Professional Documents
Culture Documents
ویڈیو نمبر 9
ویڈیو نمبر 9
1991میں شائع ہوئی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس قرارداد کے ساتھ اس پر توضیحات بھی پڑھ لیں۔ اور ساتھ ہی ہم یہ بھی
دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرارداد تاسیس میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔
سب سے پہلے 1967میں منظور ہونے والی قرارداد تاسیس کا مطالعہ کرلیتے ہیں جس کا پھر 1975میں اعادہ ہوا ۔
" آج ہم ہللا کا نام لے کر ایک ایسی اسالمی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کرتے ہیں جو دین کی جانب سے عائد کردہ جملہ انفرادی
اور اجتماعی ذمےداریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری ممد و معاون ہو (یہاں "ہم" کا لفظ بہت اہم ہے کیونکہ قرارداد تاسیس
اس ہیئت تنظیمی سے مختلف نوعیت کی تنظیم کیطرف اشارہ کر رہی ہے۔ آج کی تنظیم "من انصاری الی ہللا" کے اصول پر
بنی ہے۔ یعنی ایک داعی جو دین کی پکار لگائے اور نتیجے میں اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس کا ساتھ دیا جائے۔
گویا اب یہ اجتماعیت "ہم" کی بنیاد پر نہیں بلکہ داعی اول کی پکار پر بننے والی اجتماعیت ہوگی۔ اسکے برعکس 1967میں
جب یہ قرارداد تاسیس منظور ہوئی اس کے منظور کرنے والوں میں سے کسی کی حیثیت داعی اول کی نہیں۔ اس وقت موالنا
امین احسن اصالحی ،شیخ عبد الغفار حسن ،ڈاکٹر اسرار احمد وغیرہ نے اس کو منظور کیا تھا۔ لہذا یہ بیعت کی بنیاد پر بننے
والی اجتماعیت کی قرارداد نہیں ہے۔) ہمارے نزدیک دین کا اصل مخاطب فرد ہے۔ اسی کی اخالقی و روحانی تکمیل اور فالح
و نجات 'دین کا اصل موضوع ہے ( یعنی کہ اگرچہ تمام انبیاء نے "یا قوم" کہہ کر اپنی دعوت دی لیکن اصل مخاطب فرد کی
نجات ہے۔ یہاں اس تصور کی وضاحت کی گئی ہے کہ دین کا اصل موضوع محض سیاسی ،معاشی اور معاشرتی نظام ہی
قائم کردینا نہیں ہے۔ بلکہ آج بھی دینی تحریکوں سے وابستہ چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک انفرادی تزکیہ و تربیت
کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ صرف حرکت اور تحریک ہی پر سارا زور ہے) اور پیش نظر اجتماعیت اس لیے مطلوب ہے کہ
وہ فرد کو اسکے نصب العین یعنی رضائے الہی کے حصول میں مدد دے لہذا پیش نظر اجتماعیت کی نوعیت ایسی ہونی
چاہئیے کہ اس میں فرد کی دینی و اخالقی تربیت کا کماحقہ لحاظ رکھا جائے ۔ اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا جائے کہ
اس کے تمام شرکاء کے دینی جذبات کو جال حاصل ہو اور ان کے علم میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے ،انکے عقائد کی تصحیح
و تطہیر ہو ،عبادات اور اتباع سنت سے ان کا شغف اور ذوق و شوق بڑھتا چال جائے عملی زندگی میں حالل اور حرام کے
بارے میں انکی حس تیز تر اور انکا عمل مبنی بر تقوی ہوتا چال جائے اور دین کی دعوت و اشاعت اور اسکی نصرت و
اقامت کے لئے انکا جذبہ ترقی کرتا چال جائے (دعوت و اشاعت سے مراد فریضہ تبلیغ ہے اور نصرت و اقامت سے مراد
اقامت دین ،اعالئے کلمت ہللا کی جدوجہد ہے) ان تمام امور کیلئے ذہنی و علمی رہنمائی کے ساتھ ساتھ عملی ترتیب اور تاثیر
صحبت کے اہتمام کی جانب خصوصی توجہ ناگزیر ہے۔ دعوت دین کے ضمن میں ہمارے نزدیک 'الدین النصیحہ' کی روح
اور 'االقرب فاالقرب' کی تدریج ضروری ہے۔ لہذا دعوت و اصالح کے عمل کو اوال فرد سے خاندان اور پھر تدریجا ماحول
کی جانب بڑھانا چاہیے۔ اس ضمن میں نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام ناگزیر ہے۔ ( یہاں تک جو کچھ ہم
نے پڑھا اسکی وضاحت بانی تنظیم اسالمی نے خود کی ہیں۔ 'رفقائے تنظیم کے دس مطلوبہ اوصاف' کو تنظیم بننے کے آغاز
میں 'دس بنیادی فرائض' کا نام دیا گیا تھا۔ ایہی وہ دس فرائض ہیں جن کا تعلق قرارداد تاسیس کیساتھ ہے۔ لہذا اسی کیلئے
اسرے کا نظام ،رپورٹنگ کا سسٹم ،تربیتی کورسز ،تربیتی نصاب مرتب کیا گیا )
اس ضمن میں موالنا امین احسن اصالحی کی وضاحت اب ہم پڑھ لیتے ہیں :
ہم نے اس قرارداد میں ہللا کا نام لے کر ایک ایسی تنظیم کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جو دین کی جانب سے عائد کردہ
