You are on page 1of 1

‫شہد کے لبادے میں زہر‬

‫مسلم معاشروں میں مغربی افکار کی پیوند کاری‬

‫کوئی ایک مقبول عام موضوع چن لیا جاتا ہے جیسے کہ آج کل میری مرضی‪ ،‬عورت کی آزادی‪ ،‬انسانی حقوق ‪ ،‬مذہبی عدم‬
‫برداشت‪ ،‬مسلکی شدت پسندی‪ ،‬مذہبی طبقہ پر پھبتیاں کسنا وغیرہ وغیر مقبول عام موضوعات ہیں ۔‬
‫بڑے ہی ناصحانہ انداز میں دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی سے باز رہنے ‪ ،‬عورت کو اپنی مرضی سے جینے اور اس‬
‫کی آزادی‪ ،‬دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو برداشت کرنے‪ ،‬بین المسالک ہم آہنگی اور مذہبی و ملحد طبقہ کی باہمی کشمکش‬
‫کو ختم کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ قارئین کو لگتا ہے کہ سارے جہاں کا درد اس اکیلے کے سینے میں ہے۔‬
‫لیکن‬
‫بین السطور انتہائی غیرمحسوس انداز میں مغربی افکار کی پیوند کاری کی جا رہی ہوتی ہے۔‬
‫اس ایک مخصوص طبقہ کی دکانداری ہی عورت کی آزادی سے شروع ہوتی ہے اور قادیانیوںً کی مطلقا َ مذہبی آزادی پر ختم‬
‫ہوتی ہے۔ وہ اس لیے کہ اس میں اکثریت ہی قادیانیت نواز ہیں جن کے نزدیک اپنے "مذہب" کی تبلیغ کے لیے عورت کا‬
‫استعمال بھی ذرہ بھر معیوب نہیں۔‬
‫امت مسلمہ کی امم سابقہ پر فضیلت کا باعث یہ ہے کہ یہ امت نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے۔ اور اسی چیز‬
‫کو آج دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی کا نام دیکر ممنوعہ قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی کہ کوئی مسلم‬
‫معاشرے کا فرد چاہے جتنی بھی برائیوں میں مبتالء ہو اسے اس کا "ذاتی معاملہ" سمجھا جائے اس پر کوئی روک ٹوک نہ کی‬
‫جائے اس کی اصالح نہ کی جائے اسے نیکی کی طرف رغبت نہ دالئی جائے اسے گناہوں کے ترک کرنے کی نصیحت نہ‬
‫کی جائے کیونکہ اگر ایسا کیا تو یہ اس کی زندگی میں دخل اندازی ہے۔‬
‫یونہی عورت کو اس کی مرضی سے جینے کا حق دیا جائے ۔۔۔یہ سب سے زیادہ مقبول عام جملہ ہے۔۔۔لیکن بولنے والے اور‬
‫اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے والے یہ نہیں جانتے کہ مسلم مرد ہو یا عورت بنیادی طور پر اس کا ایمان اس بات‬
‫کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کا ہر قول و فعل اس کے خالق کی مرضی و منشاء کے تابع ہو ۔ اس میں عورت ہی کی تخصیص‬
‫نہیں بلکہ مرد بھی اپنی زندگی جینے کے طور طریقوں میں اپنے خالق کا پابند ہے۔ درحقیقت اس آزادی سے مراد عورت کی‬
‫مذہبی‪ ،‬اخالقی اور معاشرتی حدود و قیود سے آزادی ہوتی ہے ۔ اسے بھرپور طریقے سے سپورٹ کیا جاتا ہے کیونکہ اس‬
‫میں بھی ایک طبقے کے جنسی اور مادی مفادات وابستہ ہوتے ہیں ۔‬
‫بین المذاہب ہم آہنگی کے نام پر دیگر مذاہب باطلہ کے رنگ میں رنگنے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس نظریے کی قول و‬
‫فعل سے تشہیر کی جاتی ہے ۔ جو کہ قرآن کے بتائے گئے طریقہ سے کلی طور پر متصادم ہے ۔۔۔ التلبسوا الحق بالباطل ۔۔۔‬
‫قرآن کہتا ہے کہ حق و باطل کو خلط ملط نہ کرو یعنی کہ ایسا طرز عمل نہ اختیار کرو کہ حق اور باطل کی جدا جدا پہچان‬
‫مشکل ہو جائے۔ جبکہ یہاں ہم آہنگی کے نام پر اختالط کی تلقین کی جاتی ہے ۔۔۔بین المسالک شدت پسندی تو اس طبقے کا‬
‫مرغوب موضوع ہے۔۔لیکن اس شدت پسندی کا بیج کس نے بویا یہ نہ انہیں بتایا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں معلوم ہوتا ہے ۔۔۔!‬

‫اردو میں ضرب المثل مشہورہے "ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی"‬
‫تو جان لیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی کہیں کہیں لوہے اور پیتل پر بھی سونے کا پانی چڑھا لیا جاتا ہے ۔‬
‫ؔ‬
‫سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے‬
‫سونے والو ! جاگتے رہو چوروں کی رکھوالی ہے‬

You might also like