Professional Documents
Culture Documents
ہم پاک و ہند کے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں جہاں کے سماج میں ایک شادی کا رواج ہے اور یہاں کے
قدیمی مذاہب نے بھی اسی یک زوجگی کو بطور طریقہ زندگی قبول کیا ہے۔ عورت فوت ہوجائے تو مرد کی دوسری
شادی ہوجاتی ہے تاہم مرد کے فوت ہونے پر عورت کے مرد کی چتا میں ساتھ جل مرنے کی رسم اسی بنیاد پر تھی۔ خدا
انگریز بہادر کا اقبال بلند رکھے ،اسی کے اقتدار کی برکت تھی کہ یہاں سے ستی کی رسم کی بیخ کنی ہوئی۔
ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا ہمارے کلچر کی عمومی روایت
ہے۔ چنانچہ جو بھی مذہب یا مذہبیان یہاں آئے ،یہی کلچر قبول کرتے گئے۔ اگرچہ کہیں کہیں ایک سے زائد مرد رکھنے
والی دروپدیاں موجود رہی ہیں تاہم مسلمانوں میں ایسا تعلق عام نہیں ہے البتہ کہیں کہیں ایک سے زائد عورتیں رکھنے
والے مرد مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ “رواج” نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ یہ
ایک غیر معمولی اور غیر روایتی چیز ہے۔
ق
دنیا بھر کے سماجوں کی طرح ہمارے سماج میں بھی جنسی کج رویاں شروع سے موجود ہیں جو بال تفری ِ
مذہب و جنس چلی آ رہی ہیں۔ آبادی جوں جوں زیادہ ہو رہی ہے ،جنسی جرائم کے واقعات کے تناسب میں اضافہ ہو رہا
ہے۔ جنسی جرائم کے تناسب میں یہ اضافہ صرف ہماری سرزمین اور ہمارے اکناف کے ساتھ خاص نہیں ،ساری دنیا
میں کم و بیش یکساں سطح سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ جنسی سرگرمی کی ضرورت کم و بیش کھانے پینے کی
ضرورت جیسی ہے۔ جیسے جاندار اپنی کھانے پینے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور اگر یہ
ضرورت آرام سے پوری نہ ہو تو اس کے لیے چھینا جھپٹی بھی کرتا ہے اسی طرح جنسی ضرورت کے پورا کرنے
نفسہ پورا
ٖ کے لیے اگر چھینا جھپٹی کی نوبت کم آئے تو جرائم کا تناسب ذرا کم ہوتا ہے۔ رہا جنسی ضرورت کے فی
ہونے کا تناسب (یعنی سماج کی منطوری رکھنے واال زنا شوئی کا تعلق ،خواہ مذہبًا ہو یا سما ًجا) ،تو یہ آبادی کے ساتھ
راست تناسب میں ہوتا ہے۔
جنسی جرائم کی وہ مکروہ صورتیں جو آج کی میڈیا کے عام مہیا اور دسترس میں ہونے کی وجہ سے آنًا فانًا
پوری دنیا میں مشتہر ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خبر کے بار بار دیکھے اور سنے جانے سے قوم اعصاب زدہ ہو جاتی
ہے ،یہ جرائم اپنی نوعیت میں “نئے” نہیں ہے۔ جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ اغوا و تاوان ہو یا محرمات میں کود پڑنا،
شیر خوار گیری ہو یا کمسن گیری ،چوزہ بازی ہو یا ہم جنسی ،یا بلکہ حسن زائی اور دوستدارانہ اجتماعی خوش فعلیاں
ہی کیوں نہ ہوں ،ان سب کا ذکر قدیم االیام سے چال آ رہا ہے۔ ان سب جرائم کا تعلق کسی مذہب یا نسل سے جوڑنا بڑی
حد تک درست نہیں۔ جنسی عمل جرم تب بنتا ہے جب وہ سماج یا ریاست کے قانون سے ٹکراتا ہو ،اور گناہ تب بنتا ہے
جب وہ کسی مذہب کی تعلیمات کے تحت نہ ہو۔
مکرر عرض ہے کہ نہ صرف ہر طرح کی بدکاری اور جنسی جرائم ہمارے ہاں موجود ہیں اور ان کے کرنے
والے بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں بلکہ ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا
بھی ہمارے سماج کی عمومی روایت ہے۔ عام طور سے ہمارے مرد اور عورت ساری زندگی شادی باہر
) (Extramaritalتعلق میں ملوث نہیں ہوتے۔ رہا اس دعوے میں میں مستثنیات کا تناسب ،تو یہ مرد عورت میں برابر
سرابر ہی ہے اور تالی دو ہاتھ ہی سے بجتی ہے۔ کچھ فیصد مرد جہاں ان خرابیوں میں کھلے یا چھپے ملوث ہیں وہیں
عورتیں بھی کم نہیں ہیں۔ عورتیں طوعًا یا کرہ ًا خرابی کرا رہی ہیں تبھی مرد کر رہے ہیں۔
اب آئیے دوسری شادی کی طرف جو ہمارے مردوں کا گفتگو کا عام موضوع ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر
گفتار کا غازی ہر مرد ہوتا ہے ،بندہ عمل مست البتہ شاذ ہے۔ دوسری بیوی جس نے کرنی ہوتی ہے وہ چپکے سے
دوسری چھوڑ تیسری چوتھی بھی کر لیتا ہے ورنہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں دیکھے۔ دوسری شادی کے ہوکے
بھرتے یہ سب مرد دوسری بیوی کا سارا شوق بول بنکار کے ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔
رہی خرابی کرنے کی بات ،جو اس پوسٹ کا اصل موضوع ہے ،تو عرض ہے کہ ہمارا مرد جو اٹھتے بیٹھتے
دوسری شادی کرنے کی بات کرتا ہے اور بیوی سے سخت تنگ ہونے کے باوجود نہ دوسری کرتا ہے اور نہ شادی باہر
تعلق قائم کرتا ہے ،یہ مرد تعداد و تناسب میں سب سے زیادہ ہے۔ میرے اس دعوے کا ثبوت آپ خود لے لیجیے۔ یوں
ک یجیے کہ آپ جس کالونی میں رہتے ہیں وہاں کے گھر گن لیجیے یا جس دفتر میں کام کرتے ہیں اس میں گن لیجیے کہ
کتنے لوگوں نے باقاعدہ دوسری شادی کر رکھی ہے؛ یہ بات آپ جانتے ہی ہیں۔ اور کتنے محلے داروں یا مالزمین نے
