You are on page 1of 7

‫ٓن و سنت کی روشنی میں‬

‫دعوت اسالم کی شرائط قرا‬


‫از‬
‫زبیر احمد علیمی‬
‫کسی بھی شے کو عملی طور پر کرنے سے قبل اسکے اساسی و‬
‫بنیادی اصول و ضوابط کا ادراک ہونا ایک الزمی امر ہے جو‬
‫کرنے والے میں اہلیت اور عمل میں تاثیر و قوت پیدا کر‬
‫دیتی ہے اور متعین کردہ مقاصد کے حصول کو حتمی و یقینی‬
‫بنا دیتی ہے جو کہ ایک ناگزیر عمل ہے۔ایسا ہی معاملہ‬
‫احکام‬
‫ِ‬ ‫دینِ اسالم کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ بھی ہے جو‬
‫میں سے ایک نہایت اہم و اساسی فریضہ ہے گو کہ‬ ‫الہی‬
‫اسکی انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتیں ہیں مگر اساسی‬
‫اصول و ضوابط کا اطالق بالعموم ہے۔‬

‫اسالم کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ دائمی و ابدی ہے جو کہ‬


‫قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔اس حساس وثقیل ذمہ دای کو‬
‫ہللا جل شانہ نے انبیاء علیھم السالم کے بعد ان کے متبعین‬
‫وپیر وکاروں کے ذمہ لگائی ہے‪ ،‬اب چونکہ محمد رسول ہللاﷺ‬
‫خاتم النبیین ( آخری رسول) ہیں اور آپ کی امت آخری امت‬
‫ہے تو یہ اہم ترین ذمہ داری ان کے سر ہے۔اسالم نے اپنی‬
‫دعوت و ترویج کے لیے کچھ اساسی اصول و شرائط وضع کئےہیں‬
‫اور رسول ہللا ﷺ کی پوری زندگی اسالم کی تعلیم و تبلیغ میں‬
‫صرف ہوئی ہے تو ہم پر بھی یہ واجب ہے کہ اسالم کی خدمات‬
‫اسالمی طریقے کے مطابق بحسنِ خوبی انجام دیں۔‬

