You are on page 1of 12

‫سنہرا اسالمی دور‪ :‬خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی‬

‫کہانی‪ ،‬کتنی حقیقت‪ ،‬کتنا افسانہ‬


‫‪ 1‬ستمبر ‪2020‬‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫ہارون الرشید اپنے مصاحبین کے ہمراہ خیمے میں (آئل پینٹنگ)‬

‫بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسالمی دور‘ کی اس قسط میں پروفیسر جولیا برے نے خلیفہ ہارون‬
‫الرشید کی شحضیت پر روشنی ڈالی ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے اُن کے زمانے کا بغداد کیسا تھا۔ ہارون الرشید کو‬
‫ایک اچھے اور فن کی قدر کرنے والے حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تاہم اس بات کے بھی کافی شواہد ہیں کہ‬
‫مستقبل کے بارے میں ان کی ناقص منصوبہ بندی خون خرابے اور افراتفری کا باعث بنی۔‬
‫مگر کیسے؟ پڑھیے پروفیسر برے کے اس مضمون میں۔ بی بی سی ریڈیو تھری کی اس سیریز میں سنہ ‪ 750‬سے‬
‫سنہ ‪ 1258‬تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سیریز میں اس دور کے اہم واقعات اور شخصیات کے عالوہ فن تعمیر‪ ،‬طب‬
‫کے شعبے میں کام‪ ،‬ایجادات اور فلسفے جیسے مضامین میں اہم پیشرفت کا ذکر ہو گا۔ بی بی سی اُردو نے ریڈیو پر‬
‫نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔‬

‫ہارون الرشید وہ خلیفہ ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ مشہور داستان ’الف لیلی‘ کے خلیفہ۔ مصنف ٹینیسن کے‬
‫نیک دل ہارون الرشید۔۔۔ لیکن ہم اُن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہمارے خیال میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا دور خالفت کا‬
‫’سنہرا دور‘ تھا۔‬

‫وسطی ایشیا سے لیبیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور کے بارے میں ٹینیسن‬
‫ٰ‬ ‫ہارون الرشید کی تخت نشینی ہر اُن کی سلطنت‬
‫نے لکھا ’ایک اچھا وقت‪ ،‬ایک اچھی جگہ کیونکہ یہ نیک ہارون الرشید کے عروج کا زمانہ تھا۔‘‬

‫لیکن وہ دور کتنا اچھا تھا؟ اس دور کے ’سنہرے‘ ہونے کا تصور بہت بعد میں پیدا ہوا اور یہ شاید خالفت کی انتہائی‬
‫الجھی ہوئی ‪ 600‬سالہ تاریخ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا طریقہ ہے۔ ان ‪ 600‬سو برسوں میں سنہ ‪ 786‬سے سنہ‬
‫دور خالفت ‪ 20‬برسوں سے کچھ زیادہ ہے۔‬
‫‪ 809‬تک ہارون الرشید کا ِ‬

‫مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فنون لطیفہ‪ ،‬سائنس اور ادب میں بہت سا بہترین کام ہارون الرشید کے بعد‬
‫ابھی آنا تھا۔‬

‫ہمارے نزدیک ہارون الرشید اور بغداد‪ k‬کا نام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا بغداد‪ k‬ہہت‬
‫زبردست جگہ رہی ہو گی‪ ،‬بالکل اس طرح جیسے ’الف لیلی‘ میں پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں کیسا تھا؟ اس‬
‫کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہارون الرشید کے بغداد‪ k‬کا اب کچھ بھی نہیں بچا۔‬

‫’سنہرا اسالمی دور‘ سیریز‬

‫سنہرا اسالمی دور‪ :‬امام بخاری اور ان کی علمیت پسندی‬

‫سنہرا اسالمی دور‪ :‬جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا تو مسلمان دانشور کاغذ استعمال کرتے تھے‬

