You are on page 1of 5

‫‪........

‬قبل از معافی‬
‫قصہ مختصر ____ سعادت کو پڑھنے کے لیے سوچ میں سعادت کا ہونا الزم ہے‪ ...‬میرے بہیت سے الفاظ آپ احباب کو تہذیب سے‬
‫خالی لگتے ہیں __ کیونکہ میرا یہ ماننا ہے الفاظوں کو عورت کی طرح تہزیب تمیز کا پردہ کروانے کی بجاے‬
‫___ انہیں ان ہی کے حقیقی روپ میں پیش کیا جاے___‬

‫تہذیبی نظریے اکثر میری پوسٹ کے کمنٹس میں مجھے گالی گلوچ کرتے ہیں ذات پر انگلی اٹھاتے ہیں ‪ ...‬مجھے< ان سے کویی ‪.‬‬
‫‪ - - - - - -‬فرق نہیں پڑتا‬

‫کیونکہ جب میں اپنے الفاظ پیش کرتا ہوں تو دوسروں کی ذات کے لیے نہیں ہوتے بلکہ وہ اس حقیقت کے لیے ہوتے ہیں جو اس‬
‫‪....‬معاشرے سے وابسطہ ہیں‬

‫____ اکثریت سے جائزہ لیا ہے حقیقت تلخ لکھا بوال خاموشی سے برداشت کر رہی ہوتی ہے__‬

‫مگر اس حقیقت سے منسلک لوگ کمنٹس میں آؤ بھاؤ کر رہے ہوتے ہیں‪ ....‬ایسا اس لیے ہوتا ہے کہہ وہ لوگ صرف پڑھنا جانتے‬
‫‪،،،،‬ہیں ‪ ..‬سمجھنا< نہیں‬

‫____ میں نے بہیت بار سمجھ< کو الفاظوں کے آگے خاموش پایا ہے___‬

‫میں کویی کمسن بچی ‪ /‬بچہ نہیں جو کمنٹس اور الیکس کے لیے آپ سے خود کو مخاتب کر رہا ہے‪ ..‬میری حقیقت میں میرے آس ‪..‬‬
‫پاس وہی لوگ ہیں جو مجھے برادشت کرتے ہیں‪ ..‬آپ سب احباب منٹو کے مداح کہلوا رہے ہیں خود کو مگر آپ مداح نہیں بلکہ اس‬
‫‪..‬معاشرے کا مُودا ہیں‪ .‬میرا لکھا آپ کو برا لگتا ہے تو مت پڑھیں‬

‫پڑھ کر مزہ بھی لیتے ہو اور پھر دوسروں یہ بتانے )‪...‬میری تربیت پرورش سوچ الفاظ گندے لگتے ہیں تو مجھے ان فولو کریں (‪.‬‬
‫کے لیے کہہ ہم بہیت نیک اور اچھے ہیں کمنٹس میں تمیز کی الئینیں بھی چھاپ< دیتے ہو ___ یہ منافقت< سراسر غلط ہے‬
‫!!‪....‬پیارے‬

‫میرے الفاظ پڑھ کر مجھے پر اپنی تہذیب الگو مت کریں‪ ...‬کویی سٹے پر لگی ہویی عورت بھی نہیں جانتی کہہ اسے کس جیت کا‬
‫‪....‬سودا بننا ہے‬
‫‪...‬سوچ اگر مفلوج ہو تو معاشرہ اپاہج بچے پیدا کرتا ہے‬
‫‪.‬مجھے خدا کے سواء خدا کے عذاب کا بھی خوف نہیں اس لیے مجھے مذہیب جیسے بھوندے پن کا شکار بھی نا کیا جاے‬

‫____ آپ اپنا مزہب اپنی تہذیب تمیز خود تک محدود رکھے میں اپنی عیاری خود تک محفوظ رکھے ہوں‬

