You are on page 1of 14

‫مرد اور دوسری شادی۔۔۔حافظ صفوان محمد‬

‫ہم پاک و ہند کے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں جہاں کے سماج میں ایک شادی کا رواج ہے اور یہاں کے‬
‫قدیمی مذاہب نے بھی اسی یک زوجگی کو بطور طریقہ زندگی قبول کیا ہے۔ عورت فوت ہوجائے تو مرد کی دوسری‬
‫شادی ہوجاتی ہے تاہم مرد کے فوت ہونے پر عورت کے مرد کی چتا میں ساتھ جل مرنے کی رسم اسی بنیاد پر تھی۔ خدا‬
‫انگریز بہادر کا اقبال بلند رکھے‪ ،‬اسی کے اقتدار کی برکت تھی کہ یہاں سے ستی کی رسم کی بیخ کنی ہوئی۔‬
‫ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا ہمارے کلچر کی عمومی روایت‬
‫ہے۔ چنانچہ جو بھی مذہب یا مذہبیان یہاں آئے‪ ،‬یہی کلچر قبول کرتے گئے۔ اگرچہ کہیں کہیں ایک سے زائد مرد رکھنے‬
‫والی دروپدیاں موجود رہی ہیں تاہم مسلمانوں میں ایسا تعلق عام نہیں ہے البتہ کہیں کہیں ایک سے زائد عورتیں رکھنے‬
‫والے مرد مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ “رواج” نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ یہ‬
‫ایک غیر معمولی اور غیر روایتی چیز ہے۔‬
‫ق‬
‫دنیا بھر کے سماجوں کی طرح ہمارے سماج میں بھی جنسی کج رویاں شروع سے موجود ہیں جو بال تفری ِ‬
‫مذہب و جنس چلی آ رہی ہیں۔ آبادی جوں جوں زیادہ ہو رہی ہے‪ ،‬جنسی جرائم کے واقعات کے تناسب میں اضافہ ہو رہا‬
‫ہے۔ جنسی جرائم کے تناسب میں یہ اضافہ صرف ہماری سرزمین اور ہمارے اکناف کے ساتھ خاص نہیں‪ ،‬ساری دنیا‬
‫میں کم و بیش یکساں سطح سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ جنسی سرگرمی کی ضرورت کم و بیش کھانے پینے کی‬
‫ضرورت جیسی ہے۔ جیسے جاندار اپنی کھانے پینے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور اگر یہ‬
‫ضرورت آرام سے پوری نہ ہو تو اس کے لیے چھینا جھپٹی بھی کرتا ہے اسی طرح جنسی ضرورت کے پورا کرنے‬
‫نفسہ پورا‬
‫ٖ‬ ‫کے لیے اگر چھینا جھپٹی کی نوبت کم آئے تو جرائم کا تناسب ذرا کم ہوتا ہے۔ رہا جنسی ضرورت کے فی‬
‫ہونے کا تناسب (یعنی سماج کی منطوری رکھنے واال زنا شوئی کا تعلق‪ ،‬خواہ مذہبًا ہو یا سما ًجا)‪ ،‬تو یہ آبادی کے ساتھ‬
‫راست تناسب میں ہوتا ہے۔‬
‫جنسی جرائم کی وہ مکروہ صورتیں جو آج کی میڈیا کے عام مہیا اور دسترس میں ہونے کی وجہ سے آنًا فانًا‬
‫پوری دنیا میں مشتہر ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خبر کے بار بار دیکھے اور سنے جانے سے قوم اعصاب زدہ ہو جاتی‬
‫ہے‪ ،‬یہ جرائم اپنی نوعیت میں “نئے” نہیں ہے۔ جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ اغوا و تاوان ہو یا محرمات میں کود پڑنا‪،‬‬
‫شیر خوار گیری ہو یا کمسن گیری‪ ،‬چوزہ بازی ہو یا ہم جنسی‪ ،‬یا بلکہ حسن زائی اور دوستدارانہ اجتماعی خوش فعلیاں‬
‫ہی کیوں نہ ہوں‪ ،‬ان سب کا ذکر قدیم االیام سے چال آ رہا ہے۔ ان سب جرائم کا تعلق کسی مذہب یا نسل سے جوڑنا بڑی‬
‫حد تک درست نہیں۔ جنسی عمل جرم تب بنتا ہے جب وہ سماج یا ریاست کے قانون سے ٹکراتا ہو‪ ،‬اور گناہ تب بنتا ہے‬
‫جب وہ کسی مذہب کی تعلیمات کے تحت نہ ہو۔‬
‫مکرر عرض ہے کہ نہ صرف ہر طرح کی بدکاری اور جنسی جرائم ہمارے ہاں موجود ہیں اور ان کے کرنے‬
‫والے بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں بلکہ ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا‬
‫بھی ہمارے سماج کی عمومی روایت ہے۔ عام طور سے ہمارے مرد اور عورت ساری زندگی شادی باہر‬
‫)‪ (Extramarital‬تعلق میں ملوث نہیں ہوتے۔ رہا اس دعوے میں میں مستثنیات کا تناسب‪ ،‬تو یہ مرد عورت میں برابر‬
‫سرابر ہی ہے اور تالی دو ہاتھ ہی سے بجتی ہے۔ کچھ فیصد مرد جہاں ان خرابیوں میں کھلے یا چھپے ملوث ہیں وہیں‬
‫عورتیں بھی کم نہیں ہیں۔ عورتیں طوعًا یا کرہ ًا خرابی کرا رہی ہیں تبھی مرد کر رہے ہیں۔‬
‫اب آئیے دوسری شادی کی طرف جو ہمارے مردوں کا گفتگو کا عام موضوع ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر‬
‫گفتار کا غازی ہر مرد ہوتا ہے‪ ،‬بندہ عمل مست البتہ شاذ ہے۔ دوسری بیوی جس نے کرنی ہوتی ہے وہ چپکے سے‬
‫دوسری چھوڑ تیسری چوتھی بھی کر لیتا ہے ورنہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں دیکھے۔ دوسری شادی کے ہوکے‬
‫بھرتے یہ سب مرد دوسری بیوی کا سارا شوق بول بنکار کے ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔‬
‫رہی خرابی کرنے کی بات‪ ،‬جو اس پوسٹ کا اصل موضوع ہے‪ ،‬تو عرض ہے کہ ہمارا مرد جو اٹھتے بیٹھتے‬
‫دوسری شادی کرنے کی بات کرتا ہے اور بیوی سے سخت تنگ ہونے کے باوجود نہ دوسری کرتا ہے اور نہ شادی باہر‬
‫تعلق قائم کرتا ہے‪ ،‬یہ مرد تعداد و تناسب میں سب سے زیادہ ہے۔ میرے اس دعوے کا ثبوت آپ خود لے لیجیے۔ یوں‬
‫ک یجیے کہ آپ جس کالونی میں رہتے ہیں وہاں کے گھر گن لیجیے یا جس دفتر میں کام کرتے ہیں اس میں گن لیجیے کہ‬
‫کتنے لوگوں نے باقاعدہ دوسری شادی کر رکھی ہے؛ یہ بات آپ جانتے ہی ہیں۔ اور کتنے محلے داروں یا مالزمین نے‬
‫چکر چال رکھا ہے‪ ،‬ہم پاکستانی کیسے ہوئے جو یہ اطالع ہمارے پاس نہ ہو؟ ً‬
‫مثال جس دفتر میں میں کام کرتا ہوں اس‬
‫کے ہمارے شہر میں تقریبًا ‪ 700‬مالزم ہیں۔ ان میں سے ‪ 3‬لوگ ہیں جن کی بیک وقت دو بیویاں ہیں اور ‪ 5‬ایسے ہیں جن‬
‫کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تو دوسری کر رکھی ہے۔ یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ ہاں‪ ،‬ایسے لوگ جن کی شادی نہ‬
‫چل سکی اور انھیں دوسری کرنا پڑی ان کی تعداد (طالقوں کی ہوشربا شرح کے باوجود) ‪ 10‬سے زائد نہیں ہے۔ اس‬
‫سادہ ڈیٹا کی موٹی موٹی معلومات کی بنیاد پر میں جو نتائج اخذ کرتا ہوں ان کو حتمی نہیں کہہ سکتا تاہم برائے گفتگو‬
‫اطمینان سے استعمال ضرور کر سکتا ہوں۔ کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ‪ 700‬لوگوں کا ڈیٹا ایک مناسب سائز‬
‫کا ‪ Sample‬ہے۔‬
‫میں تسلیم کرتا ہوں کہ مرد خراب ہیں (اور گاڑی کا دوسرا پہیہ ہونے کی وجہ سے عورتیں بھی بیش از بیش)‬
