You are on page 1of 11

‫کیا اسالم میں ختم دالنے‪ ،‬قل یا چالیسواں کروانے کی اجازت‬

‫ہے‬
‫فاتحہ‪ ،‬تیجہ‪ ،‬دسواں‪ ،‬چالیسواں وغیرہ اسی ایصال ثواب کی شاخیں ہیں۔ فاتحہ‬
‫میں صرف یہ ہوتا ہے کہ تالوت قرآن جو کہ بدنی عبادت ہے۔ اور صدقہ یعنی مالی عبادت‬
‫کا جمع کرکے ثواب پہنچایا جاتا ہے۔‬
‫بدنی اور مالی عبادات کا ثواب مسلمان کو بخشنا جائز ہے اور پہنچتا ہے۔ جس کا‬
‫ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ہے۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ باب الفتن باب االسالم فصل‬ ‫سے دعا کرنے کا حکم دیا۔ نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔‬
‫تعالی عنہ نے کسی سے فرمایا کہ من یضمن منکم ان‬ ‫دوم میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی ہللا ٰ‬
‫صلی فی مسجد العشار رکعین ویقول ھذہ البی ہریرۃ اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے۔ ایک‬
‫یہ کہ عبادت بدنی یعنی نماز بھی کسی کی ایصال ثواب کی نیت سے ادا کرنا جائز ہے‬
‫دوسرے یہ کہ زبان سے ایصال ثواب کرنا کہ خدایا اس کا ثاب فالں کو دے بہت بہتر ہے‬
‫تیسرے یہ کہ برکت کی نیت سے بزرگان دین کی مسجدوں میں نماز پڑھنا باعث ثواب ہے۔‬
‫زکوۃ اور حج اس میں اگر کوئی شخص‬ ‫رہی عبادت مالی یا مالی و بدنی کا مجموعہ جیسے ٰ‬
‫زکوۃ دے دو تو دے سکتا ہے۔ اور اگر مال میں حج‬ ‫کسی سے کہدے کہ تم میری طرف ٰ‬
‫کرنے کی قوت نہ رہے تو دوسرے سے حج بدل کرا سکتا ہے۔ لیکن ثواب ہر عبادت کا‬
‫ضرور پہنچتا ہے اگر میں کسی کو اپنا مال دیدوں تو وہ مالک ہو جاویگا۔ اسی طرح یہ‬
‫بھی۔ ہاں فرق یہ ہے کہ مال تو کسی کو دے دیا تو اپنے پاس نہ رہا اور اگر قرآن پڑھایا تو‬
‫سب کو پورا قرآن گیا اور پڑھانے والے کا جاتا نہ رہا۔‬
‫دیکھو شامی جلد اول بحث دفن میت۔ اسی لیے نابالغ بچے سے ہدیہ لینا منع ہے‬
‫مگر ثواب لینا جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ثواب کسی کو نہیں پہنچتا۔ کیونکہ قرآن‬
‫کریم میں ہے۔‬
‫لھا ماکسبت وعلیھا مااکتسبت (پارہ‪ ،3‬سورہ‪ ،2‬آیت‪)286‬‬
‫ہر نفس کے لیے وہ ہی مفید و مضر ہے جو اس نے خود کرلیا۔‬
‫نیز قرآن میں ہے۔‬
‫لیس لالنسان اال ما سعی۔ (پارہ‪ ،27‬سورہ‪ ،53‬آیت‪)39‬‬
‫انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہ جو خود کرے۔‬
‫جس سے معلوم ہوا کہ غیر کا کام پانے لیے مفید نہیں لیکن یہ غلط ہے کیونکہ یہ الم‬
‫ملکیت کا ہے یعنی انسان کے لیے قابل بھروسہ اور اپنی ملکیت اپنے ہی اعمال ہیں۔ نہ‬
‫معلوم کہ کوئی اور ایصال ثواب کرے یا نہ کرے اس بھروسہ پر اپنے عمل سے غافل نہ‬
‫رہے۔ (دیکھو تفسیر خزائن العرفان وغیرہ) یا یہ حکم ابراہیم و ٰ‬
‫موسی علیہ السالم کے‬
‫صحیفوں کا تھا نہ کہ اسالم۔ یہاں اس کی نقل ہے۔ یا یہ آیت اس آیت سے منسوخ ہے واتیعتم‬
‫ذریتھم باالیمان یہ ہی عبدہللا ابن عباس کا قول ہے اسی لیے مسلمانوں کے بچے ماں باپ‬
‫کی طفیل جنت میں جاویں گے۔ بغیر عمل درجات پائینگے۔ دیکھو جملو خازن یا یہ آیت‬
‫بدنی اعمال میں نیابت کی نفی کرتی ہے۔ اسی لیے ان میں کسب و سعی کا ذکر ہے۔ نہ کہ‬
‫ہبہ ثواب کا یا یہ ذکر عدل ہے اور وہ فضل غرضکہ اس کی بہت توجیہات ہیں۔‬
‫ت‬ ‫غ‬ ‫ئ‬
‫ے اس ب ات پر وء کر ے ہ ی ں کہ کیا اسالم میں قل یا چالیسواں کروانے کی اجازت ہے‬
‫آی‬
‫اشعتہ اللمعات باب زیارت القبور میں ہے۔ "وتصدق کردہ شوداز میت بعد‬
‫رفتن اداز عالم تا ہفت روز۔" میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کیا جاوے۔ اسی‬
‫اشعتہ اللمعات میں اسی باب میں ہے‪" ،‬وبعض روایات آمدہ است کہ روح میت مے آید خانہ‬
‫خودرا شب جمعہ پس نظرمی کندکہ تصدق کنندا از دے یا نہ" جمعہ کی رات کو میت کی‬
‫روح اپنے گھر آتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس کی طرف سے لوگ صدقہ کرتے ہیں یا‬
‫نہیں۔"بعض جگہ جو رواج ہے کہ بعد موت سات روز تک برابر روٹیاں خیرات کرتے ہیں‬
‫اور ہمیشہ جمعرات کو فاتحہ کرتے ہیں۔ اس کی یہ اصل ہے۔‬
‫انوار ساطعہ صفحہ‪ 145‬اور حاشیہ خزانۃ الروایات میں ہے کہ حضور علیہ‬
‫تعالی عنہ کے لیے تیسرے اور ساتویں اور چالیسویں دن‬ ‫السالم نے امیر حمزہ رضی ہللا ٰ‬
‫اور چھٹے ماہ اور سال بھر بعدد صدقہ دیا۔ یہ تیجہ ششماہی اور برسی کی اصل ہے۔‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن ف ن‬ ‫ن ہ ض‬
‫ی‬
‫ض‬ ‫االوز ن‬
‫رسول شکی و کات کو یسرا‬ ‫خ‬ ‫د‬ ‫رز‬ ‫ہ‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫را‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫رت‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫کہ‬
‫ض‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫دی‬‫ض‬ ‫ج‬ ‫ض‬ ‫ت‬
‫ئ ھا کہ ح رت اب و ذرٹ ر ت ی ہللا عن ہ ح ضور ب ی کری م صلی ہللا علی ہسوآلہ وس نلم کے پ اس ک جھور اور دودھ‬ ‫دن‬
‫ص‬ ‫ص‬ ‫ج‬
‫آپ لی ہللا‬
‫ن‬ ‫ک رکھا ۔ ت‬ ‫کے تنزدی ت‬ ‫سی ننو کی رو ی ھی ف ت۔تقاس کو ح ور خ تلی ف تہللا علی ہ وآلہ و لم ن‬ ‫الے جس م‬
‫ہ‬
‫ے دو وں ا ق ئھو ں کو ا ھا کر م ہ پر‬ ‫اورکاپ‬
‫ی‬ ‫علی ہ وآلہ و حلم ے اس پر سورة ا حہ اور سورہ ا الص ی ن ب ار پڑھی‬
‫ص‬
‫ے د ھی ں ً یح ح الع ا د ًاز عالمہ دمحم ع ب دالحامد‬ ‫رے اور کم دی ا کہ لوگوں می ن سی م کر دو۔﴿مزی د ص ی ل کے لی‬ ‫پ ھی ن‬
‫ن‬ ‫ب دایو ی﴾‬
‫عق‬ ‫غ‬
‫مہ ب ن‬ ‫الن‪ ،‬اب ن ج امع محاربی‪ ،‬ل ن‬ ‫دمحم ب ن عالء ہ ضمدا ی‪ ،‬ی یح تی ب ن ی علی‪،‬ناب ن حارث محاربی‪ ،‬ی ت‬
‫ے ہ ی ں کہ ماعز ب ن مالک ب ی‬ ‫کر‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫سے‬ ‫اپ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫مرث د‪ ،‬ض رت س ی مان ب ن ر دہ ر ی ہللائعالی عن‬
‫ب‬ ‫پ‬ ‫بی‬ ‫ل‬ ‫ح‬
‫ے پ اک کری ں۔ آپ صلی‬ ‫رسول! جم ھ‬ ‫وآلہ فوسلم کہ پ اس آے ٰاور عرض کی اے ہللا کے ف‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫لی‬ ‫ص‬ ‫کری م‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ے ہ الکت ہ و واپس ج ا‪ ،‬ہللا سے معا ی ما ج گ اور اس کی طرف رج وع‬ ‫ہللا تعلی ہ توآلہ و لم ے رمای ا ی رے لیئ‬
‫ص‬
‫ے پ اک کری ں۔ رسول ہللا لی‬ ‫م‬ ‫ف‬
‫ے اور عرض ک ی ا اے ہللا کے رسول! ن ھ‬ ‫ن یفج ا کر لوٹ آ‬ ‫کر۔ و وہ ھوڑی دور ہ‬
‫ت‬ ‫ہللا علیتہ وآلہ وسلم ے ٹ رمای ا ہ الکت ہ‬
‫گ ناور اس کی طرف رج وع‬ ‫ت‬ ‫سے معا ی ما‬ ‫ہللا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫لوٹ‬ ‫ے۔‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫رے‬ ‫ی‬ ‫و‬
‫نعلفی ہ‬ ‫ے پ اک کری ں و ب ی کری م صسلی ہللا‬ ‫اے ہللا فکے رسول! جم ھ‬ ‫ھوڑی دور ج ا کر لو افپ ھر آکر عرض کی ت‬
‫ت‬ ‫کر۔ وہس ن‬
‫ے نرمای ا‬ ‫لم‬ ‫و‬ ‫وآلہ‬ ‫ہ‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫لی‬ ‫ص‬ ‫ہللا‬ ‫رسول‬‫ت‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫عہ‬ ‫د‬ ‫ھی‬ ‫و‬ ‫چ‬
‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ک‬ ‫ہاں‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫طرح‬ ‫اسی‬ ‫ے‬ ‫وآلہ توج لم‬
‫س‬ ‫ص ی‬ ‫یی‬
‫عرض کخی ا ز ا سےئ و رسول ہللا ن لی ہللا علی ہ وآلہ و لم ے‬ ‫س‬ ‫ے کس ب ارے می تں پ اک کروں؟ اس ے‬ ‫می ں ھ‬
‫ص‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ص‬ ‫ن‬
‫ے۔ آپ لی ہللا‬ ‫ندیواٹ ہ ہی ں ہ ن‬ ‫نہللاش لی ہ وآلہ و لم کو ت ب ر دی گ ی کہ وہ‬ ‫ے؟ و آپ لی‬ ‫سوا ہنہ ف‬ ‫پوچ ھا ک ی ا ی ہ دی‬
‫ناور اس سے‬ ‫ن ھ نکر اسے سو گھا‬ ‫ے؟ و اینکف آدمی تے ا‬ ‫پ ہ‬ ‫ی‬ ‫راب‬ ‫ے‬ ‫اس‬ ‫ا‬ ‫ک‬
‫ی ی‬‫ا‬ ‫رما‬
‫ت‬ ‫ئ‬‫ے‬ ‫لم‬ ‫شعلی ہ وآلہ و‬
‫وآلہ و لم ے رمای ا ک ی ا و ے ز ا ک ی ا؟ اس ے کہا ہ اں۔‬ ‫س‬ ‫ع‬ ‫ص‬
‫رسولنہللا ح لی تہللا لی ہ‬ ‫ن‬
‫راب کی ب دب و ہ پ ا ی‬
‫نسے رج م ک ی ا گ ی ا اور لوگ اس کے ب نارےنمی ں دو گروہ وں می ں‬ ‫ے کم دی ا و ا‬ ‫لم‬ ‫وآلہووس‬ ‫آپ ئصلی ہللا علی ہ‬
‫ن‬
‫ے والے ے کہا کہ ی ہ ہ الک ہ وگ ی ا اور اس کے گ اہ ے اسے گہی ر ل ی ا اور‬ ‫ے۔ ان می ں سے ای ک کہ‬ ‫بٹگ‬
‫س‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫ئ ت ن‬ ‫فض‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫کن‬
‫ع‬
‫ں۔ وہ ب ی کری م لی ہللا ج لی پہتوآلہ و لم‬ ‫ت‬ ‫کہا کہ تماعز کی وبصہ سے ا ل کو یسوب ہ ہی‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫دوسرے ہ‬
‫ے نھروں‬ ‫کے قپ اس الی ا گ ی ا اس ے اپ ن ا ہ اض ھ آپت لی ہللا علی ہ وآلہ تو لم کے ہ ا ھ می ں رکھ ٹکر عرض ک ی ا م ھ‬
‫ے ی ع تی‬ ‫صر ی ہللا ع ٰالی عسہ تدو شدن ی ا ی نئدن اسی ب ات پر ھہرے ر ضہ‬
‫ن‬ ‫خسے ت ل کردی ں۔ پس صحاب ہ‬
‫عالی‬
‫حالئمی ں فکہ صحاب ہ ر ی ہللا ٰض‬ ‫ٹ‬ ‫ے اس‬ ‫نیف ال ف‬ ‫ئ ھرترسول ہللا لی ہللا علی ہ وآلہ و سلم ر‬ ‫الف رہ ا۔ پ‬ ‫ا تن ب ٹ‬
‫ص‬ ‫ے ہ وے ھ‬ ‫ع تہ ی ھ‬
‫مالک ر ی‬ ‫ےناور رمای ا ماعز ب ن ض‬ ‫الم رمای ا اور ب ی ھ گ‬ ‫ے۔ آپ ن لی ہللا علیضہ وآلہ و ت لم ے سن‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫نماعز ب ن خمالک تر ی ہللا‬ ‫ے فعرض ک ی ا نہللا ے‬ ‫عالی عس ہ ن‬ ‫صہ ر یعہللا ٰ‬ ‫ششخب تماق گو صحاب‬‫ے ن‬ ‫عالی ع ہ کے لی‬ ‫تہللا ٰ‬
‫کی‬ ‫ہ‬ ‫و‬
‫ق‬ ‫الص‬ ‫سی‬ ‫کہ ات ہوں ے ای‬ ‫ا‬ ‫رما‬‫ف‬ ‫ے‬ ‫لم‬ ‫و‬ ‫وآلہ‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ہللا‬
