You are on page 1of 8

‫مسئلہ نمبر‪2:‬‬

‫کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کن‬
‫جانوروں کا کھانا حالل ہے اور کن کا نہیں۔ اور کیا بیمارى کى بناء پر حرام‬
‫جانوروں کا استعمال کیا جا سکتا هے؟نیز جانوروں کی بیوعات کا کیا حکم ہے ؟‬

‫‪:‬بینواتؤجروا‬
‫جن جانوروں کا کھانا حالل ہے اور جن کا حرام ہے وہ دو طرح کے ہوتے ہیں‬
‫ایک وہ جو پانی میں رہتے ہیں اوردوسراوہ جو خشکی میں(زمین) رہتے ہیں‬
‫پانی کے تمام کے تمام جانور حرام ہیں سوائےمچھلی کے۔ سب مچھلی حالل ہے‬
‫اس عالوہ جوخودمرکر پانی کی سطح پر آ جائے ہوتے ہیں‬
‫!جیساکہ فتاوی ھندیہ میں ہے‬
‫ﻣﺎ ﻳﺆﻛﻞ ﻣﻦ اﻟﺤﻴﻮاﻥ ﻭﻣﺎ ﻻ ﻳﺆﻛﻞاﻟﺤﻴﻮاﻥ ﻓﻲ اﻷﺻﻞ ﻧﻮﻋﺎﻥ‪ $‬ﻧﻮﻉ ﻳﻌﻴﺶ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ‬
‫ﻭﻧﻮﻉ ﻳﻌﻴﺶ ﻓﻲ اﻟﺒﺮ‪ ،‬ﺃﻣﺎ اﻟﺬﻱ ﻳﻌﻴﺶ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ ﻓﺠﻤﻴﻊ ﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ ﻣﻦ اﻟﺤﻴﻮاﻥ‬
‫ﻳﺤﺮﻡ ﺃﻛﻠﻪ ﺇﻻ اﻟﺴﻤﻚ ﺧﺎﺻﺔ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺤﻞ ﺃﻛﻠﻪ ﺇﻻ ﻣﺎ ﻃﻔﺎ ﻣﻨﻪ۔‬

‫جس جانور کا کھانا حالل ہے اور جسکا کھانا حرام ہے وہ دونوع پر تقسیم ہیں‬
‫پہلی قسم وہ جو پانی میں زندگی پانی جیتے وہ تمام کے تمام جانور حرام ہیں‬
‫سوائے مچھلی کے اس کے عالوہ جو مچھلی مرکز پانی کی اوپری سطح پر‬
‫آجائے‬
‫)فتاوی ھندیہ کتاب الذبائح‪ :‬ص‪ :289‬شاملہ(‬

