World Noted Pakistani Scholor Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex MP I Writes On SUNDAY MAGAZINE DAILY JANG KARACHI DATED 03 JUNE 2018 To Madam Narjis Malik Editor Sun Day
محترم پروفیسر صف اوّل کے پاکستانی ماہر تعلیم اور اسکالر ہیں ، کئی ممالک میں پاکستان کا نام تعلیمی استعداد اور اپنی بہترین صلاحیتوں سے روشن کرچکے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے آپ کو دو مرتبہ تعلیم و ادب کے شعبوں میں ’’ پرائڈ اوف پرفارمنس‘‘ سے نوازا۔مشیر تعلیم برائے وفاقی محکمۂ تعلیم اور محکمۂ تعلیم سندھ رہے، سیکڑوں لیکچرز اور ہزاروں تحریریں کتابی اور انٹرنیٹ پی ڈی ایف کی صورتوں میں مل پاتی ہیں۔
ڈاکٹر سیّدمجیب ظفرانوارحمیدی کا ایک نادر مخطوطہ برائے نرجس ملک (ایڈیٹر سن ڈے میگزین ، روزنامہ جنگ ،کراچی) ہم نے حاصل کیا، آپ قارئین کی علمی و ادبی صلاحیتوں اور اساتذہ کرام کی علم دوست اور ادب شناس طبعیات کے لئے یہ خط ناگزیر ہے۔
آپ کا اپنا:
ایڈیٹر:
www.scribd.com/upload-document-profdrsyedmujeebzafaranwarhameedi/www.facebook.com/proffhameedi
Original Title
World Noted Pakistani Scholor Prof Dr Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex MP I Writes on SUNDAY MAGAZINE DAILY JANG KARACHI DATED 03 JUNE 2018 to Madam Narjis Malik Editor Sun Day
محترم پروفیسر صف اوّل کے پاکستانی ماہر تعلیم اور اسکالر ہیں ، کئی ممالک میں پاکستان کا نام تعلیمی استعداد اور اپنی بہترین صلاحیتوں سے روشن کرچکے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے آپ کو دو مرتبہ تعلیم و ادب کے شعبوں میں ’’ پرائڈ اوف پرفارمنس‘‘ سے نوازا۔مشیر تعلیم برائے وفاقی محکمۂ تعلیم اور محکمۂ تعلیم سندھ رہے، سیکڑوں لیکچرز اور ہزاروں تحریریں کتابی اور انٹرنیٹ پی ڈی ایف کی صورتوں میں مل پاتی ہیں۔
ڈاکٹر سیّدمجیب ظفرانوارحمیدی کا ایک نادر مخطوطہ برائے نرجس ملک (ایڈیٹر سن ڈے میگزین ، روزنامہ جنگ ،کراچی) ہم نے حاصل کیا، آپ قارئین کی علمی و ادبی صلاحیتوں اور اساتذہ کرام کی علم دوست اور ادب شناس طبعیات کے لئے یہ خط ناگزیر ہے۔
آپ کا اپنا:
ایڈیٹر:
www.scribd.com/upload-document-profdrsyedmujeebzafaranwarhameedi/www.facebook.com/proffhameedi
World Noted Pakistani Scholor Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex MP I Writes On SUNDAY MAGAZINE DAILY JANG KARACHI DATED 03 JUNE 2018 To Madam Narjis Malik Editor Sun Day
محترم پروفیسر صف اوّل کے پاکستانی ماہر تعلیم اور اسکالر ہیں ، کئی ممالک میں پاکستان کا نام تعلیمی استعداد اور اپنی بہترین صلاحیتوں سے روشن کرچکے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے آپ کو دو مرتبہ تعلیم و ادب کے شعبوں میں ’’ پرائڈ اوف پرفارمنس‘‘ سے نوازا۔مشیر تعلیم برائے وفاقی محکمۂ تعلیم اور محکمۂ تعلیم سندھ رہے، سیکڑوں لیکچرز اور ہزاروں تحریریں کتابی اور انٹرنیٹ پی ڈی ایف کی صورتوں میں مل پاتی ہیں۔
ڈاکٹر سیّدمجیب ظفرانوارحمیدی کا ایک نادر مخطوطہ برائے نرجس ملک (ایڈیٹر سن ڈے میگزین ، روزنامہ جنگ ،کراچی) ہم نے حاصل کیا، آپ قارئین کی علمی و ادبی صلاحیتوں اور اساتذہ کرام کی علم دوست اور ادب شناس طبعیات کے لئے یہ خط ناگزیر ہے۔
آپ کا اپنا:
