You are on page 1of 4

‫ایک خاموش دوپہر۔‬

‫بچپن کے وہ قصے اور کہانیاں انسان کو تاحیات یاد رہ جاتی ھیں جو انکی‬
‫حقیقی زندگی میں کسی نہ کسی وجہ سے سامنے آتے ھیں۔ اس میں آپ‬
‫بیتی یا جگ بیتی دونوں اھمیت کی حامل ھوتی ھیں۔ جو واقعہ میں آپ کے‬
‫سامنے رکھ رھا ھوں گو اتنا اھم نہیں ھے‪ ،‬لیکن یہ مجھے آج بھی چار دھایوں‬
‫سے زائد عرصے کے بعد یوں یاد ھے جیسے کل کی بات ھو۔ مجھے کہنے‬
‫دیجیئے کہ میں نے اپنا پچپن بڑامتوازن اور سرگرم گزارا ھے بلکہ یہ کہنا بھی‬
‫بے جا نہ ھوگا کہ زندگی بڑی سرگرم رھی ھے۔ اسکی ایک وجہ تو میرے والد‬
‫کے پیشے کی نوعیت تھی کہ ھمیں بیک وقت شہروں اور قصبوں سے واسطہ‬
‫رھتا تھا۔ میرے والد دراصل انجینیئر تھے۔ متحدہ انڈیا اور بعد میں پاکستان بننے‬
‫کے بعد بھی جہاں جہاں بجلی کی نئی تاریں بچھانے کا کام ھوتا تھا سب‬
‫سے پہلے والد پہنچتے تھے اور اس کے بعد انکے سٹاف کے آنے سے پہلے‬
‫اس بیس کیمپ میں ھم (یعنی میری والدہ اور بڑے بھائی) پہنچتے تھے۔ والد‬
‫نے ھمیشہ اپنی شرط پر گوروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ھر‬
‫کام کے لیئے حاضرھوں لیکن فیملی ساتھ ھوگی۔‬

‫اور سچ پوچھیں گورے اس بات کوبہت پسند کرتے تھے۔‬

‫یہ تو اچھا ھوا والد دوسری جنگ عظیم میں شامل نہیں ھوئے ورنہ ھمارا کیا‬
‫ھوتا ۔۔۔۔‬

‫خیر۔ اس طرح پاکستان بننے کے بعد وہ کچھ عرصہ کے لیئے سندھ میں ایک‬
‫قصبہ جسکا نام کھپرو ھے۔ میر پور خاص سے آگے انڈین بارڈر کی طرف ۔ وھاں‬
‫پر بجلی کی ٹرانسمیشن بچھانے کا کام کر رھے تھے۔ گو میں الھور میں پڑھ‬
‫رھا تھا لیکن میڑک کے بعد کالج جانے سے پہلے جو تین ماہ کی چھٹیاں‬
‫ھوتی ھیں ان میں وھاں والدین کے پاس گیا ھوا تھا۔‬

‫اور یہ واقعہ بھی وہیں پیش آیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے اس واقعہ کا مختصر‬
‫پس منظر سن لیجیئے۔ جب میں میٹرک کا امتحان دے رھا تھا تو میرے‬ ‫ِ‬ ‫سا‬
‫ساتھ میرا ایک کالس فیلو عثمان ھوا کرتا تھا ۔ اسکے والد کسی بنک میں گارڈ‬
‫ھوا کرتے تھے۔ ھم دونوں بہت اچھے دوست تھے۔ عثمان اکثر آدھی چھٹی‬
‫کے لیے گھر سے کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور التا تھا اور میں شائد آٹھ آنے یا‬
‫روپیہ التا تھا اس طرح ھم دونوں مل کر کچھ کھا لیا کرتے تھے۔ ھمارے سائنس‬
‫کے مضامین میں ایک مضمون ایگریکلچر کا ہوتا تھا جب ساالنہ امتحان ھوئے تو‬
‫ہمارا ایگریکلچر پریکٹیکل کسی نہر کے کنارے تھا۔ پریکٹیکل میں یہ حادثہ ہوا کہ‬
‫میرا دوست عثمان پاؤں پھسلنے سے میرے سامنے نہر میں جا گرا۔ ٹیچر‬
‫وغیرہ جو ساتھ تھے سبھی گھبرا گئے۔ ایک کہرام مچ گیا‪ ،‬بھاگ دوڑ مچی‪،‬‬
‫لیکن سب بے سود۔ چند لڑکے جو تیرنا جانتے تھے وہ بھی کودے لیکن عثمان‬
‫نہر میں گرتے ہی جیسے کہیں گم ہو گیا ہو۔‬

