Professional Documents
Culture Documents
،تصویر کا کیپشن
بی بی سی ریڈیو تھری کی خصوصی سیریز ’سنہرا اسالمی دور‘ کی اس قسط میں پروفیسر جولیا برے نے خلیفہ ہارون
الرشید کی شحضیت پر روشنی ڈالی ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے اُن کے زمانے کا بغداد کیسا تھا۔ ہارون الرشید کو
ایک اچھے اور فن کی قدر کرنے والے حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا ہے تاہم اس بات کے بھی کافی شواہد ہیں کہ
مستقبل کے بارے میں ان کی ناقص منصوبہ بندی خون خرابے اور افراتفری کا باعث بنی۔
مگر کیسے؟ پڑھیے پروفیسر برے کے اس مضمون میں۔ بی بی سی ریڈیو تھری کی اس سیریز میں سنہ 750سے
سنہ 1258تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سیریز میں اس دور کے اہم واقعات اور شخصیات کے عالوہ فن تعمیر ،طب
کے شعبے میں کام ،ایجادات اور فلسفے جیسے مضامین میں اہم پیشرفت کا ذکر ہو گا۔ بی بی سی اُردو نے ریڈیو پر
نشر ہونے والی اس سیریز کا ترجمہ کیا ہے۔
ہارون الرشید وہ خلیفہ ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ مشہور داستان ’الف لیلی‘ کے خلیفہ۔ مصنف ٹینیسن کے
نیک دل ہارون الرشید۔۔۔ لیکن ہم اُن کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ ہمارے خیال میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا دور خالفت کا
’سنہرا دور‘ تھا۔
وسطی ایشیا سے لیبیا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس دور کے بارے میں ٹینیسن
ٰ ہارون الرشید کی تخت نشینی ہر اُن کی سلطنت
نے لکھا ’ایک اچھا وقت ،ایک اچھی جگہ کیونکہ یہ نیک ہارون الرشید کے عروج کا زمانہ تھا۔‘
لیکن وہ دور کتنا اچھا تھا؟ اس دور کے ’سنہرے‘ ہونے کا تصور بہت بعد میں پیدا ہوا اور یہ شاید خالفت کی انتہائی
الجھی ہوئی 600سالہ تاریخ کو ایک نقطے پر مرکوز کرنے کا طریقہ ہے۔ ان 600سو برسوں میں سنہ 786سے سنہ
دور خالفت 20برسوں سے کچھ زیادہ ہے۔
809تک ہارون الرشید کا ِ
مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فنون لطیفہ ،سائنس اور ادب میں بہت سا بہترین کام ہارون الرشید کے بعد
ابھی آنا تھا۔
ہمارے نزدیک ہارون الرشید اور بغداد kکا نام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا بغداد kہہت
زبردست جگہ رہی ہو گی ،بالکل اس طرح جیسے ’الف لیلی‘ میں پیش کی جاتی ہے۔ لیکن وہ حقیقت میں کیسا تھا؟ اس
کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہارون الرشید کے بغداد kکا اب کچھ بھی نہیں بچا۔
سنہرا اسالمی دور :جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا تو مسلمان دانشور کاغذ استعمال کرتے تھے
لیکن ہم جانتے ہیں کہ خالفت کے دور کے آخری دس برسوں میں ان کا پسندیدہ شہر شام کا عالقہ رقعہ تھا جو بغداد kسے
شمال میں خالفت کی بازنطینی سلطنت کے ساتھ ملنے والی شمال مغربی سرحد کے قریب واقع تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اب رقعہ میں صرف محالت ہی نہیں بلکہ فیکٹریاں بھی دریافت کی ہیں۔ آٹھویں صدی میں فیکٹریوں
