You are on page 1of 23

‫نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارک میں بھ ر پ ور ہیں‪ ‬‬

‫لیکن وہ نقات جو قابل توجہ ہیں اور جس کی وضاحت ض روری ہے وہ‬


‫‪.‬درجہ ذیل ہیں‬
‫تعمیر شخصیت ‪1:‬‬
‫فالح انسانیت ‪2:‬‬
‫اجتماعیت ‪3:‬‬
‫مساوات و اعتدال ‪4:‬‬
‫عدل و انصاف ‪5:‬‬
‫انسداد رشوت ‪6:‬‬
‫عورتوں کے حقوق ‪7:‬‬
‫تعلیم نسواں یا عورتوں کی تعلیم ‪8:‬‬
‫انسداد جرائم ‪9:‬‬
‫اقلیتوں سے سلوک ‪10:‬‬
‫معاشی نظام ‪11:‬‬
‫احتساب ‪12:‬‬
‫دہشت گردی ‪13:‬‬
‫انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ‪14:‬‬
‫تعمیر شخصیت ‪:‬‬
‫تعمیر شخصیت کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت‬
‫رکھتی ہے جدید دور میں ہر ایک ملک اپ نے ش ہریوں کی تعم یر میں‬
‫سرتوڑ کوشش وں میں مص روف ہے‪ ،‬کیونکہ باش عور اف راد ہی ای ک‬
‫کامیاب معاشرے کے ضامن ہوتے ہیں‪ ،‬جدید دور میں ہم دیکھتے ہیں‬
‫سوسائٹی کو کن تبدیلیوں اور اصالحات سے روشناس کرای ا تھ ا جن‬
‫کی وجہ سے‬
‫انہیں پیغمبر انقالب۔‬
‫اور مؤرخین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی میں‬
‫اتنی کم مدت میں اتنے مکمل انقالب کی اور کوئی مث ال پیش نہیں‬
‫کی جا سکتی۔‬
‫انسانی معاشرے میں اف راد کی اسی اہمیت ک ا ادراک ک رتے ہ وئے‬
‫نبی ﷺ نے سب سے پہلے اپ نی ت وجہ ک ا مرک ز‬
‫فرد ہی ک و بنای ا اور اپ نی تعلیم ات و عم ل کے ذریعے اتن ا کچھ م وا ِد‬
‫رہنمائی دنیا کے سامنے پیش فرما دیا کہ فرد کی تم ام حیثیتوں اور‬
‫صورتوں کے لئے کافی ہے‪ ،‬اور رہتی دنیا ت ک وہ ہ ر ہ ر ف رد کے ل ئے‬
‫رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہے گا‬
‫حضرت ﷺ کی تعلیمات انسان دوستی سکھاتی‬
‫ہیں‪ ،‬امن و سالمتی‪ ،‬محبت و اخ وت‪ ،‬بھ ائی چ ارہ و ب اہمی اح ترام‬
‫سکھائی ہیں۔ ان تعلیمات کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انسان ک و‬
‫خ ود اس کے اپ نے حق وق سے آگ اہ ک رتی اور دوسروں کے ساتھ‬
‫ساتھ اپنی ذات کی ترغیب دیتی ہیں۔‬
‫حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ سخت جدوجہ د ک ا‬
‫عملی نمونہ ہے۔ محنت شاقہ اور ڈسپلن ہی نے صحابہ کرام رض وان‬
‫ہللا عنہم کو برتر انسان بنایا اور رسول اک رم ﷺنے‬
‫ہماری محنت کی سمت اور سانچے کو بھی متعین کردیا ہے۔‬
‫غلط سمت میں دوڑنے واال یقین اًمنزل سے دور ہوجات ا ہے اور غلط‬
‫سانچے میں خ ود ک و ڈھ النے سے شخص یت تب اہ ہوج اتی ہے۔‬
‫شخص یت کی تعم یر محض خ واہش ‪،‬علم‪ ،‬غ وروفکر‪ ،‬اچھی نیت و‬
‫ارادے سے انجام نہیں پاتی بلکہ شخصیت معاون عناصر کوعمل کے‬
‫قالب میں ڈھالنے سے ممکن ہ وتی ہے۔ شخص یت کی تعم یر آرزؤں‬
‫‪.‬سے نہیں بلکہ آرزؤں کو حقیقت میں بدلنے سے ہوتی ہے‬
‫آپ ﷺ‬
‫نے افراد کی تربیت کے لئے جن باتوں کو سب سے زیادہ اہمیت دی‬
‫اور جن کو کردار کی پختگی کے ل ئے الزم ق رار دی ا ان ک و درجہ ذی ل‬
‫عنوانات میں تقسیم کیا جاتا ہے‬
‫علم ‪1:‬‬
‫اخالق ‪2:‬‬
‫اخوت و درگزر ‪3:‬‬
‫صداقت و امانتداری ‪4:‬‬
‫عفو و درگزر ‪5:‬‬
‫آپ ﷺ‬
‫نے اپنے صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم کی تربیت کا ایسا بلن د معیار‬
‫پیش فرمایا ہے کہ فہم و شعور رکھنے والوں کے لئے اس کی ط رف‬
‫‪.‬لپکنے اور اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‬
‫اسی بارے میں ارشاد ﷺ ہے‬
‫اصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتما هتديتم” ‪ :‬میرے صحابہ ستاروں کے“‬
‫مانند ہیں تم ان میں سے جس‬
‫‪.‬کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاجاو گے‬
‫) مشکوۃ‪ ،‬باب فی مناقب الصحابۃ‪ ،‬حدیث نمبر ‪(2018‬‬
‫فالح انسانیت‬ ‫نمبر ‪: 2‬‬
‫انسانیت کی فالح و بہبود پر آج کے دور کے لوگوں کی خاص نظر ہے‬
‫بہت سے ممال ک میں آج وہ اں کے باش ندے امن چین و سکون کی‬
‫زن دگی گ زار رہے ہیں‪ ،‬کیونکہ ان کے سربراہوں نے ان کی فالح و‬
‫بہب ود کے ل ئے ایس ے اق دامات ک ئے ہیں جن کی ب دولت وہ اپ نی‬
‫زن دگی ک و بھ ر پ ور ان داز سے گ زار رہے ہیں لیکن جہ اں یہ چین و‬
‫سکون ہے وہ اں ک ئی ایس ے خطے بھی ہیں جہ اں ک ا انس ان ای ک‬
‫وقت کی روٹی کے لئے ترس رہا ہے خ واہ وہ معاش رہ کتن ا ہی ام یر‬
‫کبیر اور ہللا تعالی کے دیئے ہوئے خزان وں سے م اال م ال ہ و مگ ر ان‬
‫‪.‬کے رعایا کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے‬
‫انس ان نے کوش ش ت و بہت کی ہے بہت سے ف ارمولہ اور پالیس ی‬
‫سازی سے کام لیا ہے لیکن وہ آج بھی ناک ام ہیں کیونکہ ان کی ان‬
‫سب ترکیب وں میں وہ عیب ہیں جن سے معاش رہ کبھی انس انی‬
‫فالح کی طرف نہیں جا پاتا ان کی سب چ الیں ناک ام ہیں کیونکہ ان‬
‫کے تعلیمات و پالیس ی میں وہ ش فافیت و اف ادیت نہیں ج و سیرت‬
‫نبوی ﷺ کا خاصہ ہیں‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫یہ حقیقت ہے کہ اگر افراد کی اصالح ہو جائے تو معاش رے کے تم ام‬
‫منفی پہلو تبدیلی کے عمل کو قبول کرنے پر راضی ہو ج اتے ہیں اور‬
‫معاشرے کی اصالح کا عم ل بغ یر کس ی رک اوٹ کے ج اری ہوسکتا‬
‫‪.‬ہے‬
‫لیکن بہت سے مع امالت ایس ے ہیں جن ک ا تعلق انس انیت کے‬
‫مجموعے سے ہے اور افراد کی تعمیر کے باوجود ان میں اصالح کی‬
‫گنجائش موجود رہتی ہے اور اگر اس پہلو کو نظر انداز کردیا ج ائے اور‬
‫تو افراد کی ت ربیت کے سلس لے میں کی ج انے والی کاوش وں کے‬
‫‪.‬ضیاع کا امکان ہوتا ہے‬
‫چنانچہ نبی کریم‬
‫ﷺ نے فرد کے ساتھ پورے انسانی معاشرے کی‬
‫اصالح و رہنمائی کے لئے ایس ے ق وانین م رتب فرم ائے ہیں جن کی‬
‫بنیاد پ ر وہ خ الص انس انی معاش رہ وج ود میں آی ا جہ اں اور ت و اور‬
‫حیوان وں کے حق وق ک ا بھی تحف ظ ریاست کے بنیادی ف رائض میں‬
‫شامل تھا جہاں اگر بشری کمزوریاں تھی تو ان ک ا انس داد بھی تھ ا‬
‫‪.‬کوئی خطا تھی تو اس کی تالفی کا نظام بھی موجود تھا‬
‫آپ ﷺ نے یہ سب کچھ پیش فرما کر ثابت ک ر دی ا‬
‫کہ اگ ر انس ان چ اہے ت و ہللا تع الی کی ج انب سے ودیعت ک ردہ‬
