You are on page 1of 21

‫افغانستان‬

‫وکیپیڈیا سے‬
‫‪Jump to: navigation, search‬‬

‫فارسی‪:‬جم ھوری اسلمی افغانستان‬


‫پشتو‪ :‬د افغانستان اسلمي جم ھوریت‬

‫پرچم‬ ‫ن ملی‬
‫نشا ِ‬
‫شعار‪ :‬کوئی نہیں‬

‫ترانہ‪ :‬سرود ملی‬

‫دارالحکومت‬ ‫کابل‬
‫‪ 34‬درجے ‪ 30‬منٹ شمال ‪ 69‬درجے ‪ 10‬منٹ مشرق‬

‫عظیم ترین ش ہر‬ ‫کابل‬

‫دفتری زبان)یں(‬ ‫فارسی )دری(‪ ،‬پشتو‬

‫نظامِ حکومت‬ ‫اسلمی جمہوریہ‬


‫صدر‬ ‫حامد کرزئی‬
‫نائب صدر‬ ‫احمد ضیاء مسعود‬
‫نائب صدر‬ ‫کریم خلیلی‬

‫آزاد‬ ‫متحدہ سلطنت برطانیہ کے رسوخ سے‬


‫تاریخ‬ ‫‪ 19‬اگست ‪1919‬ء‬

‫رقب ہ‬
‫‪ -‬کل‬ ‫‪ 647,500‬مربع کلومیٹر )‪ 40‬واں(‬
‫‪ 250,001‬مربع میل‬
‫‪ -‬پانی )‪(%‬‬ ‫ن‪/‬م‬

‫آبادی‬
‫‪ -‬تخمینہ‪2006:‬ء‬ ‫‪ 38) 31,500,000‬واں(‬
‫‪ 1979 -‬مردم شماری‬ ‫‪13,051,358‬‬
‫ت آبادی‬
‫‪ -‬کثاف ِ‬ ‫‪ 46‬فی مربع کلومیٹر) ‪ 150‬واں(‬
‫‪ 119‬فی مربع میل‬

‫خام ملکی پیداوار‬ ‫تخمینہ‪2006 :‬ء‬


‫)م۔ق۔خ۔(‬
‫‪ -‬مجموعی‬ ‫‪ 31.9‬ارب ڈالر )‪ 91‬واں(‬
‫‪ -‬فی کس‬ ‫‪ 1,310‬ڈالر )‪ 162‬واں(‬

‫انسانی ترقیاتی اشاری ہ‬ ‫‪0.229‬‬


‫)تخمینہ‪2003 :‬ء(‬ ‫)غیر متعین( – نچل‬

‫سک ہ رائج الوقت‬ ‫افغانی )‪(AFN‬‬

‫منطق ۂ وقت‬
‫‪ -‬عمومی‬ ‫‪(+4:30‬‬ ‫)یو۔ٹی۔سی۔‬
‫۔ موسِم گرما )د۔ب۔و (‬ ‫‪(+4:30‬‬ ‫)یو۔ٹی۔سی۔‬

‫ملکی اسِم ساح ہ‬ ‫‪af.‬‬


‫)انٹرنیٹ(‬

‫رمِز بعید تکلم‬ ‫‪93+‬‬


‫)کالنگ کو ڈ(‬

‫افغانستان ایشیاء کا ایک ملک ہے جس کا سرکاری نام اسلمی جمہوریہ افغانستان‬


‫ہے۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان‪ ،‬مغرب میں ایران‪،‬شمال مشرق میں چین‬
‫اور شمال میں ترکمانستان‪ ،‬ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ ارد گرد کے تمام ممالک‬
‫سے افغانستان کے تاریخی‪ ،‬مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے۔ اس کے بیشتر لوگ‬
‫مسلمان ہیں۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں‪ ،‬یونانیوں‪ ،‬عربوں‪ ،‬ترکوں‪ ،‬منگولوں‪،‬‬
‫برطانویوں‪ ،‬روسیوں اور اب امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر اس کے لوگ‬
‫بیرونی قبضہ کے خلف ھمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک کے طور پر‬
‫اٹھارویں صدی کے وسط میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں‬
‫درانی کی سلطنت کے کافی حصے ارد گرد کے ممالک کے حصے بن گئے۔‬
‫‪ 1919‬میں انگریزوں سے اسے آزادی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد افغانستان صحیح‬
‫معنوں میں ایک ملک بن گیا۔ مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علقے‬
‫حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔ آج‬
‫افغانستان امریکی قبضہ میں ہے اور بظاہر ایک آزاد ملک اور حکومت کے طور پر‬
‫تسلیم کیا جاتا ہے۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں‬
‫ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ‬
‫تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورتحال پیدا‬
‫ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اس کی‬
‫ق وسط ٰی کے‬ ‫جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء‪ ،‬جنوبی ایشیاء اورمشر ِ‬
‫درمیان ہے اور تینوں خطوں سے ھمیشہ اس کے نسلی‪ ،‬مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے‬
‫اور جنگی لحاظ سے اور علقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ھمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ھمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی‬
‫ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریل پہاڑی علقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی‬
‫طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی‬
‫بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے‪ ،‬نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے‬
‫کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔‬
‫ف ہرست‬

