Professional Documents
Culture Documents
ہے
فاتحہ ،تیجہ ،دسواں ،چالیسواں وغیرہ اسی ایصال ثواب کی شاخیں ہیں۔ فاتحہ
میں صرف یہ ہوتا ہے کہ تالوت قرآن جو کہ بدنی عبادت ہے۔ اور صدقہ یعنی مالی عبادت
کا جمع کرکے ثواب پہنچایا جاتا ہے۔
بدنی اور مالی عبادات کا ثواب مسلمان کو بخشنا جائز ہے اور پہنچتا ہے۔ جس کا
ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے
ٰ
مشکوۃ باب الفتن باب االسالم فصل سے دعا کرنے کا حکم دیا۔ نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔
تعالی عنہ نے کسی سے فرمایا کہ من یضمن منکم ان دوم میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی ہللا ٰ
صلی فی مسجد العشار رکعین ویقول ھذہ البی ہریرۃ اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے۔ ایک
یہ کہ عبادت بدنی یعنی نماز بھی کسی کی ایصال ثواب کی نیت سے ادا کرنا جائز ہے
دوسرے یہ کہ زبان سے ایصال ثواب کرنا کہ خدایا اس کا ثاب فالں کو دے بہت بہتر ہے
تیسرے یہ کہ برکت کی نیت سے بزرگان دین کی مسجدوں میں نماز پڑھنا باعث ثواب ہے۔
زکوۃ اور حج اس میں اگر کوئی شخص رہی عبادت مالی یا مالی و بدنی کا مجموعہ جیسے ٰ
زکوۃ دے دو تو دے سکتا ہے۔ اور اگر مال میں حج کسی سے کہدے کہ تم میری طرف ٰ
کرنے کی قوت نہ رہے تو دوسرے سے حج بدل کرا سکتا ہے۔ لیکن ثواب ہر عبادت کا
ضرور پہنچتا ہے اگر میں کسی کو اپنا مال دیدوں تو وہ مالک ہو جاویگا۔ اسی طرح یہ
بھی۔ ہاں فرق یہ ہے کہ مال تو کسی کو دے دیا تو اپنے پاس نہ رہا اور اگر قرآن پڑھایا تو
سب کو پورا قرآن گیا اور پڑھانے والے کا جاتا نہ رہا۔
دیکھو شامی جلد اول بحث دفن میت۔ اسی لیے نابالغ بچے سے ہدیہ لینا منع ہے
مگر ثواب لینا جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ثواب کسی کو نہیں پہنچتا۔ کیونکہ قرآن
کریم میں ہے۔
لھا ماکسبت وعلیھا مااکتسبت (پارہ ،3سورہ ،2آیت)286
ہر نفس کے لیے وہ ہی مفید و مضر ہے جو اس نے خود کرلیا۔
نیز قرآن میں ہے۔
لیس لالنسان اال ما سعی۔ (پارہ ،27سورہ ،53آیت)39
انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہ جو خود کرے۔
جس سے معلوم ہوا کہ غیر کا کام پانے لیے مفید نہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ یہ الم
ملکیت کا ہے یعنی انسان کے لیے قابل بھروسہ اور اپنی ملکیت اپنے ہی اعمال ہیں۔ نہ
معلوم کہ کوئی اور ایصال ثواب کرے یا نہ کرے اس بھروسہ پر اپنے عمل سے غافل نہ
رہے۔ (دیکھو تفسیر خزائن العرفان وغیرہ) یا یہ حکم ابراہیم و ٰ
موسی علیہ السالم کے
صحیفوں کا تھا نہ کہ اسالم۔ یہاں اس کی نقل ہے۔ یا یہ آیت اس آیت سے منسوخ ہے واتیعتم
ذریتھم باالیمان یہ ہی عبدہللا ابن عباس کا قول ہے اسی لیے مسلمانوں کے بچے ماں باپ
کی طفیل جنت میں جاویں گے۔ بغیر عمل درجات پائینگے۔ دیکھو جملو خازن یا یہ آیت
بدنی اعمال میں نیابت کی نفی کرتی ہے۔ اسی لیے ان میں کسب و سعی کا ذکر ہے۔ نہ کہ
ہبہ ثواب کا یا یہ ذکر عدل ہے اور وہ فضل غرضکہ اس کی بہت توجیہات ہیں۔
ت غ ئ
ے اس ب ات پر وء کر ے ہ ی ں کہ کیا اسالم میں قل یا چالیسواں کروانے کی اجازت ہے
آی
اشعتہ اللمعات باب زیارت القبور میں ہے۔ "وتصدق کردہ شوداز میت بعد
رفتن اداز عالم تا ہفت روز۔" میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کیا جاوے۔ اسی
اشعتہ اللمعات میں اسی باب میں ہے" ،وبعض روایات آمدہ است کہ روح میت مے آید خانہ
خودرا شب جمعہ پس نظرمی کندکہ تصدق کنندا از دے یا نہ" جمعہ کی رات کو میت کی
روح اپنے گھر آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس کی طرف سے لوگ صدقہ کرتے ہیں یا
نہیں۔"بعض جگہ جو رواج ہے کہ بعد موت سات روز تک برابر روٹیاں خیرات کرتے ہیں
اور ہمیشہ جمعرات کو فاتحہ کرتے ہیں۔ اس کی یہ اصل ہے۔
انوار ساطعہ صفحہ 145اور حاشیہ خزانۃ الروایات میں ہے کہ حضور علیہ
تعالی عنہ کے لیے تیسرے اور ساتویں اور چالیسویں دن السالم نے امیر حمزہ رضی ہللا ٰ
اور چھٹے ماہ اور سال بھر بعدد صدقہ دیا۔ یہ تیجہ ششماہی اور برسی کی اصل ہے۔
ت ف ن ف ن ن ہ ض
ی
ض االوز ن