‫صالحیتوں کے بل پر ایسا معاش رہ تش کیل پاسکتا ہے ج و ہ ر لح اظ‬
‫سے قابل رش ک و قاب ل تقلید ہ و اور آج یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا‬
‫میں جہاں کہی کسی بھی معاشرے میں استحکام و ارتقاء کے بعد‬
‫انہدام و فساد کی صورت پیدا ہوئی تو اس کا واحد سبب یہی تھا کہ‬
‫انہوں نے تعلیمات محمدی ﷺ ک و پس پش ت ڈال‬
‫‪.‬دیا تھا اور اپنے بنائے ہوئے نظام پر چلنے لگے تھے‬
‫بہرحال اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کے انس انی فالح و بہب ود پ ر‬
‫مب نی معاش رے کے قیام کے ل ئے صرف اور صرف سیرت نب وی‪،‬‬
‫تعلیم ات نب وی اور آپ ﷺ ک ا اسوہ حس نہ ہی‬
‫‪.‬مشعل راہ ہوسکتا ہے‬
‫آپ ﷺ نے فالح انس انیت کے ل ئے جن بنیادی‬
‫تعلیمات و احکامت صادر فرمائے ہیں وہ درجہ ذیل ہیں جس کو اختیار‬
‫کرنے سے ک وئی بھی خطہ فالح انس انیت کے ل ئے عظیم کارن امے‬
‫‪.‬سر انجام دے سکتا ہے‬
‫‪1:‬‬ ‫اجتماعیت‬
‫‪2:‬‬ ‫مساوات‬
‫‪3:‬‬ ‫عدل و انصاف‬
‫‪4:‬‬ ‫نظام جزا و سزا‬
‫مندرجہ باال تم ام نق ات وہ خ اص مس ائل ہیں دور حاض ر کے جن کے‬
‫حل کے لئے تمام انسانیت کوشاں ہے لیکن بہترین ح ل ان سب ک ا‬
‫سنت نبوی ﷺ سے ثابت ہوت ا ہے اور آج بھی اگ ر‬
‫ان مسائل کے حل کے لئے احکامات نب وی ﷺ پ ر‬
‫عمل درآم د کیا ج ائے ت و اس میں ک وئی ش ک نہیں کے نت ائج سو‬
‫فیصد مثبت حاصل ہونگے‬
‫‪ :‬اجتماعیت‬ ‫نمبر ‪3‬‬
‫آج کے دنیا میں جس رفتار سے ترقی کے منازل طے ہو رہے ہیں اس‬
‫میں کوئی ش ک نہیں آئے روز نت ن ئی‪  ‬ایج ادات ہ وتی‪  ‬رہ تی‪  ‬ہیں‪،‬‬
‫اس تیز رفتار دور میں اگر ایک ط رف ت رقی و ک امرانی کے زی نے طے‬
‫کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف ہر انسان دوسرے انس ان سے دور‬
‫ہوتا جارہ ا ہے لوگ وں کی سماجی زن دگی مح دود ہ وتی ج ارہی ہے‬
‫اجتماعیت ختم ہ ونے کے ق ریب ہ و گ ئی ہے ہ ر انس ان اس حقیقت‬
‫سے آگاہ ہے کہ اجتماع ہر معاشرے کی ضرورت ہے ہر انسان کسی‬
‫نہ کسی طرح سے دوسرے کا محت اج نظ ر آت ا ہے لیکن آج ک ل خ ود‬
‫پسندی اور خود غرضی کا عنصر اتنا زیادہ معاشرے میں سرائیت ک ر‬
‫‪.‬گیا ہے کہ فالحی معاشرے کی بنیاد بنانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے‬
‫دنیا کی‪  ‬کتنی ہی اقوام آپس میں اخ وت و بھ ائی چ ارے کے ساتھ‬
‫رہنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں کئی این جی اوز اس پر کام‪  ‬کر رہی‬
‫ہیں کہ معاشرے کو یکجا کیسے کیا جائے لیکن وہ نتائج حاصل نہیں‬
‫ہوتے جو حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‬
‫سیرت نبوی‬
‫ﷺ کی روشنی میں‬
‫رسول ہللا ﷺ نے اجتم اعیت پ ر خ اص زور دی ا ہے‬
‫اور آپس میں تفرقہ سے منع فرمایا ہے‪ .‬اسالم نے اپ نی اجتم اعیت‬
‫کی شان ک و مختلف مواق ع پ ر نمای اں فرمای ا ہے اور ایم ان کے بع د‬
‫ارک ان اسالم میں پہال حکم نم از ک ا ہے اور نم از ہی سے فلس فہ‬
‫اجتماعیت سمجھ میں آت ا ہے کہ کیس ے سب ل وگ آپس میں بغ یر‬
‫کسی روک ٹ وک کے اور ذات پ ات کے ای ک صف میں ہللا کے حض ور‬
‫‪.‬سجدہ ریز ہوتے ہیں‬
‫آپ‬
‫ﷺ نے نم از ک و جم اعت کے ساتھ ادا ک رنے کی‬
‫نہایت تاکید‬
‫فرمائی ہے اور جماعت کے ساتھ ادا کی گئی نم از ک و تنہ ا پ ڑھی‬
‫جانے والی نماز کے مق ابلے میں اج ر و ث واب کے اعتب ار سے ک ئی‬
‫‪.‬گناہ زیادہ فرمایا ہے‬
‫اس پوری‪  ‬تحریر کا لب لب اب یہ ہے کہ آج کے‪  ‬اس مس ئلے ک و ن بی‬
‫کریم ﷺ نے ہمارے ل ئے پہلے ہی ح ل فرمای ا ہے‬
‫کہ معاشرے میں مل جل ک ر کیس ے رہ ا ج ائے‪ .‬ت اکہ معاش رے میں‬
‫اجنبیت کا خاتمہ ہو اور ہر کوئی ای ک دوسرے کے دکھ درد میں براب ر‬
‫‪.‬کے شریک رہے‬
‫‪ :‬حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے‬
‫دو افراد کا باہم جماعت سے نماز پڑھنا ہللا کے نزدیک چار افراد کے“‬
‫علیح دہ علیح دہ نم از پڑھ نے سے بہ تر ہے اور چ ار اف راد ک ا ب اہم‬
‫جماعت سے نماز پڑھنا ہللا کے نزدیک آٹھ افراد کے علیحدہ علیح دہ‬
‫نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور آٹھ افراد کا باہم جماعت سے نماز پڑھنا‬
‫ہللا کے نزدیک سو افراد کے علیحدہ علیحدہ نم از پڑھ نے سے بہ تر‬
‫”ہے‬
‫)مجمع الزوائد جلد ‪ 2‬صفحہ ‪ 163‬نمبر ‪(2142‬‬
‫نمبر ‪ : 4‬مساوات و اعتدال‬
‫مساوات کا مطلب یہ ہے کہ کوئی کسی دوسرے کو خود سے کمتر‬
‫نہ سمجھے چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو تم ام انس انیت براب ر‬
‫ہیں‪ ،‬ہر انسان کی اپنی الگ ای ک پہچ ان ہے اور اس ک و عزت و ق در‬
‫‪.‬کی نگاہ سے دیکھنا ہم سب پر فرض ہے‬
‫آج کی دنیا میں مساوات کو وہ مقام حاصل نہیں ج و ہون ا چ اہیے‪  ‬ہ ر‬
‫کوئی خود کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے چاہے وہ م ال و دولت‬
‫کے لحاظ سے ہ و ی ا پھ ر ذات پ ات کے لح اظ سے دنیا میں ایس ے‬
‫ممالک کی کمی نہیں جہاں ہر دوسرا انسان شخصی نف رت ک ا اس‬
‫وجہ سے ش کار ہے کہ وہ پہلے سے میل نہیں کھات ا اس کی‬
‫شخصیت کو اس وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ دوسرے ان سے‬
‫مختلف ہیں موضوع تفص یل کا‪  ‬محت اج ہے لیکن ہم مختص ر ی وں بیان‬
‫کریں گے کہ اس مسئلہ کے بارے میں پوری دنیا میں آگ اہی مہم ات‬
‫چالئی جاتی‪  ‬ہیں علمی و فکری طور پر بھی ہر ممکن کوش ش کی‬
‫‪.‬جاتی رہی ہے کہ کیسے انسان کو اس انا کی ضد سے نکاال جائے‬
‫لیکن ج و بہ ترین نم ونہ ہم ک و تعلیم ات نب وی ﷺ‬
‫میں ملت ا ہے اس کی مث ال اور کہی نہیں ملتی آج مغ رب میں ج و‬
‫ذات پات کے لح اظ سے گومگ و کی کیفیت ہے وہ صرف اسی وجہ‬
‫سے ہے کہ ان میں بنیادی تحقیق کی کمی ہے اور وہ اس نظ ریہ‬
‫سے کوسوں دور ہیں ج و ن بی ک ریم ﷺ ک ا پیش‬
‫‪.‬کردہ ہے‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫ن بی ک ریم ﷺ نے معاش رے میں اونچ نیچ ختم‬
‫‪.‬کرنے پر زور دیا ہے اور مساوات کا درس نہایت شفافیت سے دیا ہے‬
‫جاہ و مال کی غیر ضروری نمائش کا مقصد اپنی برتری کا اظہ ار ہوت ا‬
