You are on page 1of 5

‫بچوں کو جنسی زیادتی سے کیسے بچائیں؟‬

‫‪Last Updated On 07 May,2018 About 6 hours from now‬‬

‫الہور‪( :‬ویب ڈیسک) جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش‬


‫نظر معاشرے پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچوں کی زندگیاں‬
‫محفوظ بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ذرا سی غفلت سے وہ بھی‬
‫جنسی تشدد کا شکار ہو سکتا ہے۔‬
‫کسی بھی مہذب ملک یا معاشرے میں اس طرح کی درندگی کا کوئی واقعہ‬
‫رونما ہی نہیں ہونا چاہیے‪ ،‬کیونکہ بچے ریاست والدین اور معاشرے کی‬
‫مشترکہ ذمہ داری ہیں جہاں والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہتر‬
‫تعلیم و تربیت اور ان کا خیال رکھیں وہاں ریاست کی بھی یہ ذمہ داری ہے‬
‫وہ ایسا محفوظ ماحول فراہم کرے جہاں ہر بچہ امن اور سکون کے ساتھ‬
‫زندگی بسر کرسکے‪ ،‬جبکہ معاشرے کا فرض ہے کہ وہ ہر بچے کو اپنا‬
‫بچہ سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ مشفقانہ برتاو کرے۔‬
‫والدین کی انفرادی تعیلم و تربیت اس وقت اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے جب بچہ‬
‫باہر نکلتا ہے تو اسے محفوظ ماحول نہیں ملتا۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ‬
‫بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات نہ صرف لمحہ فکریہ ہیں بلکہ حکومت‬
‫اور معاشرے کو یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کے‬
‫مستقبل کو درندہ صفت حیوانوں سے کیسے بچایا جائے؟‬