‫آپ کے تمیزی درس کی حد ہویی ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کیسی دوسرے کی شروع ہوتی ہے‪ ___ ..‬اس لیے اپنی اپنی حد میں‬
‫رہ کر آپ اپنی تمیز نکھارے مجھے اپنی کے ساتھ رہنے دیں‪ ....‬شرم حیا کے ڈرامے عورتوں کی طرح باتیں آپ اپنی محفلوں میں‬
‫کریں میرے کمنٹس میں نہیں‪ ....‬ادیب پڑھنے کا شوق ہے تو اشفاق جی کو پڑھیں ابن انشاء کو ڈائلوڈ کریں‪ ..‬واصف علی واصف‬
‫یحیی خان کے پاس چلے جائیں‪ ....‬مجھے< آپ لوگوں سے‬‫ٰ‬ ‫کے الئبری جائیں‪ .‬بانو جی کے قاعدے اون الئن گھر منگوا لیں یا پھر بابا‬
‫بہیت کچھ سیکھنے کو مال‪ ..‬تمیز‪ .‬تہذیب‪ .‬حیا‪ .‬اچھایی‪ .‬نیکی‪ .‬انسانیت‪ ...‬میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں‪ ...‬مگر جب ان سب‬
‫___ ٹٹکولیوں کا پردہ اٹھا کر دیکھتا ہوں‬

