You are on page 1of 10

‫طالق کا دن‪ :‬اگر آپ کی ازدواجی زندگی مشکل میں‬

‫ہے تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟‬


‫حفار حسن‬ ‫‪‬‬
‫بی بی سی عربی‬ ‫‪‬‬

‫‪ 6‬جنوری ‪2020‬‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫ماہرین کے مطابق کچھ شادی شدہ جوڑے جذباتی اور جنسی طور پر اس قدر التعلق ہو‬
‫جاتے ہیں کہ ان کا رشتہ طالق سے بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔‬
‫دنیا بھر میں جوڑے اپنے درمیان بڑھتی ہوئی دوریوں پر اپنے کمرے میں بحث کرنے‬
‫سے گریز کرتے ہیں جس کی وجہ سے جوڑے اور خاندان کو پہنچنے واال نقصان طالق‬
‫سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫بی بی سی نے اس ’جذباتی خال‘ کا سامنا کرنے والے ایسے ہی کچھ جوڑوں سے بات کی‬
‫اور ماہرین سے پوچھا کہ اس سے نمٹنے کے ممکنہ طریقے کیا ہیں۔‬
‫شادی شدہ لیکن ویران زندگی‬
‫کمال کہتے ہیں ’سچ پوچھیں تو میں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں شادی شدہ ہوں یا طالق یافتہ۔‘‬
‫لندن کے ٹیلی کمیونیکیشن کنسلٹنٹ گزشتہ بیس برسوں سے اپنی اہلیہ ثریا کے ساتھ رشتہ‬
‫ازدواج میں منسلک ہیں اور اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫کچھ جوڑوں کے مطابق وہ ’جذباتی خال‘ کا شکار ہیں‬
‫‪ 46‬سالہ کمال سیاسی اور سماجی مبصر ہیں جن کے فیس بک پر سینکڑوں فالوورز ہیں‬
‫لیکن اپنی بیوی کے ساتھ رشتے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اب خراب ہوتا جا رہا‬
‫ہے ’بھرپور محبت سے اب ایک صرف احترام کا رشتہ‪ ،‬جیسا کام کی جگہ پر آپ کا کام‬
‫کے ساتھیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‬
‫وہ کہتے ہیں ’یہ سب ہمارے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد شروع ہوا۔ ایسا لگا کہ جذباتی‬
‫اور جنسی کشش ختم ہوگئی ہے۔ اور تب سے ایسا ہی ہے۔‘‬
‫یہ بھی پڑھیے‬
‫’عرب دنیا میں بڑھتی ہوئی طالقوں کی وجہ پورن ہے‘‬
‫وہ رات جو کئی خواتین کی زندگیاں تباہ کر دیتی ہے‬
‫’سیب ٹیسٹ‘ جیسی رسومات اور شادی کا خوف‬
‫’ہمارے بیٹے کی پیدائش کے کئی ماہ بعد بھی جب وہ اکیال سونا چاہتی تو میں وجوہات‬
‫تالش کرنے کی کوشش کرتا۔ میں یہی کہتا رہتا کہ یہ شاید ایسا ہارمونز یا بچے کی پیدائش‬
‫کے بعد موڈ میں آنے والی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔‬
‫’جب یہ بڑھنے لگا تو میں نے کچھ ماہرین سے رابطہ کیا۔ ہمارے دوسرے بچے کی‬
‫پیدائش کے بعد ایسا لگنے لگا جیسے اسے ہمارے درمیان کوئی جذباتی یا جنسی تعلق نہیں‬
‫چاہیے۔‘‬
‫کمال کو یاد ہے کہ جب انھوں نے رومانس کی ضرورت پر بات کی تو کیسے ان کی اہلیہ‬
‫نے انھیں ’نوجوانوں کی طرح پیش نہ آنے‘ کو کہا۔ وہ بتاتے ہیں ’جب میں نے اس سے‬
‫بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ اب مجھے ایک باپ کی طرح کا رویہ رکھنا‬
‫چاہیے۔‬
‫’ثریا سمجھتی ہیں کہ وہ ایک مثالی بیوی ہیں کیونکہ وہ بچوں‪ ،‬گھر اور خاندان کا خیال‬
‫رکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بحیثیت ماں اور گھریلو خاتون وہ بہت اچھا کام کر رہی ہیں‬
‫لیکن وہ بس یہی کر رہی ہیں۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫کیا رومانس ہمیشہ قائم رہ سکتا ہے؟‬
‫ان چاہا محسوس کرنا‬
‫کمال کی مایوسی جلد غالب آنے لگی۔ وہ ان چاہا محسوس کرنے لگے اور پیچھے ہٹنے‬
