You are on page 1of 6

‫آج ہم نے قرارداد تاسیس کا مطالعہ کرنا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے کتابچے "تعارف تنظیم اسالمی" میں موجود ہے جو کہ‬

‫‪ 1991‬میں شائع ہوئی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس قرارداد کے ساتھ اس پر توضیحات بھی پڑھ لیں۔ اور ساتھ ہی ہم یہ بھی‬
‫دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرارداد تاسیس میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔‬
‫سب سے پہلے‪ 1967‬میں منظور ہونے والی قرارداد تاسیس کا مطالعہ کرلیتے ہیں جس کا پھر ‪ 1975‬میں اعادہ ہوا ۔‬
‫" آج ہم ہللا کا نام لے کر ایک ایسی اسالمی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی‬
‫اور اجتماعی ذمےداریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممد و معاون ہو (یہاں "ہم" کا لفظ بہت اہم ہے کیونکہ قرارداد تاسیس‬
‫اس ہیئت تنظیمی سے مختلف نوعیت کی تنظیم کیطرف اشارہ کر رہی ہے۔ آج کی تنظیم "من انصاری الی ہللا" کے اصول پر‬
‫بنی ہے۔ یعنی ایک داعی جو دین کی پکار لگائے اور نتیجے میں اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس کا ساتھ دیا جائے۔‬
‫گویا اب یہ اجتماعیت "ہم" کی بنیاد پر نہیں بلکہ داعی اول کی پکار پر بننے والی اجتماعیت ہوگی۔ اسکے برعکس ‪ 1967‬میں‬
‫جب یہ قرارداد تاسیس منظور ہوئی اس کے منظور کرنے والوں میں سے کسی کی حیثیت داعی اول کی نہیں۔ اس وقت موالنا‬
‫امین احسن اصالحی‪ ،‬شیخ عبد الغفار حسن‪ ،‬ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ نے اس کو منظور کیا تھا۔ لہذا یہ بیعت کی بنیاد پر بننے‬
‫والی اجتماعیت کی قرارداد نہیں ہے۔) ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے۔ اسی کی اخالقی و روحانی تکمیل اور فالح‬
‫و نجات 'دین کا اصل موضوع ہے ( یعنی کہ اگرچہ تمام انبیاء نے "یا قوم" کہہ کر اپنی دعوت دی لیکن اصل مخاطب فرد کی‬
‫نجات ہے۔ یہاں اس تصور کی وضاحت کی گئی ہے کہ دین کا اصل موضوع محض سیاسی‪ ،‬معاشی اور معاشرتی نظام ہی‬
‫قائم کردینا نہیں ہے۔ بلکہ آج بھی دینی تحریکوں سے وابستہ چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک انفرادی تزکیہ و تربیت‬
‫کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ صرف حرکت اور تحریک ہی پر سارا زور ہے) اور پیش نظر اجتماعیت اس لیے مطلوب ہے کہ‬
‫وہ فرد کو اسکے نصب العین یعنی رضائے الہی کے حصول میں مدد دے لہذا پیش نظر اجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی‬
‫چاہئیے کہ اس میں فرد کی دینی و اخالقی تربیت کا کماحقہ لحاظ رکھا جائے ۔ اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ‬
‫اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جال حاصل ہو اور ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے ‪ ،‬انکے عقائد کی تصحیح‬
‫و تطہیر ہو‪ ،‬عبادات اور اتباع سنت سے ان کا شغف اور ذوق و شوق بڑھتا چال جائے عملی زندگی میں حالل اور حرام کے‬
‫بارے میں انکی حس تیز تر اور انکا عمل مبنی بر تقوی ہوتا چال جائے اور دین کی دعوت و اشاعت اور اسکی نصرت و‬
‫اقامت کے لئے انکا جذبہ ترقی کرتا چال جائے (دعوت و اشاعت سے مراد فریضہ تبلیغ ہے اور نصرت و اقامت سے مراد‬
‫اقامت دین‪ ،‬اعالئے کلمت ہللا کی جدوجہد ہے) ان تمام امور کیلئے ذہنی و علمی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عملی ترتیب اور تاثیر‬
‫صحبت کے اہتمام کی جانب خصوصی توجہ ناگزیر ہے۔ دعوت دین کے ضمن میں ہمارے نزدیک 'الدین النصیحہ' کی روح‬
‫اور 'االقرب فاالقرب' کی تدریج ضروری ہے۔ لہذا دعوت و اصالح کے عمل کو اوال فرد سے خاندان اور پھر تدریجا ماحول‬
‫کی جانب بڑھانا چاہیے۔ اس ضمن میں نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام ناگزیر ہے۔ ( یہاں تک جو کچھ ہم‬
‫نے پڑھا اسکی وضاحت بانی تنظیم اسالمی نے خود کی ہیں۔ 'رفقائے تنظیم کے دس مطلوبہ اوصاف' کو تنظیم بننے کے آغاز‬
‫میں 'دس بنیادی فرائض' کا نام دیا گیا تھا۔ ایہی وہ دس فرائض ہیں جن کا تعلق قرارداد تاسیس کیساتھ ہے۔ لہذا اسی کیلئے‬
‫اسرے کا نظام‪ ،‬رپورٹنگ کا سسٹم‪ ،‬تربیتی کورسز ‪،‬تربیتی نصاب مرتب کیا گیا )‬
‫اس ضمن میں موالنا امین احسن اصالحی کی وضاحت اب ہم پڑھ لیتے ہیں ‪:‬‬
