Professional Documents
Culture Documents
کردارسازی کا زندگی پر اثر
کردارسازی کا زندگی پر اثر
حضرت نواس بن سمعان رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں میں نے (رسول ہللا علیہ والہ
وسلم) سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا ،آپ (صلی ہللا علیہ والہ وسلم )نے
ارشاد فرمایا ":نیکی حسن اخالق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے سینے میں
کھٹک پیدا کرے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کی اطالع ہو۔" (مسلم)
اخالق کو انسانی زندگی میں جو اہمیت حاصل ہے اس سے کسی کو انکار نہیں
ہو سکتا۔ تاریخ میں کسی ایسی قوم کی مثال نہیں ملتی جس میں نیکی و بدی کا
سرے سے کوئی تصور نہ پایا جاتا ہو۔ جو لوگ جبریت کے قائل ہیں وہ بھی علی
االعالن اس بات کا دعوی نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک جھوٹ اور سچ میں
یا ایمان داری اور مکر و فریب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے کون انکار کر
سکتا ہے کہ سچائی،خیرپسندی اور سالمت روی انسان کی مطلوب صفات ہیں،
انسانی ضمیر کے لیے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ وہ ایفائے عہد کے مقابلے
میں مکر و فریب کو ،ایثار و قربانی کے مقابلے میں خودغرضی کو اور جذبہ
اخوت و ہمدردی کے مقابلے میں بغض و حسد اور ظلم اور ستم کو بہتر
سمجھنے لگے۔
انسانونسے کسی خاص قسم کے اخالق کے مطالبے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم
انسان کو صاحب اختیار و ارادہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے جہاں کوئی ارادہ و اختیار
نہ پایا جاتا ہو وہاں کسی اخالق و کردارکا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔یہ
ایک حقیقت ہے کہ اخالق کا تعلق انسان کے ارادہ و اختیار سے ہے ،انسان کو
دنیا میں ارادہ و اختیار کی آزادی حاصل ہے اس لیے اس کا ایک اخالقی وجود
ہے،یہی چیز ہے جو اسے عام حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔
اس حدیث پاک سے یہ بالکل واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ نیکی اپنی
حقیقت کے لحاظ سے حسن اخالق سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے ،حسن اخالق
ہی کا دوسرا نام نیکی ہے ،جس کی زندگی حسن اخالق سے خالی ہے وہ نیکی
کی تمام خوبیوں سے محروم ہے۔جس چیز سے آدمی کی طبیعت نفرت کرے،
جس پر آدمی کا دل مطمئن نہ ہو ،جو دل میں چبھے ،جسے وہ خود محبوب
سمجھتا ہو اوریہ پسند نہ کرتا ہو کہ وہ دوسرے لوگوں کے علم میں آئے وہی
گناہ ہے ،اس کے برخالف جو چیز ہماری فطرت پسند کرے ،جس کو عمال
اختیار کرنے سے دل کو خوشی اور فرحت حاصل ہو ،اورہللا اور رسول (رسول
ہللا علیہ والہ وسلم) کے حکم کےعین مطابق ہو ،وہی نیکی ہے۔
نیکی اور گناہ ایک دوسرے کی ضد ہیں،جس طرح روشنی اورتاریکی دونوں کا
ایک ساتھ جمع ہونا ممکن نہیں ،اسی طرح سے نیکی (حسن اخالق) اورگناہ کو
کبھی جمع نہیں کیا جا سکتا ،جو شخص گناہ کی راہ اختیار کرنا ہے وہ سب وہ
پہلے خود اپنے ساتھ بے وفائی کا رویہ اختیار کرنا ہے ،گناہ درحقیقت ایک
خیانت ہے جو آدمی اپنی فطرت اور اپنے ضمیر کے ساتھ کرتا ہے،جبکہ نیکی
حقیقت میں خود شناسی ،عزت نفس اور روح کی بے داری کا نام ہے۔
ایک اور روایت میں اس طرح آتا ہے کہ ایک شخص نے آپ (رسول ہللا علیہ
وآلہ وسلم) سے پوچھا ایمان کیا ہے؟ آپ (رسول ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد
فرمایا :جب تمہاری نیکی تمہارے لیے خوشی کا باعث ہو اور تمہاری بدی
تمہارے لیے ناگواری کا سبب ثابت ہو توت م مومن ہو ،اس نے دریافت کیا کہ
اے ہللا کے رسول(رسول ہللا علیہ والہ وسلم)!پھر گناہ کیا ہے؟ آپ (رسول ہللا
علیہ والہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:جب کوئی چیزتمہارے دل میں تردد پیدا کرے
تو اسے چھوڑ دے۔(بحوالہ مسنداحمد)
یعنی جس طرح ایمان کااخالق سے گہرا تعلق ہے ٹھیک اسی طرح اخالق ہماری
پوری زندگی سے تعلق رکھتا ہے اور اسے متاثر کرتا ہے ،مومنانہ اخالق سے
جو زندگی وجود میں آتی ہے اس میں نیکیاں ،محض نیکیاں نہیں ہوتیں بلکہ وہ
آدمی کی زندگی میں سب سے بڑھ کر باعث سرور و راحت بھی ہوتی ہیں ،اس
طرح زندگی میں بدی اور برائی نہایت مکروہ اورناپسندیدہ شے کی حیثیت
رکھتی ہے ،اگر بشری کمزوری کے سبب سے کسی مومن سے کسی خطا اور
برائی کا ارتکاب ہو بھی جاتا ہے تو اس کا ضمیر اسے جھنجوڑ کر رکھ دیتا
ہے ،اس کی ساری خوشی چھن جاتی ہے،جب تک وہ اپنی غلطی کی تالفی نہیں
کر لیتا ،اسے چین اور اطمینان نہیں ہوتا اور یہی حسن اخالق ہے جو کہ ایک
مومن کا جوہر ہے۔