You are on page 1of 29

‫‪1|Page‬‬

‫آداب تعلیم وتربیت‬


‫تعلیم وتربیت کی اہمیت وفضیلت اور کامیاب معلم کے اوصاف پر کچھ روشنی ڈالنے‬
‫کے بعدمناسب معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم وتربیت کے آداب و طرق پر کچھ روشنی ڈالی جائے‪،‬‬
‫ممکن ہے کہ ہمارے اساتذۂ کرام اور خاص طور سے نئے فارغین وفارغات اس سے استفادہ‬
‫کریں اور ان کا تدریس وتعلیم کا عمل کامیاب اور بارآور ثابت ہو‪،‬اور ترقی ان کی قدم بوسی‬
‫کرے۔‬

‫(‪)۱‬کالس میں آنے سے قبل درس کی تیاری او رمطالعہ کرنا ‪:‬‬


‫اساتذہ اور معلّمات کوکالس میں تدریس كے لئے جانے سے قبل جو سبق پڑھانا ہے اس‬
‫كے لئے اچھی طرح تیاری اورمطالعہ کرنا چاہئے‪ ،‬اس کی عبارت کو اچھی طرح حل کرنا‬
‫اور سمجھنا چاہئے ۔ اس کے مسائل اور مضامین کو ذہن نشین کرنا چاہئے ۔مشکل الفاظ کے‬
‫معانی ‪ ،‬واحد‪ ،‬جمع‪ ،‬جملوں میں استعمال وغیرہ کو جاننا چاہئے ‪ ،‬اورکسی لفظ اور عبارت کو‬
‫حتی االمکان غیر مفہوم نہیں رہنے دینا چاہئے ‪ ،‬کسی درس کو بغیر سمجھے اور بغیر‬
‫سبِ ْيلِ ْی أَ ْدعُو إِلَی هّللا ِ َعلَی‬
‫معرفت و بصیرت کے پڑھانا غلط ہے ۔جیسا کہ آیت کریمہ‪  :‬قُ ْل َه ِذ ِه َ‬
‫ص ْي َر ٍة أَنَاْ َو َم ِن اتَّبَ َعنِ ْی‪(  ‬يوسف‪ )١٠٨ :‬اس کی واضح د لیل ہے۔‬ ‫بَ ِ‬
‫ان إِ ْث ُمهُ َعلَى َمنْ أَ ْفتَاهُ‪‘‘ ‬‬‫اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪َ  ’’:‬منْ أُ ْفتِ َى بِ َغ ْي ِر ِع ْل ٍم َك َ‬
‫(رواہ ابو داود والدارمی‪ ،‬و قال األلبانی‪ :‬سندہ حسن ‪.‬مشکاۃ‪۱:‬؍‪)۸۱‬جس نے بغیر علم کے کوئی‬
‫ٰ‬
‫فتوی دینے والے پر ہوگا۔‬ ‫ٰ‬
‫فتوی دیا تو اس کا گناہ‬
‫مطالعہ سے جہاں علم وبصیرت حاصل‪ q‬ہوتی ہے وہیں استاد جب مطالعہ اور سبق کی‬
‫تیاری پہلے سے کر کے کالس میں پڑھانے جاتا ہے تو اسے اپنے اوپر مکمل اعتماد ہو تا‬
‫ہے‪ ،‬اور وہ پورے اطمینا ن اور انشراح صدر کے ساتھ پڑھا تا ہے ۔اور اگر پہلے سے‬
‫مطالعہ اور تیاری نہیں کی ہے تو اسے اطمینان نہیں ہوتا۔اورہر وقت اسے خوف لگا رہتا ہے‬
‫کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی عبارت حل نہ کرسکوں‪،‬کوئی مسئلہ طلبہ پوچھ لیں اور میں نہ بتا‬
‫سکوں ‪،‬اس طرح وہ پورے درس میں پریشان رہتا ہے ۔ اور اگر کبھی کوئی مسئلہ صحیح‬
‫طریقہ سے نہیں جانتا اوراٹکل سے بتا دیا اور غلطی ہو گئی تو گناہ کے ساتھ اس کا انکشاف‬
‫ہو نے پر اس کے علمی وقار کو بھی نقصان پہنچے گا ۔ اور طلبہ کا اس پر اعتماد ختم ہو‬
‫جائے گا۔‬
‫پرانے اور تجربہ کار اساتذہ کو بھی مطالعہ اور درس کی تیاری کا اہتمام کرنا چاہئے‪،‬اور‬
‫کبھی اس خوش فہمی میں مطالعہ ترک نہیں کرنا چاہئے کہ یہ مضمون یا کتاب ہم بہت دنوں‬
‫سے پڑھاتے ہیں اور ساری باتیں ہمیں یاد ہیں اور اب مطالعہ کی ضرورت نہیں‪ ،‬کیونکہ‬
‫کبھی پرانے اساتذہ بھی مطالعہ نہ کرنے کی صورت میں بعض عبارتوں میں پھنس جاتے ہیں‬
‫اور اسی طرح بعض مسائل بروقت یاد نہیں آتے جس سے انہیں بڑی شرمندگی اٹھانی پڑتی‬
‫ہے‪ ،‬اس واسطے تمام اساتذہ ومعلّمات کودرس کی تیا ر ی اور مطالعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔‬
‫مصادر ومراجع اور اپنے مضامین كے لئے معاون چیزوں کے حاصل کرنے کا اہتمام کرنا‪:‬‬
‫اس موقع پر اساتذہ ومعلّمات سے یہ گذارش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ انھیں اپنے مضامین‬
‫سے متعلق مصادر و مراجع اور معاون چیزوں کو ضرور رکھنا چاہئے۔اگر وہ ان مصادر‬
‫ومراجع کو خرید سکتے ہوں تو بہتر ہے‪ ،‬ورنہ مدرسہ کے مکتبہ سے حاصل کرلیں‪ ،‬ہر‬
‫مدرس کی کوشش ہونی چاہئے کہ جن کتابوں کی عموما ً اسے ضرورت پڑتی ہے ‪،‬جیسے‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪2|Page‬‬

‫لغت کی کتابیں ‪،‬نقشے ‪ ،‬شرحیں وغیرہ انھیں خرید لے‪ ،‬تاکہ جہاں بھی رہے ان سے استفادہ‬
‫کرے اور کسی سے اسے مانگنا نہ پڑے۔‬
‫‪ ‬دنیا کے تمام پیشے کے لوگ اپنے اوزار اورضروری سامان خو دخرید کر رکھتے ہیں‪،‬‬
‫چنانچہ بڑھئی کے پاس اس کے اوزار‪ ،‬لوہار کے پاس اس کے اوزار‪،‬راجگیرکے پاس اس‬
‫کے اوزار‪ ،‬اسی طرح تمام کام کرنے والوں کے پاس عموما ً ان کے اوزار رہتے ہیں ‪،‬اسی‬
‫طرح اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنے پیشۂ تدریس سے متعلق ضروری سامان اور کتابیں‬
‫وغیرہ رکھنا چاہئے‪ ،‬اس سے انھیں کافی سہولت ہو گی اور پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑ‬
‫ے گا ۔‬
‫کبھی ایک مدرس کو ایسے مدرسہ میں پڑھانا پڑتا ہے جہاں خاطر خواہ اور حسب ضرورت‬
‫مراجع اور کتابیں نہیں ہوتیں‪ ،‬یا بعض کتابوں کے صرف ایک دو نسخے ہوتے ہیں اور‬
‫دوسرے اساتذہ پہلے نکلوالیتے ہیں تواس کو پریشانی ہوتی ہے ۔اوراگر اس کی ذاتی کتابیں‬
‫ہوں تو وہ گھر‪،‬مدرسہ اور سفر وحضر ہر جگہ ان سے استفادہ کرسکتا ہے۔اور مختلف‬
‫مصادر ومراجع کے مطالعہ سے حاصل ہونے والی معلومات اور ان کے حوالہ جات کو بھی‬
‫وہ ان کے حاشیہ میں درج کرسکتا ہے‪ ،‬جبکہ مدرسہ وغیرہ کی کتابوں میں یہ ساری سہولتیں‬
‫نہیں ہوتیں‪ ،‬اور اگر کچھ اہم معلومات نوٹ بھی کرلیں تو دوسرے سال وہ کتاب کسی دوسرے‬
‫کے پاس چلی جاتی ہے اور ساری محنت اکارت ہو جاتی ہے۔‬
‫بہر حال اساتذہ کو اپنے مضامین سے متعلق معاون کتابیں اور اہم مصادر ومراجع کو‬
‫خریدنے اور ا پنے پاس رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ‪،‬اس سے انہیں تعلیم وتربیت میں بڑی‬
‫مدد ملے گی اور کافی سہولت ہوگی۔‬
‫مطالعہ کا طریقہ‪:‬‬
‫مطالعہ شروع کرنے سے قبل معاون کتابیں اور قلم کاغذ وغیرہ اپنے پاس رکھ لینا چاہئے ‪،‬‬
‫تاکہ ضروری باتیں مطالعہ کے وقت نوٹ کر سکیں اور مطلوبہ معلومات کم سے کم وقت‬
‫میں حاصل کر سکیں ۔‬
‫ضروری معلومات اپنی ذاتی کتاب کے حاشیہ پر یا مستقل کاپی اور نوٹ بک میں مختصراً‬
‫لکھ لینا چاہئے ۔ مفصل اور طویل مسائل کے مصادر اور حوالہ جات مع جلد اور صفحہ نوٹ‬
‫کرلینا چاہئے‪،‬تاکہ دوبارہ مراجعہ اورمطالعہ میں سہولت ہو ‪،‬مطالعہ کے وقت ایسی جگہ نہیں‬
‫بیٹھنا چاہئے جہاں شور و غل یا کوئی اورڈسٹرب کرنے والی چیزہو ‪،‬تاکہ ذہن باربارمنتشرنہ‬
‫ہو‪،‬چنانچہ کھڑکی کے پاس یا ایسی جگہ جہاں لوگ بیٹھ کر باتیں اور گپ شپ کرتے ہوں‬
‫مطالعہ کرنا قطعا ً مناسب نہیں ۔مطالعہ نشاط کی حالت‪ q‬میں اورمناسب وقت پر کریں‪،‬سخت‬
‫تھکے ہونے یاپریشانی یانیند اور ذہنی انتشار کی حالت میں مطالعہ کرنا بے کار ہے ۔ اسی‬
‫طرح مناسب روشنی اور مناسب وقت کابھی لحاظ کرنا چاہئے‪ ،‬اندھیرے میں یا سخت دھوپ‬
‫اور گرمی میں یا سخت سردی میں مطالعہ کرنا ٹھیک نہیں ۔‬
‫مطالعہ کے وقت جونئی باتیں ذہن میں آئیں انہیں بر وقت لکھ لینا چاہئے‪ ،‬تاکہ نسیان کی وجہ‬
‫سے بعد میں لکھنے میں پریشانی نہ ہو۔‬
‫جو باتیں گھر پر مطالعہ سے حل نہ کر سکیں اور اس کے متعلق کوئی کتاب مدرسے کی‬
‫الئبریری میں ہو تو درس سے پہلے ہی وہاں جا کر مطالعہ کر لینا چاہئے۔‬
‫دوسرے اساتذہ سے استفادہ کرنا‪:‬‬
‫ذاتی مطالعہ اور غور و فکر سے اگرکوئی مسئلہ یا عبارت حل نہ ہو سکے تو با صالحیت‬
‫اساتذہ اور دوسرے علماء کرام سے پوچھ لینا چاہئے ۔اس‬
‫سلسلہ میں جس سے بھی تعاون مل سکے اور مسئلہ حل ہو سکے اس سے پوچھ لینا ہرگز‬
‫معیوب نہیں‪،‬حتی کہ چھوٹے اساتذہ اور تالمذہ سے بھی بعض مسائل کے پوچھ لینے میں‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪3|Page‬‬

‫ون‪(  ‬النحل‪ )٤٣ :‬اگر تمہیں‬ ‫الذ ْک ِر إِن ُکنتُ ْم الَ تَ ْعلَ ُم َ‬ ‫سأَلُو ْا أَ ْه َل ِّ‬‫کوئی حرج نہیں ۔ فرمان ٰالہی ‪  :‬فَا ْ‬
‫علم نہ ہو تواہل علم سے پوچھ لو ۔ میں عموم ہے اور محدثین کرام کے یہاں‪’’ ‬رواية االکابر‬
‫عن االصاغر‘‘ معلوم و معروف ہے۔‬
‫ابو بکر عبد ہللا بن زبیر الحمیدی جوامام شافعی رحمہ هللا کے شاگرد ہیں فرماتے ہیں کہ میں‬
‫مکہ سے مصر تک امام شافعی رحمہ هللا کے ساتھ رہا ‪ ،‬میں ان سے مسائل کے سلسلہ میں‬
‫استفادہ کرتا تھا اورو ہ مجھ سے حدیث کے سلسلہ میں استفادہ کرتے تھے۔ اور امام احمد بن‬
‫حنبل رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام شافعی رحمہ هللا نے کہا ‪ :‬تم لوگ حدیث کے‬
‫بارے میں مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہو ‪،‬اس واسطے جب تمہارے نزدیک کوئی حدیث‬
‫صحیح ہو جائے تو ہمیں بتادو تاکہ ہم اس کو لے سکیں ۔اور صحابہ کرام ‪ ‬رضى هللا عنہم کی‬
‫ایک جماعت کا تابعین سے روایت کرنا ثابت ہے اور ان سب سے بڑھ کر رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کا حضرت اُبی‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کے سامنے قرآن پڑھنا اور یہ فرمانا کہ ہللا نے‬
‫مجھے حکم دیا ہے کہ تم پر پڑھوں ۔ اس بات پر داللت کرتا ہے کہ فاضل کو مفضول سے‬
‫علمی استفادہ میں ہتک نہیں محسوس کرنی چاہئے۔ (تذکر ۃ السامع والمتکلم فی ادب العالم‬
‫والمتعلّم‪:‬ص‪)۲۹‬‬
‫کوئی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں“ ال أدری” کہنا‪:‬‬
‫اگر کوئی مسئلہ ذاتی مطالعہ اور دوسروں سے پوچھنے کے باوجود بر وقت حل نہ ہو سکے‬
‫تو درس کے وقت طلبہ سے صراحت کے ساتھ کہدیں ’’ال ادری‘‘ یعنی مجھے بروقت یہ‬
‫مسئلہ معلوم نہیں‪ ،‬اوربعد میں تحقیق اور مطالعہ کرکے بتائیں گے۔‬
‫اگر کسی مسئلہ میں صحیح علم نہ ہو تو صرف اپنی ناک بچانے کے لئے غلط سلط یا اندازے‬
‫سے کوئی بات نہیں بتانی چاہئے‪ ،‬بلکہ خندہ پیشانی سے عدم واقفیت کا اعتراف کرنا چاہئے‬
‫اور پھر معلومات حاصل کر کے بعد میں بتا دینا چاہئے ۔اس سے استاد کا علمی وقار قائم اور‬
‫طلبہ کااس پر اعتماد برقرار رہتاہے اور وہ بال علم بات کرنے اور غلط بیانی کے اس گناہ‬
‫ان إِ ْث ُمهُ َعلَى‬ ‫اوروبال سے بھی محفوظ ر ہتا ہے جس کی جانب حدیث ’’‪َ  ‬منْ أُ ْفتِ َى بِ َغ ْي ِر ِع ْل ٍم َك َ‬
‫َمنْ أَ ْفتَاهُ‪ ‘‘ ‬میں اشارہ کیا گیا ہے ۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے خود متعد دسواالت کے جوابات میں ال علمی کا اظہار‬
‫فرمایا اور جب ان کے بارے میں وحی نازل ہوئی تب بتايا۔ حضرت عبد ہللا بن مسعودرضى‬
‫سئِ َل ِم ْن ُك ْم عَنْ ِع ْل ٍم ه َُو ِع ْن َدهُ ‪ ،‬فَ ْليَقُ ْل بِ ِه ‪ ،‬فَإِنْ لَ ْم يَ ُكنْ‬ ‫اس ‪َ ،‬منْ ُ‬ ‫ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں ‪ ’’:‬يَا أَيُّ َها النَّ ُ‬
‫ِع ْن َدهُ ‪ ،‬فَ ْليَقُ ْل ‪ :‬هَّللا ُ أَ ْعلَ ُم ‪ ،‬فَإِنَّ ِم َن ا ْل ِع ْل ِم أَنْ تَقُو َل لِ َما الَ تَ ْعلَ ُم ‪ :‬هَّللا ُ أَ ْعلَ ُم ‪ ،‬إِنَّ هَّللا َ َع َّز َو َج َّل قَا َل لِنَبِيِّ ِه‬
‫ين ‘‘ ((مسند أحمد ‪431 /1‬‬ ‫سأَلُ ُك ْم َعلَ ْي ِه ِمنْ أَ ْج ٍر َو َما أَنَا ِم َن ا ْل ُمتَ َكلِّفِ َ‬ ‫سلَّ َم ‪{ :‬قُ ْل َما أَ ْ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬ ‫َ‬
‫)‬
‫لوگو !جس سے کسی علمی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جائے تو اگر اسے معلوم ہو تو‬
‫چاہئے کہ بتائے ‪،‬اور جس کے پاس اس کے بارے میں علم نہ ہو وہ ’’ہّٰللا ُ اَ ْعلَ ُم ‘‘کہہ دے‪ ،‬اس‬
‫لئے کہ یہ بھی علم ہے کہ جس کے بارے میں آدمی نہ جا نتا ہو’’ہّٰللا ُ اَ ْعلَ ُم‘‘ کہہ دے ‪ ،‬ہللا‬
‫وتعالی نے اپنے نبی صلی ہللا علیہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا ‪’’ :‬آپ لوگوں سے‬ ‫ٰ‬ ‫تبارک‬
‫کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر اجرت نہیں طلب کرتا ہوں‪،‬اور نہ میں تکلف کرنے والوں‬
‫میں سے ہوں۔‬
‫حضرت ابراہیم ‪ ‬بن طہمان رحمہ ہللا کو لوگوں کو مسائل بتانے پربیت المال سے ماہانہ وظیفہ‬
‫ملتا تھا ‪ ،‬ایک دن ایک مسئلہ کے بارے میں ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا ‪:‬‬
‫’’الأدری‘‘یہ مسئلہ مجھے نہیں معلوم ‪ ،‬بعض لوگوں نے کہا ‪:‬ہر ماہ اتنی اتنی تنخواہ لیتے ہو‬
‫سنُ‬ ‫آخ ُذ َع ٰلی َما اُ ْح ِ‬ ‫اور ایک مسئلہ اچھی طرح نہیں جانتے ؟ انھوں نے برجستہ کہا‪ ’’:‬اِنَّ َما ُ‬
‫سنُ ‘‘ میں جو اچھی طرح جانتا اور‬ ‫نی َمااَل اُ ْح ِ‬‫سنُ لَفَنِ َی بَ ْيتُ ا ْل َما ِل واَل يَ ْف ٰ‬ ‫أخ ْذتُ َع ٰلی َمااَل اُ ْح ِ‬ ‫‪،‬ولَ ْو َ‬ ‫َ‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪4|Page‬‬

‫بتاتا ہوں اسی پر تنخواہ لیتا ہوں‪ ،‬اگر میں ان باتوں پر پیسے لینے لگوں جن کا مجھے ٹھیک‬
‫سے علم نہیں توبیت المال کا خزانہ ختم ہوجائے گااور میری وہ باتیں ختم نہ ہوں گی جنھیں‬
‫میں اچھی طرح نہیں جانتا۔‬
‫خلیفہ کو ان کا یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے انھیں انعام اور خل َعت سے نوازا اور تنخواہ‬
‫میں بھی اضافہ کردیا۔(العلم و الدین‪ :‬ص‪)۲۴،۲۵‬‬
‫اورابو عمر الزاہد فرماتے ہیں کہ میں ابو العباس ثعلب کی مجلس میں تھا ‪،‬ایک سائل نے ان‬
‫سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا ‪ ،‬انھوں نے کہا ’’الادری‘‘ یعنی یہ مسئلہ مجھے‬
‫معلوم نہیں ۔اس نے کہا‪:‬آپ’’الادری ‘‘ کہتے ہیں حاالنکہ لوگ آپ کے پاس اونٹوں پر‬
‫کجاوے َکس کر اور ہرہر شہرسے سفر کر کے آتے ہیں؟ابو العباس ثعلب نے اس سے‬
‫کہا‪:‬اگر تیری ماں کے پاس میرے ’’ ال ادری‘‘ کے برابر اونٹوں کی مینگنیاں ہو جائیں تو وہ‬
‫مال دار ہو جائے گی۔(مصدر سابق ‪:‬ص‪)۲۴‬‬
‫غرضیکہ اساتذہ کومطالعہ اور تیاری کر کے کالس میں آنا چاہئے اور مطالعہ وتحقیق کے‬
‫بعد ’’علی وجہ البصیرۃ‘‘پڑھانا چاہئے اورجو چیزیں معلوم نہ ہوں بال جھجک ان کے بارے‬
‫میں اپنی ال علمی کا اظہار کر دینا اور بعد میں تحقیق و مطالعہ کر کے بتانا چا ہئے ۔‬
‫(‪ )۲‬کالس میں استاذ کی ہیئت میں آنا‪:‬‬
‫اساتذہ کو علمی تیاری کے ساتھ ذ ہنی اور جسمانی طور بھی پر تیار ہو کر کالس میں آنا‬
‫چاہئے۔ چنانچہ پہلے نہا دھو کر‪ ،‬اچھے کپڑے پہن کر اورخوشبو لگا کر تروتازہ ہو جائیں‬
‫پھر کالس میں آکر پورے نشاط کے ساتھ درس دیں ۔امام مالک ‪ ‬رحمہ ہللا باقاعدہ غسل کرکے‬
‫عمامہ اور اچھے کپڑے زیب تن فرما کر اور خوشبو لگا کر درس میں آتے تھے ۔(انظر رحلۃ‬
‫االمام الشافعی ‪ :‬ص‪)۲۴ ‬‬
‫بعض اساتذہ میلے کچیلے کپڑے میں اور اچھی طرح ہاتھ منھ دھوئے بغیر کالس میں آجاتے‬
‫ہیں ‪،‬بعض اساتذہ کے کپڑے سکڑے ہوئے اور داڑھی اور سر کے بال پراگندہ اور مونچھوں‬
‫کے بال بے ہنگم ہو تے ہیں اور اسی طرح وہ کالس میں پڑھانے آجاتے ہیں ۔ان کا یہ عمل‬
‫درست نہیں ۔ کیونکہ ایک تو وہ اس سے اپنے طلبہ کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں پیش‬
‫کرتے‪،‬بلکہ وہ نا دانستہ طور پر انھیں بھی ال ابالی پن کی تعلیم دیتے ہیں۔‬
‫دوسرے یہ اسالم کی نظافت و طہارت کے آداب و احکام اور اہل علم کی شان کے خالف‬
‫ہے ۔‬
‫تیسرے اس کی وجہ سے کسل مندی اور سستی ہوتی ہے ‪،‬اور ذہنی اور جسمانی نشاط نہیں‬
‫ہو تا۔ اور ظاہر ہے کہ ذہنی اور جسمانی نشاط کے بغیر استاذ تعلیم و تفہیم کا پورا حق ادا‬
‫نہیں کر سکتا۔‬
‫(‪ )۳‬کالس میں اول وقت میں پہنچنااوروقت کی پابندی کرنا‪:‬‬
‫اساتذہ کو چاہئے کہ وہ وقت کی پابندی کریں ‪،‬اور اپنی گھنٹی شروع ہو تے ہی کالس میں‬
‫پہونچ جائیں ۔ اگر اساتذہ کالس میں تاخیر سے آئیں گے تو طلبہ بھی آنے میں تاخیر کریں گے‬
‫‪،‬بلکہ ان سے زیادہ ہی تاخیر سے آئیں گے ۔نتیجہ یہ ہوگا کہ اسکول اور کالس میں بدنظمی‬
‫پیدا ہو گی ‪ ،‬درس کا حق ادا نہیں ہو گا اور مقررہ نصاب بھی مکمل نہیں ہو پائے گا۔کیونکہ‬
‫اگر مدرس پانچ منٹ بھی لیٹ کر کے آئے گا تو کم از کم پانچ چھ منٹ طلبہ کی حاضری اور‬
‫کالس کا جائزہ لینے میں لگ جائیں گے‪ ،‬اس کے بعد عبارت خوانی ہوگی‪ ،‬اس کے بعد درس‬
‫شروع ہو گا ‪،‬اس طرح لگ بھگ دس بارہ منٹ چلے جائیں گے اور بمشکل تمام‪۲۵ ‬سے‬
‫‪۳۰‬منٹ درس کے لئے ملیں گے جن میں اطمینان سے سبق پڑھاکر کورس مکمل کرنا مشکل‬
‫ہوگا۔‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪5|Page‬‬

