You are on page 1of 2

‫ِ‬

‫سلطنت_عثمانیہ_کےٹکڑےکردینےواالصلیبی_نوجوان‪#‬‬ ‫*‬
‫*الرنس_آف_عربیہ‪*#‬‬
‫تحریر ‪ :‬بقلم خود‬
‫یہ داستان ہےایک ایسے نوجوان کی کہ جس نے تن تنہا وہ کام کردکھایا جسےکئی ممالک کی فوجیں مل کر بھی نہ کرسکیں‪#‬‬
‫تھیں۔یہ کہانی شروع ہوتی ‪ 1907‬عیسوی سے۔آکسفورڈ جیسس اسکول میں پڑھنے واال ایک طالب علم تھامس الرنس ۔ یہ‬
‫لڑکا باقی اسٹوڈنٹس سے کافی الگ تھا۔جہاں باقی لڑکوں کو کھیل کود اور اپنی ہم عمر لڑکیوں میں دلچسپی ہوتی وہاں اسے‬
‫دلچسپی تھی تاریخ کی ضخیم کتابوں سے۔ یہ اکثر تاریخی کتابیں بالخصوص وہ کتابیں کہ جن میں صلیبی جنگوں کا تذکرہ‬
‫ہوبہت شوق سے پڑھا کرتا‪ ،‬یہ صلیبی لشکروں کے عروج و زوال ‪ ،‬ان کی غلطیوں اور ناکامیوں پر غوروفکر کرتا اور خود کو‬
‫ان کی جگہ محسوس کرتا۔‬
‫تھامس الرنس کا یہ جنون اس حد تک بڑھا کہ اس نے ان راستوں پر سفر کی ٹھانی کہ جن سے کئی صدیاں قبل صلیبی‬
‫افواج گزر کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئی تھیں۔ سو وہ مسلمان ممالک کے دوروں پر نکال ‪ ،‬یہاں الرنس نے ان قلعوں کی سیر‬
‫کی جو صلیبی افواج نے تعمیر کیے تھے اور دوسری تاریخی نوعیت کی عمارات میں بھی مصروف ِتحقیق رہا۔ اس کی‬
‫دلچسپیاں دیکھتے ہوئے اسے برطانوی محکمہ آثار قدیمہ میں مالزمت مل گئی۔ الرنس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ مقامی‬
‫زبانیں بڑی آسانی سے سیکھ لیا کرتا اور یہاں کے لوگوں میں ایسے گھل مل جاتا کہ جیسے ان ہی کا حصہ ہو۔ اسی دوران‬
‫جنگ عظیم ّاو ل کی ابتداء ہوچکی تھی۔ جس میں ایک طرف برطانیہ ‪ ،‬فرانس اور روس جیسی طاقتیں تھیں تو دوسری طرف‬
‫آسٹریا‪ ،‬جرمنی اور سلطنت عثمانیہ ۔ چونکہ الرنس عرب عالقوں سے بخوبی واقف تھا اس لیے جنگی نقشے بنانے کے کام‬
‫میں اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انگریزوں کو اندازہ تھا کہ سلطنت عثمانیہ کمزور ضرور ہے لیکن اس کمزوری میں بھی‬
‫وہ عثمانیوں کے مقابلے کی تاب نہ رکھتے تھے‪،‬جس کا ثبوت خلیل پاشا نے دریائے دجلہ کے کنارے انگریزوں کو ایک‬
‫عبرت ناک شکست دے کرپیش کیا۔اب نقشے بنانے واال یہ نوجوان لڑکا الرنس جو کسی صورت ایک فوجی نہ لگتا تھا‪ ،‬جس‬
‫کا قد سوا پانچ فٹ اور جسامت بہت کمزور تھی یکایک اس جنگ میں شامل ہوا اور اس جنگ کی بازی پلٹ کر رکھ دی۔‬
‫اس نے صلیبیوں اور مسلمانوں کے قدیم معرکوں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کررکھا تھا‪ ،‬وہ مسلمانوں کی طاقت اور ان کی‬
‫کمزوریوں سے بخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں میں جب تک جذبٔہ جہاد موجود ہے ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔‬
‫اس مسئلے کا حل الرنس نے یہ نکاال کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوادیا جائے تاکہ جذبٔہ جہاد تعصب اور قوم پرستی جیسی‬
‫زیر نگیں تھا کہ جب سلطان سلیم ّاول نے‬ ‫ِ‬ ‫برائیوں میں دب کر رہ جائے۔ ملک عرب پچھلے پانچ سو سال سے ترکوں کے‬
‫الرنس کی حکمت عملی یہ تھی کہ عربوں کو ترکوں کے خالف کرکے‬ ‫اسے فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا تھا۔‬
‫سلطنت عثمانیہ کو مشرق میں ہی دبوچ لیا جائے اور اسے یورپ کے معامالت میں دراندازی کا موقع ہی نہ مل سکے۔‬
‫چنانچہ وہ برطانوی حکومت کا آشیرواد لے کر جدہ پہنچا اور یہاں آکر شریف مکہ حسین بن علی سے مالقات کی۔شریف مکہ‬
‫حسین اور اس کے بیٹے فیصل کو الرنس کی طرف سے نہایت سنہرے خواب دکھائے گئے اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ ترکوں‬
‫کے خالف بغاوت کی کامیابی کے بعد تمام سرزمین عرب پر ایک سلطنت قائم کی جائے گی جس میں عراق و شام کے‬
‫عالوہ فلسطین واسرائیل کے عالقے بھی شامل ہوں گے۔ اس سلطنت کی خالفت و بادشاہت شریف مکہ حسین کو دی جائے‬
‫گی۔‬
‫یہاں الرنس نے اس جنگ میں درکار سامان حرب اور وسائل کی ایک رپورٹ بناکر برطانوی جنرل ایلن ہائی کے سامنے پیش‬
‫کردی۔ برطانوی افسران کو یہ حکمت عملی بے حد پسند آئی اور انہوں نے عربوں کی امداد کرتے ہوئے بہترین اسلحہ اور‬
‫بے تحاشہ وسائل الرنس کے حوالے کردیے۔ الرنس عرب قبائل کو متحد کرنے کی خاطر خوب دولت نچھاور کرتا‪ ،‬جہاں دولت‬
‫سے بات نہ بنتی وہاں اس کے ساتھ نہایت حسین و جمیل جاسوس عورتیں بھی ہوتیں‪ ،‬جن کا استعمال یہ اپنے مقابل کو‬
‫راغب کرنے کی خاطر بخوبی کیا کرتالیکن زیادہ تر عرب صرف اپنی آزادی کے نام پر اس بغاوت میں شریک ہوئے۔ اب‬
‫الرنس نے عربوں کی چھوٹی چھوٹی فوجوں کے ہمراہ ترکوں کی چھاؤنیوں پر حملے شروع کیے‪ ،‬اس کے عالوہ حجاز ریلوے‬
‫الئن جو عرب میں ترکوں کو سپالئی پہنچانے کا واحد ذریعہ تھی الرنس نے جگہ جگہ سے تباہ کردی۔ سپالئی کٹ جانے کی‬
‫صورت میں ترک فوج شہروں میں محصور ہوکر رہ گئی۔ عربوں میں رہتے ہوئے اس نے بالکل عربوں جیسی وضع قطع‬
‫اختیار کرلی تھی۔ یہ عربی لباس پہنا کرتا‪ ،‬ان کے ساتھ نمازیں پڑتا‪،‬جبکہ اسے بہت سی قرآنی آیات بھی حفظ تھیں جنہیں‬
‫بطور حوالہ یہ اکثر جگہ استعمال کیا کرتا۔ صحرائے عرب میں ایسے دشوار گزار راستے طے کرتا کہ عرب بھی اسے دیکھ‬
‫کر حیران رہ جاتے۔ نڈر ایسا تھا کہ عورت کا بھیس بدل کر ترکوں کے خیموں میں گھس جایا کرتا جبکہ ترک اس کی تالش‬
‫میں پیسہ پانی کی طرح خرچ کررہے تھے۔‬
