You are on page 1of 2

‫امریکی انتخابات ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بائیاں بازو‬

‫خرم علی‬
‫لیجئیے صاحب ہٹلر دوم جناب ٹرمپ صاحب شکست سے دوچار ہوئے اور بائیڈن کیمپ کے ساتھ ساتھ برنی سینڈرز کا کیمپ بھی‬
‫خوشی سے جھوم اٹھا۔ سب کی طرح ہم بھی ٹرمپ کی رات کو فتح کی تقریر اور صبح سویرے سے میل ان ووٹس کو جعلی قرار‬
‫دینے اور گنتی روکنے کی ٹویٹس سے بہت محظوظ ہوئے کہ نجم سیٹھی کے ‪ 35‬پنکچر امریکہ تک بھی پہنچ گئے۔ امریکہ کی‬
‫کمیونسٹ پارٹی اپنی ویب سائیٹ پر لکھتی ہے کہ ٹرمپ کو ہرانے میں ان کا بھی اہم کردار ہے تو اشتراکی ہونے کے ناطے ان‬
‫کی اس بات کو بھی مان لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان انتخابات میں لڑائی کن طاقتوں کے درمیان تھی اور اس کا فائدہ کس کو‬
‫ہوگا۔‬
‫بائیں بازو کے آدھے حلقوں کے مطابق ٹرمپ کی شکست سے نہ صرف مظلوم شناختوں بلکہ محنت کش طبقے کو بھی کسی حد‬
‫تک فائدہ پہنچے گا جبکہ بائیں بازو کے دیگر حلقوں کا ماننا یہ ہے کہ یہ تبدیلی نئی بوتل پرانی شراب کی مانند ہے جس سے ذرہ‬
‫برابر فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے افراد اس بات پر بھی حیران نظر آتے ہیں کہ امریکہ کی عوام کیسی‬
‫ہے جس نے ٹرمپ کو اتنے ووٹ دے دئیے کہ دنیا بمشکل اس شخصیت سے بچنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ وہ سوال ہے جو‬
‫کارپوریٹ میڈیا پر بھی سوال اٹھاتا ہے جن کے پولز کے مطابق ٹرمپ تو انتخابات شروع ہونے سے قبل ہی ہار چکا تھا اور‬
‫ایسے میں ٹرمپ کا یہ شکوہ غلط نہیں لگتا کہ میڈیا نے منفی رپورٹنگ اور جانب دارانہ پولز کے ذریعے ووٹرز کو اثر انداز کیا‬
‫ہے۔‬
‫اس تحریر میں کچھ حقائق بھی پیش کرتا چلوں اور وہ یہ کہ مجموعی طور پر ٹرمپ سفید فام محنت کش طبقے اور دیہی آبادی‬
‫کے اپنے روایتی ووٹوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب‪ K‬رہا جبکہ فلورڈا اور ٹیکسس کی ریاست میں الطینی امریکہ سے تعلق‬
‫رکھنے والے مہاجرین نے ٹرمپ کی فتح میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جو دونوں باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ووٹرز نے‬
‫ٹرمپ کے تجارتی تحفظ کی پالیسیوں پر ووٹ دئیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ مہاجرین اور سیاہ فام آبادی جو پیدا‬
‫ہی امریکہ میں ہوئی اس نے تو بائیڈن کو ووٹ دیا لیکن جو پیدا کسی اور ملک میں ہوئے اور بعد میں امریکہ کی شہریت حاصل‬
‫کی انہوں نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے مگر اسے حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ نوجوانوں خواتین اور مظلوم شناختوں نے زیادہ تر‬
‫بائیڈن کو ووٹ ڈالے جس کی امید بھی کی جا رہی تھی۔‬
‫ان انتخابات میں ان ووٹرز کی اہمیت ضرور تھی مگر مفادات کی جنگ کسی اور طبقے میں چل رہی تھی۔ اگر ہم تجزئیے میں‬
‫سے اس جنگ کو نکال دیں گے تو کبھی بھی درست تصویر ہمارے سامنے نہ آ سکے گی۔ میرا ماننا ہے کہ اس بات کو یہ کہہ کر‬
‫ختم نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں ہی سرمایہ داری کے نمائندے تھے تو کسی کے جیتنے سے کوئی فرق‬
‫نہیں پڑتا۔ ٹرمپ اور بائیڈن ضرور سرمایہ داری کے نمائندے ہوں گے لیکن ان دونوں سیاسی طاقتوں کے درمیان تضاد کی شدت‬