‫لیکن ہم جانتے ہیں کہ خالفت کے دور کے آخری دس برسوں میں ان کا پسندیدہ شہر شام کا عالقہ رقعہ تھا جو بغداد‪ k‬سے‬
‫شمال میں خالفت کی بازنطینی سلطنت کے ساتھ ملنے والی شمال مغربی سرحد کے قریب واقع تھا۔‬

‫ماہرین آثار قدیمہ نے اب رقعہ میں صرف محالت ہی نہیں بلکہ فیکٹریاں بھی دریافت کی ہیں۔ آٹھویں صدی میں فیکٹریوں‬
‫کا تصور یقینا ً پُرجوش کر دینے واال ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہاں صنعت کو فروغ دینے میں ہارون الرشید کا‬
‫خود کتنا ہاتھ تھا۔‬

‫وسطی کی‬
‫ٰ‬ ‫حقیقت یہ ہے کہ ہارون الرشید کے بارے میں ہم کہانیوں سے جو جانتے ہیں وہ اس سے مختلف ہے جو قرو ِن‬
‫تاریخ کی کتابوں سے ہمیں پتا چلتا ہے اور شاید جدید دور آثار قدیمہ کی دریافتیں ہمیں کچھ مزید نیا بتائیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪BIBLIOTHÈQUE NATIONALE DE FRANCE‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫قدیم بغداد‪ k‬کی ایک تاریخی تصویر‬

‫وسطی کی دستاویز پڑھیں تو ہارون الرشید اپنی زیادہ تر بالغ زندگی میں ایک کمزور انسان نظر آتے ہیں جن کے‬
‫ٰ‬ ‫قرون‬
‫زیر اثر تھے اور جن کی حکومت کا زیادہ‬
‫ِ‬ ‫کے‬ ‫زبیدہ‬ ‫اہلیہ‬ ‫اور‬ ‫والدہ‬ ‫اپنی‬ ‫جو‬ ‫تھی‪،‬‬ ‫بچی‬ ‫جاتے‬ ‫جاتے‬ ‫خالفت‬ ‫سے‬ ‫ہاتھوں‬
‫زیر اثر تھی۔‬
‫تر انتظام بیوروکریسی چال رہی تھی جو بارمکید خاندان کے ِ‬

‫اپنے دور حکومت کے آخری حصے میں انھوں نے معامالت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور بارمکید خاندان‬
‫(برمکیان) کو جیل میں پھینک دیا اور اپنے پسندیدہ جعفر کو قتل کر دیا۔ لیکن وہ مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر‬
‫سکے۔‬

‫وراثت کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی میں انھوں نے خالفت کا عہدہ اپنے اور زبیدہ کے بیٹے امین کو اور آدھی‬
‫سلطنت امین کے سوتیلے بھائی مامون کو دینے کا وعدہ کیا جو ایک لونڈی کے بیٹے‪ k‬تھے۔‬
‫اُن کی موت کے بعد دونوں بھائیوں میں جنگ چھڑ گئی اور بغداد کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگا۔‬

‫مامون نے امین کو مروا کر تخت پر قبضہ کر لیا اور آئندہ کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ ان واقعات کی روشنی میں‬
‫تاریخ کے کردار ہارون الرشید کی سیاسی میراث کو شاندار نہیں‪ k‬کہا جا سکتا اور اگر ان کا سنہرا دور تھا‪ ،‬تو وہ بہت‬
‫مختصر تھا۔ اُن کا اپنی عمر کی ‪ 40‬کی دہائی میں انتقال ہو گیا تھا۔‬

‫لیکن داستان ’الف لیلی‘ کا ابدی کردار ہارون الرشید ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کی موت کے کچھ عرصے‬
‫کے بعد‪ k‬منظر پر آیا تھا۔ یہ یہی وہ ہارون ہے جو ہماری یادوں میں زندہ ہے۔‬

‫وہ ان اچھے دنوں کی یادیں ہیں جو کبھی تھے ہی نہیں‪ k،‬لیکن شاید ہو بھی سکتے تھے۔ ماضی کئی بار آگے چل کر بُرے‬
‫وقتوں میں امید کی کرن بن کر بھی سامنے آتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک نیک دل حکمران ہیں بلکہ وہ سب کچھ کرتے ہیں‬
‫جو ایک حکمران مہذب معاشرے کے قیام کے لیے کرتا ہے۔‬

