You are on page 1of 113

‫پہالباب‪:‬‬

‫تاریخ قصور اور اس میں علم سیرت کی آمد‬


‫‪    ‬پہلی فصل‪    :‬تاریخ قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک& جائزہ‬
‫‪    ‬دوسری فصل‪    :‬قصور میں علم سیرت کی آمد‬

‫پہلی فصل‪ :‬‬
‫‪   ‬تاریخ قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ‬
‫تاریخ قصور‪:‬‬
‫‪    ‬اس باب میں ہم قصور کی مختصرتاریخ پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح‬
‫کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس ضلع میں علم سیرت کیسے آیا ‪،‬وہ کونسی شخصیات‬
‫ہیں جن کی محنت سے علم سیرت اس ضلع میں منتقل ہوا۔‬
‫اس باب میں یہ بھی وضاحت کریں گے کہ ہم نے کون کون سی کتب سے راہنمائی لی ہے۔‬
‫‪    ‬قصو ر پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک قدیم ضلع ہے۔‪ ‬شہر قصور کاذکر بھی جی‬
‫سے سننے والوں کے لیے ایسا سب رنگین اور دآلویز ہے کہ موضوع بدلنے کے لیے‬
‫کسی بہت بڑے تمدنی نام کو بیچ میں النے سے بات بدلتی ہے ۔‬

‫‪1‬‬
‫ایک بھرپور تاریخ کے حامل اس شہر کی شناخت بننے والے مشاہیر کی فہرست کسی بھی‬
‫دوسرے عظیم شہر سے کم نہیں ہے۔بُلھے شاہ کی مستانہ کافیوں نے اسے آتش فشانی‬
‫دہانوں کاشہر بنادیاہے ۔‬
‫عہداکبری میںتان سین کی جاگیررہنے واال استادبڑے غالم علی خاں اور میڈیم نور جہاں‬
‫کایہ شہر''میرا سوہنا شہر قصور'' پانچ دریاؤں کے بیچ تانپورے کے منجھلے تار کی طرح‬
‫ہے۔‬
‫سیاست وحکمرانی میںسیاسی فطانت سے لے کر محالتی سازشوں تک قصور کی تاریخ‬
‫ایک نصابی حوالے کی مانند ہے۔‬
‫‪    ‬ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے‬
‫ہجرت کرکے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل‪ ،‬سا ئیکلوں اور گھوڑوں پر بیٹھے جوق‬
‫در جوق اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کوپہنچ گئے۔‬

‫‪    ‬شہر کے معرض وجود میں آنے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینابہت قبل از وقت‬
‫ہوگا۔ تاہم رامائن میں ہے کہ شری رام چندر جی نے اپنے بیٹے کشو کو نوازنے کے لیے‬
‫ایک تیر پھینکا جو اس جگہ آن گرا اور را م چندر جی نے یہ جگہ کشوکو جاگیر کے‬
‫طورپر عطا کی اور خیال کیاجاتاہے کہ اسی نسبت سے اس کانام کسورپڑا۔‬
‫اس کے بعد یہ شہر ہندوی لفظ کسور سے ‪،‬عربی کاقصور کہالنے لگا۔فیروز پور روڈ پر‬
‫واقع ٹبہ کمال چشتی کااونچاخرابہ ‪،‬ایک پرانے شہر روہےوال کاپتہ دیتاہے ۔عہد اکبری‬
‫میں قصور روہیوال کاایک قصبہ تھاجواکبر نے تان سین کو عطاکیاتھا۔ ایک محالتی‬
‫بدگمانی کورفع کرنے کی غرض سے بعد میں یہ عالقہ مغل فوج کے ایک علی زئی افغان‬
‫جرنیل کو بخشا گیا۔ افغان فوجی افسروں کے یہاں آباد ہونے سے شہر کی معلوم تاریخ کا‬
‫آغاز ہوتا ہے ۔‬
‫پٹھانوں نے اس جگہ قصر نما‪ ١٢‬قلعے (باراں کوٹ) تعمیر کیے۔اس عہد میں رند قبیلے‬
‫کے ایک بلوچ سورما پیرابلوچ کی پٹھانوں کے ساتھ چشمک عالقے کی لوک داستانوں کا‬
‫اہم موضوع ہے۔ پیرابلوچ رات کے اندھیرے میں پٹھان امراء کے محالت میں شب خون‬
‫مارتا اور ساتھ میں اپنی غریب پروری کی وجہ سے عام لوگوں میں مقبول بھی رہا۔‬
‫پٹھانوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں پیراماراگیا اور قصور کے بارہ قلعوں کی پرتعش زندگی‬
‫میں امن وسکون کے ایک اور عہد کاآغاز ہوا۔ تاہم لوک رزمیوں(واراں)& میں آج بھی‬
‫پیراکو ایک ہیرو کے طورپر یاد کیاجاتاہے۔سکھ قبیلے'' بھنگی'' کے تاریخی عہد کو بے‬
‫مثل دور کہتے ہیں۔‬

‫‪2‬‬
‫مثل دوربھی یہاں کے پٹھان امرا ء کے لیے بے سکونی کاایک باب ہے۔ یہ عہد قصور کی‬
‫تاریخ میں بھاری سیاسی اور ثقافتی بحران کا زمانہ ہے۔ قصور میں سنگھاشاہی رسوخ‬
‫ملتان کے نواب مظفر خاں سدوزئی کے ساتھ رنجیت سنگھ کی جنگوں کے پس منظر سے‬
‫شروع ہوتاہے جب یہاں کے ایک جرنیل قطب الدین خان کو رنجیت سنگھ نے ملتان کے‬
‫سدوزئیوں کے خالف اس کاساتھ دینے کا کہا اور قطب الدین نے انکارکیا۔‬
‫اس بات پر رنجیت سنگھ قصور کے رؤسا پر چڑھ دوڑا اور قطب خان کو شکست کھاکر‬
‫رنجیت کاکہامانناپڑا۔قطب خاں کی نصرت میں رنجیت سنگھ نے ملتان کا قلع فتح کیا اور‬
‫اس کی مغل جاگیریں بحال کر دیں۔قصور میوزیم میںتاریخ کے اُس دور کی مختلف انداز‬
‫میں ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔‬
‫‪    ‬انیسویں صدی کے وسط میں قصور کا قلمروانگریزوں& نے سکھوں سے چھین لیا۔برٹش‬
‫دورمیں یہاں کے پٹھان رؤسا کے حکومت کے ساتھ نہایت دوستانہ روابط رہے۔‬
‫پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران رؤسائے قصور نے جنگ کے لیے خطیر چندے‬
‫اکٹھے کیے اور سرکاری طورپر انھیں بھاری مراعات اور عہدوں سے نوازا گیا۔ جلیانوالہ‬
‫باغ کے واقعے پر قصور میں نہایت پرجوش عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ان مظاہروں کو‬
‫قصور جلوس ایجی ٹیشن کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔‬
‫مقامی امراء نے اسکولوں& سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کوپکڑ کر پنجروں میں قید کر‬
‫دیااور ان پر کوڑے برسائے۔ برطانوی عہد میں قصور کے گردریل کی پٹڑی کاجال بچھایا‬
‫گیا ‪،‬جو اسے امرتسر‪ ،‬فیروزپور ‪،‬لودھراں اور رائیونڈ سے مالتی تھی۔‬
‫اس عہد میں قصور کو ضلع الہور کی ذیل میں تحصیل کادرجہ مال اور نئی طرز کے‬
‫بنیادی انتظامی ادارے کچہریاں اور یونین کوسل قائم ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد یہاں کی تقریبا ً‬
‫چوتھائی بھر غیر مسلم آبادی نے شہرچھوڑ دیا ‪.‬‬
‫جب کہ ہندوستان سے فیروزپور‪،‬امرتسر اور میوات وغیرہ سے مہاجرین کی ایک بڑی‬
‫تعداد یہاں مہاجر بستیوں میں آباد ہوئی۔‬
‫تقسیم کے وقت کاےہ المناک باب بھی قابل ذکر ہے کہ جب پاکستانی پنجاب کے مختلف‬
‫شہروں سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے تارکین قصور بارڈر کے راستے ملک‬
‫چھوڑ رہے تھے ۔‬
‫قصور شہر کے ریلوے اسٹیشن پر تارکین سے کھچا کھچ بھری تین ٹرینوں کو روک کر‬
‫مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ ‪١٩٦٥‬ء کی جنگ میں فتح ہونے واالبھارتی قصبہ‬
‫کھیم کرن ہندسے قبل قصور کے مضافاتی قصبات میں شمارہوتاتھا۔‬

‫‪3‬‬
‫ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے ہجرت‬
‫کرکے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل‪ ،‬سائیکلوں او رگھوڑوں پر بیٹھے جوق درجوق‬
‫اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کو پہنچ گئے۔ مفتوحہ شہر کھیم کرن کے مکا ن‬
‫خالی پڑے تھے۔لوگوں نے اپنے سابقہ گھروں سے بچ رہے‬
‫سامان ‪،‬کواڑ‪،‬شہتیر‪،‬یہاں& تک کہ اینٹیں ‪،‬اپنے آبائی گھروں کی یاد گار کے طورپر ساتھ‬
‫لیں اور قصور میں واقع اپنے نئے گھروں میں سجادیں۔کھیم کرن سے قصور آئے ان‬
‫گھرانوں کے لیے جنگ ستمبر‪١٩٦٥‬ء میں ہاتھ آنے واال سب سے قیمتی سرمایہ یہی ہے‬
‫جو آج بھی ان کے گھروں میں محفوظ ہے۔ ‪١٩٧٦‬ء میں قصور کو ضلع کادرجہ دیاگیا‬
‫اور شہر قصور اس کاانتظامی مرکز قرار پایا۔ضلعی مرکز بننے کے بعد شہر میں ضلعی‬
‫حکومتی دفاتر کے قیام اور نئی تعمیرات کے بننے سے شہر کی ظاہری صورت میں‬
‫صفائی آنے کی ایک امید قائم ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی افسروں کی گنی چنی گزر‬
‫گاہوں کے عالوہ شہرکی شاہراہیں اور گلیاں دھول اور کیچڑ ہوامیں اچھالتی رہیں۔‬
‫نصف دہائی قبل قصور میں تعمیراتی ترقی کی ایک جھلک واضح دیکھنے میں آئی ہے ۔‬
‫تین سال قبل قصور کو الہور سے مالنے والی جرنیلی سڑک ‪،‬فیروز پور روڈ کے حالیہ‬
‫کشادہ تر اور دورویہ سڑک میں تبدیل ہونے سے قصور کاصوبائی و ضلعی دارالحکومت‬
‫الہور سے فاصلہ نہایت سکڑ گیاہے۔‬
‫ساتھ ہی شہر کی بیشتر نقل وحرکت اور تجارتی اہمیت کی حامل شاہراہوں کی حالت میں‬
‫بھی بہتری آنے سے یہاں کی صنعت اور روزمزہ سرگرمیاں بہتر معیشت کی جانب نظر‬
‫آتی ہیں۔‬
‫‪    ‬قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع عالقہ کوٹ مراد خاں رقص وموسیقی‬
‫کے حوالے سے قصور کی شناخت رہاہے۔ افغان عہد میں کالسیکی گائیکوں کاایک قبیلہ‪،‬‬
‫جس کاسردار مراد خان تھا ‪،‬اس جگہ آباد ہواتھا‪.‬‬
‫اس عالقے نے برصغیر پاک وہند کی موسیقی میں استادغالم حیدر خاں‪ ،‬استاد بڑے غالم‬
‫علی خاں‪،‬استاد چھوٹے غالم علی خاں‪،‬ظہور بخش قصوری‪ ،‬ملکہ ترنم نور جہاں‪،‬ظل‬
‫ہما ‪،‬عذرا جہاں اور ایسے التعداد ناموں کااضافہ کیا۔‬
‫‪    ‬قصور کی روایتی صنعتوں میں چمڑے کے جوتے شہر کی خاص پہچان ہیں۔‬
‫لوک ادب وموسیقی میں بھی'جتی قصوری'' کاحوالہ نفاست اور وقار کی عالمت کے طور‬
‫پر آتاہے۔یہاں کے جوالئے(انصاری)& ایک صدیوںپرانی روایت کے وارث ہیں ۔ ‪ ‬‬
‫‪   ‬ان سب پرانی صنعتوں میں سے جو صنعتیں جدیدانڈسٹری کے ساتھ مطابقت پیدا کر‬
‫پائیں‪،‬باقی رہیں۔ باقی تمام صنعتیں آہستہ آہستہ معدوم ہوچکی ہیں یامعدوی کے دہانے پر‬

‫‪4‬‬
‫ہیں۔ قصور کاتاریخی ریلوے اسٹیشن جہاں تقسیم کے وقت سرحد پار کرتے ہوئے سکھ اور‬
‫ہندوتارکین کی تین ٹرینیں روک کر مسافروں کاقتل عام کیاگیا۔‬
‫کھانے پینے کے حوالے سے قصوریوں کی حس ذائقہ نہایت قابل رشک ہے ۔ملک بھر میں‬
‫قصور ی فالودہ کیایک جداگانہ شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ قصوری اندرسا‪،‬بھلے‬
‫پکوڑیاں‪ ،‬اوجڑی اور ناشتے میں دہی قلچہ نہایت مرغوب سمجھے جاتے ہیں۔ قصور کے‬
‫روایتی گھرانوں میں شام کا کھانا گھر پر پکانے کارواج بہت کم ہے۔‬
‫کپاس اور مر چ کی کاشت یہاں نواحات کی روایتی فصلیں ہیں لیکن گزشتہ تین سے چار‬
‫دہائیوں میںآلو‪ ،‬اروی‪ ،‬میتھی‪،‬ہلدی اور مکئی کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہواہے۔‬
‫ملنساری‪ ،‬زندہ دلی اور محنت یہاں کے لوگوں کے امتیازی اوصاف ہیں۔‬
‫دوسری طرف قصور چونکہ صدیوںسے مختلف طاقتوں کی کشمکش ‪،‬حویلیوں اور قلعوں‬
‫میں محالتی سازشوں کا گڑھ رہاہے۔اسی وجہ سے روایتی اذہان کے زبانی حوالوں میں‬
‫مکر‪ ،‬سیاست اور دورویہ روش کے منفی خواص بھی متوازی طور پر قصور کے لوگوں‬
‫سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ثقافتی طور پر اگر یہ قصور الہور سے بہت مشابہت‬
‫رکھتاہے۔‬
‫تاہم قصور کی بسنت ایک مدت تک الہور میں منائے جانے والے بسنت کے تہوار کے‬
‫برابر اور بعض حاالت میں اس سے بھی زیادہ والہانہ طورپر منائی جاتی رہی ہے۔‬
‫‪    ‬قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع عالقہ کوٹ مراد خان رقص وموسیقی‬
‫کے حوالے سے قصو ر کی شناخت رہاہے ۔افغان عہد میں کالسیکی گائیکوں کاایک قبیلہ‪،‬‬
‫جس کاسردار مراد خان تھا ‪،‬اس جگہ آباد ہواتھا۔‬
‫اس عالقے نے برصغیرپاک وہند کی موسیقی میں استاد غالم حیدر خاں‪،‬استاد بڑے غالم‬
‫علی خاں‪ ،‬استادچھوٹے غالم علی خاں‪ ،‬ظہور بخش قصوری‪ ،‬ملکہ ترنم نورجہاں‪ ،‬ظل‬
‫ہما ‪،‬عذرا جہاں اور ایسے التعداد ناموں کااضافہ کیا۔‬
‫جب کہ کالسیکی رقص میں استاد فلو سے خاں جیسے لوگ یہاں پیداہوئے۔ سخن پروری‬
‫کے حوالوں میں یہ بابا بلھے شاہ کاشہر کے نام سے جاناجاتاہے۔ وارث شاہ نے بھی اپنی‬
‫ابتدائی فنی زندگی اسی شہر میں گزاری تھی۔ وارث شاہ کے استاد ومرشد مخدوم قصور‬
‫سے تعلق رکھتے تھے ۔‬
‫اندرون شہر کے موری دروازے کی جامع مسجد میں دو حجرے موجود ہیں جن کے بارے‬
‫میں کہاجاتاہے کہ ان میں سے ایک حجرے میں بابا بلّھے شاہ مقیم رہے ‪،‬جب کہ‬
‫دوسراایک عرصہ تک وارث شاہ کی قیام گاہ رہا۔‬

‫‪5‬‬
‫ادب کی ان عظیم روایتوں کے تسلسل میںپنجابی زبان کی معاصر شاعری میں بھی قصور‬
‫نے التعداد عظیم نام پیداکیے۔پنجاب کی فلم انڈسٹری اللی وڈ کے قیام کے وقت سے ہی‬
‫قصور کے فنکاروں کااس میں ایک گرانقدر حصہ رہاہے‬
‫ایو ب خان کے عہد صدارت میں معروف فلم''جال'' کی پاکستا ن میںنمائش پر جوتنازعہ‬
‫کھڑاہوا ۔اس کے روح رواں قصور کے معروف فلم سٹار یوسف خان تھے۔ ان مظاہروں کو‬
‫''جال ایجی ٹیشن''کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے۔اس ایجی ٹیشن کامقصد پاکستانی فلمی‬
‫صنعت کی بقا اور خودانحصاری کے لیے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی‬
‫کے لیے جدوجہد کرناتھا۔‬
‫اسی تنازعے میں فلمی صنعت مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور بڑی تعداد میں فنکاروں‬
‫اور فلم بینوں کوزدوکوب کیاگیا۔‬
‫‪    ‬اس شہر نے ترقی‪ ،‬تمد ن اور تہذیب کے مراحل کی کم وبیش سبھی ناہمواریوں کاتجربہ‬
‫کیاہے۔ اس لیے قصور اپنے آغوش میںایک بڑے شہرکی رنگارنگی& اور چھوٹے‬
‫شہروںوالی سادگی اور روایتی پسندی‪ ،‬ہردوذائقے نہایت حسین توازن کے ساتھ لیے ہوئے‬
‫ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی‪،‬معاشی اور ثقافتی تاریخ کے حوالوں یا عصری احوال‬
‫میں سے قصور کو منہا کرکے ایک مکمل رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ (‪)٢‬‬

‫‪6‬‬
‫دوسری فصل‬
‫قصور میں علم سیرت کی آمد‬
‫‪    ‬قصور برصغیر کاایک شہر تھا ۔پہلے برصغیر میں علم سیرت پر کچھ عرض کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫حضرت آدم علیہ السالم جنت سے دنیا کی طرف بھیجے گئے تو وہ سرزمین برصغیر پاک‬
‫وہند کے جنوبی عالقہ سری لنکا میں اتارے گئے۔(‪)٣‬‬
‫‪    ‬حضرت حوا سعودی عرب کے شہر جدہ میں اتاری گئیں ۔ان دونوں کی مالقات جدہ میں‬
‫ہوئی۔عرب اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی یہ پہلی مالقات تھی‬
‫‪    ‬موالناابوالکالم آزاد فرماتے ہیںحجراسود کانزول بھی آدم علیہ السالم کے ساتھ ہوا اور یہ‬
‫پتھر سری لنکا اور جنوبی ہندوستان سے ہوتاہوابیت ہللا(خانہ کعبہ) تک پہنچا۔‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ جو جنت کے پودوں کے پتے تھے ان کی وجہ سے اس‬
‫سرزمین پر خوب سرسبزی ہوئی ۔یہاں سے یہی پھل‪،‬مصالحہ جات عرب جاتے تھے اور‬
‫وہاں سے پوری دنیامیں بھیجے جاتے تھے۔‬
‫ہندوستان کی پیداوار اور دوسری چیزوں کی ضرورت اہل یورپ اور اہل مصر کو ہمیشہ‬
‫سے رہی ہے۔ یہ مال عرب تاجروں کے ذریعے ہندوستان کی بندرگاہوں سے یمن اور وہاں‬
‫سے شام اور پوری دنیامیں جاتاہے۔‬
‫اس سے معلوم ہوتاہے کہ عرب اور ہندوپاک کے تعلقات آدم علیہ السالم کے زمین میں‬
‫بسانے سے ہی موجودہیں۔‬
‫‪    ‬جب رسول ا کرم حضرت محمدصلی ہللا علیہ وسلم سلسلہ رسالت ونبوت کے آخری‬
‫رسول ونبی بن کر تشریف الئے تو اہل ہندوستان کو یہ خبراسی وقت پہنچ گئی تھی۔‬
‫عرب تاجروں کے ذریعے اسالم ہندوستان میں پہنچ چکا تھا کیونکہ تجارتی قافلے ماال‬
‫بار‪،‬لنکا‪،‬مالدیپ ‪،‬انڈونیشیا اور چین کے عالقوں تک پہنچے تھے۔ معجزہ شق القمر سے‬
‫متاثر ہوکر ماال بار کر راجا موڑانے اسالم قبول کر لیا۔‬
‫اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے دور میں لنکا کے راجا نے بھی اسالم‬
‫قبول کر لیا۔(‪)٤‬‬
‫‪    ‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہ کو غزوۃ ہندمیں شرکت‬
‫کرنے کی ترغیب دالئی تھی اور انھیں بشارتوں سے نوازاتھا۔ امام نسائی نے سنن نسائی‬
‫میں اس کے بارے میں تین احادیث بیان کی ہیں۔‬

‫‪7‬‬
‫ان میں سے دو احادیث کے راوی حضرت ابوہریرہ& رضی ہللا عنہ ہیں اور تیسری حدیث‬
‫کے حضرت ثوبان رضی ہللا عنہ ہیں۔‬
‫‪    ‬آپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی ان بشارتوں کی روشنی میں خلفائے راشدین کے زمانہ‬
‫میں ہی ہندوستان میں اسالم کی کرنیں پھیلنا شروع ہوئیں۔‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں مغربی ہندوستان بمبئی اور گانا میں مسلمانوں‬
‫کی آبادیاں وجود میںآچکی تھیں ۔ان میں سے اکثر تابعین تھے۔‬
‫برصغیر میں علم سیرت کاابتدائی دور‪:‬‬
‫‪١‬۔‪    ‬ہندوستان میں صحابہ ‪،‬تابعین اور تبع تابعین کی آمد‬
‫‪    ‬حضر عمر رضی ہللا عنہ کے زمانہ خالفت سے لے کر عباسی حکومت کے زوال تک‬
‫بالخصوص ہندوسان میں شمالی حصے میں متعدد صحابی‪،‬تابعین اور تبع تابعین تشریف‬
‫الئے جو صحابہ کرام یہا ں آئے‪ ،‬ان کی تعداد ‪ ٢٥‬ہے۔‬
‫‪١٢‬صحابہ کرام عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ کے عہد خالفت میں‪ ٥،‬حضرت عثمان غنی‬
‫رضی ہللا عنہ کے زمانہ میں‪ ٣،‬حضرت علی رضی ہللا عنہ کے عہد میں‪ ٤،‬معاویہ بن ابو‬
‫سفیان رضی ہللا عنہ کے خالفت میں اور یزید بن معاویہ کے عہد میں یہاں آئے۔(‪)٧‬‬
‫‪    ‬ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں‪:‬‬
‫‪    ‬بڑی تعداد میں تابعین و تبع تابعین نے بھی ہندوستان کار خ کیا‪ ،‬جن کاشب وروز‬
‫کامشغلہ ہی دین کی اشاعت اور دلوں کو فتح کرناتھا۔‬
‫اعلی اقدار سے بہرہ مند کرنے کی سعی کرتے تھے۔بالد‬ ‫ٰ‬ ‫یہ باشندگان ہند کو شائستگی کی‬
‫عرب سے ہندوستان تشریف النے والے تابعین کی تعداد تقریبا ً ‪ ٤٢‬بیان کی جاتی ہے ۔‬
‫سعید بن ہشام بن عامر انصاری‪ ،‬مہلب بن ابی صفرہ‪ ،‬موسی بن یعقوب ثقفی ‪،‬یزید بن ابی‬
‫کتبہ السکسکی‪ ،‬المفصل بن المہلب بن ابی صفرہ‪ ،‬عمرو بن مسلم الباہلی وغیرہ کاہندوستان‬
‫آناثابت ہے۔‬
‫انھوں نے اپنے اخالق وکردار اور علمی خوبیوں سے ہندوستان کو فیض پہنچایا اور یہاں‬
‫کے باشندوں کے اندر جوش ایمانی پیداکرکے انھیں کفر والحاد سے نکال کر راہ ایمانی پر‬
‫الکھڑا کیا۔(‪)٩‬‬
‫‪    ‬خالفت راشدہ سے لے کر فتح سندھ تک کے ان مجاہدین اور علما کبار کی دینی وعلمی‬
‫سرگرمیوں اور ان کے ثرات کاجائزہ لیتے ہوئے موالنا عزیز لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪''    ‬خالفت راشدہ اور اموی دور حکومت میں اقلیم ہند پر جن عسکری کوششوں کی‬
‫ابتداہوئی تھی ۔وہ اگرچہ بہت منظم اور وسیع پیمانہ پرنہ تھیں‪،‬مگر ان کاسلسلہ برابر جاری‬
‫رہا۔‬

‫‪8‬‬
‫‪    ‬محمدبن قاسم رحمۃ ہللا کے ساتھ جو تابعین سندھ کی مہم پر آئے ان میں ایک ابوشیبہ‬
‫یوسف بن ابراہیم التمیمی الجوہری تھے۔ یہ نہ صرف جنگی معرکوں میں شریک ہوئے‬
‫بلکہ تعلیم وتدریس کا کام بھی جاری کیے ہوئے تھے۔‬
‫دوسرے تابعی زیاد بن الحواری‪ ،‬العبدی تھے۔ ان کاشمار جلیل القدر تابعی کے ساتھ بڑے‬
‫محدثین میں ہوتاتھا۔ ایک تابعی زائدہ عمر الطائی الکونی تھے جن کے ذمہ''ملتان'' کے‬
‫نومسلموں کو اسالمی احکام کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔‬
‫محمدبن قاسم کے دوش بہ دوش جہاد میں شرکت کاشرف ابوقیس زیاد بن رباح القیشی‬
‫بصری کو بھی حاصل تھا۔انھوں نے ابوہریرہ وغیرہ سے علم حدیث حاصل کیاتھا اور حسن‬
‫بصری وغیرہ نے آپ سے حدیث کی روایت کی ہے۔‬
‫‪    ‬سلیمان بن عبدالمالک کے عہد میں یزیدبن ابی کبشہ الشامی‪ ،‬سندھ کے والی خراج بن‬
‫کر آئے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔‪١٨٠‬‬
‫ھ ولید بن عبدالمالک کے زمانہ خالفت میں سعید بن اسلم بن ذرع الکالبی یہاں کے گورنر‬
‫بن کر آئے۔درس حدیث ہی ان کاا ّولین مقصد تھا۔ اسی طرح ایک تابعی اسیدبن اخنس بن‬
‫شریک الثقفی تھے۔‬
‫عبدالمالک بن مروان کے زمانہ حکومت میں یہاں والی مقرر ہوکر آئے۔انھوں نے بھی یہاں‬
‫اشاعت علم کی طرف بڑی توجہ دی۔(‪)١٠‬‬
‫‪٢‬۔‪    ‬عالم اسالم کے علما و سیرت نگاروںکاہندوستان میں قیام‪:‬‬
‫حضرت امام حسن بصری(‪٢١‬۔‪١١٠/٧٢٨‬ئ)کے دو کبار شاگردوں کاہندوستان سے بڑاگہرا‬
‫تعلق رہا۔‬
‫ان کے واسطے سے امام بصری کے فیوض وبرکات ہندوستان میں عام ہوئے۔ ان میں سے‬
‫ایک حضرت امام ابوحفص ربیع بن صبیح بصری ہیں۔ وہ یہیں ‪١٦٠‬ھ‪٧٧٦/‬ء میں فوت‬
‫ہوئے۔‬
‫یہ گجرات میں جہاد کے لیے لیے آئے تھے‪،‬جس کی قیادت عبدالملک سمعی کر رہے تھے۔‬
‫پھر انھوں نے یہیں اختیار کیا اور درس وتدریس کاشغل جاری کیا۔‬
‫آپ علم حدیث کے ان ممتاز لوگوں میں ہیں جنھیں دوسری صدی میں جمع وتدوین حدیث‬
‫کاشرف حاصل ہے۔(‪)١١‬‬
‫موسی بصری(م‪١٥٥‬ھ‪٧٧١/‬ئ) ہیں۔انھوں نے ایک‬ ‫ٰ‬ ‫موسی اسرائیل بن‬
‫ٰ‬ ‫‪    ‬دوسرے امام ابو‬
‫عرصے تک ہندوستان میں علم حدیث کادرس دیا اور یہیں سکونت اختیار کی۔(‪)١٢‬‬

‫‪9‬‬
‫‪٣‬۔‪    ‬کتب ستہ میں ہندوستانی سیرت نگاروں کی مرویات‪:‬‬
‫‪    ‬امام بخاری ؒ(‪ ١٩٤‬۔‪٢٥٦‬ھ‪٨١٠/‬۔‪٨٦٩‬ئ) نے اپنی الجامع میںمذکورہ دونوںحضرات سے‬
‫احادیث نقل کی ہیں۔‬
‫صحاح کے عالوہ حدیث کے دوسرے مجموعوں میںبھی ان کے طرق سے حدیثیں ملتی ہیں‬
‫‪    ‬ثانی الذکر سے مروی حدیث بخاری‪ ،‬کتاب الصلح ‪،‬کتاب مناقب الحسن و الحسین اور‬
‫کتاب الفتن کے عالوہ ترمذی‪ ،‬ابوداؤد اور سنن نسائی میں ملتی ہے ۔‬
‫‪٤‬۔‪    ‬ضلع قصور میں علم سیرت نگاری ‪:‬‬
‫‪    ‬وہ عظیم سیرت نگار جنھوں نے قصور میں علم سیرت عام کیا۔‬
‫حکیم سید عبدالحی حسنی(متوفی ‪١٣٤١‬ئ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫‪٩    ‬جمادی االولی ‪١٢٤٨‬ء اپنے ننھیال بانس بریلی میں پیداہوئے۔ تعلیم کاآغاز اپنے برادر‬
‫اکبر موالنا حسیداحمدحسن عرشی(متوفی ‪١٢٧٧‬ھ‪١٨٦٠/‬ئ) سے کیا ‪.‬‬
‫اس کے بعد فرخ آباد اور کان پور تشریف لے گئے اور دونوں شہروں کے اساتذہ سے‬
‫مختلف علوم میں استفادہ حاصل کیا۔‪١٢٦٩‬ھ میں دہلی تشریف الئے اور صدر االفاضل مفتی‬
‫صدر الدین آزردہ (متوفی ‪١٢٨٥‬ھ‪١٨٦٨/‬ئ) کی خدمت میں ایک سال ‪ ٨‬ماہ رہ کر علوم‬
‫عقلیہ ونقلیہ میںاکتساب فیض کیا۔‬
‫عالوہ ازیں ان کے شیخ زید العابدین انصاری‪،‬شیخ عبدالحق بنارسی تلمیذ امام سوکانی‪،‬شیخ‬
‫یحیی بن محمد اکاذی‪ ،‬عالمہ سیدنعمان خیرالدین آلوسی(مفتی بغداد) عالمہ شیخ حسین بن‬ ‫ٰ‬
‫محسن انصاری اور موالناشاہ محمد یعقوب بن موالناشیخ محمدافضل فاروقی سے حدیث‬
‫میں سندواجازت حاصل کی۔‬
‫‪ ٢١    ‬سال کی عمر میں علوم متداولہ سے فراغت حاصل کرکے دہلی سے اپنے وطن‬
‫قنوج تشریف لے گئے اور قنوج میں کچھ عرصہ قیام کے بعد بسلسلہ تالش معاش ریاست‬
‫بھوپال چلے گئے ۔‬
‫بھوپال کے آپ نے تین سفر کیے اور آخر ان کانکاح نوا ب شاہجہان بیگم سے ہوا جو بیوہ‬
‫ہوچکی تھیں۔انھوںنے نواب صاحب کی دیانت و قابلیت دیکھ کر شریک امور سلطنت‬
‫اعلی مراتب پر فائز ہوئے۔‬
‫ٰ‬ ‫بنایاجس کی وجہ سے آپ دین ودنیا کے‬
‫قنوجی کی دینی خدمات‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫موالنا سیدنوا ب صدیق حسن‬
‫‪    ‬شریک امور سلطنت ہونے کے بعد حضرت نواب صاحب نے دین اسالم کی خدمت میں‬
‫وہ حصہ لیا جس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میںنہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ قلب انسانی پر اس کاوہم‬
‫گزرا۔‬

‫‪10‬‬
‫‪    ‬خدمت قرآن وحدیث میں نواب صاحب نے زر کثیر صرف کرکے تفسیر وحدیث کی‬
‫ضخیم کتابیں چھپوا کر علمائے کرا م میں مفت تقسیم کیں۔‬
‫نیل االوطار‪،‬تفسیر ابن کثیر اور فتح الباری شرح صحیح البخاری‪ ،‬یہ تینوں کتابیں نیل‬
‫اوطار ‪ ٢٥:‬ہزار روپے ‪،‬تفسیر ابن کثیر‪ ٢٠:‬ہزا ر روپے ‪،‬فتح الباری کانسخہ ‪ ٦‬سو روپے‬
‫میں مصر سے خریدا اور ہزاروں کی تعدادمیں یہ تینوں کتابیں چھپوا کر علمامیں مفت‬
‫تقسیم کیں‪.‬‬
‫ہندوستان میں فتح الباری سب سے پہلے جماعت اہلحدیث کے جلیل القدر عالم دین‪ ،‬محی‬
‫السنۃ موالناسیدنواب صدیق حسن خاں قنوجی رئیس بھوپال کی وافرانہ ضیافتوں کے طفیل‬
‫پہنچی۔‬
‫تصانیف‪:‬‬
‫قنوجی صاحبکاشمار صاحب تصانیف کثیرہ میں ہوتاہے ۔‬ ‫ؒ‬ ‫‪    ‬موالنا سیدنوا ب صدیق حسن‬
‫آ پ نے مختلف موضوعات پر عربی‪،‬فارسی اور اردو میں ‪ ٢٢٢‬کتابیں تالیف فرمائیں۔‬
‫تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪    ‬کثیر تعدادمیں ان موضوعات پر کتابیں لکھیں‪:‬‬
‫’’عربی‪،‬فارسی‪ ،‬اردو ‪،‬میزان‪ ،‬تفسیر‪،‬حدیث‪ ،‬عقائد‪ ،‬فقہ‪ ،‬تردید‪ ،‬تقلید‪ ،‬سیاست‪ ،‬التاریخ‬
‫وسیر‪ ،‬مناقب ‪،‬علوم وادب‪ ،‬اخالق ‪،‬تردید ‪،‬شیعت ‪،‬تصوف‘‘ ۔(‪)١٦‬‬
‫سیرت کی چند مشہور تصانیف‪:‬‬
‫قنوجی صاحب نے سیرت اورمتعلقات سیرت پر(‪ )٣٣‬چھوٹی بڑی‬ ‫ؒ‬ ‫سیدنوا ب صدیق حسن‬
‫کتابیں عربی‪،‬فارسی اور اردو میں تالیف فرمائیں۔‬
‫وفات‪:‬‬
‫قنوجی صاحب نے ‪ ٢٩‬جمادی الثانی ‪١٣٠٧‬ھ مطابق ‪١٧‬‬ ‫ؒ‬ ‫موالنا سیدنوا ب صدیق حسن‬
‫فروری‪١٨٩٠‬ء کو ‪ ٥٩‬سال کی عمر میں بھوپال میں وفات پائی۔(‪)١٧‬‬
‫‪٢‬۔‪    ‬شیخ الکل حضرت موالنا مولوی سیدمحمدنذیر حسین صاحب رحمۃ ہللا‬
‫‪    ‬شمس العلما موالنا سید محمد نذیرحسین عرف حضرت میاں صاحب رحمۃ ہللا پھاٹک‬
‫حبش خاں گلی سرس والی متصل مکان جناب مولوی حفیظ ہللا خاں صاحب‬
‫مشہور واعظ دہلوی رحمۃ ہللا جس میں اب مولوی سیدمحمد ابوالحسن صاحب رحمۃ ہللا‬
‫نبیرہ حضرت میاں صاحب کے نام نامی سے منسوب ہے ۔‬
‫آپ کرایہ کے مکان میں ہمیشہ تاحیات رہے۔ذاتی مکان آپ کا کوئی نہ تھا ۔اسی مکان کے‬
‫بالئی منزل پر ایک کوٹھڑی تھی اور اس کے آگے چھپر کا سائبان تھا اور اس کوٹھڑی‬

‫‪11‬‬
‫کے اندر ایک پلنگ پرآرام فرمانا تھا اور اسی پلنگ کے برابر میں ایک جائے نماز بچھی‬
‫رہتی تھی اور چاروں طرف کتابیں رکھی رہتی تھیں‬
‫‪    ‬آپ کانام نامی آفتاب کی طرح اب بھی روشن ہے اور حضرت موالناشاہ محمداسحاق‬
‫صاحب نواسہ حضرت شاہ موالناعبدالعزیز محدث دہلوی سے سند حدیث نبوی صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم اور بیعت مسنونہ کی اجازت حاصل فرمائی ۔‬
‫جس کاشجرہ بیعت مطبوعہ روائداد چہار سالہ کتب خانہ نذیریہ عامہ ص‪ ١٤‬بابت جنوری‬
‫‪١٩٣٤‬ء لغایۃ ستمبر‪١٩٣٧‬ء پر مرقوم ہے۔تقریبا ً اسی سال درس وتدریس کی خدمات انجام‬
‫فرمائی۔ صدہاطلبہ وعلما فیض یاب ہوئے۔‬

‫جناب مولو ی بشیر الدین صاب مرحوم و مغفور خلف الرشید شمس العلما حضرت موالنا‬
‫مولوی حافظ محمد نذیراحمد صاحب(ج ‪ ٢‬ص‪ )٢٥٧‬اور حسرت العالم بوفاۃ محدث العالم‬
‫باہتمام مولوی سیدمحمدعبدالرؤف صاحب نے طبع‬
‫جونواسے حضرت موالنا سید محمدشریف حسین صاحب ابن موالناشیخ الکل حضرت میاں‬
‫صاحب رحمۃ ہللا علیہ اور مختصر حاالت روئداد چہار سالہ بابت ماہ جنوری ‪١٩٣٢‬ء لغایہ‬
‫ستمبر‪١٩٣٧‬ء ص‪ ٣:‬پر درج ہیں۔‬
‫حضرات شائقین دارالمطالعہ نذیرعامہ مں مالحظہ فرماسکتے ہیں۔ مولفہ ‪:‬عاجز سید‬
‫محمدعبدالرؤف۔(‪)١٨‬‬
‫‪    ‬برصغیر میں جہاں بھی کتاب وسنت کامنہج نظر آرہاہے۔ اس کے پیچھے میاں صاحب‬
‫کے شاگردوں کی محنت کارفرما ہے۔ہزاروں کی تعداد میں میاں صاحب نے شاگردتیار‬
‫کیے۔‬
‫‪    ‬میاں نذیر حسین محدث دہلی رحمہ ہللا تاریخ اسالم کاایک سنہرا باب ہیں۔جنھوںنے غربت‬
‫میں تین مرلہ زمین پر مشتمل مسجدمیں بیٹھ کر محدثین‪،‬محققین‪،‬مناظرین اور مدرسین کی‬
‫ایسی کھیپ تیار کی جن کی محنت سے قیامت تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہےں گے ۔‬
‫آخر وہ کیامنہج تھا جس پر چل کر میاں صاحب نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دا۔اس پر‬
‫تفصیل جاننے کے لیے راقم کے مفصل مضمون(محدثین‪ ،‬محققین ‪،‬مناظرین اور مدرسین‬
‫تیار کرنے میں میاں صاحب کاطریقہ کار)کامطالعہ کریں۔‬
‫‪    ‬شاہ محمداسحاق کے شاگردوں کاسلسلہ بہت وسیع ہے جس کے گہرے اثرات موجودہ‬
‫ہندوستان اور پاکستان میں علم سیرت کے فروغ واشاعت سلسلہ ہائے تدریس کی صورت‬
‫میں موجود ہے جس کی تفصیل ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہے ۔‬

‫‪12‬‬
‫تاہم ان میںاہم حضرات میاں سیدنذیر حسین دہلوی‪ ،‬ان کے شاگرد عالمہ وحید الزماں(مترجم‬
‫کتب حدیث) ‪،‬عالمہ شمس الحق عظیم آبادی‪ ،‬انھوں نے ابوداؤد کی مفصل شرح عربی میں‬
‫غایۃ المقصود کے نام سے لکھی اور خودہی اس کااختصار عون المعبود کے نام سے کیا۔‬
‫ان کے شاگرد عزیز عالمہ عبدالرحمن مبارکپوری نے ترمذی کی شرح بنام''تحفۃ االخودی‬
‫''لکھی ۔‬
‫اسی طرح موالنا عبدالحی لکھنوی نے علم سیرت میں وسیع ذخیرہ چھوڑا جس میں التعلیق‬
‫الممجد علی موطا محمد الرفع والتکمیل فی الجرح والتکمیل ظفراالمانی فی شرح المختصر‬
‫المنسوب للجرجانی فی المصطلح اآلثار المرفوعۃ فی االخبار الموضوعۃ النافع الکبیر لمن‬
‫یطالع الجامع الصغیر شامل ہیں۔‬
‫قصور میں علم سیرت کے مراکز‪&:‬‬
‫‪    ‬قصور ایسی جگہ واقع ہے کہ اس کے اردگرد علم سیرت کے بہت بڑے بڑے مراکز‬
‫پائے جاتے ہیں مثالً جنوب میں فیروز پور‪،‬لکھوکے‪ ،‬دہلی‪،‬مشرق میں امرتسر‪،‬شمال‬
‫میںالہور اورمغرب میںاوکاڑہ۔‬
‫‪    ‬قصور کاپہال شخص جس نے علم سیرت کی خاطر سفر کیاپھر قصور میںآکرعلم سیرت‬
‫کو عام کیا۔ یہ تعین کرنا نہایت مشکل ہے۔ عمومی طور پر جن قدیم علمائے کرام نے‬
‫قصور میںعلم حدیث کوعام کیا۔ مختلف عالقوں میںمختلف علمائے کرام کی محنت نظر آتی‬
‫ہے۔ اس تفصیل کی روداد پیش خدمت ہے۔‬
‫‪١‬۔‪    ‬حلقہ قصور‪:‬‬
‫‪    ‬پارٹیشن سے تقریبا ً سوسال پہلے حسین خانواال کے علمائے کرام نے دہلی اور لکھو‬
‫کے مراکز دینیہ سے علم سرت کو حاصل کیاپھر قصور کی ہرطرف علم سیرت کوعام کیا۔‬
‫‪    ‬حسین خانواالکے علمائے کرام میں بعض کاتذکرہ آگے مسلسل آرہاہے مثالً موالنافضل‬
‫حق‪،‬موالنا عالؤ الدین رحمھماہللا۔‬
‫‪    ‬سٹی قصور میں موالنا عبدالقادر قصوری رحمہ ہللا اور ان کے خاندان کے علمائے کرام‬
‫کی خدمات ہیں ۔تفصیل کے لیے قصوری خاندان کا مطالعہ کیاجائے۔‬
‫‪    ‬نیز ان کے بعد درج ذیل علمائے کرام کے نام سامنے آتے ہیں۔‬
‫‪    ‬موالنا محی الدین لکھوی‪ ،‬موالناعبدالقادر قصوری‪ ،‬موالنا صوفی ولی محمدفتوحی وال‪،‬‬
‫موالنامحمد حیات قصوری‪،‬موالنا عبدالقدوس گوڑگانوی‪ ،‬موالنامحمد داؤد ارشد کوٹلوی‪،‬‬
‫موالنا محمد عبدہللا حسینوی ‪،‬موالنامحمد عبدالرحیم رحمانی حسینوی ‪،‬موالنا محمدعبدہللا‬
‫کچہ پکہ ‪،‬سیدسعید احمدمشہدی بھمبہ کالں۔‬

‫‪13‬‬
‫‪٢‬۔‪    ‬حلقہ چونیاں‪:‬‬
‫‪    ‬اس حلقے میں روپڑی علمائے کرام تشریف الئے تھے مثالً عبدہللا محدث روپڑی‬
‫رحمۃہللا اور ان کے خاندان نے بھوئے اصل میں اقامت کی ۔اسی طرح حافظ محمد سلیمان‬
‫بھوجیانی کی خدمات بہت ہیں۔نیز اس عالقے میں درج ذیل علمائے کرام کے نام آتے ہیں۔‬
‫‪    ‬موالنا عبدالواحد روپڑی ‪،‬موالنا محمد کنگن پوری(یہ مبارکپور کے محدثین سے فیض‬
‫یافتہ تھے مثالً عبدالرحمن مبارکپوری اورعبیدہللا مبارکپوری رحمہم ) اصوفی دین محمد‬
‫گہلن ہٹھاڑ‪ ،‬موالنامحمد جمشیری ‪،‬موالنامحمد امین گہلن ہٹھاڑ‪ ،‬موالنا ولی ہللا بھاگیوال‪،‬‬
‫حافظ عبدالرحمن فتح محمد کالں ‪،‬موالناامام دین بن غالم محمد‪ ،‬میاں سراج دین آکی کے‪،‬‬
‫موالنا ابوداؤد عبدہللا بابر خانوی‪ ،‬موالنا عبدہللا بابر خانوی‪ ،‬حاجی شیخ شمس الدین‬
‫شامکوٹی میاںفتح دین چھانگامانگا‪ ،‬مولنا ثنائی ہللا بقاپوری ‪،‬حافظ نورمحمد میواتی۔‬
‫خواجہ غالم محی الدین قصوری ‪١٢٧٠،‬ھ‬
‫‪    ‬حضرت خواجہ غالم محی الدین قصوری نقشبندی مجددی رحمۃ ہللا علیہ (وفات‬
‫‪١٢٧٠‬ھ)‪ ،‬جن کالقب دائم الحضوری ہے۔وہ اپنے آقا وموال آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫سے اس طرح فریاد کرتے ہیں‪:‬‬
‫گناہ گار سیا ہ کار شفاعت یارسول ہللا‬
‫خراب وخستہ وخوارم شفاعت یارسول ہللا‬
‫ترا ثانی نہ شد پیدانہ در دنیانہ در عقبی‬
‫توئی در گراں یکتا شفاعت یارسول ہللا‬
‫شھا بیکس نوازی کن طبیبا چارہ سازی کن‬
‫دوائے درد عصیانم شفاعت یارسول ہللا‬
‫قصوری را حضوری کن دوائے درد دوری کن‬
‫دلم تاریک نوری کن شفاعت یارسول ہللا‬
‫‪    ‬یہ اشعار اس بات پر دلیل ہیں کہ خواجہ صاحب رحمۃہللا کس طرح نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی سیر ت میں‬
‫وبے ہوئے تھے۔ ان کی کاوشوں سے قصور میں قرآن وسنت پھر فقہ حنفی کوترویج ملی۔‬

‫‪14‬‬
‫ب اب دوم‬
‫سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کے ماخذ اور مؤلفین کاتعارف‬
‫‪    ‬فصل اول‪  :‬‬
‫‪  ‬کتب سیرت کے ماخذ‬
‫‪    ‬فصل دوم‪:‬‬
‫‪    ‬مؤلفین کاتعارف‬
‫فصل اول‪:‬‬
‫سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کے ماخذ‪:‬‬
‫سیرت کا مفہوم (پس منظر)‬
‫‪    ‬اردو میںلفظ ''سیرت'' کااستعمال عام طور پر انسان کے چال چلن اور عادات واطوار کے‬
‫معانی میں ہوتاہے لیکن لغت کے ماہرین نے اس کے معنی الگ الگ بیان کیے ہیں۔‬
‫اردودائرہ معارف اسالمیہ کے مطابق سیرت کے معنی طریقہ ‪،‬راستہ ‪،‬روش اور کل‬
‫وصورت کے ہیں۔ڈاکٹر حمیدہللا نے جو فن سیرت میںاہم مقام رکھتے ہیں۔سیرت کے معنی‬
‫طرز ِعماًل اور برتاؤ کے بیان کیے یں۔‬
‫مؤلف لسان العرب نے سیرت کے معنی اچھے چال چلن کے لکھے ہیں۔ ''تاج العروس'' میں‬
‫سیرت کے معنی طریقہ اوربرتاؤ کے درج ہیں۔ سیرت کالفظ سوانح حیات کے لیے بھی‬
‫استعمال کیاجاتاہے۔(‪ )٢‬قرآن مجید میں لفظ''سیرت' ہیئت وحال(طہ‪ )٢١‬اور ''گھوم پھر کر‬
‫غور وفکر کرنے '' کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔(النحل ‪ )٣٦‬دراصل سیرت کااصل‬
‫مادہ ''سیر''ہے ‪،‬جس کے معنی چال کے ہیں۔اسی لیے ہماری زبان میںاچھے چال چلن‬
‫کوحسن سیرت کہاجاتاہے۔ معلوم ہواکہ سیرت کالفظ چال چلن‪،‬روش‪ ،‬طریقہ ‪،‬برتاؤ ‪،‬شکل‬
‫وصورت ‪،‬ہیئت‪ ،‬کرار‪،‬طرز زندگی اورعادات واخالق کےلیے بوالجاتا ہے۔اصطالحی‬
‫اعتبار سے سیرت کے یہ تمام معنی اور مفہوم صرف پیغمبر خداحضرت محمد کے لیے‬
‫مخصو ص اور محدود ہیں۔‬
‫سیرۃالنعمان'' (عالمہ شبلی نعمانی)‪ ''،‬سیرت سید احمدشہید''( موالنا سیدابوالحسن ندوی)''‪''،‬‬
‫سیر ت شبلی ''(اقبال سہیل)‪ ''،‬سیرت محمدعلی'' (رئیس احمدجعفری) ‪''،‬سیرت‬
‫اقبال''(محمدطاہر فاروقی) ہیں۔ تاہم آج کسی مضاف الیہ کے بغیرلفظ'' سیرت'' بوالجاتاہے‬
‫تو اس سے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت ہی مرادہوتی ہے۔''(‪)٨‬‬
‫‪    ‬مندرجہ باالبحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لفظ سیر ت کااطالق معروف معنی‬
‫میںحضوراکرم ؐ کی سیرت طیبہ پرہی ہوتاہے۔البتہ استشنائی صورت میںغیر نبی کے حاالت‬

‫‪15‬‬
‫زندگی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیاگیا ہے ۔ہمارے ادب میںغیر نبی کی شخصی سیرتوں‬
‫کے لیے سوانح عمر ی کالفظ لکھاجاتاہے۔‬
‫‪    ‬قرآن سیرت نبویہ کا پہال مستندماخذ ہے ۔مستندسیرت نگاروں نے اس کے لیے بنیادی‬
‫مآخذ قرآن ہی کوقرار دیاہے اور سیرت کو قرآن کی نزولی ترتیب اور شان نزول کے‬
‫نبوی قراردیاہے اور‬
‫ؐ‬ ‫آئینے میں دیکھاہے بعض علما نے پورے قرآن کو نعت اور مدح‬
‫محمد۔‬
‫ؐ‬ ‫کہاہے کہ بد قرآن در شان‬
‫نبویہ کے مراحل ومنازل اور حاالت وواقعات اور منزل بہ منزل‬ ‫ؐ‬ ‫‪    ‬یہ حقیت ہے کہ سیرت‬
‫قرآن مجید نازل ہوتارہا اور صاحب سیرت اور امت کی رہنمائی کرتارہا یوں تو سیرت کے‬
‫ذخیر میں اس نوع کی کچھ کتابیں ملتی ہیں ‪،‬لیکن ماضی قریب میں امام اہل سنت حضرت‬
‫موالنا عبدالشکور لکھنوی اور حضرت موالناعبدالماجد دریابادی نے قرآنی سیرت نبویہ پر‬
‫بہت اچھا کام کیاہے۔(‪)٩‬‬
‫‪    ‬موالناابوالکالم آزاد نے اپنی ''رسول رحمت'' میں لکھاہے ۔''قرآن دنیا کی واحد کتاب ہ‬
‫جو ہر سوال کاجواب دیتی ہے کہ اس کاال نے واالکون تھا؟ کیسے زمانے میں آیا؟ کس‬
‫ملک میں پیدا ہوا؟ اس کے خوش ویگانہ کیسے تھے؟ قوم و مرزبوم کاکیاحال تھا؟ اس نے‬
‫کیسی زند گی بسر کی۔اس نے دنیاکے ساتھ کیا کیا اور دنیا نے اس کے ساتھ کیاکیا؟ اس کی‬
‫باہر کی زندگی کیسی تھی اور گھر کی معاشرت کاکیا حال تھا؟ اس کے دن کیسے بسر‬
‫ہوئے تھے اورراتیں کن کاموں میں کٹتی تھیں؟ اس نے کتنی عمر پائی؟ کون کون سے اہم‬
‫واقعات اور حوادث پیش آئے؟ پھر جب دنیا سے جانے کاوقت آیا تودنیااور دنیاوالوں کو‬
‫کس عالم میںچھوڑگیا؟ اس دنیاپرجب پہلی نظر ڈالی تھی تودنیا کیاحال تھا؟اور جب وائس‬
‫نظر وداع ڈالی تووہ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی تھی؟غرض ایک وجود‪ ،‬مقاصدوجود‬
‫اور اعالم صداقت وعظمت کے لیے اس کے وقائع میںجن جن باتوں کی ضرورت ہوسکتی‬
‫ہے وہ سب کچھ قرآن ہی کی زبانی دنیامعلوم کر سکتی ہے۔''‬
‫سیرت کے ماخذ‪:‬‬
‫‪    ‬سیرت کے ماخذ درج ذیل ہیں۔‬
‫‪١‬۔‪    ‬تفسیر قرآن میں سیرت کے پہلو‪:‬‬
‫‪    ‬سیرت کاپہالماخذ قرآن ہے۔قرآن کریم کی جوتفاسیر خود رسول خدا اور آپ کے صحابہ‬
‫سے منقول ہیں وہ بھی سیرت نبویہ کااصل ماخذہیں۔ احکام قرآنی کوواضح کرنے کا کام‬
‫نبی سے بڑھ کر اور کون کر سکتاتھا۔ قرآن میںاہلل تعالی نے آپ ؐ کے بارے میں فرمایا ہے‪:‬‬ ‫ؐ‬
‫''ہم نے آپ پر ذکر(قرآن) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تفسیر بیان کریں۔ (۔‬
‫لنحل۔‪ )٤٤‬تفسیری احادیث میںمختلف آیات اور سورتوں کے نزول کاپس منظر‪،‬زمانہ‬

‫‪16‬‬
‫نبوی کے وہ مقام اور مواقع‬‫ؐ‬ ‫اورموضوع ومباحث پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو سیرت‬
‫مزیدواضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔نیز تفاسیر میں مفسیرین‪،‬وحی کی حقیقت‪،‬طریقے اور‬
‫کیفیات بھی واضح کر دیتے ہیں۔محدثین نے اپنی کتابوں میں تفسیری روایات کویکجاکر‬
‫دیاہے‪ ،‬جیسے اما م بخاری نے کتاب'' تفسیر القرآن'' کے عنوان سے تفسیری روایات‬
‫کوجمع کر دیاہے‪،‬بعض محدثین نے مستقالً تفسیر لکھ دی ہے اور صحابہ وتابعین سے‬
‫منقول تفسیری روایات کو جمع کردیا ہے۔‪؎١٠‬‬
‫تفسیر قرآن کے دوران رسول اکرم صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ‬ ‫ِ‬ ‫‪    ‬مفسرین‬
‫کے مختلف گوشوں اورمعاصر حاالت پر روشنی ڈالتے ہیں‪،‬جس کے بغیر متعلقہ آیات‬
‫کوسمجھنا ممکن نہیںہوپاتا۔‬
‫(‪    )١‬تفسیر ابن کثیر‪ :‬یہ کتب تفاسیر میں سرفہرست ہے۔ یہ حافظ ابن کثیر(م‪٧٤٧‬ھ) کی‬
‫تصنیف ہے۔‬
‫(‪    )٢‬تفسیر کبیر‪ :‬دوسری کتاب امام رازی کی تفسیر کبیر ہے۔ اس کااصل نام''مفاتیح‬
‫الغیب''ہے۔‬
‫(‪    )٣‬تفسیر ابی السعود‪ :‬اس تفسیر کاپورانام''ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن‬
‫الکریم''ہے۔۔‬
‫‪    ‬یہ قاضی ابوالسعود محمدالمادی الحنفی(م‪٩٥١‬ھ) کی تصنیف ہے۔‬
‫(‪    )٤‬تفسیر القرطبی‪ :‬اس کاپورا نام ''الجامع االحکام القرآن''ہے۔ یہ اندلس کے‬
‫مشہور اورمحقق عالم عالم ابوعبدہللا محمد بن احمد القرطبی(متوفی ‪٦٧١‬ھ) کی‬
‫تصنیف ہے۔‬
‫‪    ‬اردو زبان کی مشہور ومعروف تفاسیر میں موالنااشرف علی تھانوی کی ''بیان‬
‫ابواالعلی مودودی‬
‫ٰ‬ ‫القرآن''‪ ،‬مفتی محمدشفیع صاحب کی ''َمعارف القرآن'' موالناسید‬
‫کی''تفہیم القرآن'' موالنا آزاد کی ''ترجمان القرآن'' کوشامل کیاجاسکتاہے۔‬
‫نبوی میں سیرت کے پہلو‪:‬‬ ‫ؐ‬ ‫‪٢‬۔‪    ‬حدیث‬
‫‪    ‬سیرت کادوسرا مآخذ احادیث نبوی ؐ ہیں۔''سیرت نگاری کے مصادر میںایک بنیادی‬
‫مصدر ذخیرہ حدیث ہے۔ابتداً اسالم میں تفسیر‪ ،‬حدیث‪،‬سیرت ایک ہی حلقہ درس کے اسباق‬
‫تھے‪،‬بعد میں جداجدافن کی حیثیت سے مدون ہوتے گئے۔(‪ )١١‬تمام کتب احادیث میں بہت‬
‫نبوی کاذخیرہ موجودہے ‪،‬جس سے آپ کی حیات مبارکہ کی جامع فکر‬ ‫ؐ‬ ‫بڑا اورمستند سیرت‬
‫اخذ ہوتی ہے اور وہ بھی سندوں کے ذریعہ انتہائی مستندانداز میں ۔(‪ )١٢‬کتب احادیث کے‬
‫نبوی پر روشنی ڈالیے ہیں ‪،‬جیسے کتاب‬ ‫ؐ‬ ‫کئی ابوار ایسے ہیں جو راست طور سے سیرب‬
‫المغازی‪ ،‬کتاب الجہاد‪ ،‬کتاب النکاح وغیرہ۔ ڈاکٹر صالح الدین ثانی رقم طراز ہیں‪'':‬صحیح‬

‫‪17‬‬
‫بخاری میںپہالباب ہی وحی سے متعلق ہے۔ اسی طرح کتاب االنبیاء میں آں حضرت کی‬
‫زبان سے دیگر انیبا کاذکر کیاگیاہے۔ کتاب المناقب میںایک باب آں حضرت کے اسمائے‬
‫گرامی سے متعلق ہے۔ اسی طرح آپ کے خاتم النبین ہونے کاایک مستقبل باب ہے۔ ایک‬
‫باب آپ کی فصاحت سے متعلق ہے اور ایک باب میںعالمات نبوت کابیان ہے۔پھر کتاب‬
‫المغازی میںآپ ؐ کے غزوات پر مفصل بحث کی گئی ہے۔اسی طرح صحیح مسلم کی کتاب‬
‫میںآنحضرت پر نزول وحی کاباب ہے۔دیگر کتاب احادیث میں بھی اسی قسم کے‬ ‫ؐ‬ ‫االیمان‬
‫ابواب ہیں۔ محمدفاروق نے لکھاہے'' عالمہ سیوطی کے بیان کے مطابق قولی و عملی تمام‬
‫احادیث کی تعداد دوالکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ عالمہ مناوی کہتے ہیں کہ یہ تعداد مصنف کی‬
‫اپنی معلومات کے لحاظ سے ہے۔ یہ نہیں کہ ا حادیث کی تعداد فی الواقع بس اتنی ہی ہے۔''‬
‫علماء نے صحت‪ ،‬حسن اور ضعف کے اعتبار سے کتب حدیث کو درج ذیل طبقات میںتقسیم‬
‫کیاہے۔‬
‫اولی‪ :‬اس طبقہ میں صحیح بخاری‪ ،‬صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک کاشمار‬ ‫طبقہئ ٰ‬
‫ہوتاہے۔‬
‫طبقہئ دوم‪ :‬ابوداؤد ‪،‬ترمذی اور نسائی کاشمار طبقہئ دوم میںہوتاہے۔‬
‫طبقہئ سوم‪ :‬دارمی‪ ،‬ابن ماجہ‪ ،‬بیہقی وغیرہ کاشمار طبقہئ سوم میںہوتاہے۔‬
‫طبقہئ چہارم‪ :‬ابن مردویہ‪ ،‬ابن شاہین‪ ،‬ابن عساکر وغیرہ کاشمار طبقہ چہارم‬
‫میںہوتاہے۔‬
‫‪٣‬۔‪    ‬کتب مغازی و سرایا میں سیرت کے پہلو‪:‬‬
‫‪    ‬سیرت نگاری کاایک اہم ماخذ ومصدر وہ کتب مغازی وسرایا ہیں جوحضور اکرم صلی‬
‫نبویہ کاایک بڑا حصہ‬ ‫ؐ‬ ‫ہیں۔حضور کی حیات‬‫ؐ‬ ‫ہللا علیہ وسلم کے غزوات پر روشنی ڈالتی‬
‫غزوات اور قتال فی سبیل ہللا میں صرف ہواہے ۔ل ٰہذا ان عنوانات پر تحریر کی گئی کتب‬
‫نبوی کے لیے ابتدا ''مغازی'' یعنی غزوات‬ ‫ؐ‬ ‫بھی سیرت نگاری کابہترین مآخذہیں۔سیرت‬
‫کالفظ استعمال ہوتاتھا جس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلے زمانوں میںحکمرانوں کی بڑی وجہ‬
‫یہی تھی کہ اس نے جنگیں کی ہوں۔یہی کسی شخص کے بڑاہونے کااسٹیٹس مقرر تھا۔ اسی‬
‫رسم کے تحت آپ کے مغازی کاپہلے رواج تھا۔( ‪ )١٣‬عالمہ سیدسلیمان ندوی نے خطبات‬
‫مدارس میں ان کتب مغازی کاتذکرہ کیاہے۔مغازی عروۃ بن زبیر (م‪٨٤‬ھ) ‪ ،‬مغازی زہری(م‬
‫موسی ابن عقبہ(م ‪١٤١‬ھ)‪ ،‬مغازی ابن اسحاق(م‪١٥٠‬ھ)‪ ،‬مغازی زیاد‬ ‫ٰ‬ ‫‪١٢٤‬ھ)‪ ،‬مغازی‬
‫ہیں۔‬
‫مغازی) ت‬ ‫بکائی(م ن‪٨٣‬ھ) ‪،‬مغازی واقدی(م ‪٢٠٧‬ھ )وغیرہ قدیم (کتب‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ے۔ اس ن‬ ‫مصطفصن ی ف ہ‬ ‫کے م ی نالد پ اک پر ای ک ب ہ ری ن اور دی م‬
‫ن ض‬ ‫زیر ظ ر فرسالہ سرکار دو عالمﷺ‬
‫یﷺ تکے تعالوہ ور‬ ‫ے ح ور ب ی کریضمﷺ کقا وس ین لہ‪ ،‬حلی ہ‬ ‫ن‬ ‫ف‬‫ں۔ مصنم ت ق‬
‫اب می ں ‪ ۵۷‬شصول ہ ی ش‬‫کت ف‬
‫ے۔ اس کے سا ھ سا ھ‬ ‫ے ا م مو وعات کو لمب د ک ی ا ہ‬ ‫ہ‬ ‫مصط یﷺ کا پ ت در پ ت ن ل و ا ی س‬
‫ج‬ ‫ہ‬
‫‪18‬‬
‫ث‬ ‫من‬
‫ب‬ ‫ہ‬
‫ے والے اج رو واب کو ھی کت اب کی‬‫حمبنوب نرب دو ج ہاں پر درود و سالم کی ا می ت اور اس کے ب اعث ل‬
‫ے۔(‪)۳۲‬‬ ‫زی ت ب ای ا گ ی ا ہ‬
‫‪ .1‬حضور نبی کریمﷺ کاوسیلہ‬
‫‪ .2‬وال دت کے وقت معجزات‬
‫‪ .3‬حلیہ مبا رک‬
‫‪ .4‬قرآن میں آپ ﷺ کی صفات حمیدہ‬
‫‪ .5‬وال دت کے متعلق اشعار‬
‫‪ .6‬وسیلہ کی برکات‬
‫‪ .7‬شب والدت کے عجائبات‬
‫‪ .8‬نورمصطفی کاپشت درپشت منتقل ہونا‬
‫‪ .9‬سید ہ آمنہ کی زبان سے والدت کابیان‬
‫‪ .10‬والدت پرخوش ہونے اور خرچ کرنے کاانعام‬
‫‪ .11‬میالد کی خوشی میں جنت‬
‫‪ .12‬صفات ومعجزات مصطفی ﷺ‬
‫‪ .13‬پیر کے دن کی اہمیت‬
‫‪ .14‬تنگدستی کاعالج‬
‫‪ .15‬خصائص مصطفی‬
‫‪ .16‬شجرہ نسب‬
‫‪ .17‬نور محمدی ﷺ کی تخلیق‬
‫‪ .18‬توسل انبیاء‬
‫‪ .19‬اسم محمد و احمد کی بر کت‬
‫‪ .20‬نور محمد ﷺ کی تقسیم‬
‫‪ .21‬ساری کائنات بنائی‬
‫پرانعامن ر بانی‬‫‪ .22‬کثرت سے درود پڑھنے ق‬
‫ن‬
‫ﷺ ب ر ا و رمی ں ز دہ ہ ی ں‬ ‫تق‬ ‫‪ .23‬نبی کریم‬
‫‪ .24‬ن وردمحمیﷺ کامن ل ہ ون ا ت‬
‫س ن‬ ‫خش‬ ‫ف شت‬
‫‪ .25‬والدت پر ر وں کا و ی اور ی ح کر ا‬
‫ب‬
‫‪ .26‬حضرت عبدہللا کا وصال‬
‫‪ .27‬حضرت عبدہللا کے وصال پرفرشتوں کی بارگاہ ال ٰہی میں عرض‬
‫‪ .28‬سیدہ آمنہ کوہر ماہ انبیاء کابشارت دینا‬
‫‪ .29‬والدت سے قبل بارہ راتوں کے واقعات‬
‫‪ .30‬واالدت مصطفی ﷺ‬
‫‪ .31‬حاالت وصفات مصطفی ٰ ﷺمیں‬
‫‪ .32‬کامل وجود والے نور‬
‫‪ .33‬حضور نبی کریم ﷺ کوعطائے خدا‬
‫‪19‬‬
‫‪ .34‬شب والدت معجزات کاظہور‬
‫‪ .35‬حضرت حلیمہ او ررضاعت‬
‫‪ .36‬حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو‬
‫‪ .37‬چارسال کی عمر میں والدہ کے پاس‬
‫‪ .38‬شق صدر‬
‫‪ .39‬والدہ محترمہ اوردادا جان کاانتقال‬
‫ش‬ ‫ؐ‬ ‫المقصد فیف عمل المولد از امام جالل الدین ؒسیو طی‬ ‫ق‬ ‫‪2‬۔ حسن‬
‫ح‬
‫صد ی ل ا مولد‘‘& امام ج الل الدی ن ی وطی کی م ی الد الرسول اور اس ظکی رعی ث ی ت‬ ‫ت‬ ‫عم‬ ‫لم‬
‫ی‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ً‬ ‫ہ‬
‫س‬
‫ق‬
‫ل‬
‫ہ‬ ‫لک ’’حئسن ا ش ن‬
‫ے کہ‬ ‫ئکیت ا قمی ت اسی بق اتب سے اہہ ر و ی ہ‬ ‫ے۔ اس رٹسالہ‬ ‫ع گ ی ایینک خ ہای ت ا م ن ی فضہ‬
‫ص‬ ‫می ں ق ھی‬
‫ض‬‫وگا۔‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ڑا‬ ‫ب‬ ‫ھی‬ ‫ام‬ ‫ام‬‫ک‬ ‫اس‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ن‬‫ی‬
‫ف ی‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫لم‬ ‫ر‬
‫ت‬ ‫پ‬ ‫ش‬
‫وع‬ ‫مو‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫ص‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫اس در‬
‫الرسول‘‘ کے مو وع پر‬ ‫ے ’’ ی خ اج الدی ن ف اکہا ی‘‘نکی ’’م ی الد ن‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫لک ئ اس کت اب می ں امام صاحب‬
‫ے م ی الد م ن اے کو ب دعت مذمومہ‬ ‫مس ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫اکہا‬ ‫ں‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫س‬
‫خ ج نی‬ ‫ش‬‫‘‘‬ ‫مولد‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫لی‬‫ق ھی گ ی کت اب ’’المورد ی ا کالم ع‬
‫مکم ل‬
‫ے۔ اس کے عالوہتامام‬ ‫رار دی ا ہ‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ے اور ف‬
‫م‬
‫ے۔ اسخکےق قسا نھ‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫المہ اکا ن الحاج کی م الد ر گ ت گو اور د کو ب ھی ت اب م ں ش‬
‫سن‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫رد‬ ‫ے۔ اس‬
‫ع‬ ‫ن‬‫ے‬
‫رار دی ا ہن‬
‫صاحب‬
‫کی ہ‬ ‫ک ثی‬ ‫ی‬ ‫ی پ‬ ‫ب‬‫بق ل‬ ‫ق‬
‫ع‬
‫الد کا ب وت اور سرکار دو عالم کا ود ی ہ کر ا‬ ‫ے۔ حدی ث سے م ی ٹ‬ ‫مو ف ھی ب ی ان ک ی ا ہ‬ ‫ابب ن شحج رمعس ال ی کا خت‬
‫ے۔‬ ‫م‬
‫نسے ھو ی گر ج امع کت اب ہ‬ ‫چ‬ ‫ے۔ م صر ی ہ کہ ی ہ خم ی الد پ اک کے حوالے‬ ‫ن‬ ‫ھی ا ل ہ‬
‫ب‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫روت‪ ،‬لب ن ان ‪۱۴۰۵‬ھ بم طابق ‪۱۹۸۵‬ء می ں ھی‬
‫ب‬
‫ے بی ن‬ ‫ب ا لمی ہ ق‬ ‫اس کتاب كا عربی س ہ تدارالک ن‬ ‫شئ‬
‫ی‬
‫داالحد ادری ے ر ع االول ‪۱۴۲۴‬ھ بم طابق اپری ل ‪۲۰۰۵‬‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫خ‬ ‫ے۔ اس کتت ابخ کان ن ب‬ ‫ہ‬
‫ے‬ ‫ا‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫موالالہ اورع بسے ش‬ ‫روڈ‬
‫اردو ر مہ‬
‫ش‬ ‫ج‬ ‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫وی‬
‫ا عق وا ہ ض‬
‫می ں ادری ر‬
‫کی ہ‬ ‫ک‬
‫ف‬ ‫ابواب و فصول‬
‫م‬ ‫ش‬
‫اس می ں درج ذی ل ا واب و صول ا ل ہ ی ں۔ (‪)۳۳‬‬ ‫ب‬
‫‪ .1‬تقریب عید میالد‬
‫‪ .2‬تاریخ میالد‬
‫‪ .3‬میال د پاک کے موضوع پر پہلی کتاب‬
‫‪ .4‬میال دپاک کے انعقاد پر فاکہا نی کا رسا لہ‬
‫‪ .5‬فاکہا نی کے رسالہ کا رد‬
‫‪ .6‬اقسام بدعت‬
‫‪ .7‬حرام و مکروہ با تیں‬
‫‪ .8‬میالد پر خو شی کر نا مستحسن ہے‬
‫‪ .9‬عالمہ ابن الحاج کی میالد پر شاندار گفتگو‬
‫‪ .10‬ماہ ربیع االول کی تکریم‬
‫الحاج کی میالد پر تنقید‬ ‫ت نق‬ ‫‪ .11‬عالمہ ابن‬
‫‪ .12‬ابن الحاج كی ی د پر ج واب‬
‫‪ .13‬عالمہ ابن حجر مکی عسقالنی کا موقف‬
‫‪ .14‬حدیث سے میالد کا ثبوت‬
‫‪ .15‬سر کا ر دو عالم ﷺ کا خود عقیقہ کر نا‬
‫‪ .16‬ابو لہب کے عذاب میں تخفیف‬

‫‪20‬‬
‫‪ .17‬دمشقی کی روح پر ور نعت میال د‬
‫‪ .18‬فائدہ ؐ‬
‫ؒ ن‬ ‫ؒ ت‬ ‫ش‬ ‫مکی ؒ‬‫ت‬ ‫‪3‬۔ المولدالنبی ازق اب ن حجر‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫ے۔ ٓاپشے‬ ‫فہ‬ ‫ق‬ ‫یسری کت ابنعالمہ ہابل ؐالدی ن احمد ب ن جح ر نکی خکی نص ی ق‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ؐ ہ مارے م الے می ں ا ل‬
‫ح‬
‫ناس عربی س ہ مرکز ی ات اسالمیہ ادمان‬ ‫مولد ا ن ب ی‘‘ رکھا‬
‫ق‬ ‫کے حوالے سے ج و کت اب ت ھی اس کنا ام’’‬ ‫نیش ئ‬‫می الد ا نلب‬
‫داالحد ادری ے ر ی ع االول ‪۱۴۲۴‬ھ بم طابق اپری ل ‪۲۰۰۵‬‬ ‫ب‬ ‫اردو رج مہ موال ا ع ب ش ئ‬ ‫اس کا ن ب خ‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ےاور‬ ‫ت‬ ‫الہ ور قے ا عضکی ا ہ‬
‫ے‬ ‫می ں ادری ر وی ک ب ا ہ گ ج ش روڈ الہ ور سے ا ع ک ی ا ہ‬
‫ن‬ ‫ُ‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ابوب و فصول‬
‫ش‬
‫نا گ ی ا‬ ‫سب ری م ت ق‬
‫ف ب ی ان ک ی‬ ‫ت‬
‫مﷺ کی صوص ی ضات اور ان کا‬ ‫ؑ‬ ‫تصنی ف ؐمی ں ب ضی کری‬ ‫زير نظر ن‬
‫لب ک ن ل ہ وے کے‬ ‫ط‬ ‫ل‬
‫لے کر ح رت ع ب ندا م ئ‬ ‫دمحمی کا شح مرت ٓادم سے ق‬ ‫اس کے ع ت فالوہ ن‬
‫ور‬ ‫ے۔‬ ‫ہت‬
‫ہ‬ ‫ج‬
‫سا ھ وہ سب ار اصات ب وی ھی ا ل کت اب ہ ی ں و و ت والدت رو ما وے۔ اس کت اب کے‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ف‬
‫ص‬
‫ے۔(‪)۳۴‬‬ ‫اب واب و صول کی ی ل درج ذی ل ہ‬
‫‪ .1‬رسول ہللا ﷺ کا اعزاز و اکرام‬
‫مصطفی بنا یا‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .2‬ہللا نے آپ ﷺ کو‬
‫‪ .3‬نبی کریم ﷺ کی خصوصیات‬
‫‪ .4‬نبی کریم ﷺ کا نسب شریف‬
‫‪ .5‬حقیقت محمدیہ ﷺ کو نو ر سے ظاہر فرمایا‬
‫‪ .6‬وجود مسعود کی تخلیق‬
‫‪ .7‬نو ر محمد یﷺ پیشا نی آ دم میں‬
‫مصطفی ﷺ حضرت آدم ؑ سے حضرت عبدالمطلب& تک‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .8‬نور‬
‫‪ .9‬نور کی بر کت سے ابر ہہ ہالک‬
‫‪ .10‬نور محمدی ﷺ حضرت عبدہللا کی پیشا نی میں‬
‫‪ .11‬حضرت عبدہللا کی حضرت آمنہ سے شا دی‬
‫‪ .12‬سمندری مخلوق نے آمد پر مبا رک با د دی‬
‫‪ .13‬حضرت آمنہ کو بشا رت اور نام محمد ﷺ رکھنے کا حکم‬
‫‪ .14‬حضرت عبدہللا کا وصال‬
‫‪ .15‬وال دت مبا رک اور عجا ئبا ت وال دت‬
‫‪ .16‬مشرق و مغرب روشن‬
‫‪ .17‬شام کے محالت چمک اٹھنے کی وجہ‬
‫‪ .18‬نبی کریم ﷺ زمین کے مالک و بادشاہ ہیں‬
‫‪ .19‬وال دت کے بعد سجدہ کیا‬
‫‪ .20‬مشرق و مغرب تک سیر کرا ؤ‬
‫‪ .21‬ایوان کسری میں زلزلہ‬
‫‪ .22‬شیطا ن کا رو نا‬
‫‪ .23‬مختون شدہ پیدا ہو ئے‬
‫‪ .24‬اسم گرا می محمد ﷺ رکھنے کے اسباب‬
‫‪21‬‬
‫‪ .25‬تا ریخ وال دت‬
‫‪ .26‬ابو لہب کے عذاب میں تخفیف‬
‫‪ .27‬حضرت حلیمہ کا پر ورش کرنا‬
‫‪ .28‬حضرت حلیمہ کی اونٹنی نے کعبہ کو سجدہ کیا‬
‫‪ .29‬اونٹنی میں نئی طاقت اور گفتگو کر نا‬
‫‪ .30‬حضرت حلیمہ کے گھر بر کتوں کا نزول‬
‫‪ .31‬شق صدر‬
‫‪ .32‬با دل کا سا یہ کر نا‬
‫‪ .33‬چاند سے با تیں کر نا‬
‫‪ .34‬نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو‬
‫‪ .35‬حضرت آمنہ کا وصال‬
‫‪ .36‬حضرت عبدالمطلب کا وصال‬
‫‪ .37‬پہال سفر فملک شام ؐ اور بحیرا کا پہچاننا‬
‫‪4‬۔ المورد الروی ی مولدالن ب ی ازؐ مال علی تقاریؒ‬
‫ل ل ئ‬ ‫ق ؒ‬
‫ں وہ حمد‬‫ف‬ ‫ی‬‫ے۔ اس م‬ ‫ہ‬ ‫نب ھی ب ہت اہ می ت کی حامل‬ ‫تکھی گ ی ُ نص یف‬ ‫ت مالعلی اری تکی ی ہ می شالد ا ن ب یپر‬
‫عوث رماکر ن ہ‬ ‫ے ہ ی ں کہ اسے رحمت عالمﷺ کو اس دن ی ا می ں قمب‬ ‫ب اری ع ٰالی نکے ب عد ہللا ع ٰالیکفا ئکر ادا کر‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ش‬
‫ق‬
‫ے کہ وہ رسول ہللاﷺ کے م ام و مر ب ہ نکو پ چہ ان‬ ‫ہ‬ ‫صرف مسلما وں کو ہ ندای ت عطا رما ی ب لکہقم نرکوں پر جح ت ض ھی‬
‫ف‬
‫ے م نص ف ی ہ ذکر ب ھیئ لمب د کی ا‬ ‫ب‬
‫مﷺ تکی ب ا ی ا ب ی اء تکرام پر ی لت نقھی ب ینان کی ہ‬ ‫اس کے ب عد ب ی کری‬ ‫لی ں۔ ف‬
‫ں اوا ل دور‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫الم‬‫س‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ول‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫کس‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫صد‬ ‫ن‬ ‫لی‬‫ہ‬ ‫پ‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ے کہف مح‬
‫ہی ی ض‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ین ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ہ‬
‫ے۔ اس کے عالوہ دی گر ا م مو وعات ج و‬ ‫ح ہ‬ ‫صہ‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ف‬ ‫ص‬
‫نی‬ ‫ادر‬ ‫اس‬ ‫کی‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫ھی‬ ‫ر‬ ‫ن ی‬‫ذکر‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫سے‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫)‬‫‪۳۵‬‬ ‫(‬ ‫ں۔‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ق‬ ‫درج ذی ت‬
‫ل‬ ‫خ‬ ‫وہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ش امل کت اب ہ‬
‫اس کاخاردو نرجب خمہ‬ ‫ت‬ ‫ےاور‬ ‫ن اس کقا عربی س ہنمرکز ب ح ی ات اسالمیہ ادمان الہ ورے ‪ ۱۹۸۰‬می ں ق ا ع کی ا ہض‬
‫ن‬
‫موال ا ع ب داالحد ش ئادری ے ر ی ع االول ‪۱۴۲۴‬ھ بم طابق اپری ل ‪ ۲۰۰۵‬می ں ادری ر وی ک ب ا ہ گ ج ش‬
‫ے‬ ‫روڈ الہ ور سے ا ع ک ی ا ہ‬
‫ابوب و فصول‬
‫مصطفی ﷺ مسلمانوں کے لیے ہدا یت اور مشر کوں پر‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .1‬بعثت‬
‫حجت ہے ۔‬
‫‪ .2‬نبی کریم ﷺ کی فضیلت با قی انبیاء پر‬
‫‪ .3‬محفل میال د النبی ﷺ پہلی تین صدیوں میں کسی سے منقو ل‬
‫نہیں‬
‫‪ .4‬مصر اور شام کے لو گوں کا میالد منا نا‬
‫‪ .5‬اندلس ( اسپین) کے با دشاہ محفل میال د کیسے منا تے تھے ۔‬
‫‪ .6‬ہندوستان میں محفل میال د النبی ﷺ‬
‫‪ .7‬عجم میں محافل میال د النبی ﷺ‬
‫‪ .8‬باد شاہ ہما یوں کا میال د منا نا‬
‫‪ .9‬اہل مکہ کا میالد النبی ﷺ منا نا‬
‫‪ .10‬اہل مدینہ کے ہاں محفل میالد النبی ﷺ‬
‫‪22‬‬
‫معنوی نو ری کی ضیافت‬ ‫‪.11‬‬
‫مو لو د شریف پڑھنا‬ ‫‪.12‬‬
‫حضور نبی کریم ﷺ کب پیدا ہو ئے ۔‬ ‫‪.13‬‬
‫امام غزالی کی طرف سے نبی کریم ﷺ کی پیدا ئش کا ذکر‬ ‫‪.14‬‬
‫نبی کریم ﷺ کی روح کی تخلیق کے با رے میں امام سبکی کا‬ ‫‪.15‬‬
‫بیان‬
‫حقیقت محمدیہ ﷺ کے با رے امام قسطال نی کا بیان‬ ‫‪.16‬‬
‫حضور نبی کریم ﷺ کی دیگر انبیاء پر سبقت کیسے‬ ‫‪.17‬‬
‫نو ر محمدی ﷺ سب سے پہلی مخلوق‬ ‫‪.18‬‬
‫نور محمدی کے بعد سب سے پہلی مخلو ق کو نسی ہے ۔‬ ‫‪.19‬‬
‫نو ر محمدی ﷺ کی پیشا نی آدم میں چمک‬ ‫‪.20‬‬
‫حضرت حوا کا حق مہر‬ ‫‪.21‬‬
‫حضرت آدم کا نبی کریم ﷺ سے توسل‬ ‫‪.22‬‬
‫اصال ب طاہرہ میں نو ر کی جلوہ گری‬ ‫‪.23‬‬
‫حضور نبی کریم ﷺ کا درجہ‬ ‫‪.24‬‬
‫عدنان کے بعد نسب پاک میں علماء کا اختالف ہے‬ ‫‪.25‬‬
‫حضرت عبدالمطلب اوراصحاب فیل‬ ‫‪.26‬‬
‫حضرت عبدالمطلب کی نذر اور بیٹےکو ذبح کر نا‬ ‫‪.27‬‬
‫دیت کی مشروعیت‬ ‫‪.28‬‬
‫نذر کا سبب‬ ‫‪.29‬‬
‫سیدنا عبد ہللا کا آمنہ بنت وہب سے شا دی کر نا‬ ‫‪.30‬‬
‫مصطفی ﷺ سے حاملہ ہو نا‬ ‫ٰ‬ ‫سیدہ آمنہ کا نور‬ ‫‪.31‬‬
‫نو ر محمدی ﷺ کا ظہو ر‬ ‫‪.32‬‬
‫نو ر محمدی ﷺ کے وقت ظہور میں اختال ف‬ ‫‪.33‬‬
‫دعا ئے ابرا ہیم‬ ‫‪.34‬‬
‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫بشا رت‬ ‫‪.35‬‬
‫حضور نبی کریم ﷺ کا میال د اہل مکہ کے لیے فتح اور‬ ‫‪.36‬‬
‫خوشحالی کا سبب بنا‬
‫حضرت عبدہللا کا وصال‬ ‫‪.37‬‬
‫حضرت عبدہللا کا تر کہ‬ ‫‪.38‬‬
‫حضور نبی کریم ﷺ کی وال دت مبا رکہ‬ ‫‪.39‬‬
‫ابو لہب کا حضور نبی کریم ﷺ کی پیدائش پر خو شی منا نا‬ ‫‪.40‬‬
‫اہل کتاب حضور نبی کریم ﷺ کی میالد کی خوشی مناتے ہیں‬ ‫‪.41‬‬
‫ٰ‬
‫کسری میں زلزلہ‬ ‫میال دالنبی ﷺ کے دن ایوان‬ ‫‪.42‬‬

‫‪23‬‬
‫‪ .43‬میال د النبی ﷺ کے دن فارس کا آتش کدہ بجھ گیا ا ور بحیرہ سا‬
‫وہ کا پا نی خشک ہو گیا‬
‫‪ .44‬شیطانوں کو شہا ب ثاقب سے ما رنا‬
‫‪ .45‬شب وال دت شیطان کا رونا‬
‫‪ .46‬کیا نبی کریم ﷺ مہر نبوت کے ساتھ پیدا ہو ئے یا پیدائش کے‬
‫ئ‬ ‫بعد مہر نبوت ملی ؟‬
‫‪ .47‬نبی کریم ﷺ مختون پ ی دا ہ وے۔‬
‫‪ .48‬حضور نبی کریم ﷺ کا نام محمد ﷺ رکھنا‬
‫‪ .49‬حضرت عبدالمطلب کا عجیب و غریب خواب‬
‫مصطفی کی تعداد‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .50‬اسما ء‬
‫‪ .51‬نبی کریم ﷺ کی پیدا ئش عام الفیل میں ہو ئی‬
‫کسری کے دور‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .52‬کیا حضور نبی کریم ﷺ کی وال دت نو شیرواں‬
‫میں ہو ئی ۔‬
‫‪ .53‬کیا ما ہ ربیع االول میں نبی کریم ﷺ کی وال د ت ہوئی‬
‫‪ .54‬حضور نبی کریم ﷺ كے مقام پیدائش کے با رے میں اختالف‬
‫علماء‬
‫‪ .55‬مدت رضاعت کے دوران نبوت کے دالئل‬
‫‪ .56‬حضرت حلیمہ کے ہاں برکتوں کا نزول‬
‫‪ .57‬زما نہ شیر خوا ر گی میں آپ ﷺ کے معجزا ت‬
‫‪ .58‬فرشتے جھو ال جھال تے‬
‫‪ .59‬حضور نبی کریم ﷺ کا سب سے پہال کالم‬
‫‪ .60‬بادل کا سا یہ کر نا‬
‫‪ .61‬شق صدر‬
‫‪ .62‬حضور نبی کریم ﷺ کی والدہ محترمہ کی وفات‬
‫‪ .63‬حضرت عبدالمطلب کا وصال‬
‫‪ .64‬حضور نبی کریم ﷺ کا ملک شام کی طرف جا نا‬
‫‪ .65‬حضور نبی کریم ﷺ کی سیدہ خدیجہ سے شا دی‬
‫‪ .66‬تعمیر کعبہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی شرکت‬
‫‪ .67‬حضور نبی کریم ﷺ پر وحی کی ابتداء‬
‫غ‬ ‫الکتانی ؒج ن‬ ‫خيرالعبادختاز محمد بن جعفر‬ ‫ن‬ ‫بمولد‬‫واالسعاد ش ت‬ ‫‪5‬۔ اليمن ف‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫م‬
‫کے ٓا از می فں‬‫ے اسق کت اب ن‬ ‫خ‬ ‫ے۔ ممفر تم‬ ‫امع کت اب ہ‬ ‫ق‬ ‫ی تہ ق‪ ۱۴‬صول پر ف ل ب ہای شتمم صر ی کن ج ت‬ ‫نت‬
‫ے عربی ال اظ‬ ‫ت‬ ‫ادری‬ ‫ان‬ ‫دمحم‬ ‫ی‬ ‫المہ‬ ‫ع‬ ‫ں‬
‫ی ت‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫دی‬ ‫اور‬ ‫ے‬
‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ار‬‫ف‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ش‬ ‫پ‬
‫ت ی‬‫اور‬ ‫م‬ ‫دی‬ ‫ساب‪،‬‬ ‫ا‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ج‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫ے۔ اس‬ ‫ے تکو ھ ا ٓاسان وجش ا ا ہ‬ ‫اب کے م ن اور ر م‬ ‫نجس سے کت ئ‬ ‫ے۔‬ ‫اور لوں خکا اردو ر ن مہ ب ی ان ف ر نمای ا ہ‬
‫نعربی س ہ منخ ال حث ہ مس ر کات ے ‪ ۱۳۴۵‬می ں ش ا عشک ی ائ اور اس کا اردو رج مہ عالمہ دمحم ہزاد مج ددی‬ ‫کا‬
‫ے مکت ب ہ دارا الص ری لوے روڈ الہ ور سے ‪۲۰۰۲‬ء می ں ا ع ک ی ا ۔‬

‫‪24‬‬
‫ن ن‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ف ن ن ض‬ ‫ابواب و فصول‬
‫لے‬‫ش سے بل اور ب عد می ں رو ما ہ وے وا ف‬ ‫ف‬
‫ے حؐ ورﷺ کی پ ی دا ض‬ ‫ئ‬ ‫ج‬
‫ن ع ؐر الخکت ا ی ن‬ ‫اس کت قاب می ںش ئ‬
‫دمحمب ن‬ ‫خ‬
‫ے۔ اس کت اب می ں صول‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫لت‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫الم‬‫س‬ ‫و‬ ‫درود‬ ‫‪،‬‬‫وی‬ ‫ب‬ ‫ص‬ ‫ا‬‫ص‬ ‫‪،‬‬‫وی‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ات‪،‬‬ ‫ع‬ ‫وا‬ ‫ادات‬ ‫ع‬ ‫وارق‬
‫ن‬
‫ے۔(‪)۳۶‬‬ ‫و اب واب کی درج ہ ب دی درج ذی ل ہ‬
‫‪1‬۔ فصل اول‬
‫اول الخلق‬
‫‪2‬۔فصل دوم‬
‫ظہور تجلیا ت نبوت‬
‫‪3‬۔فصل سوم‬
‫تحویل نور رسالت‬
‫‪4‬۔فصل چہارم‬
‫سیدہ آمنہ کی آغوش میں‬
‫‪5‬۔فصل پنجم‬
‫سرکا ر چلے آ تے ہیں‬
‫‪6‬۔فصل ششم‬
‫محفل میال د شریف‬
‫‪7‬۔فصل ہفتم‬
‫ہللا کے احسان عظیم کی تعظیم‬
‫‪8‬۔فصل ہشتم‬
‫صبح شب وال دت‬
‫‪9‬۔فصل نہم‬
‫ہللا ہللا وہ بچپنے کی پھبن‬
‫‪10‬۔فصل دہم‬
‫حسن کھا تاہے جس کے نمک کی قسم‬
‫‪11‬۔فصل یازدہم‬
‫کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمیدہ‬
‫‪12‬۔فصل بارہویں‬
‫تاجداروں کے آ قا ہما رے نبی‬
‫‪13‬۔فصل سیزدہم‬
‫ایمان کی جان‬
‫‪14‬۔فصل چہار دہم‬
‫صلوۃو سالم‬ ‫ٰ‬ ‫دعاء‬
‫حاصل کالم‬
‫عرب ممالک میں ٓائمہ محدثین اور علماء ربانین نے آق ؐا کے میالد کے موضوع پر‬
‫بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ میالد کے بیان کو بالد عربیہ میں مولد‪ ،‬موالید یا مولود پڑھنا‬

‫‪25‬‬
‫کہتے ہیں اس لیے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضورﷺ کے‬
‫آپ کی برکات کا تذکرہ ہو تو اس کو مولود کہا جاتا ہے۔ اہل‬‫میالد کے واقعات مذکور ہوں۔ ؐ‬
‫عرب میں جو اہل محبت ہیں ان کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب‬
‫میالد پاک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے تو وہ محافل میالد میں ذوق و شوق سے مولود پڑھے‬
‫جاتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السالم کی والدت کے واقعات کو بیان کرنا مولد یا مولود کہالتا‬
‫ہے‪ ،‬اردو میں اس کو میالد نامہ کہتے ہیں۔‬
‫النبی پر لکھی گئی مترجم عربی کتب کے اس باب میں‬ ‫ؐ‬ ‫زیر نظر مقالہ کی میالد‬
‫عرب مصنفین اور ان کی کتب کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔ ان عرب مصنفین میں ابن جوزی‪،‬‬
‫جالل الدین سیوطی‪ ،‬ابن حجر مکی‪ ،‬مال علی قاری اور محمد بن جعفر الکتانی شامل ہیں۔ یہ‬
‫سب ائمہ و محدثین اپنے دور کی نامور شخصیات ہیں جو کسی تعارف سےکی محتاج نہیں۔‬
‫رسول سے بھرپور ہیں اور سب نے اپنی کتب میں خلقت نور محمدی‬ ‫ؐ‬ ‫ان کی تصانیف محبت‬
‫آپ کے‬‫سے لے کر آپﷺ کے پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ ارحام کے سفر ؐ‬
‫نبوی کے عالوہ بالد‬
‫ؐ‬ ‫فضائل و برکات‪ ،‬قبل از والدت واقعات بعد از والدت واقعات‪ ،‬شمائل‬
‫النبی کے منائے جانے کا ثبوت بڑے مدلل انداز میں قرآن و حدیث اور‬ ‫ؐ‬ ‫اسالمیہ میں میالد‬
‫آئمہ و محدثین کے اقوال کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ ان کی یہ تصانیف نہ صرف اُن کے اپنے‬
‫زمانے بلکہ بعد میں آنے والے زمانے کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔‬
‫بحیثیت مسلمان محبت رسولﷺ ہی ایمان کی شرط اولین ہے۔ جس‬
‫کی تکمیل ذکر محبوب کے بغیر ممکن نہیں اور اس محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ‬
‫جشن میالد النبیﷺ کا ذکر اور اس کی خوشی منانا ہے۔ مادہ پرستی کے اس‬
‫رسول کو فروغ دینے کا‬
‫ؐ‬ ‫دور میں اس طرح کی تصانیف مسلمانوں کے دلوں میں محبت‬
‫انتہائی موثر اور تیر بہدف نسخہ ہے۔ عرب مصنفین کی ان کتب سے یہ بات واضح ہے کہ‬
‫جشن میالد النبیﷺ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ہر دور کے لوگوں کا معمول‬
‫رہا ہے۔‬

‫‪26‬‬
‫باب دوم‬
‫ت‬ ‫لک ئ‬
‫می الد الن ب ؐیﷺ پر ھی گ ی مترجم عربئی ک ب می ں‬
‫ل‬ ‫ف‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫فم یصالد ا ن ب ی کےج واز اورلعدم ج واز کےلکدال لئ‬
‫ھی گج ی م ر متعربی ک ب می ں عدم جئواز کے دال ل‬
‫ت‬ ‫یﷺ پر ئ‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ل اول‪ :‬م ی الد ا ن ب‬
‫صل دوم‪ :‬م ی الد الن ب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں ج واز کے دال ل‬

‫ن‬ ‫وں سے ب ھر ور ب ن‬ ‫نئ‬ ‫ن‬ ‫ے کائ‬ ‫ن‬


‫اس ج ہان می ں ا سان کو‬ ‫ا۔‬ ‫ا‬
‫ت ن پل ی چ ش‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫اور‬
‫ن جن ن ع‬ ‫مال‬ ‫و‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫کو‬ ‫ات‬ ‫ق‬ ‫لہللا قرب ال نعزت‬ ‫ش‬
‫ی‬
‫سے د کھا‬ ‫ی‬
‫ات کو ی وعنا سان کے اب ع ب ای ا۔ کن اگر م ب صی رتن‬ ‫ب‬ ‫خ‬
‫ساری م لو‬‫ات ب ای ا اور ص ن‬ ‫لو‬ ‫رف ا مخ‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ا‬
‫م‬ ‫ج‬ ‫ؐ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ے۔ نہللا رب العزت نے ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫اس کا ات ضکی ا ل ور دمحمی ے اور وہ ور و امر کن کا ہر‬ ‫ج اے و ن‬
‫دمحم کو اپ ی ذات ئکا مظ ہر ب ای ا۔‬ ‫ہک ا اور سرکار دو عالم ض رت ؐ‬ ‫دا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ے حب ب رت ؐ‬
‫دمحم‬
‫ح‬ ‫ض‬ ‫نل ی ی‬ ‫پ‬ ‫سب چک ھ اپ ب ی ح‬
‫اسی وج ہ‬ ‫ہ‬
‫عادتق و ی اور ت‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫کی والدت ب ا‬ ‫ے جس می ں ح ورﷺ‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ماہ نر یخع االول ہوہ ب اب رکت مہی ہ ت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫س‬
‫رام اور‬‫اس ماہ م دس می ں ا تہا ی ع ی شدت و اح ت‬ ‫ے۔ م لمان ت‬ ‫ہ‬‫صوصی ا می ت کا حا ل ہ نو ات‬ ‫ض‬ ‫تسے ی ہ مت شہی ہ‬
‫عالی کات کر ادا کرے‬ ‫اس حدی ث عمت پر ہللا ٰ ت‬ ‫ئ‬
‫زک و تاح ام سے ح ورﷺ کا م ی الد م ا شے ہ ی ں اور‬
‫ب‬
‫ں۔خ‬
‫ےہی مت‬ ‫ے رہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫چ‬
‫ن ں بڑھ ڑھ کر پحنصہ حی‬ ‫ہ ی ں۔ ا یر خ اسلالم کے ہ ر دور میہ ں علضماء وم ا خ ھی اسمحس قعادت می‬
‫ق‬
‫ے ن عب‬ ‫اس کو ی نئے ہ ر دور می ں ا ت قی ی قن ت‬
‫کے لی‬ ‫م ی الد ا ن ب ضیﷺ ایسا ا م مو فوع ہ‬
‫ل‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ے کہ ت‬
‫ے اس مو وع پر عربی‪ ،‬اردو اور ارسی می ں ک ب ھی ی ں اور ان می ں اع ادی‪ ،‬ظ ری ا ی اور می‬ ‫ک ی ا اس لی‬
‫ں۔‬ ‫یق‬ ‫ہ‬ ‫ود‬ ‫ن‬ ‫ج‬‫و‬ ‫م‬ ‫احث‬ ‫مب‬
‫ت‬
‫ے جس می تں مت رج م عربی ک ب ج ن می ں ج واز اور عدم‬ ‫ہ‬ ‫کڑی‬ ‫ُ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ئ‬ ‫کی‬ ‫لہ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫اسی‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫الہ‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫یض‬ ‫ر‬ ‫ز‬
‫کے مو وعات کو زیر ب حث الی ا ج اے گا۔ ان مت رج ؐم عربی ک بممی ں مولد العروس از اب ن ج قوزی‪ ،‬حسن‬ ‫ج ق‬
‫واز ف‬
‫ع‬
‫مولدا ن ب ی از اب ن حج ر کی‪ ،‬المورد الروی از مال لی اری اور‬ ‫ل‬ ‫س ن‬
‫وطی‪،‬‬ ‫الم صد ی ل المولدخاز امام ج الل الدی ن ف ی‬ ‫عم‬
‫م‬ ‫ش‬
‫الی من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد از دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ا ل ہ ی ں۔‬

‫‪27‬‬
‫ئ‬ ‫فصل اول‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫لک ئ‬
‫میالد النبیﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں عدم ج واز کے دال ل‬

