Professional Documents
Culture Documents
PDF of Final Aap Ka Saffha Dated 15 Septemer 2019 Jang Sun Day Magazine Editor Madam Narjiss Malik by Prof DR S Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Education and Literacy Deptt Govt of Sindh
PDF of Final Aap Ka Saffha Dated 15 Septemer 2019 Jang Sun Day Magazine Editor Madam Narjiss Malik by Prof DR S Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Education and Literacy Deptt Govt of Sindh
٭میگزین کے صفحات کی ِپن لگانے والے نے گویا عہد کرلیا ہے کہ ،پُورا طُول ،عمود چھوڑ
دوران مطالعہ،صفحات قابو میں رکھنے کے
ِ کر،ایک بالشت اور تین اُنگل نیچےِ ،پن لگائے گا ،چنانچہ
باوجود،موقع ملنے پر ،پھڑپھڑاتے رہتے ہیں،
سوج“ (ستمبر) کی مناسبت سے،سرورق کے َرنگوں کا عمدہ استعمال کیا گیا،٭بکرمی مہینے” َ
ساتھ ماڈل کے پیراہن اور ”ٹائٹل لُک“پر خاص توجہ کی گئی ،لیکن،ماڈل کے بالوں کو شیمپو کرتے
پوز نے ”سن ڈے میگزین“ کی لوح دائیں طرف پوشیدہ کردی ،اگر ماڈل کی تصویر کمپیوٹر کی مدد
سے تھوڑا نیچے کردی جاتی تو،نہ صرف ماڈل کا غیر ضروری نظر آنے واال گُھٹنا پوشیدہ ہوجاتا(جو
مرکزی صفحات پر مکمل فوٹو میں موجود ہی ہے)،بلکہ لوح بھی مکمل نظر نواز ہوتی ،خیر بہت عمدہ
سرورق،
٭”سر چشمہئ ہدایت“ میں حضرت سلیمان ؑ عالی شان کا مفصل،معلوماتی تذکرہ تمام ہوا ،نجمی
دور حکومت صاحب نے اس بار ایسے نبی کے بارے میں لکھا ،جو،متحدہ اسرائیل پر،اپنے 39سالہ ِ
میں ،موجودہ حساب سے 2200ارب ڈالر کے مالک تھے،چرند ،پرند ،ہوا ،جنّات اُن کے تابع
اورفرماں بردار تھے،محمود میاں نجمی نے بہترین لکھا ،لیکن ہوسکتا ہے ،کچھ واقعات پر روشی نہ
تعداد،سلیمان کا ”اِن شاء ہللا“ نہ فرمانا،اسی
ؑ ڈالنا کسی پالیسی کا حصہ ہو،مث ً
ال:سلیمان ؑ کی ازدواج کی
ساحل پر ”ٹائر
)“(Tyreلئےُ ،مردہ یا نا مکمل بچہ کی والدت ،یروشلم کے ِشمال میں بحیرہئ َروم کے ِ
نامی بڑے تجارتی شہر کے بادشاہ کا واقعہ،لیکن جو کچھ اور جتنا کچھ مختصر و محدود جگہ میں
!اُنھوں نے تحریر کردیا ،وہ نقش ہوا،جزاک ہللا
٭منور راجپوت ”کچرا گردی“ کی کتھا الئےّ ،اول تو ہمیں ”کچرا گردی“ کی اصطالح ہی
نہایت مرغوب رہی ،دوم ،منور نے اپنے فیچر میں شہروں میں پھیلے کچرے کا ہر زاویہئ نظر سے نہ
صرف جائزہ لیا،بلکہ ،حل بھی پیش کئےُ ،خوب لکھا ،تصاویر نے َ
سنَ ِد پسندیدگی نمایاں کی،
٭منور مرزا صاحب ،ہمیشہ کی طرح،اِس ہفتہ بھی ،مگر مچھ کے جبڑوں کے درمیان سے
موضوع نکال الئے ،امریکا،ا َ ب،تقریبا ً تِیس برسوں بعد جو ”طالبان“ کو گلے لگانے کو تیار ہے،تو
افغانستان کی 80کی دہائی کی خُُُ وں ریز ،خانہ بدوش کربناک تاریخ ِپھر سے نگاہوں کے سامنے
روشن ہوگئی ،جب ”طالبان“کہالنے والوں کا قلم و قرطاس اور کتا ب سے رشتہ قائم تھا ،اِسی امریکا
نے ُروس کو ورغال کر ،اُن غریب ،سیدھے سادھے لوگوں کا ایسا بد ترین حال کیا کہ مجھے بھٹو