‫کئی سواالت کو جنم دیتی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ تضاد سرمایہ داری کے کن گروہوں کے درمیان ہے دوسرا یہ کہ کیا وجہ ہے کہ‬
‫ان کے مابین جنگ اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ امریکہ مکمل طور پر دو کیمپس میں تقسیم نظر آتا ہے اور تیسرا یہ کہ‬
‫محققین کو کیوں لگتا ہے کہ اس تضاد کی وجہ سے یہ عالمی طاقت‪ K‬آئینی بحران کا شکار ہو گئی ہے۔‬
‫اس سارے معاملے کو سمجھنے‪ K‬کے لئے تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل‬
‫ہی امریکہ کی روایتی بزنس البیز کمزور پڑنا شروع ہو گئیں تھیں اور ٹرمپ کے آنے سے انہیں مزید نقصان ہوا۔ جب ٹرمپ نے‬
‫امیگریشن اور ٹیرف پالیسیوں کو سخت کیا اور گورنمنٹ شٹڈأونز کئے تو ان گروہوں کو اس قدر نقصان پہنچا کہ چیمبر آف‬
‫کامرس اور بزنس رأونڈ ٹیبل نے ان اقدامات‪ K‬کی سختی سے مذمت کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹرمپ سرمایہ دارانہ مفادات‬
‫کے لئے کام نہیں کر رہا تھا بلکہ سرمایہ داروں کا جو گروہ ٹرمپ سے منسلک ہے وہ امریکہ کی روایتی سرمایہ دارانہ البیوں‬
‫سے مختلف ہے۔‬
‫ٹرمپ کے دوستوں کی فہرست‪ K‬میں جو سرمایہ دار شمار ہوتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا اندراج پبلک لسٹد کمپنیز میں نہیں ہوتا‬
‫اور ان کا کاروبار امریکہ کی اپنی مارکیٹ سے وابسطہ ہے۔ ان میں پراپرٹی ڈویلپرز‪ ،‬پرائیویٹ ایکویٹیز سے منافع کمانے والی‬
‫کمپنیاں‪ ،‬کسینو مالکان اور خاندانی کاروبار کرنے والے افراد کا شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ان کو ٹیرف سے فرق پڑتا‬
‫ہے اور نہ ہی تعلقات عامہ سے۔ اس ہی لئے جب ٹرمپ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی اور دیگر شناختوں کے حقوق صلب کرتا ہے‬
‫تو ملٹی نیشنل کمپنیاں تو اس کے خالف بات کرنے پر مجبور ہیں جن کے مفادات پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں لیکن اس کی‬
‫حمایت کرنے والے قومی سرمایہ دار ڈائیورسٹی اور انکلوسوٹی پر کوئی زور نہیں دیتے۔‬
‫سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق ‪ 2019‬میں ایسی کمپنیاں جن کی منڈیاں امریکہ سے باہر تھیں ان کا منافع ‪ 2.4‬فیصد کم‬
‫ہوا ہے جبکہ ایسی کمپنیاں جن کی منڈیاں امریکہ کے اندر تھیں ان کے منافع میں ‪ 6.4‬فیصد اضافہ دیکھنے کو مال ہے۔ انٹیل اور‬
‫سونی سمیت قریب تمام بڑی کمپنیوں نے ٹیرف کے خالف شکایتیں درج کرائیں ہیں لیکن مستقل منافع پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس‬
‫جا رہا ہے اور پبلک لسٹڈ کمپنیوں کی تعداد تقریبا ً آدھی ہو گئی ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو مضحکہ خیز معلوم ہو گی لیکن‬
‫جس امریکہ نے ایک زمانے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پروان چڑھایا اس ہی امریکہ میں ٹرمپ کے دور میں ان ملٹی نیشنل‬
‫کمپنیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اور اگر کسی کو کوئی شک ہو تو صرف ایپّل کمپنی کے کسی ایکزیکٹو سے رابطہ‬
‫کر کے پوچھ لے۔‬
‫امریکہ کی قوم پرست سرمایہ داری اور ملٹی نیشنلز کی یہ لڑائی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان تجارتی تحفظ کی پالیسیوں نے نہ‬
‫صرف عالمی تجارت کو مدھم کیا بلکہ عالمی معاشی گورننس کے ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔ سینٹر آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل‬