‫‪ 1‬تاریخ‬ ‫‪.1‬‬

‫‪ 1.1‬قبل اسلم‬ ‫‪.1‬‬

‫‪ 1.2‬اسلمی دور احمد شاہ درانی )ابدالی( تک )‪642‬ء سے ‪1747‬ء(‬ ‫‪.2‬‬

‫‪ 1.3‬درانی سلطنت ) ‪1747‬ء سے ‪1823‬ء(‬ ‫‪.3‬‬

‫‪ 1.4‬یورپی اثر )‪1823‬ء۔ ‪1919‬ء(‬ ‫‪.4‬‬

‫‪ 1.5‬آزادی کے بعد )‪1919‬ء‪1978-‬ء(‬ ‫‪.5‬‬

‫‪ 1.6‬روسی قبضہ اور جہاد‬ ‫‪.6‬‬

‫‪ 1.7‬روسیوں کے بعد‬ ‫‪.7‬‬

‫ت حاضرہ‬
‫‪ 1.8‬امریکی قبضہ اور حال ِ‬ ‫‪.8‬‬

‫‪ 2‬جغرافیہ اور موسم‬ ‫‪.2‬‬

‫‪ 3‬معیشت‬ ‫‪.3‬‬

‫‪ 4‬انتظامی تقسیم‬ ‫‪.4‬‬

‫‪ 5‬مشہور شہر‬ ‫‪.5‬‬

‫‪ 6‬ثقافت‬ ‫‪.6‬‬

‫‪ 7‬اعداد و شمار‬ ‫‪.7‬‬

‫‪ 7.1‬نسلیں‬ ‫‪.1‬‬

‫‪ 7.2‬زبانیں‬ ‫‪.2‬‬

‫‪ 7.3‬مذاہب‬ ‫‪.3‬‬

‫‪ 8‬افغانستان تصویروں میں‬ ‫‪.8‬‬

‫‪ 9‬مزید دیکھئیے‬ ‫‪.9‬‬

‫‪ 10‬حوالے‬ ‫‪.10‬‬
‫‪ 11‬بیرونی روابط‬ ‫‪.11‬‬

‫]ترمیم[ تاریخ‬
‫]ترمیم[ قبل اسلم‬

‫فارس کے بادشاہ شاپور اول کا سکہ ۔ زمانہ‪ :‬تیسری صدی عیسوی‬


‫افغانستان میں پچاس ھزار سال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی اور اس کی‬
‫زراعت بھی دنیا کی اولین زراعت میں شامل ہے۔ ]‪ [1‬سن ‪ 2000‬قبل مسیح میں‬
‫آریاؤں نے افغانستان کو تاراج کیا۔ جسے ایرانیوں نے ان سے چھین لیا۔ اس کے بعد‬
‫یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ ‪ 329‬قبل مسیح میں اس کے کئی حصے‬
‫ایرانیوں سے سکندر اعظم نے چھین لیے جس میں بلخ شامل ہے مگر یونانیوں کا یہ‬
‫قبضہ زیادہ دیر نہ رہا۔ ‪ 642‬عیسوی تک یہ علقہ وقتًا فوقتًا ہنوں‪ ،‬منگولوں‪،‬‬
‫ساسانیوں اور ایرانیوں کے پاس رہا۔ جس کے بعد اس علقے کو مسلمانوں نے فتح‬
‫کر لیا۔ مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جاتا ہے جو غلط‬
‫ہے کیونکہ مسلمانوں میں کئی اقوام کے لوگ شامل تھے۔ اسلم سے پہلے یہاں کے‬
‫لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔‬
‫]ترمیم[ اسلمی دور احمد شا ہ درانی )ابدالی( تک )‪642‬ء س ے‬
‫‪1747‬ء(‬
‫شہنشاہ بابر جس نے کابل کو دارالحکومت بنایا‬
‫‪642‬ء میں مسلمانوں نے اس علقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علقائی لوگوں‬
‫ہی کو بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی۔ ‪998‬ء میں محمود‬
‫غزنوی نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ غوریوں نے ‪1146‬ء میں غزنویوں کو شکست‬
‫دی۔ اور انہیں غزنی کے علقے تک محدود کر دیا۔ یہ سب مسلمان تھے مگر‬
‫‪1219‬ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ‪ ،‬غزنی اور‬
‫بلخمکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے حت ٰی کہ تیمور‬
‫نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اولد سے شہنشاہ‬
‫بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔‬
‫سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک افغانستان کئی حصوں میں تقسیم رہا۔‬
‫شمالی حصہ پر ازبک ‪ ،‬مغربی حصے )ھرات سمیت( پر ایرانی صفویوں ‪ ،‬اور‬
‫مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔ ‪1709‬ء میں پشتونوں نے صفویوں کے‬
‫خلف جنگ لڑی اور ‪1719‬ء سے ‪1729‬ء تک افغانستان بلکہ ایرانی شہر اصفہان پر‬
‫قبضہ رکھا۔ ‪1729‬ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیل اور ان کے‬
‫قبضے سے تمام علقے چھڑائے حت ٰی کہ ‪1738‬ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ‬
‫کر لیا۔ جو ‪1747‬ء تک جاری رہا۔ پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش‬
‫آج بھی جاری ہے حالنکہ دونوں مسلمان ہیں۔‬
‫]ترمیم[ درانی سلطنت ) ‪1747‬ء س ے ‪1823‬ء(‬
‫قندھار کی ایک پینٹنگ )‪1848‬ء( جس میں احمد شاہ کا مقبرہ بھی ہے اوراحمد شاہ کا تعمیر کردہ‬
‫قندھار کا قلعہ بھی‬
‫احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ احمد شاہ درانی‬
‫کو احمد شاہ ابدالی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جون ‪1747‬ء میں نادر شاہ قتل‬
‫ہوگیا جس کے بعد لویہ جرگہ نے ابدالی قبیلہ کے احمد شاہ درانی کو سربراہ چن لیا۔‬
‫پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احمد شاہ درانی نے تمام تر قوت‬
‫افغانستان کو ایک ملک بنانے پر صرف کی۔ درانی سلطنت میں موجودہ ایران‪،‬‬
‫افغانستان‪ ،‬پاکستان اور بھارت کےکچھ علقے شامل تھے۔ اس کی سلطنت میں ایران‬
‫کے شہر مشہد سے لے کر کشمیر اور موجودہ بھارت کے شہر دھلی تک کے علقے‬
‫شامل تھے۔ احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری ‪1761‬ء میں پانی پت کی‬
‫تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دینا تھا۔ لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے‬
‫پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آھستہ آھستہ پنجاب کے کئی علقوں پر قبضہ کر‬
‫لیا۔ لیکن اس وقت تک افغانستان کو ایک مضبوط ملک کی حیثیت حاصل ہو گئی‬
‫تھی۔ ‪1772‬ء تک احمد شاہ درانی اور اس کے بعد اس کی اولد کی حکومت رہی۔‬
‫اس کی اولد میں ایوب شاہ کو ‪1823‬ء میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں کابل کی حکومت‬
‫محمد شاہ اور پھر ‪1826‬ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔‬
‫]ترمیم[ یورپی اثر )‪1823‬ء۔‪1919‬ء(‬
‫امیر دوست محمد خان‪ ،‬جس نے کابل کی حکومت ‪1826‬ء میں سنبھال لی تھی‪ ،‬نے‬
‫روس اور ایران سے تعلقات پڑھانا شروع کیے کیونکہ سکھوں نے پنجاب پر قبضہ‬
‫کر لیا تھا اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالکی کا ثبوت دیتے ہوئے سکھوں اور‬
‫دھلی کے شاہ شجاع کے ساتھ مل کر افغانستان میں اپنا اثر پڑھانا شروع کیا۔ حالنکہ‬
‫دونوں انگریزوں کے بظاہر دشمن تھے۔ شاہ شجاع کو انگریزوں نے کابل کے تخت‬
‫کے سبز باغ دکھائے۔ اس زمانے میں روس اور برطانوی ھند میں کئی ھزار میل کا‬
‫فاصلہ تھا اور وسطی ایشیاء کے شہروں مرو‪ ،‬خیوا‪ ،‬بخارا اور تاشقند کو مغرب میں‬
‫زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے مگر انگریز یہ جانتے تھے کہ روسی ان پر قبضہ کرنا‬
