Professional Documents
Culture Documents
Document
Document
قبل از معافی
قصہ مختصر ____ سعادت کو پڑھنے کے لیے سوچ میں سعادت کا ہونا الزم ہے ...میرے بہیت سے الفاظ آپ احباب کو تہذیب سے
خالی لگتے ہیں __ کیونکہ میرا یہ ماننا ہے الفاظوں کو عورت کی طرح تہزیب تمیز کا پردہ کروانے کی بجاے
___ انہیں ان ہی کے حقیقی روپ میں پیش کیا جاے___
تہذیبی نظریے اکثر میری پوسٹ کے کمنٹس میں مجھے گالی گلوچ کرتے ہیں ذات پر انگلی اٹھاتے ہیں ...مجھے< ان سے کویی .
- - - - - -فرق نہیں پڑتا
کیونکہ جب میں اپنے الفاظ پیش کرتا ہوں تو دوسروں کی ذات کے لیے نہیں ہوتے بلکہ وہ اس حقیقت کے لیے ہوتے ہیں جو اس
....معاشرے سے وابسطہ ہیں
____ اکثریت سے جائزہ لیا ہے حقیقت تلخ لکھا بوال خاموشی سے برداشت کر رہی ہوتی ہے__
مگر اس حقیقت سے منسلک لوگ کمنٹس میں آؤ بھاؤ کر رہے ہوتے ہیں ....ایسا اس لیے ہوتا ہے کہہ وہ لوگ صرف پڑھنا جانتے
،،،،ہیں ..سمجھنا< نہیں
____ میں نے بہیت بار سمجھ< کو الفاظوں کے آگے خاموش پایا ہے___
میں کویی کمسن بچی /بچہ نہیں جو کمنٹس اور الیکس کے لیے آپ سے خود کو مخاتب کر رہا ہے ..میری حقیقت میں میرے آس ..
پاس وہی لوگ ہیں جو مجھے برادشت کرتے ہیں ..آپ سب احباب منٹو کے مداح کہلوا رہے ہیں خود کو مگر آپ مداح نہیں بلکہ اس
..معاشرے کا مُودا ہیں .میرا لکھا آپ کو برا لگتا ہے تو مت پڑھیں
پڑھ کر مزہ بھی لیتے ہو اور پھر دوسروں یہ بتانے )...میری تربیت پرورش سوچ الفاظ گندے لگتے ہیں تو مجھے ان فولو کریں (.
کے لیے کہہ ہم بہیت نیک اور اچھے ہیں کمنٹس میں تمیز کی الئینیں بھی چھاپ< دیتے ہو ___ یہ منافقت< سراسر غلط ہے
!!....پیارے
میرے الفاظ پڑھ کر مجھے پر اپنی تہذیب الگو مت کریں ...کویی سٹے پر لگی ہویی عورت بھی نہیں جانتی کہہ اسے کس جیت کا
....سودا بننا ہے
...سوچ اگر مفلوج ہو تو معاشرہ اپاہج بچے پیدا کرتا ہے
.مجھے خدا کے سواء خدا کے عذاب کا بھی خوف نہیں اس لیے مجھے مذہیب جیسے بھوندے پن کا شکار بھی نا کیا جاے
____ آپ اپنا مزہب اپنی تہذیب تمیز خود تک محدود رکھے میں اپنی عیاری خود تک محفوظ رکھے ہوں
آپ کے تمیزی درس کی حد ہویی ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کیسی دوسرے کی شروع ہوتی ہے ___ ..اس لیے اپنی اپنی حد میں
رہ کر آپ اپنی تمیز نکھارے مجھے اپنی کے ساتھ رہنے دیں ....شرم حیا کے ڈرامے عورتوں کی طرح باتیں آپ اپنی محفلوں میں
کریں میرے کمنٹس میں نہیں ....ادیب پڑھنے کا شوق ہے تو اشفاق جی کو پڑھیں ابن انشاء کو ڈائلوڈ کریں ..واصف علی واصف