کا تصور یقینا ً پُرجوش کر دینے واال ہے۔ لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ وہاں صنعت کو فروغ دینے میں ہارون الرشید کا
خود کتنا ہاتھ تھا۔
وسطی کی
ٰ حقیقت یہ ہے کہ ہارون الرشید کے بارے میں ہم کہانیوں سے جو جانتے ہیں وہ اس سے مختلف ہے جو قرو ِن
تاریخ کی کتابوں سے ہمیں پتا چلتا ہے اور شاید جدید دور آثار قدیمہ کی دریافتیں ہمیں کچھ مزید نیا بتائیں۔
،تصویر کا ذریعہ BIBLIOTHÈQUE NATIONALE DE FRANCE
،تصویر کا کیپشن
وسطی کی دستاویز پڑھیں تو ہارون الرشید اپنی زیادہ تر بالغ زندگی میں ایک کمزور انسان نظر آتے ہیں جن کے
ٰ قرون
زیر اثر تھے اور جن کی حکومت کا زیادہ
ِ کے زبیدہ اہلیہ اور والدہ اپنی جو تھی، بچی جاتے جاتے خالفت سے ہاتھوں
زیر اثر تھی۔
تر انتظام بیوروکریسی چال رہی تھی جو بارمکید خاندان کے ِ
اپنے دور حکومت کے آخری حصے میں انھوں نے معامالت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور بارمکید خاندان
(برمکیان) کو جیل میں پھینک دیا اور اپنے پسندیدہ جعفر کو قتل کر دیا۔ لیکن وہ مستقبل کی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر
سکے۔
وراثت کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی میں انھوں نے خالفت کا عہدہ اپنے اور زبیدہ کے بیٹے امین کو اور آدھی
سلطنت امین کے سوتیلے بھائی مامون کو دینے کا وعدہ کیا جو ایک لونڈی کے بیٹے kتھے۔
اُن کی موت کے بعد دونوں بھائیوں میں جنگ چھڑ گئی اور بغداد کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگا۔
مامون نے امین کو مروا کر تخت پر قبضہ کر لیا اور آئندہ کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ ان واقعات کی روشنی میں
تاریخ کے کردار ہارون الرشید کی سیاسی میراث کو شاندار نہیں kکہا جا سکتا اور اگر ان کا سنہرا دور تھا ،تو وہ بہت
مختصر تھا۔ اُن کا اپنی عمر کی 40کی دہائی میں انتقال ہو گیا تھا۔
لیکن داستان ’الف لیلی‘ کا ابدی کردار ہارون الرشید ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کی موت کے کچھ عرصے
کے بعد kمنظر پر آیا تھا۔ یہ یہی وہ ہارون ہے جو ہماری یادوں میں زندہ ہے۔
وہ ان اچھے دنوں کی یادیں ہیں جو کبھی تھے ہی نہیں k،لیکن شاید ہو بھی سکتے تھے۔ ماضی کئی بار آگے چل کر بُرے
وقتوں میں امید کی کرن بن کر بھی سامنے آتا ہے۔ وہ نہ صرف ایک نیک دل حکمران ہیں بلکہ وہ سب کچھ کرتے ہیں
جو ایک حکمران مہذب معاشرے کے قیام کے لیے کرتا ہے۔
وہ دانشوروں اور شعرا کے سرپرست ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ ایک رومانوی ہیرو ہیں ،ایک نرم دل اور خوبصورتی
اعلی تعلیم یافتہ تھیں اور جنھیں موسیقی
ٰ کے دلدادہ انسان ،خاص طور پر ایسی خوبصورت لونڈیوں کے جو ہوشیار اور
اور شاعری پر دسترس حاصل تھی۔
عمران خان کی تجویز کردہ کتاب ’لوسٹ اسالمک ہسٹری‘ میں کیا ہے؟
،تصویر کا کیپشن
ہارون الرشید اور ان کی اہلیہ کی خواب گاہ کا ایک منظر جب دورا ِن نیند kہارون کی اہلیہ نے ڈرا دینے واال ایک خواب
دیکھا
وہ ہیار کرنے والے شوہر ہیں ،ان کی بیوی بھی ان سے پیار کرتی ہے۔ زبیدہ نے ،جو ذہین ،سخی اور نیک عورت ہونے