‫ت‬ ‫لی‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ا۔‬ ‫کرد‬ ‫عاف‬ ‫کو‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫عالی‬
‫ج ب غ‬ ‫ی‬ ‫ت ی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ٰ‬
‫ی و ج ا ی۔ ھر ای ک عورت و ب ی جلہ امد‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ے کان‬ ‫سب کے لی‬‫ئ‬ ‫ض‬ ‫امت می ں سی م کردی ا ج ا ا و ان‬ ‫ے کہ اگر اس کو‬ ‫ہ‬
‫ے‬‫رسول!ن م ھ‬ ‫اسفحا ر ہ و ی۔ اس ے عرض ک ی ا اے ہللا کے ف‬ ‫کے‬ ‫آپ‬ ‫ے‬ ‫اخ‬ ‫ش‬ ‫کی‬ ‫ازد‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫سے ھی ج‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ہ‬
‫اک کرد ں۔ آپ صلی ہللا عل ہنوآلہ وس‬
‫سے مجعا ی ما گ‬ ‫ہللا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ے ہ الکت ہ و واپس ہ‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫رے‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫خ‬‫ی‬ ‫رما‬ ‫ے‬ ‫لم‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫پ‬
‫ے واپس‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ع‬
‫آپ لی تہللا لی ہ وآلہ و لم ھ‬ ‫ص‬ ‫ے کہ‬ ‫ال‬ ‫را‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫عرض‬ ‫ے‬ ‫اس‬ ‫کر‬ ‫وع‬ ‫ج‬‫ر‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫اور‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫آپ صلی ہللا عل ہ وآلہ وس‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ت کت‬ ‫ن‬
‫عالی عن ہ تکو واپس تک ی ا آپ‬ ‫ٰ‬ ‫ض‬ ‫ہللا‬ ‫ی‬
‫ف‬ ‫ر‬ ‫ماعز‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫لم‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫کہ‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ارادہ ر ھ‬
‫ج‬ ‫ے‬‫کرن ف‬
‫ج‬ ‫حم‬
‫ے عرض ک ی ا ف ی ہ اں آپ ے اس سے ترمای ا و ع ضل ک و ی ر پ ی نٹ‬ ‫ج‬ ‫ے؟ اس ن‬ ‫ے ک ی نا ہ‬ ‫ے رمای ا ھ‬
‫ہاں کنکہ و ض ع حمل ہ وگ ی ا وہ ب ی‬ ‫ی غ‬ ‫لی‬ ‫داری‬ ‫ذمہ‬ ‫کی‬
‫ئ‬ ‫الت‬ ‫ض‬ ‫ک‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫آدمی‬ ‫س‬ ‫صاری‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ے ای‬ ‫ہ‬ ‫می ں‬
‫ے‬ ‫حم‬ ‫ہ‬ ‫کری م نلی فہللا علی ہ وآلہ و ق لم ے‬ ‫ص‬
‫کردی ا ہ‬‫ےو ع ل ت‬ ‫کے پ ناس حا ر وے اور نعرض ک ی ا کہ ب امدی ہ ٹ‬
‫ہ‬ ‫ج‬
‫س‬‫ے کو نھو ا ھوڑی ں گے و اسے‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫ےچ‬ ‫س‬
‫نگے کی و کہ م ا ک‬ ‫اس و ت اسے ر م ہی ں کری ں‬ ‫ن‬ ‫ئہ م‬ ‫آپ ے رمای ا‬
‫آدمی ے عرض ک ی ا اے ہللا کے ب ی صلی ہللا علی ہ وآلہ و لم‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫صار‬ ‫ا‬ ‫گا؟‬ ‫ے‬ ‫کان پ ال‬
‫ض‬ ‫دودھ‬
‫ے ھر اسے ر م کرد ا ا۔‬ ‫ج‬ ‫پ‬
‫ف ی گی تف‬ ‫اس کی ر اعت می رے نذمہ ہ‬
‫ص ح مسلم‪:‬ج لد دوم‪:‬حدی ث مب ر ‪ 1937‬حدی ث مر وع م ق علی ہ‬ ‫یح‬
‫حضرت شاہ ولی ہللا صاحب کا بھی تیجہ ہوا۔ چنانچہ اس کا تذکرہ عبدالعزیز‬
‫صاحب نے اپنے ملفوظات صفحہ‪ 89‬میں اس طرح فرمایا۔ "روز سوم کثرت ہجوم مردم آں‬
‫قدر بود کہ بیروں از حساب است ہشتادویک کالم ہللا بہ شمار آمدہ و زیادہ ہم شدہ باشد و‬
‫کلمہ را حصڑیست۔" تیسرے دن لوگوں کا اس قدر ہجوم تھا۔ کہ شمار سے باہر ہے اکیاسی‬
‫ختم کالم ہللا شمار میں آئے اور زیادہ بھی ہوئے ہوں گے کلمہ طیبہ کا تو اندازہ نہیں۔‬
‫اس سے تیجہ کا ہونا اور اس میں ختم کالم ہللا کرانا ثابت ہوا۔‬
‫مولوی محمد قاسم صاحب بانی مدرسہ دیوبند تحذیر الناس صفحہ‪ 24‬پر‬
‫فرماتے ہیں۔ "جنید کے کسی مرید کا رنگ یکایک متغیر ہوگیا۔ آپ نے سبب پوچھا تو‬
‫بروے مکاشفہ اس سے یہ کہا کہ اپنی ماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں حضرت جنید نے ایک‬
‫الکھ پانچ ہزار بار کلمہ پڑھا تھا یوں سمجھ کر بعض روایات میں اس قدر کلمہ کے ثواب‬
‫پر وعدہ مغفرت ہے‪ ،‬آپ نے جی ہی جی میں اس مرید کی ماں کو بخش دیا اور اس کی‬
‫اطالع نہ دی۔ بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان ہشاش بشاش ہے۔ آپ نے سبب پوچھا۔‬
‫اس نے عرض کیا کہ اپنی ماں کو جنت میں دیکھتا ہوں۔ آپ نے اس پر یہ فرمایا کہ اس‬
‫جوان کے مکاشفہ کی صحت تو مجھ کو حدیث سے معلوم ہوئی۔ اور حدیث کی تصحیح اس‬
‫کے مکاشفہ سے ہوگئی۔ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ ایک الکھ پانچ ہزار سے‬
‫مردے کی بخشش کی امید ہے اور تیجہ میں چنوں پر یہ ہی پڑھا جاتا ہے۔‬
‫حضرت عمرو بن عاص رضی ہللا عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں‬