‫ہم نے اس قرارداد میں ہللا کا نام لے کر ایک ایسی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو دین کی جانب سے عائد کردہ‬
‫جملہ انفرادی اور اجتماعی ذمےداریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری مدد کرے۔ ۔ ۔ ۔ قرارداد کا یہ جملہ دو اہم حقیقتوں‬
‫کیطرف اشارہ کررہا ہے ۔ ایک یہ آپ تنظیم کو بجائے غایت و مقصد نہیں سمجھتے] بلکہ اس کو صرف دین کی عائدکردہ‬
‫اجتماعی و انفرادی ذمےداریاں ادا کرنے میں ممد و معاون سمجھتے ہیں۔ ( یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر‬
‫تنظیم خود غایت و مقصد ہے تو پھر آپ تنظیم کو بچانے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں‪ ،‬جبکہ آپ کا نصب العین‬
‫رضائے الہی ہے۔ تنظیم اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے نہ کہ خود ایک مقصد۔) دوسرا اس بات کیطرف کہ آپ اپنا نصب‬
‫العین دین کو سمجھتے ہیں اور اس دین اپنی انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں پر حاوی مانتے ہیں۔ جہاں تک پہلی بات کا‬
‫تعلق ہے تو وہ درحقیقت ایک بہت بڑے خطرے سے آگاہی ہے۔ وہ خطرہ یہ ہے کہ جماعتیں اور تنظیمیں قائم تو ہوتی ہیں‬
‫اصال کسی اعلی اور برتر نصب العین کیلئے‪ ،‬لیکن قائم ہو جانے کے بعد خود نصب العین اعر مقصد بن جاتی ہیں اور اصل‬
‫نصب العین غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس خطرے سے ہوشیار رہنا ہے۔ ( آج کہا جاتا ہے اگر آپ ہوشیار رہتے ہیں تو آپ سوء‬
‫ظن سے کام لے رہے ہیں اور شیطان آپ کو گمراہ کررہا ہے ) اس چیز نے نہ صرف جماعتوں اور تنظیموں کو تباہ کیا ہے‬
‫بلکہ ملتوں اور امتوں کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس تغیر کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ اصل مقصد غائب ہوجاتا‬
‫ہے بلکہ مقصد وسیلے اور ذریعے کا ایک ادنی خادم بن کر رہ جاتا ہے۔ پھرتنظیم مقصد کی خدمت نہیں کرتی بلکہ مقصد کو‬
‫اپنی خدمت اور اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہے۔ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی جماعتوں کیلئے یہ چیز خاص طور پر‬
‫خطرناک ہے۔ اس لیے کہ جب اس طرح کی کوئی جماعت خود اپنے وجود اور اسکے قیام و بقا کو مقصود بنا لیتی ہے تو وہ‬
‫مذہب کی جن چیزوں کو اپنے اس مقصد کی راہ میں مزاحم پاتی ہانکو بدل کر اپنے جماعتی اغراض کے سانچے] میں ڈھال‬
‫لیتی ہے ۔ مذاہب کی تاریخ ایک ساتھ شہادت دیتی ہے کہ اس چیز نے بےشمار تحریفات کی راہیں کھولی ہیں اور اس سے‬
‫بڑے فتنے ظہور میں آئے ہیں ۔ ( یہ گویا کہ ایک حفاظتی بند ہے جس کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں‬
‫جماعتیں اپنے لیے دین کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں تنظیم اسالمی میں اب جو بیعت کا تصور پیش کیا جارہا ہے وہ تو‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ امامت معصومہ سے بھی آگے کی کوئی شے ہے۔ یہاں تو گویا امیر کا فرمان 'ما یبدل القول' کی شان رکھتا‬
‫ہے یا پھر 'ظل ہللا فی االرض' واال مقام ہے۔ پھر اوپر ' کفر بواح' کا دھوکہ دے کر تنظیم اسالمی کو ایک طرح سے‬
‫'الجماعت' کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب 'فقیہان حرم ' اس درجے بےتوفیق ہو جاتے ہیں۔ ) اس خطرے‬
‫کے پیش نظر اس قرارداد میں اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ تنظیم بجائے خود مقصد نہ بننے پائے بلکہ وہ‬
‫اصل مقصد کے وسیلہ و ذریعہ کی حد تک محدود رہے( یہ باتیں بہت سے لوگوں کو اجنبی محسوس ہونگی لیکن یہ سب تو‬
‫'تعارف تنظیم اسالمی' میں لکھا ہوا ہے ۔ آپ رفقائے تنظیم کو یہ سب اس لیے نہیں معلوم کہ آپ ‪ 16‬سال جو قرارداد امیر‬
‫تنظیم اسالمی سے پڑھتے رہے ہیں وہ اس قرارداد میں سے صرف اتنا کچھ ہی پڑھاتے رہے جو ان کے مطلب کی چیز تھی۔‬
‫ابھی بھی یہ قرارداد ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی پڑھائی ہوئی نیٹ پر موجود ہے‪ ،‬وہ دیکھ لیجئے اور اسکا تقابل عاکف‬
‫سعید صاحب کی پڑھائی ہوئی قرارداد تاسیس کیساتھ کرلیں۔ فرق واضح ہے ۔ ) قرارداد کے اس پہلو پر بہت سی باتیں کہنی‬
‫ہیں جو آگے مراحل میں بتدریج آپ کے سامنے آئیں گی ۔‬
‫آگے چل کر موالنا امین احسن اصالحی مزید وضاحت کرتے ہیں ‪:‬‬
‫یہ امر بھی بدیہی ہے کہ اس زمانے میں دین کا روایتی علم بلکل غیر مفید ہے۔ (اس کی مزید وضاحت آگے آئے گی)‬