یحیی خان کے پاس چلے جائیں ....مجھے< آپ لوگوں سےٰ کے الئبری جائیں .بانو جی کے قاعدے اون الئن گھر منگوا لیں یا پھر بابا
بہیت کچھ سیکھنے کو مال ..تمیز .تہذیب .حیا .اچھایی .نیکی .انسانیت ...میں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ...مگر جب ان سب
___ ٹٹکولیوں کا پردہ اٹھا کر دیکھتا ہوں
بابا الیاس کو زیادہ بولنے کی عادت نہیں تھی۔وہ دروازوں پر دستک دیتا تھا بس ایک ہی بات کہتا تھا کہ اپنے کام خود کرو ہّٰللا کو
اپنے کام کرنے دو۔ تو گاؤں کے لوگ اس کو دیوانہ سمجھتے تھے روٹی دے کر کہتے تھے بابا معاف کرو ،اور بچے اس کو تنگ
کرتے تھے ،پتھر مارتے تھے اور بال کھینچتے تھے۔ وہ کچھ نہیں کہا کرتے تھے اپنے ساتھ شہادت< کی انگلی آسمان کی طرف
کرکے بس ایک ہی بات کہتا تھا کہ میں اس کے نقش قدم پر ہوں ۔میں دیوانہ نہیں ہوں۔ بابا الیاس کے چہرے سے پتہ چلتا تھا کہ وہ
پاگل نہیں بس اس کو زندگی کا فن سمجھ< میں اگیا تھا اور خاموش ہو گیا تھا۔ بابا الیاس صرف موچی برکت سے بات کرتا تھا۔میں
شہر سے 10سال بعد واپس آیا تھا ،گاؤں بالکی اسی طرح تھا ،جس طرح چھوڑا تھا۔ یہی تو فرق ہے شہر اور گاؤں میں کہ گاؤں
میں کچھ بدلتا نہیں اور شہر میں کچھ رکتا نہیں ،بابا الیاس فوت ہوچکے تھے۔ موچی برکت شیشم درخت کے سائے میں پرانی چٹائی
پر خاموشی سے بیٹھے ہوتے تھے۔
جوتے مرمتی کرتا تھا۔ میں شہر کی مصنوعی زندگی سے بیزار ہو چکا تھا۔اور سکون کی تالش میں واپس اپنے مٹی (گاؤں) آیا تھا
۔ مجھے بابا الیاس کے مرید موچی برکت کی سرپرستی عطا ہوئی۔ میں روزانہ موچی برکت کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا ،
سواالت کرتا رہتا تھا ایک دن میں نے پوچھا برکت چاچا !! بابا الیاس کون تھے آپ پر تو اس کا راز افشاں ہو چکا تھا؟
اس نے میری طرف دیکھ کر کہا پتر وہ ولی اود فقیر تھا۔ میں نے کہا کہ وہ تو دروازوں پر دستک دیتا تھا ،بھیک مانگتا تھا۔ چاچا
کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے وجہ پوچھی رونے کی کہ کچھ غلط کہا میں نے؟؟ کہنے لگا پتر ہمارا علم غلط ہوگیا ہے۔ جو
ہمیں سمجھنا چاہئے وہ ہم نے چھوڑ دیا ہے ،جو ہمیں چھوڑنا چاہئے وہ ہم نے سمجھ< لیا۔ فقیر ہّٰللا کے ڈاکیے ہوتے ہیں ،وہ دروازوں
پر دستک دیتے ہیں یہ حقیقت سمجھانے< کے لئے کہ ہّٰللا رازق ہے۔ جو کام تیرا نہیں ہے وہ تو کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے ہّٰللا کے کام
اپنے ذمے لئے ہیں اس لئے سکون نہیں ہے۔ سکون کا مختصر کلیہ یہ ہے کہ جو کام تمہارا ہے وہ کام کرو ۔ میں نے پوچھا بابا ہر
جگہ لڑائی بھی تو رزق کی ہے؟؟ لمبی سانس لے کر کہا آؤ میرے سوہنے دالور یہ لڑائی رزق کی نہیں یہ لڑائی کل تک جمع
