Professional Documents
Culture Documents
امریکی انتخابات ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بائیاں بازو 061120
امریکی انتخابات ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بائیاں بازو 061120
خرم علی
لیجئیے صاحب ہٹلر دوم جناب ٹرمپ صاحب شکست سے دوچار ہوئے اور بائیڈن کیمپ کے ساتھ ساتھ برنی سینڈرز کا کیمپ بھی
خوشی سے جھوم اٹھا۔ سب کی طرح ہم بھی ٹرمپ کی رات کو فتح کی تقریر اور صبح سویرے سے میل ان ووٹس کو جعلی قرار
دینے اور گنتی روکنے کی ٹویٹس سے بہت محظوظ ہوئے کہ نجم سیٹھی کے 35پنکچر امریکہ تک بھی پہنچ گئے۔ امریکہ کی
کمیونسٹ پارٹی اپنی ویب سائیٹ پر لکھتی ہے کہ ٹرمپ کو ہرانے میں ان کا بھی اہم کردار ہے تو اشتراکی ہونے کے ناطے ان
کی اس بات کو بھی مان لیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان انتخابات میں لڑائی کن طاقتوں کے درمیان تھی اور اس کا فائدہ کس کو
ہوگا۔
بائیں بازو کے آدھے حلقوں کے مطابق ٹرمپ کی شکست سے نہ صرف مظلوم شناختوں بلکہ محنت کش طبقے کو بھی کسی حد
تک فائدہ پہنچے گا جبکہ بائیں بازو کے دیگر حلقوں کا ماننا یہ ہے کہ یہ تبدیلی نئی بوتل پرانی شراب کی مانند ہے جس سے ذرہ
برابر فرق نہیں پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے افراد اس بات پر بھی حیران نظر آتے ہیں کہ امریکہ کی عوام کیسی
ہے جس نے ٹرمپ کو اتنے ووٹ دے دئیے کہ دنیا بمشکل اس شخصیت سے بچنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ وہ سوال ہے جو
کارپوریٹ میڈیا پر بھی سوال اٹھاتا ہے جن کے پولز کے مطابق ٹرمپ تو انتخابات شروع ہونے سے قبل ہی ہار چکا تھا اور
ایسے میں ٹرمپ کا یہ شکوہ غلط نہیں لگتا کہ میڈیا نے منفی رپورٹنگ اور جانب دارانہ پولز کے ذریعے ووٹرز کو اثر انداز کیا
ہے۔
اس تحریر میں کچھ حقائق بھی پیش کرتا چلوں اور وہ یہ کہ مجموعی طور پر ٹرمپ سفید فام محنت کش طبقے اور دیہی آبادی
کے اپنے روایتی ووٹوں کو برقرار رکھنے میں کامیاب Kرہا جبکہ فلورڈا اور ٹیکسس کی ریاست میں الطینی امریکہ سے تعلق
رکھنے والے مہاجرین نے ٹرمپ کی فتح میں انتہائی اہم کردار ادا کیا جو دونوں باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ووٹرز نے
ٹرمپ کے تجارتی تحفظ کی پالیسیوں پر ووٹ دئیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ مہاجرین اور سیاہ فام آبادی جو پیدا
ہی امریکہ میں ہوئی اس نے تو بائیڈن کو ووٹ دیا لیکن جو پیدا کسی اور ملک میں ہوئے اور بعد میں امریکہ کی شہریت حاصل
کی انہوں نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے مگر اسے حتمی نہیں کہا جا سکتا۔ نوجوانوں خواتین اور مظلوم شناختوں نے زیادہ تر
بائیڈن کو ووٹ ڈالے جس کی امید بھی کی جا رہی تھی۔
ان انتخابات میں ان ووٹرز کی اہمیت ضرور تھی مگر مفادات کی جنگ کسی اور طبقے میں چل رہی تھی۔ اگر ہم تجزئیے میں
سے اس جنگ کو نکال دیں گے تو کبھی بھی درست تصویر ہمارے سامنے نہ آ سکے گی۔ میرا ماننا ہے کہ اس بات کو یہ کہہ کر
ختم نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ ٹرمپ اور بائیڈن دونوں ہی سرمایہ داری کے نمائندے تھے تو کسی کے جیتنے سے کوئی فرق
نہیں پڑتا۔ ٹرمپ اور بائیڈن ضرور سرمایہ داری کے نمائندے ہوں گے لیکن ان دونوں سیاسی طاقتوں کے درمیان تضاد کی شدت