جملہ انفرادی اور اجتماعی ذمےداریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہماری مدد کرے۔ ۔ ۔ ۔ قرارداد کا یہ جملہ دو اہم حقیقتوں
کیطرف اشارہ کررہا ہے ۔ ایک یہ آپ تنظیم کو بجائے غایت و مقصد نہیں سمجھتے] بلکہ اس کو صرف دین کی عائدکردہ
اجتماعی و انفرادی ذمےداریاں ادا کرنے میں ممد و معاون سمجھتے ہیں۔ ( یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر
تنظیم خود غایت و مقصد ہے تو پھر آپ تنظیم کو بچانے کے لیے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں ،جبکہ آپ کا نصب العین
رضائے الہی ہے۔ تنظیم اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے نہ کہ خود ایک مقصد۔) دوسرا اس بات کیطرف کہ آپ اپنا نصب
العین دین کو سمجھتے ہیں اور اس دین اپنی انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں پر حاوی مانتے ہیں۔ جہاں تک پہلی بات کا
تعلق ہے تو وہ درحقیقت ایک بہت بڑے خطرے سے آگاہی ہے۔ وہ خطرہ یہ ہے کہ جماعتیں اور تنظیمیں قائم تو ہوتی ہیں
اصال کسی اعلی اور برتر نصب العین کیلئے ،لیکن قائم ہو جانے کے بعد خود نصب العین اعر مقصد بن جاتی ہیں اور اصل
نصب العین غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس خطرے سے ہوشیار رہنا ہے۔ ( آج کہا جاتا ہے اگر آپ ہوشیار رہتے ہیں تو آپ سوء
ظن سے کام لے رہے ہیں اور شیطان آپ کو گمراہ کررہا ہے ) اس چیز نے نہ صرف جماعتوں اور تنظیموں کو تباہ کیا ہے
بلکہ ملتوں اور امتوں کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس تغیر کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ اصل مقصد غائب ہوجاتا
ہے بلکہ مقصد وسیلے اور ذریعے کا ایک ادنی خادم بن کر رہ جاتا ہے۔ پھرتنظیم مقصد کی خدمت نہیں کرتی بلکہ مقصد کو
اپنی خدمت اور اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتی ہے۔ مذہب کے نام پر قائم ہونے والی جماعتوں کیلئے یہ چیز خاص طور پر
خطرناک ہے۔ اس لیے کہ جب اس طرح کی کوئی جماعت خود اپنے وجود اور اسکے قیام و بقا کو مقصود بنا لیتی ہے تو وہ
مذہب کی جن چیزوں کو اپنے اس مقصد کی راہ میں مزاحم پاتی ہانکو بدل کر اپنے جماعتی اغراض کے سانچے] میں ڈھال
لیتی ہے ۔ مذاہب کی تاریخ ایک ساتھ شہادت دیتی ہے کہ اس چیز نے بےشمار تحریفات کی راہیں کھولی ہیں اور اس سے
بڑے فتنے ظہور میں آئے ہیں ۔ ( یہ گویا کہ ایک حفاظتی بند ہے جس کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں
جماعتیں اپنے لیے دین کو بھی بدل دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں تنظیم اسالمی میں اب جو بیعت کا تصور پیش کیا جارہا ہے وہ تو
معلوم ہوتا ہے کہ امامت معصومہ سے بھی آگے کی کوئی شے ہے۔ یہاں تو گویا امیر کا فرمان 'ما یبدل القول' کی شان رکھتا
ہے یا پھر 'ظل ہللا فی االرض' واال مقام ہے۔ پھر اوپر ' کفر بواح' کا دھوکہ دے کر تنظیم اسالمی کو ایک طرح سے
'الجماعت' کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب 'فقیہان حرم ' اس درجے بےتوفیق ہو جاتے ہیں۔ ) اس خطرے
کے پیش نظر اس قرارداد میں اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ تنظیم بجائے خود مقصد نہ بننے پائے بلکہ وہ
اصل مقصد کے وسیلہ و ذریعہ کی حد تک محدود رہے( یہ باتیں بہت سے لوگوں کو اجنبی محسوس ہونگی لیکن یہ سب تو
'تعارف تنظیم اسالمی' میں لکھا ہوا ہے ۔ آپ رفقائے تنظیم کو یہ سب اس لیے نہیں معلوم کہ آپ 16سال جو قرارداد امیر
تنظیم اسالمی سے پڑھتے رہے ہیں وہ اس قرارداد میں سے صرف اتنا کچھ ہی پڑھاتے رہے جو ان کے مطلب کی چیز تھی۔
ابھی بھی یہ قرارداد ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی پڑھائی ہوئی نیٹ پر موجود ہے ،وہ دیکھ لیجئے اور اسکا تقابل عاکف
سعید صاحب کی پڑھائی ہوئی قرارداد تاسیس کیساتھ کرلیں۔ فرق واضح ہے ۔ ) قرارداد کے اس پہلو پر بہت سی باتیں کہنی
ہیں جو آگے مراحل میں بتدریج آپ کے سامنے آئیں گی ۔
آگے چل کر موالنا امین احسن اصالحی مزید وضاحت کرتے ہیں :
یہ امر بھی بدیہی ہے کہ اس زمانے میں دین کا روایتی علم بلکل غیر مفید ہے۔ (اس کی مزید وضاحت آگے آئے گی)
موالنا عبد الغفار حسن صاحب اس حصے کے بارے میں جو ابھی ہم نے پڑھا کچھ اہم باتیں کہی ہیں :