‫ہے‪ .‬اس لئے آپ ﷺ نے آرائش پر ت و پابن دی عائ د‬
‫نہیں کی لیکن نمائش ک و قطع اً ممن وع ق رار دی ا ہے‪ ،‬اور ہ ر مع املے‬
‫میں مساوات کا درس اس لئے دیا ہے کہ معاشرے میں لوگ نم ائش‬
‫‪.‬پسندوں کا شکار نہ ہو سکے‬
‫چن انچہ عب ادات و ریاض ت ‪ ،‬کھ انے پینے ‪ ،‬سونے ج اگنے ‪ ،‬اٹھ نے‬
‫بیٹھنے ‪ ،‬ملنے جلنے ‪ ،‬اور رہنے سہنے سے لیکر لب اس و مک ان ت ک‬
‫ہر مق ام پ ر آپ ﷺ کی ارش ادات اعت دال ک ا درس‬
‫دیتے نظر آتے ہیں اور اسی انداز سے اگ ر ہ ر مع املے میں اعت دال و‬
‫میانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرے میں مس اوات خ ود بخ ود‬
‫ق ائم ہوسکتی ہے‪ .‬آپ ﷺ کی ان تم ام ارش ادات‬
‫سے یہ واض ح ہوجات ا ہے کہ مس اوات ک ا درس ن بی ک ریم‬
‫ﷺ نے بہت خ وب ان داز میں فرمای ا ہے انہی‬
‫احکامات پر عمل پیرا ہونے سے مس اوات کی اولین مث ال معاش رے‬
‫‪.‬میں پیدا کی جاسکتی ہے‬
‫‪ :‬حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے‬
‫کتنے ہی پراگندہ حال چھیتھ ڑوں میں ملب وس انس ان ایس ے ہ وتے“‬
‫ہیں کہ اگر وہ ہللا کی قسم کھا لیں تو ہللا تعالی اس ک و پ ورا ک رتے‬
‫”ہیں‬
‫)ترمذی جلد ‪ 5‬صفحہ ‪ 459‬نمبر ‪(3880‬‬
‫اور خود نبی کریم ﷺ نے کس ح الت میں زن دگی‬
‫بسر کی؟‬
‫حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی گ واہی کی روش نی میں اب وہریرہ“‬
‫رض ی ہللا عنہہ سے روایت ہے‪ ،‬وہ کہ تے ہیں میں حض رت عائش ہ‬
‫رضی ہللا عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے پیوند لگی ہوئی‬
‫چادر اور ایک یمن کی بنی ہ وئی لنگی پیش کی اور خ دا کی قس م‬
‫کھ ا ک ر کہ ا کہ ہللا کے رسول ﷺ نے انہی دو‬
‫”کپڑوں میں اپنی جان ‪ ،‬جان آفریں کے سپرد کی تھی‬
‫)بخاری شریف جلد ‪ 4‬صفحہ ‪(21‬‬
‫اس تمام قلم ش دہ تحری ر ک ا یہ مقص د ہے کہ ن بی ک ریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے مس اوات ک و ق ائم و برق رار رکھ نے کے ل ئے ج و‬
‫معاش رتی اق دار ک و بیان فرمای ا ہے وہی راہ نج ات ہے اور اس میں‬
‫بہترین حل موجود ہے اس مسئلہ ک و ح ل ک رنے کی‪ ،‬ض رورت صرف‬
‫اس امر کی ہے کہ ہم ان اوصاف کو اپنی زن دگی میں کیس ے ڈھ ال‬
‫دیں‪ .‬جس معاشرے میں اونچ نیچ کی تم یز ختم ہ و ذاتی حیثیت ک ا‬
‫فقدان ہو جائے وہ اقوام فالح پاتی ہیں اخوت و بھائی چارے کی فض ا‬
‫‪.‬ہو تو ہر سو امن و امان کا بول باال ہوگا‬
‫نمبر ‪ : 5‬عدل و انصاف‬
‫آج اگر دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے‬
‫کہ انسانیت جس بنیادی حق سے محروم ہے وہ عدل و انصاف جس‬
‫کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے ق انون میں عدل و انص اف کے الف اظ ت و‬
‫موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ج رم بھی ہوت ا ہے مج رم‬
‫کھلے عام گھومت ا رہت ا ہے یہ سب اس وجہ سے کیونکہ عدل و‬
‫‪.‬انصاف کا فقدان ہے‬
‫ایک انسان جرم کرتا ہے عدالت میں کیس دائ ر ہوت ا ہے کبھی کبھ ار‬
‫تو باہر ہی معاملہ طے ہوجات ا ہے اور مج رم جیل ی ا ح واالت جات ا ہی‬
‫نہیں جب ایسا نظام ہوگا تو وہ معاشرہ کیا خاک ترقی ک رے گ ا وہ اں‬
‫تو شدت پسندی پیدا ہوگی جو آگے جاکر کئی کب یرہ گن اہ ت ک ک روا‬
‫بیٹھتی ہے انسانوں سے‪ ،‬دنیا کے عدل و انص اف ت و اس سطح ت ک‬
‫ہی ہیں کیونکہ جب تک کسی بھی قانون پر پوری آزادی سے عم ل‬
‫درآم د نہیں ہوگ ا وہ ق انون معاش رے ک و عدل و انص اف ف راہم نہیں‬
‫‪.‬کرسکتا‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫دنیا کا یہ سارا نظام جو آسمان سے زمین تک پھیال ہوا ہے صرف ہللا‬
‫تعالی کے عدل و انصاف کی بنا پر قائم ہے‪ ،‬عدل و انصاف صرف نظام‬
‫حک ومت و سلطنت کے برق رار رکھ نے کے ل ئے ض روری نہیں یہ و‬
‫‪.‬صفات ہیں جن کا ہونا ہر شعبے میں ضروری ہے‬
‫عام طور پر شاہی حکومتوں میں بادشاہ اور شاہی خان دان کے اف راد‬
‫ق انون سے ب االتر ہ وتے تھے جبکہ رعای ا کی ذرا سی بے ادبی و‬
‫گستاخی بھی ناقابل برداشت اور سخت ترین سزا کی موجب ہ وتی‬
‫تھی‪ .‬اس کے برعکس نبی کریم ﷺ نے اسالمی‬
‫قانون کی باالدستی قائم کی امیر و غریب ‪ ،‬حاکم و محک وم راعی و‬
‫رعایا کو قانون کی نظر میں یکساں اور مساوی حیثیت کا حام ل ق رار‬
‫دیا‪ .‬اس سے بھی بڑھ ک ر یہ کہ دیگ ر مع امالت کی ط رح یہ اں بھی‬
‫قانون الہی کی تعمیل کا اصل نمونہ بطور مثال اپ نی ذات گ رامی اور‬
‫‪.‬اپنے اہل بیت کے ذریعے پیش فرمایا‬
‫ایک واقعہ قابل تحریر ہے‬
‫ایک بار ایک مخزومی (قبیلہ مخزوم) عورت نے چوری کی‪ ،‬نبی ک ریم‬
‫ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دی ا‪ ،‬چ ونکہ اس‬
‫کا تعلق معزز قبیلے سے تھا اس لئے صحابہ کرام نے حضرت اسامہ‬
‫بن زی د رض ی ہللا عنہ ک و آپ ﷺ کی خ دمت میں‬
‫‪.‬بھیج کر سفارش کرانی چاہی‬
‫آپ ﷺ حض رت اسامہ رض ی ہللا عنہ سے بہت‬
‫زیادہ انس رکھنے کے باوجود ان پر غصہ ہوئے اور فرمایا کہ‬
‫پہلی امتیں اسی بنا پر تباہ و برباد ہوئیں کہ ان کے ہاں جب کوئی ”‬
‫معم ولی آدمی ج رم کرت ا ت و اس ک و سزا دی تے اور جب وہی ج رم‬
‫کسی بڑے رتبے والے آدمی سے سرزد ہوتا ت و اس ک و چھ وڑ دی تے‬
‫پھر فرمایا ( اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی یہ‬
‫” جرم کرتی تو میں یقیناً اس کا ہاتھ کاٹتا)‬
‫)بخاری جلد نمبر ‪ 3‬صفحہ نمبر ‪ 1282‬نمبر ‪(3288‬‬
‫یہ تھ ا آپ ﷺ ک ا عدل و انص اف جس نے فالح‬
‫‪.‬انسانیت پر مبنی مثالی اور کامیاب معاشرے کی بنیاد رکھی‬
‫آپ ﷺ نے جس عالمگیر عدل و انصاف کی ترغیب‬
‫دی اور اس ک و عملی ط ور پ ر رائج ک رکے دیکھای ا اس کی رو سے‬
‫سب انس ان براب ر تھے‪ ،‬اور آپ ﷺ اسالم کے اور‬
‫اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ بھی اسی انص اف سے ک ام لیتے‬
‫تھے‪ ،‬جس کے ذریعے اپ نے صحابہ کے م ابین فیص لے فرم اتے اور‬
‫کس ی سے اس بن ا پ ر تعص ب ک ا مظ اہرہ نہ ہوت ا کہ وہ ش خص‬
‫‪.‬مسلمان نہیں‬
‫نمبر ‪ : 6‬انسداد رشوت‬
‫جدید دنیا میں آج کے دور میں ج و سب سے ب ڑی لعنت ہے اگ ر ہم‬