رسول شکی و کات کو یسرا خ د رز ہ ع ہللا ی ر م را ب ا ا د ی س رت ن ح کہ
ض ے ہ ں یم دیض ج ض ت
ئ ھا کہ ح رت اب و ذرٹ ر ت ی ہللا عن ہ ح ضور ب ی کری م صلی ہللا علی ہسوآلہ وس نلم کے پ اس ک جھور اور دودھ دن
ص ص ج
آپ لی ہللا
ن ک رکھا ۔ ت کے تنزدی ت سی ننو کی رو ی ھی ف ت۔تقاس کو ح ور خ تلی ف تہللا علی ہ وآلہ و لم ن الے جس م
ہ
ے دو وں ا ق ئھو ں کو ا ھا کر م ہ پر اورکاپ
ی علی ہ وآلہ و حلم ے اس پر سورة ا حہ اور سورہ ا الص ی ن ب ار پڑھی
ص
ے د ھی ں ً یح ح الع ا د ًاز عالمہ دمحم ع ب دالحامد رے اور کم دی ا کہ لوگوں می ن سی م کر دو۔﴿مزی د ص ی ل کے لی پ ھی ن
ن ب دایو ی﴾
عق غ
مہ ب ن الن ،اب ن ج امع محاربی ،ل ن دمحم ب ن عالء ہ ضمدا ی ،ی یح تی ب ن ی علی،ناب ن حارث محاربی ،ی ت
ے ہ ی ں کہ ماعز ب ن مالک ب ی کر ت یروا سے اپ ے ا ہ مرث د ،ض رت س ی مان ب ن ر دہ ر ی ہللائعالی عن
ب پ بی ل ح
ے پ اک کری ں۔ آپ صلی رسول! جم ھ وآلہ فوسلم کہ پ اس آے ٰاور عرض کی اے ہللا کے ف ن ہ ی ل ع ہللا لی ص کری م
ن ت س
ے ہ الکت ہ و واپس ج ا ،ہللا سے معا ی ما ج گ اور اس کی طرف رج وع ہللا تعلی ہ توآلہ و لم ے رمای ا ی رے لیئ
ص
ے پ اک کری ں۔ رسول ہللا لی م ف
ے اور عرض ک ی ا اے ہللا کے رسول! ن ھ ن یفج ا کر لوٹ آ کر۔ و وہ ھوڑی دور ہ
ت ہللا علیتہ وآلہ وسلم ے ٹ رمای ا ہ الکت ہ
گ ناور اس کی طرف رج وع ت سے معا ی ما ہللا ا ج لوٹ ے۔ ی
ل رے ی و
نعلفی ہ ے پ اک کری ں و ب ی کری م صسلی ہللا اے ہللا فکے رسول! جم ھ ھوڑی دور ج ا کر لو افپ ھر آکر عرض کی ت
ت کر۔ وہس ن
ے نرمای ا لم و وآلہ ہ لع ہللا لی ص ہللا رسولت سے ن ا عہ د ھی و چ
ن کہ ک ہاں ا ام ر طرح اسی ے وآلہ توج لم
س ص ی یی
عرض کخی ا ز ا سےئ و رسول ہللا ن لی ہللا علی ہ وآلہ و لم ے س ے کس ب ارے می تں پ اک کروں؟ اس ے می ں ھ
ص ن ع ص ن
ے۔ آپ لی ہللا ندیواٹ ہ ہی ں ہ ن نہللاش لی ہ وآلہ و لم کو ت ب ر دی گ ی کہ وہ ے؟ و آپ لی سوا ہنہ ف پوچ ھا ک ی ا ی ہ دی
ناور اس سے ن ھ نکر اسے سو گھا ے؟ و اینکف آدمی تے ا پ ہ ی راب ے اس ا ک
ی یا رما
ت ئے لم شعلی ہ وآلہ و
وآلہ و لم ے رمای ا ک ی ا و ے ز ا ک ی ا؟ اس ے کہا ہ اں۔ س ع ص
رسولنہللا ح لی تہللا لی ہ ن
راب کی ب دب و ہ پ ا ی
نسے رج م ک ی ا گ ی ا اور لوگ اس کے ب نارےنمی ں دو گروہ وں می ں ے کم دی ا و ا لم وآلہووس آپ ئصلی ہللا علی ہ
ن
ے والے ے کہا کہ ی ہ ہ الک ہ وگ ی ا اور اس کے گ اہ ے اسے گہی ر ل ی ا اور ے۔ ان می ں سے ای ک کہ بٹگ
س ص ن ئ ت ن فض ت ن کن
ع
ں۔ وہ ب ی کری م لی ہللا ج لی پہتوآلہ و لم ت کہا کہ تماعز کی وبصہ سے ا ل کو یسوب ہ ہی ے ن لے ا و ے دوسرے ہ
ے نھروں کے قپ اس الی ا گ ی ا اس ے اپ ن ا ہ اض ھ آپت لی ہللا علی ہ وآلہ تو لم کے ہ ا ھ می ں رکھ ٹکر عرض ک ی ا م ھ
ے ی ع تی صر ی ہللا ع ٰالی عسہ تدو شدن ی ا ی نئدن اسی ب ات پر ھہرے ر ضہ
ن خسے ت ل کردی ں۔ پس صحاب ہ
عالی
حالئمی ں فکہ صحاب ہ ر ی ہللا ٰض ٹ ے اس نیف ال ف ئ ھرترسول ہللا لی ہللا علی ہ وآلہ و سلم ر الف رہ ا۔ پ ا تن ب ٹ
ص ے ہ وے ھ ع تہ ی ھ
مالک ر ی ےناور رمای ا ماعز ب ن ض الم رمای ا اور ب ی ھ گ ے۔ آپ ن لی ہللا علیضہ وآلہ و ت لم ے سن
ن ن
نماعز ب ن خمالک تر ی ہللا ے فعرض ک ی ا نہللا ے عالی عس ہ ن صہ ر یعہللا ٰ ششخب تماق گو صحابے ن عالی ع ہ کے لی تہللا ٰ
کی ہ و
ق الص سی کہ ات ہوں ے ای ا رماف ے لم و وآلہ ہ ل ہللا
ت لی م کری ی ب ا۔ کرد عاف کو ہ ن ع عالی
ج ب غ ی ت ی ی م ت ٰ
ی و ج ا ی۔ ھر ای ک عورت و ب ی جلہ امد پ ہ ے کان سب کے لیئ ض امت می ں سی م کردی ا ج ا ا و ان ے کہ اگر اس کو ہ
ےرسول!ن م ھ اسفحا ر ہ و ی۔ اس ے عرض ک ی ا اے ہللا کے ف کے آپ ے اخ ش کی ازد کہ و سے ھی ج
ت ن پ ہ
اک کرد ں۔ آپ صلی ہللا عل ہنوآلہ وس
سے مجعا ی ما گ ہللا ا ج و ے ہ الکت ہ و واپس ہ ی
ل رے ی ا خی رما ے لم ی ی پ
ے واپس م س ع
آپ لی تہللا لی ہ وآلہ و لم ھ ص ے کہ ال را م کہ ا عرض ے اس کر وع جر طرف کی اس اور
ض ن ہ ی ی
آپ صلی ہللا عل ہ وآلہ وس ی ک ت کت ن
عالی عن ہ تکو واپس تک ی ا آپ ٰ ض ہللا ی
ف ر ماعز ے ن لم ی ن کہ یسا ج ں ی ہ ے ارادہ ر ھ
