You are on page 1of 7

‫(‪)۱‬‬ ‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬

‫’’آپ کا صفحہ ‘‘(اشاعت‪۳ :‬؍ تا ‪۹‬؍ جون ‪۲۰۱۸‬ء )‬


‫روزنامہ جنگ’’ سنڈے میگزین‘‘‪،‬کراچی‬
‫مورخہ‪۳ :‬؍ ُجون ‪۲۰۱۸‬ء‬
‫ور نکہت !‘‘‬‫’’محف ِل رنگ و نُ ِ‬
‫َوعلیکم السالم ؒ و برکاتہ‘ ! سالمت ‪ ،‬فعال ‪ ،‬ماال مال ‪،‬ہر لحاظ سے آسودہ حال رہئے‪ ،‬آمین!!‬
‫ت ٰالہی‬‫ِ‬ ‫اطاع‬ ‫صیام‬ ‫عالیہ کاشف عظیمی نے ’’یہ رنگ و نُور اور یہ نکہت بھی۔۔۔‘‘‪،‬عمدہ لکھا۔بے شک ما ِہ‬
‫کا ایک ُکھال مظہر ہے‪ ،‬شاباش بیٹی ! جی خوش ہوا۔اگر‪ُ ،‬مجھ سے کوئی بچّہ (انٹرویو)میں یہ پوچھے ‪،‬کہ‪،‬‬
‫‪ ’’:‬بڑے میاں ! ما ِہ رمضان‪ ،‬سحر تا افطار‪ ،‬بستر پر پڑے ہائے ہائے کرنے اور مسجد کے پھیرے لگانے‬
‫کے عالوہ کیا ہے ؟‘‘توایک خفیف مسکراہٹ کے بعد میرا جواب ہوگا !’’میاں ! جیتے رہو ! ہللا نے تمھیں‪،‬‬
‫ُمجھ پنبہ دہن‪ ،‬ہیچ میرز ‪ ،‬کمترین کے انٹرویو کی توفیق تو بخشی‪ ،‬حاالنکہ ‪،‬بیٹا! آپ کے ادارے کے ستّرے‬
‫بہتّرے سالہ بزرگان ُخوب جانتے ہیں ‪،‬کہ‪ ،‬مجیب ظفر انوار کون ہے ؟ سب کو چھوڑو ’’ چاچا گوگل ‘‘ تو‬
‫ایک ایک کی قلعی کھولنے والے’’بابا جمالو ‘‘ ہیں ‪ ،‬ایسی ایسی نادر ونایاب تصاویر دکھاتے ہیں کہ غریب‬
‫معلّم ‪،‬گھنٹوں ’’مصورانہ ُخوبیوں ‘‘ کے پیچ و خم میں اُلجھا پُرانا ‪،‬شناسا چہرہ پہچاننے کی تگ و دو میں‬
‫لگا رہتا ہے‪،‬کہ ‪ ،‬اس ’’چھورے ‘‘ کو کہاں دیکھا ہے ؟ اچانک ‪،‬جنم ُکنڈلی پھینک ‪ ،‬آئینے کے سامنے جا‬
‫کھڑا ہوتا ہے ‪’’:‬کون ہے یہ لڑکا ؟‘‘‬
‫’’گزرا وقت !‘‘ مح ِو حیرت آئینہ‪ ،‬جواب دیتا ہے اور اِستادہ ’’عکس ‘‘ کی آنکھوں سے کئی موتی لڑھکتے‬
‫کشش ثقل کی داد دئے جاتے ہیں‪،‬تو میرا جواب ہوگا کہ‪ ’’:‬بیٹا ! ما ِہ رمضان‪ ،‬کم کھانے ‪ ،‬کم بولنے اور کم‬ ‫ِ‬
‫سونے والی’ سعید‘ تربیت گاہ ہے‪،‬گویا’’سعی‘‘پر’’دال‘‘ ہے!‘‘ ۔عالیہ کاشف عظیمی صاحبہ کی تحریر‪،‬‬
‫انداز تحریر لئے ہوئے تھی ‪ ،‬اس لئے ’’اولّین تبصرہ ‘‘ تحریر کا حق ہے ۔مختصر ترین پیرائے‬ ‫ِ‬ ‫جداگانہ‬
‫ت‬‫تسکین راح ِ‬‫ِ‬ ‫ب مردانہ ‘‘ اور ’’‬
‫تالیف قلو ِ‬
‫ِ‬ ‫میں بہت کچھ کہا‪،‬لکھا‪،‬سمجھایا ۔اکثر سوچتا ہوں‪،‬کہ‪ ’’:،‬ہر جگہ‬
‫جاناں ‘‘ اور ’’ سیرابئ تشنگئ دیداں ‘‘ ‪،‬کو‪ ،‬عورت ہی کیوں ؟ کیا عورت ذات نے خود غرض ‪ ،‬خود‬
‫پسند‪ ،‬خود پرست مردانہ معاشرے کی ہر نوع کی ’’ تسکین ‘‘ کا ٹھیکہ اُٹھا رکھا ہے؟ کیا سارے جہاں کی‬
‫خوشیوں کی ذمہ داریاں ‪ ،‬قدرت نے ایک ہی کمزور و ناتواں وجود میں ’’سمیٹ ‘‘ رکھی ہیں ‪،‬کہ‪،‬اس’’‬
‫موٹر‘‘ کا واحد ’’ریڈی ایٹر ‘‘ ‪ ،‬اُس کی آنکھیں اور ’’ آنسو ‘‘ واحد ’’ ٹمپریچر مینٹیننس مٹیریل ‘‘ ہیں ؟یہ‬
‫قوت و برداشت ہے ‪،‬لیکن‪،‬ظالمو!! اس کا یہ‬ ‫سچ ہے کہ ’’عورت‘‘ میں ہر طرح کا درد سہنے کی ہمت ‪ّ ،‬‬
‫مطلب تو نھیں کہ اُسے مستقل’’ درد‘‘ دئے جاؤ!!کیوں ؟؟؟ مرد کیوں نھیں ؟برداشت کرتا اور پھر روتا تو‬
‫مر د بھی ہے اور عورت سے ’’بہترین ‘‘ اشک فشانی جانتا ہے‪ ،‬لیکن ’’جھوٹی انا ‘‘ کا بھرم ‪ ،‬جب قدرت‬
