Professional Documents
Culture Documents
جبر و اختیار
جبر و اختیار
” جبر واختیار“ كا مسئلہ ایك طولنی بحث كا حامل ھے چند صفحات میییں اس كییو بیییان نھیییں كیییا جییا سییكتا ۔ اور چییونكہ مسییئلہ ”جییبر“ ایییك
سیاسی حربہ ھے یہ صرف غیر مذھبی حكاما نے اپنے افعال واعمال كو صحیح كرنے كا ایك ذریعہ نكال ھے ،ان كا مقصد صییرف اسییلما كییے
یہ موضوع بہت سے شعبے اور مختلف پھلو ركھتا ھے اسی وجہ سے علم كلما كے اھم مسائل میں شیمار ھوتیا ھیے اور عقائید كیے بیاب
میں اھم باب ھے اور دینی مسائل كا ایك مشكل مسئلہ ھے۔
مسئلہ ”جبر“ یااس كے مثل دوسرے مسائل جن پر بعض مسلمانوں كا عقیدہ ھے ان كی بنیاد یہ ھے كہ انسییان كییے افعییال واعمییال صییرف
اس كے ارادہ و اختیار سے انجاما نھیں پاتے بلكہ وہ خداوند عالم كے ارادہ اور اس كے حكم سے انجاما پاتے ھیں اور ان كے انجاما دینے میں
انسان كا كوئی كردار نھیں ھوتا ،اس نظریہ كو ”جبر“ كھا جاتا ھے جس كے نتیجہ میں انسان كو مجبور ماننا پڑتا ھے ،چاھے وہ اطاعت ھییو
یا معصیت یعنی ان كے انجاما پر مجبور ھوتا ھے چاھے ان كا ارادہ كرے یا نہ كرے۔
چنانچہ جبر كے قائل لوگوں نے اپنے گمان كے مطابق قرآن كریم كی بعض وہ آیات جن میں اس بات كا ایك ھلكییا سییا اشییارہ پایییا جاتییا ھییے،
” )اے رسول( تم كہہ دو كہ ھم پر ھرگز كوئی مصیبت نھیں پڑسكتی مگر وھی جو خدا نے )ھماری تقدیر میں( لكھ دیا ھے۔“
ل ہہذا ان آیات كے پیش نظر ان لوگوں نے یہ گمان كرلیا كہ ان آیات كے ذیل میں انسان كے افعال واعمال بھی آتے ھیں۔
جبكہ بعض مسلمانوں كا عقیدہ یہ ھے )كیونكہ وہ مذكورہ نظریہ كو باطل جانتے ھیں( كہ انسان او ر خداوندعالم میں سوائے خلق اول كییے
كوئی رابطہ نھیں ھے ،یعنی خداوندعالم نے ان كو خلق كرنے كے بعد مكمل آزاد كردیا ھے اور تماما چیزوں كو انھیں پر چھوڑ دیا ھے ،ان كییا
خدا سے كوئی ربط نھیں ھے ،ان كا ماننا یہ ھے كہ علت محدثہ معلول كی بقا كے لئے كافی ھے ،اس حیثیت سے كہ معلول اپنییے وجییود
كے بعد اپنی علت سے بے نیاز ھوجاتا ھے كیونكہ وہ فقط پھلی علت حدوث كا محتاج ھوتا ھییے ،چنییانچہ علمییاء علییم كلما اس نظریییہ كییو”
تفویض“ كہتے ھیں یعنی خداوندعالم نے تماما كاموں كو انسان پر چھوڑ دیا ھے اور اب اس سے كوئی مطلب نھیں۔
جبكہ حقیقت میں صحیح نظریہ ان دونوں نظریات كا درمیانی راستہ ھے ،اس سلسلہ میں حضرت اماما صادق علیہ السلما كا بیان بہترین او
)نہ جبر اور نہ تفویض بلكہ دونوں كا درمیانی راستہ صحیح ھے(
ملحظہ فرمائیں:
ن<
ریی ن
س ر ن ایل ن
خا ر م ن
ن ر
ونن ن ولننت ك
ك ی ك ن
مكل ن
ع ن حبنطن ن
ن ن ت لنین ی ن ان ی
شنریك ن >لنرئ ی
”اگر )كھیں( شرك كیا تو یقین اا تمھارے سارے اعمال اكارت ھوجائیں گے اور ضرور تم گھاٹے میں آجاؤ گے“
