بخدمتِ :محترمہ نرجس ملک صاحبہ ،ایڈیٹر:جنگ َسن ڈے میگزین، تبصرہ”:آپ کا صفحہ“،برائے اشاعتِ /4 :تا /10اگست 2019ء “!وط ِنیت شاد رنگوں سے رنگا شمارہ”از پروفیسر ڈاکٹر سیّد مجیب ظفرانوارحمیدی(سینئر تجزیہ کار) َ ُ یوم آزادی اور عی ِد قرباں کُچھ د ُور سہی،لیکن موجودہ 4/اگست19ء کا سن ڈے میگزین پڑھا،گو،ابھی ِ شمارہ ”آزادیئ پاکستان کے َرنگوں سے َرنگا،وطنیت شاد ایڈیشن“ ثابت ہوا۔آزادیئ وطن کی مبارکباد محافظین وطن ہیں،جو اپنے گھروں سے د ُورپار ،ملکی سرحدوں کا تحفظ یقینی ِ کے اصل مستحق ،وہ ُ بنائے ہوئے،اہ ِل وطن کی حفاظت کے امین ہیں ،سالم ان ماؤں پر،جنھوں نے ایسے جانباز(فوجی) جوانوں کو وطن پر قربان ہونے کے لئے پروان چڑھایا، تحریک آزادیئ پاکستان“سے متعلق بھی ہیں،خیر،سرسبز سرورق ِ تازہ شمارے میں ایک دو تحریرات ” پر ”مستقبل کے معمار“ ،سجے سجائے ،آزادی کی جھنڈیاں لہراتے پائے گئے ،نوجوانوں کے پُر عزم چہروں اور اُمیدوں کے جگنوؤں سے روشن آنکھوں کو ،مرکزی صفحات پر ایڈیٹر صاحبہ نے موضوع بستان ِدلّی“کی آخری شمع کی ِ بناتے ہوئے رائٹ اَپ بھی بہت عمدہ لکھا ہے ،اس پائے کی نثر،اَب ”دَ ت برہم سے کچھ عرصہ پہلے تالشی جاسکتی تھی،جب شمع ستان لکھنؤ“کی صحب ِ بھڑکتی لَو یا ”دب ِ بُجھی ،صحبت برہم ہوئی تو،بھال اَب کہاں ایسی اُردو اور اہ ِل اُردو طبقہ؟ایک ہجوم ہے جو ”بولی سے گزارا“کئے جاتا ہے ،اب زَ بان کہاں اور اہ ِل زبان کہاں ،البتہ ” ُزبان“ ہے جس سے نہاری ،پائے ،کباب، چائینیز ،اطالین ،رشین ،پیزے ،برگرز کے مزے لُوٹے جارہے ہیں یا اُسی ُزبان کو کاندھے پر ڈالے فی ت حاضرہ پر بُلند و بانگ ”تبصرے“یا گالم گلوچ کا شغل کررہا ہے اور زمانہ ”ہجوم“(قوم نُما) ،حاال ِ سوشل میڈیا کے جہنم کا اِیندھن بن رہا ہے،نرجس ملک کا رائٹ اَپ ایک ایسے محنتی ،منفرد”انسان“ کے دل کی آواز ہے جو،نہ صرف ایک مومن صفات”مسلمان“،دیانت دار”پاکستانی“ بلکہ ُمشفق”ایڈیٹر“ بھی ہے۔رائٹ اَپ میں نس ِل نو سے بڑی اُمید یں قائم کرتے ہوئے ”عی ِد آزادی“ کی خوشی میں قارئین کو یوم آزادی کی مبارک باد دی ہے ،سرورق اِس لحاظ سے بھی شریک کرتے ہوئے،وطن کے /73ویں ِ اقبال نے اپنی عمر کا بڑا حصہ نس ِل نو کو ”عقاب، ؔ اقبال کے خواب کی تعبیر ہے ،عالمہ اَہم ہے کہ یہ ؔ فکر اقبال ؔ اور ُوربینی سرسیّدِ ، ِ شاہیں بچہ،جواں ،مر ِد مومن“ کے پیراہن عطا فرماتے گزارا ،اُسی د مساعی قائداعظم کو نرجس ملک نے اپنے بہترین رائٹ اَپ میں تحریر کیا،پڑھ کرِ ،سوائے ”واہ ،سبحان ِ ہللا!!“کے اور قاری کیا کہہ سکتا ہے ،سو وہ د ُور دراز اور قُرب و جوار کے افراد پُکار ہی رہے ہیں، تفصیالت میں نہ جاؤں تو کیسے اظہار(ممکن) ہو؟