You are on page 1of 21

These factors vary depending on the the instituion.

 Politically

 Socially

 Economically

Social pressures on BBC


BBC
All institutions have to work hard to create content that is affordable, legal and unbiased and engaging for society
Politics

Economic?
Social?
https://books.google.co.uk/books?
id=6eEZAzxsJqMC&pg=PA339&lpg=PA339&dq=media+conglomerate+financial+press
ures&source=bl&ots=dD68hNqVwj&sig=HPcxkGYsfVZrYE5FUT4Eme_AF9w&hl=en&s
a=X&ved=0ahUKEwixo4yd5rrQAhVJDMAKHbFRBPUQ6AEINTAE#v=onepage&q=me
dia%20conglomerate%20financial%20pressures&f=false
BBC professes through it's Reithan Values and Charter to
provide impartiality therefore it should be representing Politics
fairly.
Despite criticism it still has to work hard to construct unbiased
news content.
That said it is providing a service to the public and with it comes
much political pressure on both services and content.
BBC radio was under pressure to outsource recently
Bob Shennan said " there had been talk of radio production going
the same ways as TV with 100 per cent being put out to tender.
He admitted the BBC had been put under pressure from the
Department of Culture, Media and Sport and politicians to go
further than to 60 per cent, but eventually they came up with a
deal that RIG could agree to. He admitted the tendering process
would shift resources away from programme making, but said the
BBC’s in-house production would benefit from the competition
and would win out because of its quality. “Just because 60 per
cent is put out to tender, it does not mean that 60 per cent will go
out of the BBC "
Legal frameworks and legislation must be adhered
too as with all media
Political?
Society has more power than ever before and whilst media should conform to
regulations, people also know what is legal and ethical and are not afraid to complain.
Institution are working with a hard to please media savvy generation.
BBC generates £3 billion a year from the public license fee.
Services provided must remain within budget BUT still conform to it's charter to be spend wisely, provide quality media
that 'Educates, Informs and Entertains'
Needs to raise additional funds by it's World service (commercial arm) as substitute for the lost revenue from not
advertising. Profits from DVD sales, merchandise etc help keep license fee low.
Vertical integration is cost effective for BBC
Digital switch over has had large impact on finances as it's raised competition and choice for consumers.
Economics

PSB Vs COMMERICAL
Political Pressures on BBC
Economic pressure

Political, Economic and Social pressures on the Media


societies needs

Current financial pressures on BBC


Some nations can influence and control their media greatly. Media can act as a great
way to impose political agendas. In addition, powerful corporations also have enormous
influence on mainstream media.
Many news channels profess to be impartial but mediation towards a political party or
government influence is often apparent.
What pressures do you think the BBC has?
Exploring the impact on media institutions and how it contributes to broadcast media
content.
http://www.bbc.co.uk/news/uk-33955726
Providing a service to public means knowing your customer..
Society dictates what it wants and the media aims to please.
As social trends change and lifestyles do, the media must continue to adapt to meet
needs.
Content must 'mirror' real life and offer escapism, information and enjoyment.
Media constantly has to serve needs such as offering media on tablets, smartphone
editions etc in a digital world over the old 'Print' world.
The decline of print media is a clear impact on society changing and what we value
now.
Audiences keen on Voyeurism saw rise of reality TV,
Interactivity and user generated content means society has more influence and media
can sometimes be generated elsewhere faster. Think News stories, tweeted before TV
crew can get there.
Commercial Media
Create quality content for the public-address their wants by
content, channel and platforms avaliable
Continue to meet Reithan Values for all
Audiences now have more choice and therefore BBC has
pressure to offer same range as freeview/Pay per view
https://www.bnp.org.uk/news/national/bbc-now-britain%E2%80%99s-largest-political-
pressure-group
https://www.nuj.org.uk/news/bbc-was-under-political-pressure-to-outsource-all-radio/
Freeze on license fee resulting in:
 Closure of Oxford rd offices
 BBC 3 moving online
 Sharing of content between channels
 Depts condensed and moved to MediaCity (Cheaper cost outside London)

In a world of global competition, where revenue is attained by


consumers and through selling advertising spaces..
What do you think are main social, political and economic
pressures for Commercial (TV, Film, Radio, print & web based)
media, Independent or as a conglomerate?
Competition is main reason for losing money and reason to generate it. Audiences are
fickle. We pay for services and then we move on to something else; a quicker service,
more channels, more apps...
Often, media institutions survive on advertising fees, which can lead to the media
outlets being influenced by various corporate interests. Other times, the ownership
interests may affect what is and is not covered. Stories can end up being biased or
omitted so as not to offend advertisers or shareholders.
‫کرونا وائرس‘ سے کیسے محفوظ رہا جائے؟’‬

‫کرونا وائرس‘ سے کیسے محفوظ رہا جائے؟’‬


‫شیئرٹویٹ‬
‫ڈاکٹر آصف محمود جاہ (ستارہ امتیاز)‪  ‬جمعرات‪ 30 ‬جنوری‪2020  ‬‬

‫شیئرٹویٹ‪nnn‬شیئرای میلتبصرے‬
‫مزید شیئر‬

‫شیطان وائرس حملہ ٓاور ہوجائے تو کیا عالمات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا عالج کیسے کیاجاسکتاہے؟‬

