You are on page 1of 2

‫تاریخ عالم میں‬

‫مسلمانوں کے ایجاد کردہ‬


‫"علم اسماء" الرجال" کی کوئی مثال نہیں ملتی‬
‫جس میں ہزاروں راویان حدیث کے انساب‪ ،‬حاالت زندگی مع ان کی عادات و خصائل کے محفوظ ہیں ۔‬
‫جن کی بدولت ان کی روایت کے حسن و قبح کا پتا لگانا ذرا بھر دشوار نہیں رہا ۔ اور قبول و رد کے اعتبار" سے یہ معلوم‬
‫کرنا انتہائی آسان ہو چکا ہے کہ کون سے راوی کی روایت قابل قبول ہے اور کون سے راوی کی روایت مقبول نہیں۔ اور‬
‫یہ عین حکم قرآنی کا عملی مظاہرہ ہے۔‬
‫قرآن حکیم میں ہللا عزوجل ارشاد فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫" یا ایھا الذین آمنوا ان جآءکم فاسق بنبا ِ فتبینوا "‬


‫سورۃ الحجرات‪6:‬‬
‫اے ایمان والو !‬
‫جب تمہارے" پاس کوئی فاسق خبر الئے تو اس کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو‬

‫قرآن کی اس آیہ مبارکہ میں فاسق کی خبر کی قبولیت کو تحقیق سے مشروط کیا گیا ہے ۔ یعنی اگر تحقیق سے سچ ثابت ہو‬
‫جاتی ہے تو قبول کر لو ورنہ اسے رد کر دو ۔ اسی طرح اس آیہ مبارکہ میں واضح دلیل موجود ہے کہ اگر راوی عادل ہو‬
‫تو اس کی خبر مقبول ہے۔ اور اگر راوی فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق کی جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بعض احباب‬
‫کو اس آیہ سے عادل راوی کی خبر کی قبولیت تسلیم کرنے میں تامل ہو ان کی آسانی کے لیے وضاحت کر دیتا ہوں۔‬
‫اگر کہا جائے کہ جھوٹے شخص کی خبر پر یقین کرنے کے بجائے اس کی تحقیق کر لیا کرو تو اس سے کیا یہ مراد‬
‫نہیں کہ سچے کی خبر تو قبول ہے لیکن جھوٹے کی خبر قبول کرنے سے پہلے اس کی تحقیق الزم ہے۔ اگر یوں کہا‬
‫جائے کہ اس میں سچے کی خبر کا تو ذکر ہی نہیں تو اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو خبر کا النا صرف جھوٹے‬
‫شخص تک ہی محدود ہو جاتا ہے یعنی کہ جھوٹے شخص کے عالوہ کوئی خبر التا ہی نہیں اور یہ بات خالف عقل ہے۔‬
‫اسی طرح اس آیہ میں فاسق کی خبر کی تحقیق سے یہ مراد نہیں کہ خبر صرف فاسق ہی التا ہے بلکہ عادل شخص بھی‬
‫خبر التا ہے اور عادل کی خبر مقبول ہے جبکہ فاسق کی خبر بعد از تحقیق قبول و رد کی جائے گی۔ اگر عادل کی الئی‬
‫خبر کی قبولیت میں بھی کوئی قباحت ہوتی تو قرآن خبر کی تحقیق کو فاسق کے لیے ہی نہ الزم کرتا" بلکہ عادل کی خبر‬
‫کی تحقیق بھی الزم قرار دیتا ۔‬

‫علم اسماء الرجال اسی پر بحث کرتا ہے کہ کون سا شخص عادل ہے کہ اس کی روایت مقبول ہے اور کون سا شخص ایسا‬
‫فاسق ہے کہ اس کی روایت مقبول نہیں ۔‬
‫اب یہاں بعض لوگ (منکرین" حدیث) یہ اعتراض اٹھاتے" ہیں کہ حدیث درحقیقت قول رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫نہیں بلکہ ان سے منسوب قول ہے جسے راویوں نے ان کی طرف غلط طریقے سے منسوب کر دیا ۔ یعنی ان کے‬
‫نزدیک یہ انتساب نہ صرف غلط ہے بلکہ راویوں نے اپنی طرف سے یہ سب گھڑ کر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫کی طرف منسوب کر دیا۔ یہ لوگ عادل و فاسق راوی کی تمیز نہیں کرتے" بلکہ ان کے ہاں اپنے ہی پیمانے ہیں ۔ جو‬
‫احادیث ان کے مطلب پر پورا اترتی ہیں انہیں جزوی طور پر قبول کر لیتے ہیں اور عادل و ضابط راویوں سے مروی‬
‫جو احادیث ان کے مطلب کے خالف ہوتی ہیں انہیں مذکورہ باال الزام سے رد کر دیتے ہیں۔‬
‫یہ نہ صرف حکم قرآن کی صریحا َ خالف ورزی ہے بلکہ بقول قرآن "افتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض" کی‬
‫واضح مثال ہے۔ ان کے برعکس" اہل سنت والجماعت عادل و فاسق راویوں میں فرق کرتے ہیں جو عین منشا ٰالہی ہے۔‬
‫قرآن کی اس آیہ سے ان لوگوں کے اس قول کی بھی نفی ہوتی ہے کہ حدیث راوی کا قول ہے جو اس نے رسول ہللا صلی‬
‫صحیحق حدیث یقینی طور پر قول‬ ‫ت‬
‫ح‬ ‫مطابق ہر خ‬
‫منسوب کر دیا ۔ کیونکہ اصول نحدیث کے ت‬ ‫ہللا علیہ وآلہ وسلم کی طرف غلط‬
‫ﷺ ہی ہے۔ اورئق ترآن کی مذکورہ اال آ ہ م ارکہ مس ما وں کو اب ن‬ ‫ت‬
‫ے کہ ب ر کی ی ق کے ب عد اس کے درست‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫د‬
‫ل ف پ ت ہ‬ ‫ب ت تی قب‬ ‫س ن‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫ثرسول ن‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کب‬ ‫مر‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫کی‬ ‫رآن‬ ‫وہ‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫اگر‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫یج‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫سے‬
‫ا‬ ‫ر‬ ‫اب ت ہ و پ‬
‫ے‬