‫اکثر خونی اور قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں بچوں کو جنسی زیادتی کا‬
‫نشانہ بنایا جاتا ہے‪ ،‬اور اس کے ساتھ جڑے نفسیاتی اثرات کی وجہ سے‬
‫اس طرح کے بچوں کی مدد کرنا اور بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح‬
‫کے کیسز میں مشکل یہ ہوتی ہے کہ بچہ یا والدین نہیں بلکہ خاندان والے‬
‫رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ ایسے واقعات میں پولیس کا کردار اس وقت تک سوالیہ‬
‫نشان بنا رہے گا جب تک ان کی ذہنی تربیت میں انسانیت کے احترام کے‬
‫جراثیم اور نصاب میں انسانی حقوق کا باب شامل نہیں ہوتا۔‬
‫بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کے حوالے سے کی گئی مختلف‬
‫ریسرچ بتاتی ہے کہ پاکستان میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ ‪18‬سال کی‬
‫عمر تک پہنچنے سے پہلے جنسی تشدد کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی بڑی‬
‫وجہ والدین اپنے بچوں کو آگاہی سے محروم رکھتے ہیں اور یہی خاموشی‬
‫اس جرم کو مزید پھیال رہی ہے۔‬
‫بچوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے‬
‫بچے پر جنسی تشدد کہیں بھی ہو سکتا ہے اس لئے والدین کو چاہیے کہ‬
‫بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ استوار کریں انہیں اعتماد میں لیں اور ان‬
‫سے ہر وہ بات شیئر کریں جس سے ان کی ذہنی اور شعوری نشو نما‬
‫ہونے کے ساتھ انہیں اچھے یا برے کی تمیز ملتی ہو۔ بچوں کو یہ بتانا‬
‫چاہئے کہ اگر کوئی آپ کے جسم کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے یا آپ‬
‫کے ساتھ ایسا کام کرے جو آپ کو عجیب لگے تو اس شخص کو سختی‬
‫سے منع کر دیں۔‬
‫سن بلوغت کو پہنچنےلگیں تو انہیں جنسی‬ ‫آپ کے بچے بالخصوص بیٹیاں ِ‬
‫معامالت سے متعلق درست آگاہی فراہم کریں ‪ ،‬یاد رکھیں اگر آپ اپنے‬
‫بچوں کوخود یہ سبق نہیں پڑھائیں گے تو پھر معاشرہ انہیں جنسی‬
‫معامالت کی غلط اور بے ہودہ تشبیہات سے روشناس کرادے گا۔‬
‫بچے جنسی زیادتی کا شکار صرف گھر سے باہر نہیں گھر میں بھی‬
‫ہوسکتے ہیں۔ ان کو آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہ کسی بھی مالزم یا رشتہ‬
‫دار کے کمرے میں اکیلےجانے سے گریز کریں۔‬
‫عموما بچے ہی بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔یعنی ایک دو یا چند برس‬
‫بڑے بچے چھوٹے بچوں کو کھیل کھیل میں ایسی حرکات سے آگاہ کرتے‬
‫ہیں جو آگے چل کر کسی مسئلے یا المیے کا باعث بن سکتی ہیں۔نہ صرف‬
‫لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی خود سے چھوٹے بچوں کا استحصال کرتی ہیں ‪،‬‬
‫لہذااگر بچہ کسی رشتہ دار یا پڑوسی‪،‬پڑوسن کے پاس بار بار جائے یا‬
‫جانے کی ضد کرے تو فورا نوٹس لیں۔‬
‫اگر بچہ کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت‬
‫کریں۔‬
‫بچوں کو کسی کے پاس اکیال مت چھوڑیں۔‬
‫بچے سکول یا وین بدلنے کی بات کریں تو اسے سنجیدگی سے لیں۔‬
‫بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ ہو تو نوٹس لیں اور‬
‫وجہ جانیں۔‬
‫بچے کو پرائیویٹ باڈی پارٹس کا تصور واضح طور پر سمجھائیں۔‬
‫بچے کو سکھائیں کہ کسی سے کچھ لے کر نہ کھائے۔‬
‫بچے کو واضح طور پر بات کرنا سکھائیں یعنی ایسی صورتحال میں جب‬
‫وہ خدانخواستہ اجنبی جگہ پر ہوں اور کوئی انہیں چھونے یا اٹھانے کی‬
‫کوشش کرےیا گھر کے اندر بھی تو وہ صرف رونے کی بجائے بچاؤ بچاؤ‬
‫کی آواز لگائیں یا میں اسے نہیں جانتا یا یہ میرے انکل نہیں ہیں وغیرہ‬
‫کہے۔ تاکہ لوگ متوجہ ہوں‬
‫آپ کو اپنی معاشرت میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوں گی‪ ،‬ایسے مواد اور‬
‫اشخاص کو اپنی زندگی سے خارج کردیں جو کہ آپ کے معصوم بچوں‬
‫کے ذہن پرکسی منفی طورنظرانداز ہوسکے۔‬
‫اگر آپ کا بچہ کسی مخصوص شخص کے بارے میں شکایت کرتا ہے تو‬
‫اس معاملے میں خاموشی ہرگز اختیار نہ کیجئے۔‬
‫اپنے گھر کا ماحول مذہبی رکھئے اور بچوں کو عبادت اور عبادت گاہوں‬
‫سے مانوس کرائیے تا کہ ان کے خیاالت میں پاکیزگی کی آمیزش ہوتی‬
‫رہے۔‬
‫خدا نخواستہ اگر کسی بچے کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آجاتا ہے تو اسے‬
‫ڈانٹنا مارنا تو دور کی بات بلکہ موردِالزام بھی نہ ٹھہرایے بلکہ انتہائی‬
‫مالئمت اور پیار سے اسے سمجائیں کہ اس معاملے میں اس کی کوئی‬
‫غلطی نہیں ہے اور یہ کہ وہ اس کا اثر اپنے ذہن پر ہرگز نہ لے۔‬

‫جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کی درست تعداد سرے سے‬
‫دستیاب ہی نہیں‪ ،‬کیوں کہ سماجی شرم و حیا کی وجہ سے اکثر واقعات‬
‫سامنے نہیں الئے جاتے۔ چنانچہ اس جرم کے مرتکب درندے سزا سے بچ‬
‫جاتے ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی بچوں کے ذہنوں پر‬
‫ایسے نفسیاتی زخم چھوڑتی ہے‪ ،‬جن سے اِن کی شخصیت نہ صرف‬
‫جارحانہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ ذہنی تنائو کا شکار ہوکر منشیات اور بعض‬
‫اوقات خودکشی کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔‬

You might also like