You are on page 1of 19

‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫اﺑدی ﮐﺎﻣﯾﺎﺑﯽ ﮐﮯ راز‬


‫سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی‬

‫فقط ذوق پرواز ہے زندگی‬

‫ۖ‬
‫رسول کے خزانے کی صورت ميں‬ ‫انسان کی ابدی فالح کے لۓ ‪ .‬تعالی کا پيغام قرآن مجيد اور سنت‬
‫موجود ہے۔ ميں نے اپنے برسوں کے غوروفکر اور دين کے سلسلے ميں جو عرق ريزی کی‪ ،‬اور‬
‫قرآن پاک کو ترجمہ اور تشريح کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی‪ ،‬اور اسکے ساتھ اخبارات کے دينی‬
‫مضامين‪ ،‬ٹی۔وی اور ديگر عالموں کی تحريروں وغيره کے‬

‫جس نے ہميں پہلی دفعہ بنايا‬ ‫ذريعے جتنا اس شاندار مذہب کے بارے ميں جان اور سمجھ‬
‫ہے وه يقينا دوسری دفعہ بھی‬ ‫سکی کہ کس طرح آج کے انسان کے ذہن کو انتشار سے‬
‫بنائے گا اور ہر چيز کا حساب‬
‫بچا کر‪ ،‬ساده لفظوں ميں سيدھا راستہ‪ ،‬سمجھايا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫لے گا۔ قرآن پاک ميں ارشاد‬
‫ہے کہ‪،‬‬ ‫اس کا خالصہ اس مضمون ميں پيش کيا ہے۔‬

‫"بے شک ہم نے انسان کو‬ ‫موضوع بے حد وسيع ہے ليکن ميں نے چند صفحات ميں‬
‫بنايا ہے اور ہم ہی قيامت کے‬ ‫پہلے پوائنٹس کی صورت ميں‪ ،‬تاکہ ياد رکھنے ميں آسانی‬
‫دن اسے اٹھا کھڑا کريں گے۔‬
‫ھو‪ ،‬اور پھر انکی وضاحت کی صورت ميں پر خلوص‬
‫ہمارے لئے ان کا اعاده‬
‫)دوباره کرنا( آسان تر ہے۔"‬ ‫کاوش کی ہے۔ باقی غلطی‪ ،‬کوتاہی ‪ .‬تعالی معاف فرمائے‬
‫اور آپ بھی معاف فرمائيے گا۔‬

‫پچھلے کافی برسوں سے ميں نے گہری نظر سے دنيا کے‬


‫حاالت‪ ،‬ملکی سياست اور گھريلو مسائل کا مشاہده کيا ہے۔ ميرے خيال ميں غور سے جائزه ليں تو دنيا‬
‫کے بيشتر مسائل کے پيچھے جو چيزيں کار فرما نظر آتی ہيں‪ ،‬وه اور ان کے حل اور ‪ .‬کا مطلوب‬
‫مومن بنده بننے کيلئے جو چيزيں سمجھنا ضروری ہيں‪ ،‬وه تحرير کرنے کی کوشش کی ہے۔‬

‫‪1‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫عمل سے واقعی جنت يا جہنم بنتی ہے‪ ،‬ليکن خود عمل جس چيز سے بنتا ہے اس کی درستگی کا ہميں‬
‫ہر وقت خيال رکھنا چاہئے۔ حديث پاک ہے‪:‬‬

‫"وه علم جس سے نفع نہ پہنچے اس‬


‫خزانے کی مانند ہے جس کو ‪ .‬کی‬
‫راه ميں خرچ نہ کيا جائے۔"‬

‫ۖ‬
‫محمد‬ ‫‪ -‬حضرت‬

‫ہمارا مذہب تنگی واال مذہب نہيں ہے۔ يہ ہم سے بے شمار اعمال کا تقاضا نہيں کرتا بلکہ يہ تقاضا کرتا‬
‫ہے کہ ہم اپنی ہمت‪ ،‬صحت‪ ،‬حاالت اور استطاعت کے حساب سے اچھے عمل کريں جو صرف ‪ .‬کی‬
‫تابعداری کے دائرے ميں آتے ہوں اور نافرمانی کے دائرے ميں نہ آتے ہوں۔ يعنی ہميں تضادات سے‬
‫بچنا چاہئے۔ پانچوں فرائض کی ادائيگی کے ساتھ درج ذيل باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کريں تو‬
‫ہمارے ديگر معامالت بھی انشاء‪ .‬دين کی روشنی ميں طے ہونگے۔ اسالم ميں عبادات کی اہميت خدا‬
‫کو ياد رکھنے کے ساتھ دنيوی معامالت کو درست کرنے کے لئے ہے۔ فرمايا گيا ہے کہ "دين ميں‬
‫پورے کے پورے داخل ھو جاؤ۔" لہزا ہمارے لئے ‪ .‬کی بنائی ھوئی دنيا اور انسانوں کی بہتری کے‬
‫لئے مندرجہ ذيل باتوں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے اگر ہم ابدی کاميابی چاہتے ہيں اور اپنے‬
‫خالق اور مالک کا تھوڈا سا بھی حق ادا کرنا چاہتے ہيں۔ خود ‪ .‬تعالی نے حقوق العباد کو حقوق ‪ .‬پر‬
‫فوقيت دی ہے اور معامالت کوعبادات پر۔ عمل کی کئی قسميں ہيں۔ )‪ (1‬ذہنی مشقت جيسے اديب‪،‬‬
‫افسر‪ ،‬ڈاکٹر يا استاد کرتے ہيں۔ )‪ (2‬جسمانی محنت جيسے مزدور‪ ،‬سپاہی يا کمپوڈر کرتے ہيں )‪(3‬‬
‫روحانی قوتوں کو کام ميں النا‪ ،‬نفس سے جنگ‪ ،‬برائيوں سے جنگ‪ ،‬وغيره۔‬

‫"اعمال کا دارومدار نيت پر ہے۔"‬

‫ۖ‬
‫محمد‬ ‫‪ -‬حضرت‬

‫‪2‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫ايک اور بات ياد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اکثر چيزوں کو ہم چھوٹا سمجھ کر کرتے رہتے ہيں‬
‫جبکہ وه اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت بڑی ھوتی ہيں اور ‪ .‬تعالی نے ان کيلئے بہت بڑی سزائيں‬
‫مقرر کی ہيں۔ مثال جھوٹ کے بارے ميں حديث پاک ہے کہ‪" ،‬جھوٹ گناہوں کی ماں ہے۔" اور يہ کہ‪،‬‬
‫"جھوٹے ميں ايمان نہيں ہوتا"‪ ،‬ليکن يہ چھوٹی سی غلطی سمجھ کر نہايت روانی کے ساتھ بوال جاتا‬
‫ہے۔ اسی طرح حسد يا کينہ پروری کيلئے ‪ .‬کا فرمان ہے کہ‪" ،‬يہ نيکيوں کو ايسے کھا جاتا ہے‬
‫جيسے آگ سوکھی لکڑی کو کھا جاتی ہے۔" ليکن آج کے زمانے ميں شايد ہی کوئی اس لعنت سے بچ‬
‫پاتا ھو کيونکہ اسے چھوٹی غلطی يا چھوٹا گناه سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ بيشتر انفرادی اور معاشرتی‬
‫مسائل اور فتنہ و فساد کے پيچھے ايسی ہی چيزيں کار فرما ھوتی ہيں۔ ميں نے ‪ .‬تعالی کے حکم 'امر‬

‫بااملعروف و ن عن املنکر' )ترجمہ‪ :‬نيکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔( کے تحت نيچے ايسے ہی‬

‫‪ dos‬اور ‪ don’ts‬کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے‪ ،‬جو ايک مسلمان کو ابدی کاميابی کی منزل‬
‫تک لے جا سکتے ہيں )انشاء‪(.‬۔ پانچوں فرائض کی ادائيگی کے ساتھ درج ذيل باتوں پر عمل کرنے‬
‫کی کوشش کيجئے‪:‬‬

‫مضبوطی سے پکڑے رکھيں‬ ‫سختی سے چھوڑے رکھيں )بچيں(‬


‫‪1‬۔ جھوٹ )باطل‪ ،‬شيطان( يعنی جھوٹ کے ‪1‬۔ سچ‪ ،‬حق )‪ ،.‬حق تعالی( سچوں اور سچائيوں‬
‫سے محبت يعنی حق کے راستے پر چل کر ہم ‪.‬‬ ‫راستے پر چل کر ہم شيطان کا ساتھ ديتے ہيں۔‬
‫کے مشن ميں ساتھ ديتے ہيں۔‬