‫تاہم میں سمجھتا ہوں کہ خرابی اتنی نہیں ہے جتنی پھیالکر دکھائی جاتی ہے۔ میں نے وسائل مہیا ہونے کے باوجود‬
‫عورتوں کو شادی ختم نہ کرتے اور ِرس ِرس کر زندگی گزارتے دیکھا ہے اور اسی طرح مردوں کو بھی ہزار مواقع‬
‫اور پیشکشیں موجود ہوتے ہوئے بھی اس عورت کے ساتھ رہتے دیکھا ہے جس نے انھیں اوالد تو بھلے دی ہے لیکن‬
‫زندگی پطرس کے جانور سے بھی بدتر کرکے رکھی ہے۔ مجھے ‪ 2002‬کے حج میں ملنے واال وہ شخص کبھی نہیں‬
‫ب عبد العزیز پر پہنچتے ہی ایک پاکستانی لڑکی نے گناہ کی پیشکش‬
‫بھولے گا جسے رمی کے بعد عین خانہ کعبہ کے با ِ‬
‫کی تھی۔ وہ سناٹے میں آگیا۔ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حواس بحال ہوئے تو وہ اسے ‪ SAPTCO‬کے دفتر کے‬
‫قریب ایک فندق میں لے گیا اور احوال پوچھا۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے برا مت کہیے۔ اس شخص کو برا کہیے جو مجھے‬
‫یہاں چھوڑ کر گیا ہے اور مجھے اس کو لایر کماکر دینا ہیں۔ اس مرد نے اس عورت کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن پیسے‬
‫ضرور دے دیے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ مرد اپنی بیوی سے کس قدر تنگ تھا لیکن ایک نہایت خوبصورت‬
‫عورت اور موقع مہیا ہونے کے باوجود اس نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ دنیا میں نصف صدی گزار لینے کے بعد میں‬
‫دعوی کرسکتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے مردوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جو‬
‫ٰ‬ ‫اپنے مشاہدے اور موجود ڈیٹا کی بنیاد پر یہ‬
‫ہر موقع اور پیشکش کو ٹھکراتے اور اپنے من کو مارتے ہوئے صرف اپنی بیوی تک محدود رہتے ہیں اور ساری‬
‫زندگی انھوں نے گند نہیں گھوال ہوتا۔‬
‫میں تسلیم کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کالجوں‪ ،‬مذہبی تعلیم گاہوں‪ ،‬وکال اور دیگر کچھ اداروں میں ہوسناکی کی‬
‫شرح نسبت ًا زیادہ ہے اور یہاں شریف مردوں عورتوں کو زیادہ مشکالت کا سامنا ہوتا ہے‪ ،‬لیکن میں ان شعبوں اور‬
‫اداروں میں موجود گندے لوگوں کا تناسب چار پانچ فیصد سے زیادہ تسلیم نہیں کرتا۔ ایسے مرد جو معاشی و معاشرتی‬
‫طور پر سٹیبل ہیں ان میں باکردار اور اپنی بیوی تک محدود رہنے والے زیادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیوی بچوں واال جو‬
‫مرد ذرا سا سٹیبل اور حیثیت دار ہو اس کی طرف کالج یونیورسٹی کی طالبات اور نئی نئی جاب شروع کرنے والی‬
‫ورکنگ لیڈیز کود کر پڑتی ہیں اور یہ بھی عام دیکھا جا رہا ہے کہ ایسے مردوں کے لیے شادی شدہ عورتیں طالق تک‬
‫لے لیتی ہیں۔ چنانچہ اس دعوے کے لیے کسی مزید دلیل کی حاجت نہیں ہے کہ یہ عورت ہی ہے جو دوسری عورت کا‬
‫گھر خراب کرتی ہے۔‬
‫یوں اگر کوئی مرد دوسری شادی کر ہی لیتا ہے تو اس کی وجہ دوسری عورت کا رنگ روغن نہیں ہوتا بلکہ‬
‫بالفاظ دیگر‪ ،‬پہلی بیوی کی‬
‫ِ‬ ‫بیشتر وہ ‪ soul searching‬ہوتی ہے جو دوسری عورت (یا لڑکی) نے کرلی ہوتی ہے جو‪،‬‬
‫بے توجہی یا بدزبانی ہوتی ہے اور جس سے فرار حاصل کرنے کے لیے مرد اس دوسری عورت یا لڑکی کی پناہ لیتا‬
‫شومی قسمت کا سامنا ہو جائے تو سکون و اطمینا ن غارت اور مرد کے‬ ‫ِ‬ ‫خوبی قسمت ہو تو وارے نیارے لیکن اگر‬
‫ِ‬ ‫ہے۔‬
‫پلے ککھ نہیں رہتا۔ مرد کی اس بدحالی کی قصور وار عورت ہوتی ہے‪ ،‬وہ عورت (یا لڑکی) جس نے اس مرد کو پہلی‬
‫عورت سے چھینا ہوتا ہے۔ اس چھین جھپٹ میں لبھاوٹ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ صاف صاف لکھتا ہوں کہ اگر پہلی‬
‫عورت مرد کو ٹھیک سے لبھا رہی ہے تو مرد کہیں نہیں جائے گا‪ ،‬اور اگر اس نے اس بارے میں کوتاہی کی ہے تبھی‬
‫کوئی دوسری عورت اسے لبھا لے گی اور اپنے ساتھ چپکا لے جائے گی۔ حضرت تھانوی نے بہشتی زیور میں لکھا ہے‬
‫کہ عورتیں گھر میں ماسی بن کے رہتی ہیں اور باہر جاتی ہیں تو حور بن کے جاتی ہیں۔ تو بیبیو‪ ،‬اس طرح ہوتا یہ ہے‬
‫ت عمل یہ‬ ‫کہ آپ شوہر کے پیسے کے میک اپ سے حور بن کے کسی اور کو لبھا رہی ہوتی ہیں‪ ،‬اور آپ کو نقد مکافا ِ‬
‫ملتا ہے کہ آپ کے مرد کو کوئی اور چڑیل حور بن کے لبھا رہی ہوتی ہے۔ خوب یاد رہنا چاہیے کہ سنورنے کی جگہ‬
‫گھر ہے نہ کہ بازار۔‬
‫جو مرد ہوسناکی اور دوسری شادی کے شوق کے لیے مطعون کیا جاتا ہے وہ گھر کو چالنے اور اوالد کی‬
‫پرورش کے کام میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک مشغول رہتا ہے۔ عورت اگر ٹھیک ہے یعنی سگھڑاپے اور کفایت‬
‫شعاری کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صابر‪ ،‬خوش کالم اور معاملہ فہم ہے تو گھر اور خاندان کو جوڑے رکھتی ہے‪ ،‬اور‬
‫اگر ایسی نہیں ہے تو گھر کے یونٹ کو قائم رکھنے کا ذمہ دار بھی تنہا مرد ہی ہوتا ہے۔ آپ ماں کے لیے جتنی بھی آیتیں‬
‫یا حدیثیں تالوت فرما لیں‪ ،‬حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ایسے گھر گھر نہیں‪ ،‬مکان ہوتے ہیں۔ ان مکانوں میں عورتیں بچوں کو‬
‫صرف جنم دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور بس۔ ایسے مکانوں میں عورتوں کے منہوں سے یہ جملے اکثر تراوش ہوتے‬
‫رہتے ہیں کہ میں نے تمھیں پاال‪ ،‬گیلے بستر پہ سوتی رہی‪ ،‬وغیرہ وغیرہ۔ واقعی ان عورتوں کا کردار اس کے زیادہ ہوتا‬
‫بھی نہیں۔کرائے کی ماؤں )‪ (Surrogates‬کا رجحان اس لیے بھی بڑھ رہا ہے۔‬
‫آخری ب ات یہ ہے کہ گھر میں ماسیاں بن کے رہنے والی عورتیں جو نہ مرد کی ‪ soul searching‬کرتی ہیں‬
‫اور نہ ان کی جسمانی ضرورت پوری کرتی ہیں وہ بھی چار چار شادیوں کی اجازت واال قرآنی فقرہ کچھ اس طرح سناتی‬
‫ہیں جیسے اسالم میں اس ایک عمل کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ بیشتر عورتیں اسالم کے خالف زبان نہیں چال سکتیں تو‬
‫چار چار شادیوں والی آیت سے سٹاپو کھیلنے لگتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ چار چار شادیوں والی آیت مردوں نے قرآن میں‬
‫خود شامل کی ہے۔‬
‫میں زہر ہالہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ‬