بالشبہ جماعت سازی سے کچھ اندیشے بھی الحق ہوتے ہیں۔ مثال ایک یہ کہ اس سے جماعتی و گروہی عصبیت ،پھر
تعصب اور باآلخر تحزب اور تفرق کی لعنت وجود میں آتی ہے۔ ( یعنی کہ جماعت محض خیر ہی خیر نہیں بلکہ کچھ شر کا
پہلو بھی اس میں موجود ہے ۔ اگرچہ جماعت سازی کے فوائد اپنی جگہ ۔ جیسا کہ سورہ فلک میں آیا 'من شر ما خلق' تو
اسکی ایک تشریح یہ بھی کی گئی کہ جو کچھ ہللا نے بنایا اس میں جو بالقوہ شر کا پہلو ہے اس سے میں ہللا کی پناہ مانگتا
ہوں۔ بلکل جیسے آگ بہت فائدےمند شے ہے مگر وہی آگ نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ اسی طرح جماعت کی تاثیر ضرور
ہے مگر جب یہ 'مودت فی الحیاہ الدنیا' کی شکل اختیار کر جائے تو وہ ایک بت بن جاتی ہے۔) دوسرا یہ کہ جماعتیں بالعموم
شخصیتوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان سے شخصیت پرستی کی مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ تیسرا یہ کہ خود جماعتیں
عموما داخلی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اور بعض اوقات اس سے انتہائی کریہہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔ (اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ جن بزرگوں نے یہ قرارداد منظور کی وہکس قدر جہاندیدہ تھے۔ ) اول بات تو یہ کہ ہر چیز کے مجموعی فائدے
یا نقصان کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ شخصیت پرستی کی لعنت کے پیدا ہونے کے امکانات وہاں زیادہ ہوتے ہیں جہاں کسی
ایک داعی کی دعوت پر لوگ جمع ہوں اور اسی کے خیاالت و نظریات و تصورات اور اسی کے فہم و فکر کو اس اجتماعیت
میں مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہوجائے ۔ اس کے برعکس اگر بہت سے لوگ ابتداء ہی سے باہمی مشاورت سے اپنے
مقصد اور اسکے حصول کے طریق کو طے کریں اور مسلسل 'امرھم شوری بینھم' کی قرآنی ہدایت پر عمل پیرا رہیں تو
انشاءہللا اس لعنت کا سدباب ہوجائے گا۔ ( یہاں یہ بات قابل غور ہے جس تنظیم اسالمی کا حصہ میں اور آپ بنے وہ ایک
شخصیت یعنی ڈاکٹر اسرار احمد کی دعوت پر وجود میں آئی مگر وہ لعنت نہیں بنی۔ کیوں ؟ اس لیے کیونکہ ڈاکٹر اسرار
احمد نے دانستہ کوشش کرکے اسکو لعنت نہیں بننے دیا۔ حتی کہ ڈاکٹر صاحب سے کوئی جھک کر ہاتھ مالتا تو وہ اس سے
ہاتھ ہی نہیں مالتے تھے کیونکہ یہی چیزیں تکبر اور شخصیت پرستی کا رستہ ہموار کرتی ہیں۔ ڈاکٹر نے تو اپنے آپ کو
high profileشخصیت بنا کر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی تربیت کا پیش خیمہ ہے کہ ہم بھی اتنے 'بدتمیز'
ہیں۔ لیکن اب تنظیم اسالمی میں وہ سارے طریقے اختیار کیے گئے ہیں جن سے شخصیت پرستی کا پودا پنپتا ہے۔ میں یہ بات
دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا قریبی آدمی کبھی شخصیت پرست نہیں ہوسکتا۔)
یہ سب میں نے اس لیے آپ کے سامنے رکھا تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ پچھلے 16سال میں قرارداد تاسیس بلکل اسی طرح
پڑھائی گئی جیسے جاوید احمد غامدی صاحب قرآن مجید پڑھاتے ہیں۔
اب آئیں اس حصے کی طرف جو موجودہ امیر تنظیم اسالمی حافظ عاکف سعید صاحب نے کبھی پڑھایا ہی نہیں۔ ہر دفعہ
وہ یہی کرتے ہیں کہ اپنے مطلب کا مطالعہ کروا کر رفقاء سے کہتے ہیں باقی آپ خود پڑھ لیں۔ تو آج ہم وہ باقی حصہ خود
پڑھ لیتے ہیں:
عامہ الناس کو دین کی دعوت و تبلیغ کی جو ذمےداری امت مسلمہ پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے ( عامہ الناس سے مراد
صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام انسان ہیں۔) اس کے ضمن میں ہمارے نزدیک اہم ترین کام یہ ہے کہ جاہلیت قدیمہ کے باطل
عقائد و رسوم دور جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کا مدلل ابطال کیا جائے ( یعنی کہ فلسفہ اور عمرانیات کے میدان میں
جو گمراہیاں آئی ہیں انکا دلیل سے رد کیا جائے نہ کہ صرف انکے کفریہ ہونے کا فتوی جاری کیا جائے) اور حیات انسانی
کے مختلف پہلوؤں کیلئے کتاب و سنت کی ہدایت و رہنمائی کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے (یعنی انسانی زندگی
کےجملہ معامالت - - ]-عقائد و معموالت سے لے نظام سیاست] تک پر رہنمائی پیش کی جائے۔ اور اس کو وضاحت کے ساتھ
