You are on page 1of 8

‫کر ہ ارض کا مرکز ’گرینچ‘ یا ’مکة المکرم ہ‘؟‬

‫قرآن مجید میں واردہے ‪ :‬بلشبہ سب سے پہل گھر جو لوگوں‬


‫کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ا س گ ھر‬
‫کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت‬
‫بنایا گیا ۔ )آل عمران ‪ (96 :‬سب س جے پہل گ ھر جججو منجججانب‬
‫اللہ لوگوں کے لیے مقر ر کیا گیا ہے وہ ہے ججو مکجہ میجں ہے‪،‬‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میججں سججب س جے پہل عبججادت خججانہ‬
‫کعبہ ہے‪ ،‬اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کجے سججب‬
‫گھروں میں پہل گھر عبادت ہی کے لیے بنایا گیا ہو‪ ،‬اس س جے‬
‫پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولججت خججانہ‪ ،‬حضججرت آدم علیجہ‬
‫السلم اللہ تعال ٰی کے نبی ہیں‪ ،‬ان کی شججان س جے کچ جھ بعیججد‬
‫نہیں کہ انھوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلججے‬
‫اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو‪ ،‬اسی لیجے حضججرت‬
‫عبداللہ بن عمر‪ ،‬مجاہد‪ ،‬قتججادہ‪ ،‬سججدی وغیججرہ صججحابہ وتججابعین‬
‫اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہل گھر ہے اور یججہ‬
‫بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ر ہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی‬
‫بن چکے ہوں مگر عبادت کے لیے یہ پہل گ ھر بنجا ہو‪ ،‬حضجرت‬
‫علی سے یہی منقول ہے۔ بعض روایات میججں ہے کجہ آدم علی جہ‬
‫السلم کی یہ تعمیر کعبہ نوح علیہ السلم کے زمانے تک باقی‬
‫تھی‪ ،‬طوفان نوح میں منہدم ہوئی اور اس کے نشججانات مججٹ‬
‫گئے‪ ،‬اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلم نے انہی بنیادوں‬
‫پججججر دوبججججارہ تعمیججججر کیججججا “ ۔)ج معججججارف القججججرآن‪(96 ،‬‬
‫سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مکہ جسے قرآن میں بکہ ب ھی‬
‫کہا گیا ہے اور جہاں مسلمان عمرہ وحج ادا کرتے ہیججں‪ ،‬زمیججن‬
‫پججر معججرض وجججود میججں آن جے وال خشججکی کججا پہل ٹکججڑا ت ھا ۔‬
‫سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقججت ی ہی ہے ک جہ زمیججن کججی‬
‫پیدائش کے ابتدائی ایام میں تمام کرہ زمین پانی میں ڈوباہوا‬
‫تھا یعنی ایک بہت بڑا سمندر تھا۔ بعججدازاں اس کججی ت ہہ سجے‬
‫آتش فشاں پھٹے اورانہوں نے زمینججی پججرت کجے نیچجے پگھلجے‬
‫ہوئے چٹانی مواد اور لوے کو بڑی مقدار میں اوپر دھکیل دیا‬
‫جس سے ایک پہاڑی معرض وجود میں آئی اوری ہی وہ پ ہاڑی‬
‫تھی کہ جس پر اللہ تعال ٰی نے اپنا گ ھر )قبل جہ( بنججانے کججا حکججم‬
‫دیجا۔ مکجہ کجی سججیاہ بسجالٹ چٹجانوں پججر کجی گئی سائنسجی‬
‫تحقیق سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ ہماری زمین کے قدیم تریججن‬
‫پتھر ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے تججو اس کججا مطلججب ہے کجہ‬
‫اسی مکہ سے ہی پھر بقیہ زمین کججو پھیلیججا گیججا اور دنیججا ک جے‬
‫دوسرے خطے معرض وجود میں آئے۔ سججوال پیججدا ہوتججاہے ک جہ‬