‫وہ دانشوروں اور شعرا کے سرپرست ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک رومانوی ہیرو ہیں‪ ،‬ایک نرم دل اور خوبصورتی‬
‫اعلی تعلیم یافتہ تھیں اور جنھیں موسیقی‬
‫ٰ‬ ‫کے دلدادہ انسان‪ ،‬خاص طور پر ایسی خوبصورت لونڈیوں کے جو ہوشیار اور‬
‫اور شاعری پر دسترس حاصل تھی۔‬

‫یہ بھی پڑھیے‬


‫ڈارون سے ہزار برس قبل ’نظریۂ ارتقا‘ پیش کرنے واال مسلمان مفکر‬

‫شیشہ گری کا فن‪ ،‬جسے اسالمی دور میں عروج مال‬

‫عمران خان کی تجویز کردہ کتاب ’لوسٹ اسالمک ہسٹری‘ میں کیا ہے؟‬

‫شیعہ مراجع کون ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے‬


‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Angelo Hornak‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫ہارون الرشید اور ان کی اہلیہ کی خواب گاہ کا ایک منظر جب دورا ِن نیند‪ k‬ہارون کی اہلیہ نے ڈرا دینے واال ایک خواب‬
‫دیکھا‬

‫وہ ہیار کرنے والے شوہر ہیں‪ ،‬ان کی بیوی بھی ان سے پیار کرتی ہے۔ زبیدہ نے‪ ،‬جو ذہین‪ ،‬سخی اور نیک عورت ہونے‬
‫ب حیثیت تھیں‪ k،‬ہر اچھے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔‬
‫کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں صاح ِ‬

‫انھیں نے بڑے بڑے فالحی کام کیے خاص طور پر مکہ اور مدینہ کے راستے پر ایسے پراجیکٹس بنوائے اور جنھیں‬
‫اپنی انفرادی حیثیت میں اچھے الفاظ میں اور پیار سے یاد کیا جاتا ہے۔‬

‫یہ ہارون الرشید آج بھی زندہ ہیں اور صرف کہانیوں میں نہیں بلکہ طویل عرصے سے عرب ٹی وی چینلوں پر نشر‬
‫ہونے والے ڈراموں میں بھی‪ ،‬جو یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔‬

‫ٹی وی کے ہارون الرشید‪ ،‬ان کے اہلخانہ‪ ،‬درباریوں اور رعایا کو ان ڈراموں میں اپنے جذبات کو پرکھنے کا موقع دیا‬
‫جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے المیوں کا سامنا کرتے ہیں‪ ،‬ان کی وفاداری کا امتحان لیا جاتا ہے۔ وہ تشدد سے بھرپور ایک‬
‫انتہائی دغاباز ماحول میں جی رہے ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کے حوادث سے نمٹنے‪ k‬میں اور اس دوران زندگی میں‬
‫سمجھوتے کرتے ہوئے وہ آرٹ اور اخالقی حُسن کو جنم دیتے ہیں۔‬

‫ہارون الرشید اور ان کے دور کے لوگوں کی ٹی وی پر دکھائی جانے والی یہ تصویر آج کے عربوں کو اصل میں آئینہ‬
‫وسطی کی کہانیوں اور ٹی وی کے ہارون میں کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ بالکل ویسے‬
‫ٰ‬ ‫دکھانے کے مترادف ہے۔ قرون‬
‫جیسے شیکسپیئر کے تاریخ پر مبنی ڈراموں کے کردار۔ وہ زندگی کے ان ڈراموں‪ ،‬امکانات اور نظریات کا مرکز ہیں‬
‫جن سے ہم سب مانوس ہیں۔‬

