نوجوان نسل کے ب ہت بککڑے حککامی اور معککترف ت ھے اور انھیککں
اسلم اور پاکستان کا مستقل اسلحہخانہ تصور کرتے تھے۔
سوال :بحیثیت گورنر جنرل قائداعظم کا کردار بیان کریں؟
قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل
قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کو ورثہ میں بے شمار مسائل ملے۔ ان مسائل میککں
بھارت سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی ،پاکستان اوربھارت کے درمیککان اثککاثوں ککی
تقسیم ،نہری پانی کا تنازعہ اور کشمیر کا مسککئلہ شککامل ت ھا۔ان حککالت میںبحیککثیت
گورنر جنرل قائداعظم نے اپنا فرض منصبی ذیل میکں دی گئی تفصکیل ککے مطکابق
ادا کیا۔
) ک( قومی یکجہتی
پاکستان کے ابتدائی مسائل کا تقاضا تھا کہ اس نئی مملکت ک کے عککوام ک کے درمیککان
قومی یکجہتی اور بھرپور تعاون کککا جککذبہ پککروان چڑ ھے۔ ب ھارت نکے کب ھی دل سکے
پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیاتھا اور ہندو رہنمککاو�¿ں کککا خیککال خککام ت ھا ککہ
پاکستان کا وجود جلد ختم ہوجائے گا اور برصغیر پھرسے متحککد ہوجککائے گککا۔لیکککن یکہ
قائداعظم کی ذہانت اور لیاقت تھی جس کے ذریعہ انہوں نکے ی ہاں ککے لوگککوں میککں
قومی روح ،پاکستان سے محبت اور حب الوطنی کا جذبہ بیدار کر دیا۔نتیجت کا ً قککومی
اتحاد و اتفاق نے فروغ پایا اور پاکستان ایک زندہ حقیقت بن گیا۔
) ک( مہاجرین کی بحالی
تقسیم ہند کے نتیجے میں 6.5ملین ) 65لکھ( مسلمان بے گھر کردئے گئے اور انھیں
پاکستان ہجرت کرنے اور پناہ لینے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی بحالی ایک مشکل کام
تھا۔قائد اعظم نے ان مہاجرین کی بحالی پر فککوری تککوجہ دی اور حکککومت پاکسککتان
کی طرف سے ایک "قائد اعظم ریلیف فنڈ"قککائم کردیککا گیککا۔ان ھوں نکے لوگککوں سکے
عطیات جمع کرانے کی اپیل کی۔قائد اعظم اکتوبر 1947میں لہور تشریف لے گئے
تاکہ مشرقی پنجاب سے ترک وطن کرکے آنے والے مہاجرین کا مسائل کککاخود جککائزہ
لے سکیں اور ان کی خوراک و رہائش کا بندوبست کیا جاسکے۔انھوں نے 30اکتککوبر
1947کو لہور میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا اور یہ اعلن کیککا ککہ یکہ تمککام
پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مہاجرین کککی ہرممکککن مککدد کریککں۔جن ہوں نکے
پاکستان کی خاطر اپنے گھروں کو چھوڑا اورجنھیں ہندووں اور سک ّھوں کککے ہاتھوں
نقصان اٹھانا پڑا ۔
) ک( سرکاری افسران کے رویے میں تبدیلی
قائداعظم نے سرکاری افسران کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو عوام کا خادم سمجھیں۔
25مارچ 1948کو قائد اعظم ن کے سککرکاری ملزمیککن س کے خطککاب کیککا اور ان کککو
ہدایت کی کہ وہ سیاسی یا گروہی وابستگی سے بلنککد ہہہوکر عککوام ککے خککادمین کککی
حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دیں۔اس طککرح عککوام کککی نظککروں
میں ان کا مقام بلند ہوگا۔
) ک( صوبائی اور نسلی امتیاز کی نفی
قائد اعظم نے لوگوں کو ہدایت کی کہ وہ خودکو پاکستانی کہلوانے پر فخر محسوس
کر یں اور ہر قسکم ککے نسکلی امتیکاز اور علقکائی تعصکبات سکے خکود ککو علیحکدہ
رکھیں۔انھوں نے تمام صوبوں کا دورہ کیا اور ان کے مسائل حل کرنکے ککی کوشککش
کی ۔ آزاد قبائلی علقے وزیرستان ایجنسی سے مسلح افواج کو ہٹالیا گیککا۔اس سککے
اس علقے کو یہ پیغام دینا مقصود تھا ک کہ وہ ب ھی پاکسککتان کککا جککز ہے۔مختلککف آزاد
ریاستوں کو پاکستان میں شامل کرلیا گیککا۔ کراچککی کککو پاکسککتان کککا دارالحکککومت
قرار دیا گیا۔
) ک( پاکستانی معیشت کے رہنما اصولوں کا تعین
یکم جولئی 1948کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان )بینک دولت پاکستان( افتتاح کرت کے
ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان ککے لئے مغربککی معاشککی اور اقتصککادی نظککام
غیر مناسب ہے اور اس سے ملک کے عوام میں خوشحالی نہیں آسکککتی۔ ہمیکں ایکک
ایسا نظام تشکیل دینا ہے جس کی بنیاد اسلمی مساوات اور عدل اجتماعی پر ہو۔
اس طرح شاید ہم ساری دنیا میں ہم ایک نیا سماجی نظام متعارف کراسکیں گے۔
) ک( خارجہ پالیسی
آزادی کے فورا ً بعد قائد اعظم نے پاکستا ن کو اقوام متحککدہ کککا رکککن بنککانے ک کے لئے
اپنی توجہ مرکوز کی۔ان کی رہنمائی میںپاکستان کے بہت جلد بے شمار ممالککک سکے
سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ
شدید سرد علقوں کے لوگ گرم اونی اور موٹے کپڑے پہنتے ہیں۔ چھوٹے کمککروں ککے
مکانات بناتے ہیں تاکہ وہ جلدی اور آسانی سکے گکرم ہوسکککیں۔ان علقکوں ککے رہنکے
والے افراد ایسی غذا استعمال کرتے ہیں۔ جن میں پروٹین اور چکنائی زیادہ ہوتی ہے
تاکہ ان کو مناسب حرارت مل سکے وہ چکنا گوشت اور گندم اور مکئی کککی روٹککی
کھاتے ہیں۔وہ چائے اور کافی پیتے ہیں۔سرد علقوں میں نقل و حرکککت ب ہت کککم اور
دشوار ہوتی ہے۔برف باری کے سبب سڑکیں بند ہوجاتی ہیںاور لوگ اپنے گھروں میں
محصور ہوکر رہ جاتے ہیں۔اس لئے سککرد علقککوں میککں آبککادی کککم ہوتی ہے۔موسککم
سرما میں کوئی تفریح اور دلچسپی بھی نہیں ہوتی ہے۔ موسکم گرمکا مختصککر مگکر
بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ سرد علقوں میں ملزمتوں کے مواقع بہت محدود ہوتے ہیککں۔
اس لئے ان علقوں کے عوام زیادہ خوشحال نہیں ہیں۔
سرد علقوں کے مقابلے میں میککدانی اور صککحرائی علقککوں میککں رہنکے والکے افککراد
گرمیوں کے موسم کی وجہ سے ڈھیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ا�±ن کے مکانات کھلککے اور
ہوادار ہوتے ہیں۔گرم علقوں کے عککوام گنککدم ککی روٹککی اور مچھلککی کھ ہاتے ہیککں۔ وہ
مختلف اقسام کے شربت پیتے ہیں۔ یہاں کے لوگ سارا سال کھیتی باڑی اور زراعت
میں مصروف رہتے ہیں۔یہاں کے رہنے والکے افرادمختلککف قسککم ککی ملزمکتیں کرتکے
ہیں۔ جن میں کاروباری ،تجارتی اور سرکاری دفاتر اور نجی اداروں میککں ملزمککتیں
شامل ہیں۔ملزمتوں کے مواقکع اور دیگککر سکہولیات ککی فراہمککی کککی وجکہ سکے ان
علقوں میں آبادی زیادہ ہوتی ہے اور یہاں کے عوام سرد علقوں کے عوام کے مقابلے
میں زیادہ خوشحال ہوتے ہیں۔
سوال :ماحولیاتی آلودگی س ے کیا مراد ہے؟
ماحولیاتی آلودگی
آلودگی کے معنی یہ ہیں کہ زمین ،پانی اور فضا میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجائیں جککو
انسان اور حیوانی حیات پر مضر اثرات کا باعث ہوں۔جب مختلککف عوامککل ،جککو ک کہ
درِج ذیل ہیں ،ہمارے ماحول میں تبدیلیاں لتے ہیں تککو اسککی کککو ماحولیککاتی آلککودگی
کہتے ہیں۔
) (۱فضائی آلودگی
) (۲آبی آلودگی
) (۳زمینی آلودگی
سوال :ماحولیاتی آلودگی س ے آبادی ک ے اضسساف ے کسا کیسا تعلسق
ہے؟
ماحولیاتی مسائل
ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی ہے اس کککی
وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی ،تیز رفتار صنعتی ترقی اور بڑی اور چھوٹی گاڑیوں
سے نکلنے وال د ھواں شککامل ہیککں۔ ماحولیککات ککا علککم ایککک نئے علککم ککے طککور پککر
ا�±بھر رہا ہے تاکہ پانی ،ہوا ،فضا اور زمین میں آلککودگی سکے لوگککوں کککو آگککاہ کیککا
جاسکے اور ان میںاس کی بابت شعور پیدا ہوسکے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں
شامل ہے جہاں ماحولیاتی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے۔
سوال :جنوبی ایشاءک ے خط ے میں پاکستان ک ے محسسل و وقسسوع
کی ا ہمیت بیان کریں؟
پاکستان کے محل و وقوع کی اہمیت
پاکستان کا محل و وقوع بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکسککتان جککس خط کے میککں
واقع ہے اس کی دفاعی ،فوجی ،اقتصکادی اور سیاسکی اہمیکت نمایکاں ہے۔ منکدرجہ
ذیل عوامل یا وجوہات کی بناءپر اس کی اہمیت عیاں ہے۔
) ک( تجارتی شاہراہ
شمال میں یہ چین سے جڑا ہوا ہے۔ شاہراہ قراقرم بّری اور زمینی راستے س کے چیککن
اور پاکستان کو باہم ملتی ہے۔ یہ شاہراہ سلسکلہ قراقکرم ککی چٹکانوں ککو ککاٹ ککر
بنائی گئی ہے اور یہ چین اور پاکستان کے مابین اہم تجارتی شاہراہ ہے۔ پاکسککتان ک کے
چین سے ساتھ انہتائی دوستانہ تعلقات ہیں۔
) ک(ب ر ّ ی اور بحری راستوں کی سہولت
پاکستان افغانسککتان کککو تجککارت ککے لئے بکّری اور بحککری راستوںسکے را ہداری کککی
سہولت مہیا کرتا ہے۔
) ک( وسطی ایشیاءسے خوشگوارتعلقات
چین کے مغرب میں افغانستان کے علقے کی ایککک تنککگ پککٹی واخککان ،پاکسککتان کککی
شمالی سرحد کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔ پاکستان نے وسککطی ایشککیاءکے اس
ملک کے ساتھ انتہائی خوشگوار تعلقات قائم کرلئے ہیں۔
) ک( مسلم ممالک سے خوشگوار تعلقات
پاکستان کے مشککرق میککں ب ھارت واقککع ہے۔ ب ھارت ککے مشککرق میککں بنگلکہ دیککش،
ملئشیا ،انڈونیشیا اور برونائی دارالسلم کے مسلم ممالک واقع ہیککں۔ پاکسککتان ک کے
ان تمام ممالک سے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔
) ک( ) ایکو( کے بنیادی اراکین
پاکستان کی جنوب مغربکی سکرحد پکر ایکران واقکع ہے۔ پاکسکتان ایکران اور ترککی
اقتصادی تعاون کی تنظیم )ایکو( کے بنیادی اراکین ہیں اس تعککاون ک کے نککتیجے میککں
تمام رکن ممالک کے مابین انتہائی دوستانہ تعلقات قائم ہیککں۔ ان ممالککک ن کے بککاہمی
دلچسپی کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔
) ک( کراچی بحرہ عرب کی اہم بندرگاہ
پاکستان تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کے نزدیک اور مغرب میں مراکککش س کے
لے کر مشرق میں انڈونیشیا تک پھیلی ہوئی مسلم دنیا کے درمیان میں واقع ہے۔ب کے
شمار مغربی ممالک کی صنعتی ترقی کا انحصار خلیجی ممالک کی تیل پیداوار پککر
ہے۔یہ تیل دوسرے ممالک کو بحیرہ عرب کے ذریعے بھیجا جاتککا ہہہے اور کراچککی بحیککرہ
عرب کی انتہائی اہم بندرگاہ ہے۔
) ک( مشرق وسط ی ٰ اور خلیج کے مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات
مشرق وسط ٰی اور خلیج کے مسلم ممالک سے پاکستان کے انتہائی دوستانہ تعلقککات
ہیں۔ پاکستان نے ان ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہہہے۔ سککعودی عککرب اور
عرب امارات جیسے ممالک پاکستانیوں کے لئے دوسرے گھر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
) ک( کراچی ایک بین الاقوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ
کراچی ایک بین القوامی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ ہے ۔ یہ ہوائی اور بحری راسککتوں س کے
یورپ کو ایشیا سے ملتا ہے۔وہ تمام ممالک جو مشرق وسککط ٰی اور وسککط ایشککیائی
ممالک سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے محل و وقککوع کککو نظککر انککداز نہیککں
کرسکتے۔
) ک( گندھارا کی قدیم تہذیبیں اور سیاحت
پاکستان میں وادی سندھ اور گندھارا کی قدیم تہذیبیں ہیںاور سیاحت کے نقطہ نظککر
سے یہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بے شمار سیاح وادی کاغکان ،سککوات اور پاکسککتان ککے
شمالی علقوں کی سیاحت کو پسند کرتے ہیں۔
) کک( دوستانہ تعلقات
پاکستان ،افغانستان اور ترکمانستان نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جککس ک کے
تحت پاکستان کو افغانستان کے راستے گزرنے والی پائپ لئن کے ذریعے گیککس مہیککا
کی جائے گی۔ یہ منصوبہ ایک دوسرے کے مابین دوسککتانہ تعلقککات کککو پککروان چڑ ھانے
میں مددگار ثابت ہوگا۔ پاکستان کی رضامندی سکے ب ھارت ب ھی اس منصککوبے سکے
فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
) کک( مسئلہ کشمیر
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو پورے جنککوبی ایشککیاءکے
خطے میں امن قائم ہوجککائے گککا اور تجککارت کککو فککروغ ملکے گککا۔دونککوں ممالککک ککے
درمیان خوشگوار ،سیاسککی اور اقتصککادی تعلقککات سکے اس خطکے میککں غربککت اور
افلس کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
) کک( ساتویں ایٹمی قوت
پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے اورمسلم دنیا میں اس کو انت ہائی تحسککین
اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مسلم ممالک کککی نظریککں پاکسککتان پککر لگککی
ہوئی ہیں کہ وہ کئی میدانوں میں مشترکہ ترقی اور فکروغ ککے لئے قکائدانہ ککردار ادا
کرے گا اور رہنمائی فراہم کرے گا۔حالیہ دنوں میں یہ بیرونی سرمایہ گککاری کککا مرکککز
بن گیا ہے۔
سوال :پاکستان ک ے طبعی خدوخال مختصرا ً بیان کریں؟
پاکستان کے طبعی خدوخال
پاکستان کی ارضی سطح کو طبعی خدوخال کے لحاظ سے منککدرجہ ذیککل چککار بککڑے
صوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ح ّ
) (۱پہاڑی سلسلے
) (۲سطع مرتفع
) (۳میدانی علقے
) (۴ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے
) ک( پہاڑی سلسلے ) سلسلہ کوہ(
صوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اول شککمالی اور پاکستان کے پہاڑی سلسلوں کو دو ح ّ
شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اوردوم مغربی اور شمال مغربی پہاڑی سلسلہ۔ )اول(
شمالی اور شمال مشرقی پہاڑی سلسلہ اس حصےمیں کو ِہ ہمالیہاور کککو ِہ قراقککرم
شامل ہیں۔ سلسلہکو ِہ ہمالیہ
) (۱شوالک کی پہاڑیاں/ہمالیہ بیرونی کاسلسلہ
) (۲پیر پنجال /.ہمالیہ صغیر کا سلسلہ
) (۳ہمالیہ کبیر کا سلسلہ
)( ۴کو ِہ لداخ/ہمالیہ کا اندرونی سلسلہ
) دوم( شمال مغربی اور مغربی پہاڑی سلسلہ
پاکستان کے شمال میں واقع سلسککلہکککو ِہ یککا پ ہاڑی سلسککلہ کککو ہمککالیہ کککی مغربککی
شاخیں بھی کہا جاتا ہے۔ شکمالی پ ہاڑیوں ککے مقکابلے میکں یکہ ککم بلنکد ہیکں۔ پ ہاڑی
صوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سلسلوں کو مندرجہ ذیل ح ّ
) (۱سلسلہکو ِہ ہندو کش
) (۲سلسلہکو ِہ سفید
) (۳وزیرستان کی پہاڑیاں
) (۲سطع مرتفع
پاکستان میں مندرجہ ذیل دو سطع مرتفع واقع ہیں
) (۱سطع مرتفع پوٹھوہار
) (۲سطع مرتفع بلوچستان
) (۳میدانی علقے
پاکستان کے میدانی علقے دریائے سندھ اوراس کے معاون دریاو�¿ں کی لئی ہوئی
صککوں میککں تقسککیم کئے مٹی سے بنے ہیں۔ یہ وسیع و عریککض میککدانی علق کے تیککن ح ّ
جاسکتے ہیں۔
) (۱دریائے سندھ کا بالئی میدان
) (۲دریائے سندھ کا زیریں میدان
) (۳دریائے سندھ کا ڈیلٹائی میدان
) (۴ریگستانی علقے بشمول ساحلی علقے
پاکستان کے جنوب مشرق میں ایک وسیع و عریض علقہ ریت کے ٹیلککوں س کے ب ھرا
ہوا ہے۔یہ ٹیلے اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔پاکستان کے ریگستانی علقککوں میککں بارشککیں
بہت کم ہوتی ہیں ۔ اس لئے ان ریگستانوں میں قدرتی نباتات نہیں پائی جککاتی ہیککں۔
پاکستان کے کچھ میدانی علقے بھی ریگستانی یا نیم ریگسککتانی علق کے کہلئے جککاتے
ہیں کیوں کے ان کے طبعی حالت میدانی علقوں سے مختلف ہیں۔ ان میں سے چند
صوبہ پنجاب میں اور کچھ صوبہ سندھ میں واقع ہیں یہ علقے حسب ذیل ہیں۔
) (۱تھل کا ریگستانی علقہ
) (۲چولستان کا ریگستانی علقہ
) (۳تھر اور نارا کا ریگستانی علقہ
) (۴چاغی اور خاران کا ریگستانی علقہ
سوال :شمالی مشرقی پ ہاڑی سلسلوں ک ے فوائد بتائی ے؟
شمالی اور شمالی مشرقی پہاڑی سلسلے کے فوائد
) (۱یہ پہاڑ پاکستان کے لئے بہت مفید ہیں۔ یہ اپنی بلند اور ناہموار سطح کی وجہ سے
پاکستان کو شمال کی جانب سے ایک قدرتی حصار اور دفاع مہیا کرتا ہے۔
) (۲ی کہ پاکسککتان کککی قطککب شککمالی س کے اٹھن کے والککی خککون جمککادینے والککی سککرد
ہواو�¿ں سے محفوظ رکھتی ہے ورنہ موسم سرما میں پنجاب و سرحد بککرف س کے
