You are on page 1of 10

‫بنی اسرائیل پر نعمتیں‬

SUBMITTED TO: Mam zartab


SUMITTED BY: Ayesha Fatima
ROLL NO: BSF2003052
CLASS: B's English 1st semester
UNIVERSITY OF EDUCATION FAISALABAD CAMPUS
‫بنی اسرائیل پر نعمتیں‬
‫‪ ‬بنی اسرائیل پر ہللا کے انعامات ٭٭‬
‫ہللا نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور‬

‫ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی۔ تمام و کمال ملک مصر‬

‫پر ان کی حکومت ہوگئ۔ فرعون کی ہالکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی۔‬

‫جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب‬

‫کے ملک کا مالک کر دیا۔ برکت والی زمین ان کے قبضے میں دے دی اور ان‬

‫پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا۔‬

‫فرعون‪ ،‬فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں‬

‫ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے‪ ،‬خزانوں سے بہترین‬

‫َو ُعي ٍ‬
‫ُون»‪-44[  ‬‬ ‫مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا۔‪َ « ‬ك ْم تَ َر ُكوا ِمن َجنَّا ٍ‬
‫ت‬

‫الدخان‪ ”  ]25:‬وه بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے‪ ،‬اور بنی اسرائیل کے‬

‫قبضے میں یہ سب کچھ کر دیا “۔‬

‫اور آیتوں میں ہے‪ ،‬باوجود اس کے خلیل الرحمن علیہ السالم کے شہر بیت‬

‫المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ‬
‫تھا انہوں نے اپنے پیغمبر علیہ السالم سے درخواست کی‪ ،‬انہیں جہاد کا حکم ہوا‬

‫یہ نامردی کرگئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں‬

‫موسی علیہ السالم کا۔ ان کے‬


‫ٰ‬ ‫پھرنا پڑا۔ وہیں ہارون علیہ السالم کا انتقال ہوا پھر‬

‫تعالی نے ان کے ہاتھوں پر‬


‫ٰ‬ ‫بعد یہ یوشع بن نون علیہ السالم کے ساتھ نکلے۔ ہللا‬

‫بیت المقدس کو فتح کیا۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر‬

‫کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں‬

‫عیسی علیہ السالم کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا۔‬


‫ٰ‬ ‫قبضہ کیا۔‬

‫عیسی علیہ السالم کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے‬


‫ٰ‬ ‫حضرت‬

‫عیسی علیہ السالم کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے‬


‫ٰ‬ ‫ساز باز کی اور‬

‫تعالی نے اپنے نبی علیہ السالم کو تو اپنی طرف‬


‫ٰ‬ ‫کر نکلوا دیئے۔ ہللا تبارک و‬

‫چڑھا لیا اور آپ علیہ السالم کے کسی حواری پر آپ علیہ السالم کی شباہت ڈال‬

‫دی انہوں نے آپ علیہ السالم کے دھوکے میں اسے قتل کر دیا اور سولی پر لٹکا‬

‫دیا۔ یقینا ً جناب روح ہللا علیہ الصلوۃ والسالم ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے۔‬

‫ان اللَّـهُ‪َ x‬ع ِزي ًزا َح ِكي ًما»‪-4[  ‬النساء‪”  ]158:‬‬


‫« َو َما قَتَلُوهُ يَقِينًا بَل َّرفَ َعهُ اللَّـهُ إِلَ ْي ِه َو َك َ‬
‫تعالی نے اپنی طرف بلند کر لیا۔ ہللا عزیز و حکیم ہے “۔‬
‫ٰ‬ ‫انہیں تو ہللا‬

‫عیسی علیہ السالم کے تقریبا ً تین سو سال بعد قسطنطیس نامی یونانی بادشاہ‬
‫ٰ‬

‫عیسائی بن گیا۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف‬

‫سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین‬

‫نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا۔ حیلہ اور مکر و فریب اور چال کے‬

