Professional Documents
Culture Documents
Complete Thesis33 Rahat
Complete Thesis33 Rahat
پہلی فصل :
تاریخ قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جائزہ
تاریخ قصور:
اس باب میں ہم قصور کی مختصرتاریخ پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح
کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس ضلع میں علم سیرت کیسے آیا ،وہ کونسی شخصیات
ہیں جن کی محنت سے علم سیرت اس ضلع میں منتقل ہوا۔
اس باب میں یہ بھی وضاحت کریں گے کہ ہم نے کون کون سی کتب سے راہنمائی لی ہے۔
قصو ر پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک قدیم ضلع ہے۔ شہر قصور کاذکر بھی جی
سے سننے والوں کے لیے ایسا سب رنگین اور دآلویز ہے کہ موضوع بدلنے کے لیے
کسی بہت بڑے تمدنی نام کو بیچ میں النے سے بات بدلتی ہے ۔
1
ایک بھرپور تاریخ کے حامل اس شہر کی شناخت بننے والے مشاہیر کی فہرست کسی بھی
دوسرے عظیم شہر سے کم نہیں ہے۔بُلھے شاہ کی مستانہ کافیوں نے اسے آتش فشانی
دہانوں کاشہر بنادیاہے ۔
عہداکبری میںتان سین کی جاگیررہنے واال استادبڑے غالم علی خاں اور میڈیم نور جہاں
کایہ شہر''میرا سوہنا شہر قصور'' پانچ دریاؤں کے بیچ تانپورے کے منجھلے تار کی طرح
ہے۔
سیاست وحکمرانی میںسیاسی فطانت سے لے کر محالتی سازشوں تک قصور کی تاریخ
ایک نصابی حوالے کی مانند ہے۔
ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے
ہجرت کرکے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل ،سا ئیکلوں اور گھوڑوں پر بیٹھے جوق
در جوق اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کوپہنچ گئے۔
شہر کے معرض وجود میں آنے کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینابہت قبل از وقت
ہوگا۔ تاہم رامائن میں ہے کہ شری رام چندر جی نے اپنے بیٹے کشو کو نوازنے کے لیے
ایک تیر پھینکا جو اس جگہ آن گرا اور را م چندر جی نے یہ جگہ کشوکو جاگیر کے
طورپر عطا کی اور خیال کیاجاتاہے کہ اسی نسبت سے اس کانام کسورپڑا۔
اس کے بعد یہ شہر ہندوی لفظ کسور سے ،عربی کاقصور کہالنے لگا۔فیروز پور روڈ پر
واقع ٹبہ کمال چشتی کااونچاخرابہ ،ایک پرانے شہر روہےوال کاپتہ دیتاہے ۔عہد اکبری
میں قصور روہیوال کاایک قصبہ تھاجواکبر نے تان سین کو عطاکیاتھا۔ ایک محالتی
بدگمانی کورفع کرنے کی غرض سے بعد میں یہ عالقہ مغل فوج کے ایک علی زئی افغان
جرنیل کو بخشا گیا۔ افغان فوجی افسروں کے یہاں آباد ہونے سے شہر کی معلوم تاریخ کا
آغاز ہوتا ہے ۔
پٹھانوں نے اس جگہ قصر نما ١٢قلعے (باراں کوٹ) تعمیر کیے۔اس عہد میں رند قبیلے
کے ایک بلوچ سورما پیرابلوچ کی پٹھانوں کے ساتھ چشمک عالقے کی لوک داستانوں کا
اہم موضوع ہے۔ پیرابلوچ رات کے اندھیرے میں پٹھان امراء کے محالت میں شب خون
مارتا اور ساتھ میں اپنی غریب پروری کی وجہ سے عام لوگوں میں مقبول بھی رہا۔
پٹھانوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں پیراماراگیا اور قصور کے بارہ قلعوں کی پرتعش زندگی
میں امن وسکون کے ایک اور عہد کاآغاز ہوا۔ تاہم لوک رزمیوں(واراں)& میں آج بھی
پیراکو ایک ہیرو کے طورپر یاد کیاجاتاہے۔سکھ قبیلے'' بھنگی'' کے تاریخی عہد کو بے
مثل دور کہتے ہیں۔
2
مثل دوربھی یہاں کے پٹھان امرا ء کے لیے بے سکونی کاایک باب ہے۔ یہ عہد قصور کی
تاریخ میں بھاری سیاسی اور ثقافتی بحران کا زمانہ ہے۔ قصور میں سنگھاشاہی رسوخ
ملتان کے نواب مظفر خاں سدوزئی کے ساتھ رنجیت سنگھ کی جنگوں کے پس منظر سے
شروع ہوتاہے جب یہاں کے ایک جرنیل قطب الدین خان کو رنجیت سنگھ نے ملتان کے
سدوزئیوں کے خالف اس کاساتھ دینے کا کہا اور قطب الدین نے انکارکیا۔
اس بات پر رنجیت سنگھ قصور کے رؤسا پر چڑھ دوڑا اور قطب خان کو شکست کھاکر
رنجیت کاکہامانناپڑا۔قطب خاں کی نصرت میں رنجیت سنگھ نے ملتان کا قلع فتح کیا اور
اس کی مغل جاگیریں بحال کر دیں۔قصور میوزیم میںتاریخ کے اُس دور کی مختلف انداز
میں ثقافت کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں قصور کا قلمروانگریزوں& نے سکھوں سے چھین لیا۔برٹش
دورمیں یہاں کے پٹھان رؤسا کے حکومت کے ساتھ نہایت دوستانہ روابط رہے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران رؤسائے قصور نے جنگ کے لیے خطیر چندے
اکٹھے کیے اور سرکاری طورپر انھیں بھاری مراعات اور عہدوں سے نوازا گیا۔ جلیانوالہ
باغ کے واقعے پر قصور میں نہایت پرجوش عوامی ردعمل سامنے آیا۔ ان مظاہروں کو
قصور جلوس ایجی ٹیشن کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔
مقامی امراء نے اسکولوں& سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کوپکڑ کر پنجروں میں قید کر
دیااور ان پر کوڑے برسائے۔ برطانوی عہد میں قصور کے گردریل کی پٹڑی کاجال بچھایا
گیا ،جو اسے امرتسر ،فیروزپور ،لودھراں اور رائیونڈ سے مالتی تھی۔
اس عہد میں قصور کو ضلع الہور کی ذیل میں تحصیل کادرجہ مال اور نئی طرز کے
بنیادی انتظامی ادارے کچہریاں اور یونین کوسل قائم ہوئے۔تقسیم ہند کے بعد یہاں کی تقریبا ً
چوتھائی بھر غیر مسلم آبادی نے شہرچھوڑ دیا .
جب کہ ہندوستان سے فیروزپور،امرتسر اور میوات وغیرہ سے مہاجرین کی ایک بڑی
تعداد یہاں مہاجر بستیوں میں آباد ہوئی۔
تقسیم کے وقت کاےہ المناک باب بھی قابل ذکر ہے کہ جب پاکستانی پنجاب کے مختلف
شہروں سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے تارکین قصور بارڈر کے راستے ملک
چھوڑ رہے تھے ۔
قصور شہر کے ریلوے اسٹیشن پر تارکین سے کھچا کھچ بھری تین ٹرینوں کو روک کر
مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ ١٩٦٥ء کی جنگ میں فتح ہونے واالبھارتی قصبہ
کھیم کرن ہندسے قبل قصور کے مضافاتی قصبات میں شمارہوتاتھا۔
3
ریڈیو پر کھیم کرن فتح ہونے کی خبر نشر ہوئی تو تقسیم کے وقت کھیم کرن سے ہجرت
کرکے قصور آباد ہونے والے خاندان پیدل ،سائیکلوں او رگھوڑوں پر بیٹھے جوق درجوق
اس قصبے میں واقع اپنے پرانے گھروں کو پہنچ گئے۔ مفتوحہ شہر کھیم کرن کے مکا ن
خالی پڑے تھے۔لوگوں نے اپنے سابقہ گھروں سے بچ رہے
سامان ،کواڑ،شہتیر،یہاں& تک کہ اینٹیں ،اپنے آبائی گھروں کی یاد گار کے طورپر ساتھ
لیں اور قصور میں واقع اپنے نئے گھروں میں سجادیں۔کھیم کرن سے قصور آئے ان
گھرانوں کے لیے جنگ ستمبر١٩٦٥ء میں ہاتھ آنے واال سب سے قیمتی سرمایہ یہی ہے
جو آج بھی ان کے گھروں میں محفوظ ہے۔ ١٩٧٦ء میں قصور کو ضلع کادرجہ دیاگیا
اور شہر قصور اس کاانتظامی مرکز قرار پایا۔ضلعی مرکز بننے کے بعد شہر میں ضلعی
حکومتی دفاتر کے قیام اور نئی تعمیرات کے بننے سے شہر کی ظاہری صورت میں
صفائی آنے کی ایک امید قائم ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی افسروں کی گنی چنی گزر
گاہوں کے عالوہ شہرکی شاہراہیں اور گلیاں دھول اور کیچڑ ہوامیں اچھالتی رہیں۔
نصف دہائی قبل قصور میں تعمیراتی ترقی کی ایک جھلک واضح دیکھنے میں آئی ہے ۔
تین سال قبل قصور کو الہور سے مالنے والی جرنیلی سڑک ،فیروز پور روڈ کے حالیہ
کشادہ تر اور دورویہ سڑک میں تبدیل ہونے سے قصور کاصوبائی و ضلعی دارالحکومت
الہور سے فاصلہ نہایت سکڑ گیاہے۔
ساتھ ہی شہر کی بیشتر نقل وحرکت اور تجارتی اہمیت کی حامل شاہراہوں کی حالت میں
بھی بہتری آنے سے یہاں کی صنعت اور روزمزہ سرگرمیاں بہتر معیشت کی جانب نظر
آتی ہیں۔
قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع عالقہ کوٹ مراد خاں رقص وموسیقی
کے حوالے سے قصور کی شناخت رہاہے۔ افغان عہد میں کالسیکی گائیکوں کاایک قبیلہ،
جس کاسردار مراد خان تھا ،اس جگہ آباد ہواتھا.