گذشتہ دنوں امریکا سے سینئر سرکاری بیورو کریٹ جناب نظام الدین نصیری (رابطہ )4142-1434851+:اورماہنامہ”تعلیم و کی مخلص اور مشفق ُمدیرہ محترمہ عابدہ اصغر ) Direct Editorتربیت“(الہور،فون04236278816: سے ٹیلے فون پر بات ہوئی ،اِن دونوں شخصیات نے نہ صرف ”جنگ سنڈے میگزین“کی علمی و ادبی خدمات کو سراہا بلکہ ایڈیٹر سن ڈے میگزین کی اُردو زَ بان میں مہارت کی تعریف بھی ہے ،عابدہ اصغر صاحبہ(ایڈیٹر :تعلیم و تربیت،الہور) تو ماشاء ہللا باقاعدہ ِکھل ِکھال رہی تھیں اور ساتھ ہماری ہمت افزائی بھی فرماتی جارہی تھیں ”:پروفیسر صاحب! آپ ہرگز فکر نہیں کیا کریں ،نرجس بس کڑوے جوابات ہی دیتی ہیں لی کن میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ دل کی بہت اچھی ہیں!“ جب ُمدیرہ کے علم و فن کی قدر اُن عالقوں سے ہورہی ہو جہاں،اُن ملکوں ،شہروں کی اپنی ”ریگولر اشاعتیں“ بہترین ارتکاز اُردو“اور مقبولیت“ سے خالی ہوں تو ”ناطقہ سر بہ گریباںِ انداز میں موجود ہوں،لیکن ” ہے،اسے کیا کہئے!“سُورج،چاند کا طلوع و غروب د ُنیا دیکھتی ہے ،کوئی خاموش رہ جاتا ہے،کوئی !!پُکار اٹھتا ہے!!واہ وا “:٭”آپ کا صفحہ ق محف ِل ”واہ واپُکار“ تو اِس ہفتے ڈاکٹر غالم رسول جاموٹ اُٹھے،موصوف کا پہال ہی خط ”اُف ِ قارئین“(آپ کا صفحہ) کی زینت بنا ،سچے الفاظ کی مدیرہ نے ”آفیشل پالیسی“ تعریف بھی کی۔اسی طرح محمد عمیر لنگوی،پسرور کا خط ،کسی اعال عہدے دار یا ُمدیر کے کمرے میں بھجوائی جانے والی ”تعارفی ِچٹھی“ محسوس ہوئی ،بزم میں تشریفے ،فوری دل کھول کر سامنے رکھ دیا کہ اجی!”آپ کا میگزین بہت پُرسکون ہوتا ہے ،اِس ہائڈ پارک(پابند)کا جواب نہیں،کیا میری غزل شایع فرمادیں گی؟“ س ّال ،اب سلیم راجا ،ملک رضوان نہ سہی،لیکن قوم کے معلم ”دیوانے بڑے میاں“کو لیجئے ہللا ہللا خیر َ ّ تو اس ب ّچے کا ُرقعہ پڑھ کر ُچلو بھر پانی میں ”پیراکی“ہی ِسیکھ لینا چاہئے کہ ”ادارتی قینچی“ کی برقی اُڑان پر بند باندھنے کی ناکام کوشش میں چار چار صفحات کے ”بادبانی مراسالت“ لکھے جاتے متاثرین صفحہ کو ”دھوبی ِ اور پھڑ پھڑاتے،پھٹوائے جاتے ہیں،سلیم راجا صاحب کو جہاں کہیں گزیدہ پاٹ“ لگانا مقصود ہوتا ہے ،وہاں ایسی گاڑھی پنجابی زَ بان کی ”قینچی“ لگاتے ہیں کہ غیر پنجابی قاری اپنے امرت سر ،گرداسپور ،انبالہ ،گوال کنڈ،گجرات،وسطی پنجاب وغیرہ سے تعلق نہ ہونے پر اپنا ہی سر ِپیٹتا اور حضرت بابا فرید الدین ؒ گنج شکر،بابا گورو نانک اور بابا بُلھے شاہ کو”المدد!!“پُکارتا رہ جوان پسرور ،سیال کو ِ جاتا ہے۔ خط لکھنا اور تبصرہ کرنا توکوئی ،اِس pp:2/4 کوٹ سے ِسیکھا جائے،ہاہا...