مكلو ن
ن< ع ن ما ن
كاكنوا ین ی ت ارل ن ن
سیر ینئا ر
مكلوا ال ن
ع ر
ن ن جنزی ال ن ر
ذی ن > ن
فل نكی ی
” اور برائی كرنے والوں كو اتنی ھی سزا دی جائے گی جیسے وہ اعمال كرتے رھے ھیں“
و ن
ن< مكل ی
ع ن
وا ین ی ما ن
كاكن ی م بر ن وانیر ك
جكلكہ ی م ن
ھ ی واٴنیی ر
دیی ر م ن م اٴنیل ر
سننكتكہ ی علنییرہ ی
شنہكد ن
م تن ی
و ن
> ین ی
” جس دن ان كے خلف ان كی زبانیں اور ان كے ھاتھ اور پیر ان كی كارستانیوں كی گواھی دیں گے“
و ن
ن< مكل ی
ع ن
م تن ی
كینكت ی
ما ك خیل ر
د بر ن عنذا ن
ب ایل ك وكذیوكقیوا ن
> ن
” اور جیسی جیسی تمھاری كرتوتیں تھیں )ان كے بدلے( اب ھمیشہ عذاب كے مزے چكھو“
و ن
ن< سكب ی
ك ر
م تن ی
كینكت ی
ما ك ن كذیوكق ی
وا ن میی ن ل رلل ن
ظالر ر وقریی ن
> ن
” اور ظالموں سے كھا جائے گا كہ تم دنیا میں جو كچھ كرتے تھے اب اس كے مزے چكھو۔“
ة<
م فریتنن ةَ
صییبنكہ ی ررہ ان ی
ن كت ر ن اٴن ر
م ر ع ی و ن
ن ن خالركف ی
ن كی ن حنذرر ال ن ر
ذیی ن > ن
فیلین ی
” جو لوگ اس كے حكم كی مخالفت كرتے ان كو اس بات سے ڈرتے رہنا چاہئے كہ )مبادا( ان پر كوئی مصیبت آپڑے“
عییرر<
س ر عنذا ر
ب ال ن ن ن ذیقكہ ر
م ی رننا كن ر ن اٴن ی
م ر ع ی
م ن
مینكہ ی ز ی
غ ر ن ین ر
م ی
و ن
> ن
” اور جس نے ھمارے حكم سے انحراف كیا اسے ھم )قیامت میں( جہنم كے عذاب كا مزا چھكائیں گے“
كیونكہ اگر خداوند عالم اپنے بندوں كے افعال كا خالق ھو اور پھر ان كاموں پر ان كو عذاب میں بھی مبتل كرے تو یہ محال ھے كیونكہ یییہ تییو
كھلم كھل ظلم ھے) ،كہ افعال كو خود انجاما دے اور سزا بندوں كو دے( اور خداوند عالم ھر ظلم سے پاك و پاكیزہ ھے:
د< م لریل ن
عربیی ر ك برظن ل
لی م مانربب ن
و ن
> ن
”اور تمھارا پروردگا ر بندوں پر )كبھی( ظلم كرنے وال نھیں ھے“
د< م لریل ن
عربیی ر ن ال لل ینہ لنییسْ برظن ل
لی م وا ن ن
> ن
” خدا تو كبھی بندوں پر ظلم كرنے وال نھیں“
د< م لریل ن
عربیی ر ما اٴنننابرظن ل
لی م و ن
> ن
”اور میں اپنے بندوں پر )ذرہ برابر بھی( ظلم كرنے وال نھیں ھوں“
ظیلماا لریل ن
عالن ر ل
ن<
میی ن ما الل یكہ كی ر
رییكد ك و ن
> ن
”اور خدا سارے جھان كے لوگوں )مینسے كسی( پر ظلم كرنا نھیں چاہتا“
شییئاا< م الننیا ن
س ن ن اللیلہ ل
ل ین ی
ظرل ك >ار ن
ك ناحَداا<
م نربب ن
ظرل ك و ل
ل ین ی > ن
”اور تیرا پروردگار كسی پر )ذرہ برابر( ظلم نہ كرے گا“
لیكن بعض علماء علم كلما نے خداوندعالم كی طرف ظلم كی نسبت كو صحیح مانا ھے ،چنانچہ ان كے نظریہ كا خلصہ یہ ھے:
” خداوندعالم كے لئے ظلم قبیح نھیں ھے كیونكہ وہ ظلم قبیح ھے جس كو عقل مكروہ جانے ،یعنی وہ ظلم قبیح ھیے جیو دوسییرے پییر كیییا
جائے لیكن اگر اپنے پر ظلم كیا جائے چاھے وہ اپنے بدن پر ھو یا اپنے مال اور اپنی عزت پر ،كیونكہ انسان اپنے مال میں تصییرف كرنییے میییں