‫لگے۔ وہ اکثر اپنے کمرے میں رہنے لگے اور فیس بک پر اپنے سینکڑوں دوستوں کی‬
‫ورچوئل کمپنی میں سکون محسوس کرنے لگے۔‬
‫ان سب کے درمیان ایسی خواتین کی کوئی کمی نہیں تھی جو ان کے خیاالت کی تعریف‬
‫کرتیں۔ کبھی کبھی وہ اپنا آلہ موسیقی بجا کر اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ بھی کرتے۔ جب‬
‫انھیں زیادہ الئیکس ملتے تو وہ دوبارہ پر اعتماد محسوس کرنا شروع کر دیتے۔‬
‫کمال کہتے ہیں الئکس اور کمنٹس سے شروع ہونے واال یہ سلسلہ جلد ہی ’رومانوی اور‬
‫جنسی تعلق‘ میں تبدیل ہونے لگا۔‬
‫’ایک ایسے وقت میں جب میں جذباتی طور پر خود کو مردہ اور شادی کو بے جان‬
‫سمجھنے لگا‪ ،‬تو مجھے ان پرکشش خواتین سے دور رہنا مشکل لگنے لگا جو مجھ میں‬
‫دلچسپی لیتی تھیں۔‘‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫اہنی شادی سے ناخوش جوڑے اکثر سوشل میڈیا کے ذریعے راہ فرار اختیار کرتے ہیں‬
‫کمال کو یقین ہے کہ اس صورتحال میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ’لوگ مجھ پر تنقید کریں گے‬
‫لیکن میں اکیال ایسا نہیں۔ میرے جیسے اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔ میرے جاننے والوں‬
‫میں ایسے بہت سے لوگ ہیں۔‘‬
‫انھوں نے ایک دوہری زندگی بنا لی ہے‪ ،‬ظاہری طور پر ’ایک بہترین باپ اور شوہر‘‬
‫جبکہ ویک اینڈ پر وہ بے تکلفی کے ساتھ ’اپنی محبت‘ سے مالقات کرتے۔‬
‫ماہر عمرانیات حامد الہاشمی کا خیال ہے کہ بہانے تالش کرنے کی بجائے کمال کو اپنی‬
‫ضروریات اور صورتحال کے بارے میں کھل کر اپنی بیوی سے بات کرنی چاہیے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫سمجھوتا بھی آپ کی شادی شدہ زندگی بچا سکتا ہے‬
‫الہاشمی کہتے ہیں ’انھیں اپنی بیوی کو بتانا چاہیے تھا کہ اگر حل تالش نہ کیا گیا تو یہ‬
‫چیزیں کہاں تک جا سکتی ہیں۔ اکثر درمیانی راستہ تالش کرنا بہترین طریقہ ہوتا ہے‪،‬‬
‫دونوں پارٹیوں کے لیے سمجھوتا‪ ،‬جس سے غلطیوں اور دوری کے احساس کو کم کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‘‬
‫الہاشمی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ’بیوی کو شادی کے‬
‫جذباتی اور جنسی حصے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے‪ ،‬یہ ایسی چیزیں ہیں جو محبت کو‬
‫برقرار رکھنے کے لیے فطری اور ضروری ہیں۔‘‬
‫معالج امل الحامد کے مطابق ضروری ہے کہ لوگ یہ کہنا چھوڑ دیں کہ ’ہم نے وہ سب کیا‬
‫جو ہم کر سکتے تھے۔‘‬
‫وہ کہتی ہیں ’دوسرے کو قصوروار ٹھہرانا اور خود مظلوم بن جانے سے کوئی مقصد‬
‫حاصل نہیں ہوتا‘۔‬
‫اس کے بجائے وہ اچھی چیزوں کے بارے میں سوچنے کا مشورہ دیتی ہیں‪ ،‬ماضی کی ان‬
‫یادوں اور اس وقت کے بارے میں جب انھوں نے ایک ساتھ مشکالت کا سامنا کیا تھا۔‬
‫وہ کہتی ہیں ’ہر ایک کو تعلق میں پہل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے‪ ،‬مثبت خیالی الزم‬
‫ہے۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫معالج اور مشیر امل الحامد کے مطابق دوسرے کو قصوروار• ٹھرانے اور خود مظلوم بن‬
‫جانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا‬
‫خود کو قصور وار سمجھنا‬
‫مترا اور رستم ایک ایرانی جوڑا ہے جن کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہے۔ وہ‬