پیش کیا جائے نہ کہ جب دین قائم ہوگا تو تب اسکے نظام کو پیش کیا جائے گا۔ ) تاکہ انکی اصلی حکمت اور عقلی قدر و
قیمت واضح ہو۔ ( آج کا انسان دلیل سے قائل ہوتا ہے۔ محض نقل کے طور پر آیات پڑھ کر سنانے سے وہ قائل نہیں ہوسکتا۔
انسان عقلی طور پر قائل ہو کہ سوشلزم اور مغربی طرز جمہوریت سے اسالم بہتر ہے ) اور وہ شکوک وشبہات رفع ہوں جو
اس دور کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ( کیونکہ ایران کے 1979انقالب اور افغانستان کی طالبان طرز حکومت کے
بعد یہ شکوک وشبہات مزید بڑھے ہیں۔ سب سے بڑا خدشہ جو آج کے انسان کے ذہن میں ہے وہ مالئیت ہے لہذا جب بھی
اسالمی حکومت کا کوئی نام لے تو پہلی بات ذہن میں جو آتی ہے وہ 'مذہبی طبقے کی حکومت' ہے۔)
مندرجہ باال جملے کی مزید وضاحت ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے خود یوں کی ہے:
اس ضمن میں ہمارے نزدیک اس وقت کرنے کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ایک طرف ادیان باطلہ کے مزعومہ عقائد کا
موثر و مدلل ابطال کیا جائے اور دوسری طرف مغربی فلسفہ و فکر اور اسکے الئے ہوئے زندقہ و الحاد اور مادہ پرستی کے
سیالب کا رخ موڑنے کی کوشش کی جائے اوع حکمت قرآنی کی روشنی میں ایک ایسی زبردست جوابی علمی تحریک برپا
کی جائے جو توحید،معاد] اور رسالت کے بنیادی حقائق کی حقانیت کو بھی مبرہن کردے اور انسانی زندگی کے لئے دین کی
رہنمائی و ہدایت کو بھی مدلل و مفصل واضح کردے۔ ( یعنی کہ لوگوں کو دین کا پیش کردہ قابل عمل حل دیں۔ تب لوگ آپ
کیساتھ ملیں گے اور اپنا تن من دھن لگائیں گے۔ جبکہ ہمارے ہاں تنظیم میں کسی نے پوچھ بھی لیا کہ آپ کا نظام کیا ہوگا؟ تو
جوابا کہا جاتا تھا وہ تو جب انالب آجائے گا تب بیٹھ کر سوچیں گے ) ہمارے نزدیک اسالم کے حلقے میں نئی اقوام کا داخلہ
اور جسد دین میں نئے خون کی پیدائش ہی نہیں ،خود اسالم کے موجود الوقت حلقہ بگوشوں میں حرارت ایمانی کی تازگی اور
دین و شریعت کی عملی پابندی اسی کام کے ایک موثر حد تک تکمیل پذیر ہونے پر موقوف ہے۔ (اب دیکھ لیں یہ بات صرف
'اسالم کی نشاہ ثانیہ' والے مضمون میں ہی نہیں آئی بلکہ یہاں قرارداد تاسیس میں بھی آئی ہے۔ اسی بات سے انجمن خدام
القران اور تنظیم اسالمی کا ربط و تعلق بھی واضح ہوتا ہے) اس لیے کہ دور جدید کے گمراہ کن افکار و نظریات کے سیالب
میں خود مسلمانوں کے ذہین و پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی تعداد اس طرح بہہ نکلی ہے کہ ان کا ایمان بلکل بے جان
ہوکر رہ گیا ہے اور دین سے انکا تعلق محض برائے نام رہ گیا ہے اور اسی بنا پر دین میں نت نئے فتنے اٹھ رہے ہیں اور
ضاللت و گمراہی نت نئی صورتوں میں ظہور پذیر ہورہی ہے ۔ اس سلسلے میں انفرادی کوششیں اب بھی جیسی کچھ بھی
عمال ممکن ہیں جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ ضرورت اس کی داعی ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو وسائل فراہم
کیے جائیں اور ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں الیا جائے جو حکمت قرآنی اور علم دینی کی نشر و اشاعت کا کام بھی
کرے اور ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا بھی مناسب اور موثر بندوبست کیا جائے جو عربی زبان ،قرآن حکیم اور
شریعت اسالمی کا گہرا علم حاصل کرکے اسالمی اعتقادات کی حقانیت کو بھی ثابت کریں اور انسانی زندگی کے مختلف
شعبوں کیلئے جو ہدایت اسالم نے دی ہیں انہیں بھی ایسے انداز میں پیش کریں جو موجودہ اذہان کو اپیل کرسکے ۔(یہ کون
کرے گا؟ اب کہا جاتا ہے کہ یہ کام تنظیم ہی کرے گی۔ انجمن پنڈی اسالم آباد کے شوری کے لوگ اب کہہ رہے ہیں انجمن
عوام میں کام کرے گی اور تنظیم خواص میں کام کرے گی۔ ایسی انجموں سے پھر ایسی ہی کھیپ نکلے گی جیسی اب نکل
رہی ہیں )
اب اس پر موالنا امین احسن اصالحی کہتے ہیں:
یہ زمانہ عقلیت کا زمانہ ہے ۔ اس زمانے میں لوگ ہر چیز کی دلیل و حجت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ مجرد یہ بات لوگوں کو
اپیل نہیں کرتی کہ فالں بات دین کی بات ہے ( ابھی یہ جو ہمارا کراچی کا شعبہ تربیت رخصت ہوا ہے جن کو امیر تنظیم