ڈھک جاتے اور سردیوں کی طویل لہر اور طویل دورانیہ سے زنککدگی انتہہہائی دشککوار
ہوجاتی۔
) (۳مون سون کے موسم میں ان پہاڑیوں کی وجہ سے پنجککاب اور شککمالی علقککوں
میں بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ انہیں بارشوں کا پانی دریاّوںکے راستے آبپاشککی کککا
ذریعہ بن جاتا ہے۔
سی فیصد( جنگلت ان ہی پہاڑوںمیں واقککع ہیککں اگککر چ کہ ) (۴ہمارے ملک کے ) %80ا ّ
ہمارے ملک کے 4.5فیصد جغرافیائی رقبے میں جنگلت پھیلے ہوئے ہیںلیکن یہ جنگلت
بہت گھنے ہیں اور ملک کے لئے دولت و سرمایہ کا ذریعہ ہے۔
) (۵موسم سرما میں یہ پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں جو موسم گرمککا میککں پگھلککتی
ہے اور زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرتی ہے جو زراعت کے کام آتا ہے۔
پاکستان کے وسائل
سوال :وسائل ک ے معنی اور ا ہمیت بیان کیجئ ے؟
وسائل کے معنی
دنیا میں دو طرح کے وسائل پائے جاتے ہیں۔ اّول انسانی وسائل ہیںجس کا مطلب یہ
ہے کہ مختلف کاموں کو سککرانجام دین کے ک کے لئے انسککانوں میککں کککس قککدر قککابلیت،
صلحیت اور اہلیت ہے۔ مختلف پیشوں کی نوعیت کے لحاظ س کے لوگککوں میککں ایککک
دوسرے سے امتیاز کیا جاتا ہے۔جب تمام پیشوں کو باہم ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے تککو
اسی کو انسانی وسائل کہا جاتا ہے۔ وسائل کی دوسری قسم قدرتی وسائل کہلتی
ہے جو قدرت نے مہیا کئے ہیں قدرتی وسائل پیداوار کا ذریعہ ہیں۔
قومی ترقی میں وسائل کی اہمیت
یہ وسائل مندرجہ ذیل وجوہات کی بناءپر اہم ہیں۔
) (۱یہ کسی بھی قوم کی حقیقی دولت اور سرمایہ ہیں۔ایسے ممالک نکے ب ہت زیککادہ
ترقی اور خوشحالی حاصل کی ہے جہاں انسانی اور قدرتی وسائل موجود ہوں۔تاہم
ترقککی اور خوشککحالی کککا انحصککار ان وسککائل ککے دانشککمندانہ اور ذ ہانت ککے سککاتھ
مناسب استعمال پر ہے۔دنیا میں کئی ممالککک ایسکے ہیککں ج ہاں انسککانی اور قککدرتی
وسائل موجود ہیں لیکن منصوبہ بندی اور محنت و مشقت کے فقدان کککی وجکہ سکے
ان وسائل سے فائدہ نہیں ا�±ٹھایا جارہا۔
) (۲یہ وسائل کسی بھی ملک کی حفاظت اور سککلمتی کککا ذریعکہ ہیککں۔ انسککانی اور
مادی وسائل ملک کے دفاع کو مضبوط کرنے میکں مکددگار ثککابت ہوت ہیککں۔ ان ہی
قدرتی وسائل سے مظبوط فککوجی نظککام تشکککیل دینکے ککے لئے درکککار تمککام مککادی
ضروریات مہیا ہوتی ہیںاور انسانی وسائل ان قدرتی وسائل کو استعمال کرنے میککں
مدد کرتے ہیں۔
) (۳یہ وسائل کسی ملک کی شہرت اور احترام کا سبب بنتے ہیں۔ مثال کے طور پککر
تمام مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک کے عوام کو اپنی جانب راغب کرتے ہیککں تککاکہ
وہ ان ترقی یافتہ ممالک کے کثیر وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں۔
) (۴یہ وسائل کسی ملک کی مادی ضروریات کو پککورا کرن کے میککں مککدد کرت کے ہیککں۔
اسی میں ضروریات زندگی آسائش اور عیش و آرام سب شامل ہے۔
) (۵یہ وسائل تجارت اور کاروبار کو پروان چڑھانے میںمدد کرتے ہیں۔ ان وسائل سے
مال مال ممالک نکے سککاری دنیککا کککی تجککارت پککر قبضکہ کرلیکا ہے۔ ان کککی معیشککت
مضبوط ہے اور وہاں کے عوام کی قکوت خریکد ب ہت زیکادہ ہے اور وہ ایکک خوشکحال
زندگی گزاررہے ہیں۔
) (۶ان وسائل سے کسی ملک کی تیز رفتار ترقککی اور خوشککحالی میککں مککدد ملککتی
ہے۔
) (۷ان وسائل سے لوگوں کی پیٹ بھر کے غذا اور زندگی کی دیگر آسائشیں ملککتی
ہیں۔یہ قومی اداروں کی تشکیل میں مدد دیتے ہیں۔ ان س کے قککومی اتحککاد اور ذاتککی
ککردار مضکبوط ہوتککا ہے۔ ان وسکائل سکے ایمانکداری ،دیکانت داری ،حکق گکوئی اور
رواداری و برداشت کی اعل ٰی صفات کو فروغ
سوال :مختلف قسموں ک ے وسائل کا نام بتائی ے؟
انسانی وسائل
ایسے افراد جو مختلف پیشوں اور روزگار میں مشغول ہوتے ہیککں مککل کککر انسککانی
وسائل کو تشکیل دیتے ہیں۔مختلف پیشوں اور شعبوں میں کام کرنے والے انسانوں
کی لیاقت ،قابلیت ،اہلیت اور مہارت کو جمع کیا جائے تو یہ ہی انسکانی وسککائل ہیککں
اور کسی بھی ملک کے لئے یہ انسانی وسائل ہی انسانی طککاقت کہلت کے ہیککں۔ اسککی
انسانی طاقت کی مختلف ملزمتوں میں درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ بات قابککل تککوجہ
ہے کہ دس سکال سکے زائد عمکر ککا ککوئی بھ ہی فکرد جکو اپنکے لئے ککام کرتکا ہہہے یکا
دوسروں کے لئے کم از کم ایک گھنٹے روزانہ ملزمت کرتا ہے وہ ایک باروزگار شخص
تصور کیا جاتا ہے۔پاکستان کی انسانی طککاقت مختلککف پیشککوں اور روزگککاروں س کے
وابستہ ہے۔ مثل ً زراعککت ،کککان کنککی ،عمکارت سککازی ،تجککارت ،مواصککلت ،سککرکاری
ملزمتیں اور دیگر تمام بامعاوضہ کام۔
قدرتی وسائل
ایسے وسائل جو اللکہ تعککال ٰی نکے دنیککا ککے مختلککف ممالککک کککو زرخیزمککٹی ،جنگلت،
معدنیات اور پانی وغیرہ کی شکل میں عطا کئے ہیں قدرتی وسککائل کہلت کے ہیککں۔ ی کہ
وسائل عطیہ خداوندی ہیں۔انسان ان کا کھوج لگککا سکککتا ہے اور ان قککدرتی وسککائل
سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔
سوال :جنگلت ک ے کیا فائد ہ ہیں؟
جنگلت جنگلت کسی بھی ملک کی معیشت کا لزمی جککز ہیککں۔ملککک کککی متککوازن
معیشت کے لئے ضروری ہے ک کہ اس ک کے 25فیصککد رقب کے پککر جنگلت ہوں۔جنگلت
قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پاکستان میں صرف 45فیصد رقبے پر جنگلت
پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جنگلت کا رقبہ اس لئے بھی کم ہور ہا ہے ککہ ی ہاں پککر
جنگلت کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا جارہا ہے۔ مکانات کککی تعمیککر ککے لئے جنگلت
کی زمین کو استعمال کی جارہا ہے اور پھر ہر سال دریککا ب ھی کٹککاوّ کککا کککام کرر ہے
ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جنگلت کے اگانے کے لئے مزید زمیککن مختککص کککی جکائے
اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔
جنگلات کے فوائد
جنگلت کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔
) (۱جنگلت ملک کے اہم وسائل میکں سکے ایکک ہیکں اور یکہ اس ملکک ککی عمکارتی
لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
) (۲جنگلت زمین کی زرخیزی قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
) (۳جنگلت درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے موسم کککو خککاص
طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔
) (۴جنگلت سے حاصل شدہ جڑی بوٹیاں ادوایات میں استعمال ہوتی ہیں۔
) (۵جنگلت جنگلی حیات کا ذریعہ اورسبب ہیں۔بے شمار جنگلی جانور یعنککی شککیر،
چیتا ،اور ہرن وغیرہ جنگلت میں پائے جاتے ہیں۔
) (۶جنگلت جلئے جانے والی لکڑی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
) (۷جنگلت زمین کے حسن و دلفریبی میں اضافہ کرتے ہیں۔
) (۸جنگلت بہت سے وسائل کا ذریعہ اور ماخککذ ہیککں۔مثل ً جنگلت سکے حاصککل کککردہ
لکڑی فرنیچر ،کاغذ ،ماچس اور کھیلوں کا سامان تیککار کرنکے میککں اسککتعمال ہوتی
ہیں۔
) (۹جنگلت پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کککو تیککزی سکے پگھلنکے سکے روکتکے ہیککں اور
زمین کے کٹاو�¿ پر بھی قابو رکھتے ہیں۔
) (۰۱جنگلت انسانوں اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھیوں اور طوفان کی تبکاہی
اور بربادی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
) (۱۱جنگلت فضاءمیں کابن ڈائی آکسائیڈ) (Carbon Dioxideکی مقدار کو بڑھنے
نہیں دیتے کیوں کہ انھیں خود اس گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور یکہ آکسککیجن خککارج
کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لئے لزمی ہے۔
) (۲۱بھیڑ ،بکری ،اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا ان ہی جنگلت سکے حاصککل کرتکے
ہیں۔
) (۳۱جنگلت تفریحککی مقامککات ککے کککام آتکے ہیککں اور لککوگ ان ککے خوبصککورت ان
حسین مناظر سے لطف اندوزہوتے ہیں۔
) (۴۱جنگلت مختلف اقسام کے جانوروں اور پرندوں کککی افککزائش اور نشککونما کککا
ذریعہ بنتے ہیں۔
سوال :پاکستان ک ے معدنی وسائل ک ے نام بتائ ے؟
معدنیات
رزمین دفن ہیں۔ اللہ تعککال ٰی نکے پاکسککتان کککو بھرپککور معدنیات قدرتی دولت ہیںجو زی ِ
معدنی وسائل کی دولت سے نوازا ہے۔ یکہ معککدنی وسککائل تیککز رفتککار اقتصککادی اور
صنعتی ترقی کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔پاکسککتان ک کے ا ہم معککدنی
وسائل مندرجہ ذیل ہیں۔
) ک( معدنی تیل
دورِ جدید میں معدنی تیل ایک اہم قمتی سرمایہ ہے۔ یہ توانککائی پیککدا کرنکے کککا ذریعکہ
ہے۔ معدنی تیل خام حالت میں پایا جاتا ہے۔جس کو تیل صاف کرنے کے کارخانہ )آئل
ریفائنری( میں صاف کیا جاتا ہے اور اس سے پیٹرول اور دیگر مصنوعات یعنی مٹی
کا تیل ،ڈیزل ،پلسٹک اور موم بتی وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں ملکی
ضروریات کا صرف 15فیصد تیل پیدا ہوتا ہے بقیہ 85فیصککد حص کہ دوسککرے ممالککک
سے درآمد کرکے ملکی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تیککل ک کے ذخککائر
سطع مرتفع ،پوٹوہار ،کھوڑ ،ڈھلیاں ،کوٹ میال،ضلع اٹک میں سککارنگ،ضککلع چکککوال
میں بالکسر ،ضلع جہلم میں جویامیر اور ڈیرہ غازی خان میں ڈھوڈک اور سندھ میککں
بدین ،حیدرآباد ،دادو اور سانگھڑ کے علقوں میں پائے جاتے ہیککں۔ تیککل او گیککس کککی
تلش کے لئے ملک میں تیل اور گیس کی ترقیاتی کارپوریشککن ) (OGDCبنککائی گئی
ہے۔ یہ ادارہ تیل کے مزید ذخائر تلش کرنے میں کوشاں ہے۔
قدرتی گیس
صنعتوں کو رواں رکھنے کے لئے قدرتی گیس مطلوب ہوتی ہے۔ اس کو گاڑیوں میککں
اور گھریلو ککاموں )امککورِ خکانہ داری( ککے لئے ب ھی اسکتعمال کیکا جاتکا ہے۔ اس ککا
استعمال بہت عام ہوگیا ہے کیونکہ یہ پیٹرول کے مقابلے میں سسککتی ہوتی ہے۔ملککک
کی توانائی کا تقریبا ً 35فیصد قدرتی گیس سے پورا ہوتا ہے۔ پاکستان میں گیس کے
وسیع ذخائر ہیں۔ پاکستان میں قدرتی گیس سب سے پہل کے 1952میککں بلوچسککتان
میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی۔اس کے بعد یکہ گیککس
سندھ اور پوٹوہار سمیت 13مقامات سے دریافت ہوئی۔گیککس ککے ذخککائر ککے سککب
سے اہم مقامات بلوچستان میں سککوئیُ ،اچ اور َزن ،سککندھ میککں خیرپککور ،مزرانککی،
سیری ،ہنڈکی اور کندھ کوٹ اور پنجاب میں ڈھوڈک ،پیرکوہ ،ڈھلیان اور میال شککامل
ہیں۔اس وقت قدرتی گیس پائپ لئنوں ک کے ذریع کے ملککک ک کے مختلککف علقککوں تککک
پہنچائی گئی ہے۔یہ گیس سیمنٹ ،مصنوعی کھاد اور عمومی صنعتوں میں اسککتعمال
ہوتی ہے۔ اس کو حکرارت ککے ذریعکے بجلکی یکا تھرمکل بجلکی پیکدا کرنکے میکں بھ ہی
استعمال کیا جاتا ہے۔
کوئلہ
پاکستان میں کوئلہ بہت سے مقامات پر دریافت ہوا ہے۔لیکن یہ کوئلہ بہت اچھی قسم
کا نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ملک کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔پاکستان میں ملککک
کی ضرورت کا صرف 11فیصد کوئلہ نکلتا ہے۔ پنجاب میں ڈنڈوت ،مکککڑوال اور پکڈھ
سے کوئلہ ملتا ہے۔بلوچستان میں شارگ ،خوست ،ہرنائی ،سار ،ڈیگککاری ،شککیری اور
مچھ میں کوئلہ دستیاب ہے۔سندھ میں کوئلہ کی کانیں ضلع ٹھٹھہ میں جھمپر اور ضلع
جامشورو میں لکھڑا میں ہیں۔حال ہی میں ضلع تھرپارکر )سندھ ( بہت کثیر مقککدار
میں کوئلہ دستیاب ہوا ہے۔ صوبہ سرحد میں گلخیل سے بھی کوئلہ نکلتا ہے۔
خام لوہا
یہ انتہائی اہم معدن ہے جو لوہا ،فولد ،مشینری اور مختلف قسم کے اوزار بنانے کککے
کام آتی ہے۔کال باغ کے علقے میں خام لوہے یا لوہے کی معککدن ک کے سککب س کے بککڑے
ذخائر پائے جاتے ہیں۔دوسرے ذخائر ضلع ہزارہ میں ایبٹ آباد سے 32کلومیٹر جنککوب
میں لنگڑبال اور چترال میں دستیات ہوئے ہیں۔بلوچستان میں خام لککوہے) لککوہے کککی
معدن(خضدار ،چل غازی اور مسلم باغ میں پایا جاتا ہے۔پاکستان میں پایا جککانے وال
لوہا بہت معیاری اور عمدہ نہیں ہے اور یہ ملک کککی صککرف 16فیصککد ضککروریات کککو
پورا کرتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں درآمد شدہ خام لوہا استعمال ہوتا ہے۔
کرومائیٹ
یہ ایک سفید رنگ کی د ھات ہے جککو فککولد سککازی ،طیککارہ سککازی ،رنککگ سککازی اور
تصویر کشی کے لوازمات بنانے میں کام آتی ہے۔دنیا میں کرمائیٹ کے سے سب سے
بڑے ذخائر پاکستان میں ہیں۔اس کا زیادہ حصہ برآمد کرکے ذرمبککادلہ کمایککا جاتککا ہے۔
اس کے ذخائر بلوچستان میں مسلم باغ ،چاغی اور خاران اور صوبہ سککرحد اور آزاد
قبائلی علقوں میں مالکنڈ ،مہمند ایجنسی اور شککمالی وزیرسککتان میککں پککائے جککاتے
ہیں۔
تانبا
تانبا برقی آلت سازی میں استعمال ہوتا ہے۔برقی تار بھی تانبے سکے بنایکا جاتکا ہے۔
بلوچستان میں ضلع چاغی میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔
جپسم
جپسم سفید رنگ کا ایک چمکیل پتھر ہے۔یہ سیمنٹ ،کیمائی کھاد ،پلسٹر آف پیککرس
اور رنگ کا پاو�¿ڈر بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔جپسم جن علقوں سے حاصل ہوتککا
ہہہے۔ان میککں پنجککاب ک کے ضککلع جہلککم ،میککانوالی اور ڈیککرہ غککازی خککان ،سککرحد میککں
سی اور لورالئی شامل ہیں۔ کوہاٹ،سندھ میں روہڑی اور بلوچستان میں کوئٹہ ،س ّ
نمک
دنیا میں معدنی نمک کے سب سے بڑے اور وسککیع ذخککائر پاکسککتان میککں پککائے جککاتے
ہیں۔کوہستان نمک سطع مرتفع پوٹوہار کے جنوب میں واقع ہے۔یہ نمک بہت عمدہ اور
معیاری ہے۔نمک کی سب سے بڑی کان کھیوڑو )ضلع جہلککم(میککں ہے۔ واڈچ ھا )ضککلع
خوشاب( ،کال باغ )ضلع میانوالی( اور بیادرخیل )ضلع کرک( سے بھی نمککک حاصککل
ہوتا ہے۔ کراچی کے قریب ماری پور اور ساحل مکران ککے علقکے میککں سککمندر ککے
پانی سے نمک حاصل کیا جاتا ہے۔
چونے کا پتھر
چونے کا پتھر زیادہ تر سیمنٹ سازی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جککب اس کککو جلیککا
جاتا ہے تو اس سکے چونکا حاصکل ہوتکا ہے۔جکو گ ھروں میکں سککفیدی کرنکے ککے لئے
استعمال ہوتا ہے۔اس کو شیشہ ،صابن،کاغذ ،رنگ کی صنعتوں میککں ب ھی اسککتعمال
کیا جاتاہے۔چونے کے پتھر سے وسیع ذخککائر ڈنکڈوت )ضککلع جہلککم( ،حیککدرآبادکے قریککب
مغل کوٹ اور گنجو ٹکر ،منگھوپیر اور رانی پور )سندھ( میں پائے جاتے ہیں۔
سن گ ِ مر مر
گ مر مر بکثریت پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں مختلف اقسام اور مختلف رنگوں کا سن ِ
یہ چاغی ،مردان ،سوات کے اضلع اور خیبر ایجنسی میں پایا جاتا ہے۔اپنی نزاکککت و
گ مر مر دنیا میککں سککب س کے زیککادہ عمککدہ نفاست ورنگ کی بنیاد پر پاکستان کا سن ِ
گ مککر مککر ضککلع اٹککک میکں کالچٹککا کککی اورمعیاری سمجھا جاتاہے۔سیاہ و سککفید سککن ِ
گ مر مر سکے سککاختہ اشککیاءکی برآمککد سکے پاکسککتان کککی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ سن ِ
گ مر مر کی صنعت ملک کے لئے کثیر زرمبادلہ کمارہی ہے۔ سن ِ
سوال :پاکستان ک ے زرعی مسائل کیا ہے؟
پاکستان کے زرعی مسائل
زراعت پاکستان کے عوام کا خاص پیشہ ہے ۔ پچپن فیصد سے زیادہ افراد زراعت کے
شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے باوجود کہ ملک میں کئی نقد آور غککذائی اجنککاس کککی
فصلیں کاشت کی جاتی ہے تاہم زرعی پیداوار کککی شککرح ب ہت پسککت ہے۔ اس کککی
وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
) ک( پست شرح خواندگی
ملک کی شرح خواندگی بہت پست ہے۔ ہمارے کاشتکار اورکسانوں کی اکثریت غیککر
تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی نہیں ہے۔ُانھیں جراثیم کککش ادویککات
کے استعمال ،معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناست استعمال کککے
بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی فی ایکککڑ پیککداوار ملککک کککی
ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ وہ کاشتکاری کے صرف ُان روایتی طریقوں پر
یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔
) ک( کاشتکاروں کی بڑھتی ہوئی تعداد
زراعت پر انحصار کرنے والے افرادکی تعداد بڑھ رہی ہے۔لیکن زیرِ کاشککت رقبکے کککو
بڑھانے کا عمل بہت سست ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل کہ فی کس زیرِ کاشککت رقب کہ کککم
ہوگیا ہے۔
) ک( غیر مشینی کاشتکاری
ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی لکڑی کے ہل ،گککوبر ککی کھ ہاد ،غیککر تصککدیق شککدہ
مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے ک کہ فککی
ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے باوجوداس کے کہ ہمککارے کسککان انت ہائی محنککتی
اور جفاکش ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں مشینی کاشتکاری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ٹریکڑ،
ٹیوب ویل ،کھاد ،تصدیق شدہ معیککاری بیککج اور بیجککوں کککی ایککک منظککم اور ترتیککب،
مشینی کاشتکاری کے اہم اور لزمی اجزاءہیککں۔ ہمککارا کسککان اور کاشککتکار مشککینی
کاشت کو اختیار کرنے میں ہچکچاہت اور تذبذب کککا شکککار ہے۔ ُاس کککی وجکہ شککاید
پرانے خیالت یا مالی وسائل کی کمی ہے یا یہ کہ اس کے پاس بہت کم خط کہ اراضککی
ہے۔
زرعی اراضی کی حدود
پاکستان کی زرعی اراضی کو دو گروہوں میککں تقسککیم کیککا جاتککا ہے۔ جککاگیردار اور
زمین دار گروہ ککے پککاس زمیککن ککے بککڑے بککڑے قطعککات ہیککں۔لیکککن وہ ان میککں خککود
کاشتکاری نہیں کرتے ہیں۔ اس لئے بہت بڑے بڑے خط کہ اراضککی کاشککت ہونے س کے رہ
جاتے ہیں اور غیر آباد اور بنجر ہیں۔دوسرا گروہ وہ ہے جس کے پاس نہری پککانی س کے
کاشت شدہ زمین ہے۔ لیکن یہ زمین 12تا 15ایکڑ فی خاندان سے زیادہ نہیککں ہے۔ وہ
ان چھوٹے خطہ�¿ اراضی پر مشینی کاشتکاری اختیککار نہیککں کرسکککتے اور مشککینی
کاشتکاری کے بغیر پیداوار کم ہی رہے گی۔ اسی لئے وہ دوسککرے کککاموں کککی جککانب
اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔
محکمہ زراعت کا کردار
محکمہ زراعت کا کردار کچھ بہت موثر نہیں ہے کیونکہ ہمارے کسان اور کاشککتکار کککو
محکمہ زراعت کے لئے دئیے ہوئے گوشواروں پر اعتماد نہیں ہے۔ کاشتکاروں کککو اپن کے
قدیم طریقوں اور اپنے آباو�¿اجداد سے حاصل ہوئے تجربے پر اعتماد اور یقین ہے۔
دوسری جانب محکمہ زراعت کے اہل کار بھی اپنی مو�¿ثر کارکردگی دکھانے میککں
ناکام رہے ہیں۔فرائض سکے غفلککت برتنککا ،مناسککب موقککع پککر مشککورہ کککا نکہ ملنککا اور
کاشککتکاروں اور کسککانوں کککو زرعککی آگ ہی دین کے میککں سسککتی اور عککدم دلچسککپی
کسانوں اور محکمے کے مابین عدم تعاون کی چند وجوہات ہیں۔اسککی طککرح زرعککی
پیداوار کو نقصان پہنچتا ہے۔
زمین کا کٹاو
بارشیں اور تباہی پھیلنے والے عوامل یعنی آنککدھی ،طوفککان ،بککرف بککاری اور زلزلکے
زمین کے کٹاو�¿ کا سبب بنتے ہیں۔ زمین کے بالئی ذرخیز ساختی زرات کو ہٹادیتے
ہیں اور نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا ہے۔ اراضی کو ٹکڑے کرنا اراضککی کککو
ٹکڑے کرنے کا نتیجہ یہ نکل کہ زرخیز زمین چھوٹے چھوٹے قطعات میں تقسککیم ہوگئی
ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پیداوار محدودہوگئی ہے۔
ناکافی ذرائع نقل و حمل
ہمارے دیہات اور گاو�¿ں زرعی پیداوار کے خاص علقے ہیں۔لیکککن ان ک کے لئے پخت کہ
سڑکیں موجود ہی نہیںہیںیا اگر ہیں تو ان کی حالت بہت خراب اور خسککتہ ہے۔ جککس
کی وجہ سے نقل و حمل کی تیزی میں رکاوٹ پڑتی ہے۔ پیداوار کی ایک کثیر مقدار
بحفاظت منڈی تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔اس لئے کا شتکار فصلوں کی قلیل پیککداوار پککر
قناعت کرلیتے ہیں۔
غیر مناسب حالات
دیہات میککں ر ہائش ککے نککاقص انتظککام ،طککبیعی سکہولیات ککے فقککدان اور دوسککری
ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کاشتکاروں اور ان ککے افکرادِ خکانہ
کی صحت متاثر ہوتی ہے۔زائد پیداوار کے لئے ان کی طاقت گھٹ جککاتی ہے اور اس
کا ُبرا اثر فصلوں کی پیداوار پر پڑتا ہے۔
فصلوں کی فروخت پر اثر
آڑھتیوں کے مختلف حربوں کی وجہ سے کاشتکاروں کو ان کی محنت اور پیداوار کا
مناسب صلہ نہیں ملتا ہے۔آڑھتی اور منڈیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد کسانوں کککے
لئے مشکلت پیدا کرتے رہتے ہیککں۔ اس کککی وج کہ س کے کاشککتکار دل برداشککتہ ہوجککاتے
ہیںاور اس لئے بھی وہ پیداوار بڑھانے پر ضروری توجہ نہیں دیتے ہیں۔
سوال :پاکستان ک ے زرعی وسائل کون س ے ہیں؟
زرعی نظام
پاکستان میں سال میں دو مرتبہ بڑی فصلیں بوئی جاتی ہیں۔اکتوبر اور نومککبر میککں
بوئی جانے والی فصل کو ربیع کی فصل کہا جاتا ہے۔اس کککی کٹککائی اپریککل اور مئی
میں ہوتی ہے۔ربیع کی فصلوں میں گندم ،جوں ،تیل کے بیج اور تمبکاکو شکامل ہیکں۔
دوسری فصل خریف ہے جو مئی اور جون کے مہینوں میں بوئی جاتی ہے اور اکتککوبر
نومبر میں اس کی کٹائی ہوتی ہے۔ خریف کی فصککلوں میککں چککاول ،مکئی ،کپککاس،
ل ذکر ہیں۔
گّنا ،جوار اور باجرا قاب ِ
زرعی پیداوار
ربیع اور خریف کی فصلوں کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی نقد آور
فصلیں اور غذائی فصلیں۔ نقد آور فصلیں یہ فصلیں زِرمبادلہ کمانے کا خاص اور اہم
ذریعہ ہیں ان میں مندرجہ ذیل فصلیں شامل ہیں۔
) ک( کپاس
کپاس پاکستان کی سب سے اہم نقد آور فصل ہے اور ملک کی معیشت کو ب ہتر اور
مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔ کپاس کو پاکستان کا نقککدی ریشکہ ب ھی کہتکے ہیککں۔کپککاس
زیادہ تر صوبہ پنجاب اور سندھ میں کاشت کی جاتی ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد
میں صرف چند مقامات پر اور محدود پیمانے پر کپاس کاشککت ہوتی ہے۔ پاکسککتان
میں دو قسم کی کپاس کاشت کی جاتی ہے۔ایک دیہی کپککاس اور دوسککری امریکککن
کپاس۔ امریکن کپاس کا ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کی کاشت پککر زیککادہ تککوجہ
دی جارہی ہیں کیونکہ کپاس وافر مقدار میں ملتی ہے اسی لئے ملک میں کپککڑے ک کے
کئی کارخانے لگائے گئے ہیں۔ کپڑے کے یہ کارخانے بہت ہی نفیس سوتی کپڑا ،سککوتی
دھاگہ اور ریشہ اور دیگر سوتی اشیاءتیار کرتے ہیں۔
) ک( گ ن ّ ا
گّنا بھی ایک بہت اہم نقد آور فصل ہے جو پاکستان کے چاروں صوبوں میں بویا جاتککا
ہے۔ لیکن اس کی پیداوار کے خاص صوبے پنجکاب ،سکندھ اور سکرحد ہیکں۔گّنکا شککر
سازی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس کی باقیات سے کاغذ تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان
میں اپنی ضرورت سے زائد شکر پیدا ہوتی ہے جس کو برآمد کرکے قیمتی زِرمبککادلہ
کمایا جاتا ہے۔
) ک( تمباکو
تمباکو بھی پاکستان کی ایک نقد آور فصل ہے۔ تمباکو خاص طور سے صککوبہ سککرحد
میں پشاور اور مردان کے اضلع میں پیککدا ہوتککا ہے۔ اس کککو سککیگریٹ سککازی میککں
استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کککو سککگار میککں ب ھی اسککتعمال کیککا جاتککا ہے۔ملککک میککں
سککیگریٹ سککازی کککی کئی بککڑی فیکڑیککاں کککام کرر ہی ہیککں۔ تمبککاکو اور اس کککی
مصنوعات دوسرے ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہیں۔
) ک( تیل کے بیج
پاکستان میں مختلف اقسام کے تیل کے بیج پیدا ہوتے ہیں۔ کپاس کی قیمتی پیککداوار
بنولہ سب سے اہم بیج ہے۔دیگر تیل کے بیجوں میں سرسوں کا تیل،السی اور سورج
مکھی شامل ہیں۔لیکن تیل کے کے بیجوں کی پیداوار ملکی ضروریات کا مقابلہ نہیں
کرپاتی۔اس لئے تیل کے بیج غیر ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔
غذائی فصلیں
یہ وہ فصلیں ہیں جو عوام کو غذا فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں یہ غککذائی فصککلیں منککدرجہ
ذیل ہیں۔
) ک( گندم
گندم پاکستان کی بنیادی غذائی جنس ہے۔اسی سے آٹا تیار کیککا جاتککا ہے۔ روٹککی اور
دیگر غذائی اشیاءآٹے سے ہی تیار ہوتی ہیں۔گندم کی پیداوار کی تین چوت ھائی حص کہ
صوبہ پنجاب سے حاصل ہوتا ہے۔ پنجاب کے بعد صوبہ سندھ گی ہوں بکککثرت پیککدا کرتککا
ہے۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی گیہوں پیدا کرتے ہیں۔ مگر ان کی پیداوار پنجاب
اور سندھ کے مقابلے میں کم ہے۔گندم میں پاکستان کی خود کفالت کا انحصار پککانی
کی فراہمی پر ہے۔جب قدرت مہربان ہوتی ہے تو ضرورت سے زیادہ گندم پیککدا ہوتی
ہے۔ بعض اوقات گندم غیر ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ گندم ہماری روزمکرہ ککی
غذا کا ایک انتہائی اہم جز ہے۔
) ک( چاول
گندم کے بعد چاول پاکستان کی دوسری اہم غذائی جنس ہے۔پاکسککتان عمککدہ چککاول
کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اس کو دوسرے ممالک میں برآمککد ب ھی
کیا جاتاہے۔چاول کی کاشت پنجاب اور سندھ کے نہری علقوں میں ہوتی ہے کیوں کہ
اس کی کاشت کے لئے وافر مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے۔گوجرانککوالہ ،سککیالکوٹ ،
شیخوپورہ ،سرگودھا اور ساہیوال چاول کی پیداور کے لئے بہت اہم ہیں ۔ سندھ میں
سکھر ،شککارپور ،لڑکککانہ اور دادو چکاول ککی کاشککت ککے لئے مشکہور ہیکں۔چکاول
پنجاب اور سندھ کے لوگوں کی غذا کا ایک اہم جز ہے۔ صککوبہ سککرحد ک کے ب ھی کچ کھ
علقوں میں چاول کی کاشت ہوتی ہے۔ پاکستان میں یککوں تککو کئی قسککم کککا چکاول
ہوتا ہے لیکن ان میں دو قسمیں اہہہم ہیککں یعنککی باسککمتی چککاول اور آئی آر آر آئی )
(IRRIچاول ہے۔ جو بین القککوامی تحقیقککی ادارہ بکرائے چکاول منیل ککا منتخکب ہے۔
چاول کی کاشت کے لئے رقبے کا تقریبا ً 70فیصد ان ہی دو قسموں کے لئے مختککص
ہے۔پاکستان میں چاول کی پیداوار میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان چاول کککی
پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ باسمتی چاول برآمد بھی کرتا ہے۔
) ک( مکئی
مکئی غذائی فصل ہے۔لیکن جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔
اس کی سب سے زیادہ کاشت صوبہ سرحد میں ہوتی ہے ج ہاں مککردان ،ایبککٹ آبککاد،
مانسہرہ ،سوات اور پشاور کے اضلع خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ صوبہ پنجاب میں
فیصل آباد اور ساہیوال کے اضلع مکئی کی کاشت کے لئے مشہور ہیں۔
) ک( جوار اور باجرا
غذائی اجناس کے حصول کے لئے جوار اور باجرا کو کاشت کیا جاتاہے۔ اس سے سبز
اور خشک کھاس بھی پیدا ہوتی ہے۔جو بہت سے جانوروں کے لئے چارے کے طککور پککر
استعمال ہوتی ہے۔یہ خریف کی فصلیں ہیں۔جن کی کاشت ایسے علقوں میککں ب ھی
ہوسکتی ہے۔ جہاں مٹی زیادہ اچھی نہیں ہے اور جو خشک سالی کا شکار ہہہوتے رہت کے
ہیں۔ان کی کاشت پنجاب اورسندھ تک محدود ہے۔صکوبہ پنجکاب میکں اٹکک ،گجککرات،
سیالکوٹ اور سرگودھا کے اضلع میں باجرے کی کاشت نسبتا ً زیادہ ہوتی ہے۔ سککندھ
کے اضلع عمر کوٹ ،تھرپارکر اور میرپورخاص باجرے کی پیداوار کککے لئے پاکسککتان
میں سرفہرست ہیں۔جوار کی کاشت کے لئے بھی پنجکاب ککے شکمالی اضکلع یعنکی
اٹک ،راولپنڈی ،جہلم اور سرگودھا مشہور ہیککں۔ سککندھ میککں سکککھر ،خیرپککور ،نککواب
شاہ ،نوشہرہ فیروز ،سانگھڑ اور دادو کے اضلع جوار کککی کاشککت ک کے خککاص علق کے
ہیں۔
) ک( دالیں
ملک میکں مختلکف قسککم ککی دالیکں ب ھی کاشکت ککی جکاتی ہیکں۔ ان دالکوں میکں
سرفہرست چنا ہے۔ اس کی کاشت کے لئے میانوالی اور سرگودھا کے بارانی علقککے
اہم مراکز ہیں۔صوبہ سرحد میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خککان ک کے اضککلع میککں بککڑے
پیمانے پر چنے کی کاشت ہوتی ہے۔ دوسککری دالیککں مثل ً مونککگ ،مسککور ،مککاش کککی
کاشت بھی ملک کے دیگر علقوں کے مقابلے میں پنجاب میں زیادہ ہوتی ہے۔
) ک( جو ) جئی(
جو یا جئی کی کاشت بہت وسیع علقے میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ ملک کے کم زرخیز اور
خشک علقوں میں بویا جاتا ہے۔عام طور سے غریب لککوگ اس کککو اسککتعمال کرت کے
ہیں۔اس کو جانوروں کے چارے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
) ک( پھل اور سبزیاں
ش نظر رکھتے ہوئے ُاگککائی مختلف سبزیاں مقامی طور اور مقامی ضروریات کو پی ِ
جاتی ہیں۔یہ پورے ملک میں کاشت کی جاتی ہیککں۔ا ہم سککبزیوں اور ترکککاریوں میککں
آلو ،شلجم ،ٹماٹر ،بھنڈی ،بینگن ،پالک ،پیاز ،مولی ،مٹر ،چقندر ،بند گوبھی اور گاجر
وغیرہ شککامل ہیککں۔سککبزی اور ترکککاری کککی پیککداوار میککں پاکسککتان خککود کفیککل ہے۔
پاکستان آلو اورپیاز دوسرے ممالک کو برآمد بھی کرتا ہے۔ پاکستان میککں ب کے شککمار
اقسام کے بہت خوش ذائقہ پھل پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن آب و ہوا کے فرق کی وج کہ س کے
یہ مخصوص علقوں میں کاشت کیے جاتے ہیککں۔بلوچسککتان اور صککوبہ سککرحد پھلککوں
کی پیداوار کے خاص علقے ہیں۔ ان کے پھلوں میککں انگککور ،سککیب ،انککار ،آلککو بخککارہ،
ق ٰی ،خوبانی ،آڑواور چیری شامل ہیں۔ سندھ میں پھلوں کککی صککرف چنککد اقسککام من ّ
می ،مککالٹے، ہیں۔ جن میں آم ،کھجور ،کیل ،تربوزاورخربوزہ ہیں۔پنجاب میں آم ،موس ّ
کینو ،مشک ،سردا ،گرما ،تربوزاور کھجوریں کاشت کی جاتی ہیں۔صوبہ سککرحد اور
بلوچستان میں خشک میوہ جات ،مثل ً بادام ،پستہ اور اخروٹ کاشت کئے جاتے ہیککں۔
تازہ پھلوں اور خشک میوہ جات کی برآمد سے پاکستان کثیر زِرمبادلہ کماتا ہے۔
تعلیم کے معیار میں پستی اور زوال کا ایک سبب پرائمری اسکولوں کی باقاعدہ عمککارتیں نکہ ہونککا
بھی ہے۔اکثر اسکولوںکی نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی انہیں بیت الخلءاور صککاف پککانی کککی س کہولت
سر ہے۔ان اسکولوں میں فرنیچر کی بھی کمی ہے۔دیہی علقوں میں اکثر اسکول صرف ”واحد می ّ
کمرہ اسکول“ ہیں۔یہ سب بہت بری حالت میں ہیں۔ان اسکولوں میککں تعلیککم کککا معیککار ب ھی ب ہت
پست ہے۔
) ک( درسی کتب کی عدم دستیابی
درسی کتب کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے بے شمار طلبہ انہیککں خریککدنے سکے قاصککر
ہیں۔نجی اور انگریزی ذریعہ تعلیم کے اسکولوں میں رائج درسی کتابیں بہت مہنگککی
ہیں۔اعل ٰی تعلیم اور پیشہ ورانہ نصابوں کی اکثر درسی کتب درآمد کی جاتی ہیں اور
وہ بہت مہنگی ہیں۔
) ک( طلبہ کے لئے رہائش
فنی اور میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے لئے ہوسٹل کی رہائش بھی مسئلہ بکن گئی ہے۔
ان اداروں میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لحاظ س کے ہوسککٹل کککی ر ہائش مہیککا
نہیں ہے۔
) ک( سیاسی مداخلت
تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملت اور خصوصا ً اساتذہ کککی تقرریککوں اور تبککادلوں
میں عوامی نمائندے مککداخلت کرتکے ہیککں۔اہلیککت کککو نظککر انککداز کردیککا جاتککا ہے اور
تقرریوں میں جانب داری برتی جاتی ہے یا سیاسی سفارشیں کی جاتی ہیں۔
پاكستان 14اگست 1947ء كو دنیا كے نقشہ پر ابھرا اور برطانوی ہندوستان سے خارجہ پالیسی
كو ورثہ میں پایا لیكن آزادی كے بعد نظریہ پاكستان اور تحریك پاكستان كے مقاصد كو پیش نظر