‫پیالی میں طوفان اتنا شدید تھا کہ لگتا تھا سب کچھ اس طوفان کی زد میں بہہ جائے گا۔ لیکن تھم ہی گیا۔‬
‫میرے ناقدین سر آنکھوں پر۔ لیکن کچھ حامیوں کا مشورہ تھا کہ اس طوفان کی مکمل سرگزشت کو ایک مکمل دستاویز‬
‫کی شکل دی جائے۔ سو اس کو بالگ کی شکل میں مرتب کر رہی۔ جنہوں نے طوفان اٹھانا ہے وہ نہ پڑھیں کیونکہ یہاں‬
‫نیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں کی گئی باتوں پر آپ واویال کر چکے۔‬
‫یہ کہانی شروع عامر لیاقت کی بیٹی کی ٹویٹ سے ہوئی۔ ایک وال پر عامر لیاقت کی بیٹی کا ٹویٹ پوسٹ تھا۔ جس میں‬
‫عامر لیاقت کی بیٹی نے اپنے گھر کے پوتڑے سر بازار دھوئے تھے۔ اس پوسٹ پر عامر لیاقت کو اور دوسری شادی پر‬
‫کافی کچھ سننا پڑا۔ میری غلطی وہاں تھی کہ میں نے اس پوسٹ کو کمنٹ کر دیا۔ وہاں سے بات بڑھ گئی اور بحث شروع‬
‫ہو گئی۔ وہاں میں غلط تھی۔ مجھے نظر انداز کر دینا چاہیے تھا لیکن میرے سامنے کچھ حقائق تھے۔ جو مجھ سے غلطی‬
‫کروا گئے۔ ہم میں موجود ایک بڑے نے کہا کہ بات اب دالئل سے نکل کر مباحثے کی طرف جا رہی ہے۔ اس لیئے اب‬
‫گفتگو روک دی جائے۔ میں خاموش ہو کے نکل آئی۔ لیکن چند لمحوں بعد ایک اور مکمل پوسٹ لگی۔‬
‫میں نے کوشش کی گزارنے کی۔ لیکن اب حقیقتیں میرے پیر سے لپٹ گئی۔ کچھ گھنٹوں کی جنگ کے بعد حقیقتیں جیت‬
‫گئیں۔ اور انیس نومبر کو میں نے اس سلسلے کی پہلی پوسٹ لکھی۔ پوسٹ نہیں تھی شاید اعالن جنگ تھا۔ میں نے قرآن‬
‫کی آیت کے حوالے دئیے تھے تاکہ خواتین دوسری شادی پر جو لعن طعن کر رہی ہیں وہ سمجھیں کہ یہ حرام نہیں ہے۔‬
‫لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب قرآن کی وہ حیثیت نہیں ہے۔ علم بہت آگے جا چکا ہے۔‬
‫میرے سامنے حقائق کیا تھے؟‬
‫میں شاید اٹھارہ سال کی تھی تو مجھے پہلی بار ایک دوسری بیوی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ شوہر اس سے ملنے آتا تو‬
‫سارے محلے کی عورتیں منہ میں پال دبا کے دروازوں کی جالیوں میں کھڑی ہو جاتی اور باتیں کرتی۔ بھائی چھوٹے‬
‫تھے لیکن انہیں برا لگتا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ وہ بیوی ہے اس کی۔ کوئی اس نے رکھیل تو نہیں رکھی ہوئی یہاں ال کے۔‬
‫مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسری بیوی ہونا کیسا تماشہ ہو سکتا۔‬
‫میری ایک عزیز کے عزیز (باپ ‪ /‬بھائی ‪ /‬بیٹا میں درست رشتہ چھپانے کی غرض سے مکمل نہیں لکھ رہی) دوسری‬
‫شادی کرنا چاہتے تھے اور وہ کسی عامل کا پتہ ڈھونڈ رہی تھی۔ بات چیت پر میرے کانوں نے سنا ہاں ٹھیک ہے جائز‬
‫ہے لیکن دنیا کو بھی دیکھنا ہوتا۔ اب بندہ اس دور میں ہر جائز کام کرنے تو نہیں بیٹھ سکتا۔‬
‫میری ایک اور عزیز کے شوہر نے دوسری شادی کی تو وہ غریب پاگل پن کے مقام پر تھی کہ دنیا میرے بارے میں کیا‬
‫کہے گی کہ میرے میں کیا کمی تھی۔‬
‫میرا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ جا کے ہر مرد کو کہوں کہ اٹھو اور دوسری بیوی الؤ۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جس نے کر‬
‫لی ہے اس کی زندگی کو نارمل بنایا جائے۔ اس فیملی کے بچوں کو اس احساس کمتری سے نکاال جائے کہ ان کی زندگی‬
‫میں کچھ ایسا ہے جو شرمناک ہے۔ ایسی پہلی بیویاں جو کہ خود ترسی ہے اندھیروں میں جا گری ہیں انہیں اس اندھی‬
‫کھائی سے نکاال جائے کہ یہ کوئی دھبہ نہیں ہے جس پر شرمسار ہوا جائے۔ وہ دوسری بیویاں جو لوگوں میں آنے سے‬
‫گھبراتی ہیں کہ ہر کوئی دشنام کے نشتر لیئے ملتا ہے‪ ،‬ان کی زندگی کو آسان کیا جائے۔‬
‫کیا ہر مرد دوسری شادی کرتا ہے؟‬
‫ہر مرد دوسری شادی نہ تو کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ شادی کوئی مذاق نہیں ہے کہ اٹھے اور کر لی۔ زوجین کا‬
‫رشتہ یک جہتی رشتہ نہیں ہے۔ اس کی ہمہ گیریت سے انکار صاحب عقل کے لیئے ممکن نہیں۔ کچھ مردوں کے معاشی‬
‫حاالت ایسے نہیں تو کچھ کو ضرورت نہیں کہ دوسری شادی کریں۔‬
‫اس کے باوجود مرد اگر سمجھتا ہے کہ دوسری شادی اس کی ضرورت ہے (اور یہ صرف انسان خود سمجھ سکتا ہے۔‬
‫کوئی دوسرا اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا) اور وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس شادی پر اسے لعن طعن نہیں کی جا‬
‫سکتی ہے۔‬
‫ایک انسان جو آپ کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے اور آپ کو خوش رکھ رہا ہے اور وہ آپ کا حق نہیں مار رہا تو اگر‬
‫اسے اپنی خوشی کے لیئے کسی کی ضرورت ہے تو اسے یہ حق ہللا نے دیا ہوا ہے۔‬
‫مرد کیوں صحیح وجہ نہیں بتاتا‪:‬‬
‫مرد دوسری شادی کی درست وجہ اس لیئے نہیں بتاتا کہ اس میں پہلی بیوی کی دل شکنی ہے۔ اس لیئے وہ الزام در الزام‬
‫لیئے جاتا ہے لیکن سچ چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی بول دے تو بےوفا کے عالؤہ بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔‬
‫مرد پہلی بیوی کو چھوڑتا کیوں ہے؟‬
‫ایسا مرد جو دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی سے بالکل ‪ hands off‬ہو جائے اس کی وجہ سادی سی ہے کہ وہ ذہنی‬
‫طور پر اس کے ساتھ نہیں رہ گیا ہوا۔ اب یہ اس عورت پر منحصر ہے وہ کیا فیصلہ لے۔ چاہے تو مرد کو چھوڑ دے‬
‫چاہے تو نام برقرار رکھے۔ یہ فیصلہ لینے کا حق شریعت عورت کو دیتی ہے۔ اگر تو عورت سمجھتی ہے کہ اسے خلع‬
‫لیکر دوبارہ گھر بسا لینا چاہیے تو اسے فورا ایسا کر لینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اپنے گھر کا ماحول‬
‫خراب ہونے سے بچانا اسی کی ذمے داری ہے۔‬
‫کیا عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے؟‬
‫عموما ً جو عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے وہ بہت جلد اپنے پیر پر کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ بچوں کو سنبھال‬
‫سکے۔ بچے نہ صرف مرد کے ہوتے ہیں نہ صرف عورت کے۔‬
‫یہاں سے آگے میں وہ سب دالئل جمع کر رہی ہوں جو مجھے اپنی پہلی پوسٹ کے بعد مجبورا ایک کے بعد ایک دینے‬
‫پڑے کیونکہ ہر کوئی قرآن کو اپنے مفاد کے لیئے استعمال کر رہا تھا۔‬
‫میرے پر لگائے جانے والے الزام اور میرے دالئل کو لیکر مجھ سے منسوب غلط بیانیاں میں نے سب دیکھی ہیں۔ میں ان‬
‫کو بحث میں النا مناسب نہیں سمجھتی۔ جو لوگ ہللا کے حکم کو عورت پر ظلم‪ ،‬خرافات‪ ،‬مردوں کا دین وغیرہ کہتے‬
‫رہے ہیں‪ ،‬میں کون ہوں اور کیا ہے میرا داغ قبا بھی۔ صرف ایک حنیف ڈار صاحب کو لیکر جو مجھے ایک طعنہ دیا گیا‬
‫اس کا جواب دوں گی لیکن وہ اس کالم کے آخر پر۔‬
‫انیس نومبر کی پوسٹ‬
‫دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں۔۔۔‬
‫آپ کو احکام ٰالہی سے مسئلہ ہے تو آپ اپنا مسلمانیت کا لبادہ اتار پھینکیں۔ کھل کے سامنے آئیں کہ ہم ہللا کے فالں فالں‬
‫حکم کے منکر ہیں۔ کیونکہ ہماری عقل اور سمجھ اور تجربہ نعوذ باہلل اس معاملے میں ہللا سے زیادہ ہے سو ہمارے‬
‫مطابق تو یہ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ باقی رہا ہللا کا حکم تو وہ ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے مفادات سے متصادم ہے۔ اپنا‬
‫اسالم بنانے تک تو جائز تھا لیکن اپنے اسالم کو عین اسالم ثابت کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ حیرت ہے کہ کسی انسان سے‬
‫نہیں‪ ،‬ہللا سے مقابلہ ہو رہا اور ہر دوسری وال پر ہو رہا۔ کس کس اہانت کو رویا جائے۔ میرے پاس اب کوئی راستہ نہیں‬
‫بچا سوائے اس کے کہ ہر اس دوست سے کنارہ کیا جائے جو احکام ٰالہی کے مقابلے میں دالئل و بحث کے انبار لگا رہا۔‬
‫فتوی کا نہیں ہے۔ آپ کی مسلمانی آپ کو مبارک لیکن میری طبیعت میں اتنی لچک نہیں ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫مسئلہ‬
‫دوسری شادی اور عدل‪:‬‬
‫دوسری شادی میں ہللا نے مرد کو پابند کیا ہے تو صرف انصاف کا۔ انصاف تبھی ہو گا جب دوسری بیوی ہو گی۔ پہلی تو‬
‫ویسے ہی پردھان ہوتی۔ مرد انصاف نہ کر سکے تو وہ بیوی جس کا حق مارا جائے اسے حق ہے کہ خلع کے لیئے‬
‫جائے۔‬
‫انصاف ہو گا یا نہیں‪ ،‬یہ شادی کے بعد ہی پتہ لگ سکتا۔ شادی ہوئے بغیر انصاف کا واویال پرو ایکٹو اپروچ ضرور ہے‬
‫اور کچھ نہیں۔‬
‫انصاف نہ کرنے پر بھی کہا گیا کہ نہیں کر سکتے تو بیوی نہ رکھو۔ کنیزوں پر پابندی نہیں۔‬
‫قرآن تو یہی بتاتا۔‬
‫قرآن یہ بھی نہیں کہتا کہ کسی بوڑھی سے اپاہج سے کرو۔ آیت کہتی کہ جو بھلی لگے اس سے کرو۔‬
‫اس کے عالؤہ سب شرائط عورتوں یا فیمنزم کے ماروں کی ہیں۔ ہللا کی نہیں۔‬
‫تئیس نومبر کی پوسٹ‬
‫تعالی نبی پاک پر‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫میں‬ ‫االحزاب‬ ‫سورۃ‬ ‫تھی۔‬ ‫حصہ‬ ‫کا‬ ‫نصاب‬ ‫تفسیر‬ ‫اور‬ ‫ترجمہ‬ ‫کا‬ ‫االحزاب‬ ‫سورۃ‬ ‫میں‬ ‫زمانہ طالب علمی‬
‫ایک کڑے امتحان کا ذکر کر رہے ہیں۔‬
‫حضرت زید جو کہ نبی پاک کے منہ بولے بیٹے تھے‪ ،‬ان کی اپنی بیوی سے طالق ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ اب نبی‬
‫پاک ان کی مطلقہ سے شادی کریں۔‬
‫قرآن کا اسلوب بتاتا ہے کہ ہللا پاک کو نبی پاک کو باقاعدہ ہمت دینی پڑی کہ ہللا سے ڈرو اور لوگوں سے نہیں ڈرو۔‬
‫کیونکہ اس معاشرے میں یہ رواج نہیں تھا۔ منہ بولے بیٹے کو اصل بیٹے کے مکمل حقوق حاصل تھے۔ اور اس کی بیوہ‬
‫یا مطلقہ سے شادی ناممکن تھی۔ ہللا کو یہ اصول تڑوانا تھا۔ سو مکمل اختیار سے نبی پاک کو حوصلہ دیا۔ ہللا کے الفاظ‬
‫وہاں جو ہیں‪ ،‬ان کا ترجمہ یہ ہے کہ ہللا کا حق ہے س سے ڈرا جائے۔ ایک آیت کہتی ہے مسلمان وہ ہیں جن کے لیئے ہللا‬
‫یا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو وہ تنگ دل نہیں ہوتے۔ اسی قرآن کا فیصلہ ہے کہ یہ ہر زمانے کے لیئے ہے۔ ہم‬
‫تو خیر ہللا کی باتوں سے ویسے ہی خائف مسلمان ہیں۔‬
‫پچھلے دنوں جب عامر لیاقت پر ایک طوفان برپا ہوا‪ ،‬سب اپنی اپنی پٹاری کھولے آ گئے۔ میرے مسائل یہ ہیں کہ میں دیں‬
‫و دنیا میں بٹی بندی نہیں ہوں۔ میرا دل اس بات پر ثابت ہے کہ ہللا کی دی اجازت اور ہللا کا دیا حکم بہترین ہے۔ اور جہاں‬
‫ہللا کا فیصلہ موجود ہو‪ ،‬وہاں زبان کھولنا کم از کم ایک مسلمان کو جائز نہیں۔ میں اسے بالزفیمی سمجھتی ہوں۔ سو میں‬
‫بھی قرآن کی انگلی پکڑے آ گئی کہ نہیں ایسا تو نہیں ہے جیسا سب کہہ رہے ہو۔ ہللا تو یہ کہتا۔‬
‫ایک طوفان برپا ہوا پڑا ہے۔ عورتوں کو اپنے شوہروں کی فکر ہے۔ کسی کو وسائل کا رونا یاد آ گیا ہے۔ کوئی اس پر‬
‫پریشان ہے کہ فیملی ٹوٹ جائے گی بچوں کا کیا ہو گا۔ ایسے میں ظاہر ہے میری ذات طنز سے ماوری کیسے جا سکتی‬
‫تھی سو ہو رہے۔‬
‫بت ٹوٹ رہے ہیں۔ لوگ کھل رہے ہیں۔ میں پڑھ سب رہی ہوں۔ جواب کسی کو نہیں دے رہی۔ میری مخالفت میں جو لوگ‬
‫ہللا کی حکمت کا رد اپنی عقل سے کر رہے ہیں‪ ،‬ان پر ہنسا ہی جا سکتا۔ لکم دینکم ولی الدین ہر چیز کا فیصلہ کر چکا۔‬
‫دین کو لیکر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو سو فیصد مانتا ہو۔ ہماری وہ تربیت ہی نہیں۔ میں بھی غلطیوں سے‬
‫ماوری نہیں لیکن دین کا حق یہ ہے کہ جو چیز ہماری طاقت سے باہر ہو اس پر ہللا سے عاجزی سے دعا کریں کہ ربنا‬
‫وال تحملنا ما ال طاقۃ لنا به نہ کہ اکڑ جائیں کہ فالں حکم منسوخ اور فالں حکم مشروط ہے۔ اور اگر ہم ایسا کریں تو ہللا‬
‫کو کیا فرق پڑتا۔‬
‫مزے کی بات ہللا تو ہللا‪ ،‬جنہوں نے کرنی ہے‪ ،‬ان کو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق کس کو پڑ رہا‪ ،‬ذرا سوچیئے!‬