‫کروناوائرس نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ چند ہی دنوں میں یہ وائرس ایک قہر بن‬
‫کر ٹوٹ پڑا ہے۔‬
‫چین کے صدر کے مطابق کرونا وائرس ایک ’’ شیطان‘‘ ہے‪ ،‬اس شیطان کا ساری ُدنیا کو مقابلہ‬
‫کرنا ہے۔ وائرس سے ہونے والی پھیپھڑوں کی بیماری اور اس کا انفیکشن جان لیوا ثابت ہو سکتا‬
‫ہے۔‬
‫پچھلے دو ہفتوں میں’کرونا وائرس‘ چین میں ‪ 132‬انسانوں کو نگل چکا ہے جبکہ‪  ‬اس وقت چین‬
‫میں ساڑھے چار ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔ ُدنیا بھر میں ہیلتھ الرٹ جاری کئے جا‬
‫چکے ہیں۔ چین ٓانے اور جانے والوں کی ائیرپورٹس پر اسکریننگ ہو رہی ہے۔ متعدد ممالک نے‬
‫چین ٓانے اور جانے والی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت نے ’کرونا وائرس‘ کے پھیالؤ کو ایک میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا ہے اور اس‬
‫کے پھیالؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیربھی جاری کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح‬
‫کے وائرس سے ُد نیا کو پاال پڑا تھا جن میں ڈینگی وائرس‪ ،‬وائن فلو وائرس‪ ،‬برڈ فلو اور سارس‬
‫جیسے وائرس شامل ہیں مگر ان کی تباہ کاریاں ’کرونا‘ جیسی نہ تھیں مگر’’ کرونا وائرس‘‘ نے‬
‫ساری ُدنیا کو ہال کر رکھ دیا ہے۔‬
‫میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی اور جدت کے باوجود ابھی تک وائرس سے پھیلنے والے امراض‬
‫کے عالج کے لیے کوئی واضح پروٹوکول موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی خاص ویکسین‬
‫دستیاب ہے۔ نتیجتا ً‪  ‬وائرس کی وجہ سے ہونے والے امراض میں اموات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫چین سے ملحقہ ممالک بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔‬
‫ٓاسڑیلیا‪ ،‬تائیوان‪ ،‬نیپال‪ ،‬جاپان‪ ،‬تھائی لینڈ‪ ،‬جنوبی کوریا بلکہ امریکا میں بھی کرونا وائرس سے‬
‫متاثر افراد کے کیسز دیکھنے میں ٓائے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے چینی انجنئیرز اور ورکرز‬
‫متعدد قومی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں‪ ،‬اس لئے پاکستان میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫کرونا وائرس‘ کی خبروں کی بعد اورنج الئن ٹرین‪  ‬اور دوسرے منصوبوں جات پہ کام کرنے’‬
‫والے چینی باشندوں کا کام سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اسکریننگ ہونے تک ان کی رہائش‬
‫گاہوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ’کرونا وائرس‘ کے بارے میں قومی ادارہ صحت نے بھی ہیلتھ‬
‫ایڈوائزری جاری کی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مختلف ائیر پورٹس پر اس سلسلے میں ہیلتھ‬
‫کاؤنٹرز قائم کر دیئے ہیں۔‬
‫مختلف ہسپتالوں میں علیحدہ ٓائسولیشن وارڈبنا دیے گئے ہیں۔ بیماری کی تشخیص کے لیے چین‬
‫سے ’کرونا وائرس‘ کی تشخیص کے لئے ٹیم ٓاج پاکستان پہنچ جائے گی دوسری طرف عالمی‬
‫ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے نے بھی تشخیصی کٹس کی فراہمی کر دی ہیں۔‬
‫٭کرونا وائرس کیا ہے؟‬
‫٭بیماری کا ٓاغاز کب ہوا؟‬
‫٭ کرونا وائرس کا انفیکشن کیسے پھیلتاہے؟‬
‫٭اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟‬
‫٭اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟‬
‫عوام الناس کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں ان تمام سوالوں کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کرونا‬
‫وائرس سے متاثرہ لوگوںکو زکام‪ ،‬گال خراب‪ ،‬سر درد اور بخار کی عالمات ہوتی ہیں‪ ،‬جسم تھکا‬
‫تھکاسا لگتا ہے‪ ،‬ناک مسلسل بہتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہو جائے تو پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ سب‬
‫سے زیادہ خطر ناک وہ لمحہ ہوتا ہے جب انفیکشن کی وجہ سے نمونیہ ہو جائے۔ اس سے‬
‫پھیپھڑوں میں زبردست انفیکشن ہو جاتا ہے‪ ،‬سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے‪ ،‬بخار زیادہ ہو‬
‫جاتا ہے‪ ،‬ایسے میں فوری طور پر ہسپتال میں عالج کی ضرورت پیش ٓاتی ہے۔ انفیکشن زیادہ‬
‫ہونے کی صورت میں سانس رک جاتی ہے اور مصنوعی تنفس دینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس‬
‫حالت میں یہ میڈیکل ایمرجنسی بن جاتی ہے۔ اگر انفیکشن پھیل جائے تو سانس رک جاتا ہے اور‪ ‬‬
‫چند گھنٹوں ہی میں موت واقع ہو سکتی ہے۔‬
‫کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی تمام عالمات نمونیہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اس سے ہونے‬
‫والی بیماری کا ٓاغاز دسمبر‪2019‬ء میں چین کے صوبے ہوبی کے شہرو وہان میں ہوا جہاں اب‬
‫تک ‪ 132‬اشخاص جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بیجنگ میں بھی ایک شخص کی ہالکت کی اطالع‬
‫ہے۔ بھارت میں بھی ایک موت ہوئی ہے۔ اس سے‪  ‬ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ‪ 9‬ہزار‬
‫سے زیادہ مشکوک کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبی اور ووہان میں پانچ سو سے‬
‫زیادہ پاکستان طالب علم وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں• میں زیر تعلیم ہیں‪ ،‬انہوں نے ارباب اختیار‬
‫سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری طور پر وہاں سے نکاال جائے تاکہ وہ اس جان لیوا وائرس کی تباہ‬
‫کاریوں سے محفوظ رہیں۔‬
‫کرونا وائرس ٓاسانی سے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند شخص کومنتقل ہوجاتا ہے۔ متاثرہ‬
‫شخص دو سے پانچ دن تک بیماری کو دوسروں تک پھیال سکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کو‬
‫بیماری کی تشخیص ہوگئی ہو تو اسے کم از کم ایک ہفتے تک علیحدگی میں رکھا جاتا ہے تاکہ‬
‫صحت مند اشخاص وائرس سے بچے رہیں۔ بیماری کے ٓاغاز میں عالمات زکام اور نظام تنفس‬
‫کے باالئی حصے کے انفیکشن سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اس دوران عالج سے افاقہ ہو جاتا ہے‬
‫مگر سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اس دوران مریض کو علیحدگی میں رکھا جائے تاکہ‬
‫دوسرے صحت مند اشخاص بیماری کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔کرونا وائرس کی تشخیص‬
‫کے لیے اور جسم میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔‬
‫چین میں کروناوائرس سب سے پہلے سانپوں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ پالتو بلیاں اور‬
‫کتے بھی اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان سے وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔‬
‫زکام کی طرح کرونا وائرس سے ہونے والی عالمات بھی زیادہ تر ‪ 7‬دن سے لیکر ‪ 10‬دن تک‬
‫جاری رہتی ہیں اگر اس دوران مکمل ٓارام کیا جائے اور ڈاکٹر کے مشورہ سے ادویات لی جائیں تو‬
