You are on page 1of 9

‫یکساں معیار تعلیم‪ :‬الجھے ہوئے تعلیمی بندوبست سے نکنے کی راہ‬

‫عامر ریاض‬
‫ہمارے ملک میں درجن سے زیادہ تعلیمی بندوبست چالئے جا رہے ہیں‬
‫کہ ان میں گذشتہ ‪ 35‬سالوں میں جو زمین و آسمان کا فرق پڑا ہے اس‬
‫کی وجہ سے تعلیم کا حلیہ نہ صرف بگڑ چکا ہے بلکہ اس کی روح‬
‫بھی مسخ ہو چکی ہے۔ تاثر یہ تگڑا ہوا ہے کہ ''اچھی'' تعلیم اور صحت‬
‫کی معیاری سہولتیں اسی پاکستانی کا حق ہے جو زیادہ پیسے خرچ‬
‫سکتا ہے۔ کہیں ''پیلے'' سکول ہیں‪ ،‬کیہں چاردیواریوں‪،‬ٹائلٹوں اور‬
‫بنچوں کے بغیر سکول ہیں تو کہیں ڈالروں میں فیسیں لینے والے‬
‫ائیرکنڈیشن سکول۔ ان میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے ماٹھے‬
‫اور امیر مدارس کو بھی شامل کر لیں تو ہمارے تعلیمی نظام کی پوری‬
‫تصویر سامنے آتی ہے جو کہیں بے رنگ ہے‪ ،‬تو کہیں اس پر کروفر‬
‫کے بدنماع داغ ''تعلیم سب کے لیے'' جیسے دعووں کو چڑا رہے ہیں‬
‫تو کہیں صاف ستھرے یونیفارم میں چٹ پٹ انگریزیاں بولتے بچے‪ ،‬جو‬
‫سوچتے بھی انگریزی ہی میں ہیں اور شاہد خواب بھی انگریزی میں‬
‫دیکھتے ہیں۔ ایسے سکول بھی ہیں جہاں پاکستانی مادری زبانیں ہی نہیں‬
‫بلکہ اردو بولنا بھی منع ہے۔ تعلیمی نظاموں میں یہ فرق اس وقت زیادہ‬
‫چھبنے لگا جب ‪ 1970‬کی دہائی کی ابتدا میں تعلیمی انجمنوں کے تحت‬
‫چلنے والے سکولوں کو قومیا لیا گیا اور پھر اسی دہائی کے آخری‬
‫سالوں میں جنرل ضیا الحق نے سیاسی فائدوں کے لیے ریگولیشن کے‬
‫بغیر ملک بھر میں نجی تعلیم کوپنپنے کی راہ دکھائی۔ مسلہ اگر تعلیم‬
‫کو ٹھیک کرنے کا ہوتا تو تعلیمی انجمنوں سے رجوع کیا جاتا مگر‬
‫ضیا نے تو پی پی پی کا مکو ٹھپنے کے لیے نیشنالئزیشن کی پالیسی‬
‫سی ڈسے ہوئے لوگوں کو بھٹو کے خالف استعمال کرنا تھا۔ ریگولیشن‬
‫کے بغیر کی جانے والی مادر پدر تعلیمی نجکاری کا ''جن'' بوتل سے‬
‫نکال تو اس نے پاکستان ہی کا چہرہ گہنا ڈاال۔ علم و فکر کی چھٹی ہوئی‬
‫اور پیسہ‪ ،‬عہدہ ہی قدر واحد ٹہرا۔ ہمارے تعلیمی حاالت اس قدر‬
‫دگرگوں ہو چکے ہیں کہ آج ہر درد دل رکھنے واال پاکستانی اس بارے‬
‫پریشان نظر آتا ہے۔ کچھ اعلی اذہان اس کا حل نا قابل عمل ''یکساں‬
‫نظام تعلیم'' میں ڈھونڈنے میں غلطاں ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہےکہ نجی‬
‫تعلیمی اداروں کو یا تو یکسر ختم کردیا جائےیا پھر ان تعلیمی اداروں‬