‫ٰے بھھھی‬ ‫ہمارے اس دع ٰو ی کی تائید میں کوئی حدیث مصججطفٰ‬
‫ہے ۔‬ ‫ہاں میجججججں‬ ‫ہے ۔ اس کجججججا ججججججواب‬ ‫موججججججود‬
‫ڈاکٹر ذغلول النجار نے درج ذیل ‪ 2‬احادیث کو پیججش کیججا ہے ۔‬
‫جن کو میں انہی کے حوالے سے نقل کررہا ہوں کہ نبی کریججم‬
‫نے فرمایا کہ کعبہ پانی کے اوپر زمین کا ایججک ٹکججڑا ت ھا اسججی‬
‫سے ہی بقیہ زمین کو پھیلیا گیا ۔)الفائق فججی غریججب الحججدیث‬
‫للز مخشری‪(1/371 :‬۔ اسی طرح الطبرانی اور البیہقی ن جے‬
‫شعب الیمان میں ابن عمر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب‬
‫زمین وآسمان بنائے جارہے تھے تو پانی کی سجطح میججں سجے‬
‫سب سے پہل نکلنے وال خشکی کا ٹکڑا یہی تھاکہ جس پججر ی جہ‬
‫)متبرک گھر( واقع ہے‪ ،‬پھر اسی کے نیچے سے ہی بقیہ زمیججن‬
‫کو پھیل یا گیا۔علوہ ازیں درج ذیل احادیث سے ب ھی منججدرجہ‬
‫بال احججادیث کوتقججویت ملججتی ہے۔ امججام بخججاری نجے حضججرت‬
‫عبداللہ بن عباس سے ایک حدیث روایت کججی ہے‪ ،‬اس لمججبی‬
‫حدیث میں سجے ایججک ٹکججڑا میججں ی ہاں نقججل کرتججاہوں۔ نججبیﷺ‬
‫فرماتے ہیں کہ ”)مکہ( وہ شجہر ہے کجہ جججس دن سجے اللجہ نجے‬
‫آسمانوں اورزمین کو پید اکیا۔اسی دن سے اس کججو حرمججت‬
‫دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی “ ۔)بخججاری‬
‫ابجججججواب العمجججججرہ‪ ،‬بجججججاب لیحجججججل القتجججججال بمکجججججہ( ۔‬
‫اس کے علوہ امام ابن کثیر نے بھی ایک حججدیث مسججنداحمد‪،‬‬
‫ترمذی اور نسائی سے نقل کی ہے‪ ،‬اس کو امام ترمججذی ن جے‬
‫حسن صحیح کہا ہے کہ نبی نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے‬
‫ہوکر فرمایا کہ”اے مکہ تو الل جہ تعججالی کججو سججاری زمیججن س جے‬
‫بہتراور پیا را ہے۔ اگر میں زبردسجتی تججھ سجے نجہ نکجال جاتجا‬
‫توہرگز تجھے نہ چھوڑتا“ ۔)تفسیر ابن کثیر‪ ،‬آل عمججران ‪ ،‬آیججت‬
‫‪(96‬۔ چناچہ رسول اللہ کا فرما ن ج ہاں منججدرجہ بججال تحقیججق‬
‫کجی حمججایت کرتجاہے و ہاں آپ کجی صججداقت کجو ب ھی عیجاں‬
‫کرتاہے۔ حضور کو کس نجے بتایججا کجہ زمججانہ قججدیم میججں پججوری‬
‫زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ت ھی اور پ ھر اسججی خشججکی کجے‬
‫ٹکڑے پر اللہ کا گھر بنایا گیا ت ھا‪ ،‬جیسجا کجہ مکجہ کجی بسجالٹ‬
‫چٹانو ں پر کی گئی تحقیق سے یہ امججر ثججابت ہوچکججاہے کجہ یجہ‬
‫قجججججججججججججدیم تریجججججججججججججن چٹجججججججججججججانیں ہیجججججججججججججں ۔‬
‫پروفیسرحسین کمال الدین ریججاض یونیورسججیٹی میججں شججعبہ‬
‫انجنیرنگ میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنی بے مثججال تحقیججق‬
‫کے بعد اس امر کا انکشاف کیاتھا کہ مکہ زمین کا مرکز ہے ۔‬
‫انہیں اس حقیقت کا علم اس وقت ہوا جب وہ دنیا کججے بججڑے‬
‫شہروں سے قبلہ )مکہ( کی سمت معلججوم کرنجے کجے کججام پججر‬
‫مامور تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک‬
‫چججارٹ بنایججا۔ اس چججارٹ میججں سججاتوں براعظمججوں کججو مکجہ‬
‫المکرمہ سے فاصلے اورمحل وقوع کی بنیججاد پججر ترتیججب دیججا ۔‬