‫ق ف‬
‫ئ‬ ‫ؒ‬ ‫س وطی‬ ‫حسن الم صد ی ق ل افلمولد از امام ج الل الدی ن ی‬ ‫عم‬
‫کے دال ل‬ ‫واز‬ ‫س وطی شم ی تالد الن ب یﷺ کے عدمخج‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫ی‬ ‫د‬‫ال‬ ‫الل‬ ‫ج‬ ‫امام‬ ‫ں‬
‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫مولد‬
‫ن‬ ‫ل ال‬ ‫ی عم ن‬ ‫ف‬ ‫تسن الم صد‬ ‫ح‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ع‬
‫ے ہ ی ں۔ ی خ اج الدی ن عمر ب ن لی می اسک دری‬ ‫ے رسالے می ں دی‬ ‫ں ج و کہ خ اکہا ی ے اپ‬ ‫ےہی ن‬ ‫ب ی ان کر ف‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫ن‬
‫ن مالکی فوں می ں سے ہ‬ ‫معروف ب ہ اکہا ی مت ا ری ن ق‬
‫اک تکے ا ع اد پر اکہا ی کا رسالہ’’المورد ی الکالم علی عمل المولد‘‘کے ام سے مرت ب ک ی ا‬ ‫ک‬ ‫م ی الد پ‬
‫ے ہ ی تں‪ :‬ف‬ ‫ل‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫ی‬ ‫ے۔ مولف ھ ت‬ ‫ہ‬
‫ے جس ے می ں س ی دالمر لی ن کی ا ب اع کی‬ ‫ےہ‬ ‫’’ مام فعر ی ں ہللا کے لی‬
‫ئ‬
‫ف ئ‬ ‫ن‬ ‫ہ دای ت رما ی‘‘۔‬
‫ل‬
‫لف صا حی ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ے‬ ‫مدد و صرت رما ی اور ہ خمارےئلی‬ ‫ش‬ ‫ماری‬ ‫ہ‬ ‫کر‬ ‫دے‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ت‬‫دا‬ ‫ہ‬ ‫طرف‬ ‫ف‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ارکان‬ ‫اور‬
‫ق‬ ‫نق‬
‫ن ری عت اور حق کے پ ت ہ دال ل کے تور سے‬ ‫ش دم پر چ ل ن ا آسان رمای ا‪،‬خ ح فی کہ ہ مارے دل علم‬ ‫کے ہ ئ‬ ‫م‬
‫عالی‬ ‫اطن کو پ اک ک ی ا‪ ،‬می ںمضہللا ٰ‬ ‫ے اورش دی بن می تں ب دعات و راناتق کے یا ج ادش نکرے سے ہ مارے ب ت‬
‫م‬ ‫عمور وگ‬
‫حمد فو کر ج ا ال ا ہ وں کہ اس فے ی ی ن کی رو ی ع طا کرکے اور دی ن ی ن کی رسی کو ن ب وطی سے‬ ‫ے ت‬ ‫تکےنلی‬
‫ے۔ می ں گواہ ی دی ت ا ہ وں کہ دمحمﷺ اس کے ب دے‪ ،‬رسول‬ ‫تی ہ‬‫ا‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫کرم‬ ‫و‬ ‫سان‬ ‫ح‬‫ا‬ ‫کر‬ ‫دے‬ ‫ق‬ ‫یخ‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ھام‬
‫ط‬ ‫م‬
‫ئپر‪ ،‬ان کے ٓال و اصحاب اور ازواج ہرات امہات‬ ‫اور ناولی ن و قٓا ری ن کے سردار ہنی ں۔ ہللا ع ٰفالی ان‬
‫ن پر ی امت ت ک پ یہم ا وار کی ب ارش رماے۔(‪)۱‬‬ ‫الموم ی ن ن‬
‫ت‬ ‫ے‬ ‫م ی الد م اما قب دعتصہ‬
‫ج‬
‫ے کہ ای ک م ب ارک جتماعت کی طرف سے ب ار بت ار اس ا ماع شکے ب ارے می ں‬ ‫صود ا لی ی ہ ہ‬
‫نا ری عت می ں اس‬ ‫ے ہ ی نں ۔کہ یٓا‬ ‫ماہ رب ی ع االول می ں کرے ہن ی ں اور ناسے م ی الد ہک‬ ‫ے ج و لوگ‬ ‫صا ہ‬ ‫ت ئ‬
‫سوال ک ی ا گ ی‬
‫واب‬
‫تکا ئ‬ ‫ج‬ ‫ے اس‬ ‫ے؟ ا ہوں ت‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ف‬
‫ن‬ ‫ے ی ا ی ہ چ یز دی ن می ں ب دعت‪ ،‬وپ ی د تاور و ای ج تاد امر ہ‬ ‫کیصکو ی ا لض ھی ہ‬
‫ے‬ ‫عالی کی ئو ی قصو اعان ت پر اع ماد کرنے ہ و ت ق‬
‫ہ‬ ‫ے۔ لہذا می ں نہللا ن ٰ‬ ‫ی ل اور و احتع سے طلب ک ی ا ہ‬
‫ے اور ہ ی ی ہ وی‬ ‫مذکورہ م ی الد کی کت اب و س ت قمی ں کو ی ا ل ہی ں ہ‬ ‫کشہت ا ہ وں کہ می رے لم می نں‬
‫ےٰ‬ ‫ی‬ ‫دار ل شماء م ن ف‬ ‫ع‬
‫ے جس‬ ‫دعت ہ‬ ‫ے ب لنکہ ی ہ ای ک ا سی ب ش‬ ‫لت مینں کسی سے منول ہ‬ ‫امت اور دی خ‬ ‫عم‬
‫عار اکاب ری ن‬
‫اور کم پروری‬ ‫ےن‬ ‫ہ‬ ‫تکی پ یروی کرے والوں ے رواج دی ا‬ ‫ے ل لوگوں اور ت واہ نات سا ی‬ ‫ناور ب‬ ‫ب ی کار‬
‫ے کہ ج ب م ے متی الد پر‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ہ‬
‫کرےخوالے لوگ اس کا ا مام و ا تصرام کرے ہ ی ں۔ اس کی د ی ل ی ہ ہ‬
‫وگا ی ا حرام۔ و معتلوم‬ ‫طرح ثکہ ی ا و ی ہ واج ب ہ وگا ی ا م ن دوب‪،‬ن ی ا م ب اح‪ ،‬ی ا مکروہ ہ‬ ‫اس ً‬ ‫احکام مسہ کا اج راء ک ین ا ن‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫دوب اشسے ہ‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫ے تاور ی ہ م دوب ھی ہی ں و کت ا کی و عمکہ م‬
‫ن‬ ‫ماعا اب ت ہ‬ ‫ل‬ ‫اس کا واج ب طہ ہ و ا اج‬ ‫ش‬ ‫ہ وا کہ‬
‫ہ ی ں ج و ری عت کا م لوب ہ و کن اس کے ارک پر ذم و عت اب ہ ہ و اور اس ل کی ہ و ری عت‬ ‫ی‬
‫‪28‬‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے اور ن ہ ہ ی می رے علم کے م طابق ی ہ صحاب ہ کرام اور دی ن دار اب عی ن کا ل ر اہ‬
‫ع‬
‫ے اج ازت دی ہ‬
‫ن من‬ ‫ت‬ ‫ے۔ ف ن‬ ‫ہ‬
‫ے کہ‬ ‫ے یک و کہ مو ی ن کا اج ماع ہن‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫ق‬ ‫اح‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫د‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫اس‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫اکہا‬ ‫اور‬
‫ہ‬ ‫م ی ب‬ ‫ی ی‬ ‫ئپ ی‬ ‫ن‬
‫ے۔ اس لحاظ سے ان دو وں کی‬ ‫حرام ب ا ی رہ ج ا ائہ‬ ‫خ‬ ‫کروہ‬ ‫صرف‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫ن‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫دی ن می ںفب دعت را ج کر ا ج ا ز‬
‫ب اب ت دو صلوں می ں کالم ہ وگا۔ ان دو وں حال وں می ں ا ت الف ک ی ا ج اے گا۔ (‪)۲‬‬
‫نق‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫پ ہلی حالت ئ ش خ‬
‫کرے اور اس‬ ‫ن‬ ‫ے اہ ل و ع ی نال اور اصحاب کے تمال سے مح ل م ی الد م ع د‬ ‫ے اور اپ‬ ‫ص اپ‬ ‫ن ی ہن کہ کو تی‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے۔ کی و کہ‬ ‫ے سے ج اوز ہ عکرے‪ ،‬ہ ی ک تسی گ اہ کا ارتعم کاب ثکرے ونی ہ ب دعت سی ہ کروہ ہ ہ‬ ‫ک ت قھاےپ یف ق‬
‫م دمی ن ہاء اسالم اور لماء ذوی االح رام کے ل سے اب ت ہی ں۔‬
‫ن ن‬ ‫ن‬ ‫غ مع ہ ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫دوسری حالت‬
‫ے واال‬ ‫ن‬
‫کاب کر نے کے سا ھ ایسا ی ر مولی ان مام و ا صرام کرے کہ چ دہ دی‬ ‫ن ت ی ہ کہل یاس می ں گ اہ کا ارت‬
‫اس پر ت ی ار ہ ہ و اور اسے مال کے کم ہ وے کتا ر ج ہ و۔‬ ‫اس کا دلن‬ ‫چ دہ و دے کن ث‬
‫ے‪:‬‬ ‫ل‬ ‫ن‬
‫ے مصن ف درج ذی تل د ی ل ب ی ان کر ا ہل ن‬ ‫اس ب ات کو اب ت کرے کے لی‬
‫ے ج یسا‬ ‫ی‬ ‫مال‬ ‫ے‬
‫ع‬ ‫ی‬‫ذر‬ ‫کے‬ ‫لوار‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫لی‬ ‫مال‬ ‫ے‬‫ع‬ ‫ش‬‫ی‬‫ذر‬ ‫کے‬ ‫أو‬ ‫ہ’’کہ کسیخدھو س اور دب‬
‫ے اص کر ج ب اس می ں خکم سی ری کےتعالوہ دف تاور جم تیرہ کے‬ ‫تی ہ ن‬
‫ج‬
‫صورت عور وں کے سا ھ ا ماع‬ ‫ب‬
‫لڑکوں اور خو ق‬ ‫ے ریش ن‬ ‫جسا ھ جگا ا ب اج ا‪ ،‬ب‬
‫ھوم کر‪ ،‬لپشٹ لپ ٹ کر اچ ن ا‪ ،‬وف ی امت کو ب ھال کر لہو و لعب می ں‬ ‫ھوم ن‬ ‫شغ‬
‫ے‘‘۔ (‪۳‬‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ئ)‬ ‫ن‬‫لہ‬ ‫ج ت م ول و ا ھی ا ف‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫اک‬ ‫سے‬ ‫لے‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫حو‬ ‫کے‬ ‫ماع‬
‫ت‬ ‫ا‬‫ن‬‫کے‬ ‫عور ف‬
‫وں‬
‫ب‬ ‫ج‬ ‫تن‬ ‫ج‬
‫ے کہ ہا عور وں کا ا ماع ھی‬ ‫کے ا ماع کے حوالے سے راے کا ا ہار کر ا ہ‬ ‫عور وں ت‬ ‫ی ارش‬ ‫اکہا‬
‫ن‬
‫ے‪:‬‬ ‫ٰ ہ‬ ‫الی‬ ‫ع‬ ‫اری‬ ‫اد‬
‫قب‬ ‫کہ‬ ‫حرام ہ وگا کی و‬
‫ے م ں اور ذکر و ت ئالوت م ں اپ نی ٓاوازوں کو ب ل دن‬ ‫ن‬ ‫(افل رٓان‪ ۱۴ :۸۹‬خ) ش‬ ‫ت‬
‫غ ی‬ ‫ی‬ ‫سرت می ں نگا‬ ‫ئ‬
‫و ہللا کا ی ہ رمان ھول کر و ی و م ئ خ‬ ‫ب‬
‫ے۔ ن ہ ہ ی کو ی ی رت م ن د مرد اسے پ س ن د‬ ‫ی ہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫کری ں۔ اس صورت می ں اس کی نحرمت کو ی ا‬
‫سجم ت‬ ‫ے۔ ہ اں ج ن کے دل گ اہ وں کیتٓاال ش‬ ‫کرسکت ا ہ‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫سے حرام و کج ا ع ب ادت ھ‬ ‫ے ہ وں وہ ا‬ ‫شکی قوشج ہ سے مردہشہ وچ ک‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫کے ا عار‬ ‫ی خ ی ری ض‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے ہ ی ں ج و ان کی طرف سے می ں ع طا کردہ‬ ‫ارے ی خ ی ری ے ب ہ ری ن ا عار کہ‬ ‫اسی ش ممن می ں فہ م ت‬
‫ں رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫اج ازت می ں ا ل ہ ی ق‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫امام اب و فعمر و بنن عالء کا ول‬
‫اکہا ی ی ہاں امام اب ت نو قعمرو ب ن عالء کا ول ب ی ان کرے ہ ی ں‪:‬‬
‫عالمہ اب ن الحاج کی م ی الد پر ی د ت ن ق ت ئ ف ت‬
‫المہ اب ن الحاج م ی الد پر ی د کرے ہ وے رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ع ف‬
‫نق ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫یﷺ‬
‫ت‬ ‫ل‬
‫المورد الروی ی مولد ا ن ب‬
‫ول ہی ں۔ ش‬ ‫م ی الد ش ریف کی اصلن ی تن ی لت والے زما فوں می ں کسی سے م ش‬
‫ق‬
‫نال فعلی ال اری اپ ی صن ی ف المورد الروی ی مولد الن ب یﷺ می ں ی خ امام عالمہ مس الدی ن‬ ‫عالمہ م‬
‫دمحم السخ اوی ے رمای ا کہ‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ق ن‬ ‫حاصل کالم‬
‫عم‬
‫ق ن احکام الہیقٰہ سے مزی ن اسالم کے اصول و وا ی ن ہ ر ترعی ل کی ب ی اد ہ ی ں۔ اور ی تہی دی ن اسالم‬
‫ے۔‬ ‫سے ممت از کر ی ہ‬ ‫ان ب اطنلہ ش‬ ‫ی‬ ‫ے ج و اسے ندوسرے مام اد‬ ‫ہ‬ ‫کی ح ا ی ت قو نصدا ت نکی وہ ب ی ن دل ی ل‬
‫ے وہ اں س ت رسولﷺ ب ھی ب ی اد ری عت ہ ی ں۔ اس ب اب‬ ‫الم وا یصن فن کی ب ی اد تا جحکام الہی ہ پتر ہ‬ ‫ج ہاں اسن‬
‫ل‬ ‫ج‬
‫ی ن کی م ر م عربی ک ب می ں سے عدم واز م ی الد ا ن ب یﷺ‬ ‫م‬ ‫می ںئہ م ے‬
‫ئ ض‬ ‫ف ن‬ ‫ے۔‬ ‫کا ج ا زہ ل ی ا ہ‬
‫ے ل‬ ‫عم‬ ‫ُ‬ ‫ئ‬ ‫ج‬
‫نم ی الد ا ن ب یﷺ کے عدم واز تپر اکہا ی‬ ‫ل‬
‫ے کار اور ب‬ ‫کےبدال ل وا ن ح ہ ی ں کہ وہ اس کو ب‬ ‫ح‬ ‫ع‬
‫ے اور اس پر وہ ان‬ ‫ے اور اس کے م لق کو ی کم ھی مو ود ہی ں۔ ی ہ ب دعت ہ‬
‫ج‬ ‫لوگوں ے رواج دی ا ہ‬
‫‪29‬‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫نت‬
‫ج‬
‫ے لے کر ھوم‬ ‫ٹ‬ ‫م‬
‫ے اور خ ک‬ ‫ھم‬
‫ے ی لوگ ڈھول ڈ ک‬ ‫ہ‬ ‫ح‬‫م‬
‫اصالح طقلب امور کو وج ہ ب اے فہ ی ں کہ ن قل م ی الد‬
‫موسم ٓا ت ف ش‬ ‫تکا‬
‫ے۔‬ ‫اصولوں کے الف ہ‬ ‫ت‬ ‫نہ ی ں ج و کہ ری عت کے‬ ‫سرود کی ای سی مح لوں کا ا ع اد کرے‬ ‫ض‬ ‫ج ھوم کر ر ص تو‬
‫ے اور پ ھر ان سارے‬ ‫س وطی ے ہل ص‬
‫ع‬‫ان ک ی ا ہ‬
‫ق‬ ‫ے ی ل سے ب ی‬ ‫ات کوامام ج الل الدی نن ی ب پ ق‬ ‫ب‬
‫سارے اع را‬ ‫انراض‬
‫ت‬
‫رسالتنسے‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫و‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫ل‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ات‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫عض‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ہ‬ ‫زما‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬‫ن‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬‫ن‬ ‫ھی‬ ‫واب‬ ‫ج‬
‫ش‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ات‬ ‫خ‬ ‫اع‬
‫حرمات سے لوث کرکے ب ہت ب ڑی ادا ی اور‬ ‫م‬ ‫م‬
‫تگو اگوں ن ئ‬ ‫ج‬
‫کرات‪ ،‬ب فدعاتناور م ق‬ ‫ت‬ ‫ے ب ر لوگ ن م ی الد کو‬ ‫ب‬
‫ے۔‬ ‫ے ادبی کا مظ اہ رہ کرے ہ ی ں۔ ی ہ ا ہا ی ا سوس اک اور اب ل مذمت ہ‬ ‫ب‬

‫فصل دوم‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫لک ئ‬
‫میالد النبیﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں جواز کے دالئل‬
‫‪۱‬۔ مولدالعروس از اب ن ج وزی‬
‫ہ ق کت‬ ‫ت‬ ‫لک ئ‬
‫ے۔ اب ن‬ ‫ب می ں مولدالعروسناز اب ن ج وزی ا م م ام ر ھ ی ہ‬ ‫ک‬ ‫م ی الد الن ب یﷺ پر ھی گ ی‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ج وزی ےتاس کت اب می ں والدت مصط یﷺ پر پ یش ٓاے والے وارق عادت وا عات اور‬
‫ف ً‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫عج ائ ب ات کو ص ی ب ین ک‬
‫ان‬ ‫ال‬
‫ت‬
‫نے مولدالعروس کے ام سے ج و رسالہ لکھا ہ‬
‫ےل ؐاس کی ر ی ب و ندوین ن موال ا دمحم ت‬ ‫اقب ن ج وزی‬
‫ے۔ اس رسالہ می ں اب ن ج وزی ج واز م ی الد ا ن ب ی کو درج ذی ل ع وا ات کے سا ھ‬ ‫ادری ے کی ہ‬ ‫داالحد ت‬
‫عب ف‬
‫ں۔‬‫ی ق‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ب ی ان‬
‫م‬
‫کے عج زات‬ ‫‪i‬۔ والدت کے و فتت‬
‫اب ن ج وزی رماے ہ ی ں‪:‬‬

‫‪30‬‬
‫ق‬ ‫ن‬
‫صاحب کت اب ے والدت ب اسعادت کے و ت کے معج زات کو ش اعری کی صورت می ں ب ھی‬
‫ف ت‬ ‫ت‬ ‫ض‬
‫ے۔ جس می ں وہ ح ورﷺ کی ش ان ب ی ان کرے ہ ی ں۔ رماے ہ ی ں کہ ج ب رسول‬ ‫ہ‬ ‫ش امل کت اب ک ی ا‬
‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ے تو ش ارق و غ ارب حالت جسود م ں ؐ‬ ‫ئ‬ ‫تش‬ ‫ن‬
‫ٓاپ کے م ت اق ہ وے۔‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫ف‬ ‫اکرمﷺ اس د ی ا می ں ی‬
‫ر‬
‫ض‬ ‫ف شت ن‬
‫الن ک ی ا۔ ج ن ت کے درب ان ر وان کو حکم ہ وا کہ وہ‬ ‫ت‬
‫ر وں ے سری و ج ہری طور پر ٓاپﷺ کی ٓامد کا اع‬
‫ن ن‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ئ‬ ‫ب ت‬
‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ے اکہ وہ اپ ی چ و چ وں سے مو ی ب رسا ی ں۔ پ ھر ج ب ح رت ٓام ہ ے ٓاپ کو‬ ‫ج‬ ‫ج ن ت عدن سے پرن دوں کو یھ‬
‫ن ن‬ ‫شن‬ ‫ن‬ ‫ن ُ‬ ‫ن ت‬
‫ت‬
‫صری کے محالت ک کو دی کھ ل ی ا۔‬ ‫ج م دی ا و ای ک ور ان کے سم سے کال جس کی رو ی می ں ا ہوں ے ب ت‬ ‫ج‬
‫ٰ‬ ‫ے روں کو ب کھ ر د ا اور ض ؐور کی ش‬ ‫ف شت ن ن‬
‫ے۔‬ ‫ے لگ‬
‫ن‬
‫ڑ‬ ‫ح‬ ‫ی‬‫ںس‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫وں‬ ‫ر‬ ‫گرد‬ ‫کے‬ ‫ہ‬‫ض رت ٓامن ؓ‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫پ‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫ح‬
‫ش‬ ‫ؐ‬ ‫ض‬ ‫ش‬ ‫ؐ‬ ‫ض‬
‫ماہ رب ی ع االول کو ح ور سے سب ت کی وج ہ سے ب ل ن د ان صی ب ہ و ی۔ ح ور کی ان ب ی ان کرے‬
‫ت‬ ‫ے ج و ھ سرت مدح م ں کہا ا ے ہ مارے خ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫رحمت‬ ‫کی‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫گی ہ‬ ‫ی‬ ‫کے لی چک م‬
‫سےفوالدت کا ب ی ان‬ ‫س ی دہ ٓامن ہ کی زب انن‬
‫ن‬
‫کہ‪ :‬ن ن‬ ‫س ی دہ خٓام ہ ےنرمای ا خ‬
‫ے اورترچ کرے کا ا عام‬ ‫‪i‬۔ والدت پر وش ہ و ف‬
‫المہ ابش ن ج وزی رماے ہ ی ں کہ‪:‬‬ ‫ع خ‬
‫ن‬
‫ت ئ ف ت‬ ‫ن‬ ‫‪ii‬۔ م ی الد کی و ی می ں ج ت‬
‫خش‬ ‫ں‪:‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫رما‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اب ن ج وزی م ی الد م ن اے پر اج ر کی ب ات ئکرے ہ‬
‫ے اور و ی‪ ،‬عزت اور‬ ‫ہ‬ ‫ے و وہ سعادت تم ن د خ‬ ‫ہ‬ ‫ے کو ی عم تل کر ا‬ ‫ﷺ کی والدت تکے لی‬ ‫ن‬ ‫خ ف ج و احمد مج ت ب ٰی‬
‫ح‬
‫ن می ں مو ی شسےنمرصع اج ئاور سب ز ل ب اس کے سا ھ دان ل ہ وگا۔ اس کو م ل‬ ‫ی ر و خ ر کو ئپ الے گا۔ ج ت عدن‬
‫ے۔ ن‬ ‫ح‬
‫ے ج ا ی ں گے۔ ہ ر مئ ل می ں ک ئ‬ ‫ے ج ا ی ں گے ج و ب یبان کر قے کے لی‬
‫واری ئحور ہ‬ ‫ے مار ہی ں کی‬
‫ص‬
‫خع طا یکن‬
‫ٓاپﷺ کی والدت کے ب اعث تب ھال ی عام پ ھ ی ال ی گ ی اورجس ے‬
‫ھ‬
‫ی‬ ‫ب ی راال امﷺ پر ٰلوۃ یھ ج فو‪ ،‬ی ی نصا ب ت‬
‫کری‬
‫ھی ٓاپﷺفپرشا تی ک د خعہش لوۃ ج ی ہ تم نارا رب م اس کو دس مر ب ہ ج زا دے گا۔‬
‫ت‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ح‬ ‫ی‬‫والدت پر رن وں کا و ی ٰاور سب‬ ‫‪iii‬۔ ف ش ت‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫سب ت ک ہ‬ ‫خ ن‬
‫کے‬ ‫ٓاوازوںش کو ب ل د ک ی ا۔ ت ن‬ ‫ے ب تارگاہ نداو دی می ں ی ح و نب یر و ی ل کے سا ھ خ‬ ‫رک وں ئ‬
‫اعث ج فہ م کے‬ ‫دمحمﷺ کی والدت کی و ی کے ب ق‬ ‫شف‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫سی‬ ‫سردار‬ ‫کے‬‫ت‬ ‫وں‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫اور‬‫دروازے نھول دئی ئ‬
‫ے‬
‫ٓاپﷺ تکی اعت کو ہ مارے ب ارے فمی ں ب فول ق‬
‫رما۔‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ تاے کری م! ہللا ع ٰالی‬ ‫ےگ‬ ‫دروازے ب د نکردی‬
‫ے کہ ب ی ب ہللاﷺ کا الں الں و ت‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫مکم‬ ‫حم‬
‫ج ب ل ٓام ہ ل وا و ہ ر ماہ ٓاسمان می ں کو ی م ادی کر ا ہ‬
‫ے۔ ف‬ ‫گزر گ ی ا ہ‬
‫ت‬ ‫یﷺ‬ ‫مصط‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫نؓ ف‬ ‫والدت ض‬
‫والدت ریئب ٓای ا و وہ پ یر کی‬ ‫ت ن‬ ‫ب وت ئ‬
‫ن‬ ‫ج پن‬ ‫رات‬ ‫ں‬
‫ب ی ن‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ار‬ ‫کی‬ ‫االول‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫رما‬ ‫ہ‬ ‫ٓام‬ ‫رت‬
‫ت‬ ‫تح‬
‫ے۔ می ں اسی‬ ‫ے اوپر اور ا ئ ی ہا کی پر ٓا سو ب لہا خ‬ ‫ہ‬
‫رات ھی جس می ں جم ھ پشر رعب طاری وا و می یں ے اتپ‬ ‫ئ‬
‫طرحش‬‫ے در تت کی خ‬ ‫ھ‬ ‫ج‬
‫حالت می ں نھی کہ دیوار ق ہ و ی اورش اس فسے ا نسی عور ی ںخ برٓامد و ی ں و ج ور کے مب‬
‫ہ‬
‫کے در ت کی طرح ہخ ی ں اور غان سے کس ورینکی و ب و‬ ‫ج‬ ‫کے م اب ہ س ی د ص وب ر‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ہ ی ں اور ع ب د م اف نکی ب ی ٹ ی ن‬
‫وں‬
‫ن‬ ‫ے ی رینں کالم کے سا ھ م ھ‬
‫ے سالم ک ی ا اور کہا‪ :‬وف و م ہ کرو۔ می ں ے ان‬ ‫ے۔ ا ہوں ً ن‬ ‫مہک رہ ی ہ‬
‫ٓاپ کون ہ ی ں؟فج وابتا ا ہوں ے کہا‪:‬‬ ‫کو کہا‪ :‬ض‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫رت ٓام ہ رما ی ہ یق ں کہ ت ت ن‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ح ق‬
‫ے می ری گاہ شسے حج غاب ا ھادی ا‪ ،‬و می ں ے زمی ن‬ ‫ی‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ٓا‬
‫ی ی ت ی‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫والدت‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ش ج بو‬
‫چ‬ ‫ن‬
‫ے ن ن کو م رق‪ ،‬م قرب اور ب ی ت ہللا کی ھت پر‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ڈے ن ھی د ٹھ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫اور ی ن ھ‬ ‫نکے م ارق و فم ش تارب کو فد کھا ف‬
‫ی‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ک‬ ‫ا۔ ر وں کو خ‬
‫اور ی ا وت نسی چغ و چ وں توالے ن‬ ‫ج‬
‫م‬
‫وج در وج ند ھا۔ سب ز رسگ کی ا گوں والے‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ےف ض‬ ‫نصب ک ی ا گ‬
‫نی‬
‫ے پ ی اس ے لب ہ ک ی ا و ای ک پر دہ‬ ‫ے ہ ی ں۔ ھ‬ ‫ہ‬ ‫کرر‬ ‫ٰی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ز‬ ‫لف‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫ھرد‬ ‫کو‬ ‫ا‬ ‫پر دوں‬
‫‪31‬‬
‫ت‬
‫م‬‫ج‬ ‫ک‬ ‫ن گ ن ت‬ ‫ف ت‬
‫رف‬
‫ے دی ا و ی ہ ب ن‬ ‫ہ‬
‫رے پ اس ٓای ا فاور ب ال لشو ی ھ‬ ‫سے پ ا ی تکا ھو ٹ نھا۔ می ت‬ ‫اس س ی دشمو ی می ں‬ ‫جس کے پٹ‬
‫ش‬
‫سے زی ادہ ھ ن ڈا اور ہد سے زی ادہ ی ری ں ھا۔ می ں ے پی ل ی ا و می را دل رحاں و اداں ہ وگ ی ا اور می ں ے‬ ‫ن‬
‫ے رب کی حمد ب ی ان کی۔(‪)۱۳‬‬ ‫اپ‬
‫ف‬ ‫ث ن قئ‬ ‫الم‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫حا‬
‫ے دو ہاں ض رت دمحم مصط‬ ‫ئ‬
‫کے‬‫یﷺ کے م تی الد ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ٓا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ض عرب ممالکتمی ں تٓا م ی‬
‫حد‬ ‫مہ‬
‫ےو‬ ‫الد پ اک کا مہی ہ روع ہ و ا شہ‬ ‫سی ک ب صن ی ف کی ہ ی ں۔ اہ ل عرب می ں ج ب م ی ق‬ ‫ؐ‬ ‫مو ف وع پر ب ہت‬
‫ٓاپ کے اوصاف حم ی دہ اور والدت ب اسعادت کے وا عات کا ذکر ب ڑے ذوق وق اور‬ ‫محا نل نم ی الد می ں ت‬
‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫والہا ہ ا قداز سے کنی ا ج ا ا ہ‬
‫اور ب رگزین دہ ب ن دوں کاقذکر کر ا نب ھی‬ ‫ب‬ ‫وب‬ ‫ہللا کے حبم‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫پ ت چ ل ہن خ ق‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫سے‬ ‫ے‬‫ع‬ ‫رٓان و س ت ن م ل‬
‫طا‬ ‫کے‬
‫ے قصالح اور م رب ب دوں کا‬ ‫ے ود رٓان جم ی د می ں ج ا ج ا اپ‬ ‫ے۔ خہللا ع ٰالی ق‬ ‫ے ب ل نکہ ہللا عکی س ت ہ‬ ‫ع ب فادت ہ‬
‫کی‬ ‫ح‬
‫ے اور رٓان م ان کی‬ ‫ج‬
‫ے۔ ا ب ی اءن ہم ال الم تکا ذکر اص طور پر رٓان جم ی د می ں مو ود ہ‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ذکر رمای ا ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫ق‬‫رت‬ ‫والدت اور ی‬
‫س‬
‫ب‬
‫سے ج اری وا و ی ہ ٓاپﷺ کی ھی س ت‬ ‫ہ‬ ‫مصط‬
‫یﷺ کی زب ان ا دس ق‬ ‫اسین طرح ض رٓان‬
‫والدت ب اسعادت کے وا ض عات اور اس کی ج زئ ی ات کا ب قی ان ن ہ صرف‬ ‫ورﷺ کی ف‬ ‫ہ نوگی۔ اس ب ا پر ح ن‬
‫ب‬ ‫مصط‬
‫والدت سے‬ ‫والدت کے و ت‪ ،‬خ‬ ‫ے۔ ح ورﷺ کے ث‬
‫ن‬ ‫ہ‬‫قیﷺ ھی ن‬ ‫ے ب لکہ س ن ت‬ ‫س ت الہٰی ہ ہ‬
‫ے ب کہ ب اعث ی رو‬ ‫ل‬ ‫ے اورب ٓاپﷺ کی ز دگی کے وا عات کا ذکر کر ا ہ صرف ب اعث اج رو واب ہ‬ ‫پ ہل‬
‫ے۔‬ ‫برکت ھیق ہ ف‬
‫ن‬ ‫س‬
‫نج الل الدی ن ی ضوطی‬ ‫‪۲‬۔ حسن الم صد ی ل ا مولد از ؒ امام‬
‫ل‬ ‫عم‬
‫نحسنن‬ ‫ے قم ی الد کے مو نوع پر کی ہ ی ں۔ ان می ں سے زیر ظ ر رسالہ ’’‬ ‫ن‬ ‫سن‬
‫وطی‬ ‫ق ف امام ج الل الدی ن ی‬
‫ےش‬ ‫ن‬‫ے۔ اس کت ن اب می ں عالمہ صاحب ے اپ‬ ‫لے کا حصہ ب ای ا ہ‬ ‫ےم ا‬ ‫ش‬ ‫پ‬‫ا خلم صد ینعمل المولد‘‘& کو ہ م ے ا‬
‫امام صاحب ے ی خ‬ ‫ں جش‬ ‫اب مین‬ ‫ے۔ زیر ظ ر کتف ن‬ ‫ہ‬ ‫تم صوص ا داز می ں م ی الدفاور ناس کی رعی ح ی ث ی ت کو ب ی ان ک ی ا‬
‫ے۔ جس می ں اکہا ی ے ن م ی الدکو محض‬ ‫اکہا ی قکے رسالے المورد کا رد ک ی ا ہ‬ ‫اج الدی ن المعمعروف ب ہ ش‬
‫ت ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ے ل لوگوں کا ی وہ رار دی ا ہ‬ ‫ب ی کار اور ب‬
‫ے ہ وے‬ ‫س وطی م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز کے ب ارے می ں سوال کا ج واب ید‬ ‫ف ت امام ج الل الدی ن ی‬
‫ت قرماے ہ ی ں‪:‬‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ی ق‬‫ت‬ ‫الد‬ ‫ری ب ع ی د م ی‬
‫س‬
‫ے جس می خںش خلوگ مع وکر ب در ث ہولت ئرٓان‬‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ص‬
‫درا ل ای ک ضا سی ری ب م ظسرت و یسہ‬ ‫تم ی الد پ اکت‬
‫ف‬
‫ث و ٓا ار می ں ٓا ی‬ ‫ج‬
‫ورﷺ کے ہور نکے ل لہ می ںتو و ب ری اںشاحادی ئ‬ ‫س‬ ‫ئ‬ ‫اور نح ظ‬ ‫کری م کی خالوت کرے ہ ی ں ن‬
‫ح‬‫م‬ ‫ش‬
‫کےخ‬ ‫ےت ہ ن ی ں پ ھرترکاے لئ‬ ‫عادات اور ا ی اں اہ ر ہضو ی ہ ی ں‪ ،‬ا قہی ں فب ی ان کر ض‬ ‫ت‬ ‫ہ ی ں اور ج تو خ ب‬
‫وارق‬
‫دعاے ی ر‬ ‫ے قہ ی ں اورن‬ ‫ت حسب رورت اور بل در ک ای ت ماح رس اول کر ن‬ ‫ے۔ وہ‬ ‫وان چ ھای ا ج ا ا ہ‬ ‫تٓاگے دسنر ن‬
‫ے نوالی ی ہ‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫د‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫لہ‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫د‬ ‫ں۔‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫وا‬ ‫کو‬ ‫ھروں‬ ‫گ‬
‫ج ض‬ ‫ع‬ ‫ل ی م‬
‫م‬
‫ث‬ ‫ی ت ی ی ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ہ‬
‫ہ‬ ‫نپ ج‬ ‫ے اپ ت‬
‫ے‬ ‫کقرکے اپ‬
‫اس می ں ح ور ب ی‬ ‫ے کہ ت‬ ‫ے گا‪ ،‬اس ظلی‬ ‫ے جس کا ا مام کرے والے فکو واب لن‬ ‫دعتشحس ہ ہ‬ ‫ری ب سع ی د‪ ،‬ب‬
‫ع‬
‫ے۔‬ ‫تکری مﷺ کی ظ م‪ ،‬ان اور ٓاپ کی والدت ب اسعادت پر رحت و ا بساط کا ا ہار پ ای ا ج ا ا ہ‬ ‫ی‬
‫ف ن‬ ‫ت نق ن‬ ‫ہت‬ ‫ا یر خ م ی الد‬
‫ظ‬
‫م‬
‫داء ارب ل کےت کمران ل طان ف ر ے کی‬ ‫س‬ ‫ح‬ ‫م ینالد پ اک کو مروج ہ ا مام کے سا ھ معع د کرے کی اب ت ش‬
‫ے۔ اس کا مار عظ ی م المر ب ت ب ادش اہ وں اور ی اض امراء‬ ‫ری ب ن نزی ن الدی ن لی ہ‬ ‫جس کا تپورا ام اب و سع ی دنکوکب ئ‬
‫ئ‬ ‫ف ت‬ ‫ت‬ ‫اس ےئک ی اور ی ک ق ئ‬ ‫ے۔ ن‬ ‫ہ‬ ‫می نں ہ و ا‬
‫س ون کے دامن می ں ج امع مظ ری عمی ر کرا ی۔‬ ‫ں تا م کی ں‪ ،‬کوہ ا ی‬ ‫ے اور ی ادگاری‬ ‫ب‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫کار امے ھیث سرا ج ام دی‬
‫ش‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫اب ن ک ی ر ان کے بنارے می ں ھ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ے‪:‬ن‬ ‫ک‬
‫س ب ط اب ن جالفوزی ے مراۃ الزمان می ں شل ھا ہ‬
‫اک می ں ری ک ہ وے واغلے ای ک ص ب خے ب ی ان تک ی ا کہ اس ے‬
‫ت‬ ‫الد پ خ‬ ‫کے ہ اں م ی ن‬ ‫خ ش سل ط شان مظ ر ت خ‬
‫ٹ ود مار کشی ا کہ اہ ی دس ر وان می ں پ ا چئسو ہ ب کری تاں‪ ،‬دس ہ زار مر ی اں‪ ،‬ای ک الکھ ٓا ورے اور یس ہ زار‬
‫ے۔‬ ‫ے پڑے ھ‬ ‫ق‬ ‫وکرے ی ری ں پ تھلوں سے لدے ہ و ت‬
‫ڑے ج ی د علماء کرام فاورت ج ل ی ل‬ ‫مز د لک‬
‫اں ب ڑے ب ظ‬ ‫کے ہ ف‬ ‫ب پر‪ ،‬سل ط نان ت ت‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫کی‬ ‫اک‬ ‫پ‬ ‫الد‬‫خ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ت‬‫ھ‬ ‫ف ی‬ ‫ق‬
‫ے ہر سے لے کر ج ر ک‬ ‫ال در صو ی اء ٓاے‪ ،‬ج ہی ں وہ لعت و اکرام ش اہ ی سے واز ا ھا صو ی اء کے لی‬
‫‪32‬‬
‫ت ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫نف ن ف‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫ب‬
‫خ‬
‫ن ھ ل کر وج د کر اخ ھا۔ ہ ر سال‬ ‫ک و ا اور صو ی اء کے سا‬ ‫ہ‬ ‫مح ل سماع ت و ی‪ ،‬جس نمی خں وہ تس یس رین‬ ‫ہ‬
‫ے ای ک مہمان ان ہ نم صوص کر‬ ‫ے اس خ‬
‫ت‬ ‫سےنٓاے والوں کے لی‬ ‫ک‬ ‫م ی الدت پ اک پر ی ن الکھشدی ار نرچ کر ا۔ تب اہ ر‬
‫اففسے ٓاکر‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫اطراف‬ ‫لف‬ ‫ے والے خلوگ ب الت لتحاظ و مر ب ہ‪ ،‬م ت‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫تس می ں ہ ر عب ہ ز دگی سے عل‬ ‫ٹرکھا ھا‪ ،‬ج‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫دو الکھ دی ار دی ہ ت‬ ‫رچ ہ یوف ا ھا۔ ناسی شطرح ہ ر سال ق‬ ‫ے۔ اس مہمانن ا سہ پنر ہ ر قسال ای کت الکھ دی ار ش‬ ‫ھہرا کر ف ن‬
‫ے‬ ‫اور حتج از م دس کے راس‬ ‫گہدا ت ت‬ ‫نہ ا کرا ا اور تحرمی ن ر ی نن کی ن خ‬ ‫ے م لمان ی دی ر‬ ‫دے کر ر گی وں سے اپ‬
‫ت‬ ‫ے ی شن ہ زار دی ار ساالتہ رچ ک ی ا کر ا ھا۔‬ ‫ے) پ ا ی ہ ی ا کرے کے لی‬ ‫م‬ ‫می ں (حج اج کرام قکے لی خ‬
‫ے ج اے‪ ،‬اس کی ب یوی رب ی عہ خ ا ون ب ن ت‬ ‫ے ج و پو ی دہ طور پقر کی‬ ‫ہ‬ ‫الوہ‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫رات‬ ‫ی ہ ان صد ات و ی‬
‫ق‬ ‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫نایوب ج و سل طان‬
‫ش‬ ‫ہ‬
‫کے‬ ‫ے کرب اس (کھدر کی سم ن‬ ‫ے کہ ناس کی تمی تض مو ک ت‬ ‫ی) کی م ن ی رہ ہھی۔ ب ی ان کر ی ہ‬ ‫اصرالدی ن (ایوت ت‬
‫کی ہ و ب‬
‫ک ب ار می ں ے‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ھی۔‬ ‫ن‬
‫ی ھینو پ ا چ در م سے زی ادہ الگت کی ہی ں ہ و ی ق‬ ‫ج‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫کپنڑے) ت ن ق‬
‫ے پ ا چ درف ق م کا کپ ڑا ہن کرخب ا ی صد ہ و ی رات کردی ا‪ ،‬اس سے ہی ں‬ ‫ا تہی ں روکا و ا ہوںتے کہا کہ می رے لی‬
‫ے کہ می ں یضم ی کپ ڑے پ ہ ن ا کروں اور کسی ی ر اور مسکی ن کو ی ر ب اد کہہ دوں۔(‪)۱۵‬‬ ‫ب ہ رہ‬
‫ہ‬ ‫پ‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫وع پر ف لی کت خاب‬ ‫کے مو ن‬
‫ن‬ ‫م ی الد پ اک خ‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ھا‬ ‫ل‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ذکرے‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫دح‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫طاب‬ ‫ل‬ ‫وا‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ظ‬ ‫حا‬ ‫ے‬ ‫ان‬ ‫اب ن ل ف‬
‫ک‬
‫ف ن ن اکہا ی کے رسالہک تکا رد‬
‫ف‬ ‫ے ہ ی عں‪:‬‬ ‫ے رسالے م ں فل‬ ‫اکہا ی اپف ق‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ی ت‬
‫اب وال س ۃ۔ ئ(‪)۱۷‬‬ ‫لت وب العلہ ال و ی ق ال ا لم لہذا المولد اصال ی کت ن‬
‫ص‬
‫ن’’می رے لم کے م طابق اس م ی الد کی کت اب و س ت می ں کو ی ا ل‬
‫ن ت‬ ‫نف ع نف‬ ‫ؒ ف ت‬ ‫ے‘‘۔‬ ‫ہی ں ہ‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫اس کے رد می ں امام ج الل الدی ن ی وطی رماے ہ ی ں کہ ی لم ی و ود کو لزم ہی ں و اس کا‬ ‫س‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ف‬
‫ل‬ ‫ف‬ ‫واب ب ھی ماسب ق کے ب ی ان‬ ‫ج ظ‬
‫الم سے اس‬ ‫ص‬ ‫ع‬
‫ے تکہ مزی د ی ہ کہ حا ظ اب وا نل اب ن حج ر ے س ت ب وی ہ لی صاحب ہا ال لوۃ والس ق‬ ‫سے اہ ر ہ و‬
‫س‬ ‫ص‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫صگ ی ا ہ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ے۔ ان کا ول ہ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫ے اور میثں ے ھی ای ک دوسرین ا ل ن ب ط کی ہ‬ ‫غ‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫کی ای ک ا ل کا قاس خ راج ک ی ا ہ‬
‫کالون۔ (‪)۱۸‬‬ ‫خ ہش‬ ‫اال‬ ‫ھا‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫ھوۃ‬ ‫و‬ ‫طالون‬ ‫لب‬ ‫ا‬ ‫ھا‬ ‫احد‬ ‫دعۃ‬ ‫نٔاما ولہ‪ :‬ب یل ھو ب‬
‫ے ل لوگوں اور وا ات‬ ‫عم‬ ‫ف’’اینک ا سی ب ن‬
‫نکار اور ب‬ ‫ےبی‬ ‫ے جس‬ ‫دعت ہ‬
‫تق‬ ‫ے‘‘۔ن‬ ‫روی کرے والوں ے رواج شدی ا تہ‬ ‫ش سا ی ئکی پ ین‬
‫ہللا کی‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف را ج کرصے واال ای ک عادل و عالم تبضاد ہ اہتھا جتس ےلخم ی الد پ اک کو ربت ت‬
‫الی‬
‫ع‬
‫م ی الدن ری‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫پ‬
‫ے۔ ب ا صوص اب ن دہ ی ہ کو و ا ضا س د ٓای ا‬ ‫ت سےنم ای ا اور لضماء و لحاء ب ال کراہ ت اس می ں حا ر وے ھ‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ماء کرام (ج و اس می ں حا ر ہ وے‬ ‫ف کی ‪ ،‬ی ہتعل ت‬ ‫ے اتی ک کت اب نصن ی ن‬ ‫کےم لی ت‬
‫ج‬ ‫تکہ ا ہوں ے اسضمو توع پر اس ئ س‬
‫ے۔‬ ‫ے اور اس کا ا کار ہی ں کرے ھ‬ ‫ے ھ‬ ‫ے اسے ج ا ز ھ‬ ‫ے) اس نسے را قی ھ‬ ‫ھ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫دعت‬ ‫سام‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫زد‬ ‫کے‬‫ن‬ ‫ماء‬ ‫ل‬ ‫ع‬
‫ش‬
‫ووی ے ن’’ ہذی ب االسماء وال ات‘‘ م ں لکھا ے کہ ری ق‬ ‫غ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫عت می ں ب دعت اس وپ ی د اور و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫کت‬
‫ے ہ ی ں ج و ب ی کری مﷺ کے م ب ارک عہد می ں ن ہ ہ و۔ اس کی دو می ں ہ ی ں۔‬
‫س‬ ‫یا ج اد چ یز کو ہ‬
‫‪۱‬۔ ب دعت حقسن ہ‬
‫ن ق‬ ‫ق‬ ‫ش‪۲‬۔ ب دعت ب ی حہ(‪)۱۹‬‬
‫س‬
‫ی خ عزالدی ن ب ن ع ب دالسالم ’’ا واعد‘‘ می ں ب ی ان ک ی ا کہ ب دعت کی پ ا چ می ں ہ ی ں۔‬ ‫ل‬
‫‪۱‬۔ واج ب ہ‬
‫‪۲‬۔ م تحرمہ‬
‫‪۳‬۔ مس حب ہ‬
‫‪۴‬۔ مکروہ ہ‬
‫ت(‪)۲۰‬‬ ‫‪۵‬۔ فم ب احہ‬
‫ق ش‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ع‬
‫مزی د رماے ہ ی ں‪:‬‬
‫دعت کو واعد رخی عہ پر‬ ‫ےتکہ ٓاپ قب ت‬ ‫ی ی ہ‬‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ہ‬ ‫طر‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫لوم‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫’’اس‬
‫تپ یش کری قں‪ ،‬اگر تواعد ای ج اب می ں دا ل و و واج ب ہ‪ ،‬واعد حری م می ں دا ل و‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫و محرمہ‪ ،‬واعد اسح ب اب می ں‬
‫‪33‬‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ق‬ ‫ئ ت ت‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ف‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ل و و شکروہ ور ہ م ب اح ہ‬ ‫ہ‬ ‫ے و ُم نسْ قحَب َّہ اورش اگر واعد کراہپ نت نمی ں دا ت‬ ‫ب ہق ٓا ن‬
‫ے۔ وہ‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫سے‬ ‫عی‬ ‫ا‬ ‫امام‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫د‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫عی‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ف ت امام ی ی‬
‫ن‬ ‫ئ ض ئق ن‬ ‫ئ ت‬ ‫ت‬ ‫رماےیہ ینں‪ :‬ی ن ئ‬
‫ے ن ہ ھی اور اگر ہ وگ ی و ھی اس می ں کو ی م ا ہ ہی ں‪ ،‬اس ب ی اد پر‬ ‫ب‬ ‫ے ج وخپتہل‬ ‫ع ی ی ہ ا سیش ؒچ ی ہ‬
‫ز‬ ‫ی‬ ‫ف‬
‫ئ‬ ‫امام ا تعی کا کالم م ہ وا۔‬ ‫جسکا ب ی ان گزرا۔ ظ‬
‫ے م ب دعتف‬ ‫ہ‬ ‫ے جس‬ ‫ے۔ ن ہی وہ ب دعت ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ہ‬
‫ے کہ م ی الد م ب اح و ج ا ز و کت ا ہ‬ ‫ق‬ ‫سےن اہ ر و ا ہ‬ ‫ہ‬ ‫تاس‬
‫ں کتن اب وت س لت‪ ،‬اج ماع امت می ںن ک قسی کی خم اشل ت‬ ‫ے جس می ت‬ ‫سم‬ ‫وہ‬ ‫کی‬ ‫دعت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ےہ ںی‬ ‫نمکروہ ہ ک‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫کن ب عد می ضں اس کا ا ع اد ہ وا۔ رط ی کہ‬ ‫ئما تہ ب وی می ںمح فو ہی ں ھین ی ن‬
‫ت‬
‫ےج وز‬ ‫ں۔ ب خس ی ہ ایشک ای سی کی بہ‬ ‫ب‬ ‫ہی‬
‫ے و م ی مالد کی ل می ں کھا ا کھال ا اور ح ورﷺ کے اوصاف و‬ ‫تچج ن‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫کام‬ ‫رع‬ ‫ن‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫ھی‬ ‫ئ‬
‫سی‬ ‫خک‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ف‬
‫ے۔‬ ‫ے ا ماع کر ا حمود و حسن ہ‬ ‫ذکرہ کر ؒے کے لی‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫صا ل کا‬
‫ے‪:‬‬ ‫عی کی ع ب ارت می ں ہ‬ ‫امام ا‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ے‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫م الد ر خ وش ی کرن ا مس‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ی پ‬
‫ےہی ں‬ ‫ے ہ وے دل ی ل ید‬ ‫س وطی ی خ اج الدی ن اکہا ی کی م ی الد پر ی د کا ج واب ید‬ ‫امام ج الل الدی ن ی‬
‫ت‬ ‫کہ‬
‫ن‬ ‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫نامام ی وطی صاحب اس د ی ل کا واب ی ہ دی‬
‫ات‬‫ض‬ ‫سب سےبڑی شعمت اور ٓاپﷺ کی و‬ ‫ے ن‬ ‫مارے لی‬ ‫والدت م ب ارکل یہ ش‬ ‫ب ی کری مﷺ کی‬
‫ئ‬
‫عمت پرح کر و حمد اور م یص ب ت پر صب ر و ر ا اور‬ ‫ک‬ ‫سب ئ‬
‫ےن‬ ‫ے کن قری عتعق ق‬ ‫سے ب ڑی ت لی ف ہ‬ ‫ے ف‬ ‫ہ خ فمارے لیت ق‬
‫ن ش پر ن‬ ‫سی قکی پ ی دا‬ ‫ے یہ ن‬‫ک‬ ‫ف‬
‫ح‬
‫غ‬
‫والدت کے و ت ی ہ کرقے ظکا کم دی ا ہ‬ ‫ل‬ ‫ے یسا کہ‬ ‫ج‬ ‫کی ل ی ن ظرما ی ن‬
‫ہ‬ ‫خا ش اء ش‬
‫کے و ت ا ہارن فم کی ل م ع د کرے اورکھا ا‬ ‫م‬ ‫کنغکسی کی نموتن‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ام‬ ‫کا‬ ‫ہار‬ ‫ا‬ ‫کے‬
‫ن‬ ‫کر‬ ‫نو‬ ‫و ی‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ح‬
‫ہ‬
‫ے۔ اس سےم لوم وگ ی ا‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫سے ھی نم مع رمای ا‬
‫س‬ ‫ے۔ ب لکہ ٓاہ و اں اور وحہ کرے خ ش‬ ‫کھالے کان کم ہی ں دی ا ہ‬
‫ے ہ کہ ٓاپﷺ‬ ‫کہ اس مہی ہ می ں سرکار دونعالمﷺ کی والدت ب اسعادت پر و ی کر ا حسن و حمودہ‬
‫کے وصال حزن و مالل کر گفا۔‬
‫ف‬ ‫ت‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫خ‬ ‫عالمہ اب ن الحاج کی م ی الد پر گو ن پ ن‬
‫الصہ ی ہ‬ ‫س کا ن‬ ‫ے۔ ج ظ‬ ‫ن‬ ‫اب المد ج تل می ں م ی الد پ اک پر ن گو کی ہ‬ ‫امام اب فو ع ب دہللا ب ن الشحاج ے ا یشکت‬
‫لوس‪ ،‬ج لسہ‪ ،‬عرہ اور ھ ڈا) کا ا ہار کر ا اور‬ ‫ج‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫ماع‪،‬‬
‫ےا ف‬ ‫ے کہ ناس بمح لن می ئں م ی الد ریف کے ش عار ( ی نس‬
‫ج‬
‫شہکر خ‬
‫ں۔‬
‫یف ت‬ ‫ہ‬ ‫مذمت‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫واحش‬ ‫و‬ ‫کرات‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫مدح‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ال‬ ‫ف‬‫ا‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫دی‬ ‫داو‬
‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫حت‬ ‫)کہ‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ث‬ ‫مولد ( ہ ی ص‬ ‫ف‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ا ن ا جحاج ص‬
‫ی مہ ن‬ ‫ی ی ہ‬ ‫ی‬ ‫گت ی‬ ‫ب ل‬
‫ے سے‬ ‫ی‬ ‫زرگ‬ ‫ب‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫سماع‬ ‫ف‬ ‫و‬ ‫طرب‬ ‫ٓاالت‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫اب‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫سے‬ ‫گو‬ ‫اس‬ ‫کی‬ ‫صاحب‬ ‫ئ ن ع ن‬
‫المہ‬
‫ع‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫رب العزت ے سردارخدو ج ہاںﷺ کو پ ی دا رما کر م پر احسان ظ تی م‬
‫ئ‬ ‫ع‬ ‫س می ں ہللا ث‬ ‫ہ‬
‫فکو ی سبہ ت ہی ئں ج‬
‫ش رمای ا۔ ئمی ں چ اہ‬
‫عالی کا‬ ‫عمت پرف ہللا ت ٰ‬ ‫رات نکے ذری عہ اس ظ ی م ن‬ ‫رت سے ع ب نادت و ی‬ ‫ے کہن م اس می ں ک ن‬
‫کر ب ج ا ال ی ں۔ ناگرچ ہ ب ی کری مﷺ نے اس مہی ہ می ں دیش فگرق ہی وں سے نزی ادہ ع ب ادت ہینں رما ی و اس‬
‫م‬
‫ےنامت پر‬ ‫ک‬ ‫ے یک و کہ ٓاپﷺ‬ ‫رحمت و ئ ل یت ہ‬ ‫صرف ب ی کری مﷺ کی اپ ی امت پتر ف‬ ‫فکا سب ب ن‬
‫ے کے‬ ‫روزہ ر ھ‬‫ئ ف‬ ‫کے دن‬ ‫ے۔ کن ج شب پ یر ت‬ ‫رک رمادی‬ ‫ف‬
‫اعمال ض‬ ‫ہت سے‬ ‫رض ہ وج اے کے ڈر تسے ن‬
‫ب‬
‫ے اس ہی ہ کی ی لت کی طرف ا ارہ کرے ہ وے رمای ا‪:‬‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ب ارے می ں سوال ک ی ا گ ی ا و ٓاپ ف‬
‫ولدت ی ہ۔(‪)۲۵‬‬ ‫ئ‬ ‫ذاک یوم‬
‫مہ ن‬ ‫ن‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ے‬
‫مہ ن ہ ت‬ ‫دن‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ش‬ ‫دا‬ ‫ہ’’ی ہ می ہ ئ ی‬
‫پ‬ ‫ری‬
‫رحمت‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫اس ر ؐ‬
‫ٓاپ‬
‫ے می ں ش‬
‫روز‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ر‬
‫ے کا اح رام کری ں کی و کہ اس ی‬
‫سے‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ٓادم‬ ‫اوالد‬ ‫ے۔‬
‫ے کہ م اس ی‬
‫عادت‬ ‫ا‬ ‫والدت‬
‫می ں چ ا ی‬
‫الم فکی‬ ‫ع‬
‫مح‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫بس‬ ‫ش‬
‫ن کی اعت کے لب گار ہ وں گے۔‬ ‫ط‬ ‫ف‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ویﷺ ہ‬ ‫رمان ب ن‬
‫)‬ ‫‪۲۶‬‬ ‫(‬ ‫‪-‬‬ ‫ی‬ ‫لوا‬ ‫حت‬ ‫ہ‬ ‫ٓادم وال خ ر‪ٓ ،‬ادم ومن دون‬ ‫ولد‬ ‫ا ا سی ف‬
‫د‬
‫ؑ‬ ‫ض‬
‫سردار ہ وں ح ن رت ٓادم اور ان کے‬ ‫ن‬ ‫ت’’ب ال خ ر کہتق ا ہ وں کہ می ں اوالد ٓادم کا‬
‫ئ‬ ‫ے ہ وں گے‘‘۔‬ ‫کے تدن نمی رے ج فھض ڈے کےیچ‬ ‫ک‬ ‫مام لوگ ی امت‬
‫ف‬
‫ض‬
‫ہ‬
‫دنتٓاپﷺ کی والدت و ی۔‬ ‫ے کی و کہ اس یخلت وا فلےت‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫روزہ‬ ‫دن‬ ‫ق‬ ‫کے‬ ‫ر‬‫ی‬ ‫پ‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح ض‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫ح ورﷺ ی لت والے او ات می ں زی ادہ ع ب ادت و ی رات رماے ھ‬
‫‪34‬‬
‫ؓ‬ ‫ج‬
‫ف ت‬ ‫مہ ن‬ ‫فض‬ ‫ض ن‬
‫ے کہ اب ن ع ب اس‬ ‫ے می ں زی ادہ سخ اوت رماے ی س‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫لت‬ ‫ی‬ ‫اکرمﷺ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ح ور‬
‫ف‬ ‫خ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫سے روای ت ہ‬
‫ض‬ ‫ج‬
‫کان رسول ہللاﷺ ٔا ود ال اس ب الی ر و کان ٔا ود مای کون ی رم ان۔(‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫خ‬ ‫خ ت‬ ‫‪)۲۷‬‬
‫ے ب ا صوص رم ان الم ب ارک‬‫ض‬ ‫ل‬ ‫تادہ تس ی ھ‬ ‫سے زی‬ ‫’’رسول ہللاﷺ سب ف‬
‫ے‘‘۔‬ ‫می ں قٓاپ اور زی ادہ سخ اوت رماے ھ‬
‫ن‬ ‫ن ن‬ ‫عالمہ اب ن الحاج کا مو ف‬
‫ص‬ ‫اب فن الحاج ئ‬
‫ے کہ ا ہوں ے م ی الد پ اک کی مذمت ہی ں کی ب لکہ ان‬ ‫کے کالم کا حا ل ی ہ ہ‬
‫محرمات وش واحش کیئبرا ی کی ج و‬
‫نن‬ ‫شن‬ ‫ت‬ ‫ن غ ئ یک ت‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫گ‬‫اس می ں امل ہ و‬
‫ےسکہ ان کے زدی ک م ی فالد م اے‬ ‫ف نکو ب ظ ر ف ا ر د ھی ں و ی ہ معلوم ہ و ا ہ‬ ‫کے مو ت‬ ‫حاج ق‬ ‫ئ قاب ال ن‬
‫ے می ں ی خ االسالم حا ظ العصر‬ ‫س‬
‫ے۔ اس ل ل‬ ‫ںف ضکو ی ب احت ہی ںب ب احت و ی ت ت اسدہ کی وج ہ تسے ہ‬ ‫می ل‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ج‬
‫سے ھی سوال ک ی ا گ ی ا و وہ واب دی‬ ‫اب وا ل اب ن حج ر ث‬
‫ص‬ ‫ن‬ ‫وت‬ ‫حدی ث سے م ی الدکا ب‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ب‬
‫ن حج ر ے حی قن کا حوالہ ثھی دی ا ہ ت‬ ‫ح‬‫ی‬ ‫ن‬
‫نن خ‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫اس کے ب عد اب ق‬
‫الف‬
‫ت‬ ‫ے کہ ی الد ا ن ب ن یﷺ م ا ا‬
‫ج‬
‫م‬
‫ہ‬ ‫عالمہناب ن حج ر عس ل یال ی کے اسمحول سے ی ہ اب ت و ت ا ہ‬ ‫ف‬ ‫ش‬
‫عالی کا‬ ‫ہ‬ ‫ے کن م ی تالد کی نل می نں ایس‬ ‫ش ری عتن کام ہی ں‬
‫ے ن سے ہللا ٰ‬ ‫ک ی محدود رہ ا چ ا یئض‬ ‫کاموں ن‬ ‫ق‬ ‫ےن‬ ‫ئ‬‫ہ‬
‫کر ادا کر ا ہ نی سجم ھا ج اے ج‬
‫سرور دو عالم ح رت دمحمﷺ کی‬ ‫خ‬ ‫الوت کر ا‪ ،‬کھا ا کھال ا‪ ،‬صد ہ کر ا اور‬ ‫ب‬ ‫کہ‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫اولی کو ی کام ہ و۔‬ ‫الف‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫کروہ‬ ‫ے ج و حرام ی ا م‬ ‫ی‬ ‫سے چ ن ا چ اہ‬ ‫ن‬ ‫کاموں‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ان‬
‫ٰ‬ ‫ق‬ ‫سرکار دو ض‬
‫ن‬ ‫عالمﷺ کا ود ع ی ہ کر ا‬
‫ص‬
‫ے ای ک ا ل کا است ن ب اط ک ی ا‬ ‫س وطی ے ھی م ی الد کے ج واز کے لی‬ ‫ب‬ ‫ن ں ضامام ج نالل ؓ الدی ن ی‬ ‫اسیہق من می‬ ‫ب‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ف‬‫ہ‬ ‫ا‬‫ق‬
‫ئ نع ق‬‫ی‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫روا‬ ‫سے‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫رت‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ے۔ امام‬ ‫ہ‬
‫دادا ح رت‬ ‫کے ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ٓاپ‬ ‫کہ‬ ‫حاال‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ت‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫وت‬ ‫ن‬‫ب‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫عقب قدالم طلبنے ٓاپ تکی پ تی دا ش کے سا وی ں دنئٓاپ کا ع ین ہ ک ی ا ت ھا اور‬
‫ن ہی ں ہ و ا‪ ،‬و ہ اسی م‬ ‫شع ی ہ دوب ارہ‬
‫عالی کا‬ ‫ے ہللا ٰ‬ ‫نپر حمول ک ی الج اے گا نکہ ٓاپ‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫ے اور‬ ‫ہ‬‫ن ب اکر ف یھ ج ان‬ ‫ےخٓاپ کون نرحمۃ ب لعالمین ش‬ ‫ن‬ ‫ے کہ اس ش‬ ‫کر ادا کرے کے لی‬
‫ے‬ ‫کے لی‬ ‫ے ت‬ ‫ے والدت پ اک پر ب فکر داوف دی جنا ال ا روع رما ت‬ ‫کے فلی‬ ‫امتعق ق‬
‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ے اوپر درود پڑھا کر ن‬ ‫س اپ‬ ‫یسا کہ ٓاپ س ی ت‬ ‫ج‬ ‫ا۔‬
‫دوب ہارہ ی ب ہ رمایہ ئ‬
‫لوگوں کو کھا اش کھالکر‬ ‫ت‬ ‫کے‪،‬‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ماع‬ ‫ظ‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اک‬
‫خ ی پ ی‬ ‫الد‬ ‫م‬‫ش‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫لہذا می ں ئ ھی قچ ا‬
‫اور دی گر ج ا ز طری وں سے و ی و مسرت کا ا ہار کرکے ہللا ع ٰالی کا کر ادا‬
‫کری ں۔ (‪)۳۰‬‬
‫ش ت خف‬
‫ف ت‬ ‫ل ش‬ ‫ت‬ ‫پن‬ ‫اب ولہب کے قعذاب فمی ں ی ف‬
‫امام ال راء حا ظ مس الدی ن اب ن ج زری ا ی کت اب عرف ال عریف ب ا مولد ال ریف می ں رماے‬
‫ف ئ‬ ‫ن‬ ‫ف ق‬ ‫ہ ی ں کہ‬
‫ن ف ش‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ی‬ ‫رما‬ ‫مذمت‬ ‫ق‬ ‫کی‬ ‫س‬ ‫پ ف ج‬‫ے‬ ‫خ‬ ‫ت‬
‫اک‬ ‫رٓان‬ ‫ر‬ ‫کا‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫ہب‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫ب‬‫ا‬
‫ہ‬
‫س وطی ے حا ظ مس‬ ‫عذاب می ں ی ف کے وا عہ کے ب عد امام ج الل الدی ن ی‬ ‫اب ونلہب کے ش ق‬
‫ک‬ ‫ل‬
‫ف‬ ‫مت ع پ ن‬ ‫ن اصرالدی ن دمن ی کین‬ ‫الدی ن ب ن‬
‫روح پرور عت ھی ج و ا ہوں ے م ی الد کے لق ا ی کت اب ’’موردالصادی ی مولدالہادی‘‘ می ں ھی‬ ‫ب‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬‫ے وہ ب ھی ب ی ان ن‬ ‫ہش ق‬
‫ف‬ ‫ش‬ ‫دم ی کی فروح پرور عت م ی نالد‬ ‫ش‬
‫م ق ن پن‬
‫حا ظ مس الدی ن ب ن اصر الدی ن د ی ے ا ی کت اب ’’مورد الصادی ی مولد الہادی‘‘ می ں لکھا‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬

‫‪35‬‬
‫ث‬ ‫ت ص‬
‫عذاب کی‬‫ث‬ ‫دن‬‫ناب و ن ہب پر ہ ر پ یر کےخ ش‬ ‫ل‬ ‫ے کہ‬ ‫خ’’فی ہ یح ح حدی تث سے اب نت ہ‬
‫ے۔ یک و کہ اس ے ب ی کری مﷺ کی و ی می ں وی ب ہ‬ ‫ی ف تکی ج ا ی ہ‬
‫ن۔ ش‬ ‫کو ٓازاد نک ی ا ھا‘‘‬
‫ن‬ ‫ت ئ‬ ‫ئ‬
‫ں‪:‬‬ ‫ہی‬ ‫ے‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫عر‬ ‫ہ‬ ‫ہوں ن ی‬
‫ے‬ ‫اس کے ب عد ا‬
‫ن‬ ‫ل‬
‫ب‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ے ہ وےاب ضن نالحاج ے لکھا ہ‬ ‫م ی الد ا ن ب یﷺ م ائے کے ج واز پر دالح ل دی‬
‫والدت ماہ ر ی ع‬ ‫ن‬ ‫مﷺ کی‬ ‫ق‬ ‫ے کہ ح ور ب ئی کری‬ ‫اگر ی ہ کہا ج اےئکہ اس می ضں ک ی ا کمتشہ‬
‫ن‬
‫ے ج وش رٓان کے زول کا م نہی ہ‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫یہ‬ ‫ارک ریف می ں ہ ومہ ن‬ ‫ن‬ ‫االول اور پ یر کے روز ہ و ق ی اورئ رم ت ان الم ب‬
‫لے ی وں (ا ہر حرم) می ں‪ ،‬ہ ی پ درہ‬ ‫ے‪ ،‬ہ حرمت وا ش‬ ‫ے اورلجس می ں ل ی لۃ ال در پ ا ی ج ا ی ہ‬ ‫شہ‬
‫ع ب ان ا معظ م کی رات کو‪ ،‬ن ہ ہ ی ج معۃ الم ب ارک کے دن ی ا ب ج معہ کو اس کتا ج واب چ ار وج وہ سے‬
‫خ ف‬ ‫ت ن خت‬ ‫ے۔ش‬ ‫دی ا ج اسکت ا ہ‬
‫عالی خے در وں کو پ یر کے دن خ یل ق رمای ا۔ اس می ں‬ ‫نکہ ہللا ٰ‬ ‫ے‬ ‫ت ن ‪۱‬۔ ی ہ کہ حدی ث ریف می ں تٓای ا ہ‬ ‫ت‬
‫رات کی چ یزیتں‬ ‫فی خ‬ ‫ن‬
‫اور‬ ‫ات‬ ‫وہ‬
‫ج م ج‬ ‫ی‬ ‫رزق‪،‬‬ ‫وراک‪،‬‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫عالی‬ ‫ٰ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫وہ‬‫ن‬ ‫اور‬
‫ن‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬‫ی‬ ‫ب‬ ‫ف‬‫ڑے‬ ‫ب‬
‫ت‬ ‫خ‬
‫ے ن سے ان کے وس وش ہ وے‬ ‫یل ق رما ی ہ ی ں ب ی وع ا سان کی وو ما اور گزار ان نوابس ہ ہ‬
‫ئ ت‬ ‫ف‬ ‫ش ق‬ ‫ف‬ ‫ہ ی ں۔‬
‫ن‬ ‫ش‬
‫‪۲‬۔ ی ہ کہ ر ع کی ظ می ں اس کے ا ت اق کی سب ت سے ای ک اچ ھا ا ارہ اور ی ک ال پ ا ی ج ا ی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ت‬
‫ے اور ٓاپ کی ری عت ب ھی م وسط اور سب سے‬
‫ش‬
‫موسم‬ ‫ر‬ ‫ے۔ ‪۳‬۔ ہ کہ رب ی ع توسط اور سب سے ب ہت‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫ف‬ ‫فض‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ب ہ رہ‬
‫ئ ‪۴‬۔ ی ہ کہ ہللا ے ٓاپ کے ذری عہ اس و ت کو ی لت ع طا رمادی‪ ،‬جس می ں ٓاپ کی والدت‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ئ ت ت‬ ‫ق‬ ‫والدت غ‬ ‫ہ و ی‪ ،‬اگر ٓاپض کی‬
‫ہ‬
‫فب ا ضسعادت رم ان الم ب ضارک و ی رہ مذکورہئاو ات می ں ہ و ی ہ و ی‪ ،‬و ی ہ و م ہ و ا کہ ٓاپﷺ ان او ات کی‬ ‫ف‬
‫ع‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ی لتلکی وج ہ سے ا ل شو ا ٰلی ہ وگ‬
‫ب‬ ‫فق‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫یﷺ از عالمہ ہاب الدی ن ش‬ ‫‪۳‬۔ مولدا ن ب‬
‫ن‬ ‫ن مولدالن ب یﷺ کے مصن فشعالمہ ہاب الدی ن احمد ب ن حج ر کی ج وشکہ امور محدثث ناور ہی ہ ھی‬
‫ہ ی ں اپ ی کتض اب مولدالن ب شیﷺ کےت روع می ں اما ب عد کے ب عدئ نہللا وحدہ ال ری ک کی حمدو اء ب یفان کر جے‬
‫کماالت و ص ات مع‬ ‫ت‬ ‫سب‬‫ان کرے ہ ی ں کہ حمب ؐوب نرب کا ات می ں نوہ ق‬ ‫کی انفب یش ت‬ ‫تکے ب نعد ح ورﷺ ق‬
‫ے‬ ‫ت‬ ‫امت ت ک کے لی‬ ‫ش‬ ‫اور ی‬‫ت‬ ‫کرام اور م رب ر فوں مفی ں ہ ی ں۔ ٓاپ کو ا بض ی اء کرام کا امشام ب ای ا‬ ‫ش‬ ‫ے ج و ا ب ی اء‬ ‫ضھ‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫ورﷺ کیض عت قمام ر ع وںفمی قں ہ ر اور‬ ‫ری‬ ‫ف‬ ‫حضورﷺ کی عت ض ہرہ کو وظ رمادی تا۔ جس تطرح ح‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ط‬ ‫م‬ ‫ری‬
‫ف‬
‫ے۔ رٓان کی م ر ان جم یض د ج و‬ ‫ح‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫سے بئہ ر اور ا نل ہ‬ ‫ورﷺ کی امت مام ام نوں ف‬ ‫طرح ح مع ض‬ ‫اسی‬
‫ن‬ ‫ن‬‫ے۔‬ ‫وا ت ح ہ‬
‫دمحمﷺ پر ازل رما ی وہ سب ازل فدہ ظکت اب وں می ں خسے ا ل‬ ‫م‬
‫وب ظ ممم ح نرت ن‬ ‫ےت غحب ر و ت‬ ‫ہللا ع ٰالی ے اپ‬
‫ے کہ جس کی ح ا ت کا ذمہ ود ہللا‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫الہامی‬ ‫وہ‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬
‫ی ک ی‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫دل‬ ‫ناسنمی ی ب‬ ‫ں‬ ‫ے اور‬ ‫تہ‬
‫ے۔‬ ‫ا‬
‫ش پ پ یت ہ‬‫ل‬ ‫ر‬ ‫او‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬
‫ت‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ق‬ ‫اری‬ ‫ب‬ ‫اد‬ ‫ار‬
‫ض‬ ‫ا (ال رٓان ‪)۱۵:۹‬‬
‫ب‬ ‫ع‬
‫ے۔ ٓاپﷺ کے‬ ‫اس کت قاب مین ں ح ورﷺ خکی ظ ی مسکا ن ھی ذکر ہ‬
‫اس می ں‬ ‫کڑوں ٓای ات ئگواہ ہ یممں ن‬ ‫ت‬ ‫یکمال‪ ،‬در و م بزلت اور حسن ا ج الق پر حق ی ق‬
‫ا سی م ب احث ھی موج ود ہ ی ںش ن کی ی ت ک رسامی کن ہی ں۔‬
‫یﷺ می نں متصن ف عالمہ ہاب الدی ن احمد ب ن حج ر کی م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز می ں‬ ‫ق‬ ‫مولد الن ب‬
‫درج ذی ل ارہ اصات کو لمب د نکرے ہ ی نں‪:‬‬
‫ت‬ ‫ف ئ‬ ‫وں سے دا‬ ‫رحم مادر می ں ج لوہ گری اور ٓاسما پ ن‬
‫ج‬
‫رات ٓاپﷺ ا ی نوالدہ کے نرحم می ں ج لوہن رما ہ و ئے وہ معۃ الم ب ارک کی رات ھی رج ب‬ ‫جس ن ت‬
‫م‬
‫المرج ب کا مہی ہ ھا۔ ئاس رات ٓاسما وں اور ز ی وں می ں ی ہ دا کی گ ی‪:‬‬
‫ن خ‬ ‫ئ ت‬ ‫ف‬ ‫ات والدت‬ ‫والدت مضب ارک اور عج ا ب ن‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫دمحمیﷺ سے سرپ راز و ی ں و ل کےق و ماہ م تلف کرامات اور جعی ب و‬ ‫حم‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ٓامن ؓہت ج ب ور‬
‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ف‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ن شحن رت ی ک‬ ‫غ‬
‫ے۔‬ ‫ری ب ا ی اں د ھ ی رہ ی ں۔ ھر و ی ک ی ت ٓان چ ی و والدت کے و ت عور وں پر وا کر ی ہ‬
‫‪36‬‬
‫یک ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫اس ت کلیفف نکا کسی کو علمن ن ہ ھا۔ناس ون ت س ی دہ ٓامن ؓہ ای ک ڈراے والی ٓاواز س ی خھر ک ی ا د ت ھ ی ہ ی ں کہ ت‬
‫پ‬
‫نہ ا پ ھر ندی کھا و‬ ‫ے پروںتکو ٓاپ کے دل پر پ ھی را پس ٓاپت کا وف ج ا ا ر‬ ‫کے پر ن دے ے اپ‬ ‫ای ک سف ی د نر گ ت‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ن ظکر ٓای ا جس نمنی ں دودھ ھا۔ قٓاپ تکو پ ی اسی محسوس نور ی ھی۔ ٓاپ ے وہ وش‬ ‫فای ک س ی د ر گ کا ب رن‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫ئرمال ی ا۔ پ ھر س ی دہ ٓامن ؓہ ے جھور کی ما د مب ی لی دراز د عور ی ں د ھی ں۔ ا ہی ں دی کھ کر ب ہت جع ب‬
‫پ‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہ و ی ں۔‬
‫ق‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ا یسے لوگوں کی ظ تروں سے ھ پ نالو۔ س ی دہ ٓام ٹہ ے وا می ں چک ھ مرد ھڑے‬ ‫چ‬
‫ن طرے‬ ‫ورے ہ ی ں۔ ان سے‬ ‫ے۔ ان کے ہ ا شھوں می ں نچ ا دی کے کخ ش‬ ‫ٹد کھ‬
‫ے‬‫ے ہ ی ںغج و م ک و ع ب ر سے زی ادہ و ب ودار ہ یت ں۔ نٓاپ ن‬ ‫پ نک رہ‬
‫ول دی کھا ج و ٓاپ کی نطرف ب ڑھا۔ ح ی کہ اق ہوں ے‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫پر دوں کا ی‬
‫ا‬
‫وت کے‬ ‫نان کی چ و چ ی ں زمرد کی اور پنر ی ا ت‬ ‫تٓاپ کے حقج رہ کو ڈھا پ ل ی ا‪،‬‬
‫ک‬ ‫ی‬
‫ے زمی ن کا چ پ ہ چ پ ہ دغ ھا۔ ا ہی ں ت ی ن‬ ‫ش‬ ‫ے۔ اس و ئت س یئدہ ٓامن ؓہ‬ ‫نھ‬
‫رب می ںت اور یسرا کعب ہ کی‬ ‫ی ہ کم خ‬ ‫دوسرا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫رق‬ ‫ک‬
‫ی تی م‬ ‫ا‬ ‫ے۔‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫د‬ ‫ن‬ ‫ڈے‬ ‫جھ‬
‫چ شھت پر صب ک ی ا گ ی ا ھا۔ ٓاپ کو درد زہ وا ت لی ف س ت ھی۔‘‘‬ ‫غ‬ ‫ش‬
‫ئ ت‬ ‫ئ‬ ‫م رق و نم رب رو ن‬
‫ے اور اع ٰلی‬ ‫ب ی کری مﷺ ان کماالت سے موصوف پ ی دا ہ وے ج و ٓاپ کے عظ ی م کمال کے ال ق ھ‬
‫ن‬ ‫ے‬ ‫ضس ی ادت تکے لی‬
‫ے۔ ان اوصاف می ں سے چ د ی ہ ہ ی ں‪:‬‬ ‫روری ھ‬
‫ت ئ‬ ‫ق‬ ‫ن ن‬ ‫سری زلزلہ‬ ‫ایوان ک ق‬
‫والدت شرو ما ہ وے والے وا عات اور معج زات کا ذکر کرے ہ وے عالمہ صاحب ی ہودی‬ ‫ِ ئو ٰت ُ‬
‫ت‬
‫ع‬
‫ت‬ ‫ارات ن ض‬ ‫ماء کی ان ب‬ ‫اور عیسا ی علت‬
‫کہ فی ہودی اور‬ ‫ے ت‬ ‫ج‬
‫دی ھی ں۔ ی س‬ ‫والدت کے م ت لق ن‬ ‫نے ح ورﷺ کی خ‬ ‫کا ب ئھی ذکر کرےہ ی ں ج و ان لماء‬
‫ع‬
‫ٓاپ کی والدت کی ب ر دی اور ان مام ے اس بئات پر ا اق ک ی ا کہ‬
‫ب‬ ‫ب‬ ‫ماعت ے ئ‬ ‫بعنیسا ی ئعلماء کی ای ک ج خ ت‬
‫ے گا ان می ں سے ضعض ٓاپئپر ای مان ھی تالے۔ والدت‬ ‫ی اسرا ی ل کے ملک کا ا مہ ہ وج ا ٹ‬
‫ن‬
‫ھی۔ اس می ں دراڑی ں‬ ‫سے زی ادہ م ب وط اور کو ی عمارت ہ ش ت‬ ‫ٹجس ٹ‬ ‫ب اسئعادت کی رات کسری نکا ایوان لرز ا ھا‬
‫ڑ گ نں اور اس کے چ ٰ‬
‫ودہ ک گرے (چ ھوے ھوے می ن ار) گر پڑے و اس طرف ا ارہ ھا کہ کسری کے‬
‫ج‬ ‫چ‬ ‫ئ‬ ‫پ ی‬
‫ٰ‬ ‫ں گے۔‬ ‫حکمرا وں می ں سے چ ودہ ٓا ی ت خ ف‬
‫ن ب پن‬ ‫کے عذاب می ںق ی فف‬ ‫اب و لہب ق‬
‫عم‬ ‫ش‬ ‫لم‬
‫ے ھی ا ی کت اب می ں ب ی ان‬ ‫ی ہ وا عہلق’’ سنفا صد ی ل ا مولد‘‘ می ں امام ج الل التدی ن ی وطی ش‬
‫س‬ ‫ل‬ ‫ح‬
‫کی کت اب ’’ال عریف تب ا خلفمولد ال ریف‘‘ کے حوالے سے‬ ‫ے۔ امام ا راء حا ظ مس الدی ن اب ن ج زری ف‬ ‫کی ا ہ‬
‫ے۔ اسی طرح‬ ‫خ‬ ‫ت‬
‫کےبعذاب می ں ی ف کا ذکر ہ ف‬ ‫ے کا ر م ؒ‬ ‫ج‬
‫کے روز اب و ہب ی س‬ ‫ل‬
‫ئ‬ ‫ے۔ جس می ں ہ ر پ یز ش‬ ‫ہ‬
‫ل‬
‫ذکر ک ی ا‬
‫ہب نکے ثعذاب می ں تی ف کی وج ہ ی ہ‬ ‫پن‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫کی‬
‫ب ح خش‬‫ر‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫احمد‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ال‬ ‫ہاب‬ ‫ض‬ ‫المہ‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫از‬ ‫&‬
‫‘‬ ‫ُ‬ ‫‘‬ ‫یﷺ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫مولدا‬ ‫’’‬
‫ن‬
‫ورﷺ تکی پ ی دا ش کی و ی می ں ان ی لو گڈی وی ب ہ کو ٓازاد ک ی ا ھا اور جس ت‬ ‫ش‬ ‫ےح‬ ‫ب ن ی گان کرے نہ ی ں کہ اس ن‬
‫ا لی سے لو ڈی کو ٓازاد کرے کا ا ارہ ک ی ا ھا۔ ہ ر سوموار کے دن ا ہی ا لی وں سے اسے سی راب ک ی ا ج ا ا‬
‫ے۔(‪ )۳۷‬ف‬ ‫ہ‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫مولد‬ ‫ی‬‫ن‬ ‫موردالروی‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫۔‬ ‫‪۴‬‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ےتزضماے کے وح ی د العصر‪ ،‬ری دالدہ ر‪ ،‬مح ق‪ ،‬مد ق‪ ،‬مصن ف مزاج‪ ،‬محدث‪ ،‬ی ہ‪ ،‬ج امع العلوم ع لی ہ‬ ‫پا‬ ‫قن‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫و ن لی ہ ناور م لع‬
‫ں۔ لی ب ن سل طان دمحمفہ روی زی ل مکہ‬ ‫ع‬ ‫ش‬
‫س ت ب وی ہ ج ما ہ ی قر اعالم ناور اہ ی ر قاولی الح ظ واال ہام می خں سے ہ ی ن ت‬
‫ٰ‬
‫تال علی اری‪ ،‬ورالدی ن ل ب والے عظ ی م صی ت اپ ی صن ی ف المورد الروی ی مولد ا ن ب یﷺ‬
‫ل‬ ‫عروف م‬ ‫الم ف‬
‫ن ئ‬ ‫ف‬ ‫می ں رماے ہ ی قں کہ‪ :‬ن ت‬
‫ش‬
‫ے م ا خ لماء می ں سے صاحب‬ ‫ع‬
‫یﷺ می ں اپ‬ ‫ئا ن بف ت‬ ‫ل‬ ‫تی مولد‬ ‫ف ش مال علی اری اپ ی صن ی ف مولد نالروی‬
‫ق‬
‫ع‬ ‫ج‬ ‫ش‬ ‫رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ش‬ ‫ے ہ وے‬ ‫اوی کا ب ی تان لمب د کر ف‬
‫ح‬‫م‬ ‫ن دمحم السخ ئ‬ ‫ہم مس الدی‬
‫ے م لوم ہ وا کہ ی ہ‬ ‫کہ مکہن مکرمہ می ں ک ی سال ک می ں ل م ی الد کی رکت سے م رف ہ وا اور ھ‬
‫م‬ ‫ف‬
‫مح ل پ اک ت ی‬
‫ک‬

‫‪37‬‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫شت‬
‫ص‬
‫ے اور ب ار ب ار می ں ے م ام مولد کی زی ارت کی اور می ری سوچ کو ب ہت خ ر حا ل ہ وا۔‬
‫ق‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ف ر توں ر م‬
‫ہ‬ ‫بک پ‬
‫قن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ص ت‬ ‫ش‬ ‫رمای ا‪:‬‬
‫لے زما وں می ں سے کسیخ ب زرگ نسےم ول‬ ‫عم‬
‫کی ا ل ی ن ی لت وا ش‬ ‫کے ل ق‬ ‫مولد ریف‬ ‫ن‬
‫اور ناس می ں لوص ی ت ش امل‬ ‫ض‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫روع‬ ‫ے‬ ‫لش‬‫ی‬ ‫کے‬ ‫صول‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫اصد‬ ‫ق‬ ‫ک‬
‫ی ش ب ی یت م‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عد‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ت م ی الد کے‬ ‫مﷺ کے‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫ح‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہروں‬ ‫ڑے‬ ‫ن‬
‫بغ ب ق‬ ‫ڑے‬ ‫اور‬ ‫وں‬ ‫ال‬ ‫ع‬ ‫مام‬ ‫الم‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ے۔‬
‫ت‬ ‫ن ئی ن ئ‬ ‫ہن‬ ‫مہ‬
‫تہ ی ں اور‬ ‫ے عمدہ نکھا وں کا اہ ضمامفکرے‬ ‫ظ‬ ‫ے‬ ‫ے نمی ں مح لی ں برپ ا کرے ہق ی ں اور خ جعی ب و ری ب رو خ شوں اور‬ ‫ی‬
‫ے و ی وں کا ا ہار اورکت ی کی وں می ں اف ض ا ہ کرےظہ ی ں ت‬ ‫کے ذری ع‬ ‫ان د وں طرح طرح کے صد ات و ث ی راتسجم ت‬
‫ہ‬
‫ے ہ ی ں اور ان پر اس کی ب ر ی ں اور عام ل و کرم اہ ر و ا‬ ‫ٓاپﷺ کے م ی الد پ اک کو کا ِر واب ھ‬ ‫ب لکہ‬
‫ق ن ف‬ ‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫امام مس الدیخن ب ن الج زری تالم فری ے رمای ا کہ‪:‬‬
‫ن‬ ‫عام۔ (‪)۳۸‬‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫خ‬ ‫ص ن‬ ‫ومن واصہ ا ہ امان ام ی ذالک ال ق‬
‫ے۔‬ ‫ے مج رب س ہ ہ‬ ‫امن نو امان اورم اصد حا ل کرے کے لی‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫شمح ل م ی الد پورے سال کے لی‬
‫نکا فم ی الد الن ب یﷺ م ا ا‬ ‫لوگوں‬ ‫مصر اور ام کے ؒ‬
‫تف‬ ‫ق‬
‫ن ن‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ش ف‬ ‫ا‪:‬‬ ‫عالمہ سخ ش ہ ش ی‬
‫رما‬ ‫ے‬ ‫اوی‬
‫سے ا ہوں ے‬ ‫ہللا کی و ی ق پ ن‬ ‫ے ہ ی ں اور‬ ‫کے ی ادم خرہ‬ ‫ی‬
‫کے ب اد اہ خ می ہ حرمی خنت ر ی ن‬ ‫مصر ئ‬
‫ج‬ ‫ک‬ ‫ش‬ ‫ب‬
‫اوالد کا‬
‫اپ ا ین‬ ‫ے بق ت‬ ‫س‬
‫ےت ی ت‬ ‫ال ر ھت ا ہ‬ ‫ے ی ق‬ ‫نوں نکا ا مہ ک ی ا۔ ب اد ناہ رعای ا کا ایس‬ ‫وں اور را ی‬ ‫بخ ہت ساری ب را ی ن‬
‫عالی ے ان کو‬ ‫ے و لف کررکھا ھا‪ ،‬جو مہللا مح ف ٰ‬ ‫عدل و ا ب خصاف شکے ظلی‬ ‫ن‬ ‫ے ٓاپ شکو‬ ‫ے اپ‬ ‫ج‬
‫ے اور اق ہوں‬ ‫ال رکھت ا ہ‬ ‫ین ش‬
‫صدق اب و تسعتی د ق ل م ی الد کو‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫را‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫اہ‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫کہ‬ ‫ن‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫دی‬‫ش‬ ‫وت‬ ‫سے‬‫ت‬ ‫ت‬ ‫رمدد‬ ‫او‬ ‫کر‬ ‫ےل‬ ‫اپ‬
‫ان کے دور‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫کے‬ ‫مﷺ‬‫ت‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ً‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ڑی‬
‫ت‬ ‫م تج‬ ‫س خ‬ ‫ی قپ‬ ‫می ق ی‬ ‫ب‬
‫ے اور ہ ر لمب ی‬ ‫ی یج ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫اد‬ ‫کو‬ ‫ان‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫و‬
‫‪ )۳۹‬ہ ب‬ ‫ر‬ ‫سو‬ ‫ھی۔‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫او‬ ‫سے‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ا‬
‫ان کو ب‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫اعت‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫راء‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫شی‬ ‫کومت‬ ‫ح‬
‫ے۔ت( ت‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬
‫ؐ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫چ‬ ‫ف‬ ‫سے‬ ‫ش‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫کن‬ ‫ان‬ ‫چ نوڑی پری‬
‫ت ف‬ ‫ے‬
‫ےشم اے ھ‬ ‫ن‬ ‫ک‬
‫کے ب اد اہ ل م ی الد ی س‬ ‫ح‬‫م‬ ‫پ‬ ‫س‬
‫ؐ‬
‫ل‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫(ا ی ن) غ‬ ‫ن‬ ‫ا دلس‬
‫اتدلس اور م رب (یورپ) کے ب اد اہ ئاس رات کو ا سواروں کے سا ھ ج ل م یتالد ا ن ب ی می ں‬ ‫ف‬
‫سے نمع ہ وےت ت‬
‫اور‬ ‫ڑے علماء ٓا خمہ اور ان کے‬ ‫ش افمل ہ وے‪ ،‬اس مح‬
‫سا ھی ہ ر ج گہ پ‬ ‫ڑے ب ت‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫ے اور‬ ‫ے ھ‬ ‫ے ہی ں رہ‬ ‫مان ب ل ن د کرتے می رے ی ال می ں رومی ب ھی اس سے یچ ھ‬ ‫ک‬
‫کاق روںش ہکے در فم ی ان ت ل قمہ ای ق‬
‫ے۔(‪)۴۰‬‬ ‫دم ب دم چ ل‬ ‫ب ا ن ی ب اد ا وں کے سا ھ‬
‫ن‬ ‫ن ن ق لک ن‬ ‫ن‬ ‫نق‬ ‫یﷺ‬ ‫ج‬ ‫ہ دوست انن می ں مح ل م ی الد ا ن ب‬
‫ل‬
‫ے ؒوالوںقے ب ت ای ا دوسروں‬ ‫ے ئ عض ن دو ج رح کر‬ ‫ب‬ ‫ہ دوست انتکے لوگ ج یساشکہ م شھ‬
‫س‬ ‫ے والے اورش نھ‬ ‫م‬
‫ے کہ لنطان‬ ‫مارے ی خ الم تا خ موال ا زی ن الدی ن حمود ہ مدا ی ب دی کاٹوا عہ ہ‬ ‫ش‬ ‫ے۔ ہ‬ ‫ہت ٓاگے ھ‬ ‫سے ب خ ق‬
‫عالی اس پرئرحم و کرم کرے اور اس کو اچ ھاش ھکان ہ دے) ےق‬ ‫زمان‪ ،‬ا ان دوران ہ مایوں ب اد اہ (ہللا‬ ‫ش‬
‫اس کو ی خ کی مالی امداد کا مو ع‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫لہ‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫صاحب کے سات ھ ش ا ٰم‬ ‫مارادہ ک ی ائکہ لوہ ب ھیش ی خن‬
‫ل یش خ‬ ‫ج‬
‫ل اے ی تکن ی خ ے اس کفا اض کار کرد ا اور ہ ت ب‬ ‫ن‬
‫کردی کہ ب اد اہ شود اننکے پن اس ی ہ مددخلے‬ ‫اتن ھی رد ت‬ ‫ی یب غ‬ ‫جض‬
‫نر بیرم ان‬ ‫ے وزی‬ ‫عالی ر فحمن کے تل و کرم سے اس اء تکا ی ہ عالم ق ھا‪ ،‬اب ب اد اہ ے پا‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫و‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر حا‬
‫تہ و‪ ،‬وزیر ےف سن رکھا‬ ‫ےہ ی‬ ‫ے اگرچ فہ ھوڑےش و ت نکے لی‬ ‫الزمی‬ ‫غ‬ ‫مام‬ ‫ہ‬
‫ش‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫ی خ‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ح‬‫م‬ ‫گہ‬ ‫اس‬ ‫ف‬ ‫کہ‬ ‫ش‬
‫کہا‬ ‫سے‬
‫ہک تسی مح‬ ‫مح ج‬ ‫ت ت‬
‫ے‪ ،‬تصرف مح فل م ی الد‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ر‬
‫ش ی‬ ‫ں‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫کی‬ ‫می‬ ‫ش‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫کیھا عظ ی م کرے ہ ں۔ وز ر ے ش‬
‫و‬ ‫الوہ‬‫ن‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫کہ‬
‫سا ھ ی اری کاع رمان‬ ‫ناد شاہ کو م ورہ دی ا و ب اد اہ ے اہ ان ہ اس ب تاب کےئ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ئے م روب ات اور دوسرے لوازمات کا اہ مام ک ی ا شج اے اور ی ہ کہ ل تمی مج لس‬ ‫طرح طرح کے کھا‬ ‫اری شک ی ا کہ‬ ‫ج خ‬
‫وں‬ ‫س‬ ‫دو‬ ‫عض‬ ‫ب‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫کرد‬ ‫الن‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عوام‬ ‫اور‬ ‫ر‬ ‫اکا‬ ‫ڑے‬ ‫ڑے‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ست‬ ‫ب‬ ‫دو‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫می ں‬
‫ن ش‬ ‫ش ی تگ ی‬ ‫ی‬ ‫ب ٹ‬ ‫ب‬ ‫بض ئ ک ی جش ن ب‬
‫ش‬ ‫ہ‬
‫ئ ط نت‬ ‫کے سا ھتمعاون اورتوزیر ے‬ ‫ادب سےصلو ا پ کڑا اورناسن‬ ‫دست‬ ‫کے مراہ حا ر ہ وے‪ ،‬ب اد اہ ے ن‬
‫ھ‬ ‫ہ‬
‫ت حاض ل و‪ ،‬دو وں ے ی خ حم رم کے ا ھ دق الےشچ و کہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫کڑی‪،‬اس ام ی د سے کہ ی خ کا لطف اور ظ ر ع ای ت‬ ‫پ ن ن‬
‫ع‬
‫ے وا ع کی‪ ،‬اس کی ب رکت سے ان کو ظ ی م م ام اور ان‬ ‫دوش وں ے ہللا اورئاس کے رسولﷺ کے لی‬
‫و وکت حاصل ہلو ی۔(‪ )۴۱‬ن ن‬
‫یﷺ م ا ا‬ ‫اہ ل مکہ کا م ی الد ا ن ب ؒ ن ف‬
‫امام سخ اوی ے رمای ا‪:‬‬

‫‪38‬‬
‫ق‬ ‫خ‬
‫لل‬ ‫ش‬
‫صع ت‬ ‫ل‘‘ می ں وا‬ ‫ارے لوگ ہ می ہ ’’سوق ا ی ق‬ ‫رکت کی کان ہ ی تں‪ ،‬ی ہ سارے کے س ت‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫رو‬ ‫ی‬ ‫اہ ل مکہ‬
‫اس صد کو حا ل کر ا‬ ‫م‬ ‫مام لوگوں کے ہ مراہ ج اے ہ یئ ں اور ہ ر ای ک ن‬ ‫رسول ہللاﷺ کے م ام خوالدت تپر ت‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫ک کہ کوضی یت ک ی ا ب د اور کم صی ب ی ا سعادت‬ ‫غ‬ ‫ے۔نی بہاں ن‬ ‫کا اص اہ مام قہ و ا ہ‬ ‫ت‬ ‫ے۔ عنی د کے دن اس‬ ‫ہپ‬
‫ں کہضت ا ہ وں کہ اب‬ ‫ق‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫حا‬ ‫ہ‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫ب‬ ‫ھی‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫گور‬ ‫کا‬ ‫دس‬ ‫ش‬‫م‬‫ت‬ ‫از‬ ‫ج‬ ‫ح‬ ‫کہ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫ہاں‬ ‫ی‬ ‫ا۔‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫شم ن د‬
‫اس ے کہا‪ :‬کہ ا ی مکہ وہ اں کے‬ ‫ی۔ ن‬ ‫اس ج گہ اور اس ون ت پرن ریف ٓاوری ث ہی ں ہ و ن‬ ‫کی ف ؒ‬ ‫ن‬
‫ریفہمکہ ش‬
‫ج‬
‫والوں کی اک رٹی ئت کو ھ نا ا ال ا اور ق ہت سارے لوگ و صرف‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ک‬ ‫ت‪ :‬کا و اں پر ٓا اچ اور ٓا چے ن‬ ‫ہ‬ ‫عالم الب ر ا ی ال ا عی‬
‫عوام کی مدد‬ ‫ص حن‬ ‫ے کھاے اور م ھا ی اں دی ا اور اس م ام پر م ی ٹالد کی ب‬ ‫ے ا ٹ تھ‬ ‫ے ٓاے ہ ی ں ان صکو ا ت ھ‬
‫ی‬ ‫م‬
‫زینارت کے لی‬
‫ے ا جلمال ے اس‬ ‫ب‬
‫ے‪ ،‬اس کے ی‬ ‫اری ہ‬ ‫اری و س ت‬ ‫ی غں ل ی ہ ی ں۔ فی ہ ج خ‬ ‫ب‬ ‫کرس ا‪ ،‬اس ام ی د پر کہ اس سے‬
‫وں کہ اب ان‬ ‫ے ل ی کن میئ ں کہت ا ہ‬ ‫ہش‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ری‬ ‫گ‬
‫ب ی‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫سا‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫ے می ں اس کی پ یروی ہ‬
‫کی‬ ‫ل نسل‬
‫ت‬ ‫ھ‬ ‫پ‬
‫ے اور ب حالت ی ہ‬ ‫ے اور مذکورہ چ یزوں می ں سے لوں کی و ب و رہ گ ی ہ‬ ‫دھواں رہ گ ی ا ہ‬ ‫کھا وں کا صرف ن‬
‫غ‬ ‫ن‬ ‫ے کہا‪:‬‬
‫ف‬ ‫غ‬ ‫ے کسی‬ ‫ے کہ ج ی س‬ ‫ہ‬
‫اما ال ی نام ا ہا ک یغام نہم‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫ل‬ ‫ساء الحیخ ی ر ساء ہ م(‪)۴۲‬‬ ‫واری ت‬ ‫خ‬
‫ے کی‬ ‫ے و ان ی موں کی طرح ہ ی ں کن می رے ی ال می ں ب یل‬ ‫ی‬ ‫’’ تی ہ ی م‬
‫عورت ی ں نان کی‬
‫عور ی فں ہی ں رہ ی ں‘‘۔‬
‫نق ت ئ‬ ‫ف‬ ‫یﷺ ئ‬ ‫ف‬ ‫ث‬ ‫ل م ی الدخالن ب‬ ‫اہ ل مدی ن ہ کے ہ اں مح ن‬
‫اس پر‬ ‫ے‬ ‫ے) م ف لنم ی الد الن ب یﷺ م ع دشکرے ہ تو‬ ‫ح‬ ‫ت اہ لتمدی ن ہ (ہللا ا ہی ں ی ر ک ی ر ع طا رما‬
‫ش‬ ‫ش‬
‫ں ہ می ہ کام شل ر ای ان ان‬ ‫کے ب اد اہ مظ ر ے اس سلسلہ می ش‬ ‫ش‬
‫س‬ ‫ص‬ ‫ش‬ ‫ں۔ ری است (ارب نل) ن‬ ‫ت‬ ‫ےہی‬ ‫پوری وج ہ دی‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ح‬
‫اور قحد سےتب ڑھ کر انمام کنی ا‪ ،‬جس کی ب ا پر امام ووی ( ارح ی ح لم) کے ی خ عشالمہ اب و ت امہ ( و صاحب‬ ‫ہ‬
‫عوادث) مینں اس ب اد اہقکی عریتف کی‪ ،‬حسن‬ ‫اب (ال ت ع‬ ‫ے) ے اپ ی کت ف‬
‫اعث لی ال ب دع وال ہ ت‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ہ‬
‫ن امت ھ‬
‫ب‬
‫است‬
‫ے‪ ،‬اس کا ا مام کرے والے کی در اور عریف کی‬ ‫ے ’’ ل م ی الد س حب ہ‬ ‫ے ی کہا ہ‬ ‫ئ ھی ایس‬ ‫ے‬
‫ج اے گی‘‘۔ ف(‪)۴۳‬‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ؐ‬ ‫امام سخ اوی کا ق رمان‬
‫ے‬‫مال علی عاری قم ی الد ا ن ب ی م اتے کے واز می ں امام سخ اوی کا رمان ا ل کت اب کرے سے پ ل‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ل‬
‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ان کرے ہ ی ں کہ‪ :‬ن ت ئ‬ ‫ن ام بف ی‬ ‫امام صاحب کا ل ؒمی م‬
‫ے کہا ب لکہ ش ا خ االسالم کے ی خ ب ل دن‬ ‫ہ‬
‫اس حث سے صرف ظ رنکرے و‬ ‫ب‬
‫اوی ے ل ض‬ ‫ئامام سخ خ ت‬
‫ن‬ ‫ن م‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫ج‬
‫کے ا م ا وا ل اب ن حج ر ہللا ان کو ا ی رحمت سے ڈھا پ لے اور انصکو ت کے ب اغ‬ ‫ب‬ ‫مر ب ت نا مہ ب شخ‬
‫ے وہ یح حی ن کی روای ت‬ ‫تے۔ ایسا امام جس کی طرف سے ہ ر بڑے عالم اور امام کو سہارا ملت ا ہ‬ ‫س‬
‫می ں کو ض‬
‫کت‬ ‫ش‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ت تہ‬ ‫اس سے روایئ‬ ‫پر مروین ح رت ع ب دہللا اب نن ع ب ت ش‬
‫ے ہ ی ں‪،‬‬ ‫فھ‬ ‫ر‬ ‫روزہ‬
‫ن‬ ‫کا‬ ‫حرم)‬ ‫م‬ ‫(دس‬ ‫ورہ‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫وم‬ ‫ی‬ ‫ہود‬ ‫ی‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ال‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن ب ی کری مﷺ مدی ہ طی ب ہ ی‬
‫ر‬
‫ے رعونن کو‬ ‫ن‬ ‫ارے می ں پوچ ھا‪:‬ہ و ا ت‬
‫ے جس می ں ہللا بس حا ہ ک ت‬ ‫ہوں ے کہا‪ :‬شی ہ دن ہ‬ ‫اس ب ن‬ ‫ان سے ؑ‬ ‫غٓاپ ے ض‬
‫ے ہ ی ں۔ ب ی‬ ‫عالی کے کر کے طور پر اس دن کا روزہ ر ھ‬ ‫موسی کو ج ات دی سو م ہللا ٰ‬ ‫رت ٰ‬ ‫رق ک ی ا اور حن ف‬
‫ق‬ ‫ؑ‬ ‫ت‬ ‫ا‪:‬‬ ‫کری مﷺ ے ی‬
‫رما‬
‫روزے۔کا امت کو ح‬ ‫موسی کا ح دار وں‘‘‬
‫ہ‬ ‫سے ب ڑھ کر ت ٰ‬ ‫’’می ںنم ش‬ ‫ت‬
‫ا۔‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کم‬ ‫اس‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫روزہ‬ ‫کا‬ ‫ورہ‬ ‫عا‬ ‫ے‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫و‬
‫ے اور‬ ‫ز‬
‫ئ‬
‫ا‬ ‫ور‬ ‫ا‬ ‫اح‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫ئ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اس‬‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ک ن ہئ‬
‫ا‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ہاں تش ک سماع اور کھ ی ل کود کا ت ع‬
‫ج ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫ج خ‬
‫ے و اس کو م ی خالد کا حصہ ب ن اے می ںت کو ی حرجن ہی ں تاور ج وشحرام اور‬ ‫عاون‬
‫ی ن مئ ہن‬ ‫و‬ ‫مدد‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫اس دن کی‬
‫م‬ ‫ہ‬
‫ے می ں مام ب و روز‬ ‫ہ‬
‫ے ب لکہ م و اس ی‬ ‫نںفا ت الف ہ‬ ‫ے اس سےکم تع ک ی ا ج اے۔ یو ہی جس می‬ ‫عم‬ ‫مکروہ ہ‬
‫ے ہن ی ں ج یسا کہ اب ن قج ماعہ ے رمای ا‪:‬‬ ‫می ں ی ہ ہ ل ج اری ر ھ پ‬
‫ماعۃ ج ب‬ ‫ترا ی م بفن جت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے نکہ زاہ د‪ ،‬دوۃ‪ ،‬معمر اب وقاسحاق انب ترا ی م ب ن ع ب دالرحی م ب ن با‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫چ‬ ‫ت‬ ‫می ں ی ہ ب ات‬
‫ہ‬
‫کے لوگوں کو ھالے اور رماے اگر‬ ‫ک‬ ‫ک‬
‫کے مو ع پر ھا ا یت ار کر ت‬ ‫ے و م ی الد نب ویﷺ ف‬ ‫ں ھ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫مدی ن ہ الن ب یﷺ م‬
‫کے ہ ن ر دن محؐ ل م ی الد کا اہ مام کر ا۔ ف ت خ ش‬ ‫م رے بس م ں ہ و اف و ت م‬
‫ے ض‬ ‫ورے ہی‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ے۔‬ ‫ب ہ‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫حالی‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫کہ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫ح‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫اوی‬ ‫خ‬
‫س‬ ‫امام‬

