Professional Documents
Culture Documents
Abdi Kamyabi K Raaz
Abdi Kamyabi K Raaz
ۖ
رسول کے خزانے کی صورت ميں انسان کی ابدی فالح کے لۓ .تعالی کا پيغام قرآن مجيد اور سنت
موجود ہے۔ ميں نے اپنے برسوں کے غوروفکر اور دين کے سلسلے ميں جو عرق ريزی کی ،اور
قرآن پاک کو ترجمہ اور تشريح کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ،اور اسکے ساتھ اخبارات کے دينی
مضامين ،ٹی۔وی اور ديگر عالموں کی تحريروں وغيره کے
جس نے ہميں پہلی دفعہ بنايا ذريعے جتنا اس شاندار مذہب کے بارے ميں جان اور سمجھ
ہے وه يقينا دوسری دفعہ بھی سکی کہ کس طرح آج کے انسان کے ذہن کو انتشار سے
بنائے گا اور ہر چيز کا حساب
بچا کر ،ساده لفظوں ميں سيدھا راستہ ،سمجھايا جا سکتا ہے،
لے گا۔ قرآن پاک ميں ارشاد
ہے کہ، اس کا خالصہ اس مضمون ميں پيش کيا ہے۔
"بے شک ہم نے انسان کو موضوع بے حد وسيع ہے ليکن ميں نے چند صفحات ميں
بنايا ہے اور ہم ہی قيامت کے پہلے پوائنٹس کی صورت ميں ،تاکہ ياد رکھنے ميں آسانی
دن اسے اٹھا کھڑا کريں گے۔
ھو ،اور پھر انکی وضاحت کی صورت ميں پر خلوص
ہمارے لئے ان کا اعاده
)دوباره کرنا( آسان تر ہے۔" کاوش کی ہے۔ باقی غلطی ،کوتاہی .تعالی معاف فرمائے
اور آپ بھی معاف فرمائيے گا۔
1
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
عمل سے واقعی جنت يا جہنم بنتی ہے ،ليکن خود عمل جس چيز سے بنتا ہے اس کی درستگی کا ہميں
ہر وقت خيال رکھنا چاہئے۔ حديث پاک ہے:
ۖ
محمد -حضرت
ہمارا مذہب تنگی واال مذہب نہيں ہے۔ يہ ہم سے بے شمار اعمال کا تقاضا نہيں کرتا بلکہ يہ تقاضا کرتا
ہے کہ ہم اپنی ہمت ،صحت ،حاالت اور استطاعت کے حساب سے اچھے عمل کريں جو صرف .کی
تابعداری کے دائرے ميں آتے ہوں اور نافرمانی کے دائرے ميں نہ آتے ہوں۔ يعنی ہميں تضادات سے
بچنا چاہئے۔ پانچوں فرائض کی ادائيگی کے ساتھ درج ذيل باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کريں تو
ہمارے ديگر معامالت بھی انشاء .دين کی روشنی ميں طے ہونگے۔ اسالم ميں عبادات کی اہميت خدا
کو ياد رکھنے کے ساتھ دنيوی معامالت کو درست کرنے کے لئے ہے۔ فرمايا گيا ہے کہ "دين ميں
پورے کے پورے داخل ھو جاؤ۔" لہزا ہمارے لئے .کی بنائی ھوئی دنيا اور انسانوں کی بہتری کے
لئے مندرجہ ذيل باتوں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے اگر ہم ابدی کاميابی چاہتے ہيں اور اپنے
خالق اور مالک کا تھوڈا سا بھی حق ادا کرنا چاہتے ہيں۔ خود .تعالی نے حقوق العباد کو حقوق .پر
فوقيت دی ہے اور معامالت کوعبادات پر۔ عمل کی کئی قسميں ہيں۔ ) (1ذہنی مشقت جيسے اديب،
افسر ،ڈاکٹر يا استاد کرتے ہيں۔ ) (2جسمانی محنت جيسے مزدور ،سپاہی يا کمپوڈر کرتے ہيں )(3
روحانی قوتوں کو کام ميں النا ،نفس سے جنگ ،برائيوں سے جنگ ،وغيره۔
ۖ
محمد -حضرت
2
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
ايک اور بات ياد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اکثر چيزوں کو ہم چھوٹا سمجھ کر کرتے رہتے ہيں
جبکہ وه اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت بڑی ھوتی ہيں اور .تعالی نے ان کيلئے بہت بڑی سزائيں
مقرر کی ہيں۔ مثال جھوٹ کے بارے ميں حديث پاک ہے کہ" ،جھوٹ گناہوں کی ماں ہے۔" اور يہ کہ،
"جھوٹے ميں ايمان نہيں ہوتا" ،ليکن يہ چھوٹی سی غلطی سمجھ کر نہايت روانی کے ساتھ بوال جاتا
ہے۔ اسی طرح حسد يا کينہ پروری کيلئے .کا فرمان ہے کہ" ،يہ نيکيوں کو ايسے کھا جاتا ہے
جيسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔" ليکن آج کے زمانے ميں شايد ہی کوئی اس لعنت سے بچ
پاتا ھو کيونکہ اسے چھوٹی غلطی يا چھوٹا گناه سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ بيشتر انفرادی اور معاشرتی
مسائل اور فتنہ و فساد کے پيچھے ايسی ہی چيزيں کار فرما ھوتی ہيں۔ ميں نے .تعالی کے حکم 'امر
بااملعروف و ن عن املنکر' )ترجمہ :نيکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔( کے تحت نيچے ايسے ہی
dosاور don’tsکی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے ،جو ايک مسلمان کو ابدی کاميابی کی منزل