‫پھراپنے کام کو مزید آسان بنانے کے لیے انہوں نے اس چججارٹ‬
‫کو طول بلد اور عرض بلد کے حساب سے تقسیم کرنے کججے‬
‫لیے یکساں خطوط کھینچے۔ پھر ان فاصججلوں‪ ،‬مقججداروں اور‬
‫دوسری کئی ضروری چیزوں کو معلوم کرنے کے لی جے ان ہوں‬
‫نے انتہائی جدید اور پیچیدہ کمپیوٹر سافٹ وئیرز کو استعمال‬
‫کیا اور آخرکار دوسالہ انتھک محنت کے بعد اپنی نئی دریافت‬
‫کا انتہائی خوشی سے اعلن کرتے ہوئے کہا کہ ’مکہ‘ہی زمیججن‬
‫کامرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے ک جہ ایججک ایسججا‬
‫دائرہ بنایا جائے کہ اگر اس کا مرکججز مکجہ ہوتججواس دائرے کجے‬
‫بارڈرز تما م براعظموں سجے بججاہر واقججع ہوں گجے اور اسججی‬
‫طرح اس دائرے کا محیط تمام براعظموں کے محیطججوں کججا‬
‫احاطہ کررہا ہوگا ۔ )المجلہ العربی ۔نمبر ‪،237‬اگست ‪ (1978‬۔‬
‫بعدازاں ‪ 20‬صدی کی آخری دہائی میں زمین اور زمین کججی‬
‫تہوں کی جغرافیائی خصوصیات کو جاننے اور نقش جہ نویسججی‬
‫کی غرض سے حاصل کی گئیں سججیٹلئٹ تصججاویر سجے ب ھی‬
‫اس تحقیق کوتقویت ملتی ہے کہ مکہ زمیججن ک جے مرکججز میججں‬
‫واقع ہے۔ سائنسی طور پریہ امر ثابت شدہ ہے ک جہ زمیججن کججی‬
‫پلیٹیں )‪ (Tectonics Plates‬اپنی لمبی جغرافیائی عمر کے‬
‫وقت سے باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کے گرد گھوم رہی‬
‫ہیں۔ یہ پلیٹیں باقاعدگی کجے سجاتھ عربیججن پلیججٹ کججی طججرف‬
‫اس طر ح مرتکز ہورہی ہیں کہ گویا یہ ان کا مرکز ہدف ہے ۔‬
‫اس سائنسی تحقیق کا مقصد ہرگز یہ معلوم کرنا نہیں ت ھاکہ‬
‫زمین کا مرکز مکہ ہے یا نہیں بلکہ کچھ اور مقاصد ت ھے۔ تججاہم‬
‫اس کے باوجود یہ تحقیق مغرب کے کئی سائنسی میگزینججوں‬
‫میں شائع ہوئی مگجر اس طجورپر کجہ اس سجے کجوئی نجتیجہ‬
‫اخذنہ کیا جاسکے۔ سید ڈاکججٹر عبدالباسججط مصججر کجے نیشججنل‬
‫ریسرچ سججنٹر ک جے ممتججاز رکججن ہیججں۔ ان ہوں ن جے ‪ 16‬جنججوری‬
‫‪ 2005‬میں سعودی عرب میں المجد ٹی وی کو انٹرویو دیججا‬
‫ت ھا۔ اس میججں مک جہ المکرم جہ ک جے متعلججق کئی حیججرت انگیججز‬
‫سائنسجی انکشجافات کیجے ت ھے۔ ان ہوں نجے ک ہا کجہ سائنسجی‬
‫بنیادوں پر مکہ دنیا کا مرکز اس طرح ثابت ہوتا ہے ک جہ جججب‬
‫نیل آرم اسٹرانگ زمین سے اوپر خل کی طرف جا ر ہے ت ھے‬
‫تو انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں۔ انہوں نے دیک ھا کججہ‬
‫زمین خل میں معلق ایک کال ک‪ّ±‬رہ ہے۔ نیل آرم سٹرانگ نے‬
‫اپنے آپ سے سوال کیا کہ اسے کس نے لٹکا یججاہے؟ پ ھر خججود‬
‫ہی جواب دیاکہ ! اسے خدانے ہی معلق کرکجے تھامججا ہھھوا ہھھے ۔‬
‫علوہ ازیں انہوں نے مشاہدہ کیججا ک جہ زمیججن ک جے کسججی خججاص‬
‫مقام سے کچھ خاص قسم کی شعاعیں نکججل ر ہی ہیججں جججو‬
‫کم طول موج کی تھیں۔ انہوں نے اس چیزکججو معلججوم کرن جے‬
‫کے لیے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کرنا شروع کیججا‬
‫کہ جہاں سے یہ شعاعیں نکل رہی تھیں۔ آخرکججار وہ اپنججی اس‬
‫کوشش میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ معلوم کرلیججا ک جہ وہ‬
‫مقام کہ جہاں سے شعاعیں خارج ہورہی ہیں وہ مکہ ہے۔ بلک جہ‬
