You are on page 1of 3

‫ابو حذیفہ سواتی‬

‫دریاؤں میں آلودگی کا مسئلہ‬


‫ویسے تو ہمارا وطن التعداد مسائل کی آماجگا ہ بنا ہواہے ۔نت نیے مسائل کا شکار اس نوازیدہ مملکت‬
‫خداوندی کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے عوم الناس کو اپنے مسائل کا صحیح ادراک نہیں ہورہا۔ترجیحی بنیادوں‬
‫پر حل طلب مسائل ان کے نظروں سے اوجھل اور سمجھ سے باہر ہیں۔آج کے سوشل میڈیا پرچوبیس گھنٹے مسلح پہرا‬
‫رکھے ہمارے ان جوانوں کو ۔۔۔۔۔ خدا کسی طوفان سے آشنا نہ کرے‪،‬ورنہ کسی بیچارے مجرم کا چمڑا ادھیڑنے‪،‬‬
‫گوشت نوچنے اور تکہ کباب بنانے کے مطالبات سامنے آتے ہیں۔ہمارے سوشل میڈیا کے ان جانبازوں کو جب اپنے‬
‫محبوب شغل پی سی ایل کرکٹ میچوں سے لطف اٹھانے میں کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا‪،‬تو اپنے اپنے ٹیم کو سپورٹ‬
‫کرنے اور دوسروں پر پھبتیاں کسنے اور طرح طرح کے القابات سے نوازنے کےبجائے اپنے توپوں کا رخ یک دم‬
‫سیدھا ممبئ کے جانب موڑدیا۔ہمارے ان شیدائین ہالی ووڈ اورفدائین نے سیمی فائنل میچ ممبئ جبکہ فائنل دہلی میں‬
‫کھیلنے کا اعالن کردیا۔‬
‫اسی ناہنجار قوم کے نسل نو کو راہ راست پر النے واالمعلم جب کہیں تھک کر تازہ دم ہونے کے لیے کرسی‬
‫پر تھوڑا اونگھنے لگے یا شرارتی بچوں کو آداب سیکھانے انہیں مرغا بنائے ‪ ،‬کہیں بیمار قوم کےخدمت میں لگا‬
‫درد مند ڈاکٹر دوران اپریشن کوئی آلہ جراحت بھول جائے‪،‬کہیں قصاب غلطی سے عقل مند قوم کو گدھے کا گوشت‬
‫فروخت کر دے‪،‬کہیں دن رات خدمت خلق پر مامور محنت کش پولیس اہلکار کو کوئی ہدیہ پیش کرے ۔کوئی کارخانے‬
‫واال دو نمبر چیز بنائے یا کہیں قوم کے غم میں نڈھال سیاست داں سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو غازیان فیس‬
‫اعلی حکام نوٹس جاری کر وادیتے ہیں ‪،‬پولیس حرکت میں آجاتی ہیں ‪،‬عدالتیں‬
‫ٰ‬ ‫بک وہ ہنگامہ کھڑاکر دیتے ہیں کہ فورا‬
‫سوموٹو ایکشن لیتے ہیں ‪،‬مذمتیں آنا شروع ہو جاتے ہیں اوراسمبلی میں قانون سازی کی جاتی ہےاور ملوث اہلکاروں‬
‫کے خالف کاروائی عمل میں الئی جاتی ہیں۔‬
‫لیکن حیرت کی بات ہیے کہ بعض اوقات ہم سے بڑے بڑے مسائل اوجھل رہتے ہیں کیو نکہ یا تو ہمیں ان کا‬
‫علم نہیں ہوتایا ہم ان مسائل کو معمولی خیال کرتے ہیں اور یا نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ان مسائل میں سے ایک مسئلہ‬
‫صاف پانی کا مسئلہ ہے۔میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم سب اس جرم میں برابر شریک ہے‬
‫۔ قدرت ہر سال برف باری کی صورت پہاڑوں پر برف کے ذخائر جمع کرا تی ہیں اور بارشوں کے شکل برس کر پھر‬
‫زمین میں یہ قیمتی ذخائر سٹور رہتے ہیں ۔جن سے سالہا سال پاک صاف پانی مفت میں جاری رہتا ہے۔لیکن بدقسمتی‬
‫کہئے یا بدبختی ‪،‬العلمی کہ دیجئے یا چشم پوشی کہ ہم سب میٹھے چشموں سے نکلتے ‪،‬گلیشیر سے رواں دواں بہتے‬
‫‪،‬شور مچاتے ‪،‬گنگناتے ٹھنڈے نیلے پانی کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔‬
‫پانی انسانی خوراک کا اہم ترین بنیادی جزو اور ہللا کی عطاکردہ بیش بہا نعمت ہے مگر پاکستان میں قدرت کی‬
‫یہ نعمت بھی اپنی خالص شکل میں میسر نہیں۔ ‪۲۰۰۱‬ء تا ‪۲۰۱۰‬ء کے درمیان پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر‬
‫ریسورسز )‪(PCRWR‬نامی سرکاری ادارے کی تحقیقات کے مطابق شہروں میں صرف ‪ % ۱۵‬اور دیہات میں صرف‬