‫اس کو رشوت کا نام دیں تو یقین ہے کہ غلط نہ ہوگ ا‪ ،‬رش وت ہی وہ‬
‫چیز ہے جو کسی حقدار کا حق دوسرے ک و غلط ان داز سے منتق ل‬
‫کردیتا ہے ج و کہ معاش رے مین بگ ڑاو ک ا سبب بنت ا ہے‪ ،‬یہ ایس ی‬
‫لعنت ہے جس نے قلیل مدت میں اچھے اچھے معاشروں کا ش یرازہ‬
‫‪.‬بکھیر کر رکھ دیا ہے‬
‫دنیاوی ق انون میں اس بیم اری کی روک تھ ام کے ل ئے بہت سے‬
‫اقدامات کئے اس کے لئے خاص ادارے بن ائے گ ئے لیکن کبھی بھی‬
‫وہ اقدامات پورے کے پورے مس لط نہ ہ و سکے جس کی وجہ سے‬
‫معاشرے میں ظلم و استبداد ‪ ،‬برائیاں‪ ،‬ب دعنوانیاں‪ ،‬بڑھ تی رہی اور‬
‫انصاف کا قلع قمع ہوتا رہا اور عام لوگوں کے جائز حقوق غص ب ہ وتے‬
‫رہے اور ان کے جان و م ال پ ر ڈاکہ پڑت ا رہ ا ح ق تلفی‪ ،‬ف ریب ک اری‪،‬‬
‫حرص و طمع‪ ،‬عہد شکنی اور باہمی نزاع کا دروازہ کھلتا گیا اور نظام‬
‫‪.‬کا درہم برہم ہوتا گیا‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫ه صلى هللا عليه وسلم“‬ ‫ول اللَّ ِ‬
‫س ُ‬ ‫ل لَ َع َ‬
‫ن َر ُ‬ ‫م ٍرو‪َ ،‬ق ا َ‬
‫ن َع ْ‬ ‫ن َع ْب ِد اللَّ ِ‬
‫ه ْب ِ‬ ‫َع ْ‬
‫ي‬
‫ش َ‬ ‫ي َوا ْل ُ‬
‫م ْرتَ ِ‬ ‫ش َ‬
‫الرا ِ‬
‫” َّ‬
‫سنن أبو داود ‪ ، 3580:‬القضاء – سنن الترم ذي ‪ ،1337:‬األحك ام – (‬
‫)سنن ابن ماجه ‪ ، 2313:‬األحكام‬
‫ترجمہ ‪ :‬حضرت عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ بیان ک رتے ہیں کہ ”‬
‫رسول ہللا ﷺ نے رش وت لینے والے اور رش وت‬
‫”دینے والے پر لعنت فرمائی ہے‬
‫زی ر بحث ح دیث میں بھی رش وت ک ا لین دین ک رنے وال وں ک و ن بی‬
‫رحمت ﷺ کی زبان پر میں ملعون قرار دی ا گیا ہے‬
‫کسی عمل پر ہللا تعالی یا اس کے رسول کی ط رف سے لعنت ک ا‬
‫‪.‬معنی ہے کہ اسےانتہائی ناراضگی و بیزاری کا اعالن ہے‬
‫ہللا تعالی کی طرف سے لعنت کا مطلب یہ ہوا کہ ہللا رحمان و رحیم‬
‫نے اس شخص کو اپنی وسیع رحمت سے محروم کر دینے کا فیصلہ‬
‫فرما دیا ہے اور ہللا کے رسول ﷺ کی ط رف سے‬
‫لعنت ک ا مطلب یہ ہے کہ رحمۃ للع المین ﷺ نے‬
‫ایسے شخص سے ب یزاری ک ا اظہ ار فرم انے کے ساتھ ساتھ ارحم‬
‫الراحمین کی رحمت سے محروم ک ئے ج انے کی ب د دعا فرم ا رہے‬
‫‪.‬ہیں‬
‫بد قسمتی سے اس واضح شرعی حکم کے ب اوجود رش وت اور اس‬
‫سے ملتی جلتی بہت سی شکلیں آج ہمارے درمیان عام ہیں جس‬
‫کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ہالکت وں کے دل دل میں پھنس ا ہ وا ہے ‪،‬‬
‫امانت داری اور خیر خواہی اہل کاروں سے رخص ت ہ و چکی ہے ‪ ،‬اور‬
‫‪.‬مصلحت پسندی و خود غرضی ہر ایک کا مذہب بنا ہوا ہے‬
‫نمبر ‪ : 7‬عورتوں کے حقوق‬
‫تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔‬
‫یونان میں‪ ،‬مص ر میں‪ ،‬عراق میں‪ ،‬ہن د میں‪ ،‬چین میں‪ ،‬غ رض ہرق وم‬
‫میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی‪ ،‬جہاں عورتوں پ ر ظلم‬
‫‪.‬کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں‬
‫لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید و فروخت ک رتے‬
‫ل‬
‫ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی ُبرا سلوک کیا جاتا تھا‪ ،‬حتی کہ اہ ِ‬
‫ب عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں ک و‬ ‫عرب عورت کے وجود ک و م وج ِ‬
‫‪.‬زندہ درگور کر دیتے تھے‬
‫ہندوستان میں ش وہر کی چت ا پ ر اس کی بیوہ ک و جالی ا جات ا تھ ا ۔‬
‫واہیانہ مذاہب عورت کو گن اہ ک ا سرچش مہ اور معص یت ک ا دروازہ اور‬
‫‪.‬پاپ کا مجسم سمجھتے تھے‬
‫اس سے تعلق رکھن ا روح انی ت رقی کی راہ میں رک اوٹ سمجھتے‬
‫تھے۔ دنیا کے زیادہ ت ر تہ ذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں‬
‫تھی۔ اسے حقیر و ذلیل نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے معاشی‬
‫و سیاسی حقوق نہیں تھے‪ ،‬وہ آزادانہ ط ریقے سے ک وئی لین دین‬
‫نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بع د اوال ِد‬
‫ن رینہ کی ت ابع اور محک وم تھی۔ اس کی ک وئی اپ نی مرض ی نہیں‬
‫تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھ ا؛ یہ اں ت ک کہ‬
‫اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫اسالم فط رت انس انی ک ا مظہ ر ہے جس کی تعلیم ات کے مط ابق‬
‫بنیادی حقوق کے لح اظ سے سب انس ان براب ر ہیں ہ ر بچہ فط رت‬
‫اسالم پ ر ہی پیدا ہوت ا ہے اور سب انس ان اوالد آدم ہیں اس لح اظ‬
‫سے اسالم میں جنس کی بنیاد پر عورت مرد کی کوئی تفریق نہیں‬
‫ہللا کے نزدیک دونوں ہی اس کی مخلوق ہیں‬
‫احادیث رسول ﷺ میں بھی عورت وں کے حق وق‪،‬‬
‫‪.‬فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے‬
‫خاتم النبین حضرت محمد ﷺ نے ایک ح دیث میں‬
‫عورت کے وجود کو دنیا میں محبوب قرار دیا‬
‫)الحدیث(‬
‫‪:‬رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‬
‫عورت وں کے ساتھ اچھ ا سلوک کیا ک رو اس ل ئے کہ عورت وں کی“‬
‫تخلیق پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی میں سب سے زی ادہ ٹیڑھ ا‬
‫حصہ اس کا اوپر کاحصہ ہے اگ ر ت و اسے سیدھا ک رنے لگے گ ا ت و‬
‫اسے توڑ بیٹھے گا اور اگر تو اسے چھوڑے گ ا ت و وہ ٹ یڑھی ہی رہے‬
‫”گی پس تم عورتوں کاخیال رکھو‬
‫صحیح بخاری (‪)٥١٨٤‬‬
‫‘‘عورتوں کے معاملے میں ہللا سے ڈرو’’‬
‫)الحدیث(‬
‫دیگر فرمایا‬
‫جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی پھر ان کو ادب سکھایا“‬
‫اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھ ا سلوک کیا ت و اس کے‬
‫”لیے جنت ہے‬
‫عورتوں کے مسائل سے متعلق کوئی بھی قانون ہو اس کی تشریح‬
‫لہذا اگ ر‬
‫وتعبیر میں ہمیشہ انصاف وتوازن ومعاشرتی مفاد مقدم ہوگا ٰ‬
‫تعص ب ک و ب االئے ط اق رکھ ک ر اسالم میں دیے گ ئے عورت وں کے‬
‫حقوق وفرائض کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو بظ اہر امتیازی نظ ر‬
‫آنے والے قوانین امتیازی نہیں بلکہ خود عورت کی عزت وعصمت کے‬
‫محافظ اور معاشرے میں اخالقی وخاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے‬