‫بالکل اگر صحیح طور پر کہا جائے تججو وہ کعبجہ ہے ۔ جججب نیججل‬
‫آرم اسٹرانگ نے یہ منظر دیکھا تو اس کے منہ سے نکل۔ اوہ !‬
‫میرے خدا! جب وہ مریخ کے قریب پہنچے تو دوبارہ ان ہوں نججے‬
‫زمین کی تصویریں کھینچیں تو انہیں معلججوم ہواکہ مکجہ سجے‬
‫نکلنے والی یہ شعاعیں مسلسل آگے جارہی تھیں۔ ناسا نے یججہ‬
‫تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پججر پیججش کججردی تھیججں مگججر‬
‫صرف ‪ 21‬دن کے بعد ان کو ویب سائٹ سے ہٹججا دیاگیججا ت ھا ۔‬
‫شاید اس لیے کہ ی جہ معلومججات بججڑی ا ہم اور حسججاس تھیججں ۔‬
‫ڈاکٹرعبدالباسط نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہھھھا‬
‫کہ یہ شعاعیں جو کعبہ سے خارج ہورہی ہیججں ل محججدود ہیججں ۔‬
‫زیججادہ طججول مججوج یججا کججم طججول مججوج والججی شججعاعوں کججی‬
‫خصوصیات سے بالکل برعکس‪ ،‬میججرے خیججال میججں اس کججی‬
‫وجہ فقط یہ ہے کہ ان کامنبع اور مآخد زمین کججا کعب جہ ہے جججو‬
‫آسمانی کعبہ سے وابستہ ہے اورمجھے یقین ہے کجہ یجہ شججعائیں‬
‫زمینی کعبة اللہ سے بیت المعمور )آسججمانی کعبججة الل جہ( تججک‬
‫جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کعبہ زمین کے اس مقام پر ہے کججہ‬
‫جہاں زمینی مقناطیسجی قوتجوں کجا اثرصجفر ہے۔ یجہ زمینجی‬
‫مقناطیس کے شمالی اورجنوبی قطبوں ک جے بالکججل درمیججان‬
‫میں ہے ‪ ،‬اگریہاں قطب نمارکھ دیا جائے تججو اس کججی سججوئی‬
‫حرکت نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ اس مقام پر شمالی قطب‬
‫اور جنوبی قطب کی کششیں ایک دوسرے کے اثججر کججو زائل‬
‫کردیتی ہیں۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ مججک? المکرمجہ اس زمینججی‬
‫مقناطیسی قوت کے اثر سے باہر ہے اور مکہ کے رہنے والججوں‬
‫پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا‪ ،‬نتیجتا ً جو کوئی مکہ کی طرف‬
‫سفر کرتاہے یا اس میں رہتاہے وہ صحت منججد اورلمججبی عمججر‬
‫پاتججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججججا ہے ۔‬
‫اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر‬
‫ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرت جے ہیججں ایسججا اس‬
‫لیے ہوتاہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کججی قججوت ک جے‬
‫اثرسے باہر ہوتے ہیں اورسائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت شدہ‬
‫ہے۔علوہ ازیں مکہ کی کالی بسالٹ چٹانوں ک جے ٹکججڑو ں کججو‬
‫لیبارٹری میں لے جاکر چیک کیاگیا ہے اور یہ بججات معلججوم کججر‬
‫لی گئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیججں ۔‬
‫مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط کی گفتگو سجے ثجابت ہوتجا ہے کجہ‬
‫کعبہ ناصرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کججا مرکججز‬
‫بھی ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپججر آسججمانی کعب جہ‬
‫یعنی بیت المعمور ہے۔ مختلف روایات و احادیث سے بھی ی جہ‬
‫بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور‪ ،‬زمینی کعبہ کججی سججیدھ‬