‫چوبیس نومبر کی پوسٹ‪:‬‬


‫کیا اسالم روایت شکن نہیں‪:‬‬
‫دوسری شادی کو لیکر سب سے بڑا عذر آج کل کی خواتین یہ پیش کرتی ہیں کہ عرب میں کلچر تھا۔ وہاں یہ معیوب نہیں‬
‫تھا۔ لیکن برصغیر میں کلچر نہیں ہے۔‬
‫کیا کلچر یا عالقائی تمدن اسالم کے منافی ہو سکتا؟ چونکہ اسالم کو قیامت تک کے لیئے ضابطہ حیات بنایا جانا تھا تو ہللا‬
‫نے اس کی فطرت میں لچک رکھی۔ اس کو اتنا ‪ absorbent‬بنایا کہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ضم کر سکے۔ ساتھ ہی‬
‫اجتہاد کا دروازہ کھال رکھا گیا تاکہ ہر دور کر علماء اپنے زمانے کے حساب سے اس کے قوانین کو بنیاد سے ہٹائے‬
‫بغیر اپنے وقت کے حاالت پر نافذ کروا سکیں۔ اسالم سے پہلے مذاہب میں اکثر مذہب سے قریب لوگ رہبانیت کی طرف‬
‫جاتے تھے۔ دین فطرت نے اس کو منسوخ کیا کہ انسان ضروریات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔‬
‫اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسالم کسی عالقے میں جائے تو وہاں کی بےضرر خوشیوں کو چھیڑ دے۔ اگر اس عالقے کے‬
‫لوگ اگر کوئی خوشی کا موقع منعقد کرتے ہیں تو اس کو روک دے۔ البتہ ہر چیز کے لیئے ایک ڈومین واضح کر دی۔‬
‫مثال اسالم سے پہلے کعبتہ ہللا کے برہنہ طواف کی رسم تھی۔ اسالم نے اس رسم کے خالف آواز اٹھائی۔ اسالم سے پہلے‬
‫بچیوں کو ژندہ درگور کرنے کا رواج تھا‪ ،‬اسالم نے منع کیا۔ کل ہی ذکر کیا کہ سورۃ االحزاب میں اس وقت کی ایک بہت‬
‫بڑی رسم کا بت توڑا گیا اور وہ اس قدر بھاری تھی کہ ہللا کو نبی پاک کی بارہا ہمت بڑھانی پڑی۔ کیا عرب کا معاشرتی‬
‫جس میں بت پرستی کا کلچر تھا‪ ،‬وہاں اسالم کی دعوت دینا روایت شکنی نہ تھی؟ ہللا کا دین جس بھی معاشرے میں گیا‪،‬‬
‫وہاں کی غلط رسوم سے ٹکر لیتا۔ حضرت محمد محترم تو انبیاء کے سر کا تاج ہیں ہی‪ ،‬ان سے پچھلے انبیاء بھی رسوم‬
‫شکن تھے۔ کیا قوم لوط میں ہم جنسی کا رواج نہ تھا؟ کیا مدین میں کم تولنے کا رواج نہ تھا؟‬
‫تو یہ کہنا کہ چونکہ اب یہ ہمارے معاشرے کا رواج نہیں ہے‪ ،‬کسی بھی چیز کے ناجائز ہونے کی بنیاد نہیں۔ دین مکمل‬
‫ہو چکا ہے اور وہ مکمل ہی رہے گا۔ معاشرے کی جو رسم دیں سے متصادم ہو گی‪ ،‬وہ غلط ہی رہے گی۔‬
‫آج معاشرے میں ہم جنس پرستی بھی ہو رہی‪ ،‬شراب نوشی بھی ہو رہی‪ ،‬زنا بھی ہو رہا‪ ،‬اگر معاشرے میں کسی چیز کی‬
‫قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ چیز حرام ہو گئی تو پھر معاشرے میں کسی چیز کی قبولیت آنے پر اسے حالل بھی‬
‫سمجھنا ہو گا؟‬
‫میں یہ بتا دوں یہاں آ کے میں رک گئی تھی۔ لیکن جس وال سے بات شروع ہوئی وہاں دوبارہ دوسری شادی پر ایک‬
‫پوسٹ ہوئی۔ میں اگنور کر گئی۔ لیکن وہاں ایک خاتون نے بال اشتعال بدتمیزی شروع کی۔ میں نے ان کو کہا کہ میں اس‬
‫بار آپ کو یہاں جواب نہیں دوں گی۔ لیکن اب جب جواب لکھے تو پھر تفصیلی لکھوں گی۔ لیکن جب وہ دالئل میں گرتے‬
‫ہوئے سرخ الئن کراس کر گئیں تو پھر آٹھ دسمبر سے میرے دالئل کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا‪:‬‬
‫دوسری شادی اور ٹھرک‪:‬‬
‫ہم میں کامن ترین تبصرہ ہے کہ دوسری شادی کرنے والے مرد ٹھرکی ہوتے ہیں۔ چونکہ زمانہ ایسا ہے کہ دوسری‬
‫شادی کو ذلیل کرنا فیشن میں ہے اور فیمنزم کا دور دورہ ہے تو ہم سب ہی اس بیانیے کو قبول کیے بیٹھے ہیں۔ بعض‬
‫دفعہ کچھ چیزوں کو سوچنے بیٹھیں تو حقیقت مختلف نکلتی ہے ۔‬
‫سب سے پہلی بات‪ :‬شادی پہلی ہو دوسری ہو تیسری ہو یا چوتھی‪ ،‬کس کا بھی مقصد عورت کو بہن اور مرد کو بھائی‬
‫بنانا نہیں ہوتا۔ ہر شادی میں ‪ underlying‬مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ افزائش نسل اور ساتھ کا حصول۔‬
‫میں اگر دماغی صحت مند لوگوں کے معاشرے کی بات کروں تو عورت شادی کر کے ‪ upper edge‬پر آ جاتی ہے۔‬
‫کیوں؟ کیونکہ شرعی طور پر اس کو ایک نان نفقہ لباس اور چھت مہیا کرنے کا ذمے دار میسر ہو جاتا ہے۔ اوالد کا‬
‫سلسلہ چل نکلتا ہے۔ ایک گھر کی مالکن وہ بن جاتی ہے۔ ذمے داریاں بال شبہ اس پر پڑتی ہیں لیکن اس کا حصول بھی‬
‫لمبا چوڑا ہے۔‬
‫مرد جو کہ خود محدود ضروریات رکھتا ہے‪ ،‬وہ شادی کر کے اپنے پر ایک کنبے کی معاشی ذمے داری اٹھاتا ہے۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی اس پر دہرا بوجھ پڑ جاتا ہے۔ اسے اپنے ہی گھر میں رہ کر بیوی اور اپنے ماں باپ بھائیوں کے درمیان‬
‫عدل قائم کرنا ہے۔ اکثر اپنے کنبے اور اپنے ماں باپ کے کنبے کی ذمے داری اٹھانی ہے۔‬
‫یہ چھوٹی سی بات بھی یہ دکھا دیتی کہ مرد کے لیئے شادی ‪bed of roses‬نہیں ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک کرتا چال‬
‫جائے۔‬
‫اگر مرد ٹھرکی ہے اور صرف ہوس اور حرص ہی اس کا مطمع نظر ہے تو اسے شادی بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ ٹھرک‬
‫پوری کرنی آج کے زمانے میں اس قدر آسان ہے جس قدر آسان آج کل روٹی کمانا نہیں ہے۔ یہ فیس بک اور موبائل ہی‬
‫کافی ہے۔‬
‫ایسے میں اگر ایک شخص مکمل ذمے داری اٹھا رہا ہے اور عزت سے نکاح کر کے پہلے کنبے کے ساتھ ساتھ ایک‬
‫اور وجود اور اسے آنے والے ممکنہ خاندان کا بوجھ اٹھا رہا ہے تو ایسے مرد کو ٹھرکی یا ہوس کا پجاری کہنا ناانصافی‬
‫ہے۔‬
‫غلط وہاں ہوتا ہے جب دوسری کے آنے پر پہلی کو پھینک دیا جائے۔ یا پہلی اور دوسری میں وسائل کا عدل نہ ہو۔ دل پر‬
‫بہرحال پکڑ نہیں۔‬
‫نو دسمبر کی پوسٹ‬
‫دوسری شادی – غلطی کہاں پر‪:‬‬
‫ہمارا مزاج ایسا بنا دیا گیا ہے کہ دوسری شادی کا لفظ سنتے ہی ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بم پھٹ گیا ہے۔ کوئی قیامت آ‬
‫گئی ہے۔ ہمیں انسانوں پر ملکیت کا سبق ایسا رٹا دیا گیا ہے اور مرد اور عورت کی برابری کی ایسی پٹی پڑھائی گئی‬
‫ہے کہ اب دین کا ریگ مال بھی کام نہیں کرتا۔‬
‫ہوتا یہ ہے کہ مرد دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی پہلی کوشش ہوتی ہے پہلی بیوی کو پتہ نہ لگے۔ وجہ‪ :‬اوپر دیا‬
‫گیا پیراگراف اس کی وجہ ہے۔ وہ طوفان کھڑا ہوتا ہے کہ االمان الحفیظ۔ مرد عموما دوسری شادی اپنی زندگی کی ‪lost‬‬
‫‪fantasies‬کو ‪ revive‬کرنے کے لیئے کرتا ہے۔ ایسے میں ظاہر ہے وہ فساد سے حتی االمکان گریز کرنا چاہتا ہے۔‬