ج ےکرن ف
ج حم
ے عرض ک ی ا ف ی ہ اں آپ ے اس سے ترمای ا و ع ضل ک و ی ر پ ی نٹ ج ے؟ اس ن ے ک ی نا ہ ے رمای ا ھ
ہاں کنکہ و ض ع حمل ہ وگ ی ا وہ ب ی ی غ لی داری ذمہ کی
ئ الت ض ک کی اس ے ن آدمی س صاری ا ک ے ای ہ می ں
ے حم ہ کری م نلی فہللا علی ہ وآلہ و ق لم ے ص
کردی ا ہےو ع ل ت کے پ ناس حا ر وے اور نعرض ک ی ا کہ ب امدی ہ ٹ
ہ ج
سے کو نھو ا ھوڑی ں گے و اسے چ چ ےچ س
نگے کی و کہ م ا ک اس و ت اسے ر م ہی ں کری ں ن ئہ م آپ ے رمای ا
آدمی ے عرض ک ی ا اے ہللا کے ب ی صلی ہللا علی ہ وآلہ و لم ک ی ا سے ں ی م صار ا گا؟ ے کان پ ال
ض دودھ
ے ھر اسے ر م کرد ا ا۔ ج پ
ف ی گی تف اس کی ر اعت می رے نذمہ ہ
ص ح مسلم:ج لد دوم:حدی ث مب ر 1937حدی ث مر وع م ق علی ہ یح
حضرت شاہ ولی ہللا صاحب کا بھی تیجہ ہوا۔ چنانچہ اس کا تذکرہ عبدالعزیز
صاحب نے اپنے ملفوظات صفحہ 89میں اس طرح فرمایا۔ "روز سوم کثرت ہجوم مردم آں
قدر بود کہ بیروں از حساب است ہشتادویک کالم ہللا بہ شمار آمدہ و زیادہ ہم شدہ باشد و
کلمہ را حصڑیست۔" تیسرے دن لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا۔ کہ شمار سے باہر ہے اکیاسی
ختم کالم ہللا شمار میں آئے اور زیادہ بھی ہوئے ہوں گے کلمہ طیبہ کا تو اندازہ نہیں۔
اس سے تیجہ کا ہونا اور اس میں ختم کالم ہللا کرانا ثابت ہوا۔
مولوی محمد قاسم صاحب بانی مدرسہ دیوبند تحذیر الناس صفحہ 24پر
فرماتے ہیں۔ "جنید کے کسی مرید کا رنگ یکایک متغیر ہوگیا۔ آپ نے سبب پوچھا تو
بروے مکاشفہ اس سے یہ کہا کہ اپنی ماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں حضرت جنید نے ایک
الکھ پانچ ہزار بار کلمہ پڑھا تھا یوں سمجھ کر بعض روایات میں اس قدر کلمہ کے ثواب
پر وعدہ مغفرت ہے ،آپ نے جی ہی جی میں اس مرید کی ماں کو بخش دیا اور اس کی
اطالع نہ دی۔ بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہشاش بشاش ہے۔ آپ نے سبب پوچھا۔
اس نے عرض کیا کہ اپنی ماں کو جنت میں دیکھتا ہوں۔ آپ نے اس پر یہ فرمایا کہ اس
جوان کے مکاشفہ کی صحت تو مجھ کو حدیث سے معلوم ہوئی۔ اور حدیث کی تصحیح اس
کے مکاشفہ سے ہوگئی۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ ایک الکھ پانچ ہزار سے
مردے کی بخشش کی امید ہے اور تیجہ میں چنوں پر یہ ہی پڑھا جاتا ہے۔
حضرت عمرو بن عاص رضی ہللا عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں
نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبدہللا) کو یہ
وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے
والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی
تھوڑی تھوڑی کر کے) ڈالنا پھر دفن کر دینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت
و مغفرت اور ایصال ثواب کے لیے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح
کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں
اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا
جواب دیتا ہوں۔ (مسلم) مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 200
حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی پارہ عم والقمر اذا نشق کی
تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اول حالتے کہ بجر وجدا اشدن روح از بدن خواہد شد فی الجملہ اثر
حیات سابقہ والفت تعلق بدن و دیگر معروفاں ازابنا جنس خود باقی است واں وقت گویا
برزخ است کہ چیزے ازاں طرف دچیزے ازیں طرف مدد زندھاں ،بمردگاں دریں حالت
زود ترمی رسد و مردگان منتظر لحوق مدد ازیں طرف مے باشند صدقات وادعیہ و فاتحہ
دریں وقت بسیار پکارا دمی آید و ازیں است کہ طوائف بنی آدم تایک سال وعلی الخصوص
یک چلہ بعد موت دریں نوع امداد کوشش تمام می نمایند۔
مردے کی پہلی حالت جوکہ فقط جسم سے روح نکالنے کا وقت ہے اس میں
کچھ نہ کچھ زندگی کا اثر اور بدن اور اہل قرابت سے تعلق باقی ہوتا ہے۔ یہ وقت گویا
برزخ ہے کچھ ادھر ادھر تعلق اور کچھ اس طرف اس حالت میں زندوں کی مدد مردوں کو
بہت جلد پہنچتی ہے اور ُمردے اس مدد پہنچنے کے منتظر ہوتے ہیں اس زمانہ میں صدقہ