‫ِ اسالم کے‬
‫اسالم کی دعوت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ مبلغ‬
‫ِ دین کا جاننا بے حد ضروری ہے جن میں عربی‬ ‫لیے احکام‬
‫صحابہ‪ ،‬فقہ کا‬
‫ؓ‬ ‫سیرت‬
‫ِ‬ ‫لغت‪ ،‬قرآن و حدیث‪ ،‬سیرت النبی ﷺ‪،‬‬
‫کہ قرآن و سنت‪ ،‬علم الکالم اور کتبِ‬ ‫عالم ہونا اس طور‬
‫فقہ کی روشنی میں احکام و مسائل کے استنباط کرنے پر‬
‫ِ باری تعالی ہے‪ :‬اور ہم لوگوں کے‬ ‫قدرت ہو‪،‬چنانچہ ارشاد‬
‫ان مثالوں کو بیان کرتے ہیں‪ ،‬اور ان مثالوں کو صرف‬ ‫لیے‬
‫علماء سمجھتے ہیں ' (العنکبو ت ‪ )43 :‬۔دوم یہ کہ اس کا‬
‫ِ اسالم کا‬‫قلب و نفس خشیتِ الہی سے معمور ہو اور شعائر‬
‫ِ باری تعالی ہے ‪:‬اے ایمان‬ ‫مکمل طور پر پیکر ہو‪ ،‬ارشاد‬
‫والو! ہللا سے ڈرو اور اس کی بارگاہ میں (نجات کا ) وسیلہ‬
‫تالش کرو‪ ،‬اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب‬
‫مزید فرمایا 'سو تم لوگوں سے نہ ڈرو‬ ‫ہو'(المائدۃ‪)35:‬‬
‫مجھ سے ڈرو ‪،‬اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت نہ‬
‫لو' (المائدۃ‪)44:‬۔اورمزید رہنمائی فرمائی کہ ' اے ایمان‬
‫والو! ہللا سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں‬
‫ہر گز موت نہ آئے مگر مسلمان ہونے کی حالت میں' ( ال‬
‫ِ‬
‫عمران‪)102:‬۔سوئم یہ کہ وہ لوگوں کو خیروبھالئی کا حکم‬
‫کرنے واال ہو اور شرو برائی سے باز رکھنے واالہو‪ ،‬قرآن‬
‫کریم کالم گو ہے ‪' :‬اور تم میں ایسے لوگوں کی ایک جماعت‬
‫ہونی چاہیےجو اچھائی کی طرف بالئیناور نیک کاموں کا حکم‬
‫دیں اور برے کاموں سے منع کریں‪ ،‬اور وہی لوگ فالح کو‬
‫ِ عمران‪)104 :‬۔ حضرت ابو سعید خدری‬ ‫پہنچنے والے ہیں' (آل‬
‫بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬تم میں سے جس شخص‬
‫نے برائی کو دیکھا‪،‬وہ اپنے ہاتھ سے برائی کو مٹائے‪،‬اگر‬
‫وہ اس کی طاقت نہیں رکھتاہو تو اپنی زبان سے مٹائے اور‬
‫اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اس کو برا جانےاور‬
‫یہ سب سے کمزور درجے کا ایمان ہے۔( صحیح مسلم) چہارم‬
‫شرط یہ کہ ہللاجل جاللہ اور اس کے رسول ﷺ کی راہ کی طرف لوگوں‬
‫ِ اخالق کے ساتھ‬ ‫کو حکمت و دانائی‪،‬عمدہ نصیحت اور مکارم‬
‫دعوت دے ‪ ،‬حکمت سے مراد کہ وہ لوگوں کی ذہنی استعداد‪،‬‬
‫عقل و فہم اور موقع و محل کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے‬
‫ً حکم دیتا ہے کہ '‬ ‫ِ حق صراحتا‬ ‫ہوئے کالم کرے‪،‬چنانچہ کالم‬
‫آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے‬
‫ساتھ بالئیے‪ ،‬اور احسن طریقے کے ساتھ ان پر حجت قائم‬
‫کیجئے‪ ،‬بے شک آپ کا رب ان کو بہت جاننے واال ہے جو اس کے‬
‫راستے سے بھٹک گئے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب‬
‫جاننے واال ہے' (النحل‪)125 :‬۔مزید مفصل ہدایت دی گئی اور‬
‫فرمایا‪ :‬اور اس سے عمدہ کالم کس کا ہو سکتا ہےجو ہللا ( کے‬
‫دین) کی دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ بے شک میں‬
‫مسلمانوں میں سے ہوںټ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہے‪،‬‬
‫سو آپ برائی کو اچھے طریقے سے دور کریں‪ ،‬پس اس وقت جس‬
‫کےاور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہو جائے گا جیسے‬
‫وہ آپ کا خیر خواہ دوست ہے۔(حم السجدۃ‪ ، )34-33 :‬حدیث‬
‫مبارکہ ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬بے شک ہللا تعالی نے مجھے‬
‫ِ اخالق کو مکمل کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔(مؤطا‬ ‫مکارم‬
‫امام مالک رقم الحدیث‪)1677:‬۔اسی طرح حضرت حسین بن علی‬
‫کہ میں نے اپنے والد سے رسول ہللاﷺ کے‬ ‫بیان کرتے ہیں‬
