You are on page 1of 5

‫مانکیالہ اسٹوپا‬

‫حبیب گوہر‬
‫عالی دماغ چانکیا نے چندرا کو تلوار تھمائی تو اس کی تراش دیکھنے سے‬
‫تعلق رکھتی تھی۔ پوتا دادا سے دو قدم آگے تھا۔ کلنگ میں اتنا خون بہایا کہ دل‬
‫خونریزی سے ہمیشہ کے لیے بھر گیا۔ بادشاہ بھکشو بن گیا۔ پاٹلی پتر سے‬
‫قندھار تک بدھا کے تبرکات دفن کرائے اور ان پر عالی شان اسٹوپے تعمیر‬
‫کرائے۔ کشانوں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔ جس کی جھلکیاں کابل سے‬
‫کشمیر تک دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہی میں سے ایک مانکیالہ اسٹوپا ہے۔‬
‫وقت کے ساتھ ساتھ حقیقت خرافات میں کھونے لگی۔ عقیدت آشنا ذہن عظیم‬
‫مہاتما کے لیے افسانے تراش کر شانتی محسوس کرنے لگا۔ انہی میں سے‬
‫ایک مہاتما بدھ کا مانکیالہ میں شیر کے سات بلکتے بالکوں کو اپنے جسم کے‬
‫ٹکڑے پیش کرنا ہے۔‬
‫جو کام مہاتما کرسکتا ہے وہ راجہ رسالو کیوں نہیں کر سکتا؟ جب بڑھیا نے‬
‫بتایا کہ وہ ہنس اس لیے رہی ہے کہ آج بیٹے کی شادی ہے اور رو اس لیے‬
‫رہی ہے کہ آج ظالم راکھشس اس کے بیٹے کو لے جائیں گے تو رسالو‬
‫قربانی کے لیے خود پہنچ جاتا ہے اورظالم دیوؤں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے‬
‫عالقے کو نجات دیتا ہے۔‬