آزاد ھے اور بغیر كسی قید وشرط كے تصرف كرسكتا ھے اور اس كا یہ تصرف كرنا قبیح نھیں ھے۔
اسی طرح خداوند عالم كو بھی اپنی مخلوقات میں تصرف كرنے كامكمل حق ھییے كیییونكہ وھییی ان كییا خییالق اور مالییك ھییے اور چییونكہ اس
كائنات میں جو كچھ بھی ھے وہ سب ا كی ملكیت ھے اور اس كی قدرت وسلطنت كے آگے خاضع ھیییں ،لہہییذا وہ جییس طییرح چییاھے ان
میں تصرف كرسكتا ھے ،پس جس كو چاھے عذاب كرے چاھے وہ مومن ھی كیوں نہ ھو ،اور جس كییو چییاھے اپنییی نعمتییوں سییے سییرفراز
كرے چاھے وہ كافر ھی كیوں نہ ھو ،كیونكہ تماما انسان اس كی ملكیت ھیں:
ساٴنكل ی
و ن
ن< م كی ی
وكہ ی
ل ن ما ینیف ن
ع ك ع ن ساٴن ك
ل ن و ل
ل كی ی > ن
” جو كچھ وہ كرتا ھے اس كی پوچھ گچھ نھیں ھو سكتی )ھاں( اور لوگوں سے باز پرس ھوگی۔“
ل ہہذا انسان كو یہ حق نھیں ھے كہ خدا كی عظمت كے سامنے اپنی قابلیت دھائے اور كھے كہ خداوندعالم كا یییہ فعییل حسیین ھییے اور یییہ
فعل قبیح۔
ھرانسان فطری طور پر اس بات كو سمجھتا ھے كہ وہ بہت سے كاموں پر قادر ھے اور وہ جن كاموں كییا ارادہ كییرے ان كییو انجییاما دے سییكتا
ھے اور جن كاموں كو انجاما نہ دینا چاھے ان كو چھوڑ سكتا ھے اور ھمارے لحاظ سے كوئی بھی ایسا انسان نھیں ھوگا جو اس بییات میییں
شك كرے ،جو اس بات كی بہترین دلیل ھے كہ انسان مكمل طور پر آزاد ھے۔
اسی طرح ھر انسان یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا ھے كہ تماما صاحبان عقل اس بات پر متفق ھیں كہ جو شخص اچھے كاما كرتییا ھییے
اس كی مدح وتعریف كرتے ھیں اور جو شخص برے كاما كرتا ھے اس كی مذمت كرتے ھیں ،اور یہ بھی اس بات كی بہییترین دلیییل ھییے كییہ
انسان اپنے افعال میں مكمل آزاد ھے اور )اگر اختیار نہ ھو( تو صاحبان عقل كا مدح ومذمت كرنا صحیح نہ ھوگا۔
اسی طرح انسان فطری طور پر اس بات كا بھی احَساس كرتا ھے كہ انسان كے كسی بلندی سے سیڑھی كے ذریعہ نیچے
اترنے اور بلندی سے زمین كی طرف كودنے میں فرق ھے كیونكہ انسان پھلی صورت پر قادر ھے اور دوسری صورت میں
مجبور۔
اسی طرح عقل سلیم كے نزدیك یہ بات بھی مسلم ھییے اور كسییی كیو بھییی اس مییں كیوئی شییك نھیییں ھییے كیہ انسییان میییں ان طیاقت
وتوانائی كا خلق كرنے وال ان كو ایجاد كرنے كے بعد ان سے جدا نھیں ھوا ھے ،بلكہ ان چیزوں كا باقی رہنییا ھییر لمحییہ اس میی ٴوثر كییا محتییاج
ھے ،كیونكہ ان اشیاء كا خالق كسی معمار كی طرح نھینھے كہ مكان بننے كے بعد مكان كو معمار كی ضیرورت نھیییں ھیوتی ،بلكیہ عمیارت
اپنی جگہ پرباقی رہتی ھے چاھے اس كابنانے وال معمار مرھی كیوں نہ ھوجائے ،اسییی طییرح كتییاب جییو اپنییے لكھییے جییانے مینكییاتب كییی