چکر چال رکھا ہے ،ہم پاکستانی کیسے ہوئے جو یہ اطالع ہمارے پاس نہ ہو؟ ً
مثال جس دفتر میں میں کام کرتا ہوں اس
کے ہمارے شہر میں تقریبًا 700مالزم ہیں۔ ان میں سے 3لوگ ہیں جن کی بیک وقت دو بیویاں ہیں اور 5ایسے ہیں جن
کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تو دوسری کر رکھی ہے۔ یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ ہاں ،ایسے لوگ جن کی شادی نہ
چل سکی اور انھیں دوسری کرنا پڑی ان کی تعداد (طالقوں کی ہوشربا شرح کے باوجود) 10سے زائد نہیں ہے۔ اس
سادہ ڈیٹا کی موٹی موٹی معلومات کی بنیاد پر میں جو نتائج اخذ کرتا ہوں ان کو حتمی نہیں کہہ سکتا تاہم برائے گفتگو
اطمینان سے استعمال ضرور کر سکتا ہوں۔ کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کے لیے 700لوگوں کا ڈیٹا ایک مناسب سائز
کا Sampleہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ مرد خراب ہیں (اور گاڑی کا دوسرا پہیہ ہونے کی وجہ سے عورتیں بھی بیش از بیش)
تاہم میں سمجھتا ہوں کہ خرابی اتنی نہیں ہے جتنی پھیالکر دکھائی جاتی ہے۔ میں نے وسائل مہیا ہونے کے باوجود
عورتوں کو شادی ختم نہ کرتے اور ِرس ِرس کر زندگی گزارتے دیکھا ہے اور اسی طرح مردوں کو بھی ہزار مواقع
اور پیشکشیں موجود ہوتے ہوئے بھی اس عورت کے ساتھ رہتے دیکھا ہے جس نے انھیں اوالد تو بھلے دی ہے لیکن
زندگی پطرس کے جانور سے بھی بدتر کرکے رکھی ہے۔ مجھے 2002کے حج میں ملنے واال وہ شخص کبھی نہیں
ب عبد العزیز پر پہنچتے ہی ایک پاکستانی لڑکی نے گناہ کی پیشکش
بھولے گا جسے رمی کے بعد عین خانہ کعبہ کے با ِ
کی تھی۔ وہ سناٹے میں آگیا۔ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حواس بحال ہوئے تو وہ اسے SAPTCOکے دفتر کے
قریب ایک فندق میں لے گیا اور احوال پوچھا۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے برا مت کہیے۔ اس شخص کو برا کہیے جو مجھے
یہاں چھوڑ کر گیا ہے اور مجھے اس کو لایر کماکر دینا ہیں۔ اس مرد نے اس عورت کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن پیسے
ضرور دے دیے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ مرد اپنی بیوی سے کس قدر تنگ تھا لیکن ایک نہایت خوبصورت
عورت اور موقع مہیا ہونے کے باوجود اس نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ دنیا میں نصف صدی گزار لینے کے بعد میں
دعوی کرسکتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے مردوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جو
ٰ اپنے مشاہدے اور موجود ڈیٹا کی بنیاد پر یہ
ہر موقع اور پیشکش کو ٹھکراتے اور اپنے من کو مارتے ہوئے صرف اپنی بیوی تک محدود رہتے ہیں اور ساری
زندگی انھوں نے گند نہیں گھوال ہوتا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کالجوں ،مذہبی تعلیم گاہوں ،وکال اور دیگر کچھ اداروں میں ہوسناکی کی
شرح نسبت ًا زیادہ ہے اور یہاں شریف مردوں عورتوں کو زیادہ مشکالت کا سامنا ہوتا ہے ،لیکن میں ان شعبوں اور
اداروں میں موجود گندے لوگوں کا تناسب چار پانچ فیصد سے زیادہ تسلیم نہیں کرتا۔ ایسے مرد جو معاشی و معاشرتی
طور پر سٹیبل ہیں ان میں باکردار اور اپنی بیوی تک محدود رہنے والے زیادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیوی بچوں واال جو
مرد ذرا سا سٹیبل اور حیثیت دار ہو اس کی طرف کالج یونیورسٹی کی طالبات اور نئی نئی جاب شروع کرنے والی
ورکنگ لیڈیز کود کر پڑتی ہیں اور یہ بھی عام دیکھا جا رہا ہے کہ ایسے مردوں کے لیے شادی شدہ عورتیں طالق تک
لے لیتی ہیں۔ چنانچہ اس دعوے کے لیے کسی مزید دلیل کی حاجت نہیں ہے کہ یہ عورت ہی ہے جو دوسری عورت کا
گھر خراب کرتی ہے۔
یوں اگر کوئی مرد دوسری شادی کر ہی لیتا ہے تو اس کی وجہ دوسری عورت کا رنگ روغن نہیں ہوتا بلکہ
بالفاظ دیگر ،پہلی بیوی کی
ِ بیشتر وہ soul searchingہوتی ہے جو دوسری عورت (یا لڑکی) نے کرلی ہوتی ہے جو،
بے توجہی یا بدزبانی ہوتی ہے اور جس سے فرار حاصل کرنے کے لیے مرد اس دوسری عورت یا لڑکی کی پناہ لیتا
شومی قسمت کا سامنا ہو جائے تو سکون و اطمینا ن غارت اور مرد کے ِ خوبی قسمت ہو تو وارے نیارے لیکن اگر
ِ ہے۔
پلے ککھ نہیں رہتا۔ مرد کی اس بدحالی کی قصور وار عورت ہوتی ہے ،وہ عورت (یا لڑکی) جس نے اس مرد کو پہلی
عورت سے چھینا ہوتا ہے۔ اس چھین جھپٹ میں لبھاوٹ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ صاف صاف لکھتا ہوں کہ اگر پہلی
عورت مرد کو ٹھیک سے لبھا رہی ہے تو مرد کہیں نہیں جائے گا ،اور اگر اس نے اس بارے میں کوتاہی کی ہے تبھی
کوئی دوسری عورت اسے لبھا لے گی اور اپنے ساتھ چپکا لے جائے گی۔ حضرت تھانوی نے بہشتی زیور میں لکھا ہے
کہ عورتیں گھر میں ماسی بن کے رہتی ہیں اور باہر جاتی ہیں تو حور بن کے جاتی ہیں۔ تو بیبیو ،اس طرح ہوتا یہ ہے
ت عمل یہ کہ آپ شوہر کے پیسے کے میک اپ سے حور بن کے کسی اور کو لبھا رہی ہوتی ہیں ،اور آپ کو نقد مکافا ِ
