You are on page 1of 13

‫‪Catalog‬‬

‫‪Today.pdf ························································································································································· 1‬‬


‫‪Today's News.pdf ············································································································································· 2‬‬
‫‪.pdf ·················································································· 3‬ہنکمم رپ کلم یسک پمرٹ ںیم ںوند یرخآ‬
‫’ ہنکمم رپ کلم یسک پمرٹ ںیم ںوند یرخآ‬ ‫‪ ····························· 3‬ںیہ ےتکس رک‘ہلمح یمٹیا‬
‫‪.pdf ········································· 6‬رادرک اک ناتسکاپ ںیم تارکاذم نیبام ےک نابلاط روا تموکح ناغفا‬
‫‪ ······································ 6‬رادرک اک ناتسکاپ ںیم تارکاذم نیبام ےک نابلاط روا تموکح ناغفا‬
‫‪.pdf ···························· 8‬ںيہ یتہر رارقرب تامالع یھب دعب ہام یئک ےک یباي تحص ےس سينا ڈووک‬
‫‪ ·· 8‬چرسیر یئن ‪،‬ںيہ یتہر رارقرب تامالع یھب دعب ہام یئک ےک یباي تحص ےس سينا ڈووک‬
‫‪.pdf ·························································································· 10‬نیفدت یک نیلوتقم ےک ےیملا ھچم‬
‫‪ ······································ 10‬ےئگ چنہپ ہٹئوک ناخ نارمع ‪،‬نیفدت یک نیلوتقم ےک ےیملا ھچم‬
Today's
News

By Syed Sulaiman Shah &


Suhana Panhwar
‫آخری دنوں میں ٹرمپ کسی ملک پر ممکنہ‬
‫’ایٹمی حملہ‘ کر سکتے ہیں‬
‫امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر پیلوسی کو خدشہ ہے کہ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں صدر‬
‫ٹرمپ ممکنہ طور پر کسی ملک پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ بھی کر سکتے ہیں۔ پیلوسی نے مطالبہ‬
‫کیا ہے کہ ٹرمپ کے اختیارات کم کیے جانا چاہییں۔‬

‫چند ہی روز میں اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے امریکی صدر ٹرمپ اور ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی‬
‫پیلوسی‬

‫امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کہالنے والے ایوان زیریں کی ڈیموکریٹ خاتون اسپیکر نینسی پیلوسی‬
‫کے مطابق انہیں تشویش ہے کہ موجودہ ریپبلکن صدر ٹرمپ بیس جنوری کو ختم ہونے والی اپنے صدارتی‬
‫عہدے کی مدت کے آخری دنوں میں ممکنہ طور پر کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ بھی کر سکتے‬
‫ہیں۔ پیلوسی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صدارتی‬
‫اختیارات کم کیے جانا چاہییں۔‬

‫صدارتی اختیارات میں ممکنہ کمی کیسے؟‬


‫کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے حملے کا ممکنہ حکم دینے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اختیارات میں‬
‫جس کمی کی بات کی گئی ہے‪ ،‬اس کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اول تو امریکا میں ایسے کسی حملے کا‬
‫حکم دینے کا آئینی اختیار صرف ہوتا ہے صدر کے پاس ہے‪ ،‬دوسرے یہ کہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش‬
‫جواب موجود ہی نہیں کہ اس حوالے سے صدارتی اختیارات میں کوئی بھی کمی کیسے اور کس کے ذریعے‬
‫کی جا سکتی ہے۔‬
‫خود صدر ٹرمپ نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ آئندہ چند روز میں کسی ملک پر جوہری ہتھیاروں‬
‫سے حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔ تاہم ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کی تشویش اپنی جگہ ہے کہ‬
‫ٹرمپ ایسا کر بھی سکتے ہیں۔‬

‫امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر کے طور پر نینسی پیلوسی ملک کے اہم ترین سیاسی عہدوں میں سے ایک پر فائز ہیں‬

