You are on page 1of 6

‫پورس کے ہاتھی ان بنیوں اور برہمنوں کے سامراجی عزائم کی شکست کی‬

‫داستان ہے جنہوں نے اٹھارہ سال کی تیاریوں کے بعد پاکستان کو ایک اور جونا‬
‫گڑھ یا حیدر آباد سمجھ کر حملہ کیا تھا۔ یہ ایک ڈراما ہے اور اس کے کردار‬
‫اقوام عالم کے سامنے اس جنگ‬
‫ِ‬ ‫بھارت کے وہ چھوٹے اور بڑے منتری ہیں جو‬
‫کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اپنے ننگے اور بھوکے عوام کو اپنے سینا‬
‫پتی کی عظیم فتوحات کی خبریں سنا رہے تھے۔ (نسیم حجازی)‬
‫پورس کے ہاتھی امن اور انسانیت کے اس عظیم دشمن کی روح کی گہرائیوں‬
‫میں جھانکنے کی ایک اور کوشش کا ما حصل ہے۔۔۔ ایک مختصر اور غیر‬
‫سنجیدہ تحریری جسے پوری سنجیدگی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔یہ چند قہقہے‬
‫رہین منّت ہیں جن کی مسکراہٹیں جنگ کے‬
‫ِ‬ ‫پاکستان کے ان جیالے سپاہیوں کے‬
‫سرمایہ حیات بن گئی تھیں۔ (نسیم حجازی)‬
‫ٔ‬ ‫ایّام میں پوری قوم کے لئے‬
‫کردار‬
‫ڈاکٹر رادھا کرشنن‪ :‬بھارت کا راشٹر پتی (صدر)‬
‫الل بہادر شاستری‪ :‬بھارت کا پردھان منتری (وزیر اعظم)‬
‫(وزیر دفاع)‬
‫ِ‬ ‫مسٹر چون‪ :‬رکھشا منتری‬
‫وزیر داخلہ‬
‫ِ‬ ‫گلزاری الل نندہ‪:‬‬
‫مسز اندرا گاندھی‪ :‬وزیر اطالعات‬
‫کرشنم اچاری‪ :‬وزیر خزانہ‬
‫(بری افواج کا کمانڈر ان چیف)‬
‫جنرل چودھری‪ :‬بھارت کا سینا پتی ّ‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہارا ج! میری ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ میں بھارت کی فوج کا‬
‫سینا پتی ہوں اور بھارت کی فوج خالص بھارتی ہے اور بھارت کے مقابلے میں‬
‫پاکستان کی فوج خالص پاکستانی ہے۔ اس لئے اگر ہمیں خالص بھارتی حملے کا‬
‫خالص پاکستانی جواب مال ہے تو آپ مجھے قصور وار نہیں ٹھہراسکتے۔ اگر‬
‫آ پ میری بجائے میری فوج کے افسروں اور سپاہیوں سے اس ناکامی کی وجہ‬
‫پوچھ لیتے تو آپ کو میرا وقت ضائع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔‬
‫چون‪ :‬اور آپ کے افسر اور سپاہی کیا کہتے ہیں؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہاراج! وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ جنگ خالص فوجی‬
‫اصولوں کے تحت لڑی ہے اور پاکستانی اتنے بے ڈھب ہیں کہ انہوں نے کسی‬
‫محاذ پر بھی ان اصولوں کی پروا نہیں کی۔‬
‫شاستری‪ :‬اور وہ اصول کیا ہیں جنہیں پلّے باندھ کر آپ نے بھارت کی ّ‬
‫عزت‬
‫خاک میں مالدی ہے اور جن سے بے پروا ہوکر پاکستانی فوج نے الہور‪،‬‬
‫سیالکوٹ اور قصور کو بچالیا ہے؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہاراج! اگر آپ میرا مذاق اُڑانا چاہتے ہیں تو میں یہاں ایک‬
‫منٹ بھی ٹھہرنا پسند نہیں کروں گا۔ لیکن اگر آپ معاملے کی تہہ تک پہنچنا‬
‫چاہتے ہیں تو میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں۔‬