دعائیں فاتحہ اس کے بہت ہی کام آتی ہیں۔ اس وجہ سے تمام لوگ ایک سال تک خاص کر
موت کے چالیس روز تک اس قسم کی مدد پہنچانے میں بہت کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہی حال
زندوں کا بھی ہوتا ہے کہ اول اول بہت غم پھر جس قدر وقت گزرتا گیا رنج کم ہوتا گیا۔ تو
منشاء یہ ہوتا ہے کہ سال بھر تک ہر آدھے پر صدقہ کریں سال پر برسی اس کے نصف پر
ششماہی اس کے نصف پر سہ ماہی کی فاتحہ اس کے بعد نصف یعنی 45دن فاتحہ ہونی
چاہئیے تھی۔ مگر چونکہ چالیس کا عدد روحانی اور جسمانی ترقی کا ہے اس لیے چہلم
مقرر کیا گیا۔ پھر اس کا آدھا بیسواں پھر اس کا آدھا دسواں۔
چالیس میں کیا ترقی ہے مالحظہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السالم کا ضمیر چالیس
سال تک ایک حالت میں رہا۔ پھر چالیس سال میں وہ خشک ہوا۔ ماں کے پیٹ میں بچہ
چالیس روز تک نطفہ پھر چالیس روز تک جما ہوا خون ،پھر چالیس روز تک گوشت کا
ٰ
مشکوۃ باب االیمان بالقدر) پیدا ہونے کے بعد چالیس روز تک ماں لوتھڑا رہتا ہے (دیکھو
کو نفاس آ سکتا ہے۔ پھر چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر عقل پختہ ہوتی ہے۔ اسی لیے
اکثر انبیائے کرام کو چالیس سال کی عمر میں تبلیغ نبوت دی گئی۔ صوفیائے وظیفوں کے
لیے چلے یعنی چالیس چالیس روز مشقیں کرتے ہیں تو ان کو روحانی ترقی ہوتی ہے۔
موسی علیہ السالم کو بھی حکم ہوا کہ کوہ طور پر آکر چالیس روز اعتکاف کرو تب راتٰ
دی گئی۔ واذوا اعدنا موسی اربعین لیلتہ۔ انوار ساطعہ کی روایت سیدنا انس سے بیان کی۔
بحث چہلم کہ ان االنبیاء ال یترکون فی قبورھم اربعین لیلتہ ولکن ھم یضلون بین یدی ہللا حتی
ینفخ فی الصور اس حدیث کے مع ٰنی زرقانی شرح مواہب نے یوں بیان کیے کہ انبیاء کرام
کی روح کا تعلق اس جسم مدفون سے چالیس روز تک بہت زیادہ رہتا ہے۔ بعد ازاں وہ
روح قرب ٰالہی میں عبادت کرتی ہے اور جسم کی شکل میں ہوکر جہاں چاہتی ہے جاتی
ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ چالیس کے عدد میں تغیر وتبدل ہے ٰلہذا مناسب ہوا کہ چالیس
دن پر فاتحہ کی جاوے اور اس کی ممانعت ہے نہیں۔
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور
مقامات سےخاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چنانچہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ
وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ
تعالی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے خدا ٰ
عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ ( ثواب
العبادات از خطیب پاکستان ،بحوالہ شرح الصدور ،ص )24
ایک اور حوالہ دیکھیں۔ وقیل ٰالی اربعین فان المیت یشوق ٰالی بیتہ۔
“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ ( شرح
برزخ فیض االسالم ،5ص ،34کتاب الوجیز ،ص )64
کیا اسالم میں ختم دالنے کی اجازت ہے۔
تفسیر روح البیان نے پارہ 7سورہ انعام زیر آیت وھذا کتاب انزلنا ہ مبارک
میں ہے۔
وعن حمید االعراج قال من قرء القران وختمہ ثم دعا امن علی دعائہ اربعۃ االف ملک ثم ال
یزالون یدعون لہ ویستغفرون ویصلون علیہ الی المساء اوالی الصباح۔
حضرۃ اعرج سے مروی ہے کہ جو شخص قرآن ختم کرے پھر دعا مانگے تو اس کی دعا
پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں پھر اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور مغفرت
مانگتے رہتے ہیں۔ شام یا صبح تک۔
یہی مضمون نودی کی کتاب االذکار کتاب تالوت القرآن میں بھی ہے۔ معلوم
ہوا کہ ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایصال ثواب بھی دعا ہے ٰلہذا اس وقت
ختم پڑھنا بہتر ہے
نودی نے کتاب االذکالرباب تالوت قرآن میں فرمایا کہ انس بن مالک ختم قرآن کے وقت
اپنے گھر والوں کو جمع کرکے دعا مانگتے۔ حکیم ابن عتبہ فرماتے ہیں کہ ایک مجمع کو
مجاہد و عبدہ ،ابن ابی لبابہ نے بالیا اور فرمایا کہ ہم نے تمہیں اس لئے بالیا ہے کہ آج ہم
قرآن پاک ختم کر رہے ہیں۔ اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے حضرت مجاہد سے
بروایت صحیح منقول ہے کہ بزرگان دین ختم قرآن کے وقت مجمع کرتے تھے اور کہتے