‫ہم روتے دھوتے اپنے اساتذہ کے ہمراہ ادھورے پریکٹیکل کے ساتھ گھر واپس آ‬
‫گئے۔ دو اساتذہ وہیں رک گئے پولیس کی وجہ سے۔ کئی ایک دن تک شور مچا‬
‫رھا لیکن عثمان کی نہ تو الش ملی نہ ھی کوئی نشان ۔ کچھ نے کہا کہ وہ‬
‫مر گیا ھے کچھ کہتے تھے کہ وہ ابھی زندہ ھے۔ کچھ عجیب و غریب کہانیوں‬
‫نے بھی جنم لیا لیکن وہ سب ایسی ہی تھیں جنھیں ہم سنی سنائی کہہ‬
‫سکتے ہیں۔‬

‫بھرحال اسی اثنا میں ھمارا رزلٹ آگیا ۔ میں پاس ھو چکا تھا لہذا کالج جانے‬
‫سے پہلے اب کھپرو والدین کے پاس آیا تھا۔ واپسی پر والد صاحب نے مجھے‬
‫خود کالج لے کر آنا تھا۔ اسی لیے بے فکری تھی۔ اور میں اپنی چھٹیاں اس‬
‫قصبے نما شہر میں گزار رھا تھا۔ گرمی کے دن تھے۔ ھم گورنمنٹ کے ایک‬
‫ایسے گھر میں رہ رھے تھے جو دو منزلہ تھا۔ دو کمرے نیچے ایک کمرہ اوپر اور‬
‫ایک چھوٹا سا کمرہ جو سیڑھیوں کے درمیان جسے عرف عام میں میزنائن فلور‬
‫کہتے ھیں پر مشتمل یہ ایک کمپیکٹ سا ِوال تھا ۔ اوپر کا کمرہ بھائی کا تھا‬
‫نیچے والدین تھے تو مجھے عارضی طور پر میزنائین فلور پر یہ چھوٹا سا کمرہ‬
‫دیا گیا تھا جس میں کچھ گھر کا فالتو سامان بھی رکھا ھوا تھا۔ یوں سمجھیئے‬
‫میں سٹور میں رہ رھا تھا۔ میرے کمرے میں داخل ھوتے ھی ایک طرف میرا‬
‫سنگل پلنگ تھا ساتھ ہی ایک چھوٹی سی تپائی جس پر میرا ریڈیو اور چند‬
‫کتابیں۔ پلنگ کے ساتھ ھی میرا بیگ دھرا ھوتا تھا جس سے میں گاھے‬
‫بگاھے اپنے پہنے والے کپڑے نکال لیا کرتا تھا۔ جب میں پلنگ پر لیٹتا تو سامنے‬
‫بالکل دروازہ تھا اسی کے ساتھ ھی ایک منسلک چھوٹی سی کھڑکی جو ھر‬
‫وقت کھلی رھتی تھی۔‬

‫ایک دن دوپر کا وقت تھا۔ میں کھانا کھا کر اوپر اپنے کمرے میں آگیا ۔ مجھ پر آل‬
‫انڈیا ریڈیو سے تین بجے کی فرمائش سننا یوں فرض تھا جیسے زندگی کے‬
‫باقی کام ۔۔۔ ابھی آکر بیٹھا ھی تھا کہ میری والدہ نے مجھے آواز دی اور کہا کہ‬
‫نیچے آؤ۔ میں نیچے گیا تو میری والدہ کے ساتھ میرا اسکول کا گمشدہ دوست‬
‫عثمان کھڑا ھے۔ میں اسے دیکھ کر پہلے تو حیران رہ گیا پھر محبت سے اسے‬
‫مال ۔ والدہ جو پہلے سے ہی حیران و پریشان کھڑی تھیں نے مجھے بتایا‬ ‫گلے ِ‬
‫کہ عثمان کافی دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رھا تھا ۔‬

‫ایک دو منٹ وھیں باتیں کرکے میں اسے اوپر اپنے کمرے میں لے گیا۔ والدہ نے‬
‫اس سے پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے تو اس نے کہا میں کھا کر آیا ھوں۔ میں‬
‫نے کہا چلو یار اچھا ھوا تم آ گئے ھو لیکن یہ بتاؤ تم تو نہر میں ڈوب گئے تھے‬
‫اور پھر تم ملے بھی نہیں۔ تو وہ ھنسنے لگا ۔۔۔ بوال دیکھو تمارے سامنے بیٹھا‬
‫ھوں نا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ھوا تھا۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیسے؟ تمہارا گھر تو‬
‫وہیں بازار میں ہی تھا نا۔ تو کہنے لگا۔۔۔ ہاں ہاں ۔۔۔ اب بھی وہی رہتے ہیں ۔ بس‬
‫تم سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا سو معلوم کرکے یہاں پہنچ گیا۔‬