‫چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ملی کے ساتھ بات چیت‬


‫اسپیکر نینسی پیلوسی کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 'بے قابو ہو جانے کے بعد‘ کوئی نئی جنگ بھی شروع کر‬
‫سکتے ہیں۔ کانگریس کے ایوان زیریں کی اسپیکر پیلوسی نے کہا کہ انہوں نے جمعہ آٹھ جنوری کی رات اس‬
‫بارے میں امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی سے بھی بات چیت کی۔‬
‫عراقی عدالت کی جانب سے ٹرمپ کی گرفتاری وارنٹ جاری‬
‫اس گفتگو میں اس بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا کہ صدر ٹرمپ کو ممکنہ طور پر کوئی فوجی کارروائی شروع‬
‫کرنے یا کسی جوہری حملے کا حکم دینے سے روکنے کے لیے کس طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا‬
‫سکتی ہیں۔‬
‫اس بارے میں جنرل مارک ملی کے ترجمان کرنل ڈیو بٹلر نے تصدیق کی کہ نینسی پیلوسی نے جنرل ملی سے‬
‫بات چیت کی ہے‬
‫ترجمان نے مزید کوئی تفصیالت بتائے بغیر صرف اتنا کہا‪'' ،‬جنرل ملی نے نینسی پیلوسی کے ان تمام سواالت‬
‫کے جوابات دی ے‪ ،‬جو انہوں نے جوہری کمان اور اتھارٹی سے متعلق طے شدہ طریقہ کار کے حوالے سے‬
‫‘‘پوچھے تھے۔‬
‫اختیارات کا تاریخی پس منظر‬
‫نینسی پیلوسی کی ممکنہ جوہری حملے سے متعلق تشویش کا پس منظر یہ ہے کہ امریکا کی جوہری حملے کر‬
‫سکنے کی اہلیت کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران ‪0491‬ء کی دہائی میں ہوا تھا اور تب سے ہی ایسے‬
‫کسی بھی حملے کا حکم دینے کا قطعی اختیار صرف ملکی صدر کے پاس ہی ہوتا ہے۔‬
‫۔‬
‫اپنے اس اختیار کا عملی استعمال آج تک صدر ہیری ٹرومین کے عالوہ کسی دوسرے امریکی صدر نے نہیں کیا۔ امریکی فضائیہ‬
‫نے جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں پر ایٹم بم صدر ٹرومین ہی کے حکم پر گرائے تھے‬

‫صدارتی حکم پر عمل درآمد سے ممکنہ انکار‬


‫امریکا میں اگر کوئی صدر ملکی مسلح افواج کو کسی دوسرے ملک پر جوہری حملہ کرنے کا حکم دے دے تو‬
‫ایسا ممکن ہے کہ متعلقہ فوجی افسر اس حکم پر عمل کرنے سے انکار کر دے۔‬
‫تاہم ایسا تبھی کیا جا سکتا ہے جب متعلقہ افسر کو ضروری قانونی جائزے کے بعد یہ یقین ہو جائے کہ کسی‬
‫جوہری ہتھیار یا ہتھیاروں سے حملے کا ایسا کوئی حکم مسلح تنازعات کا احاطہ کرنے والے بین االقوامی‬
‫قوانین کے منافی اور غیر قانونی ہو گا۔‬
‫تاہم متعلقہ فوجی اہلکار کی طرف سے ایسا ممکنہ انکار بھی کوئی یقینی حفاظتی پہلو اس لیے نہیں ہے کہ‬
‫فوج کی طرف سے صدارتی حکم پر عمل درآمد سے انکار بظاہر ایک 'انہونی‘ سے بات لگتی ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ اگر کبھی ایسا ہوا بھی‪ ،‬تو یہ اپنی نوعیت کا اولین واقعہ ہو گا کیونکہ تاریخ میں پہلے سے ایسی کوئی‬
‫مثال موجود ہی نہیں ہے۔‬
‫افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات میں‬
‫پاکستان کا کردار‬
‫قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ سست روی سے‬
‫جاری یہ مذاکرات ایسے وقت پر جاری ہیں جب افغانستان میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے‬
‫باعث شدید تشویش پائی جاتی ہے‬
‫۔‬

‫افغان طالبان کا سیاسی دفتر دوحا میں ہے اور گزشتہ منگل کے روز وہیں کابل حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا نیا دور‬
‫شروع ہوا تھا۔ تاہم اس کے بعد طالبان کے مذاکرات کار پاکستان روانہ ہو گئے تھے‪ ،‬جس کے باعث مذاکرات آج ہفتے کے روز‬
‫تک کے لیے مؤخر کر دیے گئے تھے۔‬