‫!___ تو ____ تعجب ___کرتا ہوں‬

‫‪Yamsarim baig #‬‬


‫ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺋﮯ‬
‫ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ‬
‫ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮ۔ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺮﺍ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺑﺮﺍ ﺳﻤﺠﮭﺎ‬
‫‪،‬ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ‪ ،‬ﯾﮧ ﺗﻮ ﺳﭻ ﮐﻮ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﻮﺭ ﮨﮯ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﮐﻮﺩ ﺍﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﭻ ﮐﻮ‬
‫ﺑﺎﺋﯿﮟ ﻃﺮﻑ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ‪ ،‬ﭘﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺎ ﺟﻮ ﻃﻮﺭ ﮨﮯ‪ ،‬ﺟﻮ‬
‫ﻃﻮﺭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ‪ ،‬ﻭﮦ ﻋﺠﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ۔‬
‫ﯾﮩﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ‬
‫ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﮨﻮﻧﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ‬
‫ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﻋﻘﻞ ﻭ ﮨﻮﺵ ﮐﯽ‬
‫ﺳﻼﻣﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺖ< ﮐﮯ ﯾﮩﯽ ﻣﻌﻨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﺎﻋﺖ‬
‫ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ‬
‫ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ‬
‫ﺩﺷﻤﻦ ﺍﻭﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﻏﺪﺍﺭ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻥ ﺩﻭ ﻟﻔﻈﻮﮞ‬
‫ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﻔﻆ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔‬
‫ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﺮ ﮔﺮﻭﮦ ﯾﮧ ﮔﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ‬
‫ﺍﺱ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﭽﺎﺋﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﺎﺋﯿﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ‬
‫ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﺎ ﺳﺐ‬
‫ﺳﮯ ﻣﻨﺘﺨﺐ‪ ،‬ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮔﺰﯾﺪﮦ ﮔﺮﻭﮦ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ‬
‫ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺟﻮ ﺳﻔﺮ ﻃﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ‪ ،‬ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺍﻭﺭ‬
‫ﻏﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﻨﺘﺨﺐ‪ ،‬ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮔﺰﯾﺪﮦ‬
‫ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ۔‬
‫ﺗﻢ ﮐﻮﻥ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ؟ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﻤﺎﻥ‪ ،‬ﮨﻤﺎﺭﮮ‬
‫ﺧﯿﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﺍﺋﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﻼ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔‬
‫ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺩﻟﯿﻞ‬
‫ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺣﺠﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺗﻮﮌ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ‬
‫ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺠﺖ‬
‫ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ‬
‫ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺣﺠﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺗﻮﮌ‬
‫ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﮨﻦ ﮐﮯ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﻭﺭ‬
‫ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺠﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ۔‬
‫ﮐﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﻃﻦ ﺳﮯ ﯾﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﻃﻦ ﺳﮯ ﺍﻟﮩﺎﻡ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ‬
‫ﺭﺷﺘﮧ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ‬
‫ﺩﻋﻮﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﭻ‬ ‫ٰ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻧﺲ ﻟﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﻮ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ‬
‫ﺳﻮﭼﺎ۔ ﺳﭻ ﮐﮯﺳﺎﺗﮫ< ﺳﻮﭼﺎ‪ ،‬ﺳﭻ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻝ‬
‫ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﺗﮏ ﺳﭻ ﮨﯽ ﺳﻮﭼﺎ؟‬
‫ﺳﻮﭼﻮ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﮐﯽ ﻧﯿﮏ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻟﻮ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺟﻮ‬
‫ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ‪ ،‬ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﭻ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ‪ ،‬ﻧﮧ ﺗﻢ‬
‫ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺗﺮﮮ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﺮﯾﻒ۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻭﺟﻮﺩ‬
‫ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺸﻘﺖ‬
‫ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﻣﺸﻘﺖ‪ <،‬ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﺮﯾﻔﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺟﻮﺩ‬
‫ﻣﯿﮟ ﻻﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﮨﮯ۔‬
‫ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ‬
‫ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ‬
‫ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﮨﻠﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ؟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ‬
‫ﮐﮧ ﺳﭻ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺩﺳﺘﺎﻭﯾﺰ ﮐﺎ‬
‫ﺍﯾﮏ ﮔﻮﺷﻮﺍﺭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ‬
‫ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺣﺮﯾﻒ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔‬
‫ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺣﻖ ﺗﻮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ‬
‫ﺣﺮﯾﻒ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺣﻖ ﮨﮯ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺍﺳﮯ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ۔ ﺗﻢ ﻭﮦ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﮐﮭﻮ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﺭﺳﺖ‬
‫ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺭﺍﺋﮯ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﯽ‬
‫ﺁﺳﺎﻧﯽ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﻭ ﺟﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﺭﺳﺖ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ۔‬
‫ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ پُر ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ‬
‫‪،‬رہو ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ‬
‫ﺭﯾﺎﮐﺎﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻢ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ‬
‫ﺭﺍﺋﮯ ﮨﮯ ﺭُﻭﺑﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔‬
‫ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ‬
‫ﺑﮯ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺑﻮﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺘﺎﺅ ﮐﮧ‬
‫ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺭﻭﺋﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺁﺧﺮ ﮐﻮﻥ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ‬
‫ﮐﮧ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ‪ ،‬ﻭﮦ ﺗﻮ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ‬
‫ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻧﯿﺖ ﮐﯽ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻞ ﮨﮯ۔‬
‫ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﻮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻻﺅ ﺍﻭﺭ‬
‫ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻋﻮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺴﺎﻁ‬
‫ﺑﭽﮭﺎﺅ۔‬
‫ﺑﺤﺚ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ‬
‫ﮐﺎ ﮨﮯ؟ ﺷﮑﻮﮦ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﺤﺚ ﻧﮩﯿﮟ‬
‫ﮨﻮﺗﯽ۔ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺑﺤﺚ ﮐﮯ ﺧﻮﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔‬
‫ﮨﻢ ﺗﻮ ﺑﺪﮔﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺑﺤﺜﯽ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﯿﮟ۔‬
‫ﺑﺤﺚ‪ ،‬ﺫﮨﻦ ﮐﯽ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪﺍﻧﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﻧﺶ ﺟﻮﯾﺎﻧﮧ ﺣﺎﻟﺖ‬
‫ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺫﮨﻦ ﮐﯽ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪﺍﻧﮧ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺩﺍﻧﺶ ﺟﻮﯾﺎﻧﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﯿﮟ‪ ،‬ﮨﻢ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺫﮨﻦ‬
‫ﮐﯽ ﺍﺱ ﺣﺎﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ‪ ،‬ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ‬
‫ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ‬
‫ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ۔‬
‫ﺁﺅ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ کو پُر ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ سے سمجھ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮐﯽ‬
‫ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻭﮦ ﺭﺷﺘﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﯾﮟ ﺟﻮ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ‬
‫ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺤﺚ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ‪ ،‬ﻭﮦ ﺑﺤﺚ ﺟﻮ‬
‫!___ﺳﭽﺎﺋﯽ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﯽ ﮨﮯ‬
‫‪ #‬جون‬