‫میر تقی کی طرح اعالن کرتا کیوں پھرے ؟‬ ‫ت ؔ‬‫نے سنبھالنے کا ذمہ لے رکھا ہے تو‪ ،‬حضر ِ‬
‫’’مینھ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے‬
‫اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی‬
‫سنے شعر زبانی اس کی‬ ‫میر ؔ دریا ہے ُ‬
‫ہللا ہللا رے طبیعت کی روانی اس کی !‘‘‬
‫(‪)۲‬‬
‫شاید اس دنیا میں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے‪ ،‬سو‪ ،‬نوشتۂ دیوار ٹھیرا۔سرورق پر موجود’’ وجود‘‘ کے‬
‫روشن و ملیح چہرے پر نظر ظاہر ہے اُٹھ گئی‪’’،‬تمھیں دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں ‪ ،‬نظر‬
‫‪،‬نسیم صبح ُگلشن میں ُگلوں سے کھیلتی ہوگی ‪ ،‬کسی کی آخری ہچکی‬ ‫ِ‬ ‫آخر نظر ہے بے ارادہ اُٹھ گئی ہوگی‬
‫‪ ،‬کسی کی دل لگی ہوگی !‘‘ ‪ ،‬تو ایسے ہی بیٹا ! میری نظر اس بیٹی پر پڑی اور دل سے بے ساختہ ‪ ،‬اس‬
‫کے ’’ اچھے نصیبہ ‘‘ کی دعا ئیں نکلیں ۔مجھے اپنے بزرگ یُوں بھی اکثر یاد آتے ہیں ‪،‬کہ‪ ،‬اُن کی‬
‫لڑکیوں کو دی جانے والی دعاؤں میں ایک جمال الزمی ہو اکرتا تھا ‪’’:‬ا ہلل نصیبہ اچھا کرے‪ ،‬ہللا تیرا نصیبہ‬
‫چمکائے رکھے ! آمین !‘‘ اور جب کسی کو مالزمت میں ترقی ملتی یا کوئی خوشی ہوتی یا کوئی کار یا‬
‫اچھی چیز خریدتا تو اُن بزرگوں کی دعا ہوتی ‪ ’’ :‬ہللا َب َرتنا نصیب کرے !‘‘ ‪ ،‬میرے محترم و مرحوم رفیق‬
‫کار‪ ،‬پروفیسر اقبال احمد انصاری بیس گریڈ میں ترقی پاکر ‪،‬ایک‪ ،‬نئے عالیشان سرکاری کالج کے پرنسپل‬
‫کی حیثیت سے چارج لینے اُس کالج میں گئے ہی تھے ‪ ،‬غش کھاکر گرے اور وفات پاگئے ‪ ’’ ،‬ہللا برتنا‬
‫نصیب کرے !‘‘ کئی روز میرے کانوں میں ایک ہی نقارہ ِپٹتا رہا ‪ ’’:‬ہللا برتنا نصیب کرے !‘‘ ‪ ’’ ،‬ہللا‬
‫نصیبہ بہترین کرے !‘‘ ’’ ہللا تمہا را ہامی و ناصر ہو !‘‘ ‪ ’’ ،‬ہللا تمہارا ہوجائے یا تمہیں اپنا بنالے !‘‘‬
‫بھئی ‪،‬نرجس بیٹی ! عجب دعائیں ہوا کرتیں وہ ۔خوشحالی ‪ ،‬چونچالی کا دور‪ ،‬جب ہر طلوع ہوتے دن اور‬
‫غروب ہوتی شام کو ’’ اپنی شناخت ‘‘ نھیں کروانا پڑتی تھی ‪ ،‬کہ ‪ ’’ ،‬دیکھ لو ! ہم یہ ہیں !‘‘‬
‫یہ تو ہمارے بزرگوں کے پاس دھندلے ‪ ،‬اندھے ‪ ،‬اوجھل بڑے بڑے کاغذات تھے ‪ ،‬جنھیں وہ اپنی ’’‬
‫متروکہ حویلیوں و جائدادوں کے فوٹو ‘‘ کہا کرتے اور ہر آنے ‪ ،‬جانے والے‪’’ ،‬معترض ‘‘ سرکاری افسر‬
‫ان کو دِکھاتے کہ ‪ ’’:‬میاں صاحب زادے ! دیکھ لو ! یہ چھوڑ کر آئے ہیں !‘‘ ایک عجب معنی خیز‬
‫ُمسکراہٹ اُن بزرگان کے لبوں پر ہوا کرتی ‪ ،‬جب وہ روبکاری افسر کو ایسی خوش ُکن اطالع دیا کرتے تو‬
‫‪،‬کہ میاں ‪ ،‬کبھی ہم بھی گھر بار‪ ،‬کوٹھی ‪ ،‬حویلی والے تھے‪ ،‬چار سو گز کے پالٹ میں تو ہمارے مال‬
‫مویشی بندھا کرتے تھے ۔ تم کیا جانو ‪،‬ہم کون ؟‬
‫لوگو! تم کیا جانو ‪،‬اِن معصوم ’’ چڑیوں ‘‘ کا آشیانہ بھال کون سا ‪ ،‬تم بھال کیا جانو‪ ،‬سمجھو‪ ،‬اِن چہکتی‬
‫کوئلوں کے جذبات اور خوف زدہ دھک دھک کرتے دلوں کی ضربات ۔ تم کبھی نھیں جان سکتے ‪ ،‬کیونکہ‬
‫تم ’’ مرد‘‘ ہو‪ ،‬یہ تین حروف ’’ م‪ ،‬ر‪ ،‬د ‘‘ تمہارا ایسا ’’ سی وی ‘‘ ہیں کہ تمہیں اور کسی اضافی ’’‬