‫اسی طرح اساتذہ کو گھنٹی ختم ہونے کے بعد جلد از جلد درس ختم کردینا چاہئے‪ ،‬بعض‬
‫اساتذہ زبر دستی دوسرے اساتذہ کی گھنٹیوں میں اپنی کتابیں پڑھاتے رہتے ہیں‪ ،‬جس سے‬
‫ایک تو ان اساتذہ کو باہر کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے اور تکلیف ہوتی ہے ۔دوسرے ان‬
‫کی حق تلفی ہوتی ہے اور ان کا کورس ختم نہیں ہوتا ۔تیسرے بسا اوقات اس کی وجہ سے‬
‫اساتذہ میں جھگڑے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی چغلخوری اور شکایت کرتے ہیں اور‬
‫بدنام و گنہگار ہوتے ہیں ‪،‬اس واسطے اساتذہ کو اپنے وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھنا‬
‫چاہئے۔‬
‫(‪ )۴‬کالس میں داخل ہوتے وقت سالم کرنا‪:‬‬
‫اساتذہ جب کالس میں جائیں تو داخل ہو تے وقت طلبہ سے سالم کریں ۔ بعض اسکولوں میں‬
‫دیکھنے میں آتا ہے کہ استاذ جب کالس میں داخل ہو تا ہے تو وہ سالم نہیں کرتا‪ ،‬بلکہ طلبہ‬
‫کو کھڑے ہو کر سالم کرنے کے لئے کہتا ہے اور اگر کوئی طالب علم کھڑا نہ ہو تو اسے‬
‫سزادیتا ہے ۔یہ طریقہ اسالمی اصول کے خالف ہے ۔اسالمی طریقہ یہ ہے کہ آنے واال بیٹھے‬
‫ہوئے لوگوں کو سالم کرے ‪،‬ارشاد باری ہے‪  :‬‬
‫سلِّ ُموا َعلَی أَ ْهلِ َها‪(   ‬النور‪:‬‬ ‫سوا َوتُ َ‬ ‫ستَأْنِ ُ‬
‫ک ْم َحتَّی تَ ْ‬‫يَا أَ ُّي َها الَّ ِذ ْي َن آ َمنُوا اَل تَد ُْخلُوا بُيُوتا ً َغ ْْي َر بُيُوتِ ُ‬
‫‪)٢٧‬اے مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں نہ داخل ہو ا کروجب تک کہ گھر‬
‫والوں سے اجازت اور ان کی رضا نہ لے لو اور ان سے سالم نہ کر لو۔‬
‫اورحضرت انس‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬ایک مرتبہ بچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سالم کیا اور‬
‫فرمایا‪ :‬نبی صلی ہللا علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔(‪ ‬صحيح البخاري حسب ترقيم فتح‬
‫الباري ‪ , 68 /8 :‬صحيح مسلم‪)6 /7 : ‬‬
‫اسی طرح کسی مجلس میں آنے پر وہاں کے لوگوں کو اپنی تعظیم کے لئے کھڑا کرنا بھی‬
‫اسالمی طریقہ نہیں ‪،‬بلکہ یہ عجمیوں کا شعار اور طریقہ ہے ۔ اس سے بھی اجتناب کر نا‬
‫چاہئے ۔ حضرت انس بن مالک‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے روایت ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی شخص معزز اور محبوب نہیں تھا ۔لیکن ان‬
‫کی عادت تھی کہ جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو تشریف التے ہوئے دیکھتے تو‬
‫تعظیما ً کھڑے نہ ہو تے‪ ،‬اس لئے کہ و ہ جا نتے تھے کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں ۔ (رواہ‬
‫احمد و التر مذی ‪،‬وھو حدیث حسن)‬
‫‪              ‬اور حضرت ابو امامہ‪ ‬رضى ہللا عنہسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول ہللا صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم اپنے ہاتھ میں چھڑی لئے‬
‫ہوئے ہمارے مجمع میں تشریف الئے ‪،‬ہم آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے تو آپ ناراض‬
‫ہوئے اور فرمایا ‪ ’’ :‬الَ تَقُو ُموا َك َما تَقُو ُم‬
‫ضا‪( ‘‘ ‬انظر مسند احمد‪۵:‬؍‪،۲۵۳‬وابوداود‪۵:‬؍‪)۵۲۳۰(۳۹۸‬‬ ‫ض َها بَ ْع ً‬ ‫األَ َعا ِج ُم يُ َعظِّ ُم بَ ْع ُ‬
‫جیسے عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اس طرح مجھے دیکھ کر‬
‫تم لوگ کھڑے نہ ہو ا کرو۔‬
‫ایک مرتبہ حضرت معاویہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬باہر نکلے‪ ،‬وہا ں ابان بن زبیررضى ہللا عنہ‪ ‬اور‬
‫ابن عامررضى ہللا عنہ‪ ‬تھے ‪،‬آپ کو دیکھ کر ابن عامر کھڑے ہو گئے اور ابن زبیر بیٹھے‬
‫س فَإِنِّى‬ ‫اجلِ ْ‬ ‫رہے‪ ،‬حضرت معاویہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬نے ابن عامررضى ہللا عنہ‪ ‬سے فرمایا ‪ْ  ’’ :‬‬
‫الر َجا ُل قِيَا ًما فَ ْليَتَبَ َّو ْأ َم ْق َع َدهُ‬
‫ب أَنْ يَ ْمثُ َل لَهُ ِّ‬ ‫سو َل هَّللا ِ صلى هللا عليه وسلم يَقُو ُل ‪َ :‬منْ أَ َح َّ‬ ‫س ِم ْعتُ َر ُ‬ ‫َ‬
‫ِم َن النَّا ِر‪(‘‘ ‬رواہ ابو داود‪۵:‬؍‪،۳ ۹ ۸ ‬وا لترمذ ی ‪۵:‬؍‪ ، ۹۰‬وقال ‪ :‬حد یث حسن )بیٹھ جاؤ کیونکہ‬
‫میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے‪:‬جسے پسند ہو کہ لوگ اس‬
‫کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوں اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪6|Page‬‬

‫بہر حال کالس میں داخل ہوتے وقت اساتذۂ کرام کوخود سالم کرنا چاہئے اور طلبہ کو اپنی‬
‫تعظیم کے لئے کھڑا نہیں کرنا چاہئے‪،‬بلکہ انھیں اس سے منع کرنا چاہئے۔‬
‫(‪ )۵‬کالس میں داخل ہوتے ہی طلبہ کی حاضری لینا‪:‬‬
‫کالس میں آنے کے بعد اساتذہ کو سب سے پہلے طلبہ کی حاضری لینی چاہئے اورتاخیر سے‬
‫آنے والوں کو غیر حاضر بنانا اور سختی سے تنبیہ کرنا چاہئے ۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ طلبہ‬
‫اول وقت میں ہی کالس میں پہونچ جائیں گے‪ ،‬درس كے لئے زیادہ وقت ملے گا‪ ،‬اساتذہ‬
‫اطمینان سے پورا سبق پڑھائیں گے ‪ ،‬درمیان میں کوئی تشویش نہیں ہو گی اور طلبہ ڈسپلن‬
‫اور نظام کی پابندی کے عادی بنیں گے ۔‬
‫بعض اساتذہ شروع میں تو حاضری لے لیتے ہیں مگر بعد میں آنے والے طلبہ کو بھی حاضر‬
‫بناتے رہتے ہیں۔اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ بلکہ الٹے نقصان ہوتا ہے ۔‬
‫اسی طرح بعض اساتذہ گھنٹی کے اخیر میں حاضری لیتے ہیں‪ ،‬جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ‬
‫طلبہ وقت کی پابندی نہیں کرتے اور اخیر تک آتے رہتے ہیں‪ ،‬جس سے درس میں تشویش ہو‬
‫تی ہے اور جو طلبہ سبق کے ابتدائی حصے میں غیر حاضر رہتے ہیں وہ استاذ کے درس‬
‫اور علمی فوائد سے محروم رہتے ہیں اور استاذ کی محنت خاطر خواہ بار آور نہیں ہوتی۔‬
‫جو طلبہ درس سے غیر حاضر رہیں اساتذہ کو ان کے بارے میں پرشش اورتحقیق کرنی‬
‫چاہئے ‪،‬اور غیر معقول عذر ہونے کی صورت میں ان کی تنبیہ كے لئے مناسب کاروائی‬
‫کرنی چاہئے۔تاکہ ان کی یہ بری عادت چھوٹ جائے اور وہ حقیقی طالب علم بن سکیں۔‬
‫(‪ )۶‬کالس کا جائزہ لینا‪:‬‬
‫حاضری لینے کے بعد اسا تذہ کو کالس کا جائزہ لینا چاہئے اور طلبہ کے لباس ‪،‬شکل و‬
‫صورت ‪ ،‬اور وضع قطع پر نظر ڈالنی چاہئے۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کون درس کے‬
‫لوازمات ‪:‬کتاب ‪ ،‬کاپی اور قلم وغیرہ الیا ہے اور کون نہیں ۔نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ‬
‫کوئی غیر درسی چیزیں خاص طور سے گندے رسالے اور ناول وغیرہ تو لے کر نہیں آیا‬
‫ہے اور درس سننے کے بجائے انھیں رسالوں اور کتابوں کو ‪ ‬پڑھتا ہے۔‬
‫بعض طلبہ کالس میں کھیل کے سامان‪ ،‬ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹیں لے کر آتے ہیں اور اساتذہ‬
‫کی نظریں بچاکر ان سے کھیلنے اور محظوظ ہونے میں لگے رہتے ہیں اور سبق نہیں سنتے‬
‫۔کالس میں ایسے طلبہ کی حاضری بے معنی ہوتی ہے۔ اس واسطے اساتذہ کی ذمہ داری ہے‬
‫کہ درس شروع کرنے سے قبل کالس کا جائزہ لیں اور جہاں انہیں آداب درس کے خالف‬
‫کوئی چیز نظر آئے فورا اس پر تنبیہ اور طلبہ کی ا صال ح کریں۔‬
‫(‪ )۷‬کالس میں طلبہ کو بٹھانے کا اصول‪:‬‬
‫کالس کا جائزہ لیتے وقت اس کو بھی دیکھنا ضروری ہے کہ طلبہ کالس میں قاعدے سے‬
‫بیٹھے ہیں یا نہیں ‪ ،‬اگر طلبہ قاعدے سے نہیں بیٹھے ہیں‬
‫اور اِدھر اُدھر متفرق و منتشر ہیں تو پھر درس کا خواطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا ۔‬
‫مختلف مدارس و جامعات میں طلبہ کے کالس میں بٹھانے کے الگ الگ اصول ہیں‪ ،‬اس‬
‫واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس موضوع پر بھی کچھ گفتگو ہوجائے ۔‬
‫بعض مدارس میں طلبہ کو کالس میں بٹھانے کا اصول یہ ہے کہ ساالنہ امتحان میں نمبرات‬
‫کے حساب سے جیسے ان کی ترتیب ہوتی ہے اسی ترتیب سے کالس میں بٹھاتے ہیں ‪،‬اس‬
‫میں جہاں یہ فائدہ ہے کہ ذہین اور محنتی طلبہ کے آگے اور استاذ کے قریب ہونے کہ وجہ‬
‫سے ‪ ،‬وہ صحیح صحیح عبارت خوانی کرتے ‪ ،‬استاذ کی باتوں اور درس کو جلدی اور اچھی‬
‫طرح سمجھتے ہیں اور بعد میں اپنے ساتھیوں کو مذاکرہ کراتے اور درس سمجھاتے ہیں ‪،‬‬
‫وہیں اس میں یہ خامی بھی ہے کہ اس سے کمزور طلبہ پیچھے ہوجاتے ہیں جو ایک تو پہلے‬
‫سے پیچھے اورکمزور ہوتے ہیں دوسرے استاذ سے دور اور آخری صفوں میں ہوجانے کی‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪7|Page‬‬

‫وجہ سے استاذ کے درس اور تقریر کو صحیح اور مکمل طور سے نہیں سن پاتے ‪،‬جس سے‬
‫سبق کے بہت سے اجزاء ان کی سمجھ میں نہیں آتے‪ ،‬نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی کرنے‬
‫کے بجائے علمی اعتبار سے اور پیچھے ہوتے جاتے ہیں۔عالوہ ازیں اس سے بہت سے طلبہ‬
‫استاذ کی نظروں سے دور ہونے اور سبق کے برابر نہ سننے کی وجہ سے اونگھنے اور‬
‫سونے لگنے لگتے ہیں یا کسی دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح یہ طلبہ تعلیم‬
‫میں مزید کمزور اور پیچھے ہو تے جاتے ہیں ۔‬
‫بعض اساتذہ کمزور ‪ ،‬معذور اور شریر بچوں کو آگے بٹھاتے ہیں‪ ،‬تاکہ کمزور اور اونچا‬
‫سننے والے بچے استاذ کی باتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ سکیں اور تعلیم میں پیچھے‬
‫نہ رہ جائیں ‪،‬اسی طرح وہ طلبہ جو شرارت کرتے ہیں یا درس کے وقت سوتے رہتے ہیں‬
‫انھیں بھی آگے بٹھاتے ہیں تاکہ ان پر برابر نظر رہے اور انھیں سونے یا شرارت کرنے کا‬
‫موقع نہ ملے‪ ،‬یہ بڑی اچھی بات ہے لیکن اگر سارے ذہین بچے پیچھے چلیں جائیں تو یہ‬
‫ہوسکتا ہے کہ استاذ کی کچھ علمی باتیں وہ بھی نہ سن پائیں اور کمزور بچے بھی نہ سمجھ‬
‫پائیں جس سے وہ باتیں غیر مفہوم رہ جائیں ۔ اورجامع ترمذی‪۵ :‬؍‪ )۲ ۷۲۵( ۷۳‬سنن ابی‬
‫داود ‪۵:‬؍‪ )۴۸۲۵(۱۶۴‬االدب المفرد للبخاری ‪:‬ص‪ )۱۱۴۱(۲۹۲‬میں حضرت جابر بن‬
‫س أَ َح ُدنَا‬
‫سمرۃ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کی روایت ہے ‪ُ  ’’ :‬كنَّا إِ َذا أَتَ ْينَا النَّبِ َّى صلى هللا عليه وسلم َجلَ َ‬
‫ث يَ ْنتَ ِهى‪ ‘‘ ‬ہم جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے تو مجلس‬ ‫َح ْي ُ‬
‫جہاں ختم ہوتی وہیں بیٹھ جاتے تھے ۔‬
‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس اور کالس میں پہلے آنے والوں کو آگے اور مدرس کے‬
‫قریب بیٹھنے کا زیادہ حق ہے اور ہر شخص جیسے جیسے آئے پیچھے ترتیب سے بیٹھتا‬
‫جائے۔‬
‫البتہ صحیح بخاری ‪۱:‬؍‪ ’’ )۶۶(۱۵۶‬باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رأى فرجة في‬
‫الحلقة فجلس فيها‪ ‘‘ ‬اور جامع الترمذی ‪۵:‬؍‪)۲۷۲۴ ( ۷۳‬میں ابوو ا قد اللیثی سے روایت ہے‬
‫کہ ایک مرتبہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرماتھے اور آپ کے ساتھ‬
‫دوسرے لوگ بھی تھے کہ تین آدمی آئے جن میں سے دو آدمی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کی مجلس کے قریب آئے اور کھڑے ہوگئے ‪ ،‬پھر ایک آدمی نے حلقہ میں ایک خالی جگہ‬
‫دیکھی اور وہاں جاکر بیٹھ گیا اور دوسرا ان کے پیچھے جاکر بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جب اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو فرمایا ‪ ’’:‬کیا میں‬ ‫چالگیا ‪ ،‬رسول ْ‬
‫تم لوگوں کو تینوں افراد کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ اس میں سے ایک نے ہللا کے پاس پناہ‬
‫لی ‪ ،‬اور دوسراشرمایا (اور اس کی وجہ سے مجلس سے واپس نہیں گیا ) تو ہللا نے بھی اس‬
‫سے شرم کی (اور اس پر رحم فرمایا ) اور تیسرا رخ پھیر کر چال گیا تو ہللا نے بھی اس سے‬
‫رخ پھیر لیا ‘‘۔‬
‫اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ اگر آگے کی صفوں میں یا حلقۂدرس میں کوئی جگہ خالی‬
‫ہوتو بعد میں آنے والے شخص کے لئے اس جگہ بیٹھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مستحب بھی‬
‫ہے ۔ اور ان حدیثوں سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو طلبہ کالس میں پہلے‬
‫آئیں وہ آگے بیٹھیں اور بعد میں آنے والے جہاں جگہ خالی دیکھیں وہاں یا اخیر مجلس میں‬
‫بیٹھیں ۔‬
‫اس میں کئی فائدے ہیں ‪ ،‬مثالً‪ :‬آگے بیٹھنے کے لئے ہر طالب علم کالس میں پہلے پہونچنے‬
‫کی کوشش کرے گا اوراس میں ہر طالب علم کے لئے آگے بیٹھنے اور استاذ کے درس سے‬
‫اچھی طرح استفادہ کرنے کا موقع رہتا ہے ‪ ،‬اور جس کو بھی علم کا شوق ہوگا خواہ وہ ذہین‬
‫و فطین ہو یا کمزور اور غبی ‪ ،‬وہ پہلے آکر استاذ کے قریب اور سامنے بیٹھنے کی کوشش‬
‫کرے گا ۔‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪8|Page‬‬

‫رہے کالس میں سونے اور شرارت کرنے والے طلبہ تو استاذ انھیں تنبیہ کرسکتا اور اول‬
‫وقت میں کالس میں بالکر اپنے قریب اور سامنے بٹھا سکتا ہے ‪،‬بصورت دیگر اپنے دائیں‬
‫بائیں بٹھا سکتا ہے ۔‬
‫اس واسطے میرے نزدیک یہ طریقہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے‪ ،‬البتہ درس کی‬
‫مصلحت کی خاطر استاذ کبھی بعض ذہین طلبہ کو آگے بال سکتا ہے ۔جیسا کہ امام مالک‬
‫رحمہ هللا نے امام شافعی رحمہ هللا کو بالیا تھا۔ (انظر رحلۃ االمام الشافعی‪ :‬ص‪) ۲۵،۲۶‬‬
‫(‪ )۸‬عبارت خوانی کرانا‪:‬‬
‫حاضری اور کالس کاجائزہ لینے کے بعد اساتذہ کسی طالب علم سے اس دن پڑھائے جانے‬
‫والے سبق کی عبارت خوانی کرائیں اور اعراب ‪ ،‬تلفظ اور لب و لہجہ میں اگر کوئی خامی یا‬
‫غلطی ہو تو اس کی اصالح کریں ۔‬
‫عبارت خوانی میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ روزانہ ایک ہی طالب علم ‪،‬یاصرف چند طلبہ‬
‫ہی عبارت خوانی نہ کریں ۔بلکہ کالس کے تمام طلبہ سے باری باری عبارت خوانی کرائیں‪،‬‬
‫ورنہ جو طلبہ عبارت خوانی نہیں کریں گے وہ قواعد( نحو و صرف) کی تطبیق‪ ،‬اورالفاظ‬
‫کی صحیح ادائیگی میں کمزور رہ جائیں گے اور کتاب صحیح طریقہ سے نہیں سمجھ سکیں‬
‫گے‪ ،‬نیز وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے اور کم ہمتی و بزدلی کا شکار ہو جائیں گے‪ ،‬جس‬
‫سے و ہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔‬
‫مطالعہ کے لئے باری مقرر کرنے کے بجائے سب کو روزانہ مطالعہ کر کے آنے کا مکلف‬
‫کریں اور ہر روز بدل بدل کر اپنی مرضی سے بھی کسی طالب علم سے عبارت پڑھوائیں ۔یہ‬
‫طریقہ باری مقرر کرنے سے زیادہ بہتر ہے‪ ،‬اس واسطے کہ اس سے سارے طلبہ روزانہ‬
‫مطالعہ اور عبارت فہمی كے لئے محنت کریں گے‪ ،‬اور باری مقرر کرنے کی صورت میں‬
‫جس کی باری ہو گی صرف وہی مطالعہ کر ے گا اور باقی طلبہ غفلت سے کام لیں گے ۔البتہ‬
‫اگر زیادہ کتابیں اور گھنٹیا ں ہوں اور ساری کتابوں کا مطالعہ اور مذاکرہ ہر طالب علم کے‬
‫لئے مشکل ہو تو اس طرح باری مقرر کی جا سکتی ہے کہ ہر طالب علم کم از کم ایک کتاب‬
‫کی عبارت خوانی روزانہ ضرور کرے۔‬
‫(‪ )۹‬درس کے وقت کالس میں نظم برقرار رکھنا‪:‬‬
‫اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ درس کے وقت اپنے کالس میں نظم و نسق کو برقرار رکھیں‬
‫‪،‬کالس پر ان کا مکمل کنٹرول ہو ۔ اور طلبہ درس کے وقت خاموشی اور توجہ سے درس‬
‫سنیں ‪،‬ضروری باتیں نوٹ کریں‪ ،‬اور اِدھر اُدھر تانک جھانک‪ ،‬جھگڑا لڑائی اورکھیل کود‬
‫سے اجتناب‪ q‬کریں اور دوسری کتابوں اور مجالت و جرائد کا مطالعہ نہ کریں۔‬
‫اسی طرح درس کے وقت طلبہ کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہو نا چاہئے ۔ کیونکہ دوران سبق‬
‫طلبہ کے بار بار آنے جانے سے درس میں کافی تشویش اور پریشانی ہو تی ہے‪ ،‬افکا ر کا‬
‫سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے‪،‬خیاالت‪ q‬منتشر ہو جاتے ہیں اور اساتذہ و طلبہ کی توجہ دوسری‬
‫طرف چلی جاتی ہے۔‬
‫بعض اساتذہ کو دیکھا گیا ہے کہ کالس میں چند طلبہ انہیں گھیر کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور‬
‫اپنی باتوں میں انہیں لگائے رہتے ہیں اور دوسرے طلبہ چپکے چپکے پیچھے سے باہر نکل‬
‫جاتے ہیں۔اس طرح درس کا بھی نقصان ہوتا ہے اور کالس اور اسکول میں بد نظمی ہوتی‬
‫ہے۔اساتذہ کو بہت ہوشیار ہونا چاہئے اور طلبہ کی اس قسم کی سازشوں کو کامیاب نہیں‬
‫ہونے دینا چاہئے۔اور کالس پر مکمل کنٹرول رکھنا چاہئے۔‬
‫(‪)۱۰‬آسان زبان و بہترین اسلوب اختیار کرنا‪:‬‬
‫درس کی تفہیم اور مسائل کی توضیح میں اساتذہ کو ہمیشہ ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے‬
‫جو عام فہم اور طلبہ وطالبات‪ q‬کے معیار کے مطابق ہو ‪ ،‬تا کہ وہ ان کی باتوں کو آسانی سے‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪9|Page‬‬