‫مرض میں افاقہ ہو جاتا ہے اور ٓادمی صحت مند ہو جاتا ہے۔ اس لیے کرونا وائرس سے زیادہ‬
‫گھبرانے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ زیادہ تر متاثرین ہفتے دس دن تک خود بخود‬
‫ٹھیک ہو جاتے ہیں۔‬
‫کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے چین نے اپنے مختلف صوبوں میں الک ڈاؤن‬
‫کردیا ہے۔ شہروں میں‪ 6‬کروڑ سے زیادہ چین باشندے اپنے شہروںتک محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔‬
‫شنگھائی شہر میں نئے سال کی چھٹیاں ‪  9‬فروری تک بڑھا دی گئی ہیں۔ ابھی تک چین میں متاثرہ‬
‫افراد کی تعداد ‪ 5974‬تک پہنچ گئی ہے جس میں ‪ 976‬افراد کی حالت نمونیہ کی وجہ سے‬
‫تشویشناک ہے۔ چینی کی یونیورسٹیوں• میں داخلے کے ٹیسٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یعنی‬
‫ت خارجہ‪  ‬کے اعالن کے مطابق چین کے شہر‬ ‫زبردست میڈیکل ایمر جنسی لگا دی گئی۔ وزار ِ‬
‫ووہان میں ‪ 515‬پاکستان طالب علم زیر تعلیم ہیںاور وہ الحمدہللا صحت مند ہیں۔ کسی بھی طالب علم‬
‫میں وائرس کی موجودگی کے ٓاثار نہیں پائے گئے مگر سب بچے پریشان ہیں اور وہاں سے وطن‬
‫منتقل ہونے کے متمنی ہیں۔ ہللا ان طالب علموں کی حفاظت فرمائے۔‬
‫چین کے شہری کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ بینرز لگے‬
‫ہوئے ہیں‪ ’’:‬ہم کرونا وائرس سے شکست نہیں کھائیں گے‪ ،‬ہم شیطان وائرس کو مار بھگائیں‬
‫گے‘‘۔ ووہان میں الک ڈاؤن کی وجہ سے سبزیوں اشیائے خورو نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہو‬
‫گئی ہے۔ چین کے دوسرے شہروں سے چینی کے بہادر لوگوں نے ووہان کے ہم وطنوں سے‬
‫اظہار یک جہتی کے لیے سبزیوں ‪ ،‬اشیائے خورو نوش اور ادویات کے سینکڑوں کنٹینرز ووہان‬ ‫ِ‬
‫ُ‬
‫پہنچا دیئے ہیں ۔ اگرچہ کرونا وائرس نے چین کے ساتھ دنیا بھر میں کھلبلی مچا دی ہے‪ ،‬اس سے‬
‫ہالکتوں اور متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کا عالج اتنا مشکل نہیں ہے۔‬
‫پہلی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس‪  ‬سے ہونے واال زکام یا اس سے ہونے والی سانس میں رکاوٹ‬
‫ابتدائی طور پر جاں لیوا مرض نہیں۔ ٓارام کرنے‪ ،‬بخار اور کھانسی اور انفیکشن کی ادویات لینے‬
‫سے مرض کی عالمات میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں‬
‫کرونا وائرس کی تشخیص ہو جائے یا‪  ‬اس جیسی عالمات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں تو اس مریض‬
‫کو کم از کم سات دن کے لیے علیحدگی میں رکھا جائے۔ اگر ٹیسٹ کرونا وائرس کے لیے پازیٹو‬
‫ٓاجائے تو ٹیسٹ ٓانے کے کم از کم ایک ہفتہ تک اس مریض کو مکمل علیحدگی میں رکھا جائے۔‬
‫ضروری ہے کہ مریض اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والے تمام اشخاص احتیاطی تدابیر‪،‬‬
‫زیر‬
‫ماسک اور دستانے استعمال کریں۔ مریض کے کمرے میں اسپرے کیا جائے اور اس کے ِ‬
‫‪  Heat‬استعمال‪  ‬ٹشو پیپرز کو علیحدہ تلف کیا جائے۔ کرونا وائرس زکام کے وائرس کی طرح‬
‫وائرس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مریض کو بھاپ دی جائے اور پینے کے لیے ‪Sensitive‬‬
‫قہوہ‪ ،‬سبزیوں کا سوپ دیا جائے تا کہ بیماری کی عالمات کم سے کم رہیں۔‬
‫بخار ہونے کی صورت میں بخار ختم کرنے والی ادویات دی جائیں۔ کھانسی کی صورت میں ایک‬
‫کپ گرم پانی میں دو چمچ شہد اور تھوڑی سی کالی مرچ ڈال کر دیں۔ بیماری کی تشخیص ہو‬
‫جائے تو صبح شام ایک کپ گرم دودھ میں ایک چمچ ہلدی ایک چمچ زیتون کا تیل اور ایک چمچ‬
‫تعالی نے بے حد شفاء رکھی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫شہد ڈال کر دیں۔ ہلدی اور زیتون کے تیل میں ہللا‬
‫ان دونوں میں انفیکشن کنٹرول کرنے کے صالحیت اور اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ شہد‬
‫ویسے ہی ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ زکام اور گلے کے انفیکشن کے لیے پودینہ‪ ،‬سونف‪ ،‬دار‬
‫چینی اور ادرک کا قہوہ‪  ‬بھی مفید ہے۔ مریض کو پینے والی گرم چیزیں دینے سے مرض میں‬
‫خاطر خواہ افاقہ ہوتا ہے۔ مریض کے ساتھ خوشی گوار رویہ رکھا جائے کیونکہ علیحدگی میں‬
‫رکھنے کے باوجود مریض سے رابطہ رکھا جاسکتا ہے۔ چین کی اپنے شہریوں تک محدود کرنے‬
‫کی ہدایات سے ‪ 1440‬سال پہلے رسول اللہﷺ کی دی گئی ہدایات یاد ٓاتی ہیں۔‬
‫مدینہ میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو ٓاپ نے اس مرض میں مبتال ہونے والے افراد کو اپنا‬
‫شہر چھوڑنے سے منع فرمایا تاکہ مرض دوسرے عالقوں میں صحت مند افراد میں منتقل نہ ہو۔‬
‫اسامہ سے روایت ہے کہ حضور‪  ‬ﷺ نے‬ ‫ؓ‬ ‫مسلم شریف کی جلد نمبر ‪ 2‬میں حضرت‬
‫فرمایا کہ طاعون اور متعدی بیماری ایک عذاب ہے جو پہلی امتوں پر مسلط کیا گیا۔ جب کسی‬
‫عالقے یا شہر میں کوئی وبا پھیل جائے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شہر کے باشندے اپنا عالقہ‬
‫چھوڑ کر نہ جائیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے شہروں کے لوگ متاثرہ شہر یا عالقے میں‬
‫نہ جائیں۔ جو ہدایات ٓاج کی میڈیکل سائنس میں اب سامنے ٓارہی ہیں وہ ہادی دو جہاں‪ ‬‬
‫ﷺ نے ہمیں ‪ 1440‬سال پہلے بتا دیں (ماشاء ہللا) ۔‬
‫پاکستان میں بھی بیماری کے پھیالؤ کا خدشہ ہے۔ ‪ 5‬مشتبہ کیسز سامنے ٓائے ہیں۔ کرونا وائرس‬
‫سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ مریض کے زیر استعمال ٹشو پیپرز‬
‫اور دوسری اشیاء کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے جبکہ کھانسی یا چھینک ٓانے پر منہ اور‬
‫ناک کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپ کر رکھا جائے۔ بخار‪ ،‬کھانسی اور سانس لینے کی صورت میں‬
‫فوری طور پر ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کریں۔ نزلہ‪ ،‬زکام اور سانس میں رکاوٹ محسوس ہو تو‬
‫دفتر یا سکول ‪ ،‬کالج جانے سے پرہیز کریں‪ ،‬گھر میں رہ کر ٓارام کریں ‪ ،‬دوچار دن ٓارام کرنے‬
‫سے طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔‬
‫بیماری اور وبا ہللا کی طرف سے ٓاتی ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے ہللا سے خیروعافیت کی‬
‫‪ُ :‬دعا کریں۔ بیماریوں سے پناہ مانگیں اور مندرجہ ذیل ُدعا پڑھیں‬
‫ٰ‬
‫الجنون َوال ُج َذ ِام َو ِمن َسیِئی اال سقَام (ٓامین)‬
‫ِ‬ ‫ص َو‬ ‫اَللّہُ َّم اِنّ ِی اَ ُُعو ُذبِ َ‬
‫ک ِم َن البَ َر ِ‬
‫ا ے ہللا! میں ٓاپ کی پناہ مانگتا ہوں برص سے‪ ،‬دماغی خرابی سے‪ ،‬کوڑھ سے اور ہر قسم کی ’’‬
‫‘‘بُری بیماریوں سے۔‬
‫اس ُد عا کے بار بار پڑھنے سے ہللا ٓاپ کو ’کورنا وائرس‘ سمیت ہر طرح کے متعدی امراض‬
‫سے محفوظ رکھے گا۔ صدقہ بال اور بیماری کو ٹالتاہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے دوا‪،‬‬
‫ُدعا کے ساتھ صدقہ بھی ضرور کریں۔‬