پھر ہم نے (ملک صاحب کے ذہن سے)سوچا کہ یہ جو،ہر ہفتہ ”قارئین کرام“ کی ”عمیق النومی“(گہری نیند) توڑنے کے لئے ”اطالع نامہ“ شایع کیا جاتا ہے ،اِس ڈاک کے پتے اور ای میل کو صفحے کے سب سے نیچے والی بارڈر پَٹّی میں بھی تو شایع کیا جاسکتا ہے (جیسا ،جنگ اخبار کے مدیر کا نام ،پتا ،فون نمبر اخبار کی اختتامی لکیر سے نیچے اُفقی طور پر شایع ت قارئین کرام“ کی کیا جاتا ہے)اور ”قارئین کرام!!“ کے لچھنوں پر دو حرف بھیجتے ہوئے ”ہدای ِ خالی(قیمتی)جگہ میں ،میرے ب ّچے عمیر لنگوی جیسے دو مکمل تبصرے مع سُرخی بھی تو سجائے جاسکتے ہیں ،باقی مراسلہ نگار سبھی ُخوب رہے ،جی الف سیّد صاحب کا نامہ پڑھ کر تو ہمارا بھی دل اغالط کبیرہ دریافت کرلی گئیں ،لیکن پُورا مراسلہ ِ ”ہک دَق“ رہ گیا کہ ٰالہی،میگزین کی بھال ،کون سی پڑھنے کے بعد،برائے ”استفراغِ قَہقَہائے شدید“(سخت قَہقَہہ نکالنا ،خارج کرنا،فراغت پانا) ،پھر وہی ”کچن“ پکڑا، ظاہر ہے ماشاء ہللا بھرے پُرے”دیدہ دوز“ گھرانے،یعنی چوکنّے وکٹ کیپر کی طرح اِستادہ اہلیہ ( صاحبہ،گلی ،مڈ آف ،سلی مڈ آن ،باؤنڈری الئن پر دَھرے چابک دست لُترے افرا ِد خانہ ،د ُترے نواسے، نواسیاں،سیانے نیانے،سوشل میڈیائی پوتے،پوتیاں،ایک ” ِسدھرنے کے قریب“بڈھے کی ایک ایک ت مقیدہئ منصورہ(منصورہ=فیڈرل بی ایریا ت قبیحہ پر نظر گاڑھے رکھتے ہیں تو ،اِن”حاال ِ حرک ِ کاسرکاری نام،جومحمد بن قاسم نے رکھاتھا)“ میں تو بندہ،اپنی ”مارشل وائف“ کی موجودگی میں، باور چی خانے ہی میں جا کر ہنس سکتا ہے،تاکہ بیوی کے گرجنے،پوچھنے پر بتا تو سکے کہ”:بی بی! یہ تمہاری چھوٹی بہو نے دال چاول کے چاول اُبالے ہیں یا میری نصف صدی پُرانی کتابوں کی ِجلدیں سدھار(ہدایت یافتہ ،تربیت شُدہ ،سجا سنورا)کرکے ،قاب ِل ِسدھار(روانہ باندھنے والی لئی“،کیسے اپنا ُ سدھار؟؟شاید ،ناممکن !!ہونے واال ،جانے واال ،جس کے جانے کا وقت نزدیک ہو،فانی) ہوجاؤں؟؟)ُ ، “:٭”سرچشمہئ ہدایت توقارئین میگزین کی دین و د ُنیا کا،محترم محمود میاں نجمی صاحب نے اپنے ذمہ لے رکھا ” ِ سُدھار“ ُ ہے ،اس ہفتہ ایک ایسے نبی ؑ کے بارے میں ان کی تحریر موجود ہے جس نبی ؑپر بہت کم لکھا گیا ہے، نجمی صاحب نے حضرت ”حزقی ایل“ یا ”ہزقی /ھزقی ایل“(حزقیل =شان ِ ٰالہی ،قدرت ہللا) کے بارے تفاسیر قرآن کے بہترین حوالے بھی شامل کئے ،سبحان ہللا، ِ میں لکھا ،ساتھ ،قرآن و حدیث کے عالوہ !جزاک ہللا حضرت “:٭”اشاعت خصوصی سبحان ہللا ،جزاک ہللا“ تو جناب فاروق اقدس کی معصومانہ پردہ پوشی پر ،کہنے کو جی چاہا ،جنھوں ” نے کس مزے سے پانچ سطری سُرخیاں جموائیں” ،وزیر اعظم کا دورہئ امریکا،یقین دہانیاں وعدے عملی شکل اختیار کریں گے؟“،ماہر تجزیہ کار کے تجاہ ِل عارفانہ پر ہنسی آگئی ،جبکہ اِن ہی کے مضمون کی پانچ سُرخیوں میں سے آخری سُرخی ،اِسی سُوال کا روشن اور مستند جواب ہے،کہ”:اصل اہمیت فوجی قیادت سے مالقاتوں کی ہے!