‫چاہتے ہیں۔ ان کو روکنے اور افغانستان میں اپنا اثر بڑھانے کے لیے انگریزوں کی‬
‫مکارانہ جدوجہد کو 'عظیم چالبازیوں' )‪ (The Great Game‬کے نام سے یاد کیا جاتا‬
‫ہے۔ ]‪ [2‬اس سلسلے میں انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں۔ پہلی جنگ ) ‪1839‬ء‪1842-‬ء(‬
‫اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ھرات کے لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں اور‬
‫روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے افواج پورے ملک میں روانہ کیں۔‬
‫انگریزوں نے کابل پر قبضہ کر کے دوست محمد خان کو گرفتار کر لیا۔ افغانیوں نے‬
‫برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کر دیا جو سولہ ھزار افراد پر‬
‫مشتمل تھی۔ صرف ایک شخص زندہ بچا۔ انگریز مدتوں اپنے زخم چاٹتے رہے۔‬
‫اسی وجہ سے مجبورًا انگریزوں نے دوست محمد خان کو رہا کر دیا۔ بعد میں دوست‬
‫محمد خان نے ھرات کو بھی فتح کر لیا۔ دوسری جنگ )‪1878‬ء‪1880-‬ء( اس وقت‬
‫ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت‬
‫نہ دی۔ اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر ‪1880‬ء میںامیر عبدالرح ٰمن نے‬
‫ل کابل کے خارجی معاملت انگریزوں کے‬ ‫افغانستان کا اقتدار حاصل کیا مگر عم ً‬
‫ہاتھ میں چلے گئے۔‬
‫تصویر‪Amanullah.jpg:‬‬
‫امیر امان اللہ خان‬
‫اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین‬
‫کا معاہدہ بھی کیا۔امیر عبدالرح ٰمن کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان بعد میں افغانستان‬
‫کے بادشاہ ہوئے۔ ان کے دور میں افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے اور انگریزوں‬
‫کا اثر مزید بڑھ گیا۔ اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے‬
‫طور پر تسلیم کیا۔ ‪1907‬ء میں امیر حبیب اللہ خان نے انگریزوں کی دعوت پر‬
‫برطانوی ھند کا دورہ بھی کیا۔ اسی مغربی دوستی اور اثر کی وجہ سے امیر حبیب‬
‫اللہ خان کو اس کے رشتہ داروں نے ‪ 20‬فروری ‪1919‬ء کو قتل کر دیا۔ اس کے قتل‬
‫کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلف جنگ چھیڑ‬
‫دی مگر ‪ 19‬اگست ‪1919‬ء کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک‬
‫معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور افغانستان‬
‫میں ان کا اثر تقریبًا ختم ہو گیا۔ ‪ 19‬اگست ‪1919‬ء کو اسی وجہ سے افغانستان کی‬
‫یوِم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔‬
‫]ترمیم[ آزادی ک ے بعد )‪1919‬ء‪1978-‬ء(‬
‫امان اللہ خان )دوِر اقتدار‪1919 :‬ء‪1929-‬ء( نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد‬
‫اصلحات کیں اور مغربی دنیا سے تعلقات قائم کیے۔ اصلحات میں بنیادی تعلیم کا‬
‫لزمی قرار دینا اور مغربی طرز کی دیگر اصلحات شامل تھیں۔ اس نے ‪1921‬ء‬
‫میں افغانستان میں ہوائی فوج بھی بنائی جس کے جہاز روس سے آئے لیکن افواج کی‬
‫تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ ‪1927‬ء میں امان اللہ خان نے یورپ اور‬
‫ترکی کا دورہ بھی کیا جس میں اس نے مغربی مادی ترقی کا جائزہ لیا اور افغانستان‬
‫میں ویسی ترقی کی خواہش کی مگر جب اس نے کمال اتاترک کی طرز پر پردہ پر‬
‫پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پڑی اور افغان اس کے سخت‬
‫خلف ہو گئے۔ شنواری قبائل نے نومبر ‪1928‬ء میں جلل آباد سے بغاوت شروع کی‬
‫اور دوسرے لوگوں کو ساتھ مل کر کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک‬
‫کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان اللہ خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تیار کرنے کی‬
‫کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ‬
‫اور بعد میں سوئٹزرلینڈ میں پناہ لی جہاں ‪ 1960‬میں وفات پائی۔ اس بغاوت کے‬
‫دوران جنوری ‪1929‬ء میں حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ سقا نے کابل پر قبضہ کیا‬
‫اور حبیب اللہ شاہ غازی کے نام سے حکومت قائم کی مگر اکتوبر ‪1929‬ء میں جنرل‬
‫نادر خان کی فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چل‬
‫گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جنہوں نے اسے‬
‫ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے علوہ انگریزوں نے جنرل نادر خان کو ایک ھزار‬
‫افراد کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر‬
‫خان نے قرآن کو ضامن بنا کر اس کو پناہ اور معافی دی مگر جب وہ کابل آیا تو‬
‫]‪[3‬‬
‫اسے قتل کروا دیا۔‬
‫نادر خان )دوِر اقتدار‪1929 :‬ء۔‪1933‬ء ( جو امان اللہ خان کا رشتہ دار تھا اس نے‬
‫نادر شاہ کے نام سے ‪1929‬ء میں افغانستان کا تخت سنبھال۔ مگر ‪1933‬ء میں کابل‬
‫کے ایک طالب علم نے اسے قتل کر دیا جس کے بعد اس کے انیس سالہ بیٹے ظاہر‬
‫شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ )دوِر اقتدار‪1933 :‬ء۔‪1973‬ء ( نے چالیس سال تک‬
‫افغانستان پر حکومت کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم‬
‫بدلے جن کی مدد سے اس نے حکومت کی۔ جن میں سے ایک سردار محمد داؤد خان‬
‫)المعروف سردار داؤد( تھا جو اس کا کزن تھا۔ سردار داؤد نے روس اور بھارت‬
‫سے تعلقات بڑھائے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی۔ پاکستان سے تعلقات کی خرابی‬
‫کی وجہ سے افغانستان کو اقتصادی مشکلت ہوئیں تو سردار داؤد کو ‪1963‬ء میں‬
‫استعف ٰی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد )دوِرصدارت‪1973 :‬ء‪1978-‬ء( اس نے دس سال‬
‫بعد ‪ 17‬جولئی ‪1973‬ء کو ایک فوجی بغاوت میں افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ اس‬
‫بغاوت کو روس )اس وقت سوویت یونین( کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر‬
‫اطالیہ چل گیا۔‪ 27‬اپریل ‪1978‬ء کو سردار داؤد کو ایک اور بغاوت میں قتل کر دیا‬