اس عالقے نے برصغیر پاک وہند کی موسیقی میں استادغالم حیدر خاں ،استاد بڑے غالم
علی خاں،استاد چھوٹے غالم علی خاں،ظہور بخش قصوری ،ملکہ ترنم نور جہاں،ظل
ہما ،عذرا جہاں اور ایسے التعداد ناموں کااضافہ کیا۔
قصور کی روایتی صنعتوں میں چمڑے کے جوتے شہر کی خاص پہچان ہیں۔
لوک ادب وموسیقی میں بھی'جتی قصوری'' کاحوالہ نفاست اور وقار کی عالمت کے طور
پر آتاہے۔یہاں کے جوالئے(انصاری)& ایک صدیوںپرانی روایت کے وارث ہیں ۔
ان سب پرانی صنعتوں میں سے جو صنعتیں جدیدانڈسٹری کے ساتھ مطابقت پیدا کر
پائیں،باقی رہیں۔ باقی تمام صنعتیں آہستہ آہستہ معدوم ہوچکی ہیں یامعدوی کے دہانے پر
4
ہیں۔ قصور کاتاریخی ریلوے اسٹیشن جہاں تقسیم کے وقت سرحد پار کرتے ہوئے سکھ اور
ہندوتارکین کی تین ٹرینیں روک کر مسافروں کاقتل عام کیاگیا۔
کھانے پینے کے حوالے سے قصوریوں کی حس ذائقہ نہایت قابل رشک ہے ۔ملک بھر میں
قصور ی فالودہ کیایک جداگانہ شناخت ہونے کے ساتھ ساتھ قصوری اندرسا،بھلے
پکوڑیاں ،اوجڑی اور ناشتے میں دہی قلچہ نہایت مرغوب سمجھے جاتے ہیں۔ قصور کے
روایتی گھرانوں میں شام کا کھانا گھر پر پکانے کارواج بہت کم ہے۔
کپاس اور مر چ کی کاشت یہاں نواحات کی روایتی فصلیں ہیں لیکن گزشتہ تین سے چار
دہائیوں میںآلو ،اروی ،میتھی،ہلدی اور مکئی کی کاشت کے رجحان میں اضافہ ہواہے۔
ملنساری ،زندہ دلی اور محنت یہاں کے لوگوں کے امتیازی اوصاف ہیں۔
دوسری طرف قصور چونکہ صدیوںسے مختلف طاقتوں کی کشمکش ،حویلیوں اور قلعوں
میں محالتی سازشوں کا گڑھ رہاہے۔اسی وجہ سے روایتی اذہان کے زبانی حوالوں میں
مکر ،سیاست اور دورویہ روش کے منفی خواص بھی متوازی طور پر قصور کے لوگوں
سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ثقافتی طور پر اگر یہ قصور الہور سے بہت مشابہت
رکھتاہے۔
تاہم قصور کی بسنت ایک مدت تک الہور میں منائے جانے والے بسنت کے تہوار کے
برابر اور بعض حاالت میں اس سے بھی زیادہ والہانہ طورپر منائی جاتی رہی ہے۔
قصور ریلوے اسٹیشن کے جنوب مغرب میں واقع عالقہ کوٹ مراد خان رقص وموسیقی
کے حوالے سے قصو ر کی شناخت رہاہے ۔افغان عہد میں کالسیکی گائیکوں کاایک قبیلہ،
جس کاسردار مراد خان تھا ،اس جگہ آباد ہواتھا۔
اس عالقے نے برصغیرپاک وہند کی موسیقی میں استاد غالم حیدر خاں،استاد بڑے غالم
علی خاں ،استادچھوٹے غالم علی خاں ،ظہور بخش قصوری ،ملکہ ترنم نورجہاں ،ظل
ہما ،عذرا جہاں اور ایسے التعداد ناموں کااضافہ کیا۔
جب کہ کالسیکی رقص میں استاد فلو سے خاں جیسے لوگ یہاں پیداہوئے۔ سخن پروری
کے حوالوں میں یہ بابا بلھے شاہ کاشہر کے نام سے جاناجاتاہے۔ وارث شاہ نے بھی اپنی
ابتدائی فنی زندگی اسی شہر میں گزاری تھی۔ وارث شاہ کے استاد ومرشد مخدوم قصور
سے تعلق رکھتے تھے ۔
اندرون شہر کے موری دروازے کی جامع مسجد میں دو حجرے موجود ہیں جن کے بارے
میں کہاجاتاہے کہ ان میں سے ایک حجرے میں بابا بلّھے شاہ مقیم رہے ،جب کہ
دوسراایک عرصہ تک وارث شاہ کی قیام گاہ رہا۔
5
ادب کی ان عظیم روایتوں کے تسلسل میںپنجابی زبان کی معاصر شاعری میں بھی قصور
نے التعداد عظیم نام پیداکیے۔پنجاب کی فلم انڈسٹری اللی وڈ کے قیام کے وقت سے ہی
قصور کے فنکاروں کااس میں ایک گرانقدر حصہ رہاہے
ایو ب خان کے عہد صدارت میں معروف فلم''جال'' کی پاکستا ن میںنمائش پر جوتنازعہ
کھڑاہوا ۔اس کے روح رواں قصور کے معروف فلم سٹار یوسف خان تھے۔ ان مظاہروں کو
''جال ایجی ٹیشن''کے نام سے بھی یاد کیاجاتاہے۔اس ایجی ٹیشن کامقصد پاکستانی فلمی
صنعت کی بقا اور خودانحصاری کے لیے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی
کے لیے جدوجہد کرناتھا۔
اسی تنازعے میں فلمی صنعت مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور بڑی تعداد میں فنکاروں
اور فلم بینوں کوزدوکوب کیاگیا۔
اس شہر نے ترقی ،تمد ن اور تہذیب کے مراحل کی کم وبیش سبھی ناہمواریوں کاتجربہ
کیاہے۔ اس لیے قصور اپنے آغوش میںایک بڑے شہرکی رنگارنگی& اور چھوٹے
شہروںوالی سادگی اور روایتی پسندی ،ہردوذائقے نہایت حسین توازن کے ساتھ لیے ہوئے
ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی سیاسی،معاشی اور ثقافتی تاریخ کے حوالوں یا عصری احوال
میں سے قصور کو منہا کرکے ایک مکمل رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ ()٢
6
دوسری فصل
قصور میں علم سیرت کی آمد
قصور برصغیر کاایک شہر تھا ۔پہلے برصغیر میں علم سیرت پر کچھ عرض کرتے
ہیں:
حضرت آدم علیہ السالم جنت سے دنیا کی طرف بھیجے گئے تو وہ سرزمین برصغیر پاک
وہند کے جنوبی عالقہ سری لنکا میں اتارے گئے۔()٣
حضرت حوا سعودی عرب کے شہر جدہ میں اتاری گئیں ۔ان دونوں کی مالقات جدہ میں
ہوئی۔عرب اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی یہ پہلی مالقات تھی
موالناابوالکالم آزاد فرماتے ہیںحجراسود کانزول بھی آدم علیہ السالم کے ساتھ ہوا اور یہ
پتھر سری لنکا اور جنوبی ہندوستان سے ہوتاہوابیت ہللا(خانہ کعبہ) تک پہنچا۔
حضرت آدم علیہ السالم کے ساتھ جو جنت کے پودوں کے پتے تھے ان کی وجہ سے اس
سرزمین پر خوب سرسبزی ہوئی ۔یہاں سے یہی پھل،مصالحہ جات عرب جاتے تھے اور
وہاں سے پوری دنیامیں بھیجے جاتے تھے۔
ہندوستان کی پیداوار اور دوسری چیزوں کی ضرورت اہل یورپ اور اہل مصر کو ہمیشہ
سے رہی ہے۔ یہ مال عرب تاجروں کے ذریعے ہندوستان کی بندرگاہوں سے یمن اور وہاں
سے شام اور پوری دنیامیں جاتاہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ عرب اور ہندوپاک کے تعلقات آدم علیہ السالم کے زمین میں
بسانے سے ہی موجودہیں۔
جب رسول ا کرم حضرت محمدصلی ہللا علیہ وسلم سلسلہ رسالت ونبوت کے آخری
رسول ونبی بن کر تشریف الئے تو اہل ہندوستان کو یہ خبراسی وقت پہنچ گئی تھی۔
عرب تاجروں کے ذریعے اسالم ہندوستان میں پہنچ چکا تھا کیونکہ تجارتی قافلے ماال
بار،لنکا،مالدیپ ،انڈونیشیا اور چین کے عالقوں تک پہنچے تھے۔ معجزہ شق القمر سے
متاثر ہوکر ماال بار کر راجا موڑانے اسالم قبول کر لیا۔
اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے دور میں لنکا کے راجا نے بھی اسالم
قبول کر لیا۔()٤
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہ کو غزوۃ ہندمیں شرکت
کرنے کی ترغیب دالئی تھی اور انھیں بشارتوں سے نوازاتھا۔ امام نسائی نے سنن نسائی
میں اس کے بارے میں تین احادیث بیان کی ہیں۔
7
ان میں سے دو احادیث کے راوی حضرت ابوہریرہ& رضی ہللا عنہ ہیں اور تیسری حدیث
کے حضرت ثوبان رضی ہللا عنہ ہیں۔
آپ صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی ان بشارتوں کی روشنی میں خلفائے راشدین کے زمانہ
میں ہی ہندوستان میں اسالم کی کرنیں پھیلنا شروع ہوئیں۔
حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے دور میں مغربی ہندوستان بمبئی اور گانا میں مسلمانوں
کی آبادیاں وجود میںآچکی تھیں ۔ان میں سے اکثر تابعین تھے۔
برصغیر میں علم سیرت کاابتدائی دور:
١۔ ہندوستان میں صحابہ ،تابعین اور تبع تابعین کی آمد
حضر عمر رضی ہللا عنہ کے زمانہ خالفت سے لے کر عباسی حکومت کے زوال تک
بالخصوص ہندوسان میں شمالی حصے میں متعدد صحابی،تابعین اور تبع تابعین تشریف
الئے جو صحابہ کرام یہا ں آئے ،ان کی تعداد ٢٥ہے۔
١٢صحابہ کرام عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ کے عہد خالفت میں ٥،حضرت عثمان غنی
رضی ہللا عنہ کے زمانہ میں ٣،حضرت علی رضی ہللا عنہ کے عہد میں ٤،معاویہ بن ابو
سفیان رضی ہللا عنہ کے خالفت میں اور یزید بن معاویہ کے عہد میں یہاں آئے۔()٧
ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
بڑی تعداد میں تابعین و تبع تابعین نے بھی ہندوستان کار خ کیا ،جن کاشب وروز
کامشغلہ ہی دین کی اشاعت اور دلوں کو فتح کرناتھا۔
اعلی اقدار سے بہرہ مند کرنے کی سعی کرتے تھے۔بالد ٰ یہ باشندگان ہند کو شائستگی کی
عرب سے ہندوستان تشریف النے والے تابعین کی تعداد تقریبا ً ٤٢بیان کی جاتی ہے ۔
سعید بن ہشام بن عامر انصاری ،مہلب بن ابی صفرہ ،موسی بن یعقوب ثقفی ،یزید بن ابی
کتبہ السکسکی ،المفصل بن المہلب بن ابی صفرہ ،عمرو بن مسلم الباہلی وغیرہ کاہندوستان
آناثابت ہے۔
انھوں نے اپنے اخالق وکردار اور علمی خوبیوں سے ہندوستان کو فیض پہنچایا اور یہاں
کے باشندوں کے اندر جوش ایمانی پیداکرکے انھیں کفر والحاد سے نکال کر راہ ایمانی پر
الکھڑا کیا۔()٩
خالفت راشدہ سے لے کر فتح سندھ تک کے ان مجاہدین اور علما کبار کی دینی وعلمی
سرگرمیوں اور ان کے ثرات کاجائزہ لیتے ہوئے موالنا عزیز لکھتے ہیں:
'' خالفت راشدہ اور اموی دور حکومت میں اقلیم ہند پر جن عسکری کوششوں کی
ابتداہوئی تھی ۔وہ اگرچہ بہت منظم اور وسیع پیمانہ پرنہ تھیں،مگر ان کاسلسلہ برابر جاری
رہا۔
8
محمدبن قاسم رحمۃ ہللا کے ساتھ جو تابعین سندھ کی مہم پر آئے ان میں ایک ابوشیبہ
یوسف بن ابراہیم التمیمی الجوہری تھے۔ یہ نہ صرف جنگی معرکوں میں شریک ہوئے
بلکہ تعلیم وتدریس کا کام بھی جاری کیے ہوئے تھے۔
دوسرے تابعی زیاد بن الحواری ،العبدی تھے۔ ان کاشمار جلیل القدر تابعی کے ساتھ بڑے
محدثین میں ہوتاتھا۔ ایک تابعی زائدہ عمر الطائی الکونی تھے جن کے ذمہ''ملتان'' کے
نومسلموں کو اسالمی احکام کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
محمدبن قاسم کے دوش بہ دوش جہاد میں شرکت کاشرف ابوقیس زیاد بن رباح القیشی
بصری کو بھی حاصل تھا۔انھوں نے ابوہریرہ وغیرہ سے علم حدیث حاصل کیاتھا اور حسن
بصری وغیرہ نے آپ سے حدیث کی روایت کی ہے۔
سلیمان بن عبدالمالک کے عہد میں یزیدبن ابی کبشہ الشامی ،سندھ کے والی خراج بن
کر آئے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔١٨٠
ھ ولید بن عبدالمالک کے زمانہ خالفت میں سعید بن اسلم بن ذرع الکالبی یہاں کے گورنر
بن کر آئے۔درس حدیث ہی ان کاا ّولین مقصد تھا۔ اسی طرح ایک تابعی اسیدبن اخنس بن
شریک الثقفی تھے۔
عبدالمالک بن مروان کے زمانہ حکومت میں یہاں والی مقرر ہوکر آئے۔انھوں نے بھی یہاں
اشاعت علم کی طرف بڑی توجہ دی۔()١٠
٢۔ عالم اسالم کے علما و سیرت نگاروںکاہندوستان میں قیام:
حضرت امام حسن بصری(٢١۔١١٠/٧٢٨ئ)کے دو کبار شاگردوں کاہندوستان سے بڑاگہرا
تعلق رہا۔
ان کے واسطے سے امام بصری کے فیوض وبرکات ہندوستان میں عام ہوئے۔ ان میں سے
ایک حضرت امام ابوحفص ربیع بن صبیح بصری ہیں۔ وہ یہیں ١٦٠ھ٧٧٦/ء میں فوت
ہوئے۔
یہ گجرات میں جہاد کے لیے لیے آئے تھے،جس کی قیادت عبدالملک سمعی کر رہے تھے۔
پھر انھوں نے یہیں اختیار کیا اور درس وتدریس کاشغل جاری کیا۔
آپ علم حدیث کے ان ممتاز لوگوں میں ہیں جنھیں دوسری صدی میں جمع وتدوین حدیث
کاشرف حاصل ہے۔()١١
موسی بصری(م١٥٥ھ٧٧١/ئ) ہیں۔انھوں نے ایک ٰ موسی اسرائیل بن
ٰ دوسرے امام ابو
عرصے تک ہندوستان میں علم حدیث کادرس دیا اور یہیں سکونت اختیار کی۔()١٢
9
٣۔ کتب ستہ میں ہندوستانی سیرت نگاروں کی مرویات:
امام بخاری ؒ( ١٩٤۔٢٥٦ھ٨١٠/۔٨٦٩ئ) نے اپنی الجامع میںمذکورہ دونوںحضرات سے
احادیث نقل کی ہیں۔
صحاح کے عالوہ حدیث کے دوسرے مجموعوں میںبھی ان کے طرق سے حدیثیں ملتی ہیں
ثانی الذکر سے مروی حدیث بخاری ،کتاب الصلح ،کتاب مناقب الحسن و الحسین اور
کتاب الفتن کے عالوہ ترمذی ،ابوداؤد اور سنن نسائی میں ملتی ہے ۔
٤۔ ضلع قصور میں علم سیرت نگاری :
وہ عظیم سیرت نگار جنھوں نے قصور میں علم سیرت عام کیا۔
حکیم سید عبدالحی حسنی(متوفی ١٣٤١ئ) فرماتے ہیں:
٩ جمادی االولی ١٢٤٨ء اپنے ننھیال بانس بریلی میں پیداہوئے۔ تعلیم کاآغاز اپنے برادر
اکبر موالنا حسیداحمدحسن عرشی(متوفی ١٢٧٧ھ١٨٦٠/ئ) سے کیا .