‫میں سرکاری نصاب لگا دیا جائے۔ یہ تجویز دینے والے ہشیاری سے‬
‫مدارس کی بات گول کر جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ بات بھول جانا چاہتے‬
‫ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کو قومیانے کے بعد تعلیمی معیار میں‪ ،‬ہر‬
‫سطح پر بتدریج گھاٹے دیکھے گئے تھے۔ اس کی بڑی وجہ تعلیمی‬
‫بیوروکریسی کے حجم میں ہوش ربا اصافہ اور تعلیمی بصیرتوں کا‬
‫فقدان تھا۔ سرکاری سطح پر نصابی کتب لکھنے اور اس کی منظوریوں‬
‫کا قابل فخر بندوبست نہیں ہے تو ان کو نجی سکولوں کے نصاب کی‬
‫ذمہ داری کیسے دی جا سکتی ہے؟‬
‫‪ 2007‬میں مجھے ایک قومی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کا موقعہ مال‬
‫جہاں یہ تجویز گردش میں تھی کہ ایساقانون بنا دیا جائے جس کے تحت‬
‫ہر سطح کے سرکاری مالزمین اور صوبائی و مرکزی اسمبلیوں کے‬
‫اراکین اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں ہی میں پڑھائیں۔ بظاہر یہ‬
‫ایک ''مقبول'' تجویز تھی۔ اس تجویز کی حمائیت کرنے والوں کا پکا‬
‫خیال تھا کہ اس پر عملدرآمد سے سرکاری تعلیم خودبخود اس لیے راہ‬
‫راست پر آجائے گی کیونکہ پالیسی سازوں کے بچے بھی یہیں پڑھ‬
‫رہے ہوں گے۔ مجھے یہ خدشہ تھا کہ اس تجویز پر عمل ہونے کے بعد‬
‫سرکاری تعلیمی ادارے تو ٹھیک نہیں ہوں گے البتہ جو چند ''سر‬
‫پھرے'' سرکاری مالزمتوں اور اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں وہ یا تو اپنی‬
‫بیویوں کو چھوڑ دیں گے یا پھر ممبری یا نوکری سے جان چھڑا لیں‬
‫گے۔ تجویز بوجوہ منظور نہ ہو سکی مگرآج بھی یہ اسالم آباد کی‬
‫تعلیمی غالم گردشوں میں محورقص ہے۔‬
‫ان سب باتوں کو یہاں لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تعلیم کے حوالے‬
‫سے نعرے و دعوے تو بہت ہیں‪ ،‬آمدہ انتخابات میں تعلیم کو ہر پارٹی‬
‫کے منشور میں اہم مقام بھی حاصل ہے مگر تعلیم کے حوالے سے‬
‫ہمارے تجزیہ میں پالیسی سازی کی سطح پر بھی بنیادی مغالطے‬
‫بدستور موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک ٹیڑھا مسلہ مختلف بلکہ متضاد‬
‫تعلیمی بندوبستوں کی موجودگی میں قابل عمل اور زمینی حقائق سے‬
‫لگا کھاتی پالیسی بنانا بھی ہے۔‬
‫اگر ہم چند تلخ و شیریں حقائق کوسامنے رکھیں تو پالیسی بنانے میں‬
‫آسانیاں ہو سکتی ہیں۔‬
‫بقول جی ڈبلیو الئٹنر انگریز سے قبل بھی ہمارے ہاں مختلف‬
‫نظام تعلیم کام کرتے تھے جن میں مدارس‪ ،‬پٹ‬