تک لے جا سکتے ہيں )انشاء(.۔ پانچوں فرائض کی ادائيگی کے ساتھ درج ذيل باتوں پر عمل کرنے
کی کوشش کيجئے:
2۔ تمام ناجائز اور غير اخالقی کاموں سے بچيں 2۔ .کا ڈر )تقوی( يعنی قرآنی آيات کو سمجھ کر
اور ناجائز پيسے سے بھی ،يعنی حرام کاموں ہر معاملے ميں ان پر عمل کرنے کی کوشش
کريں۔ سے بچيں۔
3۔ حسد )کينہ پروری( يہ انسان کو حيوان کی 3۔ آنحضور صلی .عليہ وآلہ وسلّم سے عملی
محبت يعنی انکی پيروی کرنے کی کوشش کريں۔ سطح پر لے آتا ہے۔
3
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
4۔ جھوٹی انا پرستی يعنی غلط بات پر اڑنا۔ اپنی 4۔ انسانوں سے محبت ،يعنی انسانيت ،يعنی حقوق
ذات کا بت بنا کر اس کی پرستش نہيں کرتے رہنا العباد۔
چاہيئے۔ يہ بت پرستی کی دوسری شکل ہے۔ بلکہ
ہر حال ميں حق کے آگے سر جھکا ديں۔ )البتہ
سچی انا جائز اور ضروری ہے۔(
5۔ منافقت۔ يعنی دوغال پن۔ يعنی جھوٹ کی عملی 5۔ ہر قسم کی صفائی۔ دل ،قلب ) .کا گھر( کی،
شکل۔ ياد رکھيں کہ جھوٹ اور جھوٹوں سے روح کی ،نگاہوں کی ،جسم کی ،لباس کی ،وغيره۔
محبت ايک سراسر . Antiچيز ہے۔ ايسی
صحبت سے بچيں۔
7۔ ہر قسم کے تعصّب )خاندان ،رنگ ،نسل 7۔ خود غرضی۔ يہ تمام چيزيں انفرادی اور
وغيره( سے اپنے دل کو پاک رکھيں کيونکہ اس معاشرتی بگاڑ کا باعث ہيں۔ برائيوں اور برائی کو
کی موجودگی ميں انسان سچ کو سننا نہيں چاہتا جاری رکھے ھوئے لوگوں سے نفرت ،اور ان
اور سچ سے دوری حق تعالی سے دوری ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے جہاد کرنا انتہائی
ۖ
حضور کا آخری خطبہ ياد رکھيں۔ ہر ضروری ہے۔ سلسلے ميں
چيز پر حق سچ کو فوقيت ديں ،اور اس سے اوپر
صرف نيک نيتی کو۔
تقريبا ہر روز اپنی ترجيحات کو چيک کر کے انکی اصالح کرتے رہيں۔ جتنی زياده آپکی ترجيحات
درست ھونگی ،اتنے ہی آپ دين اور دنيا ميں کامياب ھونگے۔
4
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
-القرآن
اس کردار کو اچھے طريقے سے ادا کرنے کے لئے پورا قرآن پاک 'ہميں يہ کرنا ہے اور يہ نہيں
کرنا' ) (dos and don’tsبتاتا ہے۔ کيونکہ .تعالی کی باتيں نہايت وسيع اور گہری ہيں اس لئے
انہيں اپنے چھوٹے دماغ کو سمجھانے کے لئے ہميں چھوٹی سطح پر کر کے جلد سمجھ آ جاتی ہے۔
جيسے .نے اپنی محبت کی مثال ماں باپ سے ملتی ھوئی بتا کر ہميں سمجھنے کيلئے بہت آسان کر
ديا۔ ہم بے شمار باتيں اسی مثال اور ايک خاندان کی مثال سے سمجھ سکتے ہيں۔ جس طرح ہم اپنی
زندگی ماں باپ کے ديئے ھوئے دائره اجازت کے اندر ہی گزارنا چاہتے ہيں۔ اسی طرح صرف .
کے دائره اجازت ميں يہ انتہائی عارضی اور مختصر زندگی گزارنا ہمارے ہی سراسر فائدے ميں ہے۔
اس زندگی کو امتحان اور دنيا کو امتحان گاه کہا گيا ہے۔ امتحان ميں تو تکليفيں اٹھانے ميں ہی انسان کا
فائده ہے۔ اور جيسے ہی يہ فانی زندگی ختم ھوئی ،امتحان ختم اور نتيجے کا انتظار۔ .تعالی کا وعده
ہے کہ ميرے تابعدار بندوں کو مرنے کے بعد نہ کوئی غم ھوگا اور نہ کوئی خوف۔ اور ہميشہ کے
الزوال انعامات )جنت( حاصل ھونگے۔ يقينا وه سچا ہے اور اسکا ہر وعده سچا ہے۔
5
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
'اسالم' کا مطلب امن اور سالمتی ہے۔ ليکن اگر اپنے لئے اور پھر دوسروں کے جائز کاموں کيلئے
لڑائی )جہاد ،کوشش( کرنی پڑے تو ضرور کرنا چاہئے۔ ہر چيز کا جائز اور ناجائز پہلو ھوتا ہے۔
جائز واال اختيار کر لينا چاہئے اور ناجائز کو ٹھوکر مار دينی چاہئے۔
دوسری اہم ترين چيز جو عرفان الہی ) .کی پہچان( کے بعد ياد رکھنی چاہئے وه يہ کہ خدا اس
کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اسی لئے .تعالی کو حق تعالی بھی کہا جاتا ہے۔ ہر سچ کا ،سچوں
سے محبت کا ،اور سچائيوں )حقيقتوں سے( محبت کا تعلق . directتعالی سے جڑتا ہے۔ اس راستے
يعنی حق کے راستے پر چل کر ہم .تعالی
ہی کے مشن ميں ساتھی بنتے ہيں۔ اور يہی
باطل دوئی پسند )دونوں طرف( ،حق ال شريک ہے وه صراط مستقيم ہے جو راستہ جنت کو
شرکت ميانۂ حق و باطل نہ کر قبول جاتا ہے۔ ياد رکھيں صرف دو ہی راستے
رح ہيں ،حق ) ،.سچ( کا اور باطل )شيطان،