ملتا ہے کہ آپ کے مرد کو کوئی اور چڑیل حور بن کے لبھا رہی ہوتی ہے۔ خوب یاد رہنا چاہیے کہ سنورنے کی جگہ
گھر ہے نہ کہ بازار۔
جو مرد ہوسناکی اور دوسری شادی کے شوق کے لیے مطعون کیا جاتا ہے وہ گھر کو چالنے اور اوالد کی
پرورش کے کام میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک مشغول رہتا ہے۔ عورت اگر ٹھیک ہے یعنی سگھڑاپے اور کفایت
شعاری کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صابر ،خوش کالم اور معاملہ فہم ہے تو گھر اور خاندان کو جوڑے رکھتی ہے ،اور
اگر ایسی نہیں ہے تو گھر کے یونٹ کو قائم رکھنے کا ذمہ دار بھی تنہا مرد ہی ہوتا ہے۔ آپ ماں کے لیے جتنی بھی آیتیں
یا حدیثیں تالوت فرما لیں ،حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ایسے گھر گھر نہیں ،مکان ہوتے ہیں۔ ان مکانوں میں عورتیں بچوں کو
صرف جنم دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور بس۔ ایسے مکانوں میں عورتوں کے منہوں سے یہ جملے اکثر تراوش ہوتے
رہتے ہیں کہ میں نے تمھیں پاال ،گیلے بستر پہ سوتی رہی ،وغیرہ وغیرہ۔ واقعی ان عورتوں کا کردار اس کے زیادہ ہوتا
بھی نہیں۔کرائے کی ماؤں ) (Surrogatesکا رجحان اس لیے بھی بڑھ رہا ہے۔
آخری ب ات یہ ہے کہ گھر میں ماسیاں بن کے رہنے والی عورتیں جو نہ مرد کی soul searchingکرتی ہیں
اور نہ ان کی جسمانی ضرورت پوری کرتی ہیں وہ بھی چار چار شادیوں کی اجازت واال قرآنی فقرہ کچھ اس طرح سناتی
ہیں جیسے اسالم میں اس ایک عمل کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ بیشتر عورتیں اسالم کے خالف زبان نہیں چال سکتیں تو
چار چار شادیوں والی آیت سے سٹاپو کھیلنے لگتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ چار چار شادیوں والی آیت مردوں نے قرآن میں
خود شامل کی ہے۔
میں زہر ہالہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔۔۔ سعدیہ سلیم بٹ
پیالی میں طوفان اتنا شدید تھا کہ لگتا تھا سب کچھ اس طوفان کی زد میں بہہ جائے گا۔ لیکن تھم ہی گیا۔
میرے ناقدین سر آنکھوں پر۔ لیکن کچھ حامیوں کا مشورہ تھا کہ اس طوفان کی مکمل سرگزشت کو ایک مکمل دستاویز
کی شکل دی جائے۔ سو اس کو بالگ کی شکل میں مرتب کر رہی۔ جنہوں نے طوفان اٹھانا ہے وہ نہ پڑھیں کیونکہ یہاں
نیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں کی گئی باتوں پر آپ واویال کر چکے۔
یہ کہانی شروع عامر لیاقت کی بیٹی کی ٹویٹ سے ہوئی۔ ایک وال پر عامر لیاقت کی بیٹی کا ٹویٹ پوسٹ تھا۔ جس میں
عامر لیاقت کی بیٹی نے اپنے گھر کے پوتڑے سر بازار دھوئے تھے۔ اس پوسٹ پر عامر لیاقت کو اور دوسری شادی پر
کافی کچھ سننا پڑا۔ میری غلطی وہاں تھی کہ میں نے اس پوسٹ کو کمنٹ کر دیا۔ وہاں سے بات بڑھ گئی اور بحث شروع
ہو گئی۔ وہاں میں غلط تھی۔ مجھے نظر انداز کر دینا چاہیے تھا لیکن میرے سامنے کچھ حقائق تھے۔ جو مجھ سے غلطی
کروا گئے۔ ہم میں موجود ایک بڑے نے کہا کہ بات اب دالئل سے نکل کر مباحثے کی طرف جا رہی ہے۔ اس لیئے اب
گفتگو روک دی جائے۔ میں خاموش ہو کے نکل آئی۔ لیکن چند لمحوں بعد ایک اور مکمل پوسٹ لگی۔
میں نے کوشش کی گزارنے کی۔ لیکن اب حقیقتیں میرے پیر سے لپٹ گئی۔ کچھ گھنٹوں کی جنگ کے بعد حقیقتیں جیت
گئیں۔ اور انیس نومبر کو میں نے اس سلسلے کی پہلی پوسٹ لکھی۔ پوسٹ نہیں تھی شاید اعالن جنگ تھا۔ میں نے قرآن
کی آیت کے حوالے دئیے تھے تاکہ خواتین دوسری شادی پر جو لعن طعن کر رہی ہیں وہ سمجھیں کہ یہ حرام نہیں ہے۔
لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ اب قرآن کی وہ حیثیت نہیں ہے۔ علم بہت آگے جا چکا ہے۔
میرے سامنے حقائق کیا تھے؟
میں شاید اٹھارہ سال کی تھی تو مجھے پہلی بار ایک دوسری بیوی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ شوہر اس سے ملنے آتا تو
سارے محلے کی عورتیں منہ میں پال دبا کے دروازوں کی جالیوں میں کھڑی ہو جاتی اور باتیں کرتی۔ بھائی چھوٹے
تھے لیکن انہیں برا لگتا کہ یہ کیا طریقہ ہے۔ وہ بیوی ہے اس کی۔ کوئی اس نے رکھیل تو نہیں رکھی ہوئی یہاں ال کے۔
مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسری بیوی ہونا کیسا تماشہ ہو سکتا۔
میری ایک عزیز کے عزیز (باپ /بھائی /بیٹا میں درست رشتہ چھپانے کی غرض سے مکمل نہیں لکھ رہی) دوسری
شادی کرنا چاہتے تھے اور وہ کسی عامل کا پتہ ڈھونڈ رہی تھی۔ بات چیت پر میرے کانوں نے سنا ہاں ٹھیک ہے جائز
ہے لیکن دنیا کو بھی دیکھنا ہوتا۔ اب بندہ اس دور میں ہر جائز کام کرنے تو نہیں بیٹھ سکتا۔
میری ایک اور عزیز کے شوہر نے دوسری شادی کی تو وہ غریب پاگل پن کے مقام پر تھی کہ دنیا میرے بارے میں کیا
کہے گی کہ میرے میں کیا کمی تھی۔
میرا مقصد یہ ہر گز نہیں تھا کہ جا کے ہر مرد کو کہوں کہ اٹھو اور دوسری بیوی الؤ۔ میرا مدعا یہ تھا کہ جس نے کر