‫شاالئوں‪،‬گردواروں اور خانقاہوں سے جڑے سکول بھی تھے‪،‬‬
‫سرکاری سکول بھی‪ ،‬کمرشل سکول بھی اور گھریلو سکول‬
‫بھی تھے۔ تعلیم کو خدمت (سروس) سمجھا جاتا تھا نہ کہ‬
‫کاروبار۔ حکومت مدد المال کے ذریعے ان تعلیمی سلسلوں کی‬
‫مدد بھی کرتی تھی مگر نصاب‪ ،‬تعلیمی بندوبست بنانے میں یہ‬
‫آزاد تھے۔‬
‫برٹش انڈین دور میں نئے سکول سسٹم کا آغاز ہوا کہ اب‬
‫سرکاری تعلیمی ادارے (سکول‪ ،‬کالج‪ ،‬یونیورسٹیاں) بننے‬
‫لگے اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی انجمنوں نے بھی سکول‬
‫کالج بنانے شروع کیے۔ ‪ 1919‬کے ایکٹ کے تحت صوبائی‬
‫سرکاروں کو نئے سکول بنانے کا قانون مال تو سکول کھولنے‬
‫میں تیزیاں آئیں کہ جس میں پورے برٹش انڈیا میں پنجاب‬
‫سرفہرست رہا جس کا ذکر انڈین ایجوکیشن رجسٹر میں درج‬
‫ہے۔ تعلیمی انجمنیں مخیر حضرات کی مدد و تعاون سے چلتی‬
‫تھیں۔ یہ تعلیمی انجمنیں کاروبار یا مناقع کے لیے تعلیم کو‬
‫استعمال نہیں کرتی تھیں البتہ کاروباری طریقوں کو اپنا کر ان‬
‫تعلیمی اداروں کو فائدے دیتی تھیں۔ عرف عام میں اسے ناٹ‬
‫فار پرافٹ سسٹم کہتے تھے اور تعلیم اک خدمت ہی تھی۔ یاد‬
‫رہے‪،‬معروف معنوں میں نجی تعلیمی اداروں کا وجود نہیں‬
‫تھا۔‬
‫پاکستان بننے کے بعد کراچی اور مشرقی بنگال میں سیاسی‬
‫وجوہات کے تحت نجی تعلیمی بندوبست کی محدود سطح پر‬
‫طرح ڈالی گئی۔ مگر ملک بھر میں تعلیمی بندوبست سرکار‬
‫کے عالوہ یا تو ریاست چالتی تھی یا پھر تعلیمی انجمنیں۔‬
‫سکول ضلعی حکومتوں کے ماتحت تھے‪ ،‬پبلشر نصابی کتب‬
‫دانشوروں‪ ،‬ماہرین تعلیم سے لکھواتے تھے‪ ،‬صوبائی‬
‫حکومتوں کے متعلقہ ادارے اس کی منظوریاں دیتے تھے اور‬
‫یہ کتب پبلشرز مارکیٹ میں مناسب قیمتوں پر فراہم کرنے کے‬
‫پابند تھے۔ یاد رہے کہ سکولوں‪ ،‬کالجوں کی تعداد انتہائی قلیل‬
‫تھی۔‬
‫پاکستان بننے کے بعد سرکاری سکولوں‪ ،‬کالجوں کی تعداد‬
‫میں تیزی سے اصافہ ہوا تو تعلیمی بیوروکریسی بھی بننے‬
‫لگئ۔ سکولوں کے بندوبست کو ایوبی دور میں اضالع سے‬
‫لے کر صوبوں کے حوالے کیا گیا(یاد رہے اس وقت ملک‬
‫میں دو ہی صوبے تھے) جبکہ ٹیکسٹ بک بورڈوں کو بنا کر‬
‫نصابی کتب کی تیاری‪ ،‬چھپائی اور تقسیم کا کام صوبائی‬
‫بورڈوں نے اپنے ذمہ لے لیا۔ تعلیمی بیوروکریسی نے پیر‬
‫پھیالئے تو اس میں تعلیمی انجمنیں رکاوٹ بنیں۔ ان تعلیمی‬
‫انجمنوں میں سندھ مدرسہ السالم‪ ،‬انجمن حمائیت اسالم‪ ،‬انجمن‬