“ گل ای ُمک گئی جے!!!پاکستان،امریکا مالقات کو ”کامیابی“ سمجھ کر ،شادمانی کے شادیانے اور بغلیں بجانے والے،شادیانے پٹخنے اور بغلیں جھانکنے سے پہلے ایک بات ذہن میں روشن کرلیں کہ ماضی کی بُری بھلی ،کرپٹ ،چور حکومتوں نے ہللا ِپیر کرکے پاکستان کو امریکا کے غلیظ یہودی ،قادیانیت پرور پنجے سے نکاال تھا اور اب پھر نو زائدہ پاکستانی قیادت نے ازخود امریکی کلہاڑے کی دھار پر جاکر”دھمال ڈاال“ہے ،پاؤں تو لہو لہان ہوں گے ،ستّر کی دہائی تا اکیسویں صدی کے ابتدائی گیارہ ،بارا برس ،پاکستان سے امریکی کلچر کوسوں !د ُور رہا۔ اب پھر پاکستان ”امریکی آئی ایم ایف“کے رحم و کرم پر ہے۔کشمیر کا سودا ہو گیا ہوگا بیٹی “:٭”سنڈے اسپیشل سودے کے رحم کرم“ پر تو مویشی بیوپاریوں کے ،قربانی کے جانور کا خریدار ہے ،بارش کا مو ِسم” ، مون سون کے دل دہالنے والے سیاہ اَبر ،گُھٹنوں گُھٹنوں کیچڑ میں دھنستے،مویشی تالشتے اور بھاؤ تاؤ میں ہلکان ہوتے خریدار اور اَڑیل بیوپاری اور اُن کے مالکان کے اصل کو طلعت عمران نے بڑی مہارت سے دِکھادیا۔ اس جاندار تحریر میں مویشی منڈی کی نہایت دل چسپ تصاویر نے مزید جان ڈال دی ،چھوٹے بچے ایک تصویر پر انگلی رکھ رکھ کر شور مچانے لگے”:ماما! پی۔ کے،بابا! پی۔کے!!یہ دیکھیں ،یہ رہا پی۔کے ،کاؤ (گائے)خرید رہا ہے!“ فیچر میں متعلقہ اہل کاروں کی گفتگو ب غفلت کے بھی شامل کرتے ہوئے عوامی مسائل کو اُجاگر کیا گیا ،لیکن شہری حکومت بدستور خوا ِ مزے لُوٹتے ہوئے ،ہر دو،چار روز بعد ایک عدد اخباری بیان جاری کردیتی ہے،کہ”:ہم شہر کی ایام مون سون میں یقینی بنائیں گے ،صاف کراچی مہم کا آغاز موسم قرباں اور ِ ِ صفائی ستھرائی کو، نالوں کی صفائی سے ہوگا ،پھر کچرا اُٹھایا جائے گا ،شہر”ماں“ کی طرح ہوتا ہے “....فالنا، ڈھماکا.....بے عمل محکمہ، “:٭”ہیلتھ اینڈ فٹنس ماں“ کی ممتا کی دائمی اہمیت اور افادیت تو ڈاکٹر عذرا رفیق اور ڈاکٹر غالم صدیق نے ”ماں کا ” دودھ....سفید ُخون“نامی بہترین فیچر میں بتادی ہے ،دونوں تشخیصات،عالمی ادارہئ صحت کے تحت یر مادرخوردنی)کو مد نظر رکھتے ہوئے منائے جانے والے ”ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ِویک“(عالمی ہفتہئ ِش ِ لکھے pp:3/4 گئے۔دونوں مضامین میں ِشیر خواران کے متعدد طبی مسائل کا واحد عالج (دوا)ماں کے دودھ کی یر مادر تجویز کیا گیا۔ماں کا دودھ ننھے اہمیت کی آگاہی کو اُجاگر کرتے ہوئے،صرف اور صرف ِش ِ بچوں کے متعدد امراض کے سامنے ایک فعال ”حربی صالحیت“ بن جاتا ہے۔ “:٭”متفرق حربی صالحیت“ کا کھوکھال پن تو بھارتی وزیر اعظم کی ،مشتاق احمد نے بیان کی ہے ،جس میں ” مودی تعصب ،کینہ توزی اور حسد پروری کو یکسر پوشیدہ رکھتے ہوئے بھارت کا ناپاک چہرہ دِکھایا گیا ہے کہ بھارت انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ”سی پیک منصوبے کی ناکامی،گلگت و بلتستان کے عالقوں میں عدم اتحاد،پاک افغان مذاکرات میں پُھوٹ ڈالنے اور پاکستان کو کسی بھی طرح کشمیر ایشو میں اُلجھا کر اپنی کھوٹی راہیں مزید ہموار کرنے کی ایک بار پھر کوششیں کررہا ہے ،خدا کی مار اِس فتنے پر!! ایسے وقت میں کہ جب امریکا ،پاک بھارت تعلقات میں امن و امان کا خواہاں ہے ،بھارت پاکستان کی شاہ َرگ کشمیر پر ”کلسٹر بموں“ کی بمباری کررہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں کو شہید کئے جارہا ہے۔ بھارت کبھی بھی پاکستان کی بقاء اور خوشحالی دیکھ ہی نھیں سکتا،کیونکہ اس طرح پاکستان میں بے امنی قائم کرکے بھارتی حکومت کی”قلبی تسکین“ہوتی ہے۔ “:٭”متفرق مسلمانان عالم کی،حج ِ بیت ہللا کی عبادتوں اور ریاضتوں کے دوران ہوتی ہے ،ان ہی ” ِ قلبی تسکین“ تو ت مسلم“ روحانی جذبات و کیفیات کا بھرپور اظہار،محمد انور شیخ نے ”فریضہئ حج ،فلسفہئ حیا ِ جیسے بہترین مضمون میں کیا ہے۔مضمون کی تصاویر بھی عمدہ اور”جاذب نظر“ ہیں۔ “:٭”نئی کتابیں ُ جاذب نظر اور عمدہ“ تصاویر تو ان کتابوں کے”سرورق ہا“ کی بھی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ” ڈاکٹر قمر عباس یا کوئی دوسرا لکھتا ہے ،بعضی کتب کے سرورق دیکھ کر تو دل مچل جاتا ہے اور ق مطالعہ کو مزید ہَوا دئے جاتا ہے ،کتنا خوش نصیب ہوگا،ایسا فرد تعارف کتاب ،آت َِش شو ِ ِ مختصر سجتی“ ہوں گی!جس کے بُک شیلف میں یہ کتابیں ہر ہفتہ ” َ “:٭”حاالت و واقعات ق سنڈے میگزین پر ،منور مرزا صاحب کا ہفتہ وار تجزیہ بھی ہے ،اس ہفتہ مرزا ” سجتا“ تو،اورا ِ صاحب”پاک امریکا تعلقات“کے بارے میں لکھ رہے ہیں،دونوں ٹرمپوں کی فرعونی َچہروں سے بھری پُری تصویر بھی چھانٹ کر لگائی ہے ،تصویر ہی چیخ رہی ہے کہ”:میں بھی رانی ،تُو بھی رانی ،کون بھرے پنگھٹ سے پانی!!“ ،پانی پنگھٹ میں بدستور ہے ،جس کی سطح کو اپنے تعصب کی کوتاہ گردن کی چونچ تک ،اوپر النے کے لئے سیانا کاال کوا(بھارت) تعصب اور بُہتان بازی کے غلیظ کنکر پتھرپھینک پھینک کر ضایع کئے جارہا ہے۔ تعلقات کی بہتری میں ،دانش وری کا مظاہرہ ایسی قومیں ِکیا کرتی ہیں جن کی تعمیری تفکرات روشن ہوں ،ایک خوابیدہ قوم کے ہجوم سے منور مرزا کوئی اُمید نہ رکھیں،کشمیر ہاتھ سے نہ نکلے بس ،اسی تجزئے میں نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے برستے ڈنڈوں اور ہتھیاروں سے حملے کی ایک چھوٹی سی تصویر بھی شایع کی گئی ہے، جوکامیابی سے متعلق کئی پیچیدہ سوالوں کا واحد”جواب“ ہے، “:٭”عبد ہللا داستان ”عبد ” ِ جواب“ تو،آدمی کو انسان ،خاکی کو نُوری تک کے درجات تک پہنچانے والی کامیابی کا، ہللا“ میں ہاشم ندیم کے قلم کا بھی یہی ہے ،کہانی جاری ہے اور مصنف ہر لحاظ سے پالٹ اور کہانی کے کرداروں پر گرفت رکھے ہوئے ہے۔