‫گیا۔ اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے‬
‫ممکن بنایا گیا۔ اس حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس‬
‫کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعمیر سے لے کر فوجی مدد تک سب‬
‫کچھ شامل تھا۔ روس کی یہ کامیابی امریکہ کو کبھی پسند نہیں آئی چنانچہ سی آئی‬
‫اے )‪ (CIA‬نے اسلمی قوتوں کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ جس سے ملک میں‬
‫فسادات پھوٹ پڑے۔ نتیجتًا ‪1979‬ء میں روس نے افغانستان کی حکومت کی دعوت‬
‫ل افغانستان پر اسی طرح روس کا قبضہ‬
‫پر افغانستان میں اپنی فوج اتار دی اور عم ً‬
‫ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ ہے۔‬
‫]ترمیم[ روسی قبض ہ اور ج ہاد‬
‫روس کی کمیونسٹ پارٹی نے کمال اتا ترک کی طرز پر غیر اسلمی نظریات کی‬
‫ل پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ یہ تبدیلیاں افغانی معاشرہ سے‬ ‫ترویج کی مث ً‬
‫بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ افغانستان میں حالت جب بہت خراب ہو گئے تو‬
‫افغانی کمیونسٹ حکومت کی دعوت پر روس نے اپنی فوج افغانستان میں اتار دی۔‬
‫‪ 25‬دسمبر ‪ 1979‬کو روسی فوج کابل میں داخل ہوگئی۔ افغانستان میں مجاہدین نے‬
‫ان کے خلف جنگ شروع کر دی۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو خوب مدد فراہم کی‬
‫مگر امریکہ کا مقصد اسلم کی خدمت نہیں بلکہ روس کے خلف ایک قوت کو‬
‫مضبوط کرنا تھا۔ امریکہ کو پاکستان کو بھی ساتھ ملنا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی‬
‫جماعتوں کو بھی امریکہ نے روس کے خلف استعمال کیا۔ پاکستان نے بھی دنیا کو‬
‫روس سے نجات دل کر ساری مسلم دنیا کو امریکی چنگل میں پھنسانے میں مدد کی۔‬
‫افغان مجاہدین اسلم سے مخلص تھے مگر امریکہ انھیں اپنے مقصد کے لیے استعمال‬
‫کرتا رہا۔ مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہی مجاہدین امریکی اور‬
‫پاکستانی زبان میں دہشت گرد کہلنے لگے۔ امریکی سی آئی اے‪ ،‬پاکستان‪ ،‬امریکہ‬
‫اور سعودی عرب نے اس دوران اپنا اپنا کردار ادا کیا جس میں ان ممالک کے کچھ‬
‫مفادات مشترک تھے اور کچھ ذاتی۔ اس جہاد کا نتیجہ یہ نکل کہ روس کو ‪ 1989‬میں‬
‫مکمل طور پر افغانستان سے نکلنا پڑا بلکہ بعض دانشوروں کے خیال میں روس کے‬
‫ٹوٹنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ اس سلسلے میں روس‪ ،‬افغانستان اور پاکستان‬
‫کے درمیان ‪ 1988‬میں جنیوا معاہدہ ہوا تھا۔‬
‫]ترمیم[ روسیو ں ک ے بعد‬
‫روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب اللہ حکومت کی‬
‫مدد جاری رکھی مگر ‪ 18‬اپریل ‪ 1992‬کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل‬
‫عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور‬
‫افغانستان کو اسلمی جمہوریہ بنانے کا اعلن کر دیا۔ مگر امریکہ اسلحہ کی مدد سے‬
‫مجاہدین کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی‬
‫شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسلمی جہادی کونسل بنائی گئی جس کی قیادت پہلے‬
‫صبغت اللہ مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی‬
‫لڑائی میں اضافہ ہوتا چل گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی‬
‫باہمی منافرت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس وقت کی حکومت میں پشتونوں کی نمائندگی‬
‫س محرومی پیدا ہوا۔ پاکستان اور‬ ‫نہ ہونے کے برابر تھی جس سے ان میں شدید احسا ِ‬
‫افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبا کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد‬
‫میں طالبان کہا جانے لگا۔ پاکستانی فوج کے جنرل نصیر اللہ بابر طلبا کو استعمال‬
‫کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ ‪1996‬ء میں طالبان کے رہنما مل محمد عمر نے کابل‬
‫پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسلمی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں‬
‫امیر المومنین تسلیم کر لیا۔ طالبان نے ‪ 2000‬تک افغانستان کے پچانوے فی صد‬
‫علقے پر قبضہ کر کے ایک اسلمی حکومت قائم کی۔ اس زمانے میں افغانستان میں‬
‫نسبتًا امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان کو بجز پاکستان اور‬
‫سعودی عرب کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتحاد کی مدد‬
‫جاری رکھی جو افغانستان کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ‬
‫تھی کہ ایک خالص اسلمی حکومت مغربی دنیا اور بھارت کو ھرگز قبول نہ تھی۔‬
‫یاد رہے کہ طالبان سے پہلے بھارت کو افغانستان میں خاصا عمل دخل تھا۔ طالبان‬
‫کے دور میں پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ‬
‫پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ایک طرح سے دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر‬
‫پاکستان نے طالبان کے خلف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالبان کا اعتماد‬
‫کھویا بلکہ ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو‬
‫گئی۔‬
‫ت حاضر ہ‬
‫]ترمیم[ امریکی قبض ہ اور حال ِ‬
‫طالبان کے دور میں کچھ ایسے لوگوں نے افغانستان میں اپنے اڈے بنائے جو پہلے‬
‫امریکہ کے منظوِر نظر تھے مگر جب امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی تو وہ‬
‫یکایک امریکہ کی نظر میں دہشت گردوں میں تبدیل ہو گئے۔ ان میں اسامہ بن لدن‬
‫اور اس کے حواری شامل تھے۔ جو افغان میں روس کے خلف جہاد میں سرگرم‬
‫تھے۔ ‪ 11‬ستمبر ‪ 2001‬کے عالمی تجارتی مرکز ) ورلڈ ٹریڈ سنٹر( کے حادثے کا‬
‫الزام اسامہ بن لدن اور القاعدہ پر لگایا گیا۔ ان لوگوں کو طالبان نے پناہ دے رکھی‬
‫تھی اور افغانی روایات کے مطابق انھیں دشمن کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس‬
‫بہانے ‪ 7‬اکتوبر ‪ 2001‬کو امریکہ نے افغانستان پر پاکستان کی مدد سے حملہ کر دیا‬