‫ہم تاریخ کے ہارون الرشید سے کہانیوں کے ہارون الرشید تک کیسے پہنچے اور کیا وہ ایک ہی انسان ہیں؟ تواریخ متفق‬
‫ہیں کہ ہارون الرشید ’ممیز بوائے‘ تھے۔‬

‫ان کی والدہ‪ ،‬خیزران غالم کنیز تھیں جن سے ان کے والد خلیفہ المہدی نے‪ ،‬جو ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے‪،‬‬
‫انتہائی غیر روایتی عمل میں انہیں آزاد کر کے شادی کر لی تھی۔‬

‫اس رومانوی آغاز کے بعد حاالت خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے۔ المہدی کا کم عمری میں انتقال ہو گیا۔ ان کے‬
‫خیزران سے دو بیٹے‪ k‬تھے جنھوں نے باری باری خلیفہ بننا تھا۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫ہارون الرشید عہد نوعمری میں‬

‫ہمیں نہیں معلوم اس وقت ان دونوں کی درست عمر کیا تھی لیکن اندازہ ہے کہ ان عمریں ‪ 20‬برس کے آس پاس تھیں۔ ان‬
‫موسی اور حضرت ہارون) پر رکھے گئے تھے جو کہ اچھا شگون ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ان‬‫ٰ‬ ‫کے نام پیغمبروں (حضرت‬
‫دونوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔‬

‫موسی کا ایک چھوٹا بیٹا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد خالفت اس بچے کو ملے اور انھوں نے ہارون کے ساتھ‬
‫ٰ‬
‫ولی عہد کا سلوک کرنے کی بجائے انھیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔‬

‫ہارون کی زندگی خطرے میں تھی۔ اس موقع پر خیزران آگے بڑھیں اور معامالت اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ وہ خلیفہ المہدی‬
‫موسی نے ان کی بھی توہین کی اور انھیں خواتین کے معامالت سے نمٹنے‪k‬‬‫ٰ‬ ‫کی زندگی میں بھی بااختیار رہی تھیں لیکن‬
‫اور ریاست کے معاالت سے دور رہنے کے لیے کہا۔‬
‫یہ ذاتی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان مفادات کا ٹکراؤ تھا جو المہدی کے دنوں میں سر اٹھا چکے تھے۔ خیزران اور بارمکید‬
‫موسی کو تخت سے اتار کر ہارون کو خلیفہ بنانے لیے سازش شروع کر دی۔‬‫ٰ‬ ‫خاندان نے مل کر‬

‫موسی کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔ کچھ حوالے خیزران پر ان کو زہر دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک حوالے کے مطابق‬
‫ٰ‬
‫موسی کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہالک کروایا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ایک‬
‫ٰ‬ ‫خیزران نے ایک کنیز کے ذریعے‬
‫موسی کا انتقال پیٹ کے السر کی وجہ سے ہوا تھا۔‬
‫ٰ‬ ‫غیردلچسپ روایت کے مطابق‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪YAHYÁ AL-WASITI‬‬

‫موسی کی ہالکت سے ہارون کی بجائے دراصل بارمکید خاندان کا دور شروع ہوا۔ بارمکید اشرافیہ سے تعلق رکھتے‬ ‫ٰ‬
‫تھے اور ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ خاندان ماضی میں وسطی ایشیا میں بدھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ‬
‫کا نسل در نسل نگران ضرور رہا تھا‪ ،‬لیکن اب وہ لوگ مقامی رنگ میں ڈھل چکے تھے اور عربی زبان بولنے والے‬
‫مسلمان تھے‪ k،‬خالفت کے حکومتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا چکے تھے اور اپنی حیثیت قائم رکھنا چاہتے تھے۔‬

