Professional Documents
Culture Documents
تاریخ عالم میں
تاریخ عالم میں
قرآن کی اس آیہ مبارکہ میں فاسق کی خبر کی قبولیت کو تحقیق سے مشروط کیا گیا ہے ۔ یعنی اگر تحقیق سے سچ ثابت ہو
جاتی ہے تو قبول کر لو ورنہ اسے رد کر دو ۔ اسی طرح اس آیہ مبارکہ میں واضح دلیل موجود ہے کہ اگر راوی عادل ہو
تو اس کی خبر مقبول ہے۔ اور اگر راوی فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق کی جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ بعض احباب
کو اس آیہ سے عادل راوی کی خبر کی قبولیت تسلیم کرنے میں تامل ہو ان کی آسانی کے لیے وضاحت کر دیتا ہوں۔
اگر کہا جائے کہ جھوٹے شخص کی خبر پر یقین کرنے کے بجائے اس کی تحقیق کر لیا کرو تو اس سے کیا یہ مراد
نہیں کہ سچے کی خبر تو قبول ہے لیکن جھوٹے کی خبر قبول کرنے سے پہلے اس کی تحقیق الزم ہے۔ اگر یوں کہا
جائے کہ اس میں سچے کی خبر کا تو ذکر ہی نہیں تو اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو خبر کا النا صرف جھوٹے
شخص تک ہی محدود ہو جاتا ہے یعنی کہ جھوٹے شخص کے عالوہ کوئی خبر التا ہی نہیں اور یہ بات خالف عقل ہے۔
اسی طرح اس آیہ میں فاسق کی خبر کی تحقیق سے یہ مراد نہیں کہ خبر صرف فاسق ہی التا ہے بلکہ عادل شخص بھی
خبر التا ہے اور عادل کی خبر مقبول ہے جبکہ فاسق کی خبر بعد از تحقیق قبول و رد کی جائے گی۔ اگر عادل کی الئی
خبر کی قبولیت میں بھی کوئی قباحت ہوتی تو قرآن خبر کی تحقیق کو فاسق کے لیے ہی نہ الزم کرتا" بلکہ عادل کی خبر
کی تحقیق بھی الزم قرار دیتا ۔
علم اسماء الرجال اسی پر بحث کرتا ہے کہ کون سا شخص عادل ہے کہ اس کی روایت مقبول ہے اور کون سا شخص ایسا
فاسق ہے کہ اس کی روایت مقبول نہیں ۔
اب یہاں بعض لوگ (منکرین" حدیث) یہ اعتراض اٹھاتے" ہیں کہ حدیث درحقیقت قول رسول اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم
نہیں بلکہ ان سے منسوب قول ہے جسے راویوں نے ان کی طرف غلط طریقے سے منسوب کر دیا ۔ یعنی ان کے
نزدیک یہ انتساب نہ صرف غلط ہے بلکہ راویوں نے اپنی طرف سے یہ سب گھڑ کر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم
کی طرف منسوب کر دیا۔ یہ لوگ عادل و فاسق راوی کی تمیز نہیں کرتے" بلکہ ان کے ہاں اپنے ہی پیمانے ہیں ۔ جو
احادیث ان کے مطلب پر پورا اترتی ہیں انہیں جزوی طور پر قبول کر لیتے ہیں اور عادل و ضابط راویوں سے مروی
جو احادیث ان کے مطلب کے خالف ہوتی ہیں انہیں مذکورہ باال الزام سے رد کر دیتے ہیں۔
یہ نہ صرف حکم قرآن کی صریحا َ خالف ورزی ہے بلکہ بقول قرآن "افتؤمنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض" کی
واضح مثال ہے۔ ان کے برعکس" اہل سنت والجماعت عادل و فاسق راویوں میں فرق کرتے ہیں جو عین منشا ٰالہی ہے۔
قرآن کی اس آیہ سے ان لوگوں کے اس قول کی بھی نفی ہوتی ہے کہ حدیث راوی کا قول ہے جو اس نے رسول ہللا صلی
صحیحق حدیث یقینی طور پر قول ت
ح مطابق ہر خ
منسوب کر دیا ۔ کیونکہ اصول نحدیث کے ت ہللا علیہ وآلہ وسلم کی طرف غلط
ﷺ ہی ہے۔ اورئق ترآن کی مذکورہ اال آ ہ م ارکہ مس ما وں کو اب ن ت
ے کہ ب ر کی ی ق کے ب عد اس کے درست ی کر د
ل ف پ ت ہ ب ت تی قب س ن ئ س ثرسول ن
ے۔ ہ کب مر کا ت ل ا خ
م کی رآن وہ و ا کر ں یہ م لی ی کو اگر ے۔ ا ا
یج ک م لی سے
ا ر اب ت ہ و پ
ے