-عالمہ اقبال
جھوٹ( کا راستہ۔ آج کا انسان انتشار کا
شکار ہے جيسے کہا جاتا ہے" ،بلھيا! کی
جاناں ميں کون؟ نہ ميں موسی ،نہ فرعون۔" ايسی کوئی بات نہيں ہے۔ انسان کچھ چيزوں کو مضبوطی
سے تھام کر صرف اچھے راستے کا انسان بن سکتا ہے۔ لہذا ہر ايک کو يہ بات ياد رکھنی چاہئے کہ،
خدا سچ )برحق( ہے اور ہر سچ خدا سے جا ملتا ہے۔ اور ہر جھوٹ ہميں شيطان کا ساتھی بناتا ہے اور
خدا سے دور کرتا ہے۔
يہی وه باطل کا راستہ ہے جو انسان کو جہنم ميں پہنچاتا ہے۔ پورے قرآن پاک کا يہی پيغام ہے کہ حق
اور باطل ميں فرق کرنا سيکھيں۔ نيکی اور بدی ،اچھائی اور برائی ،صحيح اور غلط ميں فرق کرنا
سيکھيں ،پہچاننے کی کوشش ميں اپنا حصہ ڈاليں اور پھر ايک طرف )حق کا( راستہ اختيار کريں۔
اسی لئے قرآن کو قرآن مجيد فرقان حميد )سب سے بڑی فرق بتانے والی چيز( کہا جاتا ہے۔ اور اسی
لئے مسلمانوں کی ايک جماعت )جو راه راست اختيار کرتی ہے( ہميشہ سے حق و باطل کی جنگ
)جہاد(ميں مصروف رہی ہے اور قيامت تک رہے گی۔ کہا گيا ہے کہ نيکی اور بدی کی جنگ ازل
سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اسی لئے تبليغ دين اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
6
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
-حضرت ﻣح ّم ۖد
کا فرض ہر مسلمان کو ديا گيا ہے تاکہ وه .کی بنائی ھوئی اہم ترين چيزوں )انسان اور کائنات( کی
بہتری کيلئے اپنے وجود کے ھونے کا ثبوت دے سکيں اور کردار ادا کر سکيں۔ اور اپنے بنانے والے
)خالق و مالک( کا حق ادا کر سکيں ،اور اس امتحان ميں کامياب ھو سکيں جس کيلئے ہميں دنيا ميں
بھيجا گيا ہے۔ از عالمہ اقبالرح:
يہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی صل .عليہ وآلہ وسلّم نے اپنی مختصر زندگی ميں خود بنفس نفيس 27
جنگوں ميں حصّہ ليا اور 87جنگی مہمّيں روانہ کيں۔ آج ہم برائيوں اور برائيوں کو جاری رکھے
ھوئے لوگوں کے خالف نفرت کا جذبہ تک اپنے دلوں ميں نہيں رکھتے تو پھر کيا ہم خدا کی زمين پر
برائيوں کے فروغ ميں حصّہ دار نہيں ہيں ،اور .کے نيک بندوں پر زمين تنگ کرنے ميں اپنا حصّہ
ڈال رہے ہيں۔ خدا فرماتا ہے کہ" ،اگر تم ميں طاقت ہے تو برائی کو ہاتھ سے روکو ،اگر اس کی
طاقت نہيں تو زبان )جہاد بالّسان( سے روکو ،اور اگر يہ بھی نہيں کر سکتے تو اسے دل ميں برا
سمجھو اور ياد رکھو کہ يہ ايمان کا کمزور ترين درجہ ہے )يعنی اس کے بعد ايمان نہيں رہتا(۔" يہ
باتيں ايک مسلمان کہالنے والے کيلئے لمحۂ فکريہ ھونی چاہئيں۔
آجکل صورت حال يہ ہے کہ اوّ ل تو ہم اچھائی اور برائی کا کھوج لگانے کو ہی برا سمجھتے ہيں اور
7
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
پردے ميں زندگی گزارنا پسند کرتے ہيں اور اسالمی اور قرآنی تعليمات کی روح کے برعکس زندگی
گزارتے ہيں ،اور پھر اس پر تماشہ يہ کہ .سے ہميشہ کے )ابدی( اور گرانقدر انعامات کی اميد
رکھتے ہيں۔ ہميں غور سے سوچنا چاہئے کہ کيا ہماری يہ اميديں جائز ہيں؟ ہميں جسمانی بيماريوں
سے زياده ان روحانی بيماريوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو ہماری آخرت کی زندگی
کيلئے بے حد نقصان ده ہيں۔ جسمانی بيمارياں تو ايک آزمائش ہی ھوتی ہيں۔ جن سے ہمارے گناه
جھڑتے ہيں۔ خود ہمارے پيارے ۖ
نبی پر ہر ايک سے زياده آزمائشيں آئيں۔ جو خدا سے جتنا زياده قريب
ھو اس کو اتنا زياده آزمايا جاتا ہے۔ ہميں چاہئے کہ اس زندگی ميں اپنی جسمانی خواہشات کی تکميل
کو ترجيح نہ ديں بلکہ روحانی سکون اور مادی چيزوں کے بجائے اخالقی اقدار پر توجّہ ديں ،پھر
آگے جا کر سب کچھ ملے گا انشاء.۔
ہر چيز اسی دنيا ميں حاصل کرنا ہمارا targetنہيں ھونا چاہئے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے اور
نتيجے کے بارے ميں راضی برضائے الہی رہنا چاہئے ،کيونکہ وه ہمارے حق ميں زياده بہتر جانتا
ہے ،چاہے بدلہ اگلے جہان ميں جا کر ہی ملے۔ اسی لئے کہا گيا ہے کہ مايوسی گناه ہے کيونکہ ايمان
بالغيب ہمارے ايمان کا الزمی حصّہ ہے۔ از عالمہ اقبالرح:
youngلوگوں کيلئے نصيحت ہے کہ وه ہميشہ ياد رکھيں کہ زندگی ميں جو مرضی کھو جائے ليکن