‫چون‪ :‬جرنیل صاحب آپ ہمیں سمجھانے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اس معاملے کی‬
‫تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یہ خیال بھی دل میں نہیں النا چاہیے کہ ہم میں‬
‫سے کوئی حیدر آباد اور گوا کے فاتح کے ساتھ مذاق کرسکتا ہے۔‬
‫جنرل چودھری‪( :‬قدرے مطمئن ہوکر) جنگ کا پہال اصول یہ ہے کہ اگر مقابلہ‬
‫کرنے والے کی پوزیشن کمزور ہو تو وہ ہمیشہ پسپا ہوکر ہتھیار ڈال کر اپنے آپ‬
‫کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور حملہ کرنے واال ہمیشہ اپنی طاقت سے فائدہ‬
‫اُٹھاکر اس وقت تک آگے بڑھتا چال جاتا ہے جب تک اُس کے راستے میں کوئی‬
‫خطرناک ُرکاوٹ نہ آجائے۔ لیکن پاکستان کی فوج نے ہر محاذ پر اس اصول کی‬
‫خالف ورزی کی ہے۔ اس کی پوزیشن جس قدر کمزور ہوتی ہے‪ ،‬اسی قدر وہ‬
‫جم کر لڑتی ہے۔ پاکستان کا سپاہی اس وقت بھی لڑتا ہے جب کہ اُسے چاروں‬
‫طرف موت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی پالٹون ہماری کمپنی‪ ،‬اُن کی‬
‫کمپنی ہماری بٹالین ہمارے بریگیڈ کے سامنے بھی ڈٹ جاتی ہے۔ ہمیں ایسا‬
‫محسوس ہوتا ہے کہ موت ان کے لئے ایک کھیل ہے۔ بموں اور گولیوں کی‬
‫بارش کو وہ پھولوں کی بارش سمجھتے ہیں۔ پسپا ہونا اور ہتھیار ڈالنا تو اُنہیں‬
‫سکھایا ہی نہیں گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ (جنرل چودھری خاموش‬
‫ہوجاتا ہے)‬
‫شاستری‪ :‬جرنیل صاحب! آپ خاموش کیوں ہوگئے؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہاراج! اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم خود ہتھیار ڈالنے اور‬
‫پسپا ہونے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔‬
‫چون‪ :‬اور آپ پسپا کیوں ہوتے ہیں؟ اگر پاکستانی موت کو کھیل سمجھتے ہیں تو‬
‫آپ اُن کا شوق پورا کیوں نہیں کرتے؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہاراج! بھارت کے سپاہی اس لئے پسپا ہوتے ہیں کہ وہ موت‬
‫کو ایک کھیل نہیں سمجھتے۔‬
‫رادھا کرشنن‪ :‬تو آپ کا مطلب یہ ہے کہ جب پاکستان کے سپاہی موت سے بے‬
‫پروا ہوکر لڑتے ہیں تو بھارت کے سپاہی موت سے خوف زدہ ہو کر بھاگ‬
‫اُٹھتے ہیں؟ یعنی پاکستان کے سپاہیوں کے ح ّ‬
‫صے کا خوف بھارتی سپاہیوں کے‬
‫صے میں آجاتا ہے؟‬
‫ح ّ‬
‫جنرل چودھری‪ :‬میرا یہی مطلب ہے مہاراج! جنگ کا دوسرا اصول یہ ہے کہ‬
‫کسی فوج کو فتح کی ا ّمید صرف اسی وقت تک ہوتی ہے جب تک اُس کے پاس‬
‫دشمن کا مقابلہ کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ لیکن پاکستان کے سپاہی ہمارا‬
‫حملہ روکتے یا ہم پر حملہ کرتے وقت یہ سوچنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں‬
‫کرتے کہ ہمارے ٹینکوں کے مقابلے میں ان کے ٹینکوں اور ہماری توپوں مشین‬
