Professional Documents
Culture Documents
Shadi Me Larki Ki Marzi
Shadi Me Larki Ki Marzi
اگر لڑکی اپنی مرضی چال سکے اور ولی اس کو روکنے کا اختیار ہی نہ رکھ سکے تو اس
معاملے میں ’ولی‘ کی بحث ہی کھڑی نہ ہوگی ۔
بات اگر ’صرف‘ لڑکی کی ’مرضی‘ ہی کی ہوتی تو قرآن و حدیث میں اتنے اہتمام سے ’ولی‘
کے ذکر کا کوئی مقصد ہی نہیں رہ جاتا ۔
نکاح کے معاملے میں لڑکی کو کسی حد تک اختیار ہے لیکن ’ کلی اختیار‘ نہیں ہے ۔
محدثین اور محققین کے نزدیک ۔۔۔ جب لڑکی بالغ (کنواری یا باکرہ) ہو یا بیوہ ہو تو لڑکی کا
’اذن‘ لینا بھی ’ضروری‘ ہے ۔
کنواری کا ’خاموش رہنا‘ اس کا اذن ہے ۔
اور بیوہ کو ’زبان‘ سے اذن دینا چاہئے ۔
اس ضمن میں ایک حدیث کا مکمل حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے جس کا مفہوم ہے کہ :
ایک کنواری لڑکی رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وسلم) کے پاس آئی ۔ اس کے باپ نے اس کا نکاح
جبرا َ ََ ایک ایسے شخص سے کر دیا تھا جسے وہ ناپسند کرتی تھی تو رسول ہللا (ص) نے اس
کو اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اپنا نکاح باقی رکھے یا چاہے تو فسخ کر دے ۔
عورت کا اذن
درج ذیل حدیث ان لوگوں (لڑکی کے ولی) کے خالف مضبوط دلیل ہے جو لڑکی /عورت کی
اپنی رضامندی کے خالف جبرا َ ََ اس کی شادی رچا دیتے ہیں ۔
https://islamqa.info/ur/22760
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1952/0/