‫اورمقفی ومسجع عبارتوں‬ ‫ٰ‬ ‫سمجھ سکیں ۔مشکل الفا ظ ‪ ،‬دوسری زبانوں کے غیر مانوس کلمات‬
‫تعالی نے ہر قوم میں رسول اسی قوم میں سے‬ ‫ٰ‬ ‫کا درس میں استعمال کرنا ٹھیک نہیں ‪ ،‬ہللا‬
‫مبعوث فرمایا‪ ،‬جو ان کی زبان سے اچھی طرح واقف ہوتا تھا ‪ ،‬اور انھیں کی زبان میں انھیں‬
‫تعالی ہے ‪َ   :‬و َما أَ ْر َ‬
‫س ْلنَا ِمن‬ ‫ٰ‬ ‫وعظ و نصیحت کرتا ‪،‬تعلیم دیتااور دعوت و تبلیغ کرتا۔ارشاد باری‬
‫ان قَ ْو ِم ِه لِيُبَيِّ َن لَ ُه ْم‪  ‬إبراهيم‪ ٤ :‬اور ہم نے ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی‬ ‫سو ٍل إِالَّ بِلِ َ‬
‫س ِ‬ ‫َّر ُ‬
‫بھیجا تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کردے۔‬
‫تعالی نے انبیاء علیہم السالم کوبھیجتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا کہ وہ اپنی قوم کی‬ ‫ٰ‬ ‫جب ہللا‬
‫زبان سے اچھی طرح واقف ہوں‪ ،‬اور انبیاء علیہم السالم اپنی قوم کوانہیں کی زبان میں تعلیم‬
‫دیتے تھے تو اساتذہ اور معلّمات کو بھی اس کا لحاظ رکھنا چاہئے‪ ،‬اور تدریس وتفہیم میں‬
‫طلبہ کی زبان اور ان کے معیار کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ماہرین تعلیم کا تو یہاں تک کہنا ہے‬
‫کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے‪ ،‬تاکہ ان کو سمجھنے میں‬
‫سہولت ہو اور زبان اور مسائل کے سمجھنے کا ڈبل بوجھ ان پر نہ پڑ ے ۔‬
‫(‪ )۱۱‬درس کے وقت آواز کاواضح اور بلند ہونا‪:‬‬
‫اساتذہ کی آواز درس دیتے وقت اتنی بلند ہونی چاہئے کہ کالس کے تمام طلبہ وطالبات اسے‬
‫بآسانی سن سکیں‪ ،‬اور زبان اتنی واضح ہو نی چاہئے کہ سب بآسانی سمجھ سکیں ۔‬
‫بعض اساتذہ و معلّمات درس کے وقت اپنی آواز اتنی پست رکھتے ہیں کہ طلبہ و طالبات‬
‫صحیح طریقہ سے ان کی باتیں نہیں سن پاتے‪،‬ایسی صورت میں ان کے درس کاخاطر خواہ‬
‫فائدہ نہیں ہوتا ‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے توآپ کی آواز بلند ہوتی‬
‫تھی۔ حضرت جابررضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں‪:‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جب خطبہ دیتے‬
‫اور قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کا غضب شدید ہوجاتا اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی۔ (صحيح‬
‫مسلم‪)11 /3 : ‬‬
‫اور حضرت عبد ہللا بن عمررضی ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے ۔ آپ جب ہمارے پاس پہونچے تو نماز کا وقت تنگ ہوگیا‬
‫تھا‪ ،‬اور ہم وضو کررہے اور اپنے پاؤں پر مسح کر رہے تھے۔ آپ نے یہ دیکھ کر بلند آواز‬
‫ب ِم َن النَّا ِر‪( .‘‘ ‬رواہ البخاری ‪۱:‬؍‪ )۸۴۳‬آگ‬ ‫سے پکار کر دویا تین بار فرمایا‪َ  ’’:‬و ْي ٌل لِألَ ْعقَا ِ‬
‫کے عذاب کی خرابی ہے ان ایڑیوں كے لئے جو خشک رہ جا ئیں ۔‬
‫اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت بات کو مکرر سہ کرر بیان کرنا چاہئے وہیں‬
‫یہ بھی معلوم ہوا کہ معلم کی آواز بقدر ضرورت بلند ہونی چاہئے تاکہ سارے مخاطبین سن‬
‫سکیں۔ لہٰذا اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس میں اپنی آواز اسقدر بلند رکھیں کہ تمام طلبہ‬
‫وطالبات بآسانی اسے سن سکیں اور مناسب آواز اور دلکش انداز میں شوق ورغبت سے‬
‫پڑھائیں‪ ،‬بے دلی سے اور ایسی پست آواز میں نہ پڑھائیں کہ ان کی بات طلبہ کی سمجھ میں‬
‫نہ آئے ‪ ،‬جو اساتذہ و مدرسین ایسا کرتے ہیں وہ عموما ناکام رہتے ہیں‪،‬ہم نے ایک عرب‬
‫استاذ کو دیکھا ‪ ،‬جب وہ کالس میں آتے تو اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی کتاب میز پر رکھتے اور‬
‫سرنیچا کر کے پڑھانے لگتے ‪ ،‬ان کی آواز اتنی پست ہوتی کہ طلبہ کو برابر سنائی نہیں‬
‫پڑتی اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کہتے ہیں ‪،‬اورجب درس طلبہ کی سمجھ میں‬
‫نہیں آتا اور دیکھتے کہ شیخ سر اوپر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں ہیں تو آہستہ آہستہ کالس سے‬
‫بھاگ نکلتے اور کبھی کبھی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ صرف دو چار طلبہ ہی کالس میں‬
‫رہ جاتے ۔‬
‫بہر حال اساتذہ کی آواز بقدر ضرورت بلندہو نی چاہئے ‪،‬اور انھیں تمام طلبہ سے مخاطب ہونا‬
‫اورچاروں طرف دیکھنا چاہئے ‪ ،‬بولنے کی رفتار درمیانی اور معتدل ہو نی چاہئے‪ ،‬نہ بہت‬
‫تیز ہو کہ طلبہ تمام باتیں اپنی گرفت میں نہ لے سکیں اور نہ اتنی سست ہو کہ وہ اکتا جائیں ۔‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪10 | P a g e‬‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے با ر ے میں وارد ہے کہ جب آپ گفتگو فرماتے تو آپ کا‬
‫ایک ایک لفظ اس طرح واضح ہو تا تھا کہ گننا چاہیں تو گن سکتے تھے۔‬
‫درس اور وعظ ونصیحت میں اس کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ آواز اس قدر بلند ‪ ،‬اور‬
‫کرخت نہ ہو کہ سننے والوں پر گراں اور ان کے ذوق سماعت پر بار گزرے۔ بے تحاشہ‬
‫ص ْوتُ‬ ‫ت لَ َ‬‫ص َوا ِ‬ ‫چیخنے کی وجہ سے ہی گدہے کے بارے میں کہاگیا ہے ‪ :‬إِنَّ أَن َک َر اأْل َ ْ‬
‫ا ْل َح ِم ْي ِر‪  ‬ﭼ‪( ‬لقمان‪ )١٩ :‬بیشک گدھے کی آواز سب سے خراب آواز ہے۔‬
‫اس واسطے درس میں بے تحاشہ چیخنے سے بھی احتراز کرنا چاہئے اور مناسب ودلکش‬
‫آواز میں درس دینا چاہئے ۔‬
‫(‪ )۱۲‬درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کرنا‪:‬‬
‫اساتذہ کو چاہئے کہ درس کے مسائل اور عبارتوں کی اچھی طرح تشریح کریں اور جومسائل‬
‫اور باتیں تفصیل طلب ہوں انھیں تفصیل کے ساتھ سمجھائیں‪ ،‬صرف ترجمہ کر کے یا سر سر‬
‫ی اشارہ کر کے نہ گزر جائیں‪ ،‬البتہ جو باتیں طلبہ کے لئے آسان ہوں اور جنھیں وہ پہلے‬
‫سے پڑھ اور سمجھ چکے ہوں ان کی جانب اشارہ کرنا ہی کافی ہے ۔اسی طرح مشکل‬
‫عبارتوں کی بھی اچھی طرح تفہیم کریں ‪ ،‬پہلے مفردات کی تشریح کریں ‪،‬پھر پوری عبارت‬
‫کو سمجھائیں ‪،‬لفظی ترجمہ‪ ،‬اصطالحی ترجمہ ‪ ،‬واحد ‪،‬جمع اور مصدر ‪،‬اصل‪ q‬ما ّدہ ‪،‬باب‪q‬‬
‫‪،‬صیغہ اور ترکیب وغیرہ بتائیں ‪،‬تاکہ عبارت اچھی طرح حل ہوجائے اور اس کا مفہوم اچھی‬
‫طرح واضح ہو جائے ۔‬
‫(‪ )۱۳‬طلبہ کے معیار کے مطابق باتیں بتانا‪:‬‬
‫علمی اور فقہی باتوں کو پیش کرتے وقت طلبہ ‪ ،‬طالبات اور حاضرین کے ذہنی وعلمی معیار‬
‫اور عمر وغیرہ کا لحاظ رکھنا چاہئے اور ان کے سامنے ایسی باتیں ہرگز نہیں پیش کرنی‬
‫چاہئے جو ان کی سمجھ سے باال تر ہو ں۔حضرت علی‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں ‪َ  ’’ :‬ح ِّدثُوا‬
‫سولُهُ‪( ‘‘ ‬رواہ البخاری ‪۱ :‬؍‪ )۲۲۵‬لوگوں سے ایسی‬ ‫ون أَنْ يُ َك َّذ َ‬
‫ب هَّللا ُ َو َر ُ‬ ‫ون أَتُ ِحبُّ َ‬
‫اس بِ َما يَ ْع ِرفُ َ‬
‫النَّ َ‬
‫باتیں بیان کرو جو وہ سمجھ سکیں ‪،‬کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ ہللا اور اس کے رسول کی‬
‫تکذیب کی جائے ۔‬
‫ک ُر ْون‘‘(رواہ آدم بن ا یاس وابو نعیم) یعنی جو باتیں‬ ‫اور بعض روایتوں میں ہے ‪َ ’’:‬دع ُْوا َما يُ ْن ِ‬
‫اور مسائل ان کے معیار سے بلند ہوں اور جو وہ نہ سمجھ سکتے ہوں اور ان کوبیان کرنے‬
‫کی صورت میں انکار کرنے اور فتنہ میں پڑ جانے کا خطرہ ہو ان مسائل اور باتوں کو‬
‫چھوڑ دو۔‬
‫ث قَ ْو ًما َح ِديثًا الَ تَ ْبلُ ُغهُ ُعقُولُ ُه ْم‬ ‫اور عبد ہللا بن مسعودرضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں‪َ  ’’:‬ما أَ ْنتَ بِ ُم َح ِّد ٍ‬
‫ض ِه ْم فِ ْتنَةً‪( ‘‘ ‬صحيح مسلم‪ )9 /1 :‬جب آپ کسی قوم سے ایسی باتیں کریں گے جو‬ ‫ان لِبَ ْع ِ‬‫إِالَّ َك َ‬
‫ان کی سمجھ سے باالتر ہوں گی تو یہ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے فتنہ کا باعث ہوں‬
‫گی۔‬
‫اس لئے علمی باتیں اور مسائل پیش کرتے وقت مخاطبین کے علم ‪،‬عمر اور سمجھ بوجھ‬
‫وذہنی معیار کا لحاظ کرنا ضروری ہے ۔ بعض اساتذہ نابالغ بچوں اور بچیوں کے سامنے‬
‫نکاح ‪ ،‬جماع‪ ،‬غسل جنابت‪،‬حیض ونفاس اور والدت وغیرہ کے مسائل چھیڑ دیتے ہیں ‪،‬بعض‬
‫لوگ چھوٹے بچوں کے سامنے انکار حدیث کی تاریخ اورمنکرین حدیث کے شبہات وغیرہ‬
‫بیان کرتے ہیں‪ ،‬جو ان کی عمر اور عقل‬
‫کے اعتبار سے قطعا ً مناسب نہیں۔‬
‫(‪ )۱۴‬مکر ر سہ کر ر سمجھا نا‪:‬‬
‫اگر کوئی مسئلہ ایسا ہو جس کو طلبہ و طالبات ایک مرتبہ بتانے اور سمجھانے سے بآسانی‬
‫نہ سمجھ سکتے ہوں تو انھیں وہ مسئلہ مکرر سہ کرر سمجھا نا چاہئے‪ ،‬تا کہ طلبہ اسے‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪11 | P a g e‬‬

‫اچھی طرح سمجھ سکیں ۔ حضرت انس رضی ہللا عنہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫ان إِ َذا تَ َكلَّ َم بِ َكلِ َم ٍة أَ َعا َد َها ثَالَثًا َحتَّى تُ ْف َه َم َع ْنهُ ‪َ ،‬وإِ َذا أَتَى‬
‫بارے میں بیان کرتے ہیں ‪ ’’ :‬أَنَّهُ َك َ‬
‫سلَّ َم َعلَ ْي ِه ْم‪( ‘‘ ‬بخاری‪۱:‬؍‪ ۱۸۸‬مع الفتح) رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬ ‫َعلَى قَ ْو ٍم فَ َ‬
‫سلَّ َم َعلَ ْي ِه ْم َ‬
‫جب لوگوں سے گفتگو فرماتے اور کوئی بات کہتے تواس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ‬
‫وہ بات اچھی طرح لوگوں کے سمجھ میں آجاتی ۔اور جب کسی قوم کے پاس آتے تو سالم‬
‫کرتے اور تین مرتبہ ان سے سالم کرتے ۔‬
‫امام نووی رحمہ هللا فرماتے ہیں ‪:‬یہ حدیث اس صورت پر محمول ہے جب مجمع بڑاہو۔‬
‫(االذکار‪ :‬ص‪) ۲۱۹‬‬
‫میں کہتا ہوں کہ بات کے اعادہ کے سلسلہ میں یہ اس صورت پر بھی محمول ہوگی جب کوئی‬
‫بات مشکل ہونے یا کسی اور بنا پر ایک مرتبہ کہنے اور سمجھانے سے مخاطبین کی سمجھ‬
‫میں نہ آئے ‪،‬الحمد ہلل آج ماہرین تعلیم نے بھی اعادہ وتکرار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور‬
‫تدریس کے اسالیب میں سے ایک اہم چیز درس کے اعادہ کو بھی مانا ہے ۔‬
‫مگر اساتذہ و معلّمات کو چاہئے کہ درس کے اعادہ اورمکرر سہ کرر سمجھانے میں اس کی‬
‫حاجت و ضرورت کا ضرورلحاظ کریں ‪،‬ایسا نہ ہو کہ بالکل آسان اور عام فہم مسائل کو‬
‫بالضرورت مکرر سہ کرر سمجھائیں ۔ اساتذہ کرام کو معلوم ہے کہ کچھ طلبہ کم پڑھنے اور‬
‫امتحان میں محنت سے بچنے کے لئے جھوٹ بولتے اور بالوجہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ‬
‫استاذ ! یہ سبق پھر سے سمجھائیے ‪،‬ہم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا ہے‪ ،‬ایسے طلبہ سے‬
‫ہوشیار رہیں اور بالوجہ درس کے اعادہ و تکرار سے بچیں۔‬
‫(‪)۱۵‬عملی طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھانا ‪:‬‬
‫کچھ مسائل اور چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک ان کو عملی طور سے کر کے نہ دکھایا‬
‫جائے طلبہ کی سمجھ میں نہیں آتیں ‪،‬ایسی چیزوں کو عملی‬
‫طور سے(پریکٹیکل) کر کے دکھا نا چاہئے ‪،‬کتاب و سنت میں اس کی کئی نظیر موجود‬
‫ہیں ‪،‬مثال کے طور پر جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی توحضرت جبریل علىہ السالم نے‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو دو روز باقاعدہ نماز پڑھ کر دکھایا‪ ،‬پہلے روز اول وقت‬
‫میں‪ ،‬اور دوسرے روز آخروقت میں ‪ ،‬اور پھر فرمایا‪َ  ’’:‬وا ْل َو ْقتُ فِي َما بَ ْي َن َه َذ ْي ِن‬
‫ا ْل َو ْقتَ ْي ِن‪(‘‘ ‬سنن أبي داود محقق وبتعليق األلباني‪ , 150 /1 :‬سنن الترمذي‪ , 278 /1 :‬المستدرك‬
‫على الصحيحين للحاكم ‪)306 /1 :‬اور وقت ان دونوں وقتوں کے در میا ن ہے۔‬
‫خود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو نماز پڑھ کر دکھایا اور فرمایا‪:‬‬
‫صلِّ ْی‘‘(رواہ البخاری و احمد‪ ،‬انظر البخاری‪۱ :‬؍‪ ] ۶ ۳۱[۱۱۱‬و مسند‬ ‫صلُّ ْوا َک َما َرأ ْيتُ ُمو نِ ْی اُ َ‬‫’’ َ‬
‫احمد ‪۵:‬؍‪)۵۳‬‬
‫ایک مرتبہ آپ نے منبر پر نماز پڑھی اور جب سجدہ کرنا ہوا تو الٹے قدم نیچے اتر کر سجدہ‬
‫کیا اور پھر منبر پر لوٹ آئے۔ اورنماز سے فراغت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر‬
‫صالَتِي‪( ‘‘ ‬البخاری‪۲:‬؍‪ )۳۹۷‬اے لوگو!‬ ‫صنَ ْعتُ َه َذا لِتَأْتَ ُّموا َولِتَ َعلَّ ُموا َ‬ ‫فرمایا‪ ’’:‬أَيُّ َها النَّ ُ‬
‫اس إِنَّ َما َ‬
‫میں نے ایسا صرف اس لئے کیا تاکہ تم لوگ میری اقتداء کرو اور میری نماز سیکھ لو۔اسی‬
‫س َك ُك ْم‪(‘‘ ‬رواہ احمد‪3 :‬‬ ‫طرح آپ نے حج بھی عماًل کر کے دکھا یا اور فرمایا‪ُ  ’’ :‬خ ُذوا َعنِّي َمنَا ِ‬
‫‪ )318 /‬تم لوگ مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔‬
‫آج بھی عربی مدارس میں نیچے کے درجات میں طلبہ سے عملی وضو کرایا جاتا‪،‬اور عملی‬
‫نمازیں پڑھائی جاتیں ہیں ‪،‬اس واسطے کہ اگر ان طلبہ کو صرف زبانی وضوء کا طریقہ بتا‬
‫دیا جائے تو کچھ بھی ان کے پلّے نہیں پڑے گا ‪،‬لیکن جب سامنے وضو کر کے انہیں دکھایا‬
‫جاتاہے ‪،‬اور اپنے سامنے کھڑا کرکے باقاعدہ انہیں عملی نماز پڑھائی جاتی ہے‪ ،‬تو طلبہ‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪12 | P a g e‬‬