ایڈیٹر:
www.scribd.com/upload-document-profdrsyedmujeebzafaranwarhameedi/www.facebook.com/proffhameedi
’’آپ کا صفحہ ‘‘(اشاعت۳ :؍ تا ۹؍ جون ۲۰۱۸ء )
روزنامہ جنگ’’ سنڈے میگزین‘‘،کراچی مورخہ۳ :؍ ُجون ۲۰۱۸ء ور نکہت !‘‘’’محف ِل رنگ و نُ ِ َوعلیکم السالم ؒ و برکاتہ‘ ! سالمت ،فعال ،ماال مال ،ہر لحاظ سے آسودہ حال رہئے ،آمین!! ت ٰالہیِ اطاع صیام عالیہ کاشف عظیمی نے ’’یہ رنگ و نُور اور یہ نکہت بھی۔۔۔‘‘،عمدہ لکھا۔بے شک ما ِہ کا ایک ُکھال مظہر ہے ،شاباش بیٹی ! جی خوش ہوا۔اگرُ ،مجھ سے کوئی بچّہ (انٹرویو)میں یہ پوچھے ،کہ، ’’:بڑے میاں ! ما ِہ رمضان ،سحر تا افطار ،بستر پر پڑے ہائے ہائے کرنے اور مسجد کے پھیرے لگانے کے عالوہ کیا ہے ؟‘‘توایک خفیف مسکراہٹ کے بعد میرا جواب ہوگا !’’میاں ! جیتے رہو ! ہللا نے تمھیں، ُمجھ پنبہ دہن ،ہیچ میرز ،کمترین کے انٹرویو کی توفیق تو بخشی ،حاالنکہ ،بیٹا! آپ کے ادارے کے ستّرے بہتّرے سالہ بزرگان ُخوب جانتے ہیں ،کہ ،مجیب ظفر انوار کون ہے ؟ سب کو چھوڑو ’’ چاچا گوگل ‘‘ تو ایک ایک کی قلعی کھولنے والے’’بابا جمالو ‘‘ ہیں ،ایسی ایسی نادر ونایاب تصاویر دکھاتے ہیں کہ غریب معلّم ،گھنٹوں ’’مصورانہ ُخوبیوں ‘‘ کے پیچ و خم میں اُلجھا پُرانا ،شناسا چہرہ پہچاننے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے،کہ ،اس ’’چھورے ‘‘ کو کہاں دیکھا ہے ؟ اچانک ،جنم ُکنڈلی پھینک ،آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے ’’:کون ہے یہ لڑکا ؟‘‘ ’’گزرا وقت !‘‘ مح ِو حیرت آئینہ ،جواب دیتا ہے اور اِستادہ ’’عکس ‘‘ کی آنکھوں سے کئی موتی لڑھکتے کشش ثقل کی داد دئے جاتے ہیں،تو میرا جواب ہوگا کہ ’’:بیٹا ! ما ِہ رمضان ،کم کھانے ،کم بولنے اور کم ِ سونے والی’ سعید‘ تربیت گاہ ہے،گویا’’سعی‘‘پر’’دال‘‘ ہے!‘‘ ۔عالیہ کاشف عظیمی صاحبہ کی تحریر، انداز تحریر لئے ہوئے تھی ،اس لئے ’’اولّین تبصرہ ‘‘ تحریر کا حق ہے ۔مختصر ترین پیرائے ِ جداگانہ تتسکین راح ِِ ب مردانہ ‘‘ اور ’’ تالیف قلو ِ ِ میں بہت کچھ کہا،لکھا،سمجھایا ۔اکثر سوچتا ہوں،کہ ’’:،ہر جگہ جاناں ‘‘ اور ’’ سیرابئ تشنگئ دیداں ‘‘ ،کو ،عورت ہی کیوں ؟ کیا عورت ذات نے خود غرض ،خود پسند ،خود پرست مردانہ معاشرے کی ہر نوع کی ’’ تسکین ‘‘ کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟ کیا سارے جہاں کی خوشیوں کی ذمہ داریاں ،قدرت نے ایک ہی کمزور و ناتواں وجود میں ’’سمیٹ ‘‘ رکھی ہیں ،کہ،اس’’ موٹر‘‘ کا واحد ’’ریڈی ایٹر ‘‘ ،اُس کی آنکھیں اور ’’ آنسو ‘‘ واحد ’’ ٹمپریچر مینٹیننس مٹیریل ‘‘ ہیں ؟یہ قوت و برداشت ہے ،لیکن،ظالمو!! اس کا یہ سچ ہے کہ ’’عورت‘‘ میں ہر طرح کا درد سہنے کی ہمت ّ ، مطلب تو نھیں کہ اُسے مستقل’’ درد‘‘ دئے جاؤ!!کیوں ؟؟؟ مرد کیوں نھیں ؟برداشت کرتا اور پھر روتا تو مر د بھی ہے اور عورت سے ’’بہترین ‘‘ اشک فشانی جانتا ہے ،لیکن ’’جھوٹی انا ‘‘ کا بھرم ،جب قدرت میر تقی کی طرح اعالن کرتا کیوں پھرے ؟ ت ؔنے سنبھالنے کا ذمہ لے رکھا ہے تو ،حضر ِ ’’مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی سنے شعر زبانی اس کی میر ؔ دریا ہے ُ ہللا ہللا رے طبیعت کی روانی اس کی !‘‘ ()۲ شاید اس دنیا میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے ،سو ،نوشتۂ دیوار ٹھیرا۔