You are on page 1of 1

‫محمد عربیﷺ آسمانوں میں بلند ترین مقام پر پہنچ کر واپس لوٹ آئے۔ لیکن "میں ہللا‬

‫تعالی کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوتا تو وہاں سے کبھی‬
‫ٰ‬
‫گنگوہ کے ہیں۔ سارے صوفی‬‫ؒ‬ ‫واپس نہ آتا"۔ یہ الفاظ ایک عظیم مسلم ولی عبدالقدوس‬
‫لٹریچر (ادب) میں ایسے الفاظ کی تالش غالبا ً مشکل ہو گی جو ایک سادہ سے جملے میں‬
‫ایسے اَدق اور مشکل تصور کا انکشاف کر سکے جو پیغمبرانہ اور صوفیانہ شعور کے‬
‫مابین نفسیاتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ صوفی وحدت کے تجربے سے حاصل شدہ‬
‫اطمینان و سکون کی دنیا سے واپس ہونا پسند نہیں کرتا اور اگر وہ واپس آتا بھی ہے یا‬
‫اسے آنا پڑتا ہے تو اس کی واپسی وسیع تر انسانیت کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی‬
‫جبکہ پیغمبر علیہ السالم کی واپسی ایک تخلیقی عمل ہے۔ وہ تاریخی قوتوں کی جانب‬
‫واپس آتا ہے اور اس واپسی کے ذریعے وہ ۔۔۔۔۔۔ کی تازہ دنیا تخلیق کرتا ہے۔ صوفی کے‬
‫لیے وحدت میں ضم ہونے کے باعث حاصل شدہ اطمینان و سکون آخری منزل کی‬
‫حیثیت رکھتا ہے۔ پیغمبرعلیہ السالم کے لیے یہ تجربہ اندرونی بیداری کی حیثیت رکھتا‬
‫ہے اور ساتھ ہی دنیا کی نفسیاتی قوتوں کو الٹ پلٹ کرنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ جس‬
‫کے ذریعے ساری انسانی دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتا ہے۔ پیغمبرعلیہ السالم کے‬
‫ہاں اپنے الوہی تجربے کو دنیا کی زندہ قوت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھنے کی خواہش‬
‫اعلی و ارفع حیثیت کا درجہ رکھتی ہے۔‬
‫ٰ‬

You might also like