تھے کہ اس وقت رحمت نازل ہوتی ہے (نودی کتاب االذکار) ٰلہذا تیجہ و چہلم کا اجتماع
سنت سلف ہے۔
درمختار بحث قرت للمیت باب االدفن میں ہے فی الحدیث من قرء االخالص
احد عشر مرۃ ثم وھب اجرھا لالموات اعطی من االجر بعدد االموات حدیث میں ہے کہ جو
شخص گیارہ بار سورہ اخالص پڑھے پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے تو اس کو تمام
مردوں کے برابر ثواب ملے گا۔ شامی میں اسی جگہ ہے۔ ویقرء من القران ماتیستر لہ من
الفاتحہ واول۔
ویقرء من القران ما تیسترلہ من الفاتحہ واول البقرۃ وایۃ الکرسی وامن الرسول وسورۃ یس
اثنی عشر مرۃ واحدی عشر اوسبعا او ثالثا ثم وتبارک الملک وسورۃ التکاثر واالخالص ٰ
یقول اللھم اوصل ثواب ما قرء ناہ الی فالن اوالیھم۔–
جو ممکن ہو قران پڑھے سورہ فاتحہ بقر کی اول آیات اور آیۃ الکرسی اور امن الرسول
اور سورہ یس اور ملک اور سورہ تکاثر اور سورہ اخالص بارہ گیارہ یا سات یا تین دفعہ
پھر کہے کہ یا ہللا جو کچھ میں نے پڑھا اس کا ثواب فالں کو یا فالں لوگوں کو پہنچا دے۔
فتاوی عزیزیہ صفحہ 75میں ہے طعامیکہ ثواب آن نیاز حضرت امامین ٰ
نمایند برآں قل و فاتحہ و دردد خواندن متبرک می شودد خوردن بسیار خوب است جس
کھانے پر حضرات حسنین کی نیاز کریں اس پر قل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت
ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے اسی فتادہ عزیزیہ صفحہ 41میں ہے۔ "اگر مالیدہ و شیر
برائے فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخوراند جائز است مضائقہ نیست
اگر دودھ مالیدہ کسی بزرگ کی فاتحہ کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے پکا کر کھال دے
تو جائز ہے کوئی مضائقہ نہیں۔
حضرت شاہ ولی ہللا صاحب اپنی کتاب االنتباہ فی سالسل اولیاء ہللا میں
فرماتے ہیں۔ "پس وہ 10مرتبہ درود خوانند ختم تمام کنند بر قدرے شیرینی فاتحہ نام
خواجگان چشت عموما ً بخواند و حاجت از خدا سوال نمایند۔" پھر دس بار درود پڑھیں اور
پورا ختم کریں اور تھوڑی شیرینی پر تمام خواجگان چشت کی فاتحہ دیں پھر خدا سے دعا
کریں۔
حضرت شاہ ولی ہللا صاحب زبدۃ النصائق صفحہ 132پر ایک سوال کے
جواب میں فرماتے ہیں۔ "و شیر برنج بنا پر فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں
یزند و بخوزند مضائقہ نیست و اگر فاتحہ بنام بزرگے وادہ شود اغنیا راہم خوردن جائز
است۔" دودھ چاول پر کسی بزرگ کی فاتحہ دی ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی نیت سے
پکائیں اور کھائیں اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جاوے تو مالداوں کو بھی کھانا جائز
ہے۔
موالنا اشرف علی و رشید احمد صاحبان کے مرشد حاجی امداد ہللا صاحب
فیصلہ ہفت مسئلہ میں فرماتے ہیں۔ نفس ایصال ثواب ارواح اموات میں کسی کو کالم نہیں۔
اس میں بھی تخصیص و تعیین کو موقوف علیہ ثواب کا سمجھے یا واجب و فرض اعتقاد
کرے تو ممنوع ہے اور اگر یہ اعتقاد نہیں بلکہ کوئی مصلحت باعث تقلید ہئیت کزائیہ ہے
تو کچھ حرج نہیں جیسا کہ بمصلحت نماز میں سورہ خاص معین کرنے کو فقہاء محققین
نے جائز رکھا ہے۔ جو تہجد میں اکثر مشائخ کا معمول ہے۔ "پھر فرماتے ہیں جیسے کہ
نماز میں نیت ہر چند دل سے کافی ہے۔ مگر موافقت قلب و زبان کے لیے عوام کو زبان
سے کہنا بھی مستحسن ہے اگر یہاں بھی زبان سے کہہ لیا جاوے کہ یاہللا اس کھانے کا
ثواب فالں شخص کو پہنچ جاوے تو بہتر ہے پھر کسی کو خیال ہوا کہ لفظ اس کا مشار الیہ
اگر روبرو موجود ہو تو زیادہ استخصار قلب ہو کھانا روبرو النے لگے۔ کسی کو یہ خیال
ہوا کہ یہ ایک دعا ہے اس کے ساتھ اگر کچھ کالم ٰالہی بھی پڑھا جاوے تو قبولیت دعا کی
امید ہے اور اس کالم کا ثواب بھی پہنچ جاوے گا۔ تو جمع بین العباد تین ہے۔ `"پھر فرماتے
ہیں۔ اور گیارہویں حضرت غوث پاک کی ،دسویں بیسواں ،چہلم ،ششماہی ،سالیانہ وغیرہ
اور توشہ حضرت شیخ عبدالحق اور برصینی حضرت شاہ بو علی قلندر اور حلوا شب
برات و دیگر طریق ایصال ثواب کے اسے قاعدے پر مبنی ہیں۔
احادیث سے ثابت ہے۔ کہ حضور علیہ السالم نے کھانا مالحظہ فرما کر