‫اسالمیہ‪ ،‬مشنری ادارے اور ہندو ٹرسٹ(مشرقی پاکستان)‬
‫جیسے ادارے شامل تھے جو گذشتہ ‪ 80‬سالوں سے تعلیم‬
‫دینے کا تجربہ رکھتیں تھیں۔ بہت سے مشنری اداروں کا تعلق‬
‫بیرون ملک سے تھا جہاں سے وہ مدد بھی لیتے تھے۔ ان‬
‫تعلیمی انجمنوں پر پہال وار ‪ 1969‬میں کیا گیا جب یحی خان‬
‫حکومت کے ہونہار وزیر تعلیم ائیر مارشل نور خان نے‬
‫تعلیمی پالیسی دی۔ اس تعلیمی پالیسی کو اس دور کے وزیر‬
‫اطالعات جنرل شیر علی پٹودی کی حمائیت حاصل تھی جنھیں‬
‫''نظریہ پاکستان'' کا خالق کہا جاتا ہے۔ اس پالیسی میں مشنری‬
‫اداروں کو پاکستانی تعلیمی بندوبست میں زہر قاتل قرار دیتے‬
‫ہوئے یا تو ختم کرنے کی سفارش کی گئی یا پھر قومیانے کی۔‬
‫حملہ تعلیمی انجمنوں پر تھا مگر ڈھال فارن مشنری ادارے‬
‫جبکہ وار نظریہ پاکستان کے نام پر کیا گیا۔ دسویں جماعت‬
‫تک اسالمیات کو الزمی مضمون قرار دینے والی اس پالیسی‬
‫میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ غیر مسلم پاکستانیوں کو ان‬
‫کے عقائد کے مطابق کیا پڑھایا جائے گا۔ اس سے قبل آنے‬
‫والی چاروں تعلیمی قومی دستاویزات میں اس کی نظیر نہیں‬
‫تھی کہ ‪ 1949‬اور ‪ 1951‬کی قومی تعلیمی کانفرنسوں کی‬
‫سفارشات ہوں‪ ،‬شریف کمیشن ‪ 1959‬یا بھر ‪ 1966‬کا تعلیمی‬
‫کمیشن‪ ،‬سب میں غیر مسلم پاکستانیوں کے بچوں کو ان کے‬
‫عقائد کے مطابق مذہبی تعلیم دینے کا عزم شامل تھا۔ یاد رہے‪،‬‬
‫‪ 1969‬میں پاکستان دو لخت نہیں ہوا تھا اور پاکستان میں غیر‬
‫مسلم پاکستانیوں کا تناسب ‪ 22‬فیصدی تھا۔ دسمبر ‪ 1971‬میں‬
‫پاکستان ٹوٹنے کا سب سے زیادہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو‬
‫ہوا جن کا تناسب ‪ 5‬فیصدی سے بھی کم رہ گیا۔ شکست خوردہ‬
‫اور ٹوٹ چکے ملک میں عوام کا مورال انتہائی پست ہو چکا‬
‫تھا جس کو حوصلہ دینے کے لیے بڑی صنعتوں‪ ،‬بینکوں‪،‬‬
‫انشورنس کمپنیوں اور تعلیم کو قومیانے کا ''سیاسی'' فیصلہ‬
‫کیا گیا۔ گہری سوچ بچار اور تیاری کے ساتھ نہ کیے گئے‬
‫اس فیصلے کے پاکستانی سیاست ہی نہیں بلکہ تعلیم سمیت‬
‫مختلف شعبہ جات پر مہلک اثرات پڑے۔ ایک بڑی مثال کا‬
‫ذکر ‪ 1972‬کی مختصر تعلیمی پالیسی میں ہے جس کے‬
‫مطابق تعلیم کا قومیانے کے بعد دو الکھ پچاس ہزار اساتذہ کی‬
‫نئی اسامیاں پیدا ہوئیں۔ یہ دوسرا موقعہ تھا جب اتنی بڑی تعداد‬
‫میں اساتذہ کو بھرتی کیا جانا تھا۔ ‪ 1969‬میں جب اسالمیات کو‬