‫نے اس وقت جب کہ وہ حالت نزع میں تھے اپنے صاحبزادے (حضرت عبدہللا) کو یہ‬
‫وصیت کی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازہ کے ہمراہ نہ تو کوئی نوحہ کرنے‬
‫والی ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنے لگو تو میرے اوپر مٹی آہستہ آہستہ (یعنی‬
‫تھوڑی تھوڑی کر کے) ڈالنا پھر دفن کر دینے کے بعد میری قبر کے پاس دعائے استقامت‬
‫و مغفرت اور ایصال ثواب کے لیے اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کو ذبح‬
‫کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ میں تمہاری وجہ سے آرام پا جاؤں‬
‫اور بغیر کسی وحشت و گھبراہٹ کے جان لوں کہ میں اپنے پروردگار کے فرشتوں کو کیا‬
‫جواب دیتا ہوں۔ (مسلم) مشکوۃ شریف‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪200‬‬
‫حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی پارہ عم والقمر اذا نشق کی‬
‫تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اول حالتے کہ بجر وجدا اشدن روح از بدن خواہد شد فی الجملہ اثر‬
‫حیات سابقہ والفت تعلق بدن و دیگر معروفاں ازابنا جنس خود باقی است واں وقت گویا‬
‫برزخ است کہ چیزے ازاں طرف دچیزے ازیں طرف مدد زندھاں‪ ،‬بمردگاں دریں حالت‬
‫زود ترمی رسد و مردگان منتظر لحوق مدد ازیں طرف مے باشند صدقات وادعیہ و فاتحہ‬
‫دریں وقت بسیار پکارا دمی آید و ازیں است کہ طوائف بنی آدم تایک سال وعلی الخصوص‬
‫یک چلہ بعد موت دریں نوع امداد کوشش تمام می نمایند۔‬
‫مردے کی پہلی حالت جوکہ فقط جسم سے روح نکالنے کا وقت ہے اس میں‬
‫کچھ نہ کچھ زندگی کا اثر اور بدن اور اہل قرابت سے تعلق باقی ہوتا ہے۔ یہ وقت گویا‬
‫برزخ ہے کچھ ادھر ادھر تعلق اور کچھ اس طرف اس حالت میں زندوں کی مدد مردوں کو‬
‫بہت جلد پہنچتی ہے اور ُمردے اس مدد پہنچنے کے منتظر ہوتے ہیں اس زمانہ میں صدقہ‬
‫دعائیں فاتحہ اس کے بہت ہی کام آتی ہیں۔ اس وجہ سے تمام لوگ ایک سال تک خاص کر‬
‫موت کے چالیس روز تک اس قسم کی مدد پہنچانے میں بہت کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہی حال‬
‫زندوں کا بھی ہوتا ہے کہ اول اول بہت غم پھر جس قدر وقت گزرتا گیا رنج کم ہوتا گیا۔ تو‬
‫منشاء یہ ہوتا ہے کہ سال بھر تک ہر آدھے پر صدقہ کریں سال پر برسی اس کے نصف پر‬
‫ششماہی اس کے نصف پر سہ ماہی کی فاتحہ اس کے بعد نصف یعنی ‪ 45‬دن فاتحہ ہونی‬
‫چاہئیے تھی۔ مگر چونکہ چالیس کا عدد روحانی اور جسمانی ترقی کا ہے اس لیے چہلم‬
‫مقرر کیا گیا۔ پھر اس کا آدھا بیسواں پھر اس کا آدھا دسواں۔‬
‫چالیس میں کیا ترقی ہے مالحظہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السالم کا ضمیر چالیس‬
‫سال تک ایک حالت میں رہا۔ پھر چالیس سال میں وہ خشک ہوا۔ ماں کے پیٹ میں بچہ‬
‫چالیس روز تک نطفہ پھر چالیس روز تک جما ہوا خون‪ ،‬پھر چالیس روز تک گوشت کا‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ باب االیمان بالقدر) پیدا ہونے کے بعد چالیس روز تک ماں‬ ‫لوتھڑا رہتا ہے (دیکھو‬
‫کو نفاس آ سکتا ہے۔ پھر چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر عقل پختہ ہوتی ہے۔ اسی لیے‬
‫اکثر انبیائے کرام کو چالیس سال کی عمر میں تبلیغ نبوت دی گئی۔ صوفیائے وظیفوں کے‬
‫لیے چلے یعنی چالیس چالیس روز مشقیں کرتے ہیں تو ان کو روحانی ترقی ہوتی ہے۔‬
‫موسی علیہ السالم کو بھی حکم ہوا کہ کوہ طور پر آکر چالیس روز اعتکاف کرو تب رات‬‫ٰ‬
‫دی گئی۔ واذوا اعدنا موسی اربعین لیلتہ۔ انوار ساطعہ کی روایت سیدنا انس سے بیان کی۔‬
‫بحث چہلم کہ ان االنبیاء ال یترکون فی قبورھم اربعین لیلتہ ولکن ھم یضلون بین یدی ہللا حتی‬
‫ینفخ فی الصور اس حدیث کے مع ٰنی زرقانی شرح مواہب نے یوں بیان کیے کہ انبیاء کرام‬
‫کی روح کا تعلق اس جسم مدفون سے چالیس روز تک بہت زیادہ رہتا ہے۔ بعد ازاں وہ‬
‫روح قرب ٰالہی میں عبادت کرتی ہے اور جسم کی شکل میں ہوکر جہاں چاہتی ہے جاتی‬
‫ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ چالیس کے عدد میں تغیر وتبدل ہے ٰلہذا مناسب ہوا کہ چالیس‬
‫دن پر فاتحہ کی جاوے اور اس کی ممانعت ہے نہیں۔‬
‫بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور‬
‫مقامات سےخاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا۔ چنانچہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ‬
‫وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ‬
‫تعالی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے‬ ‫خدا ٰ‬
‫عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں۔ ( ثواب‬