لی ہے اس کی زندگی کو نارمل بنایا جائے۔ اس فیملی کے بچوں کو اس احساس کمتری سے نکاال جائے کہ ان کی زندگی
میں کچھ ایسا ہے جو شرمناک ہے۔ ایسی پہلی بیویاں جو کہ خود ترسی ہے اندھیروں میں جا گری ہیں انہیں اس اندھی
کھائی سے نکاال جائے کہ یہ کوئی دھبہ نہیں ہے جس پر شرمسار ہوا جائے۔ وہ دوسری بیویاں جو لوگوں میں آنے سے
گھبراتی ہیں کہ ہر کوئی دشنام کے نشتر لیئے ملتا ہے ،ان کی زندگی کو آسان کیا جائے۔
کیا ہر مرد دوسری شادی کرتا ہے؟
ہر مرد دوسری شادی نہ تو کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ شادی کوئی مذاق نہیں ہے کہ اٹھے اور کر لی۔ زوجین کا
رشتہ یک جہتی رشتہ نہیں ہے۔ اس کی ہمہ گیریت سے انکار صاحب عقل کے لیئے ممکن نہیں۔ کچھ مردوں کے معاشی
حاالت ایسے نہیں تو کچھ کو ضرورت نہیں کہ دوسری شادی کریں۔
اس کے باوجود مرد اگر سمجھتا ہے کہ دوسری شادی اس کی ضرورت ہے (اور یہ صرف انسان خود سمجھ سکتا ہے۔
کوئی دوسرا اسے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا) اور وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس شادی پر اسے لعن طعن نہیں کی جا
سکتی ہے۔
ایک انسان جو آپ کی ہر ضرورت پوری کر رہا ہے اور آپ کو خوش رکھ رہا ہے اور وہ آپ کا حق نہیں مار رہا تو اگر
اسے اپنی خوشی کے لیئے کسی کی ضرورت ہے تو اسے یہ حق ہللا نے دیا ہوا ہے۔
مرد کیوں صحیح وجہ نہیں بتاتا:
مرد دوسری شادی کی درست وجہ اس لیئے نہیں بتاتا کہ اس میں پہلی بیوی کی دل شکنی ہے۔ اس لیئے وہ الزام در الزام
لیئے جاتا ہے لیکن سچ چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی بول دے تو بےوفا کے عالؤہ بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔
مرد پہلی بیوی کو چھوڑتا کیوں ہے؟
ایسا مرد جو دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی سے بالکل hands offہو جائے اس کی وجہ سادی سی ہے کہ وہ ذہنی
طور پر اس کے ساتھ نہیں رہ گیا ہوا۔ اب یہ اس عورت پر منحصر ہے وہ کیا فیصلہ لے۔ چاہے تو مرد کو چھوڑ دے
چاہے تو نام برقرار رکھے۔ یہ فیصلہ لینے کا حق شریعت عورت کو دیتی ہے۔ اگر تو عورت سمجھتی ہے کہ اسے خلع
لیکر دوبارہ گھر بسا لینا چاہیے تو اسے فورا ایسا کر لینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر اپنے گھر کا ماحول
خراب ہونے سے بچانا اسی کی ذمے داری ہے۔
کیا عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے؟
عموما ً جو عورت بچوں کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے وہ بہت جلد اپنے پیر پر کھڑی ہو جاتی ہے تاکہ بچوں کو سنبھال
سکے۔ بچے نہ صرف مرد کے ہوتے ہیں نہ صرف عورت کے۔
یہاں سے آگے میں وہ سب دالئل جمع کر رہی ہوں جو مجھے اپنی پہلی پوسٹ کے بعد مجبورا ایک کے بعد ایک دینے
پڑے کیونکہ ہر کوئی قرآن کو اپنے مفاد کے لیئے استعمال کر رہا تھا۔
میرے پر لگائے جانے والے الزام اور میرے دالئل کو لیکر مجھ سے منسوب غلط بیانیاں میں نے سب دیکھی ہیں۔ میں ان
کو بحث میں النا مناسب نہیں سمجھتی۔ جو لوگ ہللا کے حکم کو عورت پر ظلم ،خرافات ،مردوں کا دین وغیرہ کہتے
رہے ہیں ،میں کون ہوں اور کیا ہے میرا داغ قبا بھی۔ صرف ایک حنیف ڈار صاحب کو لیکر جو مجھے ایک طعنہ دیا گیا
اس کا جواب دوں گی لیکن وہ اس کالم کے آخر پر۔
انیس نومبر کی پوسٹ
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں۔۔۔
آپ کو احکام ٰالہی سے مسئلہ ہے تو آپ اپنا مسلمانیت کا لبادہ اتار پھینکیں۔ کھل کے سامنے آئیں کہ ہم ہللا کے فالں فالں
حکم کے منکر ہیں۔ کیونکہ ہماری عقل اور سمجھ اور تجربہ نعوذ باہلل اس معاملے میں ہللا سے زیادہ ہے سو ہمارے
مطابق تو یہ ایسے ہی ہونا چاہیے۔ باقی رہا ہللا کا حکم تو وہ ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے مفادات سے متصادم ہے۔ اپنا
اسالم بنانے تک تو جائز تھا لیکن اپنے اسالم کو عین اسالم ثابت کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ حیرت ہے کہ کسی انسان سے
نہیں ،ہللا سے مقابلہ ہو رہا اور ہر دوسری وال پر ہو رہا۔ کس کس اہانت کو رویا جائے۔ میرے پاس اب کوئی راستہ نہیں
بچا سوائے اس کے کہ ہر اس دوست سے کنارہ کیا جائے جو احکام ٰالہی کے مقابلے میں دالئل و بحث کے انبار لگا رہا۔
فتوی کا نہیں ہے۔ آپ کی مسلمانی آپ کو مبارک لیکن میری طبیعت میں اتنی لچک نہیں ہے۔ ٰ مسئلہ
دوسری شادی اور عدل:
دوسری شادی میں ہللا نے مرد کو پابند کیا ہے تو صرف انصاف کا۔ انصاف تبھی ہو گا جب دوسری بیوی ہو گی۔ پہلی تو
ویسے ہی پردھان ہوتی۔ مرد انصاف نہ کر سکے تو وہ بیوی جس کا حق مارا جائے اسے حق ہے کہ خلع کے لیئے
جائے۔
انصاف ہو گا یا نہیں ،یہ شادی کے بعد ہی پتہ لگ سکتا۔ شادی ہوئے بغیر انصاف کا واویال پرو ایکٹو اپروچ ضرور ہے
اور کچھ نہیں۔
انصاف نہ کرنے پر بھی کہا گیا کہ نہیں کر سکتے تو بیوی نہ رکھو۔ کنیزوں پر پابندی نہیں۔
قرآن تو یہی بتاتا۔