‫‪10‬ویں جماعت تک الزمی مضمون کا درجہ دیا تھا تب بھی‬
‫یحی خان حکومت نے بغیر معیار کے ایک مخصوص مذہبی‬
‫جماعت کے منظور نظر اساتذہ بھرتی کیے تھے۔ یہی کچھ‬
‫‪ 1972‬کے بعد ہوا جس کے بعدازاں تعلیمی بندوبست پر مہلک‬
‫اثرات پڑے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ قومیانے کی پالیسی کے‬
‫تحت مسیحی مشنری اداروں اور مسلم انجمنوں کے سکول‬
‫کالج تو سرکار نے لے لیے مگر مدارس کو استثنی دے دیا‬
‫گیا۔ یاد رہے‪ 1969 ،‬کی تعلیمی پالیسی میں انگریزوں کے‬
‫بنائے سکول سسٹم کے خالف اور مدارس کے حق میں دالئل‬
‫دیتے ہوئے مدارس کو نظریہ پاکستان کا محافظ قرار دیا گیا‬
‫تھا۔ سونے پر سہاگہ یوں چڑھا جب ‪ 1975‬میں اسالمی‬
‫نظریاتی کونسل نے اہل تشعیع اور اہل سنت کے لیے‬
‫اسالمیات کی الگ الگ کتب تیار کرنے کی سفارش کی جسے‬
‫دونوں مکاتب فکر کے علما نے مان لیا۔ اس کام کی بھی پہلے‬
‫کوئی نظیر نہیں تھی کہ اب تک ریاست اسالم کے متفقہ‬
‫اطوارو عقائد کو ہی اپنانا چاہتی تھی۔ ان سب فیصلوں سے‬
‫تعلیمی معیار گرنے لگا۔‬
‫ضیا الحق کی اسالمائزیشن میں یہ کام اور خراب ہوا۔ تعلیمی‬
‫انجمنوں اور مشنری اداروں کو سکول و کالج واپس دینے کی‬
‫بجائے ‪ 1979‬کی تعلیمی پالیسی میں یہ کہا گیا کہ آپ نئے‬
‫نجی تعلیمی ادارے کھولیں جنھیں ریاست کسی بھی حال میں‬
‫کبھی نیشنالئز نہیں کرے گی۔ یہاں سے بغیر ریگولیشن نجی‬
‫تعلیم کا آغاز ہوا جس میں خدمت(سروس) کی بجائے منافع کو‬
‫اولیت حاصل تھی۔ کوٹھیوں اور پالزوں میں سکول کالج‬
‫کھلنے لگے جس کے لیے ''سکول'' کی تعریف میں تبدیلی‬
‫کرنا پڑی۔ ہر طبقہ کے لیے اس کی مالی حیثیت کی مطابق‬
‫الگ الگ تعلیمی ادارے کھڑے ہوگئے جن میں ‪ 50‬روپے‬
‫سے دس ہزار فیس لینے والے ادارے شامل تھے۔ نئے نجی‬
‫تعلیمی ادارے بنتے رہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کا‬
‫معیار گرتا رہا۔ نجی تعلیم کی بات کرتے ہوئے اکثر زیادہ‬
‫دھیان اشرافیہ کے بچوں کے لیے بنائے سکولوں کی طرف‬
‫چال جاتا ہے حالنکہ نجی تعلیم کے اس جنجھال میں اشرافیہ‬
‫کے تعلیمی اداروں اور ان میں پڑھنے والوں کی تعدود آٹے‬
‫میں نمک کے برابر ہے۔ ماٹھے‪ ،‬کم فیس اورغیر معیاری‬
‫نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت ہے جو گلی‪ ،‬محلوں اور‬
‫قصبوں میں بنے ہوئے ہیں۔ نجی تعلیم کا حجم تیزی سے بڑھا‬