اس کے بعد فرخ آباد اور کان پور تشریف لے گئے اور دونوں شہروں کے اساتذہ سے
مختلف علوم میں استفادہ حاصل کیا۔١٢٦٩ھ میں دہلی تشریف الئے اور صدر االفاضل مفتی
صدر الدین آزردہ (متوفی ١٢٨٥ھ١٨٦٨/ئ) کی خدمت میں ایک سال ٨ماہ رہ کر علوم
عقلیہ ونقلیہ میںاکتساب فیض کیا۔
عالوہ ازیں ان کے شیخ زید العابدین انصاری،شیخ عبدالحق بنارسی تلمیذ امام سوکانی،شیخ
یحیی بن محمد اکاذی ،عالمہ سیدنعمان خیرالدین آلوسی(مفتی بغداد) عالمہ شیخ حسین بن ٰ
محسن انصاری اور موالناشاہ محمد یعقوب بن موالناشیخ محمدافضل فاروقی سے حدیث
میں سندواجازت حاصل کی۔
٢١ سال کی عمر میں علوم متداولہ سے فراغت حاصل کرکے دہلی سے اپنے وطن
قنوج تشریف لے گئے اور قنوج میں کچھ عرصہ قیام کے بعد بسلسلہ تالش معاش ریاست
بھوپال چلے گئے ۔
بھوپال کے آپ نے تین سفر کیے اور آخر ان کانکاح نوا ب شاہجہان بیگم سے ہوا جو بیوہ
ہوچکی تھیں۔انھوںنے نواب صاحب کی دیانت و قابلیت دیکھ کر شریک امور سلطنت
اعلی مراتب پر فائز ہوئے۔
ٰ بنایاجس کی وجہ سے آپ دین ودنیا کے
قنوجی کی دینی خدمات:
ؒ موالنا سیدنوا ب صدیق حسن
شریک امور سلطنت ہونے کے بعد حضرت نواب صاحب نے دین اسالم کی خدمت میں
وہ حصہ لیا جس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے ۔
دوسرے الفاظ میںنہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ قلب انسانی پر اس کاوہم
گزرا۔
10
خدمت قرآن وحدیث میں نواب صاحب نے زر کثیر صرف کرکے تفسیر وحدیث کی
ضخیم کتابیں چھپوا کر علمائے کرا م میں مفت تقسیم کیں۔
نیل االوطار،تفسیر ابن کثیر اور فتح الباری شرح صحیح البخاری ،یہ تینوں کتابیں نیل
اوطار ٢٥:ہزار روپے ،تفسیر ابن کثیر ٢٠:ہزا ر روپے ،فتح الباری کانسخہ ٦سو روپے
میں مصر سے خریدا اور ہزاروں کی تعدادمیں یہ تینوں کتابیں چھپوا کر علمامیں مفت
تقسیم کیں.
ہندوستان میں فتح الباری سب سے پہلے جماعت اہلحدیث کے جلیل القدر عالم دین ،محی
السنۃ موالناسیدنواب صدیق حسن خاں قنوجی رئیس بھوپال کی وافرانہ ضیافتوں کے طفیل
پہنچی۔
تصانیف:
قنوجی صاحبکاشمار صاحب تصانیف کثیرہ میں ہوتاہے ۔ ؒ موالنا سیدنوا ب صدیق حسن
آ پ نے مختلف موضوعات پر عربی،فارسی اور اردو میں ٢٢٢کتابیں تالیف فرمائیں۔
تفصیل درج ذیل ہے:
کثیر تعدادمیں ان موضوعات پر کتابیں لکھیں:
’’عربی،فارسی ،اردو ،میزان ،تفسیر،حدیث ،عقائد ،فقہ ،تردید ،تقلید ،سیاست ،التاریخ
وسیر ،مناقب ،علوم وادب ،اخالق ،تردید ،شیعت ،تصوف‘‘ ۔()١٦
سیرت کی چند مشہور تصانیف:
قنوجی صاحب نے سیرت اورمتعلقات سیرت پر( )٣٣چھوٹی بڑی ؒ سیدنوا ب صدیق حسن
کتابیں عربی،فارسی اور اردو میں تالیف فرمائیں۔
وفات:
قنوجی صاحب نے ٢٩جمادی الثانی ١٣٠٧ھ مطابق ١٧ ؒ موالنا سیدنوا ب صدیق حسن
فروری١٨٩٠ء کو ٥٩سال کی عمر میں بھوپال میں وفات پائی۔()١٧
٢۔ شیخ الکل حضرت موالنا مولوی سیدمحمدنذیر حسین صاحب رحمۃ ہللا
شمس العلما موالنا سید محمد نذیرحسین عرف حضرت میاں صاحب رحمۃ ہللا پھاٹک
حبش خاں گلی سرس والی متصل مکان جناب مولوی حفیظ ہللا خاں صاحب
مشہور واعظ دہلوی رحمۃ ہللا جس میں اب مولوی سیدمحمد ابوالحسن صاحب رحمۃ ہللا
نبیرہ حضرت میاں صاحب کے نام نامی سے منسوب ہے ۔
آپ کرایہ کے مکان میں ہمیشہ تاحیات رہے۔ذاتی مکان آپ کا کوئی نہ تھا ۔اسی مکان کے
بالئی منزل پر ایک کوٹھڑی تھی اور اس کے آگے چھپر کا سائبان تھا اور اس کوٹھڑی
11
کے اندر ایک پلنگ پرآرام فرمانا تھا اور اسی پلنگ کے برابر میں ایک جائے نماز بچھی
رہتی تھی اور چاروں طرف کتابیں رکھی رہتی تھیں
آپ کانام نامی آفتاب کی طرح اب بھی روشن ہے اور حضرت موالناشاہ محمداسحاق
صاحب نواسہ حضرت شاہ موالناعبدالعزیز محدث دہلوی سے سند حدیث نبوی صلی ہللا
علیہ وسلم اور بیعت مسنونہ کی اجازت حاصل فرمائی ۔
جس کاشجرہ بیعت مطبوعہ روائداد چہار سالہ کتب خانہ نذیریہ عامہ ص ١٤بابت جنوری
١٩٣٤ء لغایۃ ستمبر١٩٣٧ء پر مرقوم ہے۔تقریبا ً اسی سال درس وتدریس کی خدمات انجام
فرمائی۔ صدہاطلبہ وعلما فیض یاب ہوئے۔
جناب مولو ی بشیر الدین صاب مرحوم و مغفور خلف الرشید شمس العلما حضرت موالنا
مولوی حافظ محمد نذیراحمد صاحب(ج ٢ص )٢٥٧اور حسرت العالم بوفاۃ محدث العالم
باہتمام مولوی سیدمحمدعبدالرؤف صاحب نے طبع
جونواسے حضرت موالنا سید محمدشریف حسین صاحب ابن موالناشیخ الکل حضرت میاں
صاحب رحمۃ ہللا علیہ اور مختصر حاالت روئداد چہار سالہ بابت ماہ جنوری ١٩٣٢ء لغایہ
ستمبر١٩٣٧ء ص ٣:پر درج ہیں۔
حضرات شائقین دارالمطالعہ نذیرعامہ مں مالحظہ فرماسکتے ہیں۔ مولفہ :عاجز سید
محمدعبدالرؤف۔()١٨
برصغیر میں جہاں بھی کتاب وسنت کامنہج نظر آرہاہے۔ اس کے پیچھے میاں صاحب
کے شاگردوں کی محنت کارفرما ہے۔ہزاروں کی تعداد میں میاں صاحب نے شاگردتیار
کیے۔
میاں نذیر حسین محدث دہلی رحمہ ہللا تاریخ اسالم کاایک سنہرا باب ہیں۔جنھوںنے غربت
میں تین مرلہ زمین پر مشتمل مسجدمیں بیٹھ کر محدثین،محققین،مناظرین اور مدرسین کی
ایسی کھیپ تیار کی جن کی محنت سے قیامت تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہےں گے ۔
آخر وہ کیامنہج تھا جس پر چل کر میاں صاحب نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دا۔اس پر
تفصیل جاننے کے لیے راقم کے مفصل مضمون(محدثین ،محققین ،مناظرین اور مدرسین
تیار کرنے میں میاں صاحب کاطریقہ کار)کامطالعہ کریں۔
شاہ محمداسحاق کے شاگردوں کاسلسلہ بہت وسیع ہے جس کے گہرے اثرات موجودہ
ہندوستان اور پاکستان میں علم سیرت کے فروغ واشاعت سلسلہ ہائے تدریس کی صورت
میں موجود ہے جس کی تفصیل ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہے ۔
12
تاہم ان میںاہم حضرات میاں سیدنذیر حسین دہلوی ،ان کے شاگرد عالمہ وحید الزماں(مترجم
کتب حدیث) ،عالمہ شمس الحق عظیم آبادی ،انھوں نے ابوداؤد کی مفصل شرح عربی میں
غایۃ المقصود کے نام سے لکھی اور خودہی اس کااختصار عون المعبود کے نام سے کیا۔
ان کے شاگرد عزیز عالمہ عبدالرحمن مبارکپوری نے ترمذی کی شرح بنام''تحفۃ االخودی
''لکھی ۔
اسی طرح موالنا عبدالحی لکھنوی نے علم سیرت میں وسیع ذخیرہ چھوڑا جس میں التعلیق
الممجد علی موطا محمد الرفع والتکمیل فی الجرح والتکمیل ظفراالمانی فی شرح المختصر
المنسوب للجرجانی فی المصطلح اآلثار المرفوعۃ فی االخبار الموضوعۃ النافع الکبیر لمن
یطالع الجامع الصغیر شامل ہیں۔
قصور میں علم سیرت کے مراکز&:
قصور ایسی جگہ واقع ہے کہ اس کے اردگرد علم سیرت کے بہت بڑے بڑے مراکز
پائے جاتے ہیں مثالً جنوب میں فیروز پور،لکھوکے ،دہلی،مشرق میں امرتسر،شمال
میںالہور اورمغرب میںاوکاڑہ۔
قصور کاپہال شخص جس نے علم سیرت کی خاطر سفر کیاپھر قصور میںآکرعلم سیرت
کو عام کیا۔ یہ تعین کرنا نہایت مشکل ہے۔ عمومی طور پر جن قدیم علمائے کرام نے
قصور میںعلم حدیث کوعام کیا۔ مختلف عالقوں میںمختلف علمائے کرام کی محنت نظر آتی
ہے۔ اس تفصیل کی روداد پیش خدمت ہے۔
١۔ حلقہ قصور:
پارٹیشن سے تقریبا ً سوسال پہلے حسین خانواال کے علمائے کرام نے دہلی اور لکھو
کے مراکز دینیہ سے علم سرت کو حاصل کیاپھر قصور کی ہرطرف علم سیرت کوعام کیا۔
حسین خانواالکے علمائے کرام میں بعض کاتذکرہ آگے مسلسل آرہاہے مثالً موالنافضل