ب حیثیت تھیں k،ہر اچھے بُرے وقت میں اُن کا ساتھ دیا۔
کے ساتھ ساتھ اپنے آپ میں صاح ِ
انھیں نے بڑے بڑے فالحی کام کیے خاص طور پر مکہ اور مدینہ کے راستے پر ایسے پراجیکٹس بنوائے اور جنھیں
اپنی انفرادی حیثیت میں اچھے الفاظ میں اور پیار سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ ہارون الرشید آج بھی زندہ ہیں اور صرف کہانیوں میں نہیں بلکہ طویل عرصے سے عرب ٹی وی چینلوں پر نشر
ہونے والے ڈراموں میں بھی ،جو یوٹیوب پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ٹی وی کے ہارون الرشید ،ان کے اہلخانہ ،درباریوں اور رعایا کو ان ڈراموں میں اپنے جذبات کو پرکھنے کا موقع دیا
جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے المیوں کا سامنا کرتے ہیں ،ان کی وفاداری کا امتحان لیا جاتا ہے۔ وہ تشدد سے بھرپور ایک
انتہائی دغاباز ماحول میں جی رہے ہیں۔ لیکن اپنی زندگی کے حوادث سے نمٹنے kمیں اور اس دوران زندگی میں
سمجھوتے کرتے ہوئے وہ آرٹ اور اخالقی حُسن کو جنم دیتے ہیں۔
ہارون الرشید اور ان کے دور کے لوگوں کی ٹی وی پر دکھائی جانے والی یہ تصویر آج کے عربوں کو اصل میں آئینہ
وسطی کی کہانیوں اور ٹی وی کے ہارون میں کچھ چیزیں مشترک بھی ہیں۔ بالکل ویسے
ٰ دکھانے کے مترادف ہے۔ قرون
جیسے شیکسپیئر کے تاریخ پر مبنی ڈراموں کے کردار۔ وہ زندگی کے ان ڈراموں ،امکانات اور نظریات کا مرکز ہیں
جن سے ہم سب مانوس ہیں۔
ہم تاریخ کے ہارون الرشید سے کہانیوں کے ہارون الرشید تک کیسے پہنچے اور کیا وہ ایک ہی انسان ہیں؟ تواریخ متفق
ہیں کہ ہارون الرشید ’ممیز بوائے‘ تھے۔
ان کی والدہ ،خیزران غالم کنیز تھیں جن سے ان کے والد خلیفہ المہدی نے ،جو ایک بھرپور شخصیت کے مالک تھے،
انتہائی غیر روایتی عمل میں انہیں آزاد کر کے شادی کر لی تھی۔
اس رومانوی آغاز کے بعد حاالت خرابی کی طرف جانا شروع ہو گئے۔ المہدی کا کم عمری میں انتقال ہو گیا۔ ان کے
خیزران سے دو بیٹے kتھے جنھوں نے باری باری خلیفہ بننا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن
ہمیں نہیں معلوم اس وقت ان دونوں کی درست عمر کیا تھی لیکن اندازہ ہے کہ ان عمریں 20برس کے آس پاس تھیں۔ ان
موسی اور حضرت ہارون) پر رکھے گئے تھے جو کہ اچھا شگون ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انٰ کے نام پیغمبروں (حضرت
دونوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔
موسی کا ایک چھوٹا بیٹا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے بعد خالفت اس بچے کو ملے اور انھوں نے ہارون کے ساتھ
ٰ
ولی عہد کا سلوک کرنے کی بجائے انھیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
ہارون کی زندگی خطرے میں تھی۔ اس موقع پر خیزران آگے بڑھیں اور معامالت اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ وہ خلیفہ المہدی
موسی نے ان کی بھی توہین کی اور انھیں خواتین کے معامالت سے نمٹنےkٰ کی زندگی میں بھی بااختیار رہی تھیں لیکن
اور ریاست کے معاالت سے دور رہنے کے لیے کہا۔