‫گنوں اور ہوائی جہازوں کے مقابلے میں ان کے ٹینکوں‪ ،‬توپوں‪ ،‬مشین گنوں اور‬
‫ہوائی جہازوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ ہر حال میں آخری وقت تک اس ا ّمید اور‬
‫یقین کے ساتھ لڑتے ہیں کہ فتح صرف اُن کے لئے ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی‬
‫سن کر صدمہ ہوگا کہ۔۔۔۔ میرا‬
‫موت کو بھی فتح سمجھتے ہیں۔ اور آپ سب کو یہ ُ‬
‫مطلب ہے کہ آپ اپنے سینا پتی کی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کریں گے کہ ۔۔۔‬
‫یہی اُمید اور یقین باآلخر ان کی شکست کو فتح سے بدل دیتا ہے۔۔۔۔ پھر ہم یہ‬
‫دیکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔‬
‫رادھا کرشنن‪ :‬پھر آپ کیا دیکھتے ہیں جرنیل صاحب؟‬
‫جنرل‪ :‬کچھ نہیں مہاراج! میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اگر میں سچی بات‬
‫کروں تو آپ مجھے پاگل خیال کریں گے۔ (شاستری کی طرف متوجہ ہوکر)‬
‫پردھان منتری جی! اگر آپ بھارت کے سینا پتی ہوتے اور آپ یہ دیکھتے کہ آپ‬
‫کے ٹینک الہور کی سڑک پر بھاگے چلے جارہے ہیں۔ اور ان کے راستے میں‬
‫کوئی رکاوٹ نہیں۔ اور آپ کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ الہور صرف تیرہ چودہ میل‬
‫د ُور رہ گیا ہے تو آپ کیا سوچتے؟‬
‫شاستری‪ :‬میں اپنی گھڑی کی طرف دیکھتا۔ پھر ٹینکوں کی رفتار معلوم کرنے‬
‫کے بعد یہ اندازہ لگاتا کہ مجھے الہور پہنچنے میں کتنے منٹ لگیں گے؟!‬
‫جنرل چودھری‪ :‬مہاراج اگر آپ کی گھڑی پر صبح دس بجے کا وقت ہوتا اور‬
‫آپ یہ دیکھتے کہ سڑک کے کنارے ایک لکڑی کا چھکڑا کھڑا ہے جس پر‬
‫گھاس وغیرہ لدی ہوئی ہے۔ اور پھر اچانک آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ لکڑی کا یہ‬
‫چھکڑا فوالد کے ٹینکوں سے زیادہ خطرناک ہے تو آپ کی کیا حالت ہوتی؟‬
‫چون‪ ،‬رادھا کرشنن‪ ،‬شاستری{‪( :‬ایک ساتھ) لکڑی کا چھکڑا؟؟؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬ہاں جناب! لکڑی کا چھکڑا۔ آپ کو جنرل نرنجن پرشاد نے یہ‬
‫نہیں بتایا کہ ہمارے دو ٹینک ایک لکڑی کے چھکڑے کی فائرنگ سے تباہ‬
‫ہوئے تھے؟!‬
‫کرشنم اچاری‪ :‬جنرل صاحب! اگر آپ مذاق نہیں کرتے میرا مطلب ہے کہ اگر‬
‫لکڑی کا چھکڑا دو ٹینک تباہ کرسکتا ہے تو ہمیں سب سے پہلے چھکڑے چمع‬
‫کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔‬
‫چون‪ :‬کرشنم اچاری ہر وقت بچت کے متعلق سوچتے ہیں۔ بھال لکڑی کا چھکڑا‬
‫ٹینک کیسے تباہ کرسکتا ہے؟‬
‫جنرل‪ :‬مہاراج! میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی فوج کے کسی افسر نے‬
‫ہمارے ٹینک دیکھے۔ اور ٹینکوں کے ساتھ اُس نے یہ دیکھا کہ ہماری انفنٹری‬
‫آگے بڑھ رہی ہے۔‬
‫اندرا گاندھی‪ :‬پھر کیا ہوا؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬پھر اینٹی ٹینک گن نے یکے بعد دیگرے دو فائر کئے اور آن‬