‫طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے۔ نصرانی علماء‬

‫اور درویشوں کو جمع کر کے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے‬

‫نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیال دیا اور‬

‫اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا۔ اس نے کلیسا‪ ،‬گرجے‪ ،‬خانقاہیں‪ ،‬ہیکلیں‬

‫وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح‬

‫طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت‬

‫کی اور حکومت کے زور اور زر کے اللچ سے اسے دور تک پہنچا دیا۔ جو‬

‫عیسی علیہ السالم کے اصلی دین‬


‫ٰ‬ ‫بیچارے موحد‪ ،‬متبع انجیل اور سچے تابعدار‬

‫پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کردیا۔‬


‫لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں‬

‫تبدیلی اور مسخ واال دین رہ گیا تھا اُٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر‬

‫چھاگئے۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے‬

‫کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی شاندار‪،‬‬

‫دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں۔ صلیب کی پرستش‪ ،‬مشرق کا قبلہ‪،‬‬

‫کنیسوں کی تصویریں‪ ،‬سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے‬

‫داخل کیں۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کر دیا۔ امانت کبیرہ‬

‫اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل‬

‫کی کتابیں اسی نے لکھوائیں۔‬

‫اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول‪ ‬صلی ہللا‬

‫علیہ وسلم‪ ‬نے اسے فتح کیا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ کی‬

‫خالفت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا۔ الغرض یہ پاک‬

‫جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی ہللا نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حالل‬

‫اور طبعا بھی طیب۔ افسوس باوجود ہللا کی کتاب ہاتھ میں ہونے کے انہوں نے‬

‫خالف بازی اور فرقہ بندی شروع کر دی۔ ایک دو نہیں بہتر‪ )۷۲( ‬فرقے قائم ہو‬
‫گئے۔‬

‫ہللا اپنے رسول علیہ السالم پر درود سالم نازل فرمائے‪ ‬آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ‬

‫وسلم‪ ‬نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ‪ ‬میری امت میں بھی یہی‬

‫بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہو جائیں گے جس میں سے ایک جنتی‬

‫باقی سب دوزخی ہوں گے‪ ‬۔ پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں؟ فرمایا‪ :‬وہ جو اس پر‬

‫ہیں‪ ‬۔‪[ ‬سنن ترمذي‪،2641:‬قال الشيخ‬ ‫ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ رضی ہللا عنہم‬

‫األلباني‪:‬حسن]‪  ‬ہللا فرماتا ہے‪ ” ‬ان کے اختالف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی‬

‫کروں گا “۔‬

‫بنی اسرائیل پر ہللا کی نعمتوں کا‪ ‬ذکر‬

‫سورة المائدة آیات‪۲۰‬ـ‪۲۶‬‬

‫ج َعلَک ُۡم ُّملُوۡ ًکا ٭ۖ َّو ٰاتٰ ىک ُۡم‬‫ل فِیۡ ک ُۡم اَنۡۢ ِبیَٓا َء َو َ‬ ‫م َۃ ال ٰل ّ ِہ َعلَیۡ ک ُۡم اِ ۡذ َ‬
‫ج َع َ‬ ‫سی لِقَوۡ ِم ٖـہ یٰ قَوۡ ِم ۡ‬
‫اذک ُُروۡ ا نِ ۡع َ‬ ‫َو اِ ۡذ َقا َ‬
‫ل ُموۡ ٰ‬
‫ن ﴿‪۲۰‬‬ ‫ۡ‬
‫ن العٰ لَمِیۡ َ‬ ‫ۡ‬
‫﴾ َّما لَ ۡم ُیؤتِ اَ َ‬
‫ح ًدا ِ ّم َ‬

‫موسی نے اپنی قوم کو اے قوم یاد کرو احسان ہللا کا اپنے اوپر [‪ ]۸۵‬جب پیدا کئے‬‫ٰ‬ ‫اور جب کہا‬
‫تم میں نبی [‪ ]۸۶‬اور کر دیا تم کو بادشاہ [‪ ]۸۷‬اور دیا تم کو جو نہیں دیا تھا کسی کو جہان میں‬
‫[‪۸۸‬‬