‫اور افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کا کردار تاریخی لحاظ سے نہایت شرمناک‬
‫کہلیا جا سکتا ہے کیونکہ امریکی دباؤ کی وجہ سے انھوں نے اپنے سابقہ دوستوں کے‬
‫خلف کاروائی میں مدد کی۔ امریکہ نے بعد میں عراق پر بھی قبضہ کیا جس سے‬
‫سوچا جا سکتا ہے کہ ایک تو اس نے عراق پر حملہ سے پہلے افغانستان میں ایسی‬
‫حکومت کو ختم کیا جہاں سے ممکنہ مدد عراق کو جہاد کے نام پر مل سکتی تھی۔‬
‫دوسرے افغانستان اور عراق پر قبضہ کر کے اور پاکستان کو دباؤ میں رکھ کر‬
‫امریکہ نے ایران اور کسی حد تک اسلم کے مرکز سعودی عرب کو گھیرے میں لے‬
‫لیا۔ خلیج فارس میں اتنی زیادہ امریکی بحری طاقت قائم ہو گئی جس کی تاریخ میں‬
‫مثال نہیں ملتی۔ امریکی ایما پر جرمنی کے شہر بون میں ایک افغانی حکومت کا قیام‬
‫عمل میں آیا جس کے سربراہ حامد کرزئی تھے ۔ ‪ 9‬اکتوبر ‪ 2004‬کو حامد کرزئی‬
‫کو افغانستان کا صدر چن لیا گیا۔ موجودہ حالت یہ ہیں کہ حامد کرزئی کی کٹھ‬
‫پتلی حکومت قائم ہے۔ افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج تاحال موجود ہے جو‬
‫افغانستان کی اصل حاکم ہے۔ بھارت کا اثرو رسوخ افغانستان میں بہت زیادہ ہوچکا‬
‫ہے۔ یہاں تک کہ بھارت اور امریکہ پاکستان کے صوبے بلوچستان جیسے علقوں میں‬
‫پرتشدد کاروائیوں اور دہشت گردی کو خوب فروغ دے رہے ہیں۔ ‪ 13‬اور ‪14‬مئی‬
‫‪ 2007‬کو افغانی و امریکی فوج اور پاکستانی افواج میں آپس میں پہلی باقاعدہ‬
‫جھڑپ ہوچکی ہے جس میں کچھ پاکستانی اور کچھ امریکی فوجی ھلک ہوئے ہیں۔‬
‫یہاں یہ یاد رہے کہ امریکہ وقتًا فوقتًا پاکستانی علقے میں متعدد بار میزائیل پھینک‬
‫چکا ہے جس سے سو سے زائد پاکستانی شہری ھلک ہو چکے ہیں۔ یہ کاروائیاں بعینہ‬
‫اسی طرز پر ہوتی ہیں جیسے اسرائیل جنوبی لبنان میں کرتا ہے۔ ‪ 16‬مئی کو ایک‬
‫مزید جھڑپ میں افغانی قومی فوج کے چار افراد ھلک اور ایک پاکستانی زخمی‬
‫ہوا۔‬
‫]ترمیم[ جغرافیہ اور موسم‬
‫افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ‬
‫سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ‬
‫علقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید‬
‫کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو‪ ،‬دریائے کابل‪ ،‬دریائے ہلمند اور‬
‫ھریرود ہیں۔ اونچا ترین مقام نوشک ہے جو ‪ 24,557‬فٹ بلند ہے اور ترچ میر کے‬
‫بعد کوہ ہندوکش کا دوسرا اونچا پہاڑ ہے۔ سطح سمندر سے سب سے کم بلند علقہ‬
‫]‪[4‬‬
‫)پست ترین مقام( دریائے آمو ہے جو صرف ‪ 846‬فٹ بلند ہے۔‬
‫افغانستان کی جغرافیائی سرحد ‪ 5529‬کلومیٹر لمبی ہے جس میں سب سے زیادہ‬
‫علقہ )‪ 2,640‬کلومیٹر( پاکستان کے ساتھ لگتا ہے۔ ‪ 12%‬علقہ زراعت کے قابل‬
‫ہے مگر صرف ‪ 0.22%‬علقہ زیِر کاشت ہے۔ چونکہ زیادہ علقہ پہاڑی ہے اس لیے‬
‫زلزلے کثرت سے آتے ہیں۔ افغانستان کے علقے میں سونا‪ ،‬چاندی‪ ،‬کوئلہ‪ ،‬تانبا‪،‬‬
‫کانسی‪ ،‬کرومائیٹ‪ ،‬زنک‪ ،‬سلفر‪ ،‬لوہا‪ ،‬قیمتی پتھر اور نمک پائے جاتے ہیں۔ تیل کے‬
‫بھی وسیع ذخائر ہیں۔ یہ تمام قدرتی وسائل مسلسل جنگ کی وجہ سے کبھی استعمال‬
‫نہیں ہو سکے۔افغانستان کا موسم شدید ہے یعنی گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں‬
‫میں شدید سردی ہوتی ہے مگر سردیاں زیادہ شدید ہیں۔ کابل میں دو سے تین ماہ‬
‫برف پڑی رہتی ہے۔ جلل آباد اور اس سے نیچے کا موسم نسبتًا گرم ہے۔ زیادہ‬
‫]‪[5‬‬
‫بارشیں گرمیوں میں ہوتی ہیں جب برصغیر میں مون سون ہوتا ہے۔‬
‫]ترمیم[ معیشت‬
‫افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور‬
‫امریکہ کی کشمکش اور اس علقے میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل‬
‫جنگ کا شکار رہا ہے اور اسے معاشی ترقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ افغانستان کی‬
‫خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت کر گئی تھی جن میں سے کچھ اب واپس‬
‫آنا شروع ہوئے ہیں مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو‬
‫پڑھنے لکھنے اور کوئی ھنر سیکھنے کے مواقع بھی کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں‬
‫جن لوگوں نے ہجرت نہیں بھی کی انھیں جنگ نے مصروف رکھا۔ مجبورًا اسلحہ‬
‫کی تجارت‪ ،‬جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر‬
‫بنی۔ ایک بڑی تعداد سمگلنگ سے بھی وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے‬
‫علوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق ‪2001‬ء‬
‫ل اعتماد‬
‫کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں کوئی قاب ِ‬
‫اعدادوشمار نہیں ملتے۔ البتہ افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ‬
‫ل ‪2005‬ء میں دبئی کے ایک افغانی خاندان نے ڈھائی‬ ‫سرمایہ کاری شروع کی ہے مث ً‬
‫کروڑ ڈالر سے کوکا کول کا ایک پلنٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی‬
‫غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور ‪ 2006‬میں زِر مبادلہ کے بیرونی ذخائر‬
‫ط زر افغانستان کا ایک‬ ‫صرف پچاس کروڑ امریکی ڈالر کے لگ بھگ تھے۔ افرا ِ‬
‫بنیادی مسئلہ رہا ہے اور افغانی روپیہ کی قیمت بھی مسلسل گرتی رہی ہے مگر اب‬
‫حالت کچھ بہتر ہیں۔ ‪2003‬ء کے بعد ‪ 14‬نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر‬
‫ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کابل کی ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکہ ڈالر مہیا کیے‬
‫گئے ہیں۔ افغانستان کئی بین القوامی ادارون کا رکن ہے اور حال ہی میں سارک )‬
‫‪ (SAARC‬کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس‬
‫کا استعمال اور فروخت بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔‬
‫]ترمیم[ انتظامی تقسیم‬
‫ل ولیت بدخشان۔ افغانستان کو کل‬
‫افغانستان میں صوبے کو ولیت کہتے ہیں مث ً‬
‫سینتیس ولیات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کے نام نیچے دیے گئے ہیں۔‬