صاحب طعام کے لیے دعا فرمائی۔ بلکہ حکم دیا کہ دعوت کھا کر میزبان کو دعاء دو اسی
مشکوۃ باب آداب طعام میں ہے کہ حضور علیہ السالم جب کھانے سے فارغ ہوتے تو ٰ طرح
فرماتے۔ الحمدہلل حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی وال مودع وال مستغنا عنہ ربنا۔ جس
سے معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد دو چیزیں مسنون ہیں۔ حمد ٰالہی کرنا اور صاحب طعام
کے لیے دعا کرنا اور فاتحہ میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں ۔ رہا سوال کھانا سامنے رکھ
کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ اس کی بہت سی احادیث آئی ہیں۔آئیے چند احادیث کا مطالعہ
کرتے ہیں۔
مشکوۃ باب المعجزات فصل دوم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا ٰ
ٰ
تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ خرمے حضور علیہ السالم کی خدمت میں الیا اور
عرض کیا کہ اس کے لیے دعائے برکت فرما دیں۔
فضمھن ثم دعالی فیھن بالبرکۃ۔
آپ نے ان کو مالیا اور دعائے برکت کی۔
عمرو بن علی ،ابوعاصم ،حنظلہ بن ابی سفیان ،سعید بن میناء ،حضرت جابر
بن عبدہللا رضی ہللا عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب خندق کھودی جا
رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سخت بھوکے ہیں میں گھر
آیا اور بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے کیونکہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بھوکے
معلوم ہوتے ہیں بیوی نے بوری سے جو نکالے۔ جو ایک صاع تھے گھر میں بکری کا
ایک بچہ پال ہوا تھا وہ میں نے ذبح کیا اتنے میں بیوی نے آٹا پیس لیا اور گوشت کاٹ کر
ہانڈی میں چڑھا دیا پھر میں آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں آیا بیوی نے
چلتے وقت کہا کہ دیکھو کہ مجھے حضور صلی ہللا علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے
سامنے شرمندہ مت کرنا کہ بہت سے آدمی آجائیں اور کھانا تھوڑا ہوجائے میں نے رسول
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے چپکے سے عرض کیا میں نے ایک بکری کا بچہ کاٹا ہے
اور ایک صاع کا آٹا پیسا ہے آپ صلی ہللا علیہ وسلم اپنے ساتھ چند آدمیوں کو لے کر
چلئے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے آواز دی اے خندق والو! جلدی چلو جابر نے کھانا پکایا
ہے پھر آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم چلو مگر میرے آنے تک نہ
ہانڈی اتارنا اور نہ خمیر کی روٹیاں پکانا آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بھی لوگوں کو لے
کر آنے کے لئے تیار ہونے لگے میں نے آکر بیوی سے سب باتیں کہہ دیں تو وہ گھبرا
گئی اور کہا تم نے یہ کیا کیا میں نے کہا میں نے تمہاری بات بھی حضور اکرم صلی ہللا
علیہ وسلم سے کہہ دی تھی غرض آنحضرت تشریف الئے اور خمیر میں لعاب دہن مالیا
اور دعائے برکت فرمائی پھر فرمایا اے جابر! روٹی پکانے والی کو بالؤ وہ میرے پاس
روٹی پکائے اور ہانڈی سے گوشت نکالے اور اسے چولہے سے نہ اتارے آخر سب نے
پیٹ بھر کر کھالیا ہانڈی اسی طرح پک رہی اور ابل رہی تھی اور روٹیاں پکائی جا رہی
تعالی عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم! کھانے والے ایک ہزار تھے سب ٰ تھیں جابر رضی ہللا
نے کھایا اور پھر بھی بچ رہا ،ہانڈی میں گوشت بھرا ہوا تھا اور روٹیاں برابر پک رہی
تھیں۔
متفق علیہ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1276حدیث مرفوع
حجاج بن شاعر ،ضحاک ،حنظلہ بن ابی سفیان ،سعید بن میناء ،حضرت جابر
تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب خندق کھودی گئی تو میں نے رسول ہللا صلی ہللا
ٰ رضی ہللا
علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپکو بھوک لگی ہوئی ہے تو میں اپنی بیوی کی طرف آیا اور اس
سے کہا کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے کیونکہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو
دیکھا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو بہت سخت بھوک لگی ہوئی ہے تو میری بیوی نے
