You are on page 1of 2

‫میاں بیوی میں صلح وخیر کا اصول ا تعالیی میاں بیوی کے حالتا اور ان کے احکام بیان فرما رہا

ہے کبھی مرد اس سے ناخوش ہو‬


‫جاتا ہے کبھی چاہنے لگتا ہے اور کبھی الگ کر دیتا ہے ۔ پس پہلی حالت میں جبکہ عورتا کو اپنے شوہر کی ناراضگی کا خیال ہے‬
‫اور اسے خوش کرنے کے لئے اپنے تمام حقوق سے یا کسی خاص حق سے وہ دست برداری کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔ مثلل اپنا‬
‫کھانا کپڑا چھوڑ دے یا شب باشی کا حق معاف کر دے تو دونوں کے لئے جائز ہے ۔ پھر اسی کی رغبت دلتا ہے کہ صلح ہی بہتر ہے‬
‫۔ حضرتا سودہ بنت زمعہ جب بہت بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی ا علیہ وسلم نے اسے قبول‬
‫فرما لیا ۔ ابو داؤد میں ہے کہ اسی پر یہ آیت اتری ۔ ابن عباس فرماتے ہیں میاں بیوی جس باتا پر رضامند ہو جائیں وہ جائز ہے ۔ آپ‬
‫فرماتے ہیں حضور صلی ا علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی نوبیویاں تھیں جن میں سے آپ نے آٹھ کو باریاں تقسیم کر رکھی‬
‫تھیں ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ حضرتا سودہ کا دن بھی حضور صلی ا علیہ وسلم حضرتا عائشہ کو دیتے تھے ۔ حضرتا عروہ کا‬
‫قول ہے کہ حضرتا سودہ کو بڑی عمر میں جب یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی ا علیہ وسلم انہیں چھوڑ دینا چاہتے ہیں تو خیال کیا کہ‬
‫آپ کو صدیقہ سے پوری محبت ہے اگر میں اپنی باری انہیں دیدوں تو کیا عجب کہ حضور صلی ا علیہ وسلم راضی ہو جائیں اور‬
‫میں آپ کی بیویوں میں ہی آخر دم تک رہ جاؤں ۔ حضرتا عائشہ کا بیان ہے کہ حضور راتا گزارنے میں اپنی تمام بیویوں کو برابر‬
‫کے درجے پر رکھا کرتے تھے عموما ل ہر روز سب بیویوں کے ہاں آتے بیٹھتے بولتے چالتے مگر ہاتھ نہ بڑھاتے پھر آخر میں جن‬
‫بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے ہاں جاتے اور راتا وہیں گزارتے ۔ پھر حضرتا سودہ کا واقعہ بیان فرماتے جو اوپر گذار‬
‫) ابوداؤد ( معجم ابو العباس کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور نے حضرتا سودہ کو طلق کی خبر بجھوائی یہ حضرتا عائشہ‬
‫کے ہاں جابیٹھیں جب آپ تشریف لئے تو کہنے لگیں آپ کو اس ا تعالیی کی قسم ہے جس نے آپ پر اپنا کلم نازل فرمایا اور اپنی‬
‫مخلوق میں سے آپ کو برگزیدہ اور اپنا پسندیدہ بنایا آپ مجھ سے رجوع کر لیجئے میری عمر بڑی ہوگئی ہے مجھے مرد کی خاص‬
‫خواہش نہیں رہی لیکن یہ چاہت ہے کہ قیامت کے دن آپ کی بیویوں میں اٹھائی جاؤں چنانچہ آپ نے یہ منظور فرمالیا اور رجوع کر‬
‫لیا پھر یہ کہنے لگیں یا رسول ا صلی ا علیہ وسلم میں اپنی باری کا دن اور راتا آپ کی محبوب حضرتا عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں ۔‬
‫بخاری شریف میں آتا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک بڑھیا عورتا جو اپنے خاوند کو دیکھتی ہے کہ وہ اس سے محبت نہیں‬
‫کر سکتا بلکہ اسے الگ کرنا چاہتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں اپنے حق چھوڑتی ہوں تو مجھے جدانہ کر تو آیت دونوں کی رخصت‬
‫دیتی ہے یہی صورتا اس وقت بھی ہے کہ جب کسی کو دو بیویاں ہوں اور ایک سے اس کی بوجہ اس کے بڑھاپے یا بدصورتی کے‬
‫محبت نہ ہو اور وہ اسے جدا کرنا چاہتا اور یہ بوجہ اپنے لگاؤ یا بعض اور مصالح کے الگ ہونا پسند نہ کرتی تو اسے حق ہے کہ‬
