قرآن مجید میں واردہے :بلشبہ سب سے پہل گھر جو لوگوں
کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ا س گ ھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ۔ )آل عمران (96 :سب س جے پہل گ ھر جججو منجججانب اللہ لوگوں کے لیے مقر ر کیا گیا ہے وہ ہے ججو مکجہ میجں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میججں سججب س جے پہل عبججادت خججانہ کعبہ ہے ،اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کجے سججب گھروں میں پہل گھر عبادت ہی کے لیے بنایا گیا ہو ،اس س جے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولججت خججانہ ،حضججرت آدم علیجہ السلم اللہ تعال ٰی کے نبی ہیں ،ان کی شججان س جے کچ جھ بعیججد نہیں کہ انھوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلججے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو ،اسی لیجے حضججرت عبداللہ بن عمر ،مجاہد ،قتججادہ ،سججدی وغیججرہ صججحابہ وتججابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہل گھر ہے اور یججہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ر ہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں مگر عبادت کے لیے یہ پہل گ ھر بنجا ہو ،حضجرت علی سے یہی منقول ہے۔ بعض روایات میججں ہے کجہ آدم علی جہ السلم کی یہ تعمیر کعبہ نوح علیہ السلم کے زمانے تک باقی تھی ،طوفان نوح میں منہدم ہوئی اور اس کے نشججانات مججٹ گئے ،اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلم نے انہی بنیادوں پججججر دوبججججارہ تعمیججججر کیججججا “ ۔)ج معججججارف القججججرآن(96 ، سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مکہ جسے قرآن میں بکہ ب ھی کہا گیا ہے اور جہاں مسلمان عمرہ وحج ادا کرتے ہیججں ،زمیججن پججر معججرض وجججود میججں آن جے وال خشججکی کججا پہل ٹکججڑا ت ھا ۔ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقججت ی ہی ہے ک جہ زمیججن کججی پیدائش کے ابتدائی ایام میں تمام کرہ زمین پانی میں ڈوباہوا تھا یعنی ایک بہت بڑا سمندر تھا۔ بعججدازاں اس کججی ت ہہ سجے آتش فشاں پھٹے اورانہوں نے زمینججی پججرت کجے نیچجے پگھلجے ہوئے چٹانی مواد اور لوے کو بڑی مقدار میں اوپر دھکیل دیا جس سے ایک پہاڑی معرض وجود میں آئی اوری ہی وہ پ ہاڑی تھی کہ جس پر اللہ تعال ٰی نے اپنا گ ھر )قبل جہ( بنججانے کججا حکججم دیجا۔ مکجہ کجی سججیاہ بسجالٹ چٹجانوں پججر کجی گئی سائنسجی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ ہماری زمین کے قدیم تریججن پتھر ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے تججو اس کججا مطلججب ہے کجہ اسی مکہ سے ہی پھر بقیہ زمین کججو پھیلیججا گیججا اور دنیججا ک جے دوسرے خطے معرض وجود میں آئے۔ سججوال پیججدا ہوتججاہے ک جہ ٰے بھھھی ہمارے اس دع ٰو ی کی تائید میں کوئی حدیث مصججطفٰ ہے ۔ ہاں میجججججں ہے ۔ اس کجججججا ججججججواب موججججججود ڈاکٹر ذغلول النجار نے درج ذیل 2احادیث کو پیججش کیججا ہے ۔ جن کو میں انہی کے حوالے سے نقل کررہا ہوں کہ نبی کریججم نے فرمایا کہ کعبہ پانی کے اوپر زمین کا ایججک ٹکججڑا ت ھا اسججی سے ہی بقیہ زمین کو پھیلیا گیا ۔)الفائق فججی غریججب الحججدیث للز مخشری(1/371 :۔ اسی طرح الطبرانی اور البیہقی ن جے شعب الیمان میں ابن عمر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب زمین وآسمان بنائے جارہے تھے تو پانی کی سجطح میججں سجے سب سے پہل نکلنے وال خشکی کا ٹکڑا یہی تھاکہ جس پججر ی جہ )متبرک گھر( واقع ہے ،پھر اسی کے نیچے سے ہی بقیہ زمیججن کو پھیل یا گیا۔علوہ ازیں درج ذیل احادیث سے ب ھی منججدرجہ بال احججادیث کوتقججویت ملججتی ہے۔ امججام بخججاری نجے حضججرت عبداللہ بن عباس سے ایک حدیث روایت کججی ہے ،اس لمججبی حدیث میں سجے ایججک ٹکججڑا میججں ی ہاں نقججل کرتججاہوں۔ نججبیﷺ فرماتے ہیں کہ ”)مکہ( وہ شجہر ہے کجہ جججس دن سجے اللجہ نجے آسمانوں اورزمین کو پید اکیا۔اسی دن سے اس کججو حرمججت دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی “ ۔)بخججاری ابجججججواب العمجججججرہ ،بجججججاب لیحجججججل القتجججججال بمکجججججہ( ۔ اس کے علوہ امام ابن کثیر نے بھی ایک حججدیث مسججنداحمد، ترمذی اور نسائی سے نقل کی ہے ،اس کو امام ترمججذی ن جے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ”اے مکہ تو الل جہ تعججالی کججو سججاری زمیججن س جے بہتراور پیا را ہے۔ اگر میں زبردسجتی تججھ سجے نجہ نکجال جاتجا توہرگز تجھے نہ چھوڑتا“ ۔)تفسیر ابن کثیر ،آل عمججران ،آیججت (96۔ چناچہ رسول اللہ کا فرما ن ج ہاں منججدرجہ بججال تحقیججق کجی حمججایت کرتجاہے و ہاں آپ کجی صججداقت کجو ب ھی عیجاں کرتاہے۔ حضور کو کس نجے بتایججا کجہ زمججانہ قججدیم میججں پججوری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ت ھی اور پ ھر اسججی خشججکی کجے ٹکڑے پر اللہ کا گھر بنایا گیا ت ھا ،جیسجا کجہ مکجہ کجی بسجالٹ چٹانو ں پر کی گئی تحقیق سے یہ امججر ثججابت ہوچکججاہے کجہ یجہ قجججججججججججججدیم تریجججججججججججججن چٹجججججججججججججانیں ہیجججججججججججججں ۔ پروفیسرحسین کمال الدین ریججاض یونیورسججیٹی میججں شججعبہ انجنیرنگ میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنی بے مثججال تحقیججق کے بعد اس امر کا انکشاف کیاتھا کہ مکہ زمین کا مرکز ہے ۔ انہیں اس حقیقت کا علم اس وقت ہوا جب وہ دنیا کججے بججڑے شہروں سے قبلہ )مکہ( کی سمت معلججوم کرنجے کجے کججام پججر مامور تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک چججارٹ بنایججا۔ اس چججارٹ میججں سججاتوں براعظمججوں کججو مکجہ المکرمہ سے فاصلے اورمحل وقوع کی بنیججاد پججر ترتیججب دیججا ۔ پھراپنے کام کو مزید آسان بنانے کے لیے انہوں نے اس چججارٹ کو طول بلد اور عرض بلد کے حساب سے تقسیم کرنے کججے لیے یکساں خطوط کھینچے۔ پھر ان فاصججلوں ،مقججداروں اور دوسری کئی ضروری چیزوں کو معلوم کرنے کے لی جے ان ہوں نے انتہائی جدید اور پیچیدہ کمپیوٹر سافٹ وئیرز کو استعمال کیا اور آخرکار دوسالہ انتھک محنت کے بعد اپنی نئی دریافت کا انتہائی خوشی سے اعلن کرتے ہوئے کہا کہ ’مکہ‘ہی زمیججن کامرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے ک جہ ایججک ایسججا دائرہ بنایا جائے کہ اگر اس کا مرکججز مکجہ ہوتججواس دائرے کجے بارڈرز تما م براعظموں سجے بججاہر واقججع ہوں گجے اور اسججی طرح اس دائرے کا محیط تمام براعظموں کے محیطججوں کججا احاطہ کررہا ہوگا ۔ )المجلہ العربی ۔نمبر ،237اگست (1978۔ بعدازاں 20صدی کی آخری دہائی میں زمین اور زمین کججی تہوں کی جغرافیائی خصوصیات کو جاننے اور نقش جہ نویسججی کی غرض سے حاصل کی گئیں سججیٹلئٹ تصججاویر سجے ب ھی اس تحقیق کوتقویت ملتی ہے کہ مکہ زمیججن ک جے مرکججز میججں واقع ہے۔ سائنسی طور پریہ امر ثابت شدہ ہے ک جہ زمیججن کججی پلیٹیں ) (Tectonics Platesاپنی لمبی جغرافیائی عمر کے وقت سے باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کے گرد گھوم رہی ہیں۔ یہ پلیٹیں باقاعدگی کجے سجاتھ عربیججن پلیججٹ کججی طججرف اس طر ح مرتکز ہورہی ہیں کہ گویا یہ ان کا مرکز ہدف ہے ۔ اس سائنسی تحقیق کا مقصد ہرگز یہ معلوم کرنا نہیں ت ھاکہ زمین کا مرکز مکہ ہے یا نہیں بلکہ کچھ اور مقاصد ت ھے۔ تججاہم اس کے باوجود یہ تحقیق مغرب کے کئی سائنسی میگزینججوں میں شائع ہوئی مگجر اس طجورپر کجہ اس سجے کجوئی نجتیجہ اخذنہ کیا جاسکے۔ سید ڈاکججٹر عبدالباسججط مصججر کجے نیشججنل ریسرچ سججنٹر ک جے ممتججاز رکججن ہیججں۔ ان ہوں ن جے 16جنججوری 2005میں سعودی عرب میں المجد ٹی وی کو انٹرویو دیججا ت ھا۔ اس میججں مک جہ المکرم جہ ک جے متعلججق کئی حیججرت انگیججز سائنسجی انکشجافات کیجے ت ھے۔ ان ہوں نجے ک ہا کجہ سائنسجی بنیادوں پر مکہ دنیا کا مرکز اس طرح ثابت ہوتا ہے ک جہ جججب نیل آرم اسٹرانگ زمین سے اوپر خل کی طرف جا ر ہے ت ھے تو انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں۔ انہوں نے دیک ھا کججہ زمین خل میں معلق ایک کال کّ±رہ ہے۔ نیل آرم سٹرانگ نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اسے کس نے لٹکا یججاہے؟ پ ھر خججود ہی جواب دیاکہ ! اسے خدانے ہی معلق کرکجے تھامججا ہھھوا ہھھے ۔ علوہ ازیں انہوں نے مشاہدہ کیججا ک جہ زمیججن ک جے کسججی خججاص مقام سے کچھ خاص قسم کی شعاعیں نکججل ر ہی ہیججں جججو کم طول موج کی تھیں۔ انہوں نے اس چیزکججو معلججوم کرن جے کے لیے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کرنا شروع کیججا کہ جہاں سے یہ شعاعیں نکل رہی تھیں۔ آخرکججار وہ اپنججی اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ معلوم کرلیججا ک جہ وہ مقام کہ جہاں سے شعاعیں خارج ہورہی ہیں وہ مکہ ہے۔ بلک جہ بالکل اگر صحیح طور پر کہا جائے تججو وہ کعبجہ ہے ۔ جججب نیججل آرم اسٹرانگ نے یہ منظر دیکھا تو اس کے منہ سے نکل۔ اوہ ! میرے خدا! جب وہ مریخ کے قریب پہنچے تو دوبارہ ان ہوں نججے زمین کی تصویریں کھینچیں تو انہیں معلججوم ہواکہ مکجہ سجے نکلنے والی یہ شعاعیں مسلسل آگے جارہی تھیں۔ ناسا نے یججہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پججر پیججش کججردی تھیججں مگججر صرف 21دن کے بعد ان کو ویب سائٹ سے ہٹججا دیاگیججا ت ھا ۔ شاید اس لیے کہ ی جہ معلومججات بججڑی ا ہم اور حسججاس تھیججں ۔ ڈاکٹرعبدالباسط نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہھھھا کہ یہ شعاعیں جو کعبہ سے خارج ہورہی ہیججں ل محججدود ہیججں ۔ زیججادہ طججول مججوج یججا کججم طججول مججوج والججی شججعاعوں کججی خصوصیات سے بالکل برعکس ،میججرے خیججال میججں اس کججی وجہ فقط یہ ہے کہ ان کامنبع اور مآخد زمین کججا کعب جہ ہے جججو آسمانی کعبہ سے وابستہ ہے اورمجھے یقین ہے کجہ یجہ شججعائیں زمینی کعبة اللہ سے بیت المعمور )آسججمانی کعبججة الل جہ( تججک جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کعبہ زمین کے اس مقام پر ہے کججہ جہاں زمینی مقناطیسجی قوتجوں کجا اثرصجفر ہے۔ یجہ زمینجی مقناطیس کے شمالی اورجنوبی قطبوں ک جے بالکججل درمیججان میں ہے ،اگریہاں قطب نمارکھ دیا جائے تججو اس کججی سججوئی حرکت نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ اس مقام پر شمالی قطب اور جنوبی قطب کی کششیں ایک دوسرے کے اثججر کججو زائل کردیتی ہیں۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ مججک? المکرمجہ اس زمینججی مقناطیسی قوت کے اثر سے باہر ہے اور مکہ کے رہنے والججوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ،نتیجتا ً جو کوئی مکہ کی طرف سفر کرتاہے یا اس میں رہتاہے وہ صحت منججد اورلمججبی عمججر پاتججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججا ہے ۔ اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرت جے ہیججں ایسججا اس لیے ہوتاہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کججی قججوت ک جے اثرسے باہر ہوتے ہیں اورسائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت شدہ ہے۔علوہ ازیں مکہ کی کالی بسالٹ چٹانوں ک جے ٹکججڑو ں کججو لیبارٹری میں لے جاکر چیک کیاگیا ہے اور یہ بججات معلججوم کججر لی گئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیججں ۔ مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط کی گفتگو سجے ثجابت ہوتجا ہے کجہ کعبہ ناصرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کججا مرکججز بھی ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپججر آسججمانی کعب جہ یعنی بیت المعمور ہے۔ مختلف روایات و احادیث سے بھی ی جہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور ،زمینی کعبہ کججی سججیدھ میں بالکل اوپر ہے۔ اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا اس کے اوپر گرے۔ ہرروز 70ہزار فرشتے اس میں آت جے ہیججں جججب وہ وہاں سے جاتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔ علوہ ازیججں قرآن مجید میں بھی مکہ کو ”ام القری“ کہا گیا ہے جججس کججا مطلب ہے کہ مکہ ان شہروں کی ماں ہے جججو سججب اس ک جے اردگرد ہیں۔ اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتاہے ک جہ مک جہ تمججام شہروں کے درمیان میں ہے۔اسلمی معاشرے میججں مججاں ک جے لفظ کی ایک خا ص اہمیججت ہے۔ آل و اولد کججا سلسججلہ مججاں سے ہی چلتاہے۔ چناچہ مکہ کو ش جہروں کججی مججاں کانججام دین جے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کجہ زمیججن کجے بقیجہ حصجے ب ھی اسی سے پھیلے یا اس کے بعججد وجججود میججں آئے اوری ہی بججات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔ مکہ ایک محفوظ اور ہے ۔ پججججججججججججججججر امججججججججججججججججن شججججججججججججججججہر قرآن میں اس کو ”بلد المین“ بھی کہا گیا ہے۔ ی ہاں کسججی چرند پرند کوبھی نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ یجہ تمججام اطججراف سے اونچے پہاڑوں میں گھراہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ی ہاں کب ھی کبھار کم درجے کے زلزلے ہی آتے ہیں۔ مزید برآں چججونکہ اس شہر کا درجہ حرارت عموما ً زیادہ رہتاہے اسی وججہ سجے ی ہاں زمینی پرت )(Crustکے نیچے چٹانیں چپکنے والججی اور لیججس دار ہیں ،اس وجہ سے بھی مستقبل میں اگر کبھی یہاں زلزلہ آیا تو اس کی شدت کم ہی رہے گی۔ کعبہ کججی ایججک اور ا ہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کے گججرد طججواف کرت جے ہیں ۔ طواف کا آغاز حجر اسود والججی جگجہ سجے کیججا جاتججاہے ۔ حاجی یہ طواف اینٹی کلک وائز )مخالف گھڑی وار( کرتججاہے اوریہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں ایٹججم س جے ل جے کججر کہکشاوں تک ہر چیز اینٹی کلک وائز حرکت کررہی ہے ۔ ایٹم کے اندر الیکٹرونز ،نیوکلئس کے گرد اینٹی کلک وائز گردش کرتے ہیں۔ زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گججرد اینججٹی کلک وائز حرکججت کرتججی ہیججں۔ انسججانی جسججم کججے انججدر سائیٹوپلزم ،سججیل ک جے نیججوکلئس ک جے گججرد اینججٹی کلک وائز حرکت کرتاہے۔ پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف اینٹی کلک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیججں ۔ مججاں کے رحم کے اندر بیض ٰی انث ٰی بھی اپنے ہی گرد حرکججت اینججٹی کلک وائز ہی کرتاہے۔ مرد کی منی کے اندرجرثومہ بھی اپن جے ہی گرد اینٹی کلک وائز حرکت کرتے ہھھوئے بیض ج ٰی انججثی تججک پہنچتاہے۔ انسانی خون کی گردش ب ھی اینجٹی کلک وائز ہی شروع ہوتی ہے۔ زمیججن اپن جے گججرد اور سججورج کجے گججرد ب ھی انیٹی کلک وائز ہی حرکت کرتی ہے۔ سججورج اپن جے ہی گججرد اینججٹی کلک وائز حرکججت کرتججاہے۔ سججورج اپن جے تمججا م نظججام شمسی سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکز کجے گججرد اینججٹی کلک وائز گردش کرتاہے۔ کہکشاں خود اپنجے ہی گججرد اینججٹی کلک وائز گردش کرتی ہے۔ چناچہ ان تفصججیلت سجے معلججوم ہوتاہے کہ ایک مسلمان جب کعبہ کا طواف کرتا ہے تووہ اسی طرح اپنے رب کی طرف سے عائد کی گئی ڈیوٹی کججو نبھاتججا ہے کہ جس طرح ایٹم سے لے کر کہکشاو¿ں تججک ،سججب اپن جے رب کے حکججم کجے آگجے سجراطاعت خججم کیجے ہوئے ایججک ہی سججمت میججں محججو گججردش ہیججں۔ اس سجے اسججلم کججا امیتججاز اوربرتری دوسرے مذاہب کی نسبت نکھر کر سججامنے آجججاتی ہھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھے ۔ گزشتہ سال قطر میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی ،جس کا عنوان ’مکہ مرکز عالم ،علم وعمل ‘ ت ھا۔ اس میججں کچجھ مسلمان علمائے دین اور سائنسدانوں نے مطالبہ کیججا ت ھا ک جہ گرینچ کجے معیجاری وقجت کججی بججائے مکجہ مکرمجہ کجے وقجت کومعیار کجے طججورپر اپنانججا چججاہیے کیججونکہ بقججول ان کجے مک جہ مکرمہ ہی دنیا کا مرکز ہے ۔ اس کانفرنس میججں شججریک ایججک ماہر ارضیات کا کہنا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے مکجہ مکرمجہ قطب شمالی سے دیگر طججول بلججد کجے مقججابلے میججں ب ہترین مطابقت رکھتا ہے۔ شرکاءکانفرنس کا کہنا ت ھا کجہ انگریجزوں نے برطانوی راج کے دور میں دیگر ممالججک پججر قبضجہ کرکجے، باقی دنیا پر زبردستی گرنیچ کا وقججت مسججلط کردیات ھا ۔ اب اس صججججورت حججججال کججججو بججججدلنے کججججا وقججججت آگیججججا ہے ۔ معروف عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے اس کججانفرنس میں کہا کہ جدید سائنسی طریقوں سے اب یہ بججات ثججابت ہو گئی ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارض کا اصل مرکز ہے۔ جس سججے قبلے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں مک جہ واچ ،نامی منصوبے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ ایججک فرانسیسججی سائنسدان کی ایجاد کردہ گھڑی ہے جو الٹی طرف چلتی ہے اور اس سے دنیا میں کہیں بھی موجود مسلمانوں کججو قبل جے کے رخ کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب جججب کجہ سائنسججی تحقیقججات اور سیٹلئٹ تصاویر نے بھی اس تحقیق کججی حمججایت کججردی ہے کہ مکہ ہی زمین کا مرکز ہے تججو کئی دہھھائیوں س جے جججاری اس تنازع اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے ک جے لی جے ضججروری ہے کہ بین القوامی طور پر وقت کے معیار کے لیے گرینچ کی بجائے ’مکہ ‘ ہی کو مرکزقراردیاجائے۔ اب اگر مکہ کے وقججت کو بین القوامی طورپر نافذ کردیاجائے تجو ہر ایجک کجے لیجے نمازوں کے اوقات کا معلوم کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔ لہذا مکة المکرمہ جو کہ ایک مبارک شجہر ہے ،کججو دنیججا کجے دیگججر شہر وں پر فضیلت کا حق ملنا چاہی ے ۔