حق،موالنا عالؤ الدین رحمھماہللا۔
سٹی قصور میں موالنا عبدالقادر قصوری رحمہ ہللا اور ان کے خاندان کے علمائے کرام
کی خدمات ہیں ۔تفصیل کے لیے قصوری خاندان کا مطالعہ کیاجائے۔
نیز ان کے بعد درج ذیل علمائے کرام کے نام سامنے آتے ہیں۔
موالنا محی الدین لکھوی ،موالناعبدالقادر قصوری ،موالنا صوفی ولی محمدفتوحی وال،
موالنامحمد حیات قصوری،موالنا عبدالقدوس گوڑگانوی ،موالنامحمد داؤد ارشد کوٹلوی،
موالنا محمد عبدہللا حسینوی ،موالنامحمد عبدالرحیم رحمانی حسینوی ،موالنا محمدعبدہللا
کچہ پکہ ،سیدسعید احمدمشہدی بھمبہ کالں۔
13
٢۔ حلقہ چونیاں:
اس حلقے میں روپڑی علمائے کرام تشریف الئے تھے مثالً عبدہللا محدث روپڑی
رحمۃہللا اور ان کے خاندان نے بھوئے اصل میں اقامت کی ۔اسی طرح حافظ محمد سلیمان
بھوجیانی کی خدمات بہت ہیں۔نیز اس عالقے میں درج ذیل علمائے کرام کے نام آتے ہیں۔
موالنا عبدالواحد روپڑی ،موالنا محمد کنگن پوری(یہ مبارکپور کے محدثین سے فیض
یافتہ تھے مثالً عبدالرحمن مبارکپوری اورعبیدہللا مبارکپوری رحمہم ) اصوفی دین محمد
گہلن ہٹھاڑ ،موالنامحمد جمشیری ،موالنامحمد امین گہلن ہٹھاڑ ،موالنا ولی ہللا بھاگیوال،
حافظ عبدالرحمن فتح محمد کالں ،موالناامام دین بن غالم محمد ،میاں سراج دین آکی کے،
موالنا ابوداؤد عبدہللا بابر خانوی ،موالنا عبدہللا بابر خانوی ،حاجی شیخ شمس الدین
شامکوٹی میاںفتح دین چھانگامانگا ،مولنا ثنائی ہللا بقاپوری ،حافظ نورمحمد میواتی۔
خواجہ غالم محی الدین قصوری ١٢٧٠،ھ
حضرت خواجہ غالم محی الدین قصوری نقشبندی مجددی رحمۃ ہللا علیہ (وفات
١٢٧٠ھ) ،جن کالقب دائم الحضوری ہے۔وہ اپنے آقا وموال آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم
سے اس طرح فریاد کرتے ہیں:
گناہ گار سیا ہ کار شفاعت یارسول ہللا
خراب وخستہ وخوارم شفاعت یارسول ہللا
ترا ثانی نہ شد پیدانہ در دنیانہ در عقبی
توئی در گراں یکتا شفاعت یارسول ہللا
شھا بیکس نوازی کن طبیبا چارہ سازی کن
دوائے درد عصیانم شفاعت یارسول ہللا
قصوری را حضوری کن دوائے درد دوری کن
دلم تاریک نوری کن شفاعت یارسول ہللا
یہ اشعار اس بات پر دلیل ہیں کہ خواجہ صاحب رحمۃہللا کس طرح نبی کریم صلی ہللا
علیہ وسلم کی سیر ت میں
وبے ہوئے تھے۔ ان کی کاوشوں سے قصور میں قرآن وسنت پھر فقہ حنفی کوترویج ملی۔
14
ب اب دوم
سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کے ماخذ اور مؤلفین کاتعارف
فصل اول :
کتب سیرت کے ماخذ
فصل دوم:
مؤلفین کاتعارف
فصل اول:
سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کے ماخذ:
سیرت کا مفہوم (پس منظر)
اردو میںلفظ ''سیرت'' کااستعمال عام طور پر انسان کے چال چلن اور عادات واطوار کے
معانی میں ہوتاہے لیکن لغت کے ماہرین نے اس کے معنی الگ الگ بیان کیے ہیں۔
اردودائرہ معارف اسالمیہ کے مطابق سیرت کے معنی طریقہ ،راستہ ،روش اور کل
وصورت کے ہیں۔ڈاکٹر حمیدہللا نے جو فن سیرت میںاہم مقام رکھتے ہیں۔سیرت کے معنی
طرز ِعماًل اور برتاؤ کے بیان کیے یں۔
مؤلف لسان العرب نے سیرت کے معنی اچھے چال چلن کے لکھے ہیں۔ ''تاج العروس'' میں
سیرت کے معنی طریقہ اوربرتاؤ کے درج ہیں۔ سیرت کالفظ سوانح حیات کے لیے بھی
استعمال کیاجاتاہے۔( )٢قرآن مجید میں لفظ''سیرت' ہیئت وحال(طہ )٢١اور ''گھوم پھر کر
غور وفکر کرنے '' کے معنی میں استعمال کیاگیاہے۔(النحل )٣٦دراصل سیرت کااصل
مادہ ''سیر''ہے ،جس کے معنی چال کے ہیں۔اسی لیے ہماری زبان میںاچھے چال چلن
کوحسن سیرت کہاجاتاہے۔ معلوم ہواکہ سیرت کالفظ چال چلن،روش ،طریقہ ،برتاؤ ،شکل
وصورت ،ہیئت ،کرار،طرز زندگی اورعادات واخالق کےلیے بوالجاتا ہے۔اصطالحی
اعتبار سے سیرت کے یہ تمام معنی اور مفہوم صرف پیغمبر خداحضرت محمد کے لیے
مخصو ص اور محدود ہیں۔
سیرۃالنعمان'' (عالمہ شبلی نعمانی) ''،سیرت سید احمدشہید''( موالنا سیدابوالحسن ندوی)''''،
سیر ت شبلی ''(اقبال سہیل) ''،سیرت محمدعلی'' (رئیس احمدجعفری) ''،سیرت
اقبال''(محمدطاہر فاروقی) ہیں۔ تاہم آج کسی مضاف الیہ کے بغیرلفظ'' سیرت'' بوالجاتاہے
تو اس سے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت ہی مرادہوتی ہے۔''()٨
مندرجہ باالبحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ لفظ سیر ت کااطالق معروف معنی
میںحضوراکرم ؐ کی سیرت طیبہ پرہی ہوتاہے۔البتہ استشنائی صورت میںغیر نبی کے حاالت
15
زندگی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیاگیا ہے ۔ہمارے ادب میںغیر نبی کی شخصی سیرتوں
کے لیے سوانح عمر ی کالفظ لکھاجاتاہے۔
قرآن سیرت نبویہ کا پہال مستندماخذ ہے ۔مستندسیرت نگاروں نے اس کے لیے بنیادی
مآخذ قرآن ہی کوقرار دیاہے اور سیرت کو قرآن کی نزولی ترتیب اور شان نزول کے
نبوی قراردیاہے اور
ؐ آئینے میں دیکھاہے بعض علما نے پورے قرآن کو نعت اور مدح
محمد۔
ؐ کہاہے کہ بد قرآن در شان
نبویہ کے مراحل ومنازل اور حاالت وواقعات اور منزل بہ منزل ؐ یہ حقیت ہے کہ سیرت
قرآن مجید نازل ہوتارہا اور صاحب سیرت اور امت کی رہنمائی کرتارہا یوں تو سیرت کے
ذخیر میں اس نوع کی کچھ کتابیں ملتی ہیں ،لیکن ماضی قریب میں امام اہل سنت حضرت
موالنا عبدالشکور لکھنوی اور حضرت موالناعبدالماجد دریابادی نے قرآنی سیرت نبویہ پر
بہت اچھا کام کیاہے۔()٩
موالناابوالکالم آزاد نے اپنی ''رسول رحمت'' میں لکھاہے ۔''قرآن دنیا کی واحد کتاب ہ
جو ہر سوال کاجواب دیتی ہے کہ اس کاال نے واالکون تھا؟ کیسے زمانے میں آیا؟ کس
ملک میں پیدا ہوا؟ اس کے خوش ویگانہ کیسے تھے؟ قوم و مرزبوم کاکیاحال تھا؟ اس نے
کیسی زند گی بسر کی۔اس نے دنیاکے ساتھ کیا کیا اور دنیا نے اس کے ساتھ کیاکیا؟ اس کی
باہر کی زندگی کیسی تھی اور گھر کی معاشرت کاکیا حال تھا؟ اس کے دن کیسے بسر
ہوئے تھے اورراتیں کن کاموں میں کٹتی تھیں؟ اس نے کتنی عمر پائی؟ کون کون سے اہم
واقعات اور حوادث پیش آئے؟ پھر جب دنیا سے جانے کاوقت آیا تودنیااور دنیاوالوں کو
کس عالم میںچھوڑگیا؟ اس دنیاپرجب پہلی نظر ڈالی تھی تودنیا کیاحال تھا؟اور جب وائس
نظر وداع ڈالی تووہ کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی تھی؟غرض ایک وجود ،مقاصدوجود
اور اعالم صداقت وعظمت کے لیے اس کے وقائع میںجن جن باتوں کی ضرورت ہوسکتی
ہے وہ سب کچھ قرآن ہی کی زبانی دنیامعلوم کر سکتی ہے۔''
سیرت کے ماخذ:
سیرت کے ماخذ درج ذیل ہیں۔
١۔ تفسیر قرآن میں سیرت کے پہلو:
سیرت کاپہالماخذ قرآن ہے۔قرآن کریم کی جوتفاسیر خود رسول خدا اور آپ کے صحابہ
سے منقول ہیں وہ بھی سیرت نبویہ کااصل ماخذہیں۔ احکام قرآنی کوواضح کرنے کا کام
نبی سے بڑھ کر اور کون کر سکتاتھا۔ قرآن میںاہلل تعالی نے آپ ؐ کے بارے میں فرمایا ہے: ؐ
''ہم نے آپ پر ذکر(قرآن) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی تفسیر بیان کریں۔ (۔
لنحل۔ )٤٤تفسیری احادیث میںمختلف آیات اور سورتوں کے نزول کاپس منظر،زمانہ
16
نبوی کے وہ مقام اور مواقعؐ اورموضوع ومباحث پر روشنی ڈالی جاتی ہے تو سیرت
مزیدواضح اور روشن ہوجاتے ہیں۔نیز تفاسیر میں مفسیرین،وحی کی حقیقت،طریقے اور
کیفیات بھی واضح کر دیتے ہیں۔محدثین نے اپنی کتابوں میں تفسیری روایات کویکجاکر