کئی سواالت کو جنم دیتی ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ تضاد سرمایہ داری کے کن گروہوں کے درمیان ہے دوسرا یہ کہ کیا وجہ ہے کہ
ان کے مابین جنگ اتنی شدت اختیار کر گئی ہے کہ امریکہ مکمل طور پر دو کیمپس میں تقسیم نظر آتا ہے اور تیسرا یہ کہ
محققین کو کیوں لگتا ہے کہ اس تضاد کی وجہ سے یہ عالمی طاقت Kآئینی بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
اس سارے معاملے کو سمجھنے Kکے لئے تھوڑا پیچھے جانا پڑے گا۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے قبل
ہی امریکہ کی روایتی بزنس البیز کمزور پڑنا شروع ہو گئیں تھیں اور ٹرمپ کے آنے سے انہیں مزید نقصان ہوا۔ جب ٹرمپ نے
امیگریشن اور ٹیرف پالیسیوں کو سخت کیا اور گورنمنٹ شٹڈأونز کئے تو ان گروہوں کو اس قدر نقصان پہنچا کہ چیمبر آف
کامرس اور بزنس رأونڈ ٹیبل نے ان اقدامات Kکی سختی سے مذمت کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ٹرمپ سرمایہ دارانہ مفادات
کے لئے کام نہیں کر رہا تھا بلکہ سرمایہ داروں کا جو گروہ ٹرمپ سے منسلک ہے وہ امریکہ کی روایتی سرمایہ دارانہ البیوں
سے مختلف ہے۔
ٹرمپ کے دوستوں کی فہرست Kمیں جو سرمایہ دار شمار ہوتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا اندراج پبلک لسٹد کمپنیز میں نہیں ہوتا
اور ان کا کاروبار امریکہ کی اپنی مارکیٹ سے وابسطہ ہے۔ ان میں پراپرٹی ڈویلپرز ،پرائیویٹ ایکویٹیز سے منافع کمانے والی
کمپنیاں ،کسینو مالکان اور خاندانی کاروبار کرنے والے افراد کا شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ان کو ٹیرف سے فرق پڑتا
ہے اور نہ ہی تعلقات عامہ سے۔ اس ہی لئے جب ٹرمپ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی اور دیگر شناختوں کے حقوق صلب کرتا ہے
تو ملٹی نیشنل کمپنیاں تو اس کے خالف بات کرنے پر مجبور ہیں جن کے مفادات پوری دنیا سے جڑے ہوئے ہیں لیکن اس کی
حمایت کرنے والے قومی سرمایہ دار ڈائیورسٹی اور انکلوسوٹی پر کوئی زور نہیں دیتے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق 2019میں ایسی کمپنیاں جن کی منڈیاں امریکہ سے باہر تھیں ان کا منافع 2.4فیصد کم
ہوا ہے جبکہ ایسی کمپنیاں جن کی منڈیاں امریکہ کے اندر تھیں ان کے منافع میں 6.4فیصد اضافہ دیکھنے کو مال ہے۔ انٹیل اور
سونی سمیت قریب تمام بڑی کمپنیوں نے ٹیرف کے خالف شکایتیں درج کرائیں ہیں لیکن مستقل منافع پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس
جا رہا ہے اور پبلک لسٹڈ کمپنیوں کی تعداد تقریبا ً آدھی ہو گئی ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو مضحکہ خیز معلوم ہو گی لیکن
جس امریکہ نے ایک زمانے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پروان چڑھایا اس ہی امریکہ میں ٹرمپ کے دور میں ان ملٹی نیشنل
کمپنیوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اور اگر کسی کو کوئی شک ہو تو صرف ایپّل کمپنی کے کسی ایکزیکٹو سے رابطہ
کر کے پوچھ لے۔
امریکہ کی قوم پرست سرمایہ داری اور ملٹی نیشنلز کی یہ لڑائی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ان تجارتی تحفظ کی پالیسیوں نے نہ