‫موالنا عبد الغفار حسن صاحب اس حصے کے بارے میں جو ابھی ہم نے پڑھا کچھ اہم باتیں کہی ہیں ‪:‬‬
‫بالشبہ جماعت سازی سے کچھ اندیشے بھی الحق ہوتے ہیں۔ مثال ایک یہ کہ اس سے جماعتی و گروہی عصبیت‪ ،‬پھر‬
‫تعصب اور باآلخر تحزب اور تفرق کی لعنت وجود میں آتی ہے۔ ( یعنی کہ جماعت محض خیر ہی خیر نہیں بلکہ کچھ شر کا‬
‫پہلو بھی اس میں موجود ہے ۔ اگرچہ جماعت سازی کے فوائد اپنی جگہ ۔ جیسا کہ سورہ فلک میں آیا 'من شر ما خلق' تو‬
‫اسکی ایک تشریح یہ بھی کی گئی کہ جو کچھ ہللا نے بنایا اس میں جو بالقوہ شر کا پہلو ہے اس سے میں ہللا کی پناہ مانگتا‬
‫ہوں۔ بلکل جیسے آگ بہت فائدےمند شے ہے مگر وہی آگ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اسی طرح جماعت کی تاثیر ضرور‬
‫ہے مگر جب یہ 'مودت فی الحیاہ الدنیا' کی شکل اختیار کر جائے تو وہ ایک بت بن جاتی ہے۔) دوسرا یہ کہ جماعتیں بالعموم‬
‫شخصیتوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان سے شخصیت پرستی کی مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ تیسرا یہ کہ خود جماعتیں‬
‫عموما داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات اس سے انتہائی کریہہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔ (اس سے ظاہر‬
‫ہوتا ہے کہ جن بزرگوں نے یہ قرارداد منظور کی وہکس قدر جہاندیدہ تھے۔ ) اول بات تو یہ کہ ہر چیز کے مجموعی فائدے‬
‫یا نقصان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ شخصیت پرستی کی لعنت کے پیدا ہونے کے امکانات وہاں زیادہ ہوتے ہیں جہاں کسی‬
‫ایک داعی کی دعوت پر لوگ جمع ہوں اور اسی کے خیاالت و نظریات و تصورات اور اسی کے فہم و فکر کو اس اجتماعیت‬
‫میں مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہوجائے ۔ اس کے برعکس اگر بہت سے لوگ ابتداء ہی سے باہمی مشاورت سے اپنے‬
‫مقصد اور اسکے حصول کے طریق کو طے کریں اور مسلسل 'امرھم شوری بینھم' کی قرآنی ہدایت پر عمل پیرا رہیں تو‬
‫انشاءہللا اس لعنت کا سدباب ہوجائے گا۔ ( یہاں یہ بات قابل غور ہے جس تنظیم اسالمی کا حصہ میں اور آپ بنے وہ ایک‬
‫شخصیت یعنی ڈاکٹر اسرار احمد کی دعوت پر وجود میں آئی مگر وہ لعنت نہیں بنی۔ کیوں ؟ اس لیے کیونکہ ڈاکٹر اسرار‬
‫احمد نے دانستہ کوشش کرکے اسکو لعنت نہیں بننے دیا۔ حتی کہ ڈاکٹر صاحب سے کوئی جھک کر ہاتھ مالتا تو وہ اس سے‬
‫ہاتھ ہی نہیں مالتے تھے کیونکہ یہی چیزیں تکبر اور شخصیت پرستی کا رستہ ہموار کرتی ہیں۔ ڈاکٹر نے تو اپنے آپ کو‬
‫‪ high profile‬شخصیت بنا کر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت کا پیش خیمہ ہے کہ ہم بھی اتنے 'بدتمیز'‬
‫ہیں۔ لیکن اب تنظیم اسالمی میں وہ سارے طریقے اختیار کیے گئے ہیں جن سے شخصیت پرستی کا پودا پنپتا ہے۔ میں یہ بات‬
‫دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا قریبی آدمی کبھی شخصیت پرست نہیں ہوسکتا۔)‬
‫یہ سب میں نے اس لیے آپ کے سامنے رکھا تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ پچھلے ‪ 16‬سال میں قرارداد تاسیس بلکل اسی طرح‬
‫پڑھائی گئی جیسے جاوید احمد غامدی صاحب قرآن مجید پڑھاتے ہیں۔‬
‫اب آئیں اس حصے کی طرف جو موجودہ امیر تنظیم اسالمی حافظ عاکف سعید صاحب نے کبھی پڑھایا ہی نہیں۔ ہر دفعہ‬
‫وہ یہی کرتے ہیں کہ اپنے مطلب کا مطالعہ کروا کر رفقاء سے کہتے ہیں باقی آپ خود پڑھ لیں۔ تو آج ہم وہ باقی حصہ خود‬
‫پڑھ لیتے ہیں‪:‬‬
‫عامہ الناس کو دین کی دعوت و تبلیغ کی جو ذمےداری امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے ( عامہ الناس سے مراد‬
‫صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انسان ہیں۔) اس کے ضمن میں ہمارے نزدیک اہم ترین کام یہ ہے کہ جاہلیت قدیمہ کے باطل‬
‫عقائد و رسوم دور جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کا مدلل ابطال کیا جائے ( یعنی کہ فلسفہ اور عمرانیات کے میدان میں‬
‫جو گمراہیاں آئی ہیں انکا دلیل سے رد کیا جائے نہ کہ صرف انکے کفریہ ہونے کا فتوی جاری کیا جائے) اور حیات انسانی‬
‫کے مختلف پہلوؤں کیلئے کتاب و سنت کی ہدایت و رہنمائی کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے (یعنی انسانی زندگی‬
‫کےجملہ معامالت‪ - - ]-‬عقائد و معموالت سے لے نظام سیاست] تک پر رہنمائی پیش کی جائے۔ اور اس کو وضاحت کے ساتھ‬