‫خشکی کے جانوروں کی تین صورتیں ہیں پہال وہ جس میں خون ہی نہیں ہوتا‬
‫جیسے ٹیڑی‪،‬شہید کی مکھی‪ ،‬مکڑی وغیرہ یہ سب کے سب حرام سوائے ٹیڑی‬
‫کے دوسرے وہ جانور جن میں خون ہے لیکن بہنے کی صالحیت نہیں رکھتا‬
‫ت االرض(چوہےوغیرہ)گوہ کےعالوہ سب حرام‬ ‫جیسے سانپ و گوہ و تمام حشرا ِ‬
‫)گوہ کاکھانامکروہ ہے(‬
‫!جیساکہ فتاوی ھندیہ میں ہے‬
‫ﻭﺃﻣﺎ اﻟﺬﻱ ﻳﻌﻴﺶ ﻓﻲ اﻟﺒﺮ ﻓﺄﻧﻮاﻉ ﺛﻼﺛﺔ‪ :‬ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺩﻡ ﺃﺻﻼ ﻭﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺩﻡ ﺳﺎﺋﻞ‬
‫ﻭﻣﺎ ﻟﻪ ﺩﻡ ﺳﺎﺋﻞ‪ ،‬ﻓﻤﺎ ﻻ ﺩﻡ ﻟﻪ ﻣﺜﻞ اﻟﺠﺮاﺩ ﻭاﻟﺰﻧﺒﻮﺭ ﻭاﻟﺬﺑﺎﺏ ﻭاﻟﻌﻨﻜﺒﻮﺕ ﻭاﻟﺨﻨﻔﺴﺎء‬
‫ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ ﻭاﻟﺒﺒﻐﺎء ﻭﻧﺤﻮﻫﺎ ﻻ ﻳﺤﻞ ﺃﻛﻠﻪ ﺇﻻ اﻟﺠﺮاﺩ ﺧﺎﺻﺔ‪ ،‬ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻣﺎ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺩﻡ ﺳﺎﺋﻞ‬
‫ﻣﺜﻞ اﻟﺤﻴﺔ ﻭاﻟﻮﺯﻍ ﻭﺳﺎﻡ ﺃﺑﺮﺹ ﻭﺟﻤﻴﻊ اﻟﺤﺸﺮاﺕ ﻭﻫﻮ ﺃﻡ اﻷﺭﺽ ﻣﻦ اﻟﻔﺄﺭ ﻭاﻟﺠﺮاﺩ‬
‫ﻭاﻟﻘﻨﺎﻓﺬ ﻭاﻟﻀﺐ ﻭاﻟﻴﺮﺑﻮﻉ ﻭاﺑﻦ ﻋﺮﺱ ﻭﻧﺤﻮﻫﺎ‬
‫خشکی کے جانور کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہال جس میں خون نہیں‬
‫ہوتا جیسے ٹیڑی‪ ،‬شہید کی مکھی‪،‬بھڑاورمکھیاں و مکڑی وبچھو۔ سب حرام ہیں‬
‫سوائے ٹیڑی کے د وسرا یہ کہ جس جانور میں خون بہنے کی صالحیت نہیں‬
‫رکھتا جیسا کہ سانپ دوزع وسام ابرص تمام حشرات االرض جیسے مینڈک‬
‫چوھے وغیرہ اس میں تمام کے تمام افراد حرام سوائے گوہ کے‬
‫)فتاوی ھندیہ کتاب الذبائح‪ :‬ص‪ :289‬شاملہ(‬
‫تسیرے وہ جانورجس میں بہتا خون ہوتا ہے اسکی د و صورتیں ہیں ایک ایسے‬