‫العبادات از خطیب پاکستان‪ ،‬بحوالہ شرح الصدور ‪ ،‬ص ‪)24‬‬
‫ایک اور حوالہ دیکھیں۔ وقیل ٰالی اربعین فان المیت یشوق ٰالی بیتہ۔‬
‫“ اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ ( شرح‬
‫برزخ فیض االسالم ‪ ،5‬ص ‪ ،34‬کتاب الوجیز‪ ،‬ص ‪)64‬‬
‫کیا اسالم میں ختم دالنے کی اجازت ہے۔‬
‫تفسیر روح البیان نے پارہ‪ 7‬سورہ انعام زیر آیت وھذا کتاب انزلنا ہ مبارک‬
‫میں ہے۔‬
‫وعن حمید االعراج قال من قرء القران وختمہ ثم دعا امن علی دعائہ اربعۃ االف ملک ثم ال‬
‫یزالون یدعون لہ ویستغفرون ویصلون علیہ الی المساء اوالی الصباح۔‬
‫حضرۃ اعرج سے مروی ہے کہ جو شخص قرآن ختم کرے پھر دعا مانگے تو اس کی دعا‬
‫پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں پھر اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور مغفرت‬
‫مانگتے رہتے ہیں۔ شام یا صبح تک۔‬
‫یہی مضمون نودی کی کتاب االذکار کتاب تالوت القرآن میں بھی ہے۔ معلوم‬
‫ہوا کہ ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے اور ایصال ثواب بھی دعا ہے ٰلہذا اس وقت‬
‫ختم پڑھنا بہتر ہے‬
‫نودی نے کتاب االذکالرباب تالوت قرآن میں فرمایا کہ انس بن مالک ختم قرآن کے وقت‬
‫اپنے گھر والوں کو جمع کرکے دعا مانگتے۔ حکیم ابن عتبہ فرماتے ہیں کہ ایک مجمع کو‬
‫مجاہد و عبدہ‪ ،‬ابن ابی لبابہ نے بالیا اور فرمایا کہ ہم نے تمہیں اس لئے بالیا ہے کہ آج ہم‬
‫قرآن پاک ختم کر رہے ہیں۔ اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے حضرت مجاہد سے‬
‫بروایت صحیح منقول ہے کہ بزرگان دین ختم قرآن کے وقت مجمع کرتے تھے اور کہتے‬
‫تھے کہ اس وقت رحمت نازل ہوتی ہے (نودی کتاب االذکار) ٰلہذا تیجہ و چہلم کا اجتماع‬
‫سنت سلف ہے۔‬
‫درمختار بحث قرت للمیت باب االدفن میں ہے فی الحدیث من قرء االخالص‬
‫احد عشر مرۃ ثم وھب اجرھا لالموات اعطی من االجر بعدد االموات حدیث میں ہے کہ جو‬
‫شخص گیارہ بار سورہ اخالص پڑھے پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشے تو اس کو تمام‬
‫مردوں کے برابر ثواب ملے گا۔ شامی میں اسی جگہ ہے۔ ویقرء من القران ماتیستر لہ من‬
‫الفاتحہ واول۔‬
‫ویقرء من القران ما تیسترلہ من الفاتحہ واول البقرۃ وایۃ الکرسی وامن الرسول وسورۃ یس‬
‫اثنی عشر مرۃ واحدی عشر اوسبعا او ثالثا ثم‬ ‫وتبارک الملک وسورۃ التکاثر واالخالص ٰ‬
‫یقول اللھم اوصل ثواب ما قرء ناہ الی فالن اوالیھم۔–‬
‫جو ممکن ہو قران پڑھے سورہ فاتحہ بقر کی اول آیات اور آیۃ الکرسی اور امن الرسول‬
‫اور سورہ یس اور ملک اور سورہ تکاثر اور سورہ اخالص بارہ گیارہ یا سات یا تین دفعہ‬
‫پھر کہے کہ یا ہللا جو کچھ میں نے پڑھا اس کا ثواب فالں کو یا فالں لوگوں کو پہنچا دے۔‬
‫فتاوی عزیزیہ صفحہ ‪ 75‬میں ہے طعامیکہ ثواب آن نیاز حضرت امامین‬ ‫ٰ‬
‫نمایند برآں قل و فاتحہ و دردد خواندن متبرک می شودد خوردن بسیار خوب است جس‬
‫کھانے پر حضرات حسنین کی نیاز کریں اس پر قل اور فاتحہ اور درود پڑھنا باعث برکت‬
‫ہے اور اس کا کھانا بہت اچھا ہے اسی فتادہ عزیزیہ صفحہ‪ 41‬میں ہے۔ "اگر مالیدہ و شیر‬
‫برائے فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں پختہ بخوراند جائز است مضائقہ نیست‬
‫اگر دودھ مالیدہ کسی بزرگ کی فاتحہ کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے پکا کر کھال دے‬
‫تو جائز ہے کوئی مضائقہ نہیں۔‬
‫حضرت شاہ ولی ہللا صاحب اپنی کتاب االنتباہ فی سالسل اولیاء ہللا میں‬
‫فرماتے ہیں۔ "پس وہ ‪ 10‬مرتبہ درود خوانند ختم تمام کنند بر قدرے شیرینی فاتحہ نام‬
‫خواجگان چشت عموما ً بخواند و حاجت از خدا سوال نمایند۔" پھر دس بار درود پڑھیں اور‬
‫پورا ختم کریں اور تھوڑی شیرینی پر تمام خواجگان چشت کی فاتحہ دیں پھر خدا سے دعا‬
‫کریں۔‬
‫حضرت شاہ ولی ہللا صاحب زبدۃ النصائق صفحہ ‪ 132‬پر ایک سوال کے‬
‫جواب میں فرماتے ہیں۔ "و شیر برنج بنا پر فاتحہ بزرگے بقصد ایصال ثواب بروح ایشاں‬
‫یزند و بخوزند مضائقہ نیست و اگر فاتحہ بنام بزرگے وادہ شود اغنیا راہم خوردن جائز‬
‫است۔" دودھ چاول پر کسی بزرگ کی فاتحہ دی ان کی روح کو ثواب پہنچانے کی نیت سے‬
‫پکائیں اور کھائیں اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جاوے تو مالداوں کو بھی کھانا جائز‬
‫ہے۔‬
‫موالنا اشرف علی و رشید احمد صاحبان کے مرشد حاجی امداد ہللا صاحب‬
‫فیصلہ ہفت مسئلہ میں فرماتے ہیں۔ نفس ایصال ثواب ارواح اموات میں کسی کو کالم نہیں۔‬
‫اس میں بھی تخصیص و تعیین کو موقوف علیہ ثواب کا سمجھے یا واجب و فرض اعتقاد‬
‫کرے تو ممنوع ہے اور اگر یہ اعتقاد نہیں بلکہ کوئی مصلحت باعث تقلید ہئیت کزائیہ ہے‬