دیاہے ،جیسے اما م بخاری نے کتاب'' تفسیر القرآن'' کے عنوان سے تفسیری روایات
کوجمع کر دیاہے،بعض محدثین نے مستقالً تفسیر لکھ دی ہے اور صحابہ وتابعین سے
منقول تفسیری روایات کو جمع کردیا ہے۔؎١٠
تفسیر قرآن کے دوران رسول اکرم صلی ہللا علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ ِ مفسرین
کے مختلف گوشوں اورمعاصر حاالت پر روشنی ڈالتے ہیں،جس کے بغیر متعلقہ آیات
کوسمجھنا ممکن نہیںہوپاتا۔
( )١تفسیر ابن کثیر :یہ کتب تفاسیر میں سرفہرست ہے۔ یہ حافظ ابن کثیر(م٧٤٧ھ) کی
تصنیف ہے۔
( )٢تفسیر کبیر :دوسری کتاب امام رازی کی تفسیر کبیر ہے۔ اس کااصل نام''مفاتیح
الغیب''ہے۔
( )٣تفسیر ابی السعود :اس تفسیر کاپورانام''ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن
الکریم''ہے۔۔
یہ قاضی ابوالسعود محمدالمادی الحنفی(م٩٥١ھ) کی تصنیف ہے۔
( )٤تفسیر القرطبی :اس کاپورا نام ''الجامع االحکام القرآن''ہے۔ یہ اندلس کے
مشہور اورمحقق عالم عالم ابوعبدہللا محمد بن احمد القرطبی(متوفی ٦٧١ھ) کی
تصنیف ہے۔
اردو زبان کی مشہور ومعروف تفاسیر میں موالنااشرف علی تھانوی کی ''بیان
ابواالعلی مودودی
ٰ القرآن'' ،مفتی محمدشفیع صاحب کی ''َمعارف القرآن'' موالناسید
کی''تفہیم القرآن'' موالنا آزاد کی ''ترجمان القرآن'' کوشامل کیاجاسکتاہے۔
نبوی میں سیرت کے پہلو: ؐ ٢۔ حدیث
سیرت کادوسرا مآخذ احادیث نبوی ؐ ہیں۔''سیرت نگاری کے مصادر میںایک بنیادی
مصدر ذخیرہ حدیث ہے۔ابتداً اسالم میں تفسیر ،حدیث،سیرت ایک ہی حلقہ درس کے اسباق
تھے،بعد میں جداجدافن کی حیثیت سے مدون ہوتے گئے۔( )١١تمام کتب احادیث میں بہت
نبوی کاذخیرہ موجودہے ،جس سے آپ کی حیات مبارکہ کی جامع فکر ؐ بڑا اورمستند سیرت
اخذ ہوتی ہے اور وہ بھی سندوں کے ذریعہ انتہائی مستندانداز میں ۔( )١٢کتب احادیث کے
نبوی پر روشنی ڈالیے ہیں ،جیسے کتاب ؐ کئی ابوار ایسے ہیں جو راست طور سے سیرب
المغازی ،کتاب الجہاد ،کتاب النکاح وغیرہ۔ ڈاکٹر صالح الدین ثانی رقم طراز ہیں'':صحیح
17
بخاری میںپہالباب ہی وحی سے متعلق ہے۔ اسی طرح کتاب االنبیاء میں آں حضرت کی
زبان سے دیگر انیبا کاذکر کیاگیاہے۔ کتاب المناقب میںایک باب آں حضرت کے اسمائے
گرامی سے متعلق ہے۔ اسی طرح آپ کے خاتم النبین ہونے کاایک مستقبل باب ہے۔ ایک
باب آپ کی فصاحت سے متعلق ہے اور ایک باب میںعالمات نبوت کابیان ہے۔پھر کتاب
المغازی میںآپ ؐ کے غزوات پر مفصل بحث کی گئی ہے۔اسی طرح صحیح مسلم کی کتاب
میںآنحضرت پر نزول وحی کاباب ہے۔دیگر کتاب احادیث میں بھی اسی قسم کے ؐ االیمان
ابواب ہیں۔ محمدفاروق نے لکھاہے'' عالمہ سیوطی کے بیان کے مطابق قولی و عملی تمام
احادیث کی تعداد دوالکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ عالمہ مناوی کہتے ہیں کہ یہ تعداد مصنف کی
اپنی معلومات کے لحاظ سے ہے۔ یہ نہیں کہ ا حادیث کی تعداد فی الواقع بس اتنی ہی ہے۔''
علماء نے صحت ،حسن اور ضعف کے اعتبار سے کتب حدیث کو درج ذیل طبقات میںتقسیم
کیاہے۔
اولی :اس طبقہ میں صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور مؤطا امام مالک کاشمار طبقہئ ٰ
ہوتاہے۔
طبقہئ دوم :ابوداؤد ،ترمذی اور نسائی کاشمار طبقہئ دوم میںہوتاہے۔
طبقہئ سوم :دارمی ،ابن ماجہ ،بیہقی وغیرہ کاشمار طبقہئ سوم میںہوتاہے۔
طبقہئ چہارم :ابن مردویہ ،ابن شاہین ،ابن عساکر وغیرہ کاشمار طبقہ چہارم
میںہوتاہے۔
٣۔ کتب مغازی و سرایا میں سیرت کے پہلو:
سیرت نگاری کاایک اہم ماخذ ومصدر وہ کتب مغازی وسرایا ہیں جوحضور اکرم صلی
نبویہ کاایک بڑا حصہ ؐ ہیں۔حضور کی حیاتؐ ہللا علیہ وسلم کے غزوات پر روشنی ڈالتی
غزوات اور قتال فی سبیل ہللا میں صرف ہواہے ۔ل ٰہذا ان عنوانات پر تحریر کی گئی کتب
نبوی کے لیے ابتدا ''مغازی'' یعنی غزوات ؐ بھی سیرت نگاری کابہترین مآخذہیں۔سیرت
کالفظ استعمال ہوتاتھا جس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلے زمانوں میںحکمرانوں کی بڑی وجہ
یہی تھی کہ اس نے جنگیں کی ہوں۔یہی کسی شخص کے بڑاہونے کااسٹیٹس مقرر تھا۔ اسی
رسم کے تحت آپ کے مغازی کاپہلے رواج تھا۔( )١٣عالمہ سیدسلیمان ندوی نے خطبات
مدارس میں ان کتب مغازی کاتذکرہ کیاہے۔مغازی عروۃ بن زبیر (م٨٤ھ) ،مغازی زہری(م
موسی ابن عقبہ(م ١٤١ھ) ،مغازی ابن اسحاق(م١٥٠ھ) ،مغازی زیاد ٰ ١٢٤ھ) ،مغازی
ہیں۔
مغازی) ت بکائی(م ن٨٣ھ) ،مغازی واقدی(م ٢٠٧ھ )وغیرہ قدیم (کتب
ق ت
ے۔ اس ن مصطفصن ی ف ہ کے م ی نالد پ اک پر ای ک ب ہ ری ن اور دی م
ن ض زیر ظ ر فرسالہ سرکار دو عالمﷺ
یﷺ تکے تعالوہ ور ے ح ور ب ی کریضمﷺ کقا وس ین لہ ،حلی ہ ن فں۔ مصنم ت ق
اب می ں ۵۷شصول ہ ی شکت ف
ے۔ اس کے سا ھ سا ھ ے ا م مو وعات کو لمب د ک ی ا ہ ہ مصط یﷺ کا پ ت در پ ت ن ل و ا ی س
ج ہ
18
ث من
ب ہ
ے والے اج رو واب کو ھی کت اب کیحمبنوب نرب دو ج ہاں پر درود و سالم کی ا می ت اور اس کے ب اعث ل
ے۔()۳۲ زی ت ب ای ا گ ی ا ہ
.1حضور نبی کریمﷺ کاوسیلہ
.2وال دت کے وقت معجزات
.3حلیہ مبا رک
.4قرآن میں آپ ﷺ کی صفات حمیدہ
.5وال دت کے متعلق اشعار
.6وسیلہ کی برکات
.7شب والدت کے عجائبات
.8نورمصطفی کاپشت درپشت منتقل ہونا
.9سید ہ آمنہ کی زبان سے والدت کابیان
.10والدت پرخوش ہونے اور خرچ کرنے کاانعام
.11میالد کی خوشی میں جنت
.12صفات ومعجزات مصطفی ﷺ
.13پیر کے دن کی اہمیت
.14تنگدستی کاعالج
.15خصائص مصطفی
.16شجرہ نسب
.17نور محمدی ﷺ کی تخلیق
.18توسل انبیاء
.19اسم محمد و احمد کی بر کت
.20نور محمد ﷺ کی تقسیم
.21ساری کائنات بنائی
پرانعامن ر بانی .22کثرت سے درود پڑھنے ق
ن
ﷺ ب ر ا و رمی ں ز دہ ہ ی ں تق .23نبی کریم
.24ن وردمحمیﷺ کامن ل ہ ون ا ت
س ن خش ف شت
.25والدت پر ر وں کا و ی اور ی ح کر ا
ب
.26حضرت عبدہللا کا وصال
.27حضرت عبدہللا کے وصال پرفرشتوں کی بارگاہ ال ٰہی میں عرض
.28سیدہ آمنہ کوہر ماہ انبیاء کابشارت دینا
.29والدت سے قبل بارہ راتوں کے واقعات
.30واالدت مصطفی ﷺ
.31حاالت وصفات مصطفی ٰ ﷺمیں
.32کامل وجود والے نور
.33حضور نبی کریم ﷺ کوعطائے خدا
19
.34شب والدت معجزات کاظہور
.35حضرت حلیمہ او ررضاعت
.36حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو
.37چارسال کی عمر میں والدہ کے پاس
.38شق صدر
.39والدہ محترمہ اوردادا جان کاانتقال
ش ؐ المقصد فیف عمل المولد از امام جالل الدین ؒسیو طی ق 2۔ حسن
ح
صد ی ل ا مولد‘‘& امام ج الل الدی ن ی وطی کی م ی الد الرسول اور اس ظکی رعی ث ی ت ت عم لم
ی ت
ہ ً ہ
س
ق
ل
ہ لک ’’حئسن ا ش ن
ے کہ ئکیت ا قمی ت اسی بق اتب سے اہہ ر و ی ہ ے۔ اس رٹسالہ ع گ ی ایینک خ ہای ت ا م ن ی فضہ
ص می ں ق ھی
ضوگا۔ ہ م ا ڑا ب ھی ام امک اس ا ن نی
ف ی و ے ھا ا لم ر
ت پ ش
وع مو
ن کے الد ی م ت یص ی د م ی ظ اس در
الرسول‘‘ کے مو وع پر ے ’’ ی خ اج الدی ن ف اکہا ی‘‘نکی ’’م ی الد ن
ن ف
لک ئ اس کت اب می ں امام صاحب
ے م ی الد م ن اے کو ب دعت مذمومہ مس ق ت ی اکہا ں
ن م س
خ ج نی ش‘‘ مولد ل ا ل عم لیق ھی گ ی کت اب ’’المورد ی ا کالم ع
مکم ل
ے۔ اس کے عالوہتامام رار دی ا ہ ح ن ے اور ف
م
ے۔ اسخکےق قسا نھ ا ل م ا المہ اکا ن الحاج کی م الد ر گ ت گو اور د کو ب ھی ت اب م ں ش
سن کو ے ا م ی ق و ت ر پ الد ی ہ ا ی ک رد ے۔ اس
