You are on page 1of 11

‫ہ ج رت مدی ن ہ‬

‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬
‫ش ق‬ ‫گران م ٹالہ‬ ‫م غالہ گار‬
‫ڈاک ر ع ب د الر ی د ادری‬ ‫اص ر علی‬
‫صاحب ن‬
‫رول مب ر‬
‫‪52‬‬

‫لوم اسالمی ہ‬‫ش ع ہع‬


‫ن ب ِٹ‬
‫دی یو ی ورس ی آف الہ ور‬
‫سش‬
‫ی‬
‫‪2017‬۔‪2016‬‬ ‫ن‬
‫ض‬ ‫ت‬
‫عارف مو وع‬
‫الی نے‬
‫ت ارض و سماء میں انسان ہللا تعالی کی عمدہ تخلیق ہے جسے ہللا تع ٰ‬ ‫کائنا ِ‬
‫حسن سیرت اور صورت س ے ن وازا ہے انس ان کی‬ ‫ِ‬ ‫عقل و شعور کے ساتھ ساتھ‬
‫ہدایت اور راہنمائی کے لیئے ہللا تع الی نے اپ نی کت ابیں ن ازل کیں اور ای ک الکھ‬
‫چوبیس ہزار انبیا ِء کرام کو مبعوث فرمایا ج و اپ نے اپ نے زم انے اور اپ نی اپ نی‬
‫اقوام کوہللا تعالی کا پیغام پہنچاتے رہے اور انہیں حکمت و دانائی کی تعلیم دی تے‬
‫رہے ت اکہ انس ان دنی ا اور ٓاخ رت میں کامی اب وک امران ہ و س کے جب انس انی‬
‫معاشرہ ترقی کی منازل طے کر کے بلوغت کے مقام تک پہنچ گیا ت و ن ئے ن ئے‬
‫مسائل نے جنم لیا ان مسائل کے حل کے لئے ہللا تعالی نے دو قسم کے احکام ات‬
‫عطا فرماے جن کو اوامر اور نواہی سے تعبیر کیا جاتا ہے شریعت میں اوامر‬
‫اور نواہی دون وں ہی اہمیت کے حام ل ہیں ن واہی میں ای ک ش راب ہے جس‬
‫کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے اس کی مختلف اشکال میں سے ای ک ش کل‬
‫الکحل بھی ہے عصر حاضر میں اس ک ا اس تعمال مختل ف اش یاء میں مق دار کی‬
‫کمی زیادتی کے ساتھ ہوتا ہے جن کا استعما ل کثرت سے ہوت ا ہے ت و معل وم‬
‫ہونا چاہیے کہ شریعت میں اس کی کون سی ص ورتیں ج ائز ہیں اور ک ون س ی‬
‫ناجائز ہیں‬
‫اسی اہمیت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے محقق نے اپنے مقالہ کا عنوان" الکح ل کی‬
‫جائز اور ناجائز صورتیں "رکھا ہے تاکہ اس عظیم کام میں محقق اپنا حصہ ڈال‬
‫کر امت مسلمہ کی راہنمائی کا سبب بن سکے۔‬
‫ض‬
‫اہ می ت مو وع‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫عم ن‬ ‫س ش‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ےاور ہ ر م لمان ری عت پر ل کرے کی کو ش کر ا‬ ‫گاؤ‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ل‬ ‫کو‬ ‫مان‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫عت‬ ‫ی‬ ‫ر‬
‫ے جس پرسجعمل غکر کے‬ ‫عہ‬ ‫ذر‬‫ئ‬ ‫ایسا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ہ عت ر عم‬ ‫ی‬ ‫ر‬
‫لش‬
‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ی‬
‫عم‬ ‫م‬ ‫شہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫خ پ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ب‬‫اور ا سانب کی ی خ‬
‫ا‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫نہ‬
‫ے ب ی ر ضل‬‫ے۔ مسا ل ری ئعت کو ھ‬ ‫س‬ ‫خ‬ ‫ہ‬