یہ ذاتی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان مفادات کا ٹکراؤ تھا جو المہدی کے دنوں میں سر اٹھا چکے تھے۔ خیزران اور بارمکید
موسی کو تخت سے اتار کر ہارون کو خلیفہ بنانے لیے سازش شروع کر دی۔ٰ خاندان نے مل کر
موسی کا جلد ہی انتقال ہو گیا۔ کچھ حوالے خیزران پر ان کو زہر دینے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایک حوالے کے مطابق
ٰ
موسی کے منہ پر تکیہ رکھ کر ہالک کروایا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں ایک
ٰ خیزران نے ایک کنیز کے ذریعے
موسی کا انتقال پیٹ کے السر کی وجہ سے ہوا تھا۔
ٰ غیردلچسپ روایت کے مطابق
موسی کی ہالکت سے ہارون کی بجائے دراصل بارمکید خاندان کا دور شروع ہوا۔ بارمکید اشرافیہ سے تعلق رکھتے ٰ
تھے اور ان کے آباؤ اجداد کا تعلق ایران سے تھا۔ یہ خاندان ماضی میں وسطی ایشیا میں بدھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ
کا نسل در نسل نگران ضرور رہا تھا ،لیکن اب وہ لوگ مقامی رنگ میں ڈھل چکے تھے اور عربی زبان بولنے والے
مسلمان تھے k،خالفت کے حکومتی ڈھانچے میں اپنی جگہ بنا چکے تھے اور اپنی حیثیت قائم رکھنا چاہتے تھے۔
وہ ماہر ’سٹیٹسمین‘ تھے جو اپنے آقا کی زندگی کا درد اپنے سر لینا جانتے تھے۔ اس کے عالوہ وہ انتہائی دولت مند kاور
کھلے دل کے مالک تھے اور وسیع پیمانے پر وفاداریاں خریدنا ان کے لیے مشکل کام نہیں kتھا۔
بارمکید خاندان کی ایک عورت نے ہارون کو اپنا دودھ بھی پالیا تھا۔ اس اعتبار سے بارمکید خاندان کے ساتھ ان کا رشتہ
بھی تھا اور اس زمانے میں دودھ کا رشتہ خون کے رشتے کی طرح مضبوط ہی سمجھا جاتا تھا۔
یحی ہارون کے استاد اور سرپرست بھی رہے تھے۔ ہارون ان کو والد کہہاس کے عالوہ بارمکید خاندان کے ایک بزرگ ٰ
یحی اُن کے وزیر بن گئے اور ٰ
یحی کے دو بیٹوں نے باقی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیں۔ کر مخاطب ہوتے تھے۔ ٰ
ہارون کا رضائی بھائی فضل قابل اعتبار اور الئق تھا جبکہ جعفر ذہین kاور دلکش شخصیت کا مالک تھا اور ہارون کا
سب سے قریبی دوست بن گیا۔
ان گہرے خاندانی رشتوں اور جذباتی تعلقات کو دیکھتے kہوئے یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ ہارون الرشید کے دور کی
کہانی فیملی ڈرامہ کے طور پر لکھی گئی ہے۔ اس کہانی کا ہر واقعہ اتنے مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں
ٹھوس شواہد تالش کرنا بہت مشکل ہے۔
لیکن یہ تمام کہانیاں خاندانی رشتوں کی کہانیوں کی طرز پر بیان کی گئی ہیں جن میں مرکزیت شخصیات ،احساسات،
جذبات ،حسد ،خوف اور محبت کے نفرت میں بدلنے kکو حاصل ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن
موسی کی ہالکت کے بارے میں بھیانک روایات اس کی ایک مثال ہے۔ ایک اور مثال یہ سوال ہے کہ ہارون کیوں فضل
ٰ
یحی کے خالف ہو گئے اور انھوں نے جعفر کو کیوں مروایا؟
اور ٰ
نفسیات کے نقطہ نظر سے اس کی ایک اچھی وضاحت یہ ہے کہ ہارون کو محسوس ہونے لگا تھا کہ بارمکید خاندان پر