‫کی آن میں ہمارے دو ٹینک تباہ کردئیے۔ پھر باقی ٹینکوں کو آگے جانے کی‬
‫جرأت نہیں ہوئی۔ اور مشین گن کی گولیوں کی بارش میں ہماری انفنٹری کو بھی‬
‫پیچھے ہٹنا پڑا۔‬
‫شاستری‪ :‬لیکن اینٹی ٹینک کا چھکڑے کے ساتھ کیا تعلّق تھا؟‬
‫چنرل چودھری‪( :‬بلند آواز سے) اینٹی ٹینک چھکڑے کے اُوپر لدی ہوئی تھی‬
‫مہاراج! اور گھاس اُس کے اُوپر ڈال دی گئی تھی۔ صرف نالی کا آخری ِسرا‬
‫گھاس سے باہر تھا جو ہمارے سپاہیوں کو نظر نہیں آسکا۔‬
‫کرشنم اچاری‪ :‬اور اس چھکڑے پر لدی ہوئی اینٹی ٹینک نے ہمارے دو ٹینک‬
‫تباہ کردئیے؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬ہاں مہاراج! یہ ایک انہونی بات تھی۔ میں نے دنیا بھر کی‬
‫جنگوں کے حاالت پڑھے ہیں لیکن میری نظر سے کوئی ایسا واقعہ نہیں گزرا‬
‫کہ لکڑی کے چھکڑے سے فوالد کے ٹینکوں کو تباہ کرنے کا کام لیا گیا ہو۔ یہ‬
‫ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے باقی ٹینک پیچھے ہٹ گئے۔ ورنہ پاکستانی‬
‫شاید ہمارے ایک دو اور ٹینک تباہ کرڈالتے۔‬
‫کرشنم اچاری‪ :‬اگر لکڑی کا چھکڑا اس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تو ہمیں‬
‫اتنے قیمتی ٹینک خریدنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم آپ کو ایک ٹینک کے بدلے‬
‫زر‬
‫پانچ سو چھکڑے دے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم جنگ بھی جیتیں گے۔ اور ِ‬
‫مبادلہ بھی بچائیں گے۔ بھارت میں لکڑی کے چھکڑوں اور گھاس کی کمی نہیں۔‬
‫جنرل چودھری‪ :‬چھکڑے تو بہت ہیں مہاراج! لیکن آپ ایسے آدمی کہاں سے‬
‫الئیں گے جو بموں کی بارش میں کھڑے ہوکر اس قسم کی باتیں سوچ سکتے‬
‫ہوں۔‬
‫شاستری‪ :‬پاکستان ایسے آدمی کہاں سے التا ہے؟‬
‫جنرل چودھری‪ :‬پاکستان ایسے آدمی باہر سے نہیں التا مہاراج! جس طرح کوئٹہ‬
‫میں انگور‪ ،‬کشمیر میں زعفران اور قصور میں وہ سبزی۔۔۔ میں نام بھول گیا۔ وہ‬
‫کون سی سبزی تھی نندہ جی۔۔۔؟‬
‫کرشنم اچاری‪( :‬اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے) میتھی۔‬
‫(اندرا گاندھی ہنستی ہے اور باقی سب نندہ کی طرف دیکھتے ہیں۔)‬
‫جنرل چودھری‪ :‬ہاں ہاں میتھی۔ نندہ جی کہتے تھے کہ میتھی بھارتے میں بھی‬
‫اُگتی ہے لیکن قصور کی میتھی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس کی چند ُ‬
‫سوکھی پتّیاں‬
‫بھی ہنڈیا میں ڈال دی جائیں تو سارا محلّہ مہک اٹھتا ہے۔۔۔ (نندہ کے سوا باقی‬
‫سب ہنستے ہیں) اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ جس‬
‫قصور میں خاص قسم کی میتھی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستان میں وہ سپاہی‬
‫پیدا ہوتے ہیں جو آخری وقت تک لڑتے ہیں۔ اور بدترین حاالت میں بھی جنگ کا‬
‫پانسا پلٹ دیتے ہیں۔‬

You might also like