‫اپنے بعض یا سب حقوق سے الگ ہو جائے اور خاوند اس کی باتا کو منظور کر کے اسے جدا نہ کرے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک‬
‫شخص نے حضرتا عمر سے ایک سوال ) جسے اس کی بیہودگی کی وجہ سے ( آپ نے ناپسند فرمایا اور اسے کوڑا ماردیا پھر ایک‬
‫اور نے اسی آیت کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں یہ باتیں پوچھنے کی ہیں اس سے ایسی صورتا مراد ہے کہ مثلل ایک‬
‫شخص کی بیوی ہے لیکن وہ بڑھیا ہو گئی ہے اولد نہیں ہوتی اس نے اولد کی خاطر کسی جوان عورتا سے اور نکاح کیا پھر یہ‬
‫دونوں جس چیز پر آپس میں اتفاق کرلیں جائز ہے ۔ حضرتا علی سے جب اس آیت کی نسبت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے‬
‫مراد وہ عورتا ہے جو بوجہ اپنے بڑھاپے کے یا بدصورتی کے یا بدخلقی کے یا گندگی کے اپنے خاوند کی نظروں میں گر جائے‬
‫اور اس کی چاہت یہ ہو کہ خاوند مجھے نہ چھوڑے تو یہ اپنا پورا یا ادھورا مہر معاف کر دے یا اپنی باری معاف کر دے وغیرہ تو‬
‫اس طرح صلح کر سکتے ہیں سلف اور ائمہ سے برابری اس کی یہی تفسیر مروی ہے بلکہ تقریبا ل اس پر اتفاق ہے میرے خیال سے تو‬
‫اس کا کوئی مخالف نہیں وا اعلم ۔ محمد بن مسلم کی صاحبزادی حضرتا رافع بن خدیج کے گھر میں تھیں بوجہ بڑھاپے کے یا کسی‬
‫اور امر کے یہ انہیں چاہتے نہ تھے یہاں تک کہ طلق دینے کا ارادہ کر لیا اس پر انہوں نے کہا آپ مجھے طلق تو نہ دیجئے اور‬
‫جو آپ چاہیں فیصلہ کریں مجھے منظور ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ان دونوں آیتوں میں ذکر ہے اس عورتا کا جس سے اس کا خاوند‬
‫بگڑا ہوا ہو اسے چاہئے کہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ اگر وہ چاہے تو اسے طلق دے دے اور اگر وہ چاہے تو اس باتا کو پسند کر‬
‫کے اس کے گھر میں رہے کہ وہ مال کی تقسیم میں اور باری کی تقسیم میں اس پر دوسری بیوی کو ترجیح دے گا اب اسے اختیار ہے‬
‫اگر یہ دوسری شق کو منظور کر لے تو شرعا ل خاوند کو جائز ہے کہ اسے باری نہ دے اور جو مہر وغیرہ اس نے چھوڑا ہے اسے‬
‫اپنی ملکیت سمجھے ۔ حضرتا رافع بن خدیج انصاری رضی ا تعالیی عنہ کی بیوی صاحبہ جب سن رسید ہوگئیں تو انہوں نے ایک‬
‫نوجوان لڑکی سے نکاح کیا اور پھر اسے زیادہ چاہنے لگے اور اسے پہلی بیوی پر مقدم رکھنے لگے آخر اس سے تنگ آ کر طلق‬
‫طلب کی آپ نے دے دی پھر عدتا ختم ہونے کے قریب لوٹالی ‪ ،‬لیکن پھر وہی حال ہوا کہ جوان بیوی کو زیادہ چاہنے لگے اور اس‬
‫کی طرف جھک گئے اس نے پھر طلق مانگی آپ نے دوبارہ طلق دے دی پھر لوٹالیا لیکن پھر وہی نقشہ پیش آیا پھر اس نے قسم‬
‫دی کہ مجھے طلق دے دو تو آپ نے فرمایا دیکھو اب یہ تیسری آخری طلق ہے اگر تم چاہو تو میں دے دوں اور اگر چاہو تو اسی‬
‫طرح رہنا منظور کرو اس نے سوچ کر جواب دیا کہ اچھا مجھے اسے طرح منظور ہے چنانچہ وہ اپنے حقوق سے دست بردار ہوگئیں‬
‫اور اسی طرح رہنے سہنے لگیں ۔ اس جملے کا کہ صلح خیر ہے ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی کو یہ اختیار‬
‫دینا کہ اگر تو چاہے تو اسی طرح رہ کر دوسری بیوی کے برابر تیرے حقوق نہ ہوں اور اگر تو چاہے تو طلق لے لے ‪ ،‬یہ بہتر ہے‬
‫اس سے کہ یونہی دوسری کو اس پر ترجیح دئے ہوئے رہے ۔ لیکن اس سے اچھا مطلب یہ ہے کہ بیوی اپنا کچھ چھوڑے دے اور‬
‫خاوند اسے طلق نہ دے اور آپس میں مل کر رہیں یہ طلق دینے اور لینے سے بہتر ہے ‪ ،‬جیسے کہ خود نبی ا علیہ صلواتا ا نے‬