‫دستاویزی ثبوت ‘‘ کی ضرورت ہی نھیں ‪ ،‬تم ’’ مرد‘‘ ہو‪ ،‬ایک جاندار کو ’’ بے زبان ‘‘سے ’’بے جان‘‘‬
‫کردینے اور اپنی ’’ نسلوں کی بقاء کی امینہ ‘‘ کر ڈالنے والے‪ ،‬تمھیں بھال جاننے ‪ ،‬پرکھنے ‪،‬سوچنے کی‬
‫کیا ضرورت ‪،‬کہ ایک معصوم وجود بے سبب‪ ،‬چٹ چٹ اپنی کمزور انگلیاں کیوں مروڑے‪،‬توڑے جاتا ہے‬
‫بحور بیکراں’’ آنکھوں‘‘ میں اچانک پریشان ُکن حیرت کیوں‬ ‫ِ‬ ‫؟ کسی ملیح‪،‬روشن چہرے پر موجود ’’دو‘‘‬
‫بِپھرآئی ؟ تم تو ’’ مرد ‘‘ ہو ‪ ،‬تم ’’ ماڈل ‘‘ کے خد و خال پر تبصرے کرو‪ ،‬تجزئے کرو‪َ ،‬رل ِمل کے‬
‫ٹھٹھے لگاؤ ‪ ،‬لیکن ۔۔ یاد رکھو ! ایک دن تم بھی’’ بیٹی ‘‘ کے باپ بنو گے ‪ ،‬ان شاء ہللا ! بس ‪ ،‬وہی دن‬
‫ہوگا ‪ ،‬جب تمہارے ’’ مردانہ وقار کابھرم ‘‘ اُس ننھے زنانہ وجود کے سامنے ُکھل جائے گا اور اُسے وہ‬
‫سب کچھ دے گا ‪ ،‬جو ’’ لڑکی ‘‘ کا باپ بننے سے پہلے تم ’’ صنف نازک ‘‘کو دینا تو درکنار ‪،‬‬
‫اِس’’تقدیس‘‘ کے بارے میں سوچنا تک ’’ مردانہ توہین ‘‘ جانا کرتے تھے ‪ ،‬ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا‪ ،‬یاد رکھو ! تم ’’‬
‫بدو‘‘ بھی نھیں ‪ ،‬جو ’’داماد‘‘ اور’’ بیٹی کے خسر ‘‘کے سامنے سر ُجھکانے کے خوف سے اس ننھے‬
‫ک‬ ‫لک ْالت ُ ِ‬
‫وتی ال ُمل َ‬ ‫ک ْال ُم ِ‬
‫گوشت کے لوتھڑے کو ’’ زندہ در گور ‘‘ کر آؤ! ہاہاہا۔۔یہی تو ’’ دنیا ہے !‘‘ ’’ مال ُ‬
‫ک ِم ّمن تشا ُء ‘‘(آ ِل عمران) کی بچھائی بساط ‪ ،‬ہاہا۔۔۔یہاں یہی ہوتا آیا ہے اور یہی‬ ‫تنزع ُ ْال ُمل َ‬
‫من تشا ُء َو ِ‬
‫ہوتارہے گا ۔یہاں ’’ یہ رنگ و نُور اور یہ نکہت بھی ۔۔۔‘‘ ‪ ،‬سبھی کچھ ملے گا لیکن ’’ محبت ‪ ،‬عشق ‪،‬‬
‫جنون ‘‘ سے کہیں آگے ‪ ،‬بس ایک ‪’’،‬احترام‘‘ ‪ ،‬ایک’’ عقیدت ‘‘ کے ساتھ ۔ باپ ‪ ،‬بیٹی کو دیکھتا ہے ‪،‬‬
‫بھائی ‪ ،‬بہن پر نظر ڈالتا ہے ‪ ،‬دیور ‪ ،‬بھاوج کو ’’شریر‘‘ لیکن باادب نظروں سے دیکھ کر مخاطب کرتا‬
‫ہے ‪،‬‬
‫(‪)۳‬‬
‫وغیرہ ‪ ،‬یہ سب‪ ،‬یہی کچھ ‪ ،‬ہوتا چال آیا ہے ‪،‬لیکن ہماری ’’ مشرقی اقدار ‘‘ والے گھرانوں میں ‪ ،‬جن کے‬
‫بوسیدہ ٹرنکوں میں آج بھی داغ دار عکوس چیختے ہیں ‪ ’’ :‬دیکھو میاں ! یہ چھوڑ کر آئے ہیں !‘‘‬
‫؂ کلجگ نھیں کر جگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫(نظیر اکبر آبادی) ‪’’ ،‬نظم‘‘ ساتھ ہے بیٹا!‬
‫ؔ‬ ‫کیا ُخوب سودا نقد ہے اِس ہات دے ‪،‬ا ُ س ہات لے‬
‫ّ‬
‫’’آپ کا صفحہ ‘‘ میں اپنے بچّے محمد عمر اکبر وائنس ‘‘ کی برقی ِچٹھی آنکھیں پھاڑے پڑھی کہ میاں ’’‬
‫سنڈے میگزین ‘‘ کا مطالعہ فرما رہے ہیں یا ہللا نخواستہ ’’ میگزین پارے ‘‘ فرمارہے ہیں ‪ ،‬بقو ِل خود ‪’’:‬‬
‫ت‬‫سرورق ‪ ،‬کسی کے ہاتھ میں سینٹر اسپریڈ ‪ ،‬کسی کے۔۔۔‘‘ میرے سامنے میری ’’ سہول ِ‬ ‫کسی کے ہاتھ میں ِ‬
‫حیات ‘‘ ( بیوی ) آن کھڑی ہوئی‪ ،‬اگر کبھی میگزین یا کسی رسالے‪ ،‬مجلّے کے اوراق ’’ پریشاں ‘‘ بھی‬
‫ہوئے‪ ،‬تو فورا ً فرماتی ہیں کہ ذرا سلیقے سے ایک دو ِپن تو لگادیں ‪ ،‬لکھے کاغذات اُڑتے پھریں گے ‪ ،‬بے‬