چونکہ ایسا موضوع ہے جسے قارئین کا ایک خاص طبقہئ عمر پسند کرتا ہے ،لہٰ ذا،اسی حساب سے ناول کو بتدریج اسنا ِد ستائش ملتی رہیں گی۔بندے کو اپنا اصل پہچاننے میں کیسی”لیت و لَعل (عربی :بہانہ ،ٹال مٹول ،عذر)“؟؟ “:٭”پیارا گھر ت ابراہیمی ؑ سے برتنے والوں کے بارے میں تو رضیہ جوہر صاحبہ نے اپنی بہترین ” لَیت و لعل“ُ ، سنّ ِ ت ابراہیمی کی ادائیگی کو ،گھر کے بجٹ کو متوازن رکھتے سنّ ِ گھریلو تحریر میں بیان کیا ہے۔ ُ دل کش کہانی میں کیا گیا ہے ،بڑے عرصے ہوئے،کیسے ممکن بنایا جائے ،اس حقیقت کا اظہار ،ایک بعد ایسی جاندار طبع زاد کہانی پڑھی۔دوسری ”آموزشی“ تحریر پیرزادہ شریف الحسن عثمانی کی ہے ون جگر سے سینچنے کے عزم کا اظہاریہ موجود جس میں ملکی جذبہئ محبت کے ننھے پودوں کو ُخ ِ ہے۔یہ تحریر بھی نسل نو کی شخصیت سازی کے لحاظ سے تدریسی عوامل پرمشتمل ہے ،اسی طرح اسلم شیخ کے کچن ٹوٹکے اچھے لگے ،جب کبھی مرد حضرات ”کچن“ میں ٹانگ اَڑاتے ہیں تو ایک ”عجیب سے گھر“ کا احساس ہوتا ہے ،نجانے کیوں؟ گھر اور ہاسٹل میں بہر حال”فرق“ ہے۔ pp:4/4 “:٭”ڈائجسٹ جشن آزادی“(فرحی نعیم ،کراچی) نے بھی فرق تو زنگ آلود اَذہان پر” ،ڈائجسٹ“ کی بہترین کہانی ” ِ ڈاال ہے ،قلوب و اَذہان کو دَھو دینے والی پُر تاثیر تحریر،جس نے پاک وطن کی بھرپور ”وطنیت“ کو، ب بہترین منز ِل ُمراد،کرنے کی مساعیئ کار انجام دیں ،یہی کاوش نورین فاطمہ اور عبد ہللا شاد باد ،بجان ِ َ مسعود کی نظموں میں پائی گئی۔ عطیہ کنول اور مہر منظور جونیئر کی ننھی ُمنّی باتوں کو ”اشاعتی بھرا،رنگا َرنگ ایڈیشن“تمام ہوا ،باتیں َ پروٹوکول“بھی دیا گیا اور یُوں /4اگست 2019واال ”ہرا سفر ِزیست ،یُوں ہیہزاروں ،الکھوں ہوتی (باقی رہتی)ہیں ،کہنے والے بدلتے(فانی رہتے) ہیں ،یہ ِ جاری رہتا ہے ،ہم نہ ہوں ،کوئی ہم جیسا ہوتا ہے،لیکن علم و ادب سے محبت اور تحریر کی قدر دانی کی ،اَلُوہی صفات کی حامل،جس شمع”علم االنسانَ مالم یَعلَم“کو ،نرجس ملک صاحبہ نے ”سن ڈے میگزین“ میں روشن کیا ہے ،اُسے تاقیامت کوئی ”بَا ِد مخالف“ ،بُجھا نھیں سکتی ،اِن شاء ہللا!!آپ سب،ہر لحاظ سے آسُودہ حال رہیںٰ ،الہی آمین!!(پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی ،گلبرگ ٹاؤن، ٹیلے فون) :کراچی
The Happiness Project: Or, Why I Spent a Year Trying to Sing in the Morning, Clean My Closets, Fight Right, Read Aristotle, and Generally Have More Fun