‫‪2‬۔ تمام ناجائز اور غير اخالقی کاموں سے بچيں ‪2‬۔ ‪ .‬کا ڈر )تقوی( يعنی قرآنی آيات کو سمجھ کر‬
‫اور ناجائز پيسے سے بھی‪ ،‬يعنی حرام کاموں ہر معاملے ميں ان پر عمل کرنے کی کوشش‬
‫کريں۔‬ ‫سے بچيں۔‬

‫‪3‬۔ حسد )کينہ پروری( يہ انسان کو حيوان کی ‪3‬۔ آنحضور صلی ‪ .‬عليہ وآلہ وسلّم سے عملی‬
‫محبت يعنی انکی پيروی کرنے کی کوشش کريں۔‬ ‫سطح پر لے آتا ہے۔‬

‫‪3‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫‪4‬۔ جھوٹی انا پرستی يعنی غلط بات پر اڑنا۔ اپنی ‪4‬۔ انسانوں سے محبت‪ ،‬يعنی انسانيت‪ ،‬يعنی حقوق‬
‫ذات کا بت بنا کر اس کی پرستش نہيں کرتے رہنا العباد۔‬
‫چاہيئے۔ يہ بت پرستی کی دوسری شکل ہے۔ بلکہ‬
‫ہر حال ميں حق کے آگے سر جھکا ديں۔ )البتہ‬
‫سچی انا جائز اور ضروری ہے۔(‬

‫‪5‬۔ منافقت۔ يعنی دوغال پن۔ يعنی جھوٹ کی عملی ‪5‬۔ ہر قسم کی صفائی۔ دل‪ ،‬قلب )‪ .‬کا گھر( کی‪،‬‬
‫شکل۔ ياد رکھيں کہ جھوٹ اور جھوٹوں سے روح کی‪ ،‬نگاہوں کی‪ ،‬جسم کی‪ ،‬لباس کی‪ ،‬وغيره۔‬
‫محبت ايک سراسر ‪ . Anti‬چيز ہے۔ ايسی‬
‫صحبت سے بچيں۔‬

‫‪6‬۔ اچھی صحبت۔ يعنی بڑے تضادات سے دور‪،‬‬ ‫‪6‬۔ تکبّر۔‬


‫‪ .‬والوں کی صحبت اختيار کريں۔‬

‫‪7‬۔ ہر قسم کے تعصّب )خاندان‪ ،‬رنگ‪ ،‬نسل ‪7‬۔ خود غرضی۔ يہ تمام چيزيں انفرادی اور‬
‫وغيره( سے اپنے دل کو پاک رکھيں کيونکہ اس معاشرتی بگاڑ کا باعث ہيں۔ برائيوں اور برائی کو‬
‫کی موجودگی ميں انسان سچ کو سننا نہيں چاہتا جاری رکھے ھوئے لوگوں سے نفرت‪ ،‬اور ان‬
‫اور سچ سے دوری حق تعالی سے دوری ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے جہاد کرنا انتہائی‬
‫ۖ‬
‫حضور کا آخری خطبہ ياد رکھيں۔ ہر ضروری ہے۔‬ ‫سلسلے ميں‬
‫چيز پر حق سچ کو فوقيت ديں‪ ،‬اور اس سے اوپر‬
‫صرف نيک نيتی کو۔‬

‫تقريبا ہر روز اپنی ترجيحات کو چيک کر کے انکی اصالح کرتے رہيں۔ جتنی زياده آپکی ترجيحات‬
‫درست ھونگی‪ ،‬اتنے ہی آپ دين اور دنيا ميں کامياب ھونگے۔‬

‫‪4‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫"جسم ميں ايک لوتھڑا ہے 'دل'‪ ،‬وه صحيح ہے تو‬


‫سب صحيح ہے‪ ،‬وه غلط ہے تو سب غلط ہے۔"‬

‫‪ -‬القرآن‬

‫سب سے زياده ضروری بات يہ ہے کہ ہم ‪ .‬تعالی کی ذات بابرکات کو اس کی تخليقات کے ذريعے‬


‫پہچانيں۔ جس طرح انسان کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ وه اپنے کاموں سے پہچانا جاتا ہے‪ . ،‬تعالی‬
‫بھی اپنے کاموں کی وجہ سے پوری طرح عياں ہے۔ اسی لئے اسالم ہميں غور و فکر کرنے کی‬
‫دعوت ديتا ہے۔ ايک دفعہ ‪ .‬کی ذات پر يقين اور ايمان پکّا ھو جائے تو پھر با آسانی‪ ،‬بغير حيل و‬
‫حجّ ت کے ‪ .‬تعالی کے تمام احکامات کی تابعداری کر سکتے ہيں‪ ،‬اور ہمارا ايمان بالغيب پکا ھو‬
‫ۖ‬
‫آخرالزماں ہيں۔ قابل غور بات ہے کہ‬ ‫سکتا ہے۔ ‪ .‬تعالی کی اہم ترين تخليقات انسان‪ ،‬کائنات اور نبی‬
‫‪ .‬نے ايک چھپی ھوئی جگہ پر )ماں کا وجود( ايک مکمل انسان کی تخليق کی۔ لہذا وه ہمارے تمام‬
‫چھپے ھوئے اور ظاہر کئے ھوئے کام ديکھتا ہے‪ ،‬اور اسی کے لئے کہا گيا ہے کہ 'ہر عمل کا دار و‬
‫مدار نيّت پر ہے۔' ‪ .‬نے يہ دنيا بنائی ہے اور اسکا مرکزی کردار انسان ہے۔ تو الزمی ہے کہ وه ہم‬
‫سے يہی چاہتا ہے کہ ہم سب سے پہلے دنيا کی بہتری کيلئے اپنا حصہ ڈاليں۔‬

‫اس کردار کو اچھے طريقے سے ادا کرنے کے لئے پورا قرآن پاک 'ہميں يہ کرنا ہے اور يہ نہيں‬
‫کرنا' )‪ (dos and don’ts‬بتاتا ہے۔ کيونکہ ‪ .‬تعالی کی باتيں نہايت وسيع اور گہری ہيں اس لئے‬
‫انہيں اپنے چھوٹے دماغ کو سمجھانے کے لئے ہميں چھوٹی سطح پر کر کے جلد سمجھ آ جاتی ہے۔‬
‫جيسے ‪ .‬نے اپنی محبت کی مثال ماں باپ سے ملتی ھوئی بتا کر ہميں سمجھنے کيلئے بہت آسان کر‬
‫ديا۔ ہم بے شمار باتيں اسی مثال اور ايک خاندان کی مثال سے سمجھ سکتے ہيں۔ جس طرح ہم اپنی‬
‫زندگی ماں باپ کے ديئے ھوئے دائره اجازت کے اندر ہی گزارنا چاہتے ہيں۔ اسی طرح صرف ‪.‬‬
‫کے دائره اجازت ميں يہ انتہائی عارضی اور مختصر زندگی گزارنا ہمارے ہی سراسر فائدے ميں ہے۔‬
‫اس زندگی کو امتحان اور دنيا کو امتحان گاه کہا گيا ہے۔ امتحان ميں تو تکليفيں اٹھانے ميں ہی انسان کا‬
‫فائده ہے۔ اور جيسے ہی يہ فانی زندگی ختم ھوئی‪ ،‬امتحان ختم اور نتيجے کا انتظار۔ ‪ .‬تعالی کا وعده‬
‫ہے کہ ميرے تابعدار بندوں کو مرنے کے بعد نہ کوئی غم ھوگا اور نہ کوئی خوف۔ اور ہميشہ کے‬
‫الزوال انعامات )جنت( حاصل ھونگے۔ يقينا وه سچا ہے اور اسکا ہر وعده سچا ہے۔‬

‫‪5‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫'اسالم' کا مطلب امن اور سالمتی ہے۔ ليکن اگر اپنے لئے اور پھر دوسروں کے جائز کاموں کيلئے‬
‫لڑائی )جہاد‪ ،‬کوشش( کرنی پڑے تو ضرور کرنا چاہئے۔ ہر چيز کا جائز اور ناجائز پہلو ھوتا ہے۔‬
‫جائز واال اختيار کر لينا چاہئے اور ناجائز کو ٹھوکر مار دينی چاہئے۔‬