‫لیے ناگزیر ہیں ہمارے ملک میں جو کہ اسالم کے نفاذ کے لیے وجود‬
‫میں آی ا یہ اں بھی عورت وں پ ر تش دد اور ان کے بنیادی حق وق کے‬
‫تحف ظ کے ل یے اسالمی تعلیم ات کی روش نی میں ک ئی ق وانین‬
‫تشکیل دیے گئے ہیں‬
‫حضرت رسول اکرم ﷺ نے اسی طرح حجۃ ال وداع‬
‫‪:‬میں مسلمانوں سے خطاب فرمایا‬
‫اے مسلمانوں تم اپنی بیویوں پر کچھ حق رکھتے ہو اور وہ بھی تم ”‬
‫پ ر کچھ ح ق رکھ تی ہیں تم پ ر ان ک ا ح ق یہ ہے کہ ان کے ساتھ‬
‫خوش اخالقی سے پیش آؤ اس لیے کہ وہ تمہاری مددگار و یاور ہیں‬
‫”اور تم نے ان کو ہللا سے امانت کے طور پر لیا ہے‬
‫نمبر ‪ : 8‬تعلیم نسواں یا عورتوں کی تعلیم‬
‫کسی بھی ملک میں تعلیم یافتہ افراد پر مش تمل معاش رہ اس کی‬
‫کامیابی کے لئے بہت ضروری ہے ای ک ب اعلم ملک و ق وم ہی ت رقی‬
‫کے وہ منازل طے کرسکتے ہیں ج و دور حاض ر کے ض رورت کے عین‬
‫‪.‬مطابق ہو‬
‫دنیا میں جتنا زور مردوں کی تعلیم حصول پر لگایا جاتا رہا ہے اتن ا ہی‬
‫عورتوں کے لئے بھی کوششیں ہو رہی ہیں‪ ،‬بعض اف راد ک ا یہ دعوہ‬
‫ہے کہ اسالم میں عورت وں کی تعلیم پ ر سنت کی رو سے ک وئی‬
‫خ اص ش واہد موج ود نہیں یع نی واض ح الف اظ میں یہ کہ سیرت‬
‫محمدی ﷺ کے پیروکاروں میں عورت وں کی تعلیم‬
‫پ ر آزادی کم اور پابن دیاں زی ادہ ہیں ج و کہ ہم ارے سنت نب وی‬
‫ﷺ سے جوڑتے ہیں خاص کر مغربی تہ ذیب لیکن‬
‫یہ بات سراسر غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہے‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫اسالمی شریعت کا ای ک بنیادی قائ دہ ہے کہ جب بھی ک وئی حکم‬
‫نازل ہوتا ہے تو اس کے لیے صیغہ م ذکر استعمال ہوت ا ہے لیکن اس‬
‫میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔‬
‫اگر اس حکم و اصول ک و ت رک ک ر دیاج ائے ت و نم از‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج‪ ،‬زک وٰ ۃ‬
‫جیسے بنیادی ارکان سمیت بے ش مار احک ام ش ریعت کی پابن دی‬
‫خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر‬
‫لہ ذا یہ ب ات واض ح ہ و ج اتی ہے کہ‬ ‫کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے‪ٰ ،‬‬
‫جن آیات و احادیث کے ذریعے فرض یت و اہمیت علم م ردوں کے ل یے‬
‫ث ابت ہے‪ ،‬انہی کے ذریعے یہ حکم خ واتین کے ل یے بھی من و عن‬
‫ثابت شدہ ہے۔‬
‫فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔‬
‫‪:‬حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‬
‫”حصول علم تمام مسلمانوں پر (بال تفریق مرد و زن) فرض ہے“‬
‫)سنن ابن ماجہ‪ ،‬المقدمہ‪ ،181 ،‬نمبر‪(224 :‬‬
‫اسی ط رح ای ک دوسرے موق ع پ ر حض ور ن بی اک رم‬
‫‪:‬ﷺ نے فرمایا‬
‫علم حاصل کرو خ واہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جان ا پ ڑے‪ ،‬بے ش ک“‬
‫”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‬
‫)ابن عبد البر‪ ،‬جامع بیان العلم‪ ،24 :1 ،‬نمبر‪(15 :‬‬
‫لہذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ق رآن سے حص ول علم خ واتین کے‬
‫ٰ‬
‫لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے م ردوں کے ل یے ت و اب اسوۂ‬
‫وی‬ ‫اور سیرت نب‬ ‫رسول ہللا ﷺ‬
‫ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ‬
‫حضور اکرم ﷺ نے خود خواتین کی تعلیم و ت ربیت‬
‫‪:‬کا خصوصی اہتمام فرمایا‬
‫حضرت اب و سعید خ دری رض ی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ عورتیں“‬
‫حض ور ن بی اک رم ﷺ کی بارگ اہ میں عرض گ زار‬
‫‪:‬ہوئیں‬
‫لہ ذا ہم ارے استفادہ کے‬
‫آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے‪ٰ ،‬‬
‫‪.‬لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے‬
‫آپ ﷺ نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرم ا دی ا۔ اس‬
‫دن آپ ﷺ ان سے ملتے انہیں نصیحت فرماتے اور‬
‫تعالی کے احکام بتاتے‬
‫ٰ‬ ‫”انہیں ﷲ‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب العلم‪ ،50 :1 ،‬رقم‪(101 :‬‬
‫نمبر ‪ : 9‬انسداد جرائم‬
‫جتنی انسانی تاریخ پرانی ہے اتنی ہی ج رائم کی ت اریخ‪ ،‬جدی د دور‬
‫میں بھی جرائم کا خ اتمہ انتہ ائی دش وار گ زار ہے روز روز ن ئے ن ئے‬
‫طریقوں سے جرائم کی شرح بڑھتی رہ تی ہے دنیا کے تم ام ق انون‬
‫اس کی سرکوبی کے لئے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال ک رتے رہ تے‬
‫‪.‬ہیں لیکن مکمل خاتمہ کر نہیں پاتے‬
‫کیونکہ یا ت و ج رم کی سزا اس کے عین مط ابق نہیں ہ وتی ی ا پھ ر‬
‫مجرم کو شفارشی عناصر سزا سے بچا ک ر اڑا لے ج اتے ہیں ن تیجہ‬
‫یہ ہوت ا ہے کہ معاش رے میں ج رم کی ش رح کم ہ ونے کی بج ائے‬
‫‪.‬بڑھتی رہتی ہے‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫ریاست کے استحکام اور اس کے نظم و ضبط ک و برق رار رکھ نے میں‬
‫ایک اہم کردار جرائم کی حوصلہ شکنی ک رنے والے ق وانین کے اج را‬
‫اور ان کے نفاض کا ہوتا ہے‪ ،‬یہ کام جس قدر اختیاط ‪ ،‬غ یر جانب داری‬
‫اور انصاف سے کیا جائے گا اسی ق در ریاست و معاش رے کے ل ئے‬
‫‪.‬مفید ہوگا‬
‫تعلیمات و احکامات نبوی ﷺ کی خصوصیات یہ ہیں‬
‫کہ آپ ﷺ ک و انس داد ج رائم کے سلس لے ج و‬
‫قوانین عطا ہوئے ہیں وہ وحی کی صورت میں منزل من ہللا ہیں ‪ ،‬ج و‬
‫‪.‬کہ انسانی لغزشوں اور بشری کوتاہیوں سے بلکل پاک ہیں‬
‫جرائم کے انسداد و سدباب کے لئے قوانین ک ا وض ع کرن ا ہی ک افی‬
‫‪.‬نہیں ہوتا ‪ ،‬اصل مسئلہ ان کا نفاذ ہے‬
‫ن بی ک ریم ﷺ نے اس مع املے میں بھی اپ نے‬
‫عمل مبارک سے واضح رہنمائی فرمائی اور جرائم کی روک تھام کے‬
‫لئے صرف قوانین کے اعالن پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس سلس لے ک و‬
‫تفریق سے محفوظ رکھتے ہوئے تمام اراکین ریاست پر انہیں یکساں‬
‫طور پر نافذ کیا اور اس سلسلے میں کسی قس م کی رعایت سے‬
‫‪.‬کام نہیں لیا‬
‫حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے‬
‫خدا کی قسم اگر محم د ﷺ کی بیٹی ف اطمہ ”‬
‫بھی چوری کرتی ت و محم د ﷺ اس ک ا بھی ہ اتھ‬
‫”کاٹتا‬