انحصار کی وجہ سے وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے تھے اور گھٹن کا شکار ہونے لگے تھے اور دوسرا یہ
کہ انھیں بارمکید خاندان خاص طور پر جعفر کی شہرت کھٹکنے لگی تھی۔
اس کے استعارے کے طور پر ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ہارون نے بارمکید خاندان پر حاوی ہونے کی کوشش کی
اور جعفر کو اپنے بس میں کرنے کے لیے پہلے خاموشی سے اس کی اپنی بہن عباسہ سے شادی کروا دی اور پھر
دونوں کو اکٹھے kسونے سے منع کر دیا۔
ظاہر ان دونوں نے اس حکم کی خالف ورزی کی اور ہارون نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے جعفر کو مروا دیا۔
مؤرخین صدیوں سے اس کہانی کو جھوٹ تو کہہ رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اس دوران بارمکید خاندان کے زوال کی
کوئی سیاسی طور پر قابل قبول وضاحت دینے میں کامیاب نھیں ہوئے۔
تاریخ کے اعتبار سے ایک حقیقی وضاحت ان کے بیٹے kامین کے انجام کی کہانی ہے۔
موسی نے ہارون کے ساتھ وعدہ خالفی کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو وارث قرار دے دیا تھا بالکل ٰ بالکل اسی طرح جیسے
اسی طرح امین نے خالفت اپنے بیٹے kکی بجائے اپنے بھائی مامون کو دینے کا سر عام کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔
بارمکید خاندان خاندان کے ساتھ اقتدار کی طویل شراکت داری کے دوران خلیفہ ہارون الرشید کے لیے ایک بڑا سیاسی
پراجیکٹ اپنے بیٹوں کو اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ لیکن یہ پراجیکٹ بُری طرح ناکام ہو گیا۔
یہ انسانی فطرت یا کم سے کم اس کہانی کے کرداروں کی فطرت کے خالف تھا۔ ایک بار پھر اس باب کو بھی استعارتا ً
ایک کہانی کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے جس میں سوال یہ ہے کہ اخالقی طور پر کمزور انسان کو اقتدار منتقل کرنے کا
انجام کیا ہوتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ جس رات زبیدہ اپنے بیٹے kامین کے ساتھ حاملہ ہوئیں انھوں نے خواب دیکھا جس میں تین عورتیں اُن کے
پاس آ کر بیٹھ جاتی ہیں اور ان کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بتاتی ہیں کہ ان کا بیٹا کیسا ہو گا۔ ان عورتوں نے بتایا کہ وہ
بیکار ،دغاباز اور بیوقوف ہو گا۔
جس رات امین کی پیدائش ہوئی وہی تینوں خواتین دوبارہ اُن کے خواب میں آئیں اور اپنی پیشینگوئی دہرائی۔ جس رات
انھوں نے امین کا دودھ چھڑوایا یہی خواتین آخری بار ان کے خواب میں آئیں اور کہا کہ اس کے عیب اس کے زوال اور
موت کا باعث بنیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں طاقت حلف کی پابند kنہیں تھی۔ قانون کا عمل دخل تو اس سے بھی کم تھا۔ ہر خلیفہ خود
طاقت حاصل کرتا اور اسے شکل دیتا تھا۔ تو ہارون نے خود بارمکید کی موجودگی میں اور ان کے بعد طاقت سے کیسے
نمٹا؟ ان کے حاصل کرنے کے لیے طاقت تھی کتنی؟
انھوں نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بارمکید خاندان کو ریاست کے معامالت چالنے دیے۔ یعنی انھوں نے اپنے والد
سے ورثے میں ملی طاقتور بیوروکریسی کو اپنا کام جاری رکھنے دیا۔