دو چيزيں ہرگز نہ کھونے پائيں (1) ،کردار ) (2اعتبار۔ سب سے زياده انسان کيلئے اخالقی برائيوں
سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کيلئے کسی سند يافتہ حکيم سے عالج کروايا جا سکتا ہے تاکہ طبيعت
اعتدال ميں رہے۔ ياد رکھيں کہ تمام اچھے کاموں کيلئے اپنی کوشش کا حصّہ ڈالنا الزمی ہے ،اگر آپ
ابدی )ہميشہ کے( انعامات کے حقدار بننا چاہتے ہيں۔ فرمايا گيا ہے،
8
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
يعنی يہاں )دنيا ميں( آپ جو بوئيں گے وہی آگے جا کر کاٹيں گے۔ اسی سلسلے ميں ايک اور بات ياد
دالنا ضروری ہے کہ تمام اسالمی سزاؤں ميں سب سے سخت سزا اخالقی برائيوں کيلئے ہے۔ لہذا ان
سے بچنا الزمی ہے۔ الب ّتہ سچے دل سے کی ھوئی توبہ انسان کو دھلے ھوئے شفاف کپڑے کی طرح
بنا ديتی ہے۔ اگر انسان بار بار غلطی کرے اور بار بار بھی اس نيّت سے .سے معافی مانگے کہ وه
برائيوں کو چھوڑنا چاہتا ہے تو )ماں باپ کی طرح( بار بار .تعالی اس کو معاف فرماتے ہيں۔ اسی
لئے قرآن پاک ميں انسان کيلئے لفظ 'انسان' )غلطی کا پتال( استعمال ھوا ہے۔ ہميشہ باطن کی حقيقتوں
پر نظر رکھيں۔ ظاہری آنکھوں سے ہم جو کچھ ديکھتے ہيں وه غلط ھو سکتا ہے۔ ہميشہ شعور کی
آنکھيں کھلی رکھيں۔ مختلف چيزوں اور معامالت کو ہميشہ حاالت کی سچائی اور سياق و سباق کے
ساتھ ديکھيں۔
نماز بھی قرآن مجيد کی طرح صرف ادا کرنے سے آگے بڑھ کر محسوس کرنے کی چيز ہے۔ اسے
ذہن کے ساتھ دل سے بھی پڑہيں۔ نماز ميں دھيان کو ِادھر اٌدھر ہٹنے سے بچانے کيلئے اور نماز سے
وه تمام فوائد حاصل کرنے کيلئے جو اس کے ذريعے .تعالی ہميں پہنچانا چاہتے ہيں ،بہترين طريقہ
يہ ہے کہ ہم اس کا ترجمہ اچھے طريقے سے ياد کر ليں ،اور نماز پڑھتے وقت اس کے معنی ذہن
ميں رکھيں کہ ہم .تعالی سے کيا بات کر رہے ہيں۔ کيونکہ وه مخصوص گفتگو اور آداب جو .
تعالی سے ہمکالم ھونے کيلئے اس ذات پاک نے ہميں خود سکھائے ہيں ،وه سمجھ کر پڑھنے سے
اپنے اندر بہت زبردست اثرات رکھتے ہيں اور ہمارا contactہر چيز کے خالق و مالک سے واقعی
direct dialingکی طرح ھو جاتا ہے۔ اور ہمارا نمبر ہر powerسے بڑی Superpowerسے
throughھو جاتا ہے۔ نماز ہميں ہر برائی سے روکنے لگتی ہے اور صحيح مومن بننے کی طرف
ڈال ديتی ہے۔ کوئی پريشانی ہميں پريشان نہيں کرتی اور تمام مسائل ،ہمدرد ترين ہستی کے سامنے
پيش کرنے سے ،حل ھونے لگتے ہيں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری سے پڑھی ھوئی نماز اور مانگی
ھوئی دعائيں جو ہمارے حق ميں بہتر ھوتی ہيں ،وه قبول ھونے لگتی ہيں۔ انسان کو نماياں طور پر
محسوس ھونے لگتا ہے کہ کسی بہت بڑی powerکی مدد آپ کے شامل حال ھو گئی ہے۔ ہر ڈر،
9
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
سمجھ کر نماز پڑھنے سے واقعی اتنے زياده ثمرات اور برکات حاصل ھوتی ہيں ،اسی لئے يہ چند
کلمات ہميں اپنی پوری زندگی ميں ہر روز پانچ مرتبہ پڑھنے کيلئے کہا گيا ہے۔ اور اس کے ادا کرنے
ميں بھی بہت سہولتيں دی گئی ہيں ،حاالت کے مطابق بيٹھ کر يا ليٹ کر پڑھنے کی ،کم رکعت ادا
کرنے کی اور يہاں تک کہ قضا پڑھنے کی بھی۔ پھر بھی اگر ہم اس نعمت سے محروم رہيں تو ہماری
اپنے ساتھ بہت بڑی زيادتی ھوگی۔ .تعالی اس بات سے بہت راضی ھوتے ہيں جب ہم نماز اور روزه
وغيره کے بارے ميں اس کی دی ھوئی سہولتوں سے جائز طور پر فائده اٹھاتے ہيں ،کيونکہ خالص
.کيلئے عبادت کرنے واال ہی ايسا کرتا ہے اور عبادت ميں اخالص ہی .تعالی کو درکار ہے،
ۖ
رسول اور ديگر عبادات ميں دلی محبت کو محض عبادات نہيں۔ اسی طرح فريضۂ حج ،زيارت روضۂ
شامل کرنے سے ان کے روحانی اور حقيقی فوائد حاصل ھونے لگ پڑتے ہيں۔ ياد رکھيں جس طرح
جسمانی صحت اس زندگی کيلئے ضروری ہے ،روحانی صحت آخرت کی زندگی کيلئے الزمی ہے،
روحانی بيمارياں وہاں کيلئے بہت نقصان ده ہيں۔ اگر ہم اس عارضی زندگی ميں .کی مرضی پر
چليں گے تو وه ہميشہ کی زندگی ميں ہماری مرضی پوری کريں گے۔
مختلف چيزوں ميں باريک باريک سا فرق ھوتا ہے۔ جس نے اس باريک فرق کو غور سے سمجھا اور