‫‪39‬‬
‫ق‬ ‫نق‬ ‫متق‬
‫ش پر ب ڑا‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ے‬ ‫ول‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫مادر‬ ‫طن‬ ‫ج قس سال حض ور ن ب ی کری مﷺ کا حمل ب‬
‫ئ‬ ‫ھ ہ‬ ‫خ‬ ‫ی‬
‫ھری ہ وگئ ف‬ ‫ت‬ ‫خ‬
‫ے اور اہ ل مکہ‬ ‫گ‬ ‫لد‬ ‫سے‬ ‫لوں‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫در‬ ‫کے‬ ‫بت‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ری‬ ‫ن‬
‫ی ہ‬ ‫م‬ ‫ز‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫اب‬ ‫ھا۔‬ ‫دور‬ ‫کا‬
‫ش‬ ‫حط‬
‫خ‬ ‫اور‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ے ہاں ت‬ ‫ہ ئ‬
‫اس سال کا ام ’’ا ح واال ھاج‘‘ پڑ گ ی ا۔(‪)۴۵‬‬ ‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫گ‬‫و‬ ‫حال‬ ‫و‬ ‫ادہ‬ ‫ی‬ ‫ز‬ ‫ہت‬ ‫ب‬
‫ورب الکعب ۃ وھو امام الد ی ا وسراج اھٹلہا‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫’’رب کعب ہ کی سم دمحمﷺ کا حمل ھہرا گ ی ا‪ ،‬وہ امام د ی ا ہ ی ں اور د ی ا‬
‫والوں کے چ راغ ہ ی ں‘‘۔‬ ‫ض ن‬
‫چ غ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ارکہ‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫والدت‬
‫ت‬ ‫کی‬ ‫مﷺ‬ ‫ع ق‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ح ور‬
‫مال لیس اری ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ب والدت ہللا رب العزت ے ست اروں سے را اں کا‬ ‫ت‬
‫ئ‬ ‫ب ہق ن‬ ‫ت‬ ‫ے می ںتوہ‬ ‫اس لسل‬ ‫ئ‬ ‫اہ مام ک ی ا‬
‫نکی کض ب می ثں درج روای ت کا ؓذکر کرے ہ ی ں کہ امام ی ی ے ’’دال ل الن ب وۃ‘‘ می ں‬ ‫درج ذی ل ٓا نمہ کرام‬ ‫ن‬
‫ے کہ‬ ‫ح رت ع مان ب خنشابی ا نلعناص سے ی ہ روای ت ب ی ان کی ہ‬ ‫ئ‬ ‫عی‬
‫طب لرا ی اور ا و ض نم ے ؐ‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ع ق‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ر‬‫ئ‬ ‫پ‬ ‫ش‬ ‫دا‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫اب و ہب کا ح ور ب ی ضکری‬
‫ب ن‬ ‫ن‬ ‫اب ول‬
‫ے‬ ‫ے ھی اپ‬ ‫اری ؒ‬ ‫ے کو م فال لی‬ ‫نکے اسیق وا ع‬ ‫ہب کا ح ورﷺ کی پ ی دا ش پر و ی م اے‬ ‫ش‬
‫ے کو اب وال رج ب ن ج وزی کے حوالے‬ ‫ے اور اس می ں صاحب کت اب ے اس وا ع‬ ‫ل ک ی ات‬ ‫م‬
‫رسالے می ں ا ف‬
‫ہ‬
‫ف‬ ‫خش نن‬ ‫ے رماے ہ ی ضں نکہ‬ ‫سے ب ی ان ک ی ا شہ‬
‫ہب کو ی ہ‬ ‫ل‬ ‫ب‬
‫اسشکا ر ا ون‬ ‫م‬
‫ج ب ب ی الدقکو ح ور ب ین مﷺ کی توالدت ی الد کی و یسم اےتپر خ‬ ‫ئ‬ ‫کری‬ ‫م‬
‫مان ام ی کو و ی م ن اے پر کس‬ ‫ٓاپﷺ کے م ل ت ف‬ ‫ےو نت‬ ‫ازل ہ و ی خہش‬ ‫قب دلہ مال ثکہ جس کی مذمت رٓان می ں‬
‫ق‬ ‫در اج رو خواب م تل‬
‫ے اور حسب و ی ق ٓاپﷺت کی حمب نت‬ ‫ٓاپﷺ کے م ی الد کیت و ی اں م ا ا ہ‬ ‫ے گا ج نو جم پ ن‬
‫ے‬ ‫عالی کی طرف سے اس کی ج زا ی ہ ہ وگی کہ ہللا ٰ‬
‫عالی اپ‬ ‫کی سم! ہللا خ ٰ‬ ‫ے ا ب ی عمر ج ت‬ ‫ے تھ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ال رچ کر ا‬ ‫فمی ضں م‬
‫سے ناپ ی عم وں ھری ن وں می خ ش‬ ‫ع‬
‫کرے گا۔‬ ‫ں دا نلت‬ ‫ل می م ض‬
‫اہ ل کت اب حنور ب ینکری مﷺ نکی م ی الد کیئ شو ی م اے ہ ی ں‬
‫ص ح کے ا در س ی دہ ؓعا ؓہ کی ی ہ روای ت ب ی ان کی کہ‬ ‫حاکم ے اپ ی یح‬
‫ب‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ہ‬‫ٓاج ع ب دہللا ب ن ع ب دالم طلب کے ہ اں ب ی ٹ ا پ ی دا ہ وا پ ن‬
‫ہ‬
‫ے اور عرض نک ی ا‪ :‬چ ہ ب اہ ر الکر می ٹں‬ ‫ٓاپﷺ کی والدہ ماج ٹدہ کے پ اس ہچ‬ ‫ئ وہ ی ہودی ئکو لے کر ن‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫دکھا ی ں۔ وہ ب اہ ر ال ی ں‪ ،‬لوگوں‬
‫وت کا ا ھرا وا کڑا د ھا۔‬ ‫ے ٓاپﷺ تکی ی ھ م ب ارک سےت کپ ڑا ہ ٹ ہا کر م ہہر ب ک ن‬ ‫ے ہ وش ہ وکر گر پڑا‪ ،‬ج ب ہ‬
‫ے لگا‪:‬‬ ‫وشنمی ں ٓای ئا و اس سے کہا گ ی ا‪ :‬ی را ب را و ک ی ا وا؟ ہ‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫ل‬ ‫ی ہودی ب‬
‫‪)۴۸‬‬ ‫اسرا ی ل۔ ( ئ‬ ‫ذہ ب ت ا ن ب وۃ نوہللا منن ی ئ‬
‫خ ش‬ ‫ئ‬ ‫سے گ ی‘‘ ت۔ن‬ ‫سم! ب وت ب تی اسرا یشل ش‬ ‫’’ ہللاقکی‬
‫ت اےپ ج مناعت ریش! ب خ دا اب مہاری ان و وکت ا ی ب ڑھ ج اے گی کہ اس کی ب ر م رق و‬ ‫غ‬
‫ن ن‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫گی۔‬‫ض‬ ‫ے‬ ‫چ‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫رب‬ ‫م‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫وں‬ ‫ادر‬ ‫ی‬ ‫یسا‬ ‫ع‬ ‫اور‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫ہودی‬ ‫ی‬ ‫سے‬ ‫ہت‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫سے‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫دا‬ ‫کی‬ ‫اسی طرح ؐ‬
‫ور‬
‫ف‬ ‫پ ی‬ ‫ن ب‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫ح‬‫ن‬ ‫خ‬
‫ات بشوی می ں ایوان کسری می ں زلزلہ اور ارس‬ ‫ن‬ ‫ان ہ خیشارہ اص‬ ‫ے کی نوی د سبع ی د س ن ا ی ھی۔ ن‬ ‫ٓا‬ ‫کے‬ ‫رالزمان‬ ‫ٓا ت‬
‫ٰ‬ ‫ے۔‬ ‫م‬
‫ساوہ کے پ ا بی کا ک ہ وجنا ا خ ش ا ل ہ‬ ‫رہ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ش کدے کا ب جف ھ ج ا ا اور ت‬ ‫کے ٓا ؐ‬
‫ب‬
‫تپ ا ی ک ہ وگ ی ا‬ ‫م ی الد الن ب ب ہیقکے ئدن ن ارس کا ٓا نش کدہ ج ھ گ ی ا اور حی رہ سادہ کا‬
‫ی ی دال ل ب وۃخمی ں اب و عی م سے روای ت ب ی ان کرے ہ ی ں‪:‬‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫‪۵‬۔ الی من واالسعاد بمولد ی ر ا خلع ب اد‬
‫دمحم ب ن ج ع ر الکتت ا ی کا م ی ُالد الن ب یﷺقپر لکھا ہ قوا م ن صر مگر ج امع رسالہ‬ ‫بمولد نی رالع ب اد ق‬ ‫واالسعاد ن‬ ‫الی من ن‬
‫ےج و‬ ‫دت پ ناور احترام سے تان سارے وا عات کو لمب د ک ی ا ہ‬ ‫ن ہای تفع ًی ف ً‬ ‫ہوں ے‬ ‫ے۔ اس می ں ا ف‬ ‫ہ‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫حر‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ردا‬‫ق‬ ‫ردا‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ن‬
‫ی خ‬ ‫ن‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫عرب‬ ‫دوسرے‬
‫ی یہ‬ ‫ی‬
‫ے اور‬ ‫والدت سے قپہل‬ ‫ن عات کش امل ہ ی ں ج و رسولﷺ کی ُ‬ ‫ان می ں وہن سبئوارق عادات وا‬
‫سب وا عات کو بنھی‬ ‫سوس جک ی ا ان ش‬ ‫ت‬ ‫دوران حمل دی کھا اور مح‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ے ج و چک ھ‬ ‫نؓ‬
‫والدت کے ب عدنرو مانہ وے۔عقس ی دہ ٓام ہ ت‬
‫ے۔ م ر قم عالمہ ہزاد مج ددی ے‬ ‫رام سے ا ل تکت جاب ک ی ا ہ‬ ‫دت اور اح ت‬ ‫ے ہای ت ی ن‬ ‫صاحب کت اب غ‬
‫ے۔‬ ‫کی ہ‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫طر‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫ہت‬ ‫ب‬ ‫مہ‬ ‫ر‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫حت‬ ‫کے‬ ‫وان‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫وش‬ ‫ب ھی س ی دہ ٓامن ؓہ کی ٓا‬

‫‪40‬‬
‫غ‬
‫ن‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ش‬ ‫س ی دہ ٓامن ؓہ کی ٓا وش میت ں‬
‫کے م طابق ح رت س ی د فا ع بئدہللا تکا کاح نمخ دومہ عالم س ی دہ بم تیقبی ٓا من ؓہ‬ ‫کی م ی ت خ‬ ‫عالین‬ ‫ٰ‬ ‫اور ج نب ہللا‬
‫ہ‬
‫دہللا ے ان سے ا ت الط ک ی ا اور مج امعت رما ی۔ و ی ہ معزز وران کی طرف ن ل وگ ی ا‬ ‫سے ہ وا اورن ؓج اب ع ب ئ‬
‫ئ‬ ‫ن ن ن‬ ‫ض‬ ‫سے ہ و ی ں۔‬ ‫ٓام ہئام ی د ت‬ ‫ث‬ ‫اور س ی دہ‬
‫ب‬ ‫ت‬
‫کی ص یر ح کے م نطابق نح ورﷺ کے عالوہ وع ا سا ی می ںم قسے کو تی اور ٓاپ کے طن‬ ‫اک رنٓا مہ ٹ‬
‫ارک کی‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫اب ع ب دہللاشسے س ی دہ ٓام ہ کیق طرف ل نوا و ی ہ معۃ الم ب ش‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬
‫م ب ارکہ می ں ہی ں ہرا۔ ج ب ی ہ ور ج ش‬
‫ت (اب وی مقن ب تی علی ہ السالم) عب‬ ‫ھی۔ اس و ق‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫قب‬ ‫ن‬ ‫دو‬ ‫ب‬ ‫ب المرجت ب کی ی کم اور‬ ‫رات ی ا ماہ محرم رج ن‬
‫ج‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫س‬
‫ے۔ ئ‬ ‫دسہم ام کے شری ب ش ی م ھ ن‬ ‫ڑے۔ ادش‬ ‫ےم‬ ‫ابی طالب می ں ندرم ی ا ی ون ( مرۃ الو ٰطی) ی س‬
‫ساری د ن ی ا کے ب ت من ہ ف‬
‫ص ح کو‬ ‫وکت ما دقپڑ گ ی اس ب‬ ‫ت ت‬ ‫و‬ ‫ان‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫عالم‬ ‫ان‬
‫ش‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫کے ب ل گر‬
‫نہ کرسکا الب ت ہ اپ ا مدعا اق اروں سے اہ ر کر ا ھا۔ ریش مکہ کا ہ ر‬ ‫ن‬ ‫دن اشکا ہ ر ادش اہ گو گا ہ وگ ا اور ورا دن گ ت گو ن‬
‫یٹ پ‬ ‫ب‬ ‫ی‬
‫ک ے کہا۔ رب کعب ہ کی سم! ہللا کے رسولﷺ اور کامل عالم کے‬ ‫ول ا ھا اور ہ ر ایئ‬ ‫موی یش اس رات ب شت‬
‫ے‪ :‬عالم کے چ ارہ گر اور اہ ل عالم کے‬ ‫ئ ب کہ ای ک روای ت می ں ہ‬ ‫امام‪ ،‬کمن مادر می ں ریشف لے ٓاے ہ ی ج‬ ‫من‬
‫ش‬ ‫ن ت‬ ‫خ‬ ‫ئ‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ن ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫گر‬ ‫لوہ‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ئ‬ ‫ی‬‫م‬ ‫کم‬ ‫کے‬ ‫والدہ‬ ‫ی‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫مہر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫گ‬
‫رات کو ی ھر ایسا ہ ھا ج و چ مک ہ گ ی ا ہ و اور کو ی طہ زمی ن ہ ھا جس می ں رو ی‬ ‫اس ئ‬ ‫ےہ ی‬ ‫ف ایس‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ض‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫اور رحت سرای ت ہ ہ کرہگ ی و۔ خ‬
‫صورت‬‫ن‬ ‫ے۔ ئح ورﷺ کی‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫دحالی می ں ب ال ھئ‬ ‫ے ام ل مئکہ س ت گی اور نطوی ل معا ی خب ن‬ ‫سے ثپ ل‬ ‫ن اس ف خ‬
‫سال کا ام‬ ‫ے۔ لہذا اس ت‬ ‫ے‬ ‫د‬
‫پن ی گ‬ ‫ا‬ ‫ٹ‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫زا‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫ات‬ ‫ش‬ ‫یخ‬ ‫عط‬ ‫ئ‬
‫اور‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫ل‬ ‫‘‘‬ ‫ر‬ ‫یمی نں ا ہی نں ل’’ت ی ی‬
‫ک‬ ‫ر‬
‫ش‬ ‫ت‬
‫واالب ہاج‘‘’’ک ا ش و و حالی واالمسال‘‘ئرکھ دی ا گ ی ا۔ یک و کہ اس سال پرچ م حمد اور اج‬ ‫ت‬ ‫ع ی ’’م ۃ ا ح ن‬
‫ت ن‬ ‫ت‬ ‫یک ت‬ ‫)‬‫ئ‬ ‫‪۵۰‬‬ ‫(‬ ‫ے۔‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫کن‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ادر‬ ‫م‬ ‫رحم‬ ‫الم)‬ ‫س‬ ‫ع‬
‫کرامت والے ن ؓ( خ ی ل‬
‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ہ‬ ‫کت‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫کی اب ا ی وں‬ ‫ے وے د ھ ی ھی ں‪ ،‬جسئ‬ ‫ے وصودتسے قرو ن ا وار کو ل‬ ‫واب می تں اپ‬ ‫ٹ‬ ‫ٓام ہ ب ارہ ا‬ ‫ش س ی دہ غ‬
‫کے م طابق س ی دہ کو حاملہ ہ وے دو ماہئمکمل‬ ‫ات‬ ‫ی‬ ‫روا‬ ‫و‬ ‫وال‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ؓ‬ ‫ر‬
‫ن ی‬ ‫ح‬ ‫ح‬
‫ی‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ا‬ ‫گا‬‫م‬
‫ج‬
‫ئم ترق و م ض ؑ گ‬
‫رب‬ ‫سے‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫ے۔‬ ‫گرامی س ی د ا ع ب دہللا‪ ،‬ہای ت پ اکی زہ اور پ س دی دہ حالت می ں ہللا کو پ ی ارے ہ وگ‬ ‫ے کہ ح ور کے قوالد ٹ ئ‬
‫ف‬
‫ہ وے ھ‬
‫ن‬ ‫نن‬ ‫اس و ت ا ھا یس برس ھی۔‬ ‫ارک ض‬ ‫ٓاپ کی عمر م ب ش‬
‫لب کے ھ ی ال ب و عدی‬ ‫ٓاپ کے والد ج ن اب عفب دالم ط‬ ‫ن ٓاپ کو نہر ی لت مٓاب مدی ن ہ منورہ می ں ف‬
‫ن ٓاج ت ک ای ک لمب ی سی گلی‬ ‫ب ن ال ج ار کے کا ات می ں سےتای ک ک تان می ں د ن ک ی ا گ ی ا۔ ٓاپ کاخ مد ن‬
‫م‬ ‫م‬
‫ے اس وش صی ب کی ج و ان کی ب ارگاہ می ں‬ ‫ے۔ و ک ی ا ہ ی سعادت ہ‬ ‫ے۔ جس کی زی ارت کی ج ا ی ہ‬ ‫می ضں ہ ق‬
‫ُ‬ ‫ن‬ ‫حا ری کا صد کرے۔‬
‫ن‬ ‫ج عف ل م ئ‬
‫کا ذکر‬ ‫س عرض ؓ‬ ‫دمحم ب ن ر ا کت ا ی ف ال کہ کی ہللا رب انلعزت کی ب ارگاہ می ں ا ق‬ ‫امام ض‬ ‫کے ب عدن‬ ‫ت اس ن‬
‫ارگاہ خ داو دی می ں کی اور اس وا عہ کو اب و عی م اور‬ ‫پب ِ‬ ‫ر‬ ‫ات‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫دہللا‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫رت‬ ‫تؓح‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬ ‫کرضے ہ ی ں ج و ا‬
‫نن عنب اس کے حوا خلے سے امام ج الل‬ ‫ئ‬ ‫ح رت ع ب دہللا ب‬
‫ً‬ ‫ب‬ ‫پ‬
‫ف‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ا‬
‫فی ق ی ہ ن‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ھی‬
‫ی‬
‫ں‬ ‫م‬ ‫ری‬
‫ن بل ب ن ٰ ی‬ ‫ک‬ ‫ق‬‫ا‬ ‫ص‬ ‫ا‬‫ص‬ ‫ال‬
‫ن‬ ‫ل‬
‫ف‬ ‫نمی ئ‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫س وطی ف ق‬ ‫الدی ن ی‬
‫ن الت ال ال کۃ ا ھ ا وس ی د ا ی ب ی ک ھذا ت ی ما ال ہللا ا ا لہ ولی وحا ظ‬
‫ن ف‬ ‫ت ن‬ ‫ر۔(‪)۵۱‬‬
‫ن‬ ‫و فصی ش ت‬
‫کہا‪ :‬ی اہللا ی را ب یﷺ ی ت ی م پ ی دا ہ وگا‪ :‬ہللا پ اک ے رمای ا‪:‬‬ ‫ف ن‬ ‫ے‬ ‫وں‬ ‫’’ ر‬
‫ت ً ت‬ ‫ان اور مددگار وں۔ ب‘‘‬ ‫ہ‬ ‫ت می ں ان کا محا ظ و ہ ب خ‬
‫گ‬
‫ک‬
‫کے اسم پ اک سے اح جرامانب ر ی ں‬ ‫وب ت لوۃ و سالم یھ ج و خاور تان‬ ‫ص‬ ‫وب پر ن‬ ‫رے حمب ت‬
‫ح‬ ‫ت‬ ‫ص پس م سب می‬
‫کی حاملہ وا ی نشکو کمتدی ا کہ وہ تلڑکوں کو م تدی ں ی ہ‬ ‫امت ت‬ ‫مام عالم‬ ‫ے ق‬ ‫عالی ت ت‬ ‫اس س تال ہللا ظب ارک و ٰ‬ ‫حا ل کرو اور‬
‫ے۔‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫رو‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ہرہ‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ک‬ ‫اکہ‬ ‫ھا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ار‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫مت‬ ‫ع‬
‫سب ٓاپ ن ظ ؓ ف‬
‫کی‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫حم ن‬ ‫ع‬
‫ن ی ں‪:‬‬ ‫دہ ٓام ہ رما ی ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫قس‬
‫ے ئکا‬ ‫رکت واال ل ہی ں دی کھا۔ ٓاپ کے کہ‬ ‫نکا پ ھلکاناور ظ ینم ب ن‬ ‫سے زی ادہ ہ ل‬ ‫ک‬
‫اس‬ ‫سم خ دا! می ں ے ن‬
‫ے اور دوڑ دھوپ وانلے کاموں می ں کو ی‬ ‫ھر‬
‫ت‬
‫چل ئ خ‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ا‬ ‫ئ‬
‫ج‬ ‫ے‬ ‫ٓا‬ ‫ں‬ ‫ےئکہ اس سے ا ی ی‬
‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫م طلب ین ہ ہ‬
‫ان سے‬ ‫ت‬
‫ے وحمواب می ہں ای ک ٓاے واال ٓاجی ا ناور ش‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬
‫رکاوٹ ہی نں ٓا ی۔شج ب ٓاپ تکو ام ی دخ سے وے چ ھ نماہ گزر گ‬ ‫ت‬
‫رف‬ ‫کا‬
‫سے ب ھی اپ ان‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫و۔‬
‫ض حم ج‬ ‫سے‬ ‫ل‬ ‫کے‬
‫ن‬ ‫ن ال قن اور سرور کو یش ن‬ ‫ن‬ ‫ےن ک م ب ہ ری‬ ‫ٓام ہ! ب‬ ‫کہا‪:‬صاے ت‬
‫ے کسی‬ ‫ہ‬
‫ے کو پو ی دہ ر ھ ا اور و ع ل سے پ ل‬ ‫ک‬ ‫م‬
‫ے معا ل‬ ‫ک‬
‫اس کا ام ’’دمحم‘‘ ر ھ ا اور اپ‬ ‫حا ل کرلونو ن‬
‫حال ب ی ان ہ کر ا۔‬
‫‪41‬‬
‫نق‬ ‫قت‬‫ف ن ن‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ے عمرو ب ن ی ب ہ کے ؓحوالے سے نحدقی ث ل کی ہ‬ ‫ن ہانی ض‬
‫اور اب و عی م اص‬
‫ے‪:‬‬ ‫روای ت ل کی ت‬ ‫اور اب و عی م ہ ی یے ح سفرت شع ب دہللا ب ن ع اس کی خ‬
‫ے پ ی اس لگ رہ ی ھی سو‬ ‫ے بج و می رے ی ال می ں دودھہ ھا جم ھ‬ ‫روب ہ‬ ‫ن پ ھر می ں ے د کھا کہ ی د م‬
‫ی ک ت بن‬ ‫ق ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫سے پی ل ی تا۔ یتہ‬ ‫شم ں ے ا ش‬
‫ن ور می رے اوپر چ ھا گ ی ا۔ پ ھر می ں ےقسر نو د عور ی ں خد ھی ں ج و و‬ ‫ہت زی ادہ‬ ‫ھا۔ پ ھر ب ن‬ ‫ی شہد سے زیشادہ ت ی ری جں‬
‫ے چجماروں اطراف سے می رے گرد حل ہ ب ال ی ا۔ می ں س ت جع ب‬ ‫ہ ا م کی دو ی زأوں یسی ھی ں۔ ا ن ہوں ن‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ے ان ل ا؟‬ ‫ک‬
‫ے یضس‬ ‫کے عالم می ں ظھی‪ :‬می رے فہللا! ا ہوں ے ھ‬
‫اور م جعراج اشیلن ب یﷺ والی دو وں رات ی ں دن ی ا پکی دی گر مام‬ ‫ے کہ ضوالدت ب اسعادت‬ ‫ات اہ ر ہ‬ ‫ح‬ ‫ت ق یہ ب‬
‫ے‬ ‫ا‬ ‫ٓا‬
‫فض ی ی یہ‬ ‫ش‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫را‬ ‫دو‬ ‫ان‬ ‫ھ‬ ‫چک‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫رو‬ ‫اور‬ ‫ح‬ ‫وا‬ ‫کہ‬‫ن‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫ں۔‬ ‫ہ‬
‫تی‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫ح‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫را وں سے ب‬
‫ے۔ ہ ق ً ت‬ ‫ط‬ ‫د‬ ‫پ‬‫ا‬
‫کے ا ت یام رہ‬ ‫ں‬ ‫خ‬ ‫م‬ ‫الوہ‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫دو‬
‫ہوہقدن ج و ان را وں ی‬ ‫ان‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫اور و وع ظپ ذی‬
‫اس‬ ‫ے ئاور ق‬‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ت‬
‫سے‬ ‫ام‬ ‫ا‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫ا‬ ‫وا‪،‬‬ ‫لوع‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫طرح‬ ‫اسی‬
‫ے و ی ہ ن یدو را ی ں اسی اب ل‬ ‫سب چک ھ اگر بوا عت ا ایسا نہ یی ہئ‬ ‫ش‬ ‫ے اور تی ہ‬ ‫ہ‬ ‫اسی مو ع پر م ن اسبنلگت ا‬ ‫کی مث‬ ‫ب ات کا ا ہار‬
‫ئای ا ج اے اور کی و ب ھال ی قکے‬ ‫تطرح م‬ ‫ئٓاے والی راتعکو تب ع ی د کی‬ ‫سال)‬
‫انطور پر ائسے اپ ن ای ا ج ا ن‬
‫ر‬ ‫ہ‬ ‫(‬ ‫ل‬ ‫ہ ی ں کہ‬
‫ے۔اور اس کی ظ ی نم و بکری م کرئے ئہ وے فاس می ں ہللا کی کت اب م دس‬ ‫ش‬ ‫موسم کے‬
‫ن‬ ‫سرت اور اس کی‬ ‫فب کضثرت پڑھی ج اے۔تاس کی صف ت ب می ں وہ امور ج ا العے ج ا ی ں جن و شرحت‪ ،‬م ئ‬
‫م‬ ‫ئ‬
‫ے پر کر ادا ک ی ا ج اے ج و اس ے‬ ‫عالی کا ن اس فعمت ظ ٰمی کے ل‬ ‫ے ہ وں اور ہللا ؐ‬ ‫ی لت پر داللت کر ش‬
‫خ اص م ی الد کی رات ( ب م ی الد الن ب ی) ٰ کو ع ای ت رما ی۔‬

‫ن‬ ‫ش‬ ‫ئ خ‬ ‫ق‬


‫ئطری ہ اپ ن ای ا ج اے ج و الف رع ن ہ ہ و اور ن ہ ہ ی م ی الد م ن اے والے کو ڈان ٹ‬ ‫ے ایسا‬ ‫اس کے لی‬
‫ن‬
‫ڈپ ٹ اور مالمت کی ج افے۔ ف ت‬
‫ن خ ت لن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی رماے ہ قی ں کہ‬
‫س‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫یﷺ فال‪ :‬ا ا ا دالمر لی ن وال خ ر وا ا ا م ا ب ی ی ن وال‬ ‫فعن نج اب ر ان ا فلن ب ش ف‬
‫‪ )۵۴‬ن‬ ‫ش م‬
‫ن ف‬ ‫خ ر ضوا ا اول ا ع و ع وال خ ر۔ ف( ض‬
‫اکرمﷺ ل نے رمای ا‪ :‬می ں‬
‫ی‬ ‫ب‬
‫خت‬ ‫ے کہ نح ور ب تی‬ ‫رت ج اقب ئر سے مروی ہ‬ ‫ت’’ح ف ں‬
‫ہ‬
‫نمی ں ا م ا ی ن وں اور‬ ‫مام رسولو نکا ا د توں اور اس پرش ف خ ر ہی ں کر ا‬ ‫ہ‬
‫ے واال اور می ں ہ ی ئوہ پفہال‬ ‫اس پر خ ر ہی ں کر ا۔ میش فں پ ہال ق اعت کر ئ‬ ‫شخ‬
‫ص) ہ وں جس کی اعت ب ول کی ج اے گی اور اس پر کو ی خ ر‬ ‫ت‬ ‫ن(‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫‘‘‬
‫ن‬ ‫ا۔‬ ‫کر‬ ‫ں‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫اس م ں کوی فی ش‬
‫کارکردگی‬ ‫ت‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫امات‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬
‫خ‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫گزار‬ ‫اطاعت‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫ے‬
‫ف ن‬
‫ے اور ح ہ ید‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ان‬ ‫سے ئی در ہی ب ہت ر‪ ،‬ا ض ل‪ ،‬کث ر اور ش ان دار ہ وں گے ی ون کہل طا س ی کے ش ا ان ش‬ ‫ی‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک ع‬ ‫ی ت‬ ‫ک حج‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ا‬‫ط‬
‫م ب‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫والے کی ف ی ث ی‬
‫ج‬
‫ہت زی ادہ ب ا ی ں کرے ہ یف ں۔ یسا تکہ عام طور پ قر اس می خں‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ں لوگ‬ ‫غ محانل م ی جالد کے ب ارے می ت‬
‫ے۔ نصد ات و یخرات‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫رحت‬ ‫اعث‬ ‫ق‬
‫ل ب ئ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫وں‬ ‫ار‬‫ص‬‫ب ت‬ ‫اور‬ ‫وں‬ ‫ے ج و سماع ہ ت‬ ‫ے کا ر ق حان ہ‬
‫ع‬ ‫چ را اں کر م ن‬
‫کے عالوہ ب‬‫ئ‬
‫ں‪ ،‬ب ل د نٓاواز سے ی رو‬ ‫ے۔ عت ی ہ صا د پڑشھے ج اے ہ ی ن‬ ‫اعمال کا ا مام ک ی ا ج ا ا ہ‬ ‫دت ت‬ ‫ب‬ ‫ص ی بر ی‬
‫الوہقوہ امور ن کی ری ظعت می ں مما عت شہی ں اور عرف‬ ‫ج‬ ‫کے ع ق‬ ‫ے اور ناس ئ‬ ‫الخ ال ق پر لوۃب و سجالم یھ ب ج ا ج ا نا ہ‬
‫ع‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ن ناور اکاب ر لوم اہ ر و ب اطن چکےنار ادات اس پر‬
‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ں ھی ن کا ج ا ال ا مبعی وبن ہ و۔ اق مہ ض ی ئ ق‬ ‫و عادت میت‬
‫ے اعمال اگر ا ھی ی ت سے وں‬ ‫ےتاعمال ج ا الے می تں کو ی م ا ہ ہی ں ب کہ ا س‬ ‫داللت کرے ہ ی ں کہ ایس‬ ‫ت ن‬
‫ی ف‬ ‫ے۔‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫اج‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫و کر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫لمس‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ین‬ ‫ل‬
‫ل‬
‫واالعمال ب ال ی ات‪ ،‬ول ل امریء ما وی وما رٓاہ ا مون وحس ا ھو ع دہللا‬
‫شخ‬ ‫ن‬ ‫حسن۔(‪)۵۵‬‬
‫ے جس کی‬ ‫ےو یہ‬ ‫ہ‬ ‫ے اور ہ ر ص سکے لی‬ ‫اعمال کا دارو مدار ی تعمپر ہ‬ ‫’’اور ت‬
‫م‬‫ج‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫اچ‬
‫ے اور جس ( ل) کو لمان ھا ھی ں وہ ہللا کے‬ ‫نوہ ی تبکر ا ہ‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ے۔‘‘ ن عم ن‬ ‫عم زدی ک ھی اچ ھا ہ ن‬
‫ہب) کو جنس‬‫ن‬ ‫ل‬‫ن ب اس کا ر (اب و‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫اس ل کو ہ رگز ب ری ب دعت ی ا اپ س دی دہ ل ہی ں ہ ا چ اے یک و کہ ج‬
‫ٓاپﷺ کو ناذی ت پ ؓہ چ اے‬ ‫عالمﷺ کے سات نھ عداوت میئں گزری۔ناور خاس ے ن ئ‬ ‫اری عمرشرحمت ت‬ ‫کی س‬
‫ے ب ھا ی س ی د ا ع ب اس کو ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫مم‬
‫عالی کی رحمت صی ب وگ ی۔ اس ے واب می ں اپ‬ ‫کی ہ ر کن کو ش کی‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫‪42‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫خ‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ب‬
‫کہ اس ے‬ ‫ے کی ن ون‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬
‫خ‬ ‫ج‬ ‫کردی‬ ‫می‬ ‫ہت‬‫ث‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫عذاب‬ ‫ن‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫رات‬ ‫کی‬ ‫ر)‬ ‫پ‬
‫ب ی‬ ‫(‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫دو‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ر‬
‫ض‬ ‫ب‬
‫ورﷺ کی والدت ب اسعادت کی و ب ری س ن اے والی ک ی ز ’’ وی ب ہ‘‘ کو اس ب ر کے س اے کی وج ہ سے‬ ‫ت‬ ‫ح‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ٓازاد کردی ات ھا۔‬
‫ے؟ ج و سرکار دو عالمﷺ کے ارش ادات کی‬ ‫ح کی ی ہ ک ن‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫مہارا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ارے‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫مومن‬ ‫اس‬ ‫ون‬ ‫ت‬
‫م‬
‫ٓاپﷺ کی کا ل ن حمب ت‬ ‫خش‬ ‫ے۔ اور‬ ‫واال‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫ر‬ ‫دعوت‬
‫ن‬ ‫کی‬ ‫ٓاپ‬
‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫واال‬ ‫ے‬ ‫ئ‬‫کر‬ ‫ق‬ ‫صد‬
‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ب پ ی‬ ‫کے یہ مم‬ ‫ت ی‬
‫ے اور ٓاپ کی ش ان و عظ مت کی و ی می ں ہ ر م اسب‬ ‫ے ہ ر کن کو ش کرے واال ہ‬ ‫ک خرسا ی ن ل‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫واال‬
‫طری ہ ا ت ی ار کرحے ن‬
‫ش‬
‫خ قئ‬ ‫ے کہ‬ ‫ے السشی رۃ الحلب ی ہن می ں ی ہ روای ت ب ی نان کی خہ‬ ‫امام لب ی‬
‫ے ا ت ی ار ا م‬ ‫ب‬ ‫طرح‬ ‫کس‬ ‫سے‬
‫ٹ نت ش ق‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ص‬ ‫گار‬ ‫اس‬
‫ن نب ش گ ہ‬ ‫ط‬ ‫ر‬ ‫کا‬ ‫وازی‬ ‫کرم‬ ‫ان‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬‫ع‬ ‫اس‬ ‫دی ک تھو‬
‫سے سعادت کی‬ ‫ن‬
‫ہ وگ ی ا۔ یم ت قہاں ک کہ اس کے گ اہ وں کا ن‬
‫ام و ان نمٹ گ ی ا اور اسعکا ھکا ہع اوت پ ن‬
‫کی اور ا ی حمب ت و‬ ‫طرف ن ل ہ وگ ینا۔ اس وج ہ سے کہ اس ےشامام اال ب ی اء کے اسم ظ ی م کی ظ ی م ت‬
‫مروت تسے اس پر درد پڑھا۔ و اس کا ک ی ا عالم ہ وگا ج و‬ ‫عق دت ب ھری ٓا ک‬
‫مس ک ی ا اورکمال ا ت ی اق و پ ن‬ ‫سے ث‬ ‫ھوں‬ ‫ی‬
‫اطاعت و پ یروی می ں بسر‬ ‫ق‬ ‫ٓاپﷺ کی حمب ت می ں اپ ن ا ک ی ر مال و زر صرف کرے اور ا ی مام عمر ان کی‬
‫ٓاپ کے اہ ل ب ی تعت وسج راب ت سے‬ ‫اور‬ ‫ھے‬‫کرے اور کثرت سے ٓاپ کی ذات پر صلوۃ و سالم پڑ ت‬ ‫ق‬
‫عل ک ن‬ ‫ٰ‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫ے۔‬ ‫ے والی ہ ر چ یز کو حم رم م ھ‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫طہ‬ ‫الوا‬
‫ب س یب س‬ ‫ا‬ ‫طہ‬ ‫الوا‬ ‫سے‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ٓاپ‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ر‬ ‫دت‬ ‫عی‬
‫ق ن ق‬ ‫ہللا کے احسان ظ ی ضم ؑکی ظ ی م ت ئ‬ ‫ع‬ ‫ع‬
‫ت‬ ‫ص‬ ‫ئ‬
‫ے‬ ‫والدت کے و ت عت ی ہ ئصا دناور تلوۃ و سالم پڑھ‬ ‫ے ہ وے عی ن ذکرّ ق‬ ‫طرح ح ورم کا م ی بالد پڑھ‬ ‫ئ ق اسی ن‬
‫ہ‬
‫ے۔ ی ہ مروج ہ ی ام ا الف کے اں را ج ہی ں ھا ب لکہ ان کے‬ ‫س‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ وے ی ام کرےنکا مول خھی چ ال ٓار ا ہ‬
‫ہ‬ ‫ع‬
‫ف ن‬ ‫ش‬ ‫ے اسے ا ت ی ار ک ی ا۔‬ ‫ب عد والے ب زرگوں ت‬
‫ن‬ ‫ع‬
‫ے و اس ت عمت کب نری اور عطی ہ ظ ی ثم کے ع طا رماے‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫خ‬ ‫ٰ‬ ‫پ‬ ‫عالی شکی ب بارگاہ می ں ہ دی ہ کر ہ‬ ‫اور ی ہ ب اری ٰ‬
‫ےج و‬ ‫سان‬
‫م کپ غ ف ح ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫وہ‬ ‫ر‬ ‫لوق‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫عالی‬
‫ٰ خ‬ ‫ہللا‬ ‫ہ‬ ‫ہ ی‬ ‫ے۔‬ ‫دار‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ر‬ ‫ج پ‬‫طور‬ ‫ا‬ ‫کرکا‬ ‫ظ‬ ‫سے)‬ ‫طرف‬
‫ماری ت ق‬ ‫پر (ہن‬
‫ے۔ الحمدللہ‬ ‫ے ب ی ر رمای ا ہ‬ ‫اس ے ب ال اس ح اق‪ ،‬کسی اہ ری‪ ،‬سب ب اور ان کے کسی کمال و وبی کو لحوظ ر ھ‬
‫ن ؓ‬ ‫ض‬ ‫ذلک۔‬
‫ن‬ ‫علی‬
‫ے‪:‬‬ ‫س سے مروی ہ‬ ‫رت ا ت‬ ‫ں نح ض ف‬ ‫بس ن اب ن ماج نہ می ت‬
‫خ عض سی رت گار نا ا ا خ ا ہخکرے ہ ی ں‪:‬‬
‫ش وش ٓامدی د! اے ب ی م ت ار! وش ٓامدی د! اے صالحی ن کے سردار!‬
‫ش‬ ‫ض‬ ‫خت ف‬ ‫خ‬ ‫والدت‬
‫تق‬ ‫صح ب‬ ‫ب‬
‫ادت پ یر (دو نت ب ہ) کے روز‬ ‫ے کہ ح ورﷺ کی نوالدت ب اضسع ن‬ ‫ش‬ ‫سب م ت دمیج فن و مت ا ری بن کا ا اق ہ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ت م ت لف احادی ث م ب ارکہ کی رو ی می ں ح ور پر ورﷺ کی اری خ والدت‬ ‫ہ و ی۔ ام نام دمحم ب ن ع ر الکت ا ی ھی‬
‫ئ‬ ‫ے کہ‬ ‫ج‬
‫ے ہ ی ں یشس‬ ‫کا ب ی ان اپ ی اسس صن ی ف می ں کر‬
‫ش‬ ‫ش‬
‫کے م طابق ب ال ک و ب ہ ٓاپ کو والدت ب اسعادت دو ن ب ہ (پ یر) کے دن ہ و ی۔‬ ‫لم) ت‬ ‫ص ح بحدی ث (م ع ف‬ ‫یح‬
‫ت‬ ‫ث ظ‬ ‫شن‬ ‫ج ب کہ عض ا ل ش لم رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ے‪ ،‬ی ہ حدی ثت اگرچ ہ‬ ‫ے ھ‬ ‫ہ‬
‫کے ٓا ار اہ ر وچ ک‬ ‫ئ‬ ‫ص‬
‫ث ر تیف ئکے ب ی ثان کی رو ن ی می ں ف بض ح صادق ض‬ ‫حدی‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ث ر ب ھی عم‬ ‫ی‬‫حد‬ ‫ف‬ ‫ں‬ ‫م‬‫ن‬‫ل‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫زد‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫حد‬ ‫مہ‬ ‫ا‬ ‫مام‬ ‫کن‬ ‫ی‬
‫ق‬ ‫ےل‬ ‫ف‬
‫یج ہ‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫عی‬ ‫ی‬ ‫ی ن‬ ‫ت‬
‫ثعم ی ف‬ ‫عی ہ‬
‫ے ج ب کہ مذکورہ ب اال حدی ث‬ ‫اس کی تصدیق کی ہ‬ ‫اسلم سے ب ھی اس ا مال کی ائ د ہ و ئی ے ج یسا کہ ہ م ے اش‬
‫ے‬ ‫ن‬ ‫ہوں‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫اق‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ماء‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫اک‬‫ت‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ول‬ ‫دوسرے‬ ‫مس‬
‫خ‬ ‫ھا۔‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ارہ‬ ‫ہ‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ث‬
‫ح‬
‫ص ح صادق‬ ‫ےقکہ والدت م بش ارکہ مقکہ معظ مہئمی ں رات کے ٓا ری پہر ( ب‬ ‫ق اور اس سے ن اب ت ہ و ا ہ‬
‫ن‬
‫زما ہ می ں)‬ ‫ف‬ ‫کے‬
‫ف خ‬ ‫ت) ؐای ک ب نل د پ ہاڑی شکے ری ب اسق م ہور م ام پر ہ و ی ج و ئٓاج کل (مصن ت‬ ‫ل‬
‫کے و‬
‫ت‬
‫ے۔قج ب کہ ب ل ازی ں ی ہ ای ک رہ ا ش نگاہ اور مکان ھا۔ لی ہ ہ ارون‬ ‫ہور ہ‬ ‫نسے م ث‬ ‫مسجش د م ی الد ا ن ب خی کے ام‬
‫ھی۔‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫مہ ن‬ ‫ے ی ہاں سج د ب یوادی ش‬ ‫ے حصول واب و رب ا ہٰی کے لی‬ ‫الر ی د کی ثوالدہ ی رزان ئ‬
‫ے‬
‫تی ث‬ ‫کے‬ ‫ف‬ ‫ر‬
‫ٹ ب ی‬ ‫االول‬ ‫ع‬ ‫ر‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ہار‬ ‫ب‬
‫ئ‬ ‫موسم‬ ‫والدت‬ ‫ئ‬
‫کی‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫ب‬
‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ماء کینرا ہ‬
‫ے‬ ‫ت‬ ‫ئ اک ر عل‬
‫ے کہ ٓا ھ ر ی ع االول کا دن ھا اک ر‬ ‫االول کو ہ و ی۔ ای ک راے ی ہ ہ‬ ‫ے کہا سات ر ی ع ئ‬ ‫می ثں ہ و ی۔ پ ھر چک حقھ‬
‫ب‬
‫عم‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫طرف گ‬ ‫محد ی ہن اور اہ ل ب ی ی ق ھیہاس ن ت‬
‫ے ہ ی ں اور اسی پر ل پ یرا ہ ی ں۔‬ ‫ج ب کہ ا ل مکہ ‪ ۱۲‬ر ع االول ی ما‬

‫‪43‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ ت‬ ‫ف‬ ‫ئ ت‬ ‫ض‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ہ‬
‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬‫ت‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫پ‬
‫ھ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ٓا‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬
‫ھ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫گر‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ام‬ ‫ق‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫والدت‬ ‫کی‬ ‫ض‬ ‫ورﷺ‬ ‫ن ح‬
‫ورﷺ غکے وج نود ا دس کی ب دولت ہ ی نو ہ ا ھی وں کو مکہ سے دور د ک ی لئدی ا ھا۔‬ ‫ئ‬ ‫ے مکہ مکرمہ می ں ح‬
‫ت‬
‫ٓاپ‬‫کدورت جکے قہای ت پباکی زگی کی حالت می ں ہ فو ی‪ ،‬ق‬ ‫ئاور ئ ت‬
‫ہ‬
‫ٓاپﷺ کی پ ی دا ش ب ی ر کسیٹ اپ اکی‬
‫ت‬
‫پن ن ش ش‬
‫عزت و کر واال م تام‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ھی‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫د‬ ‫لہ‬ ‫ب‬ ‫کہ‬ ‫ض‬ ‫و‬ ‫خ‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫ے‬‫ش‬ ‫خ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫طرف‬ ‫ن‬ ‫کی‬ ‫ٓاسمان‬ ‫ن‬ ‫ادت‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ا یا گ ت‬
‫گ‬ ‫ب‬
‫ڑپ کے سا ھ‬
‫مکم‬ ‫ساری اور غ‬ ‫وع خو وع‪ ،‬عاج زی و ا ک ت‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ٓاپ کی ب ی ہ ا ل ی اں ب د ھی ں۔ ہای ت‬ ‫ن‬ ‫ھی ہ‬
‫ے الق و مالک کی طرف م وج ہ ہ وکر ن ی ر سے ل‬ ‫پ‬‫صرفشاور صرف ا‬ ‫خ‬ ‫ے‬ ‫ت لی‬‫ن‬ ‫دگی و عالمات ع ب دی خ‬ ‫لوازمات ب ف‬ ‫نق‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫دست الہٰی ہ سے ٓاراس ہ و پ یراس ہ معطر و مع ب ر ہ وکر‪،‬‬ ‫ں مسرور و م ون ( ت ہ ف دہ)ئ‬ ‫ن‬ ‫ا ن طاع کی کی ی ت می ن‬
‫ق ن‬ ‫ہ‬
‫مصطفسرمہ ٓا ھوں می ں لگاکر ج لوہ رما وے۔ت‬ ‫ک‬ ‫ع ای ت نازلی کا‬
‫یﷺ ج ب س یق قدہ ٓامن ؓہ کی گود می ںتٓاگ ی ا و اس کی چ مک دمک سے پوراتعالم ب ن عہ ور ب ن گ ی ا۔‬ ‫ت‬ ‫ن ظ و ِر ن‬
‫ہ‬
‫ی ہ ور انہ ر ظا وار ی ھا ن گر اسن کی ی نت چک ھ اور ون ی ھی۔ ب صارت کو ب قصی رت نکےت سا ھ ن م ر نگ کرکے‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫اس ذات م دس کا ور ھا ج و ا ا من ورہللا ق‬
‫کی‬ ‫خ‬ ‫ں۔ یتہ غ‬ ‫کل جسما ی لماتنکو م ور کردی ا مع نمولی ور کا کام ہی ئ‬
‫ے ہ وے ھا۔ رض ی ہ کہ اس روز عالم می ں ای ک اص سم‬ ‫ے۔ت ی ہ ور اجسام کے ا در سرایع قت یک خ‬ ‫صداق ہئ‬ ‫م شن‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫س کے ادراک می ں ل ی رہ ہ‬ ‫ن‬ ‫کی رو ی و ی ھی ج ف‬ ‫ہ‬
‫ص ح نب‬ ‫تاور مال علی اری کی طرح س ی دہ ٓامن ؓہ کو ب‬ ‫نن ج ع ر الخکت ا ی ب ھی اب ن ج قوزی‪ ،‬اب قن نحج ر مکی‬ ‫پامام دمحم ب‬
‫ئ‬
‫ٓاپﷺ کی والدہ ماج دہ ے‬ ‫کہ‬
‫ےن‬ ‫ےنہ ی ں ی س‬ ‫ج‬ ‫والدت ی ظش ٓا قے والے قوارق عادت وا ن عات لمب د کر ت‬
‫ش‬
‫ک‬
‫کے م الت تد ھا ی‬ ‫ح‬ ‫ں ام ق‬ ‫ک ایسا ور دی کھا‪ ،‬جس کی اب ا ی وں می ں ا ہیخ ش‬
‫ٹ‬ ‫ٓاپ کے ہور دسی کے و ت ای ق‬ ‫ن‬
‫عادت نکے و ت تساری زمی ن ج گمگا ا ق ھی‪ ،‬ست ارے و ی اور ع ی دت و اح رام‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫والدت‬ ‫اور‬ ‫ے‪،‬‬
‫گ‬ ‫ےل‬ ‫دی‬
‫ے عی ن‬ ‫ے‪ ،‬ی ہاں ک کہ ٓاپ کے رب و وصال کے حصول کے لی‬ ‫ےتگ‬‫ل‬ ‫کے متارے ٓاپ کیخطرف ھک‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫مم‬
‫خ‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫کن ھا کہ وہ ارض اکی پر گر ج‬
‫ب و ری ب عالمات اورت رق‬ ‫رات ھی و سارے عالم می ں ج ظعی ق‬ ‫والدت ب ا ظسعادت کی م ب ارک ن‬ ‫جب ق‬
‫عادت امورتو وا عات کا ہور ہ وا۔ ی ہ ٓاپ کی ب وت کی اب ت داء اور ٓاپ کے ہور دسی کے اعالن و اح رام‬
‫ت‬
‫ب‬ ‫ب ن‬ ‫تش‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫کے طور پر ھا۔‬
‫ے۔تجس کی وہ لوگ ع بغ ادت کرے‬ ‫ک ارس کے ٓا کدہ کا ج ھ ج ا ا بھی نہ‬ ‫ان شعالمات می ں شسے ای ت ت‬ ‫ت‬
‫سے لے‬ ‫از‬ ‫ٓا‬ ‫کے‬‫ن‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ب‬
‫ھا‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫سال‬ ‫زار‬ ‫کدہ‬ ‫ش‬ ‫ٓا‬ ‫ت‬‫ہ‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ے‬ ‫ص ح و ام اسےشرو ن رک‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫ھ‬
‫ت‬ ‫ج ن ن‬ ‫ی‬
‫صے ت‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ًھ‬
‫ے کا ام ہی ں لی ت ا ھا‪،‬‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ع‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫طو‬ ‫ہ‬ ‫پی‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫عام‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫ے تب ق گ ہ‬
‫ر‬ ‫ھڑک‬ ‫اس کے عل‬ ‫ابن ت ک ف‬ ‫ج‬ ‫کر ب‬
‫ن‬ ‫ھا۔‬ ‫ی ج خش‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ھڑکا‬ ‫ب‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫یئ‬ ‫م‬ ‫ھر‬ ‫ب‬ ‫ھڑی‬ ‫ا‬ ‫پ یب‬‫ر‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫وری‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫اور ھ پ‬
‫ے‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫کے پ ا ی تکا ک (ج ذب) وج ا ا ہ‬ ‫ان ی شعالمات می ں سے ای قک دری اے ساوہ‬ ‫ہ‬
‫ت‬
‫ل‬ ‫ہ‬
‫عالی کا درود و الم و۔ ہ ر محہ و لحظ ہ اس‬ ‫س‬ ‫ے۔ ہللا ب ارک و ٰ‬ ‫ٓاج نکل ہر ’’ساوہ‘‘ اسی م ام پر ٓاب اد ہ‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫کے پ ی ارے ب ی و حب ی بﷺ پر۔‬
‫ب‬ ‫ے و کو ن ہ کے رتی‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫الماتت می ں سے ای ک وادی ’’سماوہ‘‘ کا سی ن‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ان جعی ب ع‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ن‬‫راب نو ا ھیی کہ‬ ‫ت‬ ‫ب‬
‫ے می نں ہی شں ٓای ا ھا ن کن‬ ‫ےن اور د مھٹ‬ ‫ل اس تمی ں پ ا ی کا تہ و ا سنٹ‬ ‫ٓاب و فگ ی اہ س ی ھی اور اس سے ب ت‬ ‫ے ش‬ ‫اشی ک ب‬
‫ے پ ا ی کا مہ ب ہہ کال۔‬ ‫چ‬ ‫ل کھا ا وا ھ ڈے ی ھ‬ ‫ہ‬ ‫نں مار ا‪ ،‬لہرا ا‬ ‫سے موج ی‬ ‫ص‬
‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ناور ب ش‬ ‫ب والدت ری ہ کی ب ح ی ہ ٹاں خ ت‬
‫ات دن‬ ‫ےس ش‬ ‫رف حاث ل ک ی ا‪،‬نپ ل‬ ‫نن ے دودھ پ الے کا ن‬ ‫سرکار دو عالمﷺ کو ٓا ھ وا ی‬
‫’’ وی ب ہ‘‘ ے چ ن د ماہ رف رض اعت‬ ‫ٓازاد کردہ ک ی ز ج ن‬ ‫ہب کی‬ ‫ح‬
‫ے‪ ،‬پئھر اب ول‬ ‫ٓامنف ؓہق پ ن‬ ‫ٓاپﷺ تکین والدہض ماج دہ سحی دہ ش‬
‫سرکار دو عالمﷺ کی تذات‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ض‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫وہ‬ ‫ہ‬ ‫ؓ‬
‫ی‬ ‫عد‬ ‫س‬ ‫مہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬
‫گ‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ؓ‬
‫ی‬ ‫مہ‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫رت‬ ‫حاصل ک ی ا۔ آا تکہ ح ت‬
‫ے کہ‬ ‫ٓاپﷺ ح رت حلی مہ س نعدی ہ کے پ اس ھ‬ ‫ت‬ ‫ناور مرادی ں حاصل ہ و ی ں۔‬ ‫ں‪ ،‬تب رک ی ں‬ ‫خ‬ ‫نسے ب ڑی سعاد ی‬
‫ص‬
‫ں۔ ت‬
‫م‬‫ع‬ ‫دودھ پبالکر داشری ن کیضسعاد ی ں حاص ل کرلی ت‬ ‫ٓاپ کو ن‬ ‫ک تاور ا ون فے ن‬ ‫خ‬ ‫ب و سعد کی ای‬
‫امی ےنھی رف ر اعت حا ل ک ی ا اور مام ی ں سمی ٹ لی نں۔‬
‫ص‬ ‫ب‬ ‫ک اسون ’’تام نروہ‘‘ خ ت‬ ‫ش ق ای ب ن‬
‫ام‬ ‫سے ہ ر ای ک کا‬ ‫ئکی۔ ان می فں ق‬ ‫م ت ہور ت ب ی لہ ی ت ن لی م خکی ت ی ن کنواری وا ی ن ے غھی ی ہ سعادتتحا ل‬
‫سے) اپ ان‬ ‫دت ن‬ ‫ع‬
‫عان کہ ھا۔ ان ی وں وا ی ن ے ٓاپ کو کسیقکی ٓا وش می ں گزرے ہ و تے دی کھ کر ( رط ی ن‬
‫فاپ ا پ ست ان پ یش ک ی ا اور ٓاپﷺ کے دہ ن ا دس لگای ا‪ ،‬ان می ں دودھ ا ر ٓای ا اور ٓاپﷺ ے وش‬
‫ن‬
‫خ ت‬ ‫ن‬
‫ے‪ ،‬درج ذی ل م ہور حدی ث می ں کمال مہرب ا ی سے ٓاپ ے ان ہ ی وا ی ن کو‬
‫ش‬
‫ا‬ ‫رمافی ا۔ ب عض ع ماء کا کہ ن‬
‫ہ‬ ‫ل‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ی اد رمای ا ہ‬
‫ا ا اب ن العوا ک من م۔(‪)۵۹‬‬ ‫لی‬
‫‪44‬‬
‫خ ت‬ ‫ف‬ ‫بن س‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫وا‬ ‫ٓاب‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫کی‬ ‫م‬
‫وش ب خ ت خ‬ ‫لی‬ ‫’’می خں و‬
‫اکرمﷺکو تدودھ پ الے کا رف حاصل ک ی ا‪ ،‬اسے‬ ‫ے ب ی حق ق‬ ‫ن‬ ‫ون‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫اور ج نس ب ھی ئ‬
‫ع‬ ‫ت ی‬
‫ض‬ ‫سے لق ج ضوڑ ل ی ا۔ح ؓ ش‬ ‫مالک عل ی ک ن‬ ‫ے‬ ‫ے ناپ‬ ‫دولت ای مان صی ب ہ وع ی اور ق‬
‫اس‬
‫رت‬ ‫رف ک ی ا گ ی ا۔ ح ن‬ ‫والی ح رت لی مہ کو م ت‬ ‫ے ق‬ ‫اس نسعقادت ظن ٰمی سے ب ی لہ ب خو تسعد تسے ق نر ھ‬
‫عزت کی گاہ‬ ‫رام و ف‬ ‫ے نحد احن‬ ‫بش‬‫ے عزیز و ا ارب مینں ن‬ ‫پ‬‫سرکردہف ا تون ھی ں۔ ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ض‬‫ہا‬ ‫کی‬ ‫لہ‬ ‫ی‬ ‫ے بت‬ ‫ی ی یحلی ؓمہ اپ ت‬
‫اور وو ما پ اے کی ر ت ار عام‬ ‫رت حلی ؓمہ رما ی ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کے ب ڑ تھ ت‬ ‫سے د کھی ج ا یت‬ ‫ب ب‬
‫ے ف‬ ‫ث‬
‫سے ز ادہ ھی۔ ب عد م ں اک ر حلی ؓ‬ ‫ح‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ب‬
‫ف ن‬ ‫سے ی ہ س ن ا نکر ی ھی۔‬ ‫ن‬ ‫کی زبش ان م ب ارک‬ ‫ان‬ ‫ن‬ ‫مہ‬ ‫ی‬ ‫مہ ن‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫وں‬ ‫چ‬
‫ے می ں یص ح کالم رماے لگ‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫ے۔ ج و‬ ‫ے می ں ٓاپﷺ ے بف ول ائ روع کردتی ا اور وی ں ہی‬ ‫ہ‬‫ٓا ھوی ں ی‬
‫ے‪:‬‬ ‫سے ادا رماے وہ ی ہ ھ‬ ‫ث‬ ‫ارک‬ ‫کالم سب سے پ ب م ب‬
‫ان‬ ‫ز‬ ‫ے‬‫ل‬
‫‪)۶۰‬‬ ‫ہللا اکب ر کب یرا والعحمد للہ ی را و بس حان ہللا ب تکرۃ و تاصییفال۔( ث‬ ‫ک‬
‫ے‬ ‫ے۔ اور مام عر ی ں ب ک رت اسی کی ہ ی ں اور ہللا کی پ اکی ہ‬ ‫سب سے ب ڑا اورئ ظ مت واال ہ‬ ‫ب‬ ‫ہللا ش‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ج ش‬ ‫ض‬ ‫خ‬ ‫ھی۔‬
‫ن‬ ‫ام‬ ‫ص ح ب ھی اور‬ ‫ب‬
‫ج‬
‫اکرمﷺ کا ھوال ریف رےض ھالی ا‬ ‫ے کہ غح ور ن‬ ‫ے صا ص کب ری می ں ذکر ک ی ا بہ ق‬ ‫س‬
‫ت ت امام ی وطی‬ ‫خ‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ٰ‬ ‫بت غ‬
‫ے کہ ج نب ح ورﷺ‬ ‫ا‬
‫ی ک ی تہ‬ ‫ت‬ ‫روا‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫اور‬
‫ت ت‬ ‫امام‬ ‫اور‬‫ت‬ ‫ساکر‬ ‫ن ب ع‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫دادی‪،‬‬ ‫ت‬ ‫ے۔ طیت ب‬ ‫کرنےن ھ‬
‫اکرمﷺ‬‫ت‬ ‫سے نب ا شی ں کر ا ھا اور ٓاپ کو روے شسے فروکت اتھا۔ ج ب کہ ب ی‬ ‫تٓاپئ‬ ‫ےف و چ ا د‬ ‫ف‬
‫ے می تں وےگ ھ‬ ‫ہ‬ ‫ے پ ال‬ ‫اپ‬
‫اس طرفتوج ا ا‬ ‫ہ‬ ‫نطرف ا ارہ رماے وہ ف‬ ‫تاس سے ب ا ی ں اور ن گو رماے وے ا گ ت م ب ارکہ سے جس‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ت ھا اور ٓاپﷺ چ ا د کے ب ارگاہ رب العزت می ں سج دہ ریز ہ وے کی زور دار ٓاواز سماعت رمای ا کرے‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬
‫ت‬ ‫الم‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫حا‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ض‬
‫ہ‬
‫ے ن کا ذکر ازل سے اامروز ا ل‬ ‫ج‬ ‫حاسن کا ج امع ہ‬ ‫ب‬
‫ذات کا اتف کی ج ملہ و یوں اور م‬
‫ے اور ی ہ حمب تت رسول کا ذی عہ ہق‬ ‫مصط یﷺ ہ ی ذکر خ دا ہ ت‬ ‫ورﷺ کی ش‬ ‫ہ‬
‫شح‬
‫ے‬ ‫ے اسی لی‬ ‫ف‬ ‫ث‬ ‫ذکر‬ ‫ہ‬ ‫ن ب ب‬ ‫ال‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫وہ‬ ‫مان کا ی‬‫ای ف‬
‫ل از ئ‬ ‫ج‬ ‫ے ب ہت سی صن ی ات صنخ ی ق‬ ‫مصن ی ن عرب ے ج واز م ی الد کے ب وت کے لی‬
‫ف قکی نن می ں ب ئ‬
‫والدت کے معج زات‪ ،‬ب عد از والدت کے معج ثزات سرکار دو عالمﷺ کا ود ع ی ہ کر ا اور دی گر ک ی دال ل‬ ‫ئ‬
‫ے۔‬ ‫ا‬‫ت ک یئ‬ ‫کو‬ ‫واز‬ ‫نکے ج‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ے ہ ی ں ج ضن سے م ی الد ال‬
‫ق ق‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫اب‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫دی‬
‫اولی سے‬ ‫ج‬
‫ے را ج ہ ی نں کن ای ک معروف طری ہ و فرونئ ٰ‬ ‫ف‬ ‫ح ورﷺ کے م ین قالد م اے کے ک ی طری‬ ‫ف‬
‫ٓاپﷺ کےاوصاف حم ی دہ‪ ،‬ض ا ل شو‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫ے۔ ان پ اکیقزہ م ت ی‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫ے محا ل م ی الد کا ا ع اد ہ‬ ‫خچ ال ئٓارہ ا ہ‬
‫ذوق و ت وق‬ ‫ں بڑے پ ن‬ ‫صورت می ن‬ ‫والدت ب اسعادت کے وا عاتخ کا ذکرہ ظ م اور ر تکی‬ ‫کماالت اور ت‬ ‫صا ل‪،‬ن ن‬
‫ہ‬
‫ے عروجفکو ً چ ج ا ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ف‬
‫االول می ں صوصی ت کے سا ھ ی ہل ل لہ اپ‬ ‫ے۔ ماہ رنع پ ن‬ ‫اور والہا ہ ا داز سے ک ی ا ج ا ا عہ ق‬
‫ے‬ ‫ی یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ال‬ ‫ص‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫مولدا‬ ‫ی‬ ‫موردالروی‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ف‬ ‫نی‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫اری‬ ‫ے۔ ان محا ل کا ذکر مال ف‬
‫لی‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ے۔‬‫ع‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫الد‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ہ‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫ب‬ ‫وہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ج‬
‫ت‬ ‫ے ہ م م ی الد‬
‫ش‬
‫ے ل ی کن وہ گو ہ جس‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ں‬ ‫ے ان یدر ے پ نہاہ ظ م‬ ‫ش ن‬
‫ا‬ ‫ہ‬ ‫گو‬ ‫ر‬ ‫و‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫یﷺ‬
‫ت‬
‫مصط ی‬
‫ت‬ ‫ذکر‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫ین ہ‬
‫سان کو ی اد کرے‬ ‫کے اس عظ ی م اح ظ‬ ‫ت‬ ‫عزت‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫رب‬ ‫ئ‬‫ہللا‬ ‫مان‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫الن ب یﷺ بسے عب یر کرے ہ ی ں۔ ج ع ی‬
‫م‬ ‫س‬
‫ئ‬ ‫االول می ں ج و عمت ظ ف ٰمی مینں نع تطا ئکی گ ی اور اس ئ‬ ‫ہ‬
‫کے سا ھ ک ی ا ک ی ا عج ا ب ات ہور پ ذیر‬
‫ن‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫ں۔ وہ ماہ ر ی ع ت‬ ‫ہی ئ‬
‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬
‫شی پ ی ق ی ق یص ب ی ہ‬‫ب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫ز‬ ‫ٓاو‬ ‫دل‬ ‫ی‬ ‫ہا‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫عرب‬ ‫ن‬ ‫ان‬‫ن‬ ‫ذکرہ‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫لی‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫ہو‬
‫ے و ی ح خ اری کت اب ال کاح‬ ‫ح‬ ‫ج‬ ‫ے می ں ا تی ک ہور وا عہ ہ‬ ‫م‬ ‫س‬
‫کے ئ ل ل‬ ‫ق م ی الد ا ن ب یﷺ قم ا تے پرتاج ر‬ ‫ن‬
‫ے۔شوہ اب ولہب کے‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫کی‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫بف ض‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ی ہ وا عہ مام‬ ‫می ں ل ک ی ا تگ خی ا‬
‫م‬ ‫ہ‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ف‬
‫اس‬ ‫ے۔ ن‬ ‫ے اسث کا ذکر زی تر ظ ر م الہ می ضں ا ل عربنی م ر م ک ب می خںش ھی ظا ل ہ‬ ‫فہ‬ ‫عذاب می ں ی ئ‬
‫ن کری ں‪ ،‬ک نھا ا‬ ‫والدت پرش و ی کا ا ہار‬ ‫وم‬ ‫کے‬ ‫ورﷺ‬ ‫ئ‬ ‫تہ ح‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی تاب‬‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ل‬ ‫طرح ان سب دال‬ ‫ئ‬
‫ن‬ ‫ی ع‬
‫کھال ی ں‪ ،‬دی گر ع ب ادات کری ں اور اکہ ہللا ع ٰالی کی دی ہ و ی اس عمت ٰمی کا کرا ہ ادا کرے می ں اپ ا‬
‫ظ‬
‫حصہ ڈال سکی ں۔‬

‫‪45‬‬
‫شت‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫سوم لک ئ‬ ‫باب ؐ‬
‫ت‬ ‫شت‬ ‫فم ی الد الن ب ی پر ھی گ ی ؐم ر لمکعرب ئی ک ت جب کے تم مالت‬
‫ق‬
‫ف صل اول‪ :‬می الدا نلب ؐیپر لکھیگ ئیم رت جمعربیک تبمی ںمذکور بلازوالدتم شم تالتکا تذکرہ‬
‫صل دوم‪ :‬می الدا نلب یپر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور ب عد از والدت م مالت کا ذکرہ‬

‫رب انلعزت‬ ‫ہللا‬ ‫گا۔‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫اری‬ ‫ک‬ ‫ذكر مصطف یﷺ ایسا ذکر ے کہ ج و ازل سے اری ے اور ا د ت‬
‫ن‬ ‫ج ت ہ‬ ‫ب‬ ‫نج ہ‬ ‫ؐ ہ‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬
‫ے ام‬ ‫ہت پہل‬
‫ے کردی ا ھا۔ عرش بری ں پر پا‬ ‫سے بتھی ب‬
‫ت‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ود‬ ‫ج‬‫و‬ ‫ق‬
‫کے‬ ‫ٓاپ‬ ‫ذکرہ‬
‫ؐ ن‬ ‫کا‬ ‫وب‬‫ن‬ ‫م‬
‫ے اپ ت حب‬
‫ے‬
‫ؐ‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫گرامی ج لوہن قگر رہ ا۔تٓاج اگر تامت‬
‫ے پر ٓاپ کا اسم ف‬
‫س‬ ‫ےپ‬ ‫ت کے پ‬ ‫ے حمب وب کا ام ھی ر م خک یشا۔ ت‬ ‫کے سا ؐھ اپ‬
‫ے و ی ہ اسی‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫نمس‬
‫خ‬ ‫ے می ں محا ل کا ا ع اد کر ی ہ‬ ‫ے اور اس ت ل ل‬ ‫ٓاپ کی والدت ب اسعادت کی و ی م ا ی ہ‬ ‫مہ‬ ‫ل‬
‫ے گی۔ ذکر حمب وب دا ای ک‬ ‫ے اور اب د ک ج اری رہ‬ ‫ے ج و ازل سے ج اری ہ‬ ‫ے کی ایعمک کڑی ہ‬ ‫وری سلس نل‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫حمب وب و پ س ن دی دہ ق ل‬
‫ع‬ ‫ل‬
‫کے‬
‫ے۔ہجس ت‬ ‫یﷺ پر ھی گ ی عربی م ر م ک ب کے م لق ہ ی ہ‬ ‫ل‬
‫زیر ظ ر م الہ م ی الد ا‬
‫ن نب‬
‫ئذکر کے ب عد اب م ضان ک ب‬ ‫دوسرے بش تاب میتں ہ م ے م ی الد ا ن ب ضیﷺ کے نواز اور عدم واز کے‬
‫ج‬ ‫ج‬ ‫ُ‬
‫ں۔ اس می ں ح ورﷺ‬ ‫ے وے ہ ی ق‬‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ورﷺ کی قز دگی کا احاطہ یک‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫م‬
‫کے ان ن الت کا ذکر کری ںنگے شو ح ش‬
‫کے وج ود پُر ور کی خ یل ق‪ ،‬اس ور کا پ ت در پ ت من ل‪ ،‬ب ل از والدت کے وا عات‪ ،‬ب عد از والدت کے‬
‫‪46‬‬
‫ئ‬ ‫ب‬ ‫مش ت م ض‬ ‫فض ئ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫وا عات‪ ،‬چ پ ن کے وا عات اور ٓاپﷺ کے ا ل و کماالت پر ل مو وعات پر حث کی گ ی‬
‫ے۔‬‫ہ‬

‫فصل اول‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ؐ لک ئ‬
‫ميالد النب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور‬
‫قبل از والدت مشتمالت كا تذكره‬

‫ق‬ ‫ق‬ ‫ن ج وزی‬ ‫‪۱‬۔ مولدال نعروس از اب ض‬


‫ن‬
‫ے رسالے مولدالعروس می ں چک ھ‬ ‫تح ور اکرمﷺ کی والدت سے ب ل کے وا عات اپ‬ ‫اب قن ج وزی‬
‫اس طرح ل کرے ہ ی ں‪:‬‬

‫‪47‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش متق‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫یﷺ کا ت در ضت ؑل و ا ت ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫پ‬ ‫مصط‬ ‫ور‬
‫ن ظ‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ٓاپﷺ کا ور اہ ر ہ نوا اور‬ ‫ض‬ ‫عالی ے خ یل ق رما ی ت و‬ ‫ے کہ ؑج ب ح رتم ت قٓادم کی تہللا ٰن‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫ن‬
‫مالفکے اع ب ار سے وا حن ہ وا اور ج بئور‬ ‫و‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫ور‬ ‫وہ‬ ‫ف‬‫و‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫ق‬
‫ث‬ ‫ہش ی ت‬ ‫رت‬
‫ض‬
‫س‬ ‫ط‬ ‫ج‬ ‫مصط‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ج ضب ی ہ ن ور ؑح‬
‫ت پ ذیر ہ وے ؑاور‬ ‫کو‬
‫ی گ ہ پئ پ ن ض‬‫ر‬ ‫اڑ‬‫ہ‬ ‫ودی‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫یﷺ‬ ‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫ور‬ ‫ٓاپ‬ ‫ق‬ ‫و‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ؑ‬ ‫اس‬ ‫پ‬ ‫کے‬ ‫وح‬ ‫ض‬ ‫رت‬‫ح ن‬
‫ع‬
‫ج ب ور حم قرت اب را ت ی م کے پ اس ن ل ہقوا ونگٓائ ھئڈی اور گل و لزار ن وگ ضی ج ب ورح رت اسما ی ل‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫مصطپف ای ا۔ ج ب ور ح رت ع بتدالم ط ٹلب کے‬ ‫ےناور صب ر‬ ‫ےگ‬ ‫کی نب رکت سے ف رب اخ ی دی‬ ‫ن ت‬ ‫کے پم ت قاس ن تل ہنوا و اس‬
‫یﷺ فکی وج ہ سے ہ ا ھی لو ای ا ٹگ ی ا۔ ابرہ ہ‬
‫مصط‬ ‫ن‬ ‫کے ب عد را جی کو پ ایٹا۔ ور ف‬ ‫اس ن ش ل ہ وا و ا ئہوں ے گی خ ش‬ ‫پ‬
‫ج‬
‫یﷺ سے گمگا ا ھا اور‬ ‫ھوم ا ھا۔ ص ا پ ہاڑ ور‬ ‫کو مکمل کست ہ و ی اور ب ی ت ہللا تو ی خسے ش‬
‫ج مال کے دولہا کی والدت کے سا ھ کمرہ اص رو ن ہ وگ ی ا۔(‪)۱‬‬
‫کے دن کی اہ می ت‬ ‫پشیر ن‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ج رہ سب‬
‫ن‬ ‫مرہ‬ ‫ن‬ ‫الب‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫صی‬ ‫ن‬ ‫اف‬ ‫دمحمﷺ ن ع دہللا فن ع دالم طلب نن ہ ا م ن ع د م ن‬
‫ب ض ب ن‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ب خ‬ ‫ب‬ ‫ب ض‬ ‫ب‬ ‫بغ ب ب‬
‫لوی ب ن الب بض ن ہر ب ن مالک ب ن ر ب ؑن ک ن ان ہف ب نن زی مہن ب ن مدرکہ ب ن ال ی اس ب ن م ر ب ن زار‬ ‫عب ن‬
‫کےنرز د ضارج م د ہ ی ں۔(‪(۳‬‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫کن بعد شن عدن انف اور ہ رت اسماع ی ل ن ا راہ‬
‫ب ب ج ؒ‬ ‫ب م ب مصط ی ح‬
‫س کا‬ ‫ے جن‬ ‫تہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫مدح‬ ‫کی‬ ‫ورﷺ‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫وزی‬ ‫ب ج ت‬‫ن‬ ‫ا‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫ؐ ی‬ ‫کے‬ ‫یﷺ‬ ‫ج رہ‬ ‫خ‬
‫عالی ے‬ ‫ہللا‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫اک‬ ‫ب‬ ‫در‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫لوق‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ئ‬ ‫ام‬ ‫م‬‫ف‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ایسا‬ ‫سب‬ ‫کا‬ ‫خ‬
‫ٓاپ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫طرح‬ ‫ئ‬ ‫اس‬ ‫ف‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫چ‬ ‫الصہ‬
‫بٰ‬ ‫ش‬ ‫ن ض ائ ل ت‬ ‫دمحمﷺ کو ض ا ل کے سات ھ م‬
‫ے۔‬ ‫کے ور ہمی ںنای ک ور ری ؐعت ت ھی ہ‬ ‫خ‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫صوص‬ ‫ؐ‬ ‫ؐ ن‬
‫عالی کے وہ‬ ‫ث‬ ‫م‬
‫س اور یل ق ی ہی ں ک ی ا۔ ٓاپ ہللا ٰ‬ ‫عالی ے کو ی‬ ‫ن‬‫ٓاپ کی ل ہللا ٰ‬ ‫ے اور خ‬ ‫ٓاپ کا سب عالی تہ‬
‫ے۔‬ ‫پ ہ‬ ‫ڑھا‬ ‫الم‬ ‫و‬ ‫درود‬ ‫ے‬ ‫ہاں‬ ‫ج‬ ‫دو‬ ‫رب‬ ‫ود‬ ‫ر‬ ‫پن ی ارے حمب وب ہ ی ں خ ج پ‬
‫س‬ ‫کہ‬
‫وبﷺ کو وہ سرچ ش مہ حسن ن ا ا کہ ت‬ ‫دمحمیﷺ کی یل ق ن ن‬ ‫و ِر‬
‫ہاںخ سے کائ ن ات کے ئح نسن کے‬ ‫ب ی قج‬ ‫پ حب ت ن ن‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫عزت‬
‫ت لپ ٹ ت‬ ‫ا‬ ‫رب‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ات‬‫اس کا ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ا‬
‫ی ی ت‬‫ک‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫دمحمیﷺ‬ ‫ف‬ ‫ور‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫الی‬ ‫ٰ‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ہللا‬ ‫ں۔‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫مام ج مال ی ا ی سوےت ھو‬
‫عالی نے‬ ‫ھا۔ ہللا ٰ‬ ‫نہ ست و ب ود می ں اور چ خک ھ ب تھی ن ہ ھا۔ حت ی تکہ اب ھی ظ ام نکن ی کون کا اج راء ب ھی ہی ں ہ وا‬
‫ب طوی ل زما وں‬ ‫ے حج اب ات عظ مت می ں رکھا۔ پ ھر جم ت ق‬ ‫مکم ک ا تسے اپ ن‬ ‫ور دمحمیﷺ نکی یل ق خکے ب عد مد وں‬
‫پ‬
‫ارواح می ں ن ل ک ی ؓا گ ی ا۔ ھر‬ ‫عالم‬ ‫ف‬ ‫کو‬ ‫دمحمیﷺ‬ ‫ور‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ف‬ ‫ل‬ ‫کے ب عد ارواح ا ب اء کی ل ق کا عم‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ش ین‬
‫ے من ب ع ی ِض ب ن ای ا گ ی ا۔ صحاب ہ کرام سے‬ ‫ارواح ا ب ی اء کے لی‬ ‫ِ‬ ‫اکر‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫اب‬ ‫ی‬ ‫ہرہ‬ ‫سے ب‬‫مت‬ ‫وت‬ ‫ب‬‫ش‬‫اسےحقوہقی ں رف ت‬
‫ق‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ناس ی ت کے ا ارات ل‬
‫ؓف ت‬ ‫دمحمیﷺ کی سی م‬ ‫ض‬ ‫ور‬
‫تق ق‬ ‫ن‬
‫ث ن ق‬ ‫ں‪:‬‬
‫تنی ث ئ‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫دہللا‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ر‬
‫جب ب‬ ‫ا‬ ‫رت‬
‫ارکہ کو ٓاج ت‬ ‫ب‬ ‫ح‬
‫ول کاندرج ہ‬ ‫ے کہ ی ہ ل ی قب ال ب ن‬ ‫فئ یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ے‬ ‫ن‬
‫ع ق‬ ‫ی‬ ‫حد‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫مہ‬ ‫ٓا‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ق‬ ‫ک‬‫ث‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ی‬‫حد‬ ‫اس‬ ‫کت‬
‫ے کہ امام س طال ی ے‬ ‫ے۔ ج ی س‬ ‫اور اس وجبہ سے ہرت و اہ ت کے ا ٰلی م ام پر ا ز ہ‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫رھ‬
‫ے۔ (‪(۷‬‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬
‫المواہ خب اللد ی ہ می ئ نں ھی نب ی ان ک ی ا‬
‫ق‬ ‫ف ت‬ ‫ت ن ق‬ ‫ساری کا ات ب ا فی ت‬ ‫اسی اطر ض ن‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ح‬
‫عالی ے لم کو پ ی د ا رمای ا و اس کو کم دی ا کہ ھو‪ ،‬لم‬ ‫ہللا‬ ‫ب‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن ح ور‬
‫ٰ‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫عرض کی‪:‬‬ ‫ت‬ ‫ے‬
‫ف‬ ‫کروں؟‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫حر‬
‫ی ت ی‬ ‫ا‬ ‫ک‬
‫ت‬ ‫تق‬ ‫ت‬ ‫ہللا ع ٰالی ے رمای ا‪ :‬ت‬
‫ق‬ ‫الہ اال ہللا ت‘‘ کو حری‬ ‫می ری مخ‬
‫عالی کے کالم کو سو ہ زار سال‬ ‫نر کرو و لکلم‪ ،‬ہللا ن ٰ‬ ‫لوقکمی نں می ری وح ی د ’’ال ئ‬ ‫(ا ک الکھ ت ل‬
‫عالی ے کہا‪ ،‬ھو لم ے عرض ک ی ا‪ :‬ی ارب! اور می ں‬ ‫ےفکے بلکعد ساکن ہ وگ ی۔ ہللا ٰ‬ ‫سال) نھ‬ ‫ک ا یلک‬
‫عالی ے رمای ا ھو!‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ھوں‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ن تن نن‬ ‫ق ن ’’دمحم رسول ہللا‘‘ (‪(۸‬‬
‫ے۔ نہللا‬ ‫تالی تا ہ‬‫ے ام کے سا ھ م‬ ‫ق‬ ‫عرض ک ی ا‪ :‬دمحمﷺ کون ہ ی ں؟ ج ن‬ ‫ق‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫کے ام کو و ے اپ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ت ن فلم ے‬
‫دمحمﷺ ہ ہ وے و می ں ا ی‬ ‫ف‬ ‫اگر‬ ‫سم!‬ ‫کی‬ ‫الل‬ ‫ق ج‬ ‫و‬ ‫عزت‬ ‫ری‬ ‫م‬
‫ن تی‬ ‫ھو‪،‬‬ ‫ادب‬ ‫لم!‬ ‫اے‬ ‫ا‪:‬‬ ‫عالی ے رمای‬ ‫ٰ‬
‫ل‬
‫مخ لوق می ں سے کسی ای ک کو ھی پ ی دا ہ کر ا۔ اس و ت لم ہ ی ب ت ا ہٰی اور ت رسولﷺ کے‬
‫ص‬ ‫ب‬

