Professional Documents
Culture Documents
New Columns Aaaaa
New Columns Aaaaa
پانی انسانی خوراک کا اہم ترین بنیادی جزو اور ہللا کی عطاکردہ بیش بہا نعمت ہے مگر پاکستان میں قدرت کی
یہ نعمت بھی اپنی خالص شکل میں میسر نہیں۔ ۲۰۰۱ء تا ۲۰۱۰ء کے درمیان پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر
ریسورسز )(PCRWRنامی سرکاری ادارے کی تحقیقات کے مطابق شہروں میں صرف % ۱۵اور دیہات میں صرف
۱۸%افراد کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ % ۸۰سے زائد آبادی ،دیہاتوں میں بیکٹیریا ،آرسینک نائٹریٹ اور سلفر مال
پانی پینے پر مجبور ہے۔ آلودہ پانی کئی بیماریوں کی بڑی اہم وجہ ہے۔ ۱۷اپریل ۲۰۱۲ء کو پاکستان ٹوڈے میں شائع
ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں % ۴۰اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے ،بچوں کی % ۴۰اموات بھی صاف پانی
میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں اور ساالنہ اڑھائی الکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۸۰% ،بیماریوں کی
وجہ گندا پانی ہے.
مالکنڈ ڈویژن کے دو بڑے دریاؤں ( دریاے سوات اور دریاے پنجکوڑہ) کو غور سے دیکھئے۔ہم لوگوں نے ان
کا کیا حشر کیا ہے۔لوگ دنیا بھر کا غالظت اس میں بیدھڑک پھینکتے ہیں ،پکے مسلمان بھی اسالم کے پاکی وصفائی
کا یہ درس بھول جاتے ہیں کہ اسالم پانی میں تو کیا پانی کے قریب بھی غال ظت پھینکنے سے منع فرماتا ہے ۔ہمارے
گھروں ،دفتروں ،ہوٹلوں ،اور تعلیمی اداروں کے تمام غالظت کا رخ دریا کے جانب ہوتاہے ۔کہیں بھی جانور مر جائے
تو اس کا ٹھکانہ دریا ہوتا ہے ،جس سے مہینوں لوگ مستفید ہوتے رہتے ہیں۔بقر عید کو مویشیوں کی غالظت
،اوجھڑیاں ،انتڑیانسب ان دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے۔چھوٹے بڑے شہروں کے مذبح خانوں کا سارا غالظت روزانہ ان
کے نذر کیا جا تا ہے۔او رستم ظریفی تو یہ ہے کہ دریاؤں کے کنارے واقع تعلیمی اداروں کا جملہ فضلہ جات بھی
سیدھا دریاوں میں چال جاتا ہے۔اس سے بھی بڑھ کر بہت افسوس سےیہ لکھنا پڑتا ہے کہ دریا ؤں کے کنارے
مدارس و مساجد کے استنجا خانوں اور لیٹرینوں کا سارا گند بھی ان دریاؤں میں شامل ہو جاتا ہے ۔۔۔۔اس پانی سے
آگے چل کر دوسرے لوگ طہارت حاصل کرتے ہیں۔ ان دریاؤں کے کنارے بڑےبڑے ہوٹلوں کا سارا غالظت اور
فضلہ بھی ادھر ہی پھینک دیا جاتاہے۔
ہر سال الکھوں سیاح ان خوبصورت اور پر فضاء مقامات کا رخ کرتےہیں ۔ جو ان دریاؤں کے رواں ٹھنڈے
پانی سےمحظوظ ہو تے ہیں ،ان کے گن گاتے ،سیلفیاں لیتے ہیں اور ساتھ ٹنوں غالظت بھی ان دریاؤں کے حوالہ کر
دیتے ہیں۔یہ پاک صاف پانی آلودہو کر نہ صرف ال کھوں انسانوں کے پینے اور دیگر ضروریات ذندگی کے استعمال
کے لیےغیر محفوظ اومضرصحت بن جاتا ہے بلکہ ان دریاؤں میں پرورش پانے والے الکھوں نایاب مچھلیوں
جیسے "ٹراؤٹ" کے افزائش نسل کے لیےخطرہ بھی بن جاتا ہے۔ دوسال قبل ان دریاؤں کے کنارے الکھوں
مچھلیانتڑپتے اورمر تے دیکھے گیے ۔جس کو لوگ عذاب ٰالہی کہتے،اور واقعی یہ ہمارے اس ناشکری کی سزا تھی
اتنے بڑے مسئلے پر خاموشی ناقبل فہم ہے ۔حکام کے طرف سے بے اعتنائی سمجھ سے باال تر اور این جی
اوز کی التعلقی پر سوالیہ نشان۔ اس لیے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے فیس بک کے جانبازونکو آگے بڑھنا
کرے۔۔۔اعلی حکام اپنی ذمہ داری کا احساس
ٰ چاہئے۔۔۔۔ علماء اور اساتذہ اپنا فرض نبھائے ۔۔۔منتخب ممبران قانون سازی
کر کے اس عظیم نعمت کی حفاظت یقینی بنائے ۔۔۔۔تاکہ تمام انسان ،چرند ،پرند،حشرات و نباتات قدرت کے اس بیش بہا
نعمت سے مستفید ہو اور اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے پہنچنے والے مضر اثرات سے محفوظ ہو۔