قرآن یہ بھی نہیں کہتا کہ کسی بوڑھی سے اپاہج سے کرو۔ آیت کہتی کہ جو بھلی لگے اس سے کرو۔
اس کے عالؤہ سب شرائط عورتوں یا فیمنزم کے ماروں کی ہیں۔ ہللا کی نہیں۔
تئیس نومبر کی پوسٹ
تعالی نبی پاک پر
ٰ ہللا میں االحزاب سورۃ تھی۔ حصہ کا نصاب تفسیر اور ترجمہ کا االحزاب سورۃ میں زمانہ طالب علمی
ایک کڑے امتحان کا ذکر کر رہے ہیں۔
حضرت زید جو کہ نبی پاک کے منہ بولے بیٹے تھے ،ان کی اپنی بیوی سے طالق ہونے کے بعد حکم دیا گیا کہ اب نبی
پاک ان کی مطلقہ سے شادی کریں۔
قرآن کا اسلوب بتاتا ہے کہ ہللا پاک کو نبی پاک کو باقاعدہ ہمت دینی پڑی کہ ہللا سے ڈرو اور لوگوں سے نہیں ڈرو۔
کیونکہ اس معاشرے میں یہ رواج نہیں تھا۔ منہ بولے بیٹے کو اصل بیٹے کے مکمل حقوق حاصل تھے۔ اور اس کی بیوہ
یا مطلقہ سے شادی ناممکن تھی۔ ہللا کو یہ اصول تڑوانا تھا۔ سو مکمل اختیار سے نبی پاک کو حوصلہ دیا۔ ہللا کے الفاظ
وہاں جو ہیں ،ان کا ترجمہ یہ ہے کہ ہللا کا حق ہے س سے ڈرا جائے۔ ایک آیت کہتی ہے مسلمان وہ ہیں جن کے لیئے ہللا
یا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو وہ تنگ دل نہیں ہوتے۔ اسی قرآن کا فیصلہ ہے کہ یہ ہر زمانے کے لیئے ہے۔ ہم
تو خیر ہللا کی باتوں سے ویسے ہی خائف مسلمان ہیں۔
پچھلے دنوں جب عامر لیاقت پر ایک طوفان برپا ہوا ،سب اپنی اپنی پٹاری کھولے آ گئے۔ میرے مسائل یہ ہیں کہ میں دیں
و دنیا میں بٹی بندی نہیں ہوں۔ میرا دل اس بات پر ثابت ہے کہ ہللا کی دی اجازت اور ہللا کا دیا حکم بہترین ہے۔ اور جہاں
ہللا کا فیصلہ موجود ہو ،وہاں زبان کھولنا کم از کم ایک مسلمان کو جائز نہیں۔ میں اسے بالزفیمی سمجھتی ہوں۔ سو میں
بھی قرآن کی انگلی پکڑے آ گئی کہ نہیں ایسا تو نہیں ہے جیسا سب کہہ رہے ہو۔ ہللا تو یہ کہتا۔
ایک طوفان برپا ہوا پڑا ہے۔ عورتوں کو اپنے شوہروں کی فکر ہے۔ کسی کو وسائل کا رونا یاد آ گیا ہے۔ کوئی اس پر
پریشان ہے کہ فیملی ٹوٹ جائے گی بچوں کا کیا ہو گا۔ ایسے میں ظاہر ہے میری ذات طنز سے ماوری کیسے جا سکتی
تھی سو ہو رہے۔
بت ٹوٹ رہے ہیں۔ لوگ کھل رہے ہیں۔ میں پڑھ سب رہی ہوں۔ جواب کسی کو نہیں دے رہی۔ میری مخالفت میں جو لوگ
ہللا کی حکمت کا رد اپنی عقل سے کر رہے ہیں ،ان پر ہنسا ہی جا سکتا۔ لکم دینکم ولی الدین ہر چیز کا فیصلہ کر چکا۔
دین کو لیکر ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو سو فیصد مانتا ہو۔ ہماری وہ تربیت ہی نہیں۔ میں بھی غلطیوں سے
ماوری نہیں لیکن دین کا حق یہ ہے کہ جو چیز ہماری طاقت سے باہر ہو اس پر ہللا سے عاجزی سے دعا کریں کہ ربنا
وال تحملنا ما ال طاقۃ لنا به نہ کہ اکڑ جائیں کہ فالں حکم منسوخ اور فالں حکم مشروط ہے۔ اور اگر ہم ایسا کریں تو ہللا
کو کیا فرق پڑتا۔
مزے کی بات ہللا تو ہللا ،جنہوں نے کرنی ہے ،ان کو بھی کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق کس کو پڑ رہا ،ذرا سوچیئے!
کیا ایسا نہیں ہے کہ اب جواز سمٹ کر صرف “میرا جسم میری مرضی” جیسے دالئل پر آ گئے ہیں۔
مسلسل چند کمنٹ خواتین دہرا رہی ہیں۔
ایک :اگر عورت بھی دوسرا مرد لے آئے – ضرور الئے لیکن اسے اسالم یا پہال شوہر چھوڑنا ہو گا۔
دو :عورت شوہر کی دوسری شادی کی صورت میں طالق لینا چاہے – مرد نہ دینا چاہے تو عورت خلع ہی لے سکتی۔
خلع عورت کا حق ہے۔ خلع لیکر بھی کسی کی دوسری بیوی ہی بننا ہے تو اس کی مرضی۔
تین :عدل نا ممکن ہے – قرآن کہہ چکا ہے کہ تم کر بھی نہیں سکتے سو بس ایک کی طرف نہ جھک جانا۔
اس کے بعد پیچھے معاشی تحفظ رہ جاتا۔ وہ مانگنا عورت کا حق ہے۔ ضرور مانگے۔ لیکن معاشی تحفظ ایک ماہ کے
چار چار جوڑے بنوانا نہیں ہے۔
گیارہ دسمبر کی پوسٹ:
چند ضروری وضاحتیں:
میرا پروفائل یہاں موجود ہے۔ گیارہ سال سے میں پروفیشنل الئف میں ہوں۔ بینک کی جاب ہے اور میں اس وقت الحمدہلل
خود کو سپورٹ کر سکتی ہوں۔ سو پہلی بات مجھے کوئی الچار مجبور عورت نہ سمجھیں جسے زندگی میں کوئی مال
نہیں تو اب اپنی بےبسی کا انتقام لے رہی ہے۔ میں الحمدہلل ایسی زندگی گزار رہی ہوں کہ جو جانے وہ چاہے کہ ایسی
زندگی ہو۔
میں کسی عورت کو یہ نہیں کہہ رہی اپنا مرد اٹھا کے بازار میں لیجائے اور دوسری بیوی ڈھونڈے۔ قطعی نہیں۔ اوور
ایکشن کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں پہلی بیوی کو دوسری کے مقابلے میں نہیں ال رہی۔ یہ جہالت ہے۔ عورت ہر رنگ میں عورت ہے۔ خاندانی لوگ تو
طوائفوں کو عزت دیتے۔ میں خاندانی عورت ہو کے دوسری خاندانی عورتوں کو پست کیوں کروں۔
میرا مسئلہ اگر یہ لگ رہا کہ مجھے تعریف یا شناخت کی بھوک ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میں آدم بیزار نسل ہوں۔
مجھے ضرورت نہ ہو تو میں ایک کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی۔ گمنامی مجھے راس ہے۔ میں نے یہاں اپنی پکچر
تک کبھی خود سے نہیں دی۔ سو مجھے پچاس لوگ جان بھی جائیں تو صرف نام کی حد تک۔