‫‪،‬گھریلو دوسرےدرندے‬
‫جو جانور انسان سے انسیت(گھریلو) رکھتے مثال اونٹ‪ ،‬گائے‪،‬بکری وغیرہ‬
‫سب کے سب حالل ہیں اور اس ہی طرح جو وحشی کی مثل ہوتے لیکن شکار‬
‫نہیں کرتے جیسے جنگلی اونٹ‪ ،‬جنگلی گائے‪ ،‬جنگلی گدھے یہ تمام کا کھانا‬
‫جائز ہے گھریلو درندے کا کھانا جائز نہیں جیسے کتے‪ ،‬بلی وغیرہ‬
‫جیساکہ فتاوی ھندیہ میں ہے!‬
‫ﻭﻣﺎ ﻟﻪ ﺩﻡ ﺳﺎﺋﻞ ﻧﻮﻋﺎﻥ‪ :‬ﻣﺴﺘﺄﻧﺲ ﻭﻣﺘﻮﺣﺶ‪ ،‬ﺃﻣﺎ اﻟﻤﺴﺘﺄﻧﺲ ﻣﻦ اﻟﺒﻬﺎﺋﻢ ﻓﻨﺤﻮ اﻹﺑﻞ‬
‫ﻭاﻟﺒﻘﺮ ﻭاﻟﻐﻨﻢ ﻳﺤﻞ ﺑﺎﻹﺟﻤﺎﻉ‪ ،‬ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻤﺘﻮﺣﺶ ﻧﺤﻮ اﻟﻈﺒﺎء ﻭﺑﻘﺮ اﻟﻮﺣﺶ ﻭﺣﻤﺮ‬
‫اﻟﻮﺣﺶ ﻭﺇﺑﻞ اﻟﻮﺣﺶ ﻓﺤﻼﻝ ﺑﺈﺟﻤﺎﻉ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ۔ ‪ ،‬ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻤﺴﺘﺄﻧﺲ ﻣﻦ اﻟﺴﺒﺎﻉ ﻭﻫﻮ‬
‫اﻟﻜﻠﺐ ﻭاﻟﻔﻬﺪ ﻭاﻟﺴﻨﻮﺭ ﻭاﻷﻫﻠﻲ ﻓﻼ ﻳﺤﻞ‪،‬‬
‫اور جس میں بہتا خون ہوتا ہے اس کے دوانواع ہیں ایک انسانوں سے انسیت‬
‫رکھنے والے(گھریلو) اور دوسرے وحشی۔‬
‫انسیت رکھنے واال چوپائے میں بکری گائے اونٹ سب حالل ہے باالجماع اور‬
‫جو وحشی کےمثل ہو جیسے ہرن وحشی اونٹ اور وحشی گائے وحشی گدھے‬
‫سب باالجماع حالل ہیں ‪ ،‬گھریلوں درندے جیسے کتا وچیتا و پالتو بلّی وغیرہ‬
‫سب حالل نہیں ہیں‬
‫)فتاوی ھندیہ کتاب الذبائح‪ :‬ص‪ :289‬شاملہ(‬
‫وحشی مراد درندے ہیں درندے وہ جانورجنکے نوکیلےدانت ہوں اور وہ‬
‫اس سے شکار بھی کرتے ہیں(شیر‪،‬لومڑی وغیرہ) اور پرندے میں‬
‫درندے وہ ہیں جو اپنے چونچ اور پنجوں سے شکار کرتے‬
‫ہوں(باز‪،‬شاہین وغیرہ) ان سب کا کھانا حرام ھے۔ انکے عالوہ پرندے‬
‫ہیں سب طیب و حالل ہیں(کبوتر‪،‬چڑیا وغیرہ)‬