‫*افسانہ ‪ :‬زندگی کا فن*‬

‫بابا الیاس کو زیادہ بولنے کی عادت نہیں تھی۔وہ دروازوں پر دستک دیتا تھا بس ایک ہی بات کہتا تھا کہ اپنے کام خود کرو ہّٰللا کو‬
‫اپنے کام کرنے دو۔ تو گاؤں کے لوگ اس کو دیوانہ سمجھتے تھے روٹی دے کر کہتے تھے بابا معاف کرو‪ ،‬اور بچے اس کو تنگ‬
‫کرتے تھے‪ ،‬پتھر مارتے تھے اور بال کھینچتے تھے۔ وہ کچھ نہیں کہا کرتے تھے اپنے ساتھ شہادت< کی انگلی آسمان کی طرف‬
‫کرکے بس ایک ہی بات کہتا تھا کہ میں اس کے نقش قدم پر ہوں ۔میں دیوانہ نہیں ہوں۔ بابا الیاس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ‬
‫پاگل نہیں بس اس کو زندگی کا فن سمجھ< میں اگیا تھا اور خاموش ہو گیا تھا۔ بابا الیاس صرف موچی برکت سے بات کرتا تھا۔میں‬
‫شہر سے ‪ 10‬سال بعد واپس آیا تھا‪ ،‬گاؤں بالکی اسی طرح تھا ‪،‬جس طرح چھوڑا تھا۔ یہی تو فرق ہے شہر اور گاؤں میں کہ گاؤں‬
‫میں کچھ بدلتا نہیں اور شہر میں کچھ رکتا نہیں‪ ،‬بابا الیاس فوت ہوچکے تھے۔ موچی برکت شیشم درخت کے سائے میں پرانی چٹائی‬
‫پر خاموشی سے بیٹھے ہوتے تھے۔‬
‫جوتے مرمتی کرتا تھا۔ میں شہر کی مصنوعی زندگی سے بیزار ہو چکا تھا۔اور سکون کی تالش میں واپس اپنے مٹی (گاؤں) آیا تھا‬
‫۔ مجھے بابا الیاس کے مرید موچی برکت کی سرپرستی عطا ہوئی۔ میں روزانہ موچی برکت کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا ‪،‬‬
‫سواالت کرتا رہتا تھا ایک دن میں نے پوچھا برکت چاچا !! بابا الیاس کون تھے آپ پر تو اس کا راز افشاں ہو چکا تھا؟‬
‫اس نے میری طرف دیکھ کر کہا پتر وہ ولی اود فقیر تھا۔ میں نے کہا کہ وہ تو دروازوں پر دستک دیتا تھا ‪ ،‬بھیک مانگتا تھا۔ چاچا‬
‫کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے وجہ پوچھی رونے کی کہ کچھ غلط کہا میں نے؟؟ کہنے لگا پتر ہمارا علم غلط ہوگیا ہے۔ جو‬
‫ہمیں سمجھنا چاہئے وہ ہم نے چھوڑ دیا ہے‪ ،‬جو ہمیں چھوڑنا چاہئے وہ ہم نے سمجھ< لیا۔ فقیر ہّٰللا کے ڈاکیے ہوتے ہیں ‪ ،‬وہ دروازوں‬
‫پر دستک دیتے ہیں یہ حقیقت سمجھانے< کے لئے کہ ہّٰللا رازق ہے۔ جو کام تیرا نہیں ہے وہ تو کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے ہّٰللا کے کام‬
‫اپنے ذمے لئے ہیں اس لئے سکون نہیں ہے۔ سکون کا مختصر کلیہ یہ ہے کہ جو کام تمہارا ہے وہ کام کرو ۔ میں نے پوچھا بابا ہر‬
‫جگہ لڑائی بھی تو رزق کی ہے؟؟ لمبی سانس لے کر کہا آؤ میرے سوہنے دالور یہ لڑائی رزق کی نہیں یہ لڑائی کل تک جمع‬
‫کرنے کی ہے۔ پتر رزق اور توکل پرندوں سے سیکھو جو کل تک جمع کرنے کی سوچ سے آزاد ہے۔ بابا الیاس کو زندگی کا فن‬
‫سمجھ< میں آگیا تھا اس لئے اس کو سکون حاصل تھا۔چاچا‪ <،‬بابا الیاس کو بچے پتھر مارتے تھے‪ ،‬وہ خاموش رہتا تھا‪ ،‬کبھی اس نے‬
‫شکوہ نہیں کیا کیوں؟ بیٹا چاچا نے شہادت< کی انگلی آسمان کی طرف کرکے اشارہ کیا کہ وہ اس ہستی کے نقش قدم پر تھا جس کو‬
‫طائف کے بچوں نے پتھر مارے‪ ،‬خون بہائے اس نے شکوہ نہیں کیا۔ چاچا وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ بیٹا وہ خاموشی کی قدر جان‬