‫وضو کا مکمل طریقہ اور نماز میں قیام‪ ،‬رکوع ‪ ،‬سجدہ‪ ،‬جلسہ ‪ ،‬تشہد وغیرہ تمام اعمال کا‬
‫صحیح طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور انہیں ساری دعائیں یاد ہو جاتیں ہیں۔‬
‫بہر حال جن چیزوں کی تعلیم و تفہیم کے لئے عملی طور سے کر کے دکھانا ضروری یا‬
‫زیادہ مفید ہو انھیں عملی طور سے کر کے دکھانا چاہئے‪ ،‬عصری علوم کی تعلیم میں‬
‫پریکٹیکل کی بڑی اہمیت ہے ‪ ،‬خاص طور سے سائنس اور طب میں۔مگر دینی علوم کی تعلیم‬
‫میں بھی اس کی ضرورت پڑتی ہے‪ ،‬اور بوقت ضرورت اس کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔‬
‫(‪ )۱۶‬مثالوں کے ذریعہ سمجھانا‪:‬‬
‫بہت سی باتیں اوراصول وقواعد مثالوں کے بغیر سمجھ میں نہیں آتے‪ ،‬اور کچھ باتیں ایسی ہو‬
‫تی ہیں جو مثالوں سے بہت جلد سمجھ میں آجاتی ہیں‪ ،‬اور بغیر مثال کے سمجھانے میں‬
‫دیرلگتی اور پر یشا نی ہوتی ہے‪ ،‬ایسی باتوں کومثالوں کے ذریعہ سمجھانا چاہئے ‪ ،‬کتاب‬
‫وسنت میں اس کی بہت سی مثا لیں مو جود ہیں ۔‬
‫ب هّللا ُ بِنُو ِر ِه ْم‬ ‫ضاء تْ َما َح ْولَهُ َذ َه َ‬ ‫ست َْوقَ َد نَاراً فَلَ َّما أَ َ‬
‫یا ْ‬ ‫تعالی نے فرمایا‪َ   :‬مثَلُ ُه ْم َک َمثَ ِل الَّ ِذ ْ‬ ‫ٰ‬ ‫مثالً ہللا‬
‫ون‪(   ‬البقرة‪ )١٧ :‬ان لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس‬ ‫ص ُر َ‬ ‫ت الَّ يُ ْب ِ‬‫َوت ََر َک ُه ْم ِف ْی ظُلُ َما ٍ‬
‫نے آگ جالئی ‪،‬پھر جب اس کے آس پاس کی چیزیں روشنی میں آگئیں تو ہللا نے ان کے نور‬
‫کوچھین لیا اور انھیں اندھیرے میں چھوڑ دیا ‪،‬جو دیکھتے نہیں۔‬
‫اس میں ہللا نے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے تو مسلمان ہوئے ‪،‬لیکن پھر جلدہی منافق ہو‬
‫گئے‪ ،‬بتایا کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا‪ ،‬پھر اس نے روشنی‬
‫جالئی جس سے اس کا ماحول روشن ہو گیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہو‬
‫گئیں ‪ ،‬پھردفعتًا وہ روشنی بجھ گئی‪ ،‬اور وہ حسب سابق تاریکیوں میں گھر گیا‪ ،‬یہ منافقین‬
‫بھی پہلے شرک کی تاریکی میں تھے ‪،‬پھر مسلمان ہوئے تو ایمان کی روشنی میں آگئے‪ ،‬اور‬
‫حالل و حرام اور خیر و شر کو پہچان گئے ‪،‬پھر دوبارہ نفاق کی جانب لوٹ گئے تو ساری‬
‫روشنی جاتی رہی ۔ (فتح القدیر)‬
‫سنَابِ َل‬ ‫س ْب َع َ‬ ‫سبِ ْي ِل هّللا ِ َک َمثَ ِل َحبَّ ٍة أَنبَتَتْ َ‬
‫ون أَ ْم َوالَ ُه ْم فِ ْی َ‬
‫ایک دوسری جگہ فرمایا ‪َّ   :‬مثَ ُل الَّ ِذ ْي َن يُنفِقُ َ‬
‫اس ٌع َعلِ ْي ٌم‪(   ‬البقرة‪)٢٦١ :‬جو لوگ اپنا‬ ‫اعفُ لِ َمن يَشَا ُء َوهللا َو ِ‬ ‫ض ِ‬ ‫سنبُلَ ٍة ِّمئَةُ َحبَّ ٍة َوهّللا ُ يُ َ‬
‫فِ ْی ُک ِّل ُ‬
‫مال ہللا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مال کی مثال اس دانے جیسی‬
‫تعالی جسے چاہتا‬ ‫ٰ‬ ‫ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں ‪،‬اور ہر بالی میں سو دانے ہوں‪،‬اور ہللا‬
‫تعالی کشادگی واال اور علم واال ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہے بڑھا چڑھا کر دیتاہے‪،‬اور ہللا‬
‫اسی طرح باتوں کی وضاحت اور مسائل کی توضیح و تشریح کے لئے اور بہت سی مثالیں‬
‫قرآن کریم میں موجود ہیں۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے مثالوں کا استعمال‬
‫س ِد إِ َذا‬
‫اح ِم ِه ْم َوتَ َعاطُفِ ِه ْم َمثَ ُل ا ْل َج َ‬
‫ين فِى ت ََوا ِّد ِه ْم َوت ََر ُ‬ ‫کیا ہے‪ ،‬مثالً آپ نے فرمایا‪َ  ’’:‬مثَ ُل ا ْل ُم ْؤ ِمنِ َ‬
‫س َه ِر َوا ْل ُح َّمى‪(‘‘ ‬صحيح البخاري حسب ترقيم فتح‬ ‫س ِد بِال َّ‬ ‫سائِ ُر ا ْل َج َ‬ ‫ُض ٌو تَ َدا َعى لَهُ َ‬ ‫شتَ َكى ِم ْنهُ ع ْ‬ ‫ا ْ‬
‫الباري ‪ , 12 /8 :‬صحيح مسلم‪)20 /8 : ‬‬
‫مومنوں کی مثال آپسی لطف و محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کے مانند ہے کہ اس کے‬
‫کسی بھی عضومیں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار‪،‬درد اور جاگنے میں برابر شریک ہوتا‬
‫ہے ۔‬
‫اس میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے مسلمانوں کے باہمی ربط اور محبت و تعلق کو‬
‫ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ مسلم معاشرہ ایک جسم کی طرح ہے‪ ،‬جیسے جسم کے‬
‫کسی ایک عضو میں بیماری اور تکلیف ہو تو پورا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے‪ ،‬ایسے‬
‫ہی اگر کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف میں سارے مسلمانوں کو شریک ہونا چاہئے ۔‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪13 | P a g e‬‬

‫طيِّبٌ‬‫آن َمثَ ُل األُ ْت ُر َّج ِة ِري ُحهَا َ‬ ‫ایک حدیث میں آپ نے فرمایا‪َ  ’’:‬مثَ ُل ْال ُم ْؤ ِم ِن الَّ ِذى يَ ْق َرأُ ْالقُرْ َ‬
‫يح لَهَا َو َمثَ ُل‬‫طيِّبٌ َوالَ ِر َ‬ ‫آن َك َمثَ ِل التَّ ْم َر ِة طَ ْع ُمهَا َ‬ ‫َوطَ ْع ُمهَا طَيِّبٌ َو َمثَ ُل ْال ُم ْؤ ِم ِن الَّ ِذى الَ يَ ْق َرأُ ْالقُرْ َ‬
‫آن‬‫آن َك َمثَ ِل ال َّري َْحانَ ِة ِري ُحهَا طَيِّبٌ َوطَ ْع ُمهَا ُمرٌّ َو َمثَ ُل ْالفَا ِج ِ‪q‬ر الَّ ِذى الَ يَ ْق َرأُ ْالقُرْ َ‬ ‫اج ِر الَّ ِذى يَ ْق َرأُ ْالقُرْ َ‬
‫ْالفَ ِ‬
‫ْك ِم ْنهُ‬
‫صب َ‬ ‫ب ْال ِمس ِ‬
‫ْك إِ ْن لَ ْم يُ ِ‬ ‫صا ِح ِ‬ ‫ح َك َمثَ ِل َ‬ ‫يس الصَّالِ ِ‬ ‫َك َمثَ ِل ْال َح ْنظَلَ ِة طَ ْع ُمهَا ُمرٌّ َوالَ ِري َح لَهَا َو َمثَ ُل ْال َجلِ ِ‬
‫ك ِم ْن‬ ‫صابَ َ‬‫ك ِم ْن َس َوا ِد ِه أَ َ‬ ‫ُص ْب َ‬ ‫ب ْال ِك ِ‬
‫ير إِ ْن لَ ْم ي ِ‬ ‫اح ِ‬‫ص ِ‬‫يس السُّو ِء َك َمثَ ِل َ‬ ‫يح ِه َو َمثَ ُل َجلِ ِ‬ ‫ك ِم ْن ِر ِ‬ ‫َش ْى ٌء أَ َ‬
‫صابَ َ‬
‫ُد َخانِ ِه‪( ‘‘ ‬سنن أبي داود محقق وبتعليق األلباني ‪)406 /4 :‬‬
‫اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترجہ (سنترے کے مانند ایک خوش ذائقہ اور خوشبو‬
‫دار پھل)کی مانند ہے ‪،‬جس کی بو بھی اچھی ہو تی ہے اور ذائقہ بھی اچھا ہوتا ہے ۔اور اس‬
‫مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے‪ ،‬جس کا ذائقہ اچھا ہو تا ہے ‪ ،‬مگر‬
‫اس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے‪ ،‬ریحانہ(ایک‬
‫خوشبو دار پھل) کی مانند ہے‪ ،‬جس کی بو اچھی ہو تی ہے‪ ،‬مگرذائقہ کڑوا ہو تا ہے ‪،‬اور اس‬
‫فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا‪ ،‬اندرائن کی مانند ہے‪ ،‬جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے‪،‬‬
‫اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی ۔اچھے ساتھی کی مثال مسک والے کی مانند ہے‪  ‬اگر‬
‫تمہیں اس میں سے کچھ نہیں لگے گا توخوشبو ضرور ملے گی‪  ،‬برے ساتھی کی مثال بھٹی‬
‫والے(لوہار وغیرہ) کی مانند ہے ‪،‬اگر تمہیں اس کی سیاہی نہ لگے‪ ،‬تو اس کا دھواں تو‬
‫ضرور لگے گا۔‬
‫اس حدیث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے مومن اور فاجر اور ان کے قرآن پڑھنے اور‬
‫نہ پڑھنے کے عمل کے اثرات کو محسوس چیزوں سے تشبیہ دے کر بہت زیادہ آسان قابل‬
‫فہم اور اثر انگیز بنادیا ہے‪،‬اسی طرح برے ساتھی کو لوہار سے تشبیہ دے کر یہ واضح‬
‫فرمایا ہے کہ جس طرح لوہار کے پاس بیٹھنے واال اگر اس کے کوئلے کی سیاہی اورآگ کی‬
‫چنگاریوں سے بچ بھی جائے تو کم از کم اسے دھواں تو لگے گا ہی ۔ ا سی طرح برے‬
‫شخص کی صحبت میں رہنے والے کو بھی اس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ تکلیف اور نقصان‬
‫ضرورپہونچے گا ۔اس واسطے بروں کی صحبت سے حتی االمکان دور رہنا چاہئے۔‬
‫بہر حال کتاب و سنت میں بہت سی باتوں کی توضیح مثالیں دیکر اور تشبیہ اور تمثیل کے‬
‫ذریعہ کی گئی ہے‪ ،‬اس واسطے اساتذہ و معلّمات کو بھی اپنی باتوں کو سمجھانے كے لئے‬
‫مثالوں سے مدد لینی چا ہئے ۔‬
‫(‪ )۱۷‬اشارے کے ذریعہ سمجھانا‪:‬‬
‫بعض اشیاء کا اشارے کے ذریعہ سمجھا نا آسان ہو تا ہے اور اس سے مخاطبین بات کو بڑی‬
‫آسانی سے سمجھ لیتے ہیں‪ ،‬ایسی صورت میں اساتذہ کو تفہیم کے لئے اشارے کااستعمال‬
‫کرنا چاہئے‪ ،‬جیسے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ سمجھانے کے لئے کہ قمری مہینہ‬
‫کبھی انتیس دن کا ہو تا ہے اور کبھی تیس دن کا اشارے سے کام لیا‪ ،‬اور دونوں ہاتھوں کی‬
‫ذاو ٰه َکذا‘‘ کبھی مہینہ‬ ‫ش ْه ُر ٰه َکذا َو ٰه َک َ‬ ‫انگلیوں کو پھیال کر اشارہ کرتے ہوئے فر مایا ‪’’ :‬ال َّ‬
‫اس طرح اور اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے اور تیسری مرتبہ انگوٹھے کو موڑلیا ‪ ،‬پھر‬
‫ذاو ٰه َکذا‪‘‘ ‬اور اس مرتبہ انگوٹھے کو نہیں موڑا‪ ،‬اس طرح‬ ‫ش ْه ُر ٰه َکذا َو ٰه َک َ‬ ‫فرمایا‪’’ ’’ :‬ال َّ‬
‫آپ نے اشارہ فرمایا کہ مہینہ کبھی انتیس کا اور کبھی تیس کا ہو تا ہے ۔ ‪( ‬صحيح البخاري‬
‫حسب ترقيم فتح الباري ‪ , 68 /7 :‬صحيح مسلم‪)123 /3 :‬‬
‫اسی طرح مسلمانو ں کے باہمی ربط و تعلق کو بتانے كے لئے ایک مرتبہ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫ضا‪‘‘ ‬مومن مومن کے لئے‬ ‫ضهُ بَ ْع ً‬‫ش ُّد بَ ْع ُ‬ ‫علیہ وسلم نے فرمایا ‪ ’’ :‬إِنَّ ا ْل ُم ْؤ ِم َن لِ ْل ُم ْؤ ِم ِن َكا ْلبُ ْنيَ ِ‬
‫ان يَ ُ‬
‫عمارت کی مانند ہے‪ ،‬جس کا ایک حصہ دوسرے حصے میں پیوست ہو کر اس کومضبوط‬
‫شبَّ َك‬‫ابوموسی اشعری‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں‪َ  ’’ :‬و َ‬ ‫ٰ‬ ‫کرتا ہے ‪،‬راوی حدیث حضرت‬
‫صابِ َعهُ‪ ‘‘ ‬اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ‬ ‫أَ َ‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪14 | P a g e‬‬

‫کی انگلیوں میں ڈال کر جال بنا کر دکھایا۔ (صحيح البخاري‪  ‬حسب ترقيم فتح الباري ‪129 /1 :‬‬
‫‪ ,‬صحيح مسلم‪)20 /8 : ‬‬
‫اورحضرت سہل بن سعد الساعدی‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫سطَى‪(‘‘ ‬صحيح‬ ‫سبَّابَ ِة َوا ْل ُو ْ‬ ‫يم فِي ا ْل َجنَّ ِة َه َك َذا َوأَش َ‬
‫َار بِال َّ‬ ‫وسلم نے فرمایا‪ ’’ :‬أَنَا َو َكافِ ُل ا ْليَتِ ِ‬
‫البخاري حسب ترقيم فتح الباري ‪ )68 /7  :‬میں اور یتیم کی کفاکت کرنے واال جنت میں ان‬
‫دونوں انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔اور یہ کہتے ہوئے آپ نے درمیانی اور شہادت والی انگلی‬
‫سے اشارہ کیا۔‬
‫ظاہر ہے کہ اس اشارے سے صحابہ کرام کی سمجھ میں یہ بات بڑی آسانی سے آگئی ہوگی‬
‫کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اور یتیم کی کفالت کرنے واال جنت میں ایک دوسرے سے‬
‫بالکل قریب ہوں گے اور دونوں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہو گی۔‬
‫ایک بار سفیان بن عبد ہللا‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کیا‬
‫کہ‪ :‬ہللا کے رسول یہ ارشاد فرمائیے کہ آپ کی نظر میں میرے لئے کون سی چیز سب سے‬
‫زیادہ خطرناک ہے ؟آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا‪:‬یہ۔(رواه الترمذي ‪607 /4  :‬‬
‫وصححہ)‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اس موقع پر جواب میں ’’یہ‘‘ کہہ کرجہاں اس بات کی‬
‫جانب اشارہ فرمایا کہ زبان کے استعمال میں بے احتیاطی سب سے خطر ناک امر ہے وہیں‬
‫آپ نے زبان کو پکڑ کر اس بات کی جانب بھی اشارہ کردیا کہ زبان پر گرفت ہونا اور اس کو‬
‫اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ۔‬
‫در اصل بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں لوگ اشارے سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ‬
‫جاتے ہیں اور صرف زبان سے کہنے سے یا تو اسے دیر میں سمجھتے ہیں یا سمجھ ہی نہیں‬
‫پاتے ہیں ‪ ،‬ایسے مواقع پر تفہیم کے لئے اشاروں کا استعمال کرنا زیادہ مناسب اوربہتر یا‬
‫ضروری ہو تا ہے۔‬
‫بہر حال تعلیم و تربیت کا کام کرنے والوں کو چاہئے کہ اپنی باتوں کو اچھی طرح سمجھانے‬
‫اور واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت اشاروں سے بھی مدد لیں۔‬
‫(‪)۱۸‬نقشہ بنا کر یا لکیریں کھینچ کر سمجھانا‪:‬‬
‫بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقشہ بنا کر یا لکیروں سے اس کی شکل بنا کر دکھانے اور‬
‫سمجھا نے سے مخاطبین کوفورا سمجھ میں آجاتی ہیں‪،‬اور اگر ویسے سمجھایا جائے تو‬
‫سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ایسی چیزو ں کونقشہ کے ذریعہ یا خطوط کھینچ کر سمجھانا چاہئے۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم بھی حسب ضرورت ا یسا کیا کرتے تھے ۔‬
‫حضرت جابر بن عبد ہللا‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے پاس تھے ‪ ،‬آپ نے ایک سیدھی لکیر کھینچی ‪ ،‬پھر اسکے دائیں جانب دو لکیریں‬
‫اوربائیں جانب دو لکیریں کھینچیں ‪،‬پھر درمیان والی لکیر پر اپنا ہاتھ رکھا اور فر مایا‪ :‬یہ ہللا‬
‫ستَقِ ْيما ً فَاتَّبِ ُعوهُ َوالَ تَتَّبِ ُعو ْا‬
‫ص َرا ِط ْی ُم ْ‬ ‫کا راستہ ہے ‪،‬پھر اس آیت کی تالوت فرمائی‪َ   :‬وأَنَّ َه َذا ِ‬
‫سبِ ْيلِ ِه‪   ‬األنعام‪(  ١٥٣ :‬رواہ ابن ماجہ‪۱ :‬؍‪)۲۴‬یہی میرا سیدھا راستہ ہے‬ ‫ک ْم َعن َ‬ ‫ق ِب ُ‬ ‫سبُ َل فَتَفَ َّر َ‬
‫ال ُّ‬
‫پس تم اسی کو اختیار کرو اور دوسرے راستوں کواختیار نہ کرو اس لئے کہ وہ تم کو اس‬
‫کے راستے سے ہٹاکر متفرق کردیں گے۔‬
‫اور حضرت عبد ہللا بن مسعود‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے ہمارے لئے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ ہللا کا راستہ ہے‪ ،‬پھر چند خطوط اس‬
‫کے دائیں اور بائیں جانب کھینچے‪ ،‬پھر فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں جن میں سے ہر ایک‬
‫ستَقِ ْيما ً فَاتَّبِ ُعوهُ‬
‫ص َرا ِط ْی ُم ْ‬ ‫پر شیطان ہے اور جو اپنی جانب بالتا ہے ۔پھر آیت کریمہ‪َ  :‬وأَنَّ َه َذا ِ‬
‫سبِ ْيلِ ِه‪   ‬کی تالوت فرمائی ۔(مسند احمد‪۱:‬؍‪)۴۳۵،۴۶۵‬‬ ‫ک ْم َعن َ‬ ‫ق بِ ُ‬ ‫سبُ َل فَتَفَ َّر َ‬‫َوالَ تَتَّبِ ُعو ْا ال ُّ‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪15 | P a g e‬‬

‫پہلی روایت کے مطابق‬

‫‪ ‬دوسری روایت کے مطابق‬

‫غور فرمائیے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے خطوط کھنچ کر آیت کریمہ اور ہللا کی‬
‫راہ’’ صراط مستقیم ‘‘کی تشریح کس قدر عام فہم انداز میں فرمائی‪ ،‬جس سے صحابہ کرام‬
‫رضى هللا عنہم کے ذہنوں میں یہ بات بڑی آسانی سے جا گزیں ہو گئی کہ ہللا کا سیدھا راستہ‬
‫صرف ایک ہے اور باقی تمام راستے شیطانوں اور گمراہی وضاللت کے ہیں۔‬
‫ایک دوسری روایت میں حضرت‪ q‬عبد ہللا بن مسعود‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں کہ ہمیں‬
‫سمجھانے کے لئے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک مربع نما شکل بنائی ۔ اور اس کے‬
‫بیچ سے باہر نکلتا ہوا ایک خط کھینچا اور اس درمیانی خط سے مال کر چھوٹے چھوٹے‬
‫خطوط کھینچے ۔پھر مربع کے درمیان میں انگلی رکھ کر فرمایا‪:‬یہ انسان ہے اور مربع بنانے‬
‫والے خطوط اس کی موت ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط حوادث و مصائب ہیں جو انسان‬
‫پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔اگر ان کا نشانہ چوک جاتا ہے تواجل آلیتا ہے ‪،‬اور مربع سے باہر‬
‫نکلتا ہوا جو خط ہے وہ انسان کی آرزو اور تمنا ہے ۔جہاں تک آدمی کبھی نہیں پہنچ پاتا۔‬

‫‪ ‬حافظ ابن حجر ‪ ‬رحمہ هللا نے فتح الباری(‪۱۱‬؍‪)۲۳۷‬میں مختلف محدثین کرام کی بنائی ہوئی‬
‫شکلیں نقل کی ہیں اور اس شکل کو سب سے زیادہ معتمد قرار دیا ہے۔‬
‫اس خاکہ کی مدد سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ بات واضح فرمائی کہ انسان اور‬
‫اس کی آرزؤوں کے درمیان حادثات اور مصائب حائل ہیں‪ ،‬پھر موت چاروں طرف سے‬
‫انسان کو گھیرے ہوئے ہے‪ ،‬جس سے کوئی راہ فرار نہیں ۔اورانسان کو کتنی بھی طویل‬
‫زندگی کیوں نہ ملے اس کی آزوئیں ادھوری رہ جاتی ہیں‪ ،‬اور کوئی بھی انسان زندگی میں‬
‫اپنی تمام تمناؤں کی تکمیل نہیں کر پاتا۔(انظر صحیح البخاری مع الفتح‪۱۱:‬؍‪۲۳۵‬۔‪ ،۲۳۷‬سنن‬
‫ابن ماجہ‪۲:‬؍‪،۱۴۱۴‬رسول خدا کا طریق تربیت ص‪)۴۶،۴۹ ‬‬
‫(‪ )۱۹‬اہم چیزوں کو لکھانا اورتختۂ سیاہ کا استعمال کرنا ‪:‬‬
‫اساتذہ و معلّمات کو ضرورت کے مطابق طلبہ کو سمجھانے كے لئے کبھی کبھی تختۂ سیاہ‬
‫(بلیک بو ر ڈ ) کا بھی استعمال کرنا چاہئے ‪،‬کچھ باتوں کا امال کرانا چاہئے‪ ،‬اور کچھ چیزیں‬
‫لکھ کر بتانا چاہئے‪ ،‬اور جو با تیں اہم اور ضروری ہوں انھیں ضرور لکھانا چاہئے ‪،‬تا کہ وہ‬
‫طلبہ کے پاس محفوظ رہیں‪،‬کیونکہ کہا جا تا ہے ’’الذھن خ ّوان‘‘ یعنی ذہن بہت خیانت کرنے‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪16 | P a g e‬‬