‫!جیساکہ فتاوی ھندیہ میں ہے‬


‫ﻭﻛﺬﻟﻚ اﻟﻤﺘﻮﺣﺶ ﻓﻤﻨﻬﺎ اﻟﻤﺴﻤﻰ ﺑﺴﺒﺎﻉ اﻟﻮﺣﺶ ﻭاﻟﻄﻴﺮ‪ ،‬ﻭﻫﻮ ﻛﻞ ﺫﻱ ﻧﺎﺏ‬
‫ﻣﻦ اﻟﺴﺒﺎﻉ ﻭﻛﻞ ﺫﻱ ﻣﺨﻠﺐ ﻣﻦ اﻟﻄﻴﺮ‪ ،‬ﻓﺬﻭ اﻟﻨﺎﺏ ﻣﻦ ﺳﺒﺎﻉ اﻟﻮﺣﺶ ﻣﺜﻞ‬
‫اﻷﺳﺪ ﻭاﻟﺬﺋﺐ ﻭاﻟﻀﺒﻊ ﻭاﻟﻨﻤﺮ ﻭاﻟﻔﻬﺪ ﻭاﻟﺜﻌﻠﺐ ﻭاﻟﺴﻨﻮﺭ اﻟﺒﺮﻱ ﻭاﻟﺴﻨﺠﺎﺏ‬
‫ﻭاﻟﺴﻤﻮﺭ ﻭاﻟﺪﻟﻖ ﻭاﻟﺪﺏ ﻭاﻟﻘﺮﺩ ﻭﻧﺤﻮﻫﺎ ﻓﻼ ﺧﻼﻑ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻟﺠﻤﻠﺔ ﻭﺫﻭ‬
‫اﻟﻤﺨﻠﺐ ﻣﻦ اﻟﻄﻴﺮ ﻛﺎﻟﺒﺎﺯﻱ ﻭاﻟﺒﺎﺷﻖ ﻭاﻟﺼﻘﺮ ﻭاﻟﺸﺎﻫﻴﻦ ﻭاﻟﺤﺪﺃﺓ ﻭاﻟﺒﻐﺎﺙ‬
‫ﻭاﻟﻨﺴﺮ ﻭاﻟﻌﻘﺎﺏ ﻭﻣﺎ ﺃﺷﺒﻪ ﺫﻟﻚ‪ ،‬ﻭﻣﺎ ﻻ ﻣﺨﻠﺐ ﻟﻪ ﻣﻦ اﻟﻄﻴﺮ‪ ،‬ﻭاﻟﻤﺴﺘﺄﻧﺲ‬
‫ﻣﻨﻪ ﻛﺎﻟﺪﺟﺎﺝ ﻭاﻟﺒﻂ‪ ،‬ﻭاﻟﻤﺘﻮﺣﺶ ﻛﺎﻟﺤﻤﺎﻡ ﻭاﻟﻔﺎﺧﺘﺔ ﻭاﻟﻌﺼﺎﻓﻴﺮ ﻭاﻟﻘﺒﺞ‬
‫ﻭاﻟﻜﺮﻛﻲ ﻭاﻟﻐﺮاﺏ اﻟﺬﻱ ﻳﺄﻛﻞ اﻟﺤﺐ ﻭاﻟﺰﺭﻉ ﻭﻧﺤﻮﻫﺎ ﺣﻼﻝ ﺑﺎﻹﺟﻤﺎﻉ‬
‫پس وحشی جس سے درندہ کہتے ہیں‬
‫وحشی پرندے وہ ہیں جس کے چونچ ہوتے ہیں سب کے سب درندے ہیں‬
‫اور جانور میں درندے جس کے نوکیلے دانت ہوتے ہیں۔ جیسے کہ‬
‫شیر‪،‬بھیڑیا‪،‬چیتا‪،‬لومڑی‪،‬بلّی‪،‬چچڑی‪،‬نیولے‪،‬دلق(بلّی جیسا‬
‫جانور)‪،‬ریچھ‪،‬السنخاب(چوہےکیمثل جانور) اور ان جیسے سب حرام ہیں‬
‫اور وحشی پرندوں‪ j‬میں باز شکرا ‪،‬شکاری پرندے‪ ،‬شاہین عقاب اور‬
‫انکی مثل حالل نہیں جسکے چونچ نہیں ہوتے وہ پرندہ گھریلو ہوتے ہیں‬
‫جیسے مرغے بطغ اور وحشی وہ ہوتے ہیں ہیں جیسے کبوتر فاختہ اور‬
‫چڑیا اور جو دانہ یا کھیتی کی چیزیں کھاتے ہیں وہ سب وہ حالل ہیں‬
‫)فتاوی ھندیہ کتاب الذبائح‪ :‬ص‪ :289‬شاملہ(‬
‫تمام جانوروں کی بیع جائز ہےسوائے خنزیر کے‪ ،‬مگر کتے کی‬
‫بیع میں ایک شرط کا ضروری ہے کہ وہ سکھنے کے قابل ہو‬
‫!جیساکہ فتاوی ھندیہ میں ہے‬
‫ﻭﻳﺠﻮﺯ ﺑﻴﻊ ﺟﻤﻴﻊ اﻟﺤﻴﻮاﻧﺎﺕ ﺳﻮﻯ اﻟﺨﻨﺰﻳﺮ ﻭﻫﻮ اﻟﻤﺨﺘﺎﺭ ﻭﺑﻴﻊ اﻟﻜﻠﺐ ﻏﻴﺮ‬
‫اﻟﻤﻌﻠﻢ ﻳﺠﻮﺯ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﻗﺎﺑﻼ ﻟﻠﺘﻌﻠﻴﻢ ﻭﺇﻻ ﻓﻼ‬
‫جائز ہے سب جانوروں کی بیع سواے‪ j‬خنزیر کے اور یہی مختار ہے اور‬
‫اور کتے کی غیر معلم کی میں جائز ہے جب وہ دیکھنے کے قابل ہو ہو‬
‫ورنہ نہیں‬
‫ﺃﻧﻪ ﻳﺠﻮﺯ ﺑﻴﻊ ﻛﻞ ﺷﻲء ﻳﻨﺘﻔﻊ ﺑﻪ‬
‫یہ کہ جائز ہر اس شے کی بیع جس سے نفع اٹھایا جاتا ہوں‬