‫ادبی ہوگی ‪ ،‬بچّے کیا سیکھیں گے ؟ نرجس بیٹی ! میرے خیال میں وقت بہت گزر چکا ہے‪ ،‬بچّے از خود‪،‬‬
‫بہت کچھ سیکھ چکے ہیں ‪ ،‬اب ہم بڈھوں ‪ ،‬بے مصرفوں ‪ ،‬بے کاروں کی مطلق ضرورت نھیں ‪ ،‬ہر‪ ،‬ہر‪،‬‬
‫ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے !‘‘ کی موافق ’’ تجربہ و آگاہی ‘‘ کے وقیع درجات پر‬ ‫بچہ ‪ِ ،‬مث ِل‪ ’’:‬جو ّ‬
‫فائز ہوچالہے ۔وہ تو میں نے دل ہی دل میں ہللا کا شکر ادا کیا‪ ،‬کہ ‪ ’’:‬یا ہللا ! تیرا شکر ہے مالک ‪،‬کہ‪،‬میاں‬
‫’’سرجن‘‘ نہ ہوئے‪ ،‬ورنہ اپنے دوچار ہم مزاجوں کے ساتھ اس نوع کی سرجری فرماتے کہ ‪،‬کسی کے‬
‫ہاتھ میں مریض کا بازو ہوتا‪ ،‬دوسرا ٹانگ دبوچتا‪ ،‬تیسرا آنکھیں ‪ ،‬ناک ‪ ،‬کان سمیٹتا اور چوتھا ‪ ،‬سب سے‬
‫خیاطی اعضاء‘‘ کا اہتمام کرتا جاتا ‪ ،‬استغفر ہللا !! ملک‬
‫ِ‬ ‫سوئی تاگا ‘‘ لئے دھڑا دھڑ ’’‬‫زیادہ پُھرتیال ’’ ُ‬
‫محمد رضوان صاحب کی چٹھی ‪ ،‬یہ خود مختار ’’توتا ‘‘ پکڑ الیا تو ’’پروف ریڈر ‘‘ نے چھٹی سطر میں‬
‫’’ مصرے ‘‘ اور ’’ مصرعے ‘‘ پر بھی سر نہ دُھنا‪ ،‬دوستو ! چالیس برسوں سے ہر طرے(طرح)‬
‫کی’’ارمانوں ‘‘ بھری کاپیاں ’’ جانچ رہا ہوں !‘‘ ‪،‬امتحانی کاپی پکڑتے ہی ‪ ،‬اُس کے لمس سے بتادوں کہ‬
‫ت استعمال کے باعث مفقو ِد بینائی ‪،‬‬ ‫کیا لکھا ہوگا‪ ،‬پڑھنا تو دُور کی بات‪ ،‬کورا اندھا ہوں ‪ ،‬سیدھی آنکھ کثر ِ‬
‫معالجِ چشم کی وہی طفالنہ ضد‪ ’’:‬ابھی موتیا پکا نھیں ہے !‘‘ ہاہاہا۔۔۔کمال ہے !بہر حال ‪ ،‬ہللا اس محفل کو‬
‫ب بہترین منز ِل ُمراد رکھے ‪ ،‬آمین !‬
‫ہمیشہ شاد ‪ ،‬آبادا ور بجان ِ‬
‫ُ‬
‫یہاں ‪ ’’ ،‬زندگی ‘‘ تو ہے‪ ،‬یہاں کوئی حیران کن ’’ آئینہ ‘‘ نھیں ‪،‬کوئی صناعی نھیں‪ ’’ ،‬دیدہ و دل تمام آئینہ‬
‫‪ ،‬آدمی اور اس قدر شفاف ‘‘‪ ،‬کی محفل ِبپا ہے ‪ ،‬اپنی اپنی بولو اور چمن سے ایک ہفتہ کو اُڑ جاؤ ‪ِ ،‬پھر‬
‫آجاؤ۔۔۔ اسی محف ِل رنگ و نُور اور نکہت آمیزی کا نام ’’ آپ کا صفحہ ‘‘ ہے!’’سن ڈے میگزین ‘‘ہے!!‬
‫عالیہ بیٹی ! سچ سچ بتانا ‪ ،‬آپ کے ’’سینٹر آرٹیکل ‘‘ کا’’ عنوان‘‘ کس نے فائنل کیا تھا ؟ ‪ ):‬حم م م ۔۔ ‪):‬‬
‫’’ یقیناًمنصور کے پردے میں خدا ’نھیں ‘ بول رہا ہوگا ! ؟ ؟ ‘‘ ‪، ):‬‬
‫خان خانی‘‘ بچّی کے دوسرے خان میں چھوٹی’’ ی ‘‘ لگنا رہ گئی تو نرجس پریشان ہوگئیں کہ بھال‬ ‫’’ ِ‬
‫سپر سانک ’’ ناممکن کو ممکن ‘‘‬ ‫لڑکی ذات ’’ خان خان‘‘ کیسے ہوئی ؟ ارے ہوگئی بس‪ ،‬ترقی کے اس ُ‬
‫بنادینے والے دور میں ہوگئی وہ ’’ خانی ‘‘ کی بجائے ’’ خان خان ‘‘ہوگئی ‪ ،‬مومن خان تو دو مومنین کے‬
‫مومن )‪ ،‬بچّی تو محض ’’ خان اسکوائر ‘‘ ہے (ریاضی کی ُرو سے ‪،‬‬ ‫ؔ‬ ‫بِیچوں بِیچ ’’خان‘‘ تھے(مومن خان‬
‫خان ضربے خان برابر ہے خان اسکوائر یا خان ٹو دی پاور ٹُو ! ) ہاہاہاہا۔۔ہاہاہا۔۔کمال ہے خدائی قسم ‪،‬‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔ماشاء ہللا ’’ ناقاب ِل فراموش ‘‘ میں ایک سے بڑھ کر ایک تحریریں شام ِل اشاعت ہورہی ہیں ‪،‬‬
‫بالخصوص تحریروں کا ابتدائیہ اور انتہائیہ انتہائی متاثر کن ہوتا ہے ‪ ،‬عقیل احمد کی ’’ اُن کی محبت‬