ركھتے ہوئے خارجہ پالیسی كی تشكیل نو كی گئی۔ پاكستان كی خارجہ پالیسی كے اہم مقاصد
مندرجہ ذی ہیں۔
قومی سلمتی
پاكستان كی خارجہ پالیسی كا سب سے اہم مقصد قومی سلمتی و تحفظ ہے۔ پاكستان دنیا كے
نقبہ پر نیا نیا ابھرا تھا اور ضرورت تھی كہ اس كی سلمتی و تحفظ كا مناسب بندوبست كیا
جائے۔ لہٰذا پاكستان نے ملكی سلمتی كو خارجہ پالیسی كی بنیاد بنایا اور بیرون ممالك كے ساتھ
تعلقات میں قومی سلمتی كو ہمیشہ اہمیت دی۔ آج بھی پاكستان كی خارجہ پالیسی میں قومی
سلمتی بنیادی نصب العین ہے۔ پاكستان دوسرے ممالك كی علقائی سالمیت كا احترام كرتاہے۔
اور دوسرے ممالك سے بھی یہ توقع ركھتاہے۔ كہ وہ بھی پاكستان كی قومی سلمتی كا احترا م
كریں۔
معاشی ترقی
پاكستان ایك ترقی پذیر ملك ہے اور معاشی طور پر اپنی ترقی چاہتا ہے۔ لہٰذ ا پاكستان ان تمام
ممالك كے ساتھ اچھے تعلقات قائم كرنا چاہتا ہے جن كے ساتھ تجارت كر كے یا جن ممالك سے
معاشی مدد حاصل كر كے معاشی طورپر ترقی كر سكے۔ نئے اقتصادی رجحانات كو مدنظر
ركھتے ہوئے پاكستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں كی ہیں۔ خصوصا ً آزاد تجارت ٬آزاد
اقتصادیات اور نجكاری كو اپنایا ہے۔
نظریاتی تحفظ
پاكستان ایك نظریاتی مملكت ہے اور اس كی بنیاد نظریہ پاكستان یا نظریہ اسلم پر ہے۔ پاكستان
كی خارجہ پالیسی كا اہم مقصد پاكستان كی نظریاتی سرحدوں كا تحفظ ہے۔ پاكستان كا
استحكام بھی نظریہ پاكستان كے تحفظ میںمضمرہے۔ یہ اپنے نظریہ كا تحفظ اسلمی ممالك كے
ساتھ بہتر تعلقات قائم كر كے ہی كر سكتاہے۔ لہٰذا پاكستان نے ہمیشہ اسلمی ممالك كے ساتھ بہتر
تعلقات استوار كیے ہیں۔ اس كے تینوں دساتیر میں اسلمی ملكوں كے ساتھ قریبی تعلقات پر زور
دیا گیا ہے۔ پاكستان نے اسلمی كانفرنس كی تنظیم اور اقتصادی تعاون كی تنظیم كے قیام میں
اہم كردار ادا كیا ہے۔
انتظامی تكون
انتظامی تكون سے مراد قومی سطح كے تین اہم انتظامی عہدے ہیں ٬صدر پاكستان ٬وزیر اعظم
پاكستان اور فوج كا سربراہ ہیں۔ پاكستان كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے ضمن میں انتظامی
تكون اہم كردار ادا كرتی ہے۔ یہ تكون پاكستان كی خارجہ پالیسی كو منظور یا نامنظور كر سكتی
ہے۔ موجودہ پالیسی میںتبدیلی ل سكتی ہے یا پالیسی كو بالكل مختلف سمت میں چل سكتی ہے
لیكن سابقہ پالیسی سے ہٹنا بہت مشكل ہوتاہے انتظامی تكون عام طور پر سابقہ خارجہ پالسی كو
مدنظر ضرور ركھتی ہے یا نئی پالیسی تشكیل دیتے ہوئے بیرون مالك سے كیے وعدوں سے
منحرف نہیں ہو سكتی۔
وزارت خارج ہ
پاكستان كی وزارت خارجہ خارجہ پالیسی تشكیل دیتے ہوئے بہت اہم كردار ادا كرتی ہے۔ وزارت
ں یہ خارجہخارجہ میں عام طورپر خارجہ پالیسی كے ماہرین اور اعل ٰی پایہ كے بیوروكریت ہوتے ہی َ
پالیسی كے بنیادی مقاصد اور اصولوں كو مدنظر ركھتے ہوئے خارجہ پالیسی تیار كرتے ہیں۔ یہ
خارجہ پالیسی كی ترجیحات كو سامنے ركھتے ہوئے پالیسی كے منصوبے و پروگرام بناتے ہیں اور
خارجہ پالیسی كی تشكیل كے ضمن میں انتظامی تكون كی رہنمائی كرتے ہیں ۔ نئی آئینہ تبدیلیوں
كے مطابق نیشنل سیكیورٹی كونسل میں انتظامی تكون كا نعم البدل بنتی جا رہی ہے۔
خفی ہ ادار ے
پاكستان كے خفیہ ادارے پاكستا ن كی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے سلسلے میں اہم كردار ادا
كرتے ہیں۔ یہ ادارے دوسرے ممالك كی خارجہ پالیسیوں كے مقاصد كے متعلق مكمل اطلعات
فراہم كرتے ہیں جن كو مدنظر ركھتے ہوئے پاكستان اپنی خارجہ پالیسی تشكیل دیتا ہے۔
اسی طرح پریشر گروپ بھی خارجہ پالیسی كی تشكیل كے عمل كو متاثر كرتے ہیں اور حكومت
كو خارجہ پالیسی كی ترجیحات كو وقت كے تقاضوں كے مطابق بدلنے پر مجبور كر دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ
وزار ت خارجہ انتظامیہ كی ہدایت كے مطابق خارجہ پالیسی تشكیل دیتی ہے۔ اور بض اوقات
قومی اسمبلی اور سینٹ كے سامنے منظوری كے لیے پیش كرتی ہے۔ بحث و تمحیص كے بعد
پارلیمنٹ عام طور پر طے شدہ خارجہ پالیسی كی منظوری دے دیتی ہے یا اس میں مناسب
تبدیلیوں كی سفارش كرتی ہے۔
١۔ تعمیرات
وادی سندھ كی قدیم تہذیب شہری تھی۔ موہنجوداڑو اورہڑپہ ہم عصر شہر تھے اور دونوں میں بہت
ں دونوں رقبے كے لحاظ سے بڑے اور كافی گنجان آباد ت ھے ۔ فن سی ملتی جلتی خصوصیات تھی َ
تعمیر قابل تعریف تھا شہروں كو باقاعدہ بازاروں گلیوں اور محلوں كی صورت میں بسایا گیا تھا ۔
گھروںمیں پانی كی نكاسی كاعمدہ بندوبست تھا ۔ پكی نالیاں تھیں جو اوپر سے ڈھكی ہوئی تھیں ۔
گھر كشادہ اورہوا دار ت ھے ۔ پختہ اور كچی دونوں اقسام كی اینٹیں استعمال كی گئی تھیں ۔ سڑكیں
اور گلیاں چوڑی اور سیدھی تھیں۔ گھروں كیاندر غسل خانے تھے اور محلے میں حمام بنائے گئے
تھے۔ عمارتوں كے فر ش پختہ اینٹوں كے بنے ہوئے تھے۔ تعمیرات كا عمدہ اور پختہ ذوق ہر جگہ
جھلكتا نظر آتا تھا۔ ہڑپہ یا موہنجوداڑو جائیں تو آثار قدیمہ دكھ كر عقل حیران رہ جاتی ہے كہ
كھدائی كے بعد گلیاں اور بازارمكانات اور دیگر عمارتیں باہر نكل آئی ہیںجوپانچ ہزار سال پہلے كے
باسیوں كے ذوق اور شعور كا پتہ دیتی ہیں۔ كنوئیں بھی دریافت ہوئے جن سے پانی كی بہم رسائ
كے انتظام كا پتہ چلتا ہے۔ گھروں كے نیچے تہہ خانے بھی بنائے جاتے تھے تاكہ موسم كی شدت سے
بچا جس سكے۔ تہہ خانوں میں روشنی اور ہوا كے گزر كا اہتمام بھی موجود تھا۔ یقینا قدیم تہذیب
كے فن تعمیر كے حوالیسے بہت ترقی یافتہ تھی ۔
خواتین میں زیورات كا استعمال عام تھا۔ كھدائی كے بعد كئی قسموں كے زیورات ملے ہیں مثل ً
ہار ٬بالیاں ٬انگوٹھیاں اورچوڑیاں وغیرہ۔ جواہرات كا استعمال بھی كیا جاتاتھا جو غالبا ً وسط
ایشئا سے منگوائے جاتے ت ھے ۔ ہاتھی كے دانت سے زیورات بنانے كا رواج بھی تھا ۔
٣۔ ك ھلون ے
بچوں كے لیے كھلونے تیار كیے جاتے تھے جو عموما ً مٹی كے بنے ہوتے ت ھے ۔ جانوروں اور انسانوں
كے مجسمے اور روز مرہ استعمال كی چیزوں كے نمونے بھی تیار كیے جاتے ت ھے ۔ مٹی كی بنی
ہوئی گڑیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ گھوڑے اور رتھ كی طرح كے كھلونے بھی كھدائی كے بعدملے
ہیں۔ رتھ سے ثابت ہواكہ قدیم لوگ پہیے كے استعمال سے آشنا تھے۔ كھلونوں كی موجودگی سے
معاشرت زندگی میں خاندان اور بچوں كی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔
٦۔ تجارت
اندازہ لگایا گیا ہے كہ وادی سندھ كے قدیم باشندوں كے تجارتی تعلقات دوردراز كے علقوں
میںرہنے والے لوگوں سے تھی۔ وہ اپنی اشیا انہیں بھیجتے اور ان سے ملنے والی اشیائ درآمد
كرتیت ھے ۔ تانبا ٬كانسی ٬ٹین اور چاندی كے استعمال سے وہ لوگ واقف تھے لیكن یہ اشیا وادی
سندھ میں مہیا نہیںتھیں۔ ظاہر ہے كہ وہ باہر سے منگواتے ہوں گے۔ یوں كہا جا سكتا ہے كہ ان كے
تجارتی رابطے مختلف علقوں میں ت ھے ۔ افغانستان وسط ایشیا ٬ایران اور خراسان كے علقوں
میں بسنے والے لوگوں سے ان كا لین دین تھا۔ كھدائی میں ملنے والی اشای میں جواہرات بھی
ملے ہیںنیز كئی اقسام كے زیورات كا بھی استعمال كیا جاتاتھا۔ یہ چیزیں بھی وہ دوسرے علقوں
سے حاصل كرتے تھے۔ ماہرین نے ان ہی حقائق كی بنیاد پر اندازہ لگایا ہے كہ وہ تجارت سے بخوبی
آگاہ تھے اوراپنی وادی سے باہر كا تجارتی سفر بھی كرتے رہتے ت ھے ۔
٧۔ اعتقادات
كھدائی كی گئی تو بت برآمد ہوئ ے ۔ بتوں كی وجہ سے قیاس كیا جاتا ہے كہ وہ لوگ بت پرست ت ھے ۔
پتھروں اور دھاتوں كے بنائے ہوئے بتوں كی پرستش كرتے ت ھے ۔ سورج چاند اور ستاروں كی پوجا
كا بھی رواج تھا ۔ وہ اپنے مردہ افراد كو زمین میں دفن كرتے تھے۔ مشتركہ طورپرعبادت كرنے كے
لیے مخصوص عمارتیں بنائی گئی تھیں ۔
٨۔ جانور
مچھلی ٬بھینس ٬خرگوش ٬سانپ ٬ہاتھی ٬گینڈے اور شیر سمیت كچھ جانور اس دور میں پائے
ں پتھر اور
جاتے تھے كیونكہ ان جانوروں كی شكلیں دیوار وں اور مختلف مہروں پر بنائی گئی تھی َ
تانبے كی نبی ہوئی مہروں پر جانوروںكی تصاویر سے ظاہر ہوتاا ے كہ وہ لوگ ان جانوروں كی
موجودگی سے آگاہ تھے۔ اور اپنی روز مرہ كی زندگی میں ان كااستعماال كرتے تھے مچھلی شیر
اور گینڈے كی موجودگی ظاہركرتی ہیكہ وہ شكار سے بھی رغبت ركھتے ت ھے ۔
٩۔ خوراك
جو ٬گندم ٬مچھلی اور كھجور ان كی خوراك تھی ۔ وہ كھیتی باڑی سے كافی حد تك آگاہ ت ھے ۔ جو
گندم اور كپاس بوتے تھے۔ كھجور كی گٹھلیاں بھی كھدائی یں دستیاب ہوئی ہیں۔ اور مچھلی
پكڑنے كا بھی سامان مل ہے۔ جس سے ان لوگوں كی خوراك كا پتہ چلتا ہے۔ اناج كے گوداموں كی
تعمیر كا سراغ بھی موہنجودڑو اور ہڑپہ كی كھدائی كے بعد مل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ وہ
لوگ بہت ترقی یافتہ اور مہذب ت ھے ۔
ثقافتی اعتبار سے 2500سال پہلے كا زمانہ گندھارا میں بڑا ہی اہم اورمنفر د تھا ۔ علم و حكمت
كے علوہ مختلف فنون میں بھی وہ لو گ كمال حاصل كرتے ت ھے ۔ سنگ تراشی كا فن خصوصا ً
ں گندھارا كی تہذیب كو حملہ آوروںنے آ نمایاں تھا۔ اس دور كی عبارات لكھی ہوئی پائی جاتی ہی َ
كر بہت نقصان پہنچایا۔ ایران وسط ایشیا اور یونان سے آنے والے لشكروں نے گندھارا آرٹ كو تباہ
كر دیا اور ساتھ ہی ساتھ مقامی لوگوں كو اپنے فنون سے بھی آگاہ كیا۔ ان علقوں سے آنے والے
لشكریوں كے ہمراہ اہل علم اہل حرفہ اورفنكاربھی آئے اور یوں گندھارا میں مختلف تہذیبوں كے
ملپ سے نئے نئے اثرات مرتب ہوئے۔ یونانیوںنے مجسمہ سازی كے فن پر گہرا اثر ڈال۔ روز مرہ
زندگی كے مختلف پہلو بھی متاثر ہوئے مقامی آادی نے لباس خوراك اوررہائش كے حوالے سے نئے
طور طریقے دیكھے۔ عمارتوں كی تعمیر اور آرائش كے اموربھی بدلے اور وادی سندھ كی تہذیب و
ثقافت میں یونانی اوردیگر علقوں كے رنگوں كا اضافہ ہوا ۔
گندھارا آرٹ كے مختلف ادوار كے نمونے پاكستان كے عجائب گھروں میںركھے گئے ہیں ۔ یونانی اور
وسطی ایشیائی اثرات قبول كر كے مقامی آبادی نے جو بن پارے تخلیق كیے وہ بھی عجائب گھرو
ں میںموجو د ہیں۔ كثیر تعدادمیں بڑے ہی نادر نمونے ٹیكسل كے عجائب گھر میں دیھے جا سكتے
ہیں۔ ٹیكسل راولپنڈی سے 40كلومیٹر كے فاصلیئ پر ہے۔ جہاں ہر سال كثیر تعداد میں ملكی اور
غیر ملكی سیاح مشرق و مغرب كے حسین امتزاج پر مبنی قدیم تہذیب و ثقافت كا مشاہدہ كرنے
آتے ہیں ۔
ii۔ جاگیردارانہ نظام كو ختم كیا جائے۔ یہ كام ہمیں پاكستان كے بننے كے فورا ً بعد كر لینا چاہیے تھا
لیكن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ دیر آید درست آید كے مترادف اب بھی یہ كام ہمیں فوری طور پر
كر لینا چاہی ے ۔
iii۔ سول انتظامیہ كا سیاست سے ہرگز كوئی تعلق نہیں ہوتا ان كو باور كرایا جائے كہ آپ غیر
سیاسی ٬غیر جماعتی ٬اور غیر جانبدار ہیں لہٰذا غیر جانبداری سے حكومت كے نظام كو چلیا
جائ ے ۔
iv۔پاكستان میں اللہ تعال ٰی كے فضل سے بے شما ر وسائل ہیں۔ ہمیں ایماندرانہ طور پر ان
وسائل كو استعمال میںلنا چاہی ے ۔
v۔ پاكستان میں احتسابی نظام غیر جانبدار اورپائیدار ہونا چاہیے۔ ہر با اقتدار فرد كو اپنے اقتدار
كا حساب دینا چاہی ے ۔ حضرت عمر جیسا احتسابی نظام قائم كركے اچھا نظام حكومت قائم كیا
جا سكتا ہے ۔
vi۔ سركاری ملزمین كی تنخواہیں مہنگائی كے حساب سے بڑھائی جائیں اور ساتھ ہی سادگی
اور اسل م كی روح ان كے اندر پیدا كی جائ ے ۔
مقامی حکومتوں کی اختیارات كی تقسیم كا منصوب ہ
یہ منصوبہ باقاعدہ طورپر 14اگست 2001ء كو لگو كیا گیا جس كی بنیاد درج ذیل نكات پر ہے ۔
i۔ سیاسی اختیارات كی نچلی سطح تك تقسیم۔
ii۔ انتظامی اختیارات كی عدم مركزیت۔
iii۔ وسائل كی ضلعی سطح پر منتقلی۔
iv۔ مقامی معاملت میں عوام كی شركت۔
مقامی حكومتوں كے موجودہ آرڈیننس 2001ء میں مقامی حكومتوں كو تین درجوں میں تقسیم
كیا گیا ہے ۔
﴿الف﴾ ضلعی حكومت ﴿ب﴾ تحصیل یا ٹائون حكومت ﴿ج﴾ یونین حكومت
ان كی تفصیلت درج ذیل میں پیش كی جاتی ہیں ۔
﴿الف ﴾ ضلعی حكومت
ضلعی حكومت ناظم نائب ناظم ٬ضلع كونسل اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔ جس
كاسربراہ ناظم ہوتاہے۔ ناظم كی مدد كے لیے ضلعی رابطہ آفیسر )(DCOہوتاہے ضلع ناظم اس
بات كو یقینی بناتااہے كہ ضلعی انتظامیہ صحیح طورپر كام كر رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ كا سربراہ
ضلعی رابطہ آفیسر )(DCOہوتا ہے ۔
i۔ انسانی وسائل ii۔ سول ڈیفنس iii۔ زراعت و جنگلت iv۔ دیہی ترقی v۔
vi۔ امور مالیات و منصوبہ بندی vii۔ صحت viii۔ انفارمیشن ٹیكنالوجی ix۔ تعلیم
قانون x۔ خوا ندگی xi۔ نظم و ضبط xii۔ مال ٬وركس و خدمات
ضلعی رابط ہ آفیسر )(DCOك ے فرائض
i۔ ضلع ك ے تمام محكموں س ے رابط ہ رك ھ كر ان كو قانون ك ے مطابق چلنا ۔
ii۔ ضلع میں مناسب منصوب ہ بندی كرت ے ہوئ ے ضلعی انتظامی ہ كو موثر بنانا ۔
iii۔ ضلع میں تمام منصوبوں اور پراجیكٹوں كی تیاری كرنا ٬ضلع كونسل س ے
منظوری حاصل كرنا اورنگرانی كرنا۔
ii۔ اپن ے محكم ے كی عوام كی خدمت ك ے ضمن میں كاركردگی كو بڑ ھاتا ہے۔
پاكستان كے قیام سے قبل جنوبی ایشیا میںمقامی حكومتوں كا نظام وائسرائے لرڈ پن نے
1884ء می ایك ایكٹ كے ذریعے نافذ كیا اور اس نے ضلع اور تحصیل كی سطح پر مقامی بورڈ
قائم كیے جن كے ذمے مقامی لوگوں كے مسائل حل كرنا تھے۔ لیكن یہ ادارے لوگوں كے مسائل
حل كرنے میںناكام رہے كیونكہ ان كے پاس نہ تو اختیارات تھے اورنہ وسائل ت ھے ۔
پاكستان كے قیام كے بعد لرڈ پن كے نظام كو اپنایا گیا لیكن ا س كاكوئی خاطرخواہ فائدہ ہن ہوا
كیونكہ اس نظام كو سیاسی ہتھكنڈے كے طور پر استعمال كیا جانے لگا ۔ 1958ء تك یہ نظام
مكمل طورپرمعطل ہو چكا تھا اور مارشل لئ كے نفاذ كے بعد اس كو منسوخ كر دیا گیا ۔
صدر ایوب خاں نے بنیادی جہوریتوں كا حكم نامہ 27اكتوبر 1959ء كو جاری كیا جس كے مطابق
پاكستان میں مقامی حكومتوں كاایك نظام لگو كیا گیا جسے بنیادی جمہوریت كا نام دیا گیا ۔اک
جس كا اہم مقصد یہ تھا كہ اختیارات نچلی سطح تك منتقلی اورعوام كے مسائل كا حل بنیادی
سطح پر ان كے اپنے نمائندوں كے ذریعے كیا جائے یہ نظا م كوئی خاطر خواہ تبدیلی نہ لسكا اور نہ
ہی لوگوں كو حل كر سكا كیونكہ اس كو انتخابی ادارہ كے طور پر استعمال كیاگیا لہٰذا حكومت
كی تبدیلی كے ساتھ ہی یہ نظام ختم ہو گیا ۔
1970ء كے انتخابات كے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو كو مغربی پاكستان اور شیخ مجیب
الرحمن كوشرقی پاكستان میں اكثریت حاصل ہوئی۔ اقتدار عوامی نمائندوں كے حوالے نہ كیا گیا
جس كے نتیجہ میں مشرقی پاكستان الگ ہو گیا اور مغربی پاكستان میں حكومت ذوالفقار علی
بھٹو كے حوالے كر دی گئی۔ بھٹو سیاسی عمل كے ذریعے مقامی حكومتوں كو قائم كرنے میں
ناكام رہا ۔
ضیاء الحق كے برسراقتدار آنے كے بعد مقامی حكومتوں كے نظا م كو دوبار ہ نافذ كیاگیااور
مقامی حكومتوں كے انتخابات دو دفعہ كرائے گئے یہ نظام مضبو ط بنیادوں پر قائم كیا گیا اور
مرحلہ وار ترقی كرتا رہا ۔
اس طرح مقامی حكومت كا یہ نظام سال ہا سال چلتا رہامگر عوام كی اكثریت كوكوئی خاطر
خواہ فائدہ نہ ہو سكا۔ موجودہ نظام كی خامیاں دور كرنے كیلیے جنر ل پرویز مشرف كی حكومت
نے 12اكتوبر 1999كو حكومت سنبھالنے كے بعد مقامی حكومتوں كے نظاما میں واضح تبدیلیاں
لنے كا وعدہ كیا تاكہ اقتدار عوام كی نچلی سطح تك منتقل ہو سكے۔ صدر پاكستان نے نئے نظام
كے تحت مرحلہ وار انتخابات دسمبر 2000اور اگست 2001كے درمیان كروائے اور اس كا اجراء
14اگست 2001ء كو ہوا ۔ یہ نظام تین درجاتی ہے اور جس میں ضلعی حكومتیں تحصیل كی
حكومتیں اوریونین كی حكومتیں شامل ہیں ۔ تفصیل حسب ذیل ہے ۔