‫ی َک َت َ ٰ‬
‫ن ﴿‪۲۱‬‬
‫س ِریۡ َ‬ ‫ب الل ّ ُہ لَک ُۡم َو اَل تَ ۡرتَدُّوۡ ا َع ٰۤلی اَدۡ بَ ِ‬
‫ارک ُۡم َف َتنۡ َقلِ ُبوۡ ا ٰخ ِ‬ ‫س َۃ الَّتِ ۡ‬ ‫ض ۡال ُ‬
‫م َق َّد َ‬ ‫خلُوا ااۡل َۡر َ‬
‫﴾یٰ قَوۡ ِم ادۡ ُ‬
‫اے قوم داخل ہو زمین پاک میں جو مقرر کر دی ہے ہللا نے تمہارے واسطے [‪ ]۸۹‬اور نہ لوٹو اپنی‬
‫پیٹھ کی طرف پھر جا پڑو گے نقصان میں [‪]۹۰‬‬

‫جوۡ ا مِنۡ َہا َفاِنَّا‬ ‫ح ٰتّی یَ ۡخ ُر ُ‬


‫جوۡ ا مِنۡ َہا ۚ َفاِ ۡن یَّ ۡخ ُر ُ‬ ‫خلَ َہا َ‬
‫٭ َو اِنَّا لَ ۡن نَّ ۡد ُ‬
‫ن ۖ‬
‫اریۡ َ‬ ‫موۡ ٰۤ‬
‫سی اِنَّ فِیۡ َہا َقوۡ ًما َ‬
‫جبَّ ِ‬ ‫َقالُوۡ ا یٰ ُ‬
‫خلُوۡ نَ ﴿‪۲۲‬‬ ‫﴾دٰ ِ‬

‫موسی وہاں ایک قوم ہے زبردست [‪ ]۹۱‬اور ہم ہر گز وہاں نہ جاویں گے یہاں تک کہ وہ‬
‫ٰ‬ ‫بولے اے‬
‫نکل جاویں اس میں سے پھر اگر وہ نکل جاویں گے اس میں سےتو ہم ضرور داخل ہوں گے [‪]۹۲‬‬

‫‪They said, “O Mūsā, there is a nation of tyrants over there, and we shall never enter it‬‬
‫”‪until they get out of it. If they do get out of it, we are ready to go in.‬‬

‫موۡ ُہ َفاِنَّک ُۡم ٰغلِ ُبوۡ نَ ۬ۚ َو‬


‫خ ۡل ُت ُ‬
‫اب ۚ َفاِذَا َد َ‬ ‫م ۡالبَ َ‬
‫خلُوۡ ا َعلَیۡ ِہ ُ‬ ‫م ال ٰل ّ ُہ َعلَیۡ ِہ َ‬
‫ما ادۡ ُ‬ ‫خافُوۡ نَ اَنۡ َع َ‬ ‫ن الَّذِیۡ َ‬
‫ن یَ َ‬ ‫ج ٰل ِ‬
‫ن ِم َ‬ ‫َقا َ‬
‫ل َر ُ‬
‫ٰ‬
‫ن ﴿‪۲۳‬‬ ‫﴾ َعلَی الل ّ ِہ َف َت َو َّکل ُۡۤوا اِ ۡن کُنۡ ُت ۡم م ُّۡؤ ِمنِیۡ َ‬

‫کہا دو مردوں نے ہللا سے ڈرنے والوں میں سے کہ خدا کی نوازش تھی ان دو پر [‪ ]۹۳‬گھس‬
‫جاؤ ان پرحملہ کر کے دروازہ میں پھر جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب ہو گے [‪]۹۴‬‬
‫اور ہللا پر بھروسہ کرو اگر یقین رکھتے ہو [‪]۹۵‬‬