‫مجھے جوان رکھتی ہے!‘‘ ‪،‬اُسی صدیوں‬
‫(‪)۴‬‬
‫پرانے ’’ کرب ‘‘ کی غ ّماز ہے ‪،‬کہ‪’’ ،‬میاں دیکھ لو ! یہ چھوڑ کرآئے ہیں !‘‘ ‪’’،‬ڈائجسٹ ‘‘ میں اشفاق‬
‫بیگ صاحب کی ’’ نعت شریف ﷺ‘‘ کی سعادت ‪،‬بس ’’ اِک نظر کرم کا محتاج ‘‘ بنا گئی اور‪ ،‬اپنی دُوری‬
‫ب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی‬ ‫اور حائل فاصلوں پر بے انتہا بے بسی کا احساس ہوا‪’’ ،‬۔۔۔کیوں آگئے ؟ قل ِ‬
‫‪ ،‬دل وہیں رہ گیا ‪ ،‬جاں وہیں رہ گئی ‪ ،‬ہاں وہیں پرتو اپنی جبیں رہ گئی !‘‘‬
‫طارق بلوچ نے اسی فلسفے کو ’’المیہ ‘‘ میں پیش کردیا ‪ ،‬واہ !’’متفرق‘‘ میں ’’قرآن کی چار بنیادی‬
‫اصطالحیں ‘‘ اور ’’ خیبر پختون خوا میں رمضان ‘‘ مزا دے گئیں‪ ،‬جو شخص جتنا بہترین اور بڑا نیک‬
‫کام کرتا ہے‪ ،‬اُس کے ساتھ اُسی قدر طاقت ور شیاطین لگ جاتے ہیں ‪ ،‬کہ یہ نیک کام اِس شخص سے نہ‬
‫ہونے پائے تو ہللا کی پناہ واحد حل ہے‪ ،‬تو ہللا نے فرمایا کہ اے مومنو ! ’’ شیاطین کے ہم زاد سے پناہ‬
‫مانگو ! ‘‘ یہ صریحاًشیطانی کارستانی ہے کہ ’’نیک کام ہونے نہ پائے!‘‘ بس جب کبھی شیطانی اُکساہٹ‬
‫تمہیں اُکسائے تو ’’ اَعوذُ باہلل ! ‘‘ پکارو‪ ،‬نبی کریم ﷺ نے فرمایا ‪ ’’ :‬اسے معمولی نہ سمجھو ‪،‬کلمۂ اَعوذ‬
‫باہلل ‪ ،‬شیاطین کے غیض(غیظ) و غضب پر پردے ڈال دیتا ہے !‘‘ اندھا‪،‬بہرا‪ ،‬لُوال ‪ ،‬لنگڑا شیطان‪ ،‬اپنا لہو‬
‫لہان چہرہ ِپیٹتا بھاگتا ہے ‪ ،‬تو یہی تو کہہ رہا ہوں کہ ما ِہ رمضان کا ہر’’ سنڈے میگزین‘‘ ایک روح پرور’’‬
‫نُور‘‘ کے ہالے میں طلوع ہورہا ہے ‪ ،‬سبحان ہللا !! ’’ڈائجسٹ ‘‘ ہو ‪ ’’ ،‬متفرق ‘‘ ہو ‪ ’’ ،‬سینٹر ‘‘‬
‫ت ما ِہ‬‫ک بنو انوار و تجلیّا ِ‬ ‫سلَ ِ‬
‫ہو‪’’،‬پیارا گھر‘‘ہو‪’’،‬ہیلتھ و فٹنس‘‘ ہو‪ ،‬سب ایک ہی لڑی کے گویا ’’ گواہر ِ َ‬
‫رمضان‘‘ کی سعادتوں و برکتوں کے آئینہ دار ہیں!‬
‫ارے‪،‬یہ کم بخت’’ ٹرمپا ‘‘ جس سے ‪ ،‬دل کرے‪ ،‬ملتا پھرے ‪ ،‬مکار‪ ،‬شکل سے اس کی سردی لگتی ہے‬
‫مجھے‪ ،‬ہر شمارے میں اس ’’روسیاہ‘‘ پر کوئی نہ مضمون ضرور ہوتا ہے۔‬
‫’’ہمارے ادارے ‘‘ میں ’’ ملتا ن پریس کلب ‘‘ پڑھ کر لطف آگیا‪ ،‬معلومات افزاء بھی اور تاریخ کا آئینہ دار‬
‫بھی ‪،‬شگفتہ بلوچ صاحبہ نے واقعی تلخ تاریخی حقائق‪ ،‬ریاست کے ناگزیر ستون(صحافت) کے حوالوں‬
‫سے نہایت شگفتہ انداز میں تحریر کردئے ۔’’صدور‘‘ و’’ سیکریٹریز‘‘ میں بڑے بڑے نام پڑھنے کو ملے‬
‫داستان میاں صاحب رفتہ رفتہ ’’مرئی ‘‘ کے ساتھ ’’ غیر مرئی ‘‘‬ ‫ِ‬ ‫۔’’‪ 26‬شامی روڈ‘‘ کا جواب نھیں ‪،‬‬
‫حوالوں کو لئے آگے بڑھے جاتی ہے سبحان ہللا ! صاحب زادے لکھ بھی ُخوب رہے ہیں ۔واقعی یہ ’’‬
‫ث زمانہ کی ایک رنگا رنگ لڑی کہالئی جاسکتی‬ ‫داستان ‘‘ دلچسپ واقعات ‪ ،‬حیران ُکن اتفاقات اور حواد ِ‬
‫ہے ۔راؤ محمد شاہد اقبال صاحب ‪ ،‬سے پہلے تو اُن’’ دعائیہ لبوں‘‘ کے خاموش ہوجانے پر انتہائی دلی‬
‫افسوس‪ ،‬قبول فرمائیے‪،‬وہ لب جو آپ کے والد محترم کے‪ ،‬خاموش ہوئے‪ ،‬باپ کا دل بھی تو ایک اتھاہ ’’‬
‫ت غفلت و نادانی ‘‘ ُچپ ُچپاتے غرق ہوجایا‬ ‫سمندر ‘‘ ہے بھائی ‪ ،‬جس میں اوالد کی ہر طرح کی ’’ کثاف ِ‬
‫کرتی ہے‪ ،‬کوئی کیسے لکھے کہ‪ ،‬کیسا غم پڑ گیا ‪ ،‬ہللا ‪،‬آپ و ُجمال متعلقین کوغم سہنے‪،‬برداشت کی ہمت‬
‫دستور دنیا و مزاجِ زیست یہی ہے ۔صبر کیجئے اور مرحوم کے لئے دعائیں بھی‪ ،‬کہ‬ ‫ِ‬ ‫دے ‪ ،‬صبر کی‪ ،‬کہ‬
‫بس یہی اُن کا اثاثہ ہوں گی ۔ نیک اوالد ’’صدقۂ جاریہ ‘‘ ہو اکرتی ہے۔نجمی صاحب نے آخری عشرۂ‬
‫رمضان کی دعا ’’ بسم ہللا ! الھم اَجرنی ‪ /‬اجرنا من النار ‘‘ تو لکھی ہی نھیں ! ‪، ): ):‬سر جی!ہمیں پہلے‬
‫سے یاد ہے ‪):‬‬
‫لیجئے جناب ‪ ،‬بچّے اور بچوں کی مشترکہ ’’ نانی ماں‪ ،‬دادی ماں ‘‘ایک شام‪،‬قبل از افطار‪ ،‬مجھے بھی بہال‬
‫سوالی ہوئے‪ ،‬اب‬ ‫پُھسال کر بازار لے گئے تو ‪ ،‬میرے آگے بڑھتے ہی چھ ‪ ،‬آٹھ بچّے ‪ ،‬میری جانب بڑھ کر ُ‬
‫‪،‬مجھ جیسا کائیاں ’’پروفیسر‘‘ گھر سے منور راج پُوت صاحب کی تازہ تحقیق ’’ بھکاری آپ سے زیادہ‬
‫سوالی چہرے دیکھتا اور کرنسی نوٹ ہاتھ میں‬ ‫امیر ہیں ‘‘ پڑھ کر گیا تھا ‪ ،‬چھے معصوم ‪ ،‬بے دُھلے ‪ُ ،‬‬
‫ب حق دار ‘‘ پرکھتا رہا ‪،‬‬ ‫پکڑے ’’ مستحق ‘‘ اور ’’ غیر مستحق ‘‘ کی جانچ کرتا رہا‪ ،‬دیر تلک ’’حق بجان ِ‬
‫لیکن جتنا وقت گزرتا ‪ ،‬میرے سامنے کا منظر دھندال اور نیم تاریک ہوتا چال جارہا تھا ‪ ،‬اچانک میرا‬
‫(‪)۵‬‬
‫’’سرد‘‘ وجود یک دم اُچھل پڑا‪ ،‬عقب سے مانوس محبت لیکن تلخی بھری آواز اُبھری ‪ ’’ :‬میں تو ساتھ‬
‫والے تھڑے پر خواتین کے ساتھ روزہ افطار آئی ہوں ‪ ،‬اب اگر جائز بھکاری پرکھ لیا ہو تو یہ کھجور اور‬
‫پانی کی چھوٹی بوتل لے کراپنا روزہ کھول لیں اور ان غریبوں پر بھی اپنے اَن داتا ہونے کا ثبوت ذرا جلدی‬
‫دے دیں !‘‘‬
‫’’ا َ ن داتا ؟کون اَن داتا؟؟ میں بھکاری اعظم ؟؟؟‪ ،‬استغفر ہللا ربّی!!‘‘‬
‫ماحول میں کہیں دبی دبی ’’ ہچکیاں ‘‘ بلند ہوئیں اور کسی نے ہاتھوں میں پکڑے تمام بڑے چھوٹے کرنسی‬
‫نوٹ ‪ ،‬اُن ننھے وجودوں کی جھولیوں میں منتقل کردئے اور کسی بڈھے کے بہتے آنسو ‪ ،‬اپنے رب کے‬
‫حضور کے حضور چیختے ‪ُ ،‬کرالتے‪،‬فریادکرتے رہے ‪ ،‬کہ ‪’’:‬اے ہللا !! اِن سب کی جھولیاں بھر دے‬
‫صدقے محمد ﷺ کے ‪ُ ،‬مجھ گناہ گار کا بھی کردے بھال صدقے محمد ﷺ کے !‘‘‬
‫سوالی کا ’’ کرائٹ ایریا ‘‘ کیسا ؟‬ ‫سوال کرے ‪ ،‬بھال ‪ُ ،‬‬ ‫یُوں ہی ُچپ ُچپاتے ‪،‬را ِہ موال‪،‬دے دیا کرو بیٹا ‪ ،‬جو ُ‬
‫اُس نے ’’ ہللا ‘‘ کا ’’ ریفرنس‘‘ دیا اور بس گردن ُجھکا دی ۔ یہی تو ’’ بندگی ‘‘ ہے !‬
‫بھال ہللا نے بھی ’’ہمیں‘‘ نوازنے سے پہلے کسی سے کچھ مشورہ مانگا تھا؟‪،‬کچھ جانچا پرکھا تھا ؟؟‬
‫ہاہاہاہا ۔۔ہاہاہاہا۔۔ہرگز نھیں ‪ ،‬کبھی نھیں!! وہ بھال اپنے فیصلوں میں کسے شریک کرے گا؟ ہاہا۔۔۔‬
‫فی امان ہللا ! سب ‪ ،‬سارے جیتے رہو سنڈے میگزین والو! خوش ‪ ،‬سالمت‪ ،‬فعال ‪،‬ماال مال رہئے آپ سب ‪،‬‬
‫تعالی و برکات ! (ڈاکٹرمجیب ظفر انوار حمیدی ‪ ،‬گلبرگ ٹاؤن ‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫آمین !! بجا ِہ سیّ ِد ْال ُمرسلین ﷺ‪،‬السالم علیکم ؒ‬