‫‪ 2005‬سے برمنگم میں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔‬
‫دس برس قبل مترا میں چھاتی کے کینسر اور بعد میں بچہ دانی میں کینسر کی تشخیص‬
‫ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ ایک پریسٹ‪ ،‬بیضہ دانی اور بچہ دانی سے محروم ہو‬
‫گئیں۔ اور ان کی زندگی اضطراب سے بھر گئی۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ آپریشنز کی وجہ سے ان کی جنسی زندگی بری طرح سے متاثر ہوئی۔ ’اب‬
‫میری زندگی صرف میری بیٹیاں ہیں۔‘‬
‫جب ان کے شوہر نے محبت کے لیے کہیں اور دیکھنا شروع کر دیا تو وہ بالکل یقین نہ کر‬
‫سکیں۔ جب انھیں اس بارے میں علم ہوا تو انھوں نے اپنے شوہر کو اپنے اور دوسری‬
‫عورت کے درمیان ایک کا انتخاب کرنے کا کہا۔‬
‫’انھوں نے دوسری عورت کا انتخاب کیا‪ ،‬وہ جانتے تھے کہ دوسری عورت کا انتخاب‬
‫کرنے سے انھیں اپنی بیٹیوں کو بھی کھونا پڑے گا۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫ازدواجی مشاورت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی‪ ،‬ایشیائی اور مغربی کمیونٹیز میں‬
‫بہت سے لوگ اس گولی کو نگلنے میں دقت محسوس کرتے ہیں‬
‫’اگر ان کی جگہ میں ہوتی تو میں آخری دم تک ان کا ساتھ دیتی۔ شادی بری اور اچھی‬
‫دونوں چیزوں کے لیے ہوتی ہے۔ شاید مردوں کو کم خود غرض ہونا سیکھنا پڑے گا۔‘‬
‫اس کے باوجود مترا تسلیم کرتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی ضروریات کو پورا نہیں کر‬
‫سکتیں اور اس لیے وہ خود کو قصورورا سمجھتی ہیں۔ ’تاہم میں یہ تسلیم نہیں کر سکی کہ‬
‫انھوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ بحیثیت عورت میں ان چاہا محسوس نہیں کر سکتی۔‘‬
‫اور رستم اب صرف کتابوں میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ مترا کہتی ہیں ’وہ اپنے کام‬
‫حتی کہ ان کی‬
‫کے عالوہ بمشکل ہی کچھ اور کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔ ٰ‬
‫بیٹیاں بھی کہتی ہیں کہ وہ بہت بیزار ہیں‘۔‬
‫ازدواجی مشاورت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی‪ ،‬ایشیائی اور مغربی کمیونٹیز میں‬
‫بہت سے لوگ اس گولی کو بہت مشکل سے نگلتے ہیں۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫مالی مدد‬
‫‪ 29‬سالہ ثمرا نے ‪ 2015‬میں ترکی آنے کے لیے اس وقت شام کو چھوڑا جب انھوں نے‬
‫ایک ترک مرد سے شادی کی تاکہ وہ ’ایک پناہ گزین کی زندگی ‘سے فرار ہو سکیں‪،‬‬
‫خاص طور پر ایک پناہ گزین عورت جنھیں اکثر ہراساں کیا جاتا ہے۔‬
‫ان کا خیال تھا کہ صرف شادی ہی ’ایک مناسب حل ہے‘ لیکن انھیں اپنے شوہر کے‬
‫خاندان اور ان کے سماجی پس منظر کے بارے میں جان کر حیرت ہوئی جو کہ ان سے‬
‫قدرے مختلف تھا۔‬
‫انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’میری پوری زندگی بچوں کا خیال رکھنے‪ ،‬کھانا پکانے‪،‬‬
‫صفائی کرنے اور اپنے شوہر کی مطالبات پورا کرنے کے گرد گھومتی ہے۔‘‬
‫وہ اس شادی میں صرف اس وجہ سے ہیں کہ وہ ان کی مالی معاونت کرتا ہے اور وہ اپنے‬
‫دو بچوں کا خیال رکھنے کے قابل ہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫ایک رشتے میں دو سے زیادہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں‬
‫’اگر میرے پاس کوئی اور طریقہ ہوتا تو میں ان کے ساتھ ایک بھی دن اور نہ رہتی۔ جب‬