1973ء ك ے آئین میں ش ہریوں ك ے حقوق
پاكستان كے آئین 1973میں بھی شہریوں كو بے شمار بنیادی حقوق دیے گئے ہیں۔ مزید یہ پابندی
بھی عائد كی گئی ہے كہ حكومت بنیادی حقوق كو سلب كرنے كے لیے كوئی قانو ن نہیں بنا سكتی
پاكستان میں شہریوں كو ملنے والے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
ii۔ كسی شہری كو وجوہات بتائے بغیر گرفتار نہیں كیا جا سكتا یا گرفتاری كے بعد 24گھنٹے كے
اندر كسی مجسٹریٹ كی عدالت میں پیش كیا جاتا ہے ۔
v۔ ہر ش ہری كو پاكستان میں نقل و حركت پر مكمل آزادی حاصل ہے۔
viii۔ ہر فرد كو تجارت كاروبار یا كوئی پیش ہ اپنان ے كی مكمل اجازت ہے۔
xiii۔ تمام ش ہری بل امتیاز مذ ہب رنگ نسل اور جنس ك ے قانون كی نظر میں
برابر ہیں اور معاشرتی طور پراك جیسا مقام ركھتے ہیں ۔
ش ہریوں ك ے فرائض
شہریوں كو جو حقوق دیے جاتے ہیں ان كے بدلے ان پر كچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جن كو
فرائض كہتے ہیں۔شہریوں كے اہم فرائض درج ذیل ہیں:
١۔ وفاداری
ہر شہری اپنے ملك كاوفادار ہو اور اس كی حفاظت كے لیے ہر قربانی دینے كے لیے تیار ہو ۔
یہ كم و بیش وہی فرائض ہیں جن كا ذكر اوپر كیا گیا ہے۔ یعنی ملك كا وفادار ہونا ٬قوانین كی
پابندی ٹیكسوں كی بروقت ادائیگی ٬ووٹ كا صحیح استعمال اورقومی مفادكا تحفظ وغیر ہ ۔ اگر
پاكستان كا كوئی شہری ان فرائض كو پورا نہیں كرتا تو وہ ملك و قوم دونوں كا مجرم ہے اور
اسے معاشرے میں عزت كی نگاہ سے نہیں دیكھا جا سكتا۔ ا ن فرائض كو پورا كرنا ہر شہری كا
اخلقی و قانونی فرض ہے كیونكہ ایك شہری كا حق دوسرے شہری كا فرض ہوتا ہے ۔ اور اسی
طرح دوسرے كا حق پہلے كا فرض ہے۔ ہر معاشرہ میں حقوق و فرائض میں توازن قائم ركھنا
ضروری ہوتاہے كیونكہ حقوق و فرائض لزم و ملزوم ہیں۔ جس معاشرہ میں توازن قائم نہیں رہتا
اس میں ظلم و ناانصافی كا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہر شہری كو چاہیے كہ وہ جہاں اپنے حقوق
سے فائدہ حاصل كرتاہے وہاں اپنے فرائض كو بھی خوش اسلوبی سے نبھائ ے ۔
انسانی حقوق
انسانی حقوق كا تصور سب سے پہلے ہمار ے حضور پاك صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ
سو سال پہلے دیا تھا۔ یہ باقاعدہ انسانی حقوق كا چارٹر تھا۔ جس نے بنیادی انسانی حقوق كی
بنیاد ركھی۔ جدید دورمیں بھی انسانی حقوق كو كافی اہمیت دی گئی۔ ہر ملك جمہوریت كی
طرف رواں دواں ہوا اور دساتیر كو اپنانا شروع كیا۔ فرانس كی تقلید كرتے ہوئے ہر ملك كے
دستور میں بنیاد ی حقوق كا ایك باب شامل كیاجانے لگا۔ اسی طرح پاكستان نے جب 1956ء
میں پہل دستورنافز كیا تو بنیادی حقوق كا ایك باب اس كا ضروری حصہ بنا ۔ اس دستوركی
منسوخی كے بعد جب 1962ء میں دوسرا دستور بنایا گیا تو بنیادی حقوق كا باب اس میں شامل
نہ تھا۔ عواام كے مطالبہ كے پیش نظر دستور میں دوسری تر میم كے ذریعے اس باب كو امل كیا
گیا ۔ دستور 1973ء اور قومی اسمبلی میں متفقہ طور پرمنظور ہوا۔ جس میں بھی بنیادی حقوق
كا باب امل كیا گیا لہذا انسانی بنیادی حقوق عموما ً ملكی دساتیر كے عطاكردہ ہوتے ہیں ۔
i۔ انسانی بنیاد ی حقوق كسی كی بخشش ن ہیں ہوت ے بلك ہ ہر انسان پیدا ہوت ے ہیں
ان حقوق كا دعویدار بن جاتا ہے۔
v۔ انسانی بنیادی حقوق كوقانونی حقوق س ے بڑ ھ كر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
ش ہریوں ك ے حقوق
وہ مطالبات جو شہری اپنی بھلئی كے لیے كرتے ہیں اور جن كو حكومت تسیم كر لیتی ہے اور ان
كو پورا كرتی ہے شہریوں كے حقوق كہلتے ہیں ۔ حقوق دو طرح كے ہوتے ہیں:
یہ وہ حقوق ہیں جن كے بغیر مہذب زندگی گزرنا ناممكن ہوتی ہے اوران كی عدم موجودگی میں
كسی مہذب معاشرہ كا قیام ناممكن ہے۔ یہ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
i۔ حق زندگی
ہر شہری كو زندہ رہنے كابنیادی حق حاصل ہے ۔
iii۔ حق جائیداد
ہر شہری كو جائیداد ركھنے كا حق حاصل ہے ۔
iv۔ حق خاندان
ہر شہری كو اپنی مرضی سے شادی كرنے اور خاندان ركھنے كا حق حاصل ہے ۔
x۔ حق تعلیم
ہر شہری كو حصول تعلیم كی سہولتیں حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ۔
xi۔ حق معا ہد ہ
ہر فرد كو دوسرے كے ساتھ كاروبار كے لیے معاہدے كرنے كا حق حاصل ہے ۔
xiii۔ حق مساوات
ہر شہری قانون كی نظر میں برابر ہے اور وہ مساوی سماجی حیثیت كا مالك ہے ۔
جمہوریت كی بقا او رشہری كی سیاسی نشوونما كے لیے سیاسی حقوق ضروری ہیں۔ ہر شہری
كو مندرجہ ذیل سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں ۔
ii۔ حق نمائندگی
ہر فرد كو الیكشن میں امیدوار بننے كا بھی حق حاصل ہے ۔
iii۔ حق منصب و ع ہد ہ
منتخب ہونے كے بعد ہر شہری كو سركاری عہدہ حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ۔
iv۔ حق تنقید
ہر فردكو حكومت پر تنقید كرنے كا یا اپنی رائے پیش كرنے كا حق حاصل ہے ۔
v۔ حق جماعت
ہر شخص كو كسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے یا اپنی جماعت بنانے كا حق حاصل ہے ۔
Vi۔ حق عرضداشت
ہر شہری كو حكومت كے نام شكایتی عرضی بھیجنے كا حق حاصل ہے ۔
٣۔ دستور پاكستان 1973میں اسلمی دفعات
صدر ایوب خان اپنے خلف عوامی تحریك كے نتیجے میں 25مارچ 1969ء كو مستعفی ہو گئ ے ۔
جنرل محمد یحح ٰی خان نے ملك میں مارشل لء لگا كر آئین منسوخ كر دیا۔ جنرل یحی ٰی خاں نے
ددسمبر 1970ء میں اسمبلیوں كے انتخابات كروائے۔ انتخابات كے نتیجے میں مشرقی پاكستان
میں شیخ مجیب الرحمن كو اور مغربی پاكستان میں ذوالفقار علی بھٹو كو اكثریت حاصل ہو
گئی۔ بدقسمتی سے اقتدار كی منتقلی كا كوئی سمجھوتہ طے نہ پا سكا اور ہندوستان كی
مداخلت كی وجہ سے 16دسمبر 1971ء كو مشرقی پاكستان الگ ہو كر بنگلہ دیش بن گیا ۔
20دسمبر 1971ء جو فوجی حكومت نے اقتدار ذوالفقار علی بھٹو كے حوالے كر دیا جس نے اریل
12اپریل 1972كو ملك میں ایك عبوری آئین لگو كیا اس دوران مستقل آئین كا مسودہ اسمبلی
میں پیش ہوا جو اپریل 1973ء كو منظور ہوا او ر جسے 14اگست 1973كو نافذ كر دیا گیا ۔
دستور 1973ء میں وہ تمام اسلمی دفعات شامل كی گئیں جو پہلے دساتیر میں موجود تھیں بلكہ
ان میں اضافہ بھی كیا گیا۔ نمایاں اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں:
iiملك كا نام
ملک كا نام اسلمی جمہوریہ پاكستان ہوگا ۔
ملك میں سیاسی انتشار كے باعث جنرل ایوب خاں نے 1956ء كا آئین منسوخ كر كے اكتوبر
1958ئ كو ملك میں مارشل لء لگا دیا اور نئے آئن كی تیاری كے لیے ایك كمیشن مقرر كر دیا ۔
كمیشن نے ایك مسودہ تیار كیا جس میں تمام اختیارات كا سرچشمہ صدر كو بنا دیا گیا 8جون
1962ء كو نئے دتور كو لگو كیا گیا جس كی اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں:
دوسری دستور ساز اسمبلی كا انتخاب 23جون 1955ء كو ہوا ۔ 80اركان پر مشتمل اسمبلی
معرض وجودمیں آئی۔ چوہدری محمد علی ملك كے وزیر اعظم بنے۔ وزیر اعظم بنتے ہی انہوںنے
دستور سازی كا كام شروع كر دیا۔ آئین كا مسودہ 9جنوری 1956ء كو دستور ساز اسمبلی میں
پیش كیا گیا جسے 29فروری 1956كومنظور كر لیا گیا۔ گورنر جنرل كی نظور ی كے بعد یہ
23مارچ 1956ء كو نافذ ہوا۔ اس آئین كی اسلمی دفعات مندرجہ ذیل ہیں:
قرارداد مقاصد كی منظور ی كے بعد دستور ساز اسمبلی نے متعدد كمیٹیاں قائم كیں جن میں
بنیادی اصولوں كی كمیٹی بھی شامل تھی جس كے سربراہ وزیر اعظم لیاقت علی كاں تھے اس
كمیٹی نے عبوری رپورٹ 28ستمبر 1950ء كو لیاقت علی كاں كی سربراہی میں پیش كی
نامكمل ہونے كی وجہ سے اس پر شدید رد عمل ہوا وا رنظر ثانی كے لیے كہا گیا۔ چنانچہ دوسری
رپورٹ 22ستمبر 1952ء كو خواجہ ناظم الدین كی سربراہی میں پیش ہوئی ۔ اس رپورٹ میں
ایك حصہ اسلمی اصولوں كے لیے مخصوص كیا گیا تھا جس میں كہا گیا تھا كہ:
جنوبی ایشیا كے مسلمانوں كی ایك طویل جدوجہد كے نتیجے میں پاكستان 14اگست 1947ء كو
ایك نئے اسلمی ملك كی حیثیت سے دنیا كے نقشے پر ابھرا۔ تحریك پاكستان دو قومی نظریہ كی
مرہون منت تھی اور دو قومی نظریہ ٬نظریہ اسلام كی بنیادپر قائم ہو ا تھا۔ لہٰذا نظریہ اسلم اور
پاكستان كا آپس میں چولی دامن كا ساتھ ہے۔ قیا م پاكستان كے بعد ضرورت اس امر كی تھی كہ
پاكستان كو اسلمی جمہوریہ بنایاجائ ے ۔ اس ضمن میں مارچ 1949ء میں پاكستان میں پہلی
دستور ساز اسمبلی نے پہل قدم اٹھایا جسے قرارداد مقاصد كا نام دیا گیا جس كا ملی آئین كے
بنیادی اصولو ں كی وضاحت كرنا تھی۔ قرارداد مقاصد كے بعد پاكستان كو اسلمی جمہوریہ بنانے
كے لیے بعد میں آنے والی حكومتو ں نے كئی اقدام كیے جن كا ذكر تفصل سے آئے گا ۔
قراداد مقاصد
پاكستان كے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد
پیش كی جو 12مارچ 1949ء كو منظور ہوئی۔ اس كی منظوری سے پاكستان كو اسلمی
جمہوریہ بنانے كے یلے ایك راستہ معین ہو گیا۔ قرارداد مقاصد كے اہم نكات مندرجہ ذیل ہیں:
پاكستان 231/2درجے سے 37درجے عرض بلد شمالی اور 61درجے سے 77درجے طول بلد
مشرق كے درمیان پھیل ہوا ہے اس كی مشرقی سرحد بھارت شمالی سرحد چین اور مغربی
سرحد افغانستان اور ایران سے ملتی ہے ۔ پاكستان كے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے ۔
٣۔ چین
شمالی پہاڑوں كے شمال میں چین واقع ہے۔ شاہراہ ریشم پاكستان اور چین كو ملتی ہے۔ یہ
پاكستان اور چین نے مل كر بنائی ہے۔ اور ان كے مابین بہت اچھے تعلقات ہیں۔ چین نے ہر مشكل
وقت میں پاكستان كا ساتھ دیا ہے اور پاكستان بھی چین كی دوستی پر فخر كرتا ہے پاكستان
میں كئی ترقیاتی منصوبے چین كی مدد سے چل رہے ہیں چین دفاعی طورپر بھی پاكستان كی
ہمیشہ حمایت كی ہے ۔چین پاكستان دوستی بے مثال ہے ۔
٤۔ ب ھارت
ہمارے مشرق میں بھارت كا ملك ہے جو آبادی میں چین كے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ
ایك زرعی ملك اور صنعتی ملك ہونے كے علوہ ایك بہت بڑی ایٹمی طاقت بھی ہے۔ آزدی كے بعد
اس كے اور ہمارے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ ان دونوں ممالك كے درمیان اب تك تین جنگیں ہو چكی
ہیں جس كی وجہ سے ا س خطے میں امن نہ ہونے كے باعث ترقی نہیں ہو سكی ۔ دونوں ممالك
اپنے دفاع كے لیے اپنی آمدن كا زیادہ سے زیادہ حصہ جنگی ہتھیاروں پر خرچ كر رہے ہیں ۔
دونوںممالك ایٹمی ہتھیاروں اور میزائ كی دوڑ میں بہت آگے نكل چكے ہیں اور اگر اب جنگ ہوتی
ہے تو یہ مكمل تباہی ہو گی اور كسی كے ہاتھ كچھ نہ آئے گا۔ ان كے درمیان دشمنی كی سب سے
بڑی خلیج مسئلہ كشمیر ہے اگر دونوں ممالك كشمیر كا مسئلہ باہمی گفت و شنید سے حل
كرلیں تو پورے جنوبی ایشئا میں امن و خوشحالی كا باعث ہو گا ۔
i۔ سفارت خانوں كا قیام
دنیا كے اكثر ممالك میں پاكستان كے سفارت خانے اور سفارتی مشن قائم كیے اور تمام ممالك
سے تعلقات استوار كرنے كی ابتدا كر دی گئی۔ قائد اعظم نے مختصر مدت میں بڑی تیزی سے
پاكستان كو خارجی دنیا سے متعارف كرایا۔ سفارت كاروں كو خصوصی ہدایات جاری كی گئیں كہ
وہ بھرپور انداز میں اپنے فرائض ادا كریں اور اپن ذمہ داریاں صحیح معنوں میں مشن سمجھ كر
اداكریں۔ آپ نے انہیں ہدایت كی كہ سیاسی ٬سفارتی ٬فوجی ٬تجارتی اورمعاشی شعبوں میں
قومی مقاصد كے حصول كے لیے كوشاں ہوں ۔
بھارت نے پاكستان كو نقصان پہنچانے كی بہت كوشش كی لیكن پاكستان كی خارجہ پالیسی نے
اس كے تمام عزائم ناكام بنا دیے۔ خارجہ امور میں پاكستان كی ابتدائی كامیابیاں اور بھارت كی
جانب سے جارہانہ اقدامات كا ناكام ہونا بنیادی طور پر قائد اعظم كی عمدہ قیادت ہی كی بدولت
تھا ۔
قائد اعظم نے طلبا پر اپنے گہرے اعتماد كا اظہار كیا ار ہمیشہ انہیں قوم كا قیمتی ترین سرمایہ
كہتے رہے۔ ایك دفعہ طلبا كو خطاب كرتے ہوئے فرمایا:
"پاكستان كو اپنے طلباپر فخر ہے جو ہمیشہ اگلی صفوں میں رہے اور قوم كی توقعات پر پورے
اترے۔ طلبائ ہمارا مستقبل ہیں وہ مستقبل كے معمار بھی ہیں۔ ان سے قوم نظم و ضبط چاہتی
ہے تاكہ وہ وقت كے چیلنجوں كا مقابلہ كر سكیں" ۔
انہوںنے اپنی تقریروں میں ہمیشہ طلبا میں حوصلہ پیدا كرنے والے الفاظ ادا كیے ۔ كیونكہ آنے والے
اوقات میں طلبائ نے بہت اہم كردار ادا كرنا تھا اورنئی قوم كو مضبوط اور مستحكم بنانا تھا ۔
قائد اعظم نے طلبا كو سیاست سے دور رہنے كا درس دیا اور كہا كہ وہ اپنی تمام تر قوت اور
صلحیت تعلیمی شعبے میں اعل ٰی درجے حاصل كرنے كے لیے استعمال كریں۔ مسلم طلبائ نے
آزادی كی جدوجہد اور اس كی كامیابی كے بعد بھی قائد اعظم كی نصیحتوں پر عمل كیا ۔
پاكستان ك ے متعلق قائد اعظم كی سیاسی بصیرت
قائد اعظم نے اپنی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی و معاملہ فہمی سے قوم كو اپنے قدموں پر
كھڑا كر دیا ہے اور مختلف مقامات اٹھا كر خطرات كو دور كرتے ہوئے پاكستان كو سالمیت اور
استحكام دینے میں شاندار كامیابیاں حاصل كیں۔ قوم كو مایوسیوں سے نكال كا قائد اعظم نے
پر اعتماد فضا فراہم كی۔ عظیم قائد كو آزادی كے حصول كے بعد ایك سال اور ایك ماہ كام كرنے
كا موقع اللہ پاك نے دیا اور اس مختصر عرصے میں انہوںنے قوم كو ترقی اور خوشحالی كی راہ
پر ڈال دیا ۔
قائد اعظم نے عوام كے حوصلوں كو ابھارا۔ انہیں قوت ارادی اورہمت كے ساتھ حالت كامقابلہ
كرنے كی تلقین كی ۔ انہوںنے قوم كو پر اعتماد ركھنے كے لیے مختلف جلسوںمیں تقاریر كیں ۔ ایك
بار فرمایا:
٫٫تاریخ میں ایسی كئی مثالیں وجود ہیں كہ نوجوان قوموں نے اپنے كردار كی پختگی اور پكے
ارادے كی بدولت اپنے آ پ كو مضبوط بنایا۔ ہماری تاریخ بہادر ی اور عظمت كی داستانوں سے
بھری ہوئی ہے۔ ہمیں اپنے آ پ میں مجاہدوں كی سی روح پیداكرنی ہو گی٬٬۔
بھارت نے لكھوں افراد كو پاكستان دھكیل كر سمجھا تھا كہ معاشی دبائو اوربحران پاكستان كو
لے ڈوبے گا لیكن پاكستانی قوم نے اپنے قائد كی نصیحت پر عمل كرتے ہوئے مردانہ وارمقابلہ كیا ۔
یكجہتی اور اتحاد كے ساتھ آنے والے طوفان كا سامنا كیا۔ دل گرفتہ مہاجرین كو رفتہ رفتہ گھروں
میں بسایا گیاا۔ پاكستان سے بھارت چلے جانے والے ہندوئوں اور سكھوں كی متروكہ املك
مہاجرین كو الٹ كی گئیں ۔ ان كے لیے روزگار كے ذرائع پیدا كیے گئ ے ۔ پاكستان كی انتظامی
مشینری نے روایتی دفتر شاہی سے دور رہتے ہوئے عوام كے تعاون كے ساتھ مہاجرین كوآباد كیا ۔
قائد اعظم نے لہو ر میںایك اجتماع میں تقریر كرتے ہوئے فرمایا:
٫٫ہم پاكستانی عوام پر یہ فرض عائد ہوتا ہے كہ ہم ان مہاجرین كو بسانے كے لیے ہر ممكن امداد
مہیا كریں جو پاكستان آ رہے ہیں ان لوگوں كو یہ مسائل اس لیے درپیش ہیں كہ وہ مسلم قوم سے
تعلق ركھتے ہیں٬٬۔
٫٫آپ اپنے جملہ فرائض قوم كے خاد م بن كر ادا كیجیے۔ آپ كا تعلق كسی سیاسی جماعت سے
نہیں ہونا چاہیے۔ اقتدار كسی بھی جماعت كومل سكتا ہے۔ آپ ثابت قد می اور ایمان اور عدل كے
ساتھ اپنے فرائض بجا لئیے۔ اگر آپ میری نصیحت پر عمل كریں گے تو عوام كی نظروں میں آ
پ كے رتبے میں اضافہ ہو گا٬٬۔
٣۔ صوبائیت اور نسل پرستی س ے گریز
قائد اعظم جانتے تھے كہ اگرپاكستانی عوام آنے والے سالوںمیں صوبائیت اورنسل پرستی ذات
پات اور دیگر تعصبات میں الجھ گئے تو قومی یكجہتی كو بہت نقصان پہنچے گا۔ انہوںنے پاكستانیوں
میں قومی یكجہتی كے فروغ اور باہم اتحاد كے قیام پر زور دیا ۔ ان كی نصیحت تھی كہ عوا م كو
علقائی نسلی اورلسانی بنیادوں پر سوچنے كی بجائے قوی سوچ اپنانی چاہی ے ۔ قائد اعظم نے
ریاستوں اور قبائلی علقوں كی اہمیت كے پیش نظر ایك وزیر برائے سٹیٹس و قبائلی امور بنایا ۔
مختلف ریاستوں كے حكمرانوں سے رابطے كیے اور انہیں قومی دھارے پر پوری طرح شامل كرنے