ع نے
رار دی ا ہن
صاحب
کی ہ ک ثی ی ی پ ببق ل ق
ع
الد کا ب وت اور سرکار دو عالم کا ود ی ہ کر ا ے۔ حدی ث سے م ی ٹ مو ف ھی ب ی ان ک ی ا ہ ابب ن شحج رمعس ال ی کا خت
ے۔ م
نسے ھو ی گر ج امع کت اب ہ چ ے۔ م صر ی ہ کہ ی ہ خم ی الد پ اک کے حوالے ن ھی ا ل ہ
ب ع ل ت
روت ،لب ن ان ۱۴۰۵ھ بم طابق ۱۹۸۵ء می ں ھی
ب
ے بی ن ب ا لمی ہ ق اس کتاب كا عربی س ہ تدارالک ن شئ
ی
داالحد ادری ے ر ع االول ۱۴۲۴ھ بم طابق اپری ل ۲۰۰۵ ئ ج خ ے۔ اس کتت ابخ کان ن ب ہ
ے ا ع ا موالالہ اورع بسے ش روڈ
اردو ر مہ
ش ج گ ہ ا ب وی
ا عق وا ہ ض
می ں ادری ر
کی ہ ک
ف ابواب و فصول
م ش
اس می ں درج ذی ل ا واب و صول ا ل ہ ی ں۔ ()۳۳ ب
.1تقریب عید میالد
.2تاریخ میالد
.3میال د پاک کے موضوع پر پہلی کتاب
.4میال دپاک کے انعقاد پر فاکہا نی کا رسا لہ
.5فاکہا نی کے رسالہ کا رد
.6اقسام بدعت
.7حرام و مکروہ با تیں
.8میالد پر خو شی کر نا مستحسن ہے
.9عالمہ ابن الحاج کی میالد پر شاندار گفتگو
.10ماہ ربیع االول کی تکریم
الحاج کی میالد پر تنقید ت نق .11عالمہ ابن
.12ابن الحاج كی ی د پر ج واب
.13عالمہ ابن حجر مکی عسقالنی کا موقف
.14حدیث سے میالد کا ثبوت
.15سر کا ر دو عالم ﷺ کا خود عقیقہ کر نا
.16ابو لہب کے عذاب میں تخفیف
20
.17دمشقی کی روح پر ور نعت میال د
.18فائدہ ؐ
ؒ ن ؒ ت ش مکی ؒت 3۔ المولدالنبی ازق اب ن حجر
ت م م ش
ے۔ ٓاپشے فہ ق یسری کت ابنعالمہ ہابل ؐالدی ن احمد ب ن جح ر نکی خکی نص ی ق ک ل ؐ ہ مارے م الے می ں ا ل
ح
ناس عربی س ہ مرکز ی ات اسالمیہ ادمان مولد ا ن ب ی‘‘ رکھا
ق کے حوالے سے ج و کت اب ت ھی اس کنا ام’’ نیش ئمی الد ا نلب
داالحد ادری ے ر ی ع االول ۱۴۲۴ھ بم طابق اپری ل ۲۰۰۵ ب اردو رج مہ موال ا ع ب ش ئ اس کا ن ب خ
ن خ ےاور ت الہ ور قے ا عضکی ا ہ
ے می ں ادری ر وی ک ب ا ہ گ ج ش روڈ الہ ور سے ا ع ک ی ا ہ
ن ُ خ ن ابوب و فصول
ش
نا گ ی ا سب ری م ت ق
ف ب ی ان ک ی ت
مﷺ کی صوص ی ضات اور ان کا ؑ تصنی ف ؐمی ں ب ضی کری زير نظر ن
لب ک ن ل ہ وے کے ط ل
لے کر ح رت ع ب ندا م ئ دمحمی کا شح مرت ٓادم سے ق اس کے ع ت فالوہ ن
ور ے۔ ہت
ہ ج
سا ھ وہ سب ار اصات ب وی ھی ا ل کت اب ہ ی ں و و ت والدت رو ما وے۔ اس کت اب کے ب ہ ف
ص
ے۔()۳۴ اب واب و صول کی ی ل درج ذی ل ہ
.1رسول ہللا ﷺ کا اعزاز و اکرام
مصطفی بنا یا ٰ .2ہللا نے آپ ﷺ کو
.3نبی کریم ﷺ کی خصوصیات
.4نبی کریم ﷺ کا نسب شریف
.5حقیقت محمدیہ ﷺ کو نو ر سے ظاہر فرمایا
.6وجود مسعود کی تخلیق
.7نو ر محمد یﷺ پیشا نی آ دم میں
مصطفی ﷺ حضرت آدم ؑ سے حضرت عبدالمطلب& تک ٰ .8نور
.9نور کی بر کت سے ابر ہہ ہالک
.10نور محمدی ﷺ حضرت عبدہللا کی پیشا نی میں
.11حضرت عبدہللا کی حضرت آمنہ سے شا دی
.12سمندری مخلوق نے آمد پر مبا رک با د دی
.13حضرت آمنہ کو بشا رت اور نام محمد ﷺ رکھنے کا حکم
.14حضرت عبدہللا کا وصال
.15وال دت مبا رک اور عجا ئبا ت وال دت
.16مشرق و مغرب روشن
.17شام کے محالت چمک اٹھنے کی وجہ
.18نبی کریم ﷺ زمین کے مالک و بادشاہ ہیں
.19وال دت کے بعد سجدہ کیا
.20مشرق و مغرب تک سیر کرا ؤ
.21ایوان کسری میں زلزلہ
.22شیطا ن کا رو نا
.23مختون شدہ پیدا ہو ئے
.24اسم گرا می محمد ﷺ رکھنے کے اسباب
21
.25تا ریخ وال دت
.26ابو لہب کے عذاب میں تخفیف
.27حضرت حلیمہ کا پر ورش کرنا
.28حضرت حلیمہ کی اونٹنی نے کعبہ کو سجدہ کیا
.29اونٹنی میں نئی طاقت اور گفتگو کر نا
.30حضرت حلیمہ کے گھر بر کتوں کا نزول
.31شق صدر
.32با دل کا سا یہ کر نا
.33چاند سے با تیں کر نا
.34نبی کریم ﷺ کی پہلی گفتگو
.35حضرت آمنہ کا وصال
.36حضرت عبدالمطلب کا وصال
.37پہال سفر فملک شام ؐ اور بحیرا کا پہچاننا
4۔ المورد الروی ی مولدالن ب ی ازؐ مال علی تقاریؒ
ل ل ئ ق ؒ
ں وہ حمدف یے۔ اس م ہ نب ھی ب ہت اہ می ت کی حامل تکھی گ ی ُ نص یف ت مالعلی اری تکی ی ہ می شالد ا ن ب یپر
عوث رماکر ن ہ ے ہ ی ں کہ اسے رحمت عالمﷺ کو اس دن ی ا می ں قمب ب اری ع ٰالی نکے ب عد ہللا ع ٰالیکفا ئکر ادا کر
ت ب ش
ق
ے کہ وہ رسول ہللاﷺ کے م ام و مر ب ہ نکو پ چہ ان ہ صرف مسلما وں کو ہ ندای ت عطا رما ی ب لکہقم نرکوں پر جح ت ض ھی
ف
ے م نص ف ی ہ ذکر ب ھیئ لمب د کی ا ب
مﷺ تکی ب ا ی ا ب ی اء تکرام پر ی لت نقھی ب ینان کی ہ اس کے ب عد ب ی کری لی ں۔ ف
ں اوا ل دور م ہ المس ا الد ھر پ اور ں ہ ول م سے کس ں م وں صد ن لیہ پ یﷺ ب ل
ن ا الد م ل ے کہف مح
ہی ی ض ب ی ین ی ی ب خ ی حم ہ
ے۔ اس کے عالوہ دی گر ا م مو وعات ج و ح ہ صہ اک ف ص
نی ادر اس کی ف ن
ص م ھی ر ن یذکر اک الد ی م ل سے
ت ئ ش ن ش )۳۵ ( ں۔ ق ی ہ
ق درج ذی ت
ل خ وہ ں ی ش امل کت اب ہ
اس کاخاردو نرجب خمہ ت ےاور ن اس کقا عربی س ہنمرکز ب ح ی ات اسالمیہ ادمان الہ ورے ۱۹۸۰می ں ق ا ع کی ا ہض
ن
موال ا ع ب داالحد ش ئادری ے ر ی ع االول ۱۴۲۴ھ بم طابق اپری ل ۲۰۰۵می ں ادری ر وی ک ب ا ہ گ ج ش
ے روڈ الہ ور سے ا ع ک ی ا ہ
ابوب و فصول
مصطفی ﷺ مسلمانوں کے لیے ہدا یت اور مشر کوں پر ٰ .1بعثت
حجت ہے ۔
.2نبی کریم ﷺ کی فضیلت با قی انبیاء پر
.3محفل میال د النبی ﷺ پہلی تین صدیوں میں کسی سے منقو ل
نہیں
.4مصر اور شام کے لو گوں کا میالد منا نا
.5اندلس ( اسپین) کے با دشاہ محفل میال د کیسے منا تے تھے ۔
.6ہندوستان میں محفل میال د النبی ﷺ
.7عجم میں محافل میال د النبی ﷺ
.8باد شاہ ہما یوں کا میال د منا نا
.9اہل مکہ کا میالد النبی ﷺ منا نا
.10اہل مدینہ کے ہاں محفل میالد النبی ﷺ
22
معنوی نو ری کی ضیافت .11
مو لو د شریف پڑھنا .12
حضور نبی کریم ﷺ کب پیدا ہو ئے ۔ .13
امام غزالی کی طرف سے نبی کریم ﷺ کی پیدا ئش کا ذکر .14
نبی کریم ﷺ کی روح کی تخلیق کے با رے میں امام سبکی کا .15
بیان
حقیقت محمدیہ ﷺ کے با رے امام قسطال نی کا بیان .16
حضور نبی کریم ﷺ کی دیگر انبیاء پر سبقت کیسے .17
نو ر محمدی ﷺ سب سے پہلی مخلوق .18
نور محمدی کے بعد سب سے پہلی مخلو ق کو نسی ہے ۔ .19
نو ر محمدی ﷺ کی پیشا نی آدم میں چمک .20
حضرت حوا کا حق مہر .21
حضرت آدم کا نبی کریم ﷺ سے توسل .22
اصال ب طاہرہ میں نو ر کی جلوہ گری .23
حضور نبی کریم ﷺ کا درجہ .24
عدنان کے بعد نسب پاک میں علماء کا اختالف ہے .25
حضرت عبدالمطلب اوراصحاب فیل .26
حضرت عبدالمطلب کی نذر اور بیٹےکو ذبح کر نا .27
دیت کی مشروعیت .28
نذر کا سبب .29
سیدنا عبد ہللا کا آمنہ بنت وہب سے شا دی کر نا .30
مصطفی ﷺ سے حاملہ ہو نا ٰ سیدہ آمنہ کا نور .31
نو ر محمدی ﷺ کا ظہو ر .32
نو ر محمدی ﷺ کے وقت ظہور میں اختال ف .33
دعا ئے ابرا ہیم .34
عیسی
ٰ بشا رت .35
حضور نبی کریم ﷺ کا میال د اہل مکہ کے لیے فتح اور .36
خوشحالی کا سبب بنا
حضرت عبدہللا کا وصال .37
حضرت عبدہللا کا تر کہ .38
حضور نبی کریم ﷺ کی وال دت مبا رکہ .39
ابو لہب کا حضور نبی کریم ﷺ کی پیدائش پر خو شی منا نا .40
اہل کتاب حضور نبی کریم ﷺ کی میالد کی خوشی مناتے ہیں .41
ٰ
کسری میں زلزلہ میال دالنبی ﷺ کے دن ایوان .42
23
.43میال د النبی ﷺ کے دن فارس کا آتش کدہ بجھ گیا ا ور بحیرہ سا
وہ کا پا نی خشک ہو گیا
.44شیطانوں کو شہا ب ثاقب سے ما رنا
.45شب وال دت شیطان کا رونا