‫)بخاری شریف صفحہ ‪(122‬‬
‫اس حدیث میں پوری امت کے لئے یہ واضح پیغام ہے کہ ک وئی بھی‬
‫جرم کرے چاہے وہ کتنی ہی اونچی حیثیت کا مالک ہو اس کی سزا‬
‫اس کو عین بروقت اور بھرپور ملنی چاہئے ت اکہ معاش رے میں ق انون‬
‫‪.‬کی باالدستی قائم و برقرار رہے‬
‫نمبر ‪ : 10‬اقلیتوں سے سلوک‬
‫اقلیت کسی بھی ملک کا الزمی جز ہوتا ہے‪ ،‬ملک کے حکمرانوں ک ا‬
‫یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے م اتحت اقلیت ب رادری مین امن کی فض ا‬
‫قائم رکھے اور ان ک و وہ تم ام سہولیات ف راہم ک رے ج و اک ثریت ک و‬
‫‪.‬حاصل ہوں‪ ،‬ان کو بالوجہ عتاب کا نشانہ نہ بنایا جائے‬
‫دور حاض ر میں اقلیت وں کے حق وق کے ب ارے میں ہ ر ای ک ملک میں‬
‫رجحان خطرناک حد تک غیر مطمئن ہے خواہ وہ کوئی بھی اقلیت ہ و‬
‫اتنی تعلیم و تربیت اور جدید نظام کے باوجود ایک معاشرہ اقلیت ک و‬
‫وہ حقوق نہیں دے پاتا جو کسی بھی اقلیت کا بنیادی ح ق ہوت ا ہے‬
‫‪.‬خواہ وہ مسلمان ہوں یا دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں‬
‫فالحی ریاست میں اقلیت کے حقوق کی پامالی نہیں کی جاتی ہم‬
‫آج کس ی بھی ملک میں نگ اہ دوڑائیں ت و ہم ک و وہ دراڑ ض رور نظ ر‬
‫آج اتی ہے جس سے جھان ک ک ر اقلیت کے بےبس ی دیکھی‬
‫‪.‬جاسکتی ہے‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫اقلیتیں ای ک اسالمی ریاست کی اہم ب رادری ہ وتی ہے‪ ،‬اسالمی‬
‫تعلیم ات اور احکام ات نب وی ﷺ کی خ وبی یہ ہے‬
‫کہ اگ ر ان کی روح کے مط ابق عم ل کیا ج ائے ت و اپ نے ہی نہیں‬
‫بیگ انے بھی ان ک ا اث ر ض رور قب ول ک رتے ہیں اور انہیں اپن انے کی‬
‫‪.‬خواہش رکھتے ہیں‬
‫اسالم کے زریں دور میں جب مسلمان پوری طرح اسالمی تعلیم ات‬
‫پر عمل پیرا تھے اور اسالم کا نظام اپ نے ہ ر پہلو سے پ ورے جہ اں‬
‫میں تابانیاں بکھیر رہا تھا تو اقلیت خ ود ک و ان کے درمیان رہن ا زی ادہ‬
‫‪.‬محفوظ سمجھتے تھے‬
‫نبی کریم ﷺ نے اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک‬
‫کی بہت تاکید فرمائی ہے اور اپنے طرز عمل سے بھی ان کے ساتھ‬
‫حسن سلوک کی اہمیت کو واضح کیا ہے‪ .‬ایک واقعہ قابل تحریر ہے‬
‫ایک غیر مسلم ایک شب آپ ﷺ کا مہمان ہوا“‬
‫آپ ﷺ نے اسے بک ری ک ا دودھ پیش کیا‪ ،‬وہ پی‬
‫گیا‪ ،‬دوسری بکری دوہی گئی‪ ،‬وہ اس کا دودھ بھی پی گیا تیس ری‬
‫بکری دوہی گئی اور اس طرح وہ سات بکریوں ک ا دودھ پی گیا لیکن‬
‫آپ ﷺ نے اپ نے ان داز سے کس ی ناراض گی ک ا‬
‫اظہار نہ فرمایا اور اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہ وا کہ وہ صبح ت ک‬
‫”مسلمان ہو چکا تھا‬
‫)ترمذی ‪ ،‬باب ماجاء ان المومن یا کل فی معاواحد االطمعہ(‬
‫آپ ﷺ نے مکم ل اختیار کے ہ وتے ہ وئے م دینہ‬
‫من ورہ کی ریاست میں غ یر مس لموں کی گس تاخیوں اور ش رارتوں‬
‫کے ب اوجود کبھی ان پ ر سختی نہیں فرم ائی بلکہ ہ ر م رتبہ درگ زر‬
‫‪.‬سے کام لیا‬
‫ایک مرتبہ ایک یہ ودی نے کہہ دی ا کہ ‘قس م ہے اس ذات کی جس“‬
‫نے موسی علیہ سالم ک و تم ام انبیاء پ ر فض یلت دی’ ای ک صحابی‬
‫رسول ہللا ﷺ نے سنا تو ان سے رہا نہ گیا اور اس‬
‫سے پوچھا کہ کیا محمد ﷺ پر بھی؟ اس نے کہ ا‬
‫ہاں‪ ،‬صحابی رسول ﷺ نے غصے میں اسے تھ پڑ‬
‫مار دیا ‪ ،‬وہ یہودی سیدھا آپ ﷺ کے پ اس حاض ر‬
‫ہوا اور واقعہ بیان کیا ‪ ،‬آپ ﷺ نے یہودی کو سخت‬
‫”سست کہنے کی بجائے اس صحابی پر برہمی ظاہر فرمائی‬
‫)سیرت نبی جلد ‪ 2‬صفحہ ‪(224‬‬
‫نمبر ‪ : 11‬معاشی نظام‬
‫قومی سطح پر معاش ی زن دگی میں استحص الی‪ ،‬خ ود غرض انہ اور‬
‫اعلي اق دار کی‬
‫ٰ‬ ‫رز عم ل وہ بنيادی انح راف ہے ج و‬‫مفاد پرستانہ ط ِ‬
‫‪.‬تخلیق‪ ،‬ارتقاء اور استحکام میں س ِد راہ کے طور پر حائل رہتا ہے‬
‫رز عم ل پ ر ح رص‪ ،‬اللچ‪ ،‬بخ ل و کینہ‪ ،‬خ ود‬ ‫کیونکہ جب انس انی ط ِ‬
‫غرضی اور مفاد پرستی غالب ہو جائے تو اجتم اعی مف اد کی خ اطر‬
‫معاشرے سے انفاق‪ ،‬نفع بخشی اور فیض رسانی کا عنصر غائب ہو‬
‫جاتا ہے‪ .‬جس کے ن تیجے میں جہ اں ارتک از ک ا رجح ان پیدا ہوت ا ہے‬
‫وہاں معاشرے کے عام افراد معاشی تعط ل ک ا ش کار ہ و ج اتے ہیں‪.‬‬
‫رز‬
‫چنانچہ معاشرتی زندگی میں تفاوت‪ ،‬ہر سطح پر مفاد پرستانہ ط ِ‬
‫‪.‬عمل کو جنم دیتی ہے‬
‫خود غرضی اور مفاد پرستی کی بنيادوں سے اٹھ نے والی معیش ت‬
‫معاشرے کی سياسی اور اجتماعی اقدار ک و بھی پام ال ک رتی ہے‪،‬‬
‫ق رذیلہ اور‬
‫اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آت ا ہے جس ے اپ نے اخال ِ‬
‫اجتماعی بقاء کے تصور سے انح راف کے ب اعث ب اآلخر محک ومی اور‬
‫‪.‬غالمی جیسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے‬
‫اندریں حاالت اس امر کی ضرورت ہوتی ہے کہ اف را ِد معاش رہ کے دل‬
‫سے افالس کا خوف رف ع کيا ج ائے۔ معاش ی تعط ل اور غ یر فط ری‬
‫تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ایسا مؤثر اقتصادی نظام وضع کيا جائے‬
‫جہاں ہر ش خص کی تخلیقی جدوجہ د بح ال ہ و اور یہ اس وقت ت ک‬
‫ممکن نہیں ہے جب ت ک معاش رے میں رائج معاش ی نظ ام کے‬
‫بنيادی تصورات‪ ،‬اَقدار اور عملی اقدامات میں ایسی بنيادی تب دیلياں‬
‫نہ الئی جائیں جو ان اہداف کے حصول کو یقینی بناتی ہوں۔‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫تصور معیشت کے تحت ہر شخص حتی الق دور‬ ‫ِ‬ ‫اسالم کے دیے ہوئے‬
‫کسب معاش کا پابند ہے‪ .‬بال عذر ش رعی تس اہل‪ ،‬غفلت اور ک اہلی‬
‫‪.‬کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ہے‬
‫سیرت الرسول ﷺ ک ا اس جہت سے مط العہ‬
‫ایسے واضح اُصول فراہم کرتا ہے ج و زن دگی کے معاش ی پہلو میں‬
‫آنے والی خرابیوں کی اصالح اور اس پہلو کے ارتقاء کے حوالے سے‬
‫‪.‬جملہ تقاضوں کا احاطہ کرتا ہے‬
‫حض ور ن بی اک رم ﷺ نے اپ نے ق ول و عم ل سے‬
‫اسالم کے معاشی نظام کے خدو خال اور ان کے بنيادی تص ورات نہ‬
‫صرف واضح فرمائے بلکہ ایسی تعلیم ات عط ا فرم ائیں ج و معاش ی‬
‫رویوں اور رجحانات سے نہ صرف مختلف تھیں بلکہ آنے والے زم انوں‬