صاحب کا،ہر آنے جانے والے سے ”کیا ُروسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوگئیں؟“ یاد آگیا،بھٹو
صاحب کے اسی خوف نے اُن کی پھانسی کے سانحے کے بعد 80کی دہائی میں حقیقت کا ُروپ دھار
لیا اور یُوں افغانستان 35برس سے اوپر جنگ و جدال میں مصروف ہے اور ”طالبان“ الزام برداشت
کرنے والے گروہ کے افراد نے قلم ،کاپی ،کتاب ہاتھوں سے َرکھ کر اسلحہ تھام لیا اور امریکی ٹاور
کی اینٹ سے اینٹ بجادی،ا ب مکار ،لومڑ امریکی صدر ایک مرتبہ پھر ،اُسی اُجڑے دیار کو ُچمکار،
دامن سُود کے ُچنگل میں پھنسانا چاہتا ہے؟؟ لیکن اس بار ،دیکھ لیجئے گا کہ
ِ پُچکار کر اپنے
افغانستان،اپنی امدادی قوتوں کے ساتھ امریکی مظالم اور مکاریوں کا خاتمہ کردے گا،ان شاء ہللا ،بس
پاکستان (یہی دانش مندی دِکھا دے کہ)،امریکاکو ایران تک جانے کا راستہ نہیں دے،باقی احوال تو منور
!مرزا صاحب نے بیان کر ہی دیا ہےُ ،خوب اَست
٭”ص ّحی ساز و سامان“(ہیلتھ اینڈ فِٹنس) میں اس ہفتہ بڑے درد ناک مرض ”الزائمر“ کے بارے
ت مرض اور تدارک کے بارے میں بتادیا گیا،شکریہ ڈاکٹر عبد المالک صاحب!میں عمدگی سے معلوما ِ
ویسے ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھ کر اور اُن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کا پڑھ کر
کر،حسرت و َرشک کا ایک ہلکا سا جھونکا ُچھوتا چال گیا،کہ ،ماشاء ہللا ڈاکٹر صاحب،اپنے تازہ دَم
دورمیں 19گریڈ تک پہنچے ،ہللا برتنا نصیب کرے،آمین ،جبکہ محکمہئ تعلیم (سندھ) میں ترقیوں کا
عمل ،محکمہئ صحت کے مقابلے میں نہایت سُست رفتار ہے ،بس کیا کہیں؟؟ تعلیم میں تو 20
(بشرط زندگی)پروفیسرز ہی کو مال کرتا ہے ،ورنہ وہی آنسو،طویل انتظار، ِ گریڈ،خوش نصیب ،فعال
جو مقد ِر معلم بنادئے گئے ہیں،
٭ویسے ،مرکزی صفحات میں ،پیاریَ ،من مو ہنی سی ماڈل کے پیراہنوں پر ،عالیہ کاشف
عظیمی نے ُخوب اور ”ٹُو دی پوائنٹ“ لکھا ،ایک خاصب بات محسوس کی ہے کہ سینٹر اسپریڈ پر
ہمیشہ ماڈلز کیب ملبوسات کے بارے میں تحریر کیا جاتا ہے ،اُن کے خدو خال کے بارے میں ہرگز
نھیں پڑھنے میں آیا،زنانہ ماڈل کی نشست و برخواست کے زاویوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے،
ظاہر ہے،ایسے محتاط صفحات پر ،خاندانی نفوس بھی ،اپنے پیراہن پیش کرنا چاہیں گے ،واقعی
میگزین کی ایک3618،
قمر عباس کی تحریر میں اُردو زَ بان و بیان،معنی و مصادر اور الفاظ کے حوالوں سے بڑی ہی
گُنجائشیں موجود ہیں ،مثالً :تمام مصادر ،جیسے ،کھانا،پینا،لیٹا ،لینا ،دینا وغیرہ کو ہللا جانے ڈاکٹر
صاحب ”لینی،دینی ،پڑھنی ،کھانی ،پینی“ لکھتے ہیں ”،تُوتی بولنا،نجانے،کب تک ”طوطی بولنا“ رہے
گا؟ دوم مضمون میں فارسی مرکب”جابجا“ کو ”جا بہ جا“ لکھا گیا،سید شاہ نیاز بریلوی نے سترہویں
صدی عیسوی میں شعر کہا:یار کو ہم نے جابجا دیکھا،کہیں ظاہر کہیں ُچھپا دیکھا....دراصل فارسی
زَ بان کے اِسم ”جا“ کی تکرار کے بعد،حرف جار ”ب“ لگنے سے ”جابجا“ مرکب بنا(،دیکھئے فرہنگِ
