You are on page 1of 3

‫کیپٹل ہلز ہنگامہ آرائی‪ :‬کیا مغربی جمہوریتیں خطرے میں ہیں؟‬

‫امریکی دارالحکومت میں کانگریس کی عمارت پر کیے جانے والے حملوں سے جرمن باشندے آگاہ ہیں۔ اس حملے کے بعد بحث‬
‫شروع ہو گئے ہے کہ آیا مغربی جمہوریتوں کو خطرات کا سامنا ہے‬

‫بدھ چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے کے والعات سے بیشتر یورپی باشندے‬
‫والف ہیں کیونکہ وہ ایسی صورحال اپنے اپنے ملکوں میں دیکھ چکے ہیں۔‬

‫اس کی ایک مثال سن دو ہزار چھ میں لدامت پسند رہنما وکٹور اوربان کے مشتعل حامیوں کا ہنگری کی پارلیمنٹ پر دھاوا بولنا‬
‫ہے‪ ،‬جو ابھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔‬

‫امپیریل جھنڈے پارلیمنٹ کی عمارت پر‬

‫کئی جرمن شہریوں کو سن انیس سو بیس اور سن انیس سو تیس میں کیے جانے والے نیشنل سوشلسٹوں کے مظاہرے یاد ہیں۔‬
‫ایسی ہی ایک صورت حال گزشتہ برس اگست میں سامنے آئی تھی جب کورونا وائرس کی پابندیوں کے مخالفین نے جرمن‬
‫دارالحکومت برلن میں وفالی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بوال تھا۔‬

‫اس دھاوے میں شامل کئی افراد امپیریل دور کے جھنڈے اور انتہائی دائیں بازو کی عالمات اٹھائے ہوئے تھے۔ اس والعے سے‬
‫سارا جرمنی لرز کر رہ گیا تھا۔‬
‫وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ بغاوت کے حامل الفاظ ہی ایسے عوامل کا‬
‫کیپیٹل ہلز کے والعے کے تناظر میں جرمن ٍ‬
‫پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کا کہنا تھا کہ نفرت بھری تحریک جمہوریت کے لیے خطرہ ہے‪،‬‬
‫جھوٹ سے بھی جمہوری الدار خطرے کا شکار ہوتی ہیں اور تشدد بھی جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔‬

‫وفالی جرمن پارلیمان کے سامنے اکثر و بیشتر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔‬

‫دم توڑتی جمہوری الدار‬

‫ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ شاید جمہوریت بھی عمارتوں کی طرح کمزور ہو سکتی ہے جیسا کہ پہلے بوڈاپیسٹ‪ ،‬پھر برلن اور‬
‫اب واشنگٹن میں دیکھا گیا ہے۔‬

‫مشہور سیاسی مفکر ڈانیئل سبالٹ نے ایشیا‪ ،‬یورپ اور الطینی امریکا میں جمہوری عمل میں پڑتی دراڑوں کا بغور مطالعہ کر‬
‫رکھا ہے‪ ،‬امریکی والعے پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں‪''،‬امریکا میں جمہوریت خاصی دیر سے ہے اور یہ مظبوط بھی‬
‫ہے‪ ،‬اس مستحکم ہونا چاہیے لیکن اگر امریکا میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو پھر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے‪ ،‬یہ‬
‫‘‘ایک انتباہ ہو گا۔‬

‫سبالٹ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کی طرح یورپی معاشرے بھی منمسم دکھائی دیتے ہیں۔‬

‫سبك کیا ہے؟‬

‫جرمن دارالحکومت برلن اور واشنگٹن میں رونما ہونے والے والعات پر گفتگو کرتے ہوئے جرمن سیاسی مفکر سیباستیان بُوکو‬
‫کہتے ہیں کہ جرمن اور امریکی جمہوریتوں میں سنگین فرق پایا جاتا ہے۔‬

‫امریکا میں چار سال کی صدارتی مدت کے دوران وہاں کا صدر اس نظام پر سوال اٹھاتا رہتا ہے اس کے برعکس جرمنی میں‬
‫پارلیمنٹ میں د اخل ہونے والے دائیں بازو کے مظاہرین کی حمایت کرنے والے جرمن معاشرے کی ایک انتہائی للیل اللیت تھی۔‬
‫انہوں نے الئپزگ یونیورسٹی میں استبدادیت کے موضوع پر ہونے والی ایک ریسرچ کے نتائج کے حوالے سے بنایا کہ‪ ،‬جرمن‬
‫لوم جمہوری الدار اور نظام حکومت سے مطمئن ہے۔ تب بھی سیباستیا بُوکو اس سے منکر نہیں کہ جرمن معاشرے میں ایک‬
‫چھوٹی بنیاد پرست اللیت بھی موجود ہے جو جمہوریت پر سوال اٹھاتی ہے۔‬

‫ڈانیئل سبالٹ کا کہنا ہے کہ ان والعات سے جو سبك ملتا ہے وہ یہ کہ جمہوریت کوئی مشین نہیں کہ اپنا خود سے دفاع کر سکے‬
‫‘‘بلکہ اس کی الدار کا دفاع کرنا الزمی ہے۔ ان کے بمول‪ ''،‬المیہ یہ ہے کہ جرمنوں کو جمہوری سبك امریکیوں نے پڑھایا تھا۔‬

‫ہنگری کے وزیر اعظم وکٹوراُربان‬

‫۔‬

‫‪‬‬

You might also like