‫چکا تھا اس کو پتہ چل گیا تھا کہ خاموشی آوازوں کی مرشد ہوتی ہے۔ میں گاؤں میں اب رہنے لگا تھا‪ ،‬ایک سال پورا ہونے کو تھا ‪،‬‬
‫میری رسائی صرف موچی برکت تک محدود تھی‪ ،‬جس نے میرے سوچ کو المحدود کر دیا تھا ۔ مجھ پر رشتوں کے بھید کھلنے‬
‫لگے تھے۔ سکون آگیا تھا۔ اس سے پہلے کروڑوں کما لینے کے بعد ‪ ،‬شہر میں زندگی کی ہر خوشی جو ایک انسان سوچتا ہے‬
‫میرے قدموں میں غالموں کی طرح پڑی رہی لیکن میں پھر بھی بے چینی کا غالم تھا۔ شہر سے گاؤں جانے کا فیصلہ میری زندگی‬
‫کا بہترین فیصلہ تھا۔ مہینے میں ایک دو دفعہ بچے اور بیوی مجھ سے ملنے گاؤں آتے تھے ۔ مجھ سے ملنے میری بڑی بیٹی‬
‫شمائلہ آئی تھی جو امریکہ میں اپنے وقت کی مشہور دل کی ڈاکٹر تھی۔ایک صبح میں الن میں کرسی پر بیٹھا کبوتروں کو گندم کے‬
‫دانہ ڈال رہا تھا‪ ،‬پاس آکر بیٹھ گئی۔ کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی ابو انسان کو بدلنے میں وقت کیوں نہیں لگتا؟؟ بہت‬
‫جلد بدل جاتا ہے رشتے بھول جاتا ہے۔ وقت کو بھی مات دے دیتا ہے۔ ابو آپ جانتے ہیں جب سے آپ گاؤں آئے ہیں ہماری زندگیوں‬
‫میں ایک خال سا پیدا ہو گیا ہے۔مجھے ایک مہینہ ہوگیا ہے امریکہ سے واپس آئے ہوئے ایسے لگتا ہے کئی سال ہو گئے ہیں۔ امی‬
‫سارا دن خود کو مصروف رکھتی ہے ۔ سب بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مصروف ہے ‪ ،‬کسی کو دینے کے لئے اور سننے کے لئے‬
‫وقت نہیں‪ ،‬مجھ سے آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تم امریکہ میں اکیلی مسلمان عورت کیسے وقت گزارتی ہو۔عبادت کیسے‬
‫کرتی ہو ‪ ،‬غیر مسلموں کا رویہ کیسے ہیں ہمیں یاد کرتی ہیں کہ نہیں ابو ہم اتنا دور کیوں ہوتے جارہے ہیں ایک گھر میں رہ کر‬
‫بھی۔ میں نے میز پر وہ برتن رکھ دی جس میں دانے تھے۔ شمائلہ بیٹی ‪ ،‬انسان کے اندر سالوں سے طوفان برپا رہتا ہے۔ وہ روز‬
‫خود سے شکست کھا کر روز جینے کے لئے اٹھتا ہے۔ اور جو بار بار شکست کھا کر اٹھتا ہے وہ ایک روز کامیاب< ہو جاتا ہے۔‬
‫‪9‬دنیا اس کو پل میں بدلنا کہتی ہے ‪ ،‬لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ آج سے ایک سال پہلے میرا شمار پاکستان کے پہلے‬
‫پانچ امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا لیکن میری مثال ایک بے گھر خانہ بدوش سے بھی بدتر تھا۔ کیونکہ میں سکون سے محروم تھا ۔‬
‫میری بیٹی یہ کبوتروں کو دیکھ رہی ہو ‪ ،‬یہ توکل کی بہترین مثال ہیں‪ ،‬کل کی فکر نہیں رزق کے معاملے میں ۔ انسان کو سب‬
‫رشتوں سے بیگانہ کرنے والی جو واحد چیز ہے وہ ہے کل کی فکر رزق کے معاملے< میں۔ انسانوں کی ساری خوبیاں پرندوں میں‬
‫پائی جاتی ہے جو انسانوں میں ہونی چاہئے وہ پرندوں میں ہیں اور جو پرندوں میں ہونی چاہئے وہ انسانوں میں ہیں۔ ابو ایک بات‬
‫بولو !! ناراض نہیں ہونا‪ ،‬جی کہو۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر اتنا سکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہی‬
