Professional Documents
Culture Documents
Shared 20180213T191721
Shared 20180213T191721
جی بالکل نہیں ! جیسے ہر ملک کے ہر جگہ کے اپنے اپنے قوانین ہوتے ہیں ،ویسے ہی اسلم کے بھی اپنے قوانین ہیں
لیکن یہ قوانین کوئ انسان کے بنئے ہوئے نہیں بلکہ فطرتی اور قدرتی ہیں ،،انسان بھی یہی حقیقی قوانین کو تسلیم کرتا ہے
لیکن اپنی زمینی خدائ کا غلبہ پانے کے لئے وہ اس میں رد و بدل کرتا رہتا ہے
جہاں تک اسلم کا تعلق ہے ،،یہ ایک باظابطہ اور مکمل دین ہے ہر لحاظ سے ،چاہے وہ معاشرتی ہوں ،سیاسی ہوں،
تجارتی ہوں ،اقلیتی ہوں۔
لیکن یہاں بدقسمتی سے دینی علوم اور اسکی تعلیمات پر عبوریت نہ ہونے کی وجہ ہمارے مسلمان بھائ بھی کہتے پھرتے ہیں
،،کہ دین اسلم زور و زبردستی کا دین نہیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی زبردستی نہیں کی
بے شک نہیں کی لیکن کفار پر نہیں کی کیونکہ جو لوگ دائرہ اسلم سے باہر ہیں تو ان پر اسکے قوانین لگو ہی نہیں ہوتے
،،انھیں صرف تبلیغ اسلم کی وجہ سے ہی قائل کیا جاسکتا ہے
)جہاد کا حکم تب ہے اگر وہ اسلم کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہوں نہ کہ ان کو اسلم قبول کرونا مقصود ہو(
اب اگر کوئ شخص جب ایک ملک میں رہتا ہے یا ایک مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو اس پر اس مذہب کے قوانین )سزا و
،،جزا دونوں( لگو ہوجاتے ہیں چاہے وہ کو حکمران ہو یا کوئ عام شہری
یہاں تک تو بات سب تسلیم کرتے ہیں
زندگی میں راہنمائ کرتا ہو تو اسکے 1 ۔ لیکن کیا اسلم جیسا روشن و پرنور مذہب جو تمام انسانوں کی دنیاوی اور اخرو
قوانیں نہیں ہوں گے کیا؟
۔ اسکے ماننے والے اور اللہ کی وحدت اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا عقیدہ دل میں رکھنے والے پر اسلم 2
کے قوانین نافذ نہیں ہوں گے کیا؟
۔ برے کاموں کی سزا دینے اور اچھے کاموں پر اسکا ساتھ دینے وال قانون نافذ نہیں ہوگا کیا؟3
اگر اس پر یہ قوانین نافذ نہیں ہونگے تو یہ کیا یہ سب کفار اور غیر مسلموں پر لگو کئے جائیں پھر؟؟
عجیب کشمکش میں مبتل ہیں آج ہمارے مسلمان اس ٹیکنالوجی کے دور میں ،،ہر کوئ خود عالم و فاضل بنا ہوا ہے ،،کچھ
علماء کی وجہ تمام آئمہ اور علماء کی بے حرمتی اور کردار کشی کررہے ہیں
جن کے بارے میں نبی صلی اللہ نے فرمایا کہ یہ علماء کرام دین کے اساسے ہیں ،،علماء سو کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ ان
سے بچو لیکن خود قرآن و حدیث کی ہمیں بنیادی باتیں تک پتہ نہیں اور نہ ہی حق علماء کرام سے رابطہ کرتے ہیں اور
دلیل یا ثبوت دینے کی بجائے گالم گلوچ کا راستہ با آسانی اختیار کر لیتے ہیں
۔ جو برائ مسلمان معاشرے میں نظر آئے اسے ہاتھ کے ذریعے منع کرنے کا حکم دیا گیا یے ہمیں کہ اسے ہاتھ سے روکو۔1
)اور اس حکم کے آگے پھر کوئ فلسفے نہیں بنتے کہ زبردستی نہیں ہونی چاہئے یہ اور وہ(
۔ اگر ایمان کمزور پڑ گیا ہے کسی بااثر شخص کے سامنے تو کم از کم زبان سے اسی منع کیا جائے اور کچھ نصیحتیں اور 2
اللہ سے ڈرنے اور آخرت کے دن کے بارے میں خبردار کیا جائے
۔ اگر زبان بھی حرکت نہ کرسکے آپکی ایمان کی انتہائ کمزوری کی وجہ سے تو پھر دل میں اسے برا کہا جائے۔3
۔ لیکن اگر اتنی بھی توفیق آپکو نصیب نہ ہو اسے دل میں برا کہنے کی اور خود بھی جا کے اسکے ساتھ گناہ کا راستہ 4
اختیار کیا جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا۔
* اللہ ہم سب کوتوبہ کرنے کی اور اچھے اعمال )حلل و حرام سے بچنے ،نماز و زکات کو قائم کرنے( کی توفیق عطا
فرمائے۔
کیونکہ ایک حدیث کے مطابق یہی تین اعمال بھی کافی ہیں آپکو جنت میں داخل کروانے کے لئے۔