‫دوسری اہم ترين چيز جو عرفان الہی )‪ .‬کی پہچان( کے بعد ياد رکھنی چاہئے وه يہ کہ خدا اس‬
‫کائنات کا سب سے بڑا سچ ہے۔ اسی لئے ‪ .‬تعالی کو حق تعالی بھی کہا جاتا ہے۔ ہر سچ کا‪ ،‬سچوں‬
‫سے محبت کا‪ ،‬اور سچائيوں )حقيقتوں سے( محبت کا تعلق ‪ . direct‬تعالی سے جڑتا ہے۔ اس راستے‬
‫يعنی حق کے راستے پر چل کر ہم ‪ .‬تعالی‬
‫‬
‫ہی کے مشن ميں ساتھی بنتے ہيں۔ اور يہی‬
‫باطل دوئی پسند )دونوں طرف(‪ ،‬حق ال شريک ہے‬ ‫وه صراط مستقيم ہے جو راستہ جنت کو‬

‫شرکت ميانۂ حق و باطل نہ کر قبول‬ ‫جاتا ہے۔ ياد رکھيں صرف دو ہی راستے‬
‫رح‬ ‫ہيں‪ ،‬حق )‪ ،.‬سچ( کا اور باطل )شيطان‪،‬‬
‫‪ -‬عالمہ اقبال‬
‫جھوٹ( کا راستہ۔ آج کا انسان انتشار کا‬
‫‬
‫شکار ہے جيسے کہا جاتا ہے‪" ،‬بلھيا! کی‬
‫جاناں ميں کون؟ نہ ميں موسی‪ ،‬نہ فرعون۔" ايسی کوئی بات نہيں ہے۔ انسان کچھ چيزوں کو مضبوطی‬
‫سے تھام کر صرف اچھے راستے کا انسان بن سکتا ہے۔ لہذا ہر ايک کو يہ بات ياد رکھنی چاہئے کہ‪،‬‬
‫خدا سچ )برحق( ہے اور ہر سچ خدا سے جا ملتا ہے۔ اور ہر جھوٹ ہميں شيطان کا ساتھی بناتا ہے اور‬
‫خدا سے دور کرتا ہے۔‬

‫حديث پاک‪" :‬مومن‪ ،‬مومن کا آئينہ ہے۔"‬

‫يہی وه باطل کا راستہ ہے جو انسان کو جہنم ميں پہنچاتا ہے۔ پورے قرآن پاک کا يہی پيغام ہے کہ حق‬
‫اور باطل ميں فرق کرنا سيکھيں۔ نيکی اور بدی‪ ،‬اچھائی اور برائی‪ ،‬صحيح اور غلط ميں فرق کرنا‬
‫سيکھيں‪ ،‬پہچاننے کی کوشش ميں اپنا حصہ ڈاليں اور پھر ايک طرف )حق کا( راستہ اختيار کريں۔‬
‫اسی لئے قرآن کو قرآن مجيد فرقان حميد )سب سے بڑی فرق بتانے والی چيز( کہا جاتا ہے۔ اور اسی‬
‫لئے مسلمانوں کی ايک جماعت )جو راه راست اختيار کرتی ہے( ہميشہ سے حق و باطل کی جنگ‬
‫)جہاد(ميں مصروف رہی ہے اور قيامت تک رہے گی۔ کہا گيا ہے کہ نيکی اور بدی کی جنگ ازل‬
‫سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ اسی لئے تبليغ دين اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‬

‫‪6‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫"بہترين جہاد )کوشش( جابر حکمران )حکم چالنے‬


‫والے( کے ساﻣنے کلمۂ حق کہنا )سچ بولنا( ہے۔"‬

‫‪ -‬حضرت ﻣح ّم ۖد‬

‫کا فرض ہر مسلمان کو ديا گيا ہے تاکہ وه ‪ .‬کی بنائی ھوئی اہم ترين چيزوں )انسان اور کائنات( کی‬
‫بہتری کيلئے اپنے وجود کے ھونے کا ثبوت دے سکيں اور کردار ادا کر سکيں۔ اور اپنے بنانے والے‬
‫)خالق و مالک( کا حق ادا کر سکيں‪ ،‬اور اس امتحان ميں کامياب ھو سکيں جس کيلئے ہميں دنيا ميں‬
‫بھيجا گيا ہے۔ از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن‬

‫گفتار ميں کردار ميں ‪ .‬کی برہان‬

‫يہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی صل ‪ .‬عليہ وآلہ وسلّم نے اپنی مختصر زندگی ميں خود بنفس نفيس ‪27‬‬
‫جنگوں ميں حصّہ ليا اور ‪ 87‬جنگی مہمّيں روانہ کيں۔ آج ہم برائيوں اور برائيوں کو جاری رکھے‬
‫ھوئے لوگوں کے خالف نفرت کا جذبہ تک اپنے دلوں ميں نہيں رکھتے تو پھر کيا ہم خدا کی زمين پر‬
‫برائيوں کے فروغ ميں حصّہ دار نہيں ہيں‪ ،‬اور ‪ .‬کے نيک بندوں پر زمين تنگ کرنے ميں اپنا حصّہ‬
‫ڈال رہے ہيں۔ خدا فرماتا ہے کہ‪" ،‬اگر تم ميں طاقت ہے تو برائی کو ہاتھ سے روکو‪ ،‬اگر اس کی‬
‫طاقت نہيں تو زبان )جہاد بالّسان( سے روکو‪ ،‬اور اگر يہ بھی نہيں کر سکتے تو اسے دل ميں برا‬
‫سمجھو اور ياد رکھو کہ يہ ايمان کا کمزور ترين درجہ ہے )يعنی اس کے بعد ايمان نہيں رہتا(۔" يہ‬
‫باتيں ايک مسلمان کہالنے والے کيلئے لمحۂ فکريہ ھونی چاہئيں۔‬

‫آجکل صورت حال يہ ہے کہ اوّ ل تو ہم اچھائی اور برائی کا کھوج لگانے کو ہی برا سمجھتے ہيں اور‬

‫اگر معلوم ھو بھی جائے تو برائی کو بے نقاب کرنے اور اس کے ‬


‫خالف کوشش )جہاد‪ ،‬جدوجہد( کو بہت ہی برا سمجھتے ہيں‪ ،‬اور اس‬
‫"اس شخص نے فالح پائی‬
‫کام کو 'صبر' جيسا خوبصورت نام ديتے ہيں۔ يعنی ہم کافی حد تک‬
‫جس کے دل کو حق بات کا‬
‫اسالمی باتوں )‪ (terms‬کو اپنے مطلب کيلئے استعمال کرتے ہيں اور‬
‫محافظ بنايا گيا۔"‬
‫‪ .‬کی خاطر يا ‪ .‬کی راه ميں کوئی کوشش يا تکليف نہيں اٹھانا‬
‫ۖ‬
‫محمد‬ ‫‪ -‬حضرت‬ ‫چاہتے۔ گويا آجکل زياده تر لوگ ايک مکمل غفلت اور تاريکی کے‬

‫‬
‫‪7‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫پردے ميں زندگی گزارنا پسند کرتے ہيں اور اسالمی اور قرآنی تعليمات کی روح کے برعکس زندگی‬
‫گزارتے ہيں‪ ،‬اور پھر اس پر تماشہ يہ کہ ‪ .‬سے ہميشہ کے )ابدی( اور گرانقدر انعامات کی اميد‬
‫رکھتے ہيں۔ ہميں غور سے سوچنا چاہئے کہ کيا ہماری يہ اميديں جائز ہيں؟ ہميں جسمانی بيماريوں‬
‫سے زياده ان روحانی بيماريوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو ہماری آخرت کی زندگی‬
‫کيلئے بے حد نقصان ده ہيں۔ جسمانی بيمارياں تو ايک آزمائش ہی ھوتی ہيں۔ جن سے ہمارے گناه‬
‫جھڑتے ہيں۔ خود ہمارے پيارے ۖ‬
‫نبی پر ہر ايک سے زياده آزمائشيں آئيں۔ جو خدا سے جتنا زياده قريب‬
‫ھو اس کو اتنا زياده آزمايا جاتا ہے۔ ہميں چاہئے کہ اس زندگی ميں اپنی جسمانی خواہشات کی تکميل‬
‫کو ترجيح نہ ديں بلکہ روحانی سکون اور مادی چيزوں کے بجائے اخالقی اقدار پر توجّہ ديں‪ ،‬پھر‬
‫آگے جا کر سب کچھ ملے گا انشاء‪.‬۔‬