بطور متعلق فعل مستعمل ِ آصفیہ ،جامع اللغات اُردو سائنس بورڈ)،اُردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور
ہے(دیکھئے :معراج العاشقین 1500ء بھی)،لیکن جو بات”جنگ“جیسے وقیع ادارے کے جانے مانے
میر کوئیمیر کے اشعار ہیں ،اگر تو ؔ اکلوتے ہفتہ واری میگزین میں برداشت سے باہر ہے ،وہ میر تقی ؔ
ت زندگی تو بجا،لیکن ،ایک ”خدائے سخن“ جنرل ہسٹری کی شخصیت ہوتے تو طویل حاالت و واقعا ِ
(بحوالہئ:پروفیسر احمد صدیق مجنوں ؔ گورکھ پُوری)کے اشعار میں ہی انتہائی واضح
غالب کا مشہور زمانہ شعر ”ریختے کے تم ہی اُستاد نھیں ہو ؔ گُنجائشیں؟؟؟تحریر کے آغازیے میں مرزا
غالب“ کو ”ریختہ کے تُم ہی اُستاد “....لکھا گیا،یہ درست کہ ،جمعہ ،ہفتہ ،روزنامہ ،ریختہ وغیرہ لکھا ؔ
جوش
ؔ اور پڑھا”ے“ کی آواز سے پڑھا جائے گا ،جیسے،روزنامے ،ریختے ،ہفتے ،جمعے وغیرہ،
بقلم
غالب نے ِ ؔ صاحب نے تو خادمہ کے ”پونے“(پُونا) کہنے پر گھر چھوڑ دیا تھا ،لیکن یہاں تومرزا
خود ”ریختے“ لکھا،اسی طرح ”دوکان ،روپیا ،ہندوستان،کاروبار“ وغیرہ،جیسے الفاظ ،تحریر میں
”و“کے ساتھ ملے ،جب کہ اِن الفاظ میں ”و“ کی اضافت کی قطعی ضرورت نھیں”،د ُکان ،ہند ُستان،
میرکاِ ،رشتے میں ماموں لکھا آرزو کو میر تقی ؔ ؔ ُرپیا،کاربار“ وغیرہ ہی درست ا ُردو ہے ،خان
میر کی والدہ ،دَر حقیقت، ،میر کے سوتیلے بڑے بھائی کا ماموں تھا ،جبکہ ؔ آرزو ؔ
ؔ گیا.....سراج الدین خاں
آرزو ،میر ؔ کا رشتے کا خالو تو ہوسکتا ہے، ؔ آرزو کی بیوی کی د ُور پرے کی بہن تھیں،اس طرح خان ؔ
ماموں ہرگز نھیں (دیکھئے:میر تقی میر ؔ از ڈاکٹر مشاہد رضوی،ص ۱۳:تا ،)۲۳لیکن سب سے زیادہ
ناقاب ِل برداشت واقعہ”،جنگ“ جیسے وقیع علمی و ادبی پلیٹ فارم سے نکلنے والے واحد ہفتہ واری
میر کے اشعار میں پے در پے غلطیاں ہیں”،اُس کو فلک نے لُوٹ کر برباد کالم ؔ
میگزین میں ِ
ب حیات“ میر نے لکھا”:اُس کو فلک نے لُوٹ کر ویران کردیا“،موالنا نے ”آ ِ کردیا“(ص ،)15:جبکہ ؔ
میں اسی طرح لکھا،لکھا گیا”:موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے“ ،درست”:مرگ اِک ماندگی کا وقفہ
ہے“(دیوان ّاول ،غزل ،)223:لکھا گیا”:رات ہم بھی تری محفل میں کھڑے تھے ُچپکے“ ،درست”:رات
دیوان ّاول)،لکھا گیا”:جب نام تیرا سُن کے وہ بے تاب سا ِ مجلس میں تِری ہم بھی کھڑے تھے ُچپکے“(
طف زیست جن سے وہ اب نہیں ہوا“ ،درست”:جب سُن کے تِرا نام وہ بیتا ب سا ہوا“ ،لکھا گیا”:تھا لُ ِ
دیوان دوم ،غزل،)723:اب بتائیے؟ ِسوائے ِ سر“( طف زیست ِجن سے وے اب نہیں می ّ سر“ ،درست:تھا لُ ِ می ّ
صبر ،تو وہ قمر صاحب کی ہر تحریر پر کرتا ہی ہوں،،مگر یہاں سُوال ،طالب علموں کا ہے،ری سرچ
میر کا سب سے بڑااسٹوڈنٹس بھی سن ڈے میگزین پڑھتے ہیں ،ڈاکٹر سیّد عبد ہللا نے لکھا تھاؔ ”:
میر نے ہندی کے پنگل کو اُردو غزل کا مزاج مضمون شاعری اُن کا غم ہے،“.....ایک اور جگہ لکھاؔ ”:
ِ
،میر پر کچھ لکھنے سے قبل ،ڈاکٹر سید عبد ہللا ،ڈاکٹر فرمان فتح پُوری ،ڈاکٹر مشاہد
بنایا ہےؔ “.....