‫واال ہے‪ ،‬بہت ساری باتوں کے بارے میں آ دمی سوچتا ہے کہ یہ ہمیشہ یاد رہیں گی مگر‬
‫حافظہ خیا نت کرجاتا ہے اور وہ باتیں ذہن سے نکل جاتی ہیں ۔‬
‫خاص طور سے چھوٹے بچوں كے لئے ضروری باتیں بلیک بورڈ پر ضرورلکھ دینا چاہئے‪،‬‬
‫تا کہ وہ دیکھ کر صحیح صحیح اپنی کا پیوں پر نقل کر لیں اور ان کے پاس محفوظ رہیں‪،‬اور‬
‫وتعالی نے جب انبیاء علیہم‬
‫ٰ‬ ‫ساتھ ہی بچوں کولکھنے کی اہمیت بھی بتانا چا ہئے کہ ہللا تبارک‬
‫السالم‪  ‬پر اپنے کالم کو نازل فرمایا‪ ،‬تو صرف انبیا ء علیہم السالم کی زبانی ان کی تبلیغ پر‬
‫اکتفاء نہیں کیا ‪ ،‬بلکہ انھیں کتابی شکل میں بھی عنایت فر ما یاتاکہ وہ محفوظ رہیں اور لوگ‬
‫مقررہ مدت تک ان سے استفادہ کرتے رہیں۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی قرآن کریم کی حفاظت كے لئے کاتبین وحی کو مقرر‬
‫فرمایا ۔جو آپ پرنازل ہونے والی سورتوں اورآیتوں کو آپ کی ہدایت کے مطابق مصحف میں‬
‫لکھتے تھے‪ ،‬فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے بنی لیث کے ایک شخص کو قتل‬
‫کردیا‪ ،‬جب اس واقعہ کی اطالع رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنی‬
‫سواری پر سوار ہوکر ایک عظیم الشان خطبہ دیا جس میں حرم کی عظمت وحرمت اور اس‬
‫کے آداب کی تفصیل اور قتل میں قصاص ودیت کے احکام کو بیان فرمایا‪ ،‬جب آپ خطبہ‬
‫سے فارغ ہوئے تو یمن کے ایک صحابی ابو شاہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬نے عرض کیا‪ :‬ہللا کے‬
‫رسول مجھے یہ خطبہ لکھوا دیجئے ۔آپ نے صحابہ کرام رضى هللا عنہم کو ابو شاہ كے لئے‬
‫یہ خطبہ لکھ کر دینے کا حکم دیا ۔ اور فر مایا ‪ ’’ :‬اُ ْکتُبُ ْوا أِل بِ ْي شَا ْه‘‘ابو شاہ کے لئے لکھ دو۔‬
‫(صحيح البخاري مع فتح الباري ‪)165 /3 :‬‬
‫اسی طرح آپ نے عمر و بن حزم‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬وغیرہ كے لئے صدقات‪ q،‬دیات‪ q،‬فرائض اور‬
‫سنن کے متعلق ایک کتاب تحریر کروائی تھی۔(انظر جامع بیان العلم واھلہ)‬
‫ان سب سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر کا تعلیم و تبلیغ میں بڑا دخل اور اس کی بڑی اہمیت ہے‬
‫‪ ،‬اس واسطے طلبہ ا وراساتذہ کواہم اہم مسائل کے لکھنے لکھانے کا اہتمام کرنا چاہئے اور‬
‫فرائض اور ریاضی وغیرہ کے مسائل کی تفہیم کے لئے بلیک بورڈ کا استعمال ضرور کرنا‬
‫چاہئے۔‬
‫(‪ )۲۰‬تدریس میں اعتدال و تدریج سے کا م لینا ‪:‬‬
‫اساتذہ کو اس بات کا بھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسباق کو تدریجا اور تھوڑا تھوڑا کر کے‬
‫پڑھائیں ‪،‬ایسا نہ ہو کہ سال کا اکثر وقت گپ شپ میں گذار دیں اور جب امتحان کا وقت قریب‬
‫آئے تو جلدی جلدی پڑھائیں‪،‬اور مقررہ نصاب میں سے کچھ پڑھائیں اور کچھ چھوڑ دیں‪،‬‬
‫اورطلبہ سے کہیں کہ تم لوگ اسے خود سے پڑھ لینااور یاد کر لینا ‪،‬یا اکثر ایام کالس سے‬
‫غیر حاضر رہیں ‪ ،‬اورد نیا بھر کے دورے اور سفر کرتے رہیں اور اخیر میں آکر تیزی سے‬
‫کتابوں کا دورہ کرا دیں‪ ،‬یہ طریقہ ہرگز صحیح نہیں ہے‪،‬طلبہ کو تھوڑا تھوڑاان کی قابلیت ا‬
‫ور فہم کی صالحیت کے مطابق پڑھانا اور سمجھانا چاہئے ۔ دورہ نہیں کرانا چاہئے‪ ،‬اور نہ‬
‫وقت گذاری کرکے اکٹھے زیادہ پڑھا نا چا ہئے ۔‬
‫سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک استاذ کو جب کوئی کتاب پڑھانے کے لئے دی جائے تو‬
‫وہ سب سے پہلے سال بھر کے تعلیمی ایام کا حساب لگا ئے‪ ،‬اس طرح کہ سال کے تین سو‬
‫ساٹھ دن جوڑ کر دیکھے کہ ان میں سے کتنے دن تعلیم ہو گی‪ ،‬اور کتنے ایام رخصت وغیرہ‬
‫میں نکل جائیں گے ۔ حساب لگاتے وقت رخصت عاللت ‪ ،‬رخصت اتفاقی ‪،‬جمعہ کی‬
‫چھٹیاں ‪،‬سہ ماہی ‪ ،‬ششماہی اور ساالنہ امتحان اور ان کی تیاریوں کی چھٹیاں ‪،‬عید ‪،‬بقرعید‬
‫کی چھٹیاں وغیرہ تمام تعطیالت کو مد نظر رکھیں‪ ،‬بلکہ حساب لگاتے وقت یہ بھی ملحوظ‬
‫رکھناچاہئے کہ درمیان میں مہمانوں کی آمد‪ ،‬یا مدرسہ کے ذمہ داروں کی تشریف آوری کی‬
‫وجہ سے لگ بھگ کتنے دن تعلیم نہیں ہو گی‪ ،‬اور اس کا بھی خیال رہے کہ یقینی طور سے‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪17 | P a g e‬‬

‫ساالنہ امتحان کی تیاری سے کم از کم پندرہ‪ ،‬بیس روز پہلے ہی کورس ختم ہوجائے ‪،‬کیونکہ‬
‫اگر ایسا نہ ہو گاتو طلبہ کو مذاکرہ‪ ،‬آموختہ کے اعادہ‪ ،‬اور اساتذہ سے پوچھنے كے لئے‬
‫موقعہ نہیں ملے گا ‪ ،‬اور نہ مدرس انھیں امتحان اور اسکی تیاری کے بارے میں کچھ بتا‬
‫سکے گا۔ جبکہ مدرس کو امتحان سے پہلے اس کے بارے میں اہم اہم باتیں ضرور بتانا‬
‫چاہئے‪،‬مثالً یہ کہ امتحانی سواالت کے جوابات کیسے لکھنا چاہئے ‪ ،‬امتحان کی تیاری کیسے‬
‫کرنی چاہئے ‪،‬پرچہ لکھتے وقت کن کن چیزوں کا لکھناضروری ہے وغیرہ وغیرہ۔‬
‫یاد رہے کہ جو اساتذہ سال بھر کا ٹائم ٹیبل بنا کر پڑھاتے ہیں وہ مناسب رفتار سے اور اچھی‬
‫طرح پڑھا تے ہیں‪ ،‬اور ان کا کورس بھی آسانی سے ختم ہو جاتا ہے ۔اور جن کا کوئی ٹائم‬
‫ٹیبل نہیں ہو تا وہ صحیح طریقے سے نہیں پڑھاتے ‪،‬اور عموما ً ان کا کورس بھی وقت پر‬
‫ختم نہیں ہوتا‪،‬اور تعلیمی میدان میں وہ ناکام رہتے ہیں‪ ،‬اس واسطے کہ وہ کبھی اتنا کم‬
‫پڑھاتے ہیں کہ طلبہ کو نہ آسودگی ہوتی‪ ،‬اور نہ کورس ختم ہو تا ہے‪ ،‬اور کبھی اتنا زیادہ‬
‫پڑھادیتے ہیں کہ طلبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا‪ ،‬اور جو کچھ وہ پڑھا تے اور بتاتے ہیں وہ‬
‫اسے ہضم نہیں کر پاتے۔ کیونکہ وہ نہ اتنا مطالعہ کرکے آتے ہیں اور نہ ہی استاذ اطمینان‬
‫اور تفصیل کے ساتھ پڑھاتا ہے‪ ،‬بلکہ جلدی جلدی عبارت پڑھاکر آگے بڑھ جاتا ہے ‪،‬اور بہت‬
‫سی چیزوں کو چھوڑ کرکہہ دیتا ہے کہ اب تم لوگ بڑی جماعت میں پہونچ گئے ہو‪ ،‬خود‬
‫سے سمجھ لینا ‪ ،‬اور یاد کر لینا‪،‬اوردونوں صورتوں میں طلبہ کا علمی خسارہ ہوتا ہے۔‬
‫اسی طرح اساتذہ و معلّمات کو سبق کے سمجھانے اور معلومات دینے میں بھی اعتدال سے‬
‫کام لینا چاہئے‪ ،‬نہ اتنی کم معلومات دیں کہ درس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہو اور طلبہ کی علمی‬
‫تشنگی برقرار رہے‪ ،‬اور نہ اتنی تفصیل میں جائیں کہ ان کا سمجھنا اور یاد رکھنا طلبہ کے‬
‫لئے مشکل یا نا ممکن ہو ۔مثال ترجمہ معانی القرآن پڑھا تے وقت مفردات کی لغوی اور‬
‫نحوی صرفی تشریح کرنی چاہئے ‪،‬آیات‪ q‬کا لفظی اور سلیس ترجمہ کرنا چاہئے ‪،‬سبب نزول‬
‫اور آیتوں سے مستنبط ہونے والے کچھ مسائل بھی بتانا چاہئے ‪ ،‬صرف لفظی ترجمہ پر ہی‬
‫اکتفا ء کرنا اور شان نزول وغیرہ کو بالکل ترک کردینامناسب نہیں ۔ اسی طرح کسی جگہ‬
‫اتنی معلومات دے دینا کہ طلبہ ہضم نہ کرسکیں اور کسی جگہ بالکل خاموشی اختیار کرنا یا‬
‫بہت مختصر معلومات دینابھی مناسب نہیں۔ صحیحین وغیر ہ کتب حدیث کے پڑھانے والے‬
‫بعض اساتذہ صرف ’’صلی ہللا علیہ وسلم‘‘کہنے پر اکتفا کرتے ہیں‪،‬اور جامعہ اسالمیہ میں‬
‫تفسیر کے ایک استاذ تھے جو تفسیر فتح القدیر للشوکانی پڑھا تے تھے‪ ،‬وہ جب پڑھانے آتے‬
‫تو زبانی آیتیں پڑھتے جاتے اور جاللین میں جتنی مختصر تفسیر ہے اتنی ہی مختصرتفسیر‬
‫بیان کر دیتے‪ ،‬بلکہ صرف الفاظ قرآن کے آسان عربی میں ترجمے پر اکتفاء کرتے‪ ،‬اور‬
‫کسی روز پاؤ پارہ ‪،‬کسی روز آدھا پارہ پڑھا کر چلے جاتے ‪،‬اس پرکئی طلبہ نے کہا‪:‬شیخ!‬
‫تفسیر فتح القدیر مفصل ہے ‪،‬اس میں لغت‪ ،‬نحو‪ ،‬صرف‪ ،‬بالغت‪ ،‬فقہ ‪ ،‬احادیث و آثاروغیر ہ‬
‫کے مسائل بیان کئے گئے ہیں ‪،‬آپ ان پر بھی روشنی ڈالیں اورکچھ باتیں اپنی جانب سے بھی‬
‫بتائیں‪ ،‬جتنی باتیں آپ بتاتے ہیں وہ بہت مختصر اور نا کافی ہیں ۔اس پر انھوں نے جواب دیا‬
‫کہ میں جانتاہوں کہ تم لوگ کچھ نہیں سمجھ پاؤگے اسی واسطے میں جامعہ میں پڑھانے كے‬
‫لئے نہیں آ رہا تھا ‪،‬مگر شیخ ابن باز‪  ‬رحمہ هللا نے اصرار کیا‪ ،‬اور کہا ‪ :‬آپ سے طلبہ کو‬
‫فائدہ ہو گا‪ ،‬اس واسطے میں چال آیا ‪ ،‬اگر ہم زیادہ بتائیں گے تو تم لوگوں کے کچھ پلے نہیں‬
‫پڑے گا ۔اس پر طلبہ نے کہا ‪:‬شیخ !مزید بتائیے ہم لوگ ان شاء ہللا سمجھیں گے ۔ توانھوں نے‬
‫ایک آیت پڑھی ‪،‬اورجاہلی شعراء کے تقریبا‪ ۱۰۰ ‬اشعار اس کے ایک غریب لفظ کی تفسیر‬
‫وتشریح میں پڑھے ‪،‬او ر پھر پوچھا کہ بتاؤ‪ :‬کیا سمجھا ؟اور کتنا یاد ہے ؟‬
‫در حقیقت یہ افراط و تفریط اور حد اعتدال سے تجاوز کرناہے ۔ کہ یا تو اتناکم بتائیں کہ فتح‬
‫القدیر کو جاللین بنادیں‪ ،‬یا اتنا زیادہ بتائیں کہ ایک لفظ پر‪۱۰۰ ‬؍ اشعار سنائیں اور چاہیں کہ‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪18 | P a g e‬‬

‫سب طلبہ کو بر وقت یاد بھی ہو جائے ‪،‬یہ تدریس کے صحیح منہج کے خالف ہے ۔ہر مدرس‬
‫اور معلمہ کوطلبہ اور طالبات کے معیار کے مطابق معتدل انداز میں کتاب پڑھانا اور‬
‫معلومات دینا چاہئے‪ ،‬اور مناسب مقدار میں روزانہ پڑھانا چاہئے ۔اگراعتدال اور تدریج سے‬
‫کام نہیں لیا گیا تو درس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا۔‬
‫جامعہ سلفیہ کے ہمارے اساتذہ میں سے ایک استاذ موالنا عبد المعید بنارسی رحمۃ ہللا علیہ‬
‫تھے‪ ،‬یہ منطق ‪،‬فلسفہ اور نحو وصرف میں بڑے ماہر تھے‪ ،‬اس کے ساتھ تفسیر وحدیث بھی‬
‫اچھا پڑھاتے تھے ‪ ،‬یہ ہمیشہ تعلیمی سال کی ابتداء ہی میں تعلیمی ایام کا حساب لگا لیتے ‪،‬‬
‫جس میں جملہ تعطیالت کے عالوہ یہ بھی ملحوظ رکھتے کہ کبھی ناظم اعلی صاحب‪ q‬کے‬
‫آنے کی وجہ سے اور کبھی کسی مہمان کی آمد اور کبھی کوئی ہنگامی پروگرام ہونے کی‬
‫وجہ سے اسباق کا کتنا ناغہ ہوگا‪ ،‬پھر یہ دیکھتے کہ کتاب میں کتنے صفحات اور ہر صفحہ‬
‫میں کتنی سطریں ہیں ‪،‬پھر انھیں تعلیمی ایام پرتقسیم کر کے دیکھتے کہ روزانہ کتنا پڑھائیں‬
‫تو کورس آسانی سے ختم ہو جائے گا ؟ پھر اسی حساب سے روزانہ پڑھاتے‪ ،‬اورمعلومات‬
‫بھی اتنی مقدار میں دیتے کہ طلبہ آسانی سے سمجھ جاتے ‪،‬جیسے جاللین میں ترجمہ کراتے‬
‫اور اس میں مذکورہ مسائل کو متوسط انداز میں اچھی طرح سمجھاتے‪ ،‬نہ بہت لمبی تقریر‬
‫کرتے اور نہ بہت اختصار‪ q‬سے پڑھاتے‪ ،‬جس سے طلبہ بھی مطمئن رہتے اور سب سے‬
‫پہلے نصاب بھی ختم ہو جاتا۔ بہر حا ل اساتذہ کو تعلیم و تدریس میں اعتدال اور تدریج کا‬
‫لحاظ رکھنا چاہئے ۔‬
‫غورفرمائیے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم پر قرآن کا نزول‪۲۳ ‬؍ سال میں تھوڑا تھوڑا کر‬
‫کے ہوا‪ ،‬اور ایک ہی مرتبہ پورا قرآن نازل نہیں کردیا گیا‪،‬کیوں؟ اس لئے کہ آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو اس کے یاد کرنے اور لو گو ں تک پہچانے میں آسانی ہو‪ ،‬او ر لوگوں کو بھی‬
‫اس کے سمجھنے‪ ،‬یاد کرنے‪ ،‬اور عمل کرنے میں سہولت ہو ۔‬
‫تعالی چاہتا تو انھیں ایک‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح اسالمی احکام و فرائض کا نزول بھی بتدریج ہوا‪ ،‬اگر ہللا‬
‫ہی مرتبہ نازل کر دیتا‪ ،‬مگر متعدد مصلحتوں کے پیش نظر ایسا نہیں کیا ۔ بہر حال تدریج اور‬
‫اعتدال قرآن کریم کا منہج ہے‪ ،‬اور اس میں بڑی حکمتیں اور فوائد ہیں‪ ،‬اس واسطے اساتذہ و‬
‫معلّمات کو بھی تعلیم و تربیت میں اس کا لحا ظ رکھنا چا ہئے۔‬
‫حضرت معاذ بن جبل‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کو جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو‬
‫انھیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا‪ :‬تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں‪،‬‬
‫تم انھیں پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا‪ ،‬وہ جب یہ بات مان لیں کہ ہللا کے سوا کوئی‬
‫معبود برحق نہیں‪ ،‬اور محمد( صلی ہللا علیہ وسلم) ہللا کے رسو ل ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ‬
‫ہللا نے ان پر شب و روز میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ بھی تسلیم کرلیں‬
‫تو پھر انھیں یہ بتانا کہ ہللا نے ان پر زکاۃ فرض کیاہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے‬
‫ٰ‬
‫علیہ(مشکوۃ‪۱:‬؍‪ ۵۵۵‬ح‪)۱۷۷۲ ‬‬ ‫گی اور غریبوں اور فقیروں پر خرچ کی جائے گی۔ متفق‬
‫ان تمام دالئل سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم و تربیت میں تدریج و اعتدل کا لحاظ کرنا ضروری‬
‫ہے ۔‬
‫(‪ )۲۱‬مسائل کو آسان بنا کر پیش کرنا‪:‬‬
‫اساتذہ ومعلّمات کی ذمہ داری ہے کہ جو کتابیں پڑھائیں انھیں طلبہ وطالبات کے سامنے آسان‬
‫اورقابل فہم و قابل حفظ بنا کر پیش کریں ۔ اور تعلیم اور مدرسہ کا ذکر بچوں کے سامنے اس‬
‫طرح کریں کہ انہیں مدرسہ آنے اور تعلیم حاصل‪ q‬کرنے کا شوق ہو۔‬
‫افسوس کہ برصغیر میں بچوں کو ان کے گھر والے ‪،‬محلہ پڑوس کے لوگ ‪،‬رشتہ دار‬
‫اورخود بعض اساتذہ اورمدرسہ کے ذمہ داران بھی اس طرح ڈراتے ہیں کہ گویا بچے کو‬
‫مدرسہ میں استاذ کے پاس پڑھنے کے لئے نہیں‪ ،‬بلکہ قصاب کے پاس ذبح کرنے کے لئے‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪19 | P a g e‬‬

‫بھیجا جاتاہے ‪،‬اور مدرسہ تعلیم و تربیت کی جگہ اور درس گاہ نہیں‪ ،‬بلکہ بچوں کا مذبح‬
‫ہے ۔ کسی بچے نے کوئی شرارت کی کہ امی یا ابو یا دادی کی آواز آئی ‪:‬ارے یہ بہت‬
‫شرارت کرنے لگا ہے‪ ،‬اس کا نام مدرسہ میں لکھادو ۔ وہاں ماسٹر صاحب یا میاں صاحب‪ q‬یا‬
‫مولوی صاحب‪ q‬اس کو ٹھیک کر دیں گے ۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں اتنی پٹائی ہو گی کہ چھٹی‬
‫کا دودھ یاد آجائے گا ۔کوئی مرغا بنانے ‪،‬کوئی پیٹھ پر اینٹ الدنے ‪ ،‬کوئی دیر تک اٹھک‬
‫بیٹھک کرانے‪ ،‬کوئی کرسی بنانے ‪ ،‬اور کوئی کان اینٹھنے کا تذکرہ اتنے بھیانک انداز میں‬
‫کرتا ہے کہ مدرسہ کا تصور بچہ کے ذہن میں کسی ایسے وحشت ناک جیل کی شکل میں‬
‫ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کو مارنے پیٹنے اور طرح طرح کی اذیتیں دینے کے لئے اساتذہ و‬
‫معلّمین کے نا م پر انتہائی ظالم اور بے رحم قسم کے داروغہ اور پولیس کے لوگ رہتے‬
‫ہوں۔‬
‫بعض اساتذہ و معلّمات بھی طلبہ و طالبات کو خوف زدہ کرتے اور ڈراتے رہتے ہیں کہ‬
‫مدرسہ خالہ پھوپھی کا گھر نہیں ہے ‪ ،‬چمڑی ادھیڑ لیں گے ۔بعض معصوم بچوں کو بری‬
‫طرح پیٹتے بھی ہیں ۔ بچوں کو ڈرانے کا یہ اسلوب اور طریقہ بالکل غلط اور انتہائی نقصان‬
‫دہ ہے۔اس سے بچے پہلے ہی مدرسہ اور اساتذہ سے متنفر اور خوف زدہ ہو جاتے ہیں ‪،‬اور‬
‫پھر یا تو وہ مدرسہ جاتے ہی نہیں‪ ،‬یا جاتے ہیں تو ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ جس‬
‫سے ان کے اندر بزدلی و کم ہمتی پیدا ہو جا تی ہے‪ ،‬جو تعلیم و تربیت اور ہر ناحیہ سے‬
‫بچوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔‬
‫اس کے برخالف ہم نے سعودی عرب میں دیکھاکہ بچوں کو مدرسہ جانے سے پہلے تعلیم‬
‫کی خوب تر غیب دی جاتی ہے ‪،‬مدرسہ ‪ ،‬اس کے ماحول اور وہاں کی مشغولیات کو اس‬
‫انداز میں ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے شوق اور رغبت سے مدرسہ جاتے‬
‫ہیں‪،‬اور مدرسہ میں بھی انہیں بڑے الڈو پیارسے پڑھایا جاتا ہے‪،‬ان کے لئے کھیل اور تفریح‬
‫کے مناسب سامان اور پروگرام ہو تے ہیں‪،‬وہاں انہیں چاکلیٹ اور مشروبات بھی دئے جاتے‬
‫ہیں‪ ،‬جس سے طلبہ بال کسی سختی اور مار پیٹ کے خود ہی مدرسہ جاتے ہیں‪ ،‬بلکہ اس كے‬
‫لئے بے قرار رہتے ہیں‪ ،‬اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم كے لئے ترغیب و تسہیل کا انداززیادہ‬
‫صحیح اور بہتر ہے۔‬
‫بہت سے اساتذہ کچھ کتابوں کو پڑھانے سے پہلے ہی کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتا ب بہت‬
‫مشکل ہے اور کسی کے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے‪ ،‬لیکن پھر بھی ہم پڑھا ئے دیتے ہیں‪،‬‬
‫نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ طلبہ پہلے ہی سے مایوس ہو جاتے ہیں اور اس کے درس کو توجہ سے‬
‫نہیں سنتے ‪ ،‬اس طرح وہ کتاب انکی سمجھ میں نہیں آتی‪ ،‬حاالنکہ اگراستاذ صرف یہ کہے‬
‫کہ یہ کتاب ذرا مشکل تو ہے لیکن آپ لوگ توجہ دیجئے ان شاء ہللا سمجھ میں آجائے گی‪،‬‬
‫اور طلبہ درس توجہ سے سنیں ‪،‬تو اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ‪ ،‬کیو نکہ ؂‬
‫مشکلے نیست کہ آساں نہ شود‪               ‬مرد باید کہ ہراساں نہ شود‬
‫بہر حال اساتذہ و معلّمات ا ور والدین وغیرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے سامنے‬
‫مدرسہ اور تعلیم کا ذکر اچھے انداز میں کریں‪ ،‬اورمدرسے کا ماحول ایسا عمدہ ‪ ،‬خوش گوار‬
‫اوردلچسپ بنا ئیں کہ بچے وہاں خود اپنے شوق اور رغبت سے جائیں‪ ،‬اور اساتذہ جو کتابیں‬
‫یا مضامین پڑھائیں انھیں آسان اور قابل فہم بنا کر پیش کریں‪ ،‬طلبہ کی ہمت افزائی ‪،‬اور مدد‬
‫کریں‪ ،‬اور کوئی ایسا قول و فعل ان سے صادر نہ ہو جس سے طلبہ کو تعلیم سے نفرت ہو‬
‫اور وہ مدرسہ نہ جائیں یا چھوڑ دیں ۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت معاذرضى ہللا عنہ‪ ‬اورحضرت ابو موسی‪ ‬رضى ہللا‬
‫ش َرا ‪،‬‬ ‫س َرا ‪َ ،‬والَ تُ َع ِّ‬
‫س َرا َوبَ ِّ‬ ‫عنہ‪ ‬کو جب یمن کی جانب روانہ کیا تو انھیں یہ نصیحت فرمائی‪ ’’:‬يَ ِّ‬
‫َوالَ تُنَفِّ َرا‪(‘‘ ‬صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري ‪ , 79 /4 :‬صحيح مسلم‪ )141 /5 : ‬لوگوں‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪20 | P a g e‬‬

