Professional Documents
Culture Documents
Story Rest
Story Rest
ٓآرام
ابھی اس کی آنکھیں لگی تھی کہ بچے کے رونے کی آواز آنے لگی۔سلیم بڑ بڑاتے ہوئے اٹھے ادھر ادھر
دیکھا کوئی نظر نہ آیا ۔وہ ابھی نیند کے خمار میں تھے،بچے کا رونا اب باقعدہ چیخنے میں بدل چکا تھا۔
سلیم پھر سے اٹھے ،درو دیوار پر نظر دوڑائی ،سب کچھ عجیب سا نظر آرہاتھا۔پہلے تو وہ پریشان
ہوے،پھر کچھ سوچنے لگا ،اب اس کی سمجھ میں آیاکہ وہ آ ج ا پنے گھر میں نہیں بلکہ اکیال اس چھوٹے
سے کمرے میں پڑاہے۔اس شہر میں آئے آج اس کا پہال دن تھا ،اور چھوٹے سے کوارٹر میں پہلی
رات۔اپنے زندگی میں مالزمت کا آغازبھی آج سے کیاتھا۔وہ ان بے شمار پڑھے لکھے بیروزگاروں میں
سے ایک تھا جسے اپنی قابلیت،صالحیت،خوش قسمتی یا ماں کی دعا کی وجہ سے یہ نوکری ملی تھی۔ وہ
ابھی انہیں سوچوں میں گم تھا ۔اس نے گھڑی کو دیکھا بارہ بجے تھے۔
سلیم اپنے باپ کی طرح والدین کا اکلوتالڑکا تھا ،نہ بہائی تھے اور نہ بہنیں۔والد اکثر بیمار رہتے لیکن پھر
بھی بہت ایماندار تھے،محنت مذدوری کر کے کچھ کما کر التے اس سے گذاراہوتا لیکن بیٹے کو اچھے
سکول میں پڑھایا تھا۔آج پہلی رات تھی جو سلیم کے بغیر گزر رہی تھی۔شام پھیکا پھیکا لگ رہا تھا اور ماں
کے آنکھوں میں آنسوں تھے،بڑی عاجزی سے جائے نماز پر بیٹھی بیٹے کے لیئے دعایءں مانگ رہی
تھی۔
سلیم نیند کے بارے میں بہت حساس تھا ۔معمولی سے آوز پر جاگتا۔اور ادھر تو بچہ کافی چیخ رہا تھا۔اس
حالت میں اسے نیند کب آتی۔وہ اٹھا اور کمرے میں ٹھلنے لگا ۔بچے کا رونا ملحقہ کوارٹر سے بتدریج تیز
ہوتا جا رہا تھا۔اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔اس نے دیوار سے کان لگایا توایک بوڑھا بڑ بڑا
رہا تھا ؛ چپ کراو اس لونڈے کو؛ دماغ خراب کر دیا۔ہا ں بابا چپ کراتی ہوں،پتہ نہیں آج کیوں اتنا رورہا
ہے۔یہ کہتے ہویے لڑکی کی ماں اسے برآمدے لے آیی اور بھالنی لگی ،لیکن بچیے کا منہ نہ بند ہونا تھا
نہ بند ہوا ۔آخر جب خوب تھک گیا،آواز بیٹھ گئی تو کہیں جا کر سحر کے قریب خاموش ہوا۔اس دوران سلیم
بھی ساری رات جاگتا رہا صبح تھوڑی سے آنکھ لگی لیکن جلدی نماز کے لیے اٹھا ،ناشتہ کیا اور ڈیوٹی
کے لیے روانہ ہوئے کیونکہ نوکری کے پہلے دن تھے اور اختیاط الزمی تھا۔
سلیم نے دونوں دن خوب جم کر دفتر کا کام نپٹایا ،لیکن رات کی بے آرمی کی وجہ سے سارا دن سر میں
درد تھا۔شام کو جب واپس ہوئے تو شام ہی سے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔دوسری رات پھر سے منھا چالنے لگا
اور آج تو خوب دہاڑیں مار مارکر رو رہا تھا،ماں بیچاری ساری رات صحن میں بوڑھے کے ڈر سے ٹھال
رہی تھی ،اور تسلی دی رہی تھی کہ کل آبو آئے گا اور ڈاکٹر کو دیکھائے گا،دوائی دیگا تو ٹھیک ہو جائے
گامیرے منھو اب سو جا بیٹا خاموش ہو جا۔ماں ساری رات یہ تسلیاں دے رہی تھی لیکن بچہ صبح تک روتا
رہا اور ساتھ سلیم بھی جاگتا رہا۔ صبح ہوئی تو سلیم نے ناشتہ کیا اور سیدھا جاکر پڑوسی کا دروازہ کھٹکٹا
یا۔ایک بوڑھا اور چھوٹا بچہ نمودار ہوا۔بچہ چالتے ہوئے اندر بھاگا کہ چھوٹے بابو آے ہیں۔سلیم سمجھ گیا
کہ یہ تو جانتے ہیں مجھے۔سلیم بڑے تپاک سے مال اور بابا کو بتایا کا آپ کا نواسہ بیمار ہے چلو ڈاکٹرکو
دیکھاتے ہیں۔ہاں بیٹا یہ تو چار دنوں سے پڑا ہے لیکن اس کا باپ گھر پر نہیں ہے اوروہ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں سب
کچھ ہو جائے گا ،میں بندوبست کراتا ہوں،آب بے فکر رہئے۔بچے کو لے آوں چلتے ہیں۔
سلیم آج دیر کرنے پر پریشان بھی تھاکہ بڑے صاحب کیا کہیں گے ،ابتدائی دن ہے اور ساتھ والدین کے
لیے بھی فکر مند تھا کہ ماں کیسی ہو گی ،میں یہ زندگی اکیلے کیسے گزاروں گا۔انہیں سوچوں میں ُگم سلیم
جب دفتر پہنچھے تو بڑے صاحب تاحال نہیں آئے تھے ۔سلیم اپنے کام میں مصروف رہا۔کچھ وقت گزرا تھا
کہ جمال چچاآئے جوبڑے صاحب کے ساتھ دفتر میں کام کرتا تھا۔آپ کو بڑے صاحب بالرہے ہیں۔چچا نے
سلیم سے کہا۔ سلیم ڈرتے ڈرتے بڑے صاحب کے دفتر میں گئے توبڑے صاحب خود اٹھے اور سلیم کو
گاوں کے ساتھ والے دفتر میں اپنی گلے لگایا ،مبارک باددی اور کہا کا کمپنی نے فیصلہ کیا ہے کاآپ اپنے ٗ
ڈیوٹی سنبھال لیں،جہاں حال ہی میں نیا نیا برانچ کھالہے ،یہ لو اپنا آرڈر ۔۔۔۔۔۔