اسالمی نے 8سال پلکوں پر بٹھا کر رکھا ہے ،انکا طرز عمل یہ تھا کہ ' تم ہوتے کون ہو دلیل مانگنے والے ' ۔ اب اس طرح
کوئی معقول آدمی تو آپ کی بات نہیں سنے گا۔ اس زمانے میں میرا ذہین اقلیت ہی کو قائل نہیں کرنا بلکہ' ذہین اکثریت ' کو
آپ نے قائل کرنا ہے۔ جو شخص اپنے زمانے کو نہ سمجھے وہ جاہل ہے۔ )۔ دین پر آج جو اعتراضات ہو رہے ہیں وہ گزشتہ
کل کے اعتراضات سے بلکل مختلف ہیں۔ یہ اعتراضات جدید مغربی فلسفہ و فکر کی پیداوار ہیں اور انکو زور و قوت کے
ساتھ پھیالنے والے خود ہمارے اندر پیدا ہوگئے ہیں ۔ جب تک ان اعتراضات و شبہات] کا موثر ازالہ نہ ہو اس وقت تک ممکن
نہیں ہے کہ آپ دین کی کوئی مفید خدمت انجام دے سکیں۔ افسوس ہے کہ اس خدمت کی صالحیت رکھنے والے ہمارے اندر
اگر مفقود نہیں تو اتنے کم ہیں کہ وہ دین کے محاذ کو کسی طرح بھی سنبھال نہیں سکتے۔ اس وجہ وقت کی ایک بہت بڑی
ضرورت یہ ہے کہ ایسے حامالن دین پیدا کرنے کی جدوجہد کی جائے جو جدید علوم و افکار سے بھی کماحقہ آگاہ ہوں اور
کتاب وسنت کے دالئل و براہین پر بھی وہ براہراست نظر رکھتے ہوں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمارا دین دنیا میں
بے دلیل نہیں آیا ہے ۔وہ بہتر سے بہتر فکری و عقلی دالئل سے مسلح ہوکر آیا ہے جو ہر دور کے فتنوں کا مقابلہ کرنے
کیلئے کافی ہیں ،بشرطیکہ انکو اجاگر کرنے والے اور انکو دنیا کے سامنے حاالت کے مطابق پیش کرنے والے موجود ہوں۔
( ہمارے دور میں اس کام کے حصول کیلئے ایک بہت بڑا واقعہ ہوا تھا 9/11 - - -۔ اس واقعے سے دنیا بھر میں بھونچال
آئی اور سوچنے سمجھنے] والے لوگوں میں ایک تجسس اور ارتعاش پیدا ہوا کہ اسالم کے ہمہ تصور کے بارے میں آگاہی
حاصل کریں۔ اس وقت اگر تنظیم اسالمی اپنے اصل موقف پر کھڑی رہتی تو ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہمیں میسر آتی
جو حقیقت کی جستجو میں تھے ۔ مگر ہوا یہ کہ تنظیم اسالمی روایتی حلقے کی بھی انتہا پر جا کھڑی ہوئی۔ جبکہ اس پچھلے
15 ،10سال کے عرصے میں آپ دیکھیں گے ہمارے ہاں کے روایتی حلقوں نے اپنے ماڈرن تعلیمی ادارے کھولے ہیں۔
یعنی آپ اندازہ کریں کہ جامعہ الرشید کا ادارہ ،حجم اور تعداد کے لحاظ سے انجمن خدام القرآن سے 10کم از کم گناہ زیادہ
کام کررہاہے۔ وہ جدید ذرائع ابالغ سے مسلح ہوکر دین کی دعوت پڑھے لکھے طبقے تک پہنچا رہاہے۔ لیکن انکا کام اگر
بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو نقصان ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے دعوت کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور نیا طرز کالم
expressionتو ضرور اپنایا ہے لیکن استدالل اور فکر وہی پرانا اور روایتی ہے۔ لہذا وہ انگریزی بول کر بھی دور جدید
کے فلسفوں اور نظریات کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کے شکار ذہن کو قائل نہیں کرسکتے۔
دور جدید کے ذہن کو قائل کرنے واال فکر اور استدالل تو احیائی تحریکوں کے پاس ہے یعنی جس فکر کی تنظیم
اسالمی وارث اور امین ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ 2002کے بعد عاکف سعید صاحب] کی امارت میں تنظیم اسالمی فکری
لحاظ سے روایت کے بھی پرلے طرف کھڑی ہوگئی - - -تقریبا ادھر ہی جہاں 1998میں طالبان افغانستان کھڑے تھے۔
چنانچہ ایسے جدید ذہن سے مرعوب لوگ جو اسالم کے حوالے سے جاننا چاہتے تھے ان کو روایتی استدالل [مثال جامعہ
الرشید] انکے ذہنوں کو مسخر نہیں کرسکتا تھا۔ نتیجتا ایسے بہت سے لوگ جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقہ بگوش
ہوگئے۔ تو درحقیقت غامدی صاحب کے حلقہ اثر میں اضافے کا سہرا حافظ عاکف سعید صاحب کی اس نااہلی کو جاتا ہے
جو کہ انہوں 9/11کے بعد پیدا ہونے والے موقع کو گنوا کر کی۔
یہ بہت بڑی محرومی ہے اویس پاشا کی ،رشید ارشد صاحب کی ،مومن محمود کی ،اور ان سب سے بڑھ کر عاکف
سعید صاحب کی کیونکہ یہ سب صالحیتوں کے مالک لوگ ہیں مگر توفیق تو بہرحال ہللا ہی دیتا ہے۔ وہ جسے چاہے اپنے
دین کے کام کی توفیق دے اور جسے چاہے محروم رکھے ) جہاں تک عامہ المسلمین کو دین کی دعوت دینے کا تعلق ہے اس
کے بارے میں مجھے] یہ کہنے کی اجازت دیجیئے کہ اس زمانے میں مجرد تذکیر کافی نہیں ہے بلکہ وسیع پیمانے پر تعلیم و