‫پہلی بیوی سے مرد خود جا کے پوچھے تو ایک فساد ہے۔ پہلی بیوی کو باہر سے پتہ لگے وہ ایک اور طرح کا عذاب‬
‫ہے۔ مرد کے ایک حالل راستے کو جب مسدود کیا جائے تو پنجابی میں کہتے ہیں وگدا پانی اپنی راہ آپ ہی لب لیندا اے۔‬
‫نتیجہ( ‪ concealed marriages.‬ایک عورت کیوں ان پر راضی ہوتی ہے‪ ،‬یہ اگلی بار)‬
‫ظاہر ہے کوئی عورت ہی ایسی ہو گی جو خود جا کے اپنی سوکن بیاہ کے ال سکے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھیں کوئی عورت‬
‫ہی ہو گی جو مرد کو اس کی آئی سے باز رکھ سکے۔‬
‫اب آنے والی آ جاتی ہے تو دو میں سے ایک کام ہوتا ہے‪:‬‬
‫یا آنے والی آ کے اپنے نئے ہونے کا فایدہ اٹھاتی ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے مرد سے جو کچھ بھی اپنے نام کروا‬
‫سکے کروا لے۔ فٹا فٹ بچے پیدا ہو جائیں۔ جیسے ہی وہ کسی مضبوط پوزیشن میں آتی ہے وہ پہلی والی کا حقہ پانی بند‬
‫کروا دیتی ہے۔‬
‫دوسری صورت میں (گو کہ یہ کم ہی ہوتا ہے) پہلی والی اپنے بچوں اور خاندان کا رعب لیکر چڑھ جاتی ہے۔ وہ اگلی‬
‫والی کو ذلیل بھی کرتی ہے۔ طعنے بھی دیتی ہے۔ اپنے بچوں کو بھی استعمال کرتی ہے۔ اور کوشش کرتی ہے کہ شوہر‬
‫کے وقت اور اخراجات میں ایسی نقب زنی کرے کہ اگلی آنے والی ہمہ وقت فساد برپا کرے۔‬
‫مرد کتنے ہی عقلمند ہوں‪ ،‬عورت کہ سیاست سے نابلد ہے۔ وہ اپنی طرف سے انصاف کرنا بھی چاہے لیکن دو میں سے‬
‫ایک اسے ایسا کرنے نہیں دیتی۔‬
‫مجھے دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہر دو طرف میں مرد کو انسان کوئی نہیں سمجھ رہا ہوتا۔ دونوں طرف اقتدار کی جنگ‬
‫اور وسائل کی کشاکش ہوتی ہے۔ کیا واقعی ہمارے لیئے ہمارے مرد پیسہ بنانے کی مشین رہ گئے ہیں؟ ہماری المحدود‬
‫خواہشوں اور ضرورتوں کی دستیابی کے لیئے ہم وقت گھومنے واال رہٹ کا بیل؟‬
‫دس دسمبر کی پوسٹ‬
‫معزز خواتین میری وال پر اور جہاں جہاں میری پوسٹ شیئر ہوئی ہے وہاں دوسری شادی کی اجازت کو جن شرائط سے‬
‫مشروط کر رہی‪ ،‬بنی اسرائیل یاد آ رہے جن کو ہللا نے گائے کی قربانی کا کہا تو کہنے لگے قد کیسا ہو‪ ،‬رنگ کیسا ہو‪،‬‬
‫نسل کیسی ہو۔‬
‫ہللا نے بنی اسرائیل کے لیئے کہا تھا کہ وہ تقریبا نہیں چاہتے تھے کہ انہیں یہ قربانی کرنی پڑے۔‬
‫میں نے کچھ دن پہلے بھی کہا تھا جو آزادی ہللا نے دی ہے اسے کوئی سلب نہیں کر سکتا۔ نہ ہی انصاف کے عالؤہ‬
‫کوئی شرط رکھی گئی ہے۔ اور یہ اجازت بھی ہے کہ اگر بیوی اپنے کوئی حق معاف کر دے تو شوہر پر اس کی پکڑ‬
‫نہیں۔‬
‫ہر مرد دوسری شادی نہیں کرتا۔ لیکن جو اس حق کو استعمال کرے‪ ،‬وہ بالکل بھی مصلوب یا معتوب ہونے کا سزاوار‬
‫نہیں۔‬
‫دس دسمبر دوسری پوسٹ‬
‫مرد دوسری شادی کیوں کرتا ہے؟‬
‫جس سوال کا جواب بتانے کا پابند ہللا اور شریعت نے نہیں بنایا‪ ،‬اس سوال کا جواب کیوں مانگتے ہیں ہم؟‬
‫ہللا کی حکمت سے ٹکرانے والے لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اگر مرد واقعی جواز بتا کے شادی کرنے کا پابند ہوتا تو‬
‫عورتوں کی کیسی تذلیل ہوتی۔ عورتیں خود مانتی بھی ہیں کہ ہم بچے‪ ،‬جاب‪ ،‬گھر کیا کیا دیکھیں۔ ہاں مرد یہ بتانے کا‬
‫پابند ہے کہ اس نے اگر ایک سے زیادہ شادیاں کیں تو عدل کیوں نہ کیا۔ وہ یہ بتانے کا پابند ہے کہ وہ کانوں یا دماغ کا‬
‫اتنا کچا کیوں ہوتا ہے کہ بیویوں میں سے جس کا جو دل کرتا ہے وہ اس کے دماغ میں بھرتی چلی جائے۔‬
‫کیا دوسری شادی جذبات کا بہاؤ ہے؟ حیرت ہے کہ فی زمانہ جب کہ گناہ آسان اور نکاح مشکل ہے کوئی جذبات میں بہہ‬
‫کر بھی نیکی کا راستہ کیسے چن لیتا ہے؟ اور اگر یہ جذبات کا بہاؤ ہے تو مرد چھوڑ کیوں نہیں دیتے دوسری کو؟ اکثر‬
‫کیسز میں تو مرد مخالفت مول لیکر بھی شادیاں چالتے ہیں۔ کیا یہ ان کی کوئی ‪ adventurous nature‬ہے جو ان کو‬
‫مجبور کرتی ہے کہ ہر وقت ہر ایک سے ذلیل ہوں؟‬
‫یہاں مردوں کی غلطی بھی ہے۔ وہ شادی کر کے جس طرح کے عجیب و غریب عذر پیش کرتے ہیں‪ ،‬ایسا لگنے لگتا ہے‬
‫شادی نہیں گناہ کر کے آ رہے ہیں۔ وہ بھی عذر گناہ بدتر از گناہ واال معاملہ کر کے۔ کوئی کہتا ہے زبردستی کروائی۔‬
‫کوئی کہتا ہے میرے پیچھے پڑ گئی تھی۔ آج کل تو فیشن چل رہا کہ مجھے نشہ پلوا کے نکاح پڑھوا لیا۔ اب پتہ نہیں کون‬
‫سے نشے کا ذکر کرتے۔‬
‫مردوں کو ذلیل کر کر کے ایسا بکری بنا دیا ہے کہ اب انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ یہ ان کو دی گئی ایک مشروط آزادی ہے۔‬
‫اگر وہ بے عدل ہوئے بنا اس حق کو استعمال کرتے ہیں تو ان پر کوئی پکڑ نہیں۔ بلکہ شرعی طور پر انہیں معتوب و‬
‫مغضوب کرنے والوں پر پکڑ ہے۔ پنچ الئن ایک ہے۔ وسائل اور وجود کی دستیابی کا عدل۔ اس سے آگے کوئی شرط‬
‫نہیں۔‬
‫عدل کوئی ایک رویہ سڑک نہیں ہے۔ سوائے دل کی چاہت کے ہر چیز کی جواب دہی ہے۔ حکم یہ ہے کہ کسی ایک کی‬
‫طرف ایسے نہ جھک جانا کہ دوسری لٹک جائے۔ اگر مردوں نے یہ راستہ چنا ہے تو یاد رکھیں اس رشتے کی عزت‬
‫عدل سے بنے گی۔ آپ نئی والی کی طرف جھک گئے تو واقعی عیاشی ہے۔ آپ پچھلی والی کے گلٹ میں چلے گئے تو‬
‫ظلم ہے۔‬
‫گیارہ دسمبر کی پوسٹ‬
‫اس پوسٹ کو کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے کہا جا رہا تھا کہ نبی پاک نے بھی تو بیبی فاطمہ کے ہوتے حضرت علی‬
‫کو دوسری شادی نہ کرنے دی۔ میں نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا جو نیچے ہے۔ البتہ چند دن بعد ایک بہن نے ا کے‬
‫اس دلیل کو علمی طور پر رد کیا۔ وہ گفتگو اس کالم کے آخر پر دے دی جائے گی۔ ہللا اس بہن کو ایک مشکل وقت میں‬
‫حق ظاہر کرنے پر جزا دے۔‬
‫پوسٹ‬
‫اہل بیت پر مخصوص احکام کو اپنے لیئے دلیل نہ بنایا جائے۔‬
‫نبی پاک کی عورتوں کو کہا گیا کہ اگر تم میں سے کوئی نعوذباہلل بدکرداری کی مرتکب ہوئی تو دگنی سزا پائے گی‬
‫نبی پاک کو کہا گیا کہ جو بیوی فقر میں گزارا کرے اسے رکھیئے باقیوں کو دنیا کی زینت و سامان دیکر رخصت کریں۔‬
‫نبی پاک کو بذات خود تیرہ شادیوں کی اجازت دی گئی۔‬
‫نبی پاک کی بیویوں سے ان کے وصال کے بعد نکاح حرام ٹھہرا‬
‫زکوۃ اب بھی نہیں دی جا سکتی۔‬
‫اہل بیت کو ٰ‬
‫اس لیئے حضرت علی کو بیبی فاطمہ کے ہوتے نکاح ثانی نہ کرنے دینے کو تنسیخ اجازت نہ سمجھا جائے۔‬