‫پیش کیا جائے نہ کہ جب دین قائم ہوگا تو تب اسکے نظام کو پیش کیا جائے گا۔ ) تاکہ انکی اصلی حکمت اور عقلی قدر و‬
‫قیمت واضح ہو۔ ( آج کا انسان دلیل سے قائل ہوتا ہے۔ محض نقل کے طور پر آیات پڑھ کر سنانے سے وہ قائل نہیں ہوسکتا۔‬
‫انسان عقلی طور پر قائل ہو کہ سوشلزم اور مغربی طرز جمہوریت سے اسالم بہتر ہے ) اور وہ شکوک وشبہات رفع ہوں جو‬
‫اس دور کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ( کیونکہ ایران کے ‪ 1979‬انقالب اور افغانستان کی طالبان طرز حکومت کے‬
‫بعد یہ شکوک وشبہات مزید بڑھے ہیں۔ سب سے بڑا خدشہ جو آج کے انسان کے ذہن میں ہے وہ مالئیت ہے لہذا جب بھی‬
‫اسالمی حکومت کا کوئی نام لے تو پہلی بات ذہن میں جو آتی ہے وہ 'مذہبی طبقے کی حکومت' ہے۔)‬
‫مندرجہ باال جملے کی مزید وضاحت ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے خود یوں کی ہے‪:‬‬
‫اس ضمن میں ہمارے نزدیک اس وقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ایک طرف ادیان باطلہ کے مزعومہ عقائد کا‬
‫موثر و مدلل ابطال کیا جائے اور دوسری طرف مغربی فلسفہ و فکر اور اسکے الئے ہوئے زندقہ و الحاد اور مادہ پرستی کے‬
‫سیالب کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے اوع حکمت قرآنی کی روشنی میں ایک ایسی زبردست جوابی علمی تحریک برپا‬
‫کی جائے جو توحید‪،‬معاد] اور رسالت کے بنیادی حقائق کی حقانیت کو بھی مبرہن کردے اور انسانی زندگی کے لئے دین کی‬
‫رہنمائی و ہدایت کو بھی مدلل و مفصل واضح کردے۔ ( یعنی کہ لوگوں کو دین کا پیش کردہ قابل عمل حل دیں۔ تب لوگ آپ‬
‫کیساتھ ملیں گے اور اپنا تن من دھن لگائیں گے۔ جبکہ ہمارے ہاں تنظیم میں کسی نے پوچھ بھی لیا کہ آپ کا نظام کیا ہوگا؟ تو‬
‫جوابا کہا جاتا تھا وہ تو جب انالب آجائے گا تب بیٹھ کر سوچیں گے ) ہمارے نزدیک اسالم کے حلقے میں نئی اقوام کا داخلہ‬
‫اور جسد دین میں نئے خون کی پیدائش ہی نہیں‪ ،‬خود اسالم کے موجود الوقت حلقہ بگوشوں میں حرارت ایمانی کی تازگی اور‬
‫دین و شریعت کی عملی پابندی اسی کام کے ایک موثر حد تک تکمیل پذیر ہونے پر موقوف ہے۔ (اب دیکھ لیں یہ بات صرف‬
‫'اسالم کی نشاہ ثانیہ' والے مضمون میں ہی نہیں آئی بلکہ یہاں قرارداد تاسیس میں بھی آئی ہے۔ اسی بات سے انجمن خدام‬
‫القران اور تنظیم اسالمی کا ربط و تعلق بھی واضح ہوتا ہے) اس لیے کہ دور جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کے سیالب‬
‫میں خود مسلمانوں کے ذہین و پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی تعداد اس طرح بہہ نکلی ہے کہ ان کا ایمان بلکل بے جان‬
‫ہوکر رہ گیا ہے اور دین سے انکا تعلق محض برائے نام رہ گیا ہے اور اسی بنا پر دین میں نت نئے فتنے اٹھ رہے ہیں اور‬
‫ضاللت و گمراہی نت نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہورہی ہے ۔ اس سلسلے میں انفرادی کوششیں اب بھی جیسی کچھ بھی‬
‫عمال ممکن ہیں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ ضرورت اس کی داعی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وسائل فراہم‬
‫کیے جائیں اور ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں الیا جائے جو حکمت قرآنی اور علم دینی کی نشر و اشاعت کا کام بھی‬
‫کرے اور ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب اور موثر بندوبست کیا جائے جو عربی زبان‪ ،‬قرآن حکیم اور‬
‫شریعت اسالمی کا گہرا علم حاصل کرکے اسالمی اعتقادات کی حقانیت کو بھی ثابت کریں اور انسانی زندگی کے مختلف‬
‫شعبوں کیلئے جو ہدایت اسالم نے دی ہیں انہیں بھی ایسے انداز میں پیش کریں جو موجودہ اذہان کو اپیل کرسکے ۔(یہ کون‬
‫کرے گا؟ اب کہا جاتا ہے کہ یہ کام تنظیم ہی کرے گی۔ انجمن پنڈی اسالم آباد کے شوری کے لوگ اب کہہ رہے ہیں انجمن‬
‫عوام میں کام کرے گی اور تنظیم خواص میں کام کرے گی۔ ایسی انجموں سے پھر ایسی ہی کھیپ نکلے گی جیسی اب نکل‬
‫رہی ہیں )‬
‫اب اس پر موالنا امین احسن اصالحی کہتے ہیں‪:‬‬
‫یہ زمانہ عقلیت کا زمانہ ہے ۔ اس زمانے میں لوگ ہر چیز کی دلیل و حجت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ مجرد یہ بات لوگوں کو‬
‫اپیل نہیں کرتی کہ فالں بات دین کی بات ہے ( ابھی یہ جو ہمارا کراچی کا شعبہ تربیت رخصت ہوا ہے جن کو امیر تنظیم‬