‫بيدار ذہن جو اپنے ساتھ رکھتے ہيں‬

‫عالج لمحۂ دشوار رکھتے ہيں‬

‫ہر چيز اسی دنيا ميں حاصل کرنا ہمارا ‪ target‬نہيں ھونا چاہئے۔ ہمارا کام صرف کوشش کرنا ہے اور‬
‫نتيجے کے بارے ميں راضی برضائے الہی رہنا چاہئے‪ ،‬کيونکہ وه ہمارے حق ميں زياده بہتر جانتا‬
‫ہے‪ ،‬چاہے بدلہ اگلے جہان ميں جا کر ہی ملے۔ اسی لئے کہا گيا ہے کہ مايوسی گناه ہے کيونکہ ايمان‬
‫بالغيب ہمارے ايمان کا الزمی حصّہ ہے۔ از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫"تجھ کو پرکھتا ہے وه )‪ ،(.‬مجھ کو پرکھتا ہے وه"‬

‫‪ young‬لوگوں کيلئے نصيحت ہے کہ وه ہميشہ ياد رکھيں کہ زندگی ميں جو مرضی کھو جائے ليکن‬
‫دو چيزيں ہرگز نہ کھونے پائيں‪ (1) ،‬کردار )‪ (2‬اعتبار۔ سب سے زياده انسان کيلئے اخالقی برائيوں‬
‫سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کيلئے کسی سند يافتہ حکيم سے عالج کروايا جا سکتا ہے تاکہ طبيعت‬
‫اعتدال ميں رہے۔ ياد رکھيں کہ تمام اچھے کاموں کيلئے اپنی کوشش کا حصّہ ڈالنا الزمی ہے‪ ،‬اگر آپ‬
‫ابدی )ہميشہ کے( انعامات کے حقدار بننا چاہتے ہيں۔ فرمايا گيا ہے‪،‬‬

‫ان ا ِّال َما َس َعي"‬ ‫ْس ل ْ ِ‬


‫ِال ْن َس َ‬ ‫" َلي َ‬

‫ترجمہ‪" :‬انسان کو وہی ملتا ہے جس کيلئے وه کوشش کرتا ہے۔"‬

‫‪8‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫اور کہا گيا ہے کہ‪،‬‬

‫"اَل ُّد ْن َيا َم ْز َر ُع ْاآلخ َِرة"‬

‫ترجمہ‪" :‬دنيا آخرت کی کھيتی ہے۔"‬

‫يعنی يہاں )دنيا ميں( آپ جو بوئيں گے وہی آگے جا کر کاٹيں گے۔ اسی سلسلے ميں ايک اور بات ياد‬
‫دالنا ضروری ہے کہ تمام اسالمی سزاؤں ميں سب سے سخت سزا اخالقی برائيوں کيلئے ہے۔ لہذا ان‬
‫سے بچنا الزمی ہے۔ الب ّتہ سچے دل سے کی ھوئی توبہ انسان کو دھلے ھوئے شفاف کپڑے کی طرح‬
‫بنا ديتی ہے۔ اگر انسان بار بار غلطی کرے اور بار بار بھی اس نيّت سے ‪ .‬سے معافی مانگے کہ وه‬
‫برائيوں کو چھوڑنا چاہتا ہے تو )ماں باپ کی طرح( بار بار ‪ .‬تعالی اس کو معاف فرماتے ہيں۔ اسی‬
‫لئے قرآن پاک ميں انسان کيلئے لفظ 'انسان' )غلطی کا پتال( استعمال ھوا ہے۔ ہميشہ باطن کی حقيقتوں‬
‫پر نظر رکھيں۔ ظاہری آنکھوں سے ہم جو کچھ ديکھتے ہيں وه غلط ھو سکتا ہے۔ ہميشہ شعور کی‬
‫آنکھيں کھلی رکھيں۔ مختلف چيزوں اور معامالت کو ہميشہ حاالت کی سچائی اور سياق و سباق کے‬
‫ساتھ ديکھيں۔‬

‫نماز بھی قرآن مجيد کی طرح صرف ادا کرنے سے آگے بڑھ کر محسوس کرنے کی چيز ہے۔ اسے‬
‫ذہن کے ساتھ دل سے بھی پڑہيں۔ نماز ميں دھيان کو ِادھر اٌدھر ہٹنے سے بچانے کيلئے اور نماز سے‬
‫وه تمام فوائد حاصل کرنے کيلئے جو اس کے ذريعے ‪ .‬تعالی ہميں پہنچانا چاہتے ہيں‪ ،‬بہترين طريقہ‬
‫يہ ہے کہ ہم اس کا ترجمہ اچھے طريقے سے ياد کر ليں‪ ،‬اور نماز پڑھتے وقت اس کے معنی ذہن‬
‫ميں رکھيں کہ ہم ‪ .‬تعالی سے کيا بات کر رہے ہيں۔ کيونکہ وه مخصوص گفتگو اور آداب جو ‪.‬‬
‫تعالی سے ہمکالم ھونے کيلئے اس ذات پاک نے ہميں خود سکھائے ہيں‪ ،‬وه سمجھ کر پڑھنے سے‬
‫اپنے اندر بہت زبردست اثرات رکھتے ہيں اور ہمارا ‪ contact‬ہر چيز کے خالق و مالک سے واقعی‬
‫‪ direct dialing‬کی طرح ھو جاتا ہے۔ اور ہمارا نمبر ہر ‪ power‬سے بڑی ‪ Superpower‬سے‬
‫‪ through‬ھو جاتا ہے۔ نماز ہميں ہر برائی سے روکنے لگتی ہے اور صحيح مومن بننے کی طرف‬
‫ڈال ديتی ہے۔ کوئی پريشانی ہميں پريشان نہيں کرتی اور تمام مسائل‪ ،‬ہمدرد ترين ہستی کے سامنے‬
‫پيش کرنے سے‪ ،‬حل ھونے لگتے ہيں۔ انتہائی عاجزی اور انکساری سے پڑھی ھوئی نماز اور مانگی‬
‫ھوئی دعائيں جو ہمارے حق ميں بہتر ھوتی ہيں‪ ،‬وه قبول ھونے لگتی ہيں۔ انسان کو نماياں طور پر‬
‫محسوس ھونے لگتا ہے کہ کسی بہت بڑی ‪ power‬کی مدد آپ کے شامل حال ھو گئی ہے۔ ہر ڈر‪،‬‬

‫‪9‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫‬ ‫خوف اور بے يقينی کے بادل چھٹنے لگتے ہيں۔‬


‫سچی خوشی حاصل ھونے لگ پڑتی ہے اور‬
‫خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدير سے پہلے‬
‫يقين و ايمان کی دولت حاصل ھوتی ہے۔ انسان‬
‫سے کچھ بھی چھن جائے‪ ،‬ايمان کی دولت نہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تيری رضا کيا ہے‬
‫رح‬
‫‪ -‬عالمہ اقبال‬ ‫کھوئے کيونکہ اس کے اندر کی بے يقينی دور‬
‫ھو جاتی ہے اور وه اس دنيا کو امتحان کی‬
‫‬
‫حيثيت سے آخرت کی تياری اور قبر کی تياری‬
‫ميں گزارنے لگتا ہے۔ پھر وه آخرت کے ابدی انعامات ہی کو اپنی منزل سمجھتا ہے اور دين کے بدلے‬
‫دنيا لينے کا گھاٹے کا سودا نہيں کرتا۔ وه ہر در پر نہيں جھکتا۔‬