ایک تھیلہ مجھے نکال کردیا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارا ایک بکری کا بچہ تھا
جو کہ پال ہوا تھا میں نے اسے ذبح کردیا اور میری بیوی نے آٹا پیسا میری بیوی بھی
میرے فارغ ہونے کے ساتھ ہی فارغ ہوئی پھر میں نے بکری کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں
ڈال دیا پھر میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف گیا کہنے لگی کہ مجھے رسول ہللا
اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرنا حضرت
تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں آیا
ٰ جابر رضی ہللا
تو میں نے سرگوشی کے انداز میں عرض کیا اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہم نے
ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو تھے آپ صلی ہللا علیہ وسلم
چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر ہماری طرف تشریف الئیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
نے پکارا اور فرمایا اے خندق والو ! جابر نے تمہارے دعوت کی ہے لہذا تم سب چلو
تعالی عنہ سے فرمایا میرے آنے ٰ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی ہللا
تک اپنی ہانڈی چولہے سے نہ اتارنا اور نہ ہی گندے ہوئے آٹے کی روٹی پکانا میں وہاں
سے آیا اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم
تعالی عنہ اپنی بیوی کے پاسٰ کے ساتھ سب لوگ بھی آگئے تھے حضرت جابر رضی ہللا
تعالی عنہ نے
ٰ آئے تو ان کی بیوی نے کہا تیری ہی رسوائی ہوگئی حضرت جابر رضی ہللا
کہا میں نے تو اسی طرح کہا تھا جس طرح تو نے مجھے کہا تھا پھر میں گندھا ہوا آٹا آپ
صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے نکال کر لے آیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس میں اپنا
لعاب دہن ڈاال اور اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم ہماری ہانڈیوں
کی طرف تشریف الئے اور اس ہانڈی میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ڈاال
اور برکت کی دعا فرمائی پھر آپ نے فرمایا ایک روٹیاں پکانے والی اور بال لو جو
تمہارے ساتھ مل کر روٹیاں پکائے اور ہانڈی میں سے سالن نہ نکالنا اور نہ ہی اسے
چولہے سے اتارنا اور ایک ہزار کی تعداد میں صحابہ موجود تھے ہللا کی قسم ان سب نے
کھاناکھایا یہاں تک کہ بچا کر چھوڑ دیا اور واپس اسی طرح تھا اور اس کی روٹیاں بھی
اسی طرح پک رہی تھیں۔
متفق علیہ حدیث مرفوع صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 818
تعالی عنہ کہتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دن ( ٰ " حضرت ابوہریرہ رضی ہللا
توشہ کی کمی کے سبب ) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر رضی ہللا
تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں ٰ
کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے ہللا سے برکت
کی دعا فرمائیے ،آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :اچھا ۔ اور پھر آپ صلی ہللا
علیہ وسلم نے چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ
النے کے لئے کہا گیا " چنانچہ لوگوں نے چیزیں النا شروع کیں ،کوئی مٹھی بھر چنے
لے کر آیا ،کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا ،اور کوئی روٹی کا ٹکڑا الیا ،اس طرح اس
دستر خوان پر کچھ تھوڑی سی چیزیں جمع ہو گئیں تو رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے
نزول برکت کی دعا فرمائی ،اور پھر ( سب لوگوں سے ) فرمایا لو ( جس کا جتنا جی
چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لے ) چنانچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع
کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو ۔۔۔ حضرت
تعالی عنہ کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے ( جو تقریبًا ایک الکھ ٰ ابوہریرہ رضی ہللا
مجاہدین پر مشتمل تھا ) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بھر بھی بہت سارا کھانا بچ رہا ۔ اس