‫کرونا وائرس ہے کیا؟ ‪ 10‬بنیادی سواالت کے جوابات‬

‫سہیل یوسف‪  ‬جمعـء‪ 24 ‬جنوری‪2020  ‬‬

‫شیئرٹویٹ‪ n‬شیئرای میلتبصرے‬


‫مزید شیئر‬

‫کرونا وائرس اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ فوٹو‪ :‬فائل‬
‫کراچی‪ :‬چین میں کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال‪ 2‬‬
‫پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ ٓاور ہوکر ہالکت کی وجہ بن سکتا ہے‬
‫اور اب تک دو درجن سے زائد افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس مضمون‪ 2‬میں‬
‫‪ ‬کرونا وائرس کے متعلق عام سواالت کےجوابات دیئے جارہے ہیں۔‬
‫کرونا وائرس کیا ہے؟‬
‫کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اسے خردبین کے ذریعے‬
‫دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرٓائے جوعموما تاج (کراؤن) جیسی‬
‫شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ الطینی زبان میں تاج کو‬
‫کرونا کہا جاتا ہے۔‬
‫اب بھی زیادہ تر جان دار مثالً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھے‪ ‬گئی ہیں‪ ‬لیکن یہ‬
‫وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ ‪1960‬ء کے عشرے میں‬
‫کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر ‪)13‬‬
‫سامنے ٓاچکی ہیں جنہیں اپنی ٓاسانی کے لیے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا‬
‫وائرس کی ‪ 13‬اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین‬
‫کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی ‪ nCoV 2019‬کے شہر ووہان میں ہالکت خیز وائرس کو‬
‫بالکل نئی قسم ہے۔‬
‫کرونا وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟‬
‫واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کے لیے تین ہالکت خیز وائرسوں‬
‫میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول‪ ،‬سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ‪ ،‬دوسرا مڈل ایسٹ‬
‫وسطی سے اور اب تیسرا ‪2019‬‬
‫ٰ‬ ‫مشرق‬
‫ِ‬ ‫بھی چین کے شہر ‪ nCoV‬ریسپائریٹری سنڈروم (مرس)‬
‫ووہان سے پھیال ہے۔‬
‫ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے‬
‫اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل ‪2003‬ء میں سارس وائرس سے چین‬
‫میں ‪ 774‬افراد ہالک اور ‪ 8000‬متاثر ہوئے تھے۔ مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔‬
‫نئے کرونا وائرس‪ ‬حملے کی عالمت بتایئے؟‬
‫چین میں لوگوں نے بد ہضمی‪ ،‬سردی لگنے‪ ،‬بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ‬
‫شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس‬
‫سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری عالمات سامنے ٓاتی ہیں۔ اس‬
‫کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے‬
‫لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔‬
‫نئے کرونا وائرس کی تشخیص اور عالج کیسے ممکن ہے؟‬
‫چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی•‬
‫ڈرافٹ)‪ ‬معلوم‪  ‬کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا‬
‫ویکسین سامنے نہیں ٓاسکی ہے کیونکہ دسمبر ‪2019‬ء میں نیا وائرس سامنے ٓایا ہے اور ماہرین‬
‫دعوی ہے کہ وائرس سے‬ ‫ٰ‬ ‫اس کی ظاہری عالمات سے ہی اس کا عالج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا‬
‫متاثر ہونے والے ‪ 4‬فیصد افراد ہی ہالک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے‬
‫متاثرہ ‪ 25‬فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔‬
‫کیا‪  ‬کرونا وائرس سانپ اور چمگاڈر سے پھیال؟‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا‬ ‫دوروز قبل چینی سائنس دانوں نے جینیاتی تحقیق• کے بعد‬
‫وائرس کی کوئی نئی قسم سانپ سے پھیلی ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے‬
‫ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دیگر ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔ چین میں سانپ ‪ ،‬حشرات اور‬
‫چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں۔‬
‫دیگر ممالک کے ماہرین کا اصرار ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے‬
‫پھیال ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ‬
‫ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیال تھا۔ چینی ماہرین کا اصرار ہے کہ‬
‫سانپ اور چمگاڈروں کا فضلہ ہوا میں پھیل کر سائنس کے ذریعے انسانوں میں اس وائرس کی‬
‫وجہ بن سکتا ہے لیکن دوسرے ماہرین اس سے متفق نہیں۔‬
‫کیا یہ وائرس عالمگیر وبا بن سکتا ہے؟‬
‫ماہر حیوانیات اور مصنف‪ ،‬ڈاکٹر صالح الدین قادری نے‬
‫ِ‬ ‫ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز‬
‫‪:‬بتایا کہ کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں‬
‫اول‪ :‬وائرس کی نئی قسم ہو‬
‫دوم‪ :‬حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صالحیت‬
‫سوم‪ :‬انسان میں مرض پیدا کرنے کی صالحیت‬
‫چہارم‪ :‬انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد‬
‫اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے ٓاچکی ہیں۔ ڈاکٹر سید صالح الدین‬
‫قادری نے بتایا کہ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس‬
‫سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک‪ ‬سرایت کرچکی تھی۔‬
‫کرونا وائرس پاکستان ٓاسکتا ہے؟‬
‫اس سوال کا فوری جواب ہاں میں ہے۔ واضح رہے کہ چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر‬
‫شہروں میں پھیال ہے۔ اس کے بعد جاپان‪ ،‬تھائی لینڈ‪ ،‬سنگاپور اور امریکا میں اس کی تصدیق‬
‫ہوچکی ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جارہی ہے۔ ایک‬
‫مریض برطانیہ میں بھی سامنے ٓایا ہے لیکن عالمی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔‬
‫پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی اسکیننگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں چینی ماہرین‬
‫سی پیک اور دیگر منصوبوں کے لیے پاکستان ٓاتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی‬
‫اور اسکیننگ کی ضرورت ہے۔ صرف چین میں ہی ایک شخص سے کئی افراد متاثر ہونے کے‬
‫شواہد بھی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫وزیر مملکت برائے صحت ظفرمرزا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی‬
‫ِ‬
‫شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو مزید‬
‫چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔‬
‫یہ وائرس کتنا مہلک ہے؟‬
‫اب تک چین میں ‪ 26‬افراد اس وائرس سے ہالک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد ‪ 830‬سے‬
‫تجاوز کرچکی ہے۔ ووہان اور دیگر دس شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ بند ہے اور لوگ گھروں‬
‫تک محصور ہوچکے ہیں۔ تاہم نئے‪ ‬قمری سال کی تقریبات پر الکھوں کروڑوں لوگ باہر نکلتے‬
‫ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔‬
‫چینی حکام نے کہا کہ وائرس سے شکار ہونے والے ‪ 4‬فیصد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ اس‬
‫لحاظ سے کرونا وائرس کی ہالکت خیز شدت کم ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی ٓاف ایڈنبرا میں‬
‫انفیکشن امراض کے ماہر ڈاکٹر مارک وول ہاؤس اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‬
‫شاید یہ اوسط درجے کے انفیکشن اور سارس کے درمیان کی شدت رکھتا ہے جس سے زائد‬
‫اموات ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وائرس خود کو مزید تبدیل کرلے تو شاید زیادہ مہلک‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫کرونا وائرس سے کیسے بچا جائے؟‬
‫‪:‬عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں جن کا خالصہ یہ ہے‬
‫بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔‬
‫کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے‬
‫قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا‬
‫جائے۔ کسی کی بھی ٓانکھ ‪ ،‬چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔‬
‫ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے جس طرح کی ہدایات دی ہیں وہ وضو سے پوری‬
‫ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ‪  ‬میں بہت‬
‫معاون ثابت ہوتا ہے۔‬
‫پاکستان سے چین جانے والوں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟‬
‫اقوام متحدہ نے چین کے لیے ایسی کوئی ہنگامی صورتحال کا اعالن نہیں کیا تاہم کہا ہے کہ وہ‬
‫ِ‬
‫عمومی احتیاط اختیار کریں اور اپنی سفری تاریخ سے حکام کو ٓاگاہ کریں۔ دوسری جانب جہاں‬
‫ضروری ہو اسکیننگ کے عمل سے گزرا جائے۔‬

‫کیا ماسک کرونا وائرس سے محفوظ رکھ سکتاہے؟‬

‫کیا ماسک کرونا وائرس سے محفوظ رکھ سکتاہے؟‬


‫شیئرٹویٹ‬
‫جمعرات‪ 30 ‬جنوری‪ 2020  ‬‬

‫شیئرٹویٹ‪nnn‬شیئرای میلتبصرے‬
‫مزید شیئر‬

‫انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب• یا ماسک کا استعمال• دنیا کے بہت• سے ممالک میں مقبول ہے۔ فوٹو‪:‬‬
‫فائل‬

‫کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ نظر ٓانے والی تصاویر ڈاکٹروں‪ 2‬والے‬
‫ماسک پہنے لوگوں‪ 2‬کی دکھائی دیتی ہیں۔‬
‫انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب یا ماسک کا استعمال دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول‬
‫ہے۔ خاص طور پر چین میں کورونا وائرس کے حالیہ پھیالٔو کے دوران ان کا استعمال بڑھ گیا ہے‬
‫جبکہ ایسے ہی ماسک چین میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی فضائی ٓالودگی سے بچنے کے‬
‫لیے بھی پہنے جاتے ہیں۔ تاہم ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچأو میں ماسک کے‬
‫پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا‬
‫ہے کہ ماسک وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‬
‫سرجیکل ماسک ‪18‬ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا‬
‫استعمال ‪ 1919‬میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں ٓایا جو پانچ کروڑ افراد کی ہالکت کی‬
‫وجہ بنا تھا۔‬
‫برطانیہ کی سینٹ جارج یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ کیرنگٹن نے بی بی سی نیوز کو بتایا‬
‫کہ ’عام استعمال کے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچأو کے لیے بہت‬
‫پراثر ثابت نہیں ہوئے اور زیادہ تر وائرس اسی طریقے سے پھیلے تھے۔ ان کی ناکامی کی وجہ‬
‫ان کا ڈھیال ہونا‪ ،‬ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی اور ٓانکھوں کے بچأو کا کوئی انتظام‬
‫نہ ہونا تھا۔‘ لیکن یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچأو اور ہاتھ‬
‫سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔‬
‫سنہ ‪ 2016‬میں نیو سأوتھ ویلز میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ لوگ ایک گھنٹے‬
‫میں تقریبا ً ‪ 23‬مرتبہ اپنے منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ پروفیسر جوناتھن بال یونیورسٹی ٓاف ناٹنگھم میں‬
‫مالیکیولر وائرالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ہسپتال کے ماحول میں‬
‫کی جانے والی محدود تحقیق یا کنٹرولڈ سٹڈی میں فیس ماسک بھی انفلوئنزا• کے انفیکشن سے بچأو‬
‫‘میں اتنا ہی اچھا رہا جتنا اس مقصد کے لیے بنایا جانے واال سانس لینے واال مخصوص ٓالہ تھا۔‬
‫سانس لینے کے لیے بنایا جانے والے اس ٓالے میں ہوا کو صاف کرنے کے لیے فلٹر لگا ہوتا ہے‬
‫اور یہ خاص طور پر اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر فضا میں موجود‬
‫خطرناک ذرات سے بچنے میں مدد مل سکے۔ پروفیسر بال مزید کہتے ہیں کہ بہرحال جب ٓاپ‬
‫عمومی سطح پر عوام میں ماسک کے فائدے سے متعلق کی گئی تحقیقات کو دیکھتے ہیں تو اعداد‬
‫وشمار اتنے مثاثرکن نظر نہیں ٓاتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک کو طویل وقت تک استعمال‬
‫کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر کونوربیمفرڈ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی میں تجرباتی ادویات کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک‬
‫ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت‬
‫زیادہ سودمند ہے۔ وہ کہتے ہیں ’جب چھینک ٓائے تو منہ ڈھکنا‪ ،‬ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے‬
‫پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں‬
‫مددگار ہو سکتے ہیں۔‬
‫برطانیہ کے قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فلو پیدا کرنے والے وائرس وغیرہ سے بچنے کے‬
‫‪:‬لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ‬
‫٭ ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔‬
‫٭ جتنا بھی ممکن ہو اپنی ٓانکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔‬
‫٭ صحت مند انداز زندگی کو اپنائیں۔‬
‫ڈاکٹر جیک ڈننگ پبلک ہیلتھ انگلینڈ میں انفیکشنز اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے‬
‫والے امراض سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا‬
‫ہے کہ منہ پر ماسک پہننا شاید فائدہ مند ہے‪ ،‬حقیقت میں ہسپتال کے ماحول سے باہر اس کے بڑے‬
‫پیمانے پر فائدہ مند ہونے کے بہت ہی کم شواہد ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ماسک کو صحیح طریقے‬
‫سے پہننا چاہیے‪ ،‬اسے تبدیل بھی کرتے رہنا چاہیے اور انھیں محفوظ طریقے سے تلف کرنا‬
‫چاہیے۔‬
‫ڈاکٹر ڈننگ کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اس حوالے سے خوف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی‬
‫جسمانی‪ ،‬خاص طور پر ہاتھوں کی صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔‬
‫‪ 31‬دسمبر ‪ 2019‬کو ‪ ،‬چین کے صوبہ ہوبی کے شہر ووہان‬
‫سٹی میں نمونیا کے متعدد معامالت کے بارے میں ڈبلیو‬
‫ایچ او کو آگاہ کیا گیا۔ یہ وائرس کسی دوسرے معلوم‬
‫وائرس سے مماثل نہیں ہے۔ اس سے تشویش پیدا ہوگئی‬
‫کیونکہ جب کوئی وائرس نیا ہے تو ہم نہیں جانتے کہ‬
‫اس سے لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔‬

‫ایک ہفتہ بعد ‪ 7 ،‬جنوری کو ‪ ،‬چینی حکام نے تصدیق‬


‫کی کہ انہوں نے ایک نیا وائرس شناخت کرلیا ہے۔ نیا‬
‫وائرس ایک کورونا وائرس ہے ‪ ،‬جو وائرسوں کا کنبہ‬
‫ہے جس میں عام سردی ‪ ،‬اور سارس اور میرس جیسے‬
‫وائرس شامل ہیں۔ اس نئے وائرس کو عارضی طور پر "‬
‫‪ "nCoV-2019‬کا نام دیا گیا تھا۔‬

‫جب سے ہمیں آگاہ کیا گیا ہے ‪ ،‬ڈبلیو ایچ او چینی‬


‫حکام اور عالمی ماہرین کے ساتھ مل کر اس وائرس کے‬
‫بارے میں مزید جاننے کے لئے ‪ ،‬اس سے متاثرہ لوگوں‬
‫کو کس طرح متاثر کرتا ہے ‪ ،‬ان کا عالج کس طرح‬
‫ہوسکتا ہے ‪ ،‬اور ممالک اس کے جواب میں کیا کرسکتے‬
‫ہیں۔‬

‫طور پر‬ ‫چونکہ یہ ایک کورونا وائرس ہے ‪ ،‬جو عام‬


‫ایچ او‬ ‫سانس کی بیماری کا سبب بنتا ہے ‪ ،‬ڈبلیو‬
‫اپنے آس‬ ‫لوگوں کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنے اور‬
‫سے بچائیں۔‬ ‫پاس کے افراد کو بھی اس بیماری سے ہونے‬
‫‪ 28‬جنوری ‪ - 2020 ،‬نئے چینی کورونا وائرس کے خالف‬
‫ایک ویکسین اپریل میں جلد ہی لوگوں میں ٹیسٹ‬
‫کروانے کے لئے تیار ہوسکتی ہے ‪ ،‬لیکن وسیع پیمانے‬
‫پر دستیاب ہونے سے پہلے اسے ابھی بہت طویل سفر طے‬
‫کرنا پڑے گا۔‬

‫امیدواروں کی ویکسین ممکنہ طور پر ایک نئی‬


‫ٹکنالوجی پر مبنی ہوگی جس کا جانوروں میں تجربہ‬
‫کیا گیا ہے اور لوگوں میں ابتدائی مرحلے کی‬
‫آزمائشوں میں سے گزرے ہیں ‪ ،‬لیکن ابھی تک کسی‬
‫بیماری کے خالف انضباطی منظوری نہیں مل سکی ہے۔‬

‫مثال کے طور پر فلو ویکسین کی طرح ‪ ،‬نام نہاد ایم‬


‫آر این اے ویکسین جلد چکن انڈوں میں اگائے جانے کی‬
‫ضرورت کے بغیر بنایا جاسکتا ہے۔ بوسٹن کے عالقے میں‬
‫ایک کمپنی پہلے ہی چینی حکومت کی جانب سے جاری‬
‫کردہ نئے کورونا وائرس کے جینیاتی ترتیب کے مطابق‬
‫ایم آر این اے ویکسین تیار کرنے کے لئے پہلے ہی‬
‫کام کر رہی ہے۔‬

‫قومی صحت کے انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے‬


‫الرجی اور متعدی امراض کے دیرینہ سربراہ ‪ ،‬ایم‬
‫ڈی ‪ ،‬انتھونی فوکی کا کہنا ہے کہ ‪" ،‬یہ واحد‬
‫امیدوار نہیں ہے جس کے ساتھ ہم شامل ہیں ‪ ،‬بلکہ ہم‬
‫اس پر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔"‬

‫لوگوں میں ابتدائی آزمائشوں سے معلوم ہوتا ہے کہ‬


‫اس طرح کی ویکسین مدافعتی ردعمل کو بہت اچھی طرح‬
‫سے متحرک کرسکتی ہے۔ لیکن پھیلنے کے دوران اس کی‬
‫کبھی کوشش نہیں کی گئی۔‬

‫ایم آر این اے ویکسین کیسے کام کرتی ہیں‬


‫سائنس دان ایک ایم آر این اے ویکسین ڈیزائن کرتے‬
‫ہیں تاکہ کسی خاص قسم کے وائرس کے باہر سے ملنے‬
‫والے پروٹین بنانے کے لئے ہدایات جاری کی جاسکیں ‪-‬‬
‫اس معاملے میں ‪ ،‬نیا کورونا وائرس۔ یہ پروٹین جسم‬
‫کے مدافعتی نظام کو اہم بناتے ہیں کہ وہ اس وائرس‬
‫کے خالف اینٹی باڈیز بنائیں ‪ ،‬اور اس وجہ سے اس‬
‫وائرس سے ہونے والے کسی بھی انفیکشن سے لڑنے کے‬
‫لئے تیار ہوں ‪ ، ،‬ماڈرننا انکارپوریشن کے چیف‬
‫میڈیکل آفیسر ‪ ،‬ایم ایل ‪ ،‬ٹیل زیکس کا کہنا ہے۔‬
‫بائیوٹیکنالوجی پر مبنی کمپنی جو نئی کورونا وائرس‬
‫کے خالف ایم آر این اے ویکسین تیار کرنے کے لئے‬
‫تیزی سے چل رہی ہے۔‬
‫زیکس کا کہنا ہے کہ "ہم سب کر رہے ہیں وہ گالبی‬
‫بیکنگ ہے ‪ ،‬لہذا مدافعتی نظام کی طرح ایسا لگتا ہے‬
‫جیسے کوئی انفیکشن ہے۔"‬

‫سارس ‪ ،‬یا شدید شدید سانس لینے والے سنڈروم کے‬


‫ذریعہ ‪ ،‬ایک مہلک کورونا وائرس جس کی وجہ سے ہانگ‬
‫کانگ ‪ ،‬کینیڈا ‪ ،‬اور کہیں اور ‪ 2003-2002‬میں وباؤ‬
‫پھیل گیا ‪ ،‬اس وائرس کو عوامی صحت کے اقدامات سے‬
‫کنٹرول کیا گیا تھا اور اس سے پہلے کہ ویکسین تیار‬
‫کی جاسکے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیا وائرس ‪ ،‬جو وسط‬
‫دسمبر کے وسط میں چین کے ووہان میں ایک جنگلی‬
‫جانوروں کی منڈی میں شروع ہوا ہے ‪ ،‬پہلے ہی چین‬
‫میں چھا گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ صحت عامہ کے‬
‫اقدامات پر قابو پانے کے لئے بہت دور پھیل گیا ہو۔‬

‫زیکس کا کہنا ہے کہ ایم آر این اے کے بارے میں‬


‫ابتدائی اشارے مثبت ہیں۔ ابھی تک تقریبا‪ R‬ایک ہزار‬
‫افراد کو ایم آر این اے ویکسین کے مختلف نسخے‬
‫موصول ہوچکے ہیں جو ساتھی سانس کے وائرس سے بچنے‬
‫کے لئے بنائے گئے سات کلینیکل ٹرائلز میں شامل ہیں‬
‫‪ ،‬جن میں فلو ‪ ،‬تنفس کی سنسٹیئل وائرس (آر ایس وی)‬
‫‪ ،‬اور ہیومن میٹپینیومو وائرس (ایچ ایم پی وی)‬
‫شامل ہیں۔‬

‫‪ NIH#‬حکام کا کہنا ہے کہ سارس پھیلنے کے بعد سے‬


‫ٹیک میں ہونے والی پیشرفت نے ویکسین کی نشوونما کی‬
‫ٹائم الئن کو بہت کمپریس کیا ہے۔ ناول ‪ #‬کوروناویرس‬
‫کے لئے امیدوار کی ویکسین ابتدائی مرحلے میں‬
‫انسانی جانچ کے ل ‪ three‬کم سے کم تین ماہ میں تیار‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو عام طور پر‬
‫ویکسین کے ضمنی اثرات تھے ‪ ،‬جن میں ایک دن یا اس‬
‫سے زیادہ تکلیف ہتھیاروں اور کم درجے ‪ ،‬فلو جیسے‬
‫عالمات شامل ہیں ‪ ،‬لیکن اس سے زیادہ سنگین کچھ بھی‬
‫نہیں ہے۔ زیکس کا کہنا ہے کہ "ہم نے ایک ہزار سے‬
‫زائد مضامین کو ڈوز کیا ہے اور حیرت انگیز یا‬
‫ناخوشگوار کوئی چیز نہیں دیکھی ہے۔"‬
‫ان کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین ان لوگوں کے مقابلے‬
‫میں ایک مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہے جو‬
‫وائرس سے بازیاب ہوئے ہیں۔‬

‫زیکز کا کہنا ہے کہ بوڑھے افراد ‪ ،‬جن کے عام طور‬


‫پر قوت مدافعت کی کمزوری ہوتی ہے ‪ ،‬انھوں نے زیادہ‬
‫سے زیادہ نوجوانوں کو فائدہ اٹھایا۔ وہ کہتے ہیں ‪،‬‬
‫"ہمارے پاس بنیادی امیونولوجی اور ابتدائی اعداد و‬
‫شمار کی بنیاد پر ‪ ،‬میری توقع یہ ہے کہ یہ عمر‬
‫رسیدہ افراد میں بھی کام کرے گا اور ساتھ ہی یہ‬
‫نوجوانوں میں بھی کام کرے گا۔"‬

‫لیکن یہ ایک کھال اور اہم سوال ہے۔ سی ڈی سی کے‬


‫مطابق ‪ ،‬زیادہ تر بالغ افراد ‪ ،‬خاص طور پر جو‬
‫ذیابیطس جیسے صحت کی دیگر حالتوں میں ہیں ‪ ،‬نئے‬
‫کورونا وائرس سے زیادہ تکلیف کا شکار نظر آتے‬
‫ہیں ‪ ،‬جو زیادہ تر شدید بیماریوں اور اموات کا سبب‬
‫بنتے ہیں۔‬

‫سارس پر نظرثانی کی گئی‬


‫سارس نے اس میں مبتال تمام لوگوں میں سے ‪ 10‬فیصد‬
‫افراد کی موت کی۔ لیکن پچاس سال سے زیادہ عمر‬
‫والوں میں سے تقریبا نصف ‪ ،‬گیلوسٹن میں یونیورسٹی‬
‫آف ٹیکساس میڈیکل برانچ کے اسسٹنٹ پروفیسر وینیٹ‬
‫میناشی کہتے ہیں ‪ ،‬جس کا کام کورونا وائرس‬
‫ویکسینوں پر مرکوز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان معامالت‬
‫میں ‪ ،‬متاثرہ افراد کے مدافعتی نظام پر زیادتی‬
‫ہوئی اور ان کے پھیپھڑوں میں مائع جمع ہوگیا۔‬

‫ایک نئی چیلنج موڈرنہ کو اپنے نئے امیدوار کی‬


‫ویکسین تیار کرنے کے ل ‪ overcome‬حاصل کرنا پڑا ‪ ،‬اس‬
‫کا اندازہ لگایا گیا تھا کہ خلیوں میں جانے کے ل‬
‫‪ its‬اس کے ایم آر این اے کو انجینئر کیا جائے۔ زیکس‬
‫کا کہنا ہے کہ اس کمپنی کو ایک موثر ایم آر این اے‬
‫انجینئر کرنے میں ‪ 4‬سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ‪،‬‬
‫اور اس نے لوگوں میں ٹیسٹ شروع کرنے میں آخری ‪ 4‬یا‬
‫اس سے زیادہ سال گذارے ہیں۔‬
‫کسی کورونا وائرس ویکسین کی ابتدائی آزمائش ‪ ،‬جو‬
‫فوکی اور زیکس کہتے ہیں کہ اپریل کے اندر ہی‬
‫ہوسکتا ہے ‪ ،‬اس ویکسین کی جانچ تقریبا ‪ 20 25‬سے ‪25‬‬
‫صحتمند افراد میں کی جائے گی ‪ ،‬اس بات کی تصدیق‬
‫کرنے کے کہ یہ محفوظ ہے اور یہ اس سے مضبوط قوت‬
‫مدافعت پیدا کرتا ہے۔ فوسی کا کہنا ہے کہ اس طرح‬
‫کے ایک مطالعہ میں عام طور پر تقریبا ‪ months 3‬ماہ‬
‫لگتے ہیں۔ اچھے نتائج سنبھال کر ‪ ،‬اس کے بعد ایک‬
‫بڑے مطالعہ کی ضرورت ہوگی۔‬
‫سارس کے ساتھ ‪ ،‬فوکی کا کہنا ہے کہ ‪ ،‬پہلی سطر کے‬
‫مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ امیدوار کی ویکسین‬
‫محفوظ ہے اور اس نے مناسب مدافعتی ردعمل پیدا‬
‫کیا ‪" ،‬لیکن پھر اس وبا کو بنیادی طور پر ختم‬
‫کردیا گیا ‪ "،‬لہذا اس کی کبھی ضرورت نہیں تھی۔‬

‫ماضی قریب کا بحران‬


‫ہیوسٹن کے بایلر کالج آف میڈیسن کے نیشنل اسکول آف‬
‫ٹراپیکل میڈیسن کے ڈین ‪ ،‬اور ٹیکساس ڈویلپمنٹ کے‬
‫لئے ٹیکساس چلڈرن ہاسپٹل سنٹر کے شریک ڈائرکٹر ‪،‬‬
‫پیٹر ہوٹیز ‪ ،‬ایم ڈی ‪ ،‬کی پیروی کے اس عمل سے‬
‫مایوسی ہوئی ہے۔‬

‫اگر اس وقت یہ مکمل طور پر تیار ہوچکا ہوتا تو ‪،‬‬


‫یہ اب نئے کورونا وائرس کے خالف کام کرسکتا ہے ‪،‬‬
‫لیکن اسے مارکیٹ میں النے کے لئے کوئی رقم نہیں‬
‫تھی۔ "ہمارے تیار کرنے کے بعد ‪ ،‬ہم اسے کلینیکل‬
‫ٹرائلز میں منتقل کرنے کے لئے مالی اعانت حاصل‬
‫نہیں کرسکتے ہیں۔"‬

‫ہوٹز کا کہنا ہے کہ "میں نے اس کو ایک چھوٹے بچوں‬


‫کے فٹ بال کھیل سے تشبیہ دی ہے‪ :‬ہر شخص گیند کے‬
‫پیچھے بھاگتا ہے ‪ ،‬اور کوئی بھی دفاع کھیلنے کے‬
‫لئے پیچھے نہیں رہتا ہے ‪ "،‬ہوتز کا کہنا ہے۔‬
‫"بدقسمتی سے ہم اس صورتحال میں ہیں۔"‬

‫وہ کہتے ہیں کہ ‪ ،‬ویکسین تیار کرنے کی قیمت کے‬


‫بارے میں فکر کرنے کے ل ‪ ، short‬جب چین میں موجودہ‬
‫جیسے مہاماری کی وجہ سے اس کی قیمت اور زیادہ‬
‫ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ‪" ،‬اگر ہم نے یہ معمولی‬
‫سرمایہ کاری حاصل کرلی ہوتی ‪ ،‬تو ہمارے پاس ویکسین‬
‫تیار ہوجاتی۔"‬
‫ہوٹیز کا کہنا ہے کہ ‪" ،‬اب ہم اس اکیسویں صدی کے‬
‫ہر عشرے میں بڑے کورونا وائرس [پھیلنے] کا شکار ہو‬
‫چکے ہیں ‪ "،‬ہوتز کا کہنا ہے کہ ‪ 2000 ،‬کی دہائی‬
‫اور مشرق وسطی میں سانس کے وائرس ‪ ،‬یا ایم ای آر‬
‫میں ‪ ،‬جس نے لگ بھگ ‪ 2،500‬افراد کو متاثر کیا ہے‬
‫اور ‪ 2012‬سے اب تک ‪ 850‬سے زیادہ افراد ہالک ہو چکے‬
‫ہیں۔ "ہم نے سنجیدگی سے ایک کورونویرس ویکسین لینا‬
‫شروع کی ہے اور ان کو بنانا شروع کرنے کے لئے‬
‫انفراسٹرکچر ڈالنا ہے۔"‬

‫فوکی کا کہنا ہے کہ نئے وائرس کے خالف کوئی عالج‬


‫موثر ثابت نہیں ہوا ہے ‪ ،‬حاالنکہ سارس کے عالج کے‬
‫لئے تیار کیے جانے والے متعدد افراد کو اب یہ‬
‫دیکھنے کے لئے جانچ کی جارہی ہے کہ آیا وہ بھی‬
‫مددگار ثابت ہوسکتے ہیں یا نہیں۔‬

‫برمنگھم میں االباما یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں‬


‫کے ڈویژن کے ڈائریکٹر ‪ ،‬ژن میرازازو ‪ ،‬ایم ڈی ‪ ،‬کا‬
‫کہنا ہے کہ جب تک محفوظ ‪ ،‬موثر ویکسین تیار نہیں‬
‫کی جاسکتی ہے ‪ ،‬بہترین ہاتھ سے ہاتھ دھونے کا کام‬
‫باقی رہتا ہے۔‬

‫"ہاتھوں کی حفظان صحت کو زیادہ سے زیادہ نہیں‬


‫سمجھا جاسکتا ہے ‪ "،‬وہ کہتی ہیں۔ "مجھے نہیں لگتا‬
‫کہ لوگوں کو اس وقت ہاتھ مالنے کی ضرورت ہے۔" سی ڈی‬
‫سی نے ہاتھ دھونے کی سفارش کی ‪ ،‬ہاتھا پائی کے بعد‬
‫کم سے کم ‪ 20‬سیکنڈ تک ہاتھ صاف کرنا ‪ -‬اس وقت کے‬
‫بارے میں جس میں "مبارکباد سالگرہ" گانے میں کتنا‬
‫وقت لگتا ہے۔ ‪.‬‬

‫اس کے عالوہ ‪ ،‬وہ نوٹ کرتی ہے ‪ ،‬اگر آپ کو سانس کی‬


‫عالمات مل جاتی ہیں تو ‪ ،‬آپ کو نئے کورونا وائرس کے‬
‫مقابلے میں "باغ کی قسم" فلو لگنے کا زیادہ امکان‬
‫ہے۔ اس فلو سے ایک سال میں دسیوں ہزار امریکی ہالک‬
‫ہو رہے ہیں۔ اس موسم میں اب تک ‪ 54‬بچے بھی شامل‬
‫ہیں۔ فلو کی ویکسین محفوظ اور عام طور پر موثر‬
‫ثابت ہوئی ہے۔‬

‫ماری زازو کا کہنا ہے کہ نچلی بات یہ ہے کہ اگرچہ‬


‫نئے کورونا وائرس کے خالف کوئی ویکسین ابھی باقی ہے‬
‫لیکن اس میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے۔‬

‫"یہ بتانا ایک طرح کی حوصلہ افزائی کی بات ہے کہ‬


‫سارس کے بعد ویکسین ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری نے‬
‫بہت طویل سفر طے کیا ہے۔"‬

You might also like