تفہیم کی ضرورت ہے ۔ یہ صورت نہیں ہے کہ لوگ دین کی باتیں بھولے ہوئے ہیں ۔ اگر انہیں یاد دال دی جائیں تو وہ انکو
اختیار کرلیں گے بلکہ اشاعت باطل کے وسیع ذرائع نے اس زمانے میں عام اذہان کے اندر بھی دین اور دینی احکام سے
متعلق بےشمار غلط فہمیاں بھر دی ہیں جن کو دور کرنے کا سامان کرنا ان لوگوں پر عاجب ہے جو آج ملک عوام کی اس
پہلو سے کوئی خدمت کرنا چاہتے ہوں۔ آج اخبارات گھر گھر پہنچ رہے ہیں۔ ریڈیو کھیتوں اور کھلیانوں تک موجود ہے ۔ اس
وجہ سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ زندگی کے جدید شیطانی نظریات سے ہمارے عوام بےخبر ہیں یا وہ ان سے التعلق ہیں۔
ان سے تاثر کے معاملے میں شہری اور دیہاتی آبادی میں کچھ فرق ہونا تو ایک قدرتی امر ہے لیکن دیہاتی آبادی کو ان فتنوں
سے الگ تھلگ خیال کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کے اندر کام کرنے کے وہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے جو
موجودہ حاالت میں ان کیلیے موثر اور مفید ہوں۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انجمن خدام القران کی حیثیت تنظیم اسالمی کے 'درخت' کیلئے جڑ اور اساس کی ہے۔
یعنی تنظیم کے پودے کو غذا انجمن سے ملے گی۔ اب اس مثال کو حقیقت کے روپ میں سمجھیں۔ تنظیم عوام میں پھیلی
ہوگی ،انجمن کے ادارے ہوں گے جہاں تعلیم و تعلم کا بندوبست ہوگا۔ تنظیم اپنے رفقاء اور حلقۂ اثر میں سے لوگ انجمن کے
حوالے کرے گی تاکہ انکی تعلیم و تربیت کی جائے۔ انجمن ان لوگوں کو علمی طور پر مسلح کرے گی تاکہ وہ دین کی دعوت
جدید علمی سطح پر دیں۔ یہ لوگ باہر آکر تنظیم اسالمی کے پلیٹ فارم سے عوام میں دعوت دین کا کام کریں گے۔ اور انجمن
خدام القران اور تنظیم اسالمی کے ربط کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
اس اعتبار سے آپ سوچیں کہ کیا انجمن اور تنظیم کے درمیان کوئی بعد یا ڈیڈالک ہونا چاہیے؟ جبکہ آج یہ ہوگیا ہے ۔
ابھی حال ہی میں تنظیم کی شوری میں اس پر گفتگو ہوئی ہے کہ تنظیم کو انجمن سے ناطقہ توڑ لینا چاہیے۔ کہا گیا کہ ڈاکٹر
صاحب انجمن کے کام کے قائل ہی نہیں تھے۔ آج کی جو انجمن خدام القران ہے اسکا سب سے بڑا ادارہ کلیتہ القران ہے اور
کلیتہ القران بلکل درس نظامی کی طرز کا ایک ادارہ ہے جہاں دین کی صرف روایتی تعلیم ہورہی ہے۔ یہ ادارہ وفاق المدارس
کیساتھ الحاق شدہ ہے۔ بلکہ حالت یہاں تک ہے کلیتہ القران میں موالنا الطاف الرحمن بنوی صاحب استاد تھے جو کہ عاکف
سعید صاحب کے بھی استاد ہیں ،وہ موالنا مودودی کے چاہنے والے اور مداح ہیں۔ اس بنیاد پر وفاق المدارس نے کلیتہ القران
کا 2015کا امتحانات کا نتیجہ روک کہ وہاں پر موالنا مودودی کی فکر کو رواج دیا جارہا ہے ۔ جوابا عاطف وحید صاحب،
ناظم کلیتہ القران نے موالنا الطاف الرحمن بنوی صاحب کو تنگ کرکے کلیتہ القران سے نکلوا دیا اور ساتھ ہی وفاق المدارس
کے ہیڈکوارٹر ملتان کو خط لکھا کہ 'ہمارا موالنا مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا
آپ ہمارا رزلٹ بحال کردیں ' ۔
جب انجمن یہ سب کرے گی تو رفقائے تنظیم کی طرف سے ردعمل تو آئے گا۔ اور ردعمل کے طور پر مقامی تناظیم نے
درس و تدریس کے اپنے ادارے کھولنا شروع کردیے۔ آخر تنظیم نے اپنے بندے تو بچانے ہیں۔ دراصل توڑ پھوڑ کا عمل
وہاں سے شروع ہوجاتا ہے جہاں سے آپ انحراف کرتے ہیں ۔ بقول شاعر:
جہاں ہستی ہوئی محدود الکھوں پیچ پڑتے ہیں
عقیدہ،عقل ،فطرت سب آپس میں لڑتے ہیں ۔
اس چیز کو میں نے 2011میں لکھا تھا کہ انجمن خدام القران 'مرکز ضرار' کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
ایک طرف انجمن اپنا کام ہی نہ کرے ادھر تنظیم انقالب کے بجائے روایتی قرآنی تبلیغی جماعت کی حیثیت اختیار
کرجائے۔ الغرض نہ انجمن اپنا کام کرے نہ ہی تنظیم اپنا کام کرے تو پھر ان میں جوڑ اور اتفاق کیسے ہوگا؟
اب آئیں قرارداد تاسیس کی تاریخ کی طرف جو کہ بڑی اہم ہے۔ 1967میں یہ قرارداد منظور ہوئی۔ اس 1967والی
قرارداد کے بارے میں ڈاکٹر صاحب اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
1966کی قرارداد کے بارے میں راقم الحروف کو اس وقت بھی یہ احساس تھا کہ اس میں اقامت] دین کی فرضیت کا