‫ارزگان‬ ‫‪.1‬‬ ‫پکتیکا‬ ‫‪.1‬‬ ‫دایکندی‬ ‫‪.1‬‬ ‫قندھار‬ ‫‪.1‬‬

‫بادغیس‬ ‫‪.2‬‬ ‫پنجشیر‬ ‫‪.2‬‬ ‫زابل‬ ‫‪.2‬‬ ‫کابل‬ ‫‪.2‬‬


‫نورستان‬ ‫‪.1‬‬
‫بامیان‬ ‫‪.3‬‬ ‫تخار‬ ‫‪.3‬‬ ‫سر پل‬ ‫‪.3‬‬ ‫کاپیسا‬ ‫‪.3‬‬
‫نیمروز‬ ‫‪.2‬‬
‫بدخشان‬ ‫‪.4‬‬ ‫جوزجان‬ ‫‪.4‬‬ ‫سمنگان‬ ‫‪.4‬‬ ‫کندوز‬ ‫‪.4‬‬
‫وردک‬ ‫‪.3‬‬
‫بغلن‬ ‫‪.5‬‬ ‫پنجشیر‬ ‫‪.5‬‬ ‫غزنی‬ ‫‪.5‬‬ ‫کنر‬ ‫‪.5‬‬
‫ھرات‬ ‫‪.4‬‬
‫بلخ‬ ‫‪.6‬‬ ‫تخار‬ ‫‪.6‬‬ ‫غور‬ ‫‪.6‬‬ ‫لغمان‬ ‫‪.6‬‬
‫ھلمند‬ ‫‪.5‬‬
‫پروان‬ ‫‪.7‬‬ ‫جوزجان‬ ‫‪.7‬‬ ‫فاریاب‬ ‫‪.7‬‬ ‫لوگر‬ ‫‪.7‬‬