‫فتاوی ھندیہ كتاب البيوع‪:‬ج ‪ ٣‬ص ‪١١٤‬كتاب البيوع‪:‬ج ‪ ٣‬ص(‬
‫)‪ :١١٤‬شاملہ‬
‫حالت اضطرار میں حرام و نجس اشیاء کا استعمال جائز ہو جاتا ہے‬
‫بطور عالج‬
‫حالت اضطرار بمعنی ضرورت کی تعریف یہ ہے کہ انسان اس حالت‬
‫تک مجبور ہو جائے کہ اگر وہ حرام و ممنوع شئے کو نہ کھائے جائے‬
‫تو ہالک و قریب الہالک ہو جائے گا اس حالت میں ممنوع اشیاء کا‬
‫استعمال چند شرائط کے ساتھ جائزہے‬
‫جان یا کسی عضو کے ضائع ہونےکایقین یاغالب گمان ہو۔‬
‫جان یا کسی عضو کے ضائع ہونےکافقط وہموخیال نہ ہو بلکہ ڈاکٹریا‬
‫طیب کویقین ہو۔‬
‫حرام یا ممنوع ایشاءکے استعمال سےجان وعضوکا بچ جاناتجربہ کی‬
‫بنیاد پر یقین ہو۔‬
‫حرام یا ممنوع ایشاءکے استعمال کے بیغر جان کا بچنا اور بچانا ممکن‬
‫نہ ہو۔‬
‫!التشریع الجنائی االسالمی میں ہےکہ‬
‫‪ :‬ﺣﺎﻟﺔ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﺃﺭﺑﻌﺔ ﺷﺮﻭﻁ‬
‫۔ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻥ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﻣﻠﺠﺌﺔ ﺑﺤﻴﺚ ﻳﺠﺪ اﻟﻔﺎﻋﻞ ﻧﻔﺴﻪ ﺃﻭ ﻏﻴﺮﻩ ﻓﻲ ﺣﺎﻟﺔ‪1‬‬
‫‪.‬ﻳﺨﺸﻰ ﻣﻨﻬﺎ ﺗﻠﻒ اﻟﻨﻔﺲ ﺃﻭ اﻷﻋﻀﺎء‬
‫۔ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻥ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﻗﺎﺋﻤﺔ ﻻ ﻣﻨﺘﻈﺮﺓ‪ ،‬ﻓﻠﻴﺲ ﻟﻠﺠﺎﺋﻊ ﺃﻥ ﻳﺄﻛﻞ اﻟﻤﻴﺘﺔ ﻗﺒﻞ ﺃﻥ‪2‬‬
‫‪.‬ﻳﺠﻮﻉ ﺟﻮﻋﺎ ﻳﺨﺸﻰ ﻣﻨﻪ‬
‫۔ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﺪﻓﻊ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ ﻭﺳﻴﻠﺔ ﺇﻻ اﺭﺗﻜﺎﺏ اﻟﺠﺮﻳﻤﺔ‪ ،‬ﻓﺈﺫا ﺃﻣﻜﻦ ﺩﻓﻊ ‪3‬‬
‫اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ‪ j‬ﺑﻔﻌﻞ ﻣﺒﺎﺡ اﻣﺘﻨﻊ ﺩﻓﻌﻬﺎ ﺑﻔﻌﻞ ﻣﺤﺮﻡ‪ ،‬ﻓﺎﻟﺠﺎﺋﻊ اﻟﺬﻱ ﻳﺴﺘﻄﻴﻊ ﺷﺮاء‬
‫اﻟﻄﻌﺎﻡ ﻟﻴﺲ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺤﺎﻟﺔ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ‪ j‬ﺇﺫا ﺳﺮﻕ ﻃﻌﺎﻣا‬
‫۔ﺃﻥ ﺗﺪﻓﻊ اﻟﻀﺮﻭﺭﺓ‪ j‬ﺑﺎﻟﻘﺪﺭ اﻟﻻﺯﻡ ﻟﺪﻓﻌﻬﺎ‪ ،‬ﻓﻠﻴﺲ ﻟﻠﺠﺎﺋﻊ ﺃﻥ ﻳﺄﺧﺬ ﻣﻦ ﻃﻌﺎﻡ‪4‬‬
‫ﻏﻴﺮﻩ ﺇﻻ ﻣﺎ ﻳﺮﺩ ﺟﻮﻋﻪ۔‬

