Professional Documents
Culture Documents
پڑوسیوں سے متعلق ایل علم کی ذمہ داری
پڑوسیوں سے متعلق ایل علم کی ذمہ داری
حضرت ابزی خزرعی رضی ہللا عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جن سے آپﷺ کی
صرف ایک ہی حدیث منقول ہے ،چنانچہ وہ فرماتے ہیں :کہ آپﷺ نے ایک بار جمعہ کے
خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ’’ :ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اپنے پڑوسیوں سے دین کی سمجھ
حاصل نہیں کرتے ،علم نہیں سیکھتے اور دین کا فہم حاصل نہیں کرتے ،اور ان لوگوں کا
کیا حال ہوگا جو اپنے پڑوسیوں کو دین کی تعلیم نہیں دیتے ،مسائل واحکام نہیں سمجھاتے
اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرتے۔ اس کے بعد آخر میں آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا :یہ دونوں طبقے اپنا رویہ درست کرلیں ورنہ میں اس دنیا میں انہیں سزا دوں گا۔ آپ
ﷺ کا یہ ارشاد سن کر مدینہ منورہ کے مسلمان آپس میں یہ بات کرنا شروع ہوگئے کہ آپ ﷺ
نے یہ بات عمومی طور پر ارشاد فرمائی ہے یا کسی خاص قبیلہ کے لوگوں کو اس بات کا
ہدف بنایا ہے ؟ چنانچہ لوگوں نے محسوس کیا کہ اشعری قبیلے کے محلے میں یہ کیفیت
دکھائی دیتی ہے کیونکہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ اور ان کا خاندان اپنا ایک الگ محلہ
بسا کر اس میں قیام پذیر تھا ،اور ان کے ارد گرد کاشتکاروں اور باغبانوں کی آبادی تھی
اور ان کا تعل یم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب یہ بات اشعری قبیلے کے لوگوں کو معلوم
ہوئی تو ان کا ایک وفد تصدیق کے لیے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،اور آپ ﷺ نے
اس بات کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ وہی بات ان کے سامنے بھی دوہرائی ،اس پر قبیلے
کے افراد نے سوال کیا کہ :کیا دوسروں کے قصور پر بھی ہمارا مواخذہ کیا جائے گا؟ تو
آپﷺ نے جواب ارشاد فرمایا کہ ’’ہاں تمہارا مواخذہ کیا جائے گا‘‘ ،اس کے بعد قبیلے کے
لوگوں نے ایک سال کی مہلت مانگی ،اور پھر پورا سال محنت کرکے اپنے ارد گرد بسنے
والے کاشتکاروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ۔
قرآن کریم نے کئی ایک جگہ پر اہل ایمان کی صفات میں سے ایک صفت یہ بیان کی
ہے کہ وہ’’دوسروں کو نیکی کی راہ دکھالئیں گے اور ان کو برائی سے روکیں گے‘‘ ،البتہ
اس صفت کا الزمی جزء یہ ہے کہ ’’پہلے وہ خود نیکی پر عمل کریں اور اپنے آپ کو
برائی سے بچائیں اور پھر اس کے بعد یہ صفت دوسروں میں بھی پیدا کریں تاکہ دوسرے
بھی نیک کام کریں اور برے عمل سےبچ سکیں۔ لہذا جیسے دین سے ناواقف لوگوں کی ذمہ
داری ہے کہ وہ خود اپنی دینی تعلیم کا بندو بست کریں ،اور اس کے لیے اہل علم سے
رابطے میں رہیں ،ان سے علم سیکھیں ان کی علمی مجالس میں شریک ہوا کریں ،اور جس
چیز کا علم نہ ہو ان سے پوچھا کریں ۔ اسی طرح اہل علم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی
ہے کہ وہ علم دین کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ،اور اس کے لیے مختلف اوقات
میں فہم دین کے کے لیے تفسیر قرآن ،حدیث رسول ﷺ ،فقہ اور سیرت نبویﷺ کے عنوانات
سے مختلف کورسز شروع کروائیں ،اور دینی علوم کو عام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش
کریں ،اور اسی طرح معاشرے میں عمومی طور پر کسی بھی شخص کو دین سے متعلق
اگر کوئی ایک چھوٹی سی بات بھی معلوم ہو جس سے معاشرے کی اصالح ہوسکےتو
دینی وقومی فریضہ کی حیثیت سے وہ بات بھی دوسروں تک پہنچا کر اپنی دینی وسماجی
ذمہ داری کو پورا کیا جائے۔