‫‪Said two men from among the God-fearing, on whom Allah had bestowed His favour,‬‬
‫‪“Enter the gate (charging) upon them. Once you have entered it, you will be the ones‬‬
‫”‪who will prevail. In Allah you must place your trust, if you are believers.‬‬

‫ک َفقَاتِاَل ۤ اِنَّا ہٰ ُہ َنا ٰق ِع ُدوۡ نَ ﴿‪۲۴‬‬ ‫ب اَنۡ َ‬


‫ت َو َربُّ َ‬ ‫خلَ َہ ۤا اَبَ ًدا َّما َدا ُموۡ ا فِیۡ َہا َف ۡ‬
‫اذہَ ۡ‬ ‫سی اِنَّا لَ ۡن نَّ ۡد ُ‬
‫موۡ ٰۤ‬
‫﴾ َقالُوۡ ا یٰ ُ‬

‫موس ی ہم ہرگز نہ جاویں گے ساری عمر جب تک وہ رہیں گے اس میں سو تو جا اور‬


‫ٰ‬ ‫بولے اے‬
‫تیرا رب اور تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں [‪]۹۶‬‬

‫‪They said, “O Mūsā, we shall never enter it, in any case, so long as they are there. So‬‬
‫”‪go, you and your Lord, and fight. As for us, we are sitting right here.‬‬

‫ن ﴿‪۲۵‬‬ ‫ن ۡالقَوۡ ِم ۡالفٰ ِ‬


‫سقِیۡ َـ‬ ‫اف ُر ۡ‬
‫ق بَیۡ َن َنا َو بَیۡ َ‬ ‫ی َف ۡ‬ ‫ی َو اَ ِ‬
‫خ ۡ‬ ‫س ۡ‬ ‫ی اَل ۤ اَ ۡملِ ُ‬
‫ک اِاَّل نَ ۡف ِ‬ ‫ب اِنِ ّ ۡ‬ ‫﴾ َقا َ‬
‫ل َر ّ ِ‬

‫بوال اے رب میرے میرے اختیار میں نہیں مگر میری جان اور میرا بھائی [‪ ]۹۷‬سو جدائی کر دے تو‬
‫ہم میں اور اس نافرمان قوم میں [‪]۹۸‬‬

‫ن ﴿‪۲۶٪‬‬ ‫س َعلَی ۡالقَوۡ ِم ۡالفٰ ِ‬


‫سقِیۡ َ‬ ‫س َن ًۃ ۚ یَتِیۡ ُہوۡ نَ فِی ااۡل َۡرضِ ؕ فَاَل تَ ۡا َ‬ ‫ح َّر َم ٌۃ َعلَیۡ ِہ ۡم اَ ۡربَعِیۡ َ‬
‫ن َ‬ ‫ل َفاِنَّ َہا ُم َ‬
‫﴾ َقا َ‬