اور پاكستانی رویہ اپنانے كا مشورہ دیا ۔
پاكستان دشمنوں نے ملك خداداد كے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی عوام میں گمراہ كن خبریں
پھیلئیں۔ انہیں باور كرانے كی كوشش ی كہ پاكستان كمزور ہونے كے سبب زیادہ عرصہ قائم نہیں
رہ سكے گا ۔ عوام میں بھلئی علقائی صوبائ یاور لسانی تعصبات كو ہوا دی گئی ۔ مایوسی اور
كوششں بالخر ناكام ہو گئیں ۔ قائد اعظم كی سربراہی میںٰ لتعلقی كی فضا بناے كی گمراہ كن
پاكستانی عوام نے قومی جذبوں كو ابھارنے ركھا اور دیگر تعصبات كو كوئی اہمیت نہ دی كیونكہ
عوام كو پاكستان دشمن عناصر كے عزائم سے قائداعظم نے بروقت باخبر كر دیا تھا۔ انہوںنے
پاكستانی عوام كو واضح كر دیا كہ ان كی قوت اتحاد میں ہے۔ وہ جب تك متحد و یكجا رہیں گے
كوئی قوت انہیں نقصان نہیں پہنچا سكے گی۔ اتحاد تنظیم یقین محكم كا نعرہ اسی حوالے سے
قائد اعظم نے اپنی قوم كو دیا تھا ۔
٤۔ معیشت ك ے لی ے ر ہنما اصول
لكھوں افراد كا نقل مكا نی كرنا ٬قتل و غارت لوٹ مار كشمیر میں جنگ آزادی انتظامی
مشینری كے مسائل 1948ئ كے سیلب اور بھارت كی طرف سے پاكستان كواثاثوں میں سے
حصہ جائز نہ ملنا ٬بے روزگاری اور غربت یہ سارے عناصر قوم اور اس كے قائد كے لیے بہت بڑا
چیلنج ت ھے ۔ بھارت جان بوجھ كر پاكستان كی معیشت كو تباہ كرنے كے درپے تھا ۔ افراتفری اور
معاشرتی توڑ پھوڑ پاكستان كے معاشی حالت كو بہتر بنانے كی راہ میں ركاوٹ تھی۔ ایسے حالت
میں قائد اعظم ملك كی معیشت كو سنبھال اوراسے اپنے قدموں پر كھڑا كرنے اور عوام كی
مشكلت كو دور كرنے كے لیے پورے عزم كے ساتھ آگے بڑ ھے ۔
i۔ ریزرو بنك آ ف انڈیا دونوںممالك كی بینكنگ كی ضروریات كا ذمہ دار تھا۔ بنك میں ہندوئوں كی
اجارہ داری تھی۔ اور ان سے پاكستان كی ترقی كے كردار كی توقع كرنا عبث تھا۔ قائد اعظم نے
سٹیٹ بینك آف پاكستان كی بنیاد ركھی۔ یہ بنك یكم جولئی 1948ئ كو وجود میں آیا قائد اعظم
نے اس كی افتتاحی تقریب میں تقریر كرتے ہوئے فرمایا:
٫٫سٹیٹ بنك آف پاكستان معاشی شعبے میں ہمارے عوام كی حاكمیت كا نشا ن ہے ۔ مغربی طرز
معیشت ہمیں فائدہ نہیں دیتا۔ ہمیں انصاف اور مساوات پر مبنی اپنا جداگانہ معاشی نظا م لنا ہو
گا۔ مغربی معاشی نظام نے تو انسانیت كے لیے كئی دشواریاں پیدا كر دی ہی ں۔ اگر ہم ایسا كر
پاتے ہی تو ہم مسلم قوم كی حیثیت سے پورے عالم كو ایسا معاشی نظام دے سكیں گے جو
انسانوں كے لیے امن كا پیغام بنے گا۔ امن ہی انسانوں كی بقا اور اچھی معیشت كو قائم كر
سكتا ہے٬٬۔
ii۔ مہاجرین كی امداد كے لیے آپ نے عوام كو دل كھول كر چندہ دینے كی تلقین كی اور ایك
ریلیف فنڈ قائد اعظم ریلیف فنڈ برائے مہاجرین قائم كیا اس رقم سے انہوںنے مہاجرین كی آباد
كاری اور انہیں روزگار مہیا كرنے كا اہتمام كیا ۔ یو ں ملكی معیشت كو كافی حدتك سہارا مل ۔
٥۔ انتظامی ہ میں اصلحات
پاكستان بننے كے بعد انتظامی مشینری نہ ہونے كے برابر تھی۔ بڑی تعداد میں دفتری عملہ
پاكستان سے ہندوستان چل گیا ۔ دفاتر میں كام كرنے كا تجربہ ركھنے والے مسلمانوں كی تعدا د
كافی كم تھی۔ وسائل نا پید تھے بھارت نے جان بوجھ كر تاخیری حربے استعمال كیے جو تھوڑے
بہت مسلمان بھارت میں انتظامی امور كی سوجھ بوجھ ركھتے تھے اور پاكستان آنا چاہتے تھے ان
كی راہ میں ركاوٹیں پیدا كی گئیں ۔
قائد اعظم نے انتظامی مشینری كو سمجھتے ہوئے فوری اقدام كی ے ۔ كراچی كو دارالحكومت بنایا
گیا۔ جو تھوڑی بہت تعداد سركاری ملزمین كی دفتروں میں پہنچی قائد اعظم نے انہیں قومی
جذبے سے كام كرنے كو كہا۔ نئی نئی آزادی ملی تھی ہر دل میں امنگ تھی مقصد او رخواہش تھی
كہ پاكستان جلد از جلد اپنے قدموں پر كھڑا ہو جائے۔ دفتری ساز و سامان سٹیشنری وغیرہ
ناپیدتھی لیكن كام كیا گیا اور دیكھتے ہی دیكھتے ایك مربوط نظام ترتیب پا گیا۔ بھارت سے
سركاری ملزمین لنے كے لیے خصوصی بندوبست كیے گئے۔ ٹاٹا ائیر كپنی سے سمجھوتہ ہوا اور
ملزمین كی منتقلی كا كام آگے بڑھا ۔
چودھری محمد علی جو بعد میں پاكستان كے وزیر اعظم بنے ایك بیوروكریٹ تھے انہوںنے سول
سروس كو نئے سرے سے آراستہ و منظم كیا ۔ سول سروس رولز بن ے ۔ نیوی ائر فورس اور بری
فوج كے ہیڈكوارٹر بنائے گئ ے ۔ فارن سروس اكائونٹ سروس اور دوسری سروسز كا آغاز كیا گیا ۔
انتظامی مشینری ترتیب پا گئی۔ تو مختلف منصوبوں پر تیزی سے كام شروع ہو گیا اور ملك میں
حالت كافی حد تك معمول پر آ گئ ے ۔ مشینری كو ترتیب دینے میں قائد اعظم كا مركزی رول تھا ۔
اللہ كے فضل و كرم سے اسلمی جمہوریہ پاكستان 14اگست 1947ئ كو وجود میں آ گیا لیكن
كانگرس نے پاكستان كے قیام كو دل سے كبھی قبول نہ كیا۔ لرڈ مائونٹ بیٹن اور سر ریڈ كلف نے
كانگرسی رہنمائوں كو یہ كہہ كر راضی كر لیا كہ كمزور پاكستان بعد میں ہندوستان میں ضم كیا
جا سكے گا۔ قائد اعظم كی عظیم قیادت میں پاكستانیوںنے مشكل حالت كے باوجود اپنی آزادی
كے تحفظ كا بھرپور عزم كیا۔ انہوںنے حالت كا بہادری سے مقابلہ كیا اور رفتہ رفتہ مسائل پر قابو
پا لیا۔ قوم نے مثالی جذبوں ٬محنت اور دیانت كا زبردست مظاہرہ كیا ۔ ہندو اكثریت كے صوبوں
سے ہجرت كر كے آنے والے مسلمان خاندانوں پر جو گزری وہ ظلم كی اندوہناك داستان ہے۔ یہ
صبر استقامت اور قربانیوں كی لثانی مثال بھی ہے۔ یہ اللہ تعال ٰی كا كرم ہے كہ تمام مشكلت اور
مخالفتوں كے باوجود پاكستان بنا اور قائم و دائم ہے۔ مملكت خداداد كے ابتدائی سالوں میں جن
مسائل كا قوم كو سامنا كرنا پڑا وہ درج ذیل ہیں:
ابتدائی مشكلت
١۔ ری ڈكلف ایوار ڈ كی ناانصافیاں
3جون 1947ئ كے منصوبہ كے تحت طے پایا تھا كہ پنجاب اور بنگال كے صوبوں كو مسلم اور غیر
مسلم اكثریتی علقوں میں تبدیل كر دیا جائے گا۔ مسلم اكثریتی علقے پاكستان اور باقی علقے
ہندوستان كا حصہ بنیں گے۔ علقوں كی حد بندی كے لیے ایك كمشن بنانے اور اس كی ثالثی كو
قبول كرنے پر اتفاق رائے ہوا ۔ ایك برطانوی ماہر قانون سر ریڈ كلف كو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔
سر ریڈ كلف نے لرڈ مائونٹ بیٹن كے دبائو میں آ كر غیر منصفانہ تقسیم كی۔ مسلم اكثریت كے
بعض تسلیم شدہ علقوں كو ایك سازش كے تحت ہندوستان میں شامل كر دیا گیا۔ آبادی كے
مطابق طے پانے والے نقشے اور اس پر كھینچی گئی لكیر كو بدل دیاگیا۔ اس امر كا اعتراف ریڈ
كلف كے پرائیویٹ سیكرٹری نے كیا اور اب تو یہ ایك تاریخی حقیقت مانی جا چكی ہے كہ نا
انصافی كرتے ہوئے بعض اہم ترین علقوں سے پاكستان كو محروم كر دیا گیا ۔ ضلع گوردارسپور
كی تین تحصیلیں گورداسپور ٬پٹھانكوٹ ٬اور بٹالہ كے علوہ ضلع فیروز پور كی تحصیل زیرہ اور
بعض دوسرے علقے بھارت كو سونپ دیے گئے۔ گورداسپور كے علقوں كو ہندوستان میں شامل
كرنے سے ریاست جموں و كشمیر كا راستہ ہندوستان كو دے دیا گیا ۔
سر ریڈ كلف كے ایوارڈ سے نہ صرف مسلمانوں كو ان كے علقوںا ور حقوق سے محروم كیا گیا
بلكہ دونوں قوموں كے درمیان مستقل مخالفت كا بیج بو دیا گیا۔ آج مسئلہ كشمیر موجود ہے
اوردونوں ملك اب تك 1948ئ 1965 ،ئ اور 1971ئ كی تین بڑی جنگیںلڑ چكے ہیں ۔
٥۔ بلوچستان
بلوچستان كو ابھی مكمل صوبائی درجہ نہیں مل تھا۔ طے پایا كہ وہاں شاہی جرگہ بلیا جائے گا اور
نیز كوئٹہ كی میونسپل كمیٹی كے اركان كی رائے لی جائے گی ان كی مرضی كے مطابق
بلوچستان كے مستقبل كا فیصلہ ہو گا ۔
٦۔ سل ہٹ
آسام كا ضلع سلہٹ مسلم اكثریتی تھا وہاں كے عوام نے مسلم لیگ كا بھرپور ساتھ دیاتھا ۔ جون
1947ئ كے منصوبے میں طے پایا كہ ایك ریفرنڈم كے ذریعے عوام كو موقع دیا جائے گا كہ وہ
ہندوستان یا پاكستان میں سے كسی ایك كے ساتھ ملنے كا فیصلہ كر لیں ۔
٨۔ ریاستیں
برصغیر میں 635ریاستیں تھیں جہاں نواب اور راجے حكومت كر رہے تھے۔ وہ داخلی طور پر
بااختیار تھے لیكن انہیں خارجی اقتدار اعل ٰی حاصل نہیں تھا۔ ہر ریاست كو حق دیا گیا كہ وہ دونوں
ممالك میں سے جس سے چاہیں الحاق كر لیں۔ ایسا كرتے وقت ہرریاست اپنی جغرافیائی حیثیت
اور مخصوص حالت كو پیش نظر ركھے گی ۔
تین جون 1947كا منصوب ہ
لر ڈ مائونٹ بیٹن كا تقرر
لرڈ ویول بطوروائسرائے نہ تو ویول پلن كو كامیاب بناسكا اور نہ ہی كابینہ مشن پلن كی كامیابی
سے ہمكنار ہوا۔ كانگرس كی خوشنودی حاصل كرنے كی كوشش میں آدھے كابینہ مشن پلن پر
عمل درآمد كرنے كی كوشش كی یعنی صوبوں كے گروپ نہ بنانے اور عبوری حكومت و آئین
سازی كے كامو ں پر عمل درآمد شروع كر دیا۔ قائد اعظم نے مصلحتا ً عبوری حكومت میں تو
مسلم لیگ كو شریك ہونے كی اجاز ت دے دی لیكن انہوںنے آئین ساز اسمبلی كے اجلسوں كا
بائیكاٹ كرنے كا فیصلہ كیا ۔ قائد اعظم پورے پلن پر عمل درآمد چاہتے ت ھے ۔ اس طرح آئین سااز
كا عمل جاری نہ ہو سكا اور جو تعطل پیدا ہوا اس سے مایوس ہو كر حكومت برطانیہ نے نئی راہ
اختیار كرنے كا فیصلہ كر دیا ۔
برطانوی وزیر اعظم نے 20فروری 1947ئ كو اعلان كیا كہ برصغیر سے برطانوی راج جون
1948ئ تك ختم ہو جائے گا۔ اقتدار كی منتقلی كے آخری مرحلے پر عمل درآمد كے لیے برطانوی
حكومت نے لرڈ ویول كی جگہ لرڈ مائونٹ بیٹن كو وائسرائے بنا كر بھیجا ۔
سیاسی قائدین س ے مذاكرات
مائونٹ بیٹن نے آخری وائسرائے كی حیثیت سے اختیارات سنبھالتے ہی مختلف قائدین سے
ملقاتین شروع كر دیں۔ قائد اعظم كا موقف حقائق اور اصولوںپر مبنی تھا۔ وہ پاكستان سے كم
كسی اور حل كو قبول كرنے پر آمادہ نہ ت ھے ۔ 46-1945كے انتخابات نے ان كے نقطہ نظر كو
بالكل واضح ثابت كر دیا تھا۔ وائسرائے كو یقین ہو گیا كہ وہ كسی صورت تخلیق پاكستان كو نہ
روك سكے گا اور متحدہ ہندوستان كا خواب بھی پورا نہیں ہو گا۔ اس لیے مائونٹ بیٹن نے
كانگرسی لیڈروںكو تقسیم پر آمادہ كر لیا۔ اندرون خانہ انہیں باور كرایا كہ ایسا كمزور اور كٹا
پھٹاپاكستان بنایا جائے گا جو زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سكے گا۔ آنے والے دنوں میں اس نے اپنا وعدہ
پورا كر دكھایا لیكن خدائے ذوالجلل كے كرم سے پاكستان بنا اور قائم بھی رہا ۔ پاكستان كو ختم
كرنے كی ناپاك كانگرسی عزائم ناكام ہوئے۔ مائونٹ بیٹن اور نہرو كی سازشیں نہ پاكستان كو
بننے سے روك سكیں اورنہ اسے بعد ازاں انڈین یونین میں ضم كرنے میں كامیاب ہوئیں ۔
مائونٹ بیٹن نے برصغیر كو آزادی دینے كا منصبوبہ تیار كیا۔ دونوں بڑی جماعتوں سے مثبت رویہ
كی یقین دہانی لے كر منصوبے كو برطانوی حكومت سے منظور كروایا ۔ 3جون 1947ئ كے
منصوبے كی تفصیل درج ذیل ہے ۔
كانگرس كا منشور
كانگرس كا منشور تھا كہ جنوبی ایشیا كو ایك وحدت كی صورت میں آزاد كر دیا جائے گا ۔ تقسیم
كی كوئی سكیم قابل قبول نہ ہو گی۔ اكھنڈ بھارت قائم رہے گا۔ كانگرس كا دعو ٰی تھا كہ وہ
برصغیر میں رہنے والے تمام گروہوں اور فرقوں كی نمائندہ جماعت ہے اور مسلمان بھی كانگرس
كے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہیں ۔
انتخابی م ہم
تمام جماعتوںنے زبردست مہم چلئی۔ كانگرس ہر صورت میں مسلم لیگ كے عزائم كو ناكام بنانا
چاہتی تھی۔ اس كے قائدین نے پورے ملك میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تك دورے
كیے۔ كانگرس نے یونینسٹ پارٹی مجلس احرار ٬جمعیت العلمائے ہند اور دیگر مسلم جماعتوں
سے انتخابی اتحاد كیے اور مسلم لیگ كا راستہ روكنے كا ہر ممكن قدم اٹھایا ۔ دوسری جانب
انتخابات چونكہ مسلمانوں كے لیے موت و حیات كا معاملہ تھا اس لیے مسلم لیگ كے لیڈروںنے ملك
گیر دورے كیے۔ قائد اعظم نے اپنی خرابی صحت كے باوجود طوفانی دورے كر كے مسلمانوںكو
وقت كی ضرورت سے آگاہ كیا۔ مسلم لیگ تیزی سے مقبولیت حاصل كرنے لگی۔ بہت سے
مسلمان رہنما اپنی جماعتوں سے قطع تعلق كر كے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ قائد اعظم نے
اپنے جلسوں میں كھلم كھل كانگرس كوچیلنج كیا كہ انتخابات میںمسلم للیگ پاكستان كے بارے
میں اپنے مطالبے كو سچا ثابت كرے گی اور مسلمانان برصغیر پاكستان تخلیق كر كے دم لیں گ ے ۔
مسلم عوام نے زبردست جذبات كا اظہار كیا۔ مسلم طلبائ و طالبات میدان میں نكل آئے۔ شہر
شہر اور قریہ قریہ لیگی كاركنوں كی ٹولیاں پہنچیں۔ فضا پاكستان زندہ باد كے نعروں سے گونجنے
لگی۔ بن كے رہے گا پاكستان۔ لے كے رہیں گے پاكستان ۔ اور پاكستان كا مطلب كیا ل الہ ال اللہ كے
نعرے زبان زد عام تھے ۔ ہر آنے وال دن مسلم لیگ كے موقف كو مضبوط تر بناتا گیا ۔
انتخابات ك ے نتائج
مركزی قانون ساز اسمبلی كے انتخابات دسمبر 1945میں كروائے گئے۔ یہ جداگانہ طریق انتخاب
كی بنیاد پر منعقد ہوئے۔ پورے برصغیر میںمسلمانوں كے لیے 30نشستیں مخصوص تھیں ۔
مسلم لیگ نے ہر نشست پر اپنے نمائندے كھڑے كیے۔ كسی سیاسی جماعت سے انتخابی اتحاد نہ
كیا اور اكیلے كئی جماعتوںكا مقابلہ كیا ۔ نتائج منظر عام پر آئے تو مسلم لیگ فاتح نكلی ۔ تمام
30مخصوص مسلم نشستوں پر مسلم لیگ كے ٹكٹ پر كھڑے ہونے والے امیدوا ر كا میاب ہوئ ے ۔
یوں سو فیصد كامیابی مسلم لیگ كو ملی۔ یہ شاندار اور مثالی فتح تھی۔ یہ وہ جادو تھا جو سر
چڑھ كر بول ۔ 1946ئ میں صوبائی اسمبلیوں كے انتخابات ہوئے۔ مسلمانوں نے تمام صوبائی
اسمبلیوں میں مجموعی طورپر 495نشستیں مخصوص تھیں۔ مسلم لیگ نے 434نشستیں جیت
لیں اور صوبائی سطح پر بھی شاندار فتح حاصل كی۔ سیاسی جماعتوں نے كانگرس كی حمایت
كی تھی لیكن مسلم لیگ نے ان سب كو شكست دی۔ اب پاكستان بننے سے دنیا كی كوئی طاقت
روك نہیں سكتی تھی ۔ انتخابی نتائج نے پاكستان كی بنیاد مضبوط كر دی تھی ۔
كرپس مشن
سرسٹیفورڈ كرپس كی قیادت میں ایك مشن 1942ئ میں برصغیر آیا ۔ مسلمان تقسیم
ہندوستان كا مطالبہ قراردادپاكستان كے ذریعے كر چكے تھے۔ كانگرسی رہنما جنگ عظیم دوم )
(1945-1939میں جاپانیوں كی ابتدائی كامیابیوں كی وجہ سے حكومت كے خلف تحریكیں چل
رہے تھے اور توقع كر رہے تھے كہ جاپانی افواج برطانوی حكمرانوں كو برصغیر سے نكال كر اقتدار
اعلیٰ ہندوستانیوں كے سپرد كر دیں گی ۔
كرپس تجاویز
كرپس مشن اپنے ساتھ درج ذیل تجاویز لیا ۔
١۔ جنگ كے بعد برصغیر كو ڈومینین كا درجہ دیا جائ ے ۔
٢۔ دفاع ٬امور خارجہ مواصلت وغیرہ سمیت تمام شعبے ہندوستانیوں كے سپر د كردیے جائیں
گے ۔
٣۔ آئین سازی كے لیے ایك مركزی اسمبلی منتخب كی جائے گی جس كے لیے چنائو كا اختیار
صوبائی قانون ساز اسمبلیوں كے اركان كو حاصل ہو گا ۔
٤۔ اقلیتوں كے حقوق كے تحفظ كے لیے مناسب اقدام اٹھائے جائیں گ ے ۔
٥۔ آئین مكمل ہو گیاتو اسے ہر صوبے كی توثیق كے لیے بھیجا جائے گا۔ جو صوبے آئین كو پسند
نہیںكریں گے وہ با اختیار ہوں گے كہ مركز سے علیحدہ ہو كر اپنی آزاد حیثیت قائم كر لیں ۔
پاكستان كا مطالبہ كیوں ہوا؟ اس كی تخلیق كی ضرورت كیوں محسوس كی گئی؟ ہم ذیل میں
ان محركات كا ذكر كرتے ہیں ۔ جو پاكستان كو وجود میں لنے كا باعث بن ے ۔
تحریك ك ے قائدین
مولنا محمد علی جوہر ٬مولنا شوكت علی ٬مولنا حسرت موہانی ٬مولنا ظفر علی خاں ٬ابو
الكلم آزاد ٬حكیم اجمل خاں اورمتعدددوسرے راہنمائوں نے اپنی داخلی سیاست كو نظر
اندازكرتے ہوئے تمام تر توجہ خلفت كے مسئلہ پر مركوز كر دی۔ انہوںنے ایك خلفت كمیٹی قائم
كی مجلس خدام كعبہ كو منظم كیا اور زبردست سرگرمیوں كا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ مولنا
عبدالباری ٬مشیر حسین قدوائی اور مولنا سید سلیمان ندوی وغیرہ مولنا محمد علی جوہر كی
قیادت میں ایك وفد كی صورت میں برطانوی وزیر اعظم سے ملقات كر كے اسے ہندوستانی
مسلمانوں كے جذبوں سے آگاہ كرنے گئ ے ۔ وفد برطانوی سیاست دانوں سے مل ۔ مغربی ممالك