‫وه ايک سجده جسے تو گراں سمجھتا ہے‬

‫ہزار سجدوں سے ديتا ہے آدمی کو نجات‬

‫سمجھ کر نماز پڑھنے سے واقعی اتنے زياده ثمرات اور برکات حاصل ھوتی ہيں‪ ،‬اسی لئے يہ چند‬
‫کلمات ہميں اپنی پوری زندگی ميں ہر روز پانچ مرتبہ پڑھنے کيلئے کہا گيا ہے۔ اور اس کے ادا کرنے‬
‫ميں بھی بہت سہولتيں دی گئی ہيں‪ ،‬حاالت کے مطابق بيٹھ کر يا ليٹ کر پڑھنے کی‪ ،‬کم رکعت ادا‬
‫کرنے کی اور يہاں تک کہ قضا پڑھنے کی بھی۔ پھر بھی اگر ہم اس نعمت سے محروم رہيں تو ہماری‬
‫اپنے ساتھ بہت بڑی زيادتی ھوگی۔ ‪ .‬تعالی اس بات سے بہت راضی ھوتے ہيں جب ہم نماز اور روزه‬
‫وغيره کے بارے ميں اس کی دی ھوئی سہولتوں سے جائز طور پر فائده اٹھاتے ہيں‪ ،‬کيونکہ خالص‬
‫‪ .‬کيلئے عبادت کرنے واال ہی ايسا کرتا ہے اور عبادت ميں اخالص ہی ‪ .‬تعالی کو درکار ہے‪،‬‬
‫ۖ‬
‫رسول اور ديگر عبادات ميں دلی محبت کو‬ ‫محض عبادات نہيں۔ اسی طرح فريضۂ حج‪ ،‬زيارت روضۂ‬
‫شامل کرنے سے ان کے روحانی اور حقيقی فوائد حاصل ھونے لگ پڑتے ہيں۔ ياد رکھيں جس طرح‬
‫جسمانی صحت اس زندگی کيلئے ضروری ہے‪ ،‬روحانی صحت آخرت کی زندگی کيلئے الزمی ہے‪،‬‬
‫روحانی بيمارياں وہاں کيلئے بہت نقصان ده ہيں۔ اگر ہم اس عارضی زندگی ميں ‪ .‬کی مرضی پر‬
‫چليں گے تو وه ہميشہ کی زندگی ميں ہماری مرضی پوری کريں گے۔‬

‫مختلف چيزوں ميں باريک باريک سا فرق ھوتا ہے۔ جس نے اس باريک فرق کو غور سے سمجھا اور‬
‫اس زندگی کے پل صراط پر احتياط سے چال‪ ،‬اس کس لئے قيامت کے دن پل صراط پر چلنا مشکل‬

‫‪10‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫نہيں ھوگا۔ مثال جو فرق فخر اور غرور ميں ہے‪ ،‬انسان فخر کر سکتا ہے‪ ،‬غرور نہيں کر سکتا۔ اسی‬
‫طرح سچی انا اور خودی کا تح ّفظ جائز ہے اور جھوٹی انا ناجائز۔‬

‫ہميں يہ بھی ياد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ ‪ .‬تعالی کی رحمان اور رحيم والی صفت اس کی باقی تمام‬
‫صفات پر حاوی ہے ليکن ہميں اس بات سے ناجائز توقعات باندھ کر گمراہی کے راستے کی طرف‬
‫نہيں جانا چاہئے۔ جس طرح ماں باپ بچے کو بار بار کی غلطيوں اور معافيوں پر معاف تو کر ديتے‬
‫ہيں ليکن ناراض ھو کر عاق بھی کر ديتے ہيں۔ جس طرح ماں باپ اوالد کے ساتھ ساری عمر بھالئی‬
‫کرتے ہيں اور جواب ميں بجا طور پر تابعداری کی اميد رکھتے ہيں۔ ‪ .‬تعالی کی وجہ سے تو ہم‬
‫موجود ہيں‪ ،‬وہی پالنے واال ہے اور اس کے ہم پر بے انتہا احسانات ہيں۔ اس کی نافرمانی کرنا ہميں‬
‫بالکل بھی زيب نہيں ديتا۔ اور وه ايسے لوگوں کيلئے بجا طور پر 'ظالم' کا لفظ استعمال کرتا ہے اور‬
‫قيامت کے دن ان کيلئے دردناک عذاب کا وعده ہے‪ ،‬اور ‪ .‬کے تمام وعدے سچے ہيں۔ اسی لئے‬
‫ہمارے ۖ‬
‫نبی کو صرف خوشخبری سنانے والے ہی نہيں بلکہ ڈر سنانے والے بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد‬
‫انسانوں کو برائيوں سے بچانا اور ابدی انعامات کی طرف بالنا ہے۔‬

‫نيکی کی تعريف‪' :‬نيکی کا تعلق دل سے ہے۔'‬

‫اگر مختصر ترين الفاظ ميں پوچھيں تو دنيا ميں ہمارا ٹيسٹ بس اتنا ہی ہے کہ ہم اپنی عقل و دانش کو‬
‫استعمال کر کے کتنا ‪ .‬تعالی کو پہچانتے ہيں‪ ،‬اور پھر پہچاننے کے بعد کتنا اس کی باتوں )قرآن‬
‫پاک( پر بھروسہ )ايمان( رکھتے ہيں‪ ،‬اور مشکل اور آسانی ميں ثابت قدم رہتے ہيں۔ از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫سلسلۂ روز و شب نقش گر حادثات‬

‫تجھ کو پرکھتا ہے وه‪ ،‬مجھ کو پرکھتا ہے وه‬

‫اصل حيات بعد از ممات )موت(‬

‫خدا اتنا زياده ‪ powerful‬ہے کہ اس نے چاہا کہ وه پس منظر ميں ره کر پہچانا جائے‪ ،‬اپنی تخليقات‬
‫کے ذريعے۔ جس طرح کوئی مصوّ ر اپنی تصويروں سے پہچانا جاتا ہے۔ انسان اپنے کاموں سے اور‬
‫اپنی باتوں سے بھی۔ ‪ .‬تعالی )ميری سمجھ کے مطابق( سامنے آئے بغير اپنی ذات کا اظہار اور‬
‫شناخت چاہتے تھے۔ سامنے آ کر تو ہر کوئی پہچـانا جاتا ہے۔ ہمارا امتحان اسی ميں ہے کہ بغير‬
‫ديکھے خدا کو پہچانيں اور پھر اس کی فرمانبرداری پر جمے بھی رہيں۔ وه )‪ .‬تعالی( ج ّنتيوں کو اپنا‬
‫‪11‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫ديدار کروائيں گے۔ يہ بھی ياد رکھنے کی بات ہے کہ ‪ .‬تعالی کسی کو اس کی ہمّت سے زياده نہيں‬
‫آزماتا جبکہ انسان انتہائی کمزور ہے‪ ،‬ذرا سا موسم کا تھپيڑا بھی برداشت نہيں کر پاتا۔ ليکن خدا اسے‬
‫سنبھال ليتا ہے اس سے پہلے کہ اس کی ہمّت جواب‬
‫‬
‫دے‪ ،‬اور اس کيلئے کوئی سا بھی ذريعہ بنا ديتا ہے۔‬
‫قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت‬

‫يہ چار عناصر ھوں تو بنتا ہے مسلمان‬ ‫سر نہاں )پوشيده راز( ال الہ اال ‪/‬‬
‫خودی کا ّ‬

‫رح‬ ‫خودی )خود داری( ہے تيغ فساں ال الہ اال ‪/‬‬


‫‪ -‬عالمہ اقبال‬
‫رح‬
‫‪ -‬عالمہ اقبال‬
‫‬
‫‪ .‬کی پہچان ہی کے سلسلے ميں يہ سوچيں کہ دنيا ميں انسان ہی اشرف المخلوقات ہے جبکہ‬
‫‪ powerful‬سے ‪ powerful‬انسان کا اختيار بھی محدود ہے تو پھر ‪) globe‬کرّ ۀ ارض( کے دوسری‬
‫طرف جو انسان بس رہے ہيں انھيں کس نے بنايا ہے اور پوری دنيا پر ايک جيسے قدرت کے قانون‬
‫نافذ ہيں۔ لوگ جيتے ہيں‪ ،‬مرتے ہيں۔ موسم بدلتے ہيں‪ ،‬سمندروں ميں اس قدر پانی کس نے ڈال ديا۔‬
‫غرض‪ ،‬پوری دنيا پر ايک جيسے قانون قدرت کس نے نافذ کئے ھوئے ہيں۔ ظاہر ہے کہ کسی ايک‪،‬‬
‫بے انتہا بڑی طاقت کی پوری کائنات پر حکمرانی ہے اور وه ‪ .‬تعالی )رب العالمين( کی ذات پاک‬
‫ہے۔ وه )‪ (.‬اپنے کاموں کے عالوه اپنی گفتگو )کالم ‪ ،.‬قرآن مجيد( سے بھی پوری طرح پہچانا جاتا‬
‫ہے۔ قرآن پاک کے صرف ناموں پر بھی غور کرنے سے ہم پر بہت سارے راز کھلتے ہيں جيسے‬
‫قرآن حکيم )حکمت و دانائی والی کتاب(‪ ،‬القرآن )بہت زياده پڑھی جانے والی يا بار بار پڑھی جانے‬
‫والی کتاب(‪ ،‬قرآن مجيد )انتہائی بزرگی والی کتاب يعنی بڑی‪ ،‬بلند مرتبہ کتاب( اور الفرقان )يعنی حق‬
‫اور باطل‪ ،‬صحيح اور غلط ميں فرق بتانے والی کتاب(۔ اسی لئے فرمايا گيا ہے کہ‪" ،‬دانائی کی معراج‬
‫خدا کا خوف ہے۔"‬