میں ایک ٹیبو توڑ رہی۔ کیوں؟ کیونکہ میں نے معاشرے میں دوسری شادی کرنے والے مرد کا استحصال ہوتے دیکھا
ہے۔ میں اس معاشرے کی مغرب زدگی سے بالکل متاثر نہیں ہو سکی۔ اور میں نے اس معاشرے کی گندگی کو اور
منافقت کو اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ میں اسے اگنور نہیں کر سکی۔
میں نے کسی بھی مخالف پر ذاتی حملے نہیں کیا۔ میں اکثر کو جواب بھی نہیں دے رہی۔ میں تو اس گھٹن زدہ معاشرے
کے کھڑکیاں کھول رہی اور پردے ہٹا رہی۔
آپ کو کیا لگتا ہے میری پوسٹ پر لوگوں کو صرف برا لگ رہا۔ یہاں کئی ایسی دوسری بیویاں خاموشی سے پڑھ رہی
ہیں جن کو پہلی بار اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ ڈائن یا چڑیل نہیں۔ ان کا کوئی جرم نہیں۔ یہاں کئی ایسے مرد پڑھ رہے جو
معاشرے میں یہ کہنے سے ڈر رہے کہ انہیں ضرورت ہے۔ گناہ اور ٹھرک کا بوجھ اٹھائے تعفن پھیال رہے۔ ہاں انہیں
ہمت ملی ہے کہ گناہ ترک کریں اور حالل کا راستہ دیکھیں۔ شاید کوئی پہلی بیوی پڑھ کے سمجھے کہ کوئی ایسا طوفان
نہیں آیا زندگی میں جو وہ جینا ترک کر بیٹھی ہے۔
میں کوئی عالم دین نہیں۔ لیکن مجھے اتنا دین سکھایا گیا کہ روزمرہ کے لیئے مجھے قرآن سے ہدایت مل جائے۔
دوسری شادی کو زہر قاتل ہمارے روئیے نے بنایا ہے۔ روئیے کی اصالح کریں۔ حالل کو حرام نہ کریں۔
گیارہ دسمبر کی پوسٹ
عورت کو کیا کرنا چاہیے:
بیبیو! صبر کرو۔ ٹھندی کر کے کھانا سیکھیں۔ احتجاج ہونا ہے۔ الزمی ہونا ہے۔ صبر کرنا سیکھیں۔ آپ نے جرم
نہیں کیا لیکن جس معاشرے میں آپ ہیں وہاں یہ گناہ ہے۔ اس لیئے ردعمل آئے گا۔ آپ نے جب یہ قدم اٹھا لیا ہے تو
حوصلے سے چلیں۔
کسی کی زندگی کے بیچ میں آئی ہیں تو مل کے چلنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ آتے ساتھ ہی پہلے دن سے یہ خواب نہ سجا
لیں کہ پہلی بیگم کو اور اس کے بچوں کو گھر سے باہر کرنا ہے۔
مرد آپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہے گا۔ لیکن آپ پر ذمےداری کا بوجھ ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ کسی سے امئد
کریں کہ آپ کو قبول کرے ،پہلے ایسا کچھ کریں تو سہی کہ ایک غبار میں ڈوبا ذہن آپ کو قبول کرے۔
پہلی بیگم آپ کی عزت کی حقدار ہے۔ محبوب کا تو جانور اور جسم سے لپٹا لباس بھی محبوب ہوتا ہے۔
اسی معاشرے سے نکلی ہوئی دوسری بیگمات تھی جنہوں نے اپنے روئیے کو ایسا زہر آلود کیا کہ ایک حالل چیز حرام
ہوئی۔
آپ کا حق آپ کے شوہر تک ہے۔ اب پہلی بیوی لڑتی ہے تو وہ اپنے شوہر سے لڑ رہی ہے۔ اپنے حق سے لڑ رہی ہے۔
آپ کو اس کی سیأت پر گھر نہیں بسانا۔ اپنی حسنات پر بسانا ہے۔
پہلی بیوی آپ پر دشنام طرازی کرے تو اسے اپنی منفی طاقت نہیں بناتے۔ نہ اس کا سہارا لیکر پہلی کو گھر بدر کرواتے
ہیں۔ شاید آپ کا موجودہ میاں اس وقت ککھ بھی نہیں تھا جب وہ آئی۔ اس کی اس محنت کی قدر کریں۔ اور اس کی ہر چیز
پر نظر نہ جمائیں۔ اس کی اوالد سے محبت کریں۔
بعض دفعہ اپنا جائز حق چھوڑ کے انسان جو کچھ پا لیتا ہے ،وہ اس حق کے لیئے لڑ کر بھی نہیں ملتا۔ اس معاشرے میں
رہ کر اگر اتنا بڑا قدم اٹھانا ہے تو چٹان کا حوصلہ لیکر چلیں۔
زندگی کو چند سال دینا سیکھیں۔ چند سال میں بھی اگر پہلی اچھے سلوک کے بعد بھی آپ کو قبول نہیں کرے گی تو یاد
رکھیں ہللا زمیں سے کہیں نہیں گیا۔
گیارہ دسمبر آخری پوسٹ
پہلی بیگم:
پہلی بیوی کو سب سے پہال دکھ اپنی تذلیل کا لگتا ہے کہ اس پر سوتن آئی تو اس کا مطلب ہے اس میں کمی تھی۔
مرد اور عورت کو ہللا نے برابر نہیں پیدا کیا۔ ان کے لیئے احکامات ایک نہیں۔ ان کے لیئے آزادیاں ایک نہیں۔ ان کے
لیئے پابندیاں ایک نہیں۔ خواتین کو عبادات کی اتنی چھوٹ ہللا نے دی ہے۔ مرد کو نہیں دی۔ مرد کی ضروریات اور
عورت کی ضروریات الگ ہیں۔ مزاج الگ ہیں۔ ہللا نے مرد کو اجازت کیوں دی ،یہ ایسی ہی بحث ہے کہ ہللا نے عورت
کو بچہ جننے کی صالحیت کیوں دی۔ عورت کو وراثت میں ایک حصہ کیوں ملتا ہے۔ عورت کو عبادات کی چھوٹ کیوں
ہے۔
ساری مسلم دنیا کے مرد اس سہولت کا فایدہ اٹھاتے ہیں۔ وہاں کی عورت تذلیل نہیں محسوس کرتی۔ برصغیر کی عورت
ہی محسوس کرتی ہے۔ اس لیئے ہم کہہ سکتے کہ مسئلہ برصغیر کی عورت میں ہے۔
اگر آپ کے میاں نے دوسری شادی کر کے آپ کو گھر سے نہیں نکاال ،طالق نہیں دی ،خرچہ نہیں روکا ،تو اس نے آپ
پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ خود ترسی سے نکلیئے۔
دوسری بات ایسے موقع پر اپنے شوہر کو خود سے دور آپ خود کرتی ہیں۔ ایک کام اس نے کر لیا۔ اب وہ گھر آتا ہے
آپ بات نہیں کرتی۔ مسلسل لڑتی ہیں۔ روتی چیختی چالتی ہیں۔ وہ کچھ وقت برداشت کرے گا پھر چڑ جائے گا۔ دوسری
طرف شادی نئی ہے۔ آپ کی یہ لڑائی اگلی کا گھر مضبوط کرے گی۔ آپ کو فایدہ نہیں دے گی۔ اگر آپ اس کو آپ ی
تذلیل سمجھیں گی تو آنا میں آئیں گی اور آنا کا زخم خوردہ شخص صرف اپنا نقصان کرتا۔ آپ روٹھیں۔ آپ کا حق ہے۔