‫اور اب دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ ‪ 40‬سے ‪ 50‬فیصد کے‬
‫درمیان ہے۔ بڑے شہروں خصوصا الہور‪ ،‬کراچی اور اسالم‬
‫آباد میں تو اس کا حجم ‪ 70‬فیصدی سے بھی زیادہ ہے۔ اب یہ‬
‫محض شہری مسلہ ہی نہیں رہ گیا بلکہ ملک بھر کے قصبوں‬
‫اور پنڈوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ دوسری طرف مدارس کے‬
‫سلسلوں میں بھی افغان جہاد اور نجکاریوں کے بعد بہت فرق‬
‫پڑ چکا ہے۔ امیر مدارس کی تعداد بھی کم نہیں۔ دوسری طرف‬
‫سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار انتہائی سطح پر گر چکا ہے۔‬
‫سرکاری تعلیم کے حاالت اس قدر خراب ہیں کہ اساتذہ کی‬
‫تنخواہیں بڑھانے‪ ،‬سکولوں میں مسنگ سہولتیں پورا کرنے‬
‫اور سپورٹ سٹاف کی تعداد بڑھانے کے باوجود تعلیمی معیار‬
‫بلند نہیں۔‬
‫ان زمینی حقائق کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ یکساں‬
‫نظام تعلیم کیونکر ایک گمراہ کن نعرہ ہے۔ محض اپنی سیاسی‬
‫دکان چمکانے کے لیے اس نعرے کو بہت سی سیاسی‬
‫جماعتیں‪ ،‬سیاسی لیڈر اور حکومتیں استعمال کرتی ہیں۔ مگر‬
‫زمینی حقائق سے اس سراب کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ اس‬
‫الجھن سے نبٹنے کے لیے ایسی چومکھی پالیسی کی‬
‫ضرورت ہے جس میں ''معیار تعلیم'' کو فوقیت دی جائے۔‬
‫تعلیم کے مختلف درجوں کو سامنے رکھ کر کم سے کم تعلیمی‬
‫معیارات(سٹینڈرڈ) بنائے جائیں۔ پبلک اور نجی شعبہ کے لیے‬
‫ان معیارات میں کوئی رعائیت نہ ہو۔ اگر ایک سکول گراونڈ‬
‫کے بغیر نہیں بن سکتا تو اس کی اجازت نہ ہو۔ اگر سائنس‬
‫پڑھانے والے سکول میں لیباٹری نہیں ہو تو وہ سائنس کے‬
‫طالب علموں کو داخلہ نہ دے سکے۔ پرائمری‪ ،‬مڈل اور‬
‫میٹرک یا او لیول کے اساتذہ کے الگ الگ معیارات ہوں اور‬
‫جو سکول اس پر پورا نہ اتریں انہیں داخلوں سے روکا جا‬
‫سکے۔ اساتذہ کی ترقی کا واحد معیار مدت مالزمت نہ ہو بلکہ‬
‫تحقیق و تربیت وغیرہ بھی اس میں شامل ہو۔ نصاب تیار‬
‫کرنے والوں اور امٹحان لینے والوں کے بھی کم از کم‬
‫معیارات ہوں۔ تعلیمی اداروں میں نہ صرف الئبریریاں ہوں‬
‫بلکہ طالب علموں میں ریڈنگ کلچر بڑھانے کے لیے بھی‬
‫معیارات مقرر ہوں۔ یوں یکساں معیار تعلیم کے ذریعے تعلیمی‬
‫اداروں میں کم از کم معیارات الگو کرنے سے اس تفاوت‬
‫میں کمی بھی ہو گی جس کی وجہ سے معاشرتی سطح پر‬
‫ہیجان حد سے زیادہ بڑھ چکا ہے۔‬

You might also like