صرف عالمی تجارت کو مدھم کیا بلکہ عالمی معاشی گورننس کے ڈھانچے کو بھی متاثر کیا۔ سینٹر آف اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل
اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت نے ڈبلیو ٹی او اور جی 20جیسے اداروں کو امریکہ کے لئے نقصان دہ قرار
دیتے ہوئے ہر ملک سے علیحدہ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی پر زور دیا۔ جب ٹرمپ نے عالمی اداروں کے قیام کی
افادیت سے ہی انکار کر دیا تو عالمی معاشی پالیسی کا قیام تو ممکن ہی نہیں رہتا۔ بائیاں بازو چاہے کچھ بھی سمجھتا Kرہے لیکن
گلوبل کالئیمیٹ چینج کے حوالے سے ہونے والے پیرس معاہدے پر اتنا واویال ماحول کی حفاظت کی وجہ سے نہیں بلکہ
گلوبالئزیشن کے متوالوں کی ہار کی وجہ سے ہوا۔ اس ہی طرح بائیڈن کا اتنخابات سے قبل ہی پیرس معاہدے میں شامل ہونے کا
اعالن اس وجہ سے نہ ہوا کہ اسے ماحولیات کی بہت فکر ہے بلکہ اسے ڈیموکریٹس کی امریکہ کو واپس گلوبالئزیشن کے
راستے پر گامزن کرنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی سے جوڑ کر دیکھنا چاہئے۔
بائیڈن کی فتح پر یہ لڑائی ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ امریکہ اس وقت مکمل طور پر دو کیمپس میں تقسیم ہو گیا ہے جہاں
ایک کیمپ وہاں کی منڈی سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا دکھائی دیتا ہے اور سرمائے کی
امریکہ سے باہر حرکت سے خوف زدہ ہے تو دوسری جانب ڈیموکریٹس ہیں جو بظاہر اقلیتوں اور مظلوم شناختوں کے خیرخواہ
بنے ہوئے ہیں لیکن ان کا مقصد ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دفاع کرنا ہے جن کے سرمایہ دارانہ مفادات اب پوری دنیا سے منسلک
ہیں اور جن کے لئے کالے گورے عورت مرد کی تفریق کے بنا سستی سے سستی محنت کرنے کی صالحیت کی خرید اہم ہے۔
یوں سمجھئے کہ نیو کنزرویٹوز اور عالمگیریت کے حامی نیولبرلز کے درمیان آخری معرکہ چل رہا ہے اور فی الحال ایک نے
صدر کی کرسی حاصل کر لی ہے تو دوسرے کی سینیٹ میں اکثریت قائم ہے۔ اس سب کے باوجود امریکہ میں مہاجرین کی
بڑھتی ہوئی تعداد اور نوجوان ووٹرز کا ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب رجحان اشارہ کرتا ہے کہ باآلخر گلوبالئزیشن کے چیمپئن
میدان لے جائیں گے۔
حیرت صرف اس بات کی ہے کہ اس ساری جنگ کے دوران وہ بائیاں بازو جو ایک زمانے میں گلوبالئزیشن اور ملٹی نیشنل
کمپنیوں کے خالف کھڑا دکھائی دیتا تھا آج عالمگیریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اس جیت پر جشن مناتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس
کی وجہ یقینی طور پر یہ ہے کہ ٹرمپ اور بورس جانسن جیسے نیو کنزرویٹوز نے نسل پرستی اور شاونزم کی ایسی فضا بنا دی
تھی کہ بائیں بازو نے ان سے چھٹکارے کو اپنی جیت تصور کرنا شروع کر دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان انتخابات سے عالمگیریت
نے اپنی فتح کے چھنڈے گاڑ دئیے ہیں اور سرمایہ داری کی اس نئی منزل کو ہم تب ہی شکست دے سکتے ہیں جب ہم ٹرمپ کو
ووٹ دینے والے سفید فام محنت کشوں کو وہاں سے نکال کر مظلوم اقوام کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوں۔ آج
یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر سرمایہ عالمی ہو گیا ہے تو پرولتاریہ بھی عالمی سطح پر جڑے بغیر اس کا مقابلہ نہیں
کر سکتا۔