‫وہ ماہر ’سٹیٹسمین‘ تھے جو اپنے آقا کی زندگی کا درد اپنے سر لینا جانتے تھے۔ اس کے عالوہ وہ انتہائی دولت مند‪ k‬اور‬
‫کھلے دل کے مالک تھے اور وسیع پیمانے پر وفاداریاں خریدنا ان کے لیے مشکل کام نہیں‪ k‬تھا۔‬
‫بارمکید خاندان کی ایک عورت نے ہارون کو اپنا دودھ بھی پالیا تھا۔ اس اعتبار سے بارمکید خاندان کے ساتھ ان کا رشتہ‬
‫بھی تھا اور اس زمانے میں دودھ کا رشتہ خون کے رشتے کی طرح مضبوط ہی سمجھا جاتا تھا۔‬

‫یحی ہارون کے استاد اور سرپرست بھی رہے تھے۔ ہارون ان کو والد کہہ‬‫اس کے عالوہ بارمکید خاندان کے ایک بزرگ ٰ‬
‫یحی اُن کے وزیر بن گئے اور ٰ‬
‫یحی کے دو بیٹوں نے باقی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیں۔‬ ‫کر مخاطب ہوتے تھے۔ ٰ‬

‫ہارون کا رضائی بھائی فضل قابل اعتبار اور الئق تھا جبکہ جعفر ذہین‪ k‬اور دلکش شخصیت کا مالک تھا اور ہارون کا‬
‫سب سے قریبی دوست بن گیا۔‬

‫ان گہرے خاندانی رشتوں اور جذباتی تعلقات کو دیکھتے‪ k‬ہوئے یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہارون الرشید کے دور کی‬
‫کہانی فیملی ڈرامہ کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اس کہانی کا ہر واقعہ اتنے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں‬
‫ٹھوس شواہد تالش کرنا بہت مشکل ہے۔‬

‫لیکن یہ تمام کہانیاں خاندانی رشتوں کی کہانیوں کی طرز پر بیان کی گئی ہیں جن میں مرکزیت شخصیات‪ ،‬احساسات‪،‬‬
‫جذبات‪ ،‬حسد‪ ،‬خوف اور محبت کے نفرت میں بدلنے‪ k‬کو حاصل ہے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫ہارون الرشید کی خیالی تصویر کا عکس‬

‫موسی کی ہالکت کے بارے میں بھیانک روایات اس کی ایک مثال ہے۔ ایک اور مثال یہ سوال ہے کہ ہارون کیوں فضل‬
‫ٰ‬
‫یحی کے خالف ہو گئے اور انھوں نے جعفر کو کیوں مروایا؟‬
‫اور ٰ‬

‫نفسیات کے نقطہ نظر سے اس کی ایک اچھی وضاحت یہ ہے کہ ہارون کو محسوس ہونے لگا تھا کہ بارمکید خاندان پر‬
‫انحصار کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور گھٹن کا شکار ہونے لگے تھے اور دوسرا یہ‬
‫کہ انھیں بارمکید خاندان خاص طور پر جعفر کی شہرت کھٹکنے لگی تھی۔‬

‫اس کے استعارے کے طور پر ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ہارون نے بارمکید خاندان پر حاوی ہونے کی کوشش کی‬
‫اور جعفر کو اپنے بس میں کرنے کے لیے پہلے خاموشی سے اس کی اپنی بہن عباسہ سے شادی کروا دی اور پھر‬
‫دونوں کو اکٹھے‪ k‬سونے سے منع کر دیا۔‬

‫ظاہر ان دونوں نے اس حکم کی خالف ورزی کی اور ہارون نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جعفر کو مروا دیا۔‬
‫مؤرخین صدیوں سے اس کہانی کو جھوٹ تو کہہ رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اس دوران بارمکید خاندان کے زوال کی‬
‫کوئی سیاسی طور پر قابل قبول وضاحت دینے میں کامیاب نھیں ہوئے۔‬

‫تاریخ کے اعتبار سے ایک حقیقی وضاحت ان کے بیٹے‪ k‬امین کے انجام کی کہانی ہے۔‬

‫موسی نے ہارون کے ساتھ وعدہ خالفی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وارث قرار دے دیا تھا بالکل‬ ‫ٰ‬ ‫بالکل اسی طرح جیسے‬
‫اسی طرح امین نے خالفت اپنے بیٹے‪ k‬کی بجائے اپنے بھائی مامون کو دینے کا سر عام کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔‬

‫بارمکید خاندان خاندان کے ساتھ اقتدار کی طویل شراکت داری کے دوران خلیفہ ہارون الرشید کے لیے ایک بڑا سیاسی‬
‫پراجیکٹ اپنے بیٹوں کو اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ لیکن یہ پراجیکٹ بُری طرح ناکام ہو گیا۔‬

‫یہ انسانی فطرت یا کم سے کم اس کہانی کے کرداروں کی فطرت کے خالف تھا۔ ایک بار پھر اس باب کو بھی استعارتا ً‬
‫ایک کہانی کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جس میں سوال یہ ہے کہ اخالقی طور پر کمزور انسان کو اقتدار منتقل کرنے کا‬
‫انجام کیا ہوتا ہے؟‬

‫کہا جاتا ہے کہ جس رات زبیدہ اپنے بیٹے‪ k‬امین کے ساتھ حاملہ ہوئیں انھوں نے خواب دیکھا جس میں تین عورتیں اُن کے‬
‫پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں اور ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا کیسا ہو گا۔ ان عورتوں نے بتایا کہ وہ‬
‫بیکار‪ ،‬دغاباز اور بیوقوف ہو گا۔‬

‫جس رات امین کی پیدائش ہوئی وہی تینوں خواتین دوبارہ اُن کے خواب میں آئیں اور اپنی پیشینگوئی دہرائی۔ جس رات‬
‫انھوں نے امین کا دودھ چھڑوایا یہی خواتین آخری بار ان کے خواب میں آئیں اور کہا کہ اس کے عیب اس کے زوال اور‬
‫موت کا باعث بنیں گے۔‬

‫اعلی تریبت کے باوجود وہ پیشینگوئیاں درست ثابت ہوئیں۔ اس‬


‫ٰ‬ ‫نجومیوں کے تمام تر خوش ُکن زائچوں اور امین کی‬
‫کہانی کا سبق بتایا جاتا ہے کہ انسانی کردار اس کا نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا اس سے الٹ مطلب بھی نکاال جا سکتا ہے‬
‫کہ اپنے نصیب کا علم انسان کا کردار بنا یا بگاڑ سکتا ہے۔‬
‫یہ عہد کہ وہ اقتدار اپنے بھائی کو منتقل کریں گے پہلی بار امین سے پانچ برس کی عمر میں لیا گیا تھا‪ ،‬پھر ‪ 15‬سال کی‬
‫عمر میں۔ جب ‪ 20‬برس کی عمر کے کچھ عرصے بعد انھیں اقتدار مال تو اس عہد کو توڑنے کی منصوبہ بندی کرنے کا‬
‫انھیں بہت وقت مل چکا تھا۔‬

‫حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں طاقت حلف کی پابند‪ k‬نہیں تھی۔ قانون کا عمل دخل تو اس سے بھی کم تھا۔ ہر خلیفہ خود‬
‫طاقت حاصل کرتا اور اسے شکل دیتا تھا۔ تو ہارون نے خود بارمکید کی موجودگی میں اور ان کے بعد طاقت سے کیسے‬
‫نمٹا؟ ان کے حاصل کرنے کے لیے طاقت تھی کتنی؟‬

‫انھوں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بارمکید خاندان کو ریاست کے معامالت چالنے دیے۔ یعنی انھوں نے اپنے والد‬
‫سے ورثے میں ملی طاقتور بیوروکریسی کو اپنا کام جاری رکھنے دیا۔‬

‫لیکن انھوں نے کچھ نئی چیزیں بھی متعارف کروائیں۔ انھوں نے اس خیال کو فروغ دیا کہ خالفت کو اپنے آپ کو ایک‬
‫مذہبی منصب کے طور پر ثابت کرنا ہے اور انھوں نے اس خیال کو مقبول کرنے کے لیے کام کیا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫ہارون الرشید کا مقبرہ‬