کرنے کی ہے۔ پتر رزق اور توکل پرندوں سے سیکھو جو کل تک جمع کرنے کی سوچ سے آزاد ہے۔ بابا الیاس کو زندگی کا فن
سمجھ< میں آگیا تھا اس لئے اس کو سکون حاصل تھا۔چاچا <،بابا الیاس کو بچے پتھر مارتے تھے ،وہ خاموش رہتا تھا ،کبھی اس نے
شکوہ نہیں کیا کیوں؟ بیٹا چاچا نے شہادت< کی انگلی آسمان کی طرف کرکے اشارہ کیا کہ وہ اس ہستی کے نقش قدم پر تھا جس کو
طائف کے بچوں نے پتھر مارے ،خون بہائے اس نے شکوہ نہیں کیا۔ چاچا وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ بیٹا وہ خاموشی کی قدر جان
چکا تھا اس کو پتہ چل گیا تھا کہ خاموشی آوازوں کی مرشد ہوتی ہے۔ میں گاؤں میں اب رہنے لگا تھا ،ایک سال پورا ہونے کو تھا ،
میری رسائی صرف موچی برکت تک محدود تھی ،جس نے میرے سوچ کو المحدود کر دیا تھا ۔ مجھ پر رشتوں کے بھید کھلنے
لگے تھے۔ سکون آگیا تھا۔ اس سے پہلے کروڑوں کما لینے کے بعد ،شہر میں زندگی کی ہر خوشی جو ایک انسان سوچتا ہے
میرے قدموں میں غالموں کی طرح پڑی رہی لیکن میں پھر بھی بے چینی کا غالم تھا۔ شہر سے گاؤں جانے کا فیصلہ میری زندگی
کا بہترین فیصلہ تھا۔ مہینے میں ایک دو دفعہ بچے اور بیوی مجھ سے ملنے گاؤں آتے تھے ۔ مجھ سے ملنے میری بڑی بیٹی
شمائلہ آئی تھی جو امریکہ میں اپنے وقت کی مشہور دل کی ڈاکٹر تھی۔ایک صبح میں الن میں کرسی پر بیٹھا کبوتروں کو گندم کے
دانہ ڈال رہا تھا ،پاس آکر بیٹھ گئی۔ کچھ وقت خاموش رہنے کے بعد کہنے لگی ابو انسان کو بدلنے میں وقت کیوں نہیں لگتا؟؟ بہت
جلد بدل جاتا ہے رشتے بھول جاتا ہے۔ وقت کو بھی مات دے دیتا ہے۔ ابو آپ جانتے ہیں جب سے آپ گاؤں آئے ہیں ہماری زندگیوں
میں ایک خال سا پیدا ہو گیا ہے۔مجھے ایک مہینہ ہوگیا ہے امریکہ سے واپس آئے ہوئے ایسے لگتا ہے کئی سال ہو گئے ہیں۔ امی
سارا دن خود کو مصروف رکھتی ہے ۔ سب بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مصروف ہے ،کسی کو دینے کے لئے اور سننے کے لئے
وقت نہیں ،مجھ سے آج تک کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ تم امریکہ میں اکیلی مسلمان عورت کیسے وقت گزارتی ہو۔عبادت کیسے
کرتی ہو ،غیر مسلموں کا رویہ کیسے ہیں ہمیں یاد کرتی ہیں کہ نہیں ابو ہم اتنا دور کیوں ہوتے جارہے ہیں ایک گھر میں رہ کر
بھی۔ میں نے میز پر وہ برتن رکھ دی جس میں دانے تھے۔ شمائلہ بیٹی ،انسان کے اندر سالوں سے طوفان برپا رہتا ہے۔ وہ روز
خود سے شکست کھا کر روز جینے کے لئے اٹھتا ہے۔ اور جو بار بار شکست کھا کر اٹھتا ہے وہ ایک روز کامیاب< ہو جاتا ہے۔