‫مانکیالہ میں بیماریوں اور مصیبتوں سے نجات کا سلسلہ صدیوں جاری رہا۔‬
‫فاہیان تیسری صدی میں چین سے ‘چو چا چلو’ یعنی مانکیالہ آیا تو اس نے‬
‫دیکھا کہ نجات کے طالبوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ تین سو سال بعد ایک اور‬
‫سرشار بھکشو ہیون تسانگ دیدار سے کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لیے یہاں پہنچا‬
‫اور مٹی کے دیوزاد کی معجزانہ کشش میں کھو گیا۔ اس کی مشتاق آنکھوں‬
‫نے دیکھا کہ گنبد سے نور کا دھارا پھوٹ رہا ہے۔ اسے مانکیالہ کا موسم سدا‬
‫بہار لگا۔ جہاں کئی چھوٹے اسٹوپے‪ ،‬سینکڑوں زیارتیں‪ ،‬زائرین کا ہجوم اور‬
‫بھکشوؤں کی کہکشاں تھی۔‬
‫آندھی ضروری نہیں کالی ہو۔ گندھارا کو سفید آندھی نے آ لیا۔ وحشی ہنوں نے‬
‫تہذیب کی ہر عالمت راکھ کر دی۔ رہی سہی کسر بعد کے حملہ آوروں نے‬
‫نکال دی۔ مغلوں کی حالت قدرے بہتر تھی لیکن ان کی کسی تزک‪ ،‬آئین اور‬
‫نامے میں کسی ٹیکسال یا منکیالہ کا ذکر نہیں ملتا۔‬
‫‪ 1808‬میں انگریزوں نے افغانستان کے لیے اپنا پہال سفارت کار کابل روانہ‬
‫کیا۔ سفر سے واپسی پر الفنسٹن نے اپنے قدموں سے اس کی مختلف پیمائشیں‬
‫کیں۔ مضبوط سلوں‪ ،‬آرائشی پتھروں‪ ،‬دیواری ستونوں‪ ،‬کنگروں اور منقش‬
‫پرنالوں تک کی جزئیات لکھ ڈالیں۔ عمارت کا خاکہ تیار کروایا۔ لیکن ہم‬
‫سفروں نے جب اسے یونانی شاہکار قرار دیا تو عمارت کا سارا حسن گہنا گیا۔‬
‫الفنسٹن گویا ہوا کہ اس سے بہتر ڈھانچہ تو یورپ کے کسی دور افتادہ عالقے‬
‫کا اناڑی مستری کھڑا کر سکتا ہے۔ مانکیالوی سمجھاتے ہی رہ گئے کہ یہ‬
‫مستریوں کا نہیں جنات کا کام ہے۔‬
‫رنجیت سنگھ کی نیم وا آنکھ نے اطالوی فوجی ‘ونچورا’ میں ہزار گن تالش‬
‫کر لیے۔ اس یہودی کو الہور کا قاضی‪ ،‬گورنر اور فوجِ خاص کا جنرل بنا دیا۔‬
‫ونچورا سپہ گر آثار شناس نکال۔ گنبد کی تہہ میں تہتر فٹ تک اتر گیا اور‬
‫سونے‪ ،‬چاندی اور تانبے کے سلنڈروں اور ڈبیوں میں بند زون دیوتا کی‬
‫انگوٹھیاں‪ ،‬کشانوں کے سکے اور امویوں کی اشرفیاں نکال الیا۔ تبرکات کے‬
‫طالئی صندوقچوں میں یاقوت و امبر کے نگینے بھی جھلمال رہے تھے۔ اس‬
‫کے ہاتھ میں ایک لوح تھی جس پر خروستی رسم الخط میں لکھا تھا۔۔۔ سچا‬
‫دھرما پاداسا!‬
‫رنجیت سنگھ کے ایک انجینئر جنرل کورٹ کو اٹھارہ سو چونتیس میں پتھر‬
‫میں بند تین تکونی تابوت مال جس میں کشان عہد کے سونے‪ ،‬چاندی اور‬
‫کانسی کے سکے تھے۔ انہوں نے مانکیالہ کے چودہ ٹیلوں کی کھدائی کی۔‬
‫ایک ٹیلے سے ملنے والی تختی پر دو مرتبہ لکھا تھا ‘ہوتا مرتا’ (جسم دان‬
‫کیا)۔‬
‫کورٹ کا خیال تھا کہ مانکیالہ ہی قدیم ٹیکسال ہے اور یہ گنبد زیادہ سے زیادہ‬
‫کسی قدیم بادشاہ کی یادگار یا کسی فاتح کی نشانی ہے۔ عالقے کے مسلمان‬
‫اسے راجہ مان اور افغان جنگ کی یادگار بتاتے ہیں۔ جب کہ ہندو تبرک کے‬
‫طور پر اپنے بالکوں کے بالوں کی پہلی کٹائی یہاں کراتے ہیں۔‬
‫جنرل کننگھم نے ‪ 1863 ،1862‬اور ‪ 1878‬میں تین مرتبہ چھ مربع میل پر‬
‫پھیلی باقیات کو چھانا۔ ان کے بقول اسٹوپے کے دیواری ستون اور مسالہ‬
‫کارنتھس‪ ،‬یونان سے الیا گیا۔ اسے ‪ 73‬فٹ کی گہرائی سے ایک کانسی کی‬
‫ڈبیا ملی جس کے اندر طالئی ڈبیا میں کشان عہد کے پانچ کانسی کے سکے‬
‫تھے۔ انہیں اسٹوپے کا ایک سنگی ماڈل بھی مال۔ دیگر سنگی تحریروں سے‬
‫ظاہر ہوتا ہے کہ کنشک کے اٹھارویں سال جنرل اللہ نے بدھا کی باقیات پر‬
‫کئی عمارتیں بنوائیں اور ایک ماہر تعمیر ‘بنٹا’ یا ‘بریٹا’ نے اس اسٹوپا کی‬
‫مرمت کا کام کیا۔ آخری مرتبہ بحالی کا کام ‪ 1891‬میں ہوا۔‬
‫مانکیالہ اسٹوپا سے ملنے والے زیادہ تر سکے جیمز پرنسپ کو بھیجے گئے‬
‫جو نہ صرف ایک دانشور آثار شناس تھے بلکہ رائل ایشیاٹک جرنل کے بانی‬
‫ایڈیٹر بھی تھے۔ ایک مدت ان جرنلز میں مانکیالہ اسٹوپا کے سکے کھنکتے‬
‫رہے۔ ایک بحث کا خالصہ یہ ہے کہ مانکیالہ اسٹوپا کشان حکمرانوں کا‬
‫مقدس مقام تھا۔ بادشاہ زیارت کے وقت جو رقم دان کرتے اسے ان کی مرتبت‬
‫کے مطابق باوقار انداز میں رکھا جاتا۔ جیمز پرنسپ نے بعد میں یہ سکے اور‬
‫دیگر اشیاء برٹش میوزیم کے حوالے کر دیں۔‬
‫راولپنڈی گزئٹئیر ‪ 1893‬میں بغیر کسی حوالے کے لکھا ہے کہ راجہ مان نے‬
‫یہاں عظیم اسٹوپا تیار کروایا۔ گزئٹئیر میں ایبٹ اور کننگھم کے حوالے سے‬
‫بتایا گیا ہے کہ مانکیالہ سے پتھروں کی جس مہنگی عمارت کے آثار ملے ہیں‬
‫وہ ٹیکسال کے گورنر کی ہو سکتی ہے جو زیارت کے لیے یہاں آتا ہو گا۔‬
‫کننگھم کے بعد کسی کو مانکیالہ میں پڑاؤ کی ہمت نہیں ہوئی۔ ‪ 1968‬میں‬
‫سیف الرحمن ڈار نے بڑے اسٹوپا کی مانکیالہ کے دیگر آثاریاتی ٖٹیلوں کے‬
‫کمر ہمت باندھی۔ لیکن ہر طرف قبضہ ہو چکا تھا۔‬ ‫ساتھ تعلق جاننے کے لیے ِ‬
‫ہٹیاں کی ٹیکری قبرستان بن چکی تھی۔ بڑے اسٹوپے سے دو سو گز کے‬
‫فاصلے پر قدیم کنویں کی جگہ ایک ‘توپ واال پیر’ قابض تھا۔‬