‫کے ساتھ نرمی سے پیش آنا ‪ ،‬سختی نہ کرنا ‪،‬ان کو بشارت دینا اور نفرت نہ دالنا‪،‬نیز آپ نے‬
‫ش ُر ْوا‪(‘‘ .‬البخاری‪۱ :‬؍‬ ‫ب ‪،‬ف َ َ‬
‫س ِّدد ُْوا‪َ ،‬وقَا ِربُ ْوا‪َ ،‬واَ ْب ِ‬ ‫أح ٌد اِال ُغلِ َ‬
‫س ٌر‪َ ،‬ولَن ُّيشَا َّد َ‬ ‫فر مایا ’’اِنَّ ال ِّد ْي َن يُ ْ‬
‫‪ )۹۳‬بیشک دین آسان ہے ۔ جو شدت کا رویہ اپنائے گا وہ مغلوب ہو جائے گا ‪،‬اس لئے‬
‫سیدھی اور میانہ روی اپناؤ‪ ،‬اور بشارت حاصل کرو۔‬
‫(‪ )۲۲‬طلبہ کو تعلیم کی اہمیت و فضیلت بتانا‪:‬‬
‫اساتذہ و معلّمات کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کو وقتا ً فوقتا ً تعلیم کی ضرورت و‬
‫اہمیت اور اس کے فضائل و فوائد بتاتے رہیں‪،‬خاص طور سے نئے سال کی ابتداء میں اور ان‬
‫طلبہ کے سامنے جو مدرسہ میں نئے نئے داخل ہوئے ہوں علم کی فضیلت پر ضرور روشنی‬
‫ڈالیں اور بتائیں کہ علم ایک بہت بڑی نعمت اور بیش بہا دولت ہے‪ ،‬اس کی وجہ سے انسان‬
‫کو دین و دنیا کے متعلق بڑی اچھی اچھی اور مفید معلومات حاصل ہو تی ہیں۔عزت و‬
‫سربلندی ملتی ہے اور اس سے دنیا اور آخرت میں درجات بلند ہو تے ہیں ‪،‬قرآن مجید و سنت‬
‫نبویہ میں اس کی بڑی تا کید اور ترغیب ہے ۔علم ہی سے افراد اور قومیں ترقی کرتی ہیں‪،‬‬
‫اور آخرت کی کامیابی و کامرانی کا دارو مدار بھی علم وعمل پر ہے ۔‬
‫پھر انھیں صحابۂ کرام رضى هللا عنہم اور اسالف کے واقعات سنائیں اور بتائیں کہ انھوں نے‬
‫حصول علم كے لئے کس قدر محنت کی اور قربانیاں پیش کی ہیں۔انھیں بتائیں کہ علم کی‬
‫خاطر پریشانیاں اور اساتذہ کی سختیا ں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں‪ ،‬حضرت جبریل‪  ‬علىہ‬
‫السالم جب پہلی مرتبہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس وحی لے کر آئے تو انھوں نے‬
‫آپ کو اتنے زور سے بھینچا کہ آپ کو کافی تکلیف پہونچی‪ ،‬پھرفرمایا ‪’’ :‬اِ ْق َر أ‘‘ پڑھو‪،‬آپ‬
‫نے کہا‪َ ’’ :‬ما اَنَا ِبقَا ِري‘‘مجھے پڑھنا نہیں آتا‪ ،‬پھر دوسری مرتبہ بھی اسی طر ح کیااور آپ‬
‫ک‬
‫س ِم َربِّ َ‬ ‫نے اسی طرح جواب دیا‪ ،‬پھر تیسری مرتبہ بھی اسی طرح کیا اور فرمایا‪  :‬ا ْق َر ْأ بِا ْ‬
‫ی َعلَّ َم بِا ْلقَلَ ِم (‪َ )4‬علَّ َم‬ ‫ق (‪ )2‬ا ْق َر ْأ َو َربُّ َ‬
‫ک اأْل َ ْک َر ُم (‪ )3‬الَّ ِذ ْ‬ ‫ان ِمنْ َعلَ ٍ‬
‫س َ‬ ‫ق (‪َ )1‬خلَ َ‬
‫ق اإْل ِ ن َ‬ ‫ی َخلَ َ‬‫الَّ ِذ ْ‬
‫ان َما لَ ْم يَ ْعلَ ْم‪(   ‬العلق‪)٥ – ١ :‬پڑھئے اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‪ ،‬جمے‬ ‫س َ‬‫اإْل ِ ن َ‬
‫ہوئے خون سے انسان کی تخلیق کی‪،‬پڑھئے اور آپ کارب بڑا کریم ہے ‪،‬جس نے قلم کے‬
‫ذریعہ تعلیم دی ‪ ،‬انسان کو وہ سکھایا جس کااسے علم نہ تھا ۔(انظر صحیح البخاری‪۱:‬؍‪)۲۳‬‬
‫کبھی کھانے پینے کے انتظام میں کچھ پریشانی اور کمی ہو اور طلبہ کھانے کی شکایت‬
‫کریں تو انہیں حضرت ابو ہریرہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کا عبرت انگیز واقعہ سنائیں اور بتائیں کہ‬
‫حضرت ابو ہریرہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬جوعلم حدیث کے بہت بڑے حافظ اور مکثرین صحابہ میں‬
‫سے تھے ‪ ،‬انھوں نے حصو ل علم کی خاطر بڑی تکلیفیں برداشت کیں‪،‬یہاں تک کہ کبھی‬
‫کبھی بھوک کے مارے ان کا یہ حا ل ہوتا تھا کہ سینے کے بل مسجد میں پڑے رہتے ‪ ،‬ایک‬
‫مرتبہ شدید بھوک کی وجہ سے نکل کر راستہ پر بیٹھ گئے ‪ ،‬ادھر سے حضرت ابو‬
‫بکر‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کا گذر ہوا تو ان سے ایک آیت کے بارے میں سوال کیا‪ ،‬مقصد صرف یہ‬
‫تھا کہ وہ ان کی حالت کو سمجھ جائیں اور گھر لے جاکر کھانا کھال دیں ‪،‬مگر وہ جواب دے‬
‫کر آگے بڑھ گئے ‪ ،‬پھر ادھر سے حضرت عمر‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬گذرے تو ان سے بھی ایک‬
‫آیت کے بارے میں سوال کیا ‪،‬وہ بھی جواب دے کر چلے گئے‪،‬اتنے میں وہاں سے رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کا گذر ہوا‪ ،‬آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے‪،‬پھر فرمایا‪ :‬ابو ہریر ہ ! میرے‬
‫گھر آجاؤ۔ وہ آپ کے پیچھے پیچھے گئے ‪،‬گھر پہنچ کر آپ نے ازواج مطہرات سے پوچھا‬
‫کہ کھانے کے لئے کچھ ہے ؟ جواب مال کہ ایک پیالہ دودھ ہے جسے فالں شخص نے ہدیہ‬
‫میں بھیجا ہے۔ آپ نے حضرت ابو ہریرہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے فرمایا‪:‬تمام اصحاب‪ q‬صفہ کو‬
‫بالالؤ۔( اصحاب صفہ مدرسۂ نبوی کے وہ طلبہ تھے جو ایک طرح سے مسلمانوں کے مہمان‬
‫تھے ‪،‬ان کے پاس مال و متاع اور اہل و عیال نہیں تھے ۔آپ کے پاس اگر صدقہ کا مال آتاتو‬
‫سب ان کے پاس بھیج دیتے اور ہدیہ ہوتا تو آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہو جاتے) حضرت‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪21 | P a g e‬‬

‫ابو ہریرہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کو اس وقت یہ بات اچھی نہیں لگی ‪  ،‬وہ سوچنے لگے ‪ :‬ایک پیالہ‬
‫دودھ ہے اور سارے اصحاب‪ q‬صفہ کو بالالؤں گا تو کیا ہو گا ؟مگر رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کا حکم تھا اس واسطے سب کو بال الئے‪ ،‬جب سب آکر بیٹھ گئے تو رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے ان سے فرمایا‪ :‬ابو ہریرہ ! پیالہ لو اور سب کو پالؤ‪ ،‬وہ سوچنے لگے کہ جب‬
‫تک میری باری آئے گی پتہ نہیں کچھ بچے گا بھی کہ نہیں‪،‬مگر الحمد ﷲاس دودھ میں اتنی‬
‫برکت ہوئی کہ تمام اصحاب‪ q‬صفہ نے سیر ہو کر پیا ‪،‬پھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫حضرت ابو ہریرہ‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬سے فرمایا‪ :‬ابوہر یرہ! اب تم پیو ‪،‬وہ فرماتے ہیں میں نے پیا‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اور پیو‪ ،‬میں نے اور پیا‪ ،‬آپ نے فرمایا اور پیو‪ ،‬میں نے‬
‫عرض کیا‪ :‬اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دیکر بھیجا ہے اب کوئی گنجائش نہیں ہے‬
‫‪،‬پھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور سب سے اخیر میں ا لحمد ہلل‬
‫اور بسم ہللا کہہ کرنوش فرمایا۔(رواہ الترمذی‪۴:‬؍‪ )۷ ۴۷۷( ۶۴۸‬وقال‪ :‬ھذا حدیث حسن‬
‫صحیح)‬
‫بہر حال طلبہ کو بتانا چاہئے کہ علم کی راہ میں بھوک وپیاس کی تکلیف‪ ،‬اساتذہ کی ڈانٹ‪،‬‬
‫مار اور سفر کی مشقتیں وغیرہ برداشت کرنی پڑتی ہیں‪ ،‬صحابہ کرام رضى هللا عنہم نے‬
‫ایک ایک حدیث کی طلب كے لئے ایک ایک ماہ کا سفر کیا ہے ‪ ،‬محدثین کرام رحمہم ہللا‬
‫حصول علم كے لئے مختلف شہروں کا سفر کرتے ‪،‬کئی مرتبہ ایسا ہو تا کہ ان کے پاس‬
‫کھانے پینے كے لئے کچھ نہیں ہوتا ۔ اور فاقہ یا درخت کی پتیوں پر گذارہ کرنا پڑتا ‪ ،‬بعض‬
‫مر تبہ وہ اینٹ کا تکیہ بنانے پر مجبور ہوتے تھے۔(انظرمناقب االمام احمدالبن الجوزی ص‪:‬‬
‫‪)۲۶، ۲۵‬‬
‫امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا ایک مرتبہ مکہ میں تھے ۔ ایک چور ان کا سامان اور کپڑے چرا‬
‫لے گیا جس کی بنا پر وہ استاذ کے پاس پڑھنے نہیں جاسکے‪ ،‬ان کے ساتھی حال معلوم‬
‫کرنے آئے تو سارا معاملہ بتایا ۔انھوں نے تعاون کرنا چاہا اور کہا کچھ پیسے یا تو صلہ‬
‫رحمی کے طور پر یا قرض لے لو‪ ،‬مگر انھوں نے لینے سے انکار کر دیا ۔پھر بعض‬
‫ساتھیوں نے یہ تجویز رکھی کہ آپ کچھ حدیثیں اپنے ہاتھ سے لکھ دیں ہم اس کی اجرت دے‬
‫دیں گے‪،‬آخربمشکل تمام وہ اس پر راضی ہوئے اس طرح ان کے لئے کپڑوں کا انتظام کیا‬
‫گیا۔ (انظر مناقب االمام احمد البن الجوزی ص ‪)۲۳۰:‬‬
‫مختصر یہ کہ طلبہ کے سامنے علم کی اہمیت وفضیلت بیان کرتے رہنا چاہئے‪ ،‬اور انھیں‬
‫بتانا چاہئے کہ علم کی خاطر مختلف تکالیف اور مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں‪ ،‬اس سے ان‬
‫کے اندر علم کا شوق اوراس کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں برداشت کرنے اورقربانیاں دینے کا‬
‫جذبہ پیدا ہو گا۔‬
‫(‪)۲۳‬طلبہ کی ہمت افزائی کر نا‪:‬‬
‫جوطلبہ وطالبات ذہین و فطین ‪،‬صالح وپرہینر گار اور اچھے اخالق و عادات کے حامل ہوں‬
‫اساتذہ کو ان کی ہمت افزائی کرتے رہنا چاہئے۔ اسی طرح جو طلبہ ا چھے نمبرات سے‬
‫کامیابی حاصل کریں یا اچھی تقریر کریں ‪،‬یا کسی سوال کا برجستہ صحیح جواب دیں ‪،‬یا نماز‬
‫کی برابر پابندی کریں یا کوئی اور نمایاں اور اچھا کارنامہ انجام دیں ان کی بھی ہمت افزائی‬
‫کرنی چاہئے ۔‬
‫غزوۂ تبوک کے موقع پرمسلمانوں کو سخت مالی مشکالت کا سامنا تھا۔ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے مسلمانوں سے تعاون کی اپیل کی تو حضرت عثمان غنی‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬نے‬
‫ایک ہزاردینار پیش کئے۔رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ان دیناروں کو اچھالتے جاتے اور‬
‫فرما تے جاتے ‪:‬آج کے بعد عثمان غنی کو کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچائے گا۔( فضا ئل‬
‫الصحابۃ لالمام احمد بن حنبل‪:‬رقم‪)۷۳۸،۸۴۶‬‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪22 | P a g e‬‬

‫یہ ان کے ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل ہللا کی عزت افزائی اور تحسین تھی۔‬
‫اس موقع پر سب سے زیادہ ایثار ایک غریب اورمحنت کش صحابی نے کیا‪ ،‬جنھوں نے رات‬
‫بھر پانی کھینچ کھینچ کردو صاع چھو ہارہ کمایا‪،‬پھراس میں سے ایک صاع چھو ہارہ اپنے‬
‫اہل و عیال كے لئے رکھا اور ایک صاع آپ کی خدمت میں الکر پیش کیا۔رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے ان کے اس جذبۂ ایثار کی بڑی قدر کی اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے‬
‫فرمایا‪ :‬ان چھوہاروں کو قیمتی مالوں کے ڈھیر پر بکھیر دو ۔ (تفسیر ابن کثیر‪۲:‬؍‪)۴۹۲‬‬
‫اسی طرح جوطلبہ اپنی غربت اور پریشانیوں کے باوجود حصول تعلیم میں لگے ہوں ان کی‬
‫دل جوئی اور ہمت افزائی کرنی چاہئے ۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم حضرت عمار بن یا‬
‫سررضى ہللا عنہ‪ ‬اور ان کے اہل خانہ کو توحید کی خاطر کفار کی اذیتیں برداشت کرتے‬
‫س ْر فَاِنَّ َم ْو ِع َد‬
‫ش ُر ْوا آ َل يَا ِ‬ ‫دیکھتے تو ان کی دلجوئی اور ہمت افزائی کرتے ہوئے فرماتے‪ ’’:‬اَ ْب ِ‬
‫ُک ُم ا ْل َجنَّةُ‘‘ (المعجم األوسط للطبراني‪ , 141 /2 :‬المستدرك على الصحيحين للحاكم ‪/3 :‬‬
‫‪ )438‬اے یاسر کے گھر والو ! تمہیں خوشخبری ہو ‪ ،‬تمہارے لئے جنت کا وعدہ ہے ۔‬
‫اسی طرح اساتذہ ان غریب اور کمزور حال طلبہ کو تسلی دیں اور ان کی ہمت افزائی کرتے‬
‫ہوئے ان سے کہیں ‪ :‬صبر کرو اور محنت سے پڑھوان شاء ہللا تمہارا مستقبل روشن ہوگا‪،‬‬
‫کامیابی تمہاری قدم بوسی کرے گی ‪ ،‬اور تمہاری محنت‪ ،‬صبر اور قربانی کا پھل تمہیں‬
‫ضرور ملے گا۔‬
‫حضرت عمر بن خطاب‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬حضرت ابن عباس‪ ‬رضى ہللا عنہ‪ ‬کی ان کے علم و‬
‫فضل کی وجہ سے تعریف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے’’نِ ْع َم ت َْر ُج َمانُ ا ْلقُرآ ِن ابنُ َعبَّاس‘‘‬
‫ابن عباس کیا ہی بہترین قرآن کی تفسیر کرنے والے ہیں‪ ،‬اور کبھی حضرت ابن عباس رضی‬
‫ب ا ْل َعقُو ِل‘‘‬‫سؤ ِل‪َ ،‬والقَ ْل ِ‬ ‫سا ِن ال َّ‬ ‫ول ‪َ ،‬و ُذو اللِّ َ‬ ‫ک ُه ِ‬ ‫ہللا عنہما تشریف التے تو فرماتے‪َ ’’ :‬جا َء فَتَی ا ْل ُ‬
‫ادھیڑ عمر والے کی متانت وسنجیدگی اور سوال کرنے والی زبان اورعقل رکھنے والے دل‬
‫کامالک نوجوان آگیا۔‬
‫عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ الماجشون فرماتے ہیں کہ میں منذر بن عبد ہللا الحزامی‬
‫کے پاس آیا ‪ ،‬اس وقت میں کمسن تھا‪ ،‬مگر میں نے جب ان سے گفتگو کی تو میری زبان میں‬
‫فصاحت دیکھ کر انھوں نے میری جانب زیادہ التفات کیا‪ ،‬پھر پوچھا تم کون ہو ؟ میں نے کہا‬
‫ک َو‬ ‫ک ِح َذا َء َ‬ ‫ب ا ْل ِع ْل َم فَاِنَّ َم َع َ‬‫عبد الملک بن عبد العزیز بن ابی سلمہ ۔ انھوں نے فرمایا‪ ’’:‬اُ ْطلُ ِ‬
‫ک‪ ‘‘ ‬تم علم حاصل کرو‪ ،‬تمہارے پاس تمام اسباب موجود ہیں۔‬ ‫سقَا َء َ‬
‫ِ‬
‫ک ْم‘‘ تم لوگ‬ ‫س ُ‬‫ک ْم لِ َح َداثَ ِة أ ْنفُ ِ‬‫س ُ‬ ‫امام زہری اپنے تالمذہ سے فرمایا کرتے تھے ’’الَ تُ َحقِّ ُروا أ ْنفُ َ‬
‫اپنے آپ کو اپنی کم عمری کی وجہ سے حقیر مت سمجھو ۔‬
‫اچھے اساتذہ ہمیشہ اپنے طلبہ کی ہمت افزائی کرتے اور انھیں محنت کرنے کی ترغیب دیتے‬
‫رہتے ہیں‪ ،‬اور کہتے ہیں کہ تم ہی لوگ مستقبل میں امت کے کشتىبان ہوگے۔ قوم کی قیادت‬
‫اور سیادت تمہیں لوگوں کو سنبھالنی ہے‪ ،‬تمہیں لوگوں میں کوئی محدث بنے گا ‪ ،‬کوئی‬
‫مفسر‪ ،‬کوئی مفتی بنے گا‪،‬کوئی قاضی‪ ،‬کوئی مصنف بنے گا‪ ،‬کوئی صحافی۔تمہیں کو‬
‫جامعات و مدارس اور دینی جماعتوں اور تحریکوں کی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے‪ ،‬اس‬
‫واسطے خوب محنت کرواور اپنے آپ کو ہر اعتبار سے ان ذمہ داریوں کو اٹھانے کا اہل بناؤ‬
‫اگرتم لوگوں نے ابھی محنت نہیں کی اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار نہیں کیاتو تمہارا اور‬
‫قوم کا بہت خسارہ ہو گا ۔‬
‫طلبہ کی ہمت افزائی کرنا ‪،‬انہیں علم کا شوق دالنا‪ ،‬ان کی خفتہ صالحیتوں کو بیدار کرنا‬
‫نہایت ضروری ہے‪ ،‬تا کہ وہ سلف کے بہترین خلف بن سکیں اور جو ذمہ داریاں ان پر امت‬
‫کی اصالح ‪،‬دینی ودنیوی قیادت‪،‬اسالمی عقیدہ وتہذیب کی حفاظت او ر علم کی نشرو اشاعت‬
‫کے سلسلہ میں آنے والی ہیں انہیں بحسن و خوبی ادا کرسکیں۔‬
‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪23 | P a g e‬‬