‫پکتیا‬ ‫‪.8‬‬ ‫خوست‬ ‫‪.8‬‬ ‫فراہ‬ ‫‪.8‬‬ ‫ننگرھار‬ ‫‪.8‬‬


‫افغانستان کا نقشہ‬

‫]ترمیم[ مشہور شہر‬


‫افغانستان کے مرکزی ادارہ برائے شماریات کے مطابق آبادی کے حساب سے ‪2006‬ء‬
‫میں افغانستان کے بارہ بڑے شہر درج ذیل ہیں۔ آبادی بھی ان کے ساتھ دی گئی ہے۔‬
‫قندوز ‪-‬‬ ‫‪.1‬‬ ‫چاریکار ‪-‬‬ ‫‪.1‬‬
‫‪264,100‬‬ ‫‪153,500‬‬
‫کابل ‪2,536,300 -‬‬ ‫‪.1‬‬
‫طالقان ‪-‬‬ ‫‪.2‬‬ ‫شبرغن ‪-‬‬ ‫‪.2‬‬
‫قندھار ‪450,300 -‬‬ ‫‪.2‬‬
‫‪196,400‬‬ ‫‪143,900‬‬
‫ھرات ‪349,000 -‬‬ ‫‪.3‬‬
‫ل خمری ‪-‬‬
‫پِ‬ ‫‪.3‬‬ ‫غزنی ‪-‬‬ ‫‪.3‬‬
‫مزار شریف ‪-‬‬ ‫‪.4‬‬ ‫‪180,800‬‬ ‫‪141,000‬‬
‫‪300,600‬‬
‫جلل آباد ‪-‬‬ ‫‪.4‬‬ ‫سِرپل ‪-‬‬ ‫‪.4‬‬
‫‪168,600‬‬ ‫‪136,000‬‬
‫]ترمیم[ ثقافت‬
‫افغانستانی ثقافت کی تین اہم بنیادیں ہیں۔ ایرانی ثقافت‪ ،‬پشتون ثقافت اور اسلم۔ اس‬
‫میں اسلم کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ افغانیوں کے لیے ان کا ملک‪ ،‬قبیلہ سے وفاداری‪،‬‬
‫مذہب‪ ،‬اپنا شجرہ نسب اور سب سے بڑھ کر آزادی بہت اہم ہیں۔ مذہب کے ساتھ ساتھ‬
‫شاعری اور موسیقی بھی ان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان ایک تاریخ‬
‫رکھتا ہے جس کے نشان جابجا آثاِر قدیمہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بز کشی ان‬
‫کا قومی کھیل ہے جو پولو سے ملتا جلتا ہے۔ اگرچہ تعلیم کی شرح کم ہے مگر قرآن‬
‫و مذہب کی تعلیم اور شاعری خصوصًا قدیم فارسی شاعری ان کی زندگی اور‬
‫خیالت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین کو قدیم‬
‫زمانے میں خراسان بھی کہا جاتا تھا۔ اب خراسان ایران کے ایک حصے کو کہا جاتا‬
‫ہے مگر یہ دونوں علقے )ایرانی اور افغانی خراسان( تاریخی طور پر ہمیشہ متعلق‬
‫رہے ہیں۔ افغانستانی خراسان نے بڑے اہم لوگوں کو جنم دیا ہے جن کو عام لوگ‬
‫ل امام ابو حنیفہ کے قریبی اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔‬
‫عرب سمجھتے ہیں۔ مث ً‬
‫اسی طرح بو علی سینا جسے اسلمی اور مغربی دنیاؤوں میں اپنے وقت کا سب سے‬
‫بڑا طبیب اور حکیم گردانا جاتا ہے‪ ،‬کا تعلق بلخ سے تھا۔ بو علی سینا کے والد نے‬
‫عرب کو ہجرت کی تھی۔ مولنا رومی کی پیدائش اور تعلیم بھی بلخ ہی میں ہوئی‬
‫تھی۔ مشہور فلسفی ابو الحسن الفارابی کا تعلق افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تھا۔‬
‫پندرہویں صدی کے مشہور فارسی صوفی شاعر نور الدین عبدالرح ٰمن جامی کا تعلق‬
‫افغانستان کے صوبہ غور کے گاؤں جام سے تھا۔‬
‫افغانستان کے کھانے بھی لجواب ہوتے ہیں جن میں سے افغانی یا کابلی پلؤ‪ ،‬خمیری‬
‫روٹی اور تکے کباب شاید دنیا میں اپنی قسم کے مزیدار ترین کھانوں میں شامل ہیں‬
‫جو دیگر علقوں میں بھی مقبول ہیں۔ مذہب کو افغانستان میں بہت اہمیت حاصل ہے‬
‫اور ان کی چار اہم چھٹیاں عیدالفطر ‪،‬عیدالضح ٰی‪ ،‬عاشورہ اور عید میلدالنبی‬
‫صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مذہبی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علوہ افغانستان کا یوِم‬
‫آزادی ) ‪19‬اگست( اور نوروز )‪ 21‬مارچ( بھی چھٹیوں میں شامل ہیں۔‬
‫]ترمیم[ اعداد و شمار‬
‫]ترمیم[ نسلیں‬
‫ل لوگ پشتون‪ ،‬تاجک‪ ،‬ھزارہ‪ ،‬ازبک‪ ،‬ایمک‪ ،‬ترکی‪ ،‬بلوچی اور دیگر لوگ ہیں۔‬ ‫نس ً‬
‫دیگر لوگوں میں نورستانی‪ ،‬پشائی‪ ،‬براھوی وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫]ترمیم[ زبانیں‬
‫افغانستان میں ‪ 50%‬لوگ فارسی )دری لہجہ(‪ 35% ،‬لوگ پشتو اور باقی لوگ‬
‫ازبک‪ ،‬ترکی‪ ،‬نورستانی‪ ،‬بلوچی وغیرہ بولتے ہیں۔]‪ [6‬نورستانی اور بلوچی سمیت‬
‫تیس کے قریب علقائی زبانیں ہیں جو چار فی صد کے قریب لوگ بولتے ہیں۔ جنگ‬
‫اور ہجرت کی وجہ سے افغانی اب اردو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ملک‬
‫ہے جس میں دو یا زیادہ زبانیں جاننا ایک عام بات ہے۔ پشتو بولنے والے لوگوں کے‬
‫علقے زیادہ تر پاکستانی سرحد سے قریب ہیں۔ یعنی ملک کے جنوب مشرق اور‬
‫جنوب میں ہیں۔‬
‫]ترمیم[ مذا ہب‬
‫افغانستان کے ‪ 99%‬لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ایک‬
‫لکھ کے قریب ہندو اور سکھ بھی ہیں جو کابل‪ ،‬قندھار اور جلل آباد سے تعلق‬
‫]‪[7‬‬
‫رکھتے ہیں۔‬

‫]ترمیم[ افغانستان تصویروں میں‬

‫مزار شریف کی مشہور مسجد‬ ‫ھرات کی اہم شاہراہ‬ ‫روسی فوج افغانستان چھوڑتے‬ ‫ھریرود )دریا( ۔ یہا ںں میناِر جام‬
‫ہوئے‬ ‫بھی نظر آ رہا ہے‬

‫مسجد جمعہ۔ ھرات‬

‫ھریرود )دریا( کے کنارے میناِر‬ ‫مزار شریف کی نیلی مسجد کے بامیان میں بدھ کا سال قدیم مجسمہ‬
‫جام‬ ‫جسے طالبان نے بم سے اڑا دیا ت ا‬
‫ھ۔‬ ‫نقش و نگار‬

‫تصویر کو بڑا کرنے کے لیے اس پر کلک کریں۔‬


‫]ترمیم[ مزید دیکھئیے‬
‫محمود غزنوی‬ ‫‪.1‬‬

‫احمد شاہ ابدالی‬ ‫‪.2‬‬

‫امان اللہ خان‬ ‫‪.3‬‬


‫امیر حبیب اللہ خان‬ ‫‪.4‬‬

‫مل محمد عمر‬ ‫‪.5‬‬

‫امیر دوست محمد خان‬ ‫‪.6‬‬

‫بچہ سقا‬ ‫‪.7‬‬

‫]ترمیم[ حوالے‬
‫‪ ^.1‬افغانستان ‪ ,‬مائکروسوفٹ انکارٹا انسائیکلوپیڈیا ‪ 2006‬بزبان انگریزی‬
‫‪ ^.2‬انگریزوں کی عظیم چالبازیاں۔‬
‫‪ ^.3‬حبیب اللہ کلکانی ۔ انگریزی کتاب‬
‫‪ ^.4‬سی۔آئی۔اے ورلڈ فیکٹ بک۔ ‪2000‬‬
‫‪ ^.5‬سی۔آئی۔اے ورلڈ فیکٹ بک۔ ‪2000‬‬
‫‪ ^.6‬سی۔آئی۔اے ورلڈ فیکٹ بک۔ ‪2000‬‬
‫‪ ^.7‬انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا۔ انگریزی میں پی ڈی ایف فائل کی شکل میں‬
‫]ترمیم[ بیرونی روابط‬
‫تاریخ کی گزرگاہ کا پتھر‬ ‫‪.1‬‬