‫کیا ایسا نہیں ہے کہ اب جواز سمٹ کر صرف “میرا جسم میری مرضی” جیسے دالئل پر آ گئے ہیں۔‬
‫مسلسل چند کمنٹ خواتین دہرا رہی ہیں۔‬
‫ایک‪ :‬اگر عورت بھی دوسرا مرد لے آئے – ضرور الئے لیکن اسے اسالم یا پہال شوہر چھوڑنا ہو گا۔‬
‫دو‪ :‬عورت شوہر کی دوسری شادی کی صورت میں طالق لینا چاہے – مرد نہ دینا چاہے تو عورت خلع ہی لے سکتی۔‬
‫خلع عورت کا حق ہے۔ خلع لیکر بھی کسی کی دوسری بیوی ہی بننا ہے تو اس کی مرضی۔‬
‫تین‪ :‬عدل نا ممکن ہے – قرآن کہہ چکا ہے کہ تم کر بھی نہیں سکتے سو بس ایک کی طرف نہ جھک جانا۔‬
‫اس کے بعد پیچھے معاشی تحفظ رہ جاتا۔ وہ مانگنا عورت کا حق ہے۔ ضرور مانگے۔ لیکن معاشی تحفظ ایک ماہ کے‬
‫چار چار جوڑے بنوانا نہیں ہے۔‬
‫گیارہ دسمبر کی پوسٹ‪:‬‬
‫چند ضروری وضاحتیں‪:‬‬
‫میرا پروفائل یہاں موجود ہے۔ گیارہ سال سے میں پروفیشنل الئف میں ہوں۔ بینک کی جاب ہے اور میں اس وقت الحمدہلل‬
‫خود کو سپورٹ کر سکتی ہوں۔ سو پہلی بات مجھے کوئی الچار مجبور عورت نہ سمجھیں جسے زندگی میں کوئی مال‬
‫نہیں تو اب اپنی بےبسی کا انتقام لے رہی ہے۔ میں الحمدہلل ایسی زندگی گزار رہی ہوں کہ جو جانے وہ چاہے کہ ایسی‬
‫زندگی ہو۔‬
‫میں کسی عورت کو یہ نہیں کہہ رہی اپنا مرد اٹھا کے بازار میں لیجائے اور دوسری بیوی ڈھونڈے۔ قطعی نہیں۔ اوور‬
‫ایکشن کی کوئی ضرورت نہیں۔‬
‫میں پہلی بیوی کو دوسری کے مقابلے میں نہیں ال رہی۔ یہ جہالت ہے۔ عورت ہر رنگ میں عورت ہے۔ خاندانی لوگ تو‬
‫طوائفوں کو عزت دیتے۔ میں خاندانی عورت ہو کے دوسری خاندانی عورتوں کو پست کیوں کروں۔‬
‫میرا مسئلہ اگر یہ لگ رہا کہ مجھے تعریف یا شناخت کی بھوک ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میں آدم بیزار نسل ہوں۔‬
‫مجھے ضرورت نہ ہو تو میں ایک کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی۔ گمنامی مجھے راس ہے۔ میں نے یہاں اپنی پکچر‬
‫تک کبھی خود سے نہیں دی۔ سو مجھے پچاس لوگ جان بھی جائیں تو صرف نام کی حد تک۔‬
‫میں ایک ٹیبو توڑ رہی۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے معاشرے میں دوسری شادی کرنے والے مرد کا استحصال ہوتے دیکھا‬
‫ہے۔ میں اس معاشرے کی مغرب زدگی سے بالکل متاثر نہیں ہو سکی۔ اور میں نے اس معاشرے کی گندگی کو اور‬
‫منافقت کو اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ میں اسے اگنور نہیں کر سکی۔‬
‫میں نے کسی بھی مخالف پر ذاتی حملے نہیں کیا۔ میں اکثر کو جواب بھی نہیں دے رہی۔ میں تو اس گھٹن زدہ معاشرے‬
‫کے کھڑکیاں کھول رہی اور پردے ہٹا رہی۔‬
‫آپ کو کیا لگتا ہے میری پوسٹ پر لوگوں کو صرف برا لگ رہا۔ یہاں کئی ایسی دوسری بیویاں خاموشی سے پڑھ رہی‬
‫ہیں جن کو پہلی بار اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ڈائن یا چڑیل نہیں۔ ان کا کوئی جرم نہیں۔ یہاں کئی ایسے مرد پڑھ رہے جو‬
‫معاشرے میں یہ کہنے سے ڈر رہے کہ انہیں ضرورت ہے۔ گناہ اور ٹھرک کا بوجھ اٹھائے تعفن پھیال رہے۔ ہاں انہیں‬
‫ہمت ملی ہے کہ گناہ ترک کریں اور حالل کا راستہ دیکھیں۔ شاید کوئی پہلی بیوی پڑھ کے سمجھے کہ کوئی ایسا طوفان‬
‫نہیں آیا زندگی میں جو وہ جینا ترک کر بیٹھی ہے۔‬
‫میں کوئی عالم دین نہیں۔ لیکن مجھے اتنا دین سکھایا گیا کہ روزمرہ کے لیئے مجھے قرآن سے ہدایت مل جائے۔‬
‫دوسری شادی کو زہر قاتل ہمارے روئیے نے بنایا ہے۔ روئیے کی اصالح کریں۔ حالل کو حرام نہ کریں۔‬
‫گیارہ دسمبر کی پوسٹ‬
‫عورت کو کیا کرنا چاہیے‪:‬‬