‫نا ممسان د ت ی ا می جں ھی اورن ٓا ہرتب می ںش مھی سر رو ول کت ا ہ ل‬
‫ج‬
‫کے مسا ل ت ن کا عصر حا ر‬ ‫صا ل ت‬ ‫ح‬ ‫ک‬
‫ج‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ے ن می ں ن ن وا ی ھی ا ل ہ ی ں ب ا صو ث‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ا کن ہ‬
‫ے ن می ں‬ ‫ٹ‬ ‫ن و اہ‬‫سے ا عما ل‬ ‫ے یک و کہ ی ہ روز شمرہ کی چ یزوں شمی ں ک رت ت‬ ‫خ‬
‫سے گہرا لق ہ‬
‫ہ‬
‫ے ا عمال وے وضالے ی کہ نج ات‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫کے م رب ت ‪ٓ ،‬اپر شن کے ی جل‬ ‫ادوفی ات ب ا خ صوص شھا سی‬
‫ک‬
‫ع‬
‫ن کا لق عصر حا ر می ں ہ ر ا سان‬ ‫ش‬ ‫‪،‬پر ی وم اور م ت‬
‫ں ت‬ ‫ل ہ ی ں ی ہ ہوہ ا ی اء ہ ی ض‬
‫لف م روب ات ا ض‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے ج و اس مو وع کی ا می ت کو وا ع کر ا ہ‬ ‫کی ز دگی کے سا ھ ہ‬
‫ض‬ ‫نت‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫وع ت‬
‫اب مو ئ‬
‫با خ غ‬‫سب ض‬
‫ے‬ ‫ے کہ ہ ر ا سان کا ئواس طہ نانئا ی ا ءت سے پڑضا ہ ن‬ ‫ت‬
‫ے و پ ہ چ لت ا ہ‬‫ں اگر تور ک ی ا ج ا ت‬
‫ح‬ ‫ک‬ ‫ل‬‫جعصر ِحا ر می‬
‫ے موخج ودہ دور می ں اس کی ج اض ز اور اج ا ز صور وں کو وا ح کر ا‬ ‫عمال ہ و ا ہ‬ ‫ن می ں ا ل اس‬
‫ن‬ ‫ض‬
‫ے کہ‬ ‫ن ب ات کی ن‬
‫ہ‬ ‫ے رورت اس‬ ‫ہ‬ ‫ے یک و کہ ف ان می ں لط بم حث ہ و چ کا‬ ‫ہ‬ ‫ب ہت روری‬
‫ے عمل نکرتے می ں آسا ی پ ی دا‬ ‫اے اورن ان کے یلض‬ ‫ج‬ ‫لوگوں کو ان کی درست معر ت حاصل ہ و‬
‫ے جس کے پ یش طر اس مو وع کا ا خ اب ک ی ا گ ی ا ۔‬ ‫ص‬
‫ہ وج اے درا ل ی ہی وہ سب ب ہ‬
‫ئ‬ ‫ق‬
‫ن ٹ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫کام کا ج ا زہ‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫سا‬
‫راس وعی ت کا کسی یو یخورس ی‬‫ل‬ ‫پ‬ ‫وع‬ ‫ےن اس مو‬ ‫ن پ ہل‬
‫م طابق اس سے‬ ‫م رے ق طا عہ ن‬
‫کے‬ ‫ی ح یم ل‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫پ‬
‫کام ہی ں وا۔ لماء ے ضا ی کت ا وں می ں ا ت ل اور اس کی لف‬‫ع‬ ‫ہ‬
‫مکم‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ں ی ض‬ ‫تمی ت‬
‫ف‬
‫ے گر عصر حا ر می ں و اس کی صور ی ں ہ ی ں ان کی ل‬ ‫صورص وں نکا ذکر م ترور ک ی ا ہ‬
‫ق‬ ‫ج ق‬ ‫ت‬ ‫ی ل ہی شں ل تی ن۔ ن‬
‫چ‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ت مج‬
‫ے‬‫ے و اب ل در ہ‬ ‫ل‬
‫ے اس کے ق ا ھی کاوش کی ہ‬ ‫ال یلب ہ ت قلس رعیحق یا ڈی ا ض‬
‫ے۔‬ ‫کن حاس پر مزی د ق کی رورت ہ‬
‫اسلو ب ی ق‬
‫‪۱‬۔مقالہ ہذا بحث بیانیہ پر مشتمل ہوگا ۔‬
‫‪۲‬۔مختلف آراء جائزہ لیا جاے گا۔‬
‫‪۳‬۔ تجاویز پیش کی جائیں گی۔‬
‫‪۴‬۔ حوا لہ جات ہر صفحہ کے آخر میں ذکر کیے جائیں گے‬
‫تق‬
‫ق‬
‫م ا صد ح ی ق‬
‫‪۱‬۔ مسلہ کی اہمیت کو واضح کرنا‬
‫‪۲‬۔ الکحل کی مختلف صورتوں کی وضاحت کرنا‬
‫‪۳‬۔ امت مسلمہ کی راہنمایی کرنا‬