‫وہ مستقل مسیحی بازنطینی سلطنت کے خالف جہاد پر مشن روانہ کرتے رہے اور کئی بار خود بھی اُن کی قیادت کی۔‬
‫انھوں نے کئی بارحج کیا اور مقدس مقامات پر قیمتی چڑھاوے چڑھائے۔ یہی طریقہ زبیدہ کا بھی تھا جنھوں نے مکہ اور‬
‫مدینہ میں پانی کی سپالئی کی ایک سکیم کے لیے اور ان دونوں شہروں کے راستے میں پینے‪ k‬کے پانی کی فراہمی کو‬
‫یقینی بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی۔‬

‫یہ زبیدہ ہی کی مثال تھی جس کے بعد اسالمی ریاستوں میں خیرات کے فلسلفے کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے فالحی‬
‫ادارے قائم کرنا معمول بن گیا۔ حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے طور پر ریاست کے اچھے‬
‫کاموں میں اس کی شناخت بننے‪ k‬میں زبیدہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ یہ ایک ایسا اہم سیاسی کردار تھا جو آنے والے‬
‫وقتوں میں بھی خواتین ادا کرتی رہیں۔‬

‫ریاست کاری کے نقطہ نظر سے اس میں ہارون کا حصہ عالمتی مگر بھرپور تھا۔ ہارون اور زبیدہ نے جو مثال قائم کی‬
‫وہ صدیوں تک آنے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی۔ یعنی کسی بھی ریاست کا جواز اس کے کاموں سے‬
‫پیدا ہوتا ہے۔‬

‫اس کا مطلب صرف فالحی کام اور جہاد نہیں تھا بلکہ عدل و انصاف کی فراہمی کو ریاستی کی ذمہ داری سمجھتے‬
‫ہوئے اس شعبے کو عالمتی سرپرستی میں لے کر قاضی کے عہدے‪ k‬کا قیام بھی اس میں شامل تھا۔‬

‫ہارون کی زندگی میں بحیثیت حکمران عدل‪ ،‬خاندان اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی لیے ان کی میراث میں نجی‬
‫اور سرکاری کو الگ کرنا مشکل ہے۔ اپنے والد کی طرح انھیں موسیقی اور شاعری پسند تھی۔ ان کی ایک سوتیلی بہن‬
‫اور سوتیلے بھائی دونوں پیشہ وارانہ معیار کے موسیقار اور شاعر تھے۔ ان کی نظمیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔‬

‫آرٹ ایک نجی شوق تھا۔ لیکن یہ ناممکن تھا کہ کوئی صاحب حیثیت اس کے فروغ میں حصہ نہ ڈالے اور اس کی نمائش‬
‫نہ کرے چاہے صرف اپنے دربار میں اشرافیہ کے لیے ہی ہو۔‬

‫ہارون نے فنون لطیفہ کی شاہی سرپرستی کی‪ ،‬یہ روایت جاری رکھتے ہوئے انھیں عوامی سطح پر بھی قبولیت دی۔ یہ‬
‫ایک اور ایسی روایت تھی جو صدیوں تک قائم رہی۔‬
‫تو حتمی تجزیے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہارون اس مقام کے حقدار ہیں جو انھیں لوگوں کی یادوں(سوشل میموری)‬
‫میں دیا جاتا ہے۔ انھوں نے تہذیب‪ k‬کے ابدی نظریے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔‬

‫ہارون اور زبیدہ نے آنے والے حکمرانوں کو بتایا کہ کس طرح ریاستیں (گرینڈ جیسچرز) بڑے بڑے کام کر کے عوام‬
‫کے ساتھ تعلق قائم کر سکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہارون‪ ،‬زبیدہ‪ ،‬ان کے بچوں اور بارمکید خاندان کی زندگی‬
‫کی کہانیوں نے صدیوں تک لوگوں کو غور و فکر کے لیے مواد فراہم کیا اور انٹرنیٹ اور ٹی وی کی مہربانی سے آج‬
‫بھی کر رہی ہیں۔‬

You might also like