You are on page 1of 2

‫شخصیتوں پر رد کا ردعمل‬

‫———————————‬
‫سماج کے ذہن ودماغ میں اس وبا کے گھر کرنے کی اہم وجہ “غلو فی الشخصیہ”‬
‫ہے‪،‬جس نے انسان کو فرشتے کے درجے میں رکھ دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح‬
‫فرشتوں سے غلطیوں کا امکان سرے سے معدوم ہے بعینہ عوام اپنے علماء واکابرین‬
‫کو اسی “نظریے”سے دیکھنے لگی۔اور اس نظریے کا خالق علماء کا وہ ظاہری ملمع‬
‫ساز کردار ہے جس سے ان پڑھ تو ان پڑھ‪،‬پڑھا لکھا طبقہ بھی محفوظ نہیں رہا۔‬
‫مجھے ایک موالنا صاحب کا وہ جملہ یاد ہے جو انہوں نے قاری طیب صاحب رحمہ‬
‫ہللا(دیوبند سے منسلک تھے)کے دفاع میں اداکیے۔اور کہا”‪:‬کیا وہ انگوٹھا ٹیک تھے”۔‬
‫‪:‬اس ردعمل کا سرا قاری طیب صاحب کی مشہور نعت‬
‫نبی اکرم شفیع اعظم‪،‬دکھے دلوں کا سالم لے لو‬
‫تمام دنیا کے ہم ستائے‪،‬کھڑے ہوئے ہیں سالم لے لو‬
‫شکستہ کشتی ہے تیز دھارا‬
‫نظر سے روپوش ہے کنارا‬
‫نہیں کوئی ناخدا ہمارا‬
‫خبر تو عالی مقام لے لو‬
‫یہ کیسی منزل پہ آگئے ہیں‬
‫نہ اپنا کوئی نہ ہم کسی کے‬
‫تم اپنے دامن میں آج آقا‬
‫تمام اپنے غالم لے لو‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫سے جا ملتا ہے۔‬
‫مذکورہ نعت جو کہ ناقص ذکر کی گئی ہے کے جملہ کلمات دراصل مناجات کی وہ‬
‫کیفیت وشکل ہے جس کے ذریعے ایک پریشان اور مصیبت زدہ شخص ہللا کے روبرو‬
‫گریہ وزاری کرتا نظر آتا ہے۔اور قاری صاحب نے اسی ہیئت وکیفیت کے ساتھ امت‬
‫کی بدحالی کو نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے حضور میں رکھا ہے اور ان سے مدد‬
‫طلب کی جسے عقیدے کی اصطالح میں “شرک فی الدعاء”یا “یا شرک فی‬
‫االستغاثہ”کہیں گے۔‬
‫‪:‬دعاء اور استغاثہ کی تین صورت ہوسکتی ہے‬
‫دعاء اور استغاثے میں زندے کا وسیلہ اختیار کرنا تو یہ جائز ہے‪،‬جیسا کہ صحابہ ‪۱-‬‬
‫کرام آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کرتے تھے۔اور آپ کی وفات کے بعد‬
‫صحابہ کرام نے آپ صلی ہللا علیہ کے چچا عباس رضی ہللا عنہ سے دعاء کرنے کی‬
‫درخواست کی۔‬
‫دعاء اور استغاثے میں مردے کا وسیلہ اختیار کرنا تو یہ ناجائز ہے اور شرک اصغر ‪۲-‬‬
‫میں شمار ہوتا ہے‪،‬جیسا کہ امت کا ایک بڑا پڑھا لکھا طبقہ اپنی دعاء کی قبولیت میں‬
‫نبیوں اور ولیوں کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے‪”:‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے صدقے اور طفیل میں میری اس دعاء کو قبول فرما”۔‬
‫دعاء اور استغاثے میں کسی مردے کا وسیلہ اختیار نہ کیا جائے‪،‬بلکہ بطور وسیلہ ‪۳-‬‬
‫جنہیں پکارتے ہیں بعینہ اسی شخصیت کے سامنے اپنی ضرورت رکھی جائے‪،‬اور براہ‬
‫راست اس سے مدد طلب کی جائے‪،‬جیسے‪:‬غوث المدد کہنا‪،‬نبی المدد کہنا یا اسی جیسے‬
‫کلمات ادا کرنا۔اور یہ جملہ کلمات شرک اکبر ہے اور جہنم میں دخول کا موجب ہے۔‬
‫قاری طیب صاحب کی مکمل نعت دعاء اور استغاثے کی آخری صورت اور کیفیت‬
‫ہے‪،‬اور اس صورت کے جنم لینے کی وجہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت اور‬
‫ان کی عظمت ومرتبت میں غلو کرنا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ قاری صاحب اور ان جیسے‬
‫دوسرے صاحب منثور ومنظوم نے اپنی دعاء اور استغاثے میں ہللا تعالی کی ذات کو‬
‫سامنے نہ رکھ کر نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے وہ سب کچھ طلب کیا جو ہللا جل‬
‫شانہ کے لیے خاص ہے۔‬
‫اس طرح وہ لوگ دعاء اور استغاثے کو جو کہ خالص عبادت ہے نبیوں اور ولیوں سے‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫غلو فی الشخصیہ” کا یہی وہ نظریہ ہے کہ ماضی وحاضر میں اس کے حاملین اپنی “‬
‫شخصیتوں کا دفاع کرتے دکھائے دیتے ہیں‪،‬انہی شخصیات میں سے بہت سے اکابرین‬
‫دیوبند اور جماعت اسالمی کے بانی سید ابواالعلی مودودی ہیں‪،‬جن کے سہو اور خطاء‬
‫کا دفاع ان کے عقیدت مند اس زور سے کرتے ہیں کہ گویا وہ غلطیوں سے پاک ہوں‬
‫اور وحی الہی کا نزول انہیں پر ہوا ہو۔‬
‫ان میں سے ایک طبقہ کے مقاالت شرکیات سے بھرے ہیں‪،‬جبکہ دوسرا طبقہ‬
‫تکفیریت‪،‬خارجیت اور طعن فی الصحابہ کا مرتکب ہے۔والعیاذ باہلل‬

You might also like