‫تعا رفی نابحا ث‬


‫ت‬ ‫ئ ن ئ‬ ‫ل‬
‫یہ مقالہ” ا کحل کی ج ا ز اور اج ا ز صور ی ں “کے ام سے معنون ہے جوکہ ایک‬
‫مقدمہ ‪،‬چار ابواب اور آٹھ فصول پر مشتمل ہو گا۔ٓاخر میں خالصہ بحث ‪،‬نتائج‬
‫و حاص‪55‬الت ‪،‬سفارش‪55‬ات ‪،‬اش‪55‬اریہ ‪،‬فہرس‪55‬ت اعالم‪،‬فہرس‪55‬ت ام‪55‬اکن اور مص‪55‬ادر‬
‫ومراجع کی فہرست درج کی جائےگی۔‬

‫ہ‬ ‫ت‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫عارف و ا نمی ت‬
‫غ‬ ‫ل کح‬
‫فب صاب اول ‪:‬‬
‫ا ل کا ل وی ع ی ‪ ،‬اص الحی م ہوم اور ا سام‬
‫ط‬ ‫م‬ ‫ِل اول‪:‬‬
‫الکحل کے طبی اثرات‬ ‫فصل ِدوم‪:‬‬

‫ب دوم‪ :‬الکحل کی بناوٹ اور عموم بلوی کی‬


‫با ِ‬
‫تحقیق‬
‫الکحل کے ترکیبی اجزاء‬ ‫فصل اول‪:‬‬
‫ِ‬

‫الکحل اور عموم بلوی‬ ‫فصل دوم‪:‬‬


‫الکحل اسالمی تعلیمات کی روشنی میں‬ ‫ب سوم‪:‬‬
‫با ِ‬
‫الکحل کی حلت و حرمت‬ ‫فصل ِ اول ‪:‬‬