.46کیا نبی کریم ﷺ مہر نبوت کے ساتھ پیدا ہو ئے یا پیدائش کے
ئ بعد مہر نبوت ملی ؟
.47نبی کریم ﷺ مختون پ ی دا ہ وے۔
.48حضور نبی کریم ﷺ کا نام محمد ﷺ رکھنا
.49حضرت عبدالمطلب کا عجیب و غریب خواب
مصطفی کی تعداد ٰ .50اسما ء
.51نبی کریم ﷺ کی پیدا ئش عام الفیل میں ہو ئی
کسری کے دور ٰ .52کیا حضور نبی کریم ﷺ کی وال دت نو شیرواں
میں ہو ئی ۔
.53کیا ما ہ ربیع االول میں نبی کریم ﷺ کی وال د ت ہوئی
.54حضور نبی کریم ﷺ كے مقام پیدائش کے با رے میں اختالف
علماء
.55مدت رضاعت کے دوران نبوت کے دالئل
.56حضرت حلیمہ کے ہاں برکتوں کا نزول
.57زما نہ شیر خوا ر گی میں آپ ﷺ کے معجزا ت
.58فرشتے جھو ال جھال تے
.59حضور نبی کریم ﷺ کا سب سے پہال کالم
.60بادل کا سا یہ کر نا
.61شق صدر
.62حضور نبی کریم ﷺ کی والدہ محترمہ کی وفات
.63حضرت عبدالمطلب کا وصال
.64حضور نبی کریم ﷺ کا ملک شام کی طرف جا نا
.65حضور نبی کریم ﷺ کی سیدہ خدیجہ سے شا دی
.66تعمیر کعبہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی شرکت
.67حضور نبی کریم ﷺ پر وحی کی ابتداء
غ الکتانی ؒج ن خيرالعبادختاز محمد بن جعفر ن بمولدواالسعاد ش ت 5۔ اليمن ف
ت ل م م
کے ٓا از می فںے اسق کت اب ن خ ے۔ ممفر تم امع کت اب ہ ق ی تہ ق ۱۴صول پر ف ل ب ہای شتمم صر ی کن ج ت نت
ے عربی ال اظ ت ادری ان دمحم ی المہ ع ں
ی ت م م دی اور ے
یہ ا ک ل ا ھی ارف ت گ ش پ
ت یاور م دی ساب، ا
ہ ن ج
م س ج ت خ ج ث ن م ج
ے۔ اس ے تکو ھ ا ٓاسان وجش ا ا ہ اب کے م ن اور ر م نجس سے کت ئ ے۔ اور لوں خکا اردو ر ن مہ ب ی ان ف ر نمای ا ہ
نعربی س ہ منخ ال حث ہ مس ر کات ے ۱۳۴۵می ں ش ا عشک ی ائ اور اس کا اردو رج مہ عالمہ دمحم ہزاد مج ددی کا
ے مکت ب ہ دارا الص ری لوے روڈ الہ ور سے ۲۰۰۲ء می ں ا ع ک ی ا ۔
24
ن ن ق ئ ف ن ن ض ابواب و فصول
لےش سے بل اور ب عد می ں رو ما ہ وے وا ف ف
ے حؐ ورﷺ کی پ ی دا ض ئ ج
ن ع ؐر الخکت ا ی ن اس کت قاب می ںش ئ
دمحمب ن خ
ے۔ اس کت اب می ں صول ہ کی ان ی ب لت ی کی المس و درود ،وی ب ص اص ،وی ب ل ام ات، ع وا ادات ع وارق
ن
ے۔()۳۶ و اب واب کی درج ہ ب دی درج ذی ل ہ
1۔ فصل اول
اول الخلق
2۔فصل دوم
ظہور تجلیا ت نبوت
3۔فصل سوم
تحویل نور رسالت
4۔فصل چہارم
سیدہ آمنہ کی آغوش میں
5۔فصل پنجم
سرکا ر چلے آ تے ہیں
6۔فصل ششم
محفل میال د شریف
7۔فصل ہفتم
ہللا کے احسان عظیم کی تعظیم
8۔فصل ہشتم
صبح شب وال دت
9۔فصل نہم
ہللا ہللا وہ بچپنے کی پھبن
10۔فصل دہم
حسن کھا تاہے جس کے نمک کی قسم
11۔فصل یازدہم
کس منہ سے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمیدہ
12۔فصل بارہویں
تاجداروں کے آ قا ہما رے نبی
13۔فصل سیزدہم
ایمان کی جان
14۔فصل چہار دہم
صلوۃو سالم ٰ دعاء
حاصل کالم
عرب ممالک میں ٓائمہ محدثین اور علماء ربانین نے آق ؐا کے میالد کے موضوع پر
بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ میالد کے بیان کو بالد عربیہ میں مولد ،موالید یا مولود پڑھنا
25
کہتے ہیں اس لیے ایسی کتابوں یا مضامین کو جس میں حضورﷺ کے
آپ کی برکات کا تذکرہ ہو تو اس کو مولود کہا جاتا ہے۔ اہلمیالد کے واقعات مذکور ہوں۔ ؐ
عرب میں جو اہل محبت ہیں ان کے ہاں اکثر و بیشتر اب بھی یہی طریقہ رائج ہے کہ جب
میالد پاک کا مہینہ شروع ہوجاتا ہے تو وہ محافل میالد میں ذوق و شوق سے مولود پڑھے
جاتے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السالم کی والدت کے واقعات کو بیان کرنا مولد یا مولود کہالتا
ہے ،اردو میں اس کو میالد نامہ کہتے ہیں۔
النبی پر لکھی گئی مترجم عربی کتب کے اس باب میں ؐ زیر نظر مقالہ کی میالد
عرب مصنفین اور ان کی کتب کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔ ان عرب مصنفین میں ابن جوزی،
جالل الدین سیوطی ،ابن حجر مکی ،مال علی قاری اور محمد بن جعفر الکتانی شامل ہیں۔ یہ
سب ائمہ و محدثین اپنے دور کی نامور شخصیات ہیں جو کسی تعارف سےکی محتاج نہیں۔
رسول سے بھرپور ہیں اور سب نے اپنی کتب میں خلقت نور محمدی ؐ ان کی تصانیف محبت
آپ کےسے لے کر آپﷺ کے پاکیزہ پشتوں سے پاکیزہ ارحام کے سفر ؐ
نبوی کے عالوہ بالد
ؐ فضائل و برکات ،قبل از والدت واقعات بعد از والدت واقعات ،شمائل
النبی کے منائے جانے کا ثبوت بڑے مدلل انداز میں قرآن و حدیث اور ؐ اسالمیہ میں میالد
آئمہ و محدثین کے اقوال کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ ان کی یہ تصانیف نہ صرف اُن کے اپنے
زمانے بلکہ بعد میں آنے والے زمانے کے لیے بھی مشعل راہ ہیں۔
بحیثیت مسلمان محبت رسولﷺ ہی ایمان کی شرط اولین ہے۔ جس
کی تکمیل ذکر محبوب کے بغیر ممکن نہیں اور اس محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ
جشن میالد النبیﷺ کا ذکر اور اس کی خوشی منانا ہے۔ مادہ پرستی کے اس
رسول کو فروغ دینے کا
ؐ دور میں اس طرح کی تصانیف مسلمانوں کے دلوں میں محبت
انتہائی موثر اور تیر بہدف نسخہ ہے۔ عرب مصنفین کی ان کتب سے یہ بات واضح ہے کہ
جشن میالد النبیﷺ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ہر دور کے لوگوں کا معمول
رہا ہے۔
26
باب دوم
ت لک ئ
می الد الن ب ؐیﷺ پر ھی گ ی مترجم عربئی ک ب می ں
ل ف
ئ ت ج ت فم یصالد ا ن ب ی کےج واز اورلعدم ج واز کےلکدال لئ
ھی گج ی م ر متعربی ک ب می ں عدم جئواز کے دال ل
ت یﷺ پر ئ
ک ل ل اول :م ی الد ا ن ب
صل دوم :م ی الد الن ب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں ج واز کے دال ل
27
ئ فصل اول
ت ج ت لک ئ
میالد النبیﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں عدم ج واز کے دال ل
ق ف
ئ ؒ س وطی حسن الم صد ی ق ل افلمولد از امام ج الل الدی ن ی عم
کے دال ل واز س وطی شم ی تالد الن ب یﷺ کے عدمخج ی ن
ئ ی دال الل ج امام ں
ن یم مولد
ن ل ال ی عم ن ف تسن الم صد ح
ن ل ع
ے ہ ی ں۔ ی خ اج الدی ن عمر ب ن لی می اسک دری ے رسالے می ں دی ں ج و کہ خ اکہا ی ے اپ ےہی ن ب ی ان کر ف
ن ف ے۔ ن
ن مالکی فوں می ں سے ہ معروف ب ہ اکہا ی مت ا ری ن ق
اک تکے ا ع اد پر اکہا ی کا رسالہ’’المورد ی الکالم علی عمل المولد‘‘کے ام سے مرت ب ک ی ا ک م ی الد پ
ے ہ ی تں :ف ل
ت س ہ
ن
ی ے۔ مولف ھ ت ہ
ے جس ے می ں س ی دالمر لی ن کی ا ب اع کی ےہ ’’ مام فعر ی ں ہللا کے لی
ئ
ف ئ ن ہ دای ت رما ی‘‘۔
ل
لف صا حی ن ن س ے مدد و صرت رما ی اور ہ خمارےئلی ش ماری ہ کر دے ت ی
تدا ہ طرف ف کی ن ی د ارکان اور
ق نق
ن ری عت اور حق کے پ ت ہ دال ل کے تور سے ش دم پر چ ل ن ا آسان رمای ا،خ ح فی کہ ہ مارے دل علم کے ہ ئ م
عالی اطن کو پ اک ک ی ا ،می ںمضہللا ٰ ے اورش دی بن می تں ب دعات و راناتق کے یا ج ادش نکرے سے ہ مارے ب ت
م عمور وگ
حمد فو کر ج ا ال ا ہ وں کہ اس فے ی ی ن کی رو ی ع طا کرکے اور دی ن ی ن کی رسی کو ن ب وطی سے ے ت تکےنلی
ے۔ می ں گواہ ی دی ت ا ہ وں کہ دمحمﷺ اس کے ب دے ،رسول تی ہا ام ر کرم و سان حا کر دے ق یخ و کی ے ھام
ط م
ئپر ،ان کے ٓال و اصحاب اور ازواج ہرات امہات اور ناولی ن و قٓا ری ن کے سردار ہنی ں۔ ہللا ع ٰفالی ان
ن پر ی امت ت ک پ یہم ا وار کی ب ارش رماے۔()۱ الموم ی ن ن
ت ے م ی الد م اما قب دعتصہ
ج