‫مرکزی ادارہ شماریات افغانستان‬ ‫‪.2‬‬


‫‪Retrieved from "http://ur.wikipedia.org/wiki/‬‬
‫‪%D8%A7%D9%81%D8%BA‬‬
‫‪"%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86‬‬
‫زمرہ جات‪ :‬منتخب مقالے | ممالک‬
‫خیالت‬
‫مضمون‬ ‫‪.1‬‬
‫تبادلۂ خیال‬ ‫‪.2‬‬
‫ترمیم‬ ‫‪.3‬‬
‫تاریخچہ‬ ‫‪.4‬‬
‫‪Personal tools‬‬
‫ک ھات ہ بنائی ں یا اندراج کری ں‬ ‫‪.1‬‬
‫رہنمائی‬
‫صفحہ اول‬ ‫‪.1‬‬
‫دیوان عام‬ ‫‪.2‬‬
‫حالیہ تبدیلیاں‬ ‫‪.3‬‬
‫تصادفی مقالہ‬ ‫‪.4‬‬
‫معاونت‬ ‫‪.5‬‬
‫تعارف وکیپیڈیا‬ ‫‪.6‬‬
‫رابطہ‬ ‫‪.7‬‬

‫ساتھی منصوبے‬
‫وکی لغت‬ ‫‪.1‬‬
‫وکی اقتباسات‬ ‫‪.2‬‬
‫وکی کتب‬ ‫‪.3‬‬
‫وکی ماخذ‬ ‫‪.4‬‬

‫تلش‬
‫‪Top of Form‬‬

‫تلش‬ ‫حرکت‬

‫‪Bottom of Form‬‬

‫آلت‬
‫یہاں کس کا رابطہ ہے‬ ‫‪.1‬‬
‫متعلقہ تبدیلیاں‬ ‫‪.2‬‬
‫زبراثقالِملف )فائل اپ لوڈ(‬ ‫‪.3‬‬
‫خصوصی صفحات‬ ‫‪.4‬‬
‫قابل طبع نسخہ‬ ‫‪.5‬‬
‫مستقل کڑی‬ ‫‪.6‬‬
‫مضمون کا حوالہ دیں‬ ‫‪.7‬‬

‫دیگر زبانیں‬
‫‪Afrikaans‬‬ ‫‪.1‬‬
‫‪Alemannisch‬‬ ‫‪.2‬‬
‫‪Aragonés‬‬ ‫‪.3‬‬
‫العربیة‬ ‫‪.4‬‬
‫‪Asturianu‬‬ ‫‪.5‬‬
‫‪Azərbaycan‬‬ ‫‪.6‬‬
‫‪Žemaitėška‬‬ ‫‪.7‬‬
‫‪Bikol Central‬‬ ‫‪.8‬‬
‫‪Беларуская‬‬ ‫‪.9‬‬
‫‪(Беларуская (тарашкевіца‬‬ ‫‪.10‬‬
‫‪Български‬‬ ‫‪.11‬‬
‫‪বাংলা‬‬ ‫‪.12‬‬
‫‪བོད་ཡིག‬‬ ‫‪.13‬‬
ইমার ঠার/িবষুিপয়া মিণপুরী .14
Brezhoneg .15
Bosanski .16
Català .17
Chavacano de Zamboanga .18
Cebuano .19
Qırımtatarca .20
Česky .21
Kaszëbsczi .22
Чăвашла .23
Cymraeg .24
Dansk .25
Deutsch .26
Zazaki .27
Dolnoserbski .28
ް ަ‫ދިވެހިބ‬
‫ސ‬ .29
ཇོང་ཁ .30
Ελληνικά .31
English .32
Esperanto .33
Español .34
Eesti .35
Euskara .36
‫فارسی‬ .37
Suomi .38
Føroyskt .39
Français .40
Arpetan .41
Furlan .42
Frysk .43
Gaeilge .44
Gàidhlig .45
Galego .46
ગુજરાતી .47
‫עברית‬ .48
िहनदी .49
Hrvatski .50
Hornjoserbsce .51
Kreyòl ayisyen .52
Magyar .53
Հայերեն .54
Interlingua .55
Bahasa Indonesia .56
Ilokano .57
Ido .58
Íslenska .59
Italiano .60
日本語 .61
Basa Jawa .62
ქართული .63
Қазақша .64
ភសែខ្រ .65
ಕನನಡ .66
한국어 .67
‫ كوردی‬/ Kurdî .68
Kernewek .69
Latina .70
Lëtzebuergesch .71
Limburgs .72
Líguru .73
Lietuvių .74
Latviešu .75
Македонски .76
മലയാളം .77
Монгол .78
मराठी .79
Bahasa Melayu .80
Ekakairũ Naoero .81
Nahuatl .82
Plattdüütsch .83
नेपाल भाषा .84
Nederlands .85
Norsk (nynorsk) .86
Norsk (bokmål) .87
Novial .88
Occitan .89
Иронау .90
Pangasinan .91
Kapampangan .92
Deitsch .93
Polski .94
Piemontèis .95
‫پښتو‬ .96
Português .97
Runa Simi .98
Română .99
Русский .100
संसकृत .101
Sicilianu .102
Sámegiella .103
Srpskohrvatski / Српскохрватски .104
Simple English .105
Slovenčina .106
Slovenščina .107
Shqip .108
Српски / Srpski .109
Basa Sunda .110
Svenska .111
Kiswahili .112
தமிழ் .113
తలుగు .114
Tetun .115
Тоҷикӣ .116

ไทย .117

Türkmen .118
Tagalog .119
Türkçe .120
Удмурт .121
‫ ئۇیغۇرچە‬/ Uyghurche .122
Українська .123
O'zbek .124
Vèneto .125
Tiếng Việt .126
Volapük .127
Winaray .128
Wolof .129
‫יִידיש‬ .130
Yorùbá .131
中文 .132
Bân-lâm-gú .133
粵語 .134

‫ کو کی گئی۔‬2008 ‫ مارچ‬8 ,23:08 ‫آخری بار تدوین‬ .1


‫ کے تحت میسر ہے۔‬GNU Free Documentation License ‫تمام مواد‬ .2
‫اصول براۓ اخفائے راز‬ .3
‫منصوبہ کا تعارف‬ .4
‫اعلنات‬ .5

You might also like