اس زندگی کے پل صراط پر احتياط سے چال ،اس کس لئے قيامت کے دن پل صراط پر چلنا مشکل
10
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
نہيں ھوگا۔ مثال جو فرق فخر اور غرور ميں ہے ،انسان فخر کر سکتا ہے ،غرور نہيں کر سکتا۔ اسی
طرح سچی انا اور خودی کا تح ّفظ جائز ہے اور جھوٹی انا ناجائز۔
ہميں يہ بھی ياد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ .تعالی کی رحمان اور رحيم والی صفت اس کی باقی تمام
صفات پر حاوی ہے ليکن ہميں اس بات سے ناجائز توقعات باندھ کر گمراہی کے راستے کی طرف
نہيں جانا چاہئے۔ جس طرح ماں باپ بچے کو بار بار کی غلطيوں اور معافيوں پر معاف تو کر ديتے
ہيں ليکن ناراض ھو کر عاق بھی کر ديتے ہيں۔ جس طرح ماں باپ اوالد کے ساتھ ساری عمر بھالئی
کرتے ہيں اور جواب ميں بجا طور پر تابعداری کی اميد رکھتے ہيں۔ .تعالی کی وجہ سے تو ہم
موجود ہيں ،وہی پالنے واال ہے اور اس کے ہم پر بے انتہا احسانات ہيں۔ اس کی نافرمانی کرنا ہميں
بالکل بھی زيب نہيں ديتا۔ اور وه ايسے لوگوں کيلئے بجا طور پر 'ظالم' کا لفظ استعمال کرتا ہے اور
قيامت کے دن ان کيلئے دردناک عذاب کا وعده ہے ،اور .کے تمام وعدے سچے ہيں۔ اسی لئے
ہمارے ۖ
نبی کو صرف خوشخبری سنانے والے ہی نہيں بلکہ ڈر سنانے والے بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد
انسانوں کو برائيوں سے بچانا اور ابدی انعامات کی طرف بالنا ہے۔
اگر مختصر ترين الفاظ ميں پوچھيں تو دنيا ميں ہمارا ٹيسٹ بس اتنا ہی ہے کہ ہم اپنی عقل و دانش کو
استعمال کر کے کتنا .تعالی کو پہچانتے ہيں ،اور پھر پہچاننے کے بعد کتنا اس کی باتوں )قرآن
پاک( پر بھروسہ )ايمان( رکھتے ہيں ،اور مشکل اور آسانی ميں ثابت قدم رہتے ہيں۔ از عالمہ اقبالرح:
خدا اتنا زياده powerfulہے کہ اس نے چاہا کہ وه پس منظر ميں ره کر پہچانا جائے ،اپنی تخليقات
کے ذريعے۔ جس طرح کوئی مصوّ ر اپنی تصويروں سے پہچانا جاتا ہے۔ انسان اپنے کاموں سے اور
اپنی باتوں سے بھی۔ .تعالی )ميری سمجھ کے مطابق( سامنے آئے بغير اپنی ذات کا اظہار اور
شناخت چاہتے تھے۔ سامنے آ کر تو ہر کوئی پہچـانا جاتا ہے۔ ہمارا امتحان اسی ميں ہے کہ بغير
ديکھے خدا کو پہچانيں اور پھر اس کی فرمانبرداری پر جمے بھی رہيں۔ وه ) .تعالی( ج ّنتيوں کو اپنا
11
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
ديدار کروائيں گے۔ يہ بھی ياد رکھنے کی بات ہے کہ .تعالی کسی کو اس کی ہمّت سے زياده نہيں
آزماتا جبکہ انسان انتہائی کمزور ہے ،ذرا سا موسم کا تھپيڑا بھی برداشت نہيں کر پاتا۔ ليکن خدا اسے
سنبھال ليتا ہے اس سے پہلے کہ اس کی ہمّت جواب
دے ،اور اس کيلئے کوئی سا بھی ذريعہ بنا ديتا ہے۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
يہ چار عناصر ھوں تو بنتا ہے مسلمان سر نہاں )پوشيده راز( ال الہ اال /
خودی کا ّ
کالم پاک ميں جھلکتی انتہا درجے کی دانائی ،باتوں کی وسعت ،گہرائی اور بلندی کی وجہ سے صاف
طور پر معلوم ھو جاتا ہے کہ ايسی کوتاہيوں اور کمزوريوں سے مب ّرا تحرير کسی انسان کے بس کی
بات نہيں۔ انسانوں کی لکھی ھوئی اعلی سے اعلی کتاب ميں بھی کسی نہ کسی پہلو سے تشنگی ،خامی
يا کمزوری ضرور ھوتی ہے۔ جبکہ قرآن پاک ہر مضمون اور موضوع پر جامع ترين اظہار ،نہايت
مختصر الفاظ ميں کر جاتا ہے۔ اسی لئے قرآنی آيات کا مطلب نشانی ہے ،يعنی محض اشار ًة گہری
12
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
ترين بات کہہ دی جاتی ہے جسے بار بار پڑھنے سے معنی کا ايک سمندر سمجھ ميں آتا جاتا ہے۔
تبھی اسالم ميں تفکّر کرنے پر بہت زور ديا گيا ہے اور کہا گيا ہے کہ ايک عالم ،عابد سے بہتر ہے۔
حديث پاک ہے کہ" ،مسلمان وه ہے جو اپنے لئے وہی پسند کرتا ہے جو دوسرے کيلئے پسند کرتا
ہے۔" اس ميں نفسيات کا پورا مضمون آ جاتا ہے يعنی انسان کا اپنا فائده ہے اگر وه اپنی عزت کروانا
چاہتا ہے تو دوسرے کی ع ّزت کرے ،يعنی وه جو بھالئی دوسرے سے کرے گا وہی لوٹ کر اسے مل
نبی کے نام "ا ُمّی" يعنی "ان پڑھ" پر خاص زور ديا گيا ہے۔ مصلحت يہ نظر آتی
جائے گی۔ ہمارے ۖ
ہے کہ ۖ
