You are on page 1of 3

‫کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں‬

‫چوروں کا ایک گروہ لوٹ ماری اور‬


‫عصمت دری میں بڑا مشہور ہوا‪ -‬وہ‬
‫ایک گھاٹی میں قیام پذیر تھے‪ -‬دن‬
‫بھر وہاں چھپے رہتے اور رات کو‬
‫کاروایاں کرتے‪ -‬بادشاہ وقت کو اس‬
‫کی خبر ہوئی تو اس نے حکم صادر‬
‫کیا کہ ان چوروں کو فوری طور پر‬
‫پکڑ کر حاضر کیا جائے‪ -‬ماہر‬
‫فوجیوں پر مشتمل ایک ٹیم کو رات‬
‫کے وقت‪ ،‬جب چور اپنے اڈے پر موجود‬
‫نہیں تھے‪ ،‬بھیجا گیا اور وہ وہاں‬
‫چھپ گئے‪ -‬صبح ہوئی تو چور واپس آ‬
‫ئے اور آتے ہی تھکاوٹ سے چکنا چور‬
‫لوٹا ہوا مال رکھا اور خود بھی‬
‫ہتھیاروں سے ہلکے ہو کر سو گئے‪-‬‬
‫فوجیوں نے موقع کو مناسب سمجھ کر‬
‫پکڑا اور بادشاہ کے دربار میں لے‬
‫آ ئے‪ -‬بادشاہ نے تمام چوروں کے‬
‫لیے موت کی سزا تجویز کی اور‬
‫انہیں کوٹھری میں ڈالنے کا حکم‬
‫دیا‪ -‬ان چوروں میں زیادہ تر کی‬
‫عمر ‪ 40‬سے زیادہ تھی‪ -‬ایک چور‬
‫نوجوان تھا‪ -‬سزا تجویز ہوئی تو‬
‫ایک وزیر نے بادشاہ سے نوجوان چور‬
‫کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی‬
‫اور کہا "بادشاہ سالمت! یہ چور‬
‫ابھی ابھی نوجوان ہوا ہے‪ -‬نوجوان‬
‫ہے اور نادان ہے‪ -‬نوجوانی میں‬
‫ایسی غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں‪-‬‬
‫اس کو معاف کر دیں‪ "-‬بادشاہ کو‬
‫بڑا غصہ آیا اور اس نے کہا‪:‬‬
‫" جس کی بنیاد بری ہے وہ بھلوں کا‬
‫سایہ بھی اپنے اوپر نہیں پڑنے‬
‫دیتا‪ -‬نااہل کی تربیت کرنا ایسا‬
‫ہے جیسا کہ گنبد پر اخروٹ‪-‬چوروں‬
‫کی نسل و جڑ جی کاٹ ڈالنا ہی‬
‫زیادہ بہتر ہے کیونکہ آگ کو‬
‫بجھانا اور چنگاری چھوڑ دینا اور‬
‫سانپ کو مارنا اور اس کے بچے کو‬
‫حفاظت سے رکھنا عقلمندوں کا کام‬
‫نہیں‪"-‬‬
‫وزیر بوال‪:‬‬
‫"‬

You might also like