‫میں بالکل اوپر ہے۔ اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا اس کے‬
‫اوپر گرے۔ ہرروز ‪ 70‬ہزار فرشتے اس میں آت جے ہیججں جججب وہ‬
‫وہاں سے جاتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔ علوہ ازیججں‬
‫قرآن مجید میں بھی مکہ کو ”ام القری“ کہا گیا ہے جججس کججا‬
‫مطلب ہے کہ مکہ ان شہروں کی ماں ہے جججو سججب اس ک جے‬
‫اردگرد ہیں۔ اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتاہے ک جہ مک جہ تمججام‬
‫شہروں کے درمیان میں ہے۔اسلمی معاشرے میججں مججاں ک جے‬
‫لفظ کی ایک خا ص اہمیججت ہے۔ آل و اولد کججا سلسججلہ مججاں‬
‫سے ہی چلتاہے۔ چناچہ مکہ کو ش جہروں کججی مججاں کانججام دین جے‬
‫سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کجہ زمیججن کجے بقیجہ حصجے ب ھی‬
‫اسی سے پھیلے یا اس کے بعججد وجججود میججں آئے اوری ہی بججات‬
‫سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔ مکہ ایک محفوظ اور‬
‫ہے ۔‬ ‫پججججججججججججججججر امججججججججججججججججن شججججججججججججججججہر‬
‫قرآن میں اس کو ”بلد المین“ بھی کہا گیا ہے۔ ی ہاں کسججی‬
‫چرند پرند کوبھی نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ یجہ تمججام اطججراف‬
‫سے اونچے پہاڑوں میں گھراہوا ہے ‪،‬یہی وجہ ہے کہ ی ہاں کب ھی‬
‫کبھار کم درجے کے زلزلے ہی آتے ہیں۔ مزید برآں چججونکہ اس‬
‫شہر کا درجہ حرارت عموما ً زیادہ رہتاہے اسی وججہ سجے ی ہاں‬
‫زمینی پرت )‪(Crust‬کے نیچے چٹانیں چپکنے والججی اور لیججس‬
‫دار ہیں‪ ،‬اس وجہ سے بھی مستقبل میں اگر کبھی یہاں زلزلہ‬
‫آیا تو اس کی شدت کم ہی رہے گی۔ کعبہ کججی ایججک اور ا ہم‬
‫خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کے گججرد طججواف کرت جے‬
‫ہیں ۔ طواف کا آغاز حجر اسود والججی جگجہ سجے کیججا جاتججاہے ۔‬
‫حاجی یہ طواف اینٹی کلک وائز )مخالف گھڑی وار( کرتججاہے‬
‫اوریہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں ایٹججم س جے ل جے کججر‬
‫کہکشاوں تک ہر چیز اینٹی کلک وائز حرکت کررہی ہے ۔ ایٹم‬
‫کے اندر الیکٹرونز‪ ،‬نیوکلئس کے گرد اینٹی کلک وائز گردش‬
‫کرتے ہیں۔ زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گججرد اینججٹی‬
‫کلک وائز حرکججت کرتججی ہیججں۔ انسججانی جسججم کججے انججدر‬
‫سائیٹوپلزم‪ ،‬سججیل ک جے نیججوکلئس ک جے گججرد اینججٹی کلک وائز‬
‫حرکت کرتاہے۔ پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف‬
‫اینٹی کلک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیججں ۔ مججاں‬
‫کے رحم کے اندر بیض ٰی انث ٰی بھی اپنے ہی گرد حرکججت اینججٹی‬
‫کلک وائز ہی کرتاہے۔ مرد کی منی کے اندرجرثومہ بھی اپن جے‬
‫ہی گرد اینٹی کلک وائز حرکت کرتے ہھھوئے بیض ج ٰی انججثی تججک‬
‫پہنچتاہے۔ انسانی خون کی گردش ب ھی اینجٹی کلک وائز ہی‬
‫شروع ہوتی ہے۔ زمیججن اپن جے گججرد اور سججورج کجے گججرد ب ھی‬
‫انیٹی کلک وائز ہی حرکت کرتی ہے۔ سججورج اپن جے ہی گججرد‬
‫اینججٹی کلک وائز حرکججت کرتججاہے۔ سججورج اپن جے تمججا م نظججام‬