‫طالبان اور امریکا کے نمائندے پاکستان میں‬

‫اعلی اہلکار بھی پاکستان میں موجود تھے‪ ،‬جنہوں نے پاکستان کی‬
‫ٰ‬ ‫یہ امر بھی اہم ہے کہ اس دوران امریکی محکمہ دفاع کے ایک‬
‫طاقت ور فوج کی قیادت سے مالقات کی تھی۔‬

‫اسالم آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستانی فوجی قیادت سے مالقات میں بحر‬
‫ہند اور بحر الکاہل سے متعلقہ امور کے لیے امریکا کے قائم مقام نائب وزیر دفاع ڈیوڈ ہیلوی نے افغانستان میں پرتشدد واقعات‬
‫فوری طور پر کم کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔‬

‫سفارت خانے کے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا کہ ڈیوڈ ہیلوی نے پاکستان فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ساحر‬
‫شمشاد مرزا سے مالقات میں انہیں بتایا کہ واشنگٹن پاکستان کے ساتھ بھی 'طویل المدتی اور دوطرفہ طور پر فائدہ مند سکیورٹی‬
‫تعلقات‘ اور انسداد دہشت گردی کے لیے باہمی تعاون مضبوط کرنا چاہتا ہے۔‬
‫اس مالقات میں فریقین میں افغانستان میں پرتشدد واقعات میں فوری کمی اور افغان فریقین کے مابین بامعنی مذاکرات کی ضرورت‬
‫پر بھی اتفاق کیا گیا۔‬

‫پاکستان افغان طالبان پر نمایاں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور طالبان کو مذاکرات کے لیے راضی کرنے میں بھی اسالم آباد نے اہم‬
‫کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان بارہا طالبان سے بھی افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں روکنے کی درخواست کرتا رہا ہے تاہم اس کے‬
‫ساتھ ساتھ اسالم آباد کا یہ بھی کہنا ہے کہ کابل حکومت بھی طالبان کے خالف اپنی کارروائیاں روکے۔‬

‫امریکا اور طالبان کے مابین طالبان کی طرف سے مذاکرات کرنے والے مال عبدالغنی برادر اور طالبان کے چیف مذکرات کار مال‬
‫حکیم بھی بدھ کے روز تک پاکستان ہی میں تھے۔ تاہم اس دوران ان کی سرگرمیاں کیا تھیں اور کن کن سے ان کی مالقات ہوئی‪،‬‬
‫اس بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔‬

‫طالبان اور افغان حکومت کی ترجیحات مختلف‬

‫افغانستان میں قیام امن کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی طالبان اور افغان حکومت کو قیام امن کا‬
‫موقع ضائع ہو جانے کے خالف خبردار اور جنگ بندی کرنے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔‬

‫طالبان کے ایک رہنما نے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ طالبان کابل حکومت پر اعتماد نہیں‬
‫کر رہے۔ طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے بھی فوری طور پر جنگ بندی کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔‬

‫تجزیہ کاروں کے مطابق افغان حکومت کی ترجیح جنگ بندی ہے تاہم طالبان کی ترجیح یہ معلوم کرنا ہے کہ جنگ کے بعد کا‬
‫افغانستان کیسا ہو گا اور وہ شراکت اقتدار کے لیے معاہدہ چاہتے ہیں۔‬

‫موجودہ مذاکرات میں بھی مستقبل کے افغانستان میں طالبان کے سیاسی کردار کے حوالے سے روڈ میپ طے کرنا شامل ہے۔‬

‫اس دوران ایسی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ افغانستان میں ممکنہ طور پر کوئی عبوری سیٹ اپ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم‬
‫افغان صدر اشرف غنی نے کسی عبوری نظام کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ گزشتہ ہفتے زلمے خلیل زاد‬
‫کے دورہ کابل کے دوران صدر غنی نے ان سے مالقات نہیں کی تھی۔‬

‫افغان صدر اشرف غنی نے آج ہفتے کے روز سی این این کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کہا کہ وہ مستقبل میں اقتدار‬
‫کسی منتخب ملکی حکومت ہی کے حوالے کریں گے۔‬
‫کووڈ انيس سے صحت يابی کے کئی ماہ بعد بھی‬
‫عالمات برقرار رہتی ہيں‪ ،‬نئی ريسرچ‬
‫کووڈ انيس سے صحت يابی کے بعد بھی مريضوں کی اکثريت ميں اس مرض کے طويل المدتی‬
‫اثرات نماياں رہتے ہيں اور يہ امکان بھی موجود رہتا ہے کہ مريض دوبارہ اس وبائی مرض کا‬
‫شکار ہو جائے۔ اس ليے صحت يابی کے بعد بھی احتياط الزمی ہے۔‬