‫کالم پاک ميں جھلکتی انتہا درجے کی دانائی‪ ،‬باتوں کی وسعت‪ ،‬گہرائی اور بلندی کی وجہ سے صاف‬
‫طور پر معلوم ھو جاتا ہے کہ ايسی کوتاہيوں اور کمزوريوں سے مب ّرا تحرير کسی انسان کے بس کی‬
‫بات نہيں۔ انسانوں کی لکھی ھوئی اعلی سے اعلی کتاب ميں بھی کسی نہ کسی پہلو سے تشنگی‪ ،‬خامی‬
‫يا کمزوری ضرور ھوتی ہے۔ جبکہ قرآن پاک ہر مضمون اور موضوع پر جامع ترين اظہار‪ ،‬نہايت‬
‫مختصر الفاظ ميں کر جاتا ہے۔ اسی لئے قرآنی آيات کا مطلب نشانی ہے‪ ،‬يعنی محض اشار ًة گہری‬

‫‪12‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫ترين بات کہہ دی جاتی ہے جسے بار بار پڑھنے سے معنی کا ايک سمندر سمجھ ميں آتا جاتا ہے۔‬
‫تبھی اسالم ميں تفکّر کرنے پر بہت زور ديا گيا ہے اور کہا گيا ہے کہ ايک عالم‪ ،‬عابد سے بہتر ہے۔‬
‫حديث پاک ہے کہ‪" ،‬مسلمان وه ہے جو اپنے لئے وہی پسند کرتا ہے جو دوسرے کيلئے پسند کرتا‬
‫ہے۔" اس ميں نفسيات کا پورا مضمون آ جاتا ہے يعنی انسان کا اپنا فائده ہے اگر وه اپنی عزت کروانا‬
‫چاہتا ہے تو دوسرے کی ع ّزت کرے‪ ،‬يعنی وه جو بھالئی دوسرے سے کرے گا وہی لوٹ کر اسے مل‬
‫نبی کے نام "ا ُمّی" يعنی "ان پڑھ" پر خاص زور ديا گيا ہے۔ مصلحت يہ نظر آتی‬
‫جائے گی۔ ہمارے ۖ‬
‫ہے کہ ۖ‬
‫آپ ّ پڑھے لکھے نہيں تھے اور وه دور بھی انتہائی جہالت کا تھا تو پھر قرآن پاک جيسی‬
‫انتہائی حکمت و دانائی کی کتاب وه کس طرح لکھ سکتے تھے‪ ،‬جبکہ ان کی عمر بھی )وفات کے‬
‫وقت( محض ‪ 63‬سال تھی۔ اتنی عمر ميں تو قرآن پاک کو پوری طرح سمجھنا بھی مشکل ہے۔ ان تمام‬
‫باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ يہ ايک آسمانی کتاب ہے اور ہماری بھالئی اسی ميں ہے کہ حيل و‬
‫حجّ ت ميں پڑے بغير اس پر عمل کريں۔ ايک اور بات غور طلب ہے کہ يہ وه عظيم کتاب ہے جو ذہن‬
‫ميں محفوظ رکھنے سے بھی آگے بڑھ کر محسوس کرنے کی چيز ہے۔ خلوص )اخالص( اور محبت‬
‫کی حقدار ہے۔ قرآن پاک کو تھوڑا تھوڑا کر کے معنی سمجھ کر پڑھيں۔ جيسے کورس کی کتابوں کو‬
‫ّ‬
‫رٹا لگا کر اور سمجھ کر پڑھنے ميں بڑا فرق ھوتا ہے‪ ،‬اسی طرح قرآن کو سمجھ کر پڑھنے واال بہت‬
‫زياده فائده اٹھاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے بارے ميں غير جانبداری سے تھوڑا بہت بھی جاننے سے‬
‫دين‬
‫معلوم ھو جاتا ہے کہ ان ميں نماياں خامياں اور کمزورياں ہيں‪ ،‬جبکہ قرآن پاک کا ايک ايک لفظ ِ‬
‫فطرت ھونے اور برحق ھونے کا پتا ديتا ہے۔‬

‫دنيا داری کيلئے نيکياں کرنا شرک کی ايک قسم ہے‪ ،‬کہ انسان دنيا کی خوشنودی چاہتا ہے اور دنيا ہی‬
‫کو کارساز سمجھتا ہے۔‬

‫ايک اور بات يہ کہ ‪ .‬تعالی نے اس زندگی کو امتحان کہا ہے تو پھر قرآن پاک اور احاديث کو اس‬
‫زندگی کے امتحان ميں کاميابی کيلئے کورس کی کتاب سمجھ کر پڑھيں اور عمل کريں۔ ظاہری چيزوں‬
‫سے بڑھ کر ميں نے چيزوں کو محسوس کرنے کا جو حوالہ ديا وه اس لئے بے حد ضروری ہے کہ‬
‫اگر باطنی صفائی کی بہت زياده اہميت نہ ھوتی تو ايسا نہ ھوتا کہ حضرت جبرائيلع نے نزول قرآن‬
‫کے وقت حضور صل ‪ .‬عليہ وآلہ وسلّم کے سينۂ اقدس کو چيرا‪ۖ ،‬‬
‫آپ کے قلب مبارک کو وضو کرايا‬
‫گيا اور پھر بند کيا گيا اور فرمايا گيا کہ قرآن ۖ‬
‫آپ کے قلب اطہر پر نازل ھوا۔ يہ نہيں کہا گيا کہ ان کے‬
‫ذہن ميں اتارا گيا۔‬

‫‪13‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫دل يا قلب کی ہمارے مذہب ميں مرکزی اہميت ہے۔ اسی لئے کہا گيا ہے کہ دل ‪ .‬کا گھر ہے۔ جس‬
‫طرح زمين پر ‪ .‬کا گھر خانہ کعبہ ہے‪ ،‬اسی طرح وجود انسانی کا کعبہ دل ہے۔ اسی لئے حديث پاک‬
‫ہے کہ‪" ،‬ہر عمل کا دارومدار نيّت پر ہے۔" اگر ہم بس اتنا کام کر ليں کہ اپنے دل کو مکمل طور پر‬
‫پاک صاف رکھيں اور دوسروں کے دلوں کا بھی خيال رکھيں اور ان کے مطابق چلنے کی ح ّتی‬
‫المقدور کوشش کريں تو بہت حد تک ہمارا ايمان مکمل ھوگا۔ اس سلسلے ميں ہميں يہ ياد رکھنا ھوگا‬
‫کہ عام طور پر دو تين چـيزيں ہی )جھوٹ‪ ،‬حسد )کينہ(‪ ،‬اور‬
‫تعصّب )رشتے‪ ،‬زبان‪ ،‬عالقہ وغيره کا( ( ہمارے دل پر اس‬ ‫ياد رکھيں کہ ‪ /‬تعالی قيامت‬
‫قدر ميل کی تہيں چڑھا ديتی ہيں کہ ہم دل پر مہر لگوا بيٹھتے‬ ‫کے دن مومنوں کو اس ترتيب‬
‫سے جنت ميں درجے عطا‬
‫ہيں اور پھر ہمارے دلوں تک سچ کی روشنی نہيں پہنچ پاتی۔‬
‫فرمائے گا‪:‬‬
‫ہميشہ سچائيوں کی کھوج ميں رہيں اور ہميشہ حقيقی يا مثبت‬
‫)‪ (1‬نب ّيين‬
‫زاويۂ نگاه سے چيزوں کو ديکھنے کی عادت ڈاليں۔ جب انسان‬
‫نيکی کی طرف دلی رجحان ظاہر کرتا ہے تو ‪ .‬تعالی خود اس‬ ‫)‪ (2‬صدّيقين )سچے لوگ(‬
‫کيلئے باقی مرحلے ممکن بناتے جاتے ہيں اور ‪young age‬‬ ‫)‪ (3‬شہداء‬
‫گزرتے ہی پھل ملنے لگتے ہيں۔‬ ‫)‪ (4‬صالحين )نيک لوگ(۔‬