‫سب سے پہلے تو دوسری‪ ،‬تیسری یا چوتھی بیگم‬

‫بیبیو! صبر کرو۔ ٹھندی کر کے کھانا سیکھیں۔ احتجاج ہونا ہے۔ الزمی ہونا ہے۔ صبر کرنا سیکھیں۔ آپ نے جرم‬
‫نہیں کیا لیکن جس معاشرے میں آپ ہیں وہاں یہ گناہ ہے۔ اس لیئے ردعمل آئے گا۔ آپ نے جب یہ قدم اٹھا لیا ہے تو‬
‫حوصلے سے چلیں۔‬
‫کسی کی زندگی کے بیچ میں آئی ہیں تو مل کے چلنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ آتے ساتھ ہی پہلے دن سے یہ خواب نہ سجا‬
‫لیں کہ پہلی بیگم کو اور اس کے بچوں کو گھر سے باہر کرنا ہے۔‬
‫مرد آپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہے گا۔ لیکن آپ پر ذمےداری کا بوجھ ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کسی سے امئد‬
‫کریں کہ آپ کو قبول کرے‪ ،‬پہلے ایسا کچھ کریں تو سہی کہ ایک غبار میں ڈوبا ذہن آپ کو قبول کرے۔‬
‫پہلی بیگم آپ کی عزت کی حقدار ہے۔ محبوب کا تو جانور اور جسم سے لپٹا لباس بھی محبوب ہوتا ہے۔‬
‫اسی معاشرے سے نکلی ہوئی دوسری بیگمات تھی جنہوں نے اپنے روئیے کو ایسا زہر آلود کیا کہ ایک حالل چیز حرام‬
‫ہوئی۔‬
‫آپ کا حق آپ کے شوہر تک ہے۔ اب پہلی بیوی لڑتی ہے تو وہ اپنے شوہر سے لڑ رہی ہے۔ اپنے حق سے لڑ رہی ہے۔‬
‫آپ کو اس کی سیأت پر گھر نہیں بسانا۔ اپنی حسنات پر بسانا ہے۔‬
‫پہلی بیوی آپ پر دشنام طرازی کرے تو اسے اپنی منفی طاقت نہیں بناتے۔ نہ اس کا سہارا لیکر پہلی کو گھر بدر کرواتے‬
‫ہیں۔ شاید آپ کا موجودہ میاں اس وقت ککھ بھی نہیں تھا جب وہ آئی۔ اس کی اس محنت کی قدر کریں۔ اور اس کی ہر چیز‬
‫پر نظر نہ جمائیں۔ اس کی اوالد سے محبت کریں۔‬
‫بعض دفعہ اپنا جائز حق چھوڑ کے انسان جو کچھ پا لیتا ہے‪ ،‬وہ اس حق کے لیئے لڑ کر بھی نہیں ملتا۔ اس معاشرے میں‬
‫رہ کر اگر اتنا بڑا قدم اٹھانا ہے تو چٹان کا حوصلہ لیکر چلیں۔‬
‫زندگی کو چند سال دینا سیکھیں۔ چند سال میں بھی اگر پہلی اچھے سلوک کے بعد بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی تو یاد‬
‫رکھیں ہللا زمیں سے کہیں نہیں گیا۔‬
‫گیارہ دسمبر آخری پوسٹ‬
‫پہلی بیگم‪:‬‬
‫پہلی بیوی کو سب سے پہال دکھ اپنی تذلیل کا لگتا ہے کہ اس پر سوتن آئی تو اس کا مطلب ہے اس میں کمی تھی۔‬
‫مرد اور عورت کو ہللا نے برابر نہیں پیدا کیا۔ ان کے لیئے احکامات ایک نہیں۔ ان کے لیئے آزادیاں ایک نہیں۔ ان کے‬
‫لیئے پابندیاں ایک نہیں۔ خواتین کو عبادات کی اتنی چھوٹ ہللا نے دی ہے۔ مرد کو نہیں دی۔ مرد کی ضروریات اور‬
‫عورت کی ضروریات الگ ہیں۔ مزاج الگ ہیں۔ ہللا نے مرد کو اجازت کیوں دی‪ ،‬یہ ایسی ہی بحث ہے کہ ہللا نے عورت‬
‫کو بچہ جننے کی صالحیت کیوں دی۔ عورت کو وراثت میں ایک حصہ کیوں ملتا ہے۔ عورت کو عبادات کی چھوٹ کیوں‬
‫ہے۔‬
‫ساری مسلم دنیا کے مرد اس سہولت کا فایدہ اٹھاتے ہیں۔ وہاں کی عورت تذلیل نہیں محسوس کرتی۔ برصغیر کی عورت‬
‫ہی محسوس کرتی ہے۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے کہ مسئلہ برصغیر کی عورت میں ہے۔‬
‫اگر آپ کے میاں نے دوسری شادی کر کے آپ کو گھر سے نہیں نکاال‪ ،‬طالق نہیں دی‪ ،‬خرچہ نہیں روکا‪ ،‬تو اس نے آپ‬
‫پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ خود ترسی سے نکلیئے۔‬
‫دوسری بات ایسے موقع پر اپنے شوہر کو خود سے دور آپ خود کرتی ہیں۔ ایک کام اس نے کر لیا۔ اب وہ گھر آتا ہے‬
‫آپ بات نہیں کرتی۔ مسلسل لڑتی ہیں۔ روتی چیختی چالتی ہیں۔ وہ کچھ وقت برداشت کرے گا پھر چڑ جائے گا۔ دوسری‬
‫طرف شادی نئی ہے۔ آپ کی یہ لڑائی اگلی کا گھر مضبوط کرے گی۔ آپ کو فایدہ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کو آپ ی‬
‫تذلیل سمجھیں گی تو آنا میں آئیں گی اور آنا کا زخم خوردہ شخص صرف اپنا نقصان کرتا۔ آپ روٹھیں۔ آپ کا حق ہے۔‬
‫لیکن ایک حد تک۔ آپ کا ‪ silent treatment‬شوہر کو آپ کی طرف مائل کرے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب آپ اپنا معاشی‬
‫تحفظ یقینی بنا سکتی۔ شوہر سے صاف کہیں کہ دیکھیں شادی آپ کا حق تھی‪ ،‬آپ نے کی۔ عدل میرا حق ہے۔ میں اپنا حق‬
‫معاف نہیں کروں گی۔‬
‫شوہر کے لیئے عدل کو مشکل نہ کریں۔ ورنہ اگر کسی کشمکش میں شوہر بیزار ہوا تو نقصان اکیلی آپ کی سوتن کا‬
‫نہیں۔ آپ کا بھی ہے۔‬
‫اس سب میں اپنے بچوں کو نہ استعمال کریں۔ یاد رکھیں اوالد صرف شادی تک وفادار ہے۔ شوہر بیوفا بھی ہو تو بھی سر‬
‫کی چھت ہے۔ آج آپ اوالد کو باپ کے خالف کھڑا کریں گی‪ ،‬کل کو اوالد کی پریکٹس ہو گئی ہو گی۔ ان کی بیوی آئے‬
‫گی تو ذرا سی چنگاری دکھا کے آپ کے خالف کھڑا کر دے گی۔‬
‫آپ کی اوالدیں اصل میں ذہنی مریض دوسری شادی کی وجہ سے نہیں بنتی۔ فریقین میں کسی ایک کی غلط تربیت اور‬
‫غلط روئیوں کی وجہ سے بنتی ہیں۔ کسی بھی انسان کا روئیہ غلط ہو تو اس روئیے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫نہ کہ ہللا کی حکمت پر انگلی اٹھانے کی۔‬
‫آخر پر ایک بات‪ ،‬شوہر انصاف نہیں کرتا تو آپ الگ ہونے میں حق بجانب۔ سوکن آپ کے خالف ورغال رہی تو آپ‬
‫مظلوم۔ لیکن اگر واحد ضد یہ ہے کہ میں نے نہیں بانٹنا کیونکہ میں نے نہیں بانٹنا تو بیبیو مر کے ہللا کے پاس ہی جانا‬
‫ہے۔ یہ ساری ضدیں دنیا میں چل جاتی ہیں۔ جس بات کی ہللا نے اجازت دے رکھی‪ ،‬اس کی ہللا کے دربار میں دہائی‬
‫کیسے دو گی۔‬
‫میں اس کے ساتھ ہی سب دالئل اور بحث سمیٹ رہی۔ اسالم کے احکام مکمل ہیں۔ یہ کچھ بھولے اسباق تھے۔ اس لیئے یاد‬
‫کروا دئیے کہ شاید کسی کو بھول گئے ہوں۔ اور ذرا سا دہرا دئیے جائیں تو لوگ ایک حالل پر لوگوں کی زندگیاں حرام‬
‫کرنی بند کر دیں۔ باقی ہدایت کی ذمے داری انبیاء کی بھی نہیں تھی۔ وما علینا االالبالغ‬
‫یہ میرے دالئل کی آخری پوسٹ تھی۔‬
‫مجھے اس کے بعد ایک پوسٹ مزید کرنا پڑی۔ کیونکہ حنیف ڈار صاحب نے ایک اسٹیٹس لگایا اور مجھے کسی خاتون‬
‫نے آ کے کہا کہ کہ آپ کی کیمپیئن غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے حنیف صاحب نے۔‬
‫میرا جواب یہ ہے کہ میں نے حنیف صاحب کی شہہ پر نہیں لکھا تھا نہ ان کی مخالفت سے مجھے فرق پڑا۔ اگر آپ‬
‫حنیف صاحب سے متفق تو میں ایسے علماء سے جن کو مرد مجبور ہو کے کہتے ہیں کہ دل گناہ پر مائل ہوتا ہے اور ان‬
‫کو علماء کہتے ہیں بیوی کو جان دینی ہے تو گناہ کر لو ہللا کو دینی ہے تو شادی کر لو۔‬
‫وہ آخری پوسٹ یہ تھی‬
‫چودہ دسمبر کی پوسٹ‬
‫يـ ٌم (‪)1‬‬ ‫ـ‬ ‫ح‬ ‫ر‬ ‫ر‬ ‫و‬
‫ُ ْ ٌ َّ ِ ْ‬‫ُ‬ ‫ف‬‫غ‬‫َ‬ ‫ہ‬‫ٰ‬‫ٰ‬ ‫ـ‬ ‫ِّ‬
‫ل‬ ‫ال‬ ‫و‬ ‫ٰ‬ ‫اج‬ ‫و‬‫ز‬‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ا‬ ‫ض‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫ى‬
‫ْ ِ ْ َ ْ َ اتَ َ ِ كَ َ‬ ‫غ‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫ٰ‬ ‫َ‬
‫ُ كَ‬‫ل‬ ‫ہ‬‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ـ‬ ‫ِّ‬
‫ل‬ ‫ال‬ ‫َّ‬
‫ل‬ ‫َیآ اَيـھَا النَّ ِبى ِل َم ت ُ َح ِ ِّر ُم َ َ‬
‫ح‬‫َ‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫م‬
‫اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو ہللا نے آپ کے لیے حالل کیا ہے‪ ،‬آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور ہللا‬
‫بخشنے واال نہایت رحم واال ہے۔‬
‫اس آیت پر مجھے کہا گیا کہ یہ شہد پر ہے۔ میری جوابی دلیل یہ تھی۔‬
‫ہر آیت ایک مخصوص شان نزول کے ساتھ ہے۔ اگر صرف شان نزول کی ساتھ نتھی کیا جائے تو پھر قرآن کی‬
‫عالمگیریت کا جواز نہیں بچتا۔ اصل میں بنیاد فراہم کر دی گئی ہے حالل اور حرام کی۔‬
‫حضرت علی اور بیبی فاطمہ کے بارے میں کہی جانے والی بات بطور دلیل‪:‬‬
‫موال علی(ع) کا ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا جھوٹا افسانہ‬

‫سوال) السالم علیکم!کیا اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے؟؟ برادر ابوزین اس حدیث میں‬
‫بیان کئے گئے واقعے سے متعلق علماء تشیع کا کیا موقف ہے کیا حضرت امیر المومنین ع نے واقعی ابوجہل کی بیٹی‬
‫سے نکاح کا ارادہ کیا تھا؟‬