‫اپنےہم نشینوں کے ساتھ سیرت کے متعلق سوال کیا ‪ ،‬تو‬
‫انہوں نے کہا ‪ :‬رسول ہللاﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت رہتی‬
‫تھی‪ ،‬آپ بہت نرم مزاج تھے‪ ،‬آپ سے بات کرنا بہت سہل تھا‪،‬‬
‫آپ بد مزاج اور سخت دل نہ تھے‪،‬نہ بد گفتار تھے ‪ ،‬نہ‬
‫لوگوں کے عیب بیان کرتے تھے‪ ،‬نہ بخل کرتے تھے‪ ،‬فضول‬
‫آپکے پاس‬ ‫باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے‪ ،‬جو شخص‬
‫کوئی امید لے کر آتا آپ اس کو مایوس نہیں کرتے تھے اور‬
‫کسی کو نامراد نہیں کرتے تھے‪ ،‬آپ نے اپنے لیے تین چیزوں‬
‫کو چھوڑ دیا تھا‪ ،‬آپ بحث و تکرار‪ ،‬زیادہ باتوں اور بے‬
‫مقصد کاموں میں نہیں پڑتے تھے‪ ،‬اور آپ نے لوگوں کے لیے‬
‫بھی تین چیزیں چھوڑ دیں تھیں‪ ،‬آپ کسی شخص کی مذمت کرتے‬
‫تھے اور نہ اسکا عیب نکالتے تھے‪ ،‬اور نہ کسی کی پوشیدہ‬
‫چیز معلوم کرتے تھے‪ ،‬اور صرف اسی معاملے میں بات کیا‬
‫کرتے تھے جس میں آپ کو ثواب کی امید ہوتی تھی‪،‬اور جب آپ‬
‫گفتگو فرماتے تھے تو آپ کے ہم مجلس اس طرح اپنے سروں کو‬
‫جھکا لیتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں‪ ،‬اور جب آپ‬
‫خاموش ہوتے تب وہ آپ سے کوئی بات کرتے تھے‪ ،‬اور وہ آپ‬
‫کے سامنے کسی بات میں بحث نہیں کرتے تھے ‪ ،‬اور جب کوئی‬
‫شخص آپ سے بات کرتا تو سب اس کی بات ختم ہونے تک خاموش‬
‫ِ مجلس ہنستے تو آپ ہنستے تھے اور‬ ‫رہتے‪ ،‬جب آپ کے شرکاء‬
‫جس چیز پر وہ تعجب کرتے آپ بھی تعجب کرتے‪ ،‬جب کوئی‬
‫اجنبی سختی سے بات کرتا یا سوال کرتا تو آپ صبر کرتے‬
‫تھے‪ ،‬حتی کہ اگر آپ کے اصحاب اس پر سختی کرتے تو آپ‬
‫فرماتے‪ :‬جب تم دیکھو کہ ضرورت مند اپنی حاجت کو طلب کر‬
‫رہا ہےتو تم اس کے ساتھ نرمی کرو‪ ،‬آپ بغیر نوازش اور‬
‫عطا کے اپنی تعریف کو قبول نہیں کرتے تھے‪،‬ہاں ! آپ کسی‬
‫کو کچھ عطا کرتے اور وہ آپ کی تعریف کرتا تو آپ قبول کر‬
‫لیتے ‪ ،‬آپ کسی کے کالم کو منقطع نہیں کرتے تھے حتی کہ وہ‬
‫شخص حد سے تجاوز کرتا تو پھر اس کی بات کاٹ کر اس کو‬
‫روکتے یا اٹھ جاتے۔(شمائل ترمذی رقم الحدیث‪)352:‬۔مندرجہ‬
‫ایک داعی و مبلغ ِ اسالم پر یہ امر منتج‬ ‫امورسے‬ ‫باال‬
‫ہوتا ہے کہ اسے ایسے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہونا چاہیے تا‬
‫کہ ابالغ و دعوت کا عمل مؤثر ہو سکے۔ پنجم شرط یہ کہ اس‬
‫میں ہمت و شجاعت‪ ،‬دلیری اور بہادری ہو۔ظلم و ستم کا‬
‫ء کلمۃ الحق کی‬ ‫حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔اعالِ‬
‫جیسی اعلی صفات سے مزین ہو۔ایسے‬ ‫قوت اور اولوالعزمی‬
‫جوش و ولولہ کا حامل ہو کہ ظالم و جابر حکمرانوں کے خالف‬
‫حق کا پرچم بلند کر سکے۔چنانچہ حق تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫اور ہللا کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا‬
‫حق ہے۔(الحج‪)78:‬۔حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ‬
‫رسول ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬افضل جہاد ظالم حاکم کے سامنے کلمئہ‬
‫حق کہنا ہے۔(سنن ابی داؤد) اور عبدہللا طارق بن شہاب بیان‬
‫کرتے ہیں کہ کسی شخص نے رسول ہللاﷺ سے سوال کیاکہ کون سا‬
‫جہادسب سے افضل ہے؟ رسول ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬ظالم سلطان کے‬
‫سامنے کلمئہ حق بلند کرناسب سے افضل جہادہے۔ (سنن‬
‫ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول‬ ‫نسائی)اور حضر ت عبد ہللا بن عمر‬
‫ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬جب تم میری امت میں ان لوگوں کو دیکھو جو‬
‫ظالم کو ظالم کہنے سے ڈریں تو تم ان سے الگ ہو جاؤ۔‬
‫(مسند احمد‪،‬جامع ترمذی ‪،‬صحیح ابنِ حبان)‬