‫فرمایا تحقیق وہ زمین حرام کی گئ ہے ان پر چالیس برس سر مارتے پھریں گے ملک میں سو‬
‫تو افسوس نہ کر نافرمان لوگوں پر‬
‫موضح القرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السالم اپنے باپ کا وطن چھوڑ نکلے ہللا کی ]‪[۸۵‬‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫راہ میں اور ملک شام میں آ کر ٹھہرے اور مدت تک ان کے اوالد نہ ہوئی تب ہللا‬
‫بشارت دی کہ تیری اوالد بہت پھیالؤں گا اور زمین شام انکو دوں گا اور نبوت‪ ،‬دین کتاب اور‬
‫موسی علیہ السالم کے وقت وہ وعدہ پورا کیا۔ بنی‬ ‫ٰ‬ ‫سلطنت ان میں رکھوں گا۔ پھر حضرت‬
‫اسرائیل کو فرعون کی بیگار سے خالص کیا اور اس کو غرق کیا اور ان کو فرمایا کہ جہاد کرو‬
‫موسی علیہ‬‫ٰ‬ ‫عمالقہ سے ملک شام فتح کر لو پھر ہمیشہ وہ ملک شام تمہارا ہے حضرت‬
‫السالم نے بارہ شخص بارہ قبائل بنی اسرائیل پر سردار کئے تھے ان کو بھیجا کہ اس ملک کی‬
‫خبر الویں وہ خبر الئے تو ملک شام کی بہت خوبیاں بیان کیں اور وہاں جو عمالقہ مسلط تھے ان‬
‫موسی علیہ السالم نے ان کو کہا کہ تم قوم کے سامنے ملک کی‬ ‫ٰ‬ ‫کا زور و قوت بیان کیا حضرت‬
‫خوبی بیان کرو اور دشمن کی قوت کا ذکر مت کرو۔ ان میں سے دو شخص اس حکم پر رہے اور‬
‫دس نے خالف کیا۔ قوم نے سنا تو نامردی کرنے لگی اور چاہا کہ پھر الٹے مصر چلے جائیں۔ اس‬
‫تقصیر کی وجہ سے چالیس برس فتح میں دیر لگی۔ اس قدر مدت جنگلوں میں بھٹکتے پھرتے‬
‫موسی علیہ السالم‬ ‫ٰ‬ ‫رہے ۔ جب اس قرن کے لوگ مر چکے مگر وہ دو شخص کہ وہ ہی حضرت‬
‫کے بعد خلیفہ ہوئے ان کے ہاتھ سے فتح ہوئی‬
‫۔‬
‫‪:‬بنی اسرائیل پر ہللا کی نعمتوں کا ذکر]‪[۸۶‬‬

‫اعلی حضرت ابراہیم علیہ السالم سے لے کر آج تک کتنے نبی تم میں پیدا‬ ‫ٰ‬ ‫یعنی تمہارے جد‬
‫اسحق علیہ السالم‪ ،‬یعقوب علیہ السالم‪ ،‬یوسف علیہ‬ ‫ٰ‬ ‫کئے۔ مثاًل حضرت اسمٰ عیل علیہ السالم‪،‬‬
‫موسی علیہ السالم و ہارون علیہ السالم پھر ان کے بعد بھی یہ ہی سلسلہ‬ ‫ٰ‬ ‫السالم‪ ،‬اور خود‬
‫مدت دراز تک ان میں قائم رکھا۔‬
‫یعنی فرعونیوں کی ذلیل ترین غالمی سے آزادی دال کر انکے اموال و امالک پر قابض کیا اور ]‪[۸۷‬‬
‫اس سے پہلے تم ہی میں سے حضرت یوسف علیہ السالم کو مصر کے خزائن اور سلطنت پر‬
‫کیسا تسلط عطا فرمایا۔ پھر مستقبل میں بھی حضرت سلیمان وغیرہ نبی اور بادشاہ پیدا کئے۔‬
‫اعلی نعمتوں سے تم کو سرفراز کیا کیونکہ دینی مناصب میں سب‬ ‫ٰ‬ ‫گویا دین اور دنیا دونوں کی‬
‫سے بڑا منصب نبوت اور دنیوی اقبال کی آخری حد آزادی اور بادشاہت ہے یہ دونوں چیزیں‬
‫مرحمت کی گئیں۔‬
‫موسی علیہ السالم کو یہ خطاب فرما رہے تھے بنی اسرائیل پر تمام ]‪[۸۸‬‬ ‫ٰ‬ ‫یعنی اس وقت جب‬
‫ن کو عموم پر حمل کیا‬ ‫ن العٰ لَمِیۡ َ‬‫ۡ‬ ‫ح ًدا ِ ّم َ‬‫دنیا کے لوگوں سے زیادہ خدا کی نوازشیں ہوئیں اور اگر اَ َ‬
‫جائےتو یہ اس لئے صحیح نہ ہوگا کہ امت محمدیہ کی نسبت خود قرآن میں تصریح ہے۔ کُنۡ ُت ۡم‬
‫اس‬
‫ِ‬ ‫سطًا لِ ّ َتکُوۡ ُنوۡ ا ُ‬
‫ش َہ َدٓا َء َعلَی ال َّن‬ ‫ج َع ۡلنٰ ک ُۡم ُا َّم ًۃ َّو َ‬ ‫اس (آل عمران۔‪ )۱۱۰‬اور َک ٰذلِ َ‬
‫ک َ‬ ‫ِ‬ ‫ج ۡ‬
‫ت لِل َّن‬ ‫خیۡ َر ُا َّم ٍۃ ا ُۡخ ِر َ‬
‫َ‬
‫(بقرہ۔‪)۱۴۳‬۔‬