‫اسالمی نے ‪ 8‬سال پلکوں پر بٹھا کر رکھا ہے‪ ،‬انکا طرز عمل یہ تھا کہ ' تم ہوتے کون ہو دلیل مانگنے والے ' ۔ اب اس طرح‬
‫کوئی معقول آدمی تو آپ کی بات نہیں سنے گا۔ اس زمانے میں میرا ذہین اقلیت ہی کو قائل نہیں کرنا بلکہ' ذہین اکثریت ' کو‬
‫آپ نے قائل کرنا ہے۔ جو شخص اپنے زمانے کو نہ سمجھے وہ جاہل ہے۔ )۔ دین پر آج جو اعتراضات ہو رہے ہیں وہ گزشتہ‬
‫کل کے اعتراضات سے بلکل مختلف ہیں۔ یہ اعتراضات جدید مغربی فلسفہ و فکر کی پیداوار ہیں اور انکو زور و قوت کے‬
‫ساتھ پھیالنے والے خود ہمارے اندر پیدا ہوگئے ہیں ۔ جب تک ان اعتراضات و شبہات] کا موثر ازالہ نہ ہو اس وقت تک ممکن‬
‫نہیں ہے کہ آپ دین کی کوئی مفید خدمت انجام دے سکیں۔ افسوس ہے کہ اس خدمت کی صالحیت رکھنے والے ہمارے اندر‬
‫اگر مفقود نہیں تو اتنے کم ہیں کہ وہ دین کے محاذ کو کسی طرح بھی سنبھال نہیں سکتے۔ اس وجہ وقت کی ایک بہت بڑی‬
‫ضرورت یہ ہے کہ ایسے حامالن دین پیدا کرنے کی جدوجہد کی جائے جو جدید علوم و افکار سے بھی کماحقہ آگاہ ہوں اور‬
‫کتاب وسنت کے دالئل و براہین پر بھی وہ براہراست نظر رکھتے ہوں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا دین دنیا میں‬
‫بے دلیل نہیں آیا ہے ۔وہ بہتر سے بہتر فکری و عقلی دالئل سے مسلح ہوکر آیا ہے جو ہر دور کے فتنوں کا مقابلہ کرنے‬
‫کیلئے کافی ہیں‪ ،‬بشرطیکہ انکو اجاگر کرنے والے اور انکو دنیا کے سامنے حاالت کے مطابق پیش کرنے والے موجود ہوں۔‬
‫( ہمارے دور میں اس کام کے حصول کیلئے ایک بہت بڑا واقعہ ہوا تھا‪ 9/11 - - -‬۔ اس واقعے سے دنیا بھر میں بھونچال‬
‫آئی اور سوچنے سمجھنے] والے لوگوں میں ایک تجسس اور ارتعاش پیدا ہوا کہ اسالم کے ہمہ تصور کے بارے میں آگاہی‬
‫حاصل کریں۔ اس وقت اگر تنظیم اسالمی اپنے اصل موقف پر کھڑی رہتی تو ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمیں میسر آتی‬
‫جو حقیقت کی جستجو میں تھے ۔ مگر ہوا یہ کہ تنظیم اسالمی روایتی حلقے کی بھی انتہا پر جا کھڑی ہوئی۔ جبکہ اس پچھلے‬
‫‪ 15 ،10‬سال کے عرصے میں آپ دیکھیں گے ہمارے ہاں کے روایتی حلقوں نے اپنے ماڈرن تعلیمی ادارے کھولے ہیں۔‬
‫یعنی آپ اندازہ کریں کہ جامعہ الرشید کا ادارہ‪ ،‬حجم اور تعداد کے لحاظ سے انجمن خدام القرآن سے ‪10‬کم از کم گناہ زیادہ‬
‫کام کررہاہے۔ وہ جدید ذرائع ابالغ سے مسلح ہوکر دین کی دعوت پڑھے لکھے طبقے تک پہنچا رہاہے۔ لیکن انکا کام اگر‬
‫بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو نقصان ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے دعوت کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور نیا طرز کالم‬
‫‪ expression‬تو ضرور اپنایا ہے لیکن استدالل اور فکر وہی پرانا اور روایتی ہے۔ لہذا وہ انگریزی بول کر بھی دور جدید‬
‫کے فلسفوں اور نظریات کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کے شکار ذہن کو قائل نہیں کرسکتے۔‬
‫دور جدید کے ذہن کو قائل کرنے واال فکر اور استدالل تو احیائی تحریکوں کے پاس ہے یعنی جس فکر کی تنظیم‬
‫اسالمی وارث اور امین ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ‪ 2002‬کے بعد عاکف سعید صاحب] کی امارت میں تنظیم اسالمی فکری‬
‫لحاظ سے روایت کے بھی پرلے طرف کھڑی ہوگئی ‪ - - -‬تقریبا ادھر ہی جہاں ‪ 1998‬میں طالبان افغانستان کھڑے تھے۔‬
‫چنانچہ ایسے جدید ذہن سے مرعوب لوگ جو اسالم کے حوالے سے جاننا چاہتے تھے ان کو روایتی استدالل [مثال جامعہ‬
‫الرشید] انکے ذہنوں کو مسخر نہیں کرسکتا تھا۔ نتیجتا ایسے بہت سے لوگ جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقہ بگوش‬
‫ہوگئے۔ تو درحقیقت غامدی صاحب کے حلقہ اثر میں اضافے کا سہرا حافظ عاکف سعید صاحب کی اس نااہلی کو جاتا ہے‬
‫جو کہ انہوں ‪ 9/11‬کے بعد پیدا ہونے والے موقع کو گنوا کر کی۔‬
‫یہ بہت بڑی محرومی ہے اویس پاشا کی‪ ،‬رشید ارشد صاحب کی‪ ،‬مومن محمود کی ‪ ،‬اور ان سب سے بڑھ کر عاکف‬
‫سعید صاحب کی کیونکہ یہ سب صالحیتوں کے مالک لوگ ہیں مگر توفیق تو بہرحال ہللا ہی دیتا ہے۔ وہ جسے چاہے اپنے‬
‫دین کے کام کی توفیق دے اور جسے چاہے محروم رکھے ) جہاں تک عامہ المسلمین کو دین کی دعوت دینے کا تعلق ہے اس‬
‫کے بارے میں مجھے] یہ کہنے کی اجازت دیجیئے کہ اس زمانے میں مجرد تذکیر کافی نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانے پر تعلیم و‬