‫(‪)۲۴‬کبھی کبھی طلبہ سے سواالت کرنا‪:‬‬


‫اساتذہ کو چا ہئے کہ طلبہ سے کبھی کبھی سواالت کرتے رہیں‪،‬ان سے سواالت کرنے کا‬
‫ایک فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ان کے ذہن کا صیقل ہوتا ہے‪ ،‬جس طرح لوہے پر زنگ لگ‬
‫جاتا ہے تو اسے صیقل کیا جاتا ہے جس سے اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور چمکنے لگتا‬
‫ہے اور چھری وغیرہ ہو تو تیز بھی ہوجاتی ہے‪ ،‬اسی طرح ذہنوں کوبھی سواالت کے ذریعہ‬
‫صیقل کیا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ اگر طلبہ اپنے ذہنوں کو استعمال نہ کریں اور یوں ہی چھوڑ دیں‬
‫تو ان میں بھی زنگ لگ جاتا ہے اور کند ہو جاتے ہیں‪ ،‬اور اگر اساتذہ وغیرہ ان سے برابر‬
‫سواالت کر تے رہیں اور وہ اپنے ذہنوں کو برابر استعمال کرتے رہیں تو ان کا ذہن تیز ر‬
‫ہتاہے اور سوچنے سمجھنے اور یاد رکھنے کی صالحیت میں اضافہ ہوتا ہے ۔‬
‫دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ سبق اور آموختہ برابر یادکرتے اور اپنی‬
‫معلومات تازہ رکھتے ہیں‪ ،‬اور اگر اساتذہ صرف پڑھاتے رہیں اور کبھی ان سے سواالت نہ‬
‫کریں اور آموختہ نہ سنیں تو وہ خالی کالس میں درس کے سماع پر اکتفاء کرتے ہیں‪ ،‬نہ‬
‫مطالعہ کرتے ہیں‪ ،‬نہ سبق یاد کرتے ہیں ‪،‬نہ آموختہ دہراتے ہیں‪ ،‬اور ان کے سوچنے‬
‫سمجھنے کی صالحیت بھی کند پڑ جا تی ہے ۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم بھی صحابۂ کرام رضى هللا عنہم سے ان کی معلومات کا جائزہ‬
‫لینے اور ان کے ذہنوں کو صیقل کرنے كے لئے کبھی کبھی سواالت پوچھا کرتے تھے ‪،‬‬
‫ایک مرتبہ آپ نے صحابۂ کرام ث سے پوچھا ‪ :‬بتاؤ وہ کون سا درخت ہے جس کی مثال‬
‫مومن کی سی ہے اور اس کے پتے جھڑتے نہیں؟حضرت عبد ہللا بن عمررضی ہللا‬
‫عنہمافرماتے ہیں کہ سب لوگوں کا ذہن جنگل کے درختوں کی طرف گیا‪ ،‬مگر میرا ذہن فوراً‬
‫کھجور کی طرف گیا‪ ،‬کیونکہ تھوڑی دیر قبل ہی آپ کے سامنے کھجور کے گاپھا کا میٹھا‬
‫گودا پیش کیا گیا تھا اور آپ نے ہم لوگوں کے ساتھ اسے تناول فر مایا تھا۔ میں نے بتا نا چاہا‬
‫مگر دیکھا کہ میں سب سے چھوٹا ہوں اس لئے خاموش رہا ۔ پھر لوگوں نے کہا‪ :‬یا رسول ہللا‬
‫آپ ہی بتائیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا‪:‬کھجور کا درخت۔ ( بخاری‪۱ :‬؍‪ ۱۴۷‬مع‬
‫الفتح)‬
‫عالوہ ازیں سوال و جواب کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے مخاطبین و حاضرین‬
‫کو باتیں بہت جلد سمجھ میں آجا تی ہیں۔ کیونکہ سوال کی وجہ سے مخاطبین اس کی جانب‬
‫پورے طور سے متوجہ ہوجاتے ہیں اور گفتگو میں دلچسپی لیتے ہیں‪ ،‬اسی واسطے رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم تعلیم و تفہیم کے لئے کبھی کبھی اس انداز کو بھی اختیار فرمایاکرتے‬
‫سلِ ُم‪ ‬؟‘‘ کیا تم لوگ‬ ‫تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کرام ثسے پوچھا ‪’’ :‬اَتَ ْد ُر ْو َن َم ِن ا ْل ُم ْ‬
‫سولُهُ اَ ْعلَ ُم‪‘‘ ‬ہللا اور اس کے رسول‬ ‫جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟ انھوں نے کہا ‪’’ :‬هّللا ُ َو َر ُ‬
‫سانِ ِه َو يَ ِد ِه‪‘‘ ‬‬‫سلِ ُم ْو َن ِمنْ لِ َ‬ ‫سلِ َم ا ْل ُم ْ‬
‫سلِ ُم َمنْ َ‬ ‫کو اس کا زیادہ علم ہے ‪ ،‬آپ نے فرمایا‪ ’’:‬اَ ْل ُم ْ‬
‫مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔پھر آپ نے فرمایا‪ ’’:‬اَتَ ْد ُر ْو َن‬
‫سولُهُ اَ ْعلَ ُم‪‘‘ ‬ہللا‬ ‫َم ِن ا ْل ُمؤ ِمنُ ؟‘‘‪ ‬کیا تم جانتے ہو مومن کون ہے ؟ صحابہ نے کہا ‪ ’’ :‬هّللا ُ َو َر ُ‬
‫اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔آپ نے فرمایا‪’’ :‬اَ ْل ُمؤ ِمنُ َمنْ أ ِمنَهُ ا ْل ُمؤ ِمنُ ْو َن َع ٰ‬
‫لی‬
‫س ِه ْم َو أ ْم َوالِ ِه ْم‪ ‘‘ ‬مومن وہ ہے جس سے اہل ایمان اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلہ میں‬ ‫أ ْنفُ ِ‬
‫مامون و محفوظ رہیں۔ (مسند أحمد بن حنبل‪)206 /2 :‬‬
‫اس واسطے اساتذہ کرام کو بھی طلبہ سے سواالت کرتے رہنا چاہئے اور خاص طور سے‬
‫جماعت ثالثہ تک کے طلبہ سے خوب پوچھنا اور آموختہ ودرس سنتے رہنا چاہئے ‪،‬تاکہ ان‬
‫کو نحو‪ ،‬صرف وغیرہ کے قواعد اور بنیادی باتیں اچھی طرح یاد ہو جائیں۔‬
‫(‪ )۲۵‬طلبہ کو محنت پر ابھارنا‪:‬‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪24 | P a g e‬‬

‫یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ کوئی چیز بھی بغیر محنت اورجد وجہد کے حاصل نہیں ہو‬
‫تی ۔ مگر حصول علم کے لئے خصوصی طور پر محنت کی ضرورت ہے ‪،‬قاعدہ ہے‪َ ’’:‬منْ‬
‫عی‘‘انسان كے‬ ‫س ٰ‬ ‫سا ِن اِالَّ َما َ‬‫س لِاْل ِ ْن َ‬ ‫َج َّد َو َج َد‘‘جو محنت اور کوشش کرے گا وہ پائے گا۔’’ َولَ ْي َ‬
‫ب ا ْل َم َعالِ ْی‪ ‘‘ ‬کدو‬
‫س ُ‬‫لئے وہی ہے جو اس نے محنت کر کے حا صل کیا ۔ ’’‪ ‬بَقَ ْد ِر ا ْل َک ِّد تُ ْکتَ َ‬
‫کاوش کے مطابق ہی اعلی مراتب حاصل ہوتے ہیں۔‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫ہمارے اسالف‪ ,‬محدثین ‪ ،‬فقہاء اور بڑے بڑے ائمہ کرام نے جو مختلف علوم میں‬
‫مقامات حاصل کئے اور انھیں ان علوم وفنون میں جو مہارت حاصل‪ q‬ہوئی ان میں ان کی‬
‫محنت اور جد وجہد کا بھی بڑادخل تھا ۔مثالً امام بخاری رحمہ ہللا امیر المؤمنین فی الحدیث‬
‫ب هّٰللا ِ‘‘ مانی جاتی‬ ‫ب بَ ْع َد ِکتَا ِ‬ ‫کت ُ ِ‬‫ص ُّح ا ْل ُ‬‫مانے جاتے ہیں اور ان کی کتاب صحیح بخاری’’‪ ‬اَ َ‬
‫ہے‪،‬مگر ان کو اور ان کی کتاب کو یہ مقام ویسے نہیں حاصل ہوا‪،‬اس کے لئے انھوں نے‬
‫بڑی محنت اور جد وجہد کی‪ ،‬حصول علم کے لئے ان کی حرص و خواہش اور جد وجہد کا‬
‫یہ عالم تھاکہ رات کو کئی کئی مرتبہ بیدار ہوتے‪ ،‬اٹھ کر چراغ جالتے اور ذہن میں جو علمی‬
‫نکتے اور فوائد کی باتیں آتیں انھیں نوٹ کرتے ‪،‬اور پھر چراغ بجھاکر لیٹ جاتے‪،‬حتی کہ‬
‫بعض راتوں میں آپ اس طرح بیس بیس مرتبہ اٹھتے ۔‬
‫ابو الوفاء ابن عقیل‪  ‬رحمہ هللا‪  ‬کے علمی شوق کا یہ عالم تھاکہ وہ کہتے ہیں ‪ :‬میں پوری‬
‫کوشش کرتا ہوں کہ کھانے میں کم سے کم وقت صرف ہو‪ ،‬چنانچہ وقت بچانے کی خاطر میں‬
‫روٹی کی بجائے کیک کے سفوف کو ترجیح دیتا ہوں‪ ،‬اور اسے پانی کے ساتھ نگل لیتا‬
‫ہوں‪،‬اس طرح مطالعہ اورعلمی فوائد کو نوٹ کرنے کے لئے وقت بچاتا ہوں۔وہ فر ماتے تھے‬
‫کہ میں اپنے لئے حالل نہیں سمجھتا کہ اپنی عمر کی ایک ساعت بھی ضائع کردوں۔یہاں تک‬
‫کہ جب میں تھک جاتا ہوں اور زبان مذاکرہ اور قراء ۃ سے قاصر اورآنکھیں مطالعہ سے‬
‫عاجز ہو جاتی ہیں تو آنکھیں بند کر کے چپ چاپ لیٹ جاتا ہوں‪ ،‬اور اس آرام کی حالت میں‬
‫بھی غورو فکر کرتا رہتا ہوں‪،‬اور جو علمی باتیں اور نکات ذہن میں آتے ہیں ان کو ترتیب‬
‫دیتارہتا ہوں‪ ،‬پھر جب کچھ آرام کر کے اٹھتا ہوں تو انھیں ترتیب سے لکھ لیتا ہوں ‪ ،‬آج میری‬
‫عمر اسّی سال ہے مگر میرے علمی ذوق و شوق اور تڑپ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے ‪،‬‬
‫بیس سال کی عمر میں حصول علم کی جتنی خواہش اورلگن میرے اندر تھی آج اس سے‬
‫زیادہ ہی ہے ۔‬
‫شیخ مجد الدین ابو البرکات عبد السالم بن عبد ہللا جو ا بن تیمیہ الجد کے نام سے مشہور ہیں‬
‫اور جنکی تصنیفات میں سے ’’منتقی األخبار من احادیث سید األخیار ‘‘ جس کی شرح ’’نیل‬
‫االوطار للشوکانی ‘‘ ہے اور ’’المحرر فی الفقہ‘‘ وغیرہ بیش قیمت کتابیں ہیں‪ ،‬ان کے‬
‫حصول علم کے شوق و حرص اور اپنے اوقات کو بے کار ضائع ہو نے سے بچانے کی‬
‫خواہش کا یہ عالم تھا کہ ان کے بارے میں شیخ عبد الرحمن بن عبد الحلیم بن تیمیہ رحمہ ہللا‬
‫فر ماتے ہیں کہ ہمارے دادا جب بیت الخالء جاتے تومجھ سے کہتے ‪ :‬کتاب کو تم بلند آواز‬
‫سے پڑھو‪ ،‬تاکہ میں بیت الخالء میں بھی سنتا رہوں‪ ،‬اوریہ صرف اس خاطر تھا کہ ان کا یہ‬
‫وقت حصول علم سے خالی نہ جائے ۔(دیکھئے‪:‬مقدمۃ المحررفی الفقہ‪:‬ص‪ ،۱۳‬العلم و الدین‪:‬‬
‫‪)۱۰،۱۱‬‬
‫اس واسطے اساتذہ و معلمات کو خود حصول علم کے لئے خوب محنت کرنی چاہئے اور‬
‫طلبہ و طالبات کو بھی برابرحصول علم کے لئے محنت کرنے کی تاکید کرتے رہنا چاہئے‬
‫اور ان کے اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا اور انھیں علم کے دینی و دنیوی فوائد بتاتے رہنا‬
‫چاہئے۔‬
‫(‪ )۲۶‬حصول علم کے اہم اور آسان طریقوں سے آگاہ کرنا‪:‬‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪25 | P a g e‬‬

‫اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ وطالبات کی حصول علم کے آداب‬
‫وافضل طر یقوں کی جانب رہنمائی کرتے رہیں۔مثالًکالس میں غسل کرکے یا کم ازکم ہاتھ منہ‬
‫دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آنا ‪،‬تاکہ نشاط رہے اور نیند نہ آئے ‪،‬روزانہ مطالعہ‬
‫کرنا‪ ،‬اسا تذہ درس میں جو باتیں بتائیں انھیں توجہ سے سننا اور سمجھنے کی کوشش‬
‫کرنا‪،‬کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ استاذ سے پوچھ لینا ‪،‬درس کے وقت بات کر نے‬
‫اور سونے سے احتراز کرنا ۔وغیرہ وغیرہ‬
‫انھیں یہ بھی بتائیں کہ کال س میں اساتذہ کی بتائی ہوئی باتوں کو تفصیل کے ساتھ نوٹ کرنا‬
‫ممکن نہیں ہوتا ‪ ،‬اس لئے خاص خاص باتیں اشارات میں نوٹ کرلیں اورجب کالس ختم ہو‬
‫نے کے بعد اپنے کمرے میں جائیں تو تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد انہیں تفصیل سے لکھ‬
‫لیں‪ ،‬اس واسطے کہ ان اشارات کو بر وقت سمجھنا آسان ہوتا ہے‪ ،‬مگرایک دو ہفتہ کے بعد‬
‫ان کو دیکھیں گے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آئے گا‪،‬لہذاہر روز کا درس اسی دن تعلیم کے‬
‫بعد لکھ لینا چاہئے‪ ،‬اور آج کا کام کل پر نہیں ٹالنا چاہئے۔ اسی طرح حصول علم کے جو‬
‫آسان طریقے اور آداب ہیں انھیں وقتا ً فوقتا ً طلبہ کو بتاتے ر ہنا چاہئے۔‬
‫(‪ )۲۷‬طلبہ کو اپنے وقت کو منظم کرنے کی ترغیب دینا‪:‬‬
‫بہت سے طلبہ وطالبات اپنی طا لب علمی کی زندگی بڑے غیر منظم طریقے پر گذارتے ہیں ‪،‬‬
‫چنانچہ پڑھنے کے وقت سوتے ‪،‬اور سونے کے وقت پڑھتے یا کھیلتے ہیں ‪ ،‬بے وقت‬
‫کھاتے اور بے وقت بازار جاتے ہیں ‪،‬اسی طرح نہانے دھونے وغیرہ کے سلسلے میں بھی‬
‫انکا کوئی نظام نہیں ہو تا ‪ ،‬نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم میں بھی نا کام ہو جاتے ہیں۔اور‬
‫دوسرے کا موں میں بھی کامیاب نہیں ہو تے۔‬
‫اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے طلبہ کو ہمیشہ اپنے اوقات کو منظم کرنے اور وقت کی‬
‫پابندی کر نے کی ترغیب دیں‪ ،‬اور تنظیم اوقات کے جو فوائد اور وقت کی پابندی نہ کرنے‬
‫اور غیر منظم زندگی گزارنے کے جو نقصانات ہیں انھیں بتائیں‪ ،‬اور پھر اس سلسلہ میں جو‬
‫طلبہ کوتاہی کریں اورغفلت سے کام لیں ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ کریں ۔‬
‫جوطلبہ کالس کے وقت بال کسی معقول عذر کے سونے یاکھیلنے یا نہانے دھونے یا تعلیم کو‬
‫چھوڑ کر کسی اور کام میں مشغول رہیں ان کو اس سے سختی سے منع کرنا چا ہئے ‪،‬اور‬
‫جو نہ مانیں ان کے خالف تادیبی کاروائی کرنی چاہئے ۔کیونکہ جب تک وقت کی صحیح‬
‫تنظیم اور پابندی نہیں ہوگی صحیح طور سے علم حاصل‪ q‬نہیں ہو سکتا ۔نیز یہ چیز ہمیشہ کے‬
‫لئے مضر ہے ‪،‬اگردور طالب علمی سے ہی اس سلسلہ میں طلبہ کی اصالح نہ کی گئی تو وہ‬
‫ہمیشہ كے لئے بد نظمی کے عادی ہو جائیں گے۔اور ان کی پوری زندگی غیر منظم طریقہ پر‬
‫اور ناکام گزرے گی۔‬
‫(‪ )۲۸‬نشاط کے وقت پڑھنے پرابھارنااور کالس میں تازہ دم ہوکرآنے كے لئے تاکید کرنا‪:‬‬
‫جیسے مسلسل کام کرنے کی وجہ سے بدن تھک جاتا ہے‪ ،‬اسی طرح مسلسل پڑھنے اور‬
‫ذہنی کام کرنے کی وجہ سے ذہن بھی تھک جاتا ہے ‪،‬اور جیسے بدن تھکا ہوا ہو تو جسمانی‬
‫کام صحیح طور سے نہیں ہوتا ہے اسی طر ح جب ذہن اور دماغ تھکا ہوا ہو اور ذہنی نشاط‬
‫اور سکون خاطر نہ ہوتو پڑھنے پڑھانے کا کام بھی صحیح طریقہ سے نہیں ہوتا ۔اس‬
‫واسطے طلبہ کو کالس میں ہاتھ منھ دھو کر بلکہ ممکن ہو تو غسل کرکے‪،‬اورصاف ستھرے‬
‫کپڑے پہن کر اور خوشبولگاکرآنے کی تاکید کرنا چاہئے‪ ،‬تاکہ درس کے وقت ان میں نشاط‬
‫رہے اور وہ توجہ سے سبق سن اور سمجھ سکیں ۔اسی طرح طلبہ کو سونے اور آرام کرنے‬
‫کے وقت سونے اور آرام کرنے کی تاکید کرنا چاہئے‪ ،‬تاکہ کالس میں انہیں نیند نہ آئے اور‬
‫وہ اتنے تھکے ہوئے نہ ہوں کہ درس میں دل نہ لگے۔‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪26 | P a g e‬‬

‫ا گر کوئی طالب علم بیماری یا کسی وجہ سے رات کو نہ سو سکے اور تعلیم کے وقت اس‬
‫پر تکان اور نیند کا غلبہ ہو تو اس سے کہنا چاہئے کہ کالس سے رخصت لے کر آرام کر ے‬
‫اور جب نیند پوری ہوجائے اور اسے سکون وآرام مل جائے تب پڑھے ۔تھکے ماندے اور‬
‫نیند سے پریشان طلبہ کو پڑھانا ‪،‬یا ایسے وقت پڑھانا جب سب کو نیند آرہی ہو یا سخت گرمی‬
‫یا سردی سے سب پریشان ہوں بے سود ہے ‪ ،‬اس سے احترازکرنا چاہئے ۔‬
‫مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس کا لحاظ کرنا چاہئے کہ سخت گرمی یا سردی میں اساتذہ‬
‫و طلبہ کو پڑھنے پڑھانے کا مکلف نہ کریں ‪ ،‬بلکہ ایسے وقت میں تعطیل کردیں ۔حضرت‬
‫ب نَشَاطًا َوإِ ْقبَاالً ‪َ  ،‬وإِنَّ لَ َها‬ ‫عبد ہللا بن مسعودرضى ہللا عنہ‪ ‬فرماتے ہیں‪’’:‬إنَّ لِ ْلقُلُو ِ‬
‫اس َما أَ ْقبَلُوا َعلَ ْي ُك ْم‪ ‘‘ ‬دلوں میں نشاط اور رغبت بھی ہو تی ہے‪،‬ا‬ ‫لَت َْولِيَةً‪َ  ‬وإِ ْدبَا ًرا ‪ ،‬فَ َح ِّدثُوا النَّ َ‬
‫ور اعراض و بے رغبتی بھی ‪،‬اس واسطے جب لوگوں میں نشاط‪ ،‬رغبت اور توجہ ہو تو ان‬
‫سے حدیثیں بیان کرو۔‬
‫اور حضرت علی‪ ‬رضى ہللا عنہفرماتے ہیں ‪ ’’:‬دلجمعی حاصل کرو ‪،‬ذہن کو انتشار سے بچاؤ‬
‫اور اس کے لئے حکمت کی پر لطف باتوں سے مدد لو ۔جیسے بدن تھک جاتاہے اسی طرح‬
‫دلوں میں بھی اکتاہٹ پیداہو جاتی ہے‘‘۔‬
‫حضرت ابو وائل رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ عبد ہللا بن مسعودرضى ہللا عنہ‪ ‬نکل کر ہمارے‬
‫سو َل هللاِ صلى‬ ‫وج إِلَ ْي ُك ْم أَنَّ َر ُ‬
‫پاس آئے پھر فرمایا‪ ’’ :‬إِنِّي أَ ْخبَ ُر بِ َم َكانِ ُك ْم َولَ ِكنَّهُ يَ ْمنَ ُعنِي ِم َن ا ْل ُخ ُر ِ‬
‫سآ َم ِة َعلَ ْينَا‪ (‘‘ ‬رواہ البخاری وغیرہ )‬ ‫ان يَت ََخ َّولُنَا ِبا ْل َم ْو ِعظَ ِة فِي األَيَّ ِام َك َرا ِهيَةَ ال َّ‬ ‫هللا عليه وسلم َك َ‬
‫مجھے آ پ لوگوں کے بیٹھنے کا علم ہے مگر مجھے نکل کرآپ لوگوں کے پاس آنے سے‬
‫صرف یہ مانع ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم بھی ہمارے وعظ و نصیحت میں ہمارے‬
‫اکتاجانے کے ڈرسے ناغہ کرتے تھے ۔‬
‫بہر حال اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کو نشاط کے وقت پڑھنے اور مطالعہ کرنے پر‬
‫ابھاریں اور بتائیں کہ نشاط کے وقت پڑھنے اور تھک جانے کی صورت میں آرام کرنے‬
‫سے مطالعہ کا خاطر خواہ فائدہ ہو گا اور صحت و تندرستی بھی قائم رہے گی ۔‬
‫خود اساتذہ کو بھی اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ جب طلبہ اکتاجائیں اور ان کے اندر‬
‫نشاط اور رغبت نہ ہو توان کی چھٹی کردیں۔ اوراگر گھنٹی ختم نہ ہو ئی ہو تو دلچسپ علمی‬
‫چٹکلوں اور اہل علم کے پر لطف اور عبرت انگیز واقعات کے ذکر اور اچھے اشعار پڑھنے‬
‫سننے اور بیت بازی وغیرہ میں وقت صرف کریں۔‬
‫(‪)۲۹‬احکام شرعیہ اور اسالمی اخالق و عادات کی پا بندی کرانا ‪:‬‬
‫اساتذہ ومعلّمات کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ طلبہ وطالبات کو اسالمی اخالق وعادا ت ‪،‬‬
‫اوراحکام شرعیہ کی پابندی‪،‬اوردینی ا مور کے لحاظ کرنے کی تعلیم وترغیب دیں‪ ،‬ایسا نہ ہو‬
‫کہ مدرسہ میں رہ کر وہ صرف کتاب خوانی کریں‪ ،‬اور اعمال صالحہ اور اخالق حسنہ کی‬
‫جانب توجہ نہ دیں‪،‬مدرسہ صرف تعلیم گاہ ہی نہیں بلکہ تربیت گاہ بھی ہے ‪،‬اس واسطے طلبہ‬
‫کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھنا‪     ‬چا ہئے اور انہیں اخالق فاضلہ‪،‬عادات‪q‬‬
‫اسالمیہ اور احکام شرعیہ کی پابندی کی تاکید کرتے رہنا چاہئے ۔‬
‫امام مدائنی فرماتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بچوں کے اتالیق سے کہا ‪َ ’’ :‬علِّ ْم ُه ُم‬
‫آن‪ ‘‘ ‬ان کو سچائی کی ایسی ہی تعلیم دو جیسے تم انہیں قرآن کی تعلیم‬ ‫ق َک َما تُ َعلِّ ُم ُه ُم ا ْلقُ ْر َ‬
‫ص ْد َ‬
‫ال ِّ‬
‫دیتے ہو ۔‬
‫کیونکہ اگر سچائی نہ ہو ‪ ،‬حسن اخالق نہ ہو ‪ ،‬بات چیت کا سلیقہ نہ ہو ‪ ،‬چھوٹے بڑے کی‬
‫تمیز نہ ہو‪ ،‬احکام شرعیہ کی پابندی نہ ہو تو ایسی صورت میں تعلیم ‪ ،‬مدرسہ اور قرآن و‬
‫حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کے پڑھنے پڑھانے کا کیافا ئدہ؟ اس واسطے جیسے طلبہ‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪27 | P a g e‬‬