تصور کچھ دب گیا ہے اور اس کی اہمیت کماحقہ واضح نہیں ہورہی ۔ ( اگرچہ 1967کی قرارداد تاسیس میں اقامت دین کی
جدوجہد کا ذکر تھا مگر آپ کو معلوم ہے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جس طرح اس کی فرضیت کو بتکرار جتاتے تھے۔ یہاں
ایک اور بات سمجھ] لیں کہ جب آپ عوام الناس کو اقامت دین کی جدوجہد کی دعوت دیں گے تو آپ کا انداز بیان تدریسی و
علمی academicنہیں ہوگا بلکہ یہ ضروری ہے کہ ان کو اقامت] دین کی فرضیت پرزور انداز میں بتائی جائے۔ اس سے
ممکن ہے کہ کسی عالم دین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو۔ ایسے علماء کے شبہات] دور ضروری ہے۔ کیونکہ علماء یہ بات
سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کے طریقے ،تدریس سے مختلف ہوتے ہیں۔) اور اگرچہ دین کی اقامت] کی اصطالح اس میں موجود ہے
تاہم بحیثیت مجموعی اس سے اصال ایک تبلیغی اور اصالحی تحریک کا نقشہ سامنے] آتا ہے۔ ( اب یہاں اس بات کو سمجھیں
جو عاکف سعید صاحب کہتے ہیں کہ 'میں تو شروع دن سے ہی تنظیم اسالمی کو قرارداد تاسیس کی بنیاد پر لے کر چل رہا
ہوں'۔ بالفاظ دیگر تنظیم کو ایک قرآنی تبلیغی جماعت بنانے کے راستے پر عمل پیرا ہوں۔ یہی بات اویس پاشا صاحب کہتے
ہیں کہ ہمیں یہ کام امیر تنظیم اسالمی نے سونپا تھا کہ تنظیم کو ایک قرآنی تبلیغی جماعت بنانا ہے۔) اس کی صحت و حقانیت
پر میرا دل 1975میں بھی اتنا ہی مطمئن تھا جتنا 1967میں تھا اور الحمدہللا کہ ان سطور کی تحریر کے وقت بھی
(جنوری ) 1991راقم کو یقین کامل حاصل ہے کہ فرائض دینی کی پہلی دو منازل یعنی بندگی رب اور شہادت علی الناس کے
اصول و مبادی کے ضمن میں اس قرارداد اور اسکی توضیحات کو ایک اہم اور جامع دستاویز کی حیثیت حاصل ہے (چنانچہ
اس کتاب کا حصہ اول اسی قرارداد اور اسکے متعلقات پر مشتمل ہے۔) ( نوٹ کریں یہاں فرائض دینی کی پہلی دو منازل کا
ذکر ہے ،تیسری منزل کا ذکر نہیں ہے۔ ایک اور بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ 1975میں اس قرارداد کی دوبارہ
منظوری ہوئی۔ مگر اسکے بعد 1977میں اس میں ترمیم ہوئی۔ ) یہ اجتماع (اگست )1977جو کچھ دو اجتماعات] کے قائم
مقام ہونے کے ناطے اور کچھ اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو اور بحث و تمحیص کی ضرورت کے پیش نظر پورے ایک
ہفتے کیلئے طلب کیا گیا تھا 5تا 11اگست 1977قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن الہور میں جاری رہا اور اس میں راقم نے حسب
ذیل 3تنقیحات کے ذیل میں نہ صرف یہ کہ اپنے دینی فکر کو پوری وضاحت اور شرح و بسط کیساتھ بیان کیا بلکہ جملہ
شرکاء کو بھی اظہار خیال اور اختالف رائے کا پورا موقع فراہم کیا۔ اقامت دین ،شہادت] علی الناس اور غلبہ و اظہار دین کی
جدوجہد نفلی عبادت یا نیکی نہیں بلکہ ازروئے قرآن و حدیث بنیادی دینی فرائض میں شامل ہے۔ اس دینی فریضے کی ادائیگی
کیلئے التزام جماعت واجب ہے۔ ایسی دینی جماعت کی ہیئت تنظیمی مغرب سے درآمد شدہ دستوری ،قانونی اور جمہوری
طرز کی نہیں بلکہ قرآن و سنت اور اسالف کی روایات سے مطابقت رکھنے والے بیعت کے اصول پر مبنی ہونی چاہئیے ۔
الحمدہللا ان تنقیحات ثالثہ پر پورے 6دن سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں شرکاء اجتماع کی غالب اکثریت نے
راقم کے خیاالت و نظریات سے کامل اتفاق کیا اور باآلخر ناظم عمومی جناب شیخ جمیل الرحمن صاحب کی تحریک پر حسب
ذیل قرارداد منظور ہوئی۔
تنظیم اسالمی کا یہ اجتماع عام حسب دفعہ 3دستور تنظیم اسالمی طے کرتا ہے کہ آئندہ تنظیم اسالمی کا نظام مغرب
سے درآمد شدہ دستوری ،قانونی اور جمہوری اصولوں کے بجائے قرآن وسنت سے ماخوذ اور اسالف کی روایات کے مطابق
بیعت کے اصول پر مبنی ہوگا ۔ چنانچہ تنظیم اسالمی کے داعی عمومی جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب آج کے بعد سے امیر
تنظیم اسالمی ہوں گے اور تنظیم میں داخلہ ان کے ساتھ اطاعت فی المعروف کی بیعت کا شخصی رابطہ استوار کرنے سے
ہوگا اور وہ بحیثیت امیر تنظیم اسالمی اپنے فرائض 'امرھم شوری بینھم' اور 'وشاورھم فی االمر۔ فاذا عزمت فتوکل علی ہللا '
کی قرآنی ہدایت کے مطابق ادا خریں گے۔ دوم اس فیصلے سے الزم آتا ہے کہ تنظیم اسالمی میں جو حضرات اب تک شریک