‫تفہیم کی ضرورت ہے ۔ یہ صورت نہیں ہے کہ لوگ دین کی باتیں بھولے ہوئے ہیں ۔ اگر انہیں یاد دال دی جائیں تو وہ انکو‬
‫اختیار کرلیں گے بلکہ اشاعت باطل کے وسیع ذرائع نے اس زمانے میں عام اذہان کے اندر بھی دین اور دینی احکام سے‬
‫متعلق بےشمار غلط فہمیاں بھر دی ہیں جن کو دور کرنے کا سامان کرنا ان لوگوں پر عاجب ہے جو آج ملک عوام کی اس‬
‫پہلو سے کوئی خدمت کرنا چاہتے ہوں۔ آج اخبارات گھر گھر پہنچ رہے ہیں۔ ریڈیو کھیتوں اور کھلیانوں تک موجود ہے ۔ اس‬
‫وجہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے جدید شیطانی نظریات سے ہمارے عوام بےخبر ہیں یا وہ ان سے التعلق ہیں۔‬
‫ان سے تاثر کے معاملے میں شہری اور دیہاتی آبادی میں کچھ فرق ہونا تو ایک قدرتی امر ہے لیکن دیہاتی آبادی کو ان فتنوں‬
‫سے الگ تھلگ خیال کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کے اندر کام کرنے کے وہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے جو‬
‫موجودہ حاالت میں ان کیلیے موثر اور مفید ہوں۔‬
‫اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انجمن خدام القران کی حیثیت تنظیم اسالمی کے 'درخت' کیلئے جڑ اور اساس کی ہے۔‬
‫یعنی تنظیم کے پودے کو غذا انجمن سے ملے گی۔ اب اس مثال کو حقیقت کے روپ میں سمجھیں۔ تنظیم عوام میں پھیلی‬
‫ہوگی‪ ،‬انجمن کے ادارے ہوں گے جہاں تعلیم و تعلم کا بندوبست ہوگا۔ تنظیم اپنے رفقاء اور حلقۂ اثر میں سے لوگ انجمن کے‬
‫حوالے کرے گی تاکہ انکی تعلیم و تربیت کی جائے۔ انجمن ان لوگوں کو علمی طور پر مسلح کرے گی تاکہ وہ دین کی دعوت‬
‫جدید علمی سطح پر دیں۔ یہ لوگ باہر آکر تنظیم اسالمی کے پلیٹ فارم سے عوام میں دعوت دین کا کام کریں گے۔ اور انجمن‬
‫خدام القران اور تنظیم اسالمی کے ربط کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔‬
‫اس اعتبار سے آپ سوچیں کہ کیا انجمن اور تنظیم کے درمیان کوئی بعد یا ڈیڈالک ہونا چاہیے؟ جبکہ آج یہ ہوگیا ہے ۔‬
‫ابھی حال ہی میں تنظیم کی شوری میں اس پر گفتگو ہوئی ہے کہ تنظیم کو انجمن سے ناطقہ توڑ لینا چاہیے۔ کہا گیا کہ ڈاکٹر‬
‫صاحب انجمن کے کام کے قائل ہی نہیں تھے۔ آج کی جو انجمن خدام القران ہے اسکا سب سے بڑا ادارہ کلیتہ القران ہے اور‬
‫کلیتہ القران بلکل درس نظامی کی طرز کا ایک ادارہ ہے جہاں دین کی صرف روایتی تعلیم ہورہی ہے۔ یہ ادارہ وفاق المدارس‬
‫کیساتھ الحاق شدہ ہے۔ بلکہ حالت یہاں تک ہے کلیتہ القران میں موالنا الطاف الرحمن بنوی صاحب استاد تھے جو کہ عاکف‬
‫سعید صاحب کے بھی استاد ہیں‪ ،‬وہ موالنا مودودی کے چاہنے والے اور مداح ہیں۔ اس بنیاد پر وفاق المدارس نے کلیتہ القران‬
‫کا ‪ 2015‬کا امتحانات کا نتیجہ روک کہ وہاں پر موالنا مودودی کی فکر کو رواج دیا جارہا ہے ۔ جوابا عاطف وحید صاحب‪،‬‬
‫ناظم کلیتہ القران نے موالنا الطاف الرحمن بنوی صاحب کو تنگ کرکے کلیتہ القران سے نکلوا دیا اور ساتھ ہی وفاق المدارس‬
‫کے ہیڈکوارٹر ملتان کو خط لکھا کہ 'ہمارا موالنا مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا‬
‫آپ ہمارا رزلٹ بحال کردیں ' ۔‬
‫جب انجمن یہ سب کرے گی تو رفقائے تنظیم کی طرف سے ردعمل تو آئے گا۔ اور ردعمل کے طور پر مقامی تناظیم نے‬
‫درس و تدریس کے اپنے ادارے کھولنا شروع کردیے۔ آخر تنظیم نے اپنے بندے تو بچانے ہیں۔ دراصل توڑ پھوڑ کا عمل‬
‫وہاں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سے آپ انحراف کرتے ہیں ۔ بقول شاعر‪:‬‬
‫جہاں ہستی ہوئی محدود الکھوں پیچ پڑتے ہیں‬
‫عقیدہ‪،‬عقل‪ ،‬فطرت سب آپس میں لڑتے ہیں ۔‬
‫اس چیز کو میں نے ‪ 2011‬میں لکھا تھا کہ انجمن خدام القران 'مرکز ضرار' کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔‬
‫ایک طرف انجمن اپنا کام ہی نہ کرے ادھر تنظیم انقالب کے بجائے روایتی قرآنی تبلیغی جماعت کی حیثیت اختیار‬
‫کرجائے۔ الغرض نہ انجمن اپنا کام کرے نہ ہی تنظیم اپنا کام کرے تو پھر ان میں جوڑ اور اتفاق کیسے ہوگا؟‬
‫اب آئیں قرارداد تاسیس کی تاریخ کی طرف جو کہ بڑی اہم ہے۔ ‪ 1967‬میں یہ قرارداد منظور ہوئی۔ اس ‪ 1967‬والی‬
‫قرارداد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪ 1966‬کی قرارداد کے بارے میں راقم الحروف کو اس وقت بھی یہ احساس تھا کہ اس میں اقامت] دین کی فرضیت کا‬