نقش
ناصر کاظمی ،ابن انشاء ،جون ایلیا وغیرہ کر پڑھ لینا ضروری ہے ،پروفیسررفیق احمد ؔ ؔ رضوی،
گل،ڈاکٹر رؤف پاریکھ ،پروفیسر کو کھو دینے بعد ،ہمارے درمیان ڈاکٹر یونس حسنی ،ڈاکٹر حسین وقار ؔ
قاضی سراج وغیرہ جیسے ،شعر و سخن کی تحقیقات کے لئے موجود ہیں ،اُن سے فیض اُٹھانا ناگزیر
ُکان اُستادی چمکانے کے لئے یہ
ہے ،میرے پاس وقت نھیں ،جو کوئی یہ سمجھ لے کہ ہم نے اپنی د ِ
داستاں پینٹ کردی،بخدا ،س ن ڈے میگزین کی بجائے ،اگر اتواری صفحات میں اس طرح کی بے سر و
پا تحریر شایع ہوتی تو ایک طرف ہوتی ،نہ سرسری مطالعہ میں اس قدر اغالط کی نشان دہی کرتا ،نہ
میر کی طرح میں بھی ”سریع الغیض“(جلد برہم ہونے واال) ہوں ،ان سطور کو مناسب توجہ دیتاؔ ،
ایڈیٹنگ کے بعد ،بی ٹی ،تم شایع کرو یا نھیں ،لیکن خدارا طالب علموں تک انٹرنیٹ یا مزید کسی ذریعہ
میر صاحب کی دوسری تصویر سے میگزین والی مطبوعہ ”تحقیق“ نہ پہنچانا ،یہی گزارش ہے،البتہ ؔ
کی داد دینا ہوگی ،وہ تھان بھر کپڑے کا ،کمر کے ِگرد ”پستولیہ“ باندھا کرتے ،اِ س تصویر میںِ ،خنجر
پیوست ”پستولیہ“ نمایاں ہے،
٭مشتاق احمدِ ،شمالی عالقہ جات میں گلگت اور بلتستان کی الئے،درہئ خنجراب کو”خنجراب
پاس“کے ُروپ میں دیکھا،
٭شفق رفیع نے جنید کا نہایت حیران کُن انٹرویو پڑھایا ،جسے پڑھ کر واقعی لطف آیا،جنید
داستان حیات ،نوجوان نسل کے مستقل کو مطمئن کرنے،فعال بنانے کے سلسلے میں مشع ِل ِ لدھیانوی کی
ہے،ہمت کرے انساں تو کیا ہو نھیں سکتا؟
ّ “،راہ
اب ہماری (خادم ملک صاب کی طرح) خواہش ہے ہمارا انٹرویو(ہللا مارا) جب کبھی ہو ،تو
شفق رفیع ،وجیہہ ناز سہروردی ،محمد ناصر ،اختر علی اختر وغیرہ میں سے کوئی ِرکارڈ کرے ،ارے
بیٹی! پچاس برس بچوں کا اُردو ادب ،تحقیق ،کتب ،تنقید لکھنا یا تدریس کا اہتمام کرنا،کیا سہل عمل
)،ہے؟؟؟ ہرگز نھیں! (ہنسنے کو دل نھیں چاہ رہا نرجس
٭”پیارا گھر“ میں ذوالفقار بخاری بہترین تحریر الئے ،سیدہ ناہیدنرگس نے مزے دار پکوان
سجائے ،مدیرہ نے(بروقت عطیہ کی کچوریوں بھری رکابی میں آلو کی ترکاری سجاکر) ذہانت کا ثبوت
دیا،کیونکہ ،ناہید نے تو پوری پراٹھا ،چنوں کے ساتھ ِکھالنے تھے ،لیکن پروفیسر صاحبہ کے مفروری
حافظے کی الج ،ایک مرتبہ پھر،
پروفیسر محافظ مدیرہ صاحبہ“ کی ذہانت نے رکھ لی ،جزاک ہللا ،حکیم راحت نسیم ”گل منڈی“ بھری ’
.....پلیٹ سجادینے پر تعریف کے الئق قرار پائے ،واہ وا
٭”ناقاب ِل فراموش“ میں محترمہ رعنا فاروقی نے ،جالل الدین جیسے خود غرض کردار کی