‫‪:‬یہودیوں کو ارض مقدس میں داخلے کا حکم اور انکی بزدلی]‪[۸۹‬‬

‫یعنی خدا نے پیشتر حضرت ابراہیم علیہ السالم سے وعدہ فرمایا تھا کہ تیری اوالد کو یہ ملک‬
‫دوں گا۔ وہ وعدہ ضرور پورا ہونا ہے۔ خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کے ہاتھوں پر پورا ہو۔‬
‫یعنی جہاد فی سبیل ہللا میں بزدلی اور پست ہمتی دکھا کر غالمی کی زندگی کی طرف ]‪[۹۰‬‬
‫مت بھاگو۔‬
‫یعنی بہت قوی ہیکل‪ ،‬تنومند اور پر رعب۔]‪[۹۱‬‬
‫یعنی مقابلہ کی ہمت ہم میں نہیں۔ ہاں بدون ہاتھ پاؤں ہالئے پکی پکائی کھا لیں گے۔ آپ ]‪[۹۲‬‬
‫معجزہ کے زور سے انہیں نکال دیں۔‬
‫وہ دو شخص حضرت یوشع بن نون اور کالب ابن یوقنا تھے جو خدا سے ڈرتے تھے۔ اسی ]‪[۹۳‬‬
‫تقوی گزید۔ تر سدازوے جن و‬
‫ٰ‬ ‫لئے عمالقہ وغیرہ کا کچھ ڈر ان کو نہ رہا ؂ ہر کہ تر سیداز حق و‬
‫انس و ہر کہ دید۔‬
‫یعنی ہمت کر کے شہر کے پھاٹک تک تو چلو ۔ پھر خدا تم کو غالب کرے گا۔ خدا اسی کی ]‪[۹۴‬‬
‫مدد کرتا ہے جو خود بھی اپنی مدد کرے۔‬

‫‪:‬توکل کا مفہوم]‪[۹۵‬‬

‫معلوم ہوا کہ اسباب مشروعہ کو ترک کرنا توکل نہیں۔ "توکل” یہ ہے کہ کسی نیک مقصد کے‬
‫لئے انتہائی کوشش اور جہاد کرے پھر اس کے مثمرو منتج ہونے کے لئے خدا پر بھروسہ رکھے۔‬
‫اپنی کوشش پر نازاں اور مغرور نہ ہو۔ باقی اسباب مشروعہ کو چھوڑ کر خالی امیدیں باندھتے‬
‫رہنا توکل نہیں تعطل ہے۔‬
‫دعوی رکھتی تھی۔ مگر یہ گستاخانہ ]‪[۹۶‬‬
‫ٰ‬ ‫ن اَبۡ نٰ ٓ ُؤا ال ٰل ّ ِہ َو اَ ِ‬
‫حبَّٓا ُؤ ٗہ کا‬ ‫یہ اس قوم کا مقولہ ہے جو نَ ۡح ُ‬
‫کلمات انکے مستمر تمرد و طغیان سے کچھ بھی مستبعد نہیں‬
‫۔‬
‫موسی علیہ السالم کی دعا]‪[۹۷‬‬ ‫ٰ‬ ‫‪:‬حضرت‬

‫موسی علیہ السالم نےسخت دلگیر ہو کر یہ دعا فرمائی۔ چونکہ تمام قوم کی عدول‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫حکمی اور بزدالنہ عصیان کو مشاہدہ فرما رہے تھے۔ ا سلئے دعا میں بھی اپنے اور ہارون علیہ‬
‫السالم کےسوا کہ وہ بھی نبی معصوم تھے اور کسی کا ذکر نہیں کیا۔ یوشع اور کالب بھی‬
‫دونوں کے ساتھ تبعًا آ گئے‬
‫۔‬
‫‪:‬مسلمانوں اور یہود کا اس حکم میں موازنہ]‪[۹۸‬‬