‫!ارشاد باری تعالی ہے‬


‫اِنَّ َما َح َّر َم َعلَ ْی ُك ُم ْال َم ْیتَةَ َو ال َّد َم َو لَحْ َم ْال ِخ ْن ِزی ِْر َو َم ۤا اُ ِه َّل ِب ٖه لِ َغی ِْر هّٰللا ۚ ِ‪-‬فَ َم ِن‬
‫هّٰللا‬
‫اغ َّو اَل َعا ٍد فَاَل ۤ اِ ْث َم َعلَ ْی ِهؕ‪-‬اِ َّن َ َغفُ ْو ٌر ر ِ‬
‫َّح ْی ٌم‬ ‫اضْ طُ َّر َغی َْر بَ ٍ‬
‫)البقرة‪(١٧٣-‬‬
‫اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور‬
‫حرام کئے ہیں جس کے ذبح کے وقت غی ُر ہللا کا نام بلند کیا گیا تو جو‬
‫مجبور ہوجائے حاالنکہ وہ نہ خواہش رکھنے واال ہو اور نہ ضرورت‬
‫سے ٓاگے بڑھنے واالہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ‪،‬بیشک ہللا بخشنے واال‬
‫مہربان ہے۔‬
‫!حضورکریمﷺ نے ارشاد فرمایا‬

‫س ـ رضى هللا عنه ـ أَ َّن نَاسًا‪ ،‬اجْ تَ َو ْوا فِي ْال َم ِدينَ ِة فَأ َ َم َرهُ ُم النَّبِ ُّي صلى‬ ‫َع ْن أَنَ ٍ‬
‫اإلبِ َل ـ فَيَ ْش َربُوا ِم ْن أَ ْلبَانِهَا َوأَب َْوالِهَا‪،‬‬ ‫اعي ِه ـ يَ ْعنِي ِ‬ ‫هللا عليه وسلم أَ ْن يَ ْل َحقُوا بِ َر ِ‬
‫ت أَ ْب َدانُهُ ْم فَقَتَلُوا‬ ‫اعي ِه فَ َش ِربُوا ِم ْن أَ ْلبَانِهَا َوأَب َْوالِهَا‪َ ،‬حتَّى َ‬
‫صلَ َح ْ‬ ‫فَلَ ِحقُوا بِ َر ِ‬
‫ث فِي طَلَبِ ِه ْم‪،‬‬ ‫ي صلى هللا عليه وسلم فَبَ َع َ‬ ‫َّاع َي َو َساقُوا ِ‬
‫اإلبِ َل‪ ،‬فَبَلَ َغ النَّبِ َّ‬ ‫الر ِ‬
‫فَ ِجي َء بِ ِه ْم فَقَطَ َع أَ ْي ِديَهُ ْم َوأَرْ ُجلَهُ ْم‬

‫حضرت انس رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ ( عرینہ کے ) کچھ‬


‫لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب و ہوا طبیعت کےمناسب نہ تھی تو نبی‬
‫کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے چرواہے کے‬
‫یعنی اونٹوں کا دودھ اورپیشاب پئیں ۔ تو وہ لوگ‪ j‬آنحضرت صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا‬
‫جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں‬
‫کوہانک کر لے گئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تالش‬
‫کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں الیا گیا تو آنحضرت صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اورپاؤں کاٹ دیئے گئے۔‬
‫)صحيح بخاري حدیث نمبر‪ 233‬مكتبه الشامله(‬