آپ ّ پڑھے لکھے نہيں تھے اور وه دور بھی انتہائی جہالت کا تھا تو پھر قرآن پاک جيسی
انتہائی حکمت و دانائی کی کتاب وه کس طرح لکھ سکتے تھے ،جبکہ ان کی عمر بھی )وفات کے
وقت( محض 63سال تھی۔ اتنی عمر ميں تو قرآن پاک کو پوری طرح سمجھنا بھی مشکل ہے۔ ان تمام
باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ يہ ايک آسمانی کتاب ہے اور ہماری بھالئی اسی ميں ہے کہ حيل و
حجّ ت ميں پڑے بغير اس پر عمل کريں۔ ايک اور بات غور طلب ہے کہ يہ وه عظيم کتاب ہے جو ذہن
ميں محفوظ رکھنے سے بھی آگے بڑھ کر محسوس کرنے کی چيز ہے۔ خلوص )اخالص( اور محبت
کی حقدار ہے۔ قرآن پاک کو تھوڑا تھوڑا کر کے معنی سمجھ کر پڑھيں۔ جيسے کورس کی کتابوں کو
ّ
رٹا لگا کر اور سمجھ کر پڑھنے ميں بڑا فرق ھوتا ہے ،اسی طرح قرآن کو سمجھ کر پڑھنے واال بہت
زياده فائده اٹھاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے بارے ميں غير جانبداری سے تھوڑا بہت بھی جاننے سے
دين
معلوم ھو جاتا ہے کہ ان ميں نماياں خامياں اور کمزورياں ہيں ،جبکہ قرآن پاک کا ايک ايک لفظ ِ
فطرت ھونے اور برحق ھونے کا پتا ديتا ہے۔
دنيا داری کيلئے نيکياں کرنا شرک کی ايک قسم ہے ،کہ انسان دنيا کی خوشنودی چاہتا ہے اور دنيا ہی
کو کارساز سمجھتا ہے۔
ايک اور بات يہ کہ .تعالی نے اس زندگی کو امتحان کہا ہے تو پھر قرآن پاک اور احاديث کو اس
زندگی کے امتحان ميں کاميابی کيلئے کورس کی کتاب سمجھ کر پڑھيں اور عمل کريں۔ ظاہری چيزوں
سے بڑھ کر ميں نے چيزوں کو محسوس کرنے کا جو حوالہ ديا وه اس لئے بے حد ضروری ہے کہ
اگر باطنی صفائی کی بہت زياده اہميت نہ ھوتی تو ايسا نہ ھوتا کہ حضرت جبرائيلع نے نزول قرآن
کے وقت حضور صل .عليہ وآلہ وسلّم کے سينۂ اقدس کو چيراۖ ،
آپ کے قلب مبارک کو وضو کرايا
گيا اور پھر بند کيا گيا اور فرمايا گيا کہ قرآن ۖ
آپ کے قلب اطہر پر نازل ھوا۔ يہ نہيں کہا گيا کہ ان کے
ذہن ميں اتارا گيا۔
13
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
دل يا قلب کی ہمارے مذہب ميں مرکزی اہميت ہے۔ اسی لئے کہا گيا ہے کہ دل .کا گھر ہے۔ جس
طرح زمين پر .کا گھر خانہ کعبہ ہے ،اسی طرح وجود انسانی کا کعبہ دل ہے۔ اسی لئے حديث پاک
ہے کہ" ،ہر عمل کا دارومدار نيّت پر ہے۔" اگر ہم بس اتنا کام کر ليں کہ اپنے دل کو مکمل طور پر
پاک صاف رکھيں اور دوسروں کے دلوں کا بھی خيال رکھيں اور ان کے مطابق چلنے کی ح ّتی
المقدور کوشش کريں تو بہت حد تک ہمارا ايمان مکمل ھوگا۔ اس سلسلے ميں ہميں يہ ياد رکھنا ھوگا
کہ عام طور پر دو تين چـيزيں ہی )جھوٹ ،حسد )کينہ( ،اور
تعصّب )رشتے ،زبان ،عالقہ وغيره کا( ( ہمارے دل پر اس ياد رکھيں کہ /تعالی قيامت
قدر ميل کی تہيں چڑھا ديتی ہيں کہ ہم دل پر مہر لگوا بيٹھتے کے دن مومنوں کو اس ترتيب
سے جنت ميں درجے عطا
ہيں اور پھر ہمارے دلوں تک سچ کی روشنی نہيں پہنچ پاتی۔
فرمائے گا:
ہميشہ سچائيوں کی کھوج ميں رہيں اور ہميشہ حقيقی يا مثبت
) (1نب ّيين
زاويۂ نگاه سے چيزوں کو ديکھنے کی عادت ڈاليں۔ جب انسان
نيکی کی طرف دلی رجحان ظاہر کرتا ہے تو .تعالی خود اس ) (2صدّيقين )سچے لوگ(
کيلئے باقی مرحلے ممکن بناتے جاتے ہيں اور young age ) (3شہداء
گزرتے ہی پھل ملنے لگتے ہيں۔ ) (4صالحين )نيک لوگ(۔
ہم صحيح اور غلط ميں تميز نہيں کر پاتے اور پہلے ان ہی
منفی جزبوں پر غور کرتے ہيں جبکہ ہميں چاہئے کہ ہر حال )ہر صورتحال( ميں حق )سچ( کے آگے
سر جھکانا سيکھيں۔ ياد رکھيں کہ .تعالی قيامت کے دن مومنوں کو اس ترتيب سے جنت ميں درجے
عطا فرمائے گا ) (1نبيّين ) (2ص ّديقين )سچے لوگ( ) (3شہداء ) (4صالحين )نيک لوگ(۔ دراصل خدا
اور قرآن ہم سے يہی چاہتا ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کو پہچاننا سيکھيں اور پھر سچ ،سچائيوں اور
سچوں کا ساتھ ديں تاکہ انسانوں کے اندر سے اور دنيا سے برائياں کم سے کم ھوں اور ان کی اصالح
زياده سے زياده ھو۔ اسی طرح حق )سچ( کو پوری طرح اپنا کر ہم حق ) (.کے مشن ميں ساتھ ديتے
ہيں اور يہی راستہ ج ّنت کو جاتا ہے۔ اور اسی طرح ہم .کے نائب يا نمائنده ھونے کا حق ادا کرتے