‫‪ ۱۸%‬افراد کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ ‪ % ۸۰‬سے زائد آبادی‪ ،‬دیہاتوں میں بیکٹیریا‪ ،‬آرسینک نائٹریٹ اور سلفر مال‬
‫پانی پینے پر مجبور ہے۔ آلودہ پانی کئی بیماریوں کی بڑی اہم وجہ ہے۔ ‪ ۱۷‬اپریل ‪۲۰۱۲‬ء کو پاکستان ٹوڈے میں شائع‬
‫ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں ‪ % ۴۰‬اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے‪ ،‬بچوں کی ‪ % ۴۰‬اموات بھی صاف پانی‬
‫میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ساالنہ اڑھائی الکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں‪ ۸۰% ،‬بیماریوں کی‬
‫وجہ گندا پانی ہے‪.‬‬
‫مالکنڈ ڈویژن کے دو بڑے دریاؤں ( دریاے سوات اور دریاے پنجکوڑہ) کو غور سے دیکھئے۔ہم لوگوں نے ان‬
‫کا کیا حشر کیا ہے۔لوگ دنیا بھر کا غالظت اس میں بیدھڑک پھینکتے ہیں‪ ،‬پکے مسلمان بھی اسالم کے پاکی وصفائی‬
‫کا یہ درس بھول جاتے ہیں کہ اسالم پانی میں تو کیا پانی کے قریب بھی غال ظت پھینکنے سے منع فرماتا ہے ۔ہمارے‬
‫گھروں ‪،‬دفتروں ‪،‬ہوٹلوں ‪،‬اور تعلیمی اداروں کے تمام غالظت کا رخ دریا کے جانب ہوتاہے ۔کہیں بھی جانور مر جائے‬
‫تو اس کا ٹھکانہ دریا ہوتا ہے ‪ ،‬جس سے مہینوں لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں۔بقر عید کو مویشیوں کی غالظت‬
‫‪،‬اوجھڑیاں ‪،‬انتڑیانسب ان دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے۔چھوٹے بڑے شہروں کے مذبح خانوں کا سارا غالظت روزانہ ان‬
‫کے نذر کیا جا تا ہے۔او رستم ظریفی تو یہ ہے کہ دریاؤں کے کنارے واقع تعلیمی اداروں کا جملہ فضلہ جات بھی‬
‫سیدھا دریاوں میں چال جاتا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر بہت افسوس سےیہ لکھنا پڑتا ہے کہ دریا ؤں کے کنارے‬
‫مدارس و مساجد کے استنجا خانوں اور لیٹرینوں کا سارا گند بھی ان دریاؤں میں شامل ہو جاتا ہے ۔۔۔۔اس پانی سے‬
‫آگے چل کر دوسرے لوگ طہارت حاصل کرتے ہیں۔ ان دریاؤں کے کنارے بڑےبڑے ہوٹلوں کا سارا غالظت اور‬
‫فضلہ بھی ادھر ہی پھینک دیا جاتاہے۔‬
‫ہر سال الکھوں سیاح ان خوبصورت اور پر فضاء مقامات کا رخ کرتےہیں ۔ جو ان دریاؤں کے رواں ٹھنڈے‬
‫پانی سےمحظوظ ہو تے ہیں‪ ،‬ان کے گن گاتے ‪،‬سیلفیاں لیتے ہیں اور ساتھ ٹنوں غالظت بھی ان دریاؤں کے حوالہ کر‬
‫دیتے ہیں۔یہ پاک صاف پانی آلودہو کر نہ صرف ال کھوں انسانوں کے پینے اور دیگر ضروریات ذندگی کے استعمال‬
‫کے لیےغیر محفوظ اومضرصحت بن جاتا ہے بلکہ ان دریاؤں میں پرورش پانے والے الکھوں نایاب مچھلیوں‬
‫جیسے "ٹراؤٹ" کے افزائش نسل کے لیےخطرہ بھی بن جاتا ہے۔ دوسال قبل ان دریاؤں کے کنارے الکھوں‬
‫مچھلیانتڑپتے اورمر تے دیکھے گیے ۔جس کو لوگ عذاب ٰالہی کہتے‪،‬اور واقعی یہ ہمارے اس ناشکری کی سزا تھی‬

‫اتنے بڑے مسئلے پر خاموشی ناقبل فہم ہے ۔حکام کے طرف سے بے اعتنائی سمجھ سے باال تر اور این جی‬
‫اوز کی التعلقی پر سوالیہ نشان۔ اس لیے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے فیس بک کے جانبازونکو آگے بڑھنا‬
‫کرے۔۔۔اعلی حکام اپنی ذمہ داری کا احساس‬
‫ٰ‬ ‫چاہئے۔۔۔۔ علماء اور اساتذہ اپنا فرض نبھائے ۔۔۔منتخب ممبران قانون سازی‬
‫کر کے اس عظیم نعمت کی حفاظت یقینی بنائے ۔۔۔۔تاکہ تمام انسان ‪،‬چرند ‪،‬پرند‪،‬حشرات و نباتات قدرت کے اس بیش بہا‬
‫نعمت سے مستفید ہو اور اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے پہنچنے والے مضر اثرات سے محفوظ ہو۔‬

You might also like