‫عالمہ بدرالدین عینی حنفی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے‬


‫!ہیں‬
‫ﺤﺼﻮﻝ اﻟﺸﻔﺎء‪ ،‬ﻛﺘﻨﺎﻭﻝ اﻟﻤﻴﺘﺔ ﻓﻲ اﻟﻤﺨﺼﻤﺔ‪ ،‬ﻭاﻟﺨﻤﺮ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﻄﺶ‪ ،‬ﻭﺇﺳﺎﻏﺔ‬
‫اﻟﻠﻘﻤﺔ‪ ،‬ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻻ ﻳﺒﺎﺡ ﻣﺎ ﻻ ﻳﺴﺘﻴﻘﻦ ﺣﺼﻮﻝ اﻟﺸﻔﺎء ﺑﻪ‪ .‬ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺣﺰﻡ‪ :‬ﺻﺢ‬
‫ﻳﻘﻴﻨﺎ ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﻪﻠﻟا ﺻﻠﻰ ﻪﻠﻟا ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﻧﻤﺎ ﺃﻣﺮﻫﻢ ﺑﺬﻟﻚ ﻋﻠﻰ ﺳﺒﻴﻞ اﻟﺘﺪاﻭﻱ‬
‫ﻣﻦ اﻟﺴﻘﻢ اﻟﺬﻱ ﻛﺎﻥ ﺃﺻﺎﺑﻪ‪ ،‬ﻭﺃﻧﻬﻢ ﺻﺤﺖ ﺃﺟﺴﺎﻣﻬﻢ ﺑﺬﻟﻚ‪ ،‬ﻭاﻟﺘﺪاﻭﻱ ﻣﻨﺰﻟﺔ‬
‫ﺿﺮﻭﺭﺓ‪ .‬ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ‪( :‬ﺇﻻ ﻣﺎ اﺿﻄﺮﺭﺗﻢ ﺇﻟﻴﻪ)‬
‫ﻓﻤﺎ اﺿﻄﺮ اﻟﻤﺮء ﺇﻟﻴﻪ ﻓﻬﻮ ﻏﻴﺮ ﻣﺤﺮﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻦ اﻟﻤﺂﻛﻞ ﻭاﻟﻤﺸﺎﺭﺏ ﺣﺘﻰ ﺇﺫا‬
‫ﻓﺮﺿﻨﺎ ﺃﻥ ﺃﺣﺪا ﻋﺮﻑ ﻣﺮﺽ ﺷﺨﺺ ﺑﻘﻮﺓ اﻟﻌﻠﻢ‪ ،‬ﻭﻋﺮﻑ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﺰﻳﻠﻪ ﺇﻻ‬
‫ﺑﺘﻨﺎﻭﻝ اﻟﻤﺤﺮﻡ‪ ،‬ﻳﺒﺎﺡ ﻟﻪ ﺣﻴﻨﺌﺬ ﺃﻥ ﻳﺘﻨﺎﻭﻟﻪ‪ ،‬ﻛﻤﺎ ﻳﺒﺎﺡ ﺷﺮﺏ اﻟﺨﻤﺮ ﻋﻨﺪ اﻟﻌﻄﺶ‬
‫اﻟﺸﺪﻳﺪ‪ ،‬ﻭﺗﻨﺎﻭﻝ اﻟﻤﻴﺘﺔ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﺨﻤﺼﺔ۔‬
‫جب شفا ء کے حصول کا یقین ہو تو حرام چیزوں سے شفاء حاصل کرنا‬
‫جائز ہے جیسے شدید بھوک میں مردار کھانا شدید پیاس کے وقت اور‬
‫لقمہ حلق سے اتارنے کے لیے شراب پینا جائز ہے ہے اور جس کے‬
‫حصول کا یقین نہ ہو اس کے لیے حرام چیزوں سے عالج جائز نہیں ابن‬
‫حزم نے کہا یہ بات صحیح ہے کہ رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫ان کی بیماری میں بطور عالج کے اونٹوں کے پیشاب اب پینے کا حکم‬
‫دیا اور اس عالج سے صحت یاب ہوگئے اور دعا بمنزل ضرورت ہے‬
‫ہللا تبارک وتعالی فرماتا ہے (سوا اس کے جس کی تمہیں ضرور ت ہو‪)،‬‬
‫اور انسان کو کھانے پینے کی اشیاء سے سے جس چیزوں کی ضرورت‬
‫ہو وہ حرام حرام نہیں نہیں نہیں حتی کہ کہ اگر ہم فرض کرنے کے‬
‫کوئی شخص اپنے علم کی قوت سے کسی شخص کا مریض جان لیتا ہے‬
‫اور کہا ہے کہ اس کا عالج کسی حرام شکر ہے کہ استعمال کرنے سے‬
‫ہے تو اس کے لیے حرام چیز کا استعمال کرنا جائز ہوتا ہے جیسے شدید‬
‫پیاس کے وقت شراب پینا جائے تو بھوک کے وقت مردار کا کھانا جائز‬
‫عمدۃ القاری (ج ‪ ٣‬ص ‪ ١٥٥‬مكتبه الشامله)‬
‫وتعالی اعلم‬

‫کتبتہ‪ :‬بنت اسمعیل‬


‫‪:‬درجہ ‪6th year‬‬

You might also like