لیکن انھوں نے کچھ نئی چیزیں بھی متعارف کروائیں۔ انھوں نے اس خیال کو فروغ دیا کہ خالفت کو اپنے آپ کو ایک
مذہبی منصب کے طور پر ثابت کرنا ہے اور انھوں نے اس خیال کو مقبول کرنے کے لیے کام کیا۔
،تصویر کا کیپشن
وہ مستقل مسیحی بازنطینی سلطنت کے خالف جہاد پر مشن روانہ کرتے رہے اور کئی بار خود بھی اُن کی قیادت کی۔
انھوں نے کئی بارحج کیا اور مقدس مقامات پر قیمتی چڑھاوے چڑھائے۔ یہی طریقہ زبیدہ کا بھی تھا جنھوں نے مکہ اور
مدینہ میں پانی کی سپالئی کی ایک سکیم کے لیے اور ان دونوں شہروں کے راستے میں پینے kکے پانی کی فراہمی کو
یقینی بنانے کے لیے خطیر رقم خرچ کی۔
یہ زبیدہ ہی کی مثال تھی جس کے بعد اسالمی ریاستوں میں خیرات کے فلسلفے کی تشہیر کے لیے بڑے بڑے فالحی
ادارے قائم کرنا معمول بن گیا۔ حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کے طور پر ریاست کے اچھے
کاموں میں اس کی شناخت بننے kمیں زبیدہ اپنے وقت سے بہت آگے تھیں۔ یہ ایک ایسا اہم سیاسی کردار تھا جو آنے والے
وقتوں میں بھی خواتین ادا کرتی رہیں۔
ریاست کاری کے نقطہ نظر سے اس میں ہارون کا حصہ عالمتی مگر بھرپور تھا۔ ہارون اور زبیدہ نے جو مثال قائم کی
وہ صدیوں تک آنے والے مسلمان حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی۔ یعنی کسی بھی ریاست کا جواز اس کے کاموں سے
پیدا ہوتا ہے۔
اس کا مطلب صرف فالحی کام اور جہاد نہیں تھا بلکہ عدل و انصاف کی فراہمی کو ریاستی کی ذمہ داری سمجھتے
ہوئے اس شعبے کو عالمتی سرپرستی میں لے کر قاضی کے عہدے kکا قیام بھی اس میں شامل تھا۔
ہارون کی زندگی میں بحیثیت حکمران عدل ،خاندان اور سیاست ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اسی لیے ان کی میراث میں نجی
اور سرکاری کو الگ کرنا مشکل ہے۔ اپنے والد کی طرح انھیں موسیقی اور شاعری پسند تھی۔ ان کی ایک سوتیلی بہن
اور سوتیلے بھائی دونوں پیشہ وارانہ معیار کے موسیقار اور شاعر تھے۔ ان کی نظمیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔
آرٹ ایک نجی شوق تھا۔ لیکن یہ ناممکن تھا کہ کوئی صاحب حیثیت اس کے فروغ میں حصہ نہ ڈالے اور اس کی نمائش
نہ کرے چاہے صرف اپنے دربار میں اشرافیہ کے لیے ہی ہو۔
ہارون نے فنون لطیفہ کی شاہی سرپرستی کی ،یہ روایت جاری رکھتے ہوئے انھیں عوامی سطح پر بھی قبولیت دی۔ یہ
ایک اور ایسی روایت تھی جو صدیوں تک قائم رہی۔
تو حتمی تجزیے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہارون اس مقام کے حقدار ہیں جو انھیں لوگوں کی یادوں(سوشل میموری)
میں دیا جاتا ہے۔ انھوں نے تہذیب kکے ابدی نظریے کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ہارون اور زبیدہ نے آنے والے حکمرانوں کو بتایا کہ کس طرح ریاستیں (گرینڈ جیسچرز) بڑے بڑے کام کر کے عوام
کے ساتھ تعلق قائم کر سکتی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہارون ،زبیدہ ،ان کے بچوں اور بارمکید خاندان کی زندگی
کی کہانیوں نے صدیوں تک لوگوں کو غور و فکر کے لیے مواد فراہم کیا اور انٹرنیٹ اور ٹی وی کی مہربانی سے آج
بھی کر رہی ہیں۔