‫الکحل کی بیع و شرا ء‬ ‫فصل دوم‪:‬‬


‫ِ‬

‫‪:‬عصر حاضر میں الکحل کا استعمال‬ ‫باب چہارم‬


‫الکحل اور شرا ب میں فرق‬ ‫فصل اول ‪:‬‬

‫الکحل کی جائز اور ناجائز صورتیں‬ ‫فصل دوم ‪:‬‬


‫ل ف‬
‫کتب فقہ‬ ‫خ تف‬ ‫ئ‬ ‫ش‬
‫ن سر ی‪،‬م و ی ‪۴۸۳‬ھ‪،‬المب سوط‪،‬م طب وعہ دارا معر ہ‪،‬بیروت‪،‬‬ ‫ع‬ ‫مس اال مہ تدمحم ب‬
‫‪۱۴۲۱‬فھ۔‬ ‫روت‪،‬‬ ‫ل‬
‫‪۱۳۹۸‬شھ‪،‬دارالکئ ب ا لمی ہ بی خ‬
‫ش‬ ‫ت‬
‫مہ ن دمحم ب ن سر ی‪،‬م و ی ‪۴۸۳‬ھ‪ ،‬رح سی ر کب یر‪،‬م طب وعہ المکت ب ہ‬ ‫غ‬ ‫ث مس اال ف‬
‫ال ورۃاالسالمی ہ ا ا ست ان‪۱۴۰۵،‬ھ۔‬
‫عالمہ ط اہر بن عبدالرش یدبخاری‪،‬مت وفی ‪۵۴۲‬ھ‪،‬خالص ۃ‬
‫الفتاوی‪،‬مطبوعہ امجد اکیڈمی الہور ۔‬
‫عالمہ ابو بکر بن مسعود کاسانی متوفی‪۵۸۷‬ھ‪،‬بدائع الصناع‪،‬مطب وعہ‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت۔‬
‫ھ‪،‬فتاوی قاضی خان‪،‬مطب وعہ‬ ‫ٰ‬ ‫حسین بن منصور اوزجندی‪،‬متوفی‪۵۹۲‬‬
‫کبری بوالق مصر۔‬ ‫ٰ‬ ‫مطبعہ‬
‫اب و الحس نعلی بن ابی بک ر مرغین انی مت وفی ‪۵۹۳‬ھ‪،‬ہ دایہ اولین‬
‫وٓاخرین‪،‬مطبوعہ شرکت العلمیہ ‪،‬ملتان‬
‫فخر الدین عثمان بن علی متوفی ‪۷۴۳‬ھ‪،‬تبیین الحقائق‪،‬مطبوعہ س عید‬
‫کپنی کراچی۔‬
‫عالم بن العالء انصاری مت وفی ‪۷۸۶‬ھ ‪ ،‬فت اوی تاتارخ انیہ مطب وعہ‬
‫ادارۃ القرآن کراچی‬
‫عالمہ بدرال دین عی نی مت وفی ‪۸۵۵‬ھ ‪ ،‬ش رح العی نی مطب وعہ ادارۃ‬
‫القرآن کراچی‬
‫کم ال ال دین ابن ہم ام‪،‬مت وفی ‪۸۶۱‬ھ‪ ،‬فتح الق دیر مطب وعہ دارالکتب‬
‫العلمیہ بیروت۔‬
‫جالل الدین خوارزمی ‪،‬کفایہ ‪،‬مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۔‬
‫زین الدین بن نجیم‪،‬مت وفی ‪۹۷۰‬ھ‪،‬البحرارائ ق‪،‬مطب وعہ مطبعہ العلمیہ‬
‫مصر۔‬
‫عالءال دین محم د بن علی بن محم د حص کفی مت وفی ‪۱۰۸۸‬ھ‪،‬ال در‬
‫المختار‪،‬مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت۔‬
‫نظام الدین مت وفی ‪۱۱۶۱‬ھ‪،‬فت اوی ٰ ع المگیری‪،‬مطب وعہ مطب ع ک بری‬
‫امیریہ بوالق مصر۔‬
‫احم د بن محم د طحط اوی‪،‬مت وفی ‪۱۲۳‬ھ‪،‬حاش یۃالطحطاوی‪ ،‬مطب وعہ‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت‬
‫سید محمد امین ابن عابدین شامی‪،‬متوفی ‪۱۲۵۲‬ھ‪،‬ردالمختار‪ ،‬مطبوعہ‬
‫دار احیاء التراث العربی بیروت۔‬
‫عمیم االحسان البرکتی ‪،‬قواعد الفقہ‪،‬صدف پبلشرز کراچی۔‬
‫وھبہ بن مصطفی الزحیلی‪،‬دار الفکر سوریہ دمشق۔‬
‫شمس الدین ابن احمد ‪،‬تنویر االبصار مع الدر المختار۔‬
‫امام محم د بن ادریس ش افعی ‪،‬مت وفی ‪۲۰۴‬ھ‪،‬االم‪،‬مطب وعہ دار الفک ر‬
‫بیروت‪۱۴۰۳،‬ھ۔‬
‫عالمہ اب و الحس ین علی بن محم دف ح بیب م اوردی ش افعی‪،‬مت وفی‬
‫‪۴۵۰‬ھ‪،‬الحاوی الکبیر‪،‬مطبوعہ دارال کر بیروت‪۱۴۱۴،‬ھ۔‬
‫ف‬
‫عالمہ ابو اسحاق شیرازی‪،‬متوفی ‪،۴۵۵‬المہذب‪ ،‬مطبوعہ دارالمعر ہ‬
‫بیروت‪۱۳۹۳،‬ھ۔‬
‫یحی بن شرف الن ووی‪،‬مت وفی ‪۶۷۶‬ھ‪،‬ش رح المہ ذب‪ ،‬مطب وعہ‬ ‫عالمہ ٰ‬
‫دار الفکر بیروت‪۱۴۲۳،‬ھ‬
‫دون الک ٰ‬
‫بری‪،‬‬ ‫ام ام س حنون بن س عید تن وخی م الکی‪،‬مت وفی‪۲۵۶‬ھ‪،‬الم ٰ‬
‫مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت۔‬
‫وفی ‪۵۹۵‬ھ‪،‬ب دایۃ‬‫قاضی ابو الولید محم د بن احم د بن رش د م الکی ‪،‬مت ٰ‬
‫المجتہد‪ ،‬مطبوعہ دار الفکر بیروت‪۱۴۰۳،‬ھ۔‬
‫خلی ل بن اس حاق م الکی ‪،‬مت وفی ‪۷۶۷‬ھ‪،‬مختص ر خلی ل‪،‬مطن وعہ دار‬
‫صادر بیروت۔‬
‫اب و البرک ات احم د دردی ر م الکی‪،‬مت وفی ‪۱۱۹۷‬ھ‪،‬الش رح الکب یر‪،‬‬
‫مطبوعہ دار الفکر بیروت‪۱۴۰۳،‬ھ۔‬
‫اب و عب دہللا محم د بن محم د الحط اب المغ ربی ‪،‬مت وفی ‪۹۵۴‬ھ‪،‬م واہب‬
‫الجلیل‪،‬مطبوعہ مکتبہ النجاح لیبیا۔‬
‫موفق الدین عبدہللا بن احمد بن قدامہ ‪،‬متوفی ‪۶۲۰‬ھ‪،‬المغ نی‪ ،‬مطب وعہ‬
‫دار الفکر بیروت‪۱۴۰۳،‬ھ۔‬
‫موفق الدین عبدہللا بن احمد بن قدامہ ‪،‬مت وفی ‪۶۲۰‬ھ‪،‬الک افی‪ ،‬مطب وعہ‬
‫دار الفکر بیروت‪۱۴۰۳،‬ھ۔‬
‫تقی الدین بن تیمیہ‪،‬متوفی ‪ ۷۲۸‬ھ‪،‬مجموعۃ الفتاوی‪،‬مطبوعہ ریاض۔‬
‫ش مس ال دین اب و عب دہللا محم د بن فت اح مقدس ی‪،‬مت وفی ‪۷۶۳‬ھ‪،‬کت اب‬
‫الفروع‪،‬مطبوعہ عالم الکتب بیروت۔‬
‫موس ی بن احم د ص الحیی مت وفی ‪۹۶۰‬ھ‪،‬مطب وعہ دار الکتب العلمیہ‬
‫‪،‬بیروت‬
‫کتب لغت‬
‫معطی احم د الزی ات حام د عب دالقادر‪،‬المعجم الوس یط‪ ،‬دار‬
‫ٰ‬ ‫اب راہیم‬
‫النشر ‪ ،‬دار الدعوۃ۔ تحقیق‪ :‬مجمع اللغۃ العربیہ۔‬
‫االفریقی‪ ،‬محمد بن مكرم بن على‪ ،‬أبو الفضل‪ ،‬جمال الدین ابن منظ ور‬
‫األنصاری الرویفعى اإلفریقى(المتوفى‪۷۱۱:‬ھـ) لس ان الع رب ‪،‬ج‪،۱۲‬‬
‫ص‪،۱۲۷‬دار صادر ‪ -‬بیروت‪۱۴۱۴،‬ھ‬
‫البغ دادی عب دالقادر‪ ،‬بن عم ر (المت وفی ‪۱۰۹۳‬ھ) خ زانۃ االدب ولب‬
‫لباب لسان العرب‪ ،‬مکتبۃ الخانجی‪ ،‬القاہری‪۱۴۱۸ ،‬ھ۔‬
‫الم برد‪ ،‬محم د بن یزی د الم برد (المت وفی ‪۲۸۵‬ھ)‪،‬الکام ل فی اللغۃ‬
‫واالدب‪ ،‬دار الفکر العربی القاھرہ‪۱۹۹۷ ،‬۔ٍ‬
‫مج د ال دین ابوط اہر محم د بن یعق وب الف یروز ٓاب ادی‪،‬ق اموس المحی ط‬
‫موئسسہۃ الرسالہ للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت لبنان۔‬

You might also like