‫ِ الف ثانی شیخ احمد سرہندیؓ کا انداز‬


‫ِ‬ ‫چنانچہ مجدد‬
‫تعلیم یہ تھا کہ صالحین کی جماعت تیار کرکے انھیں اچھی‬
‫اراستہ و پیراستہ کرکے‬‫طرح سے ظاہری و باطنی علوم سے ٓ‬
‫دنیا کے اطراف و اکناف میں پھیال دیا جائے مگر بزریعہ‬
‫مکتوب انھیں مرکز کے ساتھ وابستہ رکھا جائے اور‬
‫حکمرانوں پر رائے عامہ کا دباؤ (‪ )pressure‬مسلسل برقرار‬
‫رکھا جائے تا کہ رائے عامہ انھیں صراط مستقیم سے ہٹنے‬
‫نہ دے۔‬

‫ِ تعلیم کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ امراء‬ ‫اپ کے انداز‬‫ٓ‬


‫کو قائل و معتقد رکھا جائے۔ انھیں اس طریقہ عالیہ کا‬
‫حامی و مدد گار بنایا جائے اور انھیں کے ذریعے حکومت کی‬
‫ِ تعلیم و‬‫اپ کے انداز‬ ‫پالیسیوں پر اثرانداز ہوا جائے۔ ٓ‬
‫ِ وقت کومجبور‬‫تبلیغ کا تیسرا پہلو یہ تھا کہ خود بادشاہ‬
‫ً و کرً‬
‫ھا چلے۔‬ ‫کرنا چاہیے کہ وہ تعلیماتِ اسالم پر طوعا‬
‫اپ کو مطلق العنان نہیں ذمہ دار سمجھے۔ اس کو شخصی‬ ‫اپنے ٓ‬
‫حکومت کی تمام تر برائیوں سے اجتناب پر مجبور کرنا‬
‫چاہیے جوابا اگر وہ قید و نظربند کرتا ہے یا ظلم و ستم‬
‫ڈھاتا ہے تو کرتا رہے مگر بادشاہ وقت کو یہ یقین ہونا‬
‫چاہیے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے اسے شریعتِ اسالم کی پابندی‬
‫ًا و کرً‬
‫ھا کرنی پڑے گی۔‬ ‫طوع‬

‫ِ تعلیم و تبلیغ کا پہلو یہ تھا کہ علماء‬‫چوتھا انداز‬


‫وصلحاء اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنے مکتوبات کے پر زور‬
‫ِ بیاں ( کہ جس کو ایک مستشرق نے قرٓ‬
‫ان کے بعد اسالم‬ ‫انداز‬
‫کا دوسرا عظیم کارنامہ قرار دیا ہے ) کے ذریعے قائل کیا‬
‫جائے اور ان کوبھی اس جہاد میں شامل کیا جائے۔ ( ماخوذ‬
‫ِ الف ثانی شیخ احمد سرہندیؓ از‬‫من جہانِ امام ربانی مجدد‬
‫پروفیسر نثار احمد جان سرہندی مجددی‪ ،‬ص ‪ ،۴۴۶ -۴۴۵‬امام‬
‫ربانی فاؤنڈیشن کراچی)۔‬

‫کیا جائے اور‬ ‫مندرجہ باال شرئط کو اگر کوزے میں بند‬
‫میں اسطرح بند‬ ‫نتیجے کا خالصہ ان جامع و مختصر نکات‬
‫ِ دین کا حصول (‪ )2‬ہللا اور اسکے رسولﷺ‬
‫کیا جائے ‪ )1( :‬علم‬
‫کی خشنودی و رضا کا طالب ہونا(‪)3‬لوگوں کی بھالئی کا‬
‫مقصود ہونا (‪ )4‬نرم دلی‪ ،‬صبر‪،‬محبت و شفقت سے کام لینا‬
‫(‪ )5‬ہللا کی رضا پر استقامت اختیار کرنا (‪)6‬سچ وحق بات‬
‫کہنا۔‬

‫ان تمام مندرجہ باال شرائط کا پالن کار ہی ایک کامیاب‬


‫ِ اسالم صحیح معنی میں بن سکتا ہے اور مستحق‬
‫اور مؤثر مبلغ‬
‫بھی۔ ہللا سے دعاء ہے کہ ہم سب کو ان شرائط کا عامل اور‬
‫دینِ اسالم کی بے لوث خدمت و تبلیغ کی سعادت نصیب فرمائے۔‬
‫آمین بجاہ النبی االمین ﷺ‬

You might also like