میں مختلف شہروں میں جلسے منعقد كے۔ واپس آئے تو برصغیر كے طول و عرض میں جلوس
نكالے اور جلسوں كا اہتمام كیا۔ تحریك خلفت كو برصغیر میں چلئی جانے والی تمام تحریكوں
میں سب سے زیادہ پر جوش اور زبردست مانا جاتا ہے ۔
تحریك ك ے مقاصد
تحریك خلفت ایك كثیر المقاصد تحریك تھی۔ اس نے برصغیر كے مسلمانوں كو ایك پلیٹ فارم پر
منظم كیا۔ وقتی طور پر آل انڈیا مسلم لیگ كی طرف سے مسلم عوام كی توجہ ہٹ گئی۔ وہ
خلفت كے تحفظ كے لیے جان و مال كی بازی لگائے بیٹھے تھے۔ تحریك كے سامنے تین اہم مقاصد
درج ذیل تھے:
تركی بحیثیت ایك مملكت قائم ر ہے ۔ شكست كی صورت میں اس كی جغرافیائی سرحدیں
جوں كی توں رہیں ۔ اس كے ٹكڑے نہ كیے جائیں ۔
خلیفہ موجود رہے اور تركی میں خلفت كا ادارہ اپنی حیثیت برقرار رك ھے ۔
حجاز مقدس كی حرمت پر كوئی آنچ نہ آئے۔ غیر مسلم افواج ان دونوں شہروں میں داخل نہ
ہوں ۔
تحریك كی سرگرمیاں
ً
تحریك خلفت كے تحت وفود بھیجے گئے۔ وفود نے یورپ ممالك اور خصوصا برطانیہ میں
برصغیر كی مسلم رائے عامہ سے حكومتوں كو آگاہ كیا ۔
ڈاكٹروں اور نرسوں كے گروپ ترك مجاہدوں كی مرہم پٹی كے لیے بھیجے گئے۔ ادویات بھی
فراہم كی گئی ۔
ترك حكومت كو رقوم مہیا كی گئیں۔ مسلم عوام نے كثیر دولت كرنسی ٬سونے اور چاندی كی
صورت میں جمع كر كے تركی كی مالی امداد كے لیے روانہ كی ۔
برصغیر كے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بڑے بڑے جلوس نكالے گئے۔ جلسے منظم كیے
گئے ہڑتالیں كی گئیں اور مسلم عوام نے بڑی تعداد میں گرفتاریاں پیش كیں۔ تحریك كے لیڈروں
كوجیلوں میں بند كر دیا گیا لیكن تحریك كی آب و تاب میں كوئی فرق نہ آیا ۔
تحریك خلفت میں مولنا محمد علی جوہر اور مولنا شوكت علی كی اماں كا كردار بھی
اہمیت كا حامل تھا۔ ان دنوں میں یہ نعرہ بہت مقبول ہوا٫٫ :كہتی ہے اماں محمد علی كی جان بیٹا
اپنی خلفت پہ دے دو٬٬۔
مسلم صحافت نے بھی زور دار كردار ادا كیا۔ مولنا ظفر علی خاں نے زمیندار مولنا آزاد نے
الہلل اورمولنا محمد علی جوہر نے كامریڈ و ہمدرد اخبار كے ذریعے مسلم عوام كے ذہنوں میں
طوفان پیدا كردیا ۔
گاند ھی كا كردار
گاندھی كو موقع مل گیا كہ وہ مسلمانوں كو اپنے مقاصد كے لیے استعمال كر سكے۔ اس نے كھلم
كھل تحریك خلفت كی حمایت كی۔ تحریك كے جلسوں میں شركت كی اور مسلمانوں كو اپنے
پورے تعاون كا یقین دلیا۔ انڈین نیشنل كانگریس نے گاندھی كے ایما پر تحریك كا پورا پورا ساتھ
دیا۔ گاندھی نے جنگ عظیم اول كے دوران تحریك عدم تعاون تحریك ترك موالت اور سول
نافرمانی كی تحریك شروع كر ركھی تھی۔ تحریك خلفت كی حمایت كر كے وہ مسلمانوں كو
اپنی تحریك میں شامل كرنے میں كامیاب ہو گیا۔ اس نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ:
حكومت كی طرف سے دیے گئے القابات واپس كر دیں ۔
سركاری ملزمتوں سے استعفے دے دیں ۔
تعلیم چھوڑ كرسڑكوں پر نكل آئیں ۔
گرفتاریاں دیں ۔ محصول دینے سے انكار كر دیں ۔
حكومت كی جانب سے ملنے والی مالی امداد لینے سے انكار كر دیں ۔
اپنا گھربار بیچ كر افغانستان ٬ایران یا كسی دوسرے مسلم ملك میں ہجرت كر جائیں ۔
مسلمان راہنما گاندھی كی سازش كو سمجھ نہ سكے اور اس كی باتوں میں آ كر ایسے اقدام
اٹھائے كہ مسلمانوں كی معیشت تعلیم اور سماجی حالت پر بے حد برا اثر ڈال۔ لكھوں مسلمان
اپنا سب كچھ بیچ كر افغانستان كی طرف ہجرت كی غرض سے چل پڑ ے ۔ لیكن حاكم افغانستان
نے انہیں افغانستان كے اندر داخل ہونے كی اجازت نہ دی۔ مجبورا مسلمان واپس آئے اوریہاں
بربادی ٬بھوك اور بدحالی ان كی منتظر تھی۔ بے پناہ نقصان اٹھانے كے بعد مسلمانوں كی آنكھیں
كھلیں اور انہیں گاندھی كا اصلی چہرہ پہچاننے كا موقع مل ۔
تحریك كا انجام
برصغیر كے مسلمانوں نے گاندھی كا پوراپورا ساتھ دیاتھا۔ لیكن جنگ عظیم اول كے خاتمے پر جب
گاندھی جی نے محسوس كر لیا كہ وہ حكومت كو بلیك میل كركے اپنے مقاصد حاصل نہیں كر
سكے گا تو ا س نے مسلمان قائدین سے پوچھے بغیر اپنی تحریكوں كے خاتمے كا اعلن كر دیا
جس سے مسلمانوں كوشدید مایوسی ہوئی ۔
دوسری جانب تركی شكست كے قریب پہنچ چكا تھا۔ كہ ایك جرنیل غازی مصطفی كمال پاشا نے
بكھری ہوئی ترك افواج كو دوبارہ یكجا كیا ان میں نیا حوصلہ پیدا كیا۔ مصطفی كمال پاشا نے
ترك خلیفہ كو اقتدار سے الگ كر كے ملك كی سربراہی خود سنبھال لی ۔
روس اور برطانیہ دونو ں تركی پر قبضہ كا ارادہ ركھتے تھے لیكن ان كی باہمی رقابت تركی كی
سلمتی كا سبب بن گئی۔ اتحادیوں نے مصطفی كمال پاشا سے ایك معاہدہ معاہدہ لوازن كے نام
البتہ مشرق وسط ٰی اور شمالی افریقہ كے علقوں سے طے كیا۔ یوں تركی كا اقتدار اعل ٰی بچ گیا٬
پر تركی كا كنٹرول ختم ہو گیا ۔ حجاز مقدس كوعربوں كے حوالے كر دیا گیا ۔ یوں درحقیقت
خلفت كے مقاصد كسی حد تك پورے ہو گئے كیونكہ تركی محفوظ رہا ٬حجاز مقدس میں غیر
مسلم افواج داخل نہ ہوئیں اور وہاں كا كنٹرول عرب مسلمانوں نے سنبھال لیا۔ خلفت كا ادارہ
ختم ہو گیا كہ لیكن اس كا خاتمہ اتحادیوں نے انہیں خود ترك افواج اور ان كے سالر اعل ٰی غازی
مصطفی كمال پاشا نے كیا ۔
آل ان ڈیا مسلم لیگ كا قیام
آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ئ میں ڈھاكہ كے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوكیشنل
كانفرنس كے سالنہ اجلس كے ختم ہونے پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم
عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خاں كی دعوت پر ایك خصوصی اجلس میں شركت كی ۔
اجلس میں فیصلہ كیا گیا كہ مسلمانوں كی سیاسی راہنمائی كے لیے ایك سیاسی جماعت تشكیل
دی جائ ے ۔ یاد رہے كہ سرسید نے مسلمانوں كو سیاست سے دور رہنے كا مشورہ دیا تھا ۔ لیكن
بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی
پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگ ے ۔ ڈھاكہ اجلس كی صدارت وقار الملك نے كی ۔
مولنامحمد علی جوہر ٬مولنا ظفر علی خاں ٬حكیم اجمل خاں ٬اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت
بہت سے اہم مسلم اكابرین اجلس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ كا پہل صدر سر آغا خان كو چنا
گیا۔ مركزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن
برانچ كا صدر سید امیر علی كو بنایا گیا ۔
تعلیمی خدمات
سرسید كا نقطہ نظر تھا كہ مسلم قوم كی ترقی كی راہ تعلیم كی مدد سے ہی ہموار كی جا
سكتی ہے۔ انہوںنے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ وہ جدید تعلیم حاصل كریں اوار دوسری اقوام كے
شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوںنے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلكہ مسلمانوں كے لیے جدید علوم كے
حصول كی سہولتیں بھی فراہم كرنے كی پوری كوشش كی۔ انہوںنے سائنس ٬جدید ادب اور
معاشرتی علوم كی طرف مسلمانوں كو راغب كیا۔ انہوںنے انگریزی كی تعلیم كو مسلمانوں كی
كامیابی كے لیے زینہ قرار دیا تاكہ وہ ہندوئوں كے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل كر سكیں ۔
1859میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ئ میں غازی پور میں مدرسے قائم كی ے ۔ ان مدرسو ں
میں فارسی كے علوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے كا بندوبست بھی كیا گیا ۔
1875ئمیں انہوںنے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی سكول كی بنیاد ركھی جو بعد ازاں ایم اے او
كالج اور آپ كی وفات كے بعد 1920ئ میں ایونیورسٹی كا درجہ اختیار كر گیا ۔ ان اداروں میں
انہوںنے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ كی خدمات حاصل كیں ۔
1863ئ میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفك سوسائٹی كے نام سے ایك ادارہ بنایا۔ اس ادارے
كے قیام كا مقصد مغربی زبانوں میں لكھی گئی كتب كے اردو تراجم كرانا تھا ۔ بعد ازاں 1876ء
میں سوسائٹی كے دفاتر علی گڑھ میں منتقل كر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل كو انگریزی
زبان سیكھنے كی ترغیب دی تاكہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سكے۔ یوں دیھتے ہی دیكھتے
مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم كا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا ۔ سوسائٹی كی
خدمات كی بدولت اردو زبان كو بہت ترقی نصیب ہوئ ۔
1886ئ میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے نام سے ایك ادارے كی
گنیاد ركھی گئی۔ مسلم قوم كی تعلیمی ضرورتون كے لیے قوم كی فراہمی میں اس ادارے نے
بڑی مدد دی اور كانفرنس كی كاركردگی سے متاثر ہو كر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علقوں
میں تعلیمی سرگرمیوں كا آغاز كیا۔ لہور میں اسلمیہ كالج كراچی میں سندھ مسلم مدرسہ٬
پشاور میں اسلمیہ كالج اور كانپور میں حلیم كالج كی بنیاد ركھی۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس
مسلمانوں كے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق كے تحفظ كے لیے بھی كوشاں رہی ۔
ادبی خدمات
سرسید خود بہت عمدہ انشائ پرداز تھے۔ اور خوش قسمتی سے انہیں بہت اچھے دانشور دوستوں
كا ساتھ بھی مل گیا۔ سرسید نے ادب كو قومی ترقی كا ایك ذریعہ بناتے ہوئے مختلف موضوعات
پر قلم اٹھایا ۔ اس دور كی درج ذیل تحریروں نے انقلب برپا كردیا ۔
١۔ سرسید احمد خاں :آثار الصنادید ۔ تبین الكلم ۔ آئین اكبری ۔ تفسیر قرآن ۔ خطبات احمدی ہ ۔
رسالہ تہذیب الخلق
٢۔ مولنا شبلی نعمانی :سیرت النبی ۔ الفاروق ۔ الغزالی
٣۔ مولنا نذیر احمد :مراۃ العروس ۔ توبتہ انصوح ۔ ابن الوقت
حالی موازنہ دبیر و انیس ۔ دیوان حالی۔ ٤۔ مولنا حالی :مسدس
معاشرتی و معاشی خدمات
سرسید نے مسلمانوں كو كھویا ہوا مقام واپس دلنے كے لیے متعدد كامیاب اقدام اٹھائے ۔رسالہ
اسباب بغاوت ہند لئ محمڈنز آف انڈیا اور تبین الكلم جیسی كتب تحریر كر كے مسلمانوں اور
حكومت برطانیہ كے درمیان تعلقات كو بہتر بنانے اور مسلمانوں كے خلف جاری جبر كی مہم كو
روكنے میں كامیابی حاصل كی ۔ مسلمانوں كی بڑی تعداد كے لیے ملزمت كے بند دروازے كھلوائ ے ۔
مختلف شعبوں میں مسلمان نئے سرے سے شامل كیے گئے۔ ان كے خلف انتقامی كاروائیوں كا
سلسلہ بند ہو گیا ۔
سیاسی خدمات
آپ نے مسلمانوں كو مشورہ دیا كہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم كے حصول
اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاكہ وہ ہندوئوں كے برابر مقام حاصل كر سكیں ۔
سرسید ہندو مسلم اختلفات كو ختم كر كے تعاون اور اتحاد كی راہ رپ گامزن كرنے كے حق میں
بھی تھے۔ انہوںنے دونوں قوموں كو ایك دوسرے كے قریب لنے كی مسلسل كوششیں كیں۔ اپنے
تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی كیے اور ہندو طلبائ كو داخلے دیے ہندوئوں نے اردو كے
مقابل ہندی كو سركاری دفاتر كی زبان ك درجہ دلوانے كے لیے كوششیں شروع كر دیں ۔ 1857ئ
میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید كو بددل كر دیا اور اانہوںنے صرف اور صرف مسلمانوں كے
حقوق كے تحفظ كے لیے اپنی تحریك كے ذریعے كام شروع كر دیا۔ زبان كا تنازعہ سرسید كی
سوچ اور عمل كو بدل گیا۔ انہوںنے دو قومی نظریہ كی بنیادپر برصغیر كے سیاسی اور دیگر
مسائل كے حل تلش كرنے كا فیصلہ كیا ۔
سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك
علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا ۔ دو
قومی نظریہ كی اصطلح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوںنے كہا كہ مسلمان
جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم وك درجہ
ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی حیثیت كے حوالے سے سرسید احمد نے ان كے یلے لوكل
كونسلوں میں نشستوں كی تخصیص چاہی اعل ٰی سركاری ملزمتوں كے لیے كھلے مقابلے كے
امتحان كے خلف مہم چلئی ٬اكثریت كی مرضی كے تحت قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو
ناپسند كیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں كی علیحدہ پہچان كروائی اور دو قومی نظریہ كی بنیاد پر ان كے
لیے تحفظات مانگ ے ۔
سر سید مسلمانوں كوسیاست سے دور ركھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوںنے مسلمانوں كو 1885ئ
میں ایك انگریز اے او ہیوم كی كوششوں سے قائم ہونے والی انڈین نیشنل كانگریس سے
دورركھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا
طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید كی قومی و
سیاسی خدمات كے حوالے سے لكھا ہے:
٫٫قصر پاكستان كی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے ركھی تھی٬٬۔
نظری ہ پاكستان ك ے اجزائ ے تركیبی
برصغیر كے مسلمانوں نے ایك علیحدہ ریاست اس لیے حاصل كی تاكہ اللہ تعال ٰی كے حتمی ااور
قطعی اقتدار اعلیٰ كے تصور كو عملی جامہ پہنایا جا سك ے ۔ اس ذات عظیم كی برتر اور مطلق
قوت كو نافذ كا جائے اورایك ایسا نظام رائج ہو جس میں قرآن پاك اور احادیث رسول مقبول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی اصولوں كو اپنایا گیا ہو ۔
اسلم محض عبادات اور رسومات كے مجموعہ كا نام نہیں بلكہ ایك مكمل ضابطہ حیات ہے ۔ جو
انسانی زندگی كے تمام تقاضوں كو پورا كرنے كی مكمل صلحیت ركھتا ہے ۔ اس میں معاشرت
اخلقیات اور سیاسیات كے تمام مقاصد كو پورا كرنے كا سامان موجود ہے ۔ اسلمی نظام جدید
تقاضوں سے ہم آہنگ ہے اور ہر دور كے لیے مكمل طور پر قابل عمل ہے ۔
:اسلمی نظام ك ے اجزائ ے تركیبی درج ذیل ہیں
١۔ عقائد و عبادات
پاكستان كے قیام كا مطالبہ كیا گیا تو ا س كے پس منظر میں یہ سوچ بھی كارفرما تھی كہ
مسلمان اپنے عقائد كے مطابق زندگی گزار سكیں اور عبادات كی ادائیگی میں كوئی ركاوٹ
محسوس نہ كریں ۔ عقائد میں توحید ٬رسالت ٬یوم آخرت ٬فرشتوں اورالہامی كتابوں پر ایمان
ں اسل م میں جہاد كو بھی بہت اہم مقام لزم ہے ۔ عبادات میں نماز ٬روزہ ٬زكوۃ ٬حج شامل ہی َ
حاصل ہے۔ اللہ پاك كے علوہ كسی دوسرے كی عبادت نہ كرنا اور اپنے شب و روز اسی ذات
برحق كی خوشنودی كے لیے گزارنا اسلم ہے۔ اس عظیم ترین ہستی كے لیے اپنی جان اورمال كو
قربان كرنے كے لیے ہر وقت تیار رہنا جہاد ہے۔ جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں كی تلقی كی
گئی ہے ۔ تماام عبادات اور جہاد كا بنیادی مقصد اپنے آپ كو اللہ تعالیٰ كی منشا كا پابند بنانا ہے ۔
عبادات مسلمانوں كو اللہ كی راہ میں چلنے اور اسی كی خاطر جینے اور مرنے كے لیے تیار كرتی
ہیں۔ اور اللہ پاك كے علوہ كسی دوسرے كامحتاج بننے سے روكتی ہیں۔ یہ كردار تعمیر كرنے میں
معاون ثابت ہوتی ہیں اور ایك مثالی اسلمی ریاست اور معاشرے كی تشكیل كی راہ ہموار كرتی
ہیں ۔
٢۔ جم ہوری اقدار كا فروغ
اسلمی ریاست اور معاشرے كی بنیاد مشاورت ہے۔ اسلمی معاشرے میں جمہوریت كو فروغ
حاصل ہوتا ہے۔ عوام كے حقوق كا خیال ركھا جاتا ہے۔ انہیں مساوی درجہ ملتا ہے ۔ او ر وہ قانون
كے دائرے كے اندر رہ كر زندگی گزارتے ہیں ۔ قوانین انہیں تحفظ مہیا كرتے ہیں ۔ قانون كی نظر
میں سب برابر ہوتے ہیں ۔ افراد میں رگ ٬نسل ٬ذات ٬پات یا زبان كی بنیاد پر كوئی تمیز روا نہیں
ركھی جاتی ۔ حكومتی نظام سب لوگوں كی بھلئی كو پیش نظر ركھ كر چلیا جاتا ہے ۔ حكومت
اللہ تعال ٰی كے احكامات كی پابندی كرتی ہے اور فرائض كی ادائیگی میں اللہ تعال ٰی كے علوہ اپنے
عوام كو بھی جواب دہ ہوتی ہے۔ امیر المومنین اپنی ذمہ داریاںنبھاتا ہے۔ وہ اللہ تعال ٰی كے احكامات