‫ہوں ۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کی وجہ موچی برکت ہے۔ وہ کون ہے ابو‪ ،‬شمائلہ بیٹی وہ ولی اور فقیر ہے۔ ابو فقیر جو دروازوں پر‬
‫دستک دیتا ہے ‪ ،‬بھیک مانگتا ہے۔ میرے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ابو آپ رو کیوں رہے ہیں کچھ غلط کہا میں نے؟؟ میں نے کہا بیٹی‬
‫یہی سوال میں نے موچی برکت سے کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے جب میں نے اپنی‬
‫العلمی میں یہ جواب دیا تھا۔شمائلہ ششدر رہ گئی۔ میں نے کہا بیٹی ہمارا علم غلط ہوگیا ہے۔ جو ہمیں سمجھنا چاہئے وہ چھوڑ دیا ‪،‬‬
‫جو چھوڑنا چاہئے وہ سمجھ لیا ہے۔ فقیر ہّٰللا کے ڈاکیے ہوتے ہیں ‪ ،‬وہ دروازوں پر دستک دیتے ہیں یہ حقیقت سمجھانے کے لئے کہ‬
‫ہّٰللا رازق ہے۔ جو کام تیرا نہیں ہے وہ تو کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے ہّٰللا کے کام اپنے ذمے لئے ہیں اس لئے سکون نہیں ہے۔ سکون کا‬
‫مختصر کلیہ یہ ہے کہ جو تمہارا کام ہے وہ کرو ۔ ابو یہ ہر جگہ لڑائی بھی تو رزق کی ہے؟؟ بیٹی یہ لڑائی رزق کی نہیں یہ کل‬
‫تک زیادہ جمع کرنے کی ہے۔ اور موچی برکت کو زندگی کا فن سمجھ< میں آگیا ہے اس لئے اس کو سکون حاصل ہے۔شمائلہ چونک‬
‫کر کہنے لگی ابو میں تو گیس پر چائے رکھ کر بھول گئی ہوں تیزی سے اٹھ کر چلی گئی۔ اگلی صبح شمائلہ نے جانا تھا کیونکہ اس‬
‫کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھی واپس جانے کی تیاری بھی کرنی تھی۔ صبح کہنے لگی ابو میں نے زندگی کا فن کبوتروں سے سیکھ‬
‫لیا۔ میں شہر کی مصنوعی زندگی سے بیزار ہو گئی ہوں۔‬
‫‪----------------‬‬
‫دعاء فيض احمد فيض‬
‫آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی‬
‫ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں‬
‫ہم جنہیں سوز محبت کے سوا‬
‫کوئی بت کئی خدا یاد نہیں‬

‫آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی‬


‫زہر امروز میں شیرینی فردا بھر دے‬
‫وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں‬
‫ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے‬
‫جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں‬
‫ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے‬
‫جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں‬
‫ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے‬

‫جن کا دیں پیروئ کذب و ریا ہے ان کو‬


‫ہمت کفر ملے جرأت تحقیق ملے‬
‫جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو‬
‫دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے‬

‫عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے‬


‫آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے‬
‫حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح‬
‫آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے‬

You might also like