‫‪48‬‬
‫جن‬ ‫ئ‬
‫لے ب نادل کی طرح اس می ں شب دی د تحرکت‬ ‫ض‬ ‫ے وا‬ ‫نں پ ھٹ گ ی‪ ،‬ی ہاں ت ک کہ زبردستنگر‬ ‫اعث دو حصوں می‬ ‫بئ‬
‫ھ‬ ‫ص‬
‫ہللاﷺ‘‘ لکھا جس شے ھی ح ور ب ی کری مﷺ پر لوۃ یج ی و روز‬ ‫ب‬
‫ٰ‬ ‫ے ’’دمحم رسول ت ش‬ ‫ت‬
‫قہ و ی اور پ ھر اس‬
‫ے۔‬ ‫ارت ہ‬ ‫ٓاپﷺ کی ریف ٓاوری کی ب‬ ‫اں ن‬ ‫ن ی امت اس کے ہم ق‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫دمحمیﷺ کا ن‬ ‫ن‬ ‫ور‬
‫ل ط ؓ نپ ش‬ ‫م ہ ت ہ ض‬ ‫ت‬
‫پش‬
‫لب کی ی ا ی‬ ‫ن‬ ‫اور پ اک رحموں میض ں ن ل و ا ؓوا ح رت نع ب دا تم‬ ‫وں ن‬ ‫ش‬ ‫دمحمیﷺ پ اک‬ ‫ؓ‬ ‫ب ور‬ ‫چ جت ض‬
‫ے سا ھ سی ورا ی‬‫ک‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ط‬ ‫ل‬
‫ھی اپش‬
‫تب دا م لب ضکی ان ی رالی شھی۔ ح غرت ع ب دا م لب ت ت‬
‫سوس کرے۔ ج ب رت تع دالم طنلب کار کی رض ت سے اہ ر ک‬
‫می قں مکا و ح رت ع‬
‫ے و ی ر ضٓاپ کے پ اس ٓاکر‬ ‫ش ب ل‬ ‫ب‬ ‫ح‬ ‫طات ت کو مح‬
‫ط‬ ‫ل‬ ‫پ‬ ‫ہ‬
‫ے‪ :‬اے عثب دا م لب! م پر شسوار وج أو اکہ م ضور دمحمﷺ سے م رف وں۔ ھر ح رت ع ب ئدا م لب‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫کہن‬
‫سے حاملہ ہ و ئی ں۔‬ ‫ادی کی ناور وہ ح رت ع ب دہللا‪ ،‬والد رسولنہللاﷺ ن‬ ‫عورت سے ن‬ ‫ے ای ک ی ربی‬ ‫ض‬
‫کی مان دن‬ ‫ے کمال می ں چ ا د کے دا رہ‬ ‫ح‬
‫کے چہرہ پر اپ‬ ‫ٓاپ‬ ‫دمحمﷺ‬ ‫ور‬ ‫اور‬
‫ن‬ ‫گا‬ ‫ے‬
‫لط ل‬ ‫ھ‬ ‫ڑ‬ ‫ب‬ ‫مال‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫سن‬ ‫ض‬ ‫کا‬ ‫دہللا‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫رت‬ ‫تح‬
‫ے کہ‬ ‫کردی۔ کہا گنی ا ہ‬
‫بتسےئ ش‬ ‫ت وہ‬ ‫ادی ٓامن ہ ب ن ف‬ ‫ت‬
‫لب ے ٓاپ کی ش‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫دا‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫رت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫اس‬ ‫ھا۔‬
‫ے ہ وے اور وق ور‬ ‫ج بفٓاپ ے حض رت ئٓامن ہ سے ش ادی کی و سو مکی عور ی ں کف ا سوس م‬
‫ن ت‬ ‫ل‬ ‫مصط یﷺ کیحخ اطر مرگ‬
‫ؓ ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫دہ ش ف اء ب ور ب ی کری مﷺ سے حاملہ ہ و ں و ؓ‬ ‫ں۔‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ض‬
‫ے‬ ‫ن‬ ‫ٓاپ‬ ‫ھی۔‬ ‫رالی‬ ‫ی‬ ‫ٓاپ کی ش ان ہ‬ ‫ج ح‬ ‫ن سی‬
‫ے دن ی ا‬ ‫عزت‬ ‫ا‬ ‫رب‬ ‫ہللا‬ ‫کو‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫ٓاپ وہ ہ س ی ہ ی ں ج‬ ‫ے ٓارزو کو ا ا۔ ی ؓ‬ ‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫دمحمﷺ‬ ‫سردار‬ ‫ف‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫اوالد عد‬
‫من‬ ‫ل‬ ‫بش ن‬ ‫ع‬ ‫ح‬ ‫ل‬
‫پ ی‬ ‫ی‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ی‬ ‫ہ‬
‫کی ن مام عور وں پرن ی لت دی۔ ھر ہللات شرب العزت کائ کم پورا وا اور ظ م رسول‪ ،‬ی ر و ذیر‪ ،‬سراج ی ر‪،‬‬ ‫پ‬
‫ن‬ ‫تن‬ ‫ے۔ن ئ ت‬ ‫س ی د ا دمحمﷺ اپ ی والدہ کے حمل ممی نں ریف ضلے ٓا‬
‫کی۔‬ ‫سوس ہی ںئ‬ ‫رت ٓام ہ ے کو ی ھکاوٹ اور ن گی مح ت ش‬
‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ح‬ ‫ٓاپﷺ کے حمل نکے یہ ئوں می ں‬ ‫اسی طرح ؓ‬
‫ئ ں ن ریف الے‬ ‫ٓاپﷺ اس د ی ا می‬ ‫ت‬ ‫االول می ں‬ ‫خ‬ ‫ے اور ج ب رب ی ع‬ ‫ن‬ ‫گ‬ ‫کے حم ئل کے و ؓماہن‬
‫گزر‬ ‫ن‬ ‫ٓاپ‬ ‫ؓ‬ ‫ت‬
‫ے وے ج ا۔‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ن‬
‫عادت م د و ی ں۔ ٓاپ ے ب ی کری مﷺ کو ت ہ زدہ ‪ ،‬سرمہ و ی ل گ‬ ‫گ‬ ‫ہ‬ ‫و ضٓاپ س ؓ‬
‫لط ن ن‬ ‫ہ ت ض‬ ‫حم چ م ن ش‬ ‫وصال‬ ‫کا‬ ‫دہللا‬ ‫ح رت ع ب‬
‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫رتٹع ب دا م لب ے اپ‬ ‫ب‬ ‫کے ل کا ھ ٹ اؓ ہی ہ روع وا و ح‬ ‫ے کہ ج ب س ی دہ ٓام تہ ض‬ ‫ف ن ج نراوی کہت ا ہ‬
‫اس مولود کی والدت‬ ‫ے خ‬ ‫اور کہا کہ می رےک ی‬ ‫دہللا کو ب الیضا ف‬ ‫رز ق د ار قم د رسول ہللاﷺ کے والد حم رم ح رت ع بخ ش‬
‫ے جھوری ں ری د کر الٔو۔‬ ‫ے۔ تلہذا مدی ن فہ طیئب ہ جلأو اور ہ ماری و ی کی ی ا ت کے لی‬ ‫ن ا ہف‬ ‫ب ٓاگ ی‬ ‫کاضو ت ری ؓ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ح رت نعتب قدہللا فےئ ر کی ی اری رما ی کنن مکہ و مدی ہ کے‬ ‫س‬
‫ے۔(‪(۹‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫وارد‬ ‫موت‬ ‫ر‬ ‫ے اور پ‬
‫اس‬ ‫ے توہ ذات ج و ز لدہ ہ‬ ‫ے۔ پ اک فہ ش‬ ‫ال رماگ‬ ‫درضم ی ان ا ؓ‬
‫خ ن‬ ‫عرض ت ف ش ت ن‬ ‫ح رت ع ب دہللا کے وصال پر ر ض وں کی ب ارگاہ انہٰی می ں ف‬
‫ے کہ ج ب ح رت ع ب دہللا ے وصال رمای ا و ر وں ے ب ارگاہ داو دی می ں‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫راوی کہت ا‬ ‫ف‬
‫ف‬ ‫کی‪:‬‬ ‫عرض‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ک‬‫ئ‬‫د‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ٓاوازوں‬ ‫ادی‬ ‫ر‬
‫ت تن‬ ‫اس دی! موال یی! ال ہٰی ت ری مخ لوق م ں ٓاپ کا مصط‬ ‫نی‬
‫ے اور اسی طرح ج ن و‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫رہ‬ ‫ہا‬ ‫ن‬ ‫یﷺ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫ی ی‬
‫ن‬ ‫ا نس اور وحن ی‬
‫عرض کی اور ان می ں سے ہ ر ای ک دمحمﷺ کے ی ت ی م ہ وے کی وج ہ سے محزون ہ وگا۔ ہللا‬ ‫نےش ف‬ ‫تج ا وروں‬
‫ق‬ ‫عالی ے ار اد رمای ا‪ :‬ئ‬ ‫ٰ‬
‫’’اے مال کہ! رک ج أو اور می رے ب ن دو! خ اموش ہ وج أو‪ ،‬قی ہ چ یز می ری درت‬
‫دار ہ وں۔ می ں ناس‬ ‫سےن زی ادہ ح‬ ‫ےف می ں اس کے والدی ن ش‬
‫خ‬ ‫اورخ ارادہ سے ہ ن‬
‫کے د م وں کے الف تحامی و اصر‬ ‫کا الق‪ ،‬رازق‪ ،‬محا ظ‪ ،‬نگہ ب ان اور اس ت‬
‫ے۔ لہذا م اس‬ ‫ے نح می چاور الزمی ہ‬ ‫ہ وں۔ موت می نرے ب دوں کے قلی‬
‫ب سے وہ‬ ‫گی‪ ،‬ہ ر عشی ف‬ ‫ح‬ ‫سی نکو ب ا ی ہی ں ھوڑے‬ ‫موت ک ن‬ ‫سے محت اط رہ و کی و کہ ن‬
‫ے موت کا کم ار اد رمای ا‘‘۔‬ ‫ے ب دوں کے لی‬ ‫ے جس ے اپ‬ ‫ذات پ اک ہ‬
‫اء کا ب ش ارت دی ن‬ ‫ن(‪(۱۰‬‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ؑ ش‬‫ت‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ا‬
‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫حم‬ ‫ی‬ ‫س ی دہ ٓامن ؓہ کو ہ ر ماہ ا ب‬
‫اور س ی د ا دمحم‬ ‫ئے ض‬ ‫ٓادم ریف ال‬ ‫ےت کہ خل ٓام ہ کے پہل م‬ ‫خ ن راوی کہت ا‬
‫ے ہی ہ میض ں ح رت ؑ ت ش‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫م‬
‫ہ‬
‫ف‬
‫ئ‬ ‫دمحم‬ ‫رت‬ ‫ت‬
‫حؑ ش‬ ‫اور‬
‫ن‬ ‫ے‬ ‫ض‬ ‫ال‬ ‫ف‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫س‬ ‫ادر‬
‫ت ی‬ ‫رت‬ ‫خح‬ ‫اہ‬‫م‬ ‫دوسرے‬ ‫دی۔‬
‫ش‬ ‫ر‬ ‫ق‬
‫ض ف ب‬ ‫کے‬ ‫ی راال ف امﷺ‬
‫ن رتیشف الے اور‬ ‫یسرے ماہ می ضں ح رت ؑوح‬ ‫دی۔‬ ‫وکرم اور رف عالی کو ب ر ت‬ ‫ن‬ ‫کے ل ت‬ ‫ف‬‫یﷺ‬ ‫مصط‬
‫ن‬ ‫ب ت ا ا کہ ٓاپ کا رز د ارج م ن د ح و صرت کا مالک ے۔ چ و ھ م‬ ‫ن‬
‫ے می ں ح رت ابراہ ی م ے ریف الکر‬ ‫ے ہی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫‪49‬‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ق ش‬ ‫ف‬ ‫ض‬
‫نمصط یﷺ کے درو رف ی ل کے ق ٓاگاہ رمای ا۔ پ ا چ وی ں ہی ہ می چں ٹح رت‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫رت دمحم‬
‫ؑ‬ ‫ح‬
‫ے م تہی ن ہ می ں‬ ‫ے۔‬ ‫مصطفٓاپ حاملہ ہ ی قں وہ صاحب مکارم تو عزت‬ ‫ٓاپ کو ب ت ای ا کہ ج ن سے‬ ‫ت‬ ‫ن‬‫ٓاکر‬ ‫ے‬ ‫ؑ‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫اسماع‬
‫ھ‬ ‫ہ‬ ‫مع‬ ‫ع‬ ‫ش‬ ‫ض‬
‫سا وی ں مہی ن ہ‬ ‫یﷺم کی در و ج اہ ق ظ ی م محکے لق ثٓاپ کو ب ت ای ا۔ ش ف‬ ‫ےن ریف الکر دمحم‬ ‫موسی ؑ‬ ‫رت ٰ‬ ‫ح ض‬
‫مود‪ ،‬حوض کو ر‪ ،‬لواء نالحمد‪،‬خ اعت‬ ‫ام ن‬ ‫ٓاپ حا لہ ہ ی ضں۔ وہسم ؑ‬ ‫س سے‬ ‫میعں ح رت دأود ے ٓاکر ب ت ای ا کہ ج ٹ‬
‫ن‬ ‫م‬
‫رالزمان‬
‫ٓاپ ب نی ٓا ن ق‬
‫ج‬ ‫ان ے ٓاکر ب ت ای ا کہ ف‬ ‫ں تح شرت لی م خ‬ ‫ے۔ ٓا ضھوی ں ہی ؑہ مین‬
‫ی‬ ‫ع‬ ‫ظ ٰمی اور روزئ ازل نکا مالک نہ‬
‫نر دیفکہ ٓاپ کے رز د ار م د ول‬ ‫ف الکر ب‬ ‫سی ے ری ن‬ ‫ں۔ وی ں مہی ہ می ں ح رت ٰ‬ ‫سے حاملہ ہ و ی ئ‬
‫ے ی ہ نرمای ا‪ :‬خ‬ ‫راست اور دی ن را ج کے م نالک ہ ی ں۔ش ان می ں سے ہ ر ای ک بن ی خ‬
‫(د ی ا اور ٓا ن رت‬ ‫واال رہ ت‬ ‫’’اے ٓام ہ! ٓاپ کو ب ارت ہ و کہ ٓاپ س ی دالد ی ا ج ن‬
‫کے سردار سے حا نملہ ہ ی ں اور ج ب ٓاپ ان کو ج و م دی ں و ان کا ام‬
‫نق‬ ‫ن‘‘ ب۔(‪ ۱۱‬پ(ن‬ ‫’’دمحمﷺ‘‘ رکھ ا‬
‫ے۔ (‪(۱۲‬‬ ‫ے ھی ا ی سی رۃ کی کت اب می ں ل ک ی ا ہ‬ ‫اس قروای ت کو اب تن اسحاق ق‬
‫ئ‬ ‫ئ ت‬ ‫والدت سے ن ب ل ب ارہ را وں کے وا عات‬
‫ص‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫نرب ی ع‬ ‫ج ب وی ں مہی ن ہ‬
‫ہ‬
‫رات و ی و س ی دہ ٓام ہ کو سرور مسرت حا ل و ی۔ دوسری‬ ‫ہ‬ ‫االول کی پ لی ئ ت‬ ‫ش‬
‫ئے کی بت ارت دی گ ی۔ یسری رات می ں کہا گ ی ا کہ ٓاپ اس سے حاملہ ہ ی ں ج و‬ ‫کے پ ا‬ ‫رات می ں شٓارزوب ت‬
‫ت ئ‬ ‫ہ ؑ‬ ‫ے ئگا۔ چ ون ھی رات می ں ٓاپ ض‬ ‫ن‬ ‫حمدو کر ج ا ال‬ ‫ہنماری ن‬
‫ن‬
‫ے وے د ھا کہ اے ٓام ہ!‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬
‫ب‬
‫ے ٓاسما وں سے ی ح ال کہ س ی۔ پ ا چ وی ں رات می ں ح رت ابرا م کو ی ہ ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫مکم‬ ‫ف‬ ‫مدح و عزت خکے مالک چ ٹ‬
‫چ‬
‫رات می ں ور مکا اور‬ ‫ی۔ فسا شوی تں ن‬ ‫کے بن اعث وشٹ ہ وج أو۔ ھ ی رات می ں رحت و جبنرکتن قل وگ ت‬
‫ہ‬
‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ے کائو ت ہ وا و ر وں ف‬ ‫ہ‬
‫کے گرد‬ ‫ن ش‬ ‫ے شس تی دہ ٓام ہ‬ ‫مد م ہی ں ہن وا۔ ٓا ھوی ں رات می ں نج ؓ ب ٓاپ کےغ ن ظم دی‬
‫ے کر و‬ ‫راتقمی ں تر وں ت‬ ‫ث نطواف ک ی ا۔ توی ں رات می ں س ی دہ ٓام ہ کی سعادت و ا اہ ر ہ و ی۔ دسوی ؓ ں ش‬
‫کے سا ھ ’’ال الہ اال ہللا‘‘ کا ورد ک ی ا۔ گ ی ارہ وی ں رات می ں س ی دہ ٓامن ہ سے م ت و عب ( ھکاوٹ)‬ ‫اء ئ‬
‫دور ہ نوگ ی۔ (‪(۱۳‬‬ ‫ض‬
‫ف‬ ‫مﷺ کا وس ی لہ‬ ‫قح ور ب ی کری ن‬
‫ش‬ ‫ات حم ی دہ‬ ‫مﷺ کے ص ن‬ ‫ئ‬ ‫رٓان جم ی د می تں ب ی کری‬
‫سے پ ہال‬ ‫ے اور اس کی ان رب وب ی ف‬ ‫ن‬
‫ت کا سب ض‬ ‫ت ق ض ہللا ع ٰالی پوری کا ات کا پ ی دا کرے واال رب ہ‬
‫ے۔ ح ظورﷺ‬ ‫ئ‬
‫رحمت ہ ر ای ک کے سر پر سای ہ تگن ہ‬ ‫ے اور اس کی‬ ‫ے کہ وہ ہ رہای تک پر مہرب ان ہ‬ ‫ا اہ‬
‫ہ‬
‫سے ی ہ اہ ر وا‬ ‫ج‬
‫ے جس کی ب دولت ی ہ ساری کا ض ات معرض و ود می ں ٓا ی و اس‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫کی ذات گرامی وہ س ی ہ‬
‫ے۔ ہللا ت ب ارک‬ ‫رحمت ہ ف‬ ‫ن‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬
‫ن‬ ‫الم‬ ‫ع‬ ‫اس‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫رب‬ ‫ت تکہ جس جنس عالم کا ئ نہللا‬
‫یﷺ‘‘ کو‬ ‫مصط‬ ‫ے ’’ ور‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫سال پ ل‬ ‫سےشہ زاروں ن‬ ‫عرض و ود می ں ٓاے ت‬ ‫ج‬
‫ن‬ ‫اس کا ات کے م ش‬ ‫عالی ے ض‬ ‫وخ ٰ‬
‫ن ق ک ی ا اور ح ورﷺ کے پ ی کر ب ری می ں اس دن ی ا می ں فریف ال نے سے ب ل ب نھی سب ا بت ی اء ن‬
‫کرام‬ ‫یل‬
‫ب‬ ‫ب‬ ‫ئ‬ ‫ف‬
‫عالی ے‬ ‫دے کر ہللا رب العزتق سےفمعا ی ج ھی ما گی اور دعا ھی ما گی اور ہللا ٰ‬ ‫ق‬
‫ے ٓاپﷺ کا وس ی لہ ن‬ ‫ن‬
‫ے کہ‬ ‫س‬
‫ضی ن‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ول‬ ‫نب‬‫دعا‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫عا‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫سے ہنر‬ ‫ےن‬ ‫وب کے وس یؑ ل‬ ‫ض‬ ‫ب‬‫م‬
‫ح‬ ‫ے‬ ‫اپ‬
‫ہ‬
‫ے ح ور ب ی کری مﷺ کے ذری عہ سے ی ہللا‬ ‫کے لی‬ ‫ے ض صور کو معاف کراے ن‬ ‫ٓادم ے اپ‬ ‫ت قح رت‬ ‫ت‬
‫ذات ب اب رکت کے ذری عہ ن‬ ‫کی‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫ن‬ ‫ے‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ہا‬ ‫ع‬ ‫حواء‬ ‫رت‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫حا‬ ‫رب‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫عالی‬
‫ف‬ ‫ؑ‬ ‫ل‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ن‬ ‫ض‬‫ی ح‬
‫ن ں دعا کی ج ب پ ا ی‬ ‫ے طو ان می‬ ‫مﷺ کے ذری عہ حض رت وح خ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫کی۔ ح ور ب یئ کری‬ ‫ے کو عرض ق‬ ‫س ارش نکر ت‬
‫ف ٰ‬
‫سے نل ی ل ہللا ے اس گٓا سے‬ ‫مﷺ کی توج ہ ض‬ ‫ی۔حنور ب ی کری ش‬ ‫ول کرلی گ پ ن‬ ‫نان پر ب ل ئد ہ وا و ان شکیندعا بن‬
‫ے رو تن ک ی ا ھا۔ تح ور ب ی کرینمﷺ تکے وس ی لہ‬ ‫ت ہ چ اے فکے لی‬ ‫وں ےناذی ت ف‬ ‫ج ات ضپ ا ی جس کو دؑ من‬
‫ص‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫عالی کے زدی ک ر ن ب ہ عالی اور‬ ‫ادریس ے د نعا ماہ گی و ی ل کی ض ت سےعم ؑصف ہللا ئ ٰ‬ ‫رت ن‬ ‫سے ح ض‬
‫ے ت سے د ب ہ‬ ‫ج‬ ‫ے اور ٓاپ کے لی‬ ‫ف‬ ‫ےگ‬ ‫مﷺ شی کے ذری عہ ضح نرت اسماؑ ی ل ٓازاد کی‬ ‫زی ادہ ہ وا۔ ح قور ب ی ق‬
‫کری‬
‫ف‬ ‫مصط‬
‫ضیﷺ ؑکی وج ہ سے ض‬ ‫کوہ طور پ ؑر دمحم‬
‫ی‬ ‫ع‬ ‫موسی ِ‬ ‫رت ضٰ‬ ‫ج‬ ‫ے۔ئ ح‬ ‫الی ا گ ی ا ج یسا کہئرٓان کری م رب ا ی پر ا نہ دفہ‬
‫سی اور زب فور ح رتفدأود ٓاپ کےث ل‬
‫مصط‬ ‫ٰ‬ ‫رت‬ ‫کامشی اب ہ وے جنب کہ ان کے پ اس دا ضربی ٓا ی۔ نا ی ل ح ت‬
‫یﷺ کی ب ع ت پر‬
‫کم‬ ‫ع‬
‫کے ال اظ‬ ‫ش‬ ‫ں۔ وری ت‬ ‫ے ج ل اور ب ل دی اں ہ ی ق‬ ‫کے لی‬‫ن‬ ‫ے ہ ی ٓاپ ث‬ ‫شکی اہ د ہ ی ں اور کت‬
‫ے۔ ان‬ ‫مت ا نل ہ ن‬ ‫ٓاپ کیت ان و ظ ت‬ ‫ے۔ ہللا اکب تر! کسندر ت ن‬ ‫اہ د ہ ی ں باور اس میعظں تٓاپ کی ع قاء نمو ود ہ‬
‫عالی ے ا ی مر ب ہ ٓاپ پر سا وں ب ل د ٓاسما وں می ں‬ ‫ت‬
‫ص د حی ران ہ ی ں۔ ہللا ٰ‬ ‫عض ئ( م نوں)شپر لم‬ ‫م ں سے ف‬
‫ے۔‬ ‫ی‬ ‫ٓا‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ام‬ ‫ار‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫یرحمت ن ازل رما ی ج‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫‪50‬‬
‫ؑ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫پ ن‬ ‫ؓ ف ت‬ ‫ض‬
‫دمحمیﷺ اور نور یوسف کی‬ ‫ت‬ ‫ے کہ ور‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫چ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫روا‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫اس‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ق‬‫ا‬ ‫رت‬
‫خ‬ ‫ؑ ہ‬ ‫یض‬ ‫ی‬ ‫نب‬ ‫ب‬ ‫حؑ‬
‫صور ی‪ ،‬ب وت‪،‬ث‬ ‫ے اور‪ ،‬کمال‪،‬ق وب‬ ‫وسف کے لی‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬ ‫ال ح رت‬ ‫ن‬ ‫ٓادم می ں رعہ ا دازی ہن و ی و حسن و ج م‬ ‫ق‬ ‫صلب‬ ‫قش ف‬
‫م‬
‫ح‬ ‫ج‬
‫رٓان‪ ،‬ذکاوت‪ ،‬مہر ب وت‪ ،‬سای ہ کرے واال ب ادل کا کڑا‪ ،‬معہ ج ماعت‪ ،‬م ام مود‪ ،‬حوض کو ر اور‬ ‫ن‬ ‫اعت‪،‬‬
‫ن ض‬ ‫ض‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ی ب او ٹ ی ح رت دمحمﷺ کے لی‬
‫ن‬ ‫فض ئ‬ ‫ن‬ ‫رکات‬‫اسم دمحم و احمد کی ب ض‬
‫اب ن ج وزی حتورﷺ فکےتام دمحمﷺ اور احمدﷺ کے ا ل اور برکت ب ی ان کرے کے‬
‫ے ہ ی ں۔ رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ے احادی ث ب ی ان کر ت‬ ‫لی‬
‫مؒ‬ ‫ے شکہ‬ ‫حدی ث می ں ٓا ا ہ‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫ب ح‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫احمد‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ال‬ ‫اب‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫المہ‬ ‫‪۲‬۔ مولد الن ب یﷺ از ع‬
‫یﷺ سے ب ل کے وا عات کو چک ھ اس طرح ب ی ان کرے ہ ی ں۔‬ ‫مصط‬ ‫اب ن حج ر مکی والدت‬
‫ع خ‬ ‫ت ن پ ن‬ ‫ق‬ ‫ہللاﷺ کا اعزازشو خاکرام‬ ‫رسول ئ‬
‫ے ی ا ٰلی طاب ات‬ ‫ہ‬ ‫ھی کا ل ص ٓاپﷺ کے وق و کماالت ک ہی ں ہ چ سکت ا۔ ایس‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ب‬ ‫کو ی خ‬
‫ت پ غ‬ ‫ف‬ ‫ے‪ :‬ن‬ ‫می ں سے ای ک طاب ی ہ ھی تہ‬
‫روں پر گواہ‬ ‫نب ن‬ ‫اعزاز و اکرام ع نطا رمائی اتکہ ٓاپ کوت مام ی م‬ ‫ی ت‬ ‫ہ‬ ‫کو‬ ‫ٓاپ‬ ‫ے‬ ‫ن ٰپ ن پ ن‬ ‫الی‬ ‫ع‬ ‫ان ٓای ات کری مہ نمی ں ہللا‬
‫ہللا ع ٰالی ے ا ہی ں‬ ‫ف‬
‫ج‬
‫ے وخ‬ ‫ے ھ‬ ‫ی‬
‫پ‬
‫امت کو وہ مام احکام ہ چ اد‬ ‫اس ب ات کا گواہئ تکہ ا ہوں ے ا ی ا ت ی پ غ‬ ‫ن‬ ‫ب ن انی ا‬
‫ے کہ مام ی مب ر ٓاپﷺ ہ ی کے مت ب ع اور لی ہ ہ ی ں۔ ج یسا کہ اس کی‬ ‫ے اور ی تہ اس لی‬ ‫ے شھ‬ ‫ے دقی‬ ‫پ ہ چ اے تکے لی‬
‫ش‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ق فش‬ ‫ق‬ ‫ے‪:‬‬ ‫عالی ی ہنول ا قارہ کر اعہ‬ ‫خطرف ہللا ت ٰ‬
‫م‬
‫ول ا ہدوا وا ا کم نمن ال اہ دی ن پر‬ ‫سے ب ل ن‬ ‫مولیﷺ پر اس‬ ‫رف و ٰمرت‬ ‫ارے ٓا ا و‬ ‫ام ا ظ م ہ م ش‬ ‫ہللا ع ٰالی ے ی ہ م ئ‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫ت ف‬
‫ے اور دی گر ا ب ی اء کرام ٓاپ‬ ‫ب ہ‬ ‫اال‬ ‫و‬ ‫د‬ ‫سب‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫ٓاپ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ی ی ب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وہ‬ ‫اکہ‬ ‫ا‬ ‫م ی‬
‫رماد‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫کےنالحق ہ ی ں۔‬
‫ف‬ ‫ی ﷺ ب ای ا ج ن‬ ‫مصط‬ ‫ے ٓاپﷺ کو‬
‫مصط‬ ‫خ‬ ‫ت ن‬ ‫ہللا ن‬
‫یﷺ‬ ‫خ‬ ‫سے‬ ‫ے ن ہی ں ہللا ع ٰالی ے حمب ت اور لعت ت‬ ‫ب قی کری م ی فکی وہ ذات م ب ارکہ ہ‬ ‫ہ‬
‫م‬
‫ےقاور معراج کے سان ھ تٓاپ کو صوص‬ ‫تسے پ اکتہ‬ ‫رب ع طا رمای ا ج و ضاحاطہ‪ ،‬ج نہت اور م زلت‬ ‫ق‬ ‫بف ن ای ا اور وہ‬
‫کی ٓاے اور ج ا ًے نو ت ًت امامت سے وازا اکہ ی ہ ب ت ای ا‬ ‫کرام ت‬ ‫ئا۔ ب ی ت الم دس می ں ح رات ا ب ی اء‬ ‫رمای‬
‫ہ‬
‫ج اے کہ ٓاپ ی ’’س ی دال ضل‘‘ ہ ی تں۔ ٓاپ تی مام ن‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫ے حمب ؐ ت‬ ‫مددگار ہ ی ں۔ ن‬ ‫کے اب تندا اور ا ہا ق‬
‫وب کو ’’سب تق‬ ‫عالی تے اپ ی اذلی ت ساب ہ می ں پا‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ن‬ ‫ے کہ‬ ‫ہ‬ ‫سے ی ہ ب فھی وا ح ہ وج ا ا‬ ‫ش‬ ‫اس‬ ‫ن‬
‫ہ‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫عالی کا ارادہ ئ نم لوق کے یا ج اد سے ن لق وا و اس‬ ‫خ‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬‫ف‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ا۔‬ ‫رما‬ ‫رف‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫‘‘‬ ‫وت‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫ٰ‬ ‫ظ‬ ‫ی ی‬ ‫ق م‬
‫ے‬‫سے پہل‬ ‫کے وج ود می ں ٓاے خ ش خ‬ ‫ے ’’ح ی ت قدمحمقی ہ‘‘ کو ’’محض ور ت‘‘ سے ا نہ رئرمای ا اور ی ؐہ اس کاؐ ات‬
‫ٓاپ کی ’’عظ ی م رسالت‘‘ کی و ب ری‬ ‫ٓاپ کون ت‬ ‫ے اور‬ ‫ؑ‬ ‫مام عالم ب ا‬ ‫ض‬ ‫دمحمی ہ‘‘ سے‬ ‫وا۔ پ ھر اس ’’ ی ت ق‬
‫ح‬ ‫ہ ئ‬
‫ٹ رت ٓادم کا و ود ھی ہ ھا۔ اس کے ب عد ہللا رب العزت‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫سن‬
‫سب چک ھ اس و ت چ شوا ج ب ح‬ ‫ی۔ ی ہ ت ت‬ ‫ا‬
‫ے پ ھوے۔‬ ‫کے حکم سے خ مام ارواح کے م‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ت ن ض‬ ‫وج ود مسعود کی یل ق‬
‫یﷺ کو پ ی دا کر ضے کا‬ ‫مصط‬ ‫ے ح رت قدمحم‬ ‫عالیج ت‬ ‫کہ ج بٹہللا ئ ٰ‬ ‫ی‬
‫ے‬ ‫سے فرواحی ت ہ‬ ‫عب اح ب ار ؑ‬ ‫تک ض‬
‫لب (دل) ہ و۔ پس ح رت‬ ‫ت‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ز‬ ‫مام‬ ‫و‬ ‫ں‬
‫ی ئت‬ ‫ال‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫سی‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ا‬
‫ف‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫عی‬‫د‬ ‫کم‬ ‫کو‬ ‫ل‬ ‫ی‬‫ر‬‫ب‬ ‫ج‬ ‫رت‬ ‫ف‬ ‫ارادہ ک ی ا و ح‬ ‫ؑ‬
‫رے اور ج ہاں تابشٓاپﷺ‬ ‫ت‬ ‫ہ ٹ‬ ‫ا‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ز‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ٹ‬ ‫ٹ‬
‫وں‬ ‫ر‬ ‫کے‬ ‫لی‬
‫ٰٹ‬ ‫ا‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫ردوس‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ا‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫ج بریق‬
‫اس ج نگہ سے تم ی کی ای ک ٹھی ا ھا نی۔ ا ئل می ں و ٹی م ی ٹھی ج ہاں کعب ہ ریف موجنود‬ ‫ص‬ ‫م‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ف‬ ‫کی ب رلایور ہ‬
‫وح ٓای ا و وہ ناں سے م ی مدی ہ م ورہتٓاگ ی۔ اس ف ھی ھر ھی کو ’’ نئ ی م‘‘ کے پ ا ی‬
‫ت‬
‫سے ج ن‬ ‫ے ن کن ج ب طو ان‬ ‫ہ‬
‫ئ ہ وگ ی پ ھر اس کو‬ ‫ہروں می ں ڈب ودی ا گ ی ا۔ ح نی کہ ای کنس ی د مو ی کی طرح‬ ‫ف شت ن‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫سے گو دھا گ ی ا۔ پ ھر ا‬
‫نوں کے چ قکر لگاے۔ض دری أوں اور‬ ‫طواف ک ی تا۔ ٓاسم خا قوں اور زمی‬ ‫ےن‬ ‫وں ش ت‬ ‫لے کر عرش و کرسی کےئگرد ر ف‬
‫مولی ح رت دمحم‬ ‫ئ‬ ‫ارے ٓا ا و ہ ہٰ‬ ‫سم ن دروں کے گرد چ کر لگاے۔ پس ر ضوں ے ؑاور مام لو ات ے ہ م‬
‫م‬ ‫ئ‬
‫ے و یج ب‬ ‫نات ح رت ٓادم کی پ ی دا ش ناور پ ہچ ان سے ب ہت پ ل‬ ‫ان ل ی ا۔ ی ہ ب‬ ‫ئ ت‬ ‫ہللاﷺ کو پ ہچ‬ ‫رسول ؑ‬ ‫ض‬
‫ن‘‘ د ھا اور ٓاپ کا اسمتگرامی ان‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫’’ ور دمحمی‬ ‫ت‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ردوں‬ ‫کے‬ ‫عرش‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ٓاپ‬ ‫و‬
‫ت‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬
‫عالی سے‬ ‫ہللا‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫نھا ج و ہللا فعالی کے ام کے ساپت ھ لکھا ہ یوا ت ھا و ٓاپ ے اس کے م ع‬ ‫ک‬ ‫پحردوں پر تلکھا یدی‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عالی ے ارش اد رمای ا‪:‬‬ ‫پوچ ھا‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫‪51‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن ت‬
‫ت‬
‫’’ی ہ ب ی مہاری اوالد می ں سے ہ ی ں۔ انتکا تٓاسما وں می ں ام ’’احمدت‘‘ اور‬
‫ے اگر وہ ن ہ ہ وے و می ں ن ہ مہی ں پ ی دا کر ا اور‬ ‫زنمی ن می ں ’’دمحمﷺ‘‘ ہ ت‬
‫ن ن ت‬ ‫ئ‬ ‫ہ ہ ی می ں ٓاسمان‪ ،‬زمی ن پ ی ئدا کر ا‘‘۔(‪(۱۷‬‬
‫پ صف‬ ‫ض‬
‫ح نرت قکعب اح ب ار کی روای ت کی ہ و ی ی ہ حدی ث ب ہت سے ٓا مہ کرام ے ا ی ن ی ات می ں ذکر‬
‫ت‬ ‫ے زیر ظ ر م الے ت‬ ‫ہ‬ ‫کی‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫می ں ا ل اب ن وزی کی ن ی ف مولدالعروس می ں ھی ھوڑے ال اظ کے ردوب دل کے سا ھ ب ی ان ک ی ا‬ ‫ص‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫ظ‬ ‫ے۔ پ ش‬ ‫نہ‬
‫ض‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ں‬
‫ور دمحمی ی ا یض ٓادم می ؑ‬
‫ارک ان کی پ ی ا ی می تں چ مکا نپ ھر حت رت‬ ‫م ؑب ن‬ ‫ور‬ ‫کا‬ ‫اﷺ‬
‫ض‬ ‫ٓا‬ ‫مارے‬
‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ہور‬ ‫کا‬ ‫ؑ ج ئب حپسرت ض‬
‫ٓادم‬
‫گ‬
‫ٓادم ے ان کین طرف ہ ا ھ تب ڑھا ا چ اہ ا و ض‬ ‫نں لی سے ح رت حواء پ ی دا قکی ی تں۔ ح ترتن‬ ‫ٓادمت کی دا ی‬ ‫ف ش‬
‫ے کی اج ازت ہی ں ج ب ک ٓاپ ح ور‬ ‫ہ‬
‫روک دی ا اور کہا کہ اس و ت ک ا ھ لگا ت‬ ‫ن ر وں ے اسے ش‬
‫ب ی کری مﷺ پر درود ریف ن ہ پڑھی ں۔ ای ک روای ت می ں ی ن مرت ب ہ اور دوسری روای ت می ں ب یس مرت ب ہ‬
‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫نق‬ ‫۔(‪( ۱۸‬ن ن‬ ‫ے ق‬ ‫مذکور ہ‬
‫س‬
‫امام س طال ی ے امام اب ن ج وزی کے حوالے سے ل کرے ہ ی ں کہ ا ہوں ے کت اب ’’ لوۃ‬
‫ٰ‬ ‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫نی ا ہ‬ ‫االحزان‘‘ می ں ب ی ان ک‬
‫ؓ‬ ‫ض‬ ‫ؑ‬ ‫ض‬
‫ط‬
‫رت ع بندا مٹ لب‬ ‫ل‬ ‫وزی ے مولدالعروس می ں ور دمحمیﷺ کا ح رت ٓادم سے ضلے کر حؑ ن‬ ‫ت م ت ق اب ن ج ن‬
‫ےن‬ ‫ےب ی‬ ‫ے کہ نح رت ٓادم ے تاپ‬ ‫ے اور اس وصی ت کا ب ھی ذکر ک ی ا م ت ق‬
‫ہ‬ ‫ضک ن شل ہ ؑ وے کو ب ھی ب ی ان ک ی ا ن‬
‫ہ‬
‫عالی ے‬ ‫طرح ہللا ش ٰ‬ ‫نی زہ رح تموں میف ں ہ ی ن ل کر ا۔ اس ن‬ ‫ح رت ی ث کو نوصی ت کی کہ اس ور مکوت قصرف پ اک‬
‫کے ور کو پ اکی زہ رحموں می ں ن ل کرے کا اہ مام رمای ا ب لکہ ٓاپﷺ کے سب ریف کو‬ ‫ٓاپﷺ ق ت‬
‫ک‬ ‫ب‬
‫نج اہ لی ت کی ب اح وں سے ھی پ اک ر ھا۔‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫الک ن‬ ‫ور کی ب رکت نسے اب رہ ہ ہ ض‬
‫ش‬ ‫ف‬‫ط‬ ‫ل‬ ‫ن‬
‫ن ا ی پرش وب چ مکا۔ اس‬ ‫‘‘ ح ور ت ب ی کری مﷺتکے دادا ج اب ع ب دا م لب کی پ ی‬ ‫ی ہ ’’ ور ندمحمین‬
‫حم‬
‫ف پر لہ‬ ‫ے کہ ق ری ق‬ ‫م‬ ‫ب ’’اصحاب ی ل‘‘‬ ‫طرف وج ہ کی ج ض ن‬ ‫عالی کی ن ت‬ ‫ے تہللا ن ٰ‬ ‫نرکت سے ا ہوں ن‬ ‫کی ب‬
‫ٓان‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کا‬ ‫ل‬ ‫مﷺ کے حم‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫اب‬ ‫ھا۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫صو‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫اد‬ ‫ر‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ب ب ی‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫تب ب‬ ‫پکر ن ت‬
‫ے۔ ان پنر دوں‬ ‫ق‬
‫ے و سم د رکی طرف سے ٓاے تھ‬ ‫ج‬ ‫نچ ا ھا شھر ہللا عپ ٰالینے ہ ا ھی والوں پر اب ا ی ل پر دے یھج‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ہ‬
‫ئمی ں سے ب ا ی ب چ ا اکہ وہ ا ہی ں‬ ‫سے ب ل ہ ی ان کوہ الک کردی ا۔ صرف ای ک ہ ی ان‬ ‫ے ظ‬ ‫ے نمکہ ریف چہ‬ ‫ض‬
‫کی کرامت اور ارہ اص کے ب ارے می ں ب ت اے۔ (‪(۲۰‬‬ ‫کے ہور ن‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫نح‬
‫ن‬ ‫ؓ پش‬ ‫ض‬
‫ش‬ ‫رت ع ب ضدہللا نکی ی ا ی می ں‬ ‫ور دمحمی ح ن‬
‫گرامی‬ ‫والد ن‬ ‫گرامی ع ب فدہللا کی پ قی ا یفمی ں رکھا۔ ٓاپ تکے ن‬ ‫ب پ ھر ی ہی ور ح ور ب بی کری مﷺ کے توالد ن‬
‫عالی ے ا ہی ں‬ ‫نی ا۔ ج ن ب ہللا ٰ‬ ‫ے ’’ دی ہ‘‘ تب ول رما‬ ‫عالی ت‬ ‫ہللا ہ ٰ‬ ‫کے ب دلہ می ں ن ش‬ ‫کے ذ ح ن‬ ‫وہ ’’ذی ح‘‘ ہنی ئں ج ن‬
‫ے تان وگ ی ان ھا۔ پس ہللا ع ٰالی ے ’’ض ور دمحمی‘‘ؓ کی ب رکت‬ ‫ت‬
‫زمزم نکے ک و ب ی ں کا براس ہ ب ت ای ا کی و کہ وہ ب‬
‫دہللا کی طرف‬ ‫کے والد ح رت ع ب ف‬ ‫ٓاپﷺ ب‬ ‫طرح کہ ہللا ع ٰالی ے‬ ‫سے ا ہی ں ذ ح سے چنال ی ا۔ وہ اس ق ن‬
‫ن‬
‫ن ب دلہن وہ ای ک سو او ٹ ذ ح کری ں ج ب ان کا دی ہ ادا کردی ا گ ی ا‬ ‫تب ذری عہ الہام ی ہ پ ی غنام پ ہ چ ای ا کہ نان کی رب ا ی کے‬
‫ے پ یش ک ی ا اور وہ سو‬ ‫ٓاپتکو ان کی زوج ی ت کےنلی‬ ‫ےئ ئ‬ ‫ھا۔ اس ےباپ‬ ‫ن ف‬ ‫عورت ے ان کا وہ ور دی ک‬ ‫ن‬ ‫و نای ک‬
‫ے۔ ی ہ سب چک ھ اسی ور دمحمیﷺ کی‬ ‫ے ھ‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ےگ‬ ‫ے ضکا وعدہ ک ی ا وؓ ٓاپ شے دی ہ می ں ذت ح ک‬ ‫او ٹ تھی دی‬
‫رت ع ب دہللا کی پ ی ا شی می ں چ مکت ا ھا۔‬ ‫ب ضدولت ھا ج ؓح ض‬
‫و‬
‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ادی ت‬ ‫ؓ‬ ‫ح رت ع بض دہللا کی ح رت ؓٓام ہض سے‬
‫ن‬ ‫اس‬ ‫پ‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫رہ‬ ‫ز‬ ‫خ‬‫ن‬ ‫اف‬
‫وہ ب ع ب شم ف ب ہ‬ ‫د‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫کر‬ ‫لے‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کو‬ ‫دہللا‬ ‫قع ب‬ ‫رت‬ ‫رت ع ب دالم ط قلب بحن‬ ‫ئ‬ ‫ح‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے۔تاس ے‬ ‫سے زی ادہ ری ضف ت صی ت ھ‬ ‫سردار اور سب ق‬ ‫تش و زہ رۃ ض ب ی لہ کے ؓ‬ ‫ے ج وٹ اس و‬ ‫لےنگ‬ ‫ف‬ ‫ری ق‬
‫ادی ح رت ع ب دہللا سے کردی و ریش می ں ا ل ری ن ئعورت ھی ں۔‬ ‫ج‬ ‫ئ‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬
‫اسی و ت ا ی ی ی ٓام ہ کی ت ف‬ ‫ب‬ ‫پ‬
‫ش ضادی کے ب عد شہ م ب ست ری ہن و ی و وری طورکپرنس ی دہحٓامن ؓہ ’’س ی دالخ لقﷺ‘‘& سے حاملہ ہ وگ ی ں۔ (‪(۲۱‬‬
‫ے کا کم ن‬ ‫ر‬ ‫دمحمﷺ‬ ‫ام‬
‫ن‬ ‫اور‬ ‫ارت‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ہ‬ ‫رت ٓامن ؓ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ن‬ ‫ح‬
‫ے س ن ا‪:‬‬ ‫ے والے کو ی ہ کہ‬ ‫والدہ ماج دہن ے ی د اور ب ی داری کی ندرم ی ا ی حالت می ں کسی کہ‬
‫ن‬
‫ٓاپ کی ش‬
‫ا عرت ا ك حملت ب س ی د ه ذہ االمۃ و ب یها۔(‪(۲۲‬‬

‫‪52‬‬
‫پ غ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ی‬
‫ے کہ اس امت کے ٓا ا و سردار اور مب ر‬ ‫ت’’ک ی ا مہی شں معلوم ہ وا فہ‬
‫غ‬ ‫ش‬ ‫ن ظ‬ ‫ے ہ ی ں؟‘‘۔‬ ‫ارے کم می ں ج لوہ رماچ ک‬ ‫مہ ن‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫رق و م رب‬ ‫ےم خ‬ ‫(والدہ) سے ای ک ور ائہ رت وا جس کے لی‬ ‫ٹ ٓاپ کی والدہ ے ب ارہ ا دش ھا کہن ؓان ت ش‬
‫ے و س ی دہ ٓامنت ؓہ کے پ اس وابنمی ں‬ ‫گ‬ ‫گزر‬ ‫اہ‬
‫ٹ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ف‬ ‫ٓاپﷺ کون کم ٓامنہ می ں ی‬
‫ر‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ج ب‬ ‫چ مک ا ھ‬
‫ن‬
‫ے پ أوں سے نعمولی سی ھوکر لگا کر ب ت ای ا کہ م س ی دالعالمی‬ ‫م‬
‫ے پ یٹ‬ ‫ن کوناپ‬
‫ط‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫ے واال ٓای ا۔ اس ے ا ہتی ں اپ‬ ‫ای ککٓا ت‬
‫ک‬
‫ے اور ان کے ب ارے می ں سی کو لع ہی ں‬ ‫می نں ر ھ ی و اور ان کا اسم گرامی م ے ’’دمحم‘‘ ر ھ ا ہ‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ئن ئ ض‬ ‫کر ا۔‬
‫ب‬
‫ن ت مخ دومہ کا خات ح رت ٓام ہ کی اس ک ی ت اور واب کا ذکر امام ج الل الدی ن ی وطی ے ھی‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ری‘‘ می ں ک ی ا ہ‬ ‫ب‬‫اپ ض ی صن ی ف ؓ’’ ال صا ص الک‬
‫ٰ‬ ‫ح رت ع ب دہللا کا وصال‬
‫ؓ نتق‬ ‫ض‬ ‫ج مش ت‬
‫ٓاپ کے والد گرامی ح رت ع ب دہللا کا ا ال‬ ‫ے کہ ق‬ ‫تہ‬ ‫ےہ و تہوری ری ن روای ض‬ ‫ک روای ت می ں ہہ‬ ‫ای‬
‫ے۔(‪(۲۴‬‬ ‫ف‬ ‫مو‬ ‫کا‬ ‫رات‬ ‫ر‬ ‫اکا‬ ‫ہی‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫دوران‬ ‫کے‬ ‫ف‬ ‫ل‬ ‫کے حم‬ ‫ٓاپ‬
‫ف‬
‫ہ‬ ‫بع حق ؒ‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫‪۳‬۔ ا مورد الروی ی مولد ا ب یﷺ از عالمہ مال لی اری‬ ‫ل‬
‫ث‬
‫ے۔ اک ر‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ی‬
‫ل‬
‫ا‬ ‫عام‬ ‫االول‬ ‫ع‬ ‫ی‬‫ن‬‫اکنثر ت ق دم ن و تمت اخ ن ری ن کاناجت ماع اسی ر ے کہ ت اری خ والدت ‪ ۱۲‬رب‬ ‫ئ‬
‫ہ‬ ‫ہکے ب‬ ‫ض ت قپ ؑ‬ ‫دمحمی کی خ‬ ‫م ی‬
‫ے ب ی ان کرے ہ ی ں۔ مال‬ ‫سے پہل‬ ‫ے ن‬ ‫ض‬ ‫ٓا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ود‬ ‫ت‬ ‫ج‬‫و‬ ‫ھی‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫ح‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫و‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫ق‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫ور‬ ‫کرام‬ ‫ٓاع ق‬
‫مہ‬
‫کری‬
‫ئ اری ا مورد الروی می ں اس اری خ کی ی ق ھی ب ی ان کرےہ ی ں کہ ح ور ب ی مﷺ کب پ ی دا‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫لی‬
‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ہ وض ن‬
‫ہ‬
‫ح ور ب ی کری مﷺ کب پ ی داف وے‬
‫ج ان کہ ہللا قکے اس رمان‪:‬‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن ش خ (ال رٓان‪)۱۲۸:۹‬‬
‫ے اور ظ مت شو ج اللت کی ص ف ت سے‬ ‫ع‬
‫موصوف ہ‬ ‫ظ‬ ‫ت ج و وصف رسالت و ب وت سے‬ ‫ی ع ی تص‬
‫ے اس رمان کی‬ ‫ارہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ہور‬ ‫اور‬ ‫کمال‬ ‫ہ‬ ‫مت صف ے ا و ہ ا ارہ ے ٓاپﷺ کے زمان‬ ‫ش‬ ‫ی‬
‫ہ‬ ‫یی‬ ‫ہ‬ ‫ہ ی ی‬
‫ن ن‬ ‫طرف۔‬
‫ن‬ ‫(‬ ‫‪۲۵‬‬ ‫(‬
‫ن‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ط‬ ‫ل‬ ‫اوا‬ ‫ٓاء‬ ‫م‬ ‫ا‬
‫ی ل‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫وٓادم‬ ‫ا‬ ‫بی‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫’’‬
‫ف‬
‫ن‬‫ے ل ی کن ی ہ‬‫اگرچ ہ اس روای ت کے ب ارے می ں ب عض راویوں ے ی ہ کہا کہ ہ می ں ی ہ ال اظ ب ہیق ں مل‬ ‫ف‬
‫ے امام احمد‪ ،‬یہ ی اور الحاکم ے‬ ‫ے جس‬ ‫ی ہ‬ ‫ت‬ ‫روا‬ ‫وہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫نہ‬ ‫ود‬ ‫ج‬‫و‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ات‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫ح‬ ‫ص‬
‫ح‬
‫ی‬ ‫ہوم‬ ‫م‬
‫ص‬
‫ن ف‬ ‫ض ن‬ ‫ے۔‬ ‫روای ت ک ی اض اور کہا کہ اس کی س د یحؓ ح ہ‬
‫مﷺ ے رمای ا‪:‬‬ ‫ن‬ ‫کری‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ے کہ ح ور ب ی ل‬ ‫ح رت عرب اض ب ن ساری ہ کی روای ت ہ‬
‫سنمعتف رسول ہللا ان ع ب دہللا ی ام الکت اب لخ ا م ا ب ی ی ن وان ٓادم‬
‫خ‬ ‫ؑ‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫‪ ۲۶‬ت( ل ن‬ ‫خ‬ ‫لم ج دل ی ط ی ن ت ہ۔ (‬
‫’’می تں ہللا کے ہ اں ا م ا ب ی ی ن لکھا ہ وا ھا ج ب کہ ح رت ٓادم کا پ ی کر اکی‬
‫اتب ھی ی ار ک ی ا ج ارہ ا‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن ن ت‬ ‫ن‬ ‫ھا‘‘۔‬
‫ے امام احمد ے اور ب خ اری ے اپ ی اری خ می ں‪ ،‬اب و عی م ے حلی ۃ می ں اور‬ ‫ے جس‬ ‫کقروای ت می ہ‬
‫ں‬ ‫ن ای‬
‫ص‬
‫ح‬
‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫حاکم ے ی ح ضرار دی ا ہ‬
‫ے عرض ک ی ا‪:‬‬ ‫ہت ی ن ق‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫سے‬ ‫میسرہ ال بق ی‬
‫وٓادم ب ی فن الروح والجسد۔ (‪)۲۷‬‬ ‫ال ت‬ ‫لت ی ارسول ہللا م ی کت ب ت ب ی ا ن‬
‫ے؟ رمای ا‪’’ :‬ج ب ٓادم روح اور‬ ‫ہللاﷺ! ٓاپ کب سے ب ی ھ‬ ‫ت‬ ‫’’ی ارسول‬
‫ج‬
‫ب‬
‫ؓ ن‬ ‫ے‘‘۔ ض‬ ‫کے درم ی ان ؓھ‬ ‫سم ض‬
‫ے اور ٓاپﷺ‬ ‫ت کی ا ہ‬ ‫نلعاص بے ہھی روایم ث‬ ‫اسی حدی ث ؑکو ح رت اب وہ ریرہ اور ح رت عمرو ب ن ا‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ے۔ ی ہ سب‬ ‫کی‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ہر‬
‫ع پ پ ب‬ ‫ر‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫ھی‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ان‬ ‫م‬ ‫در‬ ‫کے‬ ‫سم‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫روح‬ ‫کے‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬ ‫وت‬ ‫ب‬ ‫کی‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ح‬
‫ہ‬
‫عزت و ظ مت کا اعالن وج اے اور سارے‬ ‫ٓاپﷺ کی ئ‬ ‫ے کہ ہللا رب العزت چ اہ ت ا ھا کہ ت ض‬ ‫ن چک ھ اس لی‬
‫ب یوں اور رسولوں می ں ٓاپﷺ کی ش ان ام ی از وا ح ہ وج اے۔‬

‫‪53‬‬
‫ق ن‬ ‫حق ق‬
‫ق ن‬ ‫ن‬ ‫ط‬
‫کے ب ارے امام س ت ال ی کا ب ی ان‬ ‫ی ت دمحمی ہﷺ ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫اس کے رزق م رر کرے‬ ‫ظ ف‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫دا‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫کے‬ ‫لوق‬ ‫ح ق‬ ‫ق‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ارادہ‬ ‫کا‬ ‫عالی‬ ‫ہللا‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ت امامنس طال ی‬
‫ٰ‬
‫پ‬
‫کےعا وار صمدی ت سے ی نت دمحمیﷺ کو اہ ر فرمای ائھر اس سے تہللا‬ ‫ن‬ ‫اس ے ب ارگاہ احدی ت‬ ‫ت‬ ‫تکا ہ وا ون‬
‫ت‬
‫ے امر ؑ’’کنہ‘‘ سے پ ی دا رمجاے۔ پ ھر ہللا ٰ‬
‫عالی‬ ‫کے م طابضق اپ‬ ‫ے نلم وئ ارادہ ق‬ ‫ستخاپ‬ ‫ےن مام عالم ب اال و پ خ ش‬ ‫عالی ض‬ ‫نٰ‬
‫ے ح ور ب نی کری مﷺ کو و ب ری س ا ی اس و ت ح رت ٓادم کی و ی صورت ھی و حدی ث پ اک می ں‬
‫ے ی ع ی ’’روح اور ج سم کے درم ی ان‘‘۔‬ ‫نمذکور ہ‬
‫ن‬ ‫لوق‬ ‫دمحمیﷺ سب سے پ ہتلی مخ‬ ‫ور‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫خ‬ ‫ہ‬ ‫ض‬ ‫ع ق‬
‫م‬
‫ت نمال لی اری ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ح رت دمحمیﷺ ی وہ وری لوق ہ ی ں‪ ،‬ن کو ہللا ب ارک و‬
‫اور اس ب ات کی دل ی ل کے طور پر امام ع ب دالرزاق کی اس روای ت کو ج و‬ ‫ے پ ی دا ک ی ا ن‬ ‫سب سے پہل‬ ‫ے ض‬ ‫عالی ن‬ ‫ن ٰ‬
‫ن ق‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬
‫عی ی ہ‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت ی‬‫ب‬ ‫سے‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫حو‬‫خ‬ ‫کے‬ ‫صاری‬ ‫ا‬ ‫دہللا‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫جب ب ض ب‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬ ‫ا‬
‫سے ہ ی ں اور لم حدی ث نمی ں ب ل د م ام‬ ‫ن مالکقکے نصوصی المذہ می تں ض‬ ‫امام ع ب دالرزاق ح رت امام‬
‫امام ع بتدالرزاق ے اس ول کو اپ ی س ن د کے سا ھ ح رت ج اب ر ب ن ع ب دہللا ا صاری سے‬ ‫کے حامل ہ ی ں۔ ف‬
‫ے۔ وہ رماے ہ ی ں‪:‬ن ن ت‬ ‫روای ت ک ی ا ہ‬
‫ے اور اس حدی قث‬ ‫ا‬ ‫ان‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عروس‬ ‫مولدا‬ ‫ف‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ق‬
‫وزی‬ ‫ن‬ ‫ن‬‫ج‬ ‫ن‬ ‫اسیئ ی ث ب‬
‫ا‬ ‫کو‬ ‫ث‬ ‫حد‬
‫ع‬ ‫ی ش ب ی ث قک ی ہ‬ ‫ل‬ ‫نی‬ ‫ث‬
‫ے۔ اسی وج ہ سے ی ہ حدی ث ہرت و اہ ت کے ا ٰلی م ام پر‬ ‫فم بئ ارکہ کو اک ر ٓا مہ ومحد ی ن ے ل ک ی ا ہ‬
‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ن ا زہ‬
‫ن‬ ‫پش‬
‫پش‬ ‫ن‬ ‫مک‬ ‫ی چ‬‫ں‬ ‫م‬ ‫ٓادم‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ع ق ی‬ ‫کی‬ ‫دمحمیﷺ‬ ‫ور‬
‫تی ان‬ ‫ت ال لی اری ھی تاب ن نوزی کی طرح ور دمحمیﷺ کی ی ا ی ٓادمﷺ می ں چ مک کو ب‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫کےق سا ھ وہن ور دمحمیﷺ کی اصالب طاہ رہ می ں ج لوہ گری کونب ھی ب ی ان کر ت‬ ‫ہ‬ ‫ں۔ اس ب‬ ‫کرے ہ ی‬
‫نسے روای ت کردہ حدی ث ب وی ب ی ان کرے ہ ی ں کہ‬ ‫نامام ی کی س ن می ں سے اب ن ع ب اس‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ے وہ‬ ‫ن‬‫اس کے لی‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫روا‬ ‫ھی‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ساکر‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫م‬ ‫عی‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫االوسط‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫جس کو طب را‬
‫ی ن ی کی ہ‬ ‫ق ع فب ع‬ ‫ی تی‬ ‫ق‬
‫الب اطی ب ۃ‬ ‫مصفلی س اح لمت ی ثزل ہللاش ل ی منناالصف خ‬ ‫ت‬ ‫ال لم ل ق اب وای ط‬
‫الی االرحام ال طاهرہ ی ھذب ا وال عب عب ت ان االک ت ی ی رھما۔ (‬ ‫م‬
‫ش‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬ ‫ن‬ ‫‪(۲۹‬‬
‫ت‬
‫ے می ق ہ پ اکی تزہ‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫عالی ھ‬ ‫ب‬ ‫ب‬‫ک‬ ‫شت‬
‫’’می رے والدی ن حے ھی ھی گ اہ ہی ںتک ی ا‪ ،‬ہللا ٰ‬
‫صاف س ھرا اور مہذب ب ن تاکر من ل کر ا‬ ‫ن‬ ‫طرف‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫کی‬ ‫ئ‬ ‫موں‬ ‫ر‬ ‫زہ‬ ‫ی‬ ‫اک‬ ‫پ‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫پ‬
‫ے ہللا ے اس می ں سے ب ہ ر گروہ می ں‬ ‫رہ ا ج ب ب ھی دو گروہ ہ وے و م ھ‬
‫رکھا‘‘۔‬
‫ت‬
‫ک‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ؑ‬ ‫ن کہ ض‬ ‫ے‬ ‫ں ٓای ا ہ‬ ‫روای ت می ت‬
‫’’ج ب ن‬
‫پ‬
‫ہللا ع ٰالی ے ح رت ٓادم کو پ ی دا ک ی ا اور ان کی ت می ں ور دمحمیﷺ ر ھا و وہ‬ ‫پش‬
‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫خت‬ ‫ن‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ٓاپﷺ کی تی‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫نکےح ت تپر ب ل د ک ی ا اور ر وں کے ک ئدھوںن پر ا ئسے ا ھوای ا‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫مم‬
‫عالی ے اس ور کو کت‬ ‫ہللا‬
‫ن‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ھا‬ ‫چ مکت ا‬
‫ل‬‫م‬ ‫ٰ‬
‫‘‘۔‬ ‫کے کوں کے عج ا ب ظ ر ٓا ی ں ت‬ ‫ے کا کم دی ا اکہ اس ؑ‬ ‫وں می ں اسنکے طواف کر ن‬ ‫اور ان کو ٓاسما ف‬
‫ک س حال رہ ی۔ پ ھر ہللا‬ ‫ن‬ ‫دمحمیﷺ) ٓادم کے سر می ں یا‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ت نامام ج ع تر ب ن دمحم ے کہا نکہ وہ روحئ( ور‬
‫ن و عظ ی م‬ ‫گے سج دہ کرے ئکا کم دی ا ج‬ ‫کے ٓا ن‬ ‫ان‬‫ے پ ھر ض ر وں کو ؑ‬ ‫عالی ے ان کو تمام مخ لوق کے ام سک تھا‬ ‫ٰ‬
‫ے ان کے ب ھا ی وں ے سج دہ‬ ‫وسف کے سام‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫رت‬‫ق‬ ‫ح‬ ‫ے‬‫ادت کا تسج دہ ن ہ ؑھا‪ ،‬ی س‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫المی کا سج دہ تھا‪،‬‬ ‫ق‬ ‫اور تس ق‬
‫ک ی ا‪ ،‬و ح ی ت می ں ون م جسودلہ و ہللا ھا اور ٓادم کی ح ی ث ی ت ب لہ ج یسی ھی۔‬
‫نق‬ ‫ف‬ ‫ض ن‬ ‫ؓ‬ ‫اصالب طاہ برہہقمی ںنور کی نج لوہ نگری‬
‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫رمان ل کنی ا ہ‬ ‫مﷺ کا ی ہج ت‬ ‫ے اپ ی س ن می ں اب ن ع ب اسغسے ح ور ب یئکری خ ن‬ ‫امام ی ی ئ‬
‫ے و اسالمی کاح ے‬ ‫’’می ری پ ی دا ش می ں دور ج اہ لی ت کی کسی لط کاری کا کو ی د ل ہی ں‪ ،‬م ھ‬ ‫جن‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ے‬ ‫ن یہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫م‬
‫ے‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ماء‬ ‫ع‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اک‬ ‫سب‬ ‫عد‬ ‫کے‬
‫ان حض رت اسمانع ی تش‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫پ ی ل‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫عد ان خ‬
‫ل کی اوالد‬ ‫ت‬ ‫عد‬ ‫ے۔‬ ‫ی ہ‬ ‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫ہت‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫پخ ہ‬ ‫ر‬ ‫او‬ ‫سے‬ ‫ان‬ ‫عد‬ ‫صرف‬ ‫الف‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫پ‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫ے کہ دو وں کے درم ی ان ک ا زما ہ اور ت ی ی ں ہ ی ں۔‬ ‫ن‬ ‫اس ب ات می ں ا ت‬ ‫سے ہ ی ں۔ مور ی ن کا ت‬
‫الف گہت‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫عض لوگ سات‪ ،‬عض یس اور عض چ ا یس ن‬
‫‪54‬‬
‫ق‬ ‫ً‬ ‫َ کث‬ ‫َ‬ ‫ن‬ ‫َق ُ ْ‬
‫(ا رٓان ‪)۳۸ :۲۵‬‬ ‫ل‬ ‫و ُرو ًام َی ْن ٰذلِک َ ِی ْرا۔ ق‬ ‫ب‬
‫ن ف ت ت‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫گز‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫عرصہ می ں ب ہت ی‬
‫م‬ ‫و‬ ‫ش‬ ‫اس ت ن‬ ‫’’کہ ؓ‬ ‫ض‬
‫ے اور سوال‬ ‫نرہ سب ب ی ان کرے کو پ س د ہی ں رماے ھ‬ ‫امام مالک فعد ان کے ب عد ج‬ ‫ٹ ت ح رت خ‬
‫کہ ان مور تی ن کو ی ہ ص ی الت کس ے دی ہ ی ں؟ (‪(۳۰‬‬ ‫ش‬ ‫ا ھاے‬
‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫عالی ہ‬ ‫مصطف ٰ‬ ‫ار ناد ب اری‬
‫ق ف‬ ‫ؓ‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ہ‬
‫یﷺ سے حاملہ و ا‬ ‫ض‬ ‫ؓ‬ ‫س ی دہ ٓامن ؓہ ضکا ور‬
‫نؓ‬
‫کےشپ اس ینام رمای ا۔‬ ‫رت ٓام ہب سےئ ادی نکے ب عد صرف ی نٹدن ٓاپ خ‬ ‫ن ت ح نرت ع ب دہللا کی ح‬
‫ا ضہی ی ن د وں می ں وہ ب ائب رکت گھڑی قھی ٓا ی ج نب ور ندمحمیﷺ کی گراں ب ارضاور در اں ؓاما ت ن‬
‫ش‬ ‫ش‬
‫نپ ی ا ی اسنور سے ج گمگا ا ھی ج و ح رت تع ب دہللا کی پ ی ا ی‬ ‫کے سپ رد ہ و ی اور ان نکی م دس‬ ‫ح رت ٓامن ؓتہ ت‬
‫ے کہ‬ ‫ں ٓا ا ہ‬ ‫ت می ن‬ ‫لےتے ی ہ اعالن ک ی ا۔ رواین‬ ‫می ں ج لوہ گر ھا و اس رات نای ک م ادی کرے وخا‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ےمو قالے ب ی‬ ‫ن و کہ نای تتک چ ھ پ ا ہ وا زا ہپ نھا جس سے ہ دای ت دی‬ ‫’’سن لو وہ ور ج‬
‫رات کو ا ی ماں کے پ ی ٹ می ں ن نلن‬ ‫اکﷺ ے ہ و ا خھا اس‬ ‫پئ‬
‫ہ وے ج ہاں ٓاپ کی یل ق ل وگی اور ٓاپﷺ لوگوں کو ڈر س اے‬ ‫ہ‬ ‫مکم‬ ‫ظ‬
‫ے ہور پ ذیر ہ وں گے‘‘۔ (‪(۳۱‬‬ ‫ظ کے لی‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫دمحمﷺ کا ہورن ؓ خ‬ ‫ض‬ ‫ور‬
‫س ؓ‬ ‫نی ان ضکر ی ہ ی ں کہ‬ ‫ح رت ٓام ہ ود ب‬
‫ص ح اب ن ح ب ان ے ح رت عرب اض ب ن ساری ہ ال لمی سے روای ت کی کہ‬ ‫یح‬
‫ض‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫غ‬ ‫ن‬ ‫دہللا ؓ کا وص قال‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ح رت ع‬
‫عالی کی درت کاملہ ے ٓاپﷺ کو ماں ب اپ کے ب ی ر ب ھی ہ ر کمال و وبی سے وازا اور‬ ‫ی ہ ہللائ ٰ‬
‫تی‬ ‫ش‬ ‫ئ ن ب ت‬ ‫ت ت ش ن‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫سن کی ہ ر زی ب ا تی و‬ ‫ح ش‬
‫ی‬
‫ے۔ ِان می‬ ‫اپ ھی ہ وے و ی ہ اہ ی ں اور ادا ی ں ہ ھر سک‬ ‫ب‬ ‫ے کہتماں‬ ‫ش‬‫ہ‬ ‫دلک ی تکے سا ھ یئوںحس توارا‬
‫دوسروں کے زیر ب نار‬‫ف‬ ‫الی نکی ک ی کم ی ںنپوت ی دہ ھی ں۔ ج نن می ں سبنسے ا م ٓاپﷺتکو‬ ‫نہللا ع ٰ‬
‫سے ب‬ ‫می ں‬
‫ے۔ د ی ا‬ ‫ہ‬ ‫ے رب کا مرب وب اور رب ی ت ا ت‬ ‫ا‬ ‫صرف‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫اکمال‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫کرا‬ ‫اور‬ ‫ہ‬ ‫اور‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ہو‬
‫ی ہ‬ ‫پ‬ ‫ی ب‬ ‫یب‬ ‫چ‬
‫ق‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫کے کسی ضا سان کا ہیج عفں۔ ؓ ن ش ی‬
‫ے‪:‬‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫لو‬ ‫اسی‬ ‫کے‬ ‫ل‬ ‫می‬ ‫ے ِان‬ ‫ئ‬ ‫ح رت نامام ر صادق‬
‫ا نما ی ت ی م رسول ہللا ل ال ی کون علی ہ ح تق م لوق۔(‪(۳۴‬‬
‫خ‬
‫’’ ب ی اکرمﷺ کو ی ت ی م پ ی دا ک ی ا گ ی ا اکہ کسی مخ لوق کا ٓاپ پر احسان ن ہ‬
‫ض‬ ‫لط ؓ ن ن‬ ‫ہ و‘‘۔‬
‫ے بصاحب زادے ح رت‬ ‫لب ے ا‬ ‫ٓاپﷺ کے ج د امج د غع ب داخم ن‬ ‫ل کے دورانق ش ت‬ ‫اسی مدت حم‬
‫پ‬ ‫غ‬ ‫ش‬ ‫دہللا کو ش‬
‫ے یھ ج ا۔ وانپ سی پر‬ ‫کے لی‬
‫بن‬ ‫ے‬ ‫د‬
‫ی نن‬ ‫ر‬ ‫لہ‬ ‫مراہ‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫روں‬ ‫اج‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫طرف‬
‫ئ‬ ‫کی‬ ‫زہ‬ ‫ت‬ ‫ہر‬ ‫کے‬ ‫ام‬ ‫عب‬
‫ے والد کے ھ ی ال ی عدی ب ن ج ار کے ہ اں‬ ‫ٓاپﷺ قکے والد حم رم ب ی مار ہ وفےئاور مدی ن ہ طی ب ہ می ں پا‬
‫ے۔‬ ‫م ن‬
‫وصال رماگ‬ ‫عد ن‬ ‫ای ک ہی ہ تی ام کے بم ئ‬
‫ت ت ن ف‬ ‫ی‬ ‫ے کہ ال کہ ے کہا‪ :‬ق ت ن‬ ‫کہا ج ا ا ہ‬
‫عالی ے رمای ا‪:‬‬ ‫ے و ہللا ٰ‬ ‫مارے ٓا فا! ظ ی را ب ی ت ینم رہ گ ی ا ہ‬ ‫م‬
‫اے ہ مارے عب ود! اور ہ‬
‫خش‬ ‫اس کی ح ا ت کرے واال اورقمددگار می ں ہ ئ نوں‘‘۔‬ ‫وارث ت‬ ‫ع ق ’’اسنکا پ ن‬
‫ب‬
‫کی اسنو ی کو ھی‬ ‫اتن‬ ‫والدت سے ب ل ناج رام کا‬ ‫ق ن مال لی اری ے ا ی اس صن ی ف می ں‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫والدت فکی رات سر ن ام ہن ی سرور و ا بساطتکے راےف ضگاے لگ‬ ‫ض‬ ‫ے ج و اذن الفہٰی سے‬ ‫لمب ن د ک ی ا ہ‬
‫اور وہ ورا ی پروں کے سا ھ ہ وأوں اور خأوں می ں ادب و‬ ‫نوگ ی ا‬ ‫ب‬
‫ساتک ان عرش کی ٓامدو ر ئت می ں ھیش ا ا ہ ہ‬
‫ے‬ ‫ے۔ ضحوران ب ہ ت ے کا ا ٔہ ٓام خ ہ کو ھی رے میش ں لے ل ی ا اور ہ ر سو دمت کے لی‬
‫گ‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫سے کھڑے ہ و‬ ‫اح ترام ئ‬
‫گ‬
‫ورﷺ خکے ج د امج د کو ب ھی واب می ں م اہ دہ کرای ا گ ی ا۔‬ ‫غ‬ ‫ح‬ ‫طرح‬ ‫اسی‬ ‫ؓ‬ ‫ں۔‬ ‫گ‬
‫مس عد ہ و ی‬ ‫ض‬
‫واب‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ی‬‫ر‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫لب‬ ‫ط‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫ع‬ ‫رت‬
‫ض‬
‫ے کہ نٓاپﷺش کے ج د ا نمج د ح رت‬
‫خ‬
‫العی ے کہا‪ :‬لوگوں نکا ی ال‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫خ‬‫ع‬ ‫ی‬ ‫اب وب رب‬ ‫ح‬
‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ل ش‬ ‫ب‬
‫ے جس کا‬ ‫ع ب دالم طلب کو واب می ں ی ہ م اہ دہ کرای ا گ ی ا کہ چ ا دی کی ای ک ز ج یر ان کی پ ت سے لی ہ‬
‫‪55‬‬
‫غ‬ ‫ش‬
‫ے پ ھر وہ‬ ‫ہ‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫رب‬ ‫دوسرام غ‬ ‫سرا نم رق می ں اور ش‬ ‫ای ک سرخ آاسمان اور دوسرا زمی ن می ںئے۔ ا ک‬
‫ے اور م رق و م رب کے لوگ اس کے‬ ‫کا‬ ‫ور‬ ‫ہ‬ ‫ہجس یکا ہ ر ہ ر پ ت‬ ‫ای تک در ت کی صورت می ں ب دل گ ی‪،‬‬
‫ہ‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ں۔ (‪ (۳۵‬ت‬ ‫ےہی خ‬ ‫سا ھ ل ٹ ک رہ‬
‫ت سے ای ک ب چ ہ پ ی دا ہ وگا۔ جس کی م نرق و‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫کہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ی بی ب گ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ر‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫واب‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫غ‬
‫ے ٓاپ کا ی ہ ام‬ ‫ن‬ ‫گے‪ ،‬اسکلی‬
‫ن‬ ‫نیف کری ں‬ ‫لے اس کی عر‬ ‫ض‬ ‫م رب والے پ یرویتکری ںت گے‪ ،‬زمی ن و ٓاسمان وا‬
‫ے کے سلسلہ می ں‬ ‫ن نؓ‬
‫رت ٓام ہ ے ج و چک ھ ب ی ان ک ی ا ام ر ھ‬ ‫کے سا ھ سا ھ ٓاپﷺ کی والدہ ح‬ ‫رکھا گ ی ا۔ اس ن‬
‫اس کو بق ھی پ یش ظ ر رکھا تگ ی ا‪ ،‬پس دمحم اور احمد ٓاپ کے دو ام ہ ی ں۔‬
‫ے کہ‬ ‫ج یسا کہ رٓان پ اک می قں ٓا ا ہ‬
‫(ال نرٓان ‪)۲۹۹ :۴۸‬‬ ‫اور ف رمان خ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫دی‬ ‫داو‬ ‫ق‬
‫(ال رٓان‪)۶ :۶۱‬‬
‫نق‬ ‫ن پن‬
‫ئ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ص‬
‫ح‬
‫ض نحاکم ے ا ی ی ح می ں ی ہ نرواشی ت ل کی ہ‬
‫ض ن‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫دور‬ ‫ئ‬ ‫کے‬ ‫رواں کسری‬ ‫نکی والدت و ی ن‬ ‫ک ی ا ح ور ب ی کری مﷺ‬
‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ٰ‬ ‫ج‬ ‫ئ‬
‫عادل‬
‫کی والدت ن‬ ‫ب‬
‫ے کہ ح نور ب ی کری مﷺ‬
‫ص‬ ‫ش امام سخ اوی ے کہا ی ہ ب ات و زب ا وں پر چ ڑھی و ی ہ‬
‫لوگوں ے‬ ‫ئ‬ ‫ع‬
‫ے ججس کی کو ی ا ل ہی ں۔ الوہ ازی ں خعض ن‬ ‫دعوی ہ‬ ‫ی۔ یقہ ای ک ایسا‬ ‫کے دور می ں ہ و ق‬ ‫ن‬ ‫ب اد اہ ن‬
‫ئمی ں کو ی ا ت الف ہی ں‬ ‫ع‬
‫ے کہ لماء‬ ‫ے وہ ی ہ ہ‬ ‫لوگوں کا ر حان ہ‬ ‫ش‬
‫ٰ‬ ‫ب الک ضل ظن ر ا داز ک ی ا اور جس ی ت کی طرف ن‬
‫ح‬
‫ے۔ یہق ن ش‬ ‫ں پ ی دا ہ ون ب‬ ‫سری جو ی رواں عادلطکے دور می‬ ‫ٰ‬ ‫نںک‬ ‫کہ ح ور ب ی کری مﷺ مکہ مشکرمہ می‬
‫س وطی ے کہا ی ے عب‬
‫ب‬
‫تی‬‫ے۔‬ ‫ےط ب ا ث ل ہ‬ ‫می ں کہت ا ہ وں کہشزرک ی ے کہافکہ ی ہ ھوٹ ہ‬
‫ارے ی خ اب و ع ب دہللانحا ظف اس ب ات کو ب ا ل اب ت کرے ہ ی ں جس کو عض ج ہالء ب ی ان‬ ‫تان می ں کہا ہ ضم ن‬ ‫االی م‬
‫نش‬ ‫ا‪:‬‬
‫ین‬ ‫رما‬ ‫ے‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫ح‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫کر ہ ی‬
‫ے‬
‫’’ملک العادل‘‘ کے زماے می ں پ ی دا ہ وا اور اس سے مراد و ی روان‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ے۔ (‪(۳۷‬‬ ‫ہ‬
‫ئکہ‬ ‫عادت محرم الحرام‪ ،‬رجت ب المرج ب اور ترمض ان الم ب ارک می ں ش ہی ں ہ و ی‬ ‫بسق ش‬ ‫ا‬ ‫والدت‬ ‫ٓاپ کین‬
‫ص‬
‫ہ‬
‫سے رف حا ل و ا‪ ،‬زمان و مکان و سرکار کی وج ہ سے م رف وے۔‬ ‫ہ‬ ‫ے کی وج ہ ن‬ ‫نٓاپﷺ کو زما ف ض‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب ی کری مﷺ کی ی لت ب ا ی ا ب ی اء پر‬
‫ے کہ مام معزز یوں اور ب ڑے بڑے رسولوں‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ع‬
‫اور اس رسول ہللاﷺ کی ای ک ظ مت ی ہ ھی ہ‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫سے ی ہ پکا وعدہ ل ی ا گ ی ا‬
‫ٓاپﷺ کی رسالت کا زمان ہ پ اے ٓاپﷺ کی عظ مت و ج اللت کے ظپ یش ظ ر ٓاپﷺ‬ ‫کہ ج و ب ھی ئ‬
‫ٓاپﷺ کے کماالت کو اس طرح اہ ر ک ی ا ج یسا کہ اس کی‬ ‫کرے۔ اور ت‬ ‫ٓاپﷺ کی مدد ف‬ ‫ت‬ ‫پر ای مان فالے اور‬
‫ن‬
‫عالی کے اس رمان کے حت اش ارہ ک ی ا۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ق‬ ‫ے‬ ‫طرف م سری ن‬
‫نئ ف ئ‬ ‫ق‬ ‫‪ (۸۱‬ف‬ ‫ن‬ ‫ن‪:۳‬‬ ‫(ال رٓان‬
‫ن‬
‫ے اس رمان سے م ام ب ل د کی رہ ما ی رما ی۔‬ ‫ن‬
‫اور ٓاپﷺ فے اپ‬
‫تلو تان موسی کان ح ی اء۔ (‪ )۳۸‬ن ت‬ ‫والذی ؑس ندمحم ب ی دہ‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ارہ ہ ق و ا‘‘۔‬
‫ہ‬ ‫موسی ز دہ ہ وےنو می شری پ یروی کے سوا ان کو چ ن‬ ‫’’اگر ٰ‬
‫ے اس رمان‬ ‫ے م ام کی طرف پا‬ ‫اور اسی کی طرف ٓاپ ﷺ ے ا ارہ ک ی ا ب لکہ اس سے ب ھی او چ‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫خ ؓ‬ ‫سے‪ :‬ض‬
‫ے‪ :‬ت‬ ‫ہ‬ ‫مروی‬ ‫سے‬ ‫دری‬ ‫د‬ ‫سع ی‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫رت‬ ‫ح‬
‫(‬ ‫‪۳۹‬‬ ‫(‬ ‫ی۔‬ ‫لوا‬ ‫حت‬ ‫اال‬ ‫سواہ‬ ‫من‬ ‫ٓادم‬ ‫ذ‬ ‫من ب نی وم ئ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫و‬
‫ت‬ ‫ت ن ع‬ ‫ی ؑ‬ ‫ض‬
‫ے ہ وں‬‫’’ح رت ٓادم اور دی گر مام ا ب ی اء لیہم السالم می رے پرچ م ل‬
‫گے‘‘۔‬

‫‪56‬‬
‫ن‬ ‫ض‬
‫ئ‬ ‫ن ن‬ ‫ح رت حوا ؓ کا حقق مہر‬
‫ٓاپﷺ پر درود و سالم پڑھا گ ی ا‪،‬‬ ‫ل ا سا ی کی اب ت داءت ہ و ی۔ ن ق‬ ‫ی ہی م ام حمد ے جس کی و ہ سے س‬
‫ض‬ ‫نج‬ ‫ہ‬
‫تا۔‬ ‫کاح کا مہر ح ورﷺ پر ‪ ۲۰‬مر ب ہ درود پڑ نھ ق ا رار پ یا‬ ‫کے ن‬ ‫الم ن‬ ‫حض رت ٓادم و حوا علی ھما الس ق‬
‫اسی حدی ث کو امام س طال ی ے عالمہ اب ن ج وزی کے حوالے سے ل کرے ہ ی ں کہ کت اب‬
‫فق‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫’’سلوۃ االحزان‘‘ می ں ذکر ک ی ا قکہ‬
‫ان ہ لما رام ال حرب م ها طلب ت م ہ ال شمه ر ال ی فارب وما ذا اع طیها ال ی ا‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ن(‬‫دہللا ع ری ن مرۃ ع تل۔ (‪۴۰‬‬ ‫ن ب ی ب ی دمحم ب ن ع ب ق‬ ‫ٓادم صلی علی‬
‫سےنرب ت کا ارادہ ک ی ا و اس ے ٓاپ سے‬ ‫ٓاپ ے اسض بی بی ؑ‬ ‫جب‬
‫روردگار! می ں باس کو کنی ا‬ ‫بپ‬ ‫اے‬ ‫کہا‪:‬‬ ‫ے‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬ ‫کی ح‬ ‫ا۔‬ ‫لب‬ ‫ط‬ ‫حق م ف‬
‫ہر‬
‫ت‬
‫دوں؟ رمای ا‪ :‬می رے حب ی ب دمحم ب ن ع ب دہللا پر یس مر ب ہ درود یھ جو‪ ،‬ا ہوں‬ ‫ن‬
‫ے ی ا۔‬ ‫ہ‬ ‫ؑ ےا س‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ٓادم کا ن ب ی کری یمﷺک یسے توس‬ ‫رت‬
‫ض‬
‫خ‬ ‫ؑ‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫رت مر ن ال ؓ‬ ‫ض‬ ‫ح‬
‫ے کہ ب ی کری مﷺنے رمای ا‪ :‬ج ب ٓادم سے ت طا ت‬
‫سرزد‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫ت‬ ‫سے‬ ‫طاب‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫سے سوال کر ا ہ وں و‬ ‫رب! می ںت منسے دمحمﷺ کے حق ہ وے کے توس ی لہ ن‬ ‫ہج و بی خا ہوں ے کہ تا‪ :‬اےن ف‬
‫کہ اب ھی و می ں ے اس کو پن ی دا ب ھی‬ ‫ے پ نہچ ان ل ی ا ق‬ ‫ن کو جکی س‬ ‫دمحمﷺ‬ ‫ے ش دے‪ ،‬ہللا ع ٰالی ے رمای ا‪ :‬و ے ت‬ ‫نم ھ‬
‫پ‬
‫دست درت سے پ ی دا ک ی ا اور ا ی روح‬ ‫ے‬ ‫ے کہ ج ب و ے م ھ‬
‫ت‬ ‫ے اپ‬ ‫رب! اس لی ت‬ ‫ہی ں ک ی ا۔ نعرض ک ی ا‪:‬ناے ٹ‬
‫جم ھ می ں پ ھو کی می ں ے سر ا ھا کر دی کھا و عرش کی سی ڑھی وں پر لکھا ہ وا ھا‪:‬‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫رسول ؓہللا‘‘‬ ‫الہ اال ہللا دمحم خ‬ ‫ع ق ’’ال ض‬
‫ے ہ ی ں‪ :‬ت‬ ‫ی ن ؓ‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ب‬‫ن‬ ‫ارکہ‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ی‬‫حد‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫فگ‬ ‫کی‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫روا‬‫ت‬ ‫سے‬ ‫طاب‬ ‫ن‬ ‫مر‬
‫ع ب‬ ‫رت‬ ‫مال علی ق اری حض‬
‫ت وے رماے ہ ی ں ار وہ سب ب وی ب ی ان تکرے‬ ‫ہ‬ ‫ئ مضال لی اری ح ورﷺ کا درج ہ ب یتان کرے‬
‫اکرمﷺ کے اج داد کے م علق عصر‬ ‫ئ‬ ‫رسول‬ ‫خ‬ ‫ں۔‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫قبت ا ہ‬
‫ے‬ ‫ق‬ ‫ورﷺ کے ٓاب فاء و اج دادٹ کے م عل‬ ‫ن‬ ‫ہ وضے ح‬
‫سے‬ ‫ق‬ ‫ادری ے ھی م لف ا مہ کرام کے حوالے‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫حاض ر کے سی رت گار اور پرو ت‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫یسر ڈاکیر دمحم قطاہ رال پ ن‬ ‫ع‬
‫ے‬ ‫تہ‬ ‫یﷺ ج لد دوم می ں لمب د ک ی ا‬ ‫ہی وا نعات کو ا ی ؓ ن ی ف سی رۃ ا ن ب ق‬ ‫ص‬
‫ؓ‬ ‫ورﷺ کے اج داد کے م ق‬
‫ل‬ ‫ض‬ ‫ح‬
‫ے پڑا اس کا ا عہ چک ھ اس طرح ب ی ان کرے‬ ‫ے کہ ح ورﷺ کے دادا ع ب دالم طلب کا ام ع ب دالم طلب کی س‬ ‫ج یس‬
‫ں۔‬ ‫ہی ض ن‬
‫ت‬ ‫ف شت‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ن ج‬‫در‬ ‫کا‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ح ور‬
‫مام م خلوق کے‬ ‫خ‬ ‫اور فم رب ر‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫م‬ ‫عظ وں اور ت‬ ‫رسول ہللاﷺق لوں‪ ،‬لوں ش‬ ‫م‬
‫امام سخ اوی ے کہا کہ‬
‫صوص ہ ی ں‪،‬‬ ‫دن ط ؓاعت ل ط ٰمی کے ساص ھ ن ش‬ ‫رب العالمی ن کے حب وب ہ ی ں‪ ،‬ی امت کے‬ ‫سردار ہ ی ں اور ب ق‬
‫ن م نلب ئکا ا ل ام ی ب ۃ الحمد‬ ‫لب ع ب دا‬ ‫دمحمﷺ ب ن ع ب دہللا ب ن ع ب دالم ش‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫اسم‬ ‫سردار ا وال‬ ‫ہت مارے ت‬
‫ب‬
‫ے ب ھا ی م لب کو مکہ می ں‬ ‫ط‬ ‫کے والد ہ ا م ے اپ‬ ‫ے پڑا کہ ان‬ ‫اس لی‬ ‫لب کا ی ہ ام ن غ‬ ‫ط‬ ‫ل‬
‫کہ ع ب دا م‬ ‫ے ق‬ ‫نھا۔ فکہا ج ا ا ہ‬
‫ے کہ ٓاپﷺ کے چ چ ا‬ ‫ے الم قکو سن ب ھالو‪ ،‬ی ہ ب خھی کہا گ ی ا ہت‬ ‫اپ ی و ات کے نو پ ت ٹکہا کہ ی ث رب می ں پا‬
‫ئ‬
‫ے۔ت ت‬ ‫اس و ت وہ ب بڑے سنت ہ حالش ھ‬ ‫غ‬ ‫ے ب ھا کر تم تکہ می تں ٓاے‬ ‫ے یچ ھ‬ ‫پ‬‫م طلب ٓاپ کو ا‬
‫ش‬ ‫ھ‬
‫ب مکہ می ں‬ ‫ے۔ ج خ‬ ‫ے سے رماے ھ‬ ‫ے۔ن تی ج ا ک ظہ‬ ‫المھہ‬ ‫ب‬ ‫ے کہ ی ہ می را‬ ‫جئب ان نسے پوچ ھاظج ا ا و کہ ت‬ ‫خ‬
‫ے جس‬ ‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫عرب‬ ‫ا۔‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ہار‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ک‬
‫ہل ی‬‫ر‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫حال‬ ‫ے‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫دا خ‬‫ن‬
‫ت‬
‫نے اب ک ی ا اور ای ک سو چ ا یس سال ک‬ ‫ض‬
‫ن ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫تت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ے۔ ص ن‬ ‫ز دہ رہ ش‬
‫پ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ے‬ ‫ے می ں ا ہی نوم کے لین‬ ‫ے کہ ی ہ حط کے زما م ن‬ ‫ے ھ‬ ‫ےہ‬ ‫تکا تا ل شام عمرو نھا اور ان کو ہ ا م اس لیغ‬ ‫ن ت ہا م‬
‫ے یک و کہ‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫دور‬ ‫د‬ ‫ب‬
‫ف ع عی‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫کی‬ ‫صی‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫ی صی ہ‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫صی‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫اف‬
‫ب قمض ب‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫کھا ان ی خار نکر‬
‫ے ج ب کہ ان کی ماں اطمہ ان سے حاملہ‬ ‫ے کے عالے می ں ھ‬ ‫ے ا دان سے ب ہت دور اعۃ ب یل‬ ‫تی ہ اپ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ھی ں۔‬
‫کت‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫ی ل ب ہ‬ ‫عرو‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫وم‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫ے۔‬
‫ہ پ‬ ‫ھا‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫عہ‬ ‫ت‬
‫م ج ہ م‬‫ام‬ ‫کا‬ ‫عہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬‫س‬ ‫ہ ج‬‫ے‬ ‫ص‬
‫ق‬ ‫ال‬‫ت‬ ‫ت‬
‫پ‬ ‫عب‬ ‫خ ب ک‬‫ن‬ ‫ا‬ ‫مرہ‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ت‬
‫ے جس ے اما ب عد‬ ‫ے ی ہ پ ہال ص ہ‬ ‫ے مع وے ھ‬ ‫ے کے لی‬ ‫س‬
‫ے اور ریش ن‬ ‫ےف اس تدن ی ہ طب ہ دی ا کرے ھ‬ ‫ھ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ا۔‬ ‫کی‬ ‫عمال‬ ‫س‬‫ن‬ ‫ا‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫کا‬
‫م‬ ‫ہ‬
‫ٓاگاہ کر ا اور لوگوں کو ب ت ا ا کہ ی ہ می ری اوالد می ں سے وں گے‪ ،‬ہی ں‬ ‫ب ی کری مﷺ کے ث ہور شسےن ن ت‬ ‫ن‬
‫ے اور اک ر ی ہ عر گ گ ا ا‪:‬‬ ‫ان کی پ یروی کر ی ہ‬
‫‪57‬‬
‫ن‬ ‫ش یتب ن‬ ‫ال ی ت نی ش اهدا ب غواء دعوت‬
‫(‬ ‫‪۴۳‬‬ ‫(‬ ‫ا‬ ‫حدال‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ل‬
‫ح‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫رۃ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ت‬‫ح‬ ‫ہ‬ ‫ض‬ ‫ب‬
‫ن‬
‫’’اے کاش می ں حا ر ہ و ا ان کی دعوت کے و ت ج ب ی ہ خ ا دان‬ ‫ق‬
‫ش) حق کو رسوا‬ ‫( ری ن‬
‫دے گا‘‘۔‬ ‫ن ف‬ ‫ال‬ ‫ک‬ ‫ض ن کرکے‬
‫ت‬
‫ن‬ ‫ے رمای ا‪:‬‬
‫ن‬ ‫ح ور ب ی کری مﷺ ف‬
‫ال بس وا ال ی اس ا ہ کان موم نا۔ (‪ (۴۴‬ت‬
‫ے‘‘۔‬ ‫مت کنہو یک و کہ وہ مومن ھ‬ ‫اس کو ب رابب ٹھال ب‬ ‫ل ط ’’ال ی ن‬ ‫ض‬
‫ے کو ذ ح کر ا‬ ‫اور ی‬
‫ن ف‬ ‫ح رت نع ب دا م لب کی ذر‬
‫ے رمای ا‪:‬‬ ‫مﷺ ب‬ ‫ب ی کری ن‬
‫ا ا اب ن الذ ی ب حی ن۔ (‪(۴۵‬‬
‫ن ض‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ؓ‬ ‫ض‬ ‫ض ’’می ں دو ذ ی ؑحوں کا ب ی ٹ ا ہ وں‘‘۔‬
‫دہللا‬
‫ئ ت‬ ‫رت ع ب‬ ‫ٹ‬ ‫ح‬ ‫دہللا ی ہنوا عہ طب را ی ے‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ٓاپﷺ کے والد ح رت ع‬ ‫ض‬ ‫ؓمراد ح رت اسماع ی ل اور‬
‫ےو‬ ‫ےہ و ت ق‬ ‫دس ب ی‬ ‫ان قکے ن‬ ‫ے کہ ح رت ع ب دالٹم طلب ےئ ذر تما ی کہ ن‬ ‫اب ن ع اس کی روای تق سے ذکر ک ا‬
‫ان می بں سے ای ک نکو ربن ان کردی یںہگے‪ ،‬ج ب دس یب‬
‫دازی کی نو رعہ‬ ‫ے رعہ ا ن‬ ‫ے پورے ہ وے و ٓاپ ت ت‬
‫ےن و ٓاپ ے دعا ما گی۔‬ ‫ارے ھ‬ ‫لب کو سب قسے نزی ادہ پ ی ت‬ ‫حض رت ع ب دہللا کے ام کال ج و قحض رت ع ب دالم ط‬
‫ئی ہ ب ی ٹ ا رب ان کروں ی ا سو اون ٹ پ ھر رعہ ا دازی کی و سو او ٹ‬ ‫ن’’ی ا ہللا!‬
‫ؑ کل ٓاے‘‘۔‬ ‫ئ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫دعاے اب ضرا ی م‬
‫ش‬ ‫رت ا راہ ی ؑم کی دعا ہ اش‬
‫ے اس ب ات کی طرف کہ ج ب ٓاپ ے عمی ر ئکعب ہ روع کی و‬ ‫ہ‬ ‫ارہ‬ ‫ش ی‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت ح‬
‫سے ندعا ما گی اس ہر کو امن واال ب ن ادے اور لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف ما ل کردے اور‬ ‫ہللا ع ٰالی ش‬
‫نکو پف ھلوں کا رزق دے۔‬ ‫ی ہاں کے بت ا دوں‬
‫ے رمای ا‪:‬‬ ‫ہللا ع ٰالی ق‬
‫ق ف ئ‬ ‫ن‬ ‫ت ت (النرٓان ‪۲‬ا‪(۱۲۹ :‬‬
‫ہ‬
‫ٓاپﷺ کو و ی‬ ‫ت‬ ‫ن ی اور ن‬ ‫عالی ے ٓاپ ؑکیندعا اس ب ی کری مﷺ کے حق می ں ب ول رما‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن و ہللا ٰ‬
‫شرسول ب ای ا ج ؑس کا سوال اب را ی م ے ک ی ا اور ا ل مکہ کی طرف جس کو م عوث کرے کی دعا ما گی ھی۔‬
‫ت ن‬ ‫ت‬ ‫ؑ‬ ‫سی‬ ‫ب ارت عی‬
‫ح‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ئ عی‬ ‫ض‬ ‫ئ‬
‫ٰ‬
‫ے ان کو کم دی ا‬ ‫عالیض ن‬
‫ہللا ٰ‬ ‫طرف کہ ئ‬ ‫ات کی ت ب ن‬ ‫اس ب ن ئ‬ ‫ے شخ‬ ‫سی نکی ب ارت و ی ہ ا ارہ ہ خ‬ ‫رت ٰ‬ ‫رہ گ بی نح‬ ‫ن ق‬
‫وہ اپ ی وم ی اسرا ی ل کو ب ی مﷺ کی نٓامدت کی و ب ری س ا ی ں و ی اسرا ی ل ح ور ب ی مﷺ‬
‫کری‬ ‫ت‬ ‫کری‬ ‫کہ ت ش‬
‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ٓاپﷺ کو پ ہچ ا‬ ‫ےہ ی ن ف‬ ‫کی ریف ٓاوری سے پہل‬
‫رسول ہللاﷺ ے رمای ا‪:‬‬ ‫ج یسا کہ ق‬
‫(ال رٓان‪)۶ :۶۱‬‬
‫خ‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫اد‬‫ن‬ ‫ب‬ ‫ع‬‫ل‬ ‫را‬ ‫ی‬ ‫بمولد‬
‫ف‬ ‫‪۴‬۔ الی من واالسعاد‬
‫مصن ی نت کی طرح اپ ی اس صن ی ف الی من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد‬ ‫ھی ب ا یئ‬ ‫خ ق امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ب ت‬
‫ئ‬ ‫ب ق‬ ‫ذکر کرے ہ وے ر مطراز ہ ی ں کہ‪ :‬ق ف ئ‬
‫خ‬ ‫ن ن‬ ‫می ں ل ت دمحمیﷺ کا‬
‫رب العزتت ے ور دمحمیﷺ کی یل ق اس و ت رما ی ج ب ا ھی و ت کی اکا ی وں کا‬ ‫ت‬ ‫ہللاش‬
‫ن ن‬
‫ف‬ ‫ب ھی ام و ان ک ہ ھا۔ خ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ص‬ ‫ف‬
‫اس کی ہ ر ئ ل کے روع می ں حمب وب رب‬ ‫ے صکہ ن‬ ‫ں ای ک صوصی ت ی ہ ہ‬ ‫ب‬ ‫ئ ن اس کت اب می‬
‫ے۔‬ ‫ے پ ھر ٓاگے کی ل ب ا دھی گ ی ہ‬ ‫ات پر درود و سالم یھ ج ا گ ی ا ہ‬ ‫خ‬
‫ل‬
‫کا‬
‫اول ا قﷺ‬ ‫ل‬
‫پ غ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت ت ف‬
‫ی‬
‫ے ہ ی ںقجس نے کا ات کو م قعزز مب ر کے ب اعزت م ی الد سے‬ ‫ن‬ ‫مصطفکے لی‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫اس ہللا ج ل ا ہ‬ ‫ب خش مام عری ی ں‬
‫م‬ ‫ق‬
‫اور صاحب م ام حمود ہ ی ں ج و صاحب‬ ‫ج‬ ‫تیﷺ م خدس ب ی‬ ‫دمحم‬
‫مولی ث‬ ‫عزت ی۔ ہ مارے ٓا ا و ٰ‬ ‫شف‬
‫م‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫اعت کب ری اور مالک حوض کو ر ہ ی ں و مام ممک ہ‪ ،‬و یوں کا موعہ ہ ی ں۔ بزرگ والدی ن اور اج داد والے‬ ‫ج‬
‫ٰ‬
‫‪58‬‬
‫ت‬ ‫متق‬ ‫ن ش جب ن‬ ‫خ‬
‫الصہ کائ ن‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫وں می ںت ل ن و ا ر ا اور ان‬ ‫ن‬ ‫کے سردار ہ ی ں۔ وہ ج ن نکا ور رو ن ی نٹ‬ ‫ن‬ ‫ٓادم‬ ‫اوالد‬ ‫اور‬ ‫ات‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ہ ی ں۔‬
‫ے سے مام ج ہا وں پ ہ ہ دای ت و‬ ‫ص ح وری ں کے پ ھو‬ ‫کے م ی الد و فہور دسی سے س ئارا عالم م ور ہ وگ ی ا اور ان کی ب‬
‫ق ت‬ ‫ے۔‬ ‫لوع ہ گو‬ ‫ت‬ ‫معرف ت کے ٓا ت اب ط‬
‫ے تن ہ ٓاب وخ عرش‬ ‫ے ن ہ لوح و لم ھ‬ ‫ں۔ ٓاپ سے پہنل‬ ‫لخ‬
‫ہللاﷺ ح ئتمی طور پرن’’اول ا لق‘‘ ہ ی ن‬ ‫ئ‬ ‫رسول‬
‫ے اس کی بزرگ و بر ر ب ارگاہ اص‬ ‫م‬ ‫ے موال کے سا‬ ‫پ‬‫صورت می تں ا‬ ‫ت‬ ‫ن ہ ہ قی ان کےن سوا کو ین تاور ھا نٓاپ ورتکی‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫نپر ھ‬ ‫می ں رب ت مع وی کی ا ہا ی م زل‬
‫تق‬ ‫ل‬ ‫تک ہ‬ ‫ع‬ ‫س‬
‫ے ٓاپ ہ ی ے اس کی شبی ح و ظشی م کی‪ٓ ،‬اپ فی اس کی تب یر و ظ ی لفاور دی م کی‬
‫ہ‬ ‫سے پنہل‬ ‫ق ت ہ ر چ یز ث‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫اور اس کےئ ای ان ت ان اس کی ص ن ات کا ن ہ ری ن ا ہار رمای ا۔ ق‬ ‫کماح ہ عریت نف و ا کا ذرا ہ یش ک ی ا غ‬
‫عالی کے نکو ی ہی ں ج ا ت ا اور ن ہ ہ ی اس کی م دار کا‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ق‬ ‫ے‬ ‫قن‬ ‫سوا‬ ‫ت‬ ‫مدت و ین‬
‫ا‬ ‫ئعرصہ کہ اس کی ت‬ ‫ا ا‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫س‬
‫ےعکسی اور کو ہن و کت ا خہق‬ ‫وازا ہ‬ ‫سے‬ ‫رب‬ ‫و‬ ‫عام‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫اس‬
‫ح‬ ‫ے‬ ‫عالی‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫سوا‬
‫ن‬ ‫دازہ‬ ‫ا‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ئ‬
‫اور مر ب ہ و نظ مت کا ا دازہ لو ات می ں‬ ‫زلت ع ت‬ ‫نکی پ ن ی خ درو م ج ن‬ ‫ب نی مﷺ وہ تلوق ہ ی شں ن‬ ‫کری‬
‫ے ان می ں سب سے‬ ‫ہ‬ ‫وازا‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫کو‬ ‫لوق‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫عالی ان ہ‬ ‫سے کوف ضی ہی ں گاسکت ا۔ ح ئق ف ن‬
‫ٰ‬ ‫ل‬
‫ئ‬ ‫ےن‬ ‫اع ٰلی‪ ،‬ا نل‪ ،‬ب ہت ری نن اور ال ق ق خ ر عمت ی نہ شہ ن‬
‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے حمبعوب ا دس اور ب ل د ا وںعواتلے رسولﷺ ع طا کردی‬ ‫کہ اس ے ان کو اپ‬
‫ے جس‬ ‫ری ‘‘ہ‬ ‫وس ی لہ کب‬ ‫ے اور وہ ’’‬ ‫ہ‬ ‫ے جس پٹر تساری م وں ضکا دارو مدار‬ ‫ہ‬ ‫می‬
‫ئ‬ ‫ٰ‬ ‫ت اور ی ہ وہ عمت ظ‬
‫ی‬ ‫ٰ‬
‫ے محسنقہ ی ں ج ن نکی ہ شمارے اوپر ا سی‬ ‫ے ہ ی ں۔ اور ح ور ہ مارے ایس‬ ‫مارے مصا ن ب و ٓاالم ل‬ ‫کے وس نل سے ہ‬ ‫ن نف‬
‫داد‪ ،‬والدی ن اور عزیز و ا ارب کی واز ات کو چک ھ‬ ‫کرم وازی اں ہ ی ں‪ ،‬ن ن ع ای ات سے ہ مارے ٓاب أو اج‬ ‫ج‬ ‫م رد ن‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ے۔ ق یک و کہ ٓاپﷺ ی ہ مارے و ود و اعا ت کا وس ی لہ اور ہ ماری ح ی ات و ارواح اور‬ ‫فسب ت ہی ں تہ‬
‫ض‬ ‫ف‬ ‫ں۔‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫کا‬ ‫اء‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫عا ی ت و سالم‬
‫ش‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ج‬
‫ں اور ان اء ہللا‪ ،‬ہللا کے ل و کرم‪ ،‬ودو‬ ‫ئ‬
‫ماری ت کالی ف ون ر ج سے ب الصی کا ذری عہ ہ ی ق‬ ‫ن‬ ‫قٓاپ ہ ی ہ‬
‫ہ‬
‫ت سے ج ت می ں ت ھی ہ شمارےن ندا می ی ام کا وس یطفلہ ٓاپ ہ ی ہ وں گے اور می ں‬ ‫ششخب اور درت و ع ای ن‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے ب ی امی ن کے ی ل می ں اس (سعادت)‬ ‫عالی ا ہ اپ‬ ‫رب کا دی دار صی ب ہ وگا۔ حق ٰ‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫اس مہرب ان‬
‫ت ن‬ ‫ت‬ ‫ے۔ ٓامی ن‬ ‫حروم ہ ر ھ‬ ‫سے م ض‬
‫ے۔ مام ا ب ی اء و مرسلی ن‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ل ہ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ن‬‫کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫عا‬ ‫مام‬ ‫الت‬ ‫س‬ ‫ر‬
‫خ ق‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫رسول‬ ‫وہ‬ ‫اکرمﷺ‬ ‫ت‬ ‫ور‬ ‫ش ح‬
‫مان الے کے پ اب د ہ ی ںتاور ٓاپ وہ‬ ‫ساری ت لو ات ٓاپ پر ایت‬ ‫م‬ ‫گذ ت ہ ساری ا ی ں اور ان کے عالوہ ت‬ ‫م‬
‫ے‪ ،‬طول و عرض ن ہ ہ وے‪ ،‬دوزخ و‬ ‫ارض و سما ن ہ ہ و ت‬ ‫ےو ن‬ ‫ئ‬ ‫ٓاپ ن ہ ہ و‬ ‫ن‬ ‫حبن ی ب کردگارﷺ ہ ی ں کہتاگر‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ص‬
‫ے‪ ،‬فج ات و مال کہ اور ا سانتھی ہ وے‪ ،‬ج یسا کہ احادی ث و روای ات یح حہ اور‬ ‫ہ‬ ‫عرش و کرسی ہ ہ و ش‬ ‫جتصت‪ ،‬ف‬
‫لحاءن عر اء کے درست مکا ات اس پر داللت کرے ہ ی ں۔‬
‫ش‬ ‫ن‬
‫ئ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ن ؑع ن‬ ‫رسالت ن ض‬ ‫حوی ل ور ق‬
‫ت ح رت س ی د انٓادم لی ب ی ن ا لی ہشال نسالم کی و ات کا قو ت ری ب ٓای ا و ا فہوں ے ی ث‬ ‫سو‬
‫صی ت ج اری رما ی کہ تان‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫م‬ ‫طہ‬ ‫الوا‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫ئ‬ ‫ا‬ ‫گر‬ ‫ی‬‫د‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ئ‬ ‫ٓا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ل‬‫ن‬ ‫عل ہ ا س جالمئاور اپ نی س‬
‫خ ت‬ ‫ب سف‬ ‫ج نی‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ے پ اک ب از ناور ع ن فت مٓاب ق وا ی نتکے دوسریت عور وں‬ ‫کرے۔ سوا‬ ‫اس ور کو ض ا ع ن ہ ق‬ ‫ئ‬ ‫سے کو ی ب ھی‬ ‫ت‬ ‫می یں ت‬
‫ت مست ل طور پر سل ؓدر سل ا ذ اور مست ل ہ و ی رہ ی ی نہاں ک کہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫سے م م عنن ہ ہ وا ج ا نے۔ضی ہ وص‬
‫طرف اورشان سے مخ دومہ کو ی ن عظن مت و‬ ‫نم طلب کی ن‬ ‫موال کری م ے اس ور کو ح رت س ی د ا ع ب دہللا بت ن ع ب دال‬
‫عالی ے ٓاپ کے سب ری نف کو والد اور والدہ دو وں کی‬ ‫ٰ‬ ‫بزرگی والی س ی دہ ٓامن ؓہ کی طرف پ ھی ر دی ا۔ رب‬
‫است اور م ینل چک ی ل سے‬ ‫کی ج ف ق‬
‫ن‬
‫نشطرف سے جعاہ لی خت کی ب دکاری اور ٓالودگی سے پناک رک بھا‪ ،‬اور زما ہ نج اہ لینت پ ن‬
‫صاحب ہ السالم) کی ب رکت سے ا ہی ں چ ای ا۔ اسی ور ے ا ی موا ت کرے والے ہ ر‬ ‫خور دمحمی ( لی ب ش‬
‫فض‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ت ن‬ ‫ی۔‬
‫ت‬ ‫ص کو ہ دای ت‬
‫عالی ے ٓاپ کی ذات گرامی پر ا عام و اح نسان رمای ا اور نٓاپ کی ی لت و‬ ‫ہللا فب ارک و ٰ‬ ‫ض‬ ‫مزی د ب رٓاں‬
‫ش‬
‫ے ز دہ ک ین ا اور وہ خدو وں ٓاپ پر ای مان‬ ‫ی‬
‫زرگی می تں اس طورشا ا ہ ک ی ا‪ ،‬کہ ٓاپ کے والدی ن کر می ن کو ٓاپئکے لی‬ ‫بئ‬
‫خالے‪ ،‬اکہ ان کا مار ٓاپ کے گروہ اور امت خ اصہ می ں ہ وج اے۔ ی ہ ان دو وں ( ص ی ات) کی‬
‫جن‬ ‫ً‬ ‫ے۔(‪(۴۶‬‬ ‫صوصی ت اور ٓاپﷺ کا معج زہ ہ‬
‫کے نوالدی ن کری می ن ی ا ٓاپ کے ٓاب أو اج داد می ں سے کسی کے ب ارے می ں (ع ی اذا ب اللہ) ہ می‬ ‫ک‬ ‫ٓاپ‬‫ق‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ی ھ‬ ‫ر‬ ‫دہ‬ ‫ع‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ہو‬

‫‪59‬‬
‫ق‬ ‫شخ‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫صالفحی ن کے‬ ‫ی‬ ‫کے قم طا ق عت اب ازل تہ و۔ ایسا غ‬
‫ن ن‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫صد‬ ‫ص‬
‫ل‬ ‫سے اس فکے ج رمپ ن ح ب ج ت‬ ‫ق‬
‫وا تلے پر ہللا کی طرف‬
‫ہ‬
‫ے ا ئکار و‬
‫ہ‬
‫ے اور پا‬ ‫پ شہ‬ ‫ر‬ ‫طی‬ ‫ت‬ ‫سے‬ ‫ار‬
‫ص‬
‫ح‬
‫عب‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫اد‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ی ف‬
‫ل‬
‫ق‬
‫ت‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫اور‬ ‫ے۔‬ ‫نمرا قب سے محروم ن ہ ل‬
‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ی‬
‫ے و اسے رم ٓا ی چ اے اور‬ ‫ے۔ اور اگر ب ا رض اس کا کہا ی ح ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہم خ‬ ‫سےت ا ص ا ک ن‬ ‫ظ ری ات کے قلحاظ ف‬
‫ن ن‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫را‬
‫اس سم کے ول اور ٰ ت ت ض‬
‫ی‬ ‫سے‬ ‫وی‬
‫ن‬ ‫ب‬
‫ش تان نعلماء کرام سے ہللا ع ٰالی را ی ہ وگ ی ا ج و‬
‫ے ہ ی ں اور ا ہوں ے‬ ‫مﷺ کی حمب ت می ں چس‬ ‫مکمرسول کری ف‬
‫ے استعظ ی م ب ارگاہشکا ل تاور ج امع د اع ک ی ا۔ ان اہ ل دا ش می ں سے عض‬
‫ب‬ ‫ے مار صا ی ف کے ذری ع‬ ‫ب‬
‫ے‪:‬‬ ‫ٰ ہ‬ ‫الی‬ ‫ع‬ ‫اری‬ ‫ب‬ ‫اد‬ ‫ار‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫دالل‬ ‫اس ٓای ت کری مہ سےق است‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫‪)۵۷‬‬ ‫(ال رٓان‪۳۳‬ا‪ :‬ن‬
‫ٓاپﷺ کے نوالدی ن ( عوذ ب اللہ)‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ے؟ کہ نکو ی کہ‬ ‫ہ‬ ‫خ اس سے ب ڑی ای ذاء غرسا ی اور کبی اخ ہشنوسک ی‬
‫ک‬ ‫ن‬
‫ہللا! فاے الب اورے والے می ں ا ی رحمت کی پ اہ می ں ر ھ ا۔(‪(۴۷‬‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫دوز ی ہ ی ں۔ اےن‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫نعلماء کرام ے ر قمای ا‬
‫ً‬ ‫ق‬
‫ٓاپ‬ ‫ت‬ ‫سے نب ہ ر ہ ی ں۔‬ ‫ت‬ ‫مام اہ نل زمی خ‬
‫ن‬ ‫ے کے لحاظ ئسے‬ ‫ے و بف ی ئل‬ ‫ے سب اور کن ب‬
‫ت‬ ‫پ‬‫اکرمﷺ ح ی ت ا ا‬ ‫ض‬ ‫بن ی ف‬
‫سب واہنکت ا ہ قی ئعالی مر ب ہ‬ ‫ے ضکہ کو ی قاور سلسلہ ق‬ ‫ف‬ ‫کا سلسلہ سب نی لت اور کمال‬
‫کے اس مر ب ہ پر ا ز ہ‬
‫ے اور ب ی لہ ب فہ ری ن ب ا ل سے‬ ‫ے ہ یئٓاپ کی ب رادری‪ ،‬ا بل اال وام ہہ‬ ‫ہ و اس کی برابری ہخی نں کر فسکضت ا۔ ایس‬
‫ے۔ ش‬ ‫ے۔ ٓال اوالد ھی ٓاپ ی کی پ اکی زہ و یس ہ‬ ‫وادہ ن ی لت و بڑا ی واال ہ‬ ‫ٓاپ ہ ی کا اخ ت‬ ‫ے اور ت‬ ‫ہ‬
‫مﷺ اور ٓاپﷺ کے اغ ل ی ت کی حمب ت پر کرےشاور ہ مارا ح ر‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫مہ‬ ‫ا‬ ‫ارا‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫الی‬‫ٰ‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫ض‬
‫ے کرے اور ان ہ ی کے الموں کے زمرہ می ں ہ می ں امل‬ ‫فح ورئاور ٓاپﷺ کی ٓال کے پرچ م ل‬
‫رماے۔ ٓامی ن‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫حاصل کالم‬
‫ورﷺ کی والدت م ب ارکہتکا مہی ن ہ ہ وے کی‬ ‫ب‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ےح‬ ‫ے جس‬ ‫رکت مہی ن ہ ہت‬ ‫ص‬ ‫خ ماہ ر یشع االول توہ ب اب‬ ‫ن‬
‫کرمﷺ کو مام اہ ل ج ہان پر‬ ‫ن‬ ‫ے حب ی ب‬ ‫ے اپ‬ ‫عالی خ‬ ‫ے۔ ٰ‬ ‫رفف و ام ی از حا ل ہت‬ ‫سے صوصی ف ئ‬ ‫شسب ت ف ض‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫مام اولی ن و ٓا ری ن کا س ی د و سردار ب ای ا۔‬ ‫ن ض‬ ‫رف و ن ی قلت ع طا رما ی ضاور ٓاپﷺ کو‬
‫لے کی اس ل می ں ہ م ے ح ورﷺ کی والدت تب اسعادت سے ب ل وے والے‬
‫ہ‬ ‫ےم ا ق‬ ‫اپ‬ ‫خ‬
‫ے۔‬ ‫صہ‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫مان‬ ‫ا‬ ‫ارے‬
‫ئ‬ ‫م‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ذکرہ‬ ‫کا‬ ‫نﷺ‬ ‫ل‬
‫ی ل ی ن‬ ‫س‬ ‫مر‬ ‫دا‬ ‫س‬ ‫زات‬ ‫ج‬
‫ع‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫عات‬ ‫وا‬ ‫ن‬
‫عادات‬ ‫ن‬ ‫وارق‬
‫ح ہ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫نی ہ‬
‫ے حد و ح ضساب احسا اتثو ا عامات رماے اور ان وازشناتناور‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫کائ ن نات ا سا ی پر ہللا رب العزت‬
‫ے‬ ‫رب العزت ے خاپ‬ ‫ے۔ ہللا ت‬ ‫کی ب ع ت ہ ق‬ ‫وب ح تورﷺ خ ق‬ ‫ے حمب ض‬ ‫سب سے ب ڑی عمت اپف‬ ‫مہرب ا ی وں می ں ن‬
‫ب عالم ارج‬ ‫ورﷺ کی نت اس و تت وچ کی ھی ج ف‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ے پ ی دا رمای ا۔ ح‬ ‫ہ‬
‫سے پ ل‬ ‫وبﷺ تکا ور سب‬ ‫حمب ئ‬
‫ی‬
‫اور ا ھی امرکن کون کا‬ ‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ب‬ ‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ھی ت ہی ں ک ی ا تگ ی ا ھان‬ ‫ات خستت و ود کو ا ھی یل ق‬ ‫ناور اس کا‬ ‫کا کو ی و ود ہ ھا‬
‫ایسا وجت ود ہ و‬ ‫الی ے چ اہ نا کہ کو ی ن‬ ‫ھی۔ ب ہللا ع ٰ ن‬ ‫نہ ن ق‬ ‫اج راء ب ھی ن ہ ہ وے ا ا ت ھا۔ وہ ت نہا الق ھا کو ی مخ لوق ن‬
‫ے۔ سو اس ے اپ ن‬ ‫ن‬ ‫پی‬
‫اس کی‬ ‫ور‬ ‫ہی‬ ‫ن‬ ‫اس ور ہ ی کو بن ای ا۔ ی‬ ‫ن‬ ‫اول‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ا‬ ‫اس‬
‫ت ع نب‬ ‫ک‬ ‫و‬ ‫ہر‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫سن‬
‫ت‬ ‫سرمدی ح‬ ‫ج و اس کے ش‬
‫خ‬ ‫ِ‬
‫اس ور سے دو نوں ج ہا وں کو یل ق‬ ‫عزت ے ن‬ ‫مرکز و محور ب ا۔ پ نھر نہللا رب ال ئ‬ ‫وحدہ ال ری ک کی وج ہ کا م ق‬ ‫ذات ن‬
‫ے کہ اس ور سرمدی کا ام دمحمﷺ‬ ‫ے والے ج ان گ‬ ‫ک ی ا اور اس ور کو عالم ارواح می ں ن ل کردی ا اور ج ا‬
‫ؑ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫نکے‬ ‫ے ج بنکہ ت خٓادم روح اور ج سم‬ ‫کہ ح نورﷺ ت ب سے ب ی ض ھ‬ ‫ض ہ ؑ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫سے‬‫ت‬ ‫ارکہ‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ی‬‫احاد‬ ‫ت‬
‫رب ذوالج الل کے ح ور اپ ی یل ق مکمل ہ وے کے‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ب ح رت ٓادم پا‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫اس ضوج ہ سے ؑو‬ ‫ے۔ ت‬ ‫درم ی ان ھئ‬
‫ے زمی ن پر ج ب‬ ‫اسی لی‬ ‫ھا۔‬ ‫ک‬ ‫ے تٓاپﷺ کا ام امی ضعرش معلی پر لکھا دی‬ ‫ئ‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ف‬ ‫ب نعد پ یخش ہ و‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫وب ربقکا ات ح رت دمحمﷺ‬
‫ص‬ ‫ش‬ ‫اپ ی طا کی معا ی کے طلب گار ہ وے و رب کا ات کے ح ور حمب‬
‫وا۔‬ ‫اس دعا کو رف ب ولیضت حا ؑل ہن‬ ‫ہ‬ ‫کے وتس ی ل‬ ‫کے وس ی ل‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ے کی جوج ہ ضسے ی ہ ؑ‬ ‫ہ‬ ‫ے سے دعا کی اور ٓاپ‬
‫ہ‬
‫سی ے ھی ن‬
‫ب‬ ‫ے اور حسرت ٰ‬ ‫کی دعا نہ‬ ‫ے و ح رت اب را ی م ت‬ ‫ٓاپﷺ کی ذات م ب ارکہنی وہ سش ی ہ‬
‫ہ‬
‫عد م عوث و ا‬ ‫عوث ہ وے عکی ب فلارت دی۔ ٓاپﷺ کا مامہا ب ی اء و مر لی بن کے ب ن‬ ‫بٓاپﷺ کے مبخ ت ن‬
‫الکھ چ و یسس ہ جزار ا بض ی اء کا ؑ‬ ‫ت‬
‫ے انی ک‬ ‫ے۔ ٓاپﷺ سے پ ل‬
‫ہ‬ ‫ٓاپﷺ پر م ب وت شکی ا ٰلی د ی ضل ہ‬
‫ہ‬
‫بھی ہ ن ت‬
‫ے کہ ٓاپﷺت پر ب وت کا وہ لسلہ نو ح رت ٓادم‬ ‫عوث ن و ا مام ا ل ج ہان پر رف و ت ی لت ی ہ‬ ‫م ن‬
‫ٓاپﷺ کی ٓامد کے سا ھ ہ ی پ ای ہ کم ی ل کو پ ہ چ قا۔ اس ب ات‬ ‫ف‬ ‫ے ج اری ھا۔‬ ‫وں کی ہ دای ت کے لی‬ ‫سےلا ض‬‫سا‬
‫ے کہ اب می رے اور ی امت کے‬ ‫م‬ ‫کی د ی ل ئح ورﷺن کی حدی ئ‬
‫ے جس کا ہوم چک ھ اس طرح ہ‬ ‫ث م ب ارکہ ہ‬
‫درم ی ان کو ی اور دور ہی ں ٓاے گا۔‬
‫‪60‬‬
‫ف‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫دوم لک ئ‬ ‫صل ؐ‬
‫م ی الد الن ب ی پر ش تھی گ ی م تر م عربی ک ب می ں مذکور‬
‫ب عد از والدت م مالت کا ذکرہ‬

‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ئ‬


‫ے۔ اس پر ج و ن ی ر‬ ‫خ شکا ن ات ہ ست نو ب ود می ںظ ح ورﷺ سے نب ڑی تعمت الہٰ تی ہ کا صور ب ھی محال ہ ت‬
‫ے۔ زیر ظ ر‬ ‫ے سے ہ و ا ہ‬ ‫ب سی روش اریئ خ کےخ م طئال ع‬ ‫مقعمولی و شی اور سرور و ات ب ساط کا ا ہضار ک ی ا گ ی ا اس کا ا دازہ کف ض ئ‬
‫ص کےنحوالے سے‬ ‫ن‬ ‫ل و ما ل اور صا‬ ‫م الہ می ں امل عربی ک ب ب ھی ح ف ورﷺ کے م ی الد‪ ،‬ا ف‬
‫ب قہت اہ می ت کی حامل ہ ی ں۔ اس صل می ں ہ م والدت مصط یﷺ کے ب عد رو ما ہ وے والے‬
‫وا عات کا ذکر کری ں گے۔ ج ؒ‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫‪۱‬۔ مولد ا عروس از عالمہ ا ن وزی‬
‫ے کہن جس کی کو ی مث ل دن ی ا و ک ی ا‬ ‫ایسا‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫یﷺ‬ ‫ن‬ ‫لمصن ف ب انئکرت ب ان ے کہ حب ب مصط‬
‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ساری کائ ن‬
‫ٓاپ کے چہرے می ں نور‪ ،‬ر ساربمی ں گالبی ر ض گ اور ب الوں می ں س ی ناہ رات‬ ‫ن ش‬ ‫ں‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ات‬
‫ن‬ ‫ؐ‬
‫سب ب د ی‬ ‫ورﷺ خان ض‬ ‫ں یھ جتا گ ی ا اور ح ن‬ ‫ت‬ ‫ے۔ ٓاپ کو اف ب ری دہ اور ت ہ دہئحالت می بں اس د ی ا می‬ ‫ش‬ ‫ئ‬
‫ہ‬
‫حالت می ں پ ی دا ہ وے ج و عام چ وں کے سا ھ ہ و ی ہ ی ں اور ہللا ے ود ح ورﷺ کی‬ ‫سےشپ اک ن ئ‬ ‫ٓاال وں خ‬
‫والدت کی فو ی اں م ا ی ں۔‬
‫حاالت و ص ات فب عد تاز والدت‬
‫نں کہ‬ ‫نؓ‬
‫ئ ئ‬ ‫ئ ت‬ ‫س ی دہ ٓام ہ رما ی ہ ی‬
‫ے ہن وےتمعطر حالت‬ ‫ن‬ ‫ئ ل لگا‬ ‫ے ٓاپ کو سرمہ ڈالے ہ وے ی‬ ‫ں ت نہ ش‬‫’’می خ‬
‫ق‬ ‫کو‬ ‫ھوں‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫اور‬
‫ج نپ‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ی‬ ‫دہ‬
‫ئ‬
‫سج ک‬ ‫کو‬ ‫ل‬‫ئ‬‫عزوج‬ ‫ٹ‬‫ہللا‬ ‫دہ‪،‬‬ ‫ں‪،‬‬‫می ن‬
‫حالت می ں م ٹدی ا۔ ٓاپن کا چہرہ ا دس‬ ‫ے وے ؑ ن‬ ‫ہ‬ ‫نٓاسما وں کی طرفتا ھا ض‬
‫ور سے چ مک رہ ا ھا۔ ح رت ج بری ل ے ٓاپ کو ا ھای ا اور ج ت سے‬
‫‪61‬‬
‫ت‬ ‫ئ ئ یش‬
‫ے ر می کپ ڑے می ں پ ی ٹ ا اور ٓاپ کے سا ھ زمی ن کے‬ ‫ل‬ ‫الشے ہ و‬
‫غ‬
‫ارب کا طواف ک ی ا۔‘‘‬ ‫خ‬ ‫م ارق و مئ‬ ‫ض ن‬
‫ئ‬ ‫ٹ‬ ‫دا‬ ‫ے‬ ‫طا‬ ‫ع‬‫ن‬ ‫کو‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ح ور‬
‫ے کہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کہہ‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ٓا‬ ‫طرف‬ ‫ن‬ ‫ری‬ ‫م‬ ‫کڑا‬ ‫کا‬ ‫ادل‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ف‬
‫ے‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ہ‬ ‫یق‬ ‫ی‬ ‫ین ب‬ ‫ی‬
‫ے۔ می ں‬ ‫کی ک ج یوں پر ب ض نہ کرل ی ا ہ ف‬ ‫ن‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬ ‫ے ح اور یب‬ ‫ت‬ ‫یﷺ‬ ‫ف‬ ‫دمحم مصط‬ ‫ن‬
‫ش‬
‫ے ای ک ر ت ہ کو ٓاےدی کھا اور اس ےٓاپ کے کا وں می ں گ ت گو کی‬
‫ؑ‬ ‫ہ ق خ ت‬ ‫ش‬ ‫پ ھر ٓاپ کو ب وسہ دی ا اور کہا‪:‬‬
‫ٓاپ مام اوالد ٓادم‬ ‫ارت و کہ ی ی ن ا ت‬ ‫اے می رے حب ی بﷺ! ٓاپت کو ب ن‬
‫نا۔ اولی ن و‬ ‫کرد‬
‫نؓ ی‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫رسولوں‬ ‫ے‬ ‫سردار ہ ی عں۔ ٓاپ پر ہ ی ہللا ع ٰالی‬ ‫خکے ت‬
‫ام لم صرف ٓاپﷺ کو تی دی ا گ ی ا۔ تس ی دہ ٓام ہ ے کسی کو‬ ‫ہ‬ ‫ئم‬ ‫ٓا تری ن کا‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ی ن دن ک دروازہ مت ف ھولو‪،‬‬ ‫کےش لیت‬ ‫ے ہ و تے س ا کہ تاے ٓامن ہ! سی ف‬
‫ک‬ ‫کہ‬
‫ے ٓاپﷺ کی زی ارت سے ارغ‬ ‫ن‬ ‫وں ٓاسما وں کے ر‬ ‫ہاں ک کہ ساف ت‬
‫ےش تھرفکو سج ای ا اور‬ ‫گ‬ ‫ٓاپ رما ی ہ ی ں کہ می ں ے ٓاپﷺ کے فلی‬ ‫ت‬ ‫ہی و ائ ں۔ ؓ‬
‫ج ی‬
‫دروازے کو ب ن د کرل ی ا اور می ں دی کھ رہ ی ھی کہ ٓاپﷺ پر رے وج در‬ ‫ف ن‬
‫ب‬
‫ت ت‬ ‫ئ‬ ‫سخت‬ ‫ے ہ ی ں۔‘‘ ن‬ ‫وج پ نازل ورہ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫ے اور سی ھی حال‬ ‫ک‬ ‫دی م عرب ا ی روای ات کی پ اسداری ہای ت ی اور پ ا ی داری سے کرے ھ‬
‫ض‬ ‫ن ئ ب‬ ‫ت ت‬ ‫می ںنان سے من تہ ن‬
‫ک وزا ی دہ چ وں کو ر ن اعت اور پرورش‬ ‫ض‬ ‫سے اھی ف‬ ‫ک‬ ‫اتتمی ں‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ان روابی‬ ‫ے ی قار ہی ں ہ وکے ف ضھ‬ ‫موڑے کے لی‬
‫لی ت أوں اور صحت م د ماحول قمی ئں پ ترورش‬ ‫ان‬ ‫ھا۔‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫أوں‬ ‫لی‬ ‫ھ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ال‬‫ع‬ ‫دراز‬
‫ت‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ی خ ش ث تی یت‬ ‫ے دور ب‬ ‫کے لی‬
‫ن‬
‫ے کہ‬
‫ے۔ عرب اس ب ات کے ان ل ھ‬ ‫درست شاور وا ا ن‬ ‫ف‬ ‫اور وہ‬ ‫نر پڑ ا ب‬ ‫پ اے سے چ وں کی صحت پر و گوار ا‬
‫ت ں ج اک ی اور حوصلہ م ن دی پ ی د اہ و ی اور وہ ز دگی کی‬ ‫رورش پ اے سے چ وں یم‬ ‫ن ت‬ ‫اس طرح کے نماحول می ں پ‬ ‫ش‬
‫ت‬ ‫ں۔‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫حا‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ر‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫سے ب رد ٓازما ہ‬ ‫الت‬ ‫ک‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫م‬
‫ب رض اعت کا و ت ٓانی ا و ہللا ت‬
‫رب‬ ‫والدت ب احسعادت ؓکے نبت عد ج ف‬ ‫ض‬ ‫کی‬ ‫رحمتﷺ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫ن‬‫ح‬
‫ے ج تب ب و سعد کی عور وں کا‬ ‫نا۔ اسی لی‬ ‫ی‬‫رت لی مہ سعدی ہ کا ا خ اب رما‬ ‫ض‬ ‫ےح‬ ‫عادت ئکے بلی‬ ‫قالفعزت ے اس س ن‬
‫ل‬ ‫ص‬
‫ے ٓای ا و ِاذن ا ہٰی سے چک ھ‬ ‫ے حا ن ل کرے کے لی‬ ‫ن‬ ‫ئ چ وں کو ر اعت کے لی‬ ‫کرمہ می ں وزا ی دہ‬
‫پ‬ ‫ا لہ ج ب مکہ م ق‬
‫اس طرح کے وا عات یش ٓاے۔ ن کو اب ن ج وزی ے ا ی کت اب مولدالعروس می ں چک ھ اس طرح ب ی ان‬‫پ‬ ‫ج‬
‫ض‬ ‫ے۔‬
‫ح‬ ‫ک ی ضا ہ‬
‫ن‬ ‫ت ت‬ ‫ئ‬ ‫ح رت لی مہ اور ر اعت‬ ‫ؓ‬
‫ے والی‬ ‫ت‬ ‫ال‬
‫ئ‬ ‫دودھ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫تعادت ے کہ ج ب ان کے ہ اں کو یت ب‬ ‫ت عترب وں کی ی ہ‬
‫ل ہ پ ت‬ ‫چ ی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫ب‬
‫دودھ ہ پ ال ی ھی ج ب ٓاپﷺ پ ی دا وے و مام دودھ‬ ‫والدہ اس کو ن‬ ‫ے کی ت‬ ‫اس چ‬ ‫عورنوں کو الشتکرے اور ف‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫کہا‪:‬‬ ‫ے‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ر‬
‫ی ی ہ ی‬
‫ل‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫پ الے والی عور وں سے دری ا‬
‫لے گ ی کہ اس‬ ‫س‬
‫الٔوں گی کن کمت الہٰی ہ ب ت ئ‬ ‫ئ‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ح‬ ‫دودھ پ‬ ‫’’می ںن فاسے‬
‫ن‬
‫ح کری م ال فس تدر ت ی م کو لی مہ سعدی ہ کے سوا کو ی دودھ ہ پ الے‘‘۔‬ ‫ؓ‬ ‫ی‬
‫خ تن‬ ‫ئ‬ ‫س ی دہ لی مہ سعدی ؓہ رما ی ہ ی ں‪:‬‬
‫ت گی کا‬ ‫ہللاﷺ پ ی داہ ہ وے‪ ،‬اس نسال لوگ س ف ق‬ ‫ت‬ ‫رسول‬ ‫’’کہ تجس سال ق‬
‫ن‬ ‫ش‬
‫ت زیخادہ ب ر و‬ ‫ش‬ ‫ب‬‫س‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫کہ‬ ‫لوگوں‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫ھا‬ ‫سال‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫حط‬ ‫وہ‬ ‫ت‬
‫کہ‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫کار‬ ‫ت‬
‫ے۔ مینں ب و سعد کی عور وں کے سائ ھ ج وکہ ی ر قوار چ وں کی‬ ‫ں ھ‬ ‫ت ن گدس ی می ت‬
‫الشت می ں ھی ں‪،‬ناپ ی کمزور بگدھی پر سوار روان ہ ہ و ی ج و ای ک ت طرہ دودھ ن ہ‬ ‫یت‬
‫اعث مام رات ن ہ‬ ‫ب ب‬ ‫کے‬ ‫زاری‬ ‫ت‬‫و‬ ‫ٓاہ‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫چ‬ ‫کے‬ ‫و‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ا‬
‫ن پ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ھی‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫د‬
‫کرے‪،‬‬ ‫ے کوف سی ر‬ ‫رے چ‬ ‫ج‬
‫ئھ دودھ ہ پ ا تی و کہ م‬ ‫ن‬ ‫ے ست ا خوں می ں چک‬ ‫پ‬
‫ت‬ ‫نی ش‬ ‫ے اور اپ‬ ‫ہ‬
‫سو‬
‫ےو‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫رما‬
‫ئ‬ ‫رف‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫عالی‬‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫کو‬ ‫س‬
‫ت شج خ ب‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫کہ‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫تج‬
‫الش می ں چئ لی گ ت ی ں ل ی کن‬ ‫کی ت ق‬ ‫ت‬ ‫مام دودھ پ الے والی عور ی ں ی رنوار چ وں‬
‫می ں اور سات دوسری دودھ پ الے والی عور ی ں ب ا ی رہ گ ی ں و ہ م سے‬
‫ے اور کہا‪:‬‬ ‫ع ب دالم طلب مل‬

‫‪62‬‬
‫ب‬ ‫ت ت‬
‫ے کے‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫ے‪ٓ ،‬أو اکہ م اسے د ھو‪ ،‬کون اس چ‬ ‫ب‬
‫’’می رے پ اس ای ک چ ہ ہ‬
‫ے اور وہ‬ ‫ے می ںصہ‬ ‫حص‬
‫سے حا ل کرلے‘‘۔(‪(۴۹‬‬ ‫ح اؓ ک ت‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫س ی دہ لی مہ ہہ ہ ی‬
‫ی‬
‫ہ‬
‫رت ع ب نداشم لب کے سا ھ ی ں اور ج ب م ے ٓاپ کو‬ ‫گ‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫’’ متسب ح ن‬
‫سے دودھ پ الٔوں گی اور وہ‬ ‫دی کھا و ہ ر ای ک ے ہت ا روعنکردی ا کہ می ں ا ت‬ ‫ک‬
‫ن‬
‫سے م ہ پ ھتی ر تل ی ا۔‬ ‫وں‬
‫ے ان قسب عور ن‬ ‫ٓاپ کی طرف ب ڑھی ں و ٓاپ ت‬
‫ب‬
‫ے د ھا و نسم‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫ن و ت ٓاپنے ھ‬ ‫ئب ڑھی و جس‬ ‫فمی ں ٓاپ کی طرف ٓاگے‬
‫ں ے ٓاپ کو اپ ی گود میلں رکھا اور اپ ا‬ ‫ین‬ ‫م‬ ‫ے۔‬ ‫رمای ا اور می ری طرف ٓا ت‬
‫ی‬
‫ندودھ پ ی ا۔ کن ج ب می ں‬
‫ن‬
‫ئ اس سے‬ ‫ٓاپ ے‬
‫ہ‬ ‫ناں پئست ان ٓاپ کو تدی ا و ن ت‬ ‫دای‬
‫ٓاپ کے‬ ‫ے م ہ پ ھی ر ل ی ا کہ غ‬ ‫ے وے ٓاپ ت‬ ‫ے ب ای اں ست ان دی ا و ی ہ ج ا‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫تور بت‬ ‫ے۔ ٓاپ کے سانھ می ری حمب ت‬ ‫نہ‬ ‫سا ھ کو ئی اور ب ھی حصہ دار‬
‫زی ادہ ہ وگ ی‪ ،‬جنب فمی ں ے ٓاپ کو لے کر ج اے کا ارادہ ک ی ا و‬
‫لط‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع ب دا یم لب ے رمای نا‪:‬ت ق‬
‫ے ہ ی ں و می ں ے عرض کی‪ :‬ش‬ ‫اور توالد ا النکرخچ کن‬ ‫ےی ئ‬ ‫’’ی ہ ت ی م ہ‬
‫ے اوئ د حارث قسے اس ب ارے می تں نم ورہ‬ ‫ے ناکہ می ں اپ‬ ‫خ‬ ‫’’ذرا مہلت دنج‬
‫ے او د کے پ اس گ ی اور سارا صہ ان کو ب ی ان ک ی ا و ا ہوں‬ ‫کرلوں۔ می ں اپ‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ے کہا‪ :‬ت‬ ‫ے ھ‬‫م‬
‫ب‬
‫ے‬ ‫ے کے ب اعث ہ مارے لی‬ ‫ے کہ وہ اسی چ‬ ‫ی ہ‬ ‫د‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ئ‬ ‫ہللا‬ ‫’’لے ف‬
‫ٓأو۔‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب رکت ع طا رماے گا‘‘۔ئ‬
‫ن پ ست ان کی تطرف‬ ‫طرف واپنس گ ی اور لے کر اپ ی گود می ں رکھا و تٓاپ می رے‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ﷺ کی‬ ‫می ں ٓاپئ ت‬ ‫ئ‬
‫ے گدھی کو نٓاگے ک ی ا ج ب کہ س ر دودھ پئالے والی‬ ‫ت‬ ‫ص ح ہ و ی و می رے او د ے می رے لی‬
‫عور وں کین‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ج‬
‫ے۔ ج ب ب‬ ‫ٓاگ‬
‫ے‬ ‫ٓاپﷺ کو اپ‬ ‫ں اس پر سوار و ی اور ن‬ ‫ادہ کمزور تمی ری گدھی ھی‪،‬سوق ہی میل ن‬ ‫سے زی ئ‬ ‫سبو چ وب ن‬ ‫گدھی نوں می ں سے‬
‫ے لگی۔ اس سے لوگوں ے جع ب ک ی ا‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫خھ‬ ‫گد‬ ‫مام‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫د‬ ‫ف‬
‫اق‬ ‫چ‬ ‫گدھی‬ ‫نکہ‬ ‫ے رکھا‬ ‫سام‬
‫یﷺ کے ب اعث و ی محسوس کی۔‬ ‫ف‬ ‫مصط‬ ‫اور می نں ے دمحم‬
‫ت‬ ‫گ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ض‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫گو‬ ‫لی‬ ‫کی‬ ‫مﷺ‬ ‫ح ور ب ی کری‬
‫ب ٓاپﷺ دو سال کی عمر کے ہ وے ومی ں ے پ ہلی ب ات ٓاپﷺ سے س ی کہ وہ‬ ‫ش ف جت‬
‫ث‬ ‫ار اد رماے ہ ی ں‪:‬‬
‫(‬‫‪۵۰‬‬ ‫(‬
‫ف‬ ‫ال۔‬‫ت‬ ‫ی‬ ‫واص‬ ‫کرۃ‬ ‫ب‬ ‫ہللا‬ ‫حان‬ ‫س‬
‫ی ب‬ ‫و‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫لہ‬ ‫ل‬ ‫حمد‬ ‫ہللا ب ب ی ل‬
‫وا‬ ‫را‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫اک‬
‫ش‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫ے ہت ی عر ی ں اور وہ ب ح و ام‬ ‫ے‪ ،‬ہللا کے لی‬ ‫’’ہللا ب ہت ب ڑا ہ‬
‫ے‘‘۔‬ ‫بس حان ہ‬ ‫ش‬
‫ئ‬ ‫ی ت‬ ‫ً‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫صدر‬ ‫ق‬
‫ے کہ م نعا می ں د کھ قی ہ شوں کہ ئ‬ ‫ض‬
‫ٓاپ کا ب ھا ی‬ ‫ے ھت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ِ شح رت حلی ؓمہ کہ ی ہ ی ں کہ ای ک دن ب کری اں چ را ر‬
‫اے امی! اور اے اب و! کہہ کر پکارے لگا کہ م دو وں ہ مارے ری ی ب ھا ی کی مدد کو‬ ‫ے اورن‬ ‫پاز نحد پ نری ان ہ‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ٓاپ نکے پتی ٹ کو چ اک نکردی ا ہ‬ ‫ے پ کڑ کر‬ ‫ت‬ ‫ہچ و یک و کہ ضدو ٓادمی حوں‬
‫ے و ٓاپ کے ر گ کو ب دال ہ وا پ ای ا و می ں ے ٓاپ کو کہا اے ل ت‬ ‫نل‬ ‫کہ م ک‬ ‫ہ‬ ‫ح رت تلی مہ ہ تی ہ ی ں ف‬‫ک‬ ‫ؓ‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ل‬
‫ج گر! ٓاپ کے سا ھ ک ی ا ہ وا و ٓاپ رماے فگ‬
‫م‬
‫ے کا نط ت‬ ‫ندو ٓادمی س ی د ل ب اس می ں لب وس‪ ،‬ب رف سے ب نھرا ہ وا سو ن خ‬ ‫رے پ اس‬ ‫ئ می ن‬ ‫ئوالدہ!‬ ‫ٹ ئ اے‬
‫ا نھاے ہ وے ٓاے۔ ا ہوں ے می رے پ ی ٹ کو چ اک ک ی ا اور اس سے س ی اہ ر گ کا مج مد ون کاال اور‬
‫ن ن‬ ‫ش‬ ‫پ ھی ک کر کہا‪:‬‬
‫ے پ ھر ا ہوں نے‬ ‫ق‬
‫طان کا حصہ ہ‬ ‫’’ی ا حب ی ب ہللا! ی ہ ٓاپﷺ می ں ی ن‬
‫ے سینسم کا درد ٹمح نسوس ہی نں‬ ‫ک‬ ‫رف سے ندھوی ا اور می ںئ ت‬ ‫دل کو بن‬ ‫می رے ن‬
‫پ‬
‫ک ی ا۔ پ ھر ا ہوں ے دل پر ور کی مہر لگا ی و می ں ے مہر کی ھ ڈک کو ا ی‬
‫پس یل وں کے درم ی ان محسوس ک ی ا‘‘۔‬

‫‪63‬‬
‫ئ ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ض‬
‫اس ٓاے و‬ ‫کے پ ن‬ ‫والدہ مح رمہ ن ت‬ ‫نکی ئ‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ٹ‬ ‫ٓاپﷺ کے سا ھ‬ ‫حنرت نحلی ؓمہ کہ ی ہ ی ں کہ ہ م ت ن‬
‫وں‬
‫ش‬ ‫ٓاپﷺ کو لو اے ٓاے ہ و حاال کہ مندو‬ ‫ق‬ ‫وں‬‫کس وج ہ سے ن م دون‬ ‫س ی دہ ٓامن ہ ے دو توں کو کہا کہ ت‬
‫ؓ‬
‫ے۔ ان دو وں ے ج و چک ھ وا ع ہ وا س ی دہ ٓامن ہ کو ب ت ای ا س ی دہ ٓامن ہ ے ار اد‬ ‫فٓاپﷺ کے م علق حری ص ھ‬
‫ب‬ ‫س‬ ‫لش‬ ‫ش‬ ‫ست غ ف ت‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫رمای ا‪:‬‬
‫نالت ا ش ون ما علیفہ من ال ن ی طان ک ضال فوہللا ما ل ی طان علی ہ من ی ل وان‬
‫ت‬ ‫ک وال ر ی۔(‪ (۵۱‬خ‬ ‫ال بت ی ھذا ل ا ا عظ ی ما دعیتہعع ش‬
‫طان کی وج ہ سے وف کھاے ہ خ و۔ وہللا!‬ ‫ٓاپﷺ کے م لق ی ئ ن‬ ‫ش‬ ‫’’ م‬
‫ے اور می رے اس ل ت ج گر‬ ‫طان کی ہ رگز رسا ی ہی ں ہ‬ ‫ک عظی ی م ش‬ ‫ٓاپﷺ پر‬
‫ے۔ اچ ھا اسے چ ھوڑ ج أو اور لوٹ ج أو‘‘۔‬ ‫ہ‬ ‫ان‬ ‫ے ای ن ت ق‬ ‫کے لی‬ ‫ت‬
‫والدہ مح رمہ اور دادا ج ان کا ا ال‬
‫ٓاپﷺپر اور ٓاپﷺ کی ٓال اور ہ ر پ یروکار پر رحمت و‬ ‫اے نہللا! ف‬
‫سالم ازل رما۔‘‘‬ ‫ف‬
‫یﷺ‬ ‫خحلی ئہ مصط ف‬
‫ن‬ ‫صا ص مصط‬
‫یﷺ ن‬ ‫ن‬ ‫ث‬
‫ن ف‬ ‫ن‬ ‫ے پر ا ؓ عام رب ا ی‬ ‫سے درود پڑھ‬ ‫ک رت ض‬
‫ے کہ ب ی کریتمﷺ ے رمای ا‪:‬‬ ‫ح رت اب ن ع ب اسیسسے روای ت ہ‬
‫احد لم ئعلی اال رد ہللا عبلی روحی ح ت ی اردت علی ہ السالم۔ (‪ (۵۵‬ٹ‬ ‫ب‬
‫مامن‬
‫عالی می ری روح واپس لو ا‬ ‫ے و ہللا ٰ‬ ‫’’ج ب ھی کو ی جم ھ پر الم یھج ت ا ہ‬
‫س‬
‫ے۔ ی ہاں ت ک کہ می ں باس کے سالم کا ج واب دی ت ا ہ وں۔‘‘‬ ‫دی ت ا شہ‬
‫ت ت‬ ‫ھ‬ ‫ص‬
‫لہذا ٓاپﷺ پر لوۃ وت سالم ی جو۔‬ ‫خ‬
‫عالی اس پتر دس مرت ب ہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ھے‬ ‫ڑ‬ ‫ک مر ب ہ درود پن پ‬
‫اک‬ ‫’’ج و نص جم ھفپر ایئ ٰ‬
‫عالی اس پر‬ ‫دس مر ب ہ تدرود پڑھاشہللا ٰ‬ ‫ئجس ے ن‬ ‫رحمت ازل نرماےف گا اور‬ ‫ت‬
‫ڑھا اس‬ ‫ت‬ ‫نیف پ‬ ‫ئمر ب ہ درود ر‬ ‫ے سو‬ ‫سو مر تب ہ رحمت ازل ترماے گا۔ جنس ف‬
‫رحمت ازل رماے گا‪ ،‬جس ے ہ زار مر ب ہ‬ ‫پر ہللاش ع ٰالی ای ک ہ زار تمر ب ہ ن‬
‫درود ریف پڑھا‪ ،‬ہللا ع ٰالی ے اس کے ب الوں اور ب دن پر گٓا حرام‬
‫کردی‘‘۔ ن‬ ‫ق ن‬ ‫ن‬
‫ں‬
‫نی ف‬ ‫مﷺ ب ر ا ور می ں ز دہ ہ‬ ‫ب ی کری ض ن‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫ح ور ب ی کری مﷺ ے رمای ا‪:‬‬
‫ص‬
‫ومن لی ہللا ع را فلی ہللا علی ہ‬ ‫ص‬ ‫ص‬ ‫ص ع‬
‫ع‬ ‫ص‬ ‫من لی لیصواحدۃع لیئہللاصعلی ہ ع عرا ف‬ ‫مائ‬
‫ومن لین لی نما ۃ لی ہللا لی ہ ال ا ومن لی لی ال ا حرم ہللا‬ ‫مرۃ‬ ‫ۃ‬
‫ن‬ ‫‪(۵۶‬‬‫ن‬ ‫جسدہ علی ال ن ار ای ار ج ثہ م ای ج علہ حراماش علیہا۔ (‬ ‫ت‬
‫ےق واال نت می ں‬ ‫ج‬ ‫درود ریف پپڑنھ‬ ‫ن ف‬ ‫ث’’ م می ں سے جم ھ پر ک رت سے‬
‫ہ‬
‫ٓاپﷺ ےن رمای ا‪ :‬می ں ا ی ب ر می ں ز دہ وں‪ ،‬جس‬ ‫ب‬ ‫نراالزواج ہ وگ شا۔‬ ‫کی‬
‫ے رحمت کی دعا کی اور‬ ‫نے اس کے لی‬ ‫ف یھ ج ا می ں‬ ‫ب‬ ‫نھ پر درود ری‬ ‫ے جم‬
‫ج‬ ‫س‬
‫جس ے جم ھ پر الم یھ ج ا میبں ے اس کے الم کا واب دی ا۔ لہذا‬ ‫س‬
‫ٓاپﷺ پشر صلوۃ و سالم یھ ج و‘‘۔ م ؒ‬
‫خ‬ ‫ق‬ ‫اب الدیئن احمد ب ن حج رن کی‬ ‫یﷺ ظاز عالمہ ہش ٰ‬
‫ل‬ ‫‪۲‬۔ مولد الن بت حق ق‬
‫وارق عادات‬ ‫سے پ ن‬ ‫ن‬‫ویﷺت کے و ت بم ؒہت‬ ‫والدت ب ض ن‬ ‫ش‬ ‫ی ہ نو ی ئت ا ہر منق ا مس ہ و ی کہ‬ ‫ق‬
‫ب‬
‫ٓاپﷺ کی ان کو وا ح کر ا ھا۔ اب ن حج ر کی ے ھی ا ی کت اب‬ ‫ق‬ ‫صد‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫رو‬ ‫عات‬ ‫وا‬
‫مولدا ن ب یﷺ می ں ب عد از والدت وا عات ب ی ان‬ ‫ل‬
‫ش‬ ‫ے کہ ن‬ ‫ےہی ںج یس‬ ‫ن یک‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫مﷺ کا سب ریف‬ ‫ب ی کری ب ئق‬
‫لبضب قن ہ ا م ب ن ع ب د م نن تاف بتن صی ب ن کالب ب ن ضمرہ ب ن‬ ‫ن‬ ‫ط‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫ن‬
‫غ ب عب ب عب‬ ‫دہللا‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫دمحم‬ ‫اسم‬ ‫ا وال‬
‫ے اور ب ہت سے ح رات‬ ‫ہ‬
‫کی ی ہاں ا ہا و ی ہ‬ ‫ت‬
‫الب ب فن ہر ب ہن مالک ب ن ر ن ریش ش‬ ‫عب ب ن قلو ی ب ن ن ت‬ ‫کن‬
‫ے۔‬ ‫ے‪ٓ ،‬اگے سب ریف ی ہ ہ‬ ‫ے کہا کہ ریش کی ا ہا ’’ ہر‘‘& پر و ی ہ‬
‫‪64‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫نن خ‬ ‫نض‬
‫ن‬
‫ر ب ن ک ا ہ ب نش زی مہ ب ن مدرکہ ب نت فال ی اس ب ن م ر ب ن زار ب ن معد ب ن شعد ان ی ہاں ک‬ ‫ن‬
‫گے خسب ن ریف نکے ب ارے می ں‬ ‫ے۔ اس سے ٓا غ‬ ‫اق ہ‬ ‫ٓاپﷺ کے سب ریف پر اج ماع و ا ت ن‬ ‫ق‬ ‫خ‬
‫ے ہی ں۔ لہذا نان می ں ورو نوض م اسب ہی ں۔‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫م لف ا وال ہ ی ں و ای ک دوسرے‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫سے ل‬ ‫وٓالہ وس‬ ‫ص‬
‫الی عد ان امسک‬ ‫ث‬ ‫سب‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫لغ‬ ‫ف ن‬‫ب‬ ‫اذا‬ ‫کان‬ ‫ا قن ہ لی ہللا نعلی ہ ق ت‬
‫لم‬
‫عالی نو رو ا ب یشن ذالک ک ی را۔ت(‪(۵۷‬‬
‫ت‬ ‫ون ال ٰ‬ ‫ال نکذب ا س ب اب‬ ‫و ض‬
‫ن‬
‫ے کرے ت‬ ‫سے خ‬ ‫ن ان کر‬ ‫مﷺت ج ب اپ ا سب ریف ب ی‬ ‫’’ح ن ور ب ی نتکری پ ہ ت‬
‫ن‬
‫نے‬ ‫اموش ہ وج ا‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫ا‬
‫ب ج ب کت‬ ‫ت‬ ‫گے‬ ‫ٓا‬ ‫عد‬ ‫کے‬ ‫ن‬‫اس‬ ‫و‬ ‫ے‬‫ت‘‘ ک چ‬ ‫’’ فعد ان‬
‫ے ہ ی ں۔ ہللا ع ٰالی ے‬ ‫لے ھوٹ ہ‬ ‫فاور رماے سب ب ی ان کرے وا ق‬
‫ے اس کے درم ی ان ب ہت رن (صدی اں) ہ ی ں‘‘۔‬ ‫رمای ا ہ‬
‫ق‬ ‫ئ‬ ‫تش‬ ‫ن گھ ن‬ ‫والدت کے ب عد سج دہ ک ی ا ت‬
‫ے۔ اس و ت ٓاپ‬ ‫نیف ال ئ‬ ‫ے ٹ وں کے ب ل ب اہ ر ر‬ ‫ٹ‬ ‫پ‬‫ٓاپﷺ ا‬ ‫ٹ‬ ‫ے کہ ن‬ ‫ای ک روای ت می ںتٓا ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ے پضھر ٓاپ ے م ی کی خھی ب ھری اور سج دہ کرے ج ھک گ‬ ‫م‬ ‫ے ھ‬ ‫ٓاسمان کی طرفمدی کھ رنہ‬
‫ے کہ‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫ب‬
‫ےن ھی ح رت ع ب دا م لب کے واب کو ب ی ان ک ی ا ہ‬ ‫ک‬ ‫اب ن حج ر کی‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫اب‬ ‫ھ ؓ سب‬ ‫ا‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫دمحمﷺ‬ ‫ض‬ ‫اسم گرامی‬
‫ے جس کی ای ک‬ ‫ت‬
‫ح رت ع ب دا م لب ے د کھا کہ گوی ا سوے کی ز ج یر انش کی پ ت سے غکالی گ ی ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ط‬ ‫ل‬
‫س‬ ‫پ‬
‫رب می ں غھی وہ ھر کڑ‬ ‫طرف م رق اور ای ک تم ش‬ ‫طرف زمی ن پر ھی ای کن ت‬ ‫طرف ٓاسمان می خں اور دوسری ئ‬ ‫ئ‬
‫ت کی مان ن د ہ وگ خی جس کے ہ تر پ ت ہ پرئ’’ ئور‘‘ تھا اور پ ھر شدی کھا کہ مام م رق و م رب والے‬ ‫گ ی اور ای چکٹ در ئ‬
‫ے ہ وغے ہ ی ں۔ اس واب کی ی ہ عب یر ب ت ا ی گ ی کہ مہاری پ ت نسے ای ک ب چ ہ پ ی دا ہ وگا جس کی‬ ‫سے م‬ ‫اس ش‬
‫نم رب سب ھی کری ں گے اور زمی ن و ٓاسمان والے اس کی ’’حمد و عت‘‘& کہی ں گے۔ اس وج ہ‬ ‫ات ب اع نم رق و‬
‫ٓاپﷺ کا اسم گرامی ’’دمحم‘‘ رکھا۔‬ ‫ن‬ ‫ہوں ے‬ ‫ح‬ ‫سے ا‬‫ض‬
‫ض‬ ‫ض‬ ‫ؒ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫رورش‬
‫ن‬ ‫ؒ‬ ‫پ‬ ‫کا‬ ‫مہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫رت‬ ‫ح‬
‫ے حاصل‬ ‫ن حج ر مکی ے ب ھی اب ن ج وزی کی طرح ح رت حلی ؓمہ کا ح ورﷺ کو رض اعت کے لی‬ ‫ب ق‬ ‫ا‬ ‫ن‬
‫ن ف‬ ‫ئ ن خ‬ ‫ے۔‬ ‫کرے کا وا عہ ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ن ترما نی ا۔‬ ‫ے وب سی ر ہ وکر وش‬ ‫کے ب ھا ی ت‬ ‫ٓاپﷺ ن ن‬
‫نس سے‬ ‫دودھؓ دی ا ج‬ ‫ےا ا‬ ‫اس ض‬ ‫ئ‬
‫تادھر ان خکی او خ ٹ ی کو دوہ ا گ ی ائ و اس رات ت‬
‫ے‬ ‫لی ن‬ ‫مہ‬ ‫ح‬ ‫رت‬ ‫ص حہ و ی ن‬
‫و‬ ‫ے ج ب خب‬ ‫مام اہ ل ان ہ وب سی ر ہ و‬
‫ح‬ ‫گ‬
‫ٓاپﷺ کی والدہ ماج دہ کو ب الی ا اور ر صت ما گی۔ س ی دہ ٓامن ؓہ ے ٓاپ کو‬
‫ن ئ قالوداع کہاگف‘‘۔ ن‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ق‬ ‫کر‬ ‫گو‬ ‫او ٹ نی می ں ی طا ت اور ت‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫سے ا ت ر ک‬ ‫ٹ‬ ‫تت‬ ‫ض قح ؓ پ ن‬
‫ے‬ ‫چ لن‬‫ن‬ ‫گے‬ ‫ٓا‬ ‫سے‬ ‫ن‬‫سب‬ ‫ت‬‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫او‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ہ‬
‫ب ی تب ٹ‬ ‫کہ‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫وم‬ ‫ی‬ ‫نج ب ح رت لی مہ ا‬
‫نکہ غ ھ ی و ا ھ ن ہ سک ی ن ھی۔ تعور وں ے کہا‪ :‬ی ہ او ٹ ی وہ‬ ‫حالت ی ہ ھی‬ ‫ن‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ت‬ ‫نلگی‪ ،‬حاالت کہ اس سے ب ل‬
‫ک‬
‫اور پ تہچ ا ا کہ ی ہ ون ب نال ل وہ ی پہل‬ ‫ھی‪ ،‬ج شب ا ہوں خے ضور سےح دی کھا‬ ‫ے ق‬ ‫مہارےلپ اس پہل‬ ‫نہی نں ج و ت‬
‫ے والی ق‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ے وک‬
‫ےی ی ن ا‬ ‫ے ود ح رت نلی مہ ب نخشی ھی ں تکہ او ن ٹ ت ی ی ہ کہہ رہ ی ہ‬ ‫ان ہ‬ ‫م‬‫ج‬ ‫کی وا عین‬ ‫ے گی‪ :‬اس ت‬ ‫عہ‬ ‫او ٹ ی شہ‬
‫دگی ی کاش م ج ا ی ں کہ می رے اوپر کون‬ ‫خ‬ ‫ز‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫موت‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ے‬ ‫غ‬ ‫الی‬ ‫ع‬
‫ہ ج ت ٰپ‬ ‫ہللا‬ ‫ے۔‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ان‬ ‫ت شمی ری ف‬
‫ام مب روں سے ہ ر اور اولی ن و ٓا ری ن کے سردار ہ ی ں۔‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ضریف ح رما ہ ؓ ی ں۔ گوہ ہ ی ںت و م ن‬
‫ن‬ ‫خش‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫زول‬‫ن‬ ‫ح رت لی مہ کے تتھر ب رک پ نوں پکان‬
‫ہ‬
‫ج ب ی ہئعور ی ں ا لی ا ی م زلوں پر چ ی ضں و انحد وں زمی ن ک وچ کی ھی ( تکی و کہتکا ی عرصہ‬ ‫ہ‬
‫کے‬ ‫ان ت‬ ‫س ٓا ی تں و‬ ‫تکے ب اوج ود ح رت لی ؓمہ کی ب کریت ناں ج ب چ رکر واپ ق‬ ‫تسے ب ارش ن ہ ہ و ی ھی) یئکن اس‬
‫ے ہ وے اور دوسروں کی ب کریوں کے ھ وں می ں دودھ کا طرہ ک ن ہ ہ و ا‬ ‫دودھ سے ب ھرے ہ و ت‬ ‫ھن‬
‫ن‬
‫چ‬
‫حاال کہ ھی ای نک ی ج گہ ر ی ں۔ (‪(۵۹‬‬ ‫ہ‬ ‫ب‬‫س‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ب ادل کا سای ہ کر ا ن‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ے۔ ابتن حج ر ھی ہی ب ی ان‬ ‫ے کا عج زہ لمب د ک ی ا ہ ت‬ ‫ت ت‬ ‫وزی ے ھی ب ادل کے ٓاپ پر سای ہ کر‬ ‫ف ت اب ن ج ض‬
‫ے ج ب ٓاپ‬ ‫ٓاپ پر سایتہ کرے ھ‬ ‫ادل ت‬ ‫لے تکر ج اےب و ب ت‬ ‫ے ہتی ں کہ بح ورﷺ تج ب ب کریوں کو ت‬ ‫ٹ رما ت‬
‫ے و ب ادل ھی سا ھ سا ھ چ لت ا ھا۔‬ ‫ھہرے و ب ادل ھی رک ج ا ا اور ج ب ٓاپ چ ل‬
‫‪65‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫سے ب ا‬
‫ن‬ ‫چا د‬
‫ن‬ ‫پ‬
‫ے ناور اپ ی ا گلی‬ ‫ں ہ وے و چ ا ند سے ب ا ی تں ک ی ا کر ض‬ ‫ت‬
‫ھوڑے میٹ‬ ‫تمی تں گ ن‬ ‫ب ی کری مﷺ ج شب چ پ ن‬
‫ہ‬
‫سے ج ب اس کی طرف ا ارہ تکرے و ج دھر انلی فا ھ ی ادھر ی چ ا د پ لٹ ج ا ا ج ب ح ور ب ی کری مﷺ‬ ‫گ‬
‫ت‬ ‫ےن رمای ا‪:‬‬ ‫ٓاپﷺ ی ل‬ ‫ثن‬ ‫ں پوچ نھا گ ی ا و‬‫ارے می ن‬ ‫کو اس کے ب ق‬
‫ت‬ ‫س‬
‫ال ا ی ک ت احد ہ وی حد ی و ی ی عن الب کاء وا مع وج ب ہ حی ن سج د حت‬ ‫ہ‬ ‫ث‬
‫ت ت‬ ‫ت‬ ‫ت ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫العرش۔‬
‫ے‬‫’’مینں اس (چ ا تد) سے ب ا ی ں کر ا ھا اور وہ جتم ھ سے ب ا ی ں کر ا ھا‪ ،‬نوہ جم ھ‬
‫ے‬‫سے روکت ا ھا اور می ں اس کی ٓاواز سن ت ا ھا ج ب وہ عرش کےیچ‬ ‫ےت‬ ‫رو ت‬
‫سج دہ کر اگف ھا‘‘۔‬ ‫ن‬
‫پن‬ ‫ف ف ئ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫گو‬ ‫مﷺ کی پ ہلی ت‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫کے اب ت دا ی د وں می ں گ ت تگو رما ی۔نٓاپ کا گھوڑا‬ ‫والدت ب اسعادت ف ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫مﷺ‬ ‫ف ش ت ح ور ب ینکری‬
‫ئ ا ھا۔ س ی دہ حلی ؓمہ رما ی ہ ی ں کہ ج ب پ ہلی مر ب ہ می ں ے ٓاپﷺ‬ ‫حرکت کر‬ ‫ر وں کے تہ الے سےف ف‬
‫ے۔‬ ‫کا دودھ چ ھڑای ا و ٓاپ ی ہ ال اظ رما ث‬
‫ہللا اکب ر کب یرا والحمد للہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی ال۔ (‪(۶۰‬‬ ‫ض‬
‫ق‬ ‫نت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ح رت ٓامن ؓہ کا وصال‬
‫والدہ کا ا ال ہ وا‬ ‫ٓاپتکی ت‬ ‫ےو‬ ‫ادہ ک ہی‬ ‫عض ے زی ت‬ ‫ج ب ٓاپ کی عمر ریف ارت رس ہ و ی ب‬
‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫چ ب‬ ‫ن‬
‫ف لے گ تی ھی ںک تاکہتٓاپﷺ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ئ‬‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫اس‬ ‫ورہ‬ ‫م‬‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫مد‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ج ب وہ مدی ضن ہ م ورہ سے واپ ؓس ٓارہ ی‬
‫ے۔ راست ہ می ں‬ ‫ع‬
‫ےف ھ‬ ‫سے مال ات ہ وج اے ج و ب و ج ار سے ل نق ر ھ‬ ‫ن‬ ‫کے ماموں‬ ‫رت ع ب دالتم طلب ف‬ ‫کے دادا ح ت‬
‫نں ا ہی ں د ن تکردی ا گ ی ا۔‬ ‫گأوں ’’اب واء‘‘ یم‬ ‫ج ب ان کا ان ق ال ہ وا و وہ ی ں ’’ رع‘‘ کے ئزدی ک ای ک ئ‬
‫ٓاپﷺ کو وہ اں سے ’’ام ای من‘‘ واپس ال ی ں ج و ٓاپ کی دا ی‪ ،‬دودھ پ الے والی ماں اور رب ی ت‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ں۔‬
‫ہی ت‬ ‫والی‬ ‫ے‬ ‫کر‬
‫نمن‘‘ ٓاپ کےتوالد کی می راث ھی ں ی ا ٓاپﷺ کی والدہ کی‬ ‫ی‬‫کہ ’’ام ا‬ ‫ے‬ ‫بت ی ان ک ی ا ج ا ا ضہ‬
‫ب‬ ‫ؓ‬ ‫خ‬
‫ے کہ ٓاپ کی والدہ‬ ‫رت دی ج ہ ے ٓاپ کو ہ ب ہ کی ھی ں ہاور ی ہی ت ھی ب ی ان ک ی ا گ ی ا ہ‬ ‫می راث ھی ں۔ یف ا ح ئ‬
‫ون‘‘ می ںشمد ون ہ بو ی ں اسن نکی ب ہت سی روای ات گوا ی د ی ہ ی ں۔‬ ‫’’ ف‬ ‫جح‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫پ‬
‫پ ہال ر لک بام اورنحی را کا ہچ ا ا‬ ‫م‬ ‫س‬
‫نحی را ے ج و کرامات دی کھی ں‪ ،‬ان فمی ں ای ک ی ہ ب ھی ھی کہ ای ک سخ ی د‬
‫اور ج ب ٓاپ ای ک بدر ت‬ ‫ٓاپﷺپر سای ہ ٹگن رہ ت ان‬ ‫ئت‬ ‫گ کات بشادل‬ ‫ر ن‬
‫ٓاداب ج ا الی ا۔‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ج‬
‫ے و اس کی ن ی وں ے ھک کر‬ ‫ہ‬ ‫ف لے گ‬ ‫ے رضی ن‬ ‫کےیچ‬
‫ئٓاپ‬ ‫رس کی ہ و ی و‬ ‫مﷺ کی عمر م ب غارک ب یس ب شت‬ ‫ت‬ ‫پ ھر ج ب تح ورشب ی کری‬
‫نے اس‬ ‫ارت کی ت رضب سے نریف ال‬ ‫طرف ج‬ ‫قدوسری مر ب ہ ام تکی ض‬
‫ے۔ حی رہ کو ا ہوں ے پوچ ھا کہ‬ ‫ت ٓاپ کے سا ھ ح رت اب وبن ؓکر ب ھی ھ‬ ‫وض ن‬
‫ے لگا‪:‬‬ ‫ک‬
‫مﷺ کون ہ ی ں؟ ہ‬ ‫ؓ ن‬ ‫ق‬
‫ح ور ب ی کری‬
‫’’ہللا کی سم! ٓاپ ب ی ہ ی ں‘‘۔‬ ‫ظ‬
‫ت‬ ‫ح‬
‫ب عد می ں ن ہور کی کمت ظ‬
‫ح‬
‫ناس می ں ن کمت ی ہت ھی‬ ‫ک‬
‫ات می ں شسب سے ب عد می ں ر ھا گ ی ا۔‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ب ی کری مﷺ کا ہورئ سی اس کا ف‬ ‫ح‬
‫لے ب ی ں‪ ،‬ان مام‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ق‬‫مکم‬ ‫کے‬ ‫االت‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫دہ‬ ‫وت‬ ‫کے مست درک ہ وج ا ی ں اور ان کے‬ ‫ٓاپ ان ف ض ئ‬ ‫کہ‬
‫ت‬ ‫م‬‫ج‬
‫ے‪:‬‬ ‫عالی کا ول داللت کر ا ہ‬ ‫وں۔ یسا کہ اس پر ہللا ٰ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫کے موعی ا ل وق زی ادات کے ج امع‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫(ال رٓان‪(۹۰ :۶‬‬
‫اء کرام می ں سے ہ ر ای ک جئو کماالت‪،‬‬ ‫ے کہ ح رات ا ب ی ق‬ ‫داللت کر ی ہ‬ ‫ئ‬ ‫ی ہ ٓای ت کری مہ خاس ب ات پر‬
‫ض‬ ‫گ‬ ‫ئ‬
‫سب ان سے زی ادہ م فدار می ں تٓاپ کو ع طا کی ی ں اور‬ ‫خمعج زات‪،‬فہ ضدای ات اور صوص ی ات ع طا وک ی ں وہ ش ض‬
‫ف‬ ‫ہ‬
‫ٓا ری ن کی ی لت کے برابر ی ا اس سے ہی ں زی ادہ ی لت خٓاپ کو ع طا رما تی اکہ ٓاپ کا ج خالل وا ح ہ و اور‬
‫تہ ی ں اور اگر ی ہ مام اوصاف و صوظص ی ات و‬
‫حم‬
‫کے د من اور ب د واہ‬ ‫کے دل ج لی ں ج و ٓاپ خ‬ ‫اس سے ان لوگوںت‬
‫کے دوران اہ ر‬ ‫ئ‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫ٓاپ‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬
‫ق‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫عادت‬ ‫وارق‬ ‫و‬ ‫کماالت‬ ‫ی‬
‫ن ئ‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫صرف‬ ‫ے‬ ‫معجئزات ن ہ ب ھی ہ و ق‬
‫یک ن‬
‫ے می ں ٓاے اور ٓاپ کی‬ ‫ہ وے‪ ،‬اس سے چک ھ ب ل رو ما ہ وے اور والدت ب اسعادت کے و ت د ھ‬
‫‪66‬‬
‫ف‬ ‫ئ ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ی‬
‫ے اور ٓاپ کی رب ی ت کی ز دگی می ں م ظ ر عام پر ٓاے و ہی کا ی‬ ‫ترض اعت کے زمان ہ می ں لوگوں ے د ھ‬
‫ک‬ ‫ی‬
‫خ ق‬ ‫ق ت‬ ‫ئ فق‬ ‫خ‬ ‫ے۔ ض ن‬ ‫ھ‬
‫م‬
‫کے سردار‪ ،‬مال کہ ضرب ی نقکے ٓا ا‪ ،‬مام لو ش فات کےع ٰ‬
‫مولی اور‬ ‫م‬ ‫ح ور ب ی کری مﷺ اولی ن و تٓا ری ن ت‬
‫عالی کی مام مخ لوق سے ا ل‪ ،‬ی امت کے دن اعت ظ ٰمی‬ ‫رب امخلعالمی ن کے حب ی ب ہ ی ں۔ ہللا ٰ‬
‫خ‬ ‫ق‬ ‫عق ن‬ ‫صوص ہ ی ں۔‬ ‫سے ض‬
‫ے ئمث الن‬ ‫ن‬ ‫ورﷺ ب ی ب کب ری ا ہ ی ں۔ ہ ماری ل ا ص‬ ‫ح‬
‫ٓاپﷺ کی د ی ا اور ٓا رت می قں ب ف‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫سجمح ن‬ ‫ش‬
‫ٓاپﷺ کو عظ ی م م امخ پر ا ز کرے‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫الل‬ ‫لج‬ ‫ذوا‬
‫ف‬ ‫رب‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫سزا‬
‫ہ یت ت ی‬ ‫و‬ ‫زا‬ ‫ج‬ ‫وم‬ ‫ے۔‬ ‫اصر‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ان کو ف ھ‬
‫ے۔ ب ی کری قمﷺ کی صوص ی ات‬ ‫ان ا روز ذکر ملت ا ہ‬ ‫ب‬
‫ث کینک ب می ں ان کا ای م‬
‫پ‬
‫احادی ن‬ ‫م‬ ‫ے۔‬ ‫کا وعدہ رمای ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ح ہ‬ ‫صہ‬ ‫کا‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ارے‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫بی‬ ‫ھی‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ف‬ ‫نی‬‫ص‬ ‫اس‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫سے چک ھ اب ح‬
‫ن‬ ‫فمی ںت‬
‫ن رماے ہ ی ں۔ خ‬
‫ت‬ ‫ج ن‬ ‫ش‬ ‫مﷺ کینصوص ی ات‬ ‫ب ی کری ت‬
‫ے ٓاپ‬ ‫وں کے لی‬ ‫ہادت و ا ب ی ناء کرام کی ام ت‬ ‫ف‬ ‫ٓاپﷺ کی اور ٓاپ کی امت کی‬ ‫ے ن‬ ‫ہللا شع ٰالی‬
‫ےت‬ ‫ن ممت از رمای ا تاور ا ب ی اء کرام کی اتم وںپ نکے لیئ‬ ‫ہ‬ ‫غ‬ ‫ح‬
‫کی امت کی ہادت و ا ب ی اء کرام کے تق می پں وگی سے‬ ‫ج‬
‫ے‬‫ے ھ‬ ‫اد‬
‫ہچ ی‬ ‫ک‬ ‫ان‬
‫نن‬ ‫ام‬ ‫ک‬‫یش ح‬ ‫ا‬ ‫رے‬ ‫ہللا‬ ‫اے‬ ‫ے‬ ‫ٓاپﷺ کی امت ی ہ گواہ ی دے گیخکہ مامف ی مب روں‬
‫ت‪ ،‬امامت‬ ‫اور اس ب ات سے ب ھی ٓاپﷺ کو م صوص رمای ا گ ی ا کہ لواء الحمد‪ ،‬وس ی لہ ب ارت‪ ،‬قڈر س ا ا‪ ،‬فہ دای ئ‬
‫ے رحمت ٓاپ ہ ی ہ ی ں اور ی ہ ب ھی کہ ٓاپ کو ٓاپ کا پروردگار اس در ع طا رماے گا کہ‬ ‫اور عالمیضن کے ئلی‬
‫ن‬
‫ت ف‬ ‫ٓاپ را ی ہ وج ا ی ں گے۔ض‬
‫ت‬ ‫ار۔ ( ن‪(۶۲‬‬ ‫وہللا! ال ارق ی و واحد من قام یت ی ال ض‬
‫’’ہللا کیت سم! می ں اس و ت ک را ی ہی ں ہ وں گا ج ب ک می را‬
‫ن‬ ‫تق‬ ‫ن‬ ‫تای ک ام ی ب ھی دوزخ می ں ہ وگا۔‘‘ ج ن‬
‫ہم سے فکال تکر م قی اور ی ک لوگوں کے سرداروں‬ ‫کے امت ی وں کو خ‬ ‫پس ہللا عالی کے ٓاپﷺ ن‬
‫ت‬ ‫ٰ‬ ‫ئ ت‬
‫کے سا ھ مالدے گا۔ ٓاپﷺ کو ا مام عمت سے م صوص رمای ا مام ا سام کی امداد ٓاپ کے سپ رد‬ ‫ف‬
‫ت ن‬ ‫ئ‬ ‫ن خ‬ ‫خ‬ ‫رما ی۔‬
‫ن‬ ‫ے‬ ‫الی‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫صا‬ ‫ت‬ ‫ان‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫الوہ‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫کے‬
‫ی ن ش‬ ‫ات‬ ‫ص‬ ‫ف‬ ‫صو‬ ‫خ‬
‫مذکورہ‬ ‫ان‬
‫ٰ‬ ‫نت ی‬ ‫گ‬
‫ں۔ ان کا اس عقی اب اور احاطہ اممکن‬ ‫صوص رمای ا ج ہی ں مار ہی ں ک ی ا تج اسکت ا ج ن کی ا ہتا ہی ن‬ ‫ٓاپﷺ کو م خ ئ‬
‫مولی‪ ،‬ہ مارے‬ ‫ے۔ ی ہم سب صا ص ‪ ،‬سارے کماالت اور یہہ مام بمکمزرگ ی اںنہللا ع ٰالی ے ہ مارے نٓا ا‪ ،‬ن ٰ‬ ‫ہ‬
‫م‬
‫ج‬
‫ماوی‪ ،‬و فلج اء‪ ،‬ہ مارے ھادی‪ ،‬ہ مارے مددگار! می ں ل کرے والے اور ہ مارے اصح ج اب احمد ت ب ٰی‬
‫ے۔‬ ‫ف‬ ‫دمحم ٰمصط‬
‫یﷺ کو ع طا یلک‬
‫ت ئ‬ ‫یﷺ ن‬ ‫ض‬ ‫‪۳‬۔ ال قمورد الروی ی مولد ا نقب‬
‫می ں عالمہ مال علی اری ح ور ب ی کری مﷺ کی والدت کے ب عد کے عج زات ب ی ان کرے وے‬
‫ہ‬ ‫م‬
‫ی ضوں ر مطراز ہ ی ں‪ :‬ت‬
‫لک ت‬ ‫ح رت ع ب عدہللاقکا رکہ پ ن‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫لح ش‬ ‫ی‬
‫ے ہ ی ں کہ‬
‫ت‬ ‫اب میخں ھ‬ ‫مال لی قغاری ال ی کت ق‬
‫نالفا سخ اوی و د لف اب وہ ج اری ہ فام نا من ب رکۃ ا ب ی ۃض و مسۃ تاج مال و ن طعۃ‬
‫ت ضم ورث ذلک رسول ہللاﷺ کا ت ام ای من ر ی ہللا ع ٰالی ع ہا‬
‫ن‬ ‫ن نپ‬ ‫ح مۃ۔ (‪(۶۳‬ن‬
‫ی‬ ‫ن‬
‫ے ای ک لو ڈی‬ ‫ے چھ‬ ‫’’امام سخ اویشے کہا کہ ٓاپﷺ کے والد ے اپت‬
‫ام ای نمن برکۃ ج ی ہ‪ ،‬پ ا چ اون ثٹ اور ب کریوں کا ای ک ریضوڑ رکہ می ں چ خھوڑا ج و‬ ‫ض‬
‫حت ور ب ی کری مﷺ کو ورا ت می ں مال۔ ام ای من ح ورﷺ کی دمت‬
‫کرخ ی رہ ی ں‘‘۔‬ ‫ن‬
‫ہ‬ ‫نن‬ ‫ت‬ ‫کا‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ؓ‬ ‫ً‬ ‫ض‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫اب ن سعد ےل ؐح ت ب‬
‫ع‬ ‫رت‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ولد اض ن ب ی م و ا خت خ‬
‫(‬ ‫‪۶۴‬‬ ‫۔(‬
‫ون ( ت ہ دہ) حالتخ می ں پ ی د اک ی ا گ ی ا ھا۔‘‘‬ ‫ورﷺ کو م ئ‬ ‫ش‬ ‫’’ خ‬
‫ح‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ٓاپﷺ ت ہ دہ پ ی دا وے ی ا ب عد می ں ٓاپ کا ت ہ وا۔‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫‪67‬‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ؓ‬ ‫ن ض‬
‫ان کی‪:‬فٓاپﷺ ت ہ ٹدہ اور اف بری دہ پ ی دا‬ ‫ئ اب ن سعد ے ح رت ع ب اس کی ی ہ خروای ت ب یئ‬
‫ے کی ای ک شئان ہ وگی۔‬ ‫ش‬
‫اس یب‬‫خت‬ ‫رے‬ ‫کے دادا ب ہت وش ہ و ض ن ی ی‬
‫م‬ ‫ا‬ ‫رما‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ٓاپﷺ ن ت‬ ‫ن‬ ‫س پر‬‫ہ وے۔ ج ج ف‬
‫ہ‬
‫ے کہ ح ور ب ی کری مﷺ ون دہ پ ی دا وے۔‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ے ا ی ا یر خ میک نں ل ھا ہ‬ ‫پ‬ ‫ض ن اب و ع ر طب ری ن‬
‫مﷺنکا فام ’’دمحم‘‘ ر ھ ا‬ ‫ح ور ب یب کری ئ‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ص‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫ے رمای ا‪:‬ئ‬ ‫ب‬
‫عض ٓا قمہ‬
‫س‬
‫ہللا ع ٰالی لی ہ و لم ان موہ‬ ‫ع‬ ‫عض اال مۃ ا فہم ہللا لعزوج ل اھلہ لی ل‬ ‫ال ف‬
‫من الص ات ا محمودۃ لی طابق االسم ا مسمی۔‬ ‫دمحمٓا‪ ،‬لتما ی ہ ن‬
‫ات قڈالی کہ‬ ‫والوں کے دل می ں ی ہ ب ن‬ ‫ن‬ ‫ے ٓاپﷺ کے گھر‬ ‫عالی ن‬ ‫’’ہللا ٰ‬
‫ٓاپﷺ کے ا در اب ل‬ ‫ئ‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ں‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫‘‘‬ ‫دمحمﷺ‬‫ت‬ ‫ت‬ ‫’’‬ ‫ام‬ ‫کا‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ت‬
‫ی ک‬ ‫ف‬
‫ات موج ت نودخ ھی ں اکہ اسم ب امس ٰمی ہ وج اے‘‘۔‬ ‫فص ق‬ ‫ف ؓ‬ ‫ی‬ ‫عر‬‫ث‬ ‫ض‬
‫ے خ‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫صورت‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ول‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫سان‬ ‫ح‬ ‫رت‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ح‬
‫الی اسمہ اذ ال ی المس الموذن ا ہد‬ ‫ف‬ ‫ش م اال لہ اسم الن ب ی‬
‫وھذا ندمحم(‪ (۶۵‬ت‬ ‫ن‬ ‫و تق لہ تمن اسنمہ ی ن ج لہ ذوالعرش مع نمود‬
‫کے سا ھ مالدی ا۔ ج ب‬
‫خ‬
‫ےنام ض ن‬ ‫ے ب ی کری مﷺ کا ت ام اپ‬ ‫’’ و قہللا ع ٰالی ش‬ ‫ن‬
‫مﷺ کا‬ ‫عالی ے ح ور ب شی کری ئ ت‬ ‫ے اور ہللا ٰ‬ ‫ت‬
‫ت موذن امشہد کہت ا تہ‬ ‫نپ ا چ و ن ن‬
‫ے ام سے ق ک ی ا اکہ اس سے ٓاپ کو عزت ی ج اے و عرش‬ ‫ام اپ‬
‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ں‬ ‫دمحم‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫مود‬ ‫م‬
‫ح‬ ‫مالک‬
‫ص ن‬ ‫ض‬ ‫ؓ ض‬ ‫ح‬‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ضی‬ ‫ہ‬ ‫ع ق کا پ ن‬
‫ے حا ل کرے‬ ‫ق مال لی اری ا ی کت اب میتں ح رت ضلی مہ سحعدی ہ کانح فورﷺ کو ر اعت کے لی‬
‫کا وا عہ ب ھی چک ھ اس طرح ب ی ان کرے ہ ی ں کہتح رت لی ؓمہ ے رمای ا‪ :‬ئ ق‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫’’می ں ب ی سعد ب ن ب کرنکی عور وں بکے سا ئھ مکہ معظ مہ می ں ٓا ی کہ حط سالی‬
‫نن ت‬ ‫ے مل ج ا ی ں‘‘۔‬ ‫ےچ‬ ‫کے دوران دودھ پ الے کے لی‬ ‫ن ت‬
‫ب‬
‫می ں اپت نی عور وں کے ہ مراہ چ قل پڑی‪ ،‬می نرے پتاس می را چ ہ اور ای ک دب لی کمزور بن بوڑھی او ٹ ی ھی‬
‫ے چ وںتکے ہ ت‬
‫مراہ سو‬ ‫پ‬‫رات ا‬
‫ب‬ ‫ھا۔ ہ نم سارے پوری‬ ‫دودھ کا طرہ ب ھی نن ہ نکلت ا ت‬ ‫ت‬ ‫وں می ں سے‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ب خ دا جس کے‬
‫ے کو کھالے پ الے‪،‬‬ ‫سے ہ نم چ‬ ‫ض‬ ‫دودھ ھا ن ہ نمی ری او ٹ ی کے تھ وں ئمی ں جس‬ ‫ع‬ ‫ئچ بھا ی وں می ں‬ ‫ے ن ہ می ری‬ ‫ن ہ سک‬
‫مﷺ کو پ یش‬ ‫ج‬
‫رے ہ مراہ تعور ی ں ٓا ی ں‪ ،‬ان کو ح ور ب ی تکری ن‬
‫ی‬ ‫رے لم می ںت ت نی می ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ج ب ہل ی م مکہ ٓاے خ تدا می‬
‫ری ہ ر نساخ نھی ے دودھ‬ ‫رے سوا می ن‬ ‫ں‪ ،‬می ت‬
‫ن‬
‫ے سے ا کار کرد ی ئ‬
‫م‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ت‬ ‫ے یو لی‬ ‫صکہق چ ہ ت ی م ہ‬ ‫ن کن ج ب کہا ج ا ا‬
‫ب‬
‫کی ا گی ا‬
‫ے او د سے کہا‪:‬‬ ‫ے کو ی ت ہ م ٹال و می ںنے اپ ت‬ ‫ے کے عالوہ ت ھ‬ ‫ب تیم چ‬ ‫ے چ ہ خحا ل کرل ی ا۔ ج پ ن‬ ‫پ الے کے لی‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫’’ دا کی سم! می ں ا ی سا یھ وں کے سا ھ الی ا ھ لو ا س د ہی ں کر ی‪،‬‬
‫پ‬ ‫ہ‬
‫ئ ت‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫می ں اس ی ت یضم‬
‫کروں گی‪ ،‬و می ں گ ٹی وت می ں‬ ‫ص‬
‫کے پ اس رور ج أوں گی اور اسے فرور شحاف ل ن‬ ‫ن‬
‫ے‬‫ے ھ‬ ‫ڑے می ں لپی ش‬ ‫پ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ن‬‫او‬ ‫اف‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ت‬
‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫ٹ‬
‫سے‬ ‫دودھ‬ ‫ٓاپ‬ ‫کہ‬
‫ت‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ے‬
‫ح یت‬
‫ے سب ز رن گ کات ر می کپ ڑا‬ ‫ٹ چی‬ ‫ٓاپ خکے‬ ‫ے۔ ئ‬ ‫ےئھ‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫کے‬ ‫وری‬‫جتس سے کس پ ن‬
‫ے‪،‬ق می ں‬ ‫ے ھ‬ ‫ے نلے رہ‬ ‫نھا اور ٓاپ ا ی کمر کے ب ل سوے ہ وے نرا‬
‫ا۔ می ں نذرا ری ب‬ ‫ن‬
‫کے ح نسنتو ج مال کو دی کھ کر نٓاپ کو ج گا ا پ س د ہ ک یئ‬ ‫ے ٓاپن‬ ‫ئ‬
‫ک‬ ‫س‬ ‫س‬
‫ٓاپ ن کراے اور ٓا کھ نھول‬
‫ک‬
‫م‬ ‫ک‬
‫ے پر ر ھا ن‬ ‫ہ و ی می ں ے اپی اک ا ن ھشٓاپ کے ی‬ ‫ہ‬
‫نکر می ری نطرف د نھ ئا روع کردی ا۔ ٓاپ کیی کدو توں ٓا ئھوں سے ایسا ور‬
‫نکال ج و ٓاسما وں کی پ ہ ا ی وں می ں چ ال گ ی ا‪ ،‬می ں د ھ ی رہ گ ی اور ٓاپ کی‬
‫ں دی ا۔‬ ‫نم ی ئ‬ ‫ان ٓاپ کے من ہ‬ ‫وسہ دی ا اور دای تاں پ ست ئ‬ ‫ت‬ ‫ٓا کھوں کے درم ی ان ب‬
‫ںےبا ی ں‬ ‫ش‬ ‫نج ہ ہ نوے۔ پ ھر ہمی‬ ‫ٓاپ اس کی طرف ج ب ک چ اہ ا م و‬
‫ی‬
‫پ ست ان کی طرف ٓاپ کو پ ھی را‪ٓ ،‬اپ ے ا کار کردی ا اور می ہ ہی حالت‬
‫ع رہنی‘‘۔‬
‫ت‬ ‫ئ ب ش‬ ‫کہا‪ :‬ن‬ ‫ے ض‬ ‫ل لم ن‬ ‫اہ ت‬
‫ے و ہللا‬ ‫ت نہللا ع ٰالی ے ح ور ب ی کری مﷺ کو ب ت ادی ا کہباس دودھ ئمی ں ان کا ای ک اورب ھی ری ک ہ‬
‫ے اور ٓاپ کا ب ھا ی ھی سی ر ہ وگ ی ا۔‬ ‫عالی ے ٓاپ کو عدل و مساوات کا الہام ک ی ا‪ٓ ،‬اپ ھی سی ر ہ وگ‬ ‫ٰ‬
‫‪68‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ض رت حلی ؓ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫زول‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫اں‬ ‫ہ‬ ‫کے‬
‫ع ق ؒ‬ ‫مہ‬ ‫ح‬
‫ے‪:‬‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫طرح‬ ‫ئ‬ ‫اس‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫چ‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫زول‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ر‬ ‫اں‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫اری ے ب ھی ض رت حلی ؓ‬
‫مہ‬ ‫ن‬ ‫لی‬ ‫ال‬‫م‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ح‬
‫نمی خرا خ او د‬ ‫ن ن پ ھر می ں ٹے ٓاپ کو ل ی ا‪ ،‬پس ا نتا ون ت گزرا کہ می ں ٓاپ کو اپ ی سواری کے پ اس ال ی‪،‬‬
‫اس ے ود ب ھی پ ی ا‬ ‫ے خدوہ نکر ن‬ ‫ے۔ ۔جس‬ ‫اس کے ھئوں می ں ب خہت زی ادہ دودھ ہ‬ ‫او ٹ ج ی کی طرف ا ھا‪ ،‬دی تکھا کہ‬
‫کہا‪:‬ت ن‬ ‫ے تاور ن‬ ‫ہاں ک کہخ م سی ر ہ و‬ ‫ہ‬ ‫ے ب ھی پ الی ا‪ ،‬ی ق‬ ‫اور م ھ‬
‫رے او د ے ی ک‬ ‫ص‬ ‫گزاری‪ ،‬می‬ ‫ب‬
‫رات ی ری ت سے‬ ‫گ‬ ‫خ‬ ‫ؓ‬ ‫ح‬
‫ے۔ د ھ شی خہی ں‬
‫ہ‬ ‫ے خکہ م ے ب ڑا ہ ی ب ترکت واال چ ہ حا ل ک ی ا ہ ت‬ ‫لی مہ! دابکی سم!صمی را ی ال ہ‬
‫عالی می ہ ی رو‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫گزاری‬ ‫رات‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫رکت‬ ‫ی ب‬ ‫رو‬ ‫کس‬ ‫ے‬ ‫ے کو حا ل ک ی ا ہ‬ ‫اس چ ت‬ ‫کہ ج ب سے ف‬
‫ب رکت می ضں اض ا ہ کر ا رفہ ا۔ت‬
‫ن ب ن‬ ‫خ‬ ‫ح رت حلی ؓمہ رمانی ہ ی ں‪:‬‬
‫مﷺ‬ ‫’’لوگوں ے ای ک خدوسرے کو ر صت نک ی ا‪ ،‬می ں ے ھین ب ی کری ئ‬
‫نور تپر سوار ہ خو ی‬ ‫کی‪ ،‬اپ ی سواری کے ج ا‬ ‫سے ر صت حاصل ن‬ ‫کی والدہ ماج دہ ن‬
‫ے ٓاگے رکھا‪ ،‬می ں ے دی کھا ٹکہ سواری ے ی ن ب ار ان ہ‬ ‫اور دمحمﷺ کو اپ‬
‫ڑی۔ ی ہاں‬ ‫پ‬
‫طرف ا ھای ا ئھر چ ل پ‬ ‫ے‪ ،‬سر ٓاسمان کی ق‬ ‫تکعب ہ کی تطرف سج ہدے یک‬
‫ے دی کھ کر‬ ‫لوگ جم تھ‬ ‫تگ ب ٹ‬ ‫ی‪،‬‬ ‫لے‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫س‬‫ت‬ ‫سے‬
‫ک‬ ‫ج‬ ‫وں‬ ‫مام ہ مرا ی توں پ ی ی‬
‫سوار‬ ‫کی‬ ‫ک کہ ت‬
‫ت‬
‫ے ی ں ابتو ذٔوی ب کی ی ی ی ہ ج ی ری‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ے سےت ھ‬ ‫جع ب کرے۔ عور ی ں چ ھ‬
‫ب‬‫ک‬ ‫ق‬
‫ے‬‫سا ھ ٓا ی ھی و ھی ھ‬
‫ہ‬
‫ج‬
‫خ‬ ‫وکر تو ہ مارے‬ ‫ک‬
‫ہ‬ ‫ے جس پنر سوار‬
‫ب‬‫ک‬ ‫سواریتہ‬ ‫وہ ی ت‬
‫ت‬
‫ے‪ ،‬وہ‬ ‫پظست کر ی تھی ھی ب ل د؟ می ں ہشی‪’’ :‬ہ ئاں دا کی سم! ی ہ و ی ہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ڑی ان ہ وتگ ی‘‘۔‬ ‫ت ت‬ ‫ہ ش ا ہار پ جعنب کر ی ں‪ ،‬اس کی ب‬
‫ں‪ ،‬ان کو دوہ ا ج ات ا اور پ ی ا‬ ‫ی ن‬‫ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ھر‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫دودھ‬ ‫اور‬
‫ی ی ت‬ ‫ں‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ن‬‫س‬ ‫وہ‬ ‫ق‬
‫و‬ ‫ے‬ ‫نکو ا ی ب کری اں واپس ال‬ ‫ت ن پ ھر م ام‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫دودھ کا ای ک طرہ تہی ں لت ا ھا‪ ،‬ہ ج ا وروں کے ھ وں می ں چک ھ ھا‬ ‫ے می ں کسی کو ن‬ ‫حاال کہ اس زما ق‬ ‫جا ا‬
‫ہاں ت‬
‫ے ج ہاں حلیق ؓمہ کی ب کری اں چ تر ی ہ ی ں وہ اں چ رای ا کرو۔‬ ‫سے ہک‬ ‫ت‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫روا‬ ‫چ‬ ‫ے‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫لوگ‬ ‫کے‬ ‫وم‬ ‫اری‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫پ ھر ب ھی ش‬‫کہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫ری ب تکری اں سی ر ہ ئوکر‬ ‫اور ای ک طرہ شدودھ ن ہ ہ وئ ا۔ می ٹ‬ ‫ں‬ ‫ٓا‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫وا‬ ‫ھوکی‬ ‫ب‬ ‫اں‬ ‫کر‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫کو‬ ‫ام‬
‫ے۔‬ ‫اور موے خ ازے ہ وگ‬ ‫ے‬ ‫گ‬ ‫ڑھ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫کرے‪ ،‬اس ب رکت یسے حلی ؓمہ کے موی‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫ی‬
‫ال‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ہللا‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬
‫ت‬
‫لے ٓا‬ ‫دودھ‬
‫ئ‬
‫عزت و عظ مت حف ور ب ی کری مﷺ کی وج ہ سے ب ڑھ گ ی اور بی بی حلی مہ برابر ی رو برکت‬ ‫خ‬ ‫کی‬ ‫مہ‬ ‫ی ی حلی ت ؓ‬
‫ب ب‬
‫ش خ‬ ‫وگی۔‬ ‫اب ہ ف‬ ‫ح ی‬ ‫ض‬ ‫ی‬ ‫سے‬‫ش‬ ‫رکت‬ ‫غ‬‫ب‬ ‫رو‬ ‫محسوس کر ی ں اور ق ی‬
‫ق‬
‫مۃ م اما عال ی ذاوۃ العز والمج د وزادت موا یہا وا صب‬ ‫ل ب د ب ل قت ب الہا می لی ب ن‬
‫پ ن‬ ‫ر عب نھا وٹہدشعم ھذاالسئعدکل یسحعد ( ‪ (۶۶‬ق‬
‫ع‬ ‫ہ‬
‫عزت و ظ مت کی‬ ‫اس م امئپر چ ی کہ ق‬ ‫کے ذری عہ سے لی مہ ی ش‬ ‫’’ ی ا م ف ئ‬
‫ے اور اس کا ئعال ہ سرسب ز و‬ ‫ڑھ‬
‫ت بن ب گ‬ ‫ی‬ ‫مو‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ی‪،‬‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ز‬ ‫بشل ن د چ و ی پر ا‬
‫ے عام ہ وگ ی‘‘۔‬ ‫اداب ہ وگ ی ا اور ی ہ ب رکت مام ی سعد کے لی‬ ‫ن ش خ‬
‫ق قن‬ ‫زات‬ ‫ج‬ ‫م‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫خ‬ ‫ں‬ ‫زما ہ ی ر ب یہ ی‬
‫م‬ ‫وارگی‬ ‫ق‬
‫ؓ‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫ع پن‬
‫ے۔‬ ‫است ب تن ع ب دا م لب کا ی ہ ت نول ل ک ی ا ہ‬ ‫ف‬ ‫اب می ں ع ب‬ ‫ف‬‫ی اب ن عساکر اور طی ب ے اخ ی کت‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ہللا دعا ی الی الد ف‬
‫ک رای ت ک نی المہد ا‬
‫ث‬ ‫ق‬ ‫ول ی دی شک امارۃ و‬ ‫ارسول ت ش‬ ‫ین ق‬
‫ع ثی ال‬
‫ص حک حی ث ا رت الی ہ مال ال ا ی ک ت احد ہ‬ ‫ی یب ب‬‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ال‬ ‫ر‬ ‫و‬ ‫مر‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‪)۶۷‬‬ ‫وی حد ی(‬
‫ن دا ل ہ وے کی‬ ‫ٓاپ کے دی ن می ں‬ ‫ج‬ ‫’’می ں ے عرض کی‪ :‬ی نارسول ن‬
‫ہللا!‬
‫م‬
‫دی۔ می ں ے ٓاپ کو ن‬ ‫ے ش‬ ‫وت ے ھ‬ ‫دعوت ٓاپ کی یعکالمت ب ن‬ ‫گ‬
‫پن‬
‫ے ہ ی ں اور اپ ی‬ ‫ہ‬ ‫کرر‬ ‫اں‬ ‫ی‬ ‫سرگو‬ ‫سے‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫چ‬ ‫ٓاپ‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫د‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ھوڑے‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫اش لی سے اس کی طرف‬ ‫گ‬
‫ہ‬ ‫ش ہ ت ن‬
‫ے ہ ی ں۔ ج دھر ٓاپ کا ا ارہ و ا چ ا د ادھر ی ھک ج ا ا‘‘۔‬
‫ج‬ ‫ت ارے کررہ‬ ‫ا‬ ‫ف شت‬
‫ت‬ ‫ے‬ ‫ال‬‫ھ‬ ‫ج‬ ‫ھوال‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ر‬
‫فع ق‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫اسی طرح مال ت لی اری ب ی ان کر ق‬ ‫ف‬
‫عالی ع بلیتہ وسلم ت کلم ئ ی اوا ل‬ ‫ٰ‬ ‫یت‬ ‫ہللا‬ ‫لی‬ ‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫دی‬ ‫ئ‬ ‫و ی ح ال ب اری عن فسی رۃ خالوا‬
‫ماولد‪ ،‬وذکر اب ن سب ع ی ال صا ص ان مہدہ کان حرک حری ک المال کۃ۔(‬
‫‪(۶۸‬‬
‫‪69‬‬
‫ق‬ ‫فت‬
‫ے کہ ی ہ‬ ‫سے لکھا ہ‬ ‫ئ می ں ئ’’سی رت وا دی‘‘ کےنحوالے خ ئ‬ ‫’’ ح ال ب اری‬
‫ن ستعد ے ’’ال صا ص‘‘ می ں ذکر ک ی ا کہ‬ ‫ے۔ ابت‬ ‫حال اب ت دا ج ی ف ش ت ہ‬
‫کا‬ ‫ش‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫ے‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫ے‘‘۔‬ ‫نی ا کرتے ھ‬ ‫ھوال رے ج ھال‬ ‫ٓاپﷺ کا ث ئ‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے۔ دو ِر حا ر کے ممت از عالم دی ن‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫ز‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫کرام‬ ‫مہ‬ ‫ٓا‬ ‫ر‬ ‫اک‬ ‫کو‬ ‫ات‬ ‫ع‬ ‫وا‬ ‫وں‬ ‫ف‬ ‫ان دو‬ ‫ش‬
‫ب‬ ‫ن‬
‫ب یہ‬ ‫ی‬ ‫ن پ نک‬ ‫ق‬ ‫ٹ‬
‫نلد دوم می ں ھی اشمام ج الل الدین ن‬
‫گ‬ ‫ی خ االسالم پرو یسر ڈاک ر دمحم ضطاہ ن رال ادری ے ا ی کت ناب سی رۃ تالرسول ج‬
‫ے‬ ‫کے ا ارے پر چ ل‬ ‫ناور ا لی ہ ن‬ ‫لے ت سے ح ور بض ی نکری مﷺ کے چ ا د سے ب ا ی ں کرے‬ ‫س وطی تکے تحوا ف ش‬ ‫ی‬
‫ے۔ (‪۶‬‬ ‫ی ہ‬‫ان‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫امور‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫کو‬ ‫لے‬ ‫و‬ ‫ھ‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫رحمتﷺ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ور‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ر‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬
‫ن‬ ‫‪ ۹‬ض) ن‬
‫ت ت‬ ‫ؓف‬ ‫ق‬ ‫الم‬
‫ؓ‬ ‫ک‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫ن پ‬‫سے‬ ‫سب‬ ‫کا‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬
‫ق‬ ‫ی‬‫ح ور ب‬
‫ب‬
‫ے کہ لی مہ تسعدی ہ رمای ا کر ی ھی ں‪:‬‬ ‫ح‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫چ‬ ‫اس کیضی ہ نروای ت ل کی ہ‬ ‫ی اور اب ن عساکر ے اب ن ع ب ن‬
‫ے ح ور ب ی مﷺکا دودھ ھڑای ا و‬ ‫کری‬ ‫ے می ں ف‬ ‫’’سب سےنپہل‬
‫ٓاپﷺ ے ی ہ ثکالم رمای ا‪:‬‬
‫ہللا اکب ر کب یرا والحمدللہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی ال۔ ت ف‬
‫ے‬ ‫ے‪ ،‬سب عری ی ں ہللا کے لی‬ ‫ے‪ ،‬ب ہت ب ڑا ہ‬ ‫’’ہللا سبشسے ب ڑا ہ‬
‫ہت‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ہللا کی پ اکی ب ولو‘‘ی ک۔‬ ‫ب‬ ‫ص ت ح و ام‬ ‫ئ ب‬ ‫ہ ی ں۔‬
‫ی‬ ‫ک‬
‫ے کن ان سے الگ لگ رے۔‬‫ھ‬
‫قن‬ ‫ڑے ہ نوے و ب اہ ر ج اکر چ وں کو ی لت ا د ھ‬
‫ھ‬ ‫ذرا ب ن‬
‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ب ادل کا سای ہ کر‬
‫ے۔ ن‬ ‫ل کی ہ‬ ‫ت‬
‫دہللا اب ن ع بناس ی تسے ی ہ روای ت ف‬ ‫اب ضن سعد ابح و عی م‪ ،‬اب ن عساکر ے ع ب ن‬
‫سے ظ ری ں ب چ ا کر‬ ‫ں۔ ای ک د عہ ان ن‬
‫ی ئ ح ؓت‬ ‫ھ‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ٓاپﷺ کوشزی ادہ دور ت ی ج‬
‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ض‬ ‫ح قرت لین ؓمہ‬
‫ب‬ ‫ک‬
‫ے۔ لی مہ الش می ں لی ں اور ہن‬ ‫دوپہر کے و ت اپ ی ر اعی ہن ی متا کے سا ھ ب کریوں‬ ‫ب‬
‫ےگ‬ ‫ن کی طرف چ ل‬
‫ت‬
‫قف‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ے کہا‪:‬‬ ‫غ‬ ‫ٓاپ کی ب ہن‬ ‫کے ہ مراہ پ اکر ب ولیف قں اس خگرمی می ں؟ و خ‬
‫ل‬
‫الت ا ت ہ ی ا امہت ما ونجت د ا ی حرا‪ ،‬رای ت مامۃ ل علی ہ اذا و ف و ت‬
‫ن‬ ‫)ت‬ ‫واذا سار سارت ح یئا ہی الی۔ن (‪۷۰‬‬
‫ے تٓاپبکےٹسر پر ت‬ ‫ت ھا ی کو گرمی ہی ں لگ ی‪،‬ٹ می ں ت‬ ‫’’اماں! می رے ب‬
‫ے وئوہ ھی ھہر ج ا ا‪،‬‬ ‫ے ج ب ٓاپ قھہر ج ا ن‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫ب ادل کو تساتی ہ کرے دت ھا ہ‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ہاں ت ک کہ اس م ام پر پ ہ گچ‬ ‫ےت و وہ چ ل پڑ ا ی ن‬ ‫ٓاپ فچ ل‬ ‫ض‬
‫ح رت ثحلی ؓمہ رما غی ہ ی تں کہ می ں قے دق فکھا‬
‫ی‬
‫سارت۔ (‪)۷۱‬‬ ‫نامۃ ظ لہ اذا و یف و ت واذا سار ت ت‬ ‫محرات م‬
‫ک‬
‫ٓاپتپر سای ہ کر ا ن ھا ج ب تٓاپ ھڑے‬ ‫ت‬ ‫وہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫د‬ ‫کو‬ ‫ادل‬ ‫ت‬
‫ب‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ے‬‫ٹ‬ ‫تی ؓت‬
‫مہ‬ ‫’’ ل‬
‫ے لگ ج ا ا‘‘۔‬ ‫ب‬
‫ے و وہ ھی چ ل‬ ‫ہ وے و وہ ہرج ا ا اور ج ب ٓاپ چ ل‬ ‫ھ‬ ‫ش‬
‫ض‬ ‫ب پن‬ ‫ن‬ ‫ع ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬‫صدر‬ ‫ق‬
‫ے۔ح رت حلی ؓمہ‬ ‫ا‬
‫ی ی یہ‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫وں‬ ‫ھ‬ ‫ک‬‫چ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ے‬ ‫اری‬ ‫لی‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫عہ‬ ‫وا‬ ‫کا‬ ‫صدر‬ ‫ق‬ ‫ف ت‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ضرما نی ہ ی ں‪:‬‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫مﷺ کی والدہ حم رمہ کی و ات‬ ‫ح ور ب ی کری ض ن‬
‫ت میت ں پ ا چ‪ ،‬ای ک می ں چ ھ‪ ،‬ایت ک می ں‬ ‫ج ب ح ور ب ی کری مﷺ چ ار سال کے وے‪ ،‬ای ک روای ئ‬ ‫ہ‬
‫ن والدہ حم رمہ کا‬ ‫ں قب ارہ سال ای ک مہی ن ہ دس دن کے ہ وے قو ٓاپﷺ کی‬ ‫سات اور ای ک روای قت می ن ت‬ ‫ش‬
‫ے چک ھ ے کہا جحون کی‬ ‫ان ای ک م ام ضہ ن‬ ‫ن‬
‫ام پر ا ال وا‪ ،‬ی ہ مکہ اور مدی ہ کے درم ی ن‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ف‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫اب واء‬
‫ق‬
‫ے کہ مکہ المکرمہ می ں ’’دار اب عہ‘‘& می ں ح ور ب ی کری مﷺ کی والدہ‬ ‫ی ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اموس‬ ‫ال‬ ‫وا۔‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬‫ف‬ ‫ھا‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ایت‬
‫ے۔‬ ‫ؓ‬ ‫حم ضرمہ کا مد ن ہ‬
‫ئ ت‬ ‫ؓ ف‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ح رت ع بض دال نم طلب کا وصال‬
‫ن ج ان ح رت ع ب دالم طلب وت ہ وے و‬ ‫ے والے دادا‬ ‫رورش کر ن‬ ‫مﷺ کی پ ن‬ ‫ت‬ ‫کری‬
‫ح ور ب ی ٹ‬
‫ے کہا‪ :‬و سال چک ھ ے کہا‪ :‬سات سال‪ٓ ،‬اپﷺ کے دادا کی عمر‬ ‫ت‬
‫ٓاپﷺ کی عمر ٓا ھ سال ھی چک ھ ق‬
‫ؓ ن‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ے۔‬ ‫ض ہ‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫)‬ ‫‪۱۴۰‬‬ ‫(‬ ‫س‬
‫چ ین ت‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫سو‬ ‫ک‬ ‫ای ک سو دس (‪ )۱۱۰‬سال ھی‪ ،‬ای ک ن م ب ی ن‬
‫ا‬ ‫ق‬ ‫طا‬ ‫کے‬ ‫ول‬
‫ٓاپﷺ نکے چ چ اضے کی‪ ،‬ج ؓن کا ام ع ب د مت اف ھا۔ ح رت ع ب دا م لب ے‬
‫ط‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫رورش ئ ت‬ ‫ٓاپﷺ کی پ ف‬
‫ے۔‬ ‫ہ ی ان کو ی ہ وصی ت رما ی ھی کی و کہ وہ ح رت ع ب دہللا کے ب ھا ی ھ‬
‫‪70‬‬
‫ف ت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ق ن ن‬ ‫ف‬
‫س‬
‫ے و ی ہ کو ی اور ر ھا۔‬ ‫ح‬ ‫ص‬
‫ح‬
‫ی‬ ‫عہ‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫اگر‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫رما‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫االصا‬ ‫ے‬ ‫س‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫شب‬ ‫ؓ‬ ‫ض ورن ب یحاکری مﷺ کی دہ خ‬
‫ی‬ ‫ال‬ ‫ع‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫ح‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ظ‬
‫ش شت‬ ‫ت‬ ‫ن خ‬ ‫ادی‬ ‫سے‬
‫خ‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫د‬
‫سی ی‬ ‫ض ن‬ ‫ح‬
‫لے‬ ‫فن ت‬ ‫م‬ ‫س‬
‫ھرفح ور ب ی کریخ مﷺ سغی دہ دی ج ہ ب بت وی لد کی ن ج ارت کے تلسلہ می ں لک ام ری‬ ‫پ‬ ‫ئ‬
‫ےو‬ ‫ازار می ں پ ہچ‬ ‫ے۔ ب خصری کے نب ٹ‬ ‫ے۔ قاس س ر می ں س ی دہ دی ج ہ کے ت الم میسرہ ھی ٓاپﷺ کے ہ مراہ ھ‬ ‫گ‬
‫ے ھہرے اور‬ ‫ت کے چی‬ ‫ٓاپﷺ س طور راہ ب کے در ٰ‬ ‫ٹ‬ ‫اں‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ئ‬ ‫ھی‪،‬‬ ‫سال‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫ع ن‬ ‫چ‬ ‫پ‬ ‫مر‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ٓاپ‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اس‬
‫ت‬ ‫خ‬
‫ے ب ھی ب ی کے سوا کو ی ہی ں ھہرا ھا۔‬ ‫اس در ت کے چی‬
‫ئ ن ٹ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ت می ں ہ ؑ‬ ‫نای ک روای ض‬
‫سی کے ب عد کو قی ہی ں ف ھش تہرا‘‘۔‬ ‫ی‬ ‫ع‬
‫ئت‬ ‫ت‬ ‫رت ہ ٰ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫عم’’ح‬
‫ےو‬ ‫کہ‬
‫پق گ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫وا‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ہ‬
‫ن ن نپ ی ب ٹ ج‬ ‫ا‬‫س‬ ‫ر‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫دو‬ ‫ت‬ ‫ض ن‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫ہر‬ ‫طوری ہ خ ن ھ ک پ‬
‫دو‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫نس‬
‫ے دوپہر کے و ت‬ ‫ی‬
‫نر ھ‬ ‫ے او ٹ پ‬ ‫ف‬
‫ں ھڑے ہ وکر ح ور ب ی کری تمﷺ کو اپ‬ ‫ت‬ ‫ے ب اال ا تے فمی ش‬ ‫ت‬ ‫پ‬‫تخ شدی ج ؓہ ے ا‬
‫نم ے خروای ت ک ی ا۔‬
‫ش‬ ‫ے۔ ان کو اب و عی‬ ‫گن ھ‬ ‫ے ٓاپﷺ پر سای ہ ض ن‬ ‫ریف الے دی کھا و دون ر‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ے اور ی قس دن کے ب عد ح ور ب ی کری مﷺ ے س ی دہت دی ج ہ تسے ادی کی۔‬ ‫چ‬ ‫پ‬
‫ی‬ ‫اس کے دو مہ‬
‫ے ہ ی ں یس سال ھی۔‬ ‫ہ‬ ‫ے کہ اس و ت ٓاپﷺ کی عمر اکیس سال ھی۔ چک ھ ک‬ ‫ای ک روای ت می ں ہ‬
‫ت‬
‫ی‬
‫ادی ’’اب وھالہ ب ن زرارہ می می‘‘&‬ ‫ئزمان ہ ت م ں ی ی خ د ج ہ کا لق ب طا رہ ت ھا۔ ان کی پ ہلی ش‬
‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ج اہ لی ی ب ب ب یٹ‬
‫’’ ت ی ق ب ن عاب د‬ ‫ع‬
‫ھالہن‘‘ پ ی دا وے‪ ،‬ضان نکی و ات کے ب عد ن‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ے ’’ہ دا اور‬ ‫کے دو ی‬ ‫ت‬
‫ٓاپ‬ ‫سے ہ و ی اس سے ن‬
‫کاح کے‬ ‫اور ب ی ٹ ا ہندا خامی پ یندا ہ وا۔ ح ضور ب نی کری مﷺ سے ت‬ ‫خ‬ ‫مقخ زومی‘‘ سے ٓاپ کا کاح ہ وا اور ای ک‬
‫مﷺ کے سا ھ بی بی‬ ‫ور ب ی کری ض ن‬ ‫ے ٓاپ کو ح‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ان خکی عمرنچ ا یس س ضال ن ھی۔ بی بی دی ج ہ ے تودشاپ‬ ‫و تن‬
‫ے یش ک ی ا۔ ح ور ب ی خکری مﷺ ے‬ ‫پ‬ ‫ے ٓاپ کو ح ور ب ضی نکری مﷺ کے سا ھ ادی کے لی‬ ‫خ دین ج ہ ے ود پا‬
‫مﷺ کے ہ مراہ ٓاپﷺ شکے چ چ ا حمزہ بی بی دی ج ہ ئکے والد‬ ‫ذکر تک ی ا‪ ،‬نحنور ئب ی کری ض ن‬ ‫ے چ چ أوں سے اس کا ش‬ ‫خاپ‬
‫سے ادی کردیناور ب یسخگا ی ں حق‬ ‫ے اور شح فور ب ی کریشمﷺ کی ان ت‬ ‫گضگ‬ ‫ے‬ ‫ما‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫اس‬ ‫ض پ‬‫کے‬ ‫اسد‬ ‫ن‬ ‫لد‬
‫ی ب‬ ‫و‬
‫ے۔ اب و طالب ے یوں طب ہ پڑھا‪:‬‬ ‫ں‪ ،‬ح رت اب وب ؓکر ناور م ر کے ر اء اس ش ادی می ں موج ود ھ‬ ‫م ثہر می ں دی ف‬
‫ے‬ ‫یﷺ قمسلما وں کے لی‬ ‫ب ت مصط‬
‫ےف ہ دای ت اور م رکوں پر جح ت ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬
‫ے رٓان عظ ی م می ں رمای ا‪:‬‬ ‫ہللا ع ٰالی ق‬
‫ن‬ ‫رٓان‪ )۱۲۸ :۹‬ج ف‬ ‫(ال خ‬
‫ق‬ ‫ب‬ ‫ض‬ ‫بمولد ی ر الع بن اد ازنامام ع ر الکت ا ی ن‬ ‫ف‬ ‫‪۴‬۔ الی من واالسعاد‬
‫ت ی ح ورﷺ کے چ پ ن کے وا عات اور معج زات کو‬ ‫وب بس حا‬ ‫ے ب ھی حمب ف‬ ‫ن‬ ‫ئ ر الکت ا قی‬ ‫خ امام دمحم ب ن ج ع‬
‫ے۔ رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫صورت پ یراے می ں لمب د ک ی ا ہ‬
‫پ‬ ‫بڑے وب ب چ ن‬
‫ت ت‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ئ ت گھ ن‬ ‫ے کی ھب ن‬ ‫ہللا ہللا وہ پ‬
‫کےتب ل چ وں کے سا تھ سا ھ ادھر ادھر ن‬ ‫ے و ٹ وں اور ہ ا ھوںت‬ ‫ہ‬
‫کے نوگق‬ ‫ئ ت‬ ‫ٓاپﷺ ج ب دو ماہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫کر‬ ‫کڑ‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫وار‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫گزرے‬ ‫ماہ‬ ‫ار‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ھڑے‬ ‫پت ف‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫دموں‬
‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫اہ‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫گ‬ ‫ل‬‫ن‬ ‫ے‬ ‫جا‬
‫چل‬ ‫فی‬ ‫ن چ‬
‫ل‬
‫ج‬ ‫پ‬ ‫ل‬ ‫ی خ ن‬
‫کے‬ ‫سات ماہن‬ ‫ف‬ ‫ے۔ ج ب ٓاپﷺ‬ ‫ش‬ ‫ے نگ‬ ‫نکے وے و یٹز ر ت اری سےئچ تل‬ ‫ہ‬ ‫ے چ ھ ماہ‬ ‫ےنگ‬ ‫ئ پ ا تچ وی ں ماہ از ود چ ل‬ ‫ے۔‬ ‫لگ‬
‫ے و ب ول ان روع کردی ا اور یص ح کالم رماے‬ ‫کے ہ نوگ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ے اور ج ب ٓا ھ ماہ‬ ‫ے ج اے لگ‬ ‫ئ ت‬ ‫ہ وے و دوڑ کر ہ ر طرف ٓا‬
‫ے۔ ئ‬ ‫ل‬
‫دازی کرے گ‬ ‫صماہق پورے ہ وے و ٓاپﷺ لڑکوں کے سا ھ ی ر ا ئ ت‬ ‫ے۔ دس‬ ‫لگ‬
‫ع‬
‫یح حئول کے م طابق ج ب ٓاپ کی عمر م ب ارکہ چ ار سال ہ و ی و ج بری ل و می کا ی ل لی ہما السالم ٓاپ‬
‫ن‬ ‫ت ن ئ ن‬ ‫ن‬ ‫ٓاپ کا‬ ‫کے پقاس ٓاے اور ق‬ ‫ن‬
‫کال کر پلھی ک دی۔‬ ‫سے س ی اہ لو ھڑا ما کو ی چ یز ت‬ ‫اس می ںن‬ ‫کاال تاور ت‬ ‫سی ہ ا دس چ اک کرکے لبماطہر کو ب اہ ر ت‬
‫ی‬
‫ٓاپ تکا وزن ان کے سا ھ ک ی ا کن‬
‫ق‬ ‫م‬ ‫ولو‪ ،‬و اس ے ت‬ ‫ن‬ ‫کے سا ھ‬ ‫ان کو‪ ،‬ان کے دس ا ت ی وں ن‬
‫ے۔ پ ھر‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ھاری ر‬ ‫ٓاپﷺ ب ہ ن‬ ‫اس ے کہا سو (ب دوں) کے سا ھ ولو! گر ن‬ ‫ے۔ پ ھرت ت‬ ‫ٓاپﷺ ب ھاری رہ‬ ‫ن‬
‫ے۔ ھر اس ے کہا بس رے دو! دا کی سم‬ ‫پ‬ ‫ٓاپﷺ ب ھاری رہ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫اس ے کہا ای ک ہ زار کےسا ھت ولو! گرت‬ ‫ت‬
‫ب‬
‫ت‬ ‫وری امت نکے سا ھ ھی ولو گے و ان کا وزن زتی ادہ ہ وگا۔ئ( ت‪ )۷۴‬ن ن‬ ‫اگر م ان کو پ ق‬
‫سے وا فپس ٓاے‬ ‫اور ی ن ماہ و ی و مدی ہ م ورہ ہ‬ ‫ہ‬ ‫ارک چ ھ سال ئ‬ ‫ئ جقس و ت سرور کو ی نﷺ کی عمر م ب ف ق‬
‫ہت وے م ام اب واء پر ٓاپ کی والدہ کری مہ داغ م ار ت دے گ ی ں ج ب کہ ٓاپﷺ ان کے مس ر اور ج لیس‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬
‫‪71‬‬
‫تق ً‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے و ری ب ا ای ک دن کی‬ ‫بہ‬ ‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ک‬ ‫ف اب واءقمکہ اور مدی ہ کے ماب ی ن‪ ،‬مدی ہ سے زی ادہ ی ی‬
‫ا‬ ‫ک‬ ‫زد‬
‫ش فق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے۔ ن ت ق‬ ‫مسا ت پر وا ع ہ‬
‫کے ب عدنٓاپ کے دادا ج ضاب ع ب دا م لب ے کمال ت ت و حمب ت سے‬ ‫ط‬ ‫ل‬ ‫ال‬ ‫والدہ ماتج دہ فکے ا ف‬
‫دوسری مامناوالد کے‬ ‫رت ع ب دالفم طلب کیت ت‬ ‫ٓاپ‬ ‫ا۔‬ ‫ض‬
‫ش‬ ‫ح ت‬ ‫ٓاپ کی سرپرسخ ی و ک الت کا ی ق ج ب ی‬
‫د‬ ‫ام‬ ‫سرا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬
‫ے۔ ( ع ی دادا کے‬ ‫ی‬ ‫کی لوت اور ٓارام کے و ت ھی ان کے ہ اں ریف رما ہ وا کرے ھ‬ ‫بنرعکس انت ت‬
‫چ‬
‫ئ‬ ‫لط ب ف‬ ‫ئ ت‬ ‫ٹ‬ ‫ے)‬ ‫ے ھ‬ ‫ہای ت ہی‬
‫ے اور ٓاپ کی‬ ‫ٓاپ کی عمر م ب ارک ٓا ھ سال ہ و ضی و ٓاپ کے معزز دادا ع ب دا ئم لب ھی ونات پ اگ‬ ‫ف‬
‫ے لے ل ی ا۔‬ ‫ے ب ھا ی اب و طالب ن‬ ‫تع بتدہللا) کے سگ‬ ‫ک الت کا ذمہ ٓاپ کے والدشگرامی (ح رت‬
‫کے تعالوہ ا ہی ںنکسیتاور سےک نتہ‬ ‫ت اور ای سی حمب بت کٓاپ ن‬ ‫ے‬‫طالب ٓاپ سے دی د ن حمب ت کرے ھ‬ ‫اب و ؓت‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫ے سا ھ ی ر ھ‬ ‫ے پ اس ی سالے اور ج ب ھی ہی ں ج ا ا ہ و ا ٓاپ کو اپ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ت ھی۔ ہی وج ہ ھی کہ وہ ٓاپ کو اپ‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ض‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬
‫طالب کے‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ن‬ ‫ے‬
‫پ چ چ‬ ‫ا‬ ‫ٓاپ‬ ‫و‬ ‫ی‬
‫ش‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دن‬ ‫دس‬ ‫ماہ‬ ‫دو‬ ‫سال‬ ‫ارہ‬ ‫ف‬
‫ع ئ ی تب‬ ‫ر‬ ‫مر‬ ‫کی‬ ‫اکرمﷺ‬ ‫ت‬
‫سف ش‬ ‫ور‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ت ش ج‬
‫ے اور حی رہ‬ ‫کے سرحدی ہر) ب صری پ ہچ‬ ‫ک کہ (ش ام ن‬ ‫ف‬ ‫ہاں‬ ‫ی‬ ‫ے‪،‬‬ ‫لے‬
‫ی گ‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ر‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ام‬ ‫سا ھ‬
‫ٓاپ کی ص ات کری مہ کی مود سے ٓاپ کو پ ہچ ٰان گ ی ا۔ اور ٓاپ کے‬ ‫کن‬ ‫وہ‬ ‫ھا‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫کو‬ ‫ٓاپ‬ ‫پ ق‬ ‫ر‬ ‫اں‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫الراہ‬
‫ےلگا‪:‬‬ ‫دس ھام کر ہ‬ ‫پ اس ٓاکر ٓاپ کا دست ا‬
‫ل‬ ‫ل‬
‫ہللا رحمۃ لعا قمی ن‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ہ ذا س تی دالمر لی ن‪ ،‬ہ ذا س ی دالمر لی ن ہ ذا ب ع ہ ن‬ ‫س‬
‫کے ٓاب ا ہ ی ں‪ ،‬ی ہی ہ ی ں‬ ‫وں‬ ‫سردار اور سارے ج ہا‬ ‫ن‬ ‫کے‬‫ج ن’’ی ہ مام ترسولوںن تت‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ن‬
‫ن اکر یھ ج ا ہ‬ ‫ے رحمت ب‬ ‫عالی ے مام ج ہا وں کے لی ت‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ہللا ٰ‬ ‫ہی ں‬
‫ت‬ ‫ا‪:‬‬
‫ن‬ ‫د‬
‫ت ی‬ ‫واب‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫اس‬‫خ‬ ‫و‬ ‫ئ‬
‫ال؟‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ی یت پ چ‬ ‫ت‬‫ے‬‫س‬ ‫ک‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫سب‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬‫ت‬
‫اس سے پوچ ھا ی ی‬
‫گ‬
‫ے و کو ی در ت اور پ ھر نایسا ہی ں ھا وج‬ ‫ئ نھ‬ ‫ے‬ ‫’’ج ب م کسی پ ہاڑی پر چ ڑھ‬
‫انتکو سج دہ ن ہ کررہ ا ہ و اور ی ہ سواے ب ی کے کسی اور کو سج دہ ہی ں ک ی ا‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ب پ ن‬ ‫نکرے‘‘ ن۔‬
‫ے‬ ‫دھوں کی ہ ڈی سےیچ‬ ‫کے دو وں ک‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ں مہر ب وت کی وجنہ سے ھی ن شہچ ان ت ا وںن و ان ت‬ ‫اور می ں ان ہی ئ‬
‫خ‬ ‫پ‬
‫نسے ا ذ کی ہ ی ں۔‬ ‫ے اور م خے ی ہ سب نا ی اں ا ی کت اب وراۃ می ں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫سی ب کی طرح ب ی ہنو ی‬
‫ئو طالب ے ی ہودیوں سے طرہ کے پ یش ظ ر ٓاپ کو واپس لے ج اےکا سوچ ا اور مکہ واپس‬ ‫اب‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫من‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫چ‬ ‫)‬ ‫‪۷۵‬‬ ‫(‬ ‫ے۔‬ ‫لوٹ ٓا‬
‫ے‪ٓ ،‬اپ ے ح رت ام المو ی ن دی ج ہ ب ت‬ ‫ت‬ ‫ً‬ ‫ب‬
‫س سال گزرے ھ‬
‫ل‬ ‫والدت ب اسعادت کو ق ی ت ق‬ ‫ج‬
‫ٓاپ کیف‬ ‫ن‬ ‫خ ؓ‬
‫ن‬ ‫سال نھی۔‬ ‫ت ت ق‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ت‬ ‫و‬‫ف‬ ‫اس‬ ‫مر‬
‫ؓ ن‬ ‫ع‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫اح‬ ‫ک‬ ‫ض‬ ‫سے‬ ‫لد‬ ‫وی‬
‫اور سلی ہ م دی کے بت اعث طاہ رہ اور س ی دۃ ال ساء‬ ‫ق ش خح ترت خ دی ج ۃ الکب ری اپ نی ع ت و پ اک ب ازی‬
‫ہرات سےش‬ ‫ازدواج م ط‬
‫ؐ‬ ‫ن‬ ‫سے ی اد کی ج ا ج نی ھی ں۔ ٓاپﷺ مام‬ ‫سردار) ٰکے ب خام خ ت‬ ‫ن‬ ‫ف( ض ری ی وا ی ن کی‬
‫امام اال ب ی اء کی زوج ی ت کا رف‬ ‫ے ئ‬ ‫ا ل ہ ی ں اور ٓاپ ہ ی وہ ی ک ت ا ون ہ ی ں ہی ں سب سےشپہل‬
‫ن‬ ‫ں۔ ن‬ ‫ہ‬
‫سے م رفن و ی‬ ‫مان ف‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ےا‬ ‫سے پہل‬ ‫ناس امت می ںتسب ئ‬ ‫حاصل ہ واضاور ٓاپ ہ ی‬
‫ن‬
‫ے پ اس‬ ‫ح ورﷺ ے ٓاپ کے ہ وے ہ وے ہ دوسرا کاح رمای ا اور ہ ہ ی کسی لو ڈی کو اپ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫نتق‬ ‫ل من ئ ؓ‬ ‫رکھا۔‬
‫مﷺ کی مام اوالد ٓاپ‬ ‫ے ٓاپ ی ضکا ا ال وا۔ن ب ی کری ق‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫امہات ا مو ی ن می ں‪،‬ئسب نسے پ ؑل‬
‫نالموم ی ن ماری ہ ب طخی ؓہ کے ب طن سے پ ی دا‬ ‫کے ج و ح رت ام‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫کے ب طن ضسے ہ و ی۔ قسواے قس ی قد ا اب راہ ی‬ ‫ہ یئ ت‬
‫ے۔ ح رت ماری ہ ب طی ہ کو م و س حاکم اسک دری ہ (مصر) ے ٓاپﷺ کی دمت می ں ب طور ہ دی ہ‬ ‫ؓ‬ ‫ے ھ‬ ‫ہب و‬
‫ت‬
‫فض‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫یھ ج ا ھا۔‬
‫ے رب کی ع طا کردہ ی لت کے ب اعث ج ہاں‬ ‫کے اب ت دا پیت ای ام می ںت اپت‬ ‫ٓاپﷺ اعالنت ب وت خ‬ ‫ت ت‬
‫ے‪)۷۶(:‬‬ ‫ے ھ‬ ‫ک‬
‫ے کے در ت اور ھر یوں ہ‬ ‫ے ‪،‬راس‬ ‫سے ب ھی گزرے ھ‬
‫السالم عل ی ک ی ارسول ہللا۔‬
‫ن‬ ‫ق ف‬ ‫نپر تسالم و‘‘۔‬‫ہ‬ ‫ن ’’اے ہللا کے رسول ٓاپ‬
‫اعالن ب وت کے ب عد ٓاپﷺ نے ی رہ سال مکہ معظ مہ می ں ی ام رمای ان اور وحیتکا زول اسی ج گہ‬ ‫ت‬
‫ہ و ا رہ ا اور ہ ج رت کے ب عد دس سال مدی ن ہ م ورہ می ں اسی طرح ٓاپﷺ پر وحی ازل ہ و ی رہ ی۔‬