‫تو کچھ حرج نہیں جیسا کہ بمصلحت نماز میں سورہ خاص معین کرنے کو فقہاء محققین‬
‫نے جائز رکھا ہے۔ جو تہجد میں اکثر مشائخ کا معمول ہے۔ "پھر فرماتے ہیں جیسے کہ‬
‫نماز میں نیت ہر چند دل سے کافی ہے۔ مگر موافقت قلب و زبان کے لیے عوام کو زبان‬
‫سے کہنا بھی مستحسن ہے اگر یہاں بھی زبان سے کہہ لیا جاوے کہ یاہللا اس کھانے کا‬
‫ثواب فالں شخص کو پہنچ جاوے تو بہتر ہے پھر کسی کو خیال ہوا کہ لفظ اس کا مشار الیہ‬
‫اگر روبرو موجود ہو تو زیادہ استخصار قلب ہو کھانا روبرو النے لگے۔ کسی کو یہ خیال‬
‫ہوا کہ یہ ایک دعا ہے اس کے ساتھ اگر کچھ کالم ٰالہی بھی پڑھا جاوے تو قبولیت دعا کی‬
‫امید ہے اور اس کالم کا ثواب بھی پہنچ جاوے گا۔ تو جمع بین العباد تین ہے۔ `"پھر فرماتے‬
‫ہیں۔ اور گیارہویں حضرت غوث پاک کی‪ ،‬دسویں بیسواں‪ ،‬چہلم‪ ،‬ششماہی‪ ،‬سالیانہ وغیرہ‬
‫اور توشہ حضرت شیخ عبدالحق اور برصینی حضرت شاہ بو علی قلندر اور حلوا شب‬
‫برات و دیگر طریق ایصال ثواب کے اسے قاعدے پر مبنی ہیں۔‬
‫احادیث سے ثابت ہے۔ کہ حضور علیہ السالم نے کھانا مالحظہ فرما کر‬
‫صاحب طعام کے لیے دعا فرمائی۔ بلکہ حکم دیا کہ دعوت کھا کر میزبان کو دعاء دو اسی‬
‫مشکوۃ باب آداب طعام میں ہے کہ حضور علیہ السالم جب کھانے سے فارغ ہوتے تو‬ ‫ٰ‬ ‫طرح‬
‫فرماتے۔ الحمدہلل حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی وال مودع وال مستغنا عنہ ربنا۔ جس‬
‫سے معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد دو چیزیں مسنون ہیں۔ حمد ٰالہی کرنا اور صاحب طعام‬
‫کے لیے دعا کرنا اور فاتحہ میں یہ دونوں باتیں موجود ہیں ۔ رہا سوال کھانا سامنے رکھ‬
‫کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ اس کی بہت سی احادیث آئی ہیں۔آئیے چند احادیث کا مطالعہ‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫مشکوۃ باب المعجزات فصل دوم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا‬ ‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں کچھ خرمے حضور علیہ السالم کی خدمت میں الیا اور‬
‫عرض کیا کہ اس کے لیے دعائے برکت فرما دیں۔‬
‫فضمھن ثم دعالی فیھن بالبرکۃ۔‬
‫آپ نے ان کو مالیا اور دعائے برکت کی۔‬
‫عمرو بن علی‪ ،‬ابوعاصم‪ ،‬حنظلہ بن ابی سفیان‪ ،‬سعید بن میناء‪ ،‬حضرت جابر‬
‫بن عبدہللا رضی ہللا عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب خندق کھودی جا‬
‫رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سخت بھوکے ہیں میں گھر‬
‫آیا اور بیوی سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے کیونکہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بھوکے‬
‫معلوم ہوتے ہیں بیوی نے بوری سے جو نکالے۔ جو ایک صاع تھے گھر میں بکری کا‬
‫ایک بچہ پال ہوا تھا وہ میں نے ذبح کیا اتنے میں بیوی نے آٹا پیس لیا اور گوشت کاٹ کر‬
‫ہانڈی میں چڑھا دیا پھر میں آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں آیا بیوی نے‬
‫چلتے وقت کہا کہ دیکھو کہ مجھے حضور صلی ہللا علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے‬
‫سامنے شرمندہ مت کرنا کہ بہت سے آدمی آجائیں اور کھانا تھوڑا ہوجائے میں نے رسول‬
‫اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے چپکے سے عرض کیا میں نے ایک بکری کا بچہ کاٹا ہے‬
‫اور ایک صاع کا آٹا پیسا ہے آپ صلی ہللا علیہ وسلم اپنے ساتھ چند آدمیوں کو لے کر‬
‫چلئے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے آواز دی اے خندق والو! جلدی چلو جابر نے کھانا پکایا‬
‫ہے پھر آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم چلو مگر میرے آنے تک نہ‬
‫ہانڈی اتارنا اور نہ خمیر کی روٹیاں پکانا آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم بھی لوگوں کو لے‬
‫کر آنے کے لئے تیار ہونے لگے میں نے آکر بیوی سے سب باتیں کہہ دیں تو وہ گھبرا‬
‫گئی اور کہا تم نے یہ کیا کیا میں نے کہا میں نے تمہاری بات بھی حضور اکرم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم سے کہہ دی تھی غرض آنحضرت تشریف الئے اور خمیر میں لعاب دہن مالیا‬
‫اور دعائے برکت فرمائی پھر فرمایا اے جابر! روٹی پکانے والی کو بالؤ وہ میرے پاس‬
‫روٹی پکائے اور ہانڈی سے گوشت نکالے اور اسے چولہے سے نہ اتارے آخر سب نے‬
‫پیٹ بھر کر کھالیا ہانڈی اسی طرح پک رہی اور ابل رہی تھی اور روٹیاں پکائی جا رہی‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم! کھانے والے ایک ہزار تھے سب‬ ‫ٰ‬ ‫تھیں جابر رضی ہللا‬
‫نے کھایا اور پھر بھی بچ رہا‪ ،‬ہانڈی میں گوشت بھرا ہوا تھا اور روٹیاں برابر پک رہی‬
‫تھیں۔‬