‫حضرتا سودہ بنت زمعہ رضی ا تعالیی عنہا کو اپنی زوجیت میں رکھا اور انہوں نے اپنا دن حضرتا عائشہ رضی ا تعالیی عنہ کو‬
‫ہبہ کر دیا ۔ آپ کے اس فعل میں بھی آپ کی امت کے لئے بہترین نمونہ ہے کہ ناموافقت کی صورتا میں بھی طلق کی نوبت نہ آئے ۔‬
‫چونکہ ا اعلیی و اکبر کے نزدیک صلح افتراق سے بہتر ہے اس لئے یہاں فرما دیا کہ صلح خیر ہے ۔ بلکہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث‬
‫میں ہے تمام حلل چیزوں میں سے سب سے زیادہ ناپسند چیز ا کے نزدیک طلق ہے ۔ پھر فرمایا تمہارا احسان اور تقویی کرنا یعنی‬
‫عورتا کی طرف کی ناراضگی سے درگذر کرنا اور اسے باوجود ناپسندیدگی کے اس کا پورا حق دینا باری میں لین دین میں برابری‬
‫کرنا یہ بہترین فعل ہے جسے ا بخوبی جانتا ہے اور جس پر وہ بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے گا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ گو تم چاہو کہ‬
‫اپنی کئی ایک بیویوں کے درمیان ہر طرح بالکل پورا عدل و انصاف اور برابری کرو تو بھی تم کر نہیں سکتے ۔ اس لئے کہ گو ایک‬
‫ایک راتا کی باری باندھ لو لیکن محبت چاہت شہوتا جماع وغیرہ میں برابری کیسے کر سکتے ہو؟ ابن ملکیہ فرماتے ہیں یہ باتا‬
‫حضرتا عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے حضور صلی ا علیہ وسلم انہیں بہت چاہتے تھے ‪ ،‬اسی لئے ایک حدیث میں ہے کہ‬
‫حضور صلی ا علیہ وسلم عورتوں کے درمیان صحیح طور پر مساواتا رکھتے تھے لیکن پھر بھی ا تعالیی سے دعا کرتے ہوئے‬
‫فرماتے تھے ایلہی یہ وہ تقسیم ہے جو میرے بس میں تھی اب جو چیز میرے قبضہ سے باہر ہے یعنی دلی تعلق اس میں تو مجھے‬
‫ملمت نہ کرنا ) ابو داؤد ( اس کی اسناد صحیح ہے لیکن امام ترمذی فرماتے ہیں دوسری سند سے یہ مرسلل مروی ہے اور وہ زیادہ‬
‫صحیح ہے ۔ پھر فرمایا بالکل ہی ایک جانب جھک نہ جاؤ کہ دوسری کو لٹکا دو وہ نہ بےخاوند کی رہے نہ خاوند والی وہ تمہاری‬
‫زوجیت میں ہو اور تم اس سے بےرخی برتو نہ تو اسے طلق ہی دو کہ اپنا دوسرا نکاح کر لے نہ اس کے وہ حقوق ادا کرو جو ہر‬
‫بیوی کے لئے اس کے میاں پر ہیں ۔ حضور صلی ا علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ہی ایک کی طرف‬
‫جھک جائے تو قیامت کے دن ا کے سامنے اس طرح آئے گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط ہو گا ) احمد وغیرہ ( امام ترمذی فرماتے ہیں‬
‫یہ حدیث مرفوع طریق سے سوائے ہمام کی حدیث کے پہچانی نہیں جاتی ۔ پھر فرماتا ہے اگر تم اپنے کاموں کی اصلح کر لو اور‬
‫جہاں تک تمہارے اختیار میں ہو عورتوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساواتا برتو ہر حال میں ا سے ڈرتے رہا کرو ‪ ،‬اس کے‬
‫باوجود اگر تم کسی وقت کسی ایک کی طرف کچھ مائل ہوگئے ہو اسے ا تعالیی معاف فرما دے گا ۔ پھر تیسری حالت بیان فرماتا ہے‬
‫کہ اگر کوئی صورتا بھی نباہ کی نہ و اور دونوں الگ ہو جائیں تو ا ایک کو دوسرے سے بےنیاز کر دے گا ‪ ،‬اسے اس سے اچھا‬
‫شوہر اور اسے اس سے اچھی بیوی دے دے گا ۔ ا کا فضل بہت وسیع ہے وہ بڑے احسانوں وال ہے اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے تمام‬
‫افعال ساری تقدیریں اور پوری شریعت حکمت سے سراسر بھرپور ہے ۔ مندرجہ بال تفسیر ابن کثیر کی ھے جو کہ سورہ نساء کی‬
‫آیت ‪128‬کی ھے‬