‫کے لئے ایک رہنما اُصول قرار پائیں۔‬
‫حضور نبی اک رم ﷺ کی عط ا ک ردہ تعلیم ات میں‬
‫مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں نیکی اور ب دی کے‬
‫امتياز میں ایک موثر بلکہ فیصلہ کن عامل قرار ديا ہے۔‬
‫حدیث نبوی ﷺ کی روش نی میں اس کی اہمیت‬
‫ک ا ان دازہ اس ام ر سے لگاي ا ج ا سکتا ہے کہ حض ور ن بی اک رم‬
‫‪ :‬ﷺ نے ارشاد فرمايا‬
‫”طلب کسب الحالل فريضة بعد الفريضة“‬
‫رزق حالل کی تالش فرض عبادت کے بع د (سب سے ب ڑا) فریض ہ“‬
‫”ہے‬
‫)بیہقی‪ ،‬السنن الکبری‪ ،‬باب‪ : 6‬صفحہ ‪ ،128‬رقم ‪(11695 :‬‬
‫‪ :‬ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا‬
‫ي الکس ب أطيب؟“‬ ‫عن رافع بن خ ديج‪ ،‬ق ال ‪ :‬قيل ‪ :‬ي ا رسول اﷲ‪ ،‬أ ّ‬
‫ل بيع مبرور‬
‫”قال ‪ :‬عمل الرّجل بيده وک ّ‬
‫حضرت راف ع بن خ دیج رض ی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ“‬
‫‪ :‬ﷺ سے پوچھا گيا‬
‫يا رسول ﷲ ﷺ! ک ون سی کم ائی سب سے‬
‫پاکیزہ ہے؟‬
‫آپ ﷺ نے فرمايا ‪ :‬آدمی کا اپنے ہ اتھ سے کمان ا‬
‫”اور ہر جائز تجارت‬
‫)أحمد بن حنبل‪ ،‬المسند‪ ،‬جلد ‪ 4‬صفحہ ‪ ،141‬نمبر ‪(17265‬‬
‫نمبر ‪ : 12‬احتساب‬
‫احتساب کی لغوی معانی حس اب‪ ،‬ج انچ پڑت ال اور آزم ائش کے ہیں‬
‫اور اس کی ضرورت سے کوئی باعزت اور متمدن معاش رہ بھی انک ار‬
‫نہیں کر سکتا خ واہ وہ ت رقی ی افتہ ہ و ی ا ت رقی پ ذیر احتس اب کی‬
‫‪.‬ضرورت و اہمیت ہمیشہ مسلم رہی ہے‬
‫احتساب کی ضرورت ہر متح رک اور فع ال و مس تحکم معاش رے میں‬
‫ہ وتی ہے ہم م انتے ہیں کہ دنیا میں انتہ ائی سخت احتس اب کے‬
‫قوانین موجود ہیں جن کی رو سے مجرموں ک و سخت سے سخت‬
‫سزا بھی ملتی رہی ہے بعض ملکوں میں تو یہ سزا سزاِ م وت ہ وتی‬
‫ہے لیکن احتساب کی بنیاد ہم ارے ن بی ک ریم ﷺ‬
‫کے زمانے میں بہت سخت اور مظبوطی سے رکھی گ ئی تھی‪ ،‬آج‬
‫کہ قوانین کو اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو کچھ لچک دیکھائی دیتا‬
‫ہے لیکن سیرت نبوی ﷺ کے احکامات میں ایسی‬
‫‪.‬کوئی نقش پایا نہیں جاتا جو اسالمی ریاست کا خاصہ تھا‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫آپ ﷺ نے قوانین کے بال امتیاز نفاذ کے سلس لے‬
‫میں ہمیش ہ اہم اق دامات ک ئے اور ریاست کے تم ام اراکین پ ر بغ یر‬
‫تخصیص کے انہیں الگو کیا اور اس بارے میں نہ کسی کی سفارش‬
‫‪.‬قبول کی اور نہ رعایت سے کام لیا‬
‫ایک واقعہ قابل تحریر ہے‬
‫آپ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل وہاں آباد یہ ود کے‬
‫قبائل بنو نضیر اور بنو قریظہ میں عزت و شرف کا بلکل غیر فط ری اور‬
‫‪.‬نہایت غیر معقول طریقہ رائج تھا‬
‫جس کے مطابق بنو قریظہ کا کوئی شخص بنو نضیر کے کس ی ف رد‬
‫کو قتل کردیتا تو قصاصاً قاتل ک و بھی م ارا جات ا‪ ،‬لیکن اگ ر ک وئی بن و‬
‫نضیر کا فرد بنو قریظہ کے کسی شخص کو مار ڈالتا تو اس ک ا صرف‬
‫‪.‬خون بہا سو وسق کھجور کی صورت میں ادا کیا جاتا‬
‫آپ ﷺ جب اس قسم کی صورت حال پیش آئی تو‬
‫آپ ﷺ نے اس غیر فطری اور غیر منصفانہ طریقے‬
‫‪.‬کو ختم کردیا اور تمام قبائل میں برابر کا قصاص جاری فرما دیا‬
‫)ابو داود جلد ‪ 4‬صفحہ ‪ 165‬نمبر ‪(4494‬‬
‫نمبر ‪ : 13‬دہشت گردی‬
‫دہشت گردی سے عالمی انسانی برادری میں امن و سکون‪ ،‬باہمی‬
‫برداشت و رواداری اور افہ ام و تفہیم کے امکان ات بھی مع دوم ہ وتے‬
‫جا رہے ہیں‬
‫دوسری طرف یہ حاالت عالم اسالم اور عالم مغ رب کے درمیان تن اؤ‬
‫‪.‬اور کشیدگی میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫حض ور ن بی اک رم ﷺ نے خطبہ حجۃ ال وداع کے‬
‫موقع پر پوری نسل انسانی ک و عزت‪ ،‬ج ان اور م ال ک ا تحف ظ ف راہم‬
‫کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‬
‫هذَا‪ ،‬فِی“‬ ‫ُم َ‬ ‫ة يَ ْو ِمک ْ‬ ‫م‪َ ،‬ک ُ‬
‫ح ْر َم ِ‬ ‫ح َرا ٌ‬ ‫ُم َعلَ ْيک ْ‬
‫ُم َ‬ ‫ضک ْ‬‫ُم َوأَ ْع َرا َ‬
‫ُم َوأَ ْم َوالَک ْ‬
‫ن ِد َماء ک ْ‬
‫إِ َّ‬
‫هذَا‪ ،‬إِلَی يَ ْو ِم تَ ْل َق ْونَ َربَّک ْ‬
‫ُم‬ ‫هذَا‪ ،‬فِی بَلَ ِدک ْ‬
‫ُم َ‬ ‫ُم َ‬
‫”ش ْه ِرک ْ‬ ‫َ‬
‫بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی“‬
‫ط رح ح رام ہیں جیس ے تمہ ارے اِس دن کی ح رمت تمہ ارے اِس‬
‫مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں‬
‫”ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے )مقرر کی گئی(‬
‫بخاري‪ ،‬الص حيح‪ ،‬کت اب الحج‪ ،‬ب اب الخطب ة أي ام م نی‪ ،‬صفحہ ‪(،620‬‬
‫)نمبر ‪1654 :‬‬
‫اسالم خود بھی امن و سالمتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن‬
‫‪.‬و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے‬
‫تعالی نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے ل یے ن ام ہی اسالم پس ند‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کیا ہے‪ .‬اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسالم ایک ایسا دین ہے ج و‬
‫خود بھی سراپا سالمتی ہے اور دوسروں ک و بھی امن و سالمتی‪،‬‬
‫‪.‬محبت و رواداری‪ ،‬اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے‬
‫سیاسی‪ ،‬فک ری ی ا اعتق ادی اختالف ات کی بن ا پ ر مس لمانوں کی‬
‫اکثریت کو کافر‪ ،‬مش رک اور ب دعتی ق رار دی تے ہ وئے انہیں بے دری غ‬
‫قت ل ک رنے وال وں ک و معلوم ہون ا چ اہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول‬
‫ﷺ کے نزدیک مومن کے جسم و ج ان اور عزت و‬
‫‪.‬آبرو کی کیا اہمیت ہے‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک مومن کی ح رمت ک و‬
‫کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔‬
‫حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ‬
‫‪:‬حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‬
‫ل“‬‫ُم لَ َع َّ‬‫ح ُدک ْ‬ ‫الِساَل حِ‪َ ،‬ف ِإنَّ ُه اَل يَ ْد ِري أَ َ‬
‫ه بِ ّ ِّ‬ ‫خي ِ‬ ‫ُم إِلَی أَ ِ‬ ‫ير أَ َ‬
‫ح ُدک ْ‬ ‫ش ُ‬‫اَل ُي ِ‬
‫ار‬
‫ن ال َّن ِ‬
‫ح ْف َر ٍة ِم َ‬