‫تصور کچھ دب گیا ہے اور اس کی اہمیت کماحقہ واضح نہیں ہورہی ۔ ( اگرچہ ‪ 1967‬کی قرارداد تاسیس میں اقامت دین کی‬
‫جدوجہد کا ذکر تھا مگر آپ کو معلوم ہے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جس طرح اس کی فرضیت کو بتکرار جتاتے تھے۔ یہاں‬
‫ایک اور بات سمجھ] لیں کہ جب آپ عوام الناس کو اقامت دین کی جدوجہد کی دعوت دیں گے تو آپ کا انداز بیان تدریسی و‬
‫علمی ‪ academic‬نہیں ہوگا بلکہ یہ ضروری ہے کہ ان کو اقامت] دین کی فرضیت پرزور انداز میں بتائی جائے۔ اس سے‬
‫ممکن ہے کہ کسی عالم دین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو۔ ایسے علماء کے شبہات] دور ضروری ہے۔ کیونکہ علماء یہ بات‬
‫سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کے طریقے‪ ،‬تدریس سے مختلف ہوتے ہیں۔) اور اگرچہ دین کی اقامت] کی اصطالح اس میں موجود ہے‬
‫تاہم بحیثیت مجموعی اس سے اصال ایک تبلیغی اور اصالحی تحریک کا نقشہ سامنے] آتا ہے۔ ( اب یہاں اس بات کو سمجھیں‬
‫جو عاکف سعید صاحب کہتے ہیں کہ 'میں تو شروع دن سے ہی تنظیم اسالمی کو قرارداد تاسیس کی بنیاد پر لے کر چل رہا‬
‫ہوں'۔ بالفاظ دیگر تنظیم کو ایک قرآنی تبلیغی جماعت بنانے کے راستے پر عمل پیرا ہوں۔ یہی بات اویس پاشا صاحب کہتے‬
‫ہیں کہ ہمیں یہ کام امیر تنظیم اسالمی نے سونپا تھا کہ تنظیم کو ایک قرآنی تبلیغی جماعت بنانا ہے۔) اس کی صحت و حقانیت‬
‫پر میرا دل ‪ 1975‬میں بھی اتنا ہی مطمئن تھا جتنا ‪ 1967‬میں تھا اور الحمدہللا کہ ان سطور کی تحریر کے وقت بھی‬
‫(جنوری ‪ ) 1991‬راقم کو یقین کامل حاصل ہے کہ فرائض دینی کی پہلی دو منازل یعنی بندگی رب اور شہادت علی الناس کے‬
‫اصول و مبادی کے ضمن میں اس قرارداد اور اسکی توضیحات کو ایک اہم اور جامع دستاویز کی حیثیت حاصل ہے (چنانچہ‬
‫اس کتاب کا حصہ اول اسی قرارداد اور اسکے متعلقات پر مشتمل ہے۔) ( نوٹ کریں یہاں فرائض دینی کی پہلی دو منازل کا‬
‫ذکر ہے ‪ ،‬تیسری منزل کا ذکر نہیں ہے۔ ایک اور بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ‪ 1975‬میں اس قرارداد کی دوبارہ‬
‫منظوری ہوئی۔ مگر اسکے بعد ‪ 1977‬میں اس میں ترمیم ہوئی۔ ) یہ اجتماع (اگست ‪ )1977‬جو کچھ دو اجتماعات] کے قائم‬
‫مقام ہونے کے ناطے اور کچھ اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو اور بحث و تمحیص کی ضرورت کے پیش نظر پورے ایک‬
‫ہفتے کیلئے طلب کیا گیا تھا ‪ 5‬تا ‪ 11‬اگست ‪ 1977‬قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن الہور میں جاری رہا اور اس میں راقم نے حسب‬
‫ذیل ‪ 3‬تنقیحات کے ذیل میں نہ صرف یہ کہ اپنے دینی فکر کو پوری وضاحت اور شرح و بسط کیساتھ بیان کیا بلکہ جملہ‬
‫شرکاء کو بھی اظہار خیال اور اختالف رائے کا پورا موقع فراہم کیا۔ اقامت دین‪ ،‬شہادت] علی الناس اور غلبہ و اظہار دین کی‬
‫جدوجہد نفلی عبادت یا نیکی نہیں بلکہ ازروئے قرآن و حدیث بنیادی دینی فرائض میں شامل ہے۔ اس دینی فریضے کی ادائیگی‬
‫کیلئے التزام جماعت واجب ہے۔ ایسی دینی جماعت کی ہیئت تنظیمی مغرب سے درآمد شدہ دستوری‪ ،‬قانونی اور جمہوری‬
‫طرز کی نہیں بلکہ قرآن و سنت اور اسالف کی روایات سے مطابقت رکھنے والے بیعت کے اصول پر مبنی ہونی چاہئیے ۔‬
‫الحمدہللا ان تنقیحات ثالثہ پر پورے ‪ 6‬دن سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں شرکاء اجتماع کی غالب اکثریت نے‬
‫راقم کے خیاالت و نظریات سے کامل اتفاق کیا اور باآلخر ناظم عمومی جناب شیخ جمیل الرحمن صاحب کی تحریک پر حسب‬
‫ذیل قرارداد منظور ہوئی۔‬
‫تنظیم اسالمی کا یہ اجتماع عام حسب دفعہ ‪ 3‬دستور تنظیم اسالمی طے کرتا ہے کہ آئندہ تنظیم اسالمی کا نظام مغرب‬
‫سے درآمد شدہ دستوری‪ ،‬قانونی اور جمہوری اصولوں کے بجائے قرآن وسنت سے ماخوذ اور اسالف کی روایات کے مطابق‬
‫بیعت کے اصول پر مبنی ہوگا ۔ چنانچہ تنظیم اسالمی کے داعی عمومی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب آج کے بعد سے امیر‬
‫تنظیم اسالمی ہوں گے اور تنظیم میں داخلہ ان کے ساتھ اطاعت فی المعروف کی بیعت کا شخصی رابطہ استوار کرنے سے‬
‫ہوگا اور وہ بحیثیت امیر تنظیم اسالمی اپنے فرائض 'امرھم شوری بینھم' اور 'وشاورھم فی االمر۔ فاذا عزمت فتوکل علی ہللا '‬
‫کی قرآنی ہدایت کے مطابق ادا خریں گے۔ دوم اس فیصلے سے الزم آتا ہے کہ تنظیم اسالمی میں جو حضرات اب تک شریک‬