لیکن ایک حد تک۔ آپ کا silent treatmentشوہر کو آپ کی طرف مائل کرے گا۔ یہ وہ وقت ہو گا جب آپ اپنا معاشی
تحفظ یقینی بنا سکتی۔ شوہر سے صاف کہیں کہ دیکھیں شادی آپ کا حق تھی ،آپ نے کی۔ عدل میرا حق ہے۔ میں اپنا حق
معاف نہیں کروں گی۔
شوہر کے لیئے عدل کو مشکل نہ کریں۔ ورنہ اگر کسی کشمکش میں شوہر بیزار ہوا تو نقصان اکیلی آپ کی سوتن کا
نہیں۔ آپ کا بھی ہے۔
اس سب میں اپنے بچوں کو نہ استعمال کریں۔ یاد رکھیں اوالد صرف شادی تک وفادار ہے۔ شوہر بیوفا بھی ہو تو بھی سر
کی چھت ہے۔ آج آپ اوالد کو باپ کے خالف کھڑا کریں گی ،کل کو اوالد کی پریکٹس ہو گئی ہو گی۔ ان کی بیوی آئے
گی تو ذرا سی چنگاری دکھا کے آپ کے خالف کھڑا کر دے گی۔
آپ کی اوالدیں اصل میں ذہنی مریض دوسری شادی کی وجہ سے نہیں بنتی۔ فریقین میں کسی ایک کی غلط تربیت اور
غلط روئیوں کی وجہ سے بنتی ہیں۔ کسی بھی انسان کا روئیہ غلط ہو تو اس روئیے کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
نہ کہ ہللا کی حکمت پر انگلی اٹھانے کی۔
آخر پر ایک بات ،شوہر انصاف نہیں کرتا تو آپ الگ ہونے میں حق بجانب۔ سوکن آپ کے خالف ورغال رہی تو آپ
مظلوم۔ لیکن اگر واحد ضد یہ ہے کہ میں نے نہیں بانٹنا کیونکہ میں نے نہیں بانٹنا تو بیبیو مر کے ہللا کے پاس ہی جانا
ہے۔ یہ ساری ضدیں دنیا میں چل جاتی ہیں۔ جس بات کی ہللا نے اجازت دے رکھی ،اس کی ہللا کے دربار میں دہائی
کیسے دو گی۔
میں اس کے ساتھ ہی سب دالئل اور بحث سمیٹ رہی۔ اسالم کے احکام مکمل ہیں۔ یہ کچھ بھولے اسباق تھے۔ اس لیئے یاد
کروا دئیے کہ شاید کسی کو بھول گئے ہوں۔ اور ذرا سا دہرا دئیے جائیں تو لوگ ایک حالل پر لوگوں کی زندگیاں حرام
کرنی بند کر دیں۔ باقی ہدایت کی ذمے داری انبیاء کی بھی نہیں تھی۔ وما علینا االالبالغ
یہ میرے دالئل کی آخری پوسٹ تھی۔
مجھے اس کے بعد ایک پوسٹ مزید کرنا پڑی۔ کیونکہ حنیف ڈار صاحب نے ایک اسٹیٹس لگایا اور مجھے کسی خاتون
نے آ کے کہا کہ کہ آپ کی کیمپیئن غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے حنیف صاحب نے۔
میرا جواب یہ ہے کہ میں نے حنیف صاحب کی شہہ پر نہیں لکھا تھا نہ ان کی مخالفت سے مجھے فرق پڑا۔ اگر آپ
حنیف صاحب سے متفق تو میں ایسے علماء سے جن کو مرد مجبور ہو کے کہتے ہیں کہ دل گناہ پر مائل ہوتا ہے اور ان
کو علماء کہتے ہیں بیوی کو جان دینی ہے تو گناہ کر لو ہللا کو دینی ہے تو شادی کر لو۔
وہ آخری پوسٹ یہ تھی
چودہ دسمبر کی پوسٹ
يـ ٌم ()1 ـ ح ر ر و
ُ ْ ٌ َّ ِ ُْ فغَ ہٰٰ ـ ِّ
ل ال و ٰ اج وزْ َ ا ض ر م ى
ْ ِ ْ َ ْ َ اتَ َ ِ كَ َ غَ ت بَ ت ٰ َ
ُ كَل ہٰ ٰ ـ ِّ
ل ال َّ
ل َیآ اَيـھَا النَّ ِبى ِل َم ت ُ َح ِ ِّر ُم َ َ
حَ ا آ م
اے نبی! آپ کیوں حرام کرتے ہیں جو ہللا نے آپ کے لیے حالل کیا ہے ،آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور ہللا
بخشنے واال نہایت رحم واال ہے۔
اس آیت پر مجھے کہا گیا کہ یہ شہد پر ہے۔ میری جوابی دلیل یہ تھی۔
ہر آیت ایک مخصوص شان نزول کے ساتھ ہے۔ اگر صرف شان نزول کی ساتھ نتھی کیا جائے تو پھر قرآن کی
عالمگیریت کا جواز نہیں بچتا۔ اصل میں بنیاد فراہم کر دی گئی ہے حالل اور حرام کی۔
حضرت علی اور بیبی فاطمہ کے بارے میں کہی جانے والی بات بطور دلیل:
موال علی(ع) کا ابوجہل کی بیٹی سے شادی کا جھوٹا افسانہ
سوال) السالم علیکم!کیا اس حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے؟؟ برادر ابوزین اس حدیث میں
بیان کئے گئے واقعے سے متعلق علماء تشیع کا کیا موقف ہے کیا حضرت امیر المومنین ع نے واقعی ابوجہل کی بیٹی
سے نکاح کا ارادہ کیا تھا؟
متن حدیث:عن المسور بن مخرمة أنه قال ”:إن علیا خطب بنت أبي جھل ،فسمعت بذلك فاطمة فأتت رسول ہللا
صلى ہللا علیه وسلم فقالت :یزعم قومك أنك ال تغضب لبناتك ،وھذا علي ناكح بنت أبي جھل ،فقام رسول ہللا صلى ہللا علیه
وسلم ،فسمعته حین تشھد یقول :أما بعد ،أنكحت أبا العاص بن الربیع فحدثني وصدقني ،وإن فاطمة بضعة مني وإني أكرہ
أن یسوءھا ،وہللا ال تجتمع بنت رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم وبنت عدو ہللا عند رجل واحد ،فترك علي الخطبة ” وفي
روایة للبخاري ” فاطمة بضعة مني فمن أغضبھا أغضبني ” …!!! .البخاري رقم ، 3556 ، 3523ومسلم برقم 2449
علی رضی ہللا عنہ نے ابوجہل کی لڑکی کو (جو مسلمان تھیں) پیغام نکاح دیا ،اس کی اطالع جب فاطمہ رضی
ہللا عنہا کو ہوئی تو وہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا کہ آپ کی قوم کا خیال ہے کہ آپ کو
اپنی بیٹیوں کی خاطر (جب انہیں کوئی تکلیف دے) کسی پر غصہ نہیں آتا۔ اب دیکھئیے یہ علی ابوجہل کی بیٹی سے
نکاح کرنا چاہتے ہیں ،اس پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب فرمایا:میں نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو
خطبہ پڑھتے سنا۔ پھر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :امابعد:
