Professional Documents
Culture Documents
طلاق کا دن
طلاق کا دن
6جنوری 2020
،تصویر کا کیپشن
معالج اور مشیر امل الحامد کے مطابق دوسرے کو قصوروار• ٹھرانے اور خود مظلوم بن
جانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا
خود کو قصور وار سمجھنا
مترا اور رستم ایک ایرانی جوڑا ہے جن کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہے۔ وہ
2005سے برمنگم میں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
دس برس قبل مترا میں چھاتی کے کینسر اور بعد میں بچہ دانی میں کینسر کی تشخیص
ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ ایک پریسٹ ،بیضہ دانی اور بچہ دانی سے محروم ہو
گئیں۔ اور ان کی زندگی اضطراب سے بھر گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ آپریشنز کی وجہ سے ان کی جنسی زندگی بری طرح سے متاثر ہوئی۔ ’اب
میری زندگی صرف میری بیٹیاں ہیں۔‘
جب ان کے شوہر نے محبت کے لیے کہیں اور دیکھنا شروع کر دیا تو وہ بالکل یقین نہ کر
سکیں۔ جب انھیں اس بارے میں علم ہوا تو انھوں نے اپنے شوہر کو اپنے اور دوسری
عورت کے درمیان ایک کا انتخاب کرنے کا کہا۔
’انھوں نے دوسری عورت کا انتخاب کیا ،وہ جانتے تھے کہ دوسری عورت کا انتخاب
کرنے سے انھیں اپنی بیٹیوں کو بھی کھونا پڑے گا۔‘
،تصویر کا کیپشن
سماجی محقق ڈاکٹر حامد الہاشمی کا خیال ہے کہ کسی تعلق کی ذمہ داری دونوں فریقوں
پر عائد ہوتی ہے اور کسی بھی ناکامی کے لیے دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔
الحامد کے مطابق بعض اوقات ایک فریق چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے،
جبکہ دوسرا فریق اس صورتحال پر قائم رہتا ہے ،جس سے تبدیلی کی کوئی بھی کوشش
مایوس کن ہو جاتی ہے۔
الحامد کہتی ہیں ’مشکالت کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ چیزوں
کو بڑھنے نہ دیں۔ انھیں اکثر اوقات صحیح زبان کا استعمال کرتے ہوئے اور ایک دوسرے
کو نیچا نہ دکھاتے ہوئے بات چیت کرنی چاہیے۔‘
وہ کہتی ہیں ’اس سے ہمیشہ تبدیلی النے میں مدد ملتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں ’اگر شوہر اپنی بیوی کو تحفہ دے کر حیران نہیں کرتا ،تو بیوی کو چاہیے کہ
وہ پہل کرے۔ محض تکرار کرنے کے بجائے ایک ایسا اقدام بہت مددگار ثابت ہو سکتا
ہے۔‘
وہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں ’سب سے اہم بات ہے کہ ہار نہیں مانیا چاہیے بلکہ کوشش جاری
رکھنی چاہیے۔‘
٭٭٭اس مضمون میں شامل افراد کی شناخت کوے تحفظ کے لیے فرضی نام استعمال کیے
گئے ہیں