‫متفق علیہ‬ ‫صحیح بخاری‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1276‬حدیث مرفوع‬
‫حجاج بن شاعر‪ ،‬ضحاک‪ ،‬حنظلہ بن ابی سفیان‪ ،‬سعید بن میناء‪ ،‬حضرت جابر‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب خندق کھودی گئی تو میں نے رسول ہللا صلی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپکو بھوک لگی ہوئی ہے تو میں اپنی بیوی کی طرف آیا اور اس‬
‫سے کہا کیا تیرے پاس کوئی چیز ہے کیونکہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو‬
‫دیکھا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو بہت سخت بھوک لگی ہوئی ہے تو میری بیوی نے‬
‫ایک تھیلہ مجھے نکال کردیا جس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارا ایک بکری کا بچہ تھا‬
‫جو کہ پال ہوا تھا میں نے اسے ذبح کردیا اور میری بیوی نے آٹا پیسا میری بیوی بھی‬
‫میرے فارغ ہونے کے ساتھ ہی فارغ ہوئی پھر میں نے بکری کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں‬
‫ڈال دیا پھر میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف گیا کہنے لگی کہ مجھے رسول ہللا‬
‫اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرنا حضرت‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں آیا‬
‫ٰ‬ ‫جابر رضی ہللا‬
‫تو میں نے سرگوشی کے انداز میں عرض کیا اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہم نے‬
‫ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو تھے آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫چند آدمیوں کو اپنے ساتھ لے کر ہماری طرف تشریف الئیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫نے پکارا اور فرمایا اے خندق والو ! جابر نے تمہارے دعوت کی ہے لہذا تم سب چلو‬
‫تعالی عنہ سے فرمایا میرے آنے‬ ‫ٰ‬ ‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی ہللا‬
‫تک اپنی ہانڈی چولہے سے نہ اتارنا اور نہ ہی گندے ہوئے آٹے کی روٹی پکانا میں وہاں‬
‫سے آیا اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫تعالی عنہ اپنی بیوی کے پاس‬‫ٰ‬ ‫کے ساتھ سب لوگ بھی آگئے تھے حضرت جابر رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ نے‬
‫ٰ‬ ‫آئے تو ان کی بیوی نے کہا تیری ہی رسوائی ہوگئی حضرت جابر رضی ہللا‬
‫کہا میں نے تو اسی طرح کہا تھا جس طرح تو نے مجھے کہا تھا پھر میں گندھا ہوا آٹا آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے نکال کر لے آیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس میں اپنا‬
‫لعاب دہن ڈاال اور اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم ہماری ہانڈیوں‬
‫کی طرف تشریف الئے اور اس ہانڈی میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ڈاال‬
‫اور برکت کی دعا فرمائی پھر آپ نے فرمایا ایک روٹیاں پکانے والی اور بال لو جو‬
‫تمہارے ساتھ مل کر روٹیاں پکائے اور ہانڈی میں سے سالن نہ نکالنا اور نہ ہی اسے‬
‫چولہے سے اتارنا اور ایک ہزار کی تعداد میں صحابہ موجود تھے ہللا کی قسم ان سب نے‬
‫کھاناکھایا یہاں تک کہ بچا کر چھوڑ دیا اور واپس اسی طرح تھا اور اس کی روٹیاں بھی‬
‫اسی طرح پک رہی تھیں۔‬
‫متفق علیہ‬ ‫حدیث مرفوع‬ ‫صحیح مسلم‪:‬جلد سوم‪:‬حدیث نمبر ‪818‬‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دن (‬ ‫ٰ‬ ‫" حضرت ابوہریرہ رضی ہللا‬
‫توشہ کی کمی کے سبب ) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں‬ ‫ٰ‬
‫کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے ہللا سے برکت‬
‫کی دعا فرمائیے ‪ ،‬آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬اچھا ۔ اور پھر آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ‬
‫النے کے لئے کہا گیا " چنانچہ لوگوں نے چیزیں النا شروع کیں‪ ،‬کوئی مٹھی بھر چنے‬
‫لے کر آیا‪ ،‬کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا‪ ،‬اور کوئی روٹی کا ٹکڑا الیا ‪ ،‬اس طرح اس‬
‫دستر خوان پر کچھ تھوڑی سی چیزیں جمع ہو گئیں تو رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫نزول برکت کی دعا فرمائی ‪ ،‬اور پھر ( سب لوگوں سے ) فرمایا لو ( جس کا جتنا جی‬
‫چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لے ) چنانچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع‬
‫کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو ۔۔۔ حضرت‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے ( جو تقریبًا ایک الکھ‬ ‫ٰ‬ ‫ابوہریرہ رضی ہللا‬
‫مجاہدین پر مشتمل تھا ) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بھر بھی بہت سارا کھانا بچ رہا ۔ اس‬