‫س ی اور ظاہری طور پر تو قبول نہ ہوئی ہاں معنوی جدائی ہو گئ کہ وہ‬ ‫ح ّ‬ ‫یعنی جدائی کی دعا ِ‬
‫موسی و ہارون‬ ‫ٰ‬ ‫الہ ی میں گرفتار ہو کر حیران و سرگرداں پھرتے تھے اور حضرت‬ ‫سب تو عذاب ٰ‬
‫علیہما السالم پیغمبرانہ اطمینان اور پورے قلبی سکون کے ساتھ اپنے منصب ارشاد و اصالح پر‬
‫قائم رہے۔ جیسے کسی بستی میں عام وبا پھیل پڑے اور ہزاروں بیماروں کے مجمع میں دو چار‬
‫تندرست اور قوی القلب ہوں جو ان کے معالجہ‪ ،‬چارہ سازی اور تفقد احوال میں مشغول رہیں۔‬
‫ق بَیۡ َن َن ا کا ترجمہ "جدائی کر دے” کی جگہ "فیصلہ کر دے” ہوتا تو یہ مطلب زیادہ واضح ہو‬ ‫اف ُر ۡ‬
‫اگر َف ۡ‬
‫صاحب لکھتے ہیں کہ یہ سب قصہ اہل کتاب کو سنایا اس پر کہ تم پیغمبر‬ ‫ؒ‬ ‫جاتا۔ حضرت شاہ‬
‫موسی علیہ السالم کی‬ ‫ٰ‬ ‫آخرالزمان کی رفاقت نہ کرو گے جیسے تمہارے اجداد نے حضرت‬
‫رفاقت چھوڑ دی تھی اور جہاد سے جان چرا بیٹھے تھے۔ تو یہ نعمت اوروں کو نصیب ہو گی۔‬
‫چنانچہ نصیب ہوئی۔ ایک لمحہ کے لئے اس سارے رکوع کو سامنے رکھ کر امت محمدیہ کے‬
‫احوال پر غور کیجئے ان پر خدا کے انعامات ہوئے جو نہ پہلے کسی امت پر ہوئے نہ آیندہ ہوں گے‬
‫ان کے لئے خاتم االنبیاء سیدالرسل صلی ہللا علیہ وسلم کو ابدی شریعت دے کر بھیجا۔ ان میں‬
‫وہ علماء اور ائمہ پیدا کئے جو باوجود غیر نبی ہونے کے انبیاء کے وظائف کو نہایت خوش‬
‫اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔ ایسے ایسے خلفاء نبی علیہ السالم کے بعد امت کے قائد بنے‬
‫جنہوں نے سارے جہان کو اخالق اور اصول سیاست وغیرہ کی ہدایت کی۔ اس امت کو بھی‬
‫جہاد کا حکم ہوا۔ عمالقہ کے مقابلہ میں نہیں روئے زمینـ کے تمام جبارین کے مقابلہ میں۔‬
‫محض سرزمین شام فتح کر نے کے لئے نہیں بلکہ شرق و غرب میں کلمۃ ہللا بلند کرنے اور‬
‫فتنہ کی جڑ کاٹنے کے لئے بنی اسرائیل سے خدا نے ارض مقدسہ کا وعدہ کیا تھا لیکن اس‬
‫ما‬ ‫س َت ۡخلِ َف َّن ُہ ۡم فِی ااۡل َۡرضِ َک َ‬ ‫ت لَیَ ۡ‬ ‫صّلِ ٰح ِ‬ ‫ملُوا ال ٰ‬ ‫امت سے یہ فرمایا َو َع َد ال ٰل ّ ُہ الَّذِیۡ َ‬
‫ن ٰا َم ُنوۡ ا مِنۡ ک ُۡم َو َع ِ‬
‫خوۡ فِ ِہ ۡم اَ ۡم ًنا‬ ‫ۢ‬
‫دلَ َّن ُہ ۡم ِ ّم ۡن بَ ۡع ِد َ‬
‫ضی لَ ُہ ۡم َو لَ ُیبَ ِّ‬ ‫م الَّ ِذی ۡارتَ ٰ‬