‫َع فِي ُ‬ ‫ع فِي يَ ِد ِه‪َ ،‬فيَق ُ‬ ‫”الش ْيطَانَ يَ ْن ِز ُ‬
‫َّ‬
‫تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اش ارہ’’‬
‫نہ ک رے‪ ،‬تم میں سے ک وئی نہیں جانت ا کہ ش اید ش یطان اس کے‬
‫ل ن احق کے ن تیجے میں) جہنم کے‬ ‫ہ اتھ ک و ڈگمگ ا دے اور وہ (قت ِ‬
‫‘‘گڑھے میں جا گرے۔‬
‫مسلم‪ ،‬الص حيح‪ ،‬کت اب ال بر والص لة واآلداب‪ ،‬ب اب النهي عن إش ارة(‬
‫)بالسالح‪ ،2020 :4 ،‬رقم‪2617 :‬‬
‫نمبر ‪ : 14‬انتہا پسندی و بنیاد پرستی‬
‫انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ای ک عالمگیر حقیقت ہے اور ہ ر طبقہ‬
‫فک ر‪ ،‬ہ ر م ذہب‪ ،‬اور ہ ر عالقے میں موج ود ہے‪ ،‬ف رق صرف یہ ہے کہ‬
‫بعض چیزیں میڈیا کے اس دور میں سامنے آگ ئی ہیں ی ا انہیں بعض‬
‫‪.‬مقاصد کے تحت سامنے الیا جا رہا ہے‬
‫انتہا پسندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ک وئی ق وم یہ تص ور ک ر لے‬
‫کہ نہ صرف حق اس کے پ اس ہے بلکہ اس کے ل ئے ض روری ہے کہ‬
‫اسے دوسروں پ ر مس لط کیا ج ائےاگر مخ اطب ن ا م انے ت و اس پ ر‬
‫‪.‬تشدد کیا جائے اور اس سے بزور منوایا جائے‬
‫سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں‬
‫اسالم کی رو سے تو انتہ ا پس ندی وہ ہے جب اسالم و سنت کے‬
‫‪.‬طے کردہ احکامات و ارشادات سے تجاوز کیا جائے‬
‫مسلمانوں کی موجودہ صورت ح ال ک ا فائ دہ پ وری ط رح سے غ یر‬
‫اق وام اٹھ ا رہے ہیں۔ ہم آپس میں تقس یم در تقس یم ہ و رہے ہیں ‪،‬‬
‫ہماری ہی طاقت کا استعمال ہمارے ہی اوپر کیا ج ا رہ ا ہے‪.‬جس ک ا‬
‫نتیجہ یہ ہے کہ عالمی ط اقتیں ہم پ ر راج ک ر رہی ہیں اور ہم ان کی‬
‫غالمی میں رہنے کو ترجیح دیکر اپنی بچی زن دگی گ زارنے پ ر آم ادہ‬
‫‪.‬ہو رہے ہیں‬
‫اسالم ت و اوّل ت ا آخ ر امن ہے اس کے عالوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ج و‬
‫چ یز بھی امن کے ل یے نقص ان دہ‪ ،‬امن سے متص ادم اور امن کی‬
‫مخالف ہے اس کا اسالمی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔‬
‫جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی‪ ،‬انتہا پس ندی‪ ،‬انس انیت کی‬
‫فالح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے ل یے‬
‫تباہ کن ثابت ہو‪ ،‬وہ ہمارے عقیدے میں مکمل ط ور پ ر غ یر اسالمی‬
‫ہے۔‬
‫حضور نبی ﷺ نے اپ نے آخ ری خطبہ حجۃ ال وداع‬
‫‪:‬میں یوں دیا کہ‬
‫ي ”‬ ‫ل لِ َع َربِ ّ ٍ‬ ‫ض َ‬ ‫ح ٌد‪ ،‬أَاَل اَل َف ْ‬ ‫ُم َوا ِ‬ ‫ن أَبَاك ْ‬ ‫ح ٌد‪َ ،‬وإِ َّ‬ ‫ُم َوا ِ‬ ‫ن َربَّك ْ‬ ‫اس‪ ،‬أَاَل إِ َّ‬ ‫يَا أَيُّ َها ال َّن ُ‬
‫س َو َد‪َ ،‬واَل‬ ‫م َر َعلَى أَ ْ‬ ‫ح َ‬ ‫ي‪َ ،‬واَل أِل َ ْ‬ ‫ي َعلَى َع َربِ ّ ٍ‬ ‫م ٍّ‬ ‫ج ِ‬‫ي‪َ ،‬واَل لِ َع َ‬ ‫م ٍّ‬ ‫ج ِ‬ ‫َعلَى أَ ْع َ‬
‫ْت؟‬ ‫م َر إِاَّل بِال َّت ْق َوى‪ ،‬أَبَلَّغ ُ‬ ‫ح َ‬ ‫س َو َد َعلَى أَ ْ‬ ‫أَ ْ‬
‫م‬‫سلَّ َ‬ ‫ه َو َ‬ ‫صلَّى اللَّ ُه َعلَ ْي ِ‬ ‫ه َ‬ ‫ول اللَّ ِ‬ ‫س ُ‬ ‫غ َر ُ‬ ‫‪َ ،‬قالُوا‪ :‬بَلَّ َ‬
‫هذَا؟‬ ‫ي يَ ْو ٍم َ‬ ‫ل‪ :‬أَ ُّ‬ ‫م َقا َ‬ ‫ُث َّ‬
‫هذَا؟‬ ‫ش ْه ٍر َ‬ ‫ي َ‬ ‫َ‬
‫ل‪ :‬أ ُّ‬ ‫م َقا َ‬ ‫م‪ُ ،‬ث َّ‬ ‫ح َرا ٌ‬ ‫م َ‬ ‫َقالُوا‪ :‬يَ ْو ٌ‬
‫م‬
‫ح َرا ٌ‬ ‫ش ْه ٌر َ‬ ‫‪َ :‬قالُوا‪َ :‬‬
‫هذَا؟‬ ‫ي بَلَ ٍد َ‬ ‫ل‪ :‬أَ ُّ‬ ‫م َقا َ‬ ‫ل‪ُ :‬ث َّ‬ ‫َقا َ‬
‫ُم‬‫ُم َوأَ ْم َوالَك ْ‬ ‫ُم ِد َم ا َءك ْ‬ ‫م بَ ْي َنك ْ‬ ‫ح َّر َ‬ ‫ن اللَّ َه َق ْد َ‬ ‫ل‪َ :‬ف ِإ َّ‬ ‫م‪َ ،‬ق ا َ‬ ‫ح َرا ٌ‬ ‫َق الُوا‪ :‬بَلَ ٌد َ‬
‫ه ذَا‪،‬‬ ‫ه ذَا فِي بَلَ ِدك ْ‬
‫ُم َ‬ ‫ُم‪َ ،‬‬ ‫ش ْه ِرك ْ‬ ‫ه ذَا‪ ،‬فِي َ‬ ‫ُم َ‬ ‫ة يَ ْو ِمك ْ‬ ‫ح ْر َم ِ‬‫ُم َك ُ‬ ‫اض ك ْ‬ ‫َوأَ ْع َر َ‬
‫ْت؟‬ ‫أَبَلَّغ ُ‬
‫ب‬ ‫ه ُد ا ْلغَائِ َ‬ ‫الشا ِ‬ ‫َّ‬ ‫ل‪ :‬لِ ُيبَلِّغْ‬ ‫م َقا َ‬ ‫سلَّ َ‬ ‫ه َو َ‬ ‫صلَّى اللَّ ُه َعلَ ْي ِ‬ ‫ه َ‬ ‫ول اللَّ ِ‬‫س ُ‬ ‫غ َر ُ‬ ‫َقالُوا‪ :‬بَلَّ َ‬
‫”‬
‫!اے لوگو‬
‫‪.‬تم سب کا رب ایک ہے اور تم سب کا باپ ایک ہے‬

‫آگاہ ہو جاوّ‬
‫کس ی عربی ک و کس ی عجمی پ ر ک وئی برت ری نہیں‪ ،‬نہ کس ی‬
‫‪.‬عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے‬
‫کسی کالے کو کسی گورے پر اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر‬
‫تقوی کے‬
‫ٰ‬ ‫‪.‬کوئی برتری ہے سوائے‬
‫بیش ک تم سب میں سے ﷲ کے نزدی ک عزت واال وہ ہے ج و اس‬
‫‪.‬سے زیادہ ڈرنے واال ہے‬
‫سنو! کیا میں نے تم تک دعوتِ حق کی بات پہنچا دی؟‬
‫!لوگوں نے جواب دیا‪ :‬جی‬
‫‪.‬رسول ﷲ ﷺ نے پہنچا دی ہے‬
‫‪:‬آپ ﷺ نے فرمایا‬
‫جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ اس‬
‫کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ )دعوتِ حق(‬
‫)احمد بن حنبل‪ ،‬المسند‪ ،‬ج‪ ،5:‬ص‪ ،411:‬رقم‪(23536:‬‬
‫حروف آخر‬
‫!محترم قارئین‬
‫دی ا گیا عن وان نہ ایت تفص یل طلب ہے میں نے اپ نی حق یر سی‬
‫کوشش کی ہے کہ‬
‫سردار دوجہاں محمد مصطفی ﷺ کے تعلیم ات و‬
‫احکامات پر مختصر سی ک اوش تحری ر ک روں‪ ،‬دنیا میں ایس ا ک وئی‬
‫مسئلہ ابھی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی وجود پائے گا جس کا حل‬
‫تاجدار حرم ﷺ کی سیرت و شخصیت مبارکہ میں‬
‫ہمیں نہ ملے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی حیات میں اُن تم ام‬
‫احکامات کو شامل کرلیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور ہ ر مس ئلے ک و‬
‫سیرت نب وی ﷺ کی روش نی میں تالش ک ریں‬
‫انشاءہللا ہم کو روشن راہ ملے گی موضوع پر لکھ نے ک ا بنیاد صرف‬
‫یہی ہے کہ آپ ﷺ کی اح ادیث ک و بط ور ثب وت و‬
‫ح ل پیش کیا جاسکے جس سے احکام ات نب وی‬
‫ﷺ و حل واضح ہو‪ .‬ہمارے لئے ہر ای ک ح دیث میں‬
‫زندگی کی پوری تفسیر موج ود ہے جس ک و لکھن ا ش اید ذاتِ واح د‬
‫ہللا تعالی کے عالوہ کسی کے بس کا کام نہیں‪ .‬انسان جت نی بھی‬
‫کوشش کر لے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا جہاں نبی آخ ر الزم ان‬
‫‪.‬ﷺ کی صفات مقدسہ کی آخیر کر سکے‬

You might also like