‫کے بعد رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا " میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا‬
‫کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بالشبہ میں ہللا کا رسول ہوں ۔ اور یاد رکھو ) ایسا ہرگز نہیں ہو‬
‫سکتا کہ کوئی شخص ان دوگواہیوں کے ساتھ کہ جن میں سے اس کو کوئی شک وشبہ نہ‬
‫تعالی سے جا کر ملے اور پھر اس کو جنت میں جانے سے روکا جائے ۔ "‬ ‫ٰ‬ ‫ہو ‪ ،‬ہللا‬
‫( مسلم ) مشکوۃ شریف‪:‬جلد پنجم‪:‬حدیث نمبر ‪500‬‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی ہللا‬‫ٰ‬ ‫" اور حضرت انس رضی ہللا‬
‫تعالی عنہا کے ساتھ نکاح ہوا تو (شب‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کا ام المؤمنین حضرت زینب رضی ہللا‬
‫عروسی کے بعد ) میری والدہ ام سلیم نے کجھور‪ ،‬گھی اور قروت ( پنیر ) لے کر مالیدہ سا‬
‫تعالی عنہ !‬
‫ٰ‬ ‫بنا لیا اور اس مالیدہ کو ایک پیالہ میں رکھ کر مجھ سے کہا کہ انس رضی ہللا‬
‫اس کو رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں لے جاؤ اور کہنا کہ میری مان نے‬
‫یہ ( حقیر ہدیہ ) آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے اور آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کو سالم عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ ( یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم !) یہ ایک‬
‫چھوٹا سا ہدیہ ( جو ) ہماری طرف سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے لئے ہے ( آگرچہ آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی شان کے الئق نہیں ہے لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے الطاف‬
‫کریمانہ سے امید ہے کہ اس کو قبول فرمائیں گے ) چنانچہ میں اس کو لے کر آنحضرت‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میری والدہ نے کہا تھا عرض‬
‫کر دیا ۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ( بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ) فرمایا کہ‬
‫اس کو رکھ دو اور پھر فرمایا کہ فالں فالں اور فالں شخص کو جن کے نام آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے بتائے تھے جا کر بال الؤ اور ( دیکھو ) راستہ میں جو شخص ملے اس کو‬
‫بھی بالتے النا چنانچہ میں گیا اور ان لوگوں کو کہ جو مجھے راستہ میں ملے ‪ ،‬بال کر لے‬
‫آیا ‪ ،‬اور جب میں گھر میں واپس آیا ‪ ،‬تو دیکھا کہ پورا گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا ‪،‬‬
‫تعالی عنہ سے پوچھا کہ ( اس وقت ) تم سب کتنے لوگ ہوگے ؟‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت انس رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ نے جواب دیا کہ تین سو کے قریب ۔ پھر میں نے دیکھا‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت انس رضی ہللا‬
‫کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اس مالیدہ پر اپنا دست مبارک رکھ کر وہ کہا جو ہللا‬
‫نے چاہا ( یعنی خیر وبرکت کی دعا فرمائی ‪ ،‬اس کے بعد آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے دس‬
‫دس آدمیوں کو بالنا شروع کیا اور وہ ( یکے بعد دیگرے دس دس ) آدمی کھانے ( کے لئے‬
‫آنے ) لگے اور ( جو لوگ کھانے پر آتے ان سے ) آپ صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ! ہللا کا‬
‫نام لے کر کھاؤ اور ہر شخص کو اپنے سامنے سے کھانا چاہئے ( کیونکہ کھانے کا یہ‬
‫مسنون طریقہ ہے جس سے تہذیب وشائستگی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور کھانے میں خیر‬
‫وبرکت بھی اترتی ہے ۔‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں ‪ :‬جب دس آدمیوں کی ایک‬
‫ٰ‬ ‫حضرت انس رضی ہللا‬
‫جماعت کھانے سے فارغ ہو کر چلی جاتی تو ( اتنے ہی آدمیوں ) کی دوسری جماعت‬
‫آجاتی ‪ ،‬یہاں تک کہ سب لوگوں نے ( خوب آسودہ ہو کر ) کھالیا اور پھر آنحضرت صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ‪ ،‬انس ! ( سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے ہیں ) اب‬
‫اس پیالہ کو اٹھالو ۔ میں نے پیالہ کو اٹھالیا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت میں نے‬
‫پیالہ رکھا تھا اس وقت اس میں مالیدہ زیادہ تھا ‪ ،‬یا اس وقت جب کہ ( تمام لوگوں کے اس‬
‫کھانے سے فراغت کے بعد ) میں نے اس کو اٹھایا ۔ " ( بخاری ومسلم ) مشکوۃ شریف‪:‬جلد‬
‫پنجم‪:‬حدیث نمبر ‪501‬‬
‫مضمون کافی لمبا ہوتا جا رہا ہے امید ہے کہ آپ اس سے مستفید ہونگے۔‬
‫والسالم‬
‫دعا گو‬
‫خادم اسالم‬
‫اسرارالحق‬

You might also like