‫ايک تازہ طبی مطالعے کے نتيجے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ کووڈ انيس کے مريضوں کی اکثريت ميں مکمل صحت يابی کے‬
‫کئی کئی ماہ بعد بھی اس بيماری کی کم از کم ايک عالمت برقرار رہتی ہے۔ اس تحقيق سے پتا چال ہے کہ تين چوتھائی سے بھی‬
‫زائد مريضوں ميں صحت يابی کے چھ ماہ بعد تک ايک عالمت باقی رہتی ہے۔ سب سے زيادہ پائی جانے والی عالمت شديد‬
‫تھکاوٹ کا احساس اور پٹھوں ميں درد تھی۔ چند مريضوں ميں نيند کی کمی بھی نوٹ کی گئی۔‬

‫کووڈ انيس کے طويل المدتی اثرات‬

‫يہ مطالعہ کووڈ انيس کے طويل المدتی اثرات کا جائزہ لينے کے ليے چينی شہر ووہان ميں مکمل کيا گيا‪ ،‬جس کے نتائج سائنسی‬
‫جريدے لَينسٹ ميں شائع ہوئے ہيں۔ مطالعے ميں ووہان کے ايک ہسپتال سے گزشتہ برس جنوری سے مئی کے درميان عالج کے‬
‫بعد صحت ياب ہونے والے ‪ 33711‬مريضوں کا طبی معائنہ کرايا گيا۔ ستاون برس کی اوسط عمر کے مريضوں سے جون اور‬
‫ستمبر کے درميان سواالت پوچھے گئے تھے۔‬
‫اس مطالعے کے نتائج پر مشتمل رپورٹ کے مرکزی مصنف اور نيشنل سينٹر فار ريسپيريٹری ميڈيسن کے ماہر محقق پروفيسر بن‬
‫کاؤ کے مطابق‪'' ،‬چونکہ کووڈ انيس ايک بالکل ہی نئی بيماری ہے‪ ،‬ہم مريضوں کی صحت پر اس کے طويل المدتی اثرات کو اب‬
‫آہستہ آہستہ سمجھ رہے ہيں۔‘‘ پروفيسر کاؤ نے مزيد کہا کہ اسٹڈی کے نتائج اس امر کی نشاندہی کرتے ہيں کہ مريضوں کی‬
‫صحت يابی اور ہسپتال سے رخصتی کے بعد بھی ان کی ديکھ بھال الزمی ہے‪ ،‬بالخصوص ان مريضوں کی جن ميں اس وبائی‬
‫مرض کی شديد عالمات ظاہر ہوئی ہوں۔‬

‫اس مطالعے ميں کووڈ انيس سے صحت ياب ہونے والے افراد ميں پائی جانے والی اينٹی باڈيز کا بھی جائزہ ليا گيا۔ صحت يابی‬
‫کے چھ ماہ بعد ايسی اينٹی باڈيز کا تناسب ساڑھے باون فيصد تھا‪ ،‬جس کا مطلب ہے کہ يہ وبائی مرض کسی مريض کو دوبارہ‬
‫بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔‬

‫کورونا وائرس کی وبا کی تازہ عالمی صورتحال‬

‫امريکا کی جان ہاپکنز يونيورسٹی کے نو جنوری کے اعداد و شمار کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا اب تک تقريبا ً ‪98‬‬
‫ملين افراد کو متاثر کر چکی ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے دنيا بھر ميں انيس الکھ چودہ ہزار سے زائد افراد ہالک ہو چکے‬
‫ہيں۔ امريکا‪ ،‬بھارت اور برازيل اس وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ ممالک ہيں۔‬
‫مچھ المیے کے مقتولین کی تدفین‪ ،‬عمران خان‬
‫کوئٹہ پہنچ گئے‬
‫مچھ سانحے میں ہالک ہونے والے ہزارہ مزدوروں کی تدفین کے بعد وزیراعظم وفاقی وزیر شیخ‬
‫رشید احمد اور دیگر حکام کے ہمراہ آج خصوصی دورے پرکوئٹہ پہنچے۔‬