‫متن حدیث‪:‬عن المسور بن مخرمة أنه قال ‪ ”:‬إن علیا خطب بنت أبي جھل ‪ ،‬فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول ہللا‬
‫صلى ہللا علیه وسلم فقالت ‪ :‬یزعم قومك أنك ال تغضب لبناتك ‪ ،‬وھذا علي ناكح بنت أبي جھل ‪ ،‬فقام رسول ہللا صلى ہللا علیه‬
‫وسلم ‪ ،‬فسمعته حین تشھد یقول ‪ :‬أما بعد ‪ ،‬أنكحت أبا العاص بن الربیع فحدثني وصدقني ‪ ،‬وإن فاطمة بضعة مني وإني أكرہ‬
‫أن یسوءھا ‪ ،‬وہللا ال تجتمع بنت رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وبنت عدو ہللا عند رجل واحد ‪ ،‬فترك علي الخطبة ” وفي‬
‫روایة للبخاري ” فاطمة بضعة مني فمن أغضبھا أغضبني ” …‪!!! .‬البخاري رقم ‪ ، 3556 ، 3523‬ومسلم برقم ‪2449‬‬

‫حضرت مسور بن مخرمہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے‪:‬‬

‫علی رضی ہللا عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا‪ ،‬اس کی اطالع جب فاطمہ رضی‬
‫ہللا عنہا کو ہوئی تو وہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو‬
‫اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے‬
‫نکاح کرنا چاہتے ہیں‪ ،‬اس پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا‪:‬میں نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو‬
‫خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬امابعد‪:‬‬

‫“میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی ہللا عنہا کی‪ ،‬آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو‬
‫انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بالشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ‬
‫تعالی کے ایک دشمن کی بیٹی ایک‬
‫ٰ‬ ‫پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ ہللا کی قسم! رسول ہللا کی بیٹی اور ہللا‬
‫شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی ہللا عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ “(صحیح بخاری‬
‫كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر‪)٣٨٢٩ :‬۔۔‬

‫محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے‪ ،‬انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے‬
‫مسور رضی ہللا عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا‪ ،‬آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک‬
‫داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی‬
‫سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔”‬

‫جواب) یہ حدیث اہلسنِّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی‪ ،‬اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر‬
‫حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہال راوی مسور بن مخرمہ ہے جو امام علی(ع) کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبدہللا‬
‫ابن زبیر کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ‬
‫مارا گیا تھا۔ مشہور سنِّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛‬

‫قال الزبیر بن بكار كانت [الخوارج] تغشاہ وینتحلونه (سیر اعالم النبالء‪ ،‬ج‪ 3‬ص‪)391‬‬

‫ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں‪ :‬قال عروۃ فلم أسمع المسور ذكر معاویة إال صلى علیه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ‬
‫میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔‬
‫اب ایسے شخص کی روایت تو ویسے ہی رد ہو جاتی ہے اور جبکہ وہ روایت اپنے دشمن کے بارے میں کرے‬
‫تو اس کو عقل بھی قبول نہیں کرتی۔‬

‫اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسور بن مخرمہ اس واقعے کے وقت بچہ تھا۔ علماء نے نقل کیا ہے کہ مسور‬
‫دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا‪ ،‬اور یہ واقعہ کم و بیش ‪ 8‬ہجری کا بتایا جاتا ہے۔ تو چھ سالہ بچہ کیسے روایت نقل کر‬
‫سکتا ہے؟‬

‫اس جھوٹی روایت کو رد کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ قرآن سے متصادم ہے‪ ،‬قرآن واضح طور پر‬
‫چار شادی کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول ہللا‬
‫ص اوروں کی بیٹیوں پر سوکنیں بٹھانے کی اجازت دیں اور اپنی بیٹی پر نہ دیں۔۔۔ کیا یہ عدل کے منافی نہیں؟ اور رسول‬
‫ہللا(ص) جو تمام عالم اسالم کے لئے نبی ہیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تخصیص دے دیں۔‬

‫پس یہ روایت جھوٹی ہے‪ ،‬اور اس کا اعتبار کرنا درست نہیں۔‬


‫حرف آخر‪:‬‬
‫مجھ سے کچھ غلط باتیں منسوب کی جا رہی تھی کہ میں دوسری شادی کو حکم ثابت کر رہی۔ مردوں کو باقاعدہ ترغیب‬
‫دے رہی ہوں۔ اور دوسری شادی نہ کرنے والوں پر کفر کے فتوی لگا رہی۔ مزید یہ کہ میں پہلی بیوی کی تذلیل کر رہی۔‬
‫اور بیویوں کے مابین عدل کی غیر ضروری کہہ رہی۔ ان سب کی وضاحت اوپر کے کالم سے ہو جائے گی۔ مزید بحث‬
‫الیعنی ہے۔‬
‫نیلم ملک صاحبہ مجھے اپنے کالم میں اپنی دوست بتا رہی تھی۔ میں ان کو بطور دوست اون نہیں کرتی۔ وہ میری فیس‬
‫بک لسٹ میں ہیں۔ چند کمنٹس سے زیادہ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔‬
‫عدل کے معاملے کو لیکر میں نے سورۃ النساء کی آیت ‪ 129‬ہر جگہ دی ہے۔‬
‫آیت ‪129‬‬
‫ورا‬‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬ ‫ْ‬
‫ص ِل ُحوا َوتَتقوا فَإ ِ َّن َّ‬
‫َّللاَ َكانَ َغف ً‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫صت ْم فَالَ ت َِمیلوا ك َّل ال َم ْی ِل فَتَذ ُروھَا كَال ُمعَلقَ ِة َوإِن ت ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫َولَن ت َ ْست َِطیعُوا أن ت َ ْع ِدلوا بَیْنَ النِِّ َ‬
‫ساء َول ْو َح َر ْ‬
‫َّر ِحی ًما‬

‫اور عورتوں کے درمیان مکمل برابری رکھنا تو تمہارے بس میں نہیں ‪ ،‬چاہے تم ایساچاہتے بھی ہو‪ ،‬البتہ کسی‬
‫ایک طرف پورے پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ایسا بناکر چھوڑ دو جیسے کوئی بیچ میں لٹکی ہوئی چیز۔ اور اگر‬
‫تقوی سے کام لو گے تو یقین رکھو کہ اہللا بہت بخشنے واال‪ ،‬بڑا مہربان ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫تم اصالح اور‬

‫ساتھ ہی میں نے نبی پاک کی مثال عرض کی کہ حضور نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہر چیز ِگن ِگن کر طے‬
‫کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقر ر تھیں۔ دن میں بھی آپ ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور‬
‫مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہو جاتی تو گویا‬
‫کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیر کیوں ٹھہر گئے؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور‬
‫کی ازواجِ مطہرات کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں‘ یہ عورت کی‬
‫فطرت ہے‘ جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے‬
‫مراد دراصل قلبی میالن ہے ۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم فرمایا کرتے تھے کہ اے ہللا‬
‫میں نے ظاہری چیز وں میں پورا پورا عدل کیا ہے‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میالن کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے‬
‫کہ اس بارے میں تُو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کر سکتے۔‬

‫اور ایک طعنہ کہ کیا میں اپنے شوہر کی کرواؤں گی‪:‬‬

‫آپ کے لیئے محبت کیا ہے کیا نہیں میں نہیں جانتی۔ میں نے تو جسے اپنا لیا دل وجان سے اپنا لیا۔ محبت لینے‬
‫دینے کا نام نہیں ہے۔ محبت برابری کا نام نہیں ہے۔ یہ کسی کے پیروں کی دھول ہو جانا ہے۔ تو مجھے جس سے محبت‬
‫ہے اس کا تو مجھے جوتا تک عزیز ہے۔ وہ اپنی خوشی سے کسی کو الئے گا تو میرے سر آنکھوں پر۔‬

‫جے ماہی میرا دکھ وچ راضی‬


‫تے میں سکھ نوں چولہے پاواں۔‬
‫والسالم‬
‫ِ ازواج اور ہماری نفسیات"*‬ ‫*"!مسئلہ تعّ‬
‫دد‬
‫تعدد ازدواج کا مسئلہ خالص دینی ہے‪ ،‬جس کا حکم اور اجازت "‬
‫هللا تعالى نے دی ہے جو خالق انسان ہے۔ وہ الحكیم ہے‪،‬‬
‫انسانوں کی ضروریات کا حقیقی علم وہی رکھتا ہے۔‬
‫انسانوں میں معزز ترین طبقہ انبیائے کرام کا طبقہ ہے۔‬
‫انبیائے کرام بالخصوص ہمارے نبی علیھم السالم نے اس پر عمل‬
‫کیا۔ پھر صحابہ کرام رضوان هللا علیھم اجمعین نے اس پر عمل‬
‫کیا۔ بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں نے اس مسلمہ مسئلہ کو اس‬
‫قدر پیچیدہ اور بھیانک بنادیا ہے کہ لوگ اس کے فوائد سے‬
‫اس کے مسائل پر ڈسکس کرتے ہیں۔ زیادہ‬
‫کم ازکم علمائے کرام کو اس عمل کی نہ صرف تائید کرنی‬
‫چاہئے بلکہ مکمل حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے تاکہ معاشرے‬
‫میں اس تعلق سے جو اجنبیت پائی جاتی ہے وہ ختم ہو اور‬
‫ضرورت مند بھائی بہنیں اس میں پہل کرنے میں خوف وحیاء‬
‫محسوس نہ کریں۔ اس خالص دینی مسئلہ کو نفسیات کی کسوٹی پر‬
‫ہرگز نہ توال جائے۔‬
‫رہی بات مسائل کی ؟ ذرا بتائیے مسائل کہاں نہیں ہوتے ہیں؟‬
‫وہ تو ہوں گے ہی! جب مسائل نبی کے گھر میں ہوئے‪ ،‬صحابہ کے‬
‫گھروں میں ہوئے تو ہمارے گھروں میں کیوں نہیں ہوں گے!‬
‫لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ضرورت مند بھی اس سے دور بھاگ‬
‫"جائیں۔‬
‫*)موالنا شیرخان جمیل عمرى حفظه هللا(* ✍‬

You might also like