9دنیا اس کو پل میں بدلنا کہتی ہے ،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ آج سے ایک سال پہلے میرا شمار پاکستان کے پہلے
پانچ امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا لیکن میری مثال ایک بے گھر خانہ بدوش سے بھی بدتر تھا۔ کیونکہ میں سکون سے محروم تھا ۔
میری بیٹی یہ کبوتروں کو دیکھ رہی ہو ،یہ توکل کی بہترین مثال ہیں ،کل کی فکر نہیں رزق کے معاملے میں ۔ انسان کو سب
رشتوں سے بیگانہ کرنے والی جو واحد چیز ہے وہ ہے کل کی فکر رزق کے معاملے< میں۔ انسانوں کی ساری خوبیاں پرندوں میں
پائی جاتی ہے جو انسانوں میں ہونی چاہئے وہ پرندوں میں ہیں اور جو پرندوں میں ہونی چاہئے وہ انسانوں میں ہیں۔ ابو ایک بات
بولو !! ناراض نہیں ہونا ،جی کہو۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں آپ کے ساتھ بیٹھ کر اتنا سکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہی
ہوں ۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ اس کی وجہ موچی برکت ہے۔ وہ کون ہے ابو ،شمائلہ بیٹی وہ ولی اور فقیر ہے۔ ابو فقیر جو دروازوں پر
دستک دیتا ہے ،بھیک مانگتا ہے۔ میرے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ابو آپ رو کیوں رہے ہیں کچھ غلط کہا میں نے؟؟ میں نے کہا بیٹی
یہی سوال میں نے موچی برکت سے کیا تھا جو تم نے مجھ سے کیا اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے تھے جب میں نے اپنی
العلمی میں یہ جواب دیا تھا۔شمائلہ ششدر رہ گئی۔ میں نے کہا بیٹی ہمارا علم غلط ہوگیا ہے۔ جو ہمیں سمجھنا چاہئے وہ چھوڑ دیا ،
جو چھوڑنا چاہئے وہ سمجھ لیا ہے۔ فقیر ہّٰللا کے ڈاکیے ہوتے ہیں ،وہ دروازوں پر دستک دیتے ہیں یہ حقیقت سمجھانے کے لئے کہ
ہّٰللا رازق ہے۔ جو کام تیرا نہیں ہے وہ تو کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے ہّٰللا کے کام اپنے ذمے لئے ہیں اس لئے سکون نہیں ہے۔ سکون کا
مختصر کلیہ یہ ہے کہ جو تمہارا کام ہے وہ کرو ۔ ابو یہ ہر جگہ لڑائی بھی تو رزق کی ہے؟؟ بیٹی یہ لڑائی رزق کی نہیں یہ کل
تک زیادہ جمع کرنے کی ہے۔ اور موچی برکت کو زندگی کا فن سمجھ< میں آگیا ہے اس لئے اس کو سکون حاصل ہے۔شمائلہ چونک
کر کہنے لگی ابو میں تو گیس پر چائے رکھ کر بھول گئی ہوں تیزی سے اٹھ کر چلی گئی۔ اگلی صبح شمائلہ نے جانا تھا کیونکہ اس
کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھی واپس جانے کی تیاری بھی کرنی تھی۔ صبح کہنے لگی ابو میں نے زندگی کا فن کبوتروں سے سیکھ
لیا۔ میں شہر کی مصنوعی زندگی سے بیزار ہو گئی ہوں۔
----------------
دعاء فيض احمد فيض
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کئی خدا یاد نہیں