‫‪72‬‬
‫ن‬ ‫تیٹ‬ ‫ت ن‬
‫ے پ اس ب الل ی ا۔‬ ‫ٓاپ کو قاپ‬ ‫ہ‬
‫ارک کے ر س ھوی ں (‪ )۶۳‬سال کی اب ت داء ی فمی ں ت‬ ‫ے عمر م‬ ‫ق رب ع ٰالی‬
‫‪)۷۷‬‬ ‫(‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ہ‬ ‫کے بسر اق دس اور داڑھی قم ارک م ں ب یس ال ب ھی س د ن‬ ‫ن ن‬
‫ٓاپﷺ‬ ‫اس و ت‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی م ب‬ ‫ب‬ ‫ث‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے وج‬ ‫صورت می ں لمب د ک ی ا ہ‬ ‫خ‬ ‫عات اور عجئزات کو کت ابی‬ ‫ظ‬ ‫اہ ل لم ے ظ م و ر می ں ب ک رت م ت‬
‫ان خوا‬
‫امور‬ ‫کے سب ب ی ا نٓاپ کے دست ن ب پر اہ رشہ وے اور ج و عالمات اور رق عادات‬ ‫ٓاپﷺ ن‬
‫ت‬
‫ظٓاپﷺئکی سب ت اور مت اسب ت سے والدہ ماج دہ کے کم می ں ج لوہ گری سے لے کر لمحہ وصال ک‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ہور پ ذیر ہ وے‪ ،‬ان کا ب ھی ذکرہ ک ی ا‬
‫صلوات ہللا وسالمہ علی ہ وعلی کل من ھو مُن ہ والشی خہ۔‬
‫ہللا تکا صلوۃ و سالم ہ و اور ہ ر اس ص پر ج و ٓاپﷺ کی‬ ‫ب‬ ‫’’ٓاپﷺ پر‬
‫ے‘‘۔ ٓامی ن‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ٰ‬ ‫ر‬ ‫گی‬ ‫س‬ ‫وا‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ارگاہ سے کام‬
‫ھ ہ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫سف ن‬
‫ی‬ ‫ش‬ ‫ف‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫سم‬ ‫کی‬ ‫مک‬ ‫خ‬ ‫کے‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫حسن کھا لیہ‬
‫ا‬
‫ے اور اس‬ ‫ت کی ا ہ‬ ‫ع‬
‫من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد کا اردو ر مہ المہ پرو یسرت دمحم ت ہزاد مج ددی فی ے‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ا‬
‫کہ‬ ‫ن‬‫ں‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ے ہ ں۔ اس کے سا ھ سا ھ عالمہ ص خاحب ً رمان‬ ‫ی‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫یﷺ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫کت اب م ں ش ما ل مصط‬
‫ن‬ ‫ی‬
‫ق ہللا کی مخ لوق ( صوصا) سل ا تسا ی کو اپ ی‬
‫ی ک شی‬ ‫ئ ح‬ ‫ی‬
‫کرام اور ا مہ م ی ن کے ار تادات کے م طاب ف‬ ‫ت ض ل ق ن‬‫ماء‬ ‫ع‬
‫ے۔ ش‬ ‫ہ‬ ‫ٓابﷺ‬‫ب تت‬ ‫م‬ ‫الت‬ ‫س‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫عر‬ ‫م‬ ‫وہ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫اج‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ز‬‫ی‬ ‫چ‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ادہ‬ ‫ی‬ ‫ز‬‫ن‬‫سے‬ ‫دگی‬ ‫ات ز‬ ‫مام روری ح ق‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫پ‬ ‫ب‬
‫سے ت ہ ر رکی ب و ی ئ نل‬ ‫عالم ا سا ی ت می ں ٓاپﷺ ن‬ ‫ے کہ ف‬
‫مصط‬ ‫نف مم ی ہ ی ن ت ھی ا ی ج گہپ تلم ہ‬
‫ات‬‫ے۔ت سرور کا ف ئ‬ ‫ُ‬ ‫ھ‬
‫یﷺ کے ونود می ں ڈ لت ان ظ ر ٓا ا ہ‬ ‫ج‬ ‫ے کی نو کہ حخسن و ج مال کا ی بک ِرحا م دمحم م ظ‬ ‫ا کن ہ‬
‫رالزماںﷺ ی ث ی ت ع ب د کا ل اہ ری و ب اط ی حسن و ج مالقکے ناس مر ؐ ب ہ کمال پر ا ز‬ ‫خ‬ ‫ٓا‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ودات‬ ‫خ ر موج‬
‫ے۔ سن و ج تمال کے خسب ہشتو گار ٓاپ کی صورت‬ ‫ح‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ح‬‫ت‬
‫سن ل ر ئی ئہ‬ ‫ہ قی ں ج ہاں سے ہ ر سی ن کوخ ی رات جم‬
‫ے ہ ی ں کہ ازل ا اب د اس اکدان س ی می ں ٓاپﷺ کی‬ ‫ی گ‬‫ے‬ ‫کرد‬ ‫مع‬ ‫ا دس مین نں بممدرج ہ ا م اس وبی سے‬
‫خ ئ‬ ‫ین ن‬ ‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫مث ال مل ا ا کن‬
‫ئو د ی وی محاسن و صا ص‬ ‫اور انف د ی‬ ‫صورت و سی رت سے ٓاگاہ ی ج‬ ‫ات اور ن‬ ‫ٓاپ فکے احوال تو کی ی ت‬ ‫ق‬
‫نں ضمع رماے ہ ی ں۔ ن ق ق‬ ‫ئذات گرامی می‬ ‫ٓاپ کی‬
‫ہ‬
‫عالی ےت‬ ‫عالی ہ سےضوا ی ت ج و ہللاش ب ئارک و ٰ‬
‫امت‬ ‫ن ح ورﷺ کے ما ل فل کی ب ات کرے وے مصن ف قے حج بورﷺ کے چ شہرہ ا ور‪ ،‬دو خ‬
‫ئعادت‪ ،‬چ مان م ب ارک‪ ،‬ر سار‬ ‫گت تم ب ارک‪ ،‬م ب ہارک قز ی ں‪ ،‬نمعطر ب دن‪ ،‬سرالپ ا م بشارک‪ ،‬سر ا دس‪ ،‬ی ن س‬ ‫زی ب ا‪ ،‬ر ب ن‬
‫ارک‪ ،‬گردن منب ارک‪،‬‬ ‫ش م ب ارک‪ ،‬تموے م ب خ‬ ‫ارک‪ ،‬جہ ہ ی ریش ں‪ ،‬ری‬ ‫دان م بئ ق‬ ‫م ب ارک‪ ،‬ی ہی یم ب ارک‪ ،‬د ن غا دس‪ ،‬د ن‬
‫کا خذکر ب ہت وب صورت ا ت خداز سے‬ ‫ل م ب نارک‪ ،‬زا وے م دس‪ ،‬کم و سی ن ہ م ب ارک‬ ‫ارک‪ ،‬ب ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫سی ن ہ م ب ار‪ ،‬ھ ت لی م‬
‫ے حمبن وبﷺف کے ج سم اطہر کو اس طرح یل ق ک ی ا کہ ہللا کی اس یل ق‬ ‫عالی ے اپ‬ ‫ارک ون ہ ٰ‬ ‫ے کہ ہللا ب‬ ‫کی ا ہ ئ‬
‫یﷺ۔‬ ‫مصط‬ ‫ی‬ ‫پ‬
‫می ں نکو ی می اور ی ہ ر ی اور ایسا پر ور کر‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ظ‬ ‫چہرہ ا ور‬
‫ے‬‫ے کہ ٓاپﷺ کا چہرہ ا ور ایس‬ ‫ب‬
‫ری ص ات می ں سے ی ہ ھی روای ات م ں‬ ‫ت ٓاپﷺ کی ا‬
‫ت‬ ‫ے۔ ی ہ ٹ‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫م‬ ‫چ‬ ‫ل‬ ‫ودھوی ں کی ہدرخئ ش اں رات م ں در کام‬ ‫ےچ ت ف‬ ‫چ مکت ا ھا ج ی س‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ی ب‬ ‫ب ن‬ ‫ف‬
‫ہرہ‬
‫ے و تٓاپ کا چ ت‬ ‫سے ٓاپ کیکطرف ا ھ ی شہ‬ ‫ہللا کی و ی ق ی ا ت نہ کو ی ھی گاہ تج ب پورےن ذوق ن‬ ‫ق‬
‫دس اسے سورج اور چ ا د کی طرح لگت ا ھا ب لکہ رخ ا ور ان دو وں سے ہی ں ب ڑھ کر رو ن اور اب دار ھا۔‬ ‫قا ق‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ی‬
‫ض ب‬‫ز‬ ‫امت‬ ‫دو‬
‫ے ی عنی کو ا ق امت سے ب ل ن د اور طوی ل ال ق امت سے ک ھ کم ب ل دن‬ ‫ن ق‬
‫ح ور اکرمﷺ ہای ت م ی ا ہ د ھ‬
‫ن‬
‫ت‬
‫چ‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫مط‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬
‫الت رخ نزی ت ب ا ی را‬ ‫مق لع خ تور رنس ق‬
‫ئ تت‬ ‫ت تت ت‬ ‫طع م ب وت د رع ا ی قرا‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫تاورت ی ہ ٓاپ‬ ‫ے‬ ‫ے ھ‬ ‫ے و ٓاپمج ی سرب ل ت دشدکھا یفدی‬ ‫ے ھ‬ ‫لوگوں کے سا ھ چ ل‬ ‫دراز د ت‬ ‫ن‬
‫اور ج ب ٓاپﷺ‬
‫ہ‬
‫لس تمی ں ریف رما وے و ٓاپ‬ ‫ٓاپﷺ سی ت‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫رب کی طرف نسے معج زا ہ طور پر ھا۔ نج ب‬ ‫ق‬ ‫کے ن‬
‫ے۔‬ ‫نکے دو وں م ب ارک ک دھے ب ا ی لوگوں کے ک دھوں سے مای اں ظ ر ٓاے ھ‬
‫ئ ت‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ر گت م ب ارک‬
‫مﷺ کا رن خگ ئن ہ و ش دی د س ن ی دی ما ل تھا اور ن ہ ہ ی ب ہت زی ادہ گ ن دم گوں‪ ،‬ب لکہ‬ ‫خ ن‬ ‫کری‬ ‫ب‬ ‫حب ی ن‬
‫ے۔‬ ‫ت وش ما سر ی مانل گوری ر گت والے ھ‬ ‫ٓاپﷺ ہای ت‬
‫ے‬ ‫ل‬
‫جس سے اری ک دل گمگاے گ‬ ‫ج‬
‫‪73‬‬
‫ن‬
‫فاس چ مک والی ر گت پ ہ الکھوں سالم‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫م ب ارک زل ی ں‬
‫ے‪،‬نٓاپ کی م دستزل ی ں ن ہ و ب ہت‬ ‫ہرے س ی اہ ھ‬ ‫خ حمبتوب دا‪ ،‬دمحم ک یﷺ تکے ب ال م ب ارک گ ن‬ ‫مصط‬
‫ئ ی صورت میخں ھی ں ناور (ہ ر‬ ‫ں۔ ب لکہ ان دو وں کی درم ی ا‬ ‫ل س ی ندھی ھی ئ‬
‫گ‬ ‫زقی ادہ مدار ھی ں تاور ن ہ ہ ی ب ال ن‬
‫ک‬ ‫ت) ایسا لگت ا ھا ج ی س‬
‫ے۔ ٓاپ کے موے م ب ارک چک ھ م دار اور ہای ت‬ ‫سی ے ھی کی ہ و ی ہ‬ ‫ےک ت‬
‫ب‬ ‫و ن‬
‫ے۔(‪)۷۸‬‬ ‫موزو ی ت سے ج دا ج دا ھی ھ‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫سراپ ا م ب ارک‬
‫ے‪ ،‬جس کی وبی می ں کسیت‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫لے ھ‬ ‫ے سم وا ج‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫کے کمال اعت ندال کےت سا ھ ھرے و‬ ‫ٓاپﷺ ن ت‬
‫ے‬‫مالک ھ‬ ‫ض ب ف‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ی‬‫ص‬ ‫ل‬ ‫ت‬‫ی‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫نی‬ ‫س‬ ‫ح‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫دل‬ ‫ت‬ ‫وازن‪،‬‬
‫ی ت م ن مع‬ ‫ت‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ٓاپ‬ ‫ھا۔‬ ‫عی ب کا ش ائ ب تہ تن ک ہ‬
‫ے اور کو ی ع و ھی ا راط و‬ ‫اسب کے سوا چک ھ ہی ں ھا۔ اپ ی ذات می ں جمسم موزو ی ت ھ‬ ‫سن ت‬ ‫ںح ن‬ ‫تجفس می ش‬
‫ری قط کا کار ہی ں ھا۔‬
‫غ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫دس ض‬ ‫سر ا ن‬
‫نرو ارظ ل تمی تں) ب ڑا ھا و ٓاپ کے اعصاب دما ی کے ب ال‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ٓا غح رتﷺ کا سر اض دس (پ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ٓامی زش ( ی ر معمولی طور پر) م ب فوط ہ وے کو ن اہ ر کر ا ھا۔ ت ت‬
‫ک‪ ،‬کب ھی پ ن‬ ‫وں ت ن‬ ‫کا‬ ‫ھے‬ ‫د‬ ‫ٓا‬ ‫ھی‬ ‫وں سے مس ہ و ی ھیتںتو کب‬ ‫ا‬ ‫ارک زل ں کب ھی ش‬ ‫ٓاپﷺ کی تم ب ت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ی‬
‫کات وں کی لو ک ھی و ی ھی ں اور ھی ان دو وں سے ب ڑھ ھی ج ا ی ھی ں کن ک دھوں ک ہی ں چ‬
‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ب‬‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫خ‬ ‫ئ ف ت ت‬ ‫ف‬ ‫پ ا ی ھی ں۔‬
‫ص‬
‫ے اور اس می ں ازواج ہرات کی دمات حا ل‬ ‫ط‬ ‫م‬ ‫کی ٓارا ش رماے ھ‬ ‫ل‬
‫ت ت ٓاپ ھی کب ھار ز وں‬ ‫ب‬‫ک‬
‫ن‬ ‫نگ ف ت ت‬ ‫ے ل ی کن داڑھی ن ف ن ف‬ ‫کرے ھ‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ب‬
‫ں یتہ سعادت ہی ں ٓا کی۔‬ ‫ے‪ ،‬کسی اور کے حصہ میت‬ ‫رماے ھ‬ ‫(ریش) م ب ارکہہمی پںہٓاپ س یس ھی ش‬
‫ے ب عد می ں ہ ر کے‬ ‫سر کے گرد ی ا پ ی ا ی م ب ارک کی طرف چ ھوڑا نکرے ھ‬ ‫ے ن ل ب الوں کو ن‬ ‫ٓاپ پ ن ل‬
‫ے۔ (‪)۷۹‬‬ ‫گ‬
‫ندرم ی ان سے ما گ کال لی اور دو وں طرف دو دو کی صورت می ں چ ار ی سو ب الی‬
‫ارک ن ت‬ ‫د دان م ب ٹ‬
‫ف ن‬ ‫ت‬ ‫ف ن ن‬ ‫ے د د مو ی دی اں نن لڑی اں‘‘ ن‬ ‫ہ‬ ‫’’چ‬
‫ت‬
‫ے‪ ،‬ی د وشے کے‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫چ‬ ‫س‬ ‫ٓاپﷺ کے تد تدان م ب شارک (ا ت‬
‫ے ھن‬ ‫ورا ی اور ی ل‬ ‫مول) حد درج ہ ت ی د‪ ،‬ن ت‬
‫ے‪ ،‬ئ‬ ‫ئ کار ب ھی پھن‬
‫ن‬ ‫اور‬
‫ت ت خ‬
‫کے دا وں کی رطوب ت ( ری) ی ری ں ھی‬ ‫ٓاپ‬ ‫سن ر ی نبن تکا اہ‬ ‫سا ھ ن تسا ھ وش فمئ ظ ر اور ح‬
‫ٓاپﷺ تکا لعاب دہ ن (م ب ارک)‬ ‫ہ‬ ‫ص ا ی کا ک ا کہ ن‬
‫ت‬ ‫کمال کوئ چ غی ہ و ی ھی۔ ف‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫ب‬ ‫وہ‬ ‫ا‬ ‫یت‬ ‫اور دا وںٹکی ن‬
‫ش‬ ‫خ‬ ‫کے نطور پر ک ای ت کر ا ھا۔‬ ‫ت‬ ‫دودھ کی ج اے ذا ئ‬ ‫ن‬
‫ج‬
‫ے پ ا ی کی طرح ھا نو چ وں کو‬ ‫گاڑھے می ھ‬
‫ے ب لکہئ ان می تں ہ لکا ساخ ال اور ک ن تادگی‬ ‫ے ہی تں ھ‬ ‫ےہ و ن‬ ‫لے دو دا ت ب اہ م مل‬ ‫ے وات ت‬ ‫ٓاپﷺ کےگفسامف‬ ‫ت‬
‫ے و ان کے درم ی ان سے ور ج ھڑ ا ہ وا دکھا ی دی ت ا ھا اور ری وں (دا وں‬ ‫ھی۔ ج بخ ٓاپﷺ ت گو رما ت‬
‫کے ماب ی ن الی ج گہ) می ں چ مکت ا رہ ت ا ھا۔‬ ‫ش‬
‫ئ ت ت‬ ‫نت ف‬ ‫ئ‬ ‫ل جہ ہ ی ری ں ض ن‬
‫ے تحد‬ ‫کا ل جہ ہ ب ت‬‫ٓاپﷺ ن‬ ‫ش‬ ‫ت ح ور ا ورﷺ کے زب ان و ب ی ان می تں ا ہا ی صاحت پ اگفی ج ا ی ھی۔‬ ‫ش‬
‫ٓاپﷺ کی ت گو می ں لچ ر پ ن اور گلہ کوہ ہی ں ہ و ا ھا۔‬ ‫رعب ھا۔ ن‬ ‫طرح کا ت‬ ‫ٓاواز می ں ای ک‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫ھا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫می ںخ ث ار ی رے کالم پر مخلی یوں و کس کو زب اں ہی ں‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ے جس ضکا ب ی اں ہی ں‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫نن ن ہ ہ و وہ ب ی اں‬ ‫ے جس می ں س‬ ‫وہغ س ن خہ‬
‫ع‬‫م‬
‫ٓاپﷺ نکےن مام اع اء و اج زا اور حواس کو ایسا ی ر مولی ب ادی ا کہ اس‬ ‫ے‬ ‫ث ال رض الق لم یزل ن‬
‫ے۔‬ ‫ن‬
‫دوسرے ا شسان می ں پمل ا اممک ات می ں یسےت ت‬ ‫ال کسی‬ ‫کی م ل و مث‬
‫یک ت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے‬‫ت‬ ‫سے د ھ‬ ‫ے ف‬ ‫ے ج یسا کہ ٓاگے اور ہسام‬ ‫ے ھ‬ ‫ےہ ید ھ‬ ‫سے ایس‬ ‫ن‬ ‫سرور کو ی نﷺ اپ ی پ تقکے یچ ھ‬
‫ے‬
‫ش‬ ‫ت‬
‫ے ی الحظ ہ رماے‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ٓاپﷺ رات کے و ت اور دی د ا دھی رے می ں ھی (چ یزوں کو) ایس‬ ‫ق‬ ‫ے ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‪ ،‬ایس‬ ‫تھ‬
‫اور ب تہت‬ ‫ے ج یساش نکہ دن کے و فتت‬ ‫ھ‬
‫نت‬ ‫ن‬ ‫نت ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫زی ادہ رو ی می ں مالحظ ہ یرما ت ت‬
‫ے‬ ‫ے دوسرے ہی ں ج ا‬ ‫ے جس‬ ‫ے ھ‬ ‫ے ج و دوسروں کو دکھا ی ہی ں دی ت ا ھا اور وہ ج ا‬ ‫ے ھ‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫ٓاپﷺ وہ د ھ‬
‫ے۔ (‪)۸۰‬‬ ‫ھ‬

‫‪74‬‬
‫ت‬ ‫نئ ن‬ ‫تت‬
‫ک‬ ‫ف‬
‫دوسروں کوخ سش ا ی ہی ں دی ت ا ھا۔ ٓاپﷺکا ف الم اور وعظ ندور ت ت‬
‫والوں کو‬ ‫ے تو‬‫ج‬ ‫ے ھ‬ ‫ٓاپ وہ سب سن ئ‬ ‫ق‬
‫ے۔‬‫ے ھ‬ ‫سے سو گھ یل‬ ‫ے‬
‫ل‬ ‫ص‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫کو‬ ‫زوں‬ ‫گر‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫اس‬ ‫ت‬
‫اور‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫ٓاپ‬ ‫ؑ‬ ‫اور‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫طرح‬ ‫ق‬ ‫کی‬ ‫والوں‬ ‫ب‬ ‫ر‬
‫ہللا تی عالی ے ٓاپ کے ت مام ا ض‬ ‫ن‬ ‫چ‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ش ی غ‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫ین‬
‫اء‬ ‫رض‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ھی۔‬ ‫ز‬ ‫پ ی‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫مولی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ئ ت جی‬ ‫امہ‬ ‫وت‬ ‫کی‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ی‬ ‫ع‬
‫نع ؑ‬ ‫تٰ‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ٓاپﷺ کو دی گر ا ب ی اء کرام‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ال‬
‫ت ل م ہ‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫اور‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫صول‬ ‫ی ھن ہ ح ث‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫رکھ‬ ‫االت‬ ‫م‬ ‫ن‬‫ک‬ ‫وہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ارکہ‬
‫مب ی‬
‫ے اور اکارہ لوگوں ہ ی سے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ٓا‬ ‫اعث‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫لی‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫ر‬ ‫اک‬ ‫ی‬ ‫ما‬ ‫کہ‬
‫ک ج‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ھی‬ ‫ی‬ ‫ٓا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ما‬ ‫ج‬ ‫طرح‬ ‫کی‬
‫ے۔ ن‬ ‫صدور و ا‬‫ہ‬
‫کے ت مام ظمحامد و محاسن بن درج ہ‬
‫ت‬
‫اس غب زم ہشخس ی می ں حسن صورت اور حسن سی رت ت‬
‫ت‬
‫ے‬ ‫خ‬ ‫ہت عالیش‬ ‫و‬ ‫ارک‬ ‫تاس کا ہللا ت‬
‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ارک ت صی ت پ ی‬ ‫ٰ‬ ‫ئ ئب‬
‫ے۔ ای ک طرف و مام اہ ری و ب اط ی‬ ‫تہ‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫اںﷺ‬ ‫م‬ ‫رالز‬ ‫ٓا‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫ےگ‬ ‫ا م سمودی‬
‫حاسن کو ایئک توج ود می ں مع کردی ا گ ی ا خاور صی حسن و ج مال کے مام مظض اہ ر ج و ج ہان ٓاب و گل می ں ہ ر سو‬ ‫مم ن ت ش‬
‫ے کا‬ ‫سرا‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫س‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫گرامی‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫دا‬ ‫وب‬ ‫ب‬‫م‬
‫ح‬ ‫ھی‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫وہ‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫د‬ ‫ر‬
‫پ‬ ‫نہ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫یف ی‬ ‫ت‬
‫ے۔ ج و ہ مارے‬ ‫قذکرہ دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ے ب ہت ع ی دت و اح رام سے اپ ی اس صن ی ف می ں ک ی ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ب غم الے کا حصہ ہ‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن ت‬ ‫غ‬ ‫ق‬ ‫ل م ب ارک‬
‫رت ےتاس کی ر گت س ی د بن ی ان کی ت‬ ‫ی ن‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ھ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ال‬ ‫ں‬
‫ق ی ب‬ ‫م‬ ‫لوں‬ ‫ب‬ ‫دس‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫اگوار ن ہ ھی اور ان می ں ب دب و ہی ں ہ و ی‬ ‫زاعی کی ت سف ی د رن گتخ ج شیسیت ت‬ ‫ے ل ی کنغ ی ہ س ی دی ع ب دہللا ب ن ا رم ا نلخ‬
‫ف‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ج‬
‫ھی ب لکہ ب لوں کے پ سی ہ م ب ارک سے ای اب کس وری یسی و ب و ٓا ی ھی۔ (‪)۸۱‬‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ ل‬ ‫ت‬ ‫وت‬ ‫ب‬ ‫مہر‬
‫ب‬
‫ھی۔ ی ہ ا ھرے‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫پ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫کے دو نوں ک دھوں کے در نم ی ان (ج ا ب ت) ہر ب وت ت‬ ‫ئ ا م ا ش ی نﷺ ئ‬
‫ھے کو ہ ڈی سے زدی ک ھی۔تک تل می ں سی ب ی ا کب ون ری کے‬ ‫ہ ن وے سرخ تگو ت کی طرح ب ا ی ں تک د ت‬
‫ے اور اس پر چگ ھا ما ب ال ب ھی‬ ‫ے ج و مسوں کی طرح معلوم ہ وے ھ‬ ‫سی تھی۔ اس کے اردگرد ل ھ‬ ‫ا ڈے ج یت‬
‫ے۔‬ ‫معلوم ہ وے ھ‬
‫ئ ن ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫م ب ارک اینڑھضی اں‬
‫ی‬
‫رتﷺ کی م ب ارک ایڑ فھ ی ئاں تکم گو ت والی ھی ں ع ی زی ادہ ب ھری ہ و ی ہی ں ھی ں اور ہ ر‬ ‫ٓا ح ن‬
‫کتت‬ ‫ٹ ت ت‬ ‫نت ن‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫حاظ‬ ‫حسی ن ایڑھی پر اپ ق ق ل‬
‫کے‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫ے‬
‫ےو‬ ‫ے اور ج ب زمی ن پر ر ھ‬ ‫ے ا داز سے ا ھاے ھ‬ ‫ےل‬ ‫نٓاپﷺ دم ا دس کو زمی ن سے بزور اور اپ‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫کت‬ ‫رمی‪،‬‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہا‬
‫ن‬ ‫ے۔ ن‬
‫ے‬ ‫ے‪ ،‬ہای ت م ی ا ہ روی سے چ ل‬ ‫ے ھئ‬ ‫سے دمتب ھر پ یکر چ ل‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ار‬ ‫و‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ئ‬ ‫ک‬
‫ھ‬ ‫ے‬ ‫اور تاح ی اط قسے ر ھ‬ ‫ن‬ ‫زی ت‬ ‫ن‬ ‫یعاجن‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫ں۔ ن‬ ‫ے رہ ج ا ی ت‬ ‫سے ٓاگے ل ج ا ی ں اور ہ ا ا ٓا س ہ کہ ئچ ھ‬ ‫ع ی ہ ا ا ی زت کہ ب ا ی وں خ‬
‫ے والے ینز کل کر ج ب‬ ‫چل‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫ت‬
‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬‫ت‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫دی‬ ‫ٹ‬ ‫ل پی‬‫ل‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫سے‬ ‫ی‬ ‫صور‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫ایسا ھا گوی ا زمی ن‬ ‫پ نت ت‬
‫ے می ں ٓاگے کی‬ ‫رواں ت ت‬ ‫مولتکے م طابق (بنال ت لف) ئ‬ ‫ک‬ ‫ش‬ ‫ع‬‫م‬ ‫ٓاپ تکو‬ ‫پ اس ہ‬
‫ے‪ٓ ،‬اپﷺ چ ل‬ ‫دواں پ اے ھ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ےو‬ ‫چ‬
‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ے کی طرف ما ل رہ‬ ‫ے اور ک ی کی طرح سام‬ ‫ے ھ‬ ‫طرف ج ھکأو رن ھ‬
‫ع‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ںہ‬ ‫احمد‘‘ می ق‬ ‫ن‬
‫’’مس د‬
‫ٹ‬
‫اطول منن بت شی ۃ اصا ھما لدین ہ۔ (‪ )۸۲‬ت‬ ‫ت ف‬ ‫ا ہ س ب اب ۃ دم قی ہ کا ش‬
‫ے کے سا ھ والی‬ ‫ن’’ٓاپ قکے ن دمی ن ری ی ن کی ا گ ت س ب اب ہ (ا گو ھ‬
‫ا گلی) تب ی ہ ا گ یل وں سے ذرا لمب ی ھی‘‘۔‬
‫ت‬ ‫خ ق‬ ‫اوصاف خحم ی دہ‬ ‫ن‬ ‫اں ہضوں ی رے‬ ‫کس من ہ سے ب ی ن‬
‫ف‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ٓا ح رتﷺ کی ب اط ی وب یوں اور ب ل د پ ای ہ ا ال ی ص ات کا ذکرہ ب ھی روای ات می ں ب ی ان‬ ‫ایس‬
‫ُ‬ ‫ف‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫ص‬
‫ے۔‬ ‫ہ وا ہ‬
‫ے ہ ی ں تکہ‬ ‫ت‬ ‫ں امام صاحب بح ورﷺ کی ان اوصاف حم ی دہ کا ذکرتکر‬ ‫اس ل می ئ‬
‫م‬ ‫ب‬
‫حات و ل ب اری ع ٰالی ک ہ ری ن اور کا ل‬ ‫ص‬ ‫لے کر م ت‬ ‫ل‬ ‫ن‬
‫ٓاپﷺ اواع لت عمر اور زما ہ چ پ ن سے ت‬ ‫اخ الق کے حام‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫صف‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫دہ‬ ‫ی‬ ‫حم‬ ‫اوصاف‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫لی‬ ‫ٰ‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ل‬
‫ے ہ ی سی رت و ا الق‬ ‫ے ایس‬ ‫سب لوگوں سے زی ادہ حسی ن و م ی ل ھ‬ ‫صورت می ں ت‬ ‫ٓاپﷺ جس طرح خ‬ ‫ت ن ن‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫می ں ب ھی مام ا سا وں سے ب ڑھ کر وبی والے ھ‬
‫ے۔ عہد و پ یمان کو سب سے زی ادہ‬ ‫ٓاپﷺ سب سے ب ڑھ کر چس ی ب ات اور چس ی زب ان والے ھ‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬
‫ے۔‬ ‫ب ھاے والے ھ‬
‫‪75‬‬
‫ت‬ ‫ف‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫کہ‬
‫ے۔ ی ہاں ک ق‬ ‫ن لوگوں می ں سب سے زی ادہ حش اور اپ س ن دی دہ امور سے تگریزت رماے والے نھ‬
‫ت داری‪ ،‬صدا ت‬ ‫ے ٓاپ کو صادق اور امی ن شکہہ کر پکارا ج ا ا ھا ج و کہ ٓاپ کی اما ن‬ ‫سے ب ھی پہل‬ ‫اعالن ب وتش ن‬
‫ے اور اس ب ات کی ہادت ھینکہ ٓاپ کے رب ے ٓاپ کی ذات‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫اور پ اکی فزگی کی ا دار قگوا ی ف ھی ہ‬
‫ے۔ ت‬ ‫نہ‬ ‫وازا‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ما‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫ن‬ ‫حاسن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ے‬‫اع ٰلی ص ات کو کس در ص ات ش ت ی س س‬
‫چ‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫اور‬ ‫ہ‬ ‫عال‬
‫اک سے زتی ادہ‬ ‫ے اور ہکر ن ف‬ ‫سب سے ب ڑھ کر ر ت ہ داروں کے سا ھ ی ک سلوک فکرے واشلےخ ش ھ‬ ‫ٓاپ خ‬
‫ے۔‬ ‫ے والے ھ‬ ‫تر ھ‬ ‫سب سے زی ادہ ہللا کیتمعرت ت اورض دی د ی‬ ‫ے۔ ض‬ ‫مالکت ھ‬ ‫حسی ن سی رت غو ا الق کے ف‬
‫ل‬ ‫پ‬
‫ے۔ و ع داری کا ی کر اور یص ح ا لسان‬ ‫ت ش ٓاپ صہ ب ہت کم رماے اور را ی ب ہت ج لد ہ وج اے ھ‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ ی ری ں ب ی ان اور ت‬ ‫ھ‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫الک‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫درست‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫سب سے ز ادہ معزز اور خت‬ ‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫یب‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫رعب‬
‫ن‬ ‫پ‬ ‫ی ت‬
‫الزمی طور پر د ی وی‬ ‫موالت کا کو ینلمحہ ایسا ن ہ ھا ج و للہی ت سے خ تالی ہ و ی ا جئس می ں ئ‬ ‫ٓاپ کے نمع ت‬ ‫ئ‬
‫ی ج تھگڑے والے‬ ‫ے۔ہب ڑا ی‪ ،‬حسد ی اف لڑال ت‬ ‫اور عناج زی واشلے خھ‬ ‫الح کا کوف ی پ تلو ت ہ ہ و ان ہ و۔ ٓاپ صہای ت ح ی اء پ ن‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫اص‬
‫ع‬
‫ے۔ ب ینعلی ہ ال لوۃ والسالم ا ی لیت ت‬
‫ے اور کپ نڑوں‬ ‫ے ھ‬ ‫مرمتترما تی‬ ‫ود ی خ‬ ‫ف ث‬ ‫ن ری ن‬ ‫ب‬ ‫پ‬
‫ےت تھ‬ ‫رک رمادی‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫امور کو‬
‫پ‬
‫ےا ل‬ ‫ہ‬ ‫ٓاپ اپ‬ ‫ے۔ خ‬ ‫ے اک ؓر کام ود کرتے ھ‬ ‫ے اور امپ‬ ‫ے ھ‬ ‫ل‬
‫ت تھی دوھپ ین‬ ‫ے۔ ا ی ب کری کا دودھ‬ ‫ن‬ ‫ے ھ‬ ‫ل‬
‫ھی لنگا ی‬
‫خمی نں یو د ت‬
‫پ‬
‫سن و وبی کا‬
‫م‬ ‫ہرات کے سا ھ کمال ح ت‬ ‫گ‬
‫ے۔ ا ت ی ازواج ط‬ ‫ے ھت‬ ‫کے تسا ھ گہای ت مہرب ا ی سے یش ٓا ت‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫اہ‬
‫ے۔ ان کے ھروں می ں ان کے سا ھ ل کر‬ ‫ے۔ ھری لو کام کاج می ں ان کا ہ ا ھ ب ٹ اے ھ‬ ‫ےٹ ت ھت‬ ‫روشی ہ ر ھ‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬
‫ت گھ م ب ی ت‬ ‫ف ت‬ ‫ے۔‬ ‫ے ھ‬ ‫گو ت کا‬
‫ے‪ ،‬ان کے مری وں کی‬ ‫ے ھ‬ ‫ھ‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫ل‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫ف‬ ‫کے‬ ‫ان‬‫ت ش‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫ت‬ ‫حب‬‫م‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫سا‬
‫ف م ی‬ ‫ت‬ ‫ٓاپ‬
‫ت‬ ‫ے۔ ئ ت‬ ‫ے ھ‬ ‫ن‬
‫ازوں نمی ں ان کے سا ھ رکت رما ن‬ ‫ئ‬
‫ع ی ادت رماے اورخج خ‬
‫ٓارزو تھی کہ‬ ‫کی‬ ‫ہاڑوں‬ ‫د‬ ‫ے۔ ب ل ن‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫وازے‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫ساری‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫وں‬ ‫زا‬ ‫ٓاپﷺ دا ی‬
‫ت‬ ‫ئ پ‬ ‫گ‬ ‫ی ئ‬ ‫ن‬
‫ے ب ن ج ا ی ں اور ج ہاں ٓاپ ج ا ی ں ٓاپ کے سا ھ سا ھ‬ ‫ج‬
‫نہ ر ی ا اتج ن اس ی ا و ٓاپ چ اہ ی ں ویس‬ ‫ے زرو ج وا‬ ‫کے لی‬ ‫ٓاپ‬
‫ی‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ا۔‬ ‫ز‬
‫فی ک ی‬ ‫گر‬ ‫اور‬ ‫اب‬ ‫اج‬ ‫ے‬ ‫ٓاپ‬ ‫کن‬ ‫ں‬ ‫چ لی‬
‫ہ‬ ‫س‬
‫اس ہی ں ک ی ا ج ا ش کت ا اگرچ ہ وہ ک ا ی‬ ‫سی غاور کی ح ی اءئ پر ی ن‬ ‫ٓاپ کی ص ت ح ی اء کو ک پ‬ ‫مث ال کے طور پر‬
‫ے والی ح ی اءنو رمنٓاپ فﷺ کا پَر‬ ‫تکامل ح ی اء واال ہ و۔ ب لبکہ کسی ھی مومن‪ ،‬ولی ہللا اور مب ر می ں پ ا ی ج ا ت‬
‫ی‬ ‫ب‬
‫ے۔ ٓاپﷺ و وہ ہ ی ں ج ہوں ے ص ت ح ی اء‬ ‫ہ‬ ‫کے حر ب ی کراں کا ای ک چ ھ ی ن ٹ ا (چ لُّو)‬ ‫اور ٓاپ ف‬ ‫ے ت‬ ‫وہ‬
‫ض‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫خ ت‬ ‫ے۔‬ ‫کا ب کمال ا مام احاطہ رمای ا ہ‬
‫ف اور کمال و ی لت کے ب ارے‬ ‫ٓاپﷺ کے ہ ر وصف و وبی‪ ،‬عریف و وصین‬ ‫ت‬ ‫اسی طرح‬
‫ے‪:‬‬ ‫ے کی ہ‬ ‫ے و ٓاپﷺ کے رب کری م عزوج ل ے ٓاپﷺ کی مدح ایس‬ ‫ے۔ اسی لی‬ ‫می ں کہا ج اسکت ا ہ‬
‫ق َع ِظيت ٍْم۔(الق خرٓان& ‪)۴:۶۸‬‬ ‫ٍ‬ ‫ک‪ ‬لَ َع ٰلی ُخلُ‬ ‫َو اِنَّ َ‬
‫ً‬ ‫ع‬ ‫ش‬
‫الق والےفہ ی ں‘‘۔ ت‬ ‫ؓ‬ ‫ے ک ٓاپ ظ یض م ری ن ا‬ ‫م’’سب‬
‫ف‬
‫سے مر وعا روایق تنکرے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ن‬
‫رت اب وہ ریرہ ش‬ ‫‪۱‬۔ امام ن لم اور امام اب ودأود‪،‬قح ن‬
‫ا شا فس ی د ولد ٓادم یوم ال ی امۃ وا ا اول من ی ق عن ہ ال ب ر وا ا اول ش ا ع وا ول‬
‫خ ئ‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ظ‬ ‫ع۔ض(‪ )۸۳‬ق‬
‫ںن اہ ر ہ وے والے صا ص ب ی ان کرے ہ ی ں اور ان‬ ‫امام صاحب ح ورﷺ کی ی امت می ش‬ ‫خ‬
‫ے کہ‬ ‫ج‬
‫ےہی ں یس‬ ‫صوص ی ات کو وہ درج ذیقل احادی ث م ب ارکہ کی رو ی می ں ب ی ان کی‬
‫ے‬ ‫سردار ہ وں گا اور سب سے پہل‬ ‫ٓادم کا ش ف‬ ‫’’می ںق ی امت کے دن اوالد‬
‫ے می ری‬ ‫ے می ں اعت کروں گا اور پہل‬ ‫ے قگی اور سب سے پہل‬ ‫ری ب ر کھل‬ ‫ہمی ش ف‬
‫ن‬
‫نول وگی‘‘۔ ق‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ی اعت ب‬
‫ؓ‬ ‫ن ض‬ ‫ف ً ‪۲‬۔ امام احمد اور ت رمذی ے ب س ن د حسن یح‬
‫ص ح ل ک ی ا اور امام اب ن ماج ہ ے ح رت اب و سع ی د خ دری سے‬
‫ف‬ ‫ف‬ ‫ے‪:‬‬
‫لواء الحمد وال خ ر وما من ن ب فی وم ذئ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ق‬
‫ل‬ ‫مر وعا روای ت ک ی ا نہ ف‬
‫ی ن‬ ‫وم ا ی امۃ وال خنر وب ی دی ت ش‬ ‫ا ا س ی د ولد ٓادم ی ت‬
‫من سواہ فاال حت لوا ی وا ا اول من ق عن ہ االرض وال خ ر وا ا اول‬ ‫ٓادم ش ف‬ ‫ف‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ش ا ع و قع وال خ ر۔ (‪)۸۴‬‬ ‫م‬
‫(اس پ فر) نکو ی خ ر ہی ں‬ ‫’’می ں روز ی امت اوالدتٓادم کا سردار ہ وں گا اور ئ‬
‫اور حمد کا ج ھ ن ڈا می رے ہ ا ھ می ں ہ وگا۔ اور (اس پر) کو ی خ ر ہی ں‪ٓ ،‬ادم‬
‫‪76‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ ن‬
‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫علی ہ السالم اور ان کے عالوہ کو ی قہی ں ایسا ہی ں وگا و می رے پ نرچ م ل‬
‫ے‬
‫ے گی اور (اس پر) شکو فی خ ر ہی ں‬ ‫ری ہ ی ب ر کھل‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ےم‬ ‫ن ہ ہ و اور سب سے پہل‬
‫اعتنکروں گا اور می ری ہ ی اعت‬ ‫ف‬ ‫ے می ں ہ جی‬ ‫اور سب سے پہل‬ ‫ق‬
‫ف ً‬ ‫‘‘۔‬ ‫ؓ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ر‬ ‫خ‬ ‫ھ‬ ‫ے‬
‫پن ض چک‬‫ھ‬ ‫م‬ ‫ر)‬ ‫(اس‬ ‫اور‬ ‫وگی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ول‬ ‫مب‬
‫ے‪:‬ت‬ ‫روای ًت ک ی ا ہ‬ ‫سے مر وعا ف‬ ‫رت اب ن عفب اس ؓ‬ ‫صاحب ’’س ی لن دارمی‘‘ ے ح ن ض‬ ‫ش‬ ‫‪۳‬۔‬
‫ھ) ح رت اب ن ع ب اس سے مر وعا روای ت کرے ہ ی ں‪:‬‬ ‫‪۴۴۵‬۔ ‪ ۵۰۹‬ل‬ ‫‪۵‬۔ امام ن ج اع الد می ( خ‬
‫وال خ ر۔ (‪)۸۶‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫من‬ ‫ن‬ ‫وا ا س ی د االولی نت وآال ن ی‬
‫ر‬
‫س ی ع‬
‫ہ‬
‫ے مام ا ب ی اء و مر لی ن ( ل ہم السالم) کا سردار وں اور ی ہ‬ ‫ی‬ ‫ف’’اور می ں پہلن‬
‫خ ً‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫‘‘۔ ض‬ ‫خ ر کے طور پر تہی ں کہت ان‬
‫ے‪:‬‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫رت ا سف ب ن مالک ق‬
‫سے ص را روای ت ک ی ا ہ‬ ‫ےح ؓ‬ ‫ام رمذی‬ ‫اور ام ض‬ ‫‪۴‬۔ امام دارمین‬
‫ے‪:‬‬ ‫‪۵‬۔ امام ندی لشمی ے نح رت ج اب ر ب ن ع ب دہللا نکی مر قوع روای ت ل کی‬
‫ف‬ ‫ف‬
‫ہ ف‬ ‫ا ا ا رف ال اس حس ب ا وال خ ر واکرم ال ناس درا وال خ ر۔‬
‫ف‬ ‫ع‬
‫ہ‬
‫سب و نسب کا مالک لوں اور چک ھ خ ر‬ ‫ق‬ ‫ن’’می ں سب لوگوں سے ا ٰلی ح‬
‫ن ہی ں اور سب لوگوں سے زی ادہ درو م زلت رکھت ا ہ وں ی کن چک ھ خ ر‬
‫ہی ں‘‘۔‬
‫ای مان کی ج ان‬
‫ت‬ ‫ش ً‬ ‫رادران گرامی!‬
‫عالمﷺ کی مب ت ً رعا ًالزم ن ہ ب تھی ہ و ی پ ھر ب ھی ٓاپ ف‬ ‫ق‬ ‫باگر ِ‬
‫سن و کمال سےن‬ ‫ش‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫ض‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫دو‬ ‫سرکار‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫قف‬
‫ے واال ہ ر عا ل تٓاپ شسے ذو ا و طب عا حمب ن‬
‫ت ضکر ا اور اسے ٓاپ کے تل و رف سے ا حراف‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ت رشھ‬‫وا ئی ن‬
‫عالی کے الزم کردہ‬ ‫ہللا ٰ‬ ‫مول اس کے کہ ٓا ح رتﷺ حکی حمب تک ت‬ ‫کا کو ی ا دی ہ ھی ال ق ظہ و ا۔ ن‬
‫ے ب لکہ ی ہ کسی ب ھی‬ ‫ھ ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫ثی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ل‬‫او‬
‫ش ی‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ن ی‬ ‫امور‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ےج ا‬ ‫نامورمی ں سے الب دی اور ا ہار یک‬
‫ے۔‬
‫ے (ب ی نادی) رط ہ ن‬ ‫م‬
‫ا سان کے ای مان کی صحت وکا ل بی تنکے لی‬
‫ے اور ی ہ حمب ت‬ ‫ت‬
‫ے والی ہ‬ ‫ے والی اور ہ م سے ٓازاد کروا‬ ‫ج‬ ‫ف اور ی ہ حمب ت ہ الکت سے چ اش ئ‬
‫ے۔‬ ‫ب‬ ‫ض‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫(مصط وی) ای مقان کی‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫لذت سےٓا ا ی ع طا کرکے اور ر ہ من کی ر ا ھی دلوا ی ہ‬ ‫ن‬
‫ے اور ی ہ وہ ظ ی م مر ب ہ‬ ‫ے کا دارو مدار ہ‬ ‫ے جس پر دی ن کے ہ ر ا م معامل‬ ‫(ب ی اد) ت‬
‫ہ‬ ‫اور ی ہ وہ طب ت‬
‫ے۔‬ ‫ن‬
‫ع‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫صول کی م ج ہ‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ا‬ ‫ے جس کے ح ن‬ ‫ہ‬
‫ے اور ی ہ سواے ظ ی م‬ ‫ہ‬ ‫رط‬ ‫ے‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫کے‬ ‫صول‬
‫ت‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫(ﷺ)‬ ‫وی‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ح‬ ‫اس‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے کہ کمال ای مان کےلحاظ سے‬ ‫ہ‬ ‫المر ب ت ا خ خاص اور کاتملی ن امت کے‪،‬ت اوروں کو ع طا ہی ں ہن و ا‪ ،‬ی نہی وج ہ‬
‫ت ی ں اور ی ہ مرا ب و مدارج ان کی ب ی عد انﷺ کی ذات سے کامل حمب ت‬ ‫لوگوں کے م ت لف مرا ب ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫کے مع ی ارکے ئم طابق ہ وے ہ ی ں۔‬
‫ے ا ا ہ ی وہ‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫فلہذا ج و کو یقان می ں ض‬
‫ٓابﷺ کی ذات سے ت ی دی د حمب ت ر ھت ا ہ‬ ‫رسالت م خت ت‬ ‫م‬
‫سے‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ں م ضب وط‪ ،‬کا ل اور پ ہ ؓو ا ہ‬ ‫ن‬ ‫ای مان و عر ان باور ی ی ن می‬
‫‪۱‬۔ امام خ اری و لم حت رت ا س ب ن مالک سے روای ت کرے ہجی ں‪:‬‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ال یومن احدکم ح ی اکون احب الی ہ من والدہ وولدہ وال ن اس ا معی ن۔ (‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫‪)۸۸‬‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ی اس نو نت ک مومن ً ہی ں ہ وسکت ا ج نب ک وہ اپ‬ ‫’’ م می ں سےکو ت‬
‫ت ہ کرے‘‘۔‬ ‫وں سے زی فادہ جم ھ سے حمب ت‬ ‫اور اوالد اور مام ا سا ش ؓ‬ ‫والدی ن ض‬
‫‪۲‬۔ امام ب خ اری ح رت عتب دہللا ب ن ہ ام سے مر نوفعا روای ت کرے ہ ی ں‪:‬‬
‫‪)۸۹‬‬ ‫ت‬ ‫لن یومن احدکم ح ئی اکون احب نالی ہ من سہ۔(‬ ‫ت‬
‫’’ م می ں سے کو ی ہ ر گز مومن ہی ں و کت ا ج ب ک می ں اسے اس کی‬ ‫س‬ ‫ہ‬
‫ن ہ‬
‫ض ج ان سے زی ادہ عزیز ہ وجع أوں‘‘۔ ن ش‬
‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ئ دال ل ہ ی ں۔‬ ‫ن‬
‫ٓا ح رتﷺ کی ف حمب ت کی چک ھ المات اور ا ی ناں ہ ی ں اور چک ھ اس کے واہ د و‬
‫ئ‬‫ٓاپﷺ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫س ت م ب ارکہ کی پ یروی کی ج ا‬ ‫ے کہ ٓاپ کی ن‬ ‫ان میشں سے (سر ہرست) ی ہ ہ‬ ‫ئ ئ‬
‫عم‬ ‫ہ‬
‫کی ال ی ہ و ی ری عت طہرہ پر اس کے احکامات اور اوامر وا یق اور حرام و حالل کے م طابق ل ک ی ا ج اے‬ ‫م‬
‫ے کہ ٓاپﷺ کے راب ت داروں اور اہ ل ب ی ت اطہار سے‬ ‫اور ان عالمات می ں سے (ای ک) ی ہ ہ‬
‫‪77‬‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫فظ‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫م ب ت کت ئ‬
‫ےہ و‬ ‫س‬
‫ے‬ ‫ے اپ‬ ‫ت کی ج اے اور ان کے داب ان ا دس کی ح ا ت و دمت کے لی‬ ‫ئے دلی حمب ئ‬ ‫ل وا ئ گی ر ھ‬ ‫تکا ت‬
‫خ‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫یج‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫کار‬ ‫ے‬ ‫رو‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ل‬ ‫وسا‬ ‫ر‬ ‫مام‬
‫ب‬
‫ے کہ تٓاپﷺ کا ذکرئی ر‬ ‫المت ی ہ ھی ہ‬ ‫کع ق‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫ئحب ی ب اکب رﷺعکی عالمات می نںقسے ای‬ ‫حمب ت‬ ‫ث‬
‫عام ک ی ا ج اے۔‬ ‫ئ‬ ‫ذکرہ‬ ‫کا‬ ‫دہ‬
‫ت ی الت ئ حم ی ٹ‬‫اف‬ ‫ص‬ ‫او‬ ‫در‬ ‫ل‬ ‫اور‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫و‬ ‫حاسن‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫کے‬ ‫ٓاپ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫رت‬ ‫بک‬
‫لطف ا ھای ا ج اے تاور ذکر‬ ‫اوصاف و ب رکات اور مش عل نات کا فذکرہ کرے ہ وے ئ‬ ‫کے ف‬ ‫اورفٓاپ ظ‬ ‫ن‬
‫المات حمب ت می ں‬ ‫ع‬ ‫ے۔‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ادہ‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ات‬
‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫ک‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ث‬ ‫ادما‬ ‫اور‬ ‫سرت‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫رحت‬ ‫ہار‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫روغ‬ ‫کے‬ ‫وی‬ ‫ب‬
‫عالی کے ح تکم کی فعم ی ئ ل‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫اور‬
‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫کی‬ ‫ب‬ ‫رت‬‫ت‬ ‫ے کہ ٓاپﷺ پر درود و سشالم کی ک‬ ‫ئہ‬ ‫ت ی ہ ب ھی‬ ‫سے‬
‫ل‬‫ع‬ ‫م‬
‫ے اور درود و سالم سے ق وا د‬ ‫رسالت سے والہا ضہ ع ق کے سا ھ ج ا الی ا ج ا ئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫کرے و ظے ب ارگاہ ث‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ہرہ‬
‫ف‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫واب‬ ‫عظ ی مہ اور اہ ری اج رو‬
‫ج‬ ‫ی‬ ‫ؓ پ‬ ‫ض‬
‫ل کرے ہ ی ں‪:‬‬ ‫سے نمر وع روای ت ن ف‬ ‫دہللاناب نن عفمر ق‬ ‫رت ععب ف‬ ‫‪۱۲‬۔ اب ن ثوداعۃ‪ ،‬ح‬
‫ن‬
‫وامن ال لوۃ لی ا بھا ور ی ا ب ر و ور لی قالصراط و ور ی ا جل ۃ۔ (‪۹۰‬ن)‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫اک ر‬
‫ث‬
‫ے ش ک ی ہ ب ر‪ ،‬پ ل صراط اور ج ن ت کا ور‬ ‫ب‬ ‫و!‬ ‫ج‬ ‫ھ‬
‫ی‬ ‫درود‬ ‫سے‬ ‫رت‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫’’ پ‬ ‫ھ‬ ‫م‬‫ج‬
‫ن ف‬ ‫ؓ‬ ‫ے‘‘۔‬ ‫ضہ‬
‫ا‪:‬‬ ‫ی‬‫رما‬ ‫ے‬ ‫ٓاپ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ن‬‫ہ‬ ‫مروی‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫صد‬ ‫کر‬ ‫ب‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫رت‬ ‫‪۱۳‬۔ ح‬
‫ن‬ ‫ل‬
‫الض لوۃ لی ا ن بتیﷺ ا ق للذ وب من الماء ال ب ار د ل ار والسالم علی ہ‬ ‫ح‬‫م‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ص‬ ‫ف‬
‫ن‬
‫ے غکہ ھ ن ڈا پ ا ی نھی‬
‫ب‬ ‫ٹ‬ ‫ت‬ ‫)ب ھج ن ا گ ن‬ ‫ا ن ل من ع ق۔ (‪۹۱‬‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ٹ‬ ‫م‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫یب‬ ‫درود‬
‫ن‬ ‫مﷺ پر‬ ‫ت‬ ‫’’ ب یف تکرین‬
‫گٓا کو اض ی ی زی سے ہی ں ج ھا ا اور ٓاپ پر درود پڑھ ا الم ٓازاد کرے‬
‫پن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫نق‬ ‫ف‬ ‫ے‘‘۔‬ ‫سے ا ف شل ہ‬ ‫ض‬
‫امام عز ی ی خ ب زرگ اب والصب ر ایوب ع بن دہللا ا ہری سے ل کرے ہ ی ں کہ ا ہوں ے ا ی‬ ‫ل‬ ‫خ‬ ‫ح ضرت‬
‫ض‬
‫نال ی فاس علی ہما السالم کی روای ت ب ی علی ہ الصلوۃ والسالم سے ب ی ان کی‪:‬‬ ‫س ن د سے ح رت ر و‬
‫تن ت‬ ‫ے ت نرمایض ا‪ :‬ق‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫یط ش‬ ‫طف ت ن ن ف‬ ‫ل‬ ‫ص‬
‫ان قال لوۃ ل ر ا لب و ورہ فوق ہرہ من فال اق کما ہر ال ی ئ ب الماء وان‬
‫من ال ا لہم صل علی دمحم د حت علی سہ سب عی ن ب اب ا من الرحمۃ وان‬
‫ن فق‬ ‫من ص شلی علی ہ سب ع شمرات احب ہ ہللات ع تالی۔ (‪)۹۲‬‬
‫ے اور ندل کو م ا ت‬
‫ھ‬ ‫ف دل کو رو شازہج رکھت ا ئہ‬ ‫ے ک درود ری ش‬ ‫’’ب‬
‫ن ی چلیز پ ا ی سے د ل کر‬ ‫ے کو‬ ‫ے یس‬ ‫خ‬ ‫طرح پ اک اور رو شن کردی ت ا ہ‬ ‫سے اس ت‬
‫ع‬ ‫ص‬ ‫ل‬
‫کہا‪،‬‬
‫ے ک جس ت ص ے ا ہم ئل لی دمحمن‬
‫ک‬ ‫ے۔ ب‬ ‫نہ وج پانی ہ‬ ‫صاف‬
‫ے اور جس ے‬ ‫رحمت کے س ر دروازے ھول ید‬ ‫پ ت‬ ‫ر‬ ‫ذات‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫اس‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ک‬
‫ڑھا۔ ہللا ع ٰالی اسے دوست ر ھت ا ہ‬ ‫ات ب ار درود پ ن‬ ‫س‬
‫س‬
‫غ‬ ‫ع‬
‫ض‬
‫ت‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ی ٹیق ہ‬‫ا‬ ‫ٓا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ات‬ ‫ی‬ ‫روا‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫تی‬ ‫ارے‬ ‫کے‬
‫پ ھش ن ب‬ ‫ے‬ ‫ڑ‬ ‫درود‬ ‫ر‬ ‫الم‬
‫ی ل تپ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ور‬ ‫ح‬
‫ے اور‬ ‫ت‬
‫ےشاور حاج ات کو پورا کر ا ہ‬ ‫الٔوں کو الت ا ہ‬ ‫ے اور ب‬ ‫ے۔ پری ا ی وں کو دور کر ا ہ‬ ‫کہ تدرود م کو م ٹ ا ا ہ ن‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫خ‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫ے۔ درود‬ ‫ک ئاص سم کی ش ع طا و ی ہ‬ ‫ے ونالے کو ب ارگاہ ا ہٰی ہ سے ای خ‬ ‫ے اورتدرود پڑھ‬ ‫رزق کو ب ڑھا ا‬
‫ے ہ ی ں اور ی ک ی اں بڑھ ج ا ی ہ ی ں‪ ،‬گ ن اہ اور طا ی ں مٹ ج ا ی ہ ی ں اور رب کائ ن ات کا‬ ‫صد ہ و ت‬ ‫ہن‬
‫قسے درج ات ب ل‬
‫ے۔‬ ‫صی ادہ حا ل ہ وج ا ا ہ‬ ‫رب ز‬
‫ع ث‬ ‫ل‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫لوۃ‬ ‫دعاء‬
‫بس‬
‫ومن لی ن ا لوک سب ی لہ‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫عطر ا ہم مج الس ا طی ب ذکر حب ی ب ہللا اال ظ م و اہ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ل‬
‫وھداہ وصل وسلم وب ارک علی ہ وعلی ٓالہ صالۃ وسالما خ لص ب ھما من محن‬ ‫ق‬
‫الو ئ ف واھوالہ۔‬
‫ٹ‬ ‫ن ت‬ ‫می رے ب ھا ی و!‬
‫ے ا ھأو تاور اس کی ب ارگاہ عالی می نں اس ش ان‬ ‫ے ہ ا ھ دعا کے ل تی‬ ‫ن خ الق ارض و سماء نکی ب نارگاہ می شں پا‬
‫ے۔‬ ‫عالی کے ہ اں ب ہت ب ل د ہ‬ ‫والے ب یﷺ کو وس ی لہ ب أو یک و کہ ب ال ب ہ اس پ ی ارے کا مر ب ہ ہللا ٰ‬

‫‪78‬‬
‫فئ‬ ‫ع ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫الم‬ ‫حاصل ک‬
‫صب پر ا ز‬‫ن‬ ‫وت و رسالت کے ا ٰلی م‬ ‫ے ج ن ب رگزی دہبب ن دوں کو ب ن ف‬ ‫پ‬‫رب کا ن ات ے ا‬ ‫ت‬ ‫ُ‬ ‫ف‬
‫ی‬
‫ازی اوصاف و کماالت سے ھی ہرہ م د رمای ا۔ ہی اوصاف و کماالت ا ب ی اء کرام کو‬ ‫ب‬ ‫رمای نا‪ ،‬ان لوگوں کو ام ی ت‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫لک ن‬ ‫ن‬ ‫دی گر ا سان نسے قممت از کرے ہف ی ں۔‬
‫یﷺ پر ھی ج اے والی م ر م عربضی ک ب‬ ‫ل می ئں ہ ن م ے م ی الد الن بُ ف ض ئ‬ ‫ص‬
‫اس ش‬ ‫زیر ظ ر م الہ کی ق‬
‫ے و ح ورﷺ‬ ‫ج‬ ‫ذکر ک ی ا ہ‬ ‫ویﷺ اور ان ا ل و رکات کا‬
‫اور اخ روی زن بدگی م ں حاص‬ ‫لب ن‬ ‫اس دن‬ ‫می ں مذکور ب عد از والدت وا عات‪ ،‬ما‬
‫ن‬‫وں گے۔‬ ‫ہ‬
‫ؐی ق م ظ‬ ‫ل‬ ‫تن‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ظ ی‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫کی‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫امت کو‬
‫ش‬ ‫ن پن‬ ‫کی نب دولت‬ ‫ئ‬ ‫کے وج ود اطہر‬
‫ام مود اہ ر شکر تے کے‬ ‫ح‬ ‫ے حب وب کا م ن‬ ‫م‬ ‫انن رب وب ی ت کو اہ‬
‫وں سے‬ ‫پ‬ ‫زہ‬ ‫اک‬ ‫کو‬ ‫ور‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ق‬ ‫ےاپ خ‬ ‫شر کرے اور‬
‫ل‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫صرف کائ‬
‫ف‬
‫ات ے ا ی‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫کو‬ ‫ور‬
‫ض رب کا ن‬
‫کے‬
‫ق‬ ‫پ یت‬ ‫ق‬ ‫لیق ک ی ب‬ ‫پن‬ ‫ت ہ‬ ‫ع‬ ‫ورﷺ پ ن‬ ‫ت‬ ‫ےح‬ ‫لی‬
‫ت نوالدت ت شری ب ٓای ا ونوہ وا عات اور‬
‫ن‬ ‫نا ٰ نلی و ار ع اہ مام ک ی ضا۔ ج ب اس ور کا وہ ت‬ ‫پ اکی زہ ارحام ن کئہ چ اے کا‬
‫ے‬ ‫کردی ا کہ اب وہ س ی د ی ا می ں ریفعالے والی نہ‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫معج زات رو ئما نہ وے جس ے د ق ی ا والوں پر ی ہ وا ح‬
‫عمت ئ ظ ٰمی کے د ی ا‬ ‫ات ھی وا ح ہ و ین‬ ‫ب‬ ‫ج و وج تہشوج ود کا ن‬
‫ن‬ ‫اسش‬ ‫ےبکہ خ‬ ‫ہ‬ ‫ے۔ ان وا عات سےنی ہ ب خ‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ات ہ‬
‫ن‬ ‫ں۔ش‬‫صرف انل اسالم یق ہی ں ج ود رب دو ج ہان ے ھی و یب اں م ا ی خ‬ ‫متی ں ریشف الے پر ن‬
‫زلزلہ‪،‬ف حی رہ ساوہ کا قک ہ وظج ا ا‪،‬‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫سری‬
‫ی صک ٰ ی‬ ‫وان‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫قی‬ ‫عات‬ ‫ظ‬ ‫وا‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫والدت رو ن‬
‫ما‬ ‫ن‬ ‫فب ٹ‬
‫یﷺ کے شو ت ہور‬ ‫مصط‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫ک‬
‫والدت‬‫ِ‬
‫ج‬
‫زات ہور دسی و درا ل‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ن ارس کا ھ ڈائ ن وج ا ا اور قدی گر عج ط ق‬ ‫ٓا ش کدٔہ‬
‫م‬
‫رب کا ات ئکی درت م ل ہ ی کے ہر ہ ی ں اور و ٓاپﷺ کے ی الد کی ل می ں‬
‫ق‬
‫ظ‬ ‫پ نذیرہ وے نوالی ن ق‬
‫ق‬ ‫ے وخی د ا الب ب ن کر ٓا ی ں۔‬ ‫کے لی‬
‫د یا ن‬
‫نت ر ن خ ش ک سالی اور حط کا سام ان‬ ‫ہ‬
‫کے و تقا ل عرب کو ب د ی‬ ‫ب ی ٓا رالزمان کی والدت ب استعادت ت‬ ‫ت‬
‫ئ ٓاپﷺ خکیش والدت کے سا ھ ہ یخ تہللا ع ٰالی کی درت کاملہ ے ساری زمی ن کو سرسب ز کردیتا اور‬ ‫ھا۔‬
‫لوں اور پ ھولوں سے الد دی ا‪ ،‬ہ ر سمت رحم وں اور‬ ‫ب پھ‬ ‫رو تے زمی ن کے ک قاور گل‬
‫سڑے در وں کو ھیت ن ش‬ ‫ے ق‬
‫کردی اور حطف زدہ عال وں می ں رزق کی ا ی ک ادگی‬ ‫فبرک وں کی ب ھرمار خ ش‬
‫ئ ت‬ ‫نق‬ ‫ال و ی اور رحت واال سال کہالیضا۔‬ ‫رمادی کہض وہ س‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫ے لے کر ی مںست و ہ صرف‬ ‫گ‬ ‫ے ب یل‬ ‫اعت کے لیف‬ ‫ؓ‬ ‫ح‬
‫ے اپ‬ ‫ق‬ ‫ٓاپﷺ کو ر‬ ‫ح رت لی مہ سعدی ہ ج تب ن‬
‫زول ہ وا ب لکہ سارا ب ی لہ ان ی وض و ب رکات سے ت ی ض ہ وا۔‬ ‫حض رت حلی ؓمہ کے گتھر می ں ب رک وں کا ش خ‬
‫رت کے مام محامد و محاسن‬ ‫سن سی ن‬ ‫ِ‬ ‫صورت اور ح‬ ‫ظ‬ ‫سن‬ ‫ِ‬ ‫ت اس ب ئزم ہئس ی پمی غں وہخ م ب ارک صی ت جس می ں ح‬
‫کے اس‬ ‫ے۔ اہ تری ظاور ب اط ی حسنن و ج مال ض‬ ‫گرامی ہہ‬ ‫اںﷺ کی ذات‬ ‫خ‬ ‫ے وہ ی مب ر ٓا رالزم‬ ‫ےگ‬ ‫ب تدرج ہ ا م س ف‬
‫مودیئ‬
‫م‬
‫ے۔ مامش اہ ری و ب اط ی محاسن ح رت‬ ‫رات حُسن ل ر ی بہ‬ ‫مر ب ہ کمال پر ا ز ہ ی ںق ج ہاں سےہ ہ ر حیسی نن کو یت ِ‬
‫ات ھی روز رو ن کی طرح ع ی خاں ہ ی ں‬ ‫دس می ں ی کج ا ظ ر ٓاے ہ ی ں اور ی ہ ب ف ئ‬ ‫کی ذات ا ن‬ ‫دمحمﷺ ظ‬
‫ٓاپﷺ اہ ری و ب اط ی حسن و ج مال کے اس مرت ب ٔہ کمال پر ا ز ہ ی ں ج ہاں سے ہ ر حسی ن کو ی رات حُسن‬
‫ن ت‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ض‬ ‫ن ن‬ ‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫م ل رہ ی‬
‫ئ ورﷺ کے خسراپ اے قدل واز کا ذکرہ حسی ن ن ا داز می ں اپ ئی صن ی ف‬ ‫ےح‬ ‫ض‬ ‫امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی‬
‫ن‬
‫سن م تاسب تت کی ٓا ی ہ دار‬ ‫اس در مث الی اور ح‬ ‫ق‬ ‫ٓاپﷺ کے اع اے م ب ارکہ کی سا ت‬ ‫ے۔‬ ‫تمی ں ک ی ا‬
‫ِ‬ ‫ؓ‬ ‫ہ‬
‫ے۔ اسی طرح‬ ‫ے ھ‬ ‫رطب اللسان رہ‬ ‫مصطافکی مدح می ں ہ ر و ت ت‬ ‫ٓاپﷺث کےشحسئی ن سراپ‬ ‫کرام ث ئ‬ ‫تھی۔ صحاب ہ‬
‫ے ہ ی ن ئں۔‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ذکر‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫یﷺ‬ ‫ل‬ ‫ما‬ ‫ن‬ ‫حد‬ ‫مہ‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫اک‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫ں‬
‫خ شہ‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫ث‬ ‫ج‬
‫ہ تم ی‬ ‫ک ب سی ر مضی‬
‫ے کہ وہ و ی اں م ا ی ں اور اس ب ات کا‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫خ ح ورﷺ وہض س ی ہ ی ں کہ ن کی ع ت پر ف لما وں کو شچ ا ی‬
‫ئکے م ی الد کی پ اکی زہ مح لوں می ں ری عت م طہرہ کے احکام کی معمولی سی‬ ‫ورﷺ‬ ‫خب ھی ی ال رکھی ں کہ ح ن‬
‫الف ورزی ب ھی ن ہ ہ وے پ اے۔‬

‫‪79‬‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫فباب چلہار ؐم لک ئ‬
‫ح ی تق ق ئ‬ ‫ی ج ا زہ‬
‫ت‬ ‫ب کا‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫فم یصالد ا ن ب ی پر ھی گ یل ؐم ر ملکعربیئ‬
‫ک‬
‫اورتج واز کا حییجق ا زہ ئ‬
‫ب می ں عدم ج واز ش‬
‫ت‬ ‫صل اول‪ :‬می الد ا ن بل ؐیپر لکھی گ یئم ر تمجعربی ک‬
‫م‬
‫ل دوم‪ :‬م ی الد ا ن ب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکورم الت کا ی ج ا زہ‬

‫ت قلک ئ‬ ‫فصل اول‬


‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫می ں‬ ‫م ی الد الن ب یﷺ پر ح قھی گ ئی م ر م عربی ک ب‬
‫عدم ج واز اور ج واز کا ی ی ج ا زہ‬

‫ؒ‬ ‫ت‬ ‫یﷺ ر نلکھی گفئی ئمت رج‬


‫تالوہ ک ئ‬
‫سی‬ ‫وطی کے ع‬ ‫س نت‬
‫سے امام ج الل الدی ن ی‬
‫ب‬
‫ب می ںن‬ ‫ی‬ ‫عر‬
‫ل ی ب کع ق‬ ‫م‬ ‫گف ت پ‬ ‫ن م ی الد الن بض‬
‫ے اس ضمو وع پر گو ہی ں رما ی کن مال لی اری ے ھی المورد الروی می ں ب یہہ کرے ہ وے‬ ‫اور ً‬
‫خت‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ق ف‬ ‫ت‬ ‫م صرا اس مو وع پر ب ات کی ہ پ ن‬
‫ے۔‬
‫ل‬ ‫ع‬
‫ن عمر ب ن لی می‬ ‫ن‬ ‫عم‬ ‫لم‬ ‫ف‬
‫س وطی ا ی ن ی ف سن ا صد عی عمل ا مولد می ں ی خ ف اج الدین‬
‫ل‬ ‫ح‬ ‫ص‬ ‫ن امام ج الل الدفی ن ن ی‬
‫اسک دری معروف ب ہ اکہا ی کے رسالہ ’’المورد ی الکالم لی ل المولد‘‘& ج و کہ اکہا ی ے م ی الد‬
‫‪80‬‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫مکم‬
‫ے۔ اس ئکا ل ترد کرے ہ ی ں اور اپ ی کت اب ’’حسن الم صد ی‬
‫ب‬ ‫اعملن ب یﷺ کے عدم ج واز پر صن ی ف ک ی ا تہ‬
‫ں۔‬ ‫ےہ ی ن ن‬ ‫ھی صن ی ف یک‬ ‫مولد‘‘&نکے خعالوہ اس کے رد می ں ی ن اور رسا فل ت‬ ‫ل ال ف‬
‫ے۔ اس تکے‬ ‫دعتتہ‬ ‫ئ ف‬ ‫اکہا ی مت ا ری ن مال یک وں می ں فسے ہ ی ں اور وہ رماخے ہ ی ں کہ م یتالد م ا ا ب‬
‫س وطی ل ظ ب دعت پر ا تحکام مسہ کا اج را کرے ہ وے نرماے ًہ ثی ں کہ ی ا و ی ہ‬ ‫ام ج الل الدی ن ی‬ ‫ن‬ ‫ج واب می ں ام‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫ے اور‬ ‫حرام تو م لوم ہ شوا کہ اس کا واجط ب ہ ہ لو ی ا اج ماعا اب ت تہ‬ ‫ک‬
‫اح‪ ،‬ی ا نکروہ ہ وگا ی ا‬ ‫ن‬ ‫واج نب ہ وگابی ا م ندوب‪ ،‬ی ا م ب‬
‫کے ارک پر‬ ‫ن‬
‫ہ‬
‫ے ہ ی ں و ری عت کا لوب و کن اس‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫نہ‬ ‫دوب اسے‬ ‫عم ا کی و کہنمت ش‬ ‫ی ہ م دوب ھی ہی ں ہ وسکت‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫تذم و عت ف ن‬
‫ے اور ہ ی صحاب ہ کرام اور دی دار‬ ‫اب ہ ہ و اور اس ل کی ہ و ری عت ے اج ازت دی ہ‬ ‫ع‬
‫ئ ن ئ ن‬ ‫من‬ ‫ے۔ (ل‪ )۱‬ت‬ ‫اب عی ن فکا نل رہ ا ہ‬
‫ے کہ دی ن می ں ب دعت را ج کر ا ج ا ز ہی ں۔‬ ‫ں کہ مو ی ن کا اج ماع ہ‬ ‫ے ہ یت‬ ‫اکہا ی اس پر تی ہ د ی ل دی‬
‫اس لحاظ سے وہ دو حال وں پر کالم کرے ہ ی ں۔‬
‫نق‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ شخ‬ ‫حالتت‬ ‫ف‬ ‫پ ہلی‬
‫مال سے مح ل م ی الد م ع د‬ ‫ے اہ ل و ع ی ال ناور اصحاب کے ت‬ ‫ے اور اپ‬ ‫رماے ہ ینں پکہ نکو ی تص اپ‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے سے ج اوز ہ کرے‪ ،‬ہ یت سی گ اہ کا ارت کابث کرےنو ی ہ ب دعت سی ہ کروہ ہ‬
‫عم‬
‫ک‬
‫ع‬ ‫کرے اورن اس ت قکھاےف ق ی‬
‫ے۔ یک و کہ م دمی ن ہاء اسالم اور لماء ذوی االح رام کے ل سے اب ت ہی ں۔‬ ‫ہ‬
‫ن ت‬ ‫ئ ف‬ ‫ت‬ ‫دوسری حالت‬
‫ے چ دہ و دے مگر دل سے اسے‬ ‫مح‬ ‫دوسری نحالت می ں وہ ب ی ان ثکرے ہ ی ں‬
‫ن کہ کو ی ل لم ی الد بکے لی ت‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ں۔‬ ‫ہ‬ ‫ت‬‫ے‬ ‫د‬
‫ل ع کی ی ی‬‫ھی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫کو‬ ‫ات‬
‫ب ت‬ ‫اس‬ ‫و۔‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ر‬ ‫کا‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫مال کم ہ فو‬
‫ب‬ ‫ج‬
‫اکہاتی عور وں کے سی ا ماع میت ں ا ل وے اور یل حدہ ا لی عور وں کے ا ماع پر ھی‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫ئ‬ ‫ے ہ ین قں کہ‬ ‫ی‬ ‫اع راض کرے ہ یشں۔ اس پر وہ دل ی تل د‬
‫ے گا‘‘۔ (‪)۲‬‬ ‫خ‬ ‫ت اج ن ب ی ہ وج ا‬ ‫روع می ں اج ن ب یش ھا اور ع ری ب پ ھر‬ ‫ش‬ ‫الم ش ق‬ ‫’’اس ت‬
‫ے کہ موج ودہ‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫الصہ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ے‬ ‫ئ‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫عار‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ری‬ ‫ئ‬
‫خ‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ش کے سا‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫نہی‬ ‫نب یی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ک‬
‫نہ ی زگاروں سے ہو کہ خوہ‬ ‫ے ہ ی ںناور تکی کو کو ی ہی ں ج ا نت ا۔تم ی وں اور پر‬ ‫دور فمی ں ب ٹرا ی کو سب ج ا ت‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫وب ت ک‬ ‫پرٓا ت ن‬
‫ے ود‬ ‫اس زماے می ں لوگوں کے لی‬ ‫ے ہ ی ں۔ م ا ی حال وں کو قمت ب دلو کی و کہ مت‬ ‫ہ یک وںجا ی لئ ی ں ا ھا فرہ‬
‫ے ہ و۔ پ ھر اکہا ی امام اب و عمر و ب ن عالء کا ول ب ھی ب ی ان کرے ہ ی ں۔ جس می ں امام صاحب ی ہ‬ ‫لی ا ن ب تی ہ وگ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ے ہ ی ں کہ ت ن ئ‬ ‫د ی ل دی‬
‫ئ‬ ‫ک یغچ یزوں کا ا کار کرے رہ ی ں گے‘‘۔‬ ‫ج ب ق‬ ‫ب‬ ‫لوگ‬ ‫’’‬ ‫ن‬
‫سرکار دو عالمﷺ کی والدت ہ و ی‪ ،‬اسی‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫االول‬ ‫غ‬ ‫ع‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫ے شکہ ماہ رب‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ور‬ ‫ل‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ھی‬ ‫ات‬ ‫ہ‬ ‫ز‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ے ہ وگ ی ا؟ ن ن پ ن‬ ‫مہی ن ہ می ں ٓاپ کی و ات ب ھی ہ و ی و و ی م ن ا ا تم ن قم ن اے شسے ب ہت ر یک س‬
‫ے ج و ا ہوں ے ا ی کت اب‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫کے عالوہ فع‬ ‫خ اس ف‬
‫المہ اب فن الحاج کی م ی تالد پر ی د ھی ا ل کت اب ہ‬ ‫ص‬ ‫ص‬
‫ت ن‬ ‫غ‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ان کیت‬ ‫’’المد ل‘‘& کی ل ’’ لن تی المولد‘‘ کے حت ب ی ف‬
‫ے‬ ‫(دف) وہ رما تے ہ ی ں۔ جمیرہ و ی رہ کے سا ھ گاے ب ا خج‬ ‫ے لوگ ق‬ ‫تم ب ارک مہی ہ ٓا ا ہش‬ ‫ش غ’’ج ب ی ہ‬
‫الوتنسےت کری ں گے اور پ ھر سری لی اور وش‬ ‫ج‬ ‫ئ‬
‫خ‬
‫ں۔ م نی الد کی روعات رٓان پ اک کی‬ ‫ےہی ن‬ ‫ئ‬ ‫می ں م ول ہ وج ا‬
‫ل‬
‫سے گا ا ی ں گے۔ جس سے م ت لف ب را ی اں م ی ی ہ ی ں اور م ی اں ب یوی کے‬ ‫س‬ ‫ےش ت‬ ‫کن ٓاواز فوالے نگوی‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫)‬ ‫‪۳‬‬ ‫(‬ ‫ے۔‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫درم ی ان ساد کا ا ض ی‬
‫د‬
‫ح‬‫م‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫ئںت دف جمیرہ‬ ‫ح رت رماے ہ ی ں کہ بی ہ ب را ی اں ب پ ی دا نو ی ہ ی ں کہ ج ب ن ل م ی الد می‬ ‫ل‬ ‫غ ش عالمہ‬
‫و ی رہ امل ہ و ن کن اگر اس کے ع تالوہ ھی لوگوں کو م ی الد کی ی ت سے ب الکر کھا ا کھالی ا ثج اےن ب تھی ی ہ‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫کے عملن نسے ب ھی اب ت ہی ں۔ و ہ می ں‬ ‫سلفئصالحی ن ن‬ ‫ے اور ہ ن‬ ‫ن می ں زی اد ی ہ‬ ‫ے یک و کہ ہ دین‬ ‫ب دعت ہ‬
‫ے۔‬ ‫ے اور م ی الد ہی ں م ا ا چ اہ ی‬ ‫ب ھی ان کے پ روکاری ہ وے خکی ح ی ث ی ت سے وہ یی کر ا چ اہ‬
‫ی‬
‫نن‬ ‫ف ن‬ ‫س وطی کے ج واب ات کا الصہش ت‬ ‫امام ی‬
‫ے کے عدم‬ ‫ل‬
‫اکہا ی کے م ی الد ا ن ب یﷺف م ا ت‬ ‫اج الدی ن المعروف ت‬ ‫وطی یف خ ت‬ ‫سئ‬ ‫امام جاللئ الدينت ی‬
‫ح‬‫م‬ ‫ی‬ ‫ص‬ ‫ج واز کے جرد می ںت‬
‫ے جس‬ ‫کہ م ی الد پ اک و ضا نل می ں ای ک ا سی ظ ل ہ و یسہ‬ ‫ے ہ وے رما تے ہ ی ں ت‬ ‫دال ل دی ق‬
‫ے‬ ‫س‬
‫مﷺ کے ن ثہور کے ل ل‬ ‫ق‬ ‫اور ح نور ب ی کری‬ ‫ے ن‬ ‫الوت و ی ہ‬‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫اک نکی ظ‬ ‫ے ہ ی ں رٓان پ ن‬ ‫لوگش خ مع ہ و خ‬ ‫می ں خ‬
‫م‬ ‫ش‬
‫ول اور ر کی صورت می ں‬ ‫تخ ب ب ت‬ ‫رسول‬ ‫عت‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ف‬
‫ی‬ ‫و‬
‫ی ش ہئ مح ی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫اں‬ ‫ا‬ ‫ادت‬ ‫خ‬ ‫ع‬ ‫وارق‬ ‫ف‬
‫ح‬‫م‬
‫اور‬ ‫اں‬ ‫می ں ج و ت ب ی‬
‫ر‬ ‫و‬
‫ے۔‬ ‫ے۔ ل کے ا ت ت ام پر رکاے ل کے ٓاگے دس ر وان چ ھای ا ج ا ا ہ‬ ‫ب ی ان ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫‪81‬‬
‫ت‬ ‫تش‬ ‫ن‬
‫نن‬
‫ےنامام صاحب م ی الد الن ب ت ف‬
‫ے ہ ی ں۔ اسی‬ ‫ف‬ ‫دعت حس ہ سے ب ی ہ ید‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫یﷺ‬ ‫کن‬ ‫اسی لی‬‫ف‬
‫ے پر ب ڑی ص ی ل سے ب دعت کی ا سام ب ی ان کی ہ ی ں اور مح ل م ی الد‬ ‫دعت‬
‫ب ن ق ہ‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫اکہا‬ ‫ے می ں‬ ‫سلسل‬
‫ہ خ‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ق‬ ‫نا ت ن‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫الن ب یﷺ کو ب دعت ح فس ہ نرار د‬
‫تی ں مرد و زن بت ا م لط‬ ‫ی‬
‫اکہا ی ے ی د کی ج فو صور ی ں بت ی ان کی ہ ی ں کہ ا سی محف لوں م‬ ‫تاس کے ع قالوہ ق‬
‫ح‬‫م‬
‫صاحب ن فرماے ہ ی ں کہ ی ہ ب ا ی ں کسی‬ ‫ے۔ امام ن ف‬
‫ن‬ ‫ملطت ہ وے ہ ی ں اور ب ا ماعدہ ر ص و سرور کی ن ل ب ن ج ا ی ہ‬
‫ل‬
‫ے۔ اس طرح‬ ‫لب ہی ں کہ م ین الد ا ن ب یﷺ م ا ا ی سہ حرام ہ ت‬ ‫ک درست ہ ی ں گر اسکا ہ رگز ی ہ م ط ف‬ ‫حد ت‬
‫ب‬ ‫ج‬
‫ں ی ہی تں ب لنکہ دی گر ا نس یالمی ع ب ادات کے ا ماع می لں ھی‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ح‬‫م‬ ‫کی‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫صرف‬‫ً‬ ‫اع‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫نکے اج‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫ے ی کن‬ ‫اع ہ ی ں و س ت اور کی اور ع ب ادت کا کامسہ‬ ‫ظ ر ٓاے ہ ی ں مث ال مازت معہ ی ا ماز راوی ح۔ اب ی ہ اج م ش‬
‫ئ‬
‫ے می ں‬ ‫ے ہ ی ں وہ خ’’ بی نح‘‘ اور ’’ ن ن یی ع‘‘& ہ ی ں۔ اسی طرح م ی الد پ اک کے لسل‬ ‫نکے سا ھ متل گ ت‬ ‫ی نہ قامور ج و اس‬
‫ج‬
‫ے ج ائے والے ا م ناع و ب ذات ود م دوب اور کی کا کام ہ ی ں اور اس طرح کے امور و اس کے‬ ‫ج‬ ‫م عت د کی‬
‫ئ‬ ‫ے ہ ی ں مذموم و م وع ہ ی ں۔‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫سا ھ م‬
‫ت‬ ‫اکہا ی اس کی ا ک تاور دل یخ ش ب‬ ‫گ‬ ‫ف‬
‫س مہی ن ہ می ں ٓاپﷺ کی والدت ہ و ی اسی‬ ‫ے ہ ی نں کہ ج ن‬ ‫ل ھی ظدی‬ ‫ی‬
‫ٓاپﷺ کا وصال ہ وا و پ ھر و نی کا ا ہار م اسب ہی ں۔‬ ‫می ں ت‬
‫سب سے ب ڑی‬ ‫ے‬
‫ل ش‬ ‫ی‬ ‫ارے‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫والدت‬ ‫کی‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫صاحب‬ ‫امام‬ ‫واب‬ ‫ج‬‫ا‬ ‫ک‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫خش‬
‫ش‬ ‫ک‬ ‫ی ی‬
‫ے۔ ری عت می ں عمت پر کر و حمد اور مصی ب ت‬ ‫ل ہ‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ڑی‬ ‫ل ب‬‫ے‬ ‫ی‬ ‫ارے‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫وصال‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ٓاپﷺ‬‫ق‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫و‬
‫والدت ب اسعادت‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ض‬
‫عالمﷺ کی ئ ف‬ ‫ت‬ ‫سرکار دو‬ ‫ے اس ہی ہ می ں ض‬ ‫نلی‬ ‫ے۔ اسی‬ ‫می خںشصب رو نر م اس کی ی من رما ی گ ی ضہ‬
‫ے۔ فح ورﷺ ے پ یر کے روزہ کی ی لت ب ی ان کرے ہ وے رمای ا‪:‬‬ ‫پر و ی کر ا حسن و حمود ہ‬
‫ذاک یوم ولدت ی ہ۔(‪)۴‬‬ ‫ئ‬
‫ت ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ے‬ ‫ش کا پ ندن ہ‬ ‫’’ی ہ می ری پ ی ؒدا ن‬
‫س وطی ے ا ی اس کت اب می ں اکہا ی کے اع راض کے سا ھ سا ھ اب ن الحاج‬ ‫تامام ج الل الدی ن ی‬
‫ف‬ ‫کے اع راض کا ج واب ب یت ہ ت‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ھی‬
‫ے‬ ‫سی کے لی‬ ‫ن‬
‫صرف اس مال کی وانپ‬ ‫نمح ل م ی الد ت‬ ‫ں کہ لوگ‬ ‫ےہی ن‬ ‫اع راض کر ق‬ ‫ن ت عالمہ ابتن الحاج ی ہخ ش‬
‫سوس‬ ‫م‬
‫ے پر عارب ح ف‬ ‫ے گر واپس ما گ‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫ہوں ے لوگوں کو دی ا و ا ہ‬ ‫ن‬ ‫ںج و‬
‫ہ‬ ‫ہواروں اور و ی کے موا ع پر اب ف‬ ‫ےہی ت‬ ‫م ات‬
‫ے کہ اس می ں ھی ساد‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫طرح‬ ‫کی‬ ‫الم‬ ‫ک‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫اکہا‬ ‫ھی‬ ‫الم‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬
‫ی نہ صی‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫واب‬ ‫ج‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫نکر ف ی‬
‫ہ‬ ‫ے‬
‫ے ہ کہ ا ق ل م ی الد کی وج ہ سے۔ (‪)۵‬‬ ‫س وج ہ سے ہ‬ ‫ی ت اسدہ کی‬
‫قن‬ ‫ے کہئ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ان‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫مو‬ ‫کا‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫اس ل یص ب ی ح‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫س‬
‫ج‬ ‫ج ئ ق ب ی ثک ی ثگ ی ہ ش‬
‫ں‪ ،‬اس کے ب او ود اس‬ ‫ئ ت‬ ‫رون ل ہ کےب م ا خ سے م نول ہ ی‬ ‫ےو ئ‬ ‫’’م ی الد درا ل ا سی بئ دعت ہ‬
‫ے‬ ‫ن‬
‫دعت حس ہ ہ‬ ‫ب‬ ‫می ں چک ھ اچ ھائ ی اں ہ ی ں اور چک ھ برا ی اں لہذا اگر کو ی برا ی وں سے چ کر م ی الد پ اک م اے و ی ہ‬
‫ش‬ ‫ض‬ ‫ورن ہ ب دعت سئ ی ہ۔ (‪ )۶‬ن ن خ ش‬
‫ے د من کہ جس کی‬ ‫ل‬
‫خم ی قالد الن ب یﷺ م اے کی و ی کی سب سے ب ڑی د ی ل ح ورﷺ کے ایس‬
‫پن ن‬ ‫ُ ن‬ ‫ت‬ ‫ت خف‬ ‫مذمت ئود ئرٓان پ اک‬ ‫ف‬
‫ے اس دن ا نی لو ڈی‬ ‫ے کہ اس ث‬ ‫ی‬
‫ج نہ‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫دن‬ ‫ش‬ ‫کے‬ ‫خ‬ ‫ر‬ ‫پ‬
‫ی ی‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عذاب‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫ض‬ ‫ت‬‫ی۔‬ ‫ت‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫رما‬ ‫ثمی ں‬
‫ے‬ ‫م‬ ‫اج‬
‫وی ب ہ کو ٓازاد ک ی ا ھا و ح ورﷺ کی والدت کی و ی م اے پر ای ک ب دہ مومن کو رو واب کی وں ہی ں ل‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫نت‬ ‫خش‬ ‫ن‬ ‫گا۔ (‪)۷‬‬
‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے‬‫ے‪ ،‬ی س‬ ‫عالی کا کر ادا کر ا چ اف ی‬ ‫ےقکہ نمی ں م ی الد ا ن ب یﷺ کی و ی می ں ہللا ٰ‬ ‫ہی ہ‬ ‫اسب ن‬ ‫من ن‬ ‫ت‬
‫عالمﷺ شکیت ش ان می ئں ع ی ں پڑھ ن ا اور ای سی ری ح ج و اس‬ ‫خ‬ ‫دو‬ ‫سرکار‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫صد‬ ‫ا‪،‬‬ ‫ال‬‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ا‬
‫و ی کے مو ع کی م ن‬ ‫ھا‬ ‫ق‬‫ک‬ ‫ا‪،‬‬ ‫کر‬ ‫الوت‬ ‫ش‬ ‫خ‬
‫عت کو ئ ی کام ن ہ ہ و۔‬ ‫اس می ں الف ریحق ق‬ ‫ت‬ ‫سے ہ و اور‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ب‬‫اس‬
‫م ی الد الن ب یﷺ پ تر ف قلکھی گ ت فی قمت رج م ئعربی ک ت تب می ں ج واز کا ی ی ج ا زہ‬
‫تفق‬ ‫ے‪:‬‬ ‫لہ‬ ‫کے م ہ اور م ر ج ہ دال ل جکی ر ئی ب درج ذی ت‬ ‫ج واز‬
‫ئ م ی الد ا ن ب ئیﷺ کے واز کے و دال ل مذکورہ ب اال ک ب می ں درج ہ ی ں وہ درج ذی ل ہ ی ں۔ م ہ‬ ‫ل‬
‫ن‬ ‫دال ل کا اج مالی ج نا زہ‪:‬‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫‪1‬۔ اب و لہب کی لو ڈی ٓازاد کرے سے است ثدالل‬
‫ل‬
‫ے وہ اب و لہب کا‬ ‫م ی الد الن ب ی کے ج خوازشمی ں ج و د یپ نل ک نرت کے سا ن ھ ان ک ب می ں درج ہ‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ٓازاد‬ ‫کو‬ ‫ڈی‬ ‫لو‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫والدت‬ ‫کی‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح‬
‫‪82‬‬
‫ق‬ ‫ق مصن ف ن ن ف‬
‫ے۔ اور اس وا عہ سے است دالل‬ ‫ردو ب دل سے ب ی ان ثک ی ا ہ ق‬ ‫کے ن‬ ‫والدتد رالخ وشاظف ی م ن‬ ‫ی نےچ‬ ‫اس وا ضعہ کو‬ ‫ت ئ‬
‫ے۔شج یسا کہ عالمہ‬ ‫قی ہ ف‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫واب‬ ‫ق‬‫رو‬ ‫اج‬ ‫اعث‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫پق‬ ‫کی‬ ‫ورﷺ‬ ‫پن‬ ‫ؒ‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫کرے ہ و‬
‫ش‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫لم‬ ‫س‬
‫ام ا راء حا ظ قمس الدی ن اب ن‬ ‫ج الل الدی ن ی وطی ا ی کت تاب حسن ا صدش ی ل ا مولد میف ں اس وا عہ کو ام ن‬
‫مس الدی ن ب ضن ناصرالدی ن دم ی کی کت اب‬ ‫ج زری کی کت ابف’’عرف ل عریف ب المولد ال ریف‘‘& اور حا ظ ت ف‬
‫مﷺ کی توالدت‬ ‫ق‬ ‫ے رمای ا کہ ح ور ب ی کریغ‬ ‫ان کر ت‬ ‫‘‘ کے حوالے سے ب ی ت‬ ‫الہادی ن‬ ‫ب‬ ‫صادی ی مولدف‬ ‫مورد ال ن ن‬ ‫’’ خ ش‬
‫عالی کی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ج‬
‫ے و ای ک مومن‪ ،‬موحد الم ی ن ا ہللا ٰ‬ ‫راحت و کون پ ا ا ہ‬ ‫کی و ی م اے واال نکا ر ھی ہ م نمی ں ئ‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫گا۔‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ش ب ہا ا عامات سے وازا جم ؒا‬ ‫ش‬ ‫طرف سے ب ی‬
‫ہب خ فکے وا عہ کے سا ھ‬ ‫عالمہ ہاب الدی ن احمد ب ن حج ر کی اپ ی کت اب مولد الن ب یﷺ م ں اب و ل ت‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫ص‬ ‫ض ورﷺ کے ا اب و طالب کا ٓاپﷺ کی خ‬
‫ف کا ذکر ن ھی ک ی ا‬ ‫عذاب میث ں یخ ش خ‬ ‫ن‬ ‫ں‬
‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫لہ‬
‫ن‬ ‫کے‬ ‫دمت‬ ‫ت ئ‬ ‫چ چ‬ ‫ح‬
‫ے پر ٓازاد‬ ‫ے کہتاب و لہب ے اپ ی لو ڈی وی ب ہ کو و ب ری ید‬ ‫ے ہ وے لکھا ہ ئ‬ ‫ے اور اتی ک روای ت کا حوالہ ید‬ ‫تنہ‬
‫ل‬ ‫ب‬
‫رت کے ب عد و یح ھی اس ضصورت می ں ا و ہب تکے عذاب می ں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫خ فہی ں ک ی ا ھا ب کہ اس کی ٓازادی جن‬ ‫ل‬
‫ی ف کی وج ہ ی ہ ب ی ان کی کہ اس ے اب و لہب کے کم سے ح ورﷺ کو دودھ پ الی ا ھا جس کا صلہ اب و‬
‫ف ش‬ ‫ن‬ ‫لہب کو دی ا گ ی ا۔ق‬
‫ق‬
‫س وطی ے امام ال راء حا ظ مس الدی ن اب ن ج زری کے حوالے سے‬ ‫اس وا عہ کو امام ج الل الدی ن ی‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ے۔ (ع‪)۸‬ق ؒ پ ن‬ ‫ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ہب کے قوا عہ کو ب ی ان‬ ‫الروی ی مولد ا ن ب یﷺ‘‘ مینں ا و ن‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ن عالمہ ال لی اری اح ی کت اب ’’ا ؒ مورد ق‬
‫ل‬ ‫م‬
‫ہوں شے ناسنوا عہ سے‬ ‫ے ج و کہ ا خ‬ ‫کے نمو ف کو ب ی ان ک ی ا ہش‬ ‫المہ ع بخدالر من اب ن ج وزی ض‬ ‫تعد ع ئ‬ ‫کرے کے ب‬
‫ے پ فر است‬ ‫ب م ی الد کو و ی م ا‬ ‫ئ‬
‫ے کہ ج قب ح ور ب ی کرینمﷺ کی ت‬ ‫استف دالل کرے وے ا ت ی ار ک ی ا ہ‬ ‫ہ‬
‫مان ام ی کو‬ ‫ٓاپﷺ کے مسل ت‬ ‫نت‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫خہش‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ازل‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫می ی‬ ‫د‬ ‫ج‬ ‫رٓان‬ ‫مذمت‬ ‫دلہ مال کہ ج ثس کی‬ ‫ہب کو ی ہ ب ق‬ ‫خکاش ر اب ول ن ن‬
‫ے اور حسب و ی ق‬ ‫ٓاپﷺ کے م ی الد کی و ت ی اں م ا ا ہ‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫و ی م اے پر کس در اج رو خ‬
‫ےت گا و جم پ ن‬ ‫واب ل‬
‫عالی کی طرف سے اس کی ج زا ی ہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫سم!‬ ‫کی‬ ‫مر‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫رچ‬ ‫ٓاپﷺت کی حمب نتن می ں مال‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫عالی ا‬ ‫ٰ‬ ‫ہف ضوگی کہعہللا‬
‫سے اپ ی عم وں ب ھری ج ت می ں دا ل کرے گا۔ (‪)۹‬‬ ‫ل می م ق‬
‫ق ف‬ ‫‪2‬۔ عج ائ ب ات ب و ت والدت سے است دالل‬
‫وطی کی حسن ا ئلم صد ی عمل‬ ‫س ق‬ ‫الل الدی ن ی‬ ‫ل‬
‫کے ج واز می ں دوسری د ی لق ج و کہ امام ج خ‬ ‫ت‬ ‫یﷺ‬ ‫ت‬ ‫م ی الد الن ب‬
‫ات اور‬ ‫ن‬ ‫عات‪ ،‬عج ا ب‬ ‫رق عادت وا ض‬ ‫ِ‬ ‫ت والدت ض‬ ‫ے۔ وہ ب و ض‬ ‫ب مضی ں درجن ؓہ‬ ‫مذکورہ مام ک ً‬ ‫الوہ ن‬ ‫الممولد کے ع ن‬
‫رت مری م غب ت‬ ‫اور ت نح ش‬ ‫اس حن رت حوا‪ ،‬ح رت ٓاسی ہ ٹ‬ ‫رت ٓام ضہ کے پ‬ ‫ے۔ ت شمث ال ح ن‬ ‫ہ‬
‫عج زات کا رو ما بو شا ہ‬
‫ات کا ا ھسا‪ ،‬م نرق و نم رب اور‬ ‫سے حج اب خ ش‬ ‫وں ش ت‬ ‫ہ‬
‫رت نٓام ہ کی گا ف‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫عمران اور حوران ہ ت کا ری ن‬
‫ف ال ا۔شح‬
‫والدت پر ر ئ نوں کا و ن ی اور بی ح کر ٹا۔ جن ت ضکے‬ ‫ن ن‬ ‫ا۔‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫د‬ ‫دہ‬ ‫صب‬ ‫ب ی ت ہللا کی چ ھت پر ج نھ ن ڈوںنکا‬
‫ج‬
‫دروازوں کا کھول دی ا ج ا ا اور ج ہ نم کے دروازوں کا ب د ہ و ا۔ ساری کا ات کا ور سے گمگا ا ھ ا اور ح رت‬
‫ن‬ ‫ثق‬ ‫ش‬ ‫ن ش‬ ‫کن‬ ‫ٓامن ؓہ کا ب صرہ کے محالت کو دی کھ نا۔‬
‫ن ایوان کسری کا پ ھٹ ج ا ا اور اس کے نگروں کا گر ا۔ ی اطی ن پر قہاب ا نب کا گر ا‪ ،‬دری نأوں اور‬
‫ب ٓاج ا ا۔ نکعب ہ می ں صب‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫کے ری‬ ‫تسم دروں نکی مخ لوق ٰکا ای نک تدوسرےفکو م ب ارک ب باد دی نا۔ ست باروں کا زمی ن ن‬
‫ب وںفکا او دھے من ہ گر پڑ ا۔ ٓا ش کدہ ارس کا ج ھ ج ا ا تاور حی رہ ساوہ کے پ ا ی کا ئک ہ وجن ا ا۔ والدت ق‬
‫اس سال دن ن ی ا ب ھر کی عور وں کے ہ اں لڑکوں کی پ ی دا ش ہ و ا۔ اہ ل مکہ کی حط‬ ‫سے ن‬ ‫یﷺ کی ب رکت ف‬ ‫مصط خ ش‬
‫ث‬ ‫ت ت‬
‫ہ‬
‫خش‬ ‫ں ب دل ا۔ (غ‪)۱۰‬‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫سالی کا و حالی ئاور رزق کی ق راوا یظ می ق‬
‫ہ‬ ‫ُ‬
‫مذکورہ عج ا بنات ضو وا ن عات ہور دسی پرن ی ر مولیق و ی پر الو ی ا مام ھا اور ی ہ اسخب شات کا بشوت‬ ‫ع‬ ‫ت‬
‫نکہ ہللاح ع ٰالی ے ح ور ب ی ناکرمﷺ کو اپ خی عمتش رار ندے خکر اشن کی ظٓامد پر فن ہ صرف و ی اور ج ن‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫من‬
‫ہار رماقی ا اور والدت‬ ‫اس عمت خکی ٓامد پر ود ت ھی نن م ای ا اور و ی کا ا ظ‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫کہ‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫کم‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ے‬ ‫ف‬ ‫ا‬
‫عالی کی صوصی رح‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫مصط‬
‫دسی تکی توہ قم ب ارک‬ ‫اری رہ شا۔ ج ب ہور ن‬ ‫ت‬ ‫وں کا زول ج‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫خ‬ ‫ت‬‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫ورا‬ ‫پ‬ ‫کا‬ ‫یﷺ‬
‫وں سے ا ظ ئ شار ھا جس تمی ں الق کا ن نات کے ب ہ ری ن ت اہ کار کو ج لوہ تگر ہ و ا ھا و درت‬ ‫ش‬ ‫ھڑی اں ج ن کا صدی ئ‬ ‫گن‬
‫ھی احاطہ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫س کی ظ ی ر ازل سے اب د ک ہ ک شھی ھیخ ش ک‬ ‫سی ٓارا وں اور زی ب ا وں کا اہ ثمام ک ی ا ج ت‬ ‫ی ی‬
‫اور ہ ہ ت‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫خے ا سی اس ت‬
‫ے کہ م ی الد ا ن ب یﷺ پر ن اور و ی کا ا مام‬ ‫ت ہ و بی ہ‬ ‫اتن اب ن‬‫پ‬ ‫ے۔ اس سے ی ہ ب‬ ‫ح‬‫ال می ں ٓا ک ی ہ‬ ‫کرین ا ن‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ھی‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫کم‬ ‫کا‬ ‫ہللا‬ ‫صرف‬ ‫ہ‬