‫کراچی)‬
‫‪،‬موبائل فُون‪،1 :‬‬
‫فیس بُک ‪www.facebook.com/proffhameedi:‬‬
‫گھر کا ٹیلے فُون ‪:‬‬
‫پس خیال ‪:‬‬ ‫ِ‬
‫نرجس بیٹی ! فی زمانہ ‪،‬میں‪ ،‬نئی نسل میں جو اضطراب وبے چینی محسوس کررہا ہوں ‪،‬وہی اس نسل کی‬
‫سنگین ترین بر افروختگی ہے اور انتہائی شرم ناک اقدار شکنی کا سبب بھی ‪ ،‬ان سب کو احاطۂ قلم کرنا ‪،‬‬
‫نظیر اکبر آبادی مرحوم کے درد مند دل ‪،‬حساس طبیعت اور فکر انگیز ذہن کا ہی خاصہ‬ ‫ؔ‬ ‫صدی پہلے جناب‬
‫ہے‪،‬وہ بھی صدی پہلے ۔سماجیات کی بکھری تہذیبی اَقدار کو‪،‬محبت کے میٹھے رسیلے بولوں کو‪،‬چمن میں‬
‫ِکھلتے گالبوں کواور خوشیوں کے گیت گاتی آبشاروں کو ‪،‬اسی طور کو‪،‬فی زمانہ‪ ،‬اِس(موٹر سائکلیں‬
‫ُتر بے مہار‘‘ نسل کی تربیت سازی اور‬ ‫اُڑاتی‪،‬فاسٹ فوڈ‪،‬برگرکھاتی‪،‬بے نمازی‪،‬جاہل اجڈ‪،‬گستاخ) ’’ ش ِ‬
‫تعمیر شخصیت کے لئے ہر اُستاد‪،‬بالخصوص اُردوا دبیات کے ’’پروفیسرز‘‘ کو اپنانا ہوگا‪،‬مسئلہ یہ ہے‬ ‫ِ‬
‫بیٹی کہ‪ ،‬فی زمانہ‪ ’’ ،‬پروفیسر‘‘ بھی’’ مفت خورا‘‘اور الکھوں ُرپے ماہانہ ہتھیانے واال’’ ت َن آسان‘‘‬
‫بھکاری ہے اور ’’ طالب العلم ‘‘ بھی ۔کثیر المقاصد(سوائے پڑھائی کے)’’کوچنگ سینٹرز‘‘ (ہللا انھیں‬
‫غارت و غیر فعال کرے مالک)جگہ جگہ ُکھلے ہیں اور سرکاری کالجز ویران و حیران ہیں ۔‬
‫لڑکی! جیسی محنت میں نے ’’امریکیوں ‘‘ کو ’’سطر والی کاپیوں‘‘ او ر اُردو انگریزی امال و تلفظات پر‬
‫عشر عشیر بھی کوئی دوسرا پروفیسر کرکے دِکھادے تو جو چور کی سزا ‪ ،‬وہی‬ ‫ِ‬ ‫کرائی ہے‪،‬اُس کا‬
‫ہماری‪،‬بیٹی! یہ بدبخت’’پروفیسر‘‘ نھیں ‪’’ ،‬پروفسیر‘‘ ہیں مردود ۔ ارے‪ ،‬بچّوں کو پڑھانا اور بچّوں کے‬
‫لئے لکھنا کوئی ’’ بچوں کا کھیل ‘‘ ہے‪ ،‬دنیا جہان کے پی ‪،‬ایچ۔ڈی موضوعات ترک کرکے‪،‬ہم نے’’ اُردو‬
‫ٰ‬
‫مصطفے‬ ‫میں بچّوں کا ادب‪ ،‬آزادی کے بعد‘‘ پراپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ باندھا۔ڈاکٹر اسلم فرخی‪ ،‬ڈاکٹر غالم‬
‫خان(جامشورو‪،‬حیدرآباد‪،‬سندھ)ڈاکٹر حسن وقار گل(سابق ڈین جامعۂ اُردو)ہماری تحقیق کے محترم نگران‬
‫رہے۔الحمد ِ ّلِل ! آج تمہارے نانا کا مقالہ دنیا کی‬
‫(‪)۶‬‬
‫نو(‪ )۹‬زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہے‪ ،‬اس کام کو سرکاری ادارے کررہے ہیں۔ نرجس بیٹی !میرے بس میں‬
‫نظیر اکبر آبادی کی‬‫ؔ‬ ‫ہوتا تو ’’ سندھ ٹیکسٹ بورڈ بُک کی ہشتم تا دواز دہم’’ اُردو نصابی کتب‘‘ میں جناب‬
‫یہ نظم شامل کرواکے‪،‬پرچہ سازی کے لئے الزم قرار دیتا‪ ،‬نظم کیا ہے ‪ ،‬ایک طرح کی ’’ تربیت گاہ ‘‘ اور‬
‫’’ شخصیت سازئ طلبہ ‘‘ کے اوزارو ہتھیار ہیں ۔نہ گولی ‪ ،‬نہ گالی !! مطالعہ فرمائیے ! ’’ کل ُجگ نھیں‬
‫کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے!‘‘‬
‫نظیر اکبر آبادی‬ ‫ؔ‬ ‫نظم‬
‫ِ‬
‫اُردو کے پہلے عوامی شاعر‬
‫دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے‬
‫نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے‬
‫میوہ ُکھال میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے‬