كی روشنی میں فیصلے كرتا ہے۔ اقتدار اعل ٰی تو اللہ تعال ٰی كو حاصل ہوتا ہے البتہ امیر المومنین
اعلی كو اس كی منشا كے مطابق استعمال كرتا ہے ۔ عام لوگوں كو حكومت ٰ تعالی كے اقتدار
ٰ اللہ
كی پالیسیوں اور فیصلوں پر تنقید كا حق ملتا ہے۔ خلیفہ اول حضرت ابوبكر صدیق نے خلیفہ كے
طو رپر اختیارات سنبھالے تو صاف صاف كہہ دیا كہ عوام ان كے احكامات پر اس وقت عمل كریں
جب وہ احكامات اللہ اور ا س كے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے احكامات سے متصادم نہ
ہوں ۔
پاكستان كا قیام عمل میں لیا گیا تو درج بال جمہوری تصورات كو عملی شكل دینا مقصود تھی ۔
یہ بھی ضروری تھا كہ ابتدائی اسلمی دور كے معاشرتی خدوخال كو اپنایا جائے اور اسلمی اقدار
كونئے سرے سے نافذ كیا جائے۔ پاكستان كو اسلمی معاشرے كے خطوط پر استوار كرنے كا فیصلہ
كیا گیا ۔ اسلمی جمہوریت كا تصور مغربی تصور جمہوریت سے بہت مختلف ہے ۔ قائد اعظم نے
14فروری 1948ئ كو سبی كے مقام پر تقریر كرتے ہوئے قیام پاكستان كی غرض و غائیت یوں
بیان كی ۔
٫٫آئو ہم اپنے جمہوری نظام كو اسلمی رنگ میں اسلمی اصولوں كے مطابق بنیاد فراہم كریں ۔
اللہ ذوالجلل نے ہمیں سكھایا ہے كہ ہم ریاستی امور كو باہم صلح مشورے سے طے كریں ٬٬۔
٣۔ معاشرتی انصاف اور مساوات
اسلم امن اخوت اور بھائی چارے كا درس دیتا ہے ۔ برصغیر كے مسلمانوں نے پاكستان كی تخلیق
كا فیصلہ كرتے ہوئے اس خواہش كا واضح اظہار كیا ہے كہ وہ صحیح اسلمی معاشر ے كا دوبارہ
قیام عمل میں لنا چاہتے تھے۔ وہ عدل ٬مساوات اور معاشرتی بہبود كے تقاضوں كو پورا كرنا
چاہتے تھے ۔اور پاكستان كوجدید دنیا كے سامنے ایك مثال بنا كر پیش كرنا چاہتے تھے تاكہ دنیا كی
دوسری اقوام ان كے نظام سے متاثر ہو كر ان كی تقلید كرنے لگیں ۔
ایك منصفانہ معاشرے كا قیام عمل میں لتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے عدل اور سماجی
مساوات پر زور دیا ۔ معاشرت میں ذات پات ٬رنگ و نسل اورزبان و ثقافت كی تمیز روا ركھے
بغیر انسانوں كو برابر درجہ دیے جانے كا عزم ہوا۔ ریاست میں سب افراد كے لیے مساوی قانون
اور یكساں عدالتی نظام قائم كیا جانا مقصودتھا۔ آزاد عدلیہ اور قانون كی حكمرانی عوام میں
مساوات اور انصاف كے قیام كی بنیادی شرائط ہیں۔ اسلمی ریاست نے انصاف كی سر بلندی
پر زور دیا۔ خلفائے راشدین نے انصاف كی فراہمی كے لیے مساوات اور قانون كی حاكمیت كے
اصولوں پر سختی سے عمل كیا ۔ حضرت عمر فاروق نے انپے بیٹے كی سزا بھی معاف نہ كی ۔
انہوںنے انصاف اور قانون كی بال دستی اور مساوی سلوك كی درخشندہ مثالیں قائم كیں ۔
اسلم عورت كو باوقار مقام دیتا ہے۔ عورت ماں ہو یا بہن بیوی ہ ویا بیٹی ٬ہر كردار میں اہم
تسلیم كی گئ یہے۔ ماں كے قدموں تلے جنت كا تصور اسلم ہی نے دیا ہے۔ اسلم نے خواتین كو
معاشرتی ٬معاشی ثقافتی اور خاندانی غرضیكہ ہر پہلو میں مكمل تحفظ فراہم كیا ہے ۔ اسلمی
معاشرہ بوڑھوں ناداروں اور یتیموں اور بیوائوں كی تمام ضرورتوں كی تكمیل كا ذمہ دار ہے ۔
قرآن و حدیث میں عورت كے حقوق كا تذكرہ مردوں سے پہلے كیا گیا ہے۔ عورتوں كو اسلم نے
پہلی مرتبہ وراثت میں حصے دار قرار دیاا۔ وہ انہیں محفوظ اور مطمئن زندگی فراہم كرتا ہے
اسلمی نظام میں ہر فرد كو ہر پہلو سے انصاف فراہم كرنا حكومت كی ذمہ داری ہے ۔
اسلمی ریاست میں دولت كا چند ہاتھوں میں ارتكاز نہیں ہوتا بلكہ دوت كی منصفانہ تقسیم كا
ایك مرباط نظام ہوتا ہے۔ پاكستان بنانے كا فیصلہ ہوا تو مندرجہ بال تمام اقدار كو اپنانے اور
ریاست كو ایك ایسی مثالی ریاست بنانے كا خواب دیكھا گیا جس میں اخوت بھائی چارہ برداشت
اور باہمی تعاون كے جذبوں كو فروغ دیا جانا تھا ۔
٤۔ ش ہریوں ك ے حقوق و فرائض
پاكستان جیسی اسلمی ریاست كا قیام عمل میں لیا گیا تو ایك طرف شہریوں كے حقوق اور
تحفظات كی اہمیت تسلیم كی گئی تو دوسری جانب ان كے فرائض پر بھی بھرپور زور دیا گیا ۔
ایك اسلمی معاشرے میں حقوق كے ساتھ ساتھ فرائض كا ذكر بھی خصوصی طور پر كیا جاتا ہے ۔
ایك فرد كا حق دوسرے فرد كا حق بن جاتاہے۔ حقوق و فرائض كا چولی دامن كا ساتھ ہے۔ یہ لزم
و ملزوم ہیں ۔فرائض ادا كركے ہی ایك فرد حقوق حاصل كرنے كے قابل بنتا ہے ۔ فرائض كا تعلق
انسان كیذاتی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں سے ہوتا ہے ۔ اسلمی ریاست كو حقوق و فرائض كا
باہمی توازن ایك كامیاب ریاست بنا دیتا ہے ۔
ایك اسلمی ریاست میں تمام شہریوں كو كسی تمیز كے بغیر مختلف بنیادی حقوق مہیاكیے جاتے
ہیں۔ حقو ق وہ سہولتیں ہیں جو شہریوں كو ریاست كی طرف سے دی جاتی ہیں تاكہ وہ معارے
میں بہت اچھی زندگی بسر كرنے كے قابل ہو سكیں ۔ ان كی جان و مال اور عزت كی حفاظت
كی جاتی ہے اور انہیں علم و صحت كے حصول میں مدددی جاتی ہے۔ اسلم نے صدیوں پہہلے ان
انسانی حقوق كا واضح اعلن كردیا تھا جو مغربی دنیا میں بیسویں صدی میں دیے گئ ے ۔ حقوق
كے حوالے سے امیر و غریب گورے و كالے اورعربی و عجمی میں كوئی فرق روا نہ ركھا گیا ۔ قیام
پاكستان كی غرض و غائیت یہ تھی كہ انسانوں كو برابر حقوق ملیں اور وہ اپنی ترقی كے یكساں
مواقع حاصل كر سكیں۔ ان میں احساس كمتری نہ ہو اور نہ نسلی برتری كا كوئی احساس
موجود ہو۔ تاكہ ایك مثالی معاشرتی نظام دنیا كے روبرو لیا جا سكے۔ افراد كو حقوق كی فراہمی
اور تحفظ كا فرض اسلمی ریاست پر عائد كیا گیا ہے ۔
پاكستان میں اقلیتوں كو تحفظ دینے كی سوچ تھی قیام پاكستان كے پس منظر میں شامل تھی ۔
قائد اعظم نے یہ بھی واضح كر دیا كہ پاكستان میں اقلیتوں كا پور ا خیال ركھا جائ ے ۔ اسلم كسی
صورت میں بھی یہ اجازت نہیں دیتا كہ اسلمی معاشرے میں زندگی گزارنے والی اقلیتوں كے جان
و مال عزت اور مذہبی روایات كا تحفظ نہ كیا جائ ے ۔
پاكستان میں اسلمی معاشرے كے از سر نو قیام كا خواب دیكھا گیا۔ انسانی عظمت كو نئے
سرے سے اجاگر كرنے اور عدل و انصا ف پر مبنی معاشرے كے لیے اسلمی اصولوں كو اپنانے كا
فیصہ ہوا ۔ قیام پاكستان درحقیقت اسلمی معاشرے كے قیام كی طرف ایك بڑا اہم قدم ہے تاكہ
مسلمان اپنے مذہبی اصولوں كے مطابق روز مرہ اجتماعی اور انفرادی زندگی گزار سكیں ۔
اخوت و ب ھائی چار ہ ٥۔
دین اسلم امن كا داعی ہے اور مسلمانوں كے مابین اخوت اور بھائی چارے كے جذبوں كو فروغ
دینے پر زور دیتا ہے۔ بھائی چارے سے محبت ٬خلوص قربانی احساس اور شقت میں اضافہ ہوتا
ہے۔ تمام مسلمان ایك دوسرے كے بھائی ہیں۔ ایك كا دكھ سبھی مسلمانوں كا دكھ اور ایك كی
خوشی سبھی مسلمانوں كی خوشی ہے۔ مسلمان ایك دوسرے كی مدد اور ضروریات پوری
كرتے ہیں۔ اسلمی ریاست میں یہی اعل ٰی و ارفع جذبے ریاست كو مضبوط سے مضبوط تر بناتے
چلے جاتے ہیں ۔
پاكستان مسلمانان برصغیر كی جدوج ہد كا نتیج ہ
پاكستان كی تخلیق ایك زبردست اور مسلسل جدوجہد كے بعد ممكن ہوئی۔ برصغیر پاك و ہند
میں مسلمان صدیوں سے حكمرانی كرتے آ رہے تھے كہ یورپی اقوام نے ادھر كا رخ كیاا ۔ انگریز
تجارت كی غرض سے آئے اور برصغیر كے عوام كے باہمی اختلفات سے فائدہ اٹھا كر اقتدار پر
قابض ہو گئے۔ ٹیپو سلطان اورنواب سراج الدولہ كو غداروں كی وجہ سے ناكامیوں كا سامنا كرنا
پڑا تو انگریز پور ے علقے پر چھا گئے برصغیر كو انگریزوں سے آزاد كرانے كی كئی كوششیں كے
بعد دیگرے ناكام ہو گئیں ۔ 1857ئ كی جنگ آزادی كے باوجود مسلمان غامی كی زنجیریں نہ توڑ
سكے۔ انیسویں صدی كے دوسرے نصف میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں كو تحریك علی
گڑھ كے ذریعے نئے سرے سے بیدار كا۔ انہیں جدید تعلیم كے حصول كی جانب راغب كیا نیز
معاشرتی اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں كو ہندو قوم كے مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم لیگ كے
نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم كر لی۔ مسلمان دوہر ی غلمی سے نجات چاہتے تھے۔ وہ
جدوجہد انگریزو ں كے خلف بھی كرتے رہے اور ہندو قوم كی متوقع غلمی سے چھٹكارے كے لیے
بھی كوشاں رہے۔ ہندو راہنما انگریزوں كو برصغیر سے نكال كر جمہوریت كے نام پر اپنی حكومت
كے خواب دیكھ رہے تھے۔ جمہوریت اكثیرت كی حكومت ہوتی ہے اورہندو برصغیر میں اكثیرت میں
ت ھے ۔ اس لیے انگریز حكومت كے خاتمے كے بعد اقتدار اكثریتی قوم كو منتقل ہو جانا تھاا ۔ یوں
مسلمان ہندو كی مستقل غلمی كا شكار ہوجاتے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم جیسے جری
ذہین اور بے مثل رہنما كی قیادت میں مسلمان عوام كی راہنمائی كی اور بالخر پاكستان كے نام
سے ایك آزاد اوار خود مختار ریاست بنانے میں كامیاب ہو گئی۔ اپنی منزل تك پہنچنے كے لیے
مسلم قوم كو بھرپور جدوجہد كرنا پڑی اور بے مثال قربانیوں اور مشكل حالت كے بعد وہ اپنا
مقصد پانے میں كامیاب ہو گئ ے ۔
پاكستان كے لیے جدوجہد میں عوام اور ان كے راہنمائوں نے بڑی قربانیاں دیں ۔ انگریزوں كی
حكومت كے خاتمے اور ہندوئوں كی متوقع اجارہ داریوںسے چھٹكارا پانے كے لیے متعد د شخصیات
نے بے شمار اور عظیم خدمات انجام دیں۔ ان سرگرمیو ں میں مسلم خواتین اورنوجوان طلبہ و
طالبات نے بھی بھرپور حصہ لیا ۔ علمائے كرام اور مشائخ عظام نے بھی ملت كی راہنمائی كی ۔
مختلف صوبوں اور علقوں كی كئی عظیم مسلم شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں قومی فلح و
بہبود كے لیے كردار نبھایا۔ وہ اپنے قول و فل سے برصغیر كی امت مسلمہ كی آزادی اور خوشگوار
مستقبل كے لیے كوشاں رہے مثل صوبہ سرحد سے سردار اورنگ زیب خاں پیر مانكی شریف ور
صاحبزادہ عبدالقیوم نمایاں ت ھے ۔ بلوچستان سے تعلق ركھنے والےٰ قاضی محمد عیسی ۔ٰ نواب
محمد خاں جوگیزئی اور میر سہراب خاں شہید كی خدمات قابل ذكر ہیں۔ میر سہراب خاں نے تو
اپنی جان قومی آزادی پر نچھاور كر دی ۔ سندھ میں پیر صبغت اللہ كا نام بڑا اہم ہے جنہوںںے
جروں نكی قیادت كرتے ہوئے انگریز حكومت كے خلف جدوجہد كی اور شہادت كا رتبہ حاصل كیا ۔
سر عبداللہ ہارون اور آغا حسن آفندی جیسی عظیم شخصیات كا تعلق بھی سندھ سے تھا ۔ اسی
طرح پنجاب بنگال اور دیگر صوبوں سے تعلق ركھنے والے متعدد لوگوں نے قو م كے لیے قابل قدر
خدمات انجام دیں۔ ان كی كوششوں سے اور خدمات كی بدولت آج پاكستان ایك آزاد اور خود
مختار مسلم مملكت كے طور پر اپنا وجو د ركھتاہے۔ اور پاكستانی قوم آزاد فضا میں سانس لے
رہی ہے ۔
برصغیر كے مسلمان اكابرین نے گزشتہ دو سو سالوں میں كارہائے نمایاں انجام دیے اور بڑے
مشكل حالت میں اپنا مقصد حاصل كرنے میں كامیاب رہے۔ اس جدوجہد كے دوران اس راہ میں
اہم سنگ میل آئے ۔ ذیل میں ان كا تفصیلی ذكر كرتے ہیں ۔
علم ہ محمد اقبال اورنظری ہ پاكستان
علمہ محمد اقبالنے نظریہ پاكستان كے حوالے سے دعو ٰی كیا كہ ہندو اور مسلمان ایك مملكت
میں اكٹھے نہیں رہ سكتے اور مسلمان جلد یا بدیر اپنی جداگانہ مملكت بنانے میںكامیاب ہو جائیں
گے۔ علمہ اقبال نے برصغیر میں واحد قوم كے وجود كا تصور مسترد كر دیاا ور مسلم قوم كی
جداگانہ حیثیت پر زور دیا۔ اسل م كو ایك مكمل نظام مانتے ہوئے علمہ محمد اقبال نے اسی بنیاد
پربرصغیر كے شمال مغرب میں علیحدہ مسلم ریاست كے قیام كا تصور آل انڈیا مسلم لیگ كے
سالنہ اجلس منعقدہ 1930ئ میں پیش كیاانہوںنے واضح كہا كہ:
٫٫انڈیا ایك برصغیر ہے ملك نہیں۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق ركھنے اور مختلف زبانیں بولنے
والے لوگ رہتے ہیں۔ مسلم قوم اپنی جداگانہ مذہبی اور ثقافتی پہچان ركھتی ہے٬٬۔
قائد اعظم اورنظری ہ پاكستان
وہ بطل عظیم جس نے مسلمانان برصغیر كو باوقار اور محفوظ مقام تك پہنچایا اورایك علیحدہ و
مسلم مملكت كے قیام كا تصور عملی شكل میں ڈھا ل دیا وہ قائد اعظم ہی كی ہستی تھی ۔
انہوںنے نظریہ پاكستان كی وضاحت ان الفاظ میں كی ۔
٫٫پاكستان تو اسی روز وجود میں آ گیا تھا جب پہل ہندو مسلمان ہوا تھا٬٬۔
1943ئ كے سالنہ جلسہ منعقدہ كراچی میںقائد اعظم نے پاكستان اور اسلم كے باہمی رشتے كو
واضح كرتے ہوئے فرمایا:
٫٫وہ كون سا رشتہ ہے جس سے منسلك ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد كی طرح ہیں؟ وہ كون
سی چٹان ہے جس پر اس ملت كی عمارت استوار ہے ؟ وہ كون سا لنگر ہے جس سے اس امت
كی كشتی محفوظ كر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان وہ لنگر خدا تعال ٰی كی كتاب قرآن مجید ہے٬٬۔
مارچ 1944ئ میں طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے آپ نے فرمایا:
٫٫ہمارا راہنما اسلم ہے اور یہی ہماری زندگی كا مكمل ضابطہ ہے٬٬۔
21مارچ 1948ئ كو ڈھاكہ كے عوام سے خطاب كرتے ہوئے كہا:
٫٫میں چاہتا ہوں كہ آپ سندھی ٬بلوچی ٬پنجابی ٬پٹھان اور بنگالی بن كر بات نہ كریں ۔ یہ كہنے
میں كیا فائدہ ہے كہ ہم پنجابی ٬سندھی یا پٹھان ہیں ہم تو بس مسلمان ہیں٬٬۔
آپ نے علی گڑھ میں خطاب كرتے ہوئے نظریہ پاكستان كو ان الفاظ میں واضح كیا:
٫٫پاكستان كے مطالبے كا محرك اور مسلمانوں كے لیے جداگانہ مملكت كی وجہ كیا تھی؟ تقسیم
ہند كی ضرورت كیوں محسوس ہوئی؟ اس كی وجہ ہندوئوں كی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں كی
چال یہ اسلم كا بنیادی مطالبہ ہے٬٬۔
قائد اعظم نے برصغیر كے تاریخی تناظر میں موقف اختیار كیا كہ جنوبی ایشیائ كے مسلمان
ہرگز اقلیت نہیں۔ وہ ایك مكمل قوم ہیں اورحق ركھتے ہیں كہ جن علقوں میں ان كی اكثریت ہے
وہاں وہ اپنی علیحدہ ریاست قائم كر لیں ۔
اسلمی جم ہوری ہ پاكستان كا قیام
نظری ہ پاكستان
پاكستان مملكت خداداد ایك ٹھوس نظریے كی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پاكستان كے نظریے كی
اساس دین اسل م ہے جو مسلمانوں كی زندگی كے تمام شعبوں میں راہنمائی كرتا ہے ۔ اسلمی
نظام حیات انسانی زندگی كے تمام پہلوئوں كا احاطہ كرتاہے۔ یہ معاشرتی اخلقی ٬سیاسی ٬
مذہبی اور معاشی شعبوں كے حوالے سے بنیادی اصولوں كا حامل ہے ۔ اسلمی نظام قرآن پاك
اور حضور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی سنت اور احادیث پر استوار ہے۔ یہی نظام
ہمارے پیارے وطن پاكستان كی بنیاد قرار پایا۔ برصغیر كے مسلمان انگریز دور حكومت میں
دوسری اقوام كے ساتھ غلمی كی زندگی بسر كر رہے تھے۔ وہ آزادانہ خود مختار حیثیت چاہتے تھے
لیكن انگریزوں كی غلمی سے چھٹكارا پانے كے بعد بھی انہیں اپنے مقصدمیں كامیابی دكھائی نہیں
دے رہی تھی۔ ہندو اكثریت كا غلبہ صاف نظر آ رہا تھا۔ بڑے غور و فكر كے بعد مسلمانوں نے یہ
فیصلہ كیا كہ انگریزوں كی حكوت كے خاتمے كے بعد ایسے علقوں میں ایك مسلم مملكت قائم ہو
جائے جہاں مسلمان اكثریت میں ہیں۔ یوں مسلمان دائمی غلمی سے بھی چھٹكارا پا لیں گے
اورایك مخصوص خطہ زمین پر دین اسلم كے اصولوں كے مطابق نظام رائج كرنے میں كامیاب ہو
جائیں گ ے ۔ یہ سو چ رفتہ رفتہ مضبوط ہوئی اور بالخر مسلمانوں كا نصب العین بن گئی ۔ منزل
مقصود پانے كے لیے مسلمانوں نے ایك عظیم تحریك كا آغاز كیا۔ علیحدہ اسلمی مملكت كا قیام
ایك مقصد بنا اور یہی مقصد نظریہ پاكستان كی تخلیق كا باعث بنا ۔
نظریہ اسلم ہی نظریہ پاكستان ہے ۔ حضرت مجدد الف ثانی حضرت شاہ ولی اللہ ،حضرت سید
احمد شہید ،سرسید احمد خاں ٬علمہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسی عظیم ہستیوںنے اس
پودے كی آبیاری كی۔ ان كا خواب تھا كہ مسلمان اسلمی معاشرت ٬ثقافت ٬معیشت اور
اخلقیات پر مبنی نظام رائج كریں اوریہ خواب سال ہا سال كی كاوشوں اور قربانیوں كے بعد
شرمندہ تعبیر ہوا ۔