ہيں۔ انسان کو فرشتوں سے سجده اسی لئے کروايا گيا تھا کہ وه زمين پر .کا نائب ہے۔ اور اس بات
سے ہميں انسان کی بے حد اہميت اور ّ
عزت و تکريم کا پتا چلتا ہے ،اور علم کی اہميت کا بھی۔
14
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
انسان جب خدا کو راضی کرتا ہے ) .سے تعريف حاصل کرنا( اور .کيلئے دوستی اور دشمنی کرتا
ہے تو باآلخر وه لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اس دوران لوگ ناراض بھی ھوتے ہيں ليکن
يہی کٹھن مگر درست راستہ ہے۔ ورنہ خوشامد کرنے والے لوگ انسان کی راه گم )گمراه( کر ديتے
ہيں اور اپنے مقاصد پورے کرتے ہيں۔ جتنا اچھے کام کرنا ضروری ہے۔ اتنا ہی بروں کو پہچاننا
ضروری ہے۔
ہميں چاہئے کہ broad visionاپنائيں اور وسيع ال ّنظری سے چيزوں کو ديکھيں۔ اور ہر چيز اور
معاملے کو حاالت کی سچائی کے پس منظر ميں ديکھنے کی عادت ڈاليں ورنہ ہماری آنکھيں ،کان اور
مختلف اعضاء جو .کی امانت ہيں وه اسی کی خاطر استعمال )حق کی خاطر( ھونے سے محروم ھو
جاتے ہيں اور ان پر بھی خدانخواستہ مہر لگ سکتی ہے۔ اس سلسلے ميں خود احتسابیself ،
analysisاور خود کالمی کی عادت انسان کے بہت کام آتی ہے۔ وه وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصالح
جاری رکھتا ہے اور اس کا زوال نہيں ھوتا۔ ايک اور بات اپنی اصالح کے سلسلے ميں ياد رکھنی
چاہئے کہ ہميں چھوٹی غلطيوں اور گناھوں سے بھی ہر دم بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر
انسان چھوٹی برائيوں کا عادی ھو جائے تو پھر اس سے کسی بھی وقت بڑی غلطی يا بڑا گناه بھی
سرزد ھو سکتا ہے )خدانخواستہ(۔ ہميں خلوص دل سے .سے دعائيں اور پناه )حفاظت( کی
درخواست کرتے رہنا چاہئے۔ اسی کو ہر چيز کا مالک اور دينے والی ذات سمجھ کر جب ہم انتہائی
15
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
عاجزی اور خلوص کے ساتھ اس سے مانگتے ہيں تو پھر وه ضرور ہماری دعائيں قبول فرماتا ہے
اور ہميں واضح طور پر محسوس ھونے لگتا ہے کہ کوئی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور ہم اس کے
حصار ميں ہيں۔ يہ احساس بے حد خوشگوار ھوتا ہے اور پھر کبھی انسان اس سحر سے باہر نہيں
نکلنا چاہتا۔ ايک خدا کا ڈر اسے نڈر بنا ديتا ہے۔ از عالمہ اقبالرح:
دعاؤں کے سلسلے ميں ہی ايک اور بات ياد رکھنی چاہئے کہ جو دعائيں يہاں قبول نہيں ھوتيں وه يا
تو ہمارے حق ميں بہتر نہيں ھوتيں ورنہ پھر قيامت کے دن انعامات کی صورت ميں جمع ھوتی رہتی
ہيں۔ جيسے ايک غريب آدمی ،امير ھونے کے لئے دعا کرے تو ضروری نہيں کہ وه دعا اس دنيا ميں
قبول ھو ،ليکن آخرت ميں اس کا بدلہ يا صلہ بيش بہا چيزوں کی شکل ميں ضرور ملے گا اگر وه خدا
کا فرمانبردار بنده بنا رہا۔
اور سب سے بڑھ کر ايک مسلسان کيلئے .تعالی نے اپنی ذات تک پہنچنے کا آسان ترين ذريعہ
حضرت محمد صل .عليہ وآلہ وسلّم کو بنا ديا۔ فرمايا گياۖ " ،
آپ سے محبت خدا سے محبت ہے ،اور
ۖ
حضور کی ذات ميں تمھارے لئے بہترين نمونہ ہے۔" ۖ
آپ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے" ،اور يہ کہ" ،
پيارے نبی صل .عليہ وآلہ وسلّم کی ذات اقدس سے جتنی محبت اور عقيدت کی جائے وه کم ہے۔
انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ .تعالی کی مرضی سے گزارا ،بے حد تکليفيں جھيليں اور ہمارے
لئے آسانياں پيدا کيں۔ ہم جيسے کمزور انسانوں کيلئے ان سے محبت .تعالی تک پہنچنے کا
shortcutہے۔ اس لئے کہ اس طرح ہم بہت جلد خدا کے منظور نظر بن جاتے ہيں۔ خود خدا کی توجّہ
ۖ
حضور کی ذات ہے۔ اس طرح ہم جيسے کمتر بندے بھی limelightميں آ جاتے ہيں اور کا مرکز
ۖ
حضور سے محبت اور درود شريف وه واحد کام ہے جو .تعالی کبھی نہيں آسمان اور زمين کے بيچ
لوٹاتے۔ اسی لئے لوگ درود شريف کے ورد کے درميان ميں دعا مانگتے ہيں:
16
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
ۖ
محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں کی
اپنے آپ کو پہچاننے )انسان کی تخليق پر غور کرنے/شعور ذات( سے خدا کی پہچان )عرفان الہی(
حاصل ھوتا ہے۔
