Professional Documents
Culture Documents
ِ اسالم کے
اسالم کی دعوت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ مبلغ
ِ دین کا جاننا بے حد ضروری ہے جن میں عربی لیے احکام
صحابہ ،فقہ کا
ؓ سیرت
ِ لغت ،قرآن و حدیث ،سیرت النبی ﷺ،
کہ قرآن و سنت ،علم الکالم اور کتبِ عالم ہونا اس طور
فقہ کی روشنی میں احکام و مسائل کے استنباط کرنے پر
ِ باری تعالی ہے :اور ہم لوگوں کے قدرت ہو،چنانچہ ارشاد
ان مثالوں کو بیان کرتے ہیں ،اور ان مثالوں کو صرف لیے
علماء سمجھتے ہیں ' (العنکبو ت )43 :۔دوم یہ کہ اس کا
ِ اسالم کاقلب و نفس خشیتِ الہی سے معمور ہو اور شعائر
ِ باری تعالی ہے :اے ایمان مکمل طور پر پیکر ہو ،ارشاد
والو! ہللا سے ڈرو اور اس کی بارگاہ میں (نجات کا ) وسیلہ
تالش کرو ،اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب
مزید فرمایا 'سو تم لوگوں سے نہ ڈرو ہو'(المائدۃ)35:
مجھ سے ڈرو ،اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ
لو' (المائدۃ)44:۔اورمزید رہنمائی فرمائی کہ ' اے ایمان
والو! ہللا سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں
ہر گز موت نہ آئے مگر مسلمان ہونے کی حالت میں' ( ال
ِ
عمران)102:۔سوئم یہ کہ وہ لوگوں کو خیروبھالئی کا حکم
کرنے واال ہو اور شرو برائی سے باز رکھنے واالہو ،قرآن
کریم کالم گو ہے ' :اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت
ہونی چاہیےجو اچھائی کی طرف بالئیناور نیک کاموں کا حکم
دیں اور برے کاموں سے منع کریں ،اور وہی لوگ فالح کو
ِ عمران)104 :۔ حضرت ابو سعید خدری پہنچنے والے ہیں' (آل
بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا :تم میں سے جس شخص
نے برائی کو دیکھا،وہ اپنے ہاتھ سے برائی کو مٹائے،اگر
وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو تو اپنی زبان سے مٹائے اور
اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانےاور
یہ سب سے کمزور درجے کا ایمان ہے۔( صحیح مسلم) چہارم
شرط یہ کہ ہللاجل جاللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ کی طرف لوگوں
ِ اخالق کے ساتھ کو حکمت و دانائی،عمدہ نصیحت اور مکارم
دعوت دے ،حکمت سے مراد کہ وہ لوگوں کی ذہنی استعداد،
عقل و فہم اور موقع و محل کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے
ً حکم دیتا ہے کہ ' ِ حق صراحتا ہوئے کالم کرے،چنانچہ کالم
آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے
ساتھ بالئیے ،اور احسن طریقے کے ساتھ ان پر حجت قائم
کیجئے ،بے شک آپ کا رب ان کو بہت جاننے واال ہے جو اس کے
راستے سے بھٹک گئے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب
جاننے واال ہے' (النحل)125 :۔مزید مفصل ہدایت دی گئی اور
فرمایا :اور اس سے عمدہ کالم کس کا ہو سکتا ہےجو ہللا ( کے
دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ بے شک میں
مسلمانوں میں سے ہوںټ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے،
سو آپ برائی کو اچھے طریقے سے دور کریں ،پس اس وقت جس
کےاور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہو جائے گا جیسے
وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے۔(حم السجدۃ ، )34-33 :حدیث
مبارکہ ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا :بے شک ہللا تعالی نے مجھے
ِ اخالق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔(مؤطا مکارم
امام مالک رقم الحدیث)1677:۔اسی طرح حضرت حسین بن علی
کہ میں نے اپنے والد سے رسول ہللاﷺ کے بیان کرتے ہیں
اپنےہم نشینوں کے ساتھ سیرت کے متعلق سوال کیا ،تو
انہوں نے کہا :رسول ہللاﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی
تھی ،آپ بہت نرم مزاج تھے ،آپ سے بات کرنا بہت سہل تھا،
آپ بد مزاج اور سخت دل نہ تھے،نہ بد گفتار تھے ،نہ
لوگوں کے عیب بیان کرتے تھے ،نہ بخل کرتے تھے ،فضول
آپکے پاس باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے ،جو شخص
کوئی امید لے کر آتا آپ اس کو مایوس نہیں کرتے تھے اور
کسی کو نامراد نہیں کرتے تھے ،آپ نے اپنے لیے تین چیزوں
کو چھوڑ دیا تھا ،آپ بحث و تکرار ،زیادہ باتوں اور بے
مقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے ،اور آپ نے لوگوں کے لیے
بھی تین چیزیں چھوڑ دیں تھیں ،آپ کسی شخص کی مذمت کرتے
تھے اور نہ اسکا عیب نکالتے تھے ،اور نہ کسی کی پوشیدہ
چیز معلوم کرتے تھے ،اور صرف اسی معاملے میں بات کیا
کرتے تھے جس میں آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی،اور جب آپ
گفتگو فرماتے تھے تو آپ کے ہم مجلس اس طرح اپنے سروں کو
جھکا لیتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں ،اور جب آپ
خاموش ہوتے تب وہ آپ سے کوئی بات کرتے تھے ،اور وہ آپ
کے سامنے کسی بات میں بحث نہیں کرتے تھے ،اور جب کوئی
شخص آپ سے بات کرتا تو سب اس کی بات ختم ہونے تک خاموش
ِ مجلس ہنستے تو آپ ہنستے تھے اور رہتے ،جب آپ کے شرکاء
جس چیز پر وہ تعجب کرتے آپ بھی تعجب کرتے ،جب کوئی
اجنبی سختی سے بات کرتا یا سوال کرتا تو آپ صبر کرتے
تھے ،حتی کہ اگر آپ کے اصحاب اس پر سختی کرتے تو آپ
فرماتے :جب تم دیکھو کہ ضرورت مند اپنی حاجت کو طلب کر
رہا ہےتو تم اس کے ساتھ نرمی کرو ،آپ بغیر نوازش اور
عطا کے اپنی تعریف کو قبول نہیں کرتے تھے،ہاں ! آپ کسی
کو کچھ عطا کرتے اور وہ آپ کی تعریف کرتا تو آپ قبول کر
لیتے ،آپ کسی کے کالم کو منقطع نہیں کرتے تھے حتی کہ وہ
شخص حد سے تجاوز کرتا تو پھر اس کی بات کاٹ کر اس کو
روکتے یا اٹھ جاتے۔(شمائل ترمذی رقم الحدیث)352:۔مندرجہ
ایک داعی و مبلغ ِ اسالم پر یہ امر منتج امورسے باال
ہوتا ہے کہ اسے ایسے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہونا چاہیے تا
کہ ابالغ و دعوت کا عمل مؤثر ہو سکے۔ پنجم شرط یہ کہ اس
میں ہمت و شجاعت ،دلیری اور بہادری ہو۔ظلم و ستم کا
ء کلمۃ الحق کی حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔اعالِ
جیسی اعلی صفات سے مزین ہو۔ایسے قوت اور اولوالعزمی
جوش و ولولہ کا حامل ہو کہ ظالم و جابر حکمرانوں کے خالف
حق کا پرچم بلند کر سکے۔چنانچہ حق تعالی کا ارشاد ہے:
اور ہللا کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا
حق ہے۔(الحج)78:۔حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ
رسول ہللاﷺ نے فرمایا :افضل جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمئہ
حق کہنا ہے۔(سنن ابی داؤد) اور عبدہللا طارق بن شہاب بیان
کرتے ہیں کہ کسی شخص نے رسول ہللاﷺ سے سوال کیاکہ کون سا
جہادسب سے افضل ہے؟ رسول ہللاﷺ نے فرمایا :ظالم سلطان کے
سامنے کلمئہ حق بلند کرناسب سے افضل جہادہے۔ (سنن
ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول نسائی)اور حضر ت عبد ہللا بن عمر
ہللاﷺ نے فرمایا :جب تم میری امت میں ان لوگوں کو دیکھو جو
ظالم کو ظالم کہنے سے ڈریں تو تم ان سے الگ ہو جاؤ۔
(مسند احمد،جامع ترمذی ،صحیح ابنِ حبان)
کیا جائے اور مندرجہ باال شرئط کو اگر کوزے میں بند
میں اسطرح بند نتیجے کا خالصہ ان جامع و مختصر نکات
ِ دین کا حصول ( )2ہللا اور اسکے رسولﷺ
کیا جائے )1( :علم
کی خشنودی و رضا کا طالب ہونا()3لوگوں کی بھالئی کا
مقصود ہونا ( )4نرم دلی ،صبر،محبت و شفقت سے کام لینا
( )5ہللا کی رضا پر استقامت اختیار کرنا ()6سچ وحق بات
کہنا۔