‫آیت کے الفاظ ‪،،‬بددماغ وبد سلوکی کا خوف ‪،،‬ھی یہ بتارھا رھا ھے کہ یہاں مرد ظالم ھے اور عورتا مظلوم‬

‫جب مرد عورتا کو شادی سے پہلے دیکھ کر نکاح کرتا ھے اور وہ بھی جسمانی طور پر ایک عمر ھونے پر عورتا کی طرح شادابی‬
‫کھو دیتا ھے تو کیا عورتا بھی اسی طرح آدمی سے سلوک کرے‬

‫نہیں وہ اپنے بال بچوں پر یا شوھر پر رحم کرتی ھے اور اسے کسی بھی حال میں نہیں چھوڑتی‬

‫آیت میں کچھ تھوڑے بہت اختلف میں حقوق کی کمی نیشی یا کسی آپسی معاملے میں در گذر کی باتا مضمر ھے نہ کہ عورتا کو‬
‫متاع جنس کی طرح سمجھا گیا کہ وہ عمر دراز ھوگئ یا بچے پیدا نہیں کر سکے تو اسے طلق دے دیں‬

‫ایسا تو کوئی بھی شریف النفس شخص مفاد پرست نہیں ھو سکتا‬

‫وہ دوسری شادی کرے گا مگر حقوق میں کمی نیشی نہیں کرے گا یہ کردار کسی ظالم اور مفاد پرست شہوتا پرست کا ھو سکتا ھے‬

‫مگر کسی نبی وہ بھی رحمت اللعالمین محمد صلی ا علیہ وسلم کا ھرگز ھرگز نہیں ھو سکتا خواہ وہ حدیث کا راوی کوئی فرشتہ ھی‬
‫کیوں نہ ھو ھم اسے ٹھکراتے ھیں‬

You might also like