سرورق پر موجود’’ وجود‘‘ کے روشن و ملیح چہرے پر نظر ظاہر ہے اُٹھ گئی’’،تمھیں دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں ،نظر ،نسیم صبح ُگلشن میں ُگلوں سے کھیلتی ہوگی ،کسی کی آخری ہچکی ِ آخر نظر ہے بے ارادہ اُٹھ گئی ہوگی ،کسی کی دل لگی ہوگی !‘‘ ،تو ایسے ہی بیٹا ! میری نظر اس بیٹی پر پڑی اور دل سے بے ساختہ ،اس کے ’’ اچھے نصیبہ ‘‘ کی دعا ئیں نکلیں ۔مجھے اپنے بزرگ یُوں بھی اکثر یاد آتے ہیں ،کہ ،اُن کی لڑکیوں کو دی جانے والی دعاؤں میں ایک جمال الزمی ہو اکرتا تھا ’’:ا ہلل نصیبہ اچھا کرے ،ہللا تیرا نصیبہ چمکائے رکھے ! آمین !‘‘ اور جب کسی کو مالزمت میں ترقی ملتی یا کوئی خوشی ہوتی یا کوئی کار یا اچھی چیز خریدتا تو اُن بزرگوں کی دعا ہوتی ’’ :ہللا َب َرتنا نصیب کرے !‘‘ ،میرے محترم و مرحوم رفیق کار ،پروفیسر اقبال احمد انصاری بیس گریڈ میں ترقی پاکر ،ایک ،نئے عالیشان سرکاری کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے چارج لینے اُس کالج میں گئے ہی تھے ،غش کھاکر گرے اور وفات پاگئے ’’ ،ہللا برتنا نصیب کرے !‘‘ کئی روز میرے کانوں میں ایک ہی نقارہ ِپٹتا رہا ’’:ہللا برتنا نصیب کرے !‘‘ ’’ ،ہللا نصیبہ بہترین کرے !‘‘ ’’ ہللا تمہا را ہامی و ناصر ہو !‘‘ ’’ ،ہللا تمہارا ہوجائے یا تمہیں اپنا بنالے !‘‘ بھئی ،نرجس بیٹی ! عجب دعائیں ہوا کرتیں وہ ۔خوشحالی ،چونچالی کا دور ،جب ہر طلوع ہوتے دن اور غروب ہوتی شام کو ’’ اپنی شناخت ‘‘ نھیں کروانا پڑتی تھی ،کہ ’’ ،دیکھ لو ! ہم یہ ہیں !‘‘ یہ تو ہمارے بزرگوں کے پاس دھندلے ،اندھے ،اوجھل بڑے بڑے کاغذات تھے ،جنھیں وہ اپنی ’’ متروکہ حویلیوں و جائدادوں کے فوٹو ‘‘ کہا کرتے اور ہر آنے ،جانے والے’’ ،معترض ‘‘ سرکاری افسر ان کو دِکھاتے کہ ’’:میاں صاحب زادے ! دیکھ لو ! یہ چھوڑ کر آئے ہیں !‘‘ ایک عجب معنی خیز ُمسکراہٹ اُن بزرگان کے لبوں پر ہوا کرتی ،جب وہ روبکاری افسر کو ایسی خوش ُکن اطالع دیا کرتے تو ،کہ میاں ،کبھی ہم بھی گھر بار ،کوٹھی ،حویلی والے تھے ،چار سو گز کے پالٹ میں تو ہمارے مال مویشی بندھا کرتے تھے ۔ تم کیا جانو ،ہم کون ؟ لوگو! تم کیا جانو ،اِن معصوم ’’ چڑیوں ‘‘ کا آشیانہ بھال کون سا ،تم بھال کیا جانو ،سمجھو ،اِن چہکتی کوئلوں کے جذبات اور خوف زدہ دھک دھک کرتے دلوں کی ضربات ۔ تم کبھی نھیں جان سکتے ،کیونکہ تم ’’ مرد‘‘ ہو ،یہ تین حروف ’’ م ،ر ،د ‘‘ تمہارا ایسا ’’ سی وی ‘‘ ہیں کہ تمہیں اور کسی اضافی ’’ دستاویزی ثبوت ‘‘ کی ضرورت ہی نھیں ،تم ’’ مرد‘‘ ہو ،ایک جاندار کو ’’ بے زبان ‘‘سے ’’بے جان‘‘ کردینے اور اپنی ’’ نسلوں کی بقاء کی امینہ ‘‘ کر ڈالنے والے ،تمھیں بھال جاننے ،پرکھنے ،سوچنے کی کیا ضرورت ،کہ ایک معصوم وجود بے سبب ،چٹ چٹ اپنی کمزور انگلیاں کیوں مروڑے،توڑے جاتا ہے بحور بیکراں’’ آنکھوں‘‘ میں اچانک پریشان ُکن حیرت کیوں ِ ؟ کسی ملیح،روشن چہرے پر موجود ’’دو‘‘ بِپھرآئی ؟ تم تو ’’ مرد ‘‘ ہو ،تم ’’ ماڈل ‘‘ کے خد و خال پر تبصرے کرو ،تجزئے کروَ ،رل ِمل کے ٹھٹھے لگاؤ ،لیکن ۔۔ یاد رکھو ! ایک دن تم بھی’’ بیٹی ‘‘ کے باپ بنو گے ،ان شاء ہللا ! بس ،وہی دن ہوگا ،جب تمہارے ’’ مردانہ وقار کابھرم ‘‘ اُس ننھے زنانہ وجود کے سامنے ُکھل جائے گا اور اُسے وہ سب کچھ دے گا ،جو ’’ لڑکی ‘‘ کا باپ بننے سے پہلے تم ’’ صنف نازک ‘‘کو دینا تو درکنار ، اِس’’تقدیس‘‘ کے بارے میں سوچنا تک ’’ مردانہ توہین ‘‘ جانا کرتے تھے ،ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا ،یاد رکھو ! تم ’’ بدو‘‘ بھی نھیں ،جو ’’داماد‘‘ اور’’ بیٹی کے خسر ‘‘کے سامنے سر ُجھکانے کے خوف سے اس ننھے ک لک ْالت ُ ِ وتی ال ُمل َ ک ْال ُم ِ گوشت کے لوتھڑے کو ’’ زندہ در گور ‘‘ کر آؤ! ہاہاہا۔۔یہی تو ’’ دنیا ہے !‘‘ ’’ مال ُ ک ِم ّمن تشا ُء ‘‘(آ ِل عمران) کی بچھائی بساط ،ہاہا۔۔۔یہاں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی تنزع ُ ْال ُمل َ من تشا ُء َو ِ ہوتارہے گا ۔یہاں ’’ یہ رنگ و نُور اور یہ نکہت بھی ۔۔۔‘‘ ،سبھی کچھ ملے گا لیکن ’’ محبت ،عشق ، جنون ‘‘ سے کہیں آگے ،بس ایک ’’،احترام‘‘ ،ایک’’ عقیدت ‘‘ کے ساتھ ۔ باپ ،بیٹی کو دیکھتا ہے ، بھائی ،بہن پر نظر ڈالتا ہے ،دیور ،بھاوج کو ’’شریر‘‘ لیکن باادب نظروں سے دیکھ کر مخاطب کرتا ہے ، ()۳ وغیرہ ،یہ سب ،یہی کچھ ،ہوتا چال آیا ہے ،لیکن ہماری ’’ مشرقی اقدار ‘‘ والے گھرانوں میں ،جن کے بوسیدہ ٹرنکوں میں آج بھی داغ دار عکوس چیختے ہیں ’’ :دیکھو میاں ! یہ چھوڑ کر آئے ہیں !‘‘ کلجگ نھیں کر جگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے (نظیر اکبر آبادی) ’’ ،نظم‘‘ ساتھ ہے بیٹا! ؔ کیا ُخوب سودا نقد ہے اِس ہات دے ،ا ُ س ہات لے ّ ’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے بچّے محمد عمر اکبر وائنس ‘‘ کی برقی ِچٹھی آنکھیں پھاڑے پڑھی کہ میاں ’’ سنڈے میگزین ‘‘ کا مطالعہ فرما رہے ہیں یا ہللا نخواستہ ’’ میگزین پارے ‘‘ فرمارہے ہیں ،بقو ِل خود ’’: تسرورق ،کسی کے ہاتھ میں سینٹر اسپریڈ ،کسی کے۔۔۔‘‘ میرے سامنے میری ’’ سہول ِ کسی کے ہاتھ میں ِ حیات ‘‘ ( بیوی ) آن کھڑی ہوئی ،اگر کبھی میگزین یا کسی رسالے ،مجلّے کے اوراق ’’ پریشاں ‘‘ بھی ہوئے ،تو فورا ً فرماتی ہیں کہ ذرا سلیقے سے ایک دو ِپن تو لگادیں ،لکھے کاغذات اُڑتے پھریں گے ،بے ادبی ہوگی ،بچّے کیا سیکھیں گے ؟ نرجس بیٹی ! میرے خیال میں وقت بہت گزر چکا ہے ،بچّے از خود، بہت کچھ سیکھ چکے ہیں ،اب ہم بڈھوں ،بے مصرفوں ،بے کاروں کی مطلق ضرورت نھیں ،ہر ،ہر، ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے !‘‘ کی موافق ’’ تجربہ و آگاہی ‘‘ کے وقیع درجات پر بچہ ِ ،مث ِل ’’:جو ّ فائز ہوچالہے ۔وہ تو میں نے دل ہی دل میں ہللا کا شکر ادا کیا ،کہ ’’:یا ہللا ! تیرا شکر ہے مالک ،کہ،میاں ’’سرجن‘‘ نہ ہوئے ،ورنہ اپنے دوچار ہم مزاجوں کے ساتھ اس نوع کی سرجری فرماتے کہ ،کسی کے ہاتھ میں مریض کا بازو ہوتا ،دوسرا ٹانگ دبوچتا ،تیسرا آنکھیں ،ناک ،کان سمیٹتا اور چوتھا ،سب سے خیاطی اعضاء‘‘ کا اہتمام کرتا جاتا ،استغفر ہللا !! ملک ِ سوئی تاگا ‘‘ لئے دھڑا دھڑ ’’زیادہ پُھرتیال ’’ ُ محمد رضوان صاحب کی چٹھی ،یہ خود مختار ’’توتا ‘‘ پکڑ الیا تو ’’پروف ریڈر ‘‘ نے چھٹی سطر میں ’’ مصرے ‘‘ اور ’’ مصرعے ‘‘ پر بھی سر نہ دُھنا ،دوستو ! چالیس برسوں سے ہر طرے(طرح) کی’’ارمانوں ‘‘ بھری کاپیاں ’’ جانچ رہا ہوں !‘‘ ،امتحانی کاپی پکڑتے ہی ،اُس کے لمس سے بتادوں کہ ت استعمال کے باعث مفقو ِد بینائی ، کیا لکھا ہوگا ،پڑھنا تو دُور کی بات ،کورا اندھا ہوں ،سیدھی آنکھ کثر ِ معالجِ چشم کی وہی طفالنہ ضد ’’:ابھی موتیا پکا نھیں ہے !‘‘ ہاہاہا۔۔۔کمال ہے !