‫شمسی سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکز کجے گججرد اینججٹی‬
‫کلک وائز گردش کرتاہے۔ کہکشاں خود اپنجے ہی گججرد اینججٹی‬
‫کلک وائز گردش کرتی ہے۔ چناچہ ان تفصججیلت سجے معلججوم‬
‫ہوتاہے کہ ایک مسلمان جب کعبہ کا طواف کرتا ہے تووہ اسی‬
‫طرح اپنے رب کی طرف سے عائد کی گئی ڈیوٹی کججو نبھاتججا‬
‫ہے کہ جس طرح ایٹم سے لے کر کہکشاو¿ں تججک‪ ،‬سججب اپن جے‬
‫رب کے حکججم کجے آگجے سجراطاعت خججم کیجے ہوئے ایججک ہی‬
‫سججمت میججں محججو گججردش ہیججں۔ اس سجے اسججلم کججا امیتججاز‬
‫اوربرتری دوسرے مذاہب کی نسبت نکھر کر سججامنے آجججاتی‬
‫ہھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھھے ۔‬
‫گزشتہ سال قطر میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی ‪،‬جس‬
‫کا عنوان ’مکہ مرکز عالم ‪،‬علم وعمل ‘ ت ھا۔ اس میججں کچجھ‬
‫مسلمان علمائے دین اور سائنسدانوں نے مطالبہ کیججا ت ھا ک جہ‬
‫گرینچ کجے معیجاری وقجت کججی بججائے مکجہ مکرمجہ کجے وقجت‬
‫کومعیار کجے طججورپر اپنانججا چججاہیے کیججونکہ بقججول ان کجے مک جہ‬
‫مکرمہ ہی دنیا کا مرکز ہے ۔ اس کانفرنس میججں شججریک ایججک‬
‫ماہر ارضیات کا کہنا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے مکجہ مکرمجہ‬
‫قطب شمالی سے دیگر طججول بلججد کجے مقججابلے میججں ب ہترین‬
‫مطابقت رکھتا ہے۔ شرکاءکانفرنس کا کہنا ت ھا کجہ انگریجزوں‬
‫نے برطانوی راج کے دور میں دیگر ممالججک پججر قبضجہ کرکجے‪،‬‬
‫باقی دنیا پر زبردستی گرنیچ کا وقججت مسججلط کردیات ھا ۔ اب‬
‫اس صججججورت حججججال کججججو بججججدلنے کججججا وقججججت آگیججججا ہے ۔‬
‫معروف عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے اس کججانفرنس‬
‫میں کہا کہ جدید سائنسی طریقوں سے اب یہ بججات ثججابت ہو‬
‫گئی ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارض کا اصل مرکز ہے۔ جس سججے‬
‫قبلے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں مک جہ‬
‫واچ‪ ،‬نامی منصوبے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ ایججک فرانسیسججی‬
‫سائنسدان کی ایجاد کردہ گھڑی ہے جو الٹی طرف چلتی ہے‬
‫اور اس سے دنیا میں کہیں بھی موجود مسلمانوں کججو قبل جے‬
‫کے رخ کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب جججب کجہ سائنسججی تحقیقججات‬
‫اور سیٹلئٹ تصاویر نے بھی اس تحقیق کججی حمججایت کججردی‬
‫ہے کہ مکہ ہی زمین کا مرکز ہے تججو کئی دہھھائیوں س جے جججاری‬
‫اس تنازع اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے ک جے لی جے ضججروری‬
‫ہے کہ بین القوامی طور پر وقت کے معیار کے لیے گرینچ کی‬
‫بجائے ’مکہ ‘ ہی کو مرکزقراردیاجائے۔ اب اگر مکہ کے وقججت‬
‫کو بین القوامی طورپر نافذ کردیاجائے تجو ہر ایجک کجے لیجے‬
‫نمازوں کے اوقات کا معلوم کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔ لہذا‬
‫مکة المکرمہ جو کہ ایک مبارک شجہر ہے‪ ،‬کججو دنیججا کجے دیگججر‬
‫شہر وں پر فضیلت کا حق ملنا چاہی ے ۔‬

You might also like