زندگی سے قریب ترین کہانی ،مسز احمد کے قلم سے پڑھوا دی ،صوفیہ کا مجبور اور عمران کا دبّو
لڑکے کے کردار واقعی ہمارے ارد گرد موجود ہیں ،کتنی ہی لڑکیاں جالل الدین اور عمران جیسے
بطور ما ِل غنیم لگتی ہیں ،اِسی لئے تو،ہمارے معاشرے کی بے بس،بے کس ِ بزدل ،سفاکوں کے ہاتھ،
خصتی د ُختر ،کہیں کونے ،کُھدرے میں منھ ُچھپا رو لیتا ہے ،کہ نجانے یہ
ِ ت ُر
لڑکی کا باپ بھی ،بوق ِ
”جوا“ کامیا ب ہوکر فتح مند کرے ،یا؟؟؟ .......رعنا صاحبہ نے اِس کہانی کا انتخاب اور نوک پلک
سنوارنے کا اہتمام کرکے ماؤں اورباپوں کو لہو اشک کیا ،کتنی تلخ ہے یہ د ُنیا؟ کتنی خود غرض؟ کتنی
مکار ،کتنی عیّار؟ اِس امتحان گاہ کو سجانے کا مقصد؟؟
٭ ہللا ِپیر کرکے ”آپ کا صفحہ“ چھا ہی گیا،ڈاکٹرحمزہ کے پہلے تبصرے میں موجودہ معالجین
کے طریقہئ عالج کاری طنز موجود ہے ،ہم تو خود کہتے ہیں ،کہ ،آج کل کے ڈاکٹر مریض کو
دیکھتے ہی چیختے ہیں”:السالم علیکم.....آئیے،لیٹئے ،آپ کا اوپریشن ہوگا!“ ،میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ کے
میٹرز بعد میں چالدئے جاتے ہیں ،عبد الجبار رومی کے”ماڈل کے ہ َ َوس ناک تعریفی چیتھڑے“ کو،آپ
ت مدینہ‘‘
نے جس کرب کے ساتھ پڑھا ہوگا،آپ کا جواب اِس کا ثبوت ہے،توبہ استغفر ہللا!”ریاس ِ
والے،بعد ازاسالم بھی ،عورت ذات کا احترام و تقدس نھیں جانتے؟؟،کمال است! استغفر ہللا ،استغفر
ہللا....نرجس مختار کم لکھتی ہیں ،لیکن جب لکھتی ہیں ،انتہائی میچورڈ ،عملی الفاظ کو گویابکھیر دیتی
ہیں ،ڈاکٹر اطہر رانا نے سرائیکی نُما پنجابی کی مار دی ،خاموش سمجھتے رہےِ ،شلّی ِملّی ِ
(چلی ِملی
کے وزن پر ،جکہ پیار کا نام:شری ُمرلی) کی ”خاموش قاری“ کی اطالع نے پُورا وجود جھنجھنا دیا،
کہٰ ،الہی ”بے زبانی ایسی ،تو زباں طرازی کیا ہوگی!“،قاضی محبوب صاحب نے آخری ِچٹھی کا
اعزاز پا یا،جبکہ ،محمد سلیم راجا صاحب نے اُردوئے دلّی اور پنجابی زبانوں کے درمیاں رقصاں
مصطفے اور شاہد فاروق نے برقی ٰ زَ بان برتتے ہوئے ”صدارتی نشست“ سنبھالی اور سلیم شیخ ،غالم
ِچٹّھیاں لکھ دیں ،یُوں ،سن ڈے میگزین کے مطالعہئ ُروح افزاء کا فرسٹ راؤنڈ تمام ہوا” ،قارئین کرام“
کو ہر بار درست پتے اور ای میل سے آگاہی کے لئے جھنجھوڑ جگانے کی ناکام سعی کی جارہی ہے،
اسی متن کو چھوٹے ،واضح فاؤنٹ میں ،سب سے نیچے والی پٹّی میں سفید شایع کرکے اس قیمتی جگہ
کی تقریبا ً23تا 26سطور میں خادم ملک سمیت ،ایک آدھ مزید تبصرہ نمٹ جاتا،
!!آن ،بان،پھول ،پَتّی ،پان.....سب کا ہللا ہر،ہر،ہر لحاظ سے نگہ (نگہہ) بان،آمین