بہر حال ،ہللا اس محفل کو ب بہترین منز ِل ُمراد رکھے ،آمین ! ہمیشہ شاد ،آبادا ور بجان ِ ُ یہاں ’’ ،زندگی ‘‘ تو ہے ،یہاں کوئی حیران کن ’’ آئینہ ‘‘ نھیں ،کوئی صناعی نھیں ’’ ،دیدہ و دل تمام آئینہ ،آدمی اور اس قدر شفاف ‘‘ ،کی محفل ِبپا ہے ،اپنی اپنی بولو اور چمن سے ایک ہفتہ کو اُڑ جاؤ ِ ،پھر آجاؤ۔۔۔ اسی محف ِل رنگ و نُور اور نکہت آمیزی کا نام ’’ آپ کا صفحہ ‘‘ ہے!’’سن ڈے میگزین ‘‘ہے!! عالیہ بیٹی ! سچ سچ بتانا ،آپ کے ’’سینٹر آرٹیکل ‘‘ کا’’ عنوان‘‘ کس نے فائنل کیا تھا ؟ ):حم م م ۔۔ ): ’’ یقیناًمنصور کے پردے میں خدا ’نھیں ‘ بول رہا ہوگا ! ؟ ؟ ‘‘ ، ): خان خانی‘‘ بچّی کے دوسرے خان میں چھوٹی’’ ی ‘‘ لگنا رہ گئی تو نرجس پریشان ہوگئیں کہ بھال ’’ ِ سپر سانک ’’ ناممکن کو ممکن ‘‘ لڑکی ذات ’’ خان خان‘‘ کیسے ہوئی ؟ ارے ہوگئی بس ،ترقی کے اس ُ بنادینے والے دور میں ہوگئی وہ ’’ خانی ‘‘ کی بجائے ’’ خان خان ‘‘ہوگئی ،مومن خان تو دو مومنین کے مومن ) ،بچّی تو محض ’’ خان اسکوائر ‘‘ ہے (ریاضی کی ُرو سے ، ؔ بِیچوں بِیچ ’’خان‘‘ تھے(مومن خان خان ضربے خان برابر ہے خان اسکوائر یا خان ٹو دی پاور ٹُو ! ) ہاہاہاہا۔۔ہاہاہا۔۔کمال ہے خدائی قسم ، ہاہاہاہا۔۔۔ماشاء ہللا ’’ ناقاب ِل فراموش ‘‘ میں ایک سے بڑھ کر ایک تحریریں شام ِل اشاعت ہورہی ہیں ، بالخصوص تحریروں کا ابتدائیہ اور انتہائیہ انتہائی متاثر کن ہوتا ہے ،عقیل احمد کی ’’ اُن کی محبت مجھے جوان رکھتی ہے!‘‘ ،اُسی صدیوں ()۴ پرانے ’’ کرب ‘‘ کی غ ّماز ہے ،کہ’’ ،میاں دیکھ لو ! یہ چھوڑ کرآئے ہیں !‘‘ ’’،ڈائجسٹ ‘‘ میں اشفاق بیگ صاحب کی ’’ نعت شریف ﷺ‘‘ کی سعادت ،بس ’’ اِک نظر کرم کا محتاج ‘‘ بنا گئی اور ،اپنی دُوری ب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی اور حائل فاصلوں پر بے انتہا بے بسی کا احساس ہوا’’ ،۔۔۔کیوں آگئے ؟ قل ِ ،دل وہیں رہ گیا ،جاں وہیں رہ گئی ،ہاں وہیں پرتو اپنی جبیں رہ گئی !‘‘ طارق بلوچ نے اسی فلسفے کو ’’المیہ ‘‘ میں پیش کردیا ،واہ !’’متفرق‘‘ میں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطالحیں ‘‘ اور ’’ خیبر پختون خوا میں رمضان ‘‘ مزا دے گئیں ،جو شخص جتنا بہترین اور بڑا نیک کام کرتا ہے ،اُس کے ساتھ اُسی قدر طاقت ور شیاطین لگ جاتے ہیں ،کہ یہ نیک کام اِس شخص سے نہ ہونے پائے تو ہللا کی پناہ واحد حل ہے ،تو ہللا نے فرمایا کہ اے مومنو ! ’’ شیاطین کے ہم زاد سے پناہ مانگو ! ‘‘ یہ صریحاًشیطانی کارستانی ہے کہ ’’نیک کام ہونے نہ پائے!‘‘ بس جب کبھی شیطانی اُکساہٹ تمہیں اُکسائے تو ’’ اَعوذُ باہلل ! ‘‘ پکارو ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ :اسے معمولی نہ سمجھو ،کلمۂ اَعوذ باہلل ،شیاطین کے غیض(غیظ) و غضب پر پردے ڈال دیتا ہے !‘‘ اندھا،بہرا ،لُوال ،لنگڑا شیطان ،اپنا لہو لہان چہرہ ِپیٹتا بھاگتا ہے ،تو یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ما ِہ رمضان کا ہر’’ سنڈے میگزین‘‘ ایک روح پرور’’ نُور‘‘ کے ہالے میں طلوع ہورہا ہے ،سبحان ہللا !! ’’ڈائجسٹ ‘‘ ہو ’’ ،متفرق ‘‘ ہو ’’ ،سینٹر ‘‘ ت ما ِہک بنو انوار و تجلیّا ِ سلَ ِ ہو’’،پیارا گھر‘‘ہو’’،ہیلتھ و فٹنس‘‘ ہو ،سب ایک ہی لڑی کے گویا ’’ گواہر ِ َ رمضان‘‘ کی سعادتوں و برکتوں کے آئینہ دار ہیں! ارے،یہ کم بخت’’ ٹرمپا ‘‘ جس سے ،دل کرے ،ملتا پھرے ،مکار ،شکل سے اس کی سردی لگتی ہے مجھے ،ہر شمارے میں اس ’’روسیاہ‘‘ پر کوئی نہ مضمون ضرور ہوتا ہے۔ ’’ہمارے ادارے ‘‘ میں ’’ ملتا ن پریس کلب ‘‘ پڑھ کر لطف آگیا ،معلومات افزاء بھی اور تاریخ کا آئینہ دار بھی ،شگفتہ بلوچ صاحبہ نے واقعی تلخ تاریخی حقائق ،ریاست کے ناگزیر ستون(صحافت) کے حوالوں سے نہایت شگفتہ انداز میں تحریر کردئے ۔’’صدور‘‘ و’’ سیکریٹریز‘‘ میں بڑے بڑے نام پڑھنے کو ملے داستان میاں صاحب رفتہ رفتہ ’’مرئی ‘‘ کے ساتھ ’’ غیر مرئی ‘‘ ِ ۔’’ 26شامی روڈ‘‘ کا جواب نھیں ، حوالوں کو لئے آگے بڑھے جاتی ہے سبحان ہللا ! صاحب زادے لکھ بھی ُخوب رہے ہیں ۔واقعی یہ ’’ ث زمانہ کی ایک رنگا رنگ لڑی کہالئی جاسکتی داستان ‘‘ دلچسپ واقعات ،حیران ُکن اتفاقات اور حواد ِ ہے ۔راؤ محمد شاہد اقبال صاحب ،سے پہلے تو اُن’’ دعائیہ لبوں‘‘ کے خاموش ہوجانے پر انتہائی دلی افسوس ،قبول فرمائیے،وہ لب جو آپ کے والد محترم کے ،خاموش ہوئے ،باپ کا دل بھی تو ایک اتھاہ ’’ ت غفلت و نادانی ‘‘ ُچپ ُچپاتے غرق ہوجایا سمندر ‘‘ ہے بھائی ،جس میں اوالد کی ہر طرح کی ’’ کثاف ِ کرتی ہے ،کوئی کیسے لکھے کہ ،کیسا غم پڑ گیا ،ہللا ،آپ و ُجمال متعلقین کوغم سہنے،برداشت کی ہمت دستور دنیا و مزاجِ زیست یہی ہے ۔صبر کیجئے اور مرحوم کے لئے دعائیں بھی ،کہ ِ دے ،صبر کی ،کہ بس یہی اُن کا اثاثہ ہوں گی ۔ نیک اوالد ’’صدقۂ جاریہ ‘‘ ہو اکرتی ہے۔نجمی صاحب نے آخری عشرۂ رمضان کی دعا ’’ بسم ہللا ! الھم اَجرنی /اجرنا من النار ‘‘ تو لکھی ہی نھیں ! ، ): ):سر جی!ہمیں پہلے سے یاد ہے ): لیجئے جناب ،بچّے اور بچوں کی مشترکہ ’’ نانی ماں ،دادی ماں ‘‘ایک شام،قبل از افطار ،مجھے بھی بہال سوالی ہوئے ،اب پُھسال کر بازار لے گئے تو ،میرے آگے بڑھتے ہی چھ ،آٹھ بچّے ،میری جانب بڑھ کر ُ ،مجھ جیسا کائیاں ’’پروفیسر‘‘ گھر سے منور راج پُوت صاحب کی تازہ تحقیق ’’ بھکاری آپ سے زیادہ سوالی چہرے دیکھتا اور کرنسی نوٹ ہاتھ میں امیر ہیں ‘‘ پڑھ کر گیا تھا ،چھے معصوم ،بے دُھلے ُ ، ب حق دار ‘‘ پرکھتا رہا ، پکڑے ’’ مستحق ‘‘ اور ’’ غیر مستحق ‘‘ کی جانچ کرتا رہا ،دیر تلک ’’حق بجان ِ لیکن جتنا وقت گزرتا ،میرے سامنے کا منظر دھندال اور نیم تاریک ہوتا چال جارہا تھا ،اچانک میرا ()۵ ’’سرد‘‘ وجود یک دم اُچھل پڑا ،عقب سے مانوس محبت لیکن تلخی بھری آواز اُبھری ’’ :میں تو ساتھ والے تھڑے پر خواتین کے ساتھ روزہ افطار آئی ہوں ،اب اگر جائز بھکاری پرکھ لیا ہو تو یہ کھجور اور پانی کی چھوٹی بوتل لے کراپنا روزہ کھول لیں اور ان غریبوں پر بھی اپنے اَن داتا ہونے کا ثبوت ذرا جلدی دے دیں !‘‘ ’’ا َ ن داتا ؟کون اَن داتا؟؟ میں بھکاری اعظم ؟؟؟ ،استغفر ہللا ربّی!!‘‘ ماحول میں کہیں دبی دبی ’’ ہچکیاں ‘‘ بلند ہوئیں اور کسی نے ہاتھوں میں پکڑے تمام بڑے چھوٹے کرنسی نوٹ ،اُن ننھے وجودوں کی جھولیوں میں منتقل کردئے اور کسی بڈھے کے بہتے آنسو ،اپنے رب کے حضور کے حضور چیختے ُ ،کرالتے،فریادکرتے رہے ،کہ ’’:اے ہللا !! اِن سب کی جھولیاں بھر دے صدقے محمد ﷺ کے ُ ،مجھ گناہ گار کا بھی کردے بھال صدقے محمد ﷺ کے !‘‘ سوالی کا ’’ کرائٹ ایریا ‘‘ کیسا ؟ سوال کرے ،بھال ُ ، یُوں ہی ُچپ ُچپاتے ،را ِہ موال،دے دیا کرو بیٹا ،جو ُ اُس نے ’’ ہللا ‘‘ کا ’’ ریفرنس‘‘ دیا اور بس گردن ُجھکا دی ۔ یہی تو ’’ بندگی ‘‘ ہے ! بھال ہللا نے بھی ’’ہمیں‘‘ نوازنے سے پہلے کسی سے کچھ مشورہ مانگا تھا؟،کچھ جانچا پرکھا تھا ؟؟ ہاہاہاہا ۔۔ہاہاہاہا۔۔ہرگز نھیں ،کبھی نھیں!! وہ بھال اپنے فیصلوں میں کسے شریک کرے گا؟ ہاہا۔۔۔ فی امان ہللا ! سب ،سارے جیتے رہو سنڈے میگزین والو! خوش ،سالمت ،فعال ،ماال مال رہئے آپ سب ، تعالی و برکات ! (ڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی ،گلبرگ ٹاؤن ، ٰ آمین !! بجا ِہ سیّ ِد ْال ُمرسلین ﷺ،السالم علیکم ؒ کراچی) ،موبائل فُون،1 : فیس بُک www.facebook.com/proffhameedi: گھر کا ٹیلے فُون : پس خیال : ِ نرجس بیٹی ! فی زمانہ ،میں ،نئی نسل میں جو اضطراب وبے چینی محسوس کررہا ہوں ،وہی اس نسل کی سنگین ترین بر افروختگی ہے اور انتہائی شرم ناک اقدار شکنی کا سبب بھی ،ان سب کو احاطۂ قلم کرنا ، نظیر اکبر آبادی مرحوم کے درد مند دل ،حساس طبیعت اور فکر انگیز ذہن کا ہی خاصہ ؔ صدی پہلے جناب ہے،وہ بھی صدی پہلے ۔سماجیات کی بکھری تہذیبی اَقدار کو،محبت کے میٹھے رسیلے بولوں کو،چمن میں ِکھلتے گالبوں کواور خوشیوں کے گیت گاتی آبشاروں کو ،اسی طور کو،فی زمانہ ،اِس(موٹر سائکلیں ُتر بے مہار‘‘ نسل کی تربیت سازی اور اُڑاتی،فاسٹ فوڈ،برگرکھاتی،بے نمازی،جاہل اجڈ،گستاخ) ’’ ش ِ تعمیر شخصیت کے لئے ہر اُستاد،بالخصوص اُردوا دبیات کے ’’پروفیسرز‘‘ کو اپنانا ہوگا،مسئلہ یہ ہے ِ بیٹی کہ ،فی زمانہ ’’ ،پروفیسر‘‘ بھی’’ مفت خورا‘‘اور الکھوں ُرپے ماہانہ ہتھیانے واال’’ ت َن آسان‘‘ بھکاری ہے اور ’’ طالب العلم ‘‘ بھی ۔کثیر المقاصد(سوائے پڑھائی کے)’’کوچنگ سینٹرز‘‘ (ہللا انھیں غارت و غیر فعال کرے مالک)جگہ جگہ ُکھلے ہیں اور سرکاری کالجز ویران و حیران ہیں ۔ لڑکی! جیسی محنت میں نے ’’امریکیوں ‘‘ کو ’’سطر والی کاپیوں‘‘ او ر اُردو انگریزی امال و تلفظات پر عشر عشیر بھی کوئی دوسرا پروفیسر کرکے دِکھادے تو جو چور کی سزا ،وہی ِ کرائی ہے،اُس کا ہماری،بیٹی! یہ بدبخت’’پروفیسر‘‘ نھیں ’’ ،پروفسیر‘‘ ہیں مردود ۔ ارے ،بچّوں کو پڑھانا اور بچّوں کے لئے لکھنا کوئی ’’ بچوں کا کھیل ‘‘ ہے ،دنیا جہان کے پی ،ایچ۔ڈی موضوعات ترک کرکے،ہم نے’’ اُردو ٰ مصطفے میں بچّوں کا ادب ،آزادی کے بعد‘‘ پراپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ باندھا۔ڈاکٹر اسلم فرخی ،ڈاکٹر غالم خان(جامشورو،حیدرآباد،سندھ)ڈاکٹر حسن وقار گل(سابق ڈین جامعۂ اُردو)ہماری تحقیق کے محترم نگران رہے۔الحمد ِ ّلِل ! آج تمہارے نانا کا مقالہ دنیا کی ()۶ نو( )۹زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہے ،اس کام کو سرکاری ادارے کررہے ہیں۔ نرجس بیٹی !میرے بس میں نظیر اکبر آبادی کیؔ ہوتا تو ’’ سندھ ٹیکسٹ بورڈ بُک کی ہشتم تا دواز دہم’’ اُردو نصابی کتب‘‘ میں جناب یہ نظم شامل کرواکے،پرچہ سازی کے لئے الزم قرار دیتا ،نظم کیا ہے ،ایک طرح کی ’’ تربیت گاہ ‘‘ اور ’’ شخصیت سازئ طلبہ ‘‘ کے اوزارو ہتھیار ہیں ۔نہ گولی ،نہ گالی !! مطالعہ فرمائیے ! ’’ کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے!‘‘ نظیر اکبر آبادی ؔ نظم ِ اُردو کے پہلے عوامی شاعر دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے میوہ ُکھال میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے کانٹا کسی کے مت لگا گو مث ِل ُگل پھوال ہے تُو وہ تیرے حق میں تِیر ہے کس بات پر بھوال ہے تُو مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھانس کا پوال ہے تُو کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے جو اور کو پھل دیوے گا وہ بھی سدا پھل پاوے گا گیہوں سے گیہوں جو سے جو چاول سے چاول پاوے گا جو آج دیوے گا یہاں ویسا وہ کل َواں پاوے گا کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے جو چاہے لے چل اس گھڑی سب جنس یاں تیار ہے آرام میں آرام ہے آزار میں آزار ہے دنیا نہ جان اس کو میاں دریا کی یہ منجدھار ہے اوروں کا بیڑا پار کر تیرا بھی بیڑا پار ہے کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے تُو اور کی تعریف کر تجھ کو ثنا خوانی ملے ()۷ کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے تُو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے روٹی ِکھال روٹی ملے ،پانی پال پانی ملے کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے کر ُچک جو کچھ کرنا ہو ،اب یہ دم تو کوئی آن ہے نقصان میں نقصان ہے احسان میں احسان ہے تہمت میں یاں تہمت لگے طوفان میں طوفان ہے رحمان کو رحمان ہے شیطان کو شیطان ہے کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اس ہات دے اُس ہات لے یاں زہر دے تو زہر لے ش ّکر میں ش ّکر دیکھ لے نیکوں کو نیکی کا مزا ُموذی کو ٹکر دیکھ لے موتی کودے موتی ملے پتھر میں پتھر دیکھ لے گر تُجھ کو یہ باور نھیں تو ،تُو بھی کر کر دیکھ لے کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اِس ہات دے اُس ہات لے ب ادراک رہغفلت کی یہ جاگہ نھیں ،یاں صاح ِ دل شاد رکھ دل شاد رہ ،غم ناک رکھ غم ناک رہ ہر حال میں تُو بھی نظیر ؔ اب ہر قدم کی خاک رہ یہ وہ مکاں ہے او میاں ! یاں پاک رہ بے باک رہ کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ،یاں دن کو دے اور رات لے کیا ُخوب سودا نقد ہے ،اِس ہات دے اُس ہات لے ت نظیر ؔ ‘‘ از جامعہ نظیر اکبر آبادی ،پیدائش ۱۷۴۶:ء تا ۱۸۳۱ء ) ماخذ ’’ :کلیا ِ ؔ (شاعر :شیخ ولی محمد ملیہ (دہلی) ایڈیشن ۱۹۹۹:ء انتخاب ،کمپوز کاری :پروفیسر سیّدمجیب ظفر انوار حمیدی،کراچی(پیدائش ۲۴:؍ اگست …….ء،لطیف آباد ،حیدر آباد سندھ۔ بقی ِد حیات)، سابق ُمشیر تعلیم برائے’’ نصاب سازی ،لینگویج ایڈوائزر،ریسرچ(اُردو)‘‘برائے وفاق،اسالم آباد|کیلی فورنیا(ویسٹ کووینا ،ریاست ہاے متحدہ امریکا) ،برائے گریڈ ، MP-I:سابق پرنسپل :گورنمنٹ ڈگری کالج’’،محکمۂ تعلیم و خواندگی‘‘ ،سندھ ،کراچی ) رابطہ موبائل فون :رابطہ سوشل میڈیا www.facebook.com/proffhameedi :
DAILY JANG , SUNDAY MAGAZINE "AAP KA SAFFHAA"(ISSUE:MAY 20th 2019) BY PROF DR SYED MUJEEB ZAFAR ANWAAR HAMEEDI , EX: MP-I EDUCATION ADVISER FOR FEDERAL DEPPT. OF EDUCATION AND EDUCATION & LITERACY DEPTT. GOVT OF SINDH. PAKISTAN
FIR FOR LOOTING PROF DR S MUJEEB ZAFAR ANWAR HAMEEDI EX MP-I EDUCATION ADVISER GOVT OF PAKISTAN IN KARACHI BUS BY PATTHAN DRIVER AND CONDUCTOR WHO ARE IN 4 L BUS KARACHI AT SADDAR STOPR BY 4L BUS DRIVER AND CONDUCTOR those who were drunk and were drinking wine
Aap Ka Safha Jang Sunday Magazine Editor Ms Narjis Malik Editor Daily Jang Karachi For 12th August 2018 Karachi by Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi