Professional Documents
Culture Documents
Politically
Socially
Economically
Economic?
Social?
https://books.google.co.uk/books?
id=6eEZAzxsJqMC&pg=PA339&lpg=PA339&dq=media+conglomerate+financial+press
ures&source=bl&ots=dD68hNqVwj&sig=HPcxkGYsfVZrYE5FUT4Eme_AF9w&hl=en&s
a=X&ved=0ahUKEwixo4yd5rrQAhVJDMAKHbFRBPUQ6AEINTAE#v=onepage&q=me
dia%20conglomerate%20financial%20pressures&f=false
BBC professes through it's Reithan Values and Charter to
provide impartiality therefore it should be representing Politics
fairly.
Despite criticism it still has to work hard to construct unbiased
news content.
That said it is providing a service to the public and with it comes
much political pressure on both services and content.
BBC radio was under pressure to outsource recently
Bob Shennan said " there had been talk of radio production going
the same ways as TV with 100 per cent being put out to tender.
He admitted the BBC had been put under pressure from the
Department of Culture, Media and Sport and politicians to go
further than to 60 per cent, but eventually they came up with a
deal that RIG could agree to. He admitted the tendering process
would shift resources away from programme making, but said the
BBC’s in-house production would benefit from the competition
and would win out because of its quality. “Just because 60 per
cent is put out to tender, it does not mean that 60 per cent will go
out of the BBC "
Legal frameworks and legislation must be adhered
too as with all media
Political?
Society has more power than ever before and whilst media should conform to
regulations, people also know what is legal and ethical and are not afraid to complain.
Institution are working with a hard to please media savvy generation.
BBC generates £3 billion a year from the public license fee.
Services provided must remain within budget BUT still conform to it's charter to be spend wisely, provide quality media
that 'Educates, Informs and Entertains'
Needs to raise additional funds by it's World service (commercial arm) as substitute for the lost revenue from not
advertising. Profits from DVD sales, merchandise etc help keep license fee low.
Vertical integration is cost effective for BBC
Digital switch over has had large impact on finances as it's raised competition and choice for consumers.
Economics
PSB Vs COMMERICAL
Political Pressures on BBC
Economic pressure
شیئرٹویٹnnnشیئرای میلتبصرے
مزید شیئر
شیطان وائرس حملہ ٓاور ہوجائے تو کیا عالمات ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا عالج کیسے کیاجاسکتاہے؟
کروناوائرس نے پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ چند ہی دنوں میں یہ وائرس ایک قہر بن
کر ٹوٹ پڑا ہے۔
چین کے صدر کے مطابق کرونا وائرس ایک ’’ شیطان‘‘ ہے ،اس شیطان کا ساری ُدنیا کو مقابلہ
کرنا ہے۔ وائرس سے ہونے والی پھیپھڑوں کی بیماری اور اس کا انفیکشن جان لیوا ثابت ہو سکتا
ہے۔
پچھلے دو ہفتوں میں’کرونا وائرس‘ چین میں 132انسانوں کو نگل چکا ہے جبکہ اس وقت چین
میں ساڑھے چار ہزار سے زائد لوگ اس سے متاثر ہیں۔ ُدنیا بھر میں ہیلتھ الرٹ جاری کئے جا
چکے ہیں۔ چین ٓانے اور جانے والوں کی ائیرپورٹس پر اسکریننگ ہو رہی ہے۔ متعدد ممالک نے
چین ٓانے اور جانے والی پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے ’کرونا وائرس‘ کے پھیالؤ کو ایک میڈیکل ایمرجنسی قرار دیا ہے اور اس
کے پھیالؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیربھی جاری کی ہیں۔ اس سے پہلے بھی اسی طرح
کے وائرس سے ُد نیا کو پاال پڑا تھا جن میں ڈینگی وائرس ،وائن فلو وائرس ،برڈ فلو اور سارس
جیسے وائرس شامل ہیں مگر ان کی تباہ کاریاں ’کرونا‘ جیسی نہ تھیں مگر’’ کرونا وائرس‘‘ نے
ساری ُدنیا کو ہال کر رکھ دیا ہے۔
میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی اور جدت کے باوجود ابھی تک وائرس سے پھیلنے والے امراض
کے عالج کے لیے کوئی واضح پروٹوکول موجود نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی خاص ویکسین
دستیاب ہے۔ نتیجتا ً وائرس کی وجہ سے ہونے والے امراض میں اموات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
چین سے ملحقہ ممالک بھی اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
ٓاسڑیلیا ،تائیوان ،نیپال ،جاپان ،تھائی لینڈ ،جنوبی کوریا بلکہ امریکا میں بھی کرونا وائرس سے
متاثر افراد کے کیسز دیکھنے میں ٓائے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے چینی انجنئیرز اور ورکرز
متعدد قومی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں ،اس لئے پاکستان میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا
ہے۔
کرونا وائرس‘ کی خبروں کی بعد اورنج الئن ٹرین اور دوسرے منصوبوں جات پہ کام کرنے’
والے چینی باشندوں کا کام سے روک دیا گیا ہے اور انہیں اسکریننگ ہونے تک ان کی رہائش
گاہوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ’کرونا وائرس‘ کے بارے میں قومی ادارہ صحت نے بھی ہیلتھ
ایڈوائزری جاری کی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مختلف ائیر پورٹس پر اس سلسلے میں ہیلتھ
کاؤنٹرز قائم کر دیئے ہیں۔
مختلف ہسپتالوں میں علیحدہ ٓائسولیشن وارڈبنا دیے گئے ہیں۔ بیماری کی تشخیص کے لیے چین
سے ’کرونا وائرس‘ کی تشخیص کے لئے ٹیم ٓاج پاکستان پہنچ جائے گی دوسری طرف عالمی
ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے نے بھی تشخیصی کٹس کی فراہمی کر دی ہیں۔
٭کرونا وائرس کیا ہے؟
٭بیماری کا ٓاغاز کب ہوا؟
٭ کرونا وائرس کا انفیکشن کیسے پھیلتاہے؟
٭اس سے بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں؟
٭اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
عوام الناس کی رہنمائی کے لیے اس مضمون میں ان تمام سوالوں کا جواب دیا جا رہا ہے۔ کرونا
وائرس سے متاثرہ لوگوںکو زکام ،گال خراب ،سر درد اور بخار کی عالمات ہوتی ہیں ،جسم تھکا
تھکاسا لگتا ہے ،ناک مسلسل بہتی ہے۔ انفیکشن زیادہ ہو جائے تو پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔ سب
سے زیادہ خطر ناک وہ لمحہ ہوتا ہے جب انفیکشن کی وجہ سے نمونیہ ہو جائے۔ اس سے
پھیپھڑوں میں زبردست انفیکشن ہو جاتا ہے ،سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ،بخار زیادہ ہو
جاتا ہے ،ایسے میں فوری طور پر ہسپتال میں عالج کی ضرورت پیش ٓاتی ہے۔ انفیکشن زیادہ
ہونے کی صورت میں سانس رک جاتی ہے اور مصنوعی تنفس دینا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس
حالت میں یہ میڈیکل ایمرجنسی بن جاتی ہے۔ اگر انفیکشن پھیل جائے تو سانس رک جاتا ہے اور
چند گھنٹوں ہی میں موت واقع ہو سکتی ہے۔
کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی تمام عالمات نمونیہ سے ملتی جلتی ہیں۔ اس سے ہونے
والی بیماری کا ٓاغاز دسمبر2019ء میں چین کے صوبے ہوبی کے شہرو وہان میں ہوا جہاں اب
تک 132اشخاص جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ بیجنگ میں بھی ایک شخص کی ہالکت کی اطالع
ہے۔ بھارت میں بھی ایک موت ہوئی ہے۔ اس سے ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ 9ہزار
سے زیادہ مشکوک کیسز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ چین کے صوبہ ہوبی اور ووہان میں پانچ سو سے
زیادہ پاکستان طالب علم وہاں کی مختلف یونیورسٹیوں• میں زیر تعلیم ہیں ،انہوں نے ارباب اختیار
سے اپیل کی ہے کہ انہیں فوری طور پر وہاں سے نکاال جائے تاکہ وہ اس جان لیوا وائرس کی تباہ
کاریوں سے محفوظ رہیں۔
کرونا وائرس ٓاسانی سے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند شخص کومنتقل ہوجاتا ہے۔ متاثرہ
شخص دو سے پانچ دن تک بیماری کو دوسروں تک پھیال سکتا ہے۔ اس وجہ سے اگر کسی کو
بیماری کی تشخیص ہوگئی ہو تو اسے کم از کم ایک ہفتے تک علیحدگی میں رکھا جاتا ہے تاکہ
صحت مند اشخاص وائرس سے بچے رہیں۔ بیماری کے ٓاغاز میں عالمات زکام اور نظام تنفس
کے باالئی حصے کے انفیکشن سے ملتی جلتی ہیں۔ اس لیے اس دوران عالج سے افاقہ ہو جاتا ہے
مگر سب سے ضروری امر یہ ہے کہ اس دوران مریض کو علیحدگی میں رکھا جائے تاکہ
دوسرے صحت مند اشخاص بیماری کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہیں۔کرونا وائرس کی تشخیص
کے لیے اور جسم میں وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے بلڈ ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔
چین میں کروناوائرس سب سے پہلے سانپوں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ پالتو بلیاں اور
کتے بھی اس وائرس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان سے وائرس انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے۔
زکام کی طرح کرونا وائرس سے ہونے والی عالمات بھی زیادہ تر 7دن سے لیکر 10دن تک
جاری رہتی ہیں اگر اس دوران مکمل ٓارام کیا جائے اور ڈاکٹر کے مشورہ سے ادویات لی جائیں تو
مرض میں افاقہ ہو جاتا ہے اور ٓادمی صحت مند ہو جاتا ہے۔ اس لیے کرونا وائرس سے زیادہ
گھبرانے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ زیادہ تر متاثرین ہفتے دس دن تک خود بخود
ٹھیک ہو جاتے ہیں۔
کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے چین نے اپنے مختلف صوبوں میں الک ڈاؤن
کردیا ہے۔ شہروں میں 6کروڑ سے زیادہ چین باشندے اپنے شہروںتک محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔
شنگھائی شہر میں نئے سال کی چھٹیاں 9فروری تک بڑھا دی گئی ہیں۔ ابھی تک چین میں متاثرہ
افراد کی تعداد 5974تک پہنچ گئی ہے جس میں 976افراد کی حالت نمونیہ کی وجہ سے
تشویشناک ہے۔ چینی کی یونیورسٹیوں• میں داخلے کے ٹیسٹ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ یعنی
ت خارجہ کے اعالن کے مطابق چین کے شہر زبردست میڈیکل ایمر جنسی لگا دی گئی۔ وزار ِ
ووہان میں 515پاکستان طالب علم زیر تعلیم ہیںاور وہ الحمدہللا صحت مند ہیں۔ کسی بھی طالب علم
میں وائرس کی موجودگی کے ٓاثار نہیں پائے گئے مگر سب بچے پریشان ہیں اور وہاں سے وطن
منتقل ہونے کے متمنی ہیں۔ ہللا ان طالب علموں کی حفاظت فرمائے۔
چین کے شہری کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ بینرز لگے
ہوئے ہیں ’’:ہم کرونا وائرس سے شکست نہیں کھائیں گے ،ہم شیطان وائرس کو مار بھگائیں
گے‘‘۔ ووہان میں الک ڈاؤن کی وجہ سے سبزیوں اشیائے خورو نوش اور ادویات کی قلت پیدا ہو
گئی ہے۔ چین کے دوسرے شہروں سے چینی کے بہادر لوگوں نے ووہان کے ہم وطنوں سے
اظہار یک جہتی کے لیے سبزیوں ،اشیائے خورو نوش اور ادویات کے سینکڑوں کنٹینرز ووہان ِ
ُ
پہنچا دیئے ہیں ۔ اگرچہ کرونا وائرس نے چین کے ساتھ دنیا بھر میں کھلبلی مچا دی ہے ،اس سے
ہالکتوں اور متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس کا عالج اتنا مشکل نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ کرونا وائرس سے ہونے واال زکام یا اس سے ہونے والی سانس میں رکاوٹ
ابتدائی طور پر جاں لیوا مرض نہیں۔ ٓارام کرنے ،بخار اور کھانسی اور انفیکشن کی ادویات لینے
سے مرض کی عالمات میں افاقہ ہو جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص میں
کرونا وائرس کی تشخیص ہو جائے یا اس جیسی عالمات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں تو اس مریض
کو کم از کم سات دن کے لیے علیحدگی میں رکھا جائے۔ اگر ٹیسٹ کرونا وائرس کے لیے پازیٹو
ٓاجائے تو ٹیسٹ ٓانے کے کم از کم ایک ہفتہ تک اس مریض کو مکمل علیحدگی میں رکھا جائے۔
ضروری ہے کہ مریض اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والے تمام اشخاص احتیاطی تدابیر،
زیر
ماسک اور دستانے استعمال کریں۔ مریض کے کمرے میں اسپرے کیا جائے اور اس کے ِ
Heatاستعمال ٹشو پیپرز کو علیحدہ تلف کیا جائے۔ کرونا وائرس زکام کے وائرس کی طرح
وائرس ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مریض کو بھاپ دی جائے اور پینے کے لیے Sensitive
قہوہ ،سبزیوں کا سوپ دیا جائے تا کہ بیماری کی عالمات کم سے کم رہیں۔
بخار ہونے کی صورت میں بخار ختم کرنے والی ادویات دی جائیں۔ کھانسی کی صورت میں ایک
کپ گرم پانی میں دو چمچ شہد اور تھوڑی سی کالی مرچ ڈال کر دیں۔ بیماری کی تشخیص ہو
جائے تو صبح شام ایک کپ گرم دودھ میں ایک چمچ ہلدی ایک چمچ زیتون کا تیل اور ایک چمچ
تعالی نے بے حد شفاء رکھی ہے۔
ٰ شہد ڈال کر دیں۔ ہلدی اور زیتون کے تیل میں ہللا
ان دونوں میں انفیکشن کنٹرول کرنے کے صالحیت اور اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ شہد
ویسے ہی ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ زکام اور گلے کے انفیکشن کے لیے پودینہ ،سونف ،دار
چینی اور ادرک کا قہوہ بھی مفید ہے۔ مریض کو پینے والی گرم چیزیں دینے سے مرض میں
خاطر خواہ افاقہ ہوتا ہے۔ مریض کے ساتھ خوشی گوار رویہ رکھا جائے کیونکہ علیحدگی میں
رکھنے کے باوجود مریض سے رابطہ رکھا جاسکتا ہے۔ چین کی اپنے شہریوں تک محدود کرنے
کی ہدایات سے 1440سال پہلے رسول اللہﷺ کی دی گئی ہدایات یاد ٓاتی ہیں۔
مدینہ میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو ٓاپ نے اس مرض میں مبتال ہونے والے افراد کو اپنا
شہر چھوڑنے سے منع فرمایا تاکہ مرض دوسرے عالقوں میں صحت مند افراد میں منتقل نہ ہو۔
اسامہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ؓ مسلم شریف کی جلد نمبر 2میں حضرت
فرمایا کہ طاعون اور متعدی بیماری ایک عذاب ہے جو پہلی امتوں پر مسلط کیا گیا۔ جب کسی
عالقے یا شہر میں کوئی وبا پھیل جائے تو ضروری ہے کہ متاثرہ شہر کے باشندے اپنا عالقہ
چھوڑ کر نہ جائیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے شہروں کے لوگ متاثرہ شہر یا عالقے میں
نہ جائیں۔ جو ہدایات ٓاج کی میڈیکل سائنس میں اب سامنے ٓارہی ہیں وہ ہادی دو جہاں
ﷺ نے ہمیں 1440سال پہلے بتا دیں (ماشاء ہللا) ۔
پاکستان میں بھی بیماری کے پھیالؤ کا خدشہ ہے۔ 5مشتبہ کیسز سامنے ٓائے ہیں۔ کرونا وائرس
سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں۔ مریض کے زیر استعمال ٹشو پیپرز
اور دوسری اشیاء کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے جبکہ کھانسی یا چھینک ٓانے پر منہ اور
ناک کو ٹشو یا رومال سے ڈھانپ کر رکھا جائے۔ بخار ،کھانسی اور سانس لینے کی صورت میں
فوری طور پر ڈاکٹر یا ہسپتال سے رابطہ کریں۔ نزلہ ،زکام اور سانس میں رکاوٹ محسوس ہو تو
دفتر یا سکول ،کالج جانے سے پرہیز کریں ،گھر میں رہ کر ٓارام کریں ،دوچار دن ٓارام کرنے
سے طبیعت بحال ہو جاتی ہے۔
بیماری اور وبا ہللا کی طرف سے ٓاتی ہے۔ بیماریوں سے بچنے کے لیے ہللا سے خیروعافیت کی
ُ :دعا کریں۔ بیماریوں سے پناہ مانگیں اور مندرجہ ذیل ُدعا پڑھیں
ٰ
الجنون َوال ُج َذ ِام َو ِمن َسیِئی اال سقَام (ٓامین)
ِ ص َو اَللّہُ َّم اِنّ ِی اَ ُُعو ُذبِ َ
ک ِم َن البَ َر ِ
ا ے ہللا! میں ٓاپ کی پناہ مانگتا ہوں برص سے ،دماغی خرابی سے ،کوڑھ سے اور ہر قسم کی ’’
‘‘بُری بیماریوں سے۔
اس ُد عا کے بار بار پڑھنے سے ہللا ٓاپ کو ’کورنا وائرس‘ سمیت ہر طرح کے متعدی امراض
سے محفوظ رکھے گا۔ صدقہ بال اور بیماری کو ٹالتاہے۔ اس لیے صحت مند رہنے کے لیے دوا،
ُدعا کے ساتھ صدقہ بھی ضرور کریں۔
کرونا وائرس اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ فوٹو :فائل
کراچی :چین میں کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال 2
پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ ٓاور ہوکر ہالکت کی وجہ بن سکتا ہے
اور اب تک دو درجن سے زائد افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس مضمون 2میں
کرونا وائرس کے متعلق عام سواالت کےجوابات دیئے جارہے ہیں۔
کرونا وائرس کیا ہے؟
کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اسے خردبین کے ذریعے
دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرٓائے جوعموما تاج (کراؤن) جیسی
شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ الطینی زبان میں تاج کو
کرونا کہا جاتا ہے۔
اب بھی زیادہ تر جان دار مثالً خنزیر اور مرغیاں ہی اس سے متاثر ہوتے دیکھے گئی ہیں لیکن یہ
وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے اور کرتا رہا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں
کرونا وائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی کئی تبدیل شدہ اقسام ( مجموعی طور پر )13
سامنے ٓاچکی ہیں جنہیں اپنی ٓاسانی کے لیے کرونا وائرس کا ہی نام دیا گیا ہے تاہم ان کرونا
وائرس کی 13اقسام میں سے سات انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ اس سال چین
کا نام دیا گیا ہے جو اس وائرس کی nCoV 2019کے شہر ووہان میں ہالکت خیز وائرس کو
بالکل نئی قسم ہے۔
کرونا وائرس کیسے حملہ کرتا ہے؟
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی ذیلی اقسام میں سے انسانوں کے لیے تین ہالکت خیز وائرسوں
میں سے دو چین سے پھوٹے ہیں۔ اول ،سیویئر ریسپریٹری سنڈروم (سارس) ،دوسرا مڈل ایسٹ
وسطی سے اور اب تیسرا 2019
ٰ مشرق
ِ بھی چین کے شہر nCoVریسپائریٹری سنڈروم (مرس)
ووہان سے پھیال ہے۔
ووہان وائرس سانس کی اوپری نالی پر حملہ کرتے ہوئے سانس کے نچلے نظام کو متاثر کرتا ہے
اورجان لیوا نمونیا یا فلو کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس سے قبل 2003ء میں سارس وائرس سے چین
میں 774افراد ہالک اور 8000متاثر ہوئے تھے۔ مرس اس سے بھی زیادہ ہولناک تھا۔
نئے کرونا وائرس حملے کی عالمت بتایئے؟
چین میں لوگوں نے بد ہضمی ،سردی لگنے ،بخاراور کھانسی کی شکایت کی ہے۔ جن پر حملہ
شدید ہوا انہوں نے سانس لینے میں دقت بیان کی ہے۔ صحت کے عالمی اداروں کے مطابق وائرس
سے متاثر ہونے کے دو روز سے دو ہفتے کے دوران اس کی ظاہری عالمات سامنے ٓاتی ہیں۔ اس
کے بعد ضروری ہے کہ مریض کو الگ تھلگ ایک قرنطینہ میں رکھا جائے۔ اس وقت ووہان کے
لوگوں نے کئی دنوں کا راشن جمع کرلیا ہے اور اکثریت باہر نکلنے سے گریزاں ہے۔
نئے کرونا وائرس کی تشخیص اور عالج کیسے ممکن ہے؟
چینی محکمہ صحت نے ووہان سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی•
ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا
ویکسین سامنے نہیں ٓاسکی ہے کیونکہ دسمبر 2019ء میں نیا وائرس سامنے ٓایا ہے اور ماہرین
دعوی ہے کہ وائرس سے ٰ اس کی ظاہری عالمات سے ہی اس کا عالج کررہے ہیں۔ اگرچہ چین کا
متاثر ہونے والے 4فیصد افراد ہی ہالک ہوئے ہیں تاہم عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس سے
متاثرہ 25فیصد مریض شدید بیمار ہیں۔
کیا کرونا وائرس سانپ اور چمگاڈر سے پھیال؟
ٰ
دعوی کیا تھا کہ پہلی مرتبہ کرونا دوروز قبل چینی سائنس دانوں نے جینیاتی تحقیق• کے بعد
وائرس کی کوئی نئی قسم سانپ سے پھیلی ہے جنہیں ووہان کے بازار میں زندہ چمگادڑوں کے
ساتھ رکھا گیا تھا تاہم دیگر ماہرین نے یہ امکان رد کردیا ہے۔ چین میں سانپ ،حشرات اور
چمکادڑوں کے سوپ اور کھانے عام ہیں۔
دیگر ممالک کے ماہرین کا اصرار ہے کہ پہلے کی طرح یہ وائرس بھی ایسے جانوروں سے
پھیال ہے جو چینی بازاروں میں پھل اور سبزیوں کے پاس ہی زندہ فروخت کیے جاتے ہیں۔ لوگ
ان سے متاثر ہوسکتے ہیں اور سارس بھی ایسے ہی پھیال تھا۔ چینی ماہرین کا اصرار ہے کہ
سانپ اور چمگاڈروں کا فضلہ ہوا میں پھیل کر سائنس کے ذریعے انسانوں میں اس وائرس کی
وجہ بن سکتا ہے لیکن دوسرے ماہرین اس سے متفق نہیں۔
کیا یہ وائرس عالمگیر وبا بن سکتا ہے؟
ماہر حیوانیات اور مصنف ،ڈاکٹر صالح الدین قادری نے
ِ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز
:بتایا کہ کسی بھی وائرس کو عالمی وبا بننے کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں
اول :وائرس کی نئی قسم ہو
دوم :حیوان سے انسان تک منتقل ہونے کی صالحیت
سوم :انسان میں مرض پیدا کرنے کی صالحیت
چہارم :انسان سے انسانوں تک بیماری پیدا کرنے کی استعداد
اس تناظر میں نئے کرونا وائرس میں یہ چاروں باتیں سامنے ٓاچکی ہیں۔ ڈاکٹر سید صالح الدین
قادری نے بتایا کہ یہ وائرس بہت کم وقفے میں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے اور اس
سے قبل سوائن فلو کی وبا صرف ایک ماہ میں کئی ممالک تک سرایت کرچکی تھی۔
کرونا وائرس پاکستان ٓاسکتا ہے؟
اس سوال کا فوری جواب ہاں میں ہے۔ واضح رہے کہ چینی شہر ووہان کا یہ وائرس پہلے دیگر
شہروں میں پھیال ہے۔ اس کے بعد جاپان ،تھائی لینڈ ،سنگاپور اور امریکا میں اس کی تصدیق
ہوچکی ہے۔ پوری دنیا کے ہوائی اڈوں پر چینی مسافروں کی اسکیننگ کی جارہی ہے۔ ایک
مریض برطانیہ میں بھی سامنے ٓایا ہے لیکن عالمی ادارے نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
پاکستانی ہوائی اڈوں پر بھی اسکیننگ کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں چینی ماہرین
سی پیک اور دیگر منصوبوں کے لیے پاکستان ٓاتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کڑی نگرانی
اور اسکیننگ کی ضرورت ہے۔ صرف چین میں ہی ایک شخص سے کئی افراد متاثر ہونے کے
شواہد بھی سامنے ٓائے ہیں۔
وزیر مملکت برائے صحت ظفرمرزا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے پاس کرونا وائرس کی
ِ
شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان کو مزید
چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔
یہ وائرس کتنا مہلک ہے؟
اب تک چین میں 26افراد اس وائرس سے ہالک ہوچکے ہیں اور متاثرین کی تعداد 830سے
تجاوز کرچکی ہے۔ ووہان اور دیگر دس شہروں میں عوامی ٹرانسپورٹ بند ہے اور لوگ گھروں
تک محصور ہوچکے ہیں۔ تاہم نئے قمری سال کی تقریبات پر الکھوں کروڑوں لوگ باہر نکلتے
ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس تناظر میں یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔
چینی حکام نے کہا کہ وائرس سے شکار ہونے والے 4فیصد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔ اس
لحاظ سے کرونا وائرس کی ہالکت خیز شدت کم ہے۔ دوسری جانب یونیورسٹی ٓاف ایڈنبرا میں
انفیکشن امراض کے ماہر ڈاکٹر مارک وول ہاؤس اس سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
شاید یہ اوسط درجے کے انفیکشن اور سارس کے درمیان کی شدت رکھتا ہے جس سے زائد
اموات ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وائرس خود کو مزید تبدیل کرلے تو شاید زیادہ مہلک
ہوسکتا ہے۔
کرونا وائرس سے کیسے بچا جائے؟
:عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں جن کا خالصہ یہ ہے
بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔
کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے
قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا
جائے۔ کسی کی بھی ٓانکھ ،چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔
ڈاکٹر قادری نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے جس طرح کی ہدایات دی ہیں وہ وضو سے پوری
ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ میں بہت
معاون ثابت ہوتا ہے۔
پاکستان سے چین جانے والوں کے لیے کیا ہدایات ہیں؟
اقوام متحدہ نے چین کے لیے ایسی کوئی ہنگامی صورتحال کا اعالن نہیں کیا تاہم کہا ہے کہ وہ
ِ
عمومی احتیاط اختیار کریں اور اپنی سفری تاریخ سے حکام کو ٓاگاہ کریں۔ دوسری جانب جہاں
ضروری ہو اسکیننگ کے عمل سے گزرا جائے۔
شیئرٹویٹnnnشیئرای میلتبصرے
مزید شیئر
انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب• یا ماسک کا استعمال• دنیا کے بہت• سے ممالک میں مقبول ہے۔ فوٹو:
فائل
کسی بھی وائرس کے پھیلنے کے بعد سب سے زیادہ نظر ٓانے والی تصاویر ڈاکٹروں 2والے
ماسک پہنے لوگوں 2کی دکھائی دیتی ہیں۔
انفیکشن سے بچنے کے لیے ایسے نقاب یا ماسک کا استعمال دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول
ہے۔ خاص طور پر چین میں کورونا وائرس کے حالیہ پھیالٔو کے دوران ان کا استعمال بڑھ گیا ہے
جبکہ ایسے ہی ماسک چین میں بڑے پیمانے پر پائی جانے والی فضائی ٓالودگی سے بچنے کے
لیے بھی پہنے جاتے ہیں۔ تاہم ماہرین فضا سے پھیلنے والے وائرس سے بچأو میں ماسک کے
پراثر ہونے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن کچھ ایسے شواہد ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا
ہے کہ ماسک وائرس کی ہاتھوں سے منہ تک منتقلی روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
سرجیکل ماسک 18ویں صدی میں ہسپتالوں میں متعارف کروائے گئے مگر عوامی سطح پر ان کا
استعمال 1919میں اس ہسپانوی فلو سے قبل سامنے نہیں ٓایا جو پانچ کروڑ افراد کی ہالکت کی
وجہ بنا تھا۔
برطانیہ کی سینٹ جارج یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ڈیوڈ کیرنگٹن نے بی بی سی نیوز کو بتایا
کہ ’عام استعمال کے سرجیکل ماسک فضا میں موجود وائرس یا بیکٹیریا سے بچأو کے لیے بہت