‫گکھڑوں کے گھوڑے صدیوں اس توپ کے ِگرد َگرد اڑاتے رہے۔ یہیں سلطان‬
‫سارنگ خان کے سولہ بیٹوں کو سلیم شاہ سوری نے مار دیا۔ لیکن اس عمارت‬
‫کے بارے میں جاننے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ سلطان مقرب خان گکھڑ‬
‫کی فرمائش پر لکھی گئی ‘وجہ تسمیہ دیہات پوٹھوہار’ میں درج ہے کہ اس‬
‫دور آتش‬
‫عمارت کے حاالت کسی تاریخ میں درج نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ِ‬
‫پرستاں میں کسی ہندو راجہ کی ارتھی جالئی گئی تھی۔ یہ اسی کی یادگار ہے۔‬
‫قریبی گاؤں ساگری کے مورخ راجہ محمد عارف منہاس نے اپنے ایک‬
‫مضمون ‘توپ مانکیالہ’ میں ‘مہاری باشا’ کے حوالے سے لکھا ہے کہ‬
‫کنشک نے ‪ 142‬عیسوی میں آگی ساال نامی ایک یونانی معمار سے اسٹوپا کی‬
‫ابتدا کرائی اور یہ ‪ 144‬عیسوی میں ہوشنگ کے عہد میں مکمل ہوا۔‬
‫‘شاتواین’ قبیلہ کے راجہ ہل کی کتاب سپت ستی کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫کہ مانکیالہ اسٹوپا بدھ بھکشو اپا گپت کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا جو اشوکا کا‬
‫ت راست تھا اور اسی کے مشورے سے ‪ 243‬ق م میں پاٹلی پتر میں‬ ‫دس ِ‬
‫گروہی اختالف کے خاتمے کے لیے تیسری بدھ مجلس کا اہتمام کیا گیا تھا۔‬
‫جس سے واپسی پر وہ مانکیالہ کہ مقام پر چل بسا۔ اس کی ہڈیاں یہیں دفن کر‬
‫ان شان اسٹوپا بنوایا۔‬
‫دی گئیں۔ جن پر کنشک نے شای ِ‬

‫الفنسٹن کی کنگڈم آف کابل سے لے کر سیف الرحمن ڈار کی ایکسکیویشن آف‬


‫مانکیالہ تک کسی نے بھی اسٹوپے کے گنبد پر سات چھتریوں کے بارے میں‬
‫کچھ نہیں لکھا۔ نہ ہی بنیاد کے پتھروں پر منقوش کنول کے پھولوں کا ذکر کیا‬
‫ہے۔ بھکشو اور زائر چکر کاٹتے ہوئے جب سفید کنول دیکھتے ہوں گے تو‬
‫ان کے دل کے کنول ک ِھل جاتے ہوں گے۔ کنول تو اب بھی نقش ہیں۔ لیکن‬
‫انہیں دیکھنے کے لیے بھکشوؤں کی پرشوق نگاہیں ہم بے یقین لوگ کہاں‬
‫سے الئیں؟‬
‫مانکیالہ کے مقدر پر رشک آتا ہے کہ اس اسٹوپے کے باعث اس کا چرچا‬
‫صدیوں سے دنیا میں ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کتنے ایسے قصبے ہیں جہیں‬
‫دیکھ کر مہاتما بدھ‪ ،‬کپل وستا‪ ،‬اشوک‪ ،‬جولیاں‪ ،‬نالندہ اور گندھارا یاد آتے ہیں۔‬

You might also like