کے بعد رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا " میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا
کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بالشبہ میں ہللا کا رسول ہوں ۔ اور یاد رکھو ) ایسا ہرگز نہیں ہو
سکتا کہ کوئی شخص ان دوگواہیوں کے ساتھ کہ جن میں سے اس کو کوئی شک وشبہ نہ
تعالی سے جا کر ملے اور پھر اس کو جنت میں جانے سے روکا جائے ۔ " ٰ ہو ،ہللا
( مسلم ) مشکوۃ شریف:جلد پنجم:حدیث نمبر 500
تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی ہللاٰ " اور حضرت انس رضی ہللا
تعالی عنہا کے ساتھ نکاح ہوا تو (شب
ٰ علیہ وسلم کا ام المؤمنین حضرت زینب رضی ہللا
عروسی کے بعد ) میری والدہ ام سلیم نے کجھور ،گھی اور قروت ( پنیر ) لے کر مالیدہ سا
تعالی عنہ !
ٰ بنا لیا اور اس مالیدہ کو ایک پیالہ میں رکھ کر مجھ سے کہا کہ انس رضی ہللا
اس کو رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور کہنا کہ میری مان نے
یہ ( حقیر ہدیہ ) آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے اور آپ صلی ہللا علیہ
وسلم کو سالم عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ ( یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم !) یہ ایک
چھوٹا سا ہدیہ ( جو ) ہماری طرف سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے لئے ہے ( آگرچہ آپ
صلی ہللا علیہ وسلم کی شان کے الئق نہیں ہے لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے الطاف
کریمانہ سے امید ہے کہ اس کو قبول فرمائیں گے ) چنانچہ میں اس کو لے کر آنحضرت
صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میری والدہ نے کہا تھا عرض
کر دیا ۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ( بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ) فرمایا کہ
اس کو رکھ دو اور پھر فرمایا کہ فالں فالں اور فالں شخص کو جن کے نام آپ صلی ہللا
علیہ وسلم نے بتائے تھے جا کر بال الؤ اور ( دیکھو ) راستہ میں جو شخص ملے اس کو
بھی بالتے النا چنانچہ میں گیا اور ان لوگوں کو کہ جو مجھے راستہ میں ملے ،بال کر لے
آیا ،اور جب میں گھر میں واپس آیا ،تو دیکھا کہ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ،
تعالی عنہ سے پوچھا کہ ( اس وقت ) تم سب کتنے لوگ ہوگے ؟ ٰ حضرت انس رضی ہللا
تعالی عنہ نے جواب دیا کہ تین سو کے قریب ۔ پھر میں نے دیکھا ٰ حضرت انس رضی ہللا
کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اس مالیدہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر وہ کہا جو ہللا
نے چاہا ( یعنی خیر وبرکت کی دعا فرمائی ،اس کے بعد آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے دس
دس آدمیوں کو بالنا شروع کیا اور وہ ( یکے بعد دیگرے دس دس ) آدمی کھانے ( کے لئے
آنے ) لگے اور ( جو لوگ کھانے پر آتے ان سے ) آپ صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ! ہللا کا
نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص کو اپنے سامنے سے کھانا چاہئے ( کیونکہ کھانے کا یہ
مسنون طریقہ ہے جس سے تہذیب وشائستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور کھانے میں خیر
وبرکت بھی اترتی ہے ۔
تعالی عنہ کہتے ہیں :جب دس آدمیوں کی ایک
ٰ حضرت انس رضی ہللا
جماعت کھانے سے فارغ ہو کر چلی جاتی تو ( اتنے ہی آدمیوں ) کی دوسری جماعت
آجاتی ،یہاں تک کہ سب لوگوں نے ( خوب آسودہ ہو کر ) کھالیا اور پھر آنحضرت صلی
ہللا علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ،انس ! ( سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے ہیں ) اب
اس پیالہ کو اٹھالو ۔ میں نے پیالہ کو اٹھالیا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت میں نے
پیالہ رکھا تھا اس وقت اس میں مالیدہ زیادہ تھا ،یا اس وقت جب کہ ( تمام لوگوں کے اس
کھانے سے فراغت کے بعد ) میں نے اس کو اٹھایا ۔ " ( بخاری ومسلم ) مشکوۃ شریف:جلد
پنجم:حدیث نمبر 501
مضمون کافی لمبا ہوتا جا رہا ہے امید ہے کہ آپ اس سے مستفید ہونگے۔
والسالم
دعا گو
خادم اسالم
اسرارالحق