‫‪83‬‬
‫خ ن‬ ‫کن‬ ‫ش‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ؒ‬ ‫ئ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ذ‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫واز‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫روزہ‬ ‫کا‬ ‫ورہ‬ ‫‪3‬۔ عا‬
‫س وطی بے اپ ی کت ساب ’’حسن‬ ‫ق ف م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز کے دال لفمی ں عالمہم ؒج الل الدی ن ی‬
‫سے خ اری و م لم می ں فدرج وہ‬ ‫ن‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫حو‬ ‫کے‬ ‫ش‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫ح‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ظ‬ ‫حا‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫دی‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫&‬ ‫‘‬ ‫‘‬ ‫مولد‬ ‫الم صد ی عمل ال‬
‫ے۔ مصن ی ن‬ ‫ے کا ب ی ان‬
‫ق‬ ‫حدی ث اک ے س م ں مد ن ہ ر ف کے ی ہود وں کا وم عا ورہ کو روزہ رک‬
‫ث‬ ‫ہ‬
‫ے ج و رون الث ہئکے‬
‫ھ‬ ‫ی‬ ‫ن حج ر م یکی کا موقی ف ہ ے یکہ م الد یدراص‬ ‫لک ت پ ہ ج ی‬
‫ھئ‬
‫ئہ‬ ‫دعت‬ ‫ب‬ ‫سی‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ی ہ‬ ‫ے ہ ی ں کہ ن قعالمہناب‬ ‫ش‬
‫ں۔ اس تکے ب او ود اس می ں چک ھ اچ ھا ی اں ہ ی ں اور چک ھ ب را کی تاں ہ ی ں لہذا اگر کو ی‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ول‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫خ‬ ‫ا‬ ‫ئ‬ ‫م‬
‫ے ہ ی ںنکہ ج فس دن ہللا‬ ‫ے ورن ضہ ب دعت ؑسی ئ ہ اور ل ھ ق‬ ‫ہ‬ ‫نسے چ کر نم ی الد م ن ا ا ے و نہ دعت سن‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫را‬
‫ح ہ‬ ‫نہ ی ب‬ ‫ؑ‬ ‫ض‬ ‫تب‬
‫نوم ے رعون اور اس‬ ‫ان کی‬ ‫موسی اور ؑ‬ ‫ض ٰ‬ ‫رت‬ ‫حؑ‬ ‫ن‬ ‫دن‬ ‫اسی‬‫ض‬ ‫دی‬ ‫ات‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ئ‬‫ب‬‫ڈو‬ ‫کو‬ ‫وح‬ ‫ن‬ ‫رت‬ ‫ے‬
‫ٰ ہ ح‬ ‫عالی‬
‫موسی ے روزہ رکھا اور ی ہ روزہ ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫اور‬ ‫وح‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫ن‬‫کا‬ ‫دن‬ ‫اس‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫ی۔‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫پ‬ ‫ات‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫تکے س پ اش ی‬
‫ے ب ی کی م طاب عت می ں روزہ رکھا۔ اسی طرح‬ ‫ب‬
‫ن ن‬ ‫ے ھا اور ی ہودیوں ے ھی افپ‬ ‫نکرے کے لی‬
‫ب‬
‫عالی کا کر ادا‬ ‫ضٰ‬
‫روزہ ر فھا اور ہودیوںن کو رمای ئا‪ :‬ع ف‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ف‬ ‫ح ورﷺ ےت ھی اس دن کا ظ‬
‫اسرا ی ثل لی رعون‪ ،‬و حن صومہ‬ ‫ھذا ا یل ومف قالذی ا ر ہللا ن ی ہ موسی و ب ی م ن‬
‫امر ب صومہ۔ ( ن‪)۱۱‬‬ ‫بموسی ئکم م ف‬ ‫الہ حن اولی ب ن‬ ‫عظ ی ما لہ‪ ،‬ت ال ترسولن‬
‫رعون سے ج ات‬ ‫اور ت ی اسرا ی ل کو ض ن‬ ‫ک‬ ‫موسی‬
‫’’اس دنعہللا ت ع ٰالییے ٰ‬
‫اکرمﷺ‬‫ن‬ ‫ں۔ اس پر ح ور ب ی‬ ‫ےہی ق‬ ‫دی فاس ظہ ی م می ں ہودی روزہ ر ھ‬ ‫ن‬
‫موسی کے ح دار ہ ی ں ھر ٓاپﷺ ے‬ ‫پ‬ ‫ے کرمانی ا‪ :‬حم م سے زی ادہ ٰ‬
‫ن‬ ‫نکا کم دی ا‘‘۔‬ ‫ے‬ ‫روزہ ر ھ‬
‫ک‬ ‫ب‬ ‫ح‬ ‫کن‬
‫ے سیئمعی ن دن می ں عمت کے‬ ‫ھی د ا اس لی ن‬ ‫ے تکا کم ش‬ ‫دن کے روزہ ر ھ‬ ‫اور ٓاپﷺ ے اسن‬
‫ے اور سال می ں اس دن‬ ‫حصول ی ا م نصی ب ت سے چ ٹ کارہش پ اے کی وج ہ سے ہللا عالی کا کری ادا ک ی ا ج ا ا چ اہ‬
‫ئ‬ ‫ٰ‬ ‫نکے مث ل و ت ظ ی ر کی ج ب ھٓامد ہ‬
‫عالمﷺ کی والدت سے ب ڑھ نکر کونئسی‬ ‫ے ضاور رحمت‬ ‫ہ‬ ‫ادہ ہ وسکت ا‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫کر‬ ‫و‬
‫ش کے دن ہ ی م ی الد م ای ا ج اے‬ ‫کی پ ی دا ن‬ ‫کہ ح ورﷺ ئ‬
‫ت‬ ‫ےئ‬ ‫ہ‬ ‫ے۔ لہذا م ن اسب اور بن ہقت ر ی ہ‬ ‫عمت ہ وسک ی ہ‬
‫ب‬ ‫ب‬ ‫اور اگر اس ماہ می ں ک جش‬
‫ن اے ب ھی کو ی حرج ہی ں۔‬ ‫سی دن ھیلم ی الد م ع د کرنل ی ا ج‬
‫سے است دالل ف ن‬
‫ن‬
‫یﷺ م اے ت‬ ‫ت‬ ‫الد جا ن ب‬‫ت‬ ‫‪4‬۔ ب الد اسالمی ہل می ں ن م ی‬
‫ص‬
‫یﷺ پر م ر م عربی ک ب می ں سے ی ن م ی ن ے ب الد اسالمی ہ می ں م ی الد‬ ‫می‬
‫الد نا ن بن ت‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ع ق‬ ‫ے۔‬ ‫الن ب یﷺ م اے لکا ذکرہ ک ی ا ہ‬ ‫ف‬
‫نصر اور ام‪ ،‬ا دلس‬ ‫الموردن الروی ی مولد ا نش ب یﷺ می ں عالمہ مال شلی اریت ے اہ ل مکہ‪ ،‬اہلل مدی ہ‪ ،‬اہ نل م‬
‫ے۔‬ ‫ے کا ذکر ک ی افہ‬ ‫نی الد ا ن ب یﷺ م ا‬ ‫کے ب اد ف اہ وں اور عوام کا گرم ج و ی اور اہ مام سے م‬ ‫اور ہ دوست ان ق‬
‫عم‬
‫ظ‬
‫م‬
‫مران ل طان ر کا‬ ‫س‬ ‫ح‬
‫وطی ے ارب شل کے ک ن ن‬
‫ج‬ ‫ش‬ ‫س‬
‫امام ج الل التدی ن ی ت‬ ‫باسی طرح حسن المم نصد ی نل ا مولدشمی ں ش‬
‫ل‬
‫ے۔ اس‬ ‫ت ن م ی الد م ا ا ب ی ان ک ی ا ہ‬ ‫ے می ں ہای ت ان و وکت اور زک و انح ام نسے‬
‫ہ‬ ‫س‬ ‫االول کے ہی‬ ‫ت‬
‫ر یع‬
‫ے کہ م ی الد کا ی ہ دن ٓاج کے ل نمان ت ی ہی ں م اے ب لکہ صدیوں سے اسالمی ممالک‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫سے پینہ پ پہ نچ لت ثا ق ف‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫یج‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ا‬‫ط‬
‫م ب‬ ‫کے‬ ‫رواج‬ ‫و‬ ‫رسم‬ ‫اور‬ ‫ت‬ ‫می ں ا ی ا ن نی ا‬
‫ف‬ ‫ن‬
‫‪5‬۔ م ی الد م ا ا ب دعت حس ہ ہ ؒ‬
‫ب‬ ‫ض‬ ‫عم‬ ‫ق‬
‫لم‬ ‫ےن پن‬
‫وع پر حث نکی‬ ‫ل‬
‫وطی ے ا نی نکت اب سن ا ن صد ی ل ا مولد می ں اس قمو ث‬ ‫ح‬ ‫س‬
‫امام ج الل الدی ن ی‬
‫ث‬
‫ے۔باگرچ ہچاسنکی مث ال رون ال نہ مقی ں تہی ں‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫دعت‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ف‬ ‫الد‬ ‫م‬ ‫ئ‬
‫ب من ح ہ‬ ‫م‬ ‫ےلجیس کا لب ل ب اب ی ہ ہ سی‬
‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬‫ت‬
‫مل ی کن اس کے ب اوج ود اگر کو ی م لمان واحش و کرات سے چ کر ا ھی ی ت سے م ی الد کا ا ع اد کر ا‬
‫ق‬ ‫ث‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫تہ‬
‫ن‬ ‫عم‬ ‫س‬‫م‬
‫ے یک و کہ ب دعت کی دو ا سام ہ ی ں‪:‬‬ ‫ےناور ب اعث اج رو واب ہ‬ ‫و ی ہ ای ک حسن ل ہ‬
‫ب دعت حس ہ‬ ‫‪.i‬‬
‫ئ‬ ‫‪.ii‬‬
‫ن تش ق‬ ‫تض خ‬ ‫صہ ق‬ ‫ب دعت سی‬
‫ت‬
‫ایسا کام جس کیتا ل رٓان و حدی ث میع ں ہ و اور جس سے دی ن مقی ں اد‪ ،‬ا الف اور ا نار وا ع‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫کی اصل رٓان و حدی قث می ں ہ و ج و اپ ی‬ ‫ت‬ ‫س‬‫ت‬ ‫کام ج‬ ‫ے ہ ی ًں ناور اس کے ب ر کس ایسا‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫دعت سی ئ ہ ک‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫ہ وئ اس کو ب ت‬
‫ص‬ ‫ش‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫کی ا ل ق رٓان و حدی ث می ں‬ ‫ں۔ م ی الد ت‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ئہ ی‬ ‫ے‬ ‫وع ہ و اس ًکو ب دعت حس ہ ہ‬ ‫ن‬ ‫ہ ی ت می ں و ی ا و کن رعا م‬
‫ے۔ مث ال م ی الد کے اج زاےف ض ئ لی می ں الوت ف رٓان جم ی د‪ ،‬مدحت و‬
‫م‬ ‫ے ی ہ ب دعت حس ضہ ہ‬ ‫اس لی‬ ‫ث‬ ‫ے۔ ن‬ ‫نموج ود ہ‬
‫عت رسول‪ ،‬ر کی صورت می ں ح ورﷺ کے م ی الد‪ٓ ،‬اپ کے ا ل و کماالت‪ ،‬ص ات‪ ،‬عج زات‪،‬‬
‫‪84‬‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ش م ت‬ ‫خ‬ ‫ش ئ‬ ‫ت ف‬
‫ن مام نامور می ں کو ی کام‬ ‫ے۔ ؒ ان‬ ‫ہ‬
‫ل کا ب ی ان‪ ،‬لوۃ ومال الم اور ٓا ر می ں طعام ا ل و ا ہ‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ص‬ ‫صر خات اورش ما ن‬
‫اب نمی ں عن‬
‫المہ‬ ‫س وطی ے اپ ی کت ت‬ ‫ے ب ل ٰکہ س حسن اعمال ہ ی ں۔ امام ج الل الدی ن ی‬ ‫ھی الف ق رع ی ہ‬
‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫ے کہ ج ب ان سے م ی الد پ اک کے ب ارے می ں سوال ک ی ا گ ی ا و ا ہوں ے‬ ‫اب ن حج ر کا موف ف یوں ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫قن‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ج واب می ں رمای ا‪:‬‬
‫ش‬ ‫ث‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫ص‬
‫رون ال ہ کے م ا خ ئسے م ول‬ ‫ئ‬ ‫ےج و‬
‫نم ی الد درا ل ا سی ب دعت ہ‬
‫ئہی ں‪ ،‬ئاس کے بب اوج ود اس می ں چک نھ اچئھا یت اں ہ ی ں اور چک ھ ب را ی اں۔ لہذا اگر‬
‫ے ورن ہ‬ ‫ن‬
‫وں سے چ کر م ی الد پ اک م اے و ی ہ ب دعت حس ہ ہ‬ ‫کو ی برا ی‬
‫ئ ب دعت سی ہ۔ (‪)۱۲‬‬ ‫ئ‬
‫تف‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫‪6‬۔ م خ ش ن ن‬
‫ل‬ ‫دال‬ ‫رق‬
‫شخ‬ ‫سے ج ات اور حصول ج ت کا امن‬ ‫دوزخ پ ن‬‫‪i‬۔ م ی الد پر و ی م ا ا اور رچ کر ا ؒ ن‬
‫ے کہ ہ رفوہ نص ج و‬ ‫ہ‬ ‫نالعروس می ں لکھا‬ ‫عالمہ ع ب دالرحمن اب ن ج وزیخے ا ی کت تاب مولد‬
‫سے مح وظ رہ‬
‫ے‬ ‫ے کے لی‬ ‫ےخ گٓا ت‬ ‫عالی ے اس کے لی‬
‫ہ‬ ‫مصطہفوا‪ ،‬ہللا ٰ‬‫والدت کے بناعث وش‬ ‫ٓاپﷺ کی ئ‬
‫اور ڈھال ب ن‬ ‫حج فاب ش ف‬
‫ے‬ ‫رچ ک ی ا و ٓاپﷺ اس کے لی‬ ‫م‬ ‫در‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫یﷺ‬ ‫مولد‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ا‬
‫ض‬
‫کے ب ثدلے می ں دس در م معاو ہ دے گا۔ اے امت‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫عالیخہ ر در م‬ ‫ہللا‬‫ن‬‫اور‬ ‫گے‬
‫ت‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ع‬ ‫ش ا ع وت م‬
‫خ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫)‬ ‫‪۱۳‬‬ ‫(‬ ‫ے ب ش ارت کہ و ے دن ی ا ٰو ٓا رت می ں ی ر ک ی ر حاصل کرل ی ا۔ئ‬ ‫ھ‬ ‫دمحم ہ ج‬
‫ے‬ ‫ن‬
‫ے و وہ سعادت م د تہ‬ ‫ے کو ی ل تکر ا ہ‬
‫عم‬ ‫ﷺ کی والدت کےتلی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫کہ ج و احمد مج‬ ‫خی ش اور مزی د ی ہ ل خکھا ف‬
‫ن‬ ‫ٰ‬
‫اس کے سا ھ‬ ‫لے گا اور ج ت عدن مینں مو ی سے مرصعش اجن اور سب ز ل ب ئ‬ ‫اور و ی‪ ،‬عزت اور حی رو خ ر کو پ ا ئ‬ ‫خ‬
‫ے ج ا ی ں گے۔‬ ‫ے مار ہی ںنکی‬ ‫ئ‬ ‫ان کرقے والے کے لی‬ ‫ج‬
‫ے ج ا ی ں گے و ؒب ین‬ ‫ض‬
‫اس کو ل ع طا یک‬‫م‬ ‫دا ل وگا۔ ق‬ ‫ہ‬
‫مذکورہ ا وال کے خمن مقی ں اب نن ج وزی ے رٓان و حدی ث سے کو ی دل ی ل ہی ں دی۔‬
‫ع ق‬
‫لک ت‬
‫ض‬
‫عم‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬‫‪iv‬۔ سرکار دو عالمﷺ کا ودؒ ی‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫اس فمن می ں ن ھ‬ ‫ںق خ‬ ‫ف حسن الم ن صد ی ل المولد نمی ق‬ ‫س وطی اپ ی صن ی ن‬ ‫امام ج الل الدی ثن ی‬
‫ٓاپ کے‬ ‫ع‬
‫ے کہ ٓاپ ے اعالن ت ب وت کے ب عد اپ ا ق قی ہ تود رمای ا۔ق قحاال کہ ن‬ ‫ئ‬ ‫تہ‬ ‫احادی ضث سے ی ہ ب ات اب ن‬
‫ع‬ ‫ع‬
‫سا ویش ن دن ظٓاپ کا ی ہ ک ی ا ن ھاق قاور خ ی ف ہ دوب ارہ ہی ں‬ ‫کی پن ی دا ش کے خ‬ ‫رت ع ب دالم طلب ے ن‬
‫ٓاپ‬ ‫دادا ح ت‬ ‫ت‬
‫ے۔ لہذا‬ ‫ہش‬‫ی خ‬ ‫ا‬ ‫رما‬ ‫ود‬ ‫ہ‬
‫ل پ ئ ی ق‬‫ع‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ار‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫والدت‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫پ‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ٓاپ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہہ و ب ح ئ ہہ‬
‫ہی‬ ‫ی‬ ‫مال‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ا‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫ک‬
‫الد پ اک می شں ا ماع کرکے‪ ،‬لوگوں کو ھا ا ھال کے اور دی گر ج ا ز طر وں سے و ی و‬ ‫ج‬ ‫ے کہ م م ی ت‬ ‫می ں ھی چظ اہ‬
‫عالی کا کر ادا کری ں۔ (‪)۱۴‬‬ ‫مسرت کا ا ہار کرکے ہللا ٰ‬

‫‪85‬‬
‫ق‬ ‫تق‬ ‫فصل دوم‬
‫ئ‬ ‫ح‬ ‫شت‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫لک ئ‬
‫م ی الد الن ب یﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور م مالت کا ی ج ا زہ‬
‫ی‬

‫ق‬ ‫تق‬ ‫ق‬ ‫ق‬


‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ح‬
‫نتق ن‬ ‫ف ن‬ ‫ت‬ ‫ؒ‬ ‫زہ‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫والدت‬ ‫از‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ات‬ ‫ع‬ ‫‪1‬۔ وا‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ب‬
‫الوہ مام ش ی ن ےش یل ق و ا غ ال ور‬ ‫س وطی کے عم ن‬ ‫زیر حث ک ض ب می ں عالمہ ج الل الدی ن ی‬
‫ے والی ب ارات اور م اہ دات و ی رہ کے‬ ‫والدت دمحمیﷺ ل‬ ‫ئ‬ ‫دمحمیﷺ باور ح رت ٓامن ؓہ کو ب ل از‬ ‫ض‬
‫ے‪:‬‬ ‫ل‬ ‫ذ‬ ‫درج‬ ‫زہ‬ ‫ا‬ ‫مالی‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے۔‬ ‫کی‬ ‫حث‬ ‫ر‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ج ج‬ ‫ہ‬ ‫مو خ ن پ‬
‫وعات‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ت ئ‬ ‫دمحمیﷺ‬
‫ب‬ ‫‪i‬۔ لی ق ور ض‬
‫ہت ردو ب دل کے نسا ھ ہ ر‬ ‫ھوڑے بن‬ ‫اس موپتن وع پر حث کرے ہ وے الج اظ و خروا قی ات کے ت‬ ‫ن‬
‫ے ور‬ ‫ہ‬
‫عالیت ے سب سے پ ل‬ ‫ہللا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ات‬ ‫لو‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫تہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ی ی‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫مصن ف‬
‫ج‬ ‫ٰ‬ ‫ل‬ ‫خ‬
‫ل‬ ‫خ‬
‫اول ا ئ نق ہ ی ں‪ٓ ،‬اپﷺ ہ ر مولود خکے و ئ نود کا سب ب ہ ی ں۔ ٓاپ‬ ‫دمحمیﷺ کو لی ق ک ی ا۔ ٓاپﷺ‬ ‫ن ن‬
‫ات ہ ی ں۔ اگر‬ ‫ٓاپ توج ہ خ ت یل ق کا ات ہ ی ں۔ ٓاپ ب اعث ت یل ق کا ق‬ ‫ت‬ ‫ں۔‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫نش م ی‬‫واالرواح‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫اور‬ ‫وار‬ ‫وراال‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫عالی نکا ات کی سی چ خیز کو پ ی دا ہ کر ا۔ لوح و لم‪ ،‬زمی ن و ٓاسمان‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ٓاپﷺ کون پ ی دا کر ا صود ہن و ا وشہللا ٰ‬ ‫ن‬
‫ن مس و مر‪ ،‬ظ ام ج رون نحج ر‪ ،‬ج ت وت دوزخ نکی یل ق کا سب ب ٓاپﷺ نکی ذات پ اک‬ ‫ساں‪ ،‬ظ ام‬ ‫ج نوا ت‬
‫ے ور کے پَر و سے ور دمحمیﷺ کو پ ی دا ک ی ا اور پ ھر ور دمحمیﷺ‬ ‫ے اپ‬‫سبخشسے پہل‬ ‫ے۔ ہللا ع ئ ٰنالی ے ج ب‬ ‫ہ‬
‫وری کا شات کو و ود ا۔‬ ‫سے پ ق‬
‫لک ت‬ ‫ؓ‬ ‫ض‬ ‫پن‬ ‫ب ول اعر‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ناب فن وزی ا ی کت اب مولد العروس می ں ح ترت کعب االح ب ار کے حوالے سے ھ‬ ‫ج‬ ‫عالمہ‬ ‫ض‬
‫ن‬ ‫من‬ ‫خ‬ ‫خ ق‬ ‫ن‬ ‫ن ت‬ ‫ا‪:‬‬ ‫ی‬‫رما‬ ‫ے‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح‬
‫وں کو پ ست کرے اور‬ ‫نز ی ن ن‬ ‫کی یل ق‪،‬‬ ‫’’ج نب ہللا ن بس حا ہنع ٰالی ے فم لو تات ت‬
‫ک‬ ‫ٹ‬
‫ےت ور سے ای ن‬ ‫پ‬‫ہللا ع ٰالی ے ا‬ ‫ٓاسما وں کو ب ل د کرےحکا ارادہ رمای ا و ف‬ ‫ش‬
‫ت لی اور اس کو کم دی ا کہندمحم مصط یﷺٹہ وج أو و ی ہ ھی ب ھر تور‪،‬‬
‫م‬ ‫م ن‬
‫حمدللہ‬‫خ‬ ‫نی ا اور عرض کی‪ :‬ال‬ ‫سج دہ فریز ہ وے کے ب عد سر کو ا ھا‬ ‫ش‬ ‫ناور‬ ‫تعمو ِد تور ب ن گ ی ا‬
‫ے ار اد رمای ا‪ :‬اسی وج ہ سے می ں ے ٓاپﷺ کی یل تق‬ ‫عالی ن‬ ‫و ہللا ٰ‬
‫داء کر ا‬‫ن ن‬ ‫لوق کی اب ت‬ ‫خ‬
‫م‬
‫ٓاپﷺ سے ی ت‬ ‫ہ‬ ‫کی اور ٓاپ کا ام ’’دمحم‘‘ ر ھا۔ ت‬
‫خ‬ ‫ک‬
‫گا۔ پ ھر ہللا ع ٰالی ے ور‬ ‫کروں‬ ‫م‬ ‫رسولوں نکو‬ ‫ہ‬ ‫ہ وں اور‬
‫ظ ف‬ ‫ٓاپﷺ پر ی ؑ پ ش‬ ‫ض‬ ‫ت‬
‫ق ت ن دمحمیﷺ کو ح رت ٓادم کی ی ا ی می ؒںف اہ رترمای ا‘‘۔ (‪ ۱۵‬ت) ن ن‬
‫عالیف ے تور دمحمی قکو دس‬ ‫سی قم ور ق‬ ‫ق‬
‫ے ہ ی ں کہ ہللا محٰ‬ ‫دمحمی کے حوالے سے عالمہ اب ن ج وزی رما ت‬
‫ن‬
‫سے لم‪،‬‬ ‫لوح نوظ‪ ،‬چ و ھی ن ق‬ ‫کرسی‪ ،‬یسری نسے من‬ ‫عرش‪ ،‬دوسری سے ٹ‬ ‫سے ت‬ ‫سموں قمی ں سی م ک ی چا۔ ٹسم اول ن‬
‫پ ا چ وی ں سے سورج‪ ،‬ھ ی سے چ اف د‪ ،‬سا وی ں سے ست ارے‪ٓ ،‬ا ھوی ں سے ور مو ی ن‪ ،‬وی ں سے ور لب اور‬
‫دسوی ں سم روح دمحمﷺ کو پ ی دا رمای ا۔‬
‫‪86‬‬
‫ن‬ ‫مؒ‬ ‫ض‬
‫لک ت‬ ‫المہ اب ن حج ر کی اپ ی کت اب مولد الن ب ت‬
‫ے ہ ینں کہ‬ ‫ں ھ‬ ‫یﷺ می ت‬ ‫ع‬ ‫خ‬ ‫اس من می ں ع ت‬
‫کے یا ج فاد سے م لق ہ وا و اس ے‬ ‫ارادہ م نلوق ظ‬ ‫ب ہللا ع ٰالی کا‬ ‫’’جحق ق‬
‫ج‬
‫اس کے ب عد مو ود‬ ‫ن ت تدمحمی ہ‘‘ئ نکو حض ور سے اہ ر رمای ا اور ی ہ ق ق‬ ‫م‬ ‫’’ ی‬
‫ے ہ وا‪ ،‬پ ھر اس ’’ح ی ت دمحمی ہ ن‘‘ سے‬ ‫نہل‬‫پ‬ ‫سے‬ ‫ات‬ ‫ت‬ ‫کا‬ ‫ام‬ ‫نئ‬‫م‬ ‫والی‬ ‫ے‬ ‫تہ و‬
‫ق بئوت‘‘‬ ‫س‬
‫کیخ’’ ب‬
‫ن‬ ‫عالی ے ٓاپﷺ کو ٓاپ خ ش‬
‫ع‬ ‫مام عالم ب اے پ ھر ہللا ٰ‬
‫کی و ب ری س ا ی۔ ی ہ‬ ‫سے ٓاگاہ ک ی ا اورقٓاپ کو ٓاپ کی ض’’ ظ ی م ؑرسالت‘‘ ت‬
‫سب چک ھ اس و ت ہ چواشج ب حٹرت ٓادم کا وج ود ن ہ تھا۔ پ ھر ٓاپﷺ‬ ‫ت‬
‫ے پ ھوے‪ ،‬پس مال اع ٰلی می ں مام عالمی ن کا‬ ‫ارواح کے م‬ ‫ظ‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫سے‬
‫ف‬ ‫ن‘‘۔ن(‪)۱۶‬‬ ‫‘‘ اہ ر ہ وا‬ ‫ممد‬ ‫ل‬ ‫’’اص‬
‫الروی ی مولد الن ب یﷺ می ں‬ ‫ن‬ ‫مورد‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ی‬ ‫عالمہ مال علی ق اری ے اپ‬
‫ؓ‬ ‫ض‬
‫ن قاس حوالے سے ح رت ج اب ر ب ن ع ب دہللا ا صاری سے مروی حدی ث پ اک‬
‫ن ت‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ل کی ہ‬
‫ض‬ ‫پ‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫اس حدی ث کوؓ اب ن وزی ے ھی ا ی ن ی ف مولدالعروس می ں ح رت‬ ‫ص‬
‫اس حدیق ث م ب ارکہ کو ٓاج‬ ‫ے۔ ت ق‬ ‫دہللا سے ہ ث ی رواین ن‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ت قکو ب ی ان ک ی ا ہ‬ ‫تج ابر ب تننع بث ئ‬
‫ے کہ ی قہ ی فب ا ئ ب ول کا درج ہ‬
‫ج‬ ‫ع‬ ‫ے ل کی ا ہ‬ ‫ے ک ی ر ا مہ و محد ی ن ش‬ ‫کا‬ ‫کت‬
‫ے کہ‬ ‫ے یس‬ ‫کے ا ٰلی م ام پر ا ز ہ‬ ‫ے اورناس وج ہ سے نہرت‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ر ھ قی‬
‫ب‬
‫ے۔‬ ‫امام س طال ی ے المواہ ب اللد ی ہ می ں ھی اسی حدی ث کو ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ن ش ف‬ ‫(‪)۱۷‬‬ ‫ض‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ہ ت‬ ‫ن‬ ‫ا‪:‬‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫ت‬ ‫ار‬‫ن‬‫ے‬ ‫ورﷺ‬‫ت‬ ‫ح‬
‫ے نور سے پ ی دان رمای ا اور‬ ‫ے رے ب ی کے ور کو ا‬ ‫ت‬ ‫زوں کو پ ی دا کر تے سے پق ل‬ ‫ن ج اب قر! ہللا عالی ے مام چ ن‬
‫نہ ج ت‪ ،‬ن ہ ج ہ م‪ ،‬ننہ‬ ‫تی نن ہ لوح ھی‪ ،‬ن ہ لم‪ ،‬پن‬ ‫فوہش تور ہللا کی درت ٰسے ج ہاں تہللای ے چن اہ ا پ ھر ائرہ ا‪ ،‬اس و ئ‬
‫ے خم لوق کو پ ی دا کرے‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ٓاسمان‪ ،‬ن ہ زم ن‪ ،‬ن ہ ق ن‬ ‫رے‪ ،‬ن ہ ت ن‬
‫سورج‪ ،‬ہ چ ا د‪ ،‬ہ کو ی ج ن‪ ،‬قہ کو ی ا سان۔ ج ب ہللا ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫سے لوح‪ ،‬یسرے سے عرش‪،‬‬ ‫دوسرےف ش ت‬ ‫ن ت‬ ‫ے سےٹ لم‪،‬‬ ‫ے حص‬ ‫ارادہ ک ی ا و ور کو چ ار حصوں می ں سی م کردی ا‪ ،‬پہل‬ ‫کا ت‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫لے رے‪ ،‬دوسرے سے کرسی اور‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ھا‬ ‫ا‬ ‫عرش‬ ‫سے‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫ت‬ ‫ی پ‬ ‫ا‪،‬‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫سی‬
‫ئ‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫ش تی‬‫صوں‬‫ف‬ ‫ح‬ ‫ار‬ ‫تپ ھر چ و ح چ‬
‫کو‬ ‫ے‬‫ص‬ ‫ے‬
‫ھ‬
‫ے سے ٓاسمان‪ ،‬دوسرے‬ ‫ہ‬
‫ے کو چ ار حصوں می ں سی م ک ی ا‪ ،‬پ ل‬ ‫ےت حص‬ ‫پ‬
‫ے تسے ب ا ی رے بن اے‪،‬ن ھر چ و ھ‬ ‫یسرے حص‬
‫ے سے اہ ل انی مان ن‬
‫کی‬ ‫ے کو چ ار فحصوں می ں ت سی م ک ی ا‪ ،‬پہل‬ ‫ص‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫چ‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫م‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫یسرے‬ ‫اور‬ ‫نسے زمی نن‬
‫حی ن‬
‫ل‬
‫ھوں کا ور‪ ،‬دوسرے سے ان کے دلوں کا ور‪ ،‬ع ی معر ت ا ہٰی اور یسرے سے ان کی زب ا وں کا ور‬ ‫ٓا نک ت‬
‫قن‬ ‫ق‬ ‫مؒ‬ ‫ہللا۔ (‪)۱۸‬‬ ‫س اال ہللا دمحم رسول ن‬ ‫ی ع ی وح ی د ال الہ‬
‫ب‬ ‫ےتمیم ں مصن ف ن‬ ‫اس لسل‬
‫ے کہ ق‬ ‫ے عئالمہ اب نت حج ر کینکےنول کو ھی پ نل ک ی ا ہ‬
‫ے حمب وب کو ا یت ازلی ت ساب ہ‬ ‫عالی ے اپ‬ ‫’’ ہی ں نمعلوم ہ و ا چ اہ‬
‫ہللا ٰ‬ ‫ے کہ ف‬ ‫ش‬
‫کہ جق ب ہللا ع ظ ٰالی کا ارادہ‬ ‫اس طرح ق‬
‫ح‬ ‫سے تم رفنرمای ا ی ہ ن‬ ‫وت ئ‬ ‫ن‬ ‫می ں سب ق ب‬
‫دمحمی ہ اہ ر نکی‬ ‫سےئ تی ت ن‬ ‫ن‬ ‫اس ےتمحض ور‬ ‫ہ وا کہ وہ مخ لوق ب اے ون‬
‫م‬
‫ئلوق ب ا ی و اس ے حض ور‬ ‫خ‬
‫اس کے ب عد پ ی دا ہ و تے والی مام م‬ ‫ج ب کہ حق ق‬
‫قن‬ ‫سے مام ج ہان ب اے ن‘‘۔‬ ‫ن‬ ‫سے ی ت دمحم‬
‫ب‬ ‫نی ہ ض‬
‫تاس کے ب عد مصن ف فے ح رت ج ابر ب ن ع ب دہللا ا صاری سے مروی وہ حدی ث پ اک ھی ل کی‬
‫خ‬ ‫ے ہ ی نں۔‬ ‫یﷺ می ں ب فھی کرچ نک‬ ‫تب ئ‬ ‫ذکر ہ م المورد الروی ی مولد ال‬
‫ن‬ ‫ے جس خکا ن‬ ‫ہ‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫پ‬ ‫ل‬
‫ک ت یل ق ور دمحمیﷺ کا ذکر کرے وے امام ر ا کت ا ی ا ی کت اب ا من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ً‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫م ںل‬
‫ش‬ ‫مصط‬ ‫ھ‬ ‫ی‬
‫ے ک ہللا‬ ‫ئ‬
‫کرام!‬ ‫سادات‬ ‫ت‬ ‫صوصا‬ ‫یﷺ‬ ‫دمحم‬ ‫ئ‬
‫امت‬ ‫’’اے‬
‫اسضکے‬ ‫ت‬ ‫ھی‬
‫ن‬
‫بب‬
‫ی‬ ‫کو‬ ‫اور‬ ‫ھی‬ ‫ہ‬ ‫ت عالیشت ھا اور کو ی چ ز اس کے سات ھ موج ود ن‬
‫ت‬
‫ق‬
‫کمت کام ئ نلہ ے ت ا خ ا ک ی ا اور‬ ‫دائ ٰرہ ہودش می ں ش رییک ن ہ ھا۔ پس اس تکی ح ئ‬
‫ئکی م ی نت خ اصہ اس امر کی طرف م وج ہ ہ و فی کہ کا نات کو یل ق ک ی ا‬ ‫اس‬
‫مت ونکمال‬ ‫ظ‬
‫ئ ص ت عش ٗ ن‬‫ع‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ات‬ ‫ت‬‫کی‬ ‫ذات‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ذات‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ش ی‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ف‬ ‫جا‬
‫ن‬ ‫ح‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫عالی صا ہ ے اپ‬ ‫عارفقکروای ا ج اے۔ع و ق ٰ‬ ‫ق‬ ‫ناور ر عت ان سے م‬
‫ا وار احدی ت و صمدی ت سے ی ت احمدی ہ ( لی صاحب ھا ال لوات‬ ‫ح‬
‫‪87‬‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫ل‬ ‫ت‬
‫ت‬
‫والح ی ات نوا لی مات) کی ت قلی ق رماکر اس کا ٓا از ک ی ا اکہ ذات ود ذات‬ ‫س‬
‫ےتج الل و ج مال اور دیس کے پردوں می ں م ج ٰلی ہ و۔ رسول‬ ‫ے اپ‬ ‫کے لی‬
‫ے ہ نلوح‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫ٓاپﷺ سے پ ل‬ ‫ئ‬ ‫خ‬
‫ل‬
‫ہللاﷺ می طور پر ’’اول ا ق‘‘ ہ ی ں۔‬
‫ل‬ ‫ح‬ ‫ق ت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫اور ھا۔ خٓاپﷺ ور کی‬ ‫عرش ہ ہ ینان کے سوا کو ی ت‬ ‫ٓاب و‬‫ن‬ ‫ے ہ‬ ‫و لم ھ‬
‫ے تاس کی بضزرگ و ب ر ر ب ارگاہ اص منی ں‬
‫ی‬ ‫ص‬ ‫موال ئکے نسام‬ ‫ے نت‬ ‫قصورت مینں اپ‬
‫ے۔ ح ور ’’ا ل اصول‘‘ ع ی ہ ر‬ ‫رب ت مع وی کی ا ہا ی م زل پر ھ‬
‫ے ذری عہ وصول ہ ی ں اور ہ ر‬ ‫مخ لوق کا من ب ع و مصدر ہ ی ں اور ہ ر واصل کے لی‬
‫ت ق ن موج ود کا ب اعث وج ود ٓاپﷺ ہ ی ہ ی ں‘‘۔ (‪)۱۹‬‬
‫ن‬
‫ؓ‬ ‫ض‬ ‫ؑ‬ ‫ت ض‬ ‫ف‬
‫مصط‬ ‫ن‬ ‫دمحمیﷺ‬ ‫ن‬ ‫ور‬ ‫‪ii‬۔ ا ن ِ ق‬
‫ال‬ ‫ت‬
‫یﷺق کا ح نرت ٓادم سے لے کر ح رت ؒع ب دہللا‬ ‫ش ا ال شور دمحمیﷺ سے مراد ور‬
‫س‬
‫ے۔ امام ج الل الدی ن ی وطی کے‬ ‫م‬
‫وں سے پگفاکتی زہ ر موں می ں ل و ا ہ‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ص‬
‫ناکی زہ لب ض‬ ‫در فپ ت پ‬ ‫ت ک تپ ت‬
‫ف‬ ‫ث‬ ‫ت‬ ‫ہللا‬‫ے کہ ق‬ ‫ہ‬ ‫وع پر گو کی‬ ‫ش‬ ‫اس مو‬ ‫تعالوہ منام مصن ی ن ے ن‬
‫عالی ے ٓاپﷺ کے سب ریف کو ج اہ لی ت کی ب اح وں سے اور ج اہ لی ت کے ا رات سے مح وظ‬ ‫کٰ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ؒ‬ ‫ھا۔‬ ‫ر‬
‫ض ؑ ؑت ق پ ش‬ ‫لک ت‬ ‫ج‬ ‫ح‬
‫ٓادم کی ی ا ی‬ ‫م‬ ‫دمحمﷺ ح رت‬ ‫ں کہ پور ت ن ض‬ ‫ےہی ت‬ ‫ن عالمہ ع ب دالر من اب ن وزی مولد العروس می نں ھ‬
‫ہ‬
‫رت حوا کو ض ل وا اور وہ‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫کے چ ا د کی طرح ھا۔ ھر ی ہ ور تح ت‬ ‫سے سورج ی ا چ ودھوی ں ن‬ ‫ال کے لحاظ ئ‬ ‫ےشکم ؑ‬ ‫می ضں اپ‬
‫طرح ی ہ ور اصالب ضطاہ رہ می ں من ل ہ و ا رہ ا ح ئی کہ ح نرت‬ ‫ش‬ ‫اسی‬ ‫ں۔‬ ‫ث ی‬‫و‬ ‫ہ‬ ‫لہ‬ ‫م‬ ‫حا‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫رت‬ ‫ح‬
‫رت ع ب دہللا قسے حاضملہ ہ و ی ں۔ ور ن‬ ‫ے ای ک ی ربی عورت سے ن ادی کیئ اور وہ نح ن ت‬ ‫ض‬ ‫لب‬ ‫ط‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫عب‬
‫دمحمیﷺ ح ضرت ع ب دہللا نکے چہرہ پر چ ا د کے دا رہ کی ما ق د ھا۔ اس و ت ح رت ع ب دالم طلب ے‬ ‫ٓاپ کی ش‬ ‫ؓ‬
‫ت‬ ‫ؑ ظ‬ ‫ض‬ ‫رت ؒٓامن ہن ب ت وہ ب سے کردی۔‬ ‫ح‬ ‫ادی‬
‫نو‬ ‫رت ٓادم شکا ؑہور ہ وا‬ ‫مطراز ہ ی ؑں کہم ج ق بہح ض‬
‫ت‬ ‫یﷺ می ضں ر ش‬ ‫ن‬ ‫اب مولد الن ب‬ ‫قعالمہ اب ن حجن ر مکی اپ ی کت ن‬
‫نپ ھرنی ہ ور ح ترت ی ث نکو ن‬ ‫چ‬ ‫پش‬
‫ے‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫رت‬
‫ت‬ ‫ح‬ ‫ن‬‫وا۔‬ ‫ل‬ ‫کا‬ ‫ؑ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ض‬ ‫ہ نمارے ٓا اﷺ کا ور ان کی ی‬
‫ٓادممے ا تہی ں کیض ھی کہ اس ؓ ور کو صرف ا ہی عور وں می ں رکھ ن ا وج‬ ‫ت‬ ‫اپ ی اوالد کو وہ ی وصی ت کی ج و تح رت‬
‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫چ‬
‫تلم طلب کا دور ٓاگ ی ا۔ت‬ ‫پ اکی زہ ہ وں پ ھر ی قہی وصی نت لگا ار ٓاگے ل ی رف ی ح ی کہ ح رت ع ب دہللاق ب ن ع ب دا‬
‫عالی‬
‫بمہللات ٰ‬ ‫ن ض مال علی ؑاری اپ ی کت اب الموردش الروی ین مولد الن ب یﷺ می تں ل ؑکرے ہشی ں کہ ج‬
‫ن‬
‫ھا۔ب ٹ‬ ‫نا ن‬ ‫سے چ کت‬ ‫ی ؑ‬ ‫ت می ؑں ور دمحمیﷺ رکھا نو وہ ٓاپ کیض پ ی ا ش‬ ‫کی پ ش‬ ‫ض‬ ‫ان‬‫ٓادم کو پ ی دا ک ی ا اور ت‬ ‫ؑ‬ ‫ے ح ضرت‬
‫ے‬ ‫ے ی‬ ‫وصی ب ای ا گ ی ا پ ھر ح رت ی تث ے اپ‬ ‫ٓادم کا ف‬ ‫ت‬
‫وصال ہ وا ؑو حنرت ی ث کو اوالد ن‬
‫ک‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫مصط‬ ‫ب ح رت ٓادم جکا ض‬ ‫ہ‬
‫ج‬
‫ں ر ھا‬ ‫صرف پ ناکی زہ عور توں مین‬ ‫ت‬ ‫کو وئی وصی ت کی و ح رت ٓادم ے ان کو کی ھی کہ ی ہ ور م قیﷺ‬
‫عالی ے اس‬ ‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ن‬ ‫ٓا‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫نرہ‬ ‫ی‬ ‫طرف ب راب ر ن تل ہ و‬ ‫دور تکی پ ن‬ ‫دور نسے ضدوسرے ؓ‬ ‫نج اے اور ی ہ وصی ت ای ک ف‬
‫ٰ‬ ‫ور تکو ع ب دالم تط‬
‫عالی ے اس سب پ اک کو ج اہ لی ت‬ ‫ٰ‬ ‫ع ب دہللا ک ہ چ ای ا اور ہللا‬ ‫رت ن‬ ‫لب اور ان کے رز د ح ض‬
‫ص‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫مﷺ کی یح ح احادی جث می خں وارد ہ وا ہ‬ ‫ب‬
‫یسا کہ ح ور ب ی کری‬ ‫کی مام کدور وں سے پ اک رکھا۔ جن‬
‫ےش کہ‬ ‫الصہ ی ہ ہہ‬ ‫ے۔ ن کا ت‬ ‫ئ‬
‫ث کا حوالہ ھی دی ا خہ ن‬ ‫من می ں مصن ف ے چ ار احادی غ‬ ‫ئ‬ ‫اس‬ ‫ض‬
‫ح ورﷺ کی پ ی داش ش می ں دور ج اہ لی ت کی سی لطمکاری تکا کو ی د ل ہی ں اور ہللا ع ٰالی می ہ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫ن ئ‬ ‫طرف نئللکرک اترہ ا۔ ن‬ ‫ٓاپﷺ پ اکی زہ پ وں سے پ اکتی زہ رحموں کی ت‬
‫ے ہ ی ں کہ ب ی کری مﷺ ا ب ی ا نے کرامت کے‬ ‫ے ہ وے ھ‬ ‫ئای ک ن ب ی ی ہ ب ی ان کر ن‬ ‫ی ہاں مپ تر قمصن ف‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫اب ا ب ی اء ی ھ‬ ‫ٓاپﷺ کے سارے اح ب ت‬ ‫ن‬ ‫اس کا م طلب ی ہ ہی ں کہ‬ ‫ا نصالبت سے ن ل ہ وے‪،‬‬
‫س‬ ‫ب‬ ‫خ‬
‫لب نھی ت فہی ں کہ ٓاپﷺ کے مام ٓاب اءضم لمان‬ ‫ط‬
‫ے اور ی ہ م ف ق‬ ‫الف ہ‬ ‫کے ہ ی ف‬ ‫یتک و کہ ی ہ و اج ماع علماءت‬
‫طالب اور ح رت‬ ‫ق‬ ‫ے اب و‬ ‫نس‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ے‬‫ہ‬ ‫ے ن ن کے ک ر پر ب ڑے بڑے ہا ے اض اق ک ی ا‬ ‫ج‬ ‫ے‪ؑ ،‬ان می ں وہ ب ھی ضھ‬ ‫ھ‬
‫ک ل رسالہ لکھا‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ے ای ئ ت‬ ‫ک‬ ‫ل‬
‫ن۔ اس مو وع پضر می ں‬ ‫مﷺ کے والدی ؒ‬
‫س‬ ‫اب را ی م کے والدطاور ح ئور ب پی کری ئ‬
‫ے ی ن رسالوں کے رد‬ ‫ےگ‬ ‫ے ہ ی ں۔ امام ی وطی کے اس مو وع پر ھ‬ ‫ے جس می ں عی دال ل یش کردی‬ ‫ہ‬
‫لک ت‬ ‫خ‬ ‫پن‬ ‫ن‬ ‫جف‬ ‫ں۔‬ ‫می‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ئ‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ع‬
‫بمولد ی رالع ب اد می ں ھ ن‬ ‫اس کے ب ر کس امام دمحم ب ن ر ا کت ا ی ا یبکت اب ا نمن واالسعاد ت‬
‫کے ا ب ی اء و‬ ‫ف‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫نی ک ھی ایسا ہی ں ہ وا ج و ہللا ٰن‬
‫الی‬ ‫ع‬ ‫سے کو ی ا‬ ‫کے ٓاب اء اور امہات می ں ت‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫رسل پر ای مان ہ ر ھت ا و۔ مزی د ب رٓاں ہللا ع ٰالی ے ٓاپﷺ کی ذات گرامی پر ا عام و احسان رمای ا کہ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ن‬

‫‪88‬‬
‫ئ ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ئی ا اور وہ دو وں ٓاپﷺ پر ای مان الے اکہ‬ ‫ے ز دہ ک‬ ‫ٓاپﷺ کے لی‬ ‫خ‬ ‫ٓاپﷺ کے والدی ن کری می ن کو‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫زہ‬
‫ن قع ہ‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫ل یی ضج‬‫ں‬ ‫م‬ ‫اصہ‬ ‫امت‬ ‫اور‬
‫ن ض‬ ‫گروہ‬ ‫کے‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ار‬‫م‬ ‫ان کا‬
‫خ‬ ‫ض‬
‫تاگرچ ہ اس روای ت کی اس اد عی ف ہ ی ں کن عی ف روای ت پر ا ل و م ا ب می ں ب ال ا ت الف‬
‫ٓاپﷺنکے والدی ن کری می ن ی ا ٓاپﷺ کے ٓاب أو اج تداد می ں سے کسی نکے ب ارے‬ ‫ک‬ ‫ے۔ ق‬ ‫عملجک ی ان ج ا ا ہن‬
‫ازل ہ و۔‬‫کے م طابق تعت اب ت‬ ‫ے والے پر ہللا کی طرف سے اس کے ج رمن ق‬
‫ح‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ے کا ع ی دہ ر‬ ‫می ںش خہ می ہ و ق‬
‫ے اور اپ یف ی ق اور اج ہاد کے اع ب تار سے‬ ‫ایسا ص صدی ی نن فو صا نلحی ن کے مرا ب سے نم قحروم ہ لیف رہ ت ا ہ‬ ‫غ‬
‫ص‬ ‫ل‬
‫ےو‬ ‫ے اور اگر ب ال رض اس کا کہا یح ح ہ‬ ‫ے ائ کار و ظ ری ات کے لحاظ سے ا ص ا ہم ہ‬ ‫ے۔ اپ‬ ‫طی پشر ہ ن‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫ے۔(ت‪)۲۰‬‬ ‫ہ‬ ‫اسے رم ٓا ی چ ا‬
‫مﷺ کی حمب ت‬ ‫کری‬ ‫رسول‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫را‬ ‫عالی‬ ‫ہللا‬ ‫سے‬ ‫کرام‬ ‫ماء‬ ‫ع‬ ‫ان‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ے‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫وہ‬ ‫رٓاں‬
‫ف‬ ‫مکم‬ ‫گی‬ ‫ع‬ ‫ٰ‬ ‫ھن ی ش ت ل ن‬ ‫ہ‬ ‫مزی د ب ن‬
‫ت ظ ی م ب ارگاہ کا ل اور ج امع د اع ک ی ا۔ ان‬ ‫ے اس‬ ‫ے مار صا ی ف کے ذری ع‬ ‫ہوں ے ب‬ ‫ے ہ ی ں اور ا‬ ‫می ں چس ن‬
‫ب‬
‫سے عض اس ٓای ت کری مہ سے است دالل کرے ہ ی ں۔‬ ‫اہ ل دا شش می ں ت‬
‫ے‪:‬‬ ‫عالی ہ‬ ‫ار اد ب اریلق ٰ‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ست‬ ‫ن‬
‫(ا رٓان ‪)۳۳:۵۷‬‬
‫ے‪ٓ ،‬اپﷺ کے والدی ن ( عوذ ب اللہ)‬ ‫ے؟ کہ کو ی کہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫خ اس سے بتڑی ای ذاء رسا ی ک ی ک ہ‬
‫ا‬ ‫اور‬
‫دوز ی ہ ی ں۔‬
‫ت‬ ‫خ‬
‫‪iii‬۔ وج ود ضمسعود کی یل ق‬
‫م ن ظ خ‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫خ‬
‫ال ک ی ا‬
‫ق پر مذکورہ م ر م ؓعربی ک ب می ں سے اب ن حج ر کی ے ا ت ہار ین‬ ‫ن یل ض‬ ‫ح ور کے وج ود منسعود کی‬
‫عالی ے‬ ‫ٰ‬ ‫ے کہیج ب ٹہللا ئ‬ ‫ان ک ی ا ہ‬ ‫ح‬ ‫ت کو ب ی‬ ‫ن رت کعب اتح ب ارض کی روای ئ‬ ‫مصطفلہ می ں ا ہوں ے ح‬ ‫ے۔ اس سلس‬ ‫ہ‬ ‫ض‬
‫رت ج برا ی ل کو فکمشد تی ا کہ وہ ا سی م ی ال ی ں ج و زمی ن‬ ‫ے کا نارادہ ک ی ا و قح ف‬ ‫ت‬ ‫کر‬
‫ن‬ ‫دا‬ ‫ؑ‬
‫ی‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫ئ‬ ‫یﷺ‬ ‫ض‬ ‫دمحم‬ ‫رت‬ ‫ق‬ ‫ح‬
‫لے رئ وں کو لے کر زمی ن ٹکی طرف‬ ‫ٹ‬
‫ا‬ ‫و‬ ‫عت‬ ‫ر‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫را‬ ‫ج‬ ‫رت‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫لب‬ ‫ئ‬ ‫کا‬
‫کا محل‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ک م ھی اتٹ ھا ی۔ اص‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫گہ‬ ‫اس‬ ‫ے۔‬ ‫ور‬
‫پ‬
‫ا‬ ‫ر‬ ‫کی‬
‫ب‬
‫ٓاپﷺ‬
‫ت ح‬
‫ٓاے اور ج ہاں‬
‫ٹ ن ن ئ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ج‬
‫ان وح ٓای انو وہ اں تسے م ی مدی ہ تم ورہ ٓاگ ی۔‬
‫ب‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ے کن ج ب طو‬
‫پ‬ ‫اور ج مگہٹ توہ ب ھی ج ٹہاں کعسب یہ ریف نمو ود ہ ن‬
‫سے گو ن دھا گ ی ا ھر اسے ت کی ہروں می خں ڈ ودی ا گ یئ ا۔ ح ی کہ ای ک‬ ‫اس ھی ھر م ی کو ئ ن م کے پ ا ی ض‬ ‫ف‬
‫س ی د نمو ی کی طرح ہ وگ ی اور اس سے ح ور ب ی کری مﷺ کے وج ود مسعود کی یل ق کی گ ی۔‬
‫م ع ق ت لک ت‬ ‫ت می ں جئلوہ گری‬ ‫دمحمیﷺ کیفرحم مادر‬ ‫ض‬ ‫‪iv‬۔ ور‬
‫ے ہ ی ں کہ جس رات‬ ‫م‬ ‫ے اب ن جئ‬ ‫اس نمو وع پر گو کرے ہ و ف‬ ‫ت‬ ‫گ‬
‫ن‬ ‫وزی‪ ،‬اب جن حج خ رف کی اور ال لی اری ھ‬
‫ئہ‬ ‫م‬
‫بفالمرج ب کان ہی‬ ‫مصط‬ ‫رات ھی۔ رج‬ ‫ارک کی ض‬ ‫ے‪ ،‬وہ معۃما فلم ب ن‬ ‫رحم می ں ج لوہ نرما ہ و ئ‬ ‫والدہ کے م ن‬ ‫تٓاپﷺ اپ ی ن‬
‫یﷺ ب اے‬ ‫ئ‬ ‫سے ح ن رت دمحم ت ش‬ ‫وں اور ز ی وں می ں جی ہ فدا کیہگ ی۔ جس ی ور ش‬ ‫ئھا۔ ناس رات ٓاسما‬
‫ے ب ی ر و ذیر ب ن کر ریف الے گا۔‬ ‫ے وہ ور ٓاج رات ضٓامن ؓہ کے پح ی ٹ می ں لوہن رما وگ ی ا اور لوگوں کے لی‬ ‫جگ ن‬
‫تا گ ی ا کہئوہ ج ت کے سارے دروازے کھول دے اس رات ہ ر چ ار‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کم‬ ‫کو‬ ‫وان‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫ب‬‫در‬‫ق‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫دمحم‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ے ہ وے ب ت ای ا کہ فٓاج کی رات وہ م ب ارک رات ق‬ ‫ش‬‫کر‬ ‫الم‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ےے ر‬ ‫پا ف‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫مصط‬
‫ے ہ ی ں۔ رب کعب ہ کی سم! ٓاپﷺ د ی ا کے‬ ‫ہ‬
‫یﷺ ا ی والدہ کے کم نم ب ارک می ں ج شلوہ رما ت خوچ ک‬
‫ص حش کو ال ٹ ان پڑا ہ غوا دی کھا گ ی ا اورشہ ر‬ ‫امام اور اہ ل دن ی ا نکے چ راغ ہ ی ں۔ د ی ا کے ہ رئ ب اد اہ کا ت اسشرات کی ب‬
‫کے وح ی‬ ‫دن گو گا ہ ونگ ی ا۔ جس کی وج ہ سے کو ی ب ات ن ہ کرسکا۔ م ن رق کے وح نی ج ا ور م ربن‬ ‫خ‬ ‫ب نادش اہ اسخ ش‬
‫والی مخ لوق ے ب شھی‬ ‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ے دوڑے۔ اسی طرح دری أوں اور سم دروں می ں رہ‬
‫ش‬ ‫ے کے لی‬ ‫ج ا وروں کو و ب ری دی‬
‫س‬
‫نب ارات اور عج ا ب ات کا لسلہ روع‬ ‫ای ک دوسرے کو ٓاپ کی ٓامد کی تم ب ارک دی اور ٓاپ کی والدہ ماج دہ پر‬
‫وزی ے مولد ال نعروس می ں س ی تدہ ٓامن ؓہ کو ہ ر ماہ‬ ‫المہ اب ن ج ق‬ ‫اری رہ ا۔ ع ت‬ ‫ہ ن وگ ی ا ج و کہ ٓاپ کی والدت م ب ارکہ ک ج ق‬
‫ش‬
‫اش ب ی اء کرام ت فکا ب ًارت دی ن ا اور والدت سے ب ل ب ارہ را وں کے وا عات کے ع وان کے سا ھ ان‬
‫ے۔‬ ‫ب ارات تکو ص ی ال ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ض‬ ‫ف ن‬ ‫ت‬ ‫‪v‬۔ دن‪ ،‬اری خ اور ماہ والدت ؒ‬
‫ے۔ ج ہاں ک‬ ‫ہ‬ ‫الوہف مام م ی ن ے اس مو وع پر حث کی‬ ‫ن‬
‫ص‬ ‫س وطی کے ع ت‬ ‫امام ج تالل الدی ن ت تی‬
‫ے۔ ج یسا کہ‬ ‫ے ؓکہ ٓاپﷺ کی والدت کان قدن پ یر ہ ی ہ‬ ‫ہض‬ ‫ن کا اس پر ا اق ت‬
‫ض‬ ‫ے و مام‬ ‫ہ‬ ‫یوم والدت کا علق‬
‫ے‪:‬‬ ‫ع‬ ‫مولد العروس می ں اب ن ج وزی ث‬
‫ےن ح رت لی المر ٰی سے مروی حدی ث م ب ارکہ ل کی ہ‬
‫ولد رسل یوم اال ی ن۔ (‪)۲۱‬‬
‫‪89‬‬
‫ئ‬
‫والدت پ یر کو ہ و ی‘‘۔‬ ‫’’رسولﷺ کی ؒ ق‬
‫ثن‬ ‫خ‬ ‫ث‬‫ں اب ن حج ر مکی ر مطراز ہقی ں کہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫مولد الن ب خ ف ف‬
‫یﷺ م‬
‫وا ت ل وا ی من ہی مولدہ ویومہ لی ا وال ک ی رۃ وال الف ان ہ ولد یوم اال ی ن۔‬ ‫ع‬
‫تف‬ ‫ت‬ ‫(‪)۲۲‬‬
‫’’اس ب ات پر مام م ق ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کی والدت ب اسعادت کا دن‬
‫ثلک ت‬ ‫ف‬ ‫ےن‘‘۔‬ ‫ع ق پ یر ہ‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫ف‬ ‫پ‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ں‬
‫ف لش ن ی نھ‬‫م‬ ‫یﷺ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫مولد‬ ‫ی‬ ‫الروی‬ ‫مورد‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫اب‬ ‫ض‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫اری‬ ‫مال لی خ‬
‫ولد ی ہ وا ہور ا خہ یوم اال ی ن۔ (ش‪)۲۳‬‬ ‫م‬ ‫ئ‬
‫وا لف ای ا ی الو ت الذی‬ ‫ت‬
‫ے۔ م ہور ی ہ‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫’’ٓاپﷺ کی پ دا ش کے وق ت م ں ب‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫تی‬
‫نق‬ ‫خ‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ھا‬ ‫کہ پ یرلکا ندن پ ن‬ ‫ےج ف‬ ‫ہ‬
‫ت ع ر ا کت ا ی ا ی کت اب ا من واالسعاد بمولد ی ر الع ب اد می ں یوں ل‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫امام‬
‫ث ق ف‬ ‫ف‬ ‫ے ہ ی ںع کہ ن ف ش‬ ‫کر ث‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫واالک رون لی ا ہ ولد ی ہر ر ع ی من الر ع شاالول م ی ل ی ا یل وم‬ ‫ف‬ ‫ق‬‫ی‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ق‬
‫الغساب ع و ی ل نی الث امن وعلی ہ و ی ل ی الث ا ی ع ر و علی ہ العمل ع ن د اہ ل مکۃ‬
‫ئورج عہ ج ماعۃ من العلماء االک ی اس۔(‪)۲۴‬‬ ‫و ی رثہ م من ال اس‬
‫ی‬
‫والدت موسم ب ہار می ں ر ب ع‬ ‫ٓاپﷺ کی ن‬ ‫ے کہ ئ‬ ‫’’اک ر علشماء کی راے‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫االول ریف ئ م‬
‫ے می ں ہ ٹو ی۔ پ ھر چک ھ ے کہا تکہ سات رب ی ع االول کو‬ ‫کے ہی‬ ‫ئ‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ے کہت ٓا ھ ر ع االول کا دن ھا ج ب کہ ی ہ ھی کہا گ ی ا‬
‫ع‬ ‫عم‬ ‫ہ و ی۔ ای کبراے ی ہ ہ‬
‫ے لماء کرام‬ ‫دن ھا۔ اہ ل مکہ کا ل اس پر ہ‬ ‫نع االول کا ج ق‬ ‫ے تکہ ب ارہ ر تی‬ ‫ہث‬
‫ے‘‘۔‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫ح‬ ‫را‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ق‬ ‫ے‬‫ق‬ ‫عداد‬ ‫ر‬ ‫کی ک ی‬ ‫ق‬
‫یہ‬ ‫حی ئ‬
‫غ‬ ‫ق‬ ‫زہ‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫والدت‬ ‫از‬ ‫عد‬ ‫‪2‬۔ وا ض ب‬
‫عات‬
‫المات اور‬ ‫عادت ًکے و ت سارے عالم می ں جعی ب و ری ب ع‬ ‫ت‬
‫دمحمﷺ کی ظوالدت ب اس ف‬ ‫ح رت ق‬
‫کے عالوہ دن‬ ‫ج‬ ‫خ‬
‫چ‬ ‫ے۔ ان‬ ‫ج‬
‫رق عادت امورت و وا عات کائ ہور وا ن کا ص ی ال ب ی ان واز م ی الد می ں ک ی ا ج اچ کا ہ‬ ‫ہ‬
‫ں کی گ ی ہ ی ں وہ درج ذی ل ہ ی ں‪:‬‬ ‫م ب احث ج و ان ک ب میک ن‬
‫ت‬ ‫ن پ ًن ت‬ ‫کے امس ب اب ع ق‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫دمحمﷺ ر ھ‬ ‫س‬
‫اسم گرامی‬
‫ے ہضی ں‪:‬‬ ‫ف‬ ‫کر‬ ‫ذکر‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ک نی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫اری‬ ‫لی‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫ل ی ب حش‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫لہ‬ ‫س‬ ‫اس‬
‫رای سلسلۃ ۃ‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اروی‬ ‫م‬ ‫دمحما‬ ‫لہ‬ ‫لب‬ ‫خومن اس ب ناب می ۃ ج دہ ع ب دالم ط‬
‫االرض نوطرف ب الم رق شوطرف‬ ‫ن‬ ‫طرف ب الشسماء عوطرف ب ق‬ ‫ن‬ ‫رج غت مث ظ ہرہ لہا‬
‫ھ‬ ‫ل‬
‫ب ا لم غ رب متم علقعادت کاف ہا ج رۃ لی کل یور ۃ م ہا ورص ًواذا یا ل اہلم ل ش‬
‫رق‬
‫وا مغ رب ب ون ب ہا عب رت لہ بمولولد کون من لب ہ ت ب عہ ا ل ا م رق‬
‫ھ‬
‫لذلک سماہ دمحما۔ (‪ )۲۵‬ن‬ ‫والم رب و حمدہ ا ل السماء واالرض م خ‬
‫ے۔ ا ہوں‬ ‫واب کا ذکرئ ک ی ا ہ‬ ‫نکے ن ن‬ ‫دادا ع ب دالم طلب‬ ‫’’ٓاپﷺ کے ش‬ ‫ن‬
‫س کا ای ک‬ ‫ےج غ‬ ‫ے د ھا کہ ان کی ت سے سوے کی ز ج یر شکالی گ ی ہ‬ ‫پ‬ ‫ک‬ ‫ی‬
‫رق اور دوسرا م رب کی‬ ‫سرا م ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے ای ک‬ ‫سرا ٓاسمان اور دوسرا زسمی ن می ں ہ خ‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ے۔ پ ھر وہ کڑ کر تای کشدر‬
‫ت غکی ما د وگ ی جس کے ہ رتپ چہ پرٹ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫طرف ت‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫کےسا‬ ‫اس‬ ‫ش‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫رب‬ ‫مئ‬ ‫ئ‬ ‫و‬ ‫رق‬ ‫م‬ ‫مام‬ ‫ت‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫د‬‫خ‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫اور‬ ‫ھا‬ ‫‘‘‬ ‫ئ‬‫ور‬ ‫’’‬
‫واب کی ش ب یر ی ہ ب ت غا ی گ ی کہ ان کی پ ت سے ای ک‬ ‫ع‬ ‫ہ وے ہ ی ں۔ اس‬
‫ت‬
‫نمی ن و‬ ‫گے اور ز‬ ‫ب چ ہ پ ی دا ہ وگا۔ جس کی ات ب اع م رق و م رب والے کری ں ن‬
‫اس وج ہ سے ا ہوں ے‬ ‫گے۔ ت‬ ‫ت‬ ‫ٓاسمان والے ناس کی عریف کری ں‬
‫اس کےک نسا ھ سا ھ ٓاپﷺ کی والدہ‬
‫ب‬ ‫ٓاپﷺ ؓکانام دمحم رکھا۔ ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫پ‬
‫ے کے لسلہ می ں اس کو ھی یش‬ ‫س‬ ‫ض نح رت ٓام ہ ے ج و چک ھ ب ی ان ک ی ا ام ر ھ‬
‫ئ ن ف‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ظ ر رکھا گ ی ا ع‘‘۔ ق‬
‫عض ٓا مہ ے ف رمای ا۔ حل‬
‫م‬ ‫من می ں مال لی اری ے مزی د ی یہ لکھا کہ ً ف‬ ‫ل‬‫ل‬ ‫اس‬
‫ا ہم ہللا عزوج لل اہ لہ ﷺ ان سموہ دمحما لما ی ہ من الص ات ا مودۃ‬
‫لی طابق االسم ا مس ٰمی۔(‪)۲۶‬‬
‫‪90‬‬
‫ت ن‬
‫دل می ں ی ہ بفات ڈالی کہ‬ ‫کے ت‬ ‫گ‬
‫والوں ق‬
‫ٓاپﷺ کے ھر ن‬ ‫ن‬ ‫الی ے‬ ‫ہللا ع ٰ ن‬
‫تٓاپ تکا ام دمحم رکھی ں یک و کہئٓاپ کے ا در اب ل عریف ص ات موج ود‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬‫ج‬ ‫اسم ب امس ٰمی ہ وج ا‬ ‫ھی تں اکہلک ت‬
‫نکھا گ ی ا۔ ی ہاں‬ ‫ٓاپ سےئ ب ل کسی نکا ام دمحم ہی ں ر‬ ‫ی ش‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫عرب‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫اس کے سا ھ وہ ھ ہ ی‬
‫ے‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ات بم ٹہور ہ وگ ی نکہ ایبک ب ی مب عوث ہ وے واال ہ‬ ‫ن‬ ‫نب‬ ‫ے یہ‬ ‫کہ ٓاپ کے م ی الد پ اکت سے چک ھ عرصہ پ ل‬ ‫ک ن‬
‫ے ی وں کا ی ہ ام تھی رکھا۔ اس ام ی د نپر کہ ان می ں‬ ‫ے اپ‬ ‫ن ہ وگا۔ن ھوڑے سے تلوگوں ن‬ ‫جس کا ئ ام دمحمﷺ‬
‫عالی ے اس ب ات کا ھی اہ مام ک ی ا کہ جس کا ی ہ ام ہ و وہ‬ ‫ب‬
‫ے واال ب ی ہ وگا پ ھر ہللا ٰ‬ ‫سے کو ن ی ای ک ہ و‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫دعوی ب ئوت ن ہ کر ک‬
‫س‬
‫ن ت‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫رض ٰاعی ما ی ں‬
‫ب ہ‬
‫ٓاپﷺ کو‬‫ےہی ںج و ع ق‬ ‫ب‬
‫ٓاپﷺ کے اوصاف و کماالت کی بی ح می ج نں ی ہ مونی ھی می ں ظ ر ٓا ت‬ ‫ض‬ ‫ت ن‬
‫ے۔ ہوں ے ٓاپﷺ ؓکی ر ی ت سےش اف ٰلی م ام‬ ‫ہللا ع ٰالی ے ر اعی مأوںت کی صورت می ں ع طا کی‬
‫ن دای ہ ’’ال ث اء‘‘ می ں‬ ‫امن‘‘ اور ٓاپ کی‬ ‫’’‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫‘‘‬ ‫ہ‬ ‫’’ٓامن‬ ‫کے اسم گرامی‬ ‫ٓاپﷺ کی والدہ مح رمہن‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ا۔ ب‬ ‫پ ای ش ف‬
‫والی ’’ب رکۃ‘‘ می ں ’’ب رکت و ماء‘‘ دودھ پ الے والی ’’ وب ی ہ‘‘ می ں‬ ‫ں دی کھ ب ھال کرے‬ ‫’’ث ا‘‘ چ پ ن می‬
‫مہ سعدی ہ‘‘ می ں ’’حلم و خسعد‘‘ اسی کی کج تھلک ہ ی ں۔‬ ‫’’ واب‘‘ اور ف’’حلی ؒن‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫امام جق ع ر الکت ا ی الی من تواال عاد بمولدخ ترالع اد م ل‬
‫ص‬ ‫نںب ھ‬ ‫ی ب ی‬ ‫سن‬ ‫بن س‬ ‫ش‬
‫لہ ی تم نکی ی ن ک واری وا ی ن ے ھی ی ہ سعادت حا ل کی۔ ان می ں سے ہ ر‬ ‫لی‬ ‫نم ہور ت ب ی ت‬
‫ف ق‬ ‫ت ئ‬ ‫خای تک کانام عا کہ ھا۔ ان یغوں‬
‫پ‬
‫سے) اپ افاپ ا پ ست ان یش ک ی ا اور‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫وا ی ن ے ٓاپ کو کسیق کی ٓا وش می ں گزرے وے دتی کھ کر ( رط ی دتن ن‬ ‫ہ‬
‫ن رمای ا۔ ت‬ ‫ٓاپﷺ ے وش‬ ‫ن‬ ‫ٓاپﷺ کے دہ ن ا ن دس سے لگای ا‪ ،‬انشمی ں دودھ ا ر ٓای ا اور‬
‫ے‪ ،‬درج ذی ل م ہور حدی ث می ں کمال مہرب ا ی سے ٓاپ ے ان ہ ی ی ن‬ ‫عض علماء کاکہ ا ہ‬ ‫خ ت ب ف‬
‫س‬ ‫ت‬ ‫ے‪:‬‬ ‫وا ی ن کو ی اد رمای انہ‬
‫‪ ۲۸‬ت)‬ ‫ا ا اب ن بانلعواسک من ف لی م۔ ( خ‬
‫ن ت مٓاب وا ی ن کا ب ی ٹ ا وں‘‘۔‬
‫ہ‬ ‫’’می ں ی ف لی م کی ع‬
‫ن‬ ‫ے‪:‬‬ ‫سراج النمری دین ن می ں لکھا ہ‬ ‫ری ؒ خے خ ت‬ ‫ب‬ ‫امام اب ن العرابی الم خعا‬
‫ش’’جس ب ھی وش ت ا ون ے ب ی اکرمﷺ کو دودھ پ النے نکا‬
‫ئ‬ ‫ن‬
‫قص‬
‫ے‬ ‫رفححای ق ل ک ی ا‪ ،‬تا عسے دولت ای مان صی ب ہ و ی اور اس ے اپ‬
‫مالک ی سے لق ج وڑ ل ی ا‘‘۔‬ ‫ش‬
‫ف ً‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫والدت‬ ‫ب‬ ‫صح‬‫ب‬
‫ث‬ ‫ؓ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫الد‬
‫ی ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫واز‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ال‬ ‫ص‬
‫ف ی‬ ‫کو‬ ‫رات‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ٓام‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫اور‬ ‫ات‬ ‫ا‬
‫عج ب ت‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫رو‬ ‫کو‬ ‫والدت‬ ‫ب‬ ‫ح‬ ‫ص‬
‫ب‬
‫ے۔ ع ئالوہ ازی ں چ ن د ب ا ی ں ج و کہ امام اب ن ج وزی اور امام ج ع ر الکت ا ی ے اپ ی‬ ‫کے ب اب می ں ب ی ان ک ی ا ج اچ کا ہ‬
‫ئ ئ‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ی ہ‬ ‫ل‬ ‫ذ‬ ‫درج‬ ‫زہ‬ ‫ا‬
‫ن‬ ‫انؓ فکی ہ یتں ان کا اج ج‬
‫مالی‬
‫ن‬ ‫کت اب وں می ں ب ی‬
‫حالت‬
‫ئ عطرئ غ‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫سرمہ ڈا تلے وے‪،‬ن ی ل لگاے وٹے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ے ٓاپ نکو ن‬ ‫خ سشی دہ ٓام ہ رما ی ہ ی ں کہ می ں ئ‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ب‬
‫نے‪ ،‬ی ر‬ ‫ے و‬ ‫وں ا ھوں کو ٓاسما توں کی ضطرف ا ھا ئ ؑ‬ ‫ہ‬ ‫ے دو ن‬ ‫ے ہ وے اور اپ ق‬ ‫می ں ن ت ہ دہ‪ ،‬ہللا عزوج ل کوج نسج دہ یک‬
‫کے مئدی ا۔ی شٓاپ کا چہرہ ا دس ور سے چ مک رہ ا تھا۔ ح رت ج براش ی ل ےغ ٓاپ کو‬ ‫کٹسی اپ اکیناور کدورتئ‬
‫ارب‬ ‫ن سا ھ زمی ن کے م تارق و‬ ‫ل‬
‫ے ر می کپ ڑے می ں پ ی ٹ ا اورٹٓاپ کے‬ ‫نے وٹ ت‬ ‫ہ‬ ‫ا ھای ا اور ج ت سے ال‬
‫ری مکی مان دن‬ ‫گ‬
‫ن ک ب ادل کے نکڑے ے ٓاکر می نرے ھر کو چ ھ‬ ‫ی‬
‫گ‬ ‫ک‬ ‫کا نطواف ک ی ا۔ می ں ے سر ا ھای ا ٹو د کھا کہ ای‬
‫ے‬ ‫ھڑی کے لی‬ ‫ؑ‬ ‫ے سے ای فک‬ ‫م‬ ‫ٓاپ کو می نری ٓا ھوں نکے سا‬ ‫کڑے ےن‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ اس ب جادل ٹکے‬ ‫ڈھا پ ل ی ا ف ً‬
‫ہ‬
‫دمحمﷺ کو ص ؑوت ٓادم‪ ،‬مولد‬ ‫لے کو س ا کہ ف‬ ‫ے ؑ وا ف ت‬ ‫ک‬
‫ے کسی ہ‬ ‫ں‬
‫ے۔ میع ؑ‬ ‫ےگ‬ ‫ٓاپ م ھ‬ ‫ورا ہ ؑی‬
‫ح‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ے ؑلو ا دی‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫شلے ل ی ا شاور ن‬
‫عت غادریس‪ ؑ ،‬کمت‬ ‫صاحب ؑصالح‪ ،‬ر ش ؑ‬ ‫س‬ ‫اق‪،‬‬
‫ل‪ ،‬ر ق اء اسح ؑ‬ ‫ؑ‬ ‫سان اسما ی‬ ‫وح‪ؑ ،‬لم اب را ی م‪ ،‬ل ؑ‬ ‫ن ی ؑث‪،‬ش ج اع ی ق‬
‫ہ‬
‫ہاد ی ضو ع‪ ،‬مٔہ دأود اور ی ب ت‬
‫ؑ‬
‫ب‬
‫موسی‪ ،‬یعی ح ی ؑو س‪ ،‬جع خ‬ ‫ؑ‬ ‫ق‬
‫وب‪ ،‬ج مال یوسف‪ ،‬صب ر یای ؑوب‪ ،‬وت ٰ‬ ‫سعمان ؑ‪ ،‬ب ارت ن ع ق‬
‫سی اور خلم ر ع طا کردو اور ٓاپﷺ‬ ‫صمت ش ٰحی‪ ،‬ب ولیشت زکری ا‪ ،‬زہ د ٰ‬ ‫اس‪ ،‬ع‬ ‫حب دا ی ال خو ار ال ی غ‬ ‫لنی مان‪،‬‬
‫وآال ری نن ہ ی ں۔‬ ‫داالوفلی ن ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ہ‬ ‫کو ا ب ی اء و ر ؓ فل کے ا الق می ں وطہ ہدو۔ ب ال ک و ب ہ ٓاپ سفی ش ت‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ہ‬ ‫ور‬ ‫ازل‬ ‫وج‬ ‫در‬ ‫وج‬ ‫ے‬ ‫ٓاپ رما ی ہ ی ں کہ می ں دی کھ ر ی ھی کہ ٓاپﷺ پر ر‬