‫اتنے میں والدہ اوپر ہمیں ٹھنڈا شربت وغیرہ دینے آ گئیں۔ انہوں نے جاتے ہوئے‬
‫اِس سے پوچھا عثمان تم ٹھیک تو ھو نا؟ اس نے کہا ھاں خالہ جان ۔ میں‬
‫بالکل ٹھیک ھوں ۔ والدہ یہ سن کر ہمیں یہ کہتے ھوئے نیچے چلی گئیں اچھا‬
‫تم دونوں اب باتیں کرو۔ اور جاتے ہوئے دروازہ ہلکے سے بند کر دیا۔‬

‫مال تو خوب‬‫میں نے عثمان سے پوچھا‪ ،‬یار تمیں یہ ہمارا گھر اور پتہ کہاں سے ِ‬
‫ہنسا۔ کہنے لگا تم مجھ سے کہیں چھپ نہیں سکتے۔ میں حیران تھا کہ یہ کیا‬
‫کہہ رھا ھے۔ خیر کچھ دیر اور گزری تو میں نے اسے اصرار کیا کہ تم نے ابھی‬
‫تک شربت نہیں پیا تو کہنے لگا لو ابھی پی لیتا ھوں اس نے گالس اٹھایا اور‬
‫منہ تک لے گیا اور پلک جھپکے پر گالس خالی۔‬
‫میں کچھ الجھن میں تو آ چکا تھا لیکن دوست کی قربت اور مالپ سے پیدا‬
‫جذباتی کیفیت مجھ سے میری صالحیتیں چھین چکی تھی۔ ابھی ہم دونوں‬
‫اسی طرح بیٹھے تھے کہ عثمان نے کہا یار تم یہاں کیسے رھتے ہو کتنی‬
‫گرمی ہے یہاں؟‬

‫میں نے کہا یار عثمان سارے قصبے میں گرمی ہو سکتی ھے لیکن میرا یہ‬
‫کمرا تو بہت ٹھنڈا رھتا ھے۔ اور آج تو اور بھی ٹھنڈا لگ رھا ھے۔‬

‫اور پھر میں نے غور کیا کہ جب سے عثمان کمرے میں آیا ھے کمرے میں‬
‫ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا تھا اور ایک عجیب سی مہک بھی فضا میں تھی۔‬

‫میرا یہ کہنا تھا کہ عثمان نے اپنے بازو کو دراز کیا اور دروازہ کھول دیا ۔۔۔ اب‬
‫دروازہ کوئی بستر سے چار فٹ کے فاصلے پر تھا ۔ میں نے اس کے دراز ھوتے‬
‫بازو کو دروازہ کھولتے دیکھا تو میری روح فنا ھوگئی۔ دروازہ کھولنے کے بعد‬
‫اسکا بازو پھر اپنے معمول کے مطابق ھو گیا ۔ میں کچھ پریشان تو پہلے ھی‬
‫ھو چکا تھا‪ ،‬کچھ اسکا انداز اور باتیں سمجھ میں نہیں آرھی تھیں۔ اب اسکی‬
‫حرکت نے مجھے بالکل خوف کی انتہا پر پہنچا دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجھے‬
‫کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھ رھا ھے۔ یوں لگا کہ اسکی آ نکھیں باھر‬
‫نکل آئیں گی۔‬

‫بس اس خیال کے آتے ھی کہ یہ عثمان نہیں ھے کوئی اور ھے ۔۔۔۔ میں نے‬
‫امی کو پکارنے کے لیئے ایک چیخ ماری اور وھیں بے ہوش ھو گیا۔ شام کو جب‬
‫ہوش آیا تو بہت سے لوگ میرے آس پاس کھڑے تھے ۔ ھر شخص مجھ سے‬
‫سوال کرنا چاہتا تھا لیکن امی نے سارا واقعہ انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا ۔ اس‬
‫واقعہ کے بعد کئی ایک دن مجھے بخار رہا۔ والدہ نے مجھے اکیلے کالج میں‬
‫بھجوانے پر منع کر دیا پرایسا ھو نہ سکا۔‬

‫لیکن ایک بات طے ھے کہ انسان بڑا مضبوط عفریت ھے۔ دیکھیئے ابھی بھی‬
‫مجھے سب یاد ھے وہ کون تھی کوئی بدروح یا کوئی بھوت تھا یا کوئی جن‬
‫۔۔۔۔۔ جس نے میرے تخلیے میں زقند بھری یا سب کچھ سپنہ اور کوئی خواب‬
‫تھا۔ میری والدہ کہتی ھیں میں اسکی گواہ ھوں وہ صرف عثمان تھا یا پھر‬
‫اسکی روح ۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔‬

‫نعیم بیگ الہور پاکستان۔‬

‫نوٹ‪ :‬اِس فکشنل کہانی کے واقعات‪ /‬کردار مصنف کے تخیئل کی پیداوار ہیں۔‬
‫کسی سے مماثلت کا مصنف ذمہ دار نہیں۔‬

You might also like