‫ن لَ ُہ ۡم دِیۡ َن ُہ ُ‬
‫ِکّـ َن َّ‬ ‫ن ِم ۡن َق ۡبلِ ِہ ۡم ۪ َو لَ ُی َ‬
‫م ِّ‬ ‫اس َت ۡخلَ َ‬
‫ف الَّذِیۡ َ‬ ‫ۡ‬
‫موسی علیہ السالم نے جہاد میں پیٹھ پھیرنے سے منع کیا تھا تو‬ ‫ٰ‬ ‫(نور۔‪ )۵۵‬اگر بنی اسرائیل کو‬
‫ن َک َف ُروۡ ا َز ۡحفًا فَاَل‬
‫َ‬ ‫ذ‬
‫ِیۡ‬ ‫َّ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ُ ُ‬ ‫ق‬
‫ِیۡ‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫َا‬
‫ذ‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬
‫ۤ‬ ‫ۡ‬ ‫ن‬‫م‬ ‫ا‬
‫َ َُ‬‫ٰ‬ ‫ن‬ ‫ذ‬
‫ِیۡ‬ ‫َّ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ہ‬‫َ‬ ‫ُّ‬ ‫ی‬‫َ‬ ‫ا‬‫ی‬‫ۤ‬ ‫ٰ‬ ‫کیا‬ ‫خطاب‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫اس امت کو بھی خدا‬
‫موسی علیہ السالم کے رفقاء تو عمالقہ سے ڈر‬ ‫ٰ‬ ‫م ااۡل َدۡ بَا َر (انفال۔‪ )۱۵‬انجام یہ ہوا کہ حضرت‬ ‫ُت َولُّوۡ ُہ ُ‬
‫ک َفقَاتِاَل ۤ اِنَّا ہٰ ُہ َنا ٰق ِع ُدوۡ نَ تم اور تمہارا پروردگار جا کر لڑو‬ ‫ب اَنۡ َ‬
‫ت َو َربُّ َ‬ ‫کر یہاں تک کہہ گذرے کہ َف ۡ‬
‫اذ َہ ۡ‬
‫ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ لیکن اصحاب محمد صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ کہا کہ خدا کی قسم اگر آپ‬
‫سمندر کی موجوں میں گھس جانے کا حکم دیں گے تو ہم اسی میں کود پڑیں گے اور ایک‬
‫شخص بھی ہم میں سے علیحدہ نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ خدا آپ کو ہماری طرف سے وہ چیز‬
‫دکھالئے گا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی۔ ہم اپنے پیغمبر کے ساتھ ہو کر اس‬
‫کے داہنے اور بائیں آگے اور پیچھے ہر طرف جہاد کریں گے خدا کے فضل سے ہم وہ نہیں ہیں‬
‫ک َفقَاتِاَل ۤ اِنَّا ہٰ ُہ َنا ٰق ِع ُدوۡ نَ اسی کا یہ‬ ‫ت َو َربُّ َ‬ ‫ب اَنۡ َ‬ ‫اذ َہ ۡ‬ ‫نےموسی علیہ السالم سےکہہ دیا تھا َف ۡ‬ ‫ٰ‬ ‫جنہوں‬
‫نتیجہ ہے کہ جتنی مدت بنی اسرائیل فتوحات سے محروم ہو کر وادی تیہ میں بھٹکتے رہے اس‬
‫سے کم مدت میں محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے اصحاب نے مشرق و مغرب میں‬
‫ہدایت و ارشاد کا جھنڈا گاڑ دیا ۔ رضی ہللا عنہم و رضواعنہـ ٰذلک لمن خشی ربہ‬

You might also like