‫‪91‬‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ؒ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کے‬ ‫ہ‬‫حلی مہ عد ؓ‬
‫بن‬ ‫گ‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫س ی‬
‫ے۔نجس می ں نو‬ ‫وع پر ت گو کی ہ‬ ‫ب‬ ‫س وطی کے عالوہ مام مصن ی ن ے اس نمو‬ ‫امام ج الل الدی ن ی‬ ‫ت‬
‫ے ٓا ا‪،‬‬ ‫ے تکے لی‬ ‫عرب کی روای ات کے م طابق ضومولود چ حوں ؓکو گودخمیش ں لی‬ ‫طرف ن ض‬ ‫ص‬
‫کا وادی مکہ کی‬ ‫حسعد کی عور ؓوں ض‬
‫ورﷺ کی ب رکت نسے نح رت لی مہ کی ک چنھا ی وں نکاندودھ‬ ‫ن نح ف‬ ‫ا‪،‬‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫نت‬ ‫حا‬ ‫کو‬ ‫ورﷺ‬ ‫ح‬
‫ؓ‬ ‫لی مہ سعدینہ کا‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫مزور اور ا واں او ٹن ی کا رب ہ اور ؓصحت نمند ہ وج ا اق اور ٓاپ کے سوار ہ وے پر اون ٹ ی کا‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫سے ب ھر ج ا ا‪ٓ ،‬اپ کی‬
‫ک‬
‫ٓاپ کیناو ٹ ی کا بت ا ی او ن ٹ ن ی وں سے ٓاگے ل ج ا ا‪،‬‬ ‫کے ی ن سج ؓ دے کر ا‪ ،‬واپ سی پر ف‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ع ہ کی طرف من‬
‫کب‬
‫وں کا زول‪،‬شٓاپ کے ج ن ھولے کو‬ ‫رزق کی نراوا ی اور برک ن‬ ‫ت‬ ‫ٓاپ کی ب رکتن سے حلی مہ سعدی ہ کے گھرن می ں‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ف‬
‫گ‬
‫رن وں کا ھال ا‪ ،‬ھولے می ں ٓاپ کا چ ا د سے ب ا ی ں کر ا اور ٓاپ کی ا لی کے ا ارے پر چ ا د کا حرکت‬ ‫ج‬ ‫ج‬
‫ض‬ ‫نق‬ ‫نؒ ن‬ ‫ے۔ ج ف‬ ‫کر ا ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ے کہ ج ب ح ورﷺ کی والدت‬ ‫ہاں پ تر امام ع ر ا کت ا ی ے ای ک حدی ث م ب ارکہ ل کی ہ‬ ‫ل‬ ‫ی ئ‬
‫ت‬ ‫کف ف ق‬ ‫ض ن‬‫ف‬ ‫ف‬ ‫ت ف‬ ‫ب اسعادت ہ و ی و‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ان ا جل‬
‫ن والطی ر ا ست ی ار اعہ ودی ت ان وا د اج ری ہللا ٰ‬
‫عالی‬
‫ع‬
‫داال س۔ (‪)۲۹‬‬ ‫ذلک تلی ی ن‬ ‫ن‬
‫دوسرے سے ب نڑھ چ ڑھ کر م ب احث ہ‬ ‫ض‬ ‫ک‬ ‫’’ج ات اور پر ہ ض ب پ خی‬
‫ا‬ ‫ر‬ ‫ات‬ ‫اس‬ ‫دے‬
‫ن ج ام خدی ں گے‪،‬‬ ‫اعت سرا‬ ‫ورﷺخ کی دمت ر ت‬ ‫ے۔ کہ نم ح ئ‬ ‫ے ھن‬ ‫ہ‬‫کرر ت ن‬
‫عالی ے ی ہ دمت‬ ‫ہ‬
‫ے می ہں ا ہی ں دا دی گ ی‪ ،‬اموش وج أو! ہللا ٰ‬ ‫نکہ ا ن‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫۔‬ ‫‘‘‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫رد‬ ‫س‬
‫ض پ‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫وں‬ ‫ا نسا‬
‫م‬
‫ے می ں اب ن وزی ے اب ن حج ر کی اور‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫ص‬
‫ق سواری کی خوعی ت قاور ح ورﷺ کو حا ل کرے کے ل ل‬
‫ع‬
‫ق‬
‫ؓ‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫مال لی اریضسے م ت لف وا عہ بمی ان ک ی ا ہع ق‬
‫ے۔‬
‫ے کی‬ ‫کے ب یل‬ ‫ے کہ لی مہ سعدیشہ اور اس ئ‬ ‫ے لکھا ہ‬ ‫ت اس من می نں اب ن تحج ر کی اور مال جلی اریلک ت‬
‫نیف می ں ٓا ی ں۔ تاسی‬ ‫ے نہ ی ں کہ وہ گدھی وں پر مکہ ر‬ ‫وزی ضھ‬ ‫نب کہ اب ن‬ ‫اں ھی ں ج‬ ‫سواری اں او ٹ نعی ق‬ ‫عور وں کی‬
‫مﷺ کو ت ی م ہ وے کی وج ہ سے عور ی ں‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫ب‬ ‫ص‬ ‫ب‬
‫نور ب ی کری ن‬ ‫ے کہ ح‬ ‫طرح اب ننحج ر ت کی ناور م ئال لی اری ے لکھا ہ‬
‫ئ‬
‫ے چ ہ حا قل کرل ی ا۔ می ں ھی‬ ‫ئ‬
‫نہ رلسا ھی ے دودھ پ الے تکے لی‬
‫ن‬
‫ے پر ی ار ہ ہ ئو ی ں اور تمی رے سوا‬
‫ب‬ ‫چ‬ ‫ٓاپ کو لی‬
‫کے تدر ا دس پر ٓا ی۔‬ ‫تکو ی اور ہحمال و ٓاپ ؓ ف‬ ‫ٓاپ کو ھوڑ کر کو ی اور ؒ چ ہ الش قکرے گی اور ج ب‬ ‫ل‬ ‫ے‬ ‫پ ہل‬
‫ہ‬
‫ے ہ ی ں کہ لی مہ ئسعدی ہل رما ی ہ ی ں کہ ج ب م مکہ‬ ‫وں ب ی بان کر‬ ‫وزی اس وات عہ کو ی خ‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫کن امخام اب ئن ت ت‬ ‫ش‬
‫دوسری‬ ‫سات‬ ‫ر تیف میقں دا ئل ہ و ی ں و مام عور ی ں ش ی ر وار چ وں کی ت الش می ں چ لی گ ی ں ی کن می ں تاور ت‬
‫سے دئی کھو‬ ‫ے۔طٓأو ؓ اکہ م ا ت‬
‫ب‬
‫اس ای ضک چ ہ ہ‬ ‫پ‬ ‫ے اور کہا کہ می رے‬ ‫عور ی ں ب ا ی رہ گ ی ں۔ ہ م سے ع ب دالم طلب مل‬
‫گ‬
‫سےشحا ل کرلے۔ ج ب ہ م ح رت ع ب دالم لب کے سا ھ ی ں‬ ‫ص‬ ‫ا‬ ‫وہ‬
‫ن‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫صہ‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ن‬‫کون اس ب‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫چ‬
‫طرف‬ ‫ن و ہ ر ای ک ےتکہ ن ا روع کردی ا کہ می ں اسے دودھ پ الٔوں گی اور وہ ٓاپ کی ت‬ ‫اور ہ م ے ٓاپ کو دی کھا‬
‫سے م ہ پ ھی ر ل ی ا۔ می ں ٓاپﷺ ٹکی طرف ٓاگے ب ڑھی و جس‬ ‫ن‬ ‫سب عور وں ن‬ ‫ان ف‬ ‫ں۔ ٓاپ ے ت ت‬ ‫ٓا قگے ب ڑھی ن‬
‫ے دی کھا و سم رمای ا۔ می ں ے ٓاگے ب ڑھ کر ٓاپ کو گود می ں ا ھا ل ی ا۔‬ ‫ب‬ ‫و تگفٓاپ ے جم ھ‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ؒ‬ ‫گو‬ ‫پ ہلی ت‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ہ گ‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ؒ‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫اب ن ج وزی‪ ،‬اب ن حج ر کی ے ثم ہ طور پر ٓاپﷺ کی پ لی ت گو کے ال اظ ی ہ ب ی ان ک‬
‫ش‬ ‫ہللا اکب ر کب یرا والحمد للہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی تال۔ ف(‪)۳۰‬‬
‫ے ب ہت ہ ی عری ی ں اور وہ ب ح و ام‬
‫ص‬ ‫ے‪ ،‬ہللا کے لی‬ ‫’’ہللا ب ہت ب ڑا ہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف ت‬
‫ح‬ ‫ے‘‘۔‬ ‫ہت‬ ‫ک‬ ‫م بس حان‬
‫چ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫ے ہ ی ں کہ لی مہ سعدی ہ رما ی ہ ی ں کہ ج ب می ں ے لی مر ب ہ دودھ ھڑای ا و‬ ‫ؓ‬ ‫ل‬
‫نر کی ی فہ ھ‬ ‫اب ن حج‬
‫ج عف ل لک ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ن ت‬ ‫ک‬ ‫اظ‬ ‫ؒی ال‬‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ٓاپﷺ‬
‫ع‬ ‫ب‬
‫ے‬ ‫ن کس امام ر ا کت ا ی ھ‬
‫ل‬
‫ے۔ اس فکے ب ر‬ ‫مدت شھی ب ی ان کی ہ‬ ‫ن‬ ‫سا ھ دو سال کیئ ت‬
‫ہ‬ ‫اب ن ج وزی ے ٹ‬
‫ے۔‬ ‫ک‬
‫ے و ول ا روع کردی ا اور ی ح الم رماے گ‬‫ص‬ ‫ب‬ ‫کہ ج ب ٓاپﷺ ٓا ھ ماہ کے وگ‬ ‫ہ ی قں ش‬
‫ت‬ ‫ق ش‬ ‫ن‬ ‫ؒ‬ ‫ن‬ ‫صدر‬
‫جف‬ ‫ق‬ ‫وا عہ‬
‫ئ ٓای ا و ٓاپ کی عمر م ب ارک چ ار نسال‬ ‫صدر یش‬ ‫پ‬ ‫نکہ ج ب پ قہال وا عہ قت‬ ‫ے‬ ‫ک‬
‫امام ر ا مکت ا ی ے ل ھا ہ‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ت‬
‫ٓاپ کی عمر م ب ارک کا ذکر ہی ں‬ ‫ھی۔ امام اب عن حجق ر کی اورکابتن ج وزیحے اس وا ف عہ تکو ب ی ان کرے ہ وےن‬
‫ٓاپ نکو ٓاپنکی‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ھڑا‬ ‫رما ی ہ ی ں کہ دودھ چ‬ ‫ے ہ ی ں کہ لی مہ سخعدی ؓہ ت‬ ‫ھ‬ ‫ک ی ا۔ ل ی کن مال لی اری لئ‬
‫ن‬
‫والدہ کے پ اس لے کر ٓا ی حاال کہ ہ ماری ی ہ واہ ش ھی کہ ٓاپ ہ مارے پ اس ہ ی رہ ی ں۔ چ ن ا چ ہ ہ م ے‬
‫‪92‬‬
‫ئ ہ ب‬ ‫تق ض ن ن ن‬
‫ھ‬
‫ے ٓاپ کو ہ مارے مراہت ی ج دی ا۔‬ ‫سے ب ات کی تاور ہ مارے ب ار ب ار ا ا ئکرے پر ا نہوں ش‬ ‫ٓاپ کی والدہ ن‬
‫کے شسا ھ ب کری اں‬ ‫ے دودھ ری ک بن ھا ی ن‬ ‫ے تکے دو ی ن ماہ کے ب عد ای ک دن چ خٓاپ پا‬ ‫مارے واپس ٓا ئ ت‬ ‫ہ ن‬
‫سارا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ے و ھوڑی دیر کے ب عد ٓاپ کات ب ھا ی یق ت ا وا ٓای ا اس کے ب عد ا ہوں ے ق صدر قکا ش‬ ‫ےگ‬ ‫چ قراے کے لی‬
‫ے۔ ج ب ٓاپ کا دودھ چ ھڑای ا گ ی ا و تاس و تت ٓاپ کی عمر دو سال ھی۔ اس طرح وا عہ ق‬ ‫وا عہ ب ی ان قک ی ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ب‬
‫کے و ت ٓاپ کی عمرن ت قم ب ارک دو سال اور دو‪ ،‬ی ن ماہ ن ی ہ‬ ‫صدر ت‬
‫ت‬ ‫نتق‬ ‫ن‬
‫ان کا ا ال‬ ‫والدہ مح رمہ اور دادا تج ج ف‬
‫کےق م طابق ج ب قٓاپ کی والدہ ماج دہ کا ا ٹال ہ وا و تٓاپ کی‬ ‫نت‬ ‫وزی‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫امام دمحم ب ن ع‬
‫ت‬ ‫ہ‬
‫ارک چ ھکستال ھی۔ ج ب ٓاپ کے دادا کا ا ال توا اس و ت ٓاپ کی عمر م ب ارک ٓا ھ سالنھی۔‬ ‫مر م‬
‫ے ہ ی ں کہ ج ب ٓاپ کی والدہ کا وصال ہ وا و ٓاپ کی عمر م ب ارک چ ار برس ھی ب عض ے‬ ‫ابعن بحج ر مکی ل‬
‫ھ‬
‫ت‬ ‫لک ق ت‬ ‫خ‬
‫خ‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬
‫ع‬ ‫زی ادہ ک ہیمہ‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫کی ہ ی ںسوہ ھ‬ ‫روای ات ب ی ان ق‬ ‫گر مال لی اری ے اس نمن می قں م ت لف ق‬
‫س‬
‫ت‪ ،‬و خ ی ل ب ع‪ ،‬و ی ل سع‪،‬‬ ‫ل مس‪ ،‬و ت ی ل سب ق‬ ‫ﷺشارب ع ن ی شن و ی ش‬ ‫ولقما ب لغ ث ت‬
‫و ی ل ا ن ی قع رۃ س ۃ و ہر ٓاو ع رۃ ای ام ما ت نامہ و خد ا رج اب ن سعد عن‬
‫ست س ی ن ش رج قت ومات ج دہ‬ ‫ہللاﷺ ت‬‫اب ن ع ب اس الوف لما ب لغ ثرسول ن ق‬
‫ست۔ (‪)۳۱‬‬ ‫لب کا لہ ولہ مان س ی ن و ی ل سع وی ل ع ر و ی ل ن‬ ‫ع ب دالم طض ن‬
‫ج ب ح ور ب ی کری مﷺ چ ار سال کے‪ ،‬ای ک روای ت می ں پ ا چ‪ ،‬ای ک‬
‫سال ای ک ماہ اور‬ ‫ئس تات اور ای ک روای ت می تں ب ارہ ن ت ق‬ ‫می ں چ ھ‪ ،‬ای ک می ں‬
‫ہ‬
‫ے و ٓاپﷺ کی والدہ مح ؓ رمہ کا ا ال وا۔ اس‬ ‫کے ہ ون‬ ‫دن ن‬ ‫دس ت‬
‫ب‬‫ت‬
‫کےسا ھ ا ہوں ے اب ن سعد سے اب ن ع ب اس کی روای ت ھی ب ی ان کی‬
‫ھی۔ت اسی‬ ‫الوہ لک‬ ‫ٓاپﷺ کی عمر م ب ارک چ ھ س‬ ‫نتق‬ ‫ے۔ جس کے م طابق‬ ‫ہ‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ٹھ‬ ‫سے‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫حو‬ ‫کے‬ ‫ئ ت‬ ‫ال‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ف‬ ‫دادا‬ ‫کے‬ ‫ﷺ‬
‫رت ع ندالم ط ؓ‬ ‫ٓاپ‬ ‫ض‬ ‫طرح‬
‫ٓاپﷺ کی عمر ٓا ھ سال‬ ‫ت‬ ‫وت ہ وے و‬ ‫لب ن‬ ‫جت ب ح ن ب‬
‫ف ھی‪ ،‬چک ھ ے کہا و سال‪ ،‬چک ھ ے کہا سات سال ھی۔‬ ‫ش‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ض‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫ام‬
‫ت‬
‫امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی‪ ،‬تاب ن حج ر مکیناور مال علی اری ے اپت شی ک ب می ںف گ ت گو کی‬ ‫اس فمو وعنپر ن‬
‫ؓ‬ ‫ے کہ لی مر ب ہ ٓاپ اپ ت‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫کے سا ض ھ امخ کے س ر پر‬
‫ؓ‬ ‫ے چ چ ا اب و طالب ف‬
‫ت‬ ‫ے۔ امام ج ع ئر الکت ا ی قے لکھا ہ‬ ‫ت شہ‬
‫سامان‬ ‫ے۔ اس وسف ت ٓاپ قکی عمر م ب ارک ب ارہ سال پ چھی اور دوسری د عہ حق رت دی ج ہ کالک ت‬ ‫ش‬ ‫ت ریف لے گ‬
‫ے ہ یق ں کہ‬ ‫ئ ج ارت لے کر ف ام کا ر ک ی ا تاس و ت ٓاپ کی عمر م ب ضارک یس سال ھی۔ اس کے ب عد وہ ھ‬
‫ت‬ ‫اکرمﷺ کا عان قدو موا ع کے عالوہ کسی ون‬ ‫م‬ ‫کے م طابق ح ور‬ ‫ث کی صری نحات پ ن‬ ‫ٓاش مہ سی رت اور حف اظ نحدی ث‬
‫م‬
‫ش ام کی طرف تس ر کر ف ا پ ای ہف ب وت کو ہی ں ہچ ت ا۔ گر امام اب ن حج ر کی اور مال لی اری کے م طابق ٓاپ ے‬
‫لک ت‬ ‫ام کی طرف ی ن د عہمس ر کنی ا۔‬
‫نارہ‬ ‫ل‬
‫ئج تیسا کہ اب ن حج ر کیناپ ی کت اب مولدا ن ب‬
‫کی عمر م ب ارک ب‬ ‫ٓاپﷺ ق‬ ‫ےہ ی ںج بئ‬
‫ن‬ ‫یﷺ می ں ھ ف‬ ‫ش‬
‫ے۔ سارا وا عہ ب ی ان کرے‬ ‫طالب کے ہ مراہ ام کے س ر پر روا ہ ہ و ئ ت‬ ‫ے چ چ ا اب و ض ن‬ ‫ٓاپﷺ اپ‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫سال ہ و ی و‬
‫ب‬
‫ب ح ور ب ی ت شکری مﷺئکی عمر یسقب رس کی ہ و ی و‬ ‫ل‬
‫ٓاپﷺ ضدوسری‬ ‫ق ت‬ ‫ے ہ ی تں کہ پ ھر ج غ‬ ‫کے بشعد وہ ھ‬
‫ب‬
‫ٓاپﷺ کے سا ھ ح رت ا وب کر‬ ‫خ‬ ‫ف الے۔ اس و ت ک ن‬ ‫ارت کینرض سے ضری ن‬ ‫طرف ج ن‬ ‫ب‬ ‫مرت ب ہ ؓ ام ت‬
‫کی‬
‫ے لگا دا فکی سم! ٓاپﷺ‬ ‫مﷺ کون ہ ی ں۔ ہ‬
‫ش‬ ‫ے۔ حی را کو ا ہوں ے ضپوچ ھا کہخ ح ؓور ب ی کری ت‬ ‫نصدیق ب ھی ھ‬
‫س ب رس نکی عمر می ں ح رت دی جفہ کا سامان ج ارت لے کرض پ ھر ام کا س ر ک ی ا۔‬ ‫ق‬ ‫ب ی ہ ی ں۔ پ چع ی‬
‫یﷺ می ں حک ترت اب و طالب کے ہ مراہ اور‬ ‫ل‬ ‫پ‬
‫ل‬
‫الروی ی مولدا ن ب ن‬ ‫خمال ؓلی اری ا ی تکت اب المورد ف‬ ‫ض‬
‫کہ‬
‫ےہی ں ض‬ ‫کےضس روں کو ب ی ان کرے کے ب عد ھ‬ ‫ارت‬ ‫ج‬ ‫ان‬
‫وا رج ا ن م ن ذرہ ب س ن‬ ‫م‬ ‫ا‬‫س‬ ‫خ‬‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫د‬
‫ی‬ ‫رت‬ ‫ح‬
‫عن اب نشع ب اس ان اب اب کر اشلصدیق ر ی ہللا‬ ‫ث‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ف ل ع‬‫د‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫مان ع رۃ واف قلن ب ی اب نظ ع ری نضسن ۃ وھم‬ ‫وھو اب نن ف‬ ‫عب ا ن ب یت ن‬ ‫ع ٰالی عن شہ‪ ،‬ص ت‬
‫یری دون ال ام ی ج ارۃ ح ی زال م زال ی ہ سدرۃ عد ف لہا وم ی اب وب کر الی‬
‫نق‬ ‫ؓ‬ ‫ت‬ ‫راہ ب۔ن ن ض‬
‫ل کی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫’’ اب ن م ضذرہ ے عی ؓ‬
‫ف س د کے سا ھق اب ن ٹع ب اس کی ی ہ روای ت ض ن‬
‫ے کہ ح رت اب وب کر صدیق کی عمر اس و ت ا ھارہ سال ھی اور ح ور ب ی‬ ‫ہ‬
‫‪93‬‬
‫ت‬
‫نم بلک ن ام‬‫ش‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ب‬ ‫کری‬
‫سال ھی۔ ج ب ن‬ ‫مﷺ کی عمر م ب غارک یس ئ‬ ‫ت‬
‫ے۔ اس کے ب عد ا ہوں ے حی را امی‬ ‫گ‬ ‫سے‬ ‫رض‬ ‫کی‬ ‫ارت‬ ‫ج‬ ‫طرف‬ ‫کی‬
‫ے‘‘۔ (‪)۳۲‬‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ذکر‬ ‫ھی‬ ‫سے مالق ات کا ب‬ ‫خ ئ راہ ب ف‬
‫یہ‬
‫ن‬ ‫ن تت‬ ‫ن خ‬ ‫اوصاف و صا ص مصط ضیﷺ‬
‫خ ئ‬ ‫حسن یوسف دم عی‬
‫مہ دار د و ہا داری‬ ‫ٓا چ ہ وب اں ہ ف‬ ‫سی ی د ب ی ا داری ض ن‬ ‫ٰ‬
‫مﷺ قکی ص ات حم ی فدہ اور ٓاپﷺ کے صا ص اور‬ ‫وزی ح ور ب ی تکری ن‬ ‫ئن جلک ت‬ ‫عروس می ں اب‬‫مولدفال ت‬
‫ے ہ ی ں کہ ہللا ع ٰالی ے رٓان جم ی د می ں رمای ا کہ‬ ‫ھ‬ ‫ے ہ وے‬ ‫ق‬ ‫معج زات پر گ ت گو کر‬
‫گف ت ئ‬ ‫خ ئ‬ ‫‪-۴۵‬ئ ‪ )۴۸‬ف‬ ‫(ال رٓان ‪ :۳۳‬ش‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫گ‬
‫کے صا ص پر قگو کرے ہ وے‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ے۔ تٓاپﷺ‬ ‫کی ہ‬ ‫اور ما ل پر گو ت‬ ‫تلک تٓاپﷺ کے معج زات پ ن‬
‫ے‪،‬‬ ‫کے مزی ادہ چس‬‫دل اور ول ج‬ ‫ب‬
‫ہللاﷺ ا ف ی ذات کے اع ب ار سے م می ں سے ق ہ ر‪ ،‬پ اکی زہ ف‬ ‫ش‬ ‫ے ہ ی ں کہ رسول‬ ‫خھ‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ع‬
‫سے زی ادہ پ اکینزہ‪ ،‬ی ل ال در‪ ،‬ظ م ا خ ر‪ ،‬ر ع الذکر‪ ،‬ی ل‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫اظ‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫را‬ ‫سن‪،‬‬ ‫ح‬‫ا‬ ‫سے‬ ‫حاظ‬ ‫کے‬ ‫ق‬
‫فض ئ‬ ‫ف‬ ‫ں۔‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ور‬ ‫سے‬ ‫مام‬
‫ت‬
‫ٓاپﷺ‬
‫ل‬
‫سے‬ ‫حاظ‬ ‫کے‬ ‫ر‬
‫ق‬
‫و‬ ‫ا‬ ‫ا یلص ر‪ ،‬ح ات دن‬
‫ل‬
‫ے ہ ں کہ ہللا تمعالییے ٓاپ کو مصط‬ ‫م لک ت‬ ‫ل‬ ‫ل ب ی لی ب‬
‫یﷺ تب ن ًای ا اور ا ل و‬ ‫ً‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫یﷺ‬ ‫مولدا ب‬
‫ن‬
‫ے۔ ٓاپ ہ ی مام ا ب ی اء کے خاب ت دائ و ا ہا مددگار ہ ی ں۔‬
‫ت ن‬ ‫ٰ‬
‫ل‬ ‫کماالت سے ننٓاپ کونرگز دہ رما ا ٓاپ ہ ی سھدالک‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ی‬
‫ہ‬‫شف‬ ‫ی‬ ‫ب یق ی‬
‫خاس کےکب تعد ا ہوں ے ی امت کے دن ٓاپ کی اعت کو ب ی ان ک ی ا۔ ٓاپ کے صا ص کو ب ی ان ک ی ا اور‬
‫ف‬ ‫ث خ ق‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ٓا ر م ں ل‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫ھ‬ ‫ی‬
‫ان ہﷺ قحی ن ولدتو ع مع شمدا! علی ی دی ہ م ا ذ ب ۃ من راب ور ع راسہ‬
‫االرض۔ (‪)۳۳‬ن ن ت‬ ‫الی السماء و ب ض ال راب ا ارۃ الی ان ہ ب ملکئ ت‬
‫ےہا ھ‬ ‫ٓاپﷺ ٹکی والدت ب ا ٹسعادت ہ و ی و ٓاپﷺ ے اپ ن‬ ‫ئ‬ ‫’’ج ب‬
‫ھری اور ٓاسمان کی طرف سر ا ور‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ے ٹھر م ی نکی ای ک ھی‬ ‫پ‬ ‫زمی ن پر ٹ کاٹدی‬
‫ب ل ن د ک ی ا۔ م ی کا مش ھی ب ھر ا اس طرف اش ارہ ھا کہ ٓاپﷺ ہ ی زمی ن‬
‫ع‬ ‫لک ت‬ ‫کےف مالک ولب اد اہ ہ ی ں‘‘۔ ع ق‬
‫ے ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کی ای ک ظ مت ی ہ‬ ‫مورد الروی نی مولد ا ن ب یﷺ می ں مال لی اری ھ‬ ‫ت‬ ‫ال‬
‫ٓاپﷺ کی رسالت‬ ‫ب‬
‫ئب ڑے رسولوں سے ی ہ پکا وعدہ ل ی ا گ ی ا کہ ج و ھی ن ن‬ ‫کہ مام معزز ب یوں اور بڑے‬ ‫ےئ‬ ‫ب ھی‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫کرے۔ اس کے ب عد ا ہوں ے می ث اق‬ ‫ف‬ ‫ٓاپﷺ فکی مدد‬‫ٓاپﷺ پر ای مان الے اور ن ن‬ ‫نکا زما ہ پ اے ن ق‬
‫مصط‬ ‫ن‬
‫ے کہ‬ ‫ی کا حوالہ دی ا ہ‬ ‫ے۔ اس کے ب عدا ہوں ے رمان‬ ‫ا ب ی اء والی ٓای ت ل کیفہ‬
‫ن ت‬ ‫لوان موسی کان ح ی اء۔ (‪)۳۴‬‬ ‫ت ت‬ ‫والذی س ندمحم ب ی دہ‬
‫ے و می ری پ یروی کے سوا ان کو چ ارا ہ ھا‘‘۔‬ ‫ن‬
‫ے کہ ئ‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ب‬
‫موسی فز دہ ہ و‬ ‫’’اگر ٰ‬
‫کا ی ہ رمان ھی ل ک ی ا ہت‬ ‫اور ٓاپﷺ ب ن‬
‫حت لوا ی ۔ (‪)۳۵‬‬ ‫ئ‬
‫ت‬ ‫من سواہ ال ق‬ ‫ومامن ی یوم ذ ٓادم ت‬
‫ے‬ ‫’’ٓادم اور ان کے عالوہ مام مخ لوق ی امت کے دن می رے ج ھ ن ڈے ل‬
‫شت‬ ‫ت ن‬ ‫ہ عوگی ق‘‘۔ ف ت‬
‫نا‬ ‫اوالد ٓادم کیف وں سے ت‬ ‫پ‬ ‫ن ناور پ ھر مال ن لی اری رماے ہ ی ں کہ ج ت‬
‫کی ناوالد کو ل ی‬
‫ج‬
‫ان‬
‫مصط‬ ‫عالی نے ت‬ ‫ب ہللا ٰ‬
‫ے ہوں ے‬ ‫ے ھ‬ ‫ہ‬
‫یﷺ پ ل‬ ‫اور ا کو ا ہی پر گواہ بن ای ا۔ ف’’الست ب رب کم‘‘ ک ی ا می ں مہارا رب ہی ں و دمحم‬
‫ق‬ ‫ئ ہ ؑ‬ ‫’’ب لی‘‘ ہ اں یک وں ہی ں کرماتی ا۔‬
‫اس ٓای ت کا حوالہ‬ ‫ے اب را ی م ہ ی ں اور رٓان جم ضی د سے ؑ‬ ‫ن ٓاپﷺ دعا‬ ‫ے ہ ی ؑں کہ‬ ‫اس کے ب عد وہ ل‬
‫عی‬ ‫ث‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫ض‬ ‫ت‬
‫سینکی اسئ‬ ‫رت ق بٰ‬ ‫اور عح پ ن‬ ‫ے ت‬ ‫ٓاپﷺ کی ب ع ت کی دعا کی ہ‬ ‫ترا ی م ےن ن ن‬ ‫ے ہ ی ں جس می ں شح رت اب‬ ‫دشی‬
‫ب ارت کی طرف ا ارہ کرے ہ ی ں ج و ا ہوں ے ب ی کری مﷺ کی ٓامد کے م لق ا ی وم ی اسرا ی ل کو‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ج ف ل ن ن پن‬ ‫ف‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫دی۔‬
‫داروں کا ٓا ا ہ مارا‬ ‫ع‬
‫واالسعاد بمولد ی رالع ب اد مصی ںق امام ر ا کت ا ی ے ا شی کت اب می ں اجلک ت‬ ‫ئ‬ ‫ن ف ا من ن‬
‫رسالت مٓاب‬ ‫ت‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫خ ھق ی‬ ‫وہ‬ ‫ں‬‫ی ت‬‫م‬ ‫روع‬ ‫کے‬ ‫س‬ ‫س جع‬‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ل‬
‫ت ن‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫وان‬ ‫کےقع‬ ‫یﷺ ف‬ ‫ب ض‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ی‬
‫لت و و ی ت ہ صرف دی گر مام ا ب یتاءتو مر شلی ن ل ہم ثالسالم پر ب لکہ مام لو ات وعا می نع ح ی کہ‬ ‫ن‬
‫کی ی ق‬ ‫ئ‬
‫امت‬ ‫ن‬ ‫لم‬ ‫کا‬ ‫س‬ ‫ے‬
‫ب ن ہ نی ن قہ ج ث‬ ‫امر‬ ‫وہ‬ ‫ہ‬ ‫ے۔‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ہورہ‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫رہ‬ ‫وا‬ ‫حہ‬ ‫ص‬
‫مالس کہ و م ی ض م ی پ ی ح یح م‬
‫ث‬ ‫احاد‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫ز‬ ‫عز‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ر‬
‫ے مو ف کو اب ت کرے‬ ‫ے اپ‬ ‫اس کے ب عد ا ہوں ق‬ ‫ے۔ خ‬ ‫ہ‬ ‫ے خ روری ات دی ن کی ی ث ی ت رکھت ا‬ ‫کے لی‬ ‫ٹ‬ ‫م لمہ‬
‫ے کہ ٓاپ ی امت کے دن سب‬ ‫ے۔ ج ن کا الصہ ی ہ ہ‬ ‫ے ا ھارہ م ت لف احادی ث کا حوالہ دی ا ہ‬ ‫کے لی‬
‫‪94‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ہ‬
‫ے گی۔ حمد کا ھ نڈا ٓاپ کے ا ھ می ں وگا۔‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫ے ٓاپ کی ب ر ق ل‬ ‫گے۔ سب سے پہل‬ ‫لوگوں کے سردار ہ وں‬
‫ف‬ ‫ش‬
‫گے۔ ٓاپق ہ ی ی امت کےتدن ا ب ی اء کے امام اور طی ب ہ وں‬ ‫ں ئ‬ ‫ے اعت فکریئ ف‬ ‫ٓاپ ہ ی سب سے پہ قل‬
‫ے گا۔ ی امت کے دن مام اوالد ٓادم ٓاپ کے پرچ م کے‬ ‫م‬
‫ح‬
‫نگے۔ ہللا پ اک ٓاپ کو م ام مود پر ا ز رما‬
‫ے ٓاپ کی امت ہ ی‬ ‫ے گا۔ سب سے پہل‬ ‫ے ہ ی ج ن ت کا دروازہ کھل‬ ‫ے ٓاپ کے لی‬ ‫سب سے پہل‬ ‫ے ہ وگی اور خ‬ ‫جیچن‬
‫ت‬ ‫وگی۔‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫ں‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫کے دولہا ہ ی ں۔ ی ع ی کائ ن ات کے‬ ‫ے ہ ی ں کہ ٓاپ مملکت ب اری ع ٰالی‬
‫لک ت‬
‫وہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ر‬
‫خ‬
‫ٓا‬ ‫کے‬ ‫ل‬ ‫ی قص‬
‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ی‬
‫سردار اور طب ہ ی ں اور ٓاپ کائ ن ات کے وہ سل طان ہ ی ں ج و حاصل کو ی ن ب ھی ہ ی ں اور چ ارہ ساز عالم ی ان‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن ن‬ ‫ب ھی ہ ی ں۔‬
‫وان سے ب ھی‬ ‫اں ہتوں ی رے اوصاف حم یئدہ‘‘ کے ع ن ب‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ف صاسیق ئطرح ا ہوں ے ’’کس غمن ہ سے ب‬
‫ے ہ یخ ں کہ ٓاپﷺ اوا ل تعمر اور زما ہ چ پ ن سے‬ ‫ل‬
‫ع‬ ‫م‬ ‫ے۔ت جس تکے ٓا تاز می ں وہ مھ‬ ‫ای ک ل ا مصکی ہ‬
‫اور ا ٰلی ری ن اوصاف حم ی دہ سے‬ ‫ت‬ ‫عالی ک ہ ری ن اور کا ل ا الق کے حا ل ج‬ ‫ب‬ ‫ٰ‬ ‫لے کر لمحتات و ل ب اری‬ ‫ت‬
‫ے ی سی رت و‬ ‫ہ‬ ‫ے ایس‬ ‫م‬
‫سب سے زی ادہ حسی ن و ن ی لنھ‬ ‫صورت می ں ت‬ ‫خ‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫ن‬ ‫طرح‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ے۔‬
‫ب ج‬ ‫ھ‬ ‫صف‬ ‫خم‬
‫پﷺ کے‬ ‫ت‬ ‫ٓا‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬
‫ت ت‬‫ش‬ ‫ا‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ے۔‬ ‫ف‬ ‫ھ‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ااخ الق سن ہ کا ڑے وب صورت ف اظ م ں ذکرب‬
‫و‬ ‫کر‬ ‫ڑھ‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫سب‬‫خ‬ ‫ھی‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫الق‬
‫کے سا ھ‪ ،‬رے داروں کے سا ھ‪ ،‬تصحاب ہ‬ ‫ت‬ ‫روں‬ ‫کا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬
‫ال ی ت ک ی ہ‬ ‫ح تب ف ق‬
‫ف‬ ‫س‬
‫ٓاپﷺ کے حتسن لوک کا ذکرہ‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ال‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫سا‬ ‫مخ‬ ‫و‬ ‫راء‬ ‫کرام کے سا ھ‪،‬‬
‫ص‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫خ‬
‫اور ب ڑے خج امع ال اظ کے سا ھ اس فل کا‬ ‫ے۔ فٓاپﷺ جکی وش ا ال یشاور سخ اوت کو ب ان ک ان‬ ‫کخی ا ہ‬
‫ٓاپﷺ پر رمادی‬ ‫ل‬ ‫ک ون ش ہ ہللایت عالییے اعلی ا الق کی کم‬ ‫ال‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫موعی‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫’’‬ ‫ا!‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ش ت‬ ‫ی‬ ‫ٰ‬ ‫پبت پ ب ک ٰ‬ ‫ا ت ت یح یخ‬
‫رما‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ام‬
‫صول فدی د ریئن تم ت کے‬ ‫کا ح ج‬ ‫ےش ئ‬
‫ے ج و مام مخ لوق‬ ‫اسل ج‬ ‫غاور اس سن ا الق کو اس درج ہ کمال ک ہ چ ادی ا کہ سی اور کے لی‬
‫ی‬‫رماد‬ ‫مع‬ ‫لہ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ما‬ ‫اور‬ ‫ے اوصاف حم ی دہ‬ ‫ٓاپﷺ نکی ذات میئں ایس‬ ‫ج‬ ‫ے اور ف‬ ‫ب ی ر محال ہ‬
‫خ‬ ‫ے۔ن‬ ‫ےگ‬ ‫ئ‬
‫می ں سے غکسی اور ئ نرد می ں مع ہی ں کی‬
‫کمال سے ما وذ ن ہشہ خو اور ٓاپﷺ کی مدح و‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫و‬ ‫ج‬
‫یب ق‬‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ایسا‬ ‫کمال‬ ‫نکا ات مغی ں کو تی‬ ‫ال رض‬
‫ے ٓاپﷺ‬ ‫ف‬
‫الم اور و ع الم طالعہ سص کے لی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ف‬
‫ے کسی نھی ادر الک‬ ‫ہ‬ ‫مر‬ ‫کم‬ ‫لو‬ ‫ر‬ ‫ش‬
‫واال‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اء‬ ‫ثن‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ث‬ ‫ی‬
‫ے ٓاپ کو ک ن ا ہ ی یص ح اور ماہ ر ن جم ھت ا ہ و۔‬ ‫ے اگرچ ہ وہ اپ‬ ‫مصطسف ت م ل ب ات ہ‬
‫ک‬ ‫کی مدح و ن اء‬
‫ن ظ خ‬ ‫ع ق‬ ‫‪ii‬۔ وس ی لہ ضیﷺ‬
‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫اری ے ا ہار ی ال ک ی ا ہت‬ ‫وزی‪ ،‬مالنلی ت ن‬ ‫ج‬ ‫اس مو وع پر اب ن‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫ض‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫ٓاپ‬ ‫کو‬ ‫کرام‬ ‫اء‬ ‫ا‬ ‫مام‬ ‫ے‬ ‫وزی‬ ‫ج‬
‫مولد العروس می تں اب ن‬
‫ن‬
‫ہن‬ ‫ض ک ین ؑ‬ ‫ہ‬
‫ؑ ب یت‬ ‫ض‬ ‫ث ً لک ت‬
‫رت وح ے‬ ‫ح ٹ‬ ‫کی۔‬ ‫ول‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫اعث‬ ‫کے‬
‫ب ؑ ب ب‬ ‫ٓاپ‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ٓادم‬
‫ض‬ ‫رت‬ ‫ئ‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫عالی‬ ‫کت ٰ‬ ‫ش‬‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫م ال وہ ھ ی‬
‫ہ‬ ‫ے‬
‫ن لہ سے اوپر ا ھای ا گ ی ا۔‬ ‫کے وس ی‬ ‫رت ادرینس کو ضھی ٓاپ ؑ‬ ‫سے ی می ں ج ات پ ا ی ح‬ ‫نلہ ن‬ ‫ٓاپ کے وس ی‬
‫ی دعا ما گی۔ ح رت اب راہ ی م ے ضٓاپ کے واس طہ سے‬ ‫حض رت ہ ؑود ے فاپ ی دعا می ں ٓاپ کے نذری عہ ہ ئ‬
‫ے‬ ‫کے ہ ی ؑوس یک لہ سے ح رت اسماع ی ل ٓازاد کی‬ ‫گٓا سے ج ات پ ا ی۔ ٓاپت ت‬ ‫ن‬ ‫ارش کی اور‬ ‫ن‬ ‫بئارگاہ ال ہٰی می ں س‬
‫ن‬
‫موسی لی متہللا کوہت طور پر خم تاطب ہ‬ ‫ن‬
‫ت تسے ضد ب ہ الی ا گ ی ؑا۔ اگر ٓاپ ہ ہ و‬ ‫ےج ت‬
‫س‬
‫ئ‬ ‫ے وٹ ٰ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫اور ٓاپ کے لی‬ ‫ےت‬ ‫گ‬
‫ہ‬
‫ٓاسمان کی طرف ہ ا ھاے ج اے۔ ٓا ن ش پر وں کی تگٓا‬ ‫بٰ ئ‬ ‫سی‬ ‫ئ‬ ‫رت‬ ‫ت‬
‫ح‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ٓاپ‬ ‫اگر‬ ‫ے۔‬ ‫و‬
‫ارش ب قن گ ی ا۔ مام‬ ‫ٓاپ کی وج ہتسےق ب ادلوں کا ب رس ا ب ت‬ ‫ے ہ وے ج ھ شگ ی اور ت ش‬ ‫اعث عاج زی کر ف‬ ‫نٓاپ کے بن‬
‫ا ب ی اءف ضکرام ے والدت مصط یﷺ کی ب ارت ریف الے و ت اور واپس ج اے و ت دی۔‬
‫ج عف ل ن ن پ ن ت‬ ‫ج ؒ ع ق ؒ‬ ‫‪iii‬۔ ی لت درود و سالم ض‬
‫گف درود و سالم کے مو وع پر ابنن وزی‪ ،‬مال لی اری اور امام دمحم تب نن ت ر ا کت ا ی ے ا ی ک ب‬
‫ے۔ اس‬ ‫درود و سالم کو گدس ی کا عالج ب ت ای ا ہ‬ ‫ب‬
‫یسا کہ اضب ن ج وزی ے مولد العروس می ں‬ ‫ے جن‬ ‫میسں ت گو کینہ‬
‫ت‬ ‫ے۔ ف ئ‬ ‫ہ‬‫ث ئم ب ارکہ کا حوالہ تھی دیتا خ‬ ‫ے می ں ا ج ہوں ے ح ورﷺ کینحدی ف‬ ‫لسل‬
‫ب‬
‫اوی ا دے کے سا ھ سا ھ ا روی ا تدے کو نھی ب ی ان کرے‬ ‫اب ن وزی درود و ضسالم سے د ی ؓ‬
‫ے ہ ی ں کہ ب ی کری مﷺ‬ ‫ے شوہ ح رت اب ن ع ب اس سے مروی حدی ث م ب ارکہ کا حوالہ دی‬ ‫ہ ینں فاور اس کے لی‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ے رمای ا۔‬
‫ت‬
‫ک مر ب ہ درود پناک پڑھے تہللا ع ٰالی اس پر تدس مر ب ہ‬ ‫ت‬ ‫’’ و نص جم ھفپر ایئ‬ ‫ج‬
‫عالی اس پر‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫ڑھا‬
‫ن ب ت پ ش‬ ‫درود‬ ‫ہ‬ ‫مر‬ ‫دس‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫رحمت ازل نرما ف ئج‬
‫اور‬ ‫گا‬ ‫ے‬
‫سو مرت ب ہ رحمت ازل رماے گا۔ جس ے سو مر ب ہ درود ریف پڑھا اس‬
‫‪95‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ف ئ‬ ‫ت‬
‫رحمت ازل رماے گا‪ ،‬جس ے ہ زار مر ب ہ‬ ‫پر ہللاش ع ٰالی ای ک ہ زار تمرت ب ہ ن‬
‫درود ریف پڑھا‪ ،‬ہللا ع ٰالی ے اس کے ب الوں اور ب دن پر گٓا حرام‬
‫نق‬ ‫‪)۳۶‬‬‫کردین‘‘۔ (ن‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ارکہ‬
‫عی م ب ت‬ ‫ث‬ ‫حد‬ ‫اور‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫یس ع ی‬ ‫اس کے ب عد ا ہوں‬
‫مامن احد لم ئ لی االرد ہللا بلی روحی ح تی اردتعلی ہ السالم۔ (‪)۳۷‬‬
‫ب‬
‫عالی می ری روح واپس‬ ‫ٰ‬ ‫ے و ہللا‬ ‫ٹ’’ج ب ھی کو ی جم ھت پر سالم یھج ت ا ہ‬
‫ے۔ ی ہاں ک کہ می ں شاس کے سالم کا ج واب دی ت ا ہ وں‘‘۔‬ ‫نہ‬ ‫لو ادی ت ا‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ف‬
‫ؓ‬ ‫ے ہ ی ں۔ ض‬ ‫ے درود و سالم کے دس ا عار ھی ھ‬
‫ل‬ ‫ف پن‬ ‫پ ھرعم قصن ؒ‬
‫سے مروی‬ ‫مال لی اری ا ی کت اب المورد الروی یہمولدا ن ب یﷺ می ں ح رت اب ن ع ب اس ض‬
‫ے کہ ج بت ح رت حواء کو‬ ‫ئانتکی ہ‬ ‫ئطرح ب ی‬ ‫کے حوالے سے درود و تس تالم کی اض می ت چ ؑک ھ اس‬ ‫حدی ث م ب ؑارکہ ئ‬ ‫ض‬
‫ے ج ب ج اگے و بی بی ئکو دی کھ کر‬ ‫ے ھ‬ ‫ہ‬ ‫ٹ‬
‫ح رت ٓادم کی ب ا ی ں لی تسے پ ی دا ک ی اف و ش تب حنرت ٓادم ؑسوے وئ‬ ‫پس‬
‫ے ب ولے‬ ‫ے بی بی کا حق مہر ادا یک ج‬ ‫ڑھای ا۔ ر وں ے کہا‪ٓ :‬ادم ذرا ھہرے پہل‬ ‫طرف تہ ا ھ بن‬ ‫سکون ٓاگ ی ا اور ان کی ف ش‬
‫ب‬ ‫ش‬ ‫ے؟ ر وں تے کہا‪:‬‬ ‫ان کا حق مہر ک ی ا ہ‬
‫ب‬ ‫س خ‬ ‫‪)۳۸‬‬ ‫’’ندمحمﷺ پر ی ثن ب ار درودنریف یھ ج و‘‘۔ ج( ؒ‬
‫ن وزی کی کت اب لوۃ اال وانقکا حوالہ ھی دی ا‬ ‫ے اب ض‬ ‫اس ب ات کو ض اب ت کر ؑے کے لی‬ ‫مصن ف نے ن‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫ب‬
‫درود و الم کو ضی رار دی ا ہ‬ ‫رتر ؑ‬ ‫ورﷺ پ‬ ‫کے حق ہر ح ض‬ ‫رت حواء ؑ‬ ‫ے ھینح ض‬ ‫س می ں ا ہوں ت‬ ‫ے۔ جن‬ ‫نہ‬
‫حواء کا حق مہر ح ورﷺ پر ب یس‬ ‫ح‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫کم‬ ‫کو‬ ‫ٓادم‬ ‫رت‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫عالی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ش ہ‬ ‫کہا‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫مر ب ہ درود ریف پڑھ تکر ادا کری ں میمں ہت ات وں‪:‬‬
‫’’ش ای د ی ن ب ار مہر عج ل ھا اور ب یس ب ار مہر موج ل (مع ی ادی) ھا‘‘۔ (‬
‫ہ خ ن‬ ‫ف‬ ‫ن) ن‬ ‫ت ‪۳۹‬‬
‫ے تود اپ ی‬ ‫وبﷺ کا یوں اکرام رمای ا کہ صلوۃ کی ٓای ت می نں سبح سے پ قل‬ ‫پ ن حب ت ف ش ت‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ہللا ع ٰالی‬
‫ٰ‬
‫نر ذکر ک ی ا۔ پ حھر موم وں کول کم دی ا۔خ ب ا بی نمام‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ےپ‬ ‫سا ھ ر نوں قکو دوسرے بدرج‬ ‫ے ت‬ ‫سے اب ت نداء کی یاورناپ‬ ‫ی‬
‫ذات‬
‫ے کن شوہ ود ج ا ہی ں‬ ‫ادات ا سی ہی ں ع ی ہللا ع ٰالی نے ببا ی ع ب اداتح ج ا بالے فکا ش متی ں کم دی ا ہ‬ ‫تع ب‬
‫نمی ں املشک ی ان گ ی ا۔‬ ‫وں صلوۃ‬ ‫وں کوف کی ش ت‬
‫ت‬ ‫ھی۔ ر‬ ‫ے اور ت کم ن‬ ‫ہ‬ ‫ؑ‬ ‫ھی‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫س‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫لک ت‬‫و‬ ‫درود‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫ض‬‫ا۔‬ ‫ال‬
‫ے نان کی ی ا ی می ں‬ ‫پ‬ ‫ٰ‬
‫ےہ ی ں کہ قج ب نح رتنٓادم کو ہللا ع ٰالی ے پ ی بدا ک ی ا و ر وں ض‬ ‫اس من می ں وہ ھ ت‬ ‫ن‬
‫ٓاپﷺ پر صلوۃ یھج ی پش خھر ج ب ح ور ب ی کریت مﷺ کو‬ ‫ف شت‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ہوں‬ ‫ت‬‫ا‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫اسی‬ ‫و‬ ‫ھا‬
‫ج ق‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫د‬ ‫‘‘‬‫دمحمﷺ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ور‬ ‫’’‬
‫ص‬ ‫ف‬ ‫ج‬
‫وں سے کہا گ ی ا ی ہ و ن ی صی نت ہ ی ں لنعپر م لوۃ ت‬ ‫ہ‬ ‫ٰ‬ ‫ات می ں سم ا ضدس کے ؑسا ھ الیش ا گنی ا و ر ن ت‬ ‫باس کات ت‬
‫ہ‬‫ٰ‬ ‫ج‬
‫ے‪ ،‬اب ب کہ وہ ورق اس د ی ا می ں ب ا ل مو ود وا و‬ ‫ج‬ ‫پ‬
‫ےب ج ب ی ہ ح رت ٓادم کی ی ا ی می ں ور ھ‬ ‫ت یھ ج ا کرے ھ‬
‫ت ن‬ ‫ت ئ‬ ‫ح ت‬ ‫ح‬ ‫م ان پر صلوۃ ن یھ جو۔‬
‫م‬ ‫ک‬ ‫ص‬ ‫ٰ‬
‫ے‬‫عالی ئ‬ ‫ن ن پ ھر نموم وں کو کم ٰلوۃ اور اس کی ی ں بحی ان کرے ہ وے وہ ر مطراز ہ یس ں بکہھہللا ٰ‬
‫اس کی ک ی‬ ‫تاحکسات وں اور ج نات می ضں نسے صرف ای مان والوں کو کم دی ان کہ ٓاپﷺ پر درود و الم ی ج و۔ن‬
‫کے ہ ی ں اور ٓاپﷺشے امت کی‬ ‫اپ ت‬ ‫ے بم زلہ‬ ‫کے لی‬ ‫امت‬ ‫مﷺ ن‬ ‫ں ہ ی ں چ و کہ ح ور ب ی کری ئ‬ ‫م‬
‫ع‬ ‫ب‬
‫عتلی م و رب ی ت اور ار شاد می ں ھی کو ی کسر تہی ں ر ھی۔ است اد و م‬
‫ک‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫اس کے ہ ر اگرد پر الزم‬ ‫شف‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫عر‬ ‫کی‬ ‫لم‬
‫ٓاپﷺ کی اعت تکی ح ی ث ی ت رکھت ا‬ ‫ت‬ ‫ے۔ صلوۃ وقسالم‬ ‫ہ‬ ‫ف‬ ‫ن کر ہ ر ب چنہ پر واج ب ہ و شا‬ ‫ے اور ب اپ کا‬ ‫ہ و یہ‬
‫ےقکہ کل‬ ‫س‬
‫کی ج ا کنی ہ‬ ‫اعت) کی ین متضادا‬ ‫ٰ‬ ‫ق‬ ‫م‬
‫کردی و ام ی د ن‬ ‫ے ٓاج د ی ا می ں اس ( ش ف‬ ‫ے۔ ج ب ا ت ی وں‬ ‫قہ‬
‫ے گا اور موم وں ے جس در‬ ‫مت سے ل ی ا گ ی ا م قال ( اعت) ا ہی ں رور مل‬ ‫ی امت کے دن اس ی‬
‫ان پقہچ انتہ وگی۔‬ ‫ت‬ ‫کے اور ٓاپﷺ کے در تم ی ان ج‬ ‫درود نو سالم ب یھ ج ا ہ وگا۔ اسی در ان ت‬ ‫ٓاپﷺ پر ئ‬
‫ے۔‬ ‫ٓاپ کے مرا تب می ں ت ر ی ہ تو ی ہ‬ ‫م‬
‫ے و اس تسے‬ ‫مومن ٓاپ ت پر درود پڑھت ا ہ ت‬ ‫ب‬
‫ج ب کو ی ب تدہ‬
‫ے۔ جس‬ ‫ب‬
‫ے کہص ا عبکا تمر ب ہ۔ ت بنوع کے مر ب ہ کےہ ا شع ہ و ا ہ‬ ‫ب‬ ‫ے اس لی‬ ‫ڑھ ج ا ا قہ‬ ‫ھی بش ت‬ ‫سے امت کا مر ب ہ ف‬ ‫جس ت‬
‫ئ‬
‫ے ہ ی ں یو ہی ٓاپ کی امتق می ہ سے اور‬ ‫ئ‬ ‫ھ‬
‫ی‬
‫کے رے ہ ر و تت ہٓاپ پر ٰلوۃ جت‬ ‫عالی اور اس‬ ‫طرح ہللا ٰ‬
‫ے گی۔ کو ی ج گہ کو ی و ت صلوۃ و سالم‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ڑ‬ ‫پ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ڑ‬ ‫پ‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ۃ‬ ‫لو‬ ‫ص‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ٓاپ‬ ‫ے‬ ‫ہ می ش ہخ ن‬
‫کے لی‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ت‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫خ‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫سے الی ہی ں۔ ج ف ل ن پ ن‬
‫المات حمب ت‬ ‫ح‬ ‫ے ہ ی تں کہ ع ِ‬ ‫ئ اد می ں ھ‬ ‫امامبدمحم ب ن ع ر ا کت ا ی ا ی کت اب ا من واالسثعاد بمولد ی رالع ب‬ ‫ت‬
‫عالی کے کم کی‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫سے‬ ‫ا‬
‫ئ‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ت ج‬ ‫کی‬ ‫رت‬ ‫ک‬ ‫کی‬ ‫الم‬
‫ش‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫درود‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ٓاپﷺ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ھی‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬
‫عم ی ل کرے ہ وے ب ارگاہ رسالت سے والہان ہ ع ق کے سا ھ ب ج ا الی ا ج اے۔‬
‫‪96‬‬
‫ن فق‬ ‫ت ت‬ ‫ب فض‬ ‫ن‬ ‫نغ‬
‫ے اور دل کو م ا ت ت‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ازہ‬ ‫ٹ‬ ‫رو‬ ‫کو‬ ‫دل‬ ‫ہ‬ ‫ے۔‬
‫ہ ی‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫شن‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫کر‬ ‫ٓازاد‬ ‫غ‬
‫الم‬ ‫درود پڑھ ا‬
‫ے‪،‬‬ ‫ا‬
‫خپ ئ ہ‬ ‫کر‬ ‫ورا‬ ‫کو‬ ‫ات‬ ‫ن‬ ‫حا‬
‫ہ ج‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ا‬‫ت‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫الٔوں‬ ‫ے۔‬
‫ہ ن ب‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫دور‬
‫ت‬ ‫کو‬ ‫وں‬‫ن‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ری‬ ‫ے‪،‬‬
‫ن ہ پ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ٹ‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫م‬ ‫ے۔‬ ‫سے پ اک ر تکھت ا ہ‬
‫ے ہ ی ں اور کی ک یت اں بڑھ ج ا ی ہ یشں۔ گ اہ اور ف ئطا ی تں مٹ‬
‫ل‬ ‫ات ب ل د ہ و خ‬ ‫درج ت‬ ‫ص‬
‫ے سے‬ ‫ے‪ ،‬درود پڑقھ‬ ‫رزق کو ب ڑھا ا ہ‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں کہ درود ریف کے وا د ال عداد‬ ‫ے۔ ٓاش ر می ممں وہن ھ‬ ‫ں اور رب کری تم نکا ث رب حا ل ہ و ا ہ‬ ‫ج ا یہی ش‬
‫ے۔‬ ‫ے ک ی ر ہ ی ں کہ ان کا احاطہ اور مار کن ہی ں ہ‬ ‫ں۔ ی ہ ا‬ ‫ےئ مار ہ ی ف‬
‫مصط‬ ‫اور بش‬
‫ن گف ن‬ ‫نؒ‬ ‫جف‬ ‫ؒ‬ ‫‪iv‬۔ ما ل ض یﷺ‬
‫فئے گو ہی ں‬‫ت‬ ‫مصطفلکت ا ی کے عالوہ نکسی مصن ش‬ ‫اس مو وع پرنامام اب ن ج وزی اور امام دمحم ب ن ع ر ا‬
‫ل‬ ‫ن‬ ‫یﷺ کے ع وان سے ما‬ ‫ئلعروس می ںتحلی ہ‬ ‫ابت مولد ا‬ ‫ک‬ ‫وزی اپ تی کت‬ ‫مصطفامام اب ن ج خت‬ ‫کی۔‬
‫ے چہرے‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫ے ہ وشے ب ی ان کرے ہ ی ں نکہ ٓاپﷺ تم لوق می ں دولہا کی ما د ایس‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫حر‬ ‫صر‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫یﷺ‬
‫ت ظ پ ئ ین ھ‬
‫طرح ہ ی ں ای سی ج بنی ن‬ ‫ے بتال ج و اپ ی س ی اہ ی تمی ں اری کی کی م ط ئ‬ ‫ے ایس‬ ‫ے ج و چ اش دن ن ک م ب قہ‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫کے سات ھ اہ ر ہ و ن‬
‫ے اک‬ ‫ق‬‫ہ‬
‫کے ٹسا ھ سن و جتمال م نع و اور ایس‬ ‫ح‬ ‫ے د کے سا ھ کہ اس‬ ‫کے سات ھ ج تس تسے ور و رو یش لی ایس‬
‫ے‬
‫س‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ے دو ہ ون وں نکے سا ھ ج و مث‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ں۔‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫کے سا ھ ج و ی ز ت لوار بکی دھار کی ئ‬
‫ی ی ی ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫یش ی ی پ ش‬ ‫ہ‬ ‫ہرت ت‬ ‫نت‬
‫کے سا ھت و رو ق و ور می تں چ ا د‬ ‫ج‬ ‫وں ظکے سائ ھ ج و کھرےنہ وے موت ی وں کے م اب ہ ہ یتں۔ ا سی ی ا ی ن‬ ‫ن‬ ‫دا‬
‫کی مان‬
‫ھوں ثکے سا ھ ج ن‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ا‬ ‫ا۔‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫مور‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ی‬‫ن‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫د‬
‫ت‬ ‫ق گی ی‬ ‫ی ت‬ ‫ق‬ ‫ی نی‬ ‫ن ہ‬
‫ے۔‬ ‫یہ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ادت‬ ‫ع‬ ‫س‬ ‫صول‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫ف‬‫ن‬ ‫ی‬
‫مصط‬
‫ی‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ئ‬ ‫ش‬‫س‬ ‫ج‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫خ‬ ‫دم‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ا‬
‫فی‬ ‫ال‪،‬‬ ‫ک‬ ‫ھوٹ‬
‫ی‬‫ل‬
‫پ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سے جج ف ق پ‬
‫ؒ‬ ‫ن‬‫کا‬ ‫ت‬
‫ے ج نس قکے‬ ‫یﷺ پر حسن کھا ا ہ‬ ‫بمولد ی رالع ب اد می ں ما ل ن ن‬ ‫ے ا من واال ضسعاد ق ئ‬ ‫نامام ع ر الکت ا ی ن‬
‫ور‪ ،‬دو‬ ‫ٓاپﷺ کے چہرہ ا چ ش‬ ‫ے۔ جس می ں ا ہوں ےق‬ ‫سےف ل ن ا م کی ہ‬ ‫ق مک کی سم نکے ع وان‬
‫عادت‪ ،‬مان‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫ں‪ ،‬عطر ب ندن‪ ،‬سراپ ا م ب ارک‪،‬ش سر ا دس‪ ،‬ی ن س ئ‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ل‬
‫ل‬ ‫ارک‪ ،‬زت ی ں ہ ب ری ق‬ ‫امت زی خ ب ا‪ ،‬ر گت م ب ب ن‬
‫ے م ب ارک‪،‬‬ ‫ن‬ ‫مو‬ ‫ارک‪،‬‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫ہق ی ی ی ن ب‬ ‫ر‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ش‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ارک‪،‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬‫ب‬ ‫م‬ ‫دان‬ ‫د‬ ‫دس‪،‬‬ ‫غ‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫د‬ ‫ارک‪،‬‬ ‫م ب ارک‪ ،‬ر سار م ب نارک‪ ،‬ی ہ ب‬
‫م‬ ‫ی‬
‫ارک‪ ،‬مہر ب وت‪،‬‬ ‫گردن م ب ارک سی ن ہ فم ب ارک‪،‬ن ف لی م بقارک‪ ،‬ش لف م ب ارک‪ ،‬زا وے م دس‪ ،‬نکم ون سی ہ م ب ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ھ‬
‫فض‬
‫خ الت م ب ارکہ‪ ،‬ظ ا ت و ناست‪ ،‬دمی ضن ری ی ن‪ ،‬م ب ارک ایڑھ ی اں کے ع وا ات کے حت بڑے‬
‫ے۔ (‪)۴۰‬‬ ‫وبصصورت اور حمب ت ب ھرے ا داز می ں ح ورﷺ کے سراپ ا م ب ارک کو ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫حا ل کالم‬
‫بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ والدت باسعادت کے ذکر کی کیا ضرورت‬
‫آپ کی تعلیمات و سیرت کو بیان‬ ‫حضور کی بعثت کے بعد ؐ‬ ‫ؐ‬ ‫ہے؟ والدت تو ہوچکی ہے اب‬
‫کیا جائے اور شریعت اسالم کی پابندی کی جائے یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سوچ اور‬
‫ذہنیت کا ازالہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‬
‫قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ‬
‫سے محبت ہی ایمان کی وہ بنیاد ہے کہ جس پر شریعت اسالم کی عمارت کھڑی ہے۔ قرآن‬
‫و سنت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہللا کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا تو فقط ذکر‬
‫کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ یہ ہللا کی سنت ہے۔ ہللا تعالی نے قرآن مجید میں جابجا اپنے‬
‫صالح و مقرب بندوں کا ذکر کیا ہے۔ انبیاء علیہم السالم کا ذکر تو بطور خاص کیا ہے‬
‫کیونکہ یہ سب ہللا تعالی کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن حکیم نے انبیاء علیہم‬
‫السالم کے ذکر کو ہللا تعالی کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیا ہے۔‬
‫حضور کی والدت باسعادت کے واقعات‬ ‫ؐ‬ ‫حضور پر نازل ہوا تو اس بنا پر‬ ‫ؐ‬ ‫قرآن حکیم‬
‫مصطفی بھی۔‬ ‫ؐ‬ ‫اور اس کی جزئیات تک کو بیان کرنا سنت الہیہ بھی ہے اور خود سنت‬
‫زیر نظر مقالہ میں آئمہ و محدثین عرب سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ‬
‫حضورﷺ نے مدینہ منورہ اآمد کے بعد یہودیوں سے روزہ رکھنے کا سبب‬
‫دریافت فرمایا اور انہوں نے جواب دیا کہ اس دن بنی اسرائیل و حضرت موسی کے ساتھ‬

‫‪97‬‬
‫فرعون سے نجات ملی تھی۔ اسی لیے وہ اس دن کی یاد منانے کے لیے روزہ رکھتے ہیں‬
‫تو حضورﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫موسی کے حقدار ہیں۔‘‘‬
‫ؑ‬ ‫’’ہم تم سے زیادہ‬
‫کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔‬
‫اور نہ صرف خود روزہ رکھا بلکہ صحابہ ؓ‬
‫آج امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ وہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طبقہ جشن‬
‫النبی کو سرے سے ناجائز‪ ،‬حرام اور بدعت کہہ کر اس کا انکار کررہا ہے جبکہ‬ ‫ؐ‬ ‫میالد‬
‫میالدالنبی کے نام پر (اال ماشاء ہللا) ہر ناجائز اور فحش کام سرانجام دے رہا‬
‫ؐ‬ ‫دوسرا طبقہ‬
‫النبی کے‬
‫ؐ‬ ‫ہے۔ انہوں نے بہت سے ایسے ناجائز اور حرام امور کو داخل میالد کرکے میالد‬
‫پاکیزہ تصور کو نہ صرف بدنام کیا ہے بلکہ اس کے تقدس کو بھی پامال کردیا ہے۔‬
‫ضرورت اس امر کی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ان انتہا پسندیوں کے‬
‫بین بین اعتدال پسندی کی روش اختیار کی جائے۔ ہم عصر حاضر میں میالد اور سیرت‬
‫کے منانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ کوئی صرف میالد کا داعی بن گیا‬
‫اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کو یہ بات‬
‫سمجھائی جائے کہ اگر میالد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کا بیان نہ‬
‫ہوتا تو میالد کا مقصد کیسے پورا ہوتا۔ اس لیے بیان میالد اور بیان سیرت دونوں ہی ذکر‬
‫مصطفی ہیں۔ دونوں ہی ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ اس لیے میالد کو نہ تو بدعت اور حرام‬ ‫ؐ‬
‫کہہ کر ناجائز سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس کو جائز سمجھتے ہوئے اس میں خرافات کو‬
‫داخل کیا جانا چاہیے۔‬
‫حضور کی والدت کی خوشی کا‬ ‫ؐ‬ ‫اس لیے ہمارے اس مقالہ کا حاصل کالم یہ ہے کہ‬
‫نام میالد ہے اور اس میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوضو ہوکر شریک ہوں تو نہ افضل‬
‫عبادت الہی ہے اور اس میں ہی پوری امت مسلمہ کی کامیابی کا راز ہے اور وقت کی اہم‬
‫مذہبی ضرورت بھی۔‬

‫‪98‬‬
‫باب چہارم‪    :‬‬
‫ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی خصوصیات اور‬
‫منہج واستدالل کامجموعی وتحقیقی و تنقیدی اورسیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ‬
‫پہلی فصل‪    :‬ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی‬
‫خصوصیات و منہج واستدالل‬
‫دوسری فصل‪        :‬ضلع قصور میںسیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ‪    ‬‬

‫پہلی فصل‪    :‬ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی‬
‫خصوصیات و منہج واستدالل‬
‫‪    ‬اس باب میں سیرت نگاروں کے کام کی خصوصیات ‪،‬ان کااسلوب ‪،‬ان کا طرز تحریر‪،‬‬
‫ان کی علمی کاوشوں اور‬
‫ان کے کام کی اہمیت کواجاگر کیاجائے گا۔‬
‫‪١‬۔‪    ‬موالناغالم محی الدین قصوری رحمۃ ہللا نے ‪١‬۔''تحفہ رسولیہ صلی ہللا علیہ وسلم''‬
‫(فارسی)‪٢،‬۔‬
‫حلیہ مبارک حضرت نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم '' قلمی اور‪٣‬۔'' دیوان حضوری قصوری''‬
‫اشعار کی شکل میں مرتب کی ہے۔‬
‫‪    ‬افسوس کہ یہ کتب قلمی یامطبوع ہمیں تالش بسیار کے باوجود نہ مل سکیں ورنہ ہم ان‬
‫کتب کی خصوصیات اور منہج استدالل پر ضرور روشنی ڈالتے۔‬
‫‪٢‬۔‪    ‬موالنااشرف سندھو رحمۃ ہللا کی کتب سیرت ‪١‬۔ ''شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' ‪٢،‬۔‬
‫سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔ ان کتب میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‬

‫‪99‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم میں صرف مقام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم پر پنجابی‬
‫اشعار میں بحث کی گئی ہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اس کتاب کے کل صفحات ‪ ٨٠‬میں اور یہ سندھو کالں نزدبھائی پھیرو سے مطبوعہ‬
‫ہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم میںپنجابی اشعار میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے مختلف‬
‫پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬اس کتاب کے کل صفحات ‪ ٩٠‬ہیں اور یہ سندھوکالں نزد بھائی پھیرو سے مطبوعہ‬
‫ہے۔‬
‫‪٣‬۔‪    ‬موالنا عبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا کے ترجمہ''سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز‬
‫آبادی‪ ،‬کی خصوصیات اس ترجمہ میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‬
‫‪i‬۔‪    ‬یہ ترجمہ سلیس اردو میں کیاگیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬مشکل مقامات پر مترجم نے کچھ حواشی بھی لکھے ہیں۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬صرف ترجمہ کیاگیاہے تخریج یاشرح سے گریز کیاگیاہے۔‬
‫‪iv‬۔یہ ترجمہ ماہنامہ االعتصام ‪١٩٧٠‬ء میں قسط وار شائع ہوتارہالیکن یہ ترجمہ نامکمل ہی‬
‫تھا کہ مترجم وفات پاگئے ۔‬
‫‪   ‬موالنا عبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا کے ترجمہ''سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز آبادی''‬
‫کامنہج‬
‫استدالل‪:‬‬
‫‪    ‬مترجم نے مصنف کی فارسی عبارتوں کاترجمہ کیاہے اس لیے ان کااپنا کوئی منہج‬
‫استدالل نہیں ہے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬شیخ الحدیث محمداسحق حسینوی کی کتاب'' ترجمہ مختصر سیرت رسول صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کی‬
‫خصوصیات‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬سلیس ترجمہ کیاگیاہے اصل کتاب عربی میںہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬قرآن وحدیث کے دالئل سے مزین سیرت کی قیمتی کتاب ہے۔‬
‫‪٤‬۔‪    ‬شیخ الحدیث محمداسحق حسینوی کی کتاب'' ترجمہ مختصر سیر ت رسول صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم '' کا منہج استدالل‬
‫‪i‬۔‪    ‬کتاب کے ہر باب میں اختصار کے پیش نظر سیرت کولکھاگیاہے پھر دالئل بھی لکھے‬
‫جاتے ہیں۔ یہ ابن القیم سے ملتاجلتا انداز ہے جو انھوں نے زادالمعاد میں اپنایا ہے۔‬

‫‪100‬‬
‫‪ii‬۔‪    ‬استدالل میں محدثانہ طریقہ اختیار کیاگیاہے۔‬
‫‪٥‬۔‪    ‬موالنا عبدالحمید ازہر رحمۃ ہللا نے ''ترجمہ و شرح شمائل ترمذی از حافظ زبیر علی‬
‫زئی رحمۃ ہللا '' کی نظر ثانی کی۔‬
‫‪    ‬یہ محض نظرثانی ہے اس میں خصوصیات اور منہج استدالل نظرثانی کرنے واال‬
‫کانہیں ہوتا بلکہ وہ تو مصنف کے لکھی ہوئی کتاب پر نظرثانی کرتاہے۔ اس لیے اس کتا‬
‫ب کی خصوصیات اورمنہج استدالل کانظرثانی کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔‬
‫‪٦‬۔‪    ‬پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' خطبات ومقاالت سیرت'' کی خصوصیات اس‬
‫کتاب میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‬
‫‪i‬۔‪    ‬اس کتاب میں شاکر صاحب کے مختلف اوقات میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے متعلق لکھے گئے‪ ٤٠‬مضامین کوجمع کیاگیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬ہر موضوع قرآن وحدیث سے لبریز ہے‪،‬آیات قرآنیہ اور احادیث رسول صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬اگر کہیں لغوی بحث کی ضرورت ہے تو وہاں تفصیل سے اس لفظ کا لغوی معنی‬
‫سمجھایاگیا ہے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬ہر موضوع کے متعلق بہت سی معلومات پڑھنے کوملتی ہیں ۔ایسے لگتاہے کہ‬
‫مصنف کے سامنے ہزاروں سیرت کی کتب کھلی ہوئی ہیں وہ نادر موتی جمع کرتے‬
‫جارہے ہیں۔ یہ خصوصیت اس لیے پائی جاتی ہے کیونکہ مصنف کی اپنی الئبریری بیت‬
‫الحکمت میں پچیس مختلف زبانوں میں پانچ ہزار سے زائد کتب سیرت موجود ہیں۔‬
‫‪v‬۔‪    ‬سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سیرت کے ان مقاالت میں زبان کی چاشنی‬
‫اورنبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات سے محبت کاانوکھا انداز اپنایاگیاہے۔‬
‫‪vi‬۔‪    ‬سیرت کے بعض پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے نیز اس میں کئی ایک کتب سیرت‬
‫کاتعارف کروایاگیاہے۔‬
‫‪vii‬۔‪    ‬مصنف نے کئی ایک کتب سیر ت کے مقدمات لکھے ہیں‪ ،‬ان کو بھی اس کتاب میں‬
‫شامل کیاگیاہے۔‬
‫‪viii‬۔‪    ‬اس کتاب کے کل صفحات ‪ ٣١٢‬ہیں نیز یہ کتاب مکتبہ کتاب سرائے الہور نے‬
‫‪٢٠١٣‬ء کو شائع کی۔‬
‫پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' خطبات ومقاالت سیرت'' کامنہج استدالل‬
‫اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایا گیاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬ہر موضوع میں قرآن مجید سے سیرت کے متعلق آیات کریمہ کوجمع کیاگیاہے اور ان‬
‫سے سیرت کی اہمیت کااستدالل کیاگیاہے۔‬

‫‪101‬‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اس کتا ب میں کتب سیرت اور کتب تاریخ سے بہت کم استفادہ کیاگیاہے بلکہ سیرت‬
‫کے مختلف پہلوؤں پر مصنف نے قرآن وحدیث کے ساتھ اپنی فکر وجذبہ کوپیش کرنے کی‬
‫کوشش کی گئی ہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬مصنف نے فلسفہ تاریخ سے بہت کام لیاہے اور استدالل میں سیرت اور فلسفہ‬
‫کامقابلہ پیش کیاہے۔‬
‫پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' مرقع سیرت'' کی خصوصیات‬
‫یہ کتاب درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے نیز اس کے کل صفحات ‪ ٣٩٨‬ہیں۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اس کتاب کی خصوصیات ابواب سے جانی جاسکتی ہیں۔ ابواب کی تفصیل درج ذیل‬
‫ہے۔‬
‫‪    ‬با ب اول‪     :‬تحقیق و تنقید سیرت‬
‫‪    ‬باب دوم‪     :‬تعارف‪،‬تجزیہ کتب سیرت‬
‫‪    ‬باب سوم‪    :‬مقدمات‪ ،‬فلیپ ودیباچے پر کتب سیرت‬
‫‪    ‬باب چہارم‪    :‬تبصرہ جات کتب سیرت‬
‫‪    ‬باب پنجم‪        :‬مقدمات ودیباچے پر کتب نعت و منظوم سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫‪    ‬باب ششم‪    :‬پنجابی کتب سیرت پر مقدمے اور دیباچے‬
‫‪    ‬باب ہفتم‪    :‬انگلش کتب پر مقدمات اوردیباچے‬
‫‪iii‬۔‪    ‬مصنف کے دور میں جس نے بھی سیرت پر کتاب لکھی ۔وہ شاکر صاحب سے‬
‫مقدمہ لکھوانا اپنااعزاز اور سندسمجھتا تھا۔ یہ تمام معلومات اس کتاب میں یکجا کر دیے‬
‫گئے ہیں۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬جس زبان میں کتاب ہے ‪،‬اسی زبان میں مقدمات لکھے گئے ہیں۔‬
‫‪v‬۔‪    ‬یہ کتاب مکتبہ کتاب سرائے الہور نے ‪٢٠١١‬ء کو شائع کی۔‬
‫پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' مرقع سیرت'' کامنہج استدالل‬
‫اس کتاب کے مطالعہ سے درج ذیل منہج استدالل سامنے آتاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬جس نوعیت کی کتاب ہے اسی نوعیت کے دالئل وحوالہ جات سے استدالل کیاگیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اگر کتاب اخالق النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر تومقدمہ میںاخالق کی تعریف اور اہمیت‬
‫پر موادلکھ کر اس سے استدالل کیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬کئی ایک مقدمات میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی قدیم وجدید کتب کاتعارف‬
‫کروایاگیاہے۔اس سے مصنف نے سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی اہمیت پر استدالل‬
‫کیاہے۔‬

‫‪102‬‬
‫‪٧‬۔‪    ‬موالناعبدالرحمن عزیزالہ آبادی رحمۃ ہللا نے اپنی کتاب ''امین کعبہ''کے نام سے‬
‫لکھی۔‬
‫‪٨‬۔‪    ‬حافظ ثناہللا مدنی کی''الوصائل فی شرح الشمائل'' کی خصوصیات‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬تحفۃ االحوذی کااختصار ہے دیگر کتب سے کئی ایک نادر فوائد کااضافہ کیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬مشکل اور غریب الفاظ کے معانی ائمہ فن سے نقل کیے ہیں۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬حدیث کے معنی کی حسب ضرورت تلخیص ائمہ کے اقوال کی روشنی میں۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬اہم فقہی بحوث میں ام الکتب کی طرف مراجعت کااشارہ۔‬
‫‪v‬۔‪    ‬بسااوقات حدیث سے مستخرج ومستنبط مسائل‬
‫‪vi‬۔‪    ‬تنبیہ اورفوائد کے عنوان سے اپنی طرف سے اہم فوائد لکھے ہیں۔‬
‫‪vii‬۔‪    ‬مختلف فیہ روایات میں جمع تطبیق کی کوشش کی ہے۔‬
‫‪viii‬۔‪    ‬مختلف فیہ مذاہب میں تعلیق لکھی ہے اور راجح کی دالئل کے ساتھ نشان دہی کی‬
‫ہے۔‬
‫‪ix‬۔‪    ‬سنداور متن کی تصحیح میں بہت زیادہ توجہ سے کام لیاگیاہے ۔اس میں سستی نہیں‬
‫کی جس طرح محدثین نے اس کابہت اہتمام کیا ہے ہم بھی انھیں کی طریق پر چلے ہیں۔‬
‫‪x‬۔‪    ‬تحفۃ االحوذی کااختصار کرتے وقت علمی انداز اختیار کیاہے۔‬
‫‪xi‬۔‪    ‬جس نے تحفۃ االحوذی پر اعتراضات کیے ہیں ان کامسکت جواب دیاہے۔‬
‫‪xii‬۔‪    ‬حسب ضرورت کبار مفتیان کرام کے فتاوی بھی ایڈ کیے ہیں مثالً شیخ ابن باز‪ ،‬شیخ‬
‫ابن عثیمین ‪،‬شیخ عبدہللا روڑی‪،‬شیخ البانی اور لجنہ دائمہ کمیٹی سعودی عرب۔‬
‫حافظ ثناہللا مدنی کی'' الوصائل فی شرح الشمائل'' کا منہج استدالل‬
‫اس کتاب کا منہج استدالل کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬حدیث سے جوکچھ مستفید ہوتاہے اس کووضاحت سے لکھا گیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬تمام احادیث کی تشریح سے محدثانہ استدالل کیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬اس کتا ب میں ضعیف اور غیر ثابت روایات ہیں ان سے استدالل نہیں کیاگیا۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬استدالل کرتے وقت دیگردالئل وبراہین کو بھی نقل کیاگیااور استدالل میں ان کابھی‬
‫اعتبار کیاگیاہے۔‬
‫اسم محمد'' کی خصوصیات‬ ‫‪٩‬۔‪    ‬موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب'' تجلیات ِ‬
‫اس کتاب کی خصوصیات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬یہ کتاب درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے۔اسم محمد کامعنی‪ ،‬اسم محمد سے معجزات‬
‫اسم محمد صلی ہللا علیہ‬‫‪،‬اسماء صاحب اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم ‪ ،‬القابات وصفات ِ‬
‫وسلم ‪،‬حصہ نعت‬

‫‪103‬‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اس کتاب میں گردانوں سے بہت کام لیاگیا مثالً اذان میں ہللا کانام ہے تومحمد صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کانام بھی ہے۔تشہد میں ہللا کانام ہے توساتھ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کانام بھی‬
‫ہے۔زبور میں ہللا کانام ہے توساتھ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کانام بھی ہے۔ اس طرح کی‬
‫بہت سی گردانیں موجودہیں ۔نصف سے زائد کتاب گردانوں پر مشتمل ہے۔۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬یہ کتاب خطیبانہ انداز میں لکھی گئی ہے ‪ ،‬علمی و تحقیقی انداز نہیں پہنایا گیا۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬اس کتاب میں قرآن وحدیث سے استدالل کیاگیاہے۔نیز اشعار سے بھی بہت فائدہ‬
‫اٹھایاگیاہے۔‬
‫‪v‬۔‪    ‬اس کتاب کے کل صفحات ‪ ٢٠٧‬ہیں نیز یہ کتاب جامعہ عثمانی اڈہ تلونڈی ضلع قصور‬
‫نے ‪٢٠٠٩‬ء میں شائع کی۔‬
‫موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب'' تجلیات اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' میں منہج استدالل۔‬
‫اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬ہر موضوع کے شروع میں چندحوالے لکھنے کے بعد گردانیں شروع کر دی جاتی‬
‫ہیں گویامصنف کامقصد سیرت کو گردانوں میں پیش کرناہے۔یہ طریقہ استدالل بہت کم‬
‫مصنفوں نے اپنایاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬ادیبانہ انداز‪ ،‬الفاظی کو بہت استعمال کیاگیاہے ۔بالفاظ دیگر ادب اردو سے استدالل‬
‫کیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬نعتیہ کالم سے بھی بھرپور استدالل کیاگیاہے۔‬
‫ت منیر فی رفعت سراج منیر'' کی خصوصیت‬ ‫موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب''خطبا ِ‬
‫اس کتاب کی خصوصیات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪i‬۔‪     ‬یہ کتاب تین جلدوںمیں مطبوع ہے۔پہلی جلد ‪، ٢٥٤:‬دوسری جلد ‪ ٢٥٦‬جبکہ تیسری جلد‬
‫‪ ٣٩٦‬صفحا ت پر مشتمل ہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬پہلی دوجلدوں میں سیرت کے مختلف پہلوخطیبانہ انداز میں لکھے گئے ہیں جب کہ‬
‫مکمل سیرت النبی صلی ہللا کااحاطہ کیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬ہر موضوع قرآن کریم‪ ،‬احادیث نبویہ کے ساتھ ساتھ اشعار اور گردانوں سے بھی کام‬
‫لیاگیاہے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬یہ کتاب ‪٢٠١٢‬ء میں جامعہ عثمانیہ اڈہ تلونڈی ضلع قصور نے شائع کی۔‬
‫ت منیر فی رفعت سراج منیر'' کامنہج استدالل‬ ‫موالنامنیر احمد معاویہ کی کتاب ''خطبا ِ‬
‫اس میں درج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬قرآن وحدیث سے استدالل کیاگیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬سیرت کے مشہور واقعات سے استدالل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‬

‫‪104‬‬
‫‪١٠‬۔‪    ‬ڈاکٹر عبدہللا قاضی کی کتاب'' امین کعبہ'' کی خصوصیات‬
‫اس کتاب کی درج ذیل خصوصیات ہیں‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬یہ کتاب نوابواب پر مشتمل ہے ۔پہال باب مقام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم اہل کتاب‬
‫کی نظر میں اور دوسراباب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم غیر مسلموں کی نظر میں''‬
‫مصنف نے تحریر کیے ہیں۔ یہ ابواب عام کتب سیرت میں نہیں پائے جاتے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اس کتاب میں قرآن کریم‪،‬کتب احادیث ‪،‬کتب سیرت ‪،‬کتب تفسیر اور کتب تاریخ سے‬
‫مواد لیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬ہر باب باحوالہ کی گئی ہے تاکہ قاری اصل کی طرف مراجعت کر سکے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬ہر بات مکمل تحقیق سے کی گئی ہے ۔کمزور بات سے حتی الواسع اجتناب کیاگیاہے۔‬
‫‪v‬۔‪    ‬زبان فصیح اردو اور عام فہم استعمال کی گئی ہے۔‬
‫‪vi‬۔‪    ‬اس کتاب کے کل صفحات ‪ ٥٩٦‬ہیں نیز یہ کتاب شیخ عاصم مقصود اتحادگروپ‬
‫فیصل آباد نے ‪٢٠١٧‬ء میں شائع کی۔‬
‫ڈاکٹر عبدہللا قاضی کی کتاب'' امین کعبہ''کامنہج استدالل‬
‫اس کتاب میں در ج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬کتاب کے شروع میں مفصل مقدمہ تحریر کیاگیاہے جس میں قرآن مجید سے سیرت‬
‫کے متعلق آیات کریمہ کو جمع کیاگیاہے اور ان سے سیرت کی اہمیت کااستدالل کیاگیاہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬پہلے اور دوسرے باب میںجہں تورات اور انجیل سے مواد لیاگیاہے ۔وہاں کئی ایک‬
‫غیر مسلموں کی کتب سے استفادہ کیاگیاہے او ران کے اقوال باحوالہ لکھ کر نبی کریم‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت کواجاگر کیاگیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬باقی تمام ابواب میں سیرت کے ہرپہلو کوثابت کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن‬
‫کریم سے استدالل کیاگیاہے۔ پھر احادیث مبارکہ سے اور پھر ان کی تائید وتفصیل میں کتب‬
‫سیرت اور کتب تاریخ وغیرہ سے مواد اکٹا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔باب کے آخر‬
‫میں اس باب کاخالصہ بھی پیش کردیاگیاہے۔۔‬
‫‪١١‬۔‪    ‬پروفیسر محمدسعید کی کتاب'' رسول رحمت صلی ہللا علیہ وسلم'' کی خصوصیات‬
‫اس کتاب کی درج ذیل خصوصیات ہیں‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬یہ مختلف عناونین پر مشتمل ‪ ٥٠٤‬صفحات پر مشتمل ہے۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬یہ سیرت کی واحد کتاب ہے جس کی فہرست نہیں بنائی گئی۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬اس کتاب میں قرآن کریم سے بہت زیادہ استدالل کیاگیاہے نیز حسب ضرورت‬
‫احادیث بھی جمع کی گئی ہیں اور کتب سیرت سے بہت کم مواد لیاگیاہے۔‬
‫‪iv‬۔‪    ‬مکمل سیرت کااحاطہ کیاگیاہے۔‬

‫‪105‬‬
‫‪v‬۔‪    ‬یہ کتاب الجامعۃ السعیدیہ قصور نے شائع کی ۔اس کتاب پر سن اشاعت نہیں لکھاگیا۔‬
‫پروفیسر محمدسعید کی کتاب'' رسول رحمت صلی ہللا علیہ وسلم'' کامنہج استدالل‬
‫اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایا گیاہے‪:‬‬
‫‪i‬۔‪    ‬ہر موضوع کے تحت قرآنی آیات لکھ کر مصنف نے اپنے الفاظ میں استدالل کیاہے۔۔‬
‫‪ii‬۔‪    ‬اگر اس موضوع کے متعلق کوئی حدیث یاواقعہ ہے تو اس کوتحریر کرکے اپنے‬
‫مدعا کو ثابت کرنے کا استدالل کیاہے۔‬
‫‪iii‬۔‪    ‬سیرت کے جن پہلوؤں کو امت مسلمہ چھوڑ چکی ہے اس کی اہمیت کواجاگر کرنے‬
‫کااستدالل کیاہے۔‬
‫‪١٢‬۔‪    ‬موالناطیب ہمدانی رحمۃ ہللا نے''سیرت کے انمول موتی''‬
‫نوٹ‪:‬یہ کتاب بہت کوشش کے باوجود قلمی یامطبوعہ نہیں مل سکی ورنہ اس کی‬
‫خصوصیات اور منہج استدالل پر بحث کرتے‬

‫دوسری فصل‬
‫‪    ‬ضلع قصور کے سیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ‬
‫‪    ‬اس فصل میں ضلع قصور کے سیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ پیش کیاجائے گا۔‬
‫یہ دیکھاجائے گا کہ کس سیرت نگار نے سیرت کے کس کس پہلو کواجاگر کیاہے اور‬
‫انھوں نے کیانمایاں خدمات انجام دیں ۔ان میں سے بہترین سیرت نگاروں کاانتخاب بھی اس‬
‫باب کامطمع نظر رہے گا۔‬
‫‪    ‬نیز یہ بھی دیکھاجائے گا کہ ان کتب کاپاکستان یابرصغیر میں کوئی مقام بھی ہے یابس؟‬
‫اختصار کے ساتھ تمام کتب کا تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے‪:‬‬
‫‪١‬۔‪    ‬موالنا غالم محی الدین قصوری رحمۃ ہللا نے ‪١‬۔''تحفہ رسولیہ صلی ہللا علیہ وسلم''‬
‫(فارسی)‪٢‬۔''حلیہ مبارک حضرت نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم''قلمی اور‪٣‬۔'دیوان حضوری‬
‫قصوری'' اشعار کی شکل میں مرتب کی ہیں۔‬
‫یہ کتب بلھے شاہ الئبریری قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی الماری میں‬
‫موجودہیں۔‬
‫نوٹ‪    :‬کاش یہ کتب مل جاتیں ہم ان کاتقابلی جائزہ لیتے۔‬
‫‪٢‬۔‪    ‬موالنااشرف سندھو رحمۃ ہللا کی کتب سیرت ‪١‬۔''شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' ‪٢‬۔‬
‫''سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم'' ہیں۔‬

‫‪106‬‬
‫‪٣‬۔‪    ‬موالناعبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا نے'' سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز آبادی''‬
‫کاترجمہ کیا۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ فارسی کتاب کا ترجمہ ہے۔‬
‫‪٤‬۔‪    ‬شیخ الحدیث محمد اسحاق حسینوی رحمۃ ہللا نے''مختصر سیرت الرسول از محمد بن‬
‫عبدالوہاب رحمۃ ہللا'' کا ترجمہ کیا۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ عربی کتاب کاترجمہ ہے۔‬
‫‪٥‬۔‪    ‬موالناعبدالحمید ازہر رحمۃ ہللا نے ''ترجمہ وشرح شمائل ترمذی از حافظ زبیر علی‬
‫زئی رحمۃ ہللا'' کی نظر ثانی کی۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ نظرثانی ہے۔‬
‫‪٦‬۔‪    ‬پروفیسر عبدالجبارشاکر رحمۃ ہللا نے درج ذیل کتب لکھیں۔‪١‬۔ ''خطبات ومقاالت‬
‫سیرت'' ‪٢‬۔'' مرقع سیر‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ موصوف کے مختلف مقاالت وکتب کے مقدمات پر مشتمل ہے۔‬
‫‪٧‬۔‪    ‬موالناعبدالرحمن عزیر الہ آبادی رحمۃ ہللا نے ''سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم ماہ‬
‫وسال کے آئینے میں''لکھی۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کو تاریخی اعتبار سے مرتب کیاگیاہے۔‬
‫‪٨‬۔‪    ‬حافظ ثناء ہللا المدنی حفظہ ہللا نے''شرح الشمائل للترمذی'' لکھی۔‬
‫‪٩‬۔‪    ‬موالنامنیراحمد معاویہ حفظہ ہللا نے درج ذیل کتب لکھیں۔‪١‬۔ ''خطبات منیر فی رفعت‬
‫سراج‬
‫منیر''(تین جلدمیں)‪٢،‬۔'' تجلیات اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم''۔‬
‫تقابلی جائزہ‪:‬ان کتب میں خطیبانہ انداز میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے مختلف‬
‫موضوعات پر بحث کی گی ہے۔‬
‫‪١٠‬۔‪    ‬پروفیسر ڈاکٹر عبدہللا قاضی حفظہ ہللا نے''امین کعبہ'' لکھی۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ علمی اور تحقیقی کتاب ہے جو سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ہر ہر‬
‫پہلو کااحاطہ کرتی ہے۔‬
‫‪١١‬۔‪    ‬پروفیسر چوہدری محمد سعید ؒ نے ''رسول رحمت'' لکھی۔‬
‫تقابلی جائزہ‪ :‬یہ کتاب سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر عام فہم پبلک کے لیے لکھی گئی‬
‫ہے۔‬
‫‪١٢‬۔‪    ‬موالناطیب ہمدانی ؒ نے''سیرت کے انمول موتی'' تالیف کی۔‬
‫‪           ‬تبصرہ کتب‬
‫کتاب کا نام‪:‬رسو ِل رحمت‬

‫‪107‬‬
‫مصنف کا نام‪:‬چوہدری محمد سعید‬
‫ناشر‪:‬الجامعہ السعیدیہ قصور‬
‫یہ سیرت النبی ؐ پر لکھی گئی نہایت خوبصورت اور آسان زبان میںکتاب ہے۔جس میں‬
‫رسول کی والدت سے پہلے زمانہ جاہلیت کابڑے خوبصورت انداز میں نقشہ کھنچا گیا ہے۔‬ ‫ؐ‬
‫کتاب کا آغازقرآن مجید کی آیت مبارکہ‬
‫وما آرسلناک االرحمت للعالمین ہ ترجمہ‪:‬اور ہم نے آپ کو تما م جہانوںکےلئے رحمت بنا‬
‫کر بھیجا ہے۔‬
‫سے کیا گیا ہے۔اِسی مناسبت سے کتاب کانا م رسو ِل رحمت رکھا گیا ہے۔اِس کتاب میں‬
‫حالت‪،‬آپکے آباؤاجداد‪،‬حضرت آدم ؑ سے‬
‫ؐ‬ ‫زمانہ جاہلیت کی جغرافیائی شکل‪،‬عربوںکی&‬
‫مطہرات‪،‬آپکی& اوالداور ؐآپکی والدت کو بڑی خوبصورتی‬
‫ؐ‬ ‫نسب‪،‬ازواج‬
‫ِ‬ ‫آنحضرت کا شجرہ‬
‫ؐ‬
‫سے بیان کیا گیاہے۔‬
‫صفہ نمبر‪٣٠‬پروالدت باسعادت کے بعد پیش آنیوالے واقعات ‪ ،‬حلف الفضول میں‬
‫کعبہ‪،‬آغازنبوت ‪ ،‬اعالن ِنبوت ‪،‬قر آنی آیات میں تبلیغ کےلئے تاکید۔اس سے‬
‫ِ‬ ‫شرکت‪،‬تعمیر‬
‫ِ‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ مصنف نے یہ کتاب قرآن وحدیث کے حوالے سے لکھی ہے۔‬
‫ت مدینہ کی وجوہات اور کفار کے مظالم کو نظموںاور اشعار کی شکل میںبیان کیا گیا‬ ‫ہجر ِ‬
‫ہے تاکہ پڑھنے واال اپناذوق وشوق برقرار رکھ سکے اور پوری توجہ اور انہماک سے‬
‫پڑھنے میں مشغول رہے۔‬
‫صحابہ کی تعداد بھی بڑھ گئی ‪ ،‬مہاجر تو ظلم و ستم کے ستائے‬‫ؓ‬ ‫ہجرت مدینہ کے بعد‬
‫ہوئے تھے۔ ہللا نے حضور ؐ کو جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی اور ہللا نے فرشتوں کے‬
‫رسول‬
‫ؐ‬ ‫ذریعے مسلمانوں کے مدد بھی فرمائی ۔جہاد کے واقعات کو قرآنی آیات اور احادیث‬
‫سے سجایا گیا ہے۔ اور غزوات کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کے جذبہ ایثار کو بڑے احسن‬
‫انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ واقعات کی ترتیب ایسے بیان کی گئی ہے جیسے اےک کڑی‬
‫کے بعد دوسر ی کڑی ہو یعنی واقعات کا مسلسل ربط اور تعلق ہے کہیں بھی کوئی وقفہ‬
‫نہیں محسوس ہوتا۔‬
‫محمدنے مختلف بادشاہوں کو لکھے گئے خطوط اور دعوت‬ ‫ؐ‬ ‫کتاب کے صفحہ نمبر‪164‬پر‬
‫اسالم قبول کرنے اور خط لکھنے کا طریقہ کار بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے اور‬
‫خطبہ حجتہ الوداع میں معامالت کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور آخر میں‬
‫جب یہ آیت نازل ہوئی۔‬
‫"ترجمہ آج ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی‬
‫اور تمہارے لیے مذہب اسالم کا انتخاب کیا"۔‬

‫‪108‬‬
‫مصنف نے حجتہ الوداع کے تمام مسائل کو با احسن طریق ترتیب وار بیان کیا ہے۔ اس کے‬
‫آپ کے وصال مبارک کو احادیث کی روشنی میں مدلل انداز میں بیان کیا‬ ‫بعد مصنف نے ؐ‬
‫ہے۔‬
‫آپ تمام جہانوں کےلئے رحمت ہیں چاہے وہ انسان ہوں یا‬ ‫"رسول رحمت" کتاب چونکہ ؐ‬
‫آپ کی رحمت چھائی ہوئی ہے اور مصنف نے مختلف معجزات‬ ‫حیوانات یا نباتات سب پر ؐ‬
‫آپ کو رسول رحمت ثابت کیا ہے۔‬ ‫سے ؐ‬
‫اس کے بعد مصنّف نے رسول رحمت ؐ کو قرآن و حدیث سے بھی واضع کیا ہے کہ ؐ‬
‫آپ کیا‬
‫آپ کو‬‫ہیں جیسے آپ ؐ کو معراج پر بالنا‪ ،‬پانچ نمازوں کا تحفہ دینا اور سارے انبیاء کا ؐ‬
‫المنتہی تک اٹھایا جانا۔ ان سب اوصاف کو ترتیب وار کتاب کا‬
‫ٰ‬ ‫مرحبا کہنا اور آپ ؐ کو سدرۃ‬
‫حصہ بتایا گیا ہے۔‬
‫معراج کے واقعات کو اشعار کی شکل میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قاری کی دلچسپی برقرار‬
‫رہے۔‬
‫کتاب کے آخر میں معموالت مقدسہ کو بیان کیا گیا ہے جن میں نمازوں کی ترتیب‪ ،‬تبلیغ‬
‫دین‪ ،‬دعاؤں کا معمول ‪ ،‬آداب مالقات اور گھریلو معامالت کو بڑی خوبصورتی سے بیان‬
‫کیا گیا ہے ۔ امانت و دیانت رحم و ترحم‪ ،‬تواضع‪ ،‬ایثار و تحمل‪ ،‬نرمی و شفقت ‪ ،‬قناعت اور‬
‫توکل ‪ ،‬شجاعت و بہادری ‪ ،‬ایفائے عہد ‪ ،‬صبر و استقامت‪ ،‬پاکدامنی‪ ،‬شرم و حیا‪ ،‬عفو و‬
‫کرم‪،‬‬
‫الغرض یہ کتاب ایسی کتاب ہے جس کو پڑھ کر آدمی کو معرفت ذات سے معرفت ٰالہی‬
‫حاصل ہوتی ہے ‪ ،‬کسی کا قول ہے‬
‫''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''‬
‫اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔‬
‫سراغ زندگی‬
‫ِ‬ ‫اپنے من میں ڈوب کر پایا‬
‫تواگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن‬
‫جب انسان اپنی پہچان نہیں کرتا تو وہ خدا کو بھی نہیں پہچانتا اور پھر در در کے دھکے‬
‫اور جگہ جگہ کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔‬
‫اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔‬
‫پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات‬
‫تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من‬
‫کتاب نمبر‪٢‬‬
‫محمد‬
‫ؐ‬ ‫نام کتاب‪    :‬تجلیات اسم‬

‫‪109‬‬
‫تالیف‪        :‬موالنا منیر احمد معاویہ‬
‫ناشر‪        :‬ادارہ تالیفات ختم نبوت‬
‫اس کتاب "تجلیات اسم محمد ؐ" کے بارے میں مصنف یوں رقم طراز ہے۔ یہ کتاب ستمبر‬
‫رسول کے سامنے ریاض‬ ‫ؐ‬ ‫‪2005‬کو مدینہ منورہ میں شروع کی گئی جس کا آغاز روضہ‬
‫الجنہ میں کیا گیا۔ یہ کتاب بروز سوموار بتاریخ ‪24‬نمبر‪2008‬کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس‬
‫آپ کے القابات‪،‬‬ ‫کتاب میں سید الرسل ‪ ،‬خاتم النبین حضرت محمد ؐ کے اسماء صفاتی اور ؐ‬
‫آپ کے بے شمار فضائل کو مصنف نے بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب‬ ‫ؐ‬
‫کے چار حصے ہیں۔‬
‫محمد کی تاریخی حیثیت یعنی کہ اسم محمد ؐ کہاں کہاں استعمال ہو ا۔‬ ‫ؐ‬ ‫‪ 1-‬اسم‬
‫محمد کے اسماء صفاتی‬ ‫ؐ‬ ‫‪ 2-‬حضور نبی اکرم‬
‫اکرم کے القاب و صفات‬ ‫‪ 3-‬حضور نبی ؐ‬
‫‪ 4-‬چند منتخب شدہ نعتیں‬
‫آپ‬
‫محمد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں مصنف یوں بیان کرتا ہے کہ ؐ‬ ‫ؐ‬ ‫باب اول یعنی اسم‬
‫احمد باقی سب نام صفاتی ہیں۔ صفاتی ناموں کی‬ ‫ؐ‬ ‫محمد اور‬
‫ؐ‬ ‫کے دو نام ذاتی ہیں یعنی‬
‫کرام کے اقوال کو مثالوں سے واضع‬ ‫تعریفات اور تسبیحات ائمہ کرام ‪ ،‬محدثین اور صحابہ ؓ‬
‫حضور کی والدہ کا خواب اور دادا عبدالمطلب& کا خواب حسین و جمیل‬ ‫ؐ‬ ‫فرمایا ہے جیسے‬
‫انداز میں بیان کیا ہے اور اس زمانے کے علماء و فضالء اور صلحاء اور خوابوں کی‬
‫محمد کی عظمت و شہرت کے جھنڈے چاردانگ عالم‬ ‫ؐ‬ ‫تعبیر کے ماہرین نے کہا اس نبی‬
‫میں لہرائیں گے۔ آسمان کی بلندیوں اور زمین کی وسعتوں میں اس کی تعریفیں ہونگی۔ جو‬
‫اس کی مخالفت کرے گا وہ نیست و نابود ہو جائے گا۔‬
‫محمد کی عظمت کو اس اندا میں بیان کیا ہے کہ ہللا نے قرآن میں ارشا‬ ‫ؐ‬ ‫مصنف نے اسم‬
‫فرمایا ہے‬
‫''ورفعنا لک ذکر ک''‬
‫(ترجمہ‪:‬ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے)‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫اکرم کی رفعت اور بلندی اور مقام و مرتبہ مزید اونچا کرنے کیلئے ہللا‬ ‫حضور نبی ؐ‬
‫تعالی نے ارشاد‬‫ٰ‬ ‫محمد نازل کی ہے سورۃ الفتح میں ہللا‬
‫ؐ‬ ‫نے ایک پوری سورہ مبارکہ سورۃ‬
‫فرمایا‬
‫سورۃ آل عمران میں ارشاد فرمایا‬
‫چوتھی جگہ سورۃ اال حزاب میں فرمایا ۔‬

‫‪110‬‬
‫اس کتاب میں مصنف نے گردانوں اور تشبیہات کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے اگر ہللا کا نام‬
‫محمد کا نام بھی‪ ،‬اذان میں ‪،‬‬
‫ؐ‬ ‫محمد کا نام بھی ہے‪ ،‬کلمہ شہادت میں ہللا کا نام ہے تو‬ ‫ؐ‬ ‫ہے تو‬
‫محمد کے بارے میں‬ ‫ؐ‬ ‫درود میں ‪،‬عالم ارواح میں بھی ہے۔ مختلف علماء کرام کے اقوال اسم‬
‫نقل کیے گئے ہیں۔‬
‫محمد کو ثابت کیا ہے۔‬
‫ؐ‬ ‫مصنف نے مختلف چیزوں میں اسم‬
‫محمد کے ناموں کا خوبصورت انداز‬ ‫ؐ‬ ‫اس کے بعد مصنف نے حروف تہجی کے لحاظ سے‬
‫اپنایا ہے جسے دےکھ اور پڑھ کر قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ اور بے ساختہ دل سے صدق و‬
‫یقین کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔‬
‫کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے‬
‫''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر''‬
‫اس کے ساتھ ہی مصنف نے محمد ؐ کے القابات و صفات کو بھی حروف تہجی کے اعتبار‬
‫سے اےک کڑی میں پرو دیا ہے یعنی کہ نام اور صفات کو اےک لڑی میں رکھ دیا ہے‬
‫جس سے پڑھنے والے کا دل مچل جاتا ہے۔ اور روح تڑپ جاتی ہے۔‬
‫محمد کی تعریف نعت و‬ ‫ؐ‬ ‫مصنف نے کتاب کے آخری حصے مےں نعتیہ انداز اپنایا ہے۔ اسم‬
‫حضور ساقی کوثر‪ ،‬محترم بعد از خدا تم ہو‪ ،‬صح ِن حرم میں ‪ ،‬انوار مدینہ‪ ،‬مختصر‬ ‫ؐ‬ ‫منقبت‪،‬‬
‫قصیدہ بہاریہ‪ ،‬کون ثانی ہو شاہا تیرا؟ ‪ ،‬آفتاب آئے مہتاب آئے‪ ،‬دل جس سے زندہ ہے و ہ‬
‫تمنا تم ہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تو تم ہی تو ہو‪،‬تجھ سا کوئی نہیں اے‬
‫رسول امین خاتم المرسلین‬
‫کتاب نمبر‪٣‬‬
‫نام کتاب‪    :‬خطاب منیر فی رفعت سراج منیر(جلد ا ّول‪،‬دوم)‬
‫ترتیب و تحقیق‪    :‬موالنا منیر احمد معاویہ‬
‫‪        ‬تلمیذ حضرت موالنا محمد امین ٖسدر اوکاڑی ؒ‬
‫اشاعت اول‪    :‬دسمبر‪2012‬‬
‫ناشر‪        :‬جامعہ عثمانیہ اڈا تلونڈی تحصیل چونیاں ضلع قصور‬
‫النبی پر لکھی گئی اےک انوکھی اور آسان زبان‬ ‫ؐ‬ ‫خطبات منیر فی رفعت سراج منیر سیرت‬
‫میں لکھی گئی کتاب ہے ۔‬
‫مصطفی اور آپ‬
‫ؐ‬ ‫بندہ ناچیز نے کتاب کا مطالعہ کیا بے حد مسرت ہوئی کی سیرت محمد‬
‫کے حسن و جمال پر بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ تحریر کی گئی ہے ۔ یہ کتاب چند‬
‫مسنتند حوالوں سے ترتیب دی گئی۔‬

‫‪111‬‬
‫اور پھر یہ اےسے خطبات ہیں جن کو بہت ہی مقبول اشعار سے مزین کیا گیا ہے۔ جس کو‬
‫پڑھنے اور سننے سے سامعین جھومنے لگتے ہیں۔ آج کے پر فتن دور میں جہاں اسالم‬
‫کے اصولوں پر حملے ہو رہے ہیں‪ ،‬موسیقی‪ ،‬بے حیائی ‪ ،‬قتل و غارت ‪ ،‬مغربی‬
‫جمہوریت‪ ،‬شرک بدعت‪ ،‬ظلم و ستم اور مہنگائی نے زہرےلے جراثیم پھیال رکھے ہیں۔‬
‫ایسے موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب اس بے دینی سےالب کے آگے بند باندھے گے۔‬
‫موالنا منیر احمد معاویہ اپنی پاکیزہ تحریر کی طرح پرکشش شخصیت ہیں۔ چہرے پر‬
‫مسکراہٹ‪،‬لباس میں نفاست‪ ،‬اخالق میں شرافت ہاتھوں میں سخاوت‪ ،‬ہللا اےسے لوگوں کو‬
‫ہمیشہ دین کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔‬
‫اگر ذوق شوق نیز دلجمعی کے ساتھ یہ کتاب کو پڑھا جائے تو ہر تحریر پر لطف آتا ہے‬
‫کسی جگہ مولف کے د لچسپ مطالعہ کی داد دینی پڑتی ہے۔‬
‫اکرم کی مدحت منقبت کے حوالے سے‬ ‫موالنا موصوف نے اپنی اس کتاب میں جناب نبی ؐ‬
‫اپنے مختلف خطبات میں عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے جو ان کے حسن ذوق کی عالمت‬
‫ہیں۔ یہ خطاب تین جلدوں میں کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ جو کم و بیش نو سو‬
‫تعالی موالنا موصوف کی اس عقیدت و محبت‬ ‫ٰ‬ ‫صفحات پر مشتمل ہیں ہم دعا گو ہیں کہ ہللا‬
‫کو قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے نفع بخش بنائیں۔‬
‫تعالی ہے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے جیسے ارشاد باری‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ترجمہ‪(:‬اور ہم نے یہ ذکر(قرآن )نازل کیا ہےاور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)‬
‫عالم اسباب میں اس کی حفاظت و انتظام یوں فرمایا کہ ہر دور میں اپنے خاص بندوں کو‬
‫چن لیا ہے جو ہر دور میں دین کا بول باال کرتے رہیں گے اور اس کی اشاعت کا فریضہ‬
‫سر انجام دیتے رہیں گے انہیں نیک و مقبول ہستیوں میں موالنا منیر احمد معاویہ بھی ہیں‬
‫جنہوں نے یہ کتاب بہت ہی موثر اور عمدہ انداز سے مرتب کی ہے‬
‫حضور کی محبت آپ ؐکی سیرت پڑھنے سے دل میں آتی ہے آج کل مسلمانوں میں اس‬ ‫ؐ‬
‫ت‬
‫محبت کی کمی کی وجہ شریعت سے دوری ہے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے'' خطبا ِ‬
‫حضور کے مبشرات‪،‬‬ ‫ؐ‬ ‫سراج منیر''ایک انمول نسخہ کیمیا ہے۔ اس میں‬‫ِ‬ ‫ت‬
‫منیر فی رفع ِ‬
‫آپ کی زندگی کے ان واقعات کا انتخاب فرمایا ہے جن کے پڑھنے اور‬ ‫والدت پاک اور ؐ‬
‫بیان کرنے سے آنحضرت ؐ کی عظمت اور افضل االنبیاء اور بعد از خدا بزرگ توئی قصہ‬
‫مختصر کا نقش انشاء ہللا دل پر جم جائے گا آخر میں معجزات جو وکیل نبوت ہیں ان کا‬
‫بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ مطالعہ کرنے والوں کے پاس صرف اپنا اطمینان قلبی نہیں بلکہ‬
‫منکرین شان رسالت کے مقابلہ کےلئے ہتھیار بھی ہوں ۔یہ کتاب صرف خطباء کےلئے ہی‬

‫‪112‬‬
‫تعالی مولف کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے‬ ‫ٰ‬ ‫نہیں بلکہ عوام الناس کیلئے بھی مفید ہے ہللا‬
‫اور مسلمانوں میں حب نبوی اور اطاعت نبوی کا ذریعہ بنائے۔‬
‫موالنا موصوف کی تصنیف اس اعتبار سے اس کا انداز مروجہ واعظانہ نہیں بلکہ عالمانہ‬
‫ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت جو بندہ نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب علماء‬
‫دیوبند کے بارے میں کیے جانے والے پراپیگنڈہ& کا بہترین دفاع ہے کہ علماء دیوبند بہترین‬
‫عاشقان رسول نہیں ہیں۔‬
‫کتاب سالست وترتیب اوربیان کے اعتبار سے بے نظیرہے اور اپنی افادیت کے اعتبار‬
‫سے بھی بے مثل ہے۔اور دور جدید کے تقاضوں کیمطابق ہے۔مصنف نے ایک نیا انداز‬
‫خطابت اور بیان کاسلیقہ دیا ہے جو دلکش بھی ہے اور دل رُبا بھی ہے اور عوام وخواص‬
‫کےلئے مفید بھی خصوصا َ خطباء حضرات کےلئے۔‬
‫اپنے موضوع کی تزین و آرائش کےلئے آیات قرآنی اور احادیث نبویہ ؐ اکابرین امت اور‬
‫تاریخی حوالہ جات کا ذکر کیا گیا ہے اس لحاظ سے اس خاصا مواد بھی جمع ہے جو‬
‫المصطفی الرحیق المختوم‬
‫ٰ‬ ‫مشہور سیرت کی کتابوں سے لیا گیا ہے مثالَ سیرت حلبیہ‪،‬سیرت‬
‫وغیرہ وغیرہ سے لیا گیا ہے۔‬
‫کتاب کے کل دس عنوانات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں‪:‬۔‬
‫سراج منیر‬
‫ِ‬ ‫‪١‬۔تذکرے‬
‫سراج منیر‬
‫ِ‬ ‫‪٢‬۔چرچے‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫‪٣‬۔آمد‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫‪٤‬۔جمال‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫‪٥‬۔اسم‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫‪٦‬مقام‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫ت‬
‫‪٧‬۔عظم ِ‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫ت‬
‫‪٨‬۔رفع ِ‬
‫سراج منیر‬ ‫ِ‬ ‫ت‬
‫‪٩‬۔رحم ِ‬
‫سراج منیر‬
‫ِ‬ ‫ت‬
‫‪١٠‬۔معجزا ِ‬
‫اعلی و ارفع پیدا فرمایا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے کائنات میں ہر لحاظ سے‬ ‫ٰ‬ ‫حضور نبی کریم ؐ کو ہللا‬
‫مصنف نے آپ ؐ سے نسبت کوقائم و دائم رکھنے کےلئے شان اقدس کو خطابت اشعار اور‬
‫قصیدوں کی شکل میں بیان کیا ہے اور اپنی ایمانی تازگی کا سامان مہیا کیا ہے۔کسی شاعر‬
‫نے کیا خوب کہا ہے۔‬

‫‪113‬‬

You might also like