‫آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے ‪،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫کانٹا کسی کے مت لگا گو مث ِل ُگل پھوال ہے تُو‬
‫وہ تیرے حق میں تِیر ہے کس بات پر بھوال ہے تُو‬
‫مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھانس کا پوال ہے تُو‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫جو اور کو پھل دیوے گا وہ بھی سدا پھل پاوے گا‬
‫گیہوں سے گیہوں جو سے جو چاول سے چاول پاوے گا‬
‫جو آج دیوے گا یہاں ویسا وہ کل َواں پاوے گا‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫جو چاہے لے چل اس گھڑی سب جنس یاں تیار ہے‬
‫آرام میں آرام ہے آزار میں آزار ہے‬
‫دنیا نہ جان اس کو میاں دریا کی یہ منجدھار ہے‬
‫اوروں کا بیڑا پار کر تیرا بھی بیڑا پار ہے‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫تُو اور کی تعریف کر تجھ کو ثنا خوانی ملے‬
‫(‪)۷‬‬
‫کر مشکل آساں اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے‬
‫تُو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے‬
‫روٹی ِکھال روٹی ملے ‪ ،‬پانی پال پانی ملے‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫کر ُچک جو کچھ کرنا ہو‪ ،‬اب یہ دم تو کوئی آن ہے‬
‫نقصان میں نقصان ہے احسان میں احسان ہے‬
‫تہمت میں یاں تہمت لگے طوفان میں طوفان ہے‬
‫رحمان کو رحمان ہے شیطان کو شیطان ہے‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اس ہات دے اُس ہات لے‬
‫یاں زہر دے تو زہر لے ش ّکر میں ش ّکر دیکھ لے‬
‫نیکوں کو نیکی کا مزا ُموذی کو ٹکر دیکھ لے‬
‫موتی کودے موتی ملے پتھر میں پتھر دیکھ لے‬
‫گر تُجھ کو یہ باور نھیں تو ‪،‬تُو بھی کر کر دیکھ لے‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ‪ ،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اِس ہات دے اُس ہات لے‬
‫ب ادراک رہ‬‫غفلت کی یہ جاگہ نھیں‪ ،‬یاں صاح ِ‬
‫دل شاد رکھ دل شاد رہ ‪ ،‬غم ناک رکھ غم ناک رہ‬
‫ہر حال میں تُو بھی نظیر ؔ اب ہر قدم کی خاک رہ‬
‫یہ وہ مکاں ہے او میاں ! یاں پاک رہ بے باک رہ‬
‫کل ُجگ نھیں کر ُجگ ہے یہ ‪،‬یاں دن کو دے اور رات لے‬
‫کیا ُخوب سودا نقد ہے‪ ،‬اِس ہات دے اُس ہات لے‬
‫ت نظیر ؔ ‘‘ از جامعہ‬
‫نظیر اکبر آبادی ‪ ،‬پیدائش ‪۱۷۴۶:‬ء تا ‪۱۸۳۱‬ء ) ماخذ ‪’’ :‬کلیا ِ‬
‫ؔ‬ ‫(شاعر ‪ :‬شیخ ولی محمد‬
‫ملیہ (دہلی) ایڈیشن ‪۱۹۹۹:‬ء‬
‫انتخاب ‪ ،‬کمپوز کاری ‪:‬پروفیسر سیّدمجیب ظفر انوار حمیدی‪،‬کراچی(پیدائش‪ ۲۴:‬؍ اگست ‪…….‬ء‪،‬لطیف‬
‫آباد‪ ،‬حیدر آباد سندھ۔ بقی ِد حیات)‪،‬‬
‫سابق ُمشیر تعلیم برائے’’ نصاب سازی ‪ ،‬لینگویج ایڈوائزر‪،‬ریسرچ(اُردو)‘‘برائے وفاق‪،‬اسالم آباد|کیلی‬
‫فورنیا(ویسٹ کووینا ‪،‬ریاست ہاے متحدہ امریکا) ‪،‬برائے گریڈ‪ ، MP-I:‬سابق پرنسپل ‪ :‬گورنمنٹ ڈگری‬
‫کالج‪’’،‬محکمۂ تعلیم و خواندگی‘‘ ‪،‬سندھ‪ ،‬کراچی )‬
‫رابطہ موبائل فون ‪ :‬رابطہ سوشل میڈیا ‪www.facebook.com/proffhameedi :‬‬

You might also like