مزيد ايک دو باتيں ياد رکھنے والی ہيں کہ قيامت کے دن کسی کے اعمال کا بوجھ دوسرے پر نہيں
ڈاال جائے گا۔ حق کا رشتہ سب سے بڑا ہے ،سب سے پہلے انسان .کا بنده ہے۔ خالق حقيقی کا حق
اس پر سب سے زياده ہے۔ ماں باپ تو صرف ذريعہ بنتے ہيں۔ ان کا بھی حق بہت زياده ہے ليکن خدا
ۖ
رسول کے بعد ہر کوئی صرف اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ اور
دين کی ہر اصطالح ) (termکو جوں کا توں يعنی اس کی روح کو سمجھے بغير نہيں اپنانا چاہئے
بلکہ اس کے اصل مقصد يعنی اصالح احوال کے حوالے سے اس کی روح کو سمجھ کر اس پر عمل
کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ يہ چيز آج کے زمانے ميں بہت معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔
ہميں دين کو اپنے مطلب کيلئے نہيں استعمال کرنا چاہئے بلکہ خود اس کيلئے استعمال ھو جانا چاہئے۔
يہ غازی يہ تيرے پراسرار بندے ديکھنے ميں ہمارے اعمال اچھے نظر آئيں چاہے نيّت کچھ
جنہيں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی بھی ھو ،کيونکہ نيّت نظر نہيں آتی۔ جبکہ دين کا خالصہ يہ
ہے کہ ہر کام کرتے وقت صرف سيدھی نيّت کا خيال رکھا
جائے چاہے ديکھنے ميں وه عمل 'برائی' نظر آئے۔ مثالً
دو نيم انکی ٹھوکر سے صحرا و دريا
سمٹ کر پہاڑ انکی ہيبت سے رائی بری ن ّيت سے سچ نہيں بوال جا سکتا جبکہ نيّت اچھی ھو تو
'جھوٹ' بوال جا سکتا ہے۔ صرف انتہائی نيک نيّتی ھو تو
رح
-عالمہ اقبال 'جھوٹ' بوال جا سکتا ہے۔ ورنہ يہ مزاق ميں بھی جائز
نہيں۔ ہر جھوٹ ہمارا تعلق شيطان سے جوڑتا ہے۔
17
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
-حضرت مح ّم ۖد
يوں تو انسان کمزور ہے ليکن اگر وه ٹھان لے اور ايمان پختہ ھو تو اس کا عزم اور اراده چٹان سے
بھی زياده مضبوط ھوتا ہے۔ گويا اس کے خمير يا جبلّت ميں مثبت اور منفی دونوں چيزيں شامل ہيں۔
اب يہ خود اس پر منحصر ہے کہ وه کس طرف رجوع کرتا ہے۔ ايک اور ضروری بات يہ ہے کہ
اپنی کوتاہيوں کے سلسلے ميں تقدير کو الزام نہيں ديا جا سکتا۔ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ کی
طرف سے بچے کو کافی حد تک اچھے يا برے بننے کا اختيار ھوتا ہے۔ اسی طرح .تعالی بھی
ہميں يہ آزادی اور اختيار ديتے ہيں اور اپنے اعمال کے ہم خود ذمہ دار ہيں۔ ) .تعالی نے اپنی محبت
کی مثال کو ماں باپ سے خود ماليا ہے ،بلکہ اس سے 70گنا زياده کہا ہے۔(
ہر معاملے ميں سچے ر ّد عمل کا اظہار کرنا چاہئے۔ نہ زياده نہ کم۔ اگر دوسرے کے اندر سچا احساس
پايا جائے تو درگزر سے کام لينا چاہئے۔ ميری درخواست ہے کہ پڑھنے والے pointsکی صورت
ميں لکھی ھوئی باتوں کو زبانی ياد کر ليں۔ دو دينی کتابوں کے نام لکھ رہی ھوں جو بہت اچھے اور
انداز تحرير ميں ہيں۔ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو يقينا ً اسے بہت فائده ھوگا۔ ايک کتاب گولڈ
ِ خوشگوار
ميڈل ونر ہے" ،تيسری آنکھ سے" ،مص ّنفہ :مسرّت لغاری )صحافی(۔ دوسری کتاب" ،لمحوں کا
قرض" ،مص ّنف :ڈاکٹر زاہد منير عامر۔
پہلے بھی ضرور غور و خوض کرتے ھوں گے اور عمل بھی (1ايمان
(2صحت
کرتے ھونگے۔ کيونکہ سوچ سے ہی عمل کی راه نکلتی ہے۔
(3علم
ميری خواہش ہے کہ وه اور ان کے بچے ميرے تحرير کئے
بچوں کی شاديوں کيلئے رہنما اصول
ھوئے تجربات سے بھی بھرپور فائده اٹھائيں اور پھر اپنا سوچ
ماحول (1
اور عمل کا سفر اس سے آگے جاری رکھيں۔ )آمين( کردار )شرافت( (2
اعتبار )سچا ھونا ،تضادات نہ (3
اختتام اسی سب سے اہم بات پر کروں گی جس سے آغاز کيا ھونا(
سوچ اور عادت (4
تھا۔ قرآن مجيد ميں .تعالی فرماتا ہے" ،ہم نے کائنات کو حق
سليقہ (5
18
"ابدی کاميابی کے راز" ،از اسماء )سل َمی شاہين( ،الھور )پاکستان( ]جنوری [2010
کے سوا کسی اور چيز پر پيدا نہيں کيا۔" لہذا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم قدم قدم پر
سچائيوں کا کھوج لگائيں اور ان سے قدم مال کر چليں اگر ہم بہشت کی ابدی منزل کو پانا چاہتے ہيں۔
جو درويش اس راز کو جان ليتا ہے وه "حق ".کی تال پر جھومتا رہتا ہے۔
مخلص،
19جنوری 2010
الھور )پاکستان(
]برائے رابطہ:
[umair@iee.org
19