You are on page 1of 1

‫ولی کہتے ہیں اختیار رکھنے والے فرد کو ۔‬

‫اگر لڑکی اپنی مرضی چال سکے اور ولی اس کو روکنے کا اختیار ہی نہ رکھ سکے تو اس‬
‫معاملے میں ’ولی‘ کی بحث ہی کھڑی نہ ہوگی ۔‬
‫بات اگر ’صرف‘ لڑکی کی ’مرضی‘ ہی کی ہوتی تو قرآن و حدیث میں اتنے اہتمام سے ’ولی‘‬
‫کے ذکر کا کوئی مقصد ہی نہیں رہ جاتا ۔‬

‫نکاح کے معاملے میں لڑکی کو کسی حد تک اختیار ہے لیکن ’ کلی اختیار‘ نہیں ہے ۔‬
‫محدثین اور محققین کے نزدیک ۔۔۔ جب لڑکی بالغ (کنواری یا باکرہ) ہو یا بیوہ ہو تو لڑکی کا‬
‫’اذن‘ لینا بھی ’ضروری‘ ہے ۔‬
‫کنواری کا ’خاموش رہنا‘ اس کا اذن ہے ۔‬
‫اور بیوہ کو ’زبان‘ سے اذن دینا چاہئے ۔‬

‫اس ضمن میں ایک حدیث کا مکمل حوالہ اس وقت میرے پاس نہیں ہے جس کا مفہوم ہے کہ ‪:‬‬
‫ایک کنواری لڑکی رسول ہللا (صلی ہللا علیہ وسلم) کے پاس آئی ۔ اس کے باپ نے اس کا نکاح‬
‫جبرا َ ََ ایک ایسے شخص سے کر دیا تھا جسے وہ ناپسند کرتی تھی تو رسول ہللا (ص) نے اس‬
‫کو اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اپنا نکاح باقی رکھے یا چاہے تو فسخ کر دے ۔‬

‫عورت کا اذن‬

‫درج ذیل حدیث ان لوگوں (لڑکی کے ولی) کے خالف مضبوط دلیل ہے جو لڑکی ‪ /‬عورت کی‬
‫اپنی رضامندی کے خالف جبرا َ ََ اس کی شادی رچا دیتے ہیں ۔‬

‫‪ :‬رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬


‫بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے ۔ اور کنواری‬
‫عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔‬
‫صحابہ نے کہا کہ یا رسول ہللا ! کنواری عورت اذن کیوں کر دے گی ؟‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے ۔ یہ‬
‫خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی ۔‬
‫صحیح بخاري ‪ ،‬كتاب النکاح ‪ ،‬باب ‪ :‬ال ینكح االب وغیرہ البكر والثیب اال برضاها ‪ ،‬حدیث ‪:‬‬
‫‪5191‬‬

‫‪https://islamqa.info/ur/22760‬‬

‫‪http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1952/0/‬‬

You might also like