محتاج ھے ،بلكہ اس كائنات اور جوكچھ اس میں موجود ھے؛ كا خالق روشنی كے لئے بجلی كی طرح ھے كییہ جییب تییك بجلییی رہییتی ھییے
روشنی باقی رہتی ھے ،اور روشنی اپنی بقاء میں ھر لمحہ بجلی كی محتاج رہتی ھے اوراگر بجلی كا تار ایك لمحہ كے لئے ہٹالیاجائے تییو
روشنی فور اا ختم ھوجاتی ھے ،بالكل اسی طرح اس كائنات كی تماما چیزیں اپنے وجود اور بقاء میں ھر لمحہ اپنے مبدع اور مصییدر )خییالق(
گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ھوجاتی ھے كہ انسان كے اعمال و افعال جبر و تفویض كے درمیان ھوتے ھیں ،اور ان كے لئیے دونیوں مییں
حصہ ھوتا ھے ،ل ہہذا فعل یا ترك كو انجاما دینے كی طاقت اگرچہ انسان كے اختیار سے ھی ھوتی ھے لیكن یہ قدرت خدا كا عطیہ ھے ،اور
انسان كا فعل ایك لحاظ سے خود انسان كی طرف منسوب ھوتا ھے ،اور ایك لحاظ سے خدا كی طرف منسوب ھوتا ھے۔
قرآن كریم كی وہ آیات جن سے ”جبریوں“ نے استدلل كیا ھے وہ اس بات كی طرف اشارہ كرتی ھیں كہ انسییان كییا اختیییار كسییی كییاما كییو
انجاما دینے میں خدا كی قدرت كے نافذ ھونے میں مانع نھیں بن سكتا ،اس كا مطلب یییہ نھیییں ھییے كییہ انسییان خییدا كییی ذات اور اس كییی
ی اماما خوئی رحمةا علیہ نے اپنے درس مییں ”المنزلیة بیین المنزلیتین“ كیی تفسییر كرتیے
اس سلسلہ میں ھمارے استاد آیت ا العظم ہ
ھوئے درج ذیل بہترین مثال پیش كی:
شل ھوجائے كہ وہ اس كو نہ چل سكے ،اور كوئی ڈاكٹر اس كے كوئی ایسا آلہ لگائے جییس كییی وجییہ
”اگر كسی انسان كا ھاتھ اس طرح ش
سے اس كا ھاتھ حركت كرنے لگے ،اس طرح كہ جب وہ آلہ لگا ھوا ھو تو انسان اپنے ھاتھ كو حركت دے سكے ،تو جب تك وہ آلییہ لگییا ھییوا
ھے اس كا ھاتھ كاما كرتا ھے اور جب اس كو الگ كردیا جائے تو اس كا ھاتھ اپنی پھلی حالت پر پلٹ جائے ،تو جب اس كے وہ آلییہ لگییا ھییوا
ھے اور وہ اپنے ھاتھ كو حركت دینے پر قادر ھے اور اپنے معمولی كاموں كو انجاما دے رھا ھے تو اس كی یہ حركت دونوں چیزوں كی سبب
ھوگی ایك لحاظ سے صاحب دست كی طرف مستند ھے كیونكہ وہ اپنا ھاتھ خودچل رھا ھے ،دوسری طرف وہ حركییت اس آلییہ كییی طییرف
بھی منسوب ھے كیونكہ وہ اس آلہ كے ذریعہ اپنا ھاتھ چلنے پر قادر ھے۔“
ھے ،اور جو باتیں جبر كو ثابت كرنے كے لئے لوگوں نے بیان كی ھیں وہ ھماری بیان كردہ محكم نصوص و دلئل كے سامنے بییے كییار ھیییں۔
سا نہا<
د ن
ن ن
م ی خیا ن
ب ن و ن
قید ن كانہا ن
ن نز ن
م ی قید اٴنیفلن ن
ح ن وانہا ن
وتنیق ن
ونرنہا ن
ج ی فاٴنیلنہ ن
منہا كف ك والہا ن
س ن
ما ن
و ن وننیف م
سْ ن > ن
”) اور قسم ھے( جان كی جس نے اسے درست كیا پھر اس كی بدكاری اور پرھیزگاری كو اسے سمجھادیا) ،قسم ھے( جس نے اس جیان
كو)گناہ سے( پاك ركھا وہ تو كامیاب ھوا ،اور جس نے گناہ كركے اسے دبادیا ،وہ نامراد رھا“