پراثر ثابت نہیں ہوئے اور زیادہ تر وائرس اسی طریقے سے پھیلے تھے۔ ان کی ناکامی کی وجہ
ان کا ڈھیال ہونا ،ہوا کی صفائی کے فلٹر کی عدم موجودگی اور ٓانکھوں کے بچأو کا کوئی انتظام
نہ ہونا تھا۔‘ لیکن یہ ماسک کھانسی یا چھینک کی رطوبت میں موجود وائرس سے بچأو اور ہاتھ
سے منہ تک وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے تھے۔
سنہ 2016میں نیو سأوتھ ویلز میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دیکھا گیا کہ لوگ ایک گھنٹے
میں تقریبا ً 23مرتبہ اپنے منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ پروفیسر جوناتھن بال یونیورسٹی ٓاف ناٹنگھم میں
مالیکیولر وائرالوجی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک ہسپتال کے ماحول میں
کی جانے والی محدود تحقیق یا کنٹرولڈ سٹڈی میں فیس ماسک بھی انفلوئنزا• کے انفیکشن سے بچأو
‘میں اتنا ہی اچھا رہا جتنا اس مقصد کے لیے بنایا جانے واال سانس لینے واال مخصوص ٓالہ تھا۔
سانس لینے کے لیے بنایا جانے والے اس ٓالے میں ہوا کو صاف کرنے کے لیے فلٹر لگا ہوتا ہے
اور یہ خاص طور پر اس طریقے سے بنایا جاتا ہے کہ اس سے ممکنہ طور پر فضا میں موجود
خطرناک ذرات سے بچنے میں مدد مل سکے۔ پروفیسر بال مزید کہتے ہیں کہ بہرحال جب ٓاپ
عمومی سطح پر عوام میں ماسک کے فائدے سے متعلق کی گئی تحقیقات کو دیکھتے ہیں تو اعداد
وشمار اتنے مثاثرکن نظر نہیں ٓاتے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماسک کو طویل وقت تک استعمال
کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کونوربیمفرڈ بیلفاسٹ کی کوئینز یونیورسٹی میں تجرباتی ادویات کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں صفائی سے متعلق سادہ سی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت
زیادہ سودمند ہے۔ وہ کہتے ہیں ’جب چھینک ٓائے تو منہ ڈھکنا ،ہاتھ دھونا اور ہاتھ دھونے سے
پہلے انھیں منہ پر نہ لگانا ایسے اقدامات ہیں جو سانس کے ذریعے وائرس کی منتقلی روکنے میں
مددگار ہو سکتے ہیں۔
برطانیہ کے قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فلو پیدا کرنے والے وائرس وغیرہ سے بچنے کے
:لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ
٭ ہاتھوں کو گرم پانی اور صابن سے باقاعدگی سے دھویا جائے۔
٭ جتنا بھی ممکن ہو اپنی ٓانکھوں اور ناک کو چھونے سے گریز کریں۔
٭ صحت مند انداز زندگی کو اپنائیں۔
ڈاکٹر جیک ڈننگ پبلک ہیلتھ انگلینڈ میں انفیکشنز اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے
والے امراض سے متعلق شعبے کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ خیال ظاہر کیا جاتا
ہے کہ منہ پر ماسک پہننا شاید فائدہ مند ہے ،حقیقت میں ہسپتال کے ماحول سے باہر اس کے بڑے
پیمانے پر فائدہ مند ہونے کے بہت ہی کم شواہد ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ماسک کو صحیح طریقے
سے پہننا چاہیے ،اسے تبدیل بھی کرتے رہنا چاہیے اور انھیں محفوظ طریقے سے تلف کرنا
چاہیے۔
ڈاکٹر ڈننگ کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو اس حوالے سے خوف ہے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی
جسمانی ،خاص طور پر ہاتھوں کی صفائی پر زیادہ توجہ دیں۔
31دسمبر 2019کو ،چین کے صوبہ ہوبی کے شہر ووہان
سٹی میں نمونیا کے متعدد معامالت کے بارے میں ڈبلیو
ایچ او کو آگاہ کیا گیا۔ یہ وائرس کسی دوسرے معلوم
وائرس سے مماثل نہیں ہے۔ اس سے تشویش پیدا ہوگئی
کیونکہ جب کوئی وائرس نیا ہے تو ہم نہیں جانتے کہ
اس سے لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