‫ہم صحيح اور غلط ميں تميز نہيں کر پاتے اور پہلے ان ہی‬
‫منفی جزبوں پر غور کرتے ہيں جبکہ ہميں چاہئے کہ ہر حال )ہر صورتحال( ميں حق )سچ( کے آگے‬
‫سر جھکانا سيکھيں۔ ياد رکھيں کہ ‪ .‬تعالی قيامت کے دن مومنوں کو اس ترتيب سے جنت ميں درجے‬
‫عطا فرمائے گا )‪ (1‬نبيّين )‪ (2‬ص ّديقين )سچے لوگ( )‪ (3‬شہداء )‪ (4‬صالحين )نيک لوگ(۔ دراصل خدا‬
‫اور قرآن ہم سے يہی چاہتا ہے کہ ہم سچ اور جھوٹ کو پہچاننا سيکھيں اور پھر سچ‪ ،‬سچائيوں اور‬
‫سچوں کا ساتھ ديں تاکہ انسانوں کے اندر سے اور دنيا سے برائياں کم سے کم ھوں اور ان کی اصالح‬
‫زياده سے زياده ھو۔ اسی طرح حق )سچ( کو پوری طرح اپنا کر ہم حق )‪ (.‬کے مشن ميں ساتھ ديتے‬
‫ہيں اور يہی راستہ ج ّنت کو جاتا ہے۔ اور اسی طرح ہم ‪ .‬کے نائب يا نمائنده ھونے کا حق ادا کرتے‬
‫ہيں۔ انسان کو فرشتوں سے سجده اسی لئے کروايا گيا تھا کہ وه زمين پر ‪ .‬کا نائب ہے۔ اور اس بات‬
‫سے ہميں انسان کی بے حد اہميت اور ّ‬
‫عزت و تکريم کا پتا چلتا ہے‪ ،‬اور علم کی اہميت کا بھی۔‬

‫‪14‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫‬ ‫انسان کو کچھ چيزوں کا علم سکھا کر‪،‬‬


‫رات دن عبادت کرنے والے فرشتوں کو‬
‫درد دل کے واسطے پيدا کيا انسان کو‬
‫اسے سجده کرنے کا حکم ديا گيا جبکہ‬
‫سجده صرف خدا کو کيا جاتا ہے۔ اس سے ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبياں )فرشتے(‬
‫رح‬
‫‪ -‬عالمہ اقبال‬ ‫انسان )خدا کی اعلی ترين تخليق( اور‬
‫انسانيت کی اہميت کا پتا چلتا ہے۔‬
‫‬
‫از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئی‬

‫ھو ديکھنا تو ديدۀ دل وا کرے کوئی‬

‫انسان جب خدا کو راضی کرتا ہے )‪ .‬سے تعريف حاصل کرنا( اور ‪ .‬کيلئے دوستی اور دشمنی کرتا‬
‫ہے تو باآلخر وه لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ اس دوران لوگ ناراض بھی ھوتے ہيں ليکن‬
‫يہی کٹھن مگر درست راستہ ہے۔ ورنہ خوشامد کرنے والے لوگ انسان کی راه گم )گمراه( کر ديتے‬
‫ہيں اور اپنے مقاصد پورے کرتے ہيں۔ جتنا اچھے کام کرنا ضروری ہے۔ اتنا ہی بروں کو پہچاننا‬
‫ضروری ہے۔‬

‫ہميں چاہئے کہ ‪ broad vision‬اپنائيں اور وسيع ال ّنظری سے چيزوں کو ديکھيں۔ اور ہر چيز اور‬
‫معاملے کو حاالت کی سچائی کے پس منظر ميں ديکھنے کی عادت ڈاليں ورنہ ہماری آنکھيں‪ ،‬کان اور‬
‫مختلف اعضاء جو ‪ .‬کی امانت ہيں وه اسی کی خاطر استعمال )حق کی خاطر( ھونے سے محروم ھو‬
‫جاتے ہيں اور ان پر بھی خدانخواستہ مہر لگ سکتی ہے۔ اس سلسلے ميں خود احتسابی‪self ،‬‬
‫‪ analysis‬اور خود کالمی کی عادت انسان کے بہت کام آتی ہے۔ وه وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصالح‬
‫جاری رکھتا ہے اور اس کا زوال نہيں ھوتا۔ ايک اور بات اپنی اصالح کے سلسلے ميں ياد رکھنی‬
‫چاہئے کہ ہميں چھوٹی غلطيوں اور گناھوں سے بھی ہر دم بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ورنہ اگر‬
‫انسان چھوٹی برائيوں کا عادی ھو جائے تو پھر اس سے کسی بھی وقت بڑی غلطی يا بڑا گناه بھی‬
‫سرزد ھو سکتا ہے )خدانخواستہ(۔ ہميں خلوص دل سے ‪ .‬سے دعائيں اور پناه )حفاظت( کی‬
‫درخواست کرتے رہنا چاہئے۔ اسی کو ہر چيز کا مالک اور دينے والی ذات سمجھ کر جب ہم انتہائی‬

‫‪15‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫عاجزی اور خلوص کے ساتھ اس سے مانگتے ہيں تو پھر وه ضرور ہماری دعائيں قبول فرماتا ہے‬
‫اور ہميں واضح طور پر محسوس ھونے لگتا ہے کہ کوئی طاقت ہمارے ساتھ ہے اور ہم اس کے‬
‫حصار ميں ہيں۔ يہ احساس بے حد خوشگوار ھوتا ہے اور پھر کبھی انسان اس سحر سے باہر نہيں‬
‫نکلنا چاہتا۔ ايک خدا کا ڈر اسے نڈر بنا ديتا ہے۔ از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫وه ايک سجده جسے تو گراں سمجھتا ہے )ايک ہستی کے آگے(‬

‫ہزار سجدوں سے ديتا ہے آدمی کو نجات‬

‫دعاؤں کے سلسلے ميں ہی ايک اور بات ياد رکھنی چاہئے کہ جو دعائيں يہاں قبول نہيں ھوتيں وه يا‬
‫تو ہمارے حق ميں بہتر نہيں ھوتيں ورنہ پھر قيامت کے دن انعامات کی صورت ميں جمع ھوتی رہتی‬
‫ہيں۔ جيسے ايک غريب آدمی‪ ،‬امير ھونے کے لئے دعا کرے تو ضروری نہيں کہ وه دعا اس دنيا ميں‬
‫قبول ھو‪ ،‬ليکن آخرت ميں اس کا بدلہ يا صلہ بيش بہا چيزوں کی شکل ميں ضرور ملے گا اگر وه خدا‬
‫کا فرمانبردار بنده بنا رہا۔‬

‫اور سب سے بڑھ کر ايک مسلسان کيلئے ‪ .‬تعالی نے اپنی ذات تک پہنچنے کا آسان ترين ذريعہ‬
‫حضرت محمد صل ‪ .‬عليہ وآلہ وسلّم کو بنا ديا۔ فرمايا گيا‪ۖ " ،‬‬
‫آپ سے محبت خدا سے محبت ہے‪ ،‬اور‬
‫ۖ‬
‫حضور کی ذات ميں تمھارے لئے بہترين نمونہ ہے۔"‬ ‫ۖ‬
‫آپ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے"‪ ،‬اور يہ کہ‪" ،‬‬
‫پيارے نبی صل ‪ .‬عليہ وآلہ وسلّم کی ذات اقدس سے جتنی محبت اور عقيدت کی جائے وه کم ہے۔‬
‫انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ‪ .‬تعالی کی مرضی سے گزارا‪ ،‬بے حد تکليفيں جھيليں اور ہمارے‬
‫لئے آسانياں پيدا کيں۔ ہم جيسے کمزور انسانوں کيلئے ان سے محبت ‪ .‬تعالی تک پہنچنے کا‬
‫‪ shortcut‬ہے۔ اس لئے کہ اس طرح ہم بہت جلد خدا کے منظور نظر بن جاتے ہيں۔ خود خدا کی توجّہ‬
‫ۖ‬
‫حضور کی ذات ہے۔ اس طرح ہم جيسے کمتر بندے بھی ‪ limelight‬ميں آ جاتے ہيں اور‬ ‫کا مرکز‬
‫ۖ‬
‫حضور سے محبت اور درود شريف وه واحد کام ہے جو ‪ .‬تعالی کبھی نہيں‬ ‫آسمان اور زمين کے بيچ‬
‫لوٹاتے۔ اسی لئے لوگ درود شريف کے ورد کے درميان ميں دعا مانگتے ہيں‪:‬‬

‫ذکر مصطفی ميں رہتا ھوں‬

‫ميں خدا کی نگاه ميں رہتا ھوں‬

‫‪16‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫از عالمہ اقبالرح‪:‬‬

‫ۖ‬
‫محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں‬ ‫کی‬

‫يہ جہاں چيز ہے کيا لوح و قلم تيرے ہيں‬

‫اپنے آپ کو پہچاننے )انسان کی تخليق پر غور کرنے‪/‬شعور ذات( سے خدا کی پہچان )عرفان الہی(‬
‫حاصل ھوتا ہے۔‬

‫مزيد ايک دو باتيں ياد رکھنے والی ہيں کہ قيامت کے دن کسی کے اعمال کا بوجھ دوسرے پر نہيں‬
‫ڈاال جائے گا۔ حق کا رشتہ سب سے بڑا ہے‪ ،‬سب سے پہلے انسان ‪ .‬کا بنده ہے۔ خالق حقيقی کا حق‬
‫اس پر سب سے زياده ہے۔ ماں باپ تو صرف ذريعہ بنتے ہيں۔ ان کا بھی حق بہت زياده ہے ليکن خدا‬
‫ۖ‬
‫رسول کے بعد ہر کوئی صرف اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔‬ ‫اور‬

‫دين کی ہر اصطالح )‪ (term‬کو جوں کا توں يعنی اس کی روح کو سمجھے بغير نہيں اپنانا چاہئے‬
‫بلکہ اس کے اصل مقصد يعنی اصالح احوال کے حوالے سے اس کی روح کو سمجھ کر اس پر عمل‬
‫کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ يہ چيز آج کے زمانے ميں بہت معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔‬
‫ہميں دين کو اپنے مطلب کيلئے نہيں استعمال کرنا چاہئے بلکہ خود اس کيلئے استعمال ھو جانا چاہئے۔‬

‫اکثر لوگوں کی پوری توجہ اس بات پر ھوتی ہے کہ‬

‫يہ غازی يہ تيرے پراسرار بندے‬ ‫ديکھنے ميں ہمارے اعمال اچھے نظر آئيں چاہے نيّت کچھ‬

‫جنہيں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی‬ ‫بھی ھو‪ ،‬کيونکہ نيّت نظر نہيں آتی۔ جبکہ دين کا خالصہ يہ‬
‫ہے کہ ہر کام کرتے وقت صرف سيدھی نيّت کا خيال رکھا‬
‫جائے چاہے ديکھنے ميں وه عمل 'برائی' نظر آئے۔ مثالً‬
‫دو نيم انکی ٹھوکر سے صحرا و دريا‬
‫سمٹ کر پہاڑ انکی ہيبت سے رائی‬ ‫بری ن ّيت سے سچ نہيں بوال جا سکتا جبکہ نيّت اچھی ھو تو‬
‫'جھوٹ' بوال جا سکتا ہے۔ صرف انتہائی نيک نيّتی ھو تو‬
‫رح‬
‫‪ -‬عالمہ اقبال‬ ‫'جھوٹ' بوال جا سکتا ہے۔ ورنہ يہ مزاق ميں بھی جائز‬
‫نہيں۔ ہر جھوٹ ہمارا تعلق شيطان سے جوڑتا ہے۔‬

‫‪17‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫"‪ /‬تعالی جب کسی سے بھالئی کا اراده فرماتے ہيں‬


‫تو اسے دين کی سمجھ عطا فرما ديتے ہيں۔"‬

‫‪ -‬حضرت مح ّم ۖد‬

‫يوں تو انسان کمزور ہے ليکن اگر وه ٹھان لے اور ايمان پختہ ھو تو اس کا عزم اور اراده چٹان سے‬
‫بھی زياده مضبوط ھوتا ہے۔ گويا اس کے خمير يا جبلّت ميں مثبت اور منفی دونوں چيزيں شامل ہيں۔‬
‫اب يہ خود اس پر منحصر ہے کہ وه کس طرف رجوع کرتا ہے۔ ايک اور ضروری بات يہ ہے کہ‬
‫اپنی کوتاہيوں کے سلسلے ميں تقدير کو الزام نہيں ديا جا سکتا۔ اس لئے کہ جس طرح ماں باپ کی‬
‫طرف سے بچے کو کافی حد تک اچھے يا برے بننے کا اختيار ھوتا ہے۔ اسی طرح ‪ .‬تعالی بھی‬
‫ہميں يہ آزادی اور اختيار ديتے ہيں اور اپنے اعمال کے ہم خود ذمہ دار ہيں۔ )‪ .‬تعالی نے اپنی محبت‬
‫کی مثال کو ماں باپ سے خود ماليا ہے‪ ،‬بلکہ اس سے ‪ 70‬گنا زياده کہا ہے۔(‬

‫ہر معاملے ميں سچے ر ّد عمل کا اظہار کرنا چاہئے۔ نہ زياده نہ کم۔ اگر دوسرے کے اندر سچا احساس‬
‫پايا جائے تو درگزر سے کام لينا چاہئے۔ ميری درخواست ہے کہ پڑھنے والے ‪ points‬کی صورت‬
‫ميں لکھی ھوئی باتوں کو زبانی ياد کر ليں۔ دو دينی کتابوں کے نام لکھ رہی ھوں جو بہت اچھے اور‬
‫انداز تحرير ميں ہيں۔ اگر کوئی پڑھنا چاہے تو يقينا ً اسے بہت فائده ھوگا۔ ايک کتاب گولڈ‬
‫ِ‬ ‫خوشگوار‬
‫ميڈل ونر ہے‪" ،‬تيسری آنکھ سے"‪ ،‬مص ّنفہ‪ :‬مسرّت لغاری )صحافی(۔ دوسری کتاب‪" ،‬لمحوں کا‬
‫قرض"‪ ،‬مص ّنف‪ :‬ڈاکٹر زاہد منير عامر۔‬

‫آخر ميں يہ کہنا چاھوں گی کہ آپ بھی تحقيق اور غور و فکر‬


‫ميں اپنا حصّہ ڈالئے گا اور مجھے بھی آگاه کيجئے گا۔ قارئين‬ ‫ميری نظر ميں زندگی کے ترجيحی اصول‬

‫پہلے بھی ضرور غور و خوض کرتے ھوں گے اور عمل بھی‬ ‫‪ (1‬ايمان‬
‫‪ (2‬صحت‬
‫کرتے ھونگے۔ کيونکہ سوچ سے ہی عمل کی راه نکلتی ہے۔‬
‫‪ (3‬علم‬
‫ميری خواہش ہے کہ وه اور ان کے بچے ميرے تحرير کئے‬
‫بچوں کی شاديوں کيلئے رہنما اصول‬
‫ھوئے تجربات سے بھی بھرپور فائده اٹھائيں اور پھر اپنا سوچ‬
‫ماحول‬ ‫‪(1‬‬
‫اور عمل کا سفر اس سے آگے جاری رکھيں۔ )آمين(‬ ‫کردار )شرافت(‬ ‫‪(2‬‬
‫اعتبار )سچا ھونا‪ ،‬تضادات نہ‬ ‫‪(3‬‬
‫اختتام اسی سب سے اہم بات پر کروں گی جس سے آغاز کيا‬ ‫ھونا(‬
‫سوچ اور عادت‬ ‫‪(4‬‬
‫تھا۔ قرآن مجيد ميں ‪ .‬تعالی فرماتا ہے‪" ،‬ہم نے کائنات کو حق‬
‫سليقہ‬ ‫‪(5‬‬

‫‪18‬‬
‫"ابدی کاميابی کے راز"‪ ،‬از اسماء )سل َمی شاہين(‪ ،‬الھور )پاکستان( ]جنوری ‪[2010‬‬

‫کے سوا کسی اور چيز پر پيدا نہيں کيا۔" لہذا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم قدم قدم پر‬
‫سچائيوں کا کھوج لگائيں اور ان سے قدم مال کر چليں اگر ہم بہشت کی ابدی منزل کو پانا چاہتے ہيں۔‬
‫جو درويش اس راز کو جان ليتا ہے وه "حق ‪ ".‬کی تال پر جھومتا رہتا ہے۔‬

‫مخلص‪،‬‬

‫اسماء )سلمی شاہين(‬

‫‪ 19‬جنوری ‪2010‬‬

‫الھور )پاکستان(‬

‫]برائے رابطہ‪:‬‬

‫‪[umair@iee.org‬‬

‫‪19‬‬

You might also like