رہے ہیں انکی رفاقت آج سے ختم شمار ہوگی۔تاآنکہ اس قرارداد کے جزو اول کیمطابق بیعت کے نظم میں شامل ہو جائیں۔
تنظیم اسالمی کا موجودہ دستور بھی کالعدم متصور ہوگا اور امیر تنظیم اسالمی ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو اختیار ہوگا کہ
وہ جن رفقاء سے مناسب] سمجھیں مشورہ کرکے آئندہ کا دستور العمل طے کرلیں۔ 10اگست 1977کو اس قرارداد کی
منظوری اور اس پر جملہ شرکاء اجتماع کے دستخط ثبت ہونے پر گویا تنظیم اسالمی کا عبوری دور ختم اور نیا اور مستقل
دور شروع ہوگیا جو بحمدہللا تاحال جاری ہے ۔
اب یہاں بیعت کے نظام کے حوالے سے ایک وضاحت کی گئی ہے ۔
بیرونی تمسخر اور مخالفت کو برداشت کرنے سے زیادہ کٹھن مرحلہ ان غلط تصورات کے خاتمے کا تھا جو بیعت کے
لفظ کے ساتھ المحالہ وابستہ ہوگئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مکروہ تصور یہ ہے کہ بیعت کے نظام میں نہ
باہمی مشاورت کی کوئی گنجائش ہے نہ اختالف رائے اور اظہار خیال کا کوئی موقع¡¡ چنانچہ ہمیں اس غلط تصور کی نفی
اور اس حقیقت کے اثبات میں بہت محنت کرنی پڑی اوربہت سا وقت صرف کرنا پڑا کہ نظام بیعت میں اختالف رائے کی
گنجائش ،اظہار خیال کے مواقع اور باہمی مشاورت کا میدان نام نہاد جمہوری نظام سے بھی وسیع تر موجود ہے۔
اب میں آتا ہوں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب ' قافلہ تنظیم منزل بہ منزل ' کیطرف ۔ 1983میں بعض اور فیصلے
ہوئے اور ان میں یہ بات زیر بحث آئی کہ فرد کا نصب العین ' ---رضائے الہی کے حصول ' اور تنظیم کا نصب العین ' ---
اقامت دین ' ۔ ان دو نصب العینوں کے مابین ٹکراو ہے۔ تو اس قضیے کو حل کیسے کریں؟
1988میں یہ بحث دوبارہ ہوئی ۔ اس وقت کے ناظم اعلی میاں نعیم صاحب کا خیال تھا کہ تزکیے کا وہ طریقہ جو اہل
تصوف کے ہاں پایا جاتا ہے ،ہمیں بھی تنظیم اسالمی میں اس طریقےکو اختیار کرنا چاہیے۔
تنظیم اسالمی میں بیعت کی اساس اگرچے دس سال قبل اختیار کرلی گئی تھی لیکن فی زمانہ کسی ہیئت اجتماعیہ کیلئے
اس مسنون اساس کے متروک العمل ہونے کے باعث تنظیم اسالمی کو بھی اسکے عملی تقاضوں سے کامل ہم آہنگی کے
ضمن میں تدریجی مراحل سے گزرنا پڑا ہے ۔اس ضمن میں اگرچہ متعدد فیصلے مختلف اوقات میں کئے جاتے رہے ہیں
لیکن انکو باضابطہ ضبط تحریر میں نہیں الیا گیا۔ اسی طرح اگرچہ تنظیم کی قرارداد تاسیس اور اس کی توضیحات میں بعض
تاریخی اسباب کی بنا پر فریضہ اقامت دین کی اہمیت اور اس کیلئے جہاد فی سبیل ہللا کے لزوم کے قدر خفی اور غیرنمایاں
ہونے کے پیش نظر تنظیم کے آٹھویں ساالنہ اجتماع میں یہ اعالن کردیا گیا تھا کہ آئندہ تنظیم اسالمی محض دعوتی و
اصالحی نہیں بلکہ انقالبی تنظیم ہوگی۔( یہ اسباب تفصیل سے ' تعارف تنظیم اسالمی ' والے کتابچے میں موجود ہے۔ میں نے
بوجہ اختصار اسکو بیان نہیں کیا۔ مختصرا یہ کہ یہ جماعت اسالمی کا ردعمل تھا یعنی 'دودھ کا جال چاجھ بھی پھونک کر
پیتا ہے' ) تاہم ابھی تک یہ بات بھی تحریری طور پر سامنے] نہیں آئی۔ لہذا ضروری ہے کہ ان دونوں امور کو مجوزہ نظام
العمل میں درج کردیا جائے۔ اس ضمن میں میاں نعیم صاحب نے اس رائے کا اظہار کیا کہ تنظیم اسالمی کے نصب العین کے
طور پر رضائے الہی اور نجات اخروی کا ذکر ضروری ہے بصورت دیگر اندیشہ ہے ہم ایک انتہا سے دوسری انتہا کیطرف
نہ چلے جائیں اور رفقائے تنظیم کی نگاہوں سے اصل نصب العین اوجھل ہوجائے اور وہ محض سیاسی یا انقالبی کارکن بن
کر رہ جائیں۔ (یہ وہ بات ہے جس پر 16سال عاکف سعید صاحب نے مسلسل زور دیا ہے۔) اس پر بحث ہوئی ۔ اور بحث و
تمحیص کے بعد طے پایا کہ جیسا کہ پانچ سال قبل طے کیا گیا تھا ( 1983میں) تنظیم اسالمی کی قرارداد تاسیس مع
توضیحات اور شرائط شمولیت پر مشتمل مفصل تحریر کو آئندہ تنظیم کی آئینی و دستوری اساس نہیں بلکہ اس کے دعوتی اور
تربیتی لٹریچر کا اہم اور اساسی حصہ سمجھا جائے گا ۔ ( آج عاکف صاحب کہتے ہیں کہ تنظیم کی اساس قرارداد تاسیس ہے
تو یہ کس کے مشورے سے طے پایا؟ کس فورم پر اس کا فیصلہ ہوا کہ قرارداد تاسیس کی حیثیت آئینی اور دستوری ہے؟ لہذا
اگر 1988کے ساالنہ اجتماع والے فیصلے سے اگر ہٹ کر کچھ کیاگیا ہے تو یہی تو وہ انحراف ہے جس کا میں کہہ رہا
ہوں )