‫چھوٹی موٹی کامیابیاں سمیٹتے اب الرنس نے عقبہ نامی چھاؤنی پر قبضے کی پالننگ کی‪ ،‬جو دفاعی نقطٔہ بہت اہمیت کی‬
‫حامل تھی‪ ،‬اسی لیے ناقابل تسخیر بھی۔ لیکن الرنس اس پر سامنے سے حملہ آور ہونے کے بجائے اپنی چھوٹی سی فوج‬
‫کے ہمراہ ایک پر خطرہ صحرا کا سفر کرتا ہوا پیچھے سے حملہ آور ہوا اور بڑی جدوجہد کے بعد عقبہ فتح کرلیا گیا۔ ترکوں‬
‫اور اتحادی افواج کے لیے یہ بات نہایت حیرتناک تھی کہ عقبہ جیسی مضبوط چھاؤنی چند سو عربوں نے کیسے فتح کرلی۔‬
‫الرنس نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ وہ مختلف چھوٹی بستیوں اور قصبوں پر یلغار کرتا پہلے ڈیرہ اور پھر دمشق تک جا‬
‫جرمنی اور سلطنت عثمانیہ کی شکست پر‬ ‫پہنچا اور پھر دمشق پر بھی بغیر کسی بیرونی امداد کے عربوں کا قبضہ ہوگیا۔‬
‫اس جنگ میں پوری برطانوی فوج نے سلطنت عثمانیہ کو اتنا نقصان نہ پہنچایا تھا کہ جتنا صرف‬ ‫اس جنگ کا اختتام ہوا۔‬
‫اس پانچ فٹ چار انچ کے انگریز الرنس نے پہنچایا۔‬
‫اب وقت آتا ہے وعدے وفا کرنے کا کہ جو الرنس کی جانب سے عربوں کے ساتھ کیے گئے‪ ،‬جن میں ایک وسیع و عریض‬
‫عرب ریاست کا قیام تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے بہترین حصوں کو پہلے ہی روس‪ ،‬برطانیہ اور فرانس آپس میں تقسیم‬
‫کرچکے تھے چنانچہ عربوں کو صرف ایک بے آب و گیاہ ریگستانی عالقے کے عالوہ کچھ نہ مل سکا۔ جنگ عظیم ّاول کا‬
‫سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوا کہ جب ایک مستحکم مسلم ریاست کی جگہ مسلمان کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں‬
‫بٹ گئے اور آج تک بٹے ہوئے ہیں۔ الرنس یعنی الرنس آف عربیہ جنگ عظیم کے بعد ایک نامعلوم مہم کے لیے‬
‫ہندوستان روانہ ہوا جہاں اس نے کئی دن کراچی میں بھی گزارے۔ اس کے بعد وہ ایک مرتبہ ہانگ کانگ میں نظرآیا جبکہ‬
‫ایک مرتبہ چین میں۔‬
‫مالزمت سے فارغ ہونے کے بعد اس نے اپنی آپ بیتی پر مشتمل ایک کتاب دانش کے سات ستون تحریر کی۔ وہ تیز‬
‫رفتار موٹرسائیکل چالنے کا شوقین تھا۔ اور مئی ‪ 1935‬میں یہی شوق اس کی جان لے گیا۔ دوستوں ساڑھے چھ سو سال سے‬
‫قائم سلطنت عثمانیہ جس نے کئی عروج و زوال دیکھے‪ ،‬کئی بڑی بڑی فوجیں آئیں اور اس سے ٹکرائیں۔ لیکن مسلمانوں کی‬
‫یہ عظیم سلطنت اپنی جگہ بدستور قائم و دائم رہی۔ اسے شکست دی تو اپنے ہی اندر اُٹھنے والی بغاوت نے کہ جس کی‬
‫سربراہی ایک ایسا شخص کر رہا تھا جو بظاہر تو عربوں کا ہمدرد و ہمنوا تھا لیکن اندرونی طور پر ایک صلیبی کہ جو اپنے‬
‫آباؤ اجداد کے لشکروں کی ہزیمت کا بدلہ چکانے یہاں آیا تھا اور افسوس صد افسوس کہ وہ کامیاب بھی‬
‫ہوا‪.........‬؟؟؟؟؟؟‬

You might also like