‫وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گردی کے حالیہ واقعے میں ہالک ہونے والے ہزارہ کان کنوں کے لواحقین سے سردار بہادر‬
‫خان ویمن یونیورسٹی میں خصوصی مالقات کی ۔ اس موقع پر لواحقین سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مچھ میں پیش‬
‫انے والے واقعے کو ایک قومی سانحہ قرار دیا۔ہزارہ برادری کو پاکستان میں جیسینڈا آرڈرن کی تالش‬

‫ہالکتیں ایک منظم سازش ہے‬

‫پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مقتول مزدوروں کے لواحقین سے مالقات میں کہا کہ ہزارہ برادری پر شدت پسندوں کا‬
‫حالیہ حملہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کرنے کی ایک منظم سازش کا حصہ ہے جسے حکومت کامیاب نہیں ہونے دے‬
‫گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حملے میں ملوث افراد کو ہر ممکن طریقے سے انصاف کے کٹہرے میں الیا جائے گا۔‬
‫کوئٹہ میں عمران خان نے ہزارہ برادری کے وفد سے مالقات کی‬

‫ہزارہ کمیونٹی کی شہدا ایکشن کمیٹی کے ترجمان آغا رضا نے بھی میڈیا کو بتایا کہ وزایر اعظم نے ہزارہ برادری کے تمام‬
‫مطالبات جلد پورے کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ رضا کے مطابق متاثرین کے لیے دھائی ملین روپے کی امداد بھی فراہم کی۔‬
‫وزیر اعظم کی کوئٹہ آمد کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتطام کیے گئے تھے۔‬

‫فرقہ ورانہ دہشت گردی‬

‫عمران خان کا ہزارہ متاثرین سے مالقات کے موقع پرکہنا تھا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی پھیالنے والے عناصر ملک کو عدم‬
‫استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نےکہا " میں ہزارہ برادری کے دکھ درد میں برابر کا شریک ہوں ۔ ہزارہ برادری‬
‫خود کو مایوسی سے نکالے ۔ ہم عوام کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں ۔ سیکیورٹی امور‬
‫"کا یہاں از سرنو جائزہ لیا جا رہا ہے۔‬

‫وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بعد ترجیحی بنیادوں پر اب عملی اقدامات‬
‫اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول " حکومت غم کی اس گھڑی میں ہزارہ برادری کو کبھی اکیال نہیں چھوڑے گی۔ ہم نے اپ کے‬
‫مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ سنجیدگی دکھائی ہے ۔ کچھ عناصر ذاتی مفادات کے لئے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش‬
‫"کر رہے ہیں ہمیں مل کر ایسے عزائم کو ناکام بنانا ہوگا۔‬

‫ڈیڈ الک اور تدفین‬

‫بلوچستان میں حکومت اورہزارہ دھرنا مظاہرین کےدرمیان مذاکرات طویل ڈیڈ الک کے بعد گزشتہ شب کامیاب ہو گئے تھے ۔‬
‫جس کے بعد ہزارہ برادری نےدھرنا ختم کرکے آج ہزارہ ٹاون کے مقامی قبرستان میں اپنے میتوں کی تدفین‬
‫ہزارہ برادری نےدھرنا ختم کرکے آج ہزارہ ٹاون کے مقامی قبرستان میں اپنی میتوں کی تدفین کی‬

‫وزیراعلی بلوچستان سمیت وفاقی اور صوبائی وزراء اور مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے‬
‫ٰ‬ ‫ہالک شدگان کی نمازجنازہ میں‬
‫رہنماء عالمہ راجہ ناصر عباس نے بھی شرکت کی۔ کوئٹہ میں حکومت اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذکرات کامیاب ہونے کے‬
‫بعد کراچی ‪،‬الہور اور ملک کے دیگر حصوں میں جاری احتجاجی دھرنے بھی گزشتہ رات گئے ختم کر دئیے گئے تھے‬
‫۔بلوچستان میں مسلح افراد نے ‪ 11‬کان کنوں کو قتل کر دیا‬

‫اعلی سطحی اجالس‬


‫ٰ‬

‫وزیر اعظم عمران خان نے کوئٹہ پہنچ کر جہاں ہزارہ برادری کے نمائندوں سے مالقات کی وہاں صوبائی امن و سالمتی کی ایک‬
‫اعلی‪ ،‬وفاقی وزیر داخلہ اور ملک کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ‬
‫ٰ‬ ‫میٹنگ کی صدارت بھی کی۔ اس میٹنگ میں گورنر‪ ،‬وزیر‬
‫جنرل سرفراز علی بھی موجود تھے۔‬

You might also like