‫کوکتاب و سنت اور دیگر علوم کی تعلیم دیتے ہیں ویسے ہی انھیں اخالق حسنہ اور احکام‬
‫شرعیہ کی پابندی کی بھی تعلیم دینی چاہئے۔‬
‫سفَلَةَ‘‘ہمارے بچوں کو نچلے درجے کے‬ ‫عبد الملک بن مروان نے یہ بھی کہا‪َ ’’ :‬و َجنِّ ْب ُه ُم ال َّ‬
‫س َر ْغبَةً فِ ْي ا ْل َخ ْي ِر َو أقَلُّ ُه ْم أ َدبا ً‘‘ اس واسطے کہ‬ ‫س َوأ النَّا ِ‬ ‫لوگوں سے دور رکھئے’’فَاِنَّ ُه ْم أ ْ‬
‫نچلے درجے کے لوگ نیکیوں کی سب سے کم رغبت رکھنے والے اور قلیل االدب ہو تے‬
‫ہیں ۔( الدین و العلم ‪ :‬ص‪) ۲۰ ‬‬
‫بہر حال طلبہ کو برے لوگوں کی صحبت سے دور رکھتے ہوئے اچھے اخالق وعادات کا‬
‫عادی اور شرعی امور کا پابند بنانا چاہئے ۔اور انھیں اپنے لباس‪ ،‬وضع قطع اورشکل و‬
‫صورت وغیرہ کو درست کرنے اور شریعت کے مطابق رکھنے کی ترغیب دیتے اور تاکید‬
‫کرتے رہنا چاہئے ۔‬
‫(‪ )۳۰‬بوقت ضرورت طلبہ کو تنبیہ کرنا‪:‬‬
‫اساتذہ ومعلّمات کو بوقت ضرورت طلبہ وطالبات‪ q‬کو تنبیہ کرتے رہنا چاہئے ‪،‬اور اگر تعلیم و‬
‫تربیت کے لئے انھیں سزا دینے کی ضرورت پڑے تو سزابھی دینا چاہئے‪ ،‬لیکن پہال مرحلہ‬
‫سمجھا نے کا ہے جیسا کہ رسو ل ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بچوں کے سلسلہ میں‬
‫اض ِربُ ْو ُه ْم َعلَ ْيها َو ُه ْم أ ْبنَا ُء َع ْ‬
‫ش ِر‬ ‫س ِن ْي َن‪َ ،‬و ْ‬
‫س ْب ِع ِ‬‫صالَ ِة َو ُه ْم أ ْبنَا ُء َ‬ ‫أوال َد ُک ْم بِال َّ‬
‫فرمایا ‪ُ ’’ :‬م ُر ْوا ْ‬
‫اج ِع‘‘‪ ( ‬رواه احمد‪۱:‬؍‪ ،۱۸۷ ،۱۸۰‬وابوداود‪ ،‬وسنده حسن کما‬ ‫ض ِ‬ ‫سنِ ْي َن ‪َ ،‬و فَ ِّرقُوا بَ ْينَ ُه ْم فِي ا ْل َم َ‬
‫ِ‬
‫قال االلباني في حاشية المشکاة‪۱:‬؍‪)۱۸۱‬‬
‫جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو‪،‬اور جب دس سال کے ہوجائیں اور‬
‫نماز نہ پڑھیں تو انہیں مار مار کرنماز پڑھاؤ اور ان سب کے بستر الگ الگ کر دو۔‬
‫اس لئے اگر کچھ طلبہ یا طالبات سمجھانے سے راہ راست پر نہ آئیں ‪ ،‬اچھی باتوں پر عمل‬
‫نہ کریں اور برے اخالق و عادات کے عادی بنتے جارہے ہوں تو انہیں سزا دینی چاہئے‪،‬‬
‫کیونکہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے دس سال کے بچے کو نماز نہ پڑھنے پر مارنے کا‬
‫حکم دیا ہے۔البتہ اگر دس سال سے کم عمر کے بچے ہوں تو انھیں حتی االمکان مارنے سے‬
‫احتراز کرنا چاہئے اور اچھی طرح ترغیب اور باربار تاکید سے اصالح کی کوشش کرنی‬
‫چاہئے۔‬
‫اسی طرح دس سال یا اس سے زیادہ عمر کے طلبہ کو بوقت ضرورت دوسری سزا بھی دے‬
‫سکتے ہیں ‪ ،‬حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ هللا جوبہت ہی نیک اور صالح خلیفہ گذرے‬
‫ہیں‪ ،‬یہاں تک کہ بعض لوگوں نے ان کو خلیفۂ خامس مانا ہے ‪،‬ان کی تربیت كے لئے ان کے‬
‫والد محترم نے صالح بن کیسان‪  ‬رحمہ هللا کو اتالیق مقرر کیا تھا‪ ،‬یہ بہت اچھے اور باصال‬
‫حیت عالم تھے‪ ،‬اور جہاں ان کی تعلیم کا خیال رکھتے تھے وہیں ان کی تربیت پربھی گہری‬
‫نظررکھتے تھے‪ ،‬تاکہ وہ اسالمی اخالق وعادات سے آراستہ ہو جائیں‪ ،‬اور انھیں کسی غلط‬
‫چیز کی عادت نہ پڑے‪ ،‬اس سلسلہ میں وہ ذرا بھی تساہلی ا ورسستی نہیں کرتے تھے۔‬
‫ایک مرتبہ عمر بن عبد العزیز رحمہ هللا کی نماز با جماعت چھوٹ گئی توصالح بن کیسان‬
‫رحمہ هللا نے انھیں بلوایا اور پوچھا کہ نماز میں تاخیر کیوں ہوئی ؟انہوں نے جواب دیا کہ‬
‫بال سنوار نے لگا تھا جس کی وجہ سے جماعت چھوٹ گئی‪ ،‬صالح بن کیسان رحمہ هللا نے‬
‫حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ هللا کے والد کے پاس اطالع بھجوائی کہ آپ کے‬
‫صاحبزادے اتنے زیادہ شوقین ہو گئے ہیں کہ بال سنوارنے میں جماعت چھوڑ دیتے ہیں۔اس‬
‫پر ان کے والد محترم عبد العزیز‪  ‬رحمہ ہللا نے ان کی یہ سزا متعین کی کہ ان کے با لوں کو‬
‫منڈوا دیا جائے تا کہ نہ یہ بال رہیں اور نہ ان کے سنوارنے میں نماز چھوٹے ۔ ( انظرسیر‬
‫اعالم النبالء‪ ۵ :‬؍‪) ۱ ۶ ۱ ‬‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪28 | P a g e‬‬

‫دراصل اگرطلبہ وطالبات کو یوں ہی شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے اوران کی‬
‫غلطیوں اور شرارتوں پر تنبیہ نہ کی جائے تو وہ بگڑ جا تے ہیں‪ ،‬اور ان کی صحیح تربیت‬
‫نہیں ہو پاتی ہے ۔ اس واسطے بوقت ضرورت اصالح کی خاطر انھیں تنبیہ کرنا اور سزا دینا‬
‫چاہئے‪ ،‬البتہ بے تحاشہ پیٹناا وربال ضرورت سزادینا غلط ہے ‪ ،‬حدیث نبوی ہے ’’ َمنْ اَل يَ ْر َح ْم‬
‫اَل يُ ْر َح ْم‪ ‘‘ ‬جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا ‪،‬اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫ص ِغ ْي َرنَا‘‘ ( رواہ احمد ‪۲:‬؍‪)۲۰۷‬جو ہم‬ ‫س ِمنَّا َمنْ لَ ْميُؤ قِّ ْر َکبِ ْي َرنَا َويَ ْر َح ْم َ‬
‫وسلم نے فرمایا‪’’ :‬لَ ْي َ‬
‫میں سے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کااحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‬
‫اس لئے جہاں بڑوں کا احترام واجب ہے وہیں چھوٹوں پر شفقت بھی ضروری ہے‪،‬اور طلبہ‬
‫وطالبات کو بالوجہ یا کسی ذاتی رنجش یا خاندانی عداوت کی بنا پر سزا دینااورمارنا درست‬
‫نہیں‪ ،‬اسی طرح کسی کو ذاتی رنجش کی بناپر فیل کردینا ‪،‬یا اپنے بچوں اور بچیوں کو‬
‫استحقاق سے زیادہ نمبرات دینا اور دوسرے بچوں کوکم نمبر دینا ‪،‬یہ ساری چیزیں غلط اور‬
‫ظلم ہیں‪ ،‬ان کاقیامت کے روز حساب دینا ہوگا۔اس لئے اساتذہ کو ہر چیزمیں اعتدال وانصاف‬
‫سے کام لینا چاہئے ۔‬
‫سزا میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ کسی طالب علم کو بوقت ضرورت کالس سے باہر‬
‫موسی علىہ السالم‪  ‬جب حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫کردیں‪ ،‬یا مدرسہ سے اس کا اخراج کردیں۔حضرت‬
‫خضر‪  ‬رحمہ هللا کے پاس حصول علم كے لئے تشریف لے گئے تو انھوں نے یہ شرط رکھی‬
‫کہ جو کچھ میں کروں اسے صرف دیکھنا اور اعتراض وتنقید نہ کر نا ۔ بلکہ میرے بتانے‬
‫سے پہلے اس چیز کے بارے میں سوال بھی نہ کرنا۔مگر حضرت موسی‪      ‬جیسے جاللی‬
‫پیغمبر بھال کہاں صبر کرپاتے‪ ،‬چنانچہ جب دونوں آدمی کشتی میں سوار ہوئے تو مالح نے‬
‫انہیں بزرگ لوگ سمجھ کر ان سے کرایا نہیں لیا‪،‬مگر حضرت خضر رحمہ هللا نے کشتی کا‬
‫موسی‪        ‬سے صبر نہ ہوسکااوربول پڑے‪’’ :‬آ پ کا‬ ‫ٰ‬ ‫ایک تختہ توڑ دیا‪ ،‬اس پرحضرت‬
‫عمل بڑا عجیب ہے‪ ،‬کیا آپ لوگوں کو ڈبونا چاہتے ہیں‘‘؟ حضرت خضر‪  ‬رحمہ ہللا نے‬
‫کہا ‪ ’ ’:‬کیامیں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟‘‘ حضرت موسی‬
‫علىہ السالم‪  ‬نے فوراً معذرت پیش کی‪ ،‬مگرآگے بڑھے تو حضرت خضر رحمہ هللا نے ایک‬
‫بچے کو ما رڈاال‪ ،‬حضرت‪ q‬موسی علىہ السالم‪  ‬کو پھر صبر نہ ہوا‪ ،‬اورکہا ‪:‬آپ نے ایک‬
‫معصوم بچے کو ناحق مار ڈاال‪ ،‬آپ نے غلط کیا‪،‬حضرت خضر‪  ‬رحمہ ہللا نے کہا‪ ’’:‬کیا میں‬
‫نے تم سے کہا نہیں تھاکہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے‘‘؟ حضرت موسی‪  ‬علىہ‬
‫السالم‪  ‬نے پھر معافی مانگی‪ ،‬اور کہاکہ اگر آئندہ مجھ سے ایسی غلطی ہوئی تو آپ اپنے‬
‫ساتھ نہ رکھئے گا‪ ،‬پھر دونوں آگے بڑھے اور ایک بستی میں پہنچے جہاں کے لوگوں نے‬
‫درخواست کے باوجود ان کی ضیافت‪ q‬سے انکار کردیا۔مگر حضرت خضر رحمہ هللا نے‬
‫وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کے قریب تھی‪ ،‬اور اس کو درست کرنے لگے ‪ ،‬حضرت‬
‫موسی علىہ السالم کو پھر صبر نہ ہوا‪،‬ا ور کہنے لگے ‪’’:‬اگر آپ چاہتے تو اس کی مزدوری‬
‫ُک‬‫سأُنَبِّئ َ‬
‫ک َ‬ ‫لے سکتے تھے‘‘ حضرت خضر‪  ‬رحمہ هللا نے فرمایا ‪ :‬ﭽ‪ ‬قَا َل َه َذا فِ َرا ُ‬
‫ق بَ ْْينِ ْی َوبَ ْْينِ َ‬
‫ص ْبراً‪ ‬ﭼ‪( ‬الكهف‪)٧٨ :‬یہ ہمارے اور آپ کے درمیان جدائی ہے۔ آپ‬ ‫بِتَأْ ِو ْي ِل َما لَ ْم تَ ْ‬
‫ست َِطع َّعلَ ْي ِه َ‬
‫جن باتوں پر صبر نہیں کر سکے میں ان کی تشریح آپ کے سامنے کروں گا۔ اور پھر ان کی‬
‫تشریح کرتے ہوئے ان کی حکمتیں بتائیں۔ (انظر سورہ الکہف‪۶۶:‬۔‪)۸۲‬‬
‫اسی طرح طلبہ وطالبات کو بھی کسی غلطی پر تین یا اس سے زائد مرتبہ تنبیہ اورمعاف کر‬
‫نے کے بعد خارج کرسکتے ہیں ۔لیکن یا د رہے کہ ہراستاذ نہ خضر‪  ‬رحمہ ہللا ہے اور نہ‬
‫موسی‪ ،‬مگر بہر حال اس سے بوقت ضرورت طلبہ کے اخراج کا جواز‬ ‫ٰ‬ ‫ہرطالب علم حضرت‬
‫اور ثبوت ملتا ہے ‪ ،‬ا ور جب یہ بات واضح ہوجائے کہ کسی طالب علم یا طالبہ کامدرسہ میں‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬
‫‪29 | P a g e‬‬

‫رکھنا بے فائدہ ہے‪ ،‬بلکہ اس کا رکھنا مدرسہ اور دوسرے طلبہ و طالبات کے لئے نقصان دہ‬
‫ہے‪ ،‬تو ایسی صورت میں اس کا اخراج کیا جا سکتا ہے۔‬
‫جس طرح ہسپتال میں جب ڈاکٹر کسی مریض کے عالج سے مایوس ہو جاتے ہیں تو اس کا‬
‫ڈسچارج کر دیتے ہیں اور اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے ہیں کہ اس کا عالج یہاں نہیں ہو‬
‫سکتا اسے یہاں سے لے جائیے ۔ اور گھر رکھئے یا کسی بڑ ے ڈاکٹر کو دکھائیے ‪،‬اسی‬
‫طرح جب کسی طالب علم کی اصالح سے اہل مدرسہ مایوس ہو جائیں تو اس کا اخراج کر‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫سزا دینے میں اس بات کابھی لحاظ رکھنا چاہئے کہ جرم کیسا ہے؟ اور کب اور کن حاالت‬
‫میں اس جرم کا وقوع ہوا ہے؟ مثالً کسی طالب علم نے سبق یاد نہیں کیا تو آپ اسے پہلے‬
‫بالکر سمجھائیں کہ تمہارا یہ عمل غلط ہے ‪ ،‬اگر سبق یاد نہیں کرو گے تو تمہارے اندر کچھ‬
‫بھی علمی لیاقت نہیں پیدا ہو گی‪ ،‬اگر کسی کے والد عالم ہیں تو اسے یہ بھی سمجھائیں کہ‬
‫تمہارے والد اتنے بڑے عالم ہیں ‪ ،‬تمہیں تو ان کا جانشین اور اپنے گھر کا روشن چراغ بننا‬
‫چاہئے ‪ ،‬نہ کہ چراغ تلے اندھیرا ہو۔ پھر بھی وہ اپنی اصالح نہ کرے تو سزا دے سکتے ہیں۔‬
‫اگر کبھی کوئی طالب علم ایسی غلطی کرے جس پر اگر اسے برسر عام نہ سزا دی جائے تو‬
‫اس کے نقصانات عام ہونے اور اس کے دوسرے طلبہ پر غلط اثرات پڑنے کا قوی اندیشہ ہو‬
‫تو اسے برسر عام سزا دینی چاہئے۔ جیسے کوئی طالب علم اپنے کسی استاذ یا ادارہ کے ذمہ‬
‫دار سے سب کے سامنے جھگڑا اور ہاتھا پائی کرے تو مشورہ کے بعد اسے سب کے‬
‫سامنے سزا دینی چاہئے‪ ،‬تاکہ دوسرے طلبہ و طالبات کو ایسی حرکت کرنے کی جر أت نہ‬
‫ہو ۔شریعت اسالمیہ میں بھی بہت ساری سزائیں ایسی ہیں جن کو برسرعام دینے کا حکم ہے ۔‬
‫اور اگر جرم ایساہے کہ تنہائی میں بھی سزا دینے یا تنبیہ کرنے سے اصالح ہو سکتی ہے تو‬
‫بالوجہ سب کے سامنے زجر وتوبیخ کر کے یا سزا دے کرطالب علم کی بے عزتی نہیں‬
‫کرنی چاہئے‪ ،‬ہشام بن عبد الملک نے اپنے بچے کے اتالیق سے کہا تھا‪’’ :‬اِ َذا َ‬
‫س ِم ْعتَ ِم ْنهُ‬
‫ص ُرهُ‬‫ک ْو َن نَ ْ‬‫ص َر َخطَأهُ فَيَ ُ‬ ‫س بَ ْي َن َج َما َع ٍة فَالتُؤنِّبُهُ لِتُ ْخ ِجلَهُ‪َ ،‬و َع ٰ‬
‫سی اَنْ يَ ْن ُ‬ ‫ا ْل َکلِ َمةَ ا ْل َع ْو َراء فِ ْي ا ْل َم ْجلِ ِ‬
‫کنْ اِ ْحفَ ْظ َها َعلَي ِه فَاِ َذا َخالفَ ُر َّدهُ َع ْن َها‪(.‬الدین والعلم‪:‬ص‪)۲۱‬‬ ‫لِ ْل َخطَأ أ ْقبَ َح ِمنْ اِ ْبتِدْا ِء ِه ِب ِه‪َ ،‬و ٰل ِ‬
‫جب تم میرے بچے سے مجلس میں کوئی غلط بات سنو تو سب کے سامنے ہی اس کی‬
‫سرزنش کر کے شرمندہ نہ کرو‪ ،‬کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے وہ اپنی غلطی کی تائید‬
‫کرنے لگے‪ ،‬تو اس کا اپنی غلطی پر اصرار کرنا غلطی کی ا بتدا سے زیادہ قبیح ہو۔بلکہ جب‬
‫کوئی غلطی دیکھو تو یاد رکھو اور جب تنہائی میں ملے تو سمجھا دو ۔‬
‫کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اگرطالب علم کو تنہائی میں بال کرسمجھا دیجئے تو اس کا بہت‬
‫اچھا اثر ہو تا ہے ‪ ،‬اور وہ فوراً اپنی غلطی کا اقرار کر کے آئندہ نہ کرنے کا عہد کرلیتا‬
‫ہے ‪،‬لیکن اگر مجلس میں اسے ٹوک دیجئے تو وہ اور ضد کرنے لگتا ہے کہ اب تو ہماری‬
‫بے عزتی ہو ہی گئی ہے‪ ،‬اس واسطے اب ہم اسی طرح کریں گے‪ ،‬دیکھتے ہیں کہ یہ ہم‬
‫کوکتناڈانٹتے مارتے اور سزا دیتے ہیں۔‬
‫بہرحال سزا دینے میں موقع ومحل‪ ،‬جرم کی نوعیت اور حاالت وغیرہ کا لحاظ رکھنا‬
‫ضروری ہے‪ ،‬اور جہاں سمجھانے سے کام چل جائے وہاں سزا نہیں دینی چاہئے‪ ،‬جہاں‬
‫صرف زجر و توبیخ کی ضرورت ہو وہاں مارنا نہیں چاہئے‪،‬اور جہاں تنہائی میں سزا دینے‬
‫سے اصالح ہو جائے وہاں سب کے سا منے سزا نہیں دینی چاہئے۔ اور نہ بال وجہ اخراج‬
‫کرنا چاہئے۔ بلکہ ایک والد کی طر ح ہمیشہ ادارہ اور بچوں کی مصلحت کو ملحوظ رکھنا‬
‫چاہئے‪ ،‬سزا برائے اصالح ہونی چاہئے‪ ،‬برائے تعذیب نہیں۔‬
‫تالیف – ڈاکٹر فضل الرحمن المدنی‪ ،‬جامعہ محمدیہ ‪ ،‬منصورہ مالیگاؤں‬

‫‪https://teachinurdu.org/%D8%A2%D8%AF%D8%A7%D8%A8-%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85-‬‬
‫‪%D9%88%D8%AA%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D8%AA/‬‬

You might also like