“میں نے ابوالعاص بن ربیع سے (زینب رضی ہللا عنہا کی ،آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی) شادی کرائی تو
انہوں نے جو بات بھی کہی اس میں وہ سچے اترے اور بالشبہ فاطمہ بھی میرے (جسم کا)ایک ٹکڑا ہے اور مجھے یہ
تعالی کے ایک دشمن کی بیٹی ایک
ٰ پسند نہیں کہ کوئی بھی اسے تکلیف دے۔ ہللا کی قسم! رسول ہللا کی بیٹی اور ہللا
شخص کے پاس جمع نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ علی رضی ہللا عنہ نے اس شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ “(صحیح بخاری
كتاب فضائل الصحابة حدیث نمبر)٣٨٢٩ :۔۔
محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ابن شہاب سے یہ اضافہ کیا ہے ،انہوں نے علی بن حسین سے اور انہوں نے
مسور رضی ہللا عنہ سے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ،آپ نے بنی عبدشمس کے اپنے ایک
داماد کا ذکر کیا اور حقوق دامادی کی ادائیگی کی تعریف فرمائی۔ پھر فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات بھی کہی
سچی کہی اور جو وعدہ بھی کیا پورا کر دکھایا۔”
جواب) یہ حدیث اہلسنِّت کے علمی پیمانوں پر پورا نہیں اترتی ،اور ہمارے ہاں تو اس سلسلے میں کوئی معتبر
حدیث ہے ہی نہیں۔ اس میں سب سے پہال راوی مسور بن مخرمہ ہے جو امام علی(ع) کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ یہ عبدہللا
ابن زبیر کے ساتھیوں میں سے تھا اور جب خانۂ کعبہ میں یزید کی فوج نے منجنیقوں سے حملہ کیا تو مسور بن مخرمہ
مارا گیا تھا۔ مشہور سنِّی عالم ذھبی کہتے ہیں کہ یہ خوارج کے ساتھیوں میں سے بھی تھا؛
قال الزبیر بن بكار كانت [الخوارج] تغشاہ وینتحلونه (سیر اعالم النبالء ،ج 3ص)391
ذھبی نیز یہ بھی کہتے ہیں :قال عروۃ فلم أسمع المسور ذكر معاویة إال صلى علیه۔۔۔۔۔ یعنی عروہ کہتے ہیں کہ
میں نے کبھی مسور بن مخرمہ کو معاویہ کا نام لیتے ہوئے نہیں سنا مگر یہ کہ معاویہ پر درود بھیجے۔
اب ایسے شخص کی روایت تو ویسے ہی رد ہو جاتی ہے اور جبکہ وہ روایت اپنے دشمن کے بارے میں کرے
تو اس کو عقل بھی قبول نہیں کرتی۔
اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ مسور بن مخرمہ اس واقعے کے وقت بچہ تھا۔ علماء نے نقل کیا ہے کہ مسور
دوسری صدی ہجری میں پیدا ہوا ،اور یہ واقعہ کم و بیش 8ہجری کا بتایا جاتا ہے۔ تو چھ سالہ بچہ کیسے روایت نقل کر
سکتا ہے؟
اس جھوٹی روایت کو رد کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ قرآن سے متصادم ہے ،قرآن واضح طور پر
چار شادی کی اجازت دیتا ہے اور اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول ہللا
ص اوروں کی بیٹیوں پر سوکنیں بٹھانے کی اجازت دیں اور اپنی بیٹی پر نہ دیں۔۔۔ کیا یہ عدل کے منافی نہیں؟ اور رسول
ہللا(ص) جو تمام عالم اسالم کے لئے نبی ہیں اپنی بیٹی کو اس طرح کی تخصیص دے دیں۔
اور عورتوں کے درمیان مکمل برابری رکھنا تو تمہارے بس میں نہیں ،چاہے تم ایساچاہتے بھی ہو ،البتہ کسی
ایک طرف پورے پورے نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو ایسا بناکر چھوڑ دو جیسے کوئی بیچ میں لٹکی ہوئی چیز۔ اور اگر
تقوی سے کام لو گے تو یقین رکھو کہ اہللا بہت بخشنے واال ،بڑا مہربان ہے۔
ٰ تم اصالح اور
ساتھ ہی میں نے نبی پاک کی مثال عرض کی کہ حضور نے اپنی تمام ازواج کے لیے ہر چیز ِگن ِگن کر طے
کی ہوئی تھی۔ شب بسری کے لیے سب کی باریاں مقر ر تھیں۔ دن میں بھی آپ ہر گھر میں چکر لگاتے تھے۔ عصر اور
مغرب کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر ہر زوجہ محترمہ کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اگر کہیں زیادہ دیر ہو جاتی تو گویا
کھلبلی مچ جاتی تھی کہ آج وہاں زیادہ دیر کیوں ٹھہر گئے؟ یہ چیزیں انسانی معاشرے میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ حضور
کی ازواجِ مطہرات کا آپس کا معاملہ بہت اچھا تھا‘ لیکن سوکناپے کے اثرات کچھ نہ کچھ تو ہوتے ہیں‘ یہ عورت کی
فطرت ہے‘ جو اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ تو اس لیے فرمایا کہ مکمل انصاف کرنا تمہارے بس میں نہیں۔ اس سے
مراد دراصل قلبی میالن ہے ۔ ایک حدیث میں بھی اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرم فرمایا کرتے تھے کہ اے ہللا
میں نے ظاہری چیز وں میں پورا پورا عدل کیا ہے‘ باقی جہاں تک میرے دل کے میالن کا تعلق ہے تو مجھے امید ہے
کہ اس بارے میں تُو مجھ سے مواخذہ نہیں کرے گا۔ اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ تم چاہو بھی تو عدل نہیں کر سکتے۔
آپ کے لیئے محبت کیا ہے کیا نہیں میں نہیں جانتی۔ میں نے تو جسے اپنا لیا دل وجان سے اپنا لیا۔ محبت لینے
دینے کا نام نہیں ہے۔ محبت برابری کا نام نہیں ہے۔ یہ کسی کے پیروں کی دھول ہو جانا ہے۔ تو مجھے جس سے محبت
ہے اس کا تو مجھے جوتا تک عزیز ہے۔ وہ اپنی خوشی سے کسی کو الئے گا تو میرے سر آنکھوں پر۔