‫میں اپنے خاندان کے ساتھ تھی تو میرے ساتھ کبھی ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔ میری رائے‪،‬‬
‫میری عزت اور جذبات کی یہاں کوئی قدر نہیں۔ وہ صرف اپنے مطالبے پر سکیس چاہتا‬
‫ہے۔‘‬
‫خفیہ شادی‬
‫روج جن کا تعلق اربیل سے ہے‪ ،‬کہتی ہیں کہ ان کے ‪ 60‬سالہ والد کئی دہائیوں سے ان کی‬
‫‪ 47‬سالہ والدہ کے ساتھ نہیں سوئے۔‬
‫ان کی والدہ جانتی ہیں کہ ان کے شوہر نے ’کسی اور عورت سے خفیہ شادی کر رکھی‬
‫ہے‘ لیکن وہ اس کے باوجود اس چیز کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اگر اس صورتحال کا علم‬
‫لوگوں کو ہو گیا تو وہ اس کا سامنا نہیں کر پائیں گی۔‬
‫یہ بھی پڑھیے‬
‫شادی کے نام پر سودا‬
‫'میں شادی شدہ نہیں‪ ،‬اسی لیے تمہارے والد نہیں'‬
‫’جب جنسی طور پر کمزور مرد سے میری شادی ہوئی‘‬
‫روج بتاتی ہیں ’میرے والد ایک امیر آدمی ہیں اور اسی لیے ایک ‪ 30‬برس کی خاتون ان‬
‫سے شادی کے لیے رضامند ہو گئی۔ میری والدہ مضبوط اور مالی طور پر خود مختار ہیں‬
‫لیکن وہ اس بارے میں بات کرنا اور طالق کا مطالبہ نہیں کرنا چاہتیں تاکہ ہماری ساکھ‬
‫خراب نہ ہو۔ وہ اپنا فخر قائم رکھنا چاہتی ہیں۔‘‬
‫روج کہتی ہیں کہ ان کی والدہ کئی برسوں تک جذباتی مسائل سے دوچار رہیں لیکن انھوں‬
‫نے اسے چھپا کر رکھا کیونکہ وہ قابل رحم نظر نہیں آنا چاہتی تھیں۔ وہ ٹھیک اور خوش‬
‫رہنے کا دکھاوا کرتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ بہت غمزدہ ہیں۔‬
‫ان کی والدہ نے قانونی مشاورت لینے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اپنے شوہر کی دوسری‬
‫شادی کو خفیہ رکھنا چاہتی تھیں۔‬
‫واپسی کا ممکنہ راستہ‬
‫کاؤنسلر الحامد کے مطابق فریقین کی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی خواہش ہی ایک واحد‬
‫راستہ ہے۔‬
‫’اگر دونوں میں سے ایک بھی دوسرے کو مجرم قرار دیتا ہے تو چیزیں مزید بدتر ہو‬
‫جائیں گی۔ انھیں کھل کر بات کرنے اور احتیاط سے الفاظ کے استمعال کی ضرورت ہے۔‬
‫ورنہ رنجشیں مزید بڑھ جائیں گی۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫سماجی محقق ڈاکٹر حامد الہاشمی کا خیال ہے کہ کسی تعلق کی ذمہ داری دونوں فریقوں‬
‫پر عائد ہوتی ہے اور کسی بھی ناکامی کے لیے دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔‬
‫الحامد کے مطابق بعض اوقات ایک فریق چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے‪،‬‬
‫جبکہ دوسرا فریق اس صورتحال پر قائم رہتا ہے‪ ،‬جس سے تبدیلی کی کوئی بھی کوشش‬
‫مایوس کن ہو جاتی ہے۔‬
‫الحامد کہتی ہیں ’مشکالت کا مقابلہ کرنے کے لیے دونوں ساتھیوں کو چاہیے کہ وہ چیزوں‬
‫کو بڑھنے نہ دیں۔ انھیں اکثر اوقات صحیح زبان کا استعمال کرتے ہوئے اور ایک دوسرے‬
‫کو نیچا نہ دکھاتے ہوئے بات چیت کرنی چاہیے۔‘‬
‫وہ کہتی ہیں ’اس سے ہمیشہ تبدیلی النے میں مدد ملتی ہے۔‘‬
‫وہ کہتی ہیں ’اگر شوہر اپنی بیوی کو تحفہ دے کر حیران نہیں کرتا‪ ،‬تو بیوی کو چاہیے کہ‬
‫وہ پہل کرے۔ محض تکرار کرنے کے بجائے ایک ایسا اقدام بہت مددگار ثابت ہو سکتا‬
‫ہے۔‘‬
‫وہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں ’سب سے اہم بات ہے کہ ہار نہیں مانیا چاہیے بلکہ کوشش جاری‬
‫رکھنی چاہیے۔‘‬
‫٭٭٭اس مضمون میں شامل افراد کی شناخت کوے تحفظ کے لیے فرضی نام استعمال کیے‬
‫گئے ہیں‬

You might also like