‫اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت نے ڈبلیو ٹی او اور جی ‪ 20‬جیسے اداروں کو امریکہ کے لئے نقصان دہ قرار‬
‫دیتے ہوئے ہر ملک سے علیحدہ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی پر زور دیا۔ جب ٹرمپ نے عالمی اداروں کے قیام کی‬
‫افادیت سے ہی انکار کر دیا تو عالمی معاشی پالیسی کا قیام تو ممکن ہی نہیں رہتا۔ بائیاں بازو چاہے کچھ بھی سمجھتا‪ K‬رہے لیکن‬
‫گلوبل کالئیمیٹ چینج کے حوالے سے ہونے والے پیرس معاہدے پر اتنا واویال ماحول کی حفاظت کی وجہ سے نہیں بلکہ‬
‫گلوبالئزیشن کے متوالوں کی ہار کی وجہ سے ہوا۔ اس ہی طرح بائیڈن کا اتنخابات سے قبل ہی پیرس معاہدے میں شامل ہونے کا‬
‫اعالن اس وجہ سے نہ ہوا کہ اسے ماحولیات کی بہت فکر ہے بلکہ اسے ڈیموکریٹس کی امریکہ کو واپس گلوبالئزیشن کے‬
‫راستے پر گامزن کرنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے۔‬
‫بائیڈن کی فتح پر یہ لڑائی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ امریکہ اس وقت مکمل طور پر دو کیمپس میں تقسیم ہو گیا ہے جہاں‬
‫ایک کیمپ وہاں کی منڈی سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا دکھائی دیتا ہے اور سرمائے کی‬
‫امریکہ سے باہر حرکت سے خوف زدہ ہے تو دوسری جانب ڈیموکریٹس ہیں جو بظاہر اقلیتوں اور مظلوم شناختوں کے خیرخواہ‬
‫بنے ہوئے ہیں لیکن ان کا مقصد ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دفاع کرنا ہے جن کے سرمایہ دارانہ مفادات اب پوری دنیا سے منسلک‬
‫ہیں اور جن کے لئے کالے گورے عورت مرد کی تفریق کے بنا سستی سے سستی محنت کرنے کی صالحیت کی خرید اہم ہے۔‬
‫یوں سمجھئے کہ نیو کنزرویٹوز اور عالمگیریت کے حامی نیولبرلز کے درمیان آخری معرکہ چل رہا ہے اور فی الحال ایک نے‬
‫صدر کی کرسی حاصل کر لی ہے تو دوسرے کی سینیٹ میں اکثریت قائم ہے۔ اس سب کے باوجود امریکہ میں مہاجرین کی‬
‫بڑھتی ہوئی تعداد اور نوجوان ووٹرز کا ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب رجحان اشارہ کرتا ہے کہ باآلخر گلوبالئزیشن کے چیمپئن‬
‫میدان لے جائیں گے۔‬
‫حیرت صرف اس بات کی ہے کہ اس ساری جنگ کے دوران وہ بائیاں بازو جو ایک زمانے میں گلوبالئزیشن اور ملٹی نیشنل‬
‫کمپنیوں کے خالف کھڑا دکھائی دیتا تھا آج عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس جیت پر جشن مناتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس‬
‫کی وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے نیو کنزرویٹوز نے نسل پرستی اور شاونزم کی ایسی فضا بنا دی‬
‫تھی کہ بائیں بازو نے ان سے چھٹکارے کو اپنی جیت تصور کرنا شروع کر دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان انتخابات سے عالمگیریت‬
‫نے اپنی فتح کے چھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور سرمایہ داری کی اس نئی منزل کو ہم تب ہی شکست دے سکتے ہیں جب ہم ٹرمپ کو‬
‫ووٹ دینے والے سفید فام محنت کشوں کو وہاں سے نکال کر مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوں۔ آج‬
‫یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر سرمایہ عالمی ہو گیا ہے تو پرولتاریہ بھی عالمی سطح پر جڑے بغیر اس کا مقابلہ نہیں‬
‫کر سکتا۔‬

You might also like