‫ت‬ ‫ش‬ ‫قاسی طرح‬


‫ے‪:‬‬ ‫رآن حکی م می ں ہ ی ار اد ب اری عالٰی ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫"وا زل ن نا ال ی ک الذکر ل ب ی ن لل ن اس ما زل الی ھم "‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن ت‬ ‫ح‬ ‫ل‬
‫تسورۃ ا ن ل‪44:‬‬
‫ت‬
‫رج مہ ک ز االی مان‪ :‬اے حمبوب ہ م ے مہاری طرف ی ہ ی ادگار( رآن) ا اری کہ م لوگوں سے ب ی ان کر دو ج و ان کی طرف ا را‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫س ت ق‬ ‫ن‬
‫ے کسی چ یز کی‬‫ہ‬ ‫اور ب ی ی ن کات م طلب‬ ‫ے۔ شت‬
‫ہ‬‫رآن کا م صب ع طا رمای ا ت‬ ‫ق‬ ‫صلی ہللا علی ہفوآلہ و لم کو بب ی خن‬ ‫ت شاس آی نہ می ں ہللا عزوج ل ے رسول ہللا ن‬
‫ے ی ا اسے ک ت‬
‫ھول کر‬ ‫ے کہ ج بت کسی م ن کی ری ح ت‬
‫کی ج ا ی ت شہ‬ ‫اس سے وبی وا ف ہ‬ ‫ھولسکر ب ی انت کر ا ۔ ہت ر ذی ہمن ف‬
‫ری ح کر ا ‪،‬ت کسی چ ز کو کھول ک‬
‫ی‬
‫ےص۔ کسی ب ھی م ن کیس ری ح ہ و ب ہو اسی م ن ت‬ ‫ی یج ہ‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫آسان‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫اظ‬ ‫ال‬ ‫ے‬
‫ق‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫کو‬
‫ن‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ے‬‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫ھا‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫کو‬ ‫سی‬ ‫ے یش ات ا ن‬
‫سے ک‬ ‫جب ی ان کفی ا ج ا ا ہ‬
‫ے ال اظ ہ ی پر م مل ہی ں ہ و ی۔ ج ب ہللا عالٰی ے رآن کو کھول کھول کر ب ی ان کر ا رسول ہللا لی ہللا علی ہ وآلہ و لم کے ذمے لگا دی ا و ی ہ‬ ‫یس‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ق َ‬ ‫ن‬
‫عادل و‬ ‫ارکہ‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫احادی‬ ‫و‬ ‫داری کو اداق قرمای ا قاور ج‬
‫ن‬ ‫ذمہ‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ﷺ‬ ‫آپ‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫داری کو ادا ن ہتک ی ا ہ و ۔ ی‬
‫ق‬ ‫ذمہ‬ ‫ے کہ آپ ﷺ ے پ ن‬
‫اس‬ ‫محال ث قہ‬
‫اس کو ج ھ ٹ ال ا درح ی ت رآن کو ج ھ ٹ الے کے مت رادف‬ ‫ے ہن م ت ک ہ چ ی ں وہ یق رآن کی ب ی ثن اور اس کا عملی مظ ہر ہ ی ں۔ق ن‬ ‫ض اب ط ہ رواۃ کے ذری ع‬
‫اور احادی قث م ب فارکہ الزم و ملزوم ہ ی ں ۔ اگر‬ ‫ے کہ رآت ی آی ات ت ق‬ ‫رآن نکے مما تل ہ ی ں ب ت‬
‫لکہ مراد ی ہبہ‬ ‫ث ق‬ ‫ئہ تاحادی ت‬
‫مراد ی ہ ہی ں کہ ی‬
‫ے۔ اس سے ت‬ ‫ہ‬
‫ے ج و ریر اور ول و عل رسول صلی ہللا علی ہ وآلہ‬ ‫ات م ب ارکہ کی کذی ب ھی الزم آ ی ہ‬ ‫احادی ث م ب ارکہ کی کذی ب کی ج اے و ان مام رآ ی آی‬ ‫س‬
‫و لم کی صورت می ں احادی ث م ب ارکہ کے وج ود پر داللت کر ی ہ ی ں ۔‬

You might also like