‫رہے ہیں انکی رفاقت آج سے ختم شمار ہوگی۔تاآنکہ اس قرارداد کے جزو اول کیمطابق بیعت کے نظم میں شامل ہو جائیں۔‬
‫تنظیم اسالمی کا موجودہ دستور بھی کالعدم متصور ہوگا اور امیر تنظیم اسالمی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اختیار ہوگا کہ‬
‫وہ جن رفقاء سے مناسب] سمجھیں مشورہ کرکے آئندہ کا دستور العمل طے کرلیں۔ ‪ 10‬اگست ‪ 1977‬کو اس قرارداد کی‬
‫منظوری اور اس پر جملہ شرکاء اجتماع کے دستخط ثبت ہونے پر گویا تنظیم اسالمی کا عبوری دور ختم اور نیا اور مستقل‬
‫دور شروع ہوگیا جو بحمدہللا تاحال جاری ہے ۔‬
‫اب یہاں بیعت کے نظام کے حوالے سے ایک وضاحت کی گئی ہے ۔‬
‫بیرونی تمسخر اور مخالفت کو برداشت کرنے سے زیادہ کٹھن مرحلہ ان غلط تصورات کے خاتمے کا تھا جو بیعت کے‬
‫لفظ کے ساتھ المحالہ وابستہ ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ تصور یہ ہے کہ بیعت کے نظام میں نہ‬
‫باہمی مشاورت کی کوئی گنجائش ہے نہ اختالف رائے اور اظہار خیال کا کوئی موقع¡¡ چنانچہ ہمیں اس غلط تصور کی نفی‬
‫اور اس حقیقت کے اثبات میں بہت محنت کرنی پڑی اوربہت سا وقت صرف کرنا پڑا کہ نظام بیعت میں اختالف رائے کی‬
‫گنجائش‪ ،‬اظہار خیال کے مواقع اور باہمی مشاورت کا میدان نام نہاد جمہوری نظام سے بھی وسیع تر موجود ہے۔‬
‫اب میں آتا ہوں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب ' قافلہ تنظیم منزل بہ منزل ' کیطرف ۔ ‪ 1983‬میں بعض اور فیصلے‬
‫ہوئے اور ان میں یہ بات زیر بحث آئی کہ فرد کا نصب العین ‪ ' ---‬رضائے الہی کے حصول ' اور تنظیم کا نصب العین ‪' ---‬‬
‫اقامت دین ' ۔ ان دو نصب العینوں کے مابین ٹکراو ہے۔ تو اس قضیے کو حل کیسے کریں؟‬
‫‪ 1988‬میں یہ بحث دوبارہ ہوئی ۔ اس وقت کے ناظم اعلی میاں نعیم صاحب کا خیال تھا کہ تزکیے کا وہ طریقہ جو اہل‬
‫تصوف کے ہاں پایا جاتا ہے‪ ،‬ہمیں بھی تنظیم اسالمی میں اس طریقےکو اختیار کرنا چاہیے۔‬
‫تنظیم اسالمی میں بیعت کی اساس اگرچے دس سال قبل اختیار کرلی گئی تھی لیکن فی زمانہ کسی ہیئت اجتماعیہ کیلئے‬
‫اس مسنون اساس کے متروک العمل ہونے کے باعث تنظیم اسالمی کو بھی اسکے عملی تقاضوں سے کامل ہم آہنگی کے‬
‫ضمن میں تدریجی مراحل سے گزرنا پڑا ہے ۔اس ضمن میں اگرچہ متعدد فیصلے مختلف اوقات میں کئے جاتے رہے ہیں‬
‫لیکن انکو باضابطہ ضبط تحریر میں نہیں الیا گیا۔ اسی طرح اگرچہ تنظیم کی قرارداد تاسیس اور اس کی توضیحات میں بعض‬
‫تاریخی اسباب کی بنا پر فریضہ اقامت دین کی اہمیت اور اس کیلئے جہاد فی سبیل ہللا کے لزوم کے قدر خفی اور غیرنمایاں‬
‫ہونے کے پیش نظر تنظیم کے آٹھویں ساالنہ اجتماع میں یہ اعالن کردیا گیا تھا کہ آئندہ تنظیم اسالمی محض دعوتی و‬
‫اصالحی نہیں بلکہ انقالبی تنظیم ہوگی۔( یہ اسباب تفصیل سے ' تعارف تنظیم اسالمی ' والے کتابچے میں موجود ہے۔ میں نے‬
‫بوجہ اختصار اسکو بیان نہیں کیا۔ مختصرا یہ کہ یہ جماعت اسالمی کا ردعمل تھا یعنی 'دودھ کا جال چاجھ بھی پھونک کر‬
‫پیتا ہے' ) تاہم ابھی تک یہ بات بھی تحریری طور پر سامنے] نہیں آئی۔ لہذا ضروری ہے کہ ان دونوں امور کو مجوزہ نظام‬
‫العمل میں درج کردیا جائے۔ اس ضمن میں میاں نعیم صاحب نے اس رائے کا اظہار کیا کہ تنظیم اسالمی کے نصب العین کے‬
‫طور پر رضائے الہی اور نجات اخروی کا ذکر ضروری ہے بصورت دیگر اندیشہ ہے ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کیطرف‬
‫نہ چلے جائیں اور رفقائے تنظیم کی نگاہوں سے اصل نصب العین اوجھل ہوجائے اور وہ محض سیاسی یا انقالبی کارکن بن‬
‫کر رہ جائیں۔ (یہ وہ بات ہے جس پر ‪ 16‬سال عاکف سعید صاحب نے مسلسل زور دیا ہے۔) اس پر بحث ہوئی ۔ اور بحث و‬
‫تمحیص کے بعد طے پایا کہ جیسا کہ پانچ سال قبل طے کیا گیا تھا (‪ 1983‬میں) تنظیم اسالمی کی قرارداد تاسیس مع‬
‫توضیحات اور شرائط شمولیت پر مشتمل مفصل تحریر کو آئندہ تنظیم کی آئینی و دستوری اساس نہیں بلکہ اس کے دعوتی اور‬
‫تربیتی لٹریچر کا اہم اور اساسی حصہ سمجھا جائے گا ۔ ( آج عاکف صاحب کہتے ہیں کہ تنظیم کی اساس قرارداد تاسیس ہے‬
‫تو یہ کس کے مشورے سے طے پایا؟ کس فورم پر اس کا فیصلہ ہوا کہ قرارداد تاسیس کی حیثیت آئینی اور دستوری ہے؟ لہذا‬
‫اگر ‪ 1988‬کے ساالنہ اجتماع والے فیصلے سے اگر ہٹ کر کچھ کیاگیا ہے تو یہی تو وہ انحراف ہے جس کا میں کہہ رہا‬
‫ہوں )‬

You might also like