ے کہ ای ک م ب ارک جتماعت کی طرف سے ب ار بت ار اس ا ماع شکے ب ارے می ں صود ا لی ی ہ ہ
نا ری عت می ں اس ے ہ ی نں ۔کہ یٓا ماہ رب ی ع االول می ں کرے ہن ی ں اور ناسے م ی الد ہک ے ج و لوگ صا ہ ت ئ
سوال ک ی ا گ ی
واب
تکا ئ ج ے اس ے؟ ا ہوں ت ف ب ف
ن ے ی ا ی ہ چ یز دی ن می ں ب دعت ،وپ ی د تاور و ای ج تاد امر ہ کیصکو ی ا لض ھی ہ
ے عالی کی ئو ی قصو اعان ت پر اع ماد کرنے ہ و ت ق
ہ ے۔ لہذا می ں نہللا ن ٰ ی ل اور و احتع سے طلب ک ی ا ہ
ے اور ہ ی ی ہ وی مذکورہ م ی الد کی کت اب و س ت قمی ں کو ی ا ل ہی ں ہ کشہت ا ہ وں کہ می رے لم می نں
ےٰ ی دار ل شماء م ن ف ع
ے جس دعت ہ ے ب لنکہ ی ہ ای ک ا سی ب ش لت مینں کسی سے منول ہ امت اور دی خ عم
عار اکاب ری ن
اور کم پروری ےن ہ تکی پ یروی کرے والوں ے رواج دی ا ے ل لوگوں اور ت واہ نات سا ی ناور ب ب ی کار
ے کہ ج ب م ے متی الد پر ہ ل ہ
کرےخوالے لوگ اس کا ا مام و ا تصرام کرے ہ ی ں۔ اس کی د ی ل ی ہ ہ
وگا ی ا حرام۔ و معتلوم طرح ثکہ ی ا و ی ہ واج ب ہ وگا ی ا م ن دوب،ن ی ا م ب اح ،ی ا مکروہ ہ اس ً احکام مسہ کا اج راء ک ین ا ن
ک ن ن س ہ ب ن
ے دوب اشسے ہ ت
ن
ے تاور ی ہ م دوب ھی ہی ں و کت ا کی و عمکہ م
ن ماعا اب ت ہ ل اس کا واج ب طہ ہ و ا اج ش ہ وا کہ
ہ ی ں ج و ری عت کا م لوب ہ و کن اس کے ارک پر ذم و عت اب ہ ہ و اور اس ل کی ہ و ری عت ی
28
ف ت ن
ے اور ن ہ ہ ی می رے علم کے م طابق ی ہ صحاب ہ کرام اور دی ن دار اب عی ن کا ل ر اہ
ع
ے اج ازت دی ہ
ن من ت ے۔ ف ن ہ
ے کہ ے یک و کہ مو ی ن کا اج ماع ہن ت ا تک س و ہ
ق اح م ہ ہ ن کہ ں ہ ے د ل ی ل د ہ ن ر ل عم اس ئ ی اکہا اور
ہ م ی ب ی ی ئپ ی ن
ے۔ اس لحاظ سے ان دو وں کی حرام ب ا ی رہ ج ا ائہ خ کروہ صرف ت اب ن ں۔ ی ہ دی ن می ںفب دعت را ج کر ا ج ا ز
ب اب ت دو صلوں می ں کالم ہ وگا۔ ان دو وں حال وں می ں ا ت الف ک ی ا ج اے گا۔ ()۲
نق ف ن ن پ ہلی حالت ئ ش خ
کرے اور اس ن ے اہ ل و ع ی نال اور اصحاب کے تمال سے مح ل م ی الد م ع د ے اور اپ ص اپ ن ی ہن کہ کو تی
م ہ ن ن
ے۔ کی و کہ ے سے ج اوز ہ عکرے ،ہ ی ک تسی گ اہ کا ارتعم کاب ثکرے ونی ہ ب دعت سی ہ کروہ ہ ہ ک ت قھاےپ یف ق
م دمی ن ہاء اسالم اور لماء ذوی االح رام کے ل سے اب ت ہی ں۔
ن ن ن غ مع ہ ت ت ن ن دوسری حالت
ے واال ن
کاب کر نے کے سا ھ ایسا ی ر مولی ان مام و ا صرام کرے کہ چ دہ دی ن ت ی ہ کہل یاس می ں گ اہ کا ارت
اس پر ت ی ار ہ ہ و اور اسے مال کے کم ہ وے کتا ر ج ہ و۔ اس کا دلن چ دہ و دے کن ث
ے: ل ن
ے مصن ف درج ذی تل د ی ل ب ی ان کر ا ہل ن اس ب ات کو اب ت کرے کے لی
ے ج یسا ی مال ے
ع یذر کے لوار ا ن لی مال ےع شیذر کے أو ہ’’کہ کسیخدھو س اور دب
ے اص کر ج ب اس می ں خکم سی ری کےتعالوہ دف تاور جم تیرہ کے تی ہ ن
ج
صورت عور وں کے سا ھ ا ماع ب
لڑکوں اور خو ق ے ریش ن جسا ھ جگا ا ب اج ا ،ب
ھوم کر ،لپشٹ لپ ٹ کر اچ ن ا ،وف ی امت کو ب ھال کر لہو و لعب می ں ھوم ن شغ
ے‘‘۔ (۳ م ب
ئ) نلہ ج ت م ول و ا ھی ا ف ہ ت
ت ت ت ظ ئ ے را کی ی اہ اک سے لے ت ا حو کے ماع
ت انکے عور ف
وں
ب ج تن ج
ے کہ ہا عور وں کا ا ماع ھی کے ا ماع کے حوالے سے راے کا ا ہار کر ا ہ عور وں ت ی ارش اکہا
ن
ے: ٰ ہ الی ع اری اد
قب کہ حرام ہ وگا کی و
ے م ں اور ذکر و ت ئالوت م ں اپ نی ٓاوازوں کو ب ل دن ن (افل رٓان ۱۴ :۸۹خ) ش ت
غ ی ی سرت می ں نگا ئ
و ہللا کا ی ہ رمان ھول کر و ی و م ئ خ ب
ے۔ ن ہ ہ ی کو ی ی رت م ن د مرد اسے پ س ن د ی ہ ں ہ الف ت کری ں۔ اس صورت می ں اس کی نحرمت کو ی ا
سجم ت ے۔ ہ اں ج ن کے دل گ اہ وں کیتٓاال ش کرسکت ا ہ
ے ہ ی ں۔ سے حرام و کج ا ع ب ادت ھ ے ہ وں وہ ا شکی قوشج ہ سے مردہشہ وچ ک
ش ن ق ش کے ا عار ی خ ی ری ض
ہ ت ش
ے ہ ی ں ج و ان کی طرف سے می ں ع طا کردہ ارے ی خ ی ری ے ب ہ ری ن ا عار کہ اسی ش ممن می ں فہ م ت
ں رماے ہ ی ں: اج ازت می ں ا ل ہ ی ق
ت ق امام اب و فعمر و بنن عالء کا ول
اکہا ی ی ہاں امام اب ت نو قعمرو ب ن عالء کا ول ب ی ان کرے ہ ی ں:
عالمہ اب ن الحاج کی م ی الد پر ی د ت ن ق ت ئ ف ت
المہ اب ن الحاج م ی الد پر ی د کرے ہ وے رماے ہ ی ں: ع ف
نق ن ن ض ف یﷺ
ت ل
المورد الروی ی مولد ا ن ب
ول ہی ں۔ ش م ی الد ش ریف کی اصلن ی تن ی لت والے زما فوں می ں کسی سے م ش
ق
نال فعلی ال اری اپ ی صن ی ف المورد الروی ی مولد الن ب یﷺ می ں ی خ امام عالمہ مس الدی ن عالمہ م
دمحم السخ اوی ے رمای ا کہ
ن ش ق ن حاصل کالم
عم
ق ن احکام الہیقٰہ سے مزی ن اسالم کے اصول و وا ی ن ہ ر ترعی ل کی ب ی اد ہ ی ں۔ اور ی تہی دی ن اسالم
ے۔ سے ممت از کر ی ہ ان ب اطنلہ ش ی ے ج و اسے ندوسرے مام اد ہ کی ح ا ی ت قو نصدا ت نکی وہ ب ی ن دل ی ل
ے وہ اں س ت رسولﷺ ب ھی ب ی اد ری عت ہ ی ں۔ اس ب اب الم وا یصن فن کی ب ی اد تا جحکام الہی ہ پتر ہ ج ہاں اسن
ل ج
ی ن کی م ر م عربی ک ب می ں سے عدم واز م ی الد ا ن ب یﷺ م می ںئہ م ے
ئ ض ف ن ے۔ کا ج ا زہ ل ی ا ہ
ے ل عم ُ ئ ج
نم ی الد ا ن ب یﷺ کے عدم واز تپر اکہا ی ل
ے کار اور ب کےبدال ل وا ن ح ہ ی ں کہ وہ اس کو ب ح ع
ے اور اس پر وہ ان ے اور اس کے م لق کو ی کم ھی مو ود ہی ں۔ ی ہ ب دعت ہ
ج لوگوں ے رواج دی ا ہ
29
ت ف نت
ج
ے لے کر ھوم ٹ م
ے اور خ ک ھم
ے ی لوگ ڈھول ڈ ک ہ حم
اصالح طقلب امور کو وج ہ ب اے فہ ی ں کہ ن قل م ی الد
موسم ٓا ت ف ش تکا
ے۔ اصولوں کے الف ہ ت نہ ی ں ج و کہ ری عت کے سرود کی ای سی مح لوں کا ا ع اد کرے ض ج ھوم کر ر ص تو
ے اور پ ھر ان سارے س وطی ے ہل ص
عان ک ی ا ہ
ق ے ی ل سے ب ی ات کوامام ج الل الدی نن ی ب پ ق ب
سارے اع را انراض
ت
رسالتنسےن م ی ظ و ام م اور ل ہا ج ر پ ات م ا م عض ں یم ہ زما ر ہ کہن ے ہ ا یدن ھی واب ج
ش اک ات خ اع
حرمات سے لوث کرکے ب ہت ب ڑی ادا ی اور م م
تگو اگوں ن ئ ج
کرات ،ب فدعاتناور م ق ت ے ب ر لوگ ن م ی الد کو ب
ے۔ ے ادبی کا مظ اہ رہ کرے ہ ی ں۔ ی ہ ا ہا ی ا سوس اک اور اب ل مذمت ہ ب
فصل دوم
ت ج ت لک ئ
میالد النبیﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں جواز کے دالئل
۱۔ مولدالعروس از اب ن ج وزی
ہ ق کت ت لک ئ
ے۔ اب ن ب می ں مولدالعروسناز اب ن ج وزی ا م م ام ر ھ ی ہ ک م ی الد الن ب یﷺ پر ھی گ ی
ق خ ف ن
ج وزی ےتاس کت اب می ں والدت مصط یﷺ پر پ یش ٓاے والے وارق عادت وا عات اور
ف ً
ن ت ت ن ے۔ ہ ا ی عج ائ ب ات کو ص ی ب ین ک
ان ال
ت
نے مولدالعروس کے ام سے ج و رسالہ لکھا ہ
ےل ؐاس کی ر ی ب و ندوین ن موال ا دمحم ت اقب ن ج وزی
ے۔ اس رسالہ می ں اب ن ج وزی ج واز م ی الد ا ن ب ی کو درج ذی ل ع وا ات کے سا ھ ادری ے کی ہ داالحد ت
عب ف
ں۔ی ق ہ ے ام ر ب ی ان
م
کے عج زات i۔ والدت کے و فتت
اب ن ج وزی رماے ہ ی ں:
30
ق ن
صاحب کت اب ے والدت ب اسعادت کے و ت کے معج زات کو ش اعری کی صورت می ں ب ھی
ف ت ت ض
ے۔ جس می ں وہ ح ورﷺ کی ش ان ب ی ان کرے ہ ی ں۔ رماے ہ ی ں کہ ج ب رسول ہ ش امل کت اب ک ی ا
ئ ش ے تو ش ارق و غ ارب حالت جسود م ں ؐ ئ تش ن
ٓاپ کے م ت اق ہ وے۔ ی م م ال ف اکرمﷺ اس د ی ا می ں ی
ر
ض ف شت ن
الن ک ی ا۔ ج ن ت کے درب ان ر وان کو حکم ہ وا کہ وہ ت
ر وں ے سری و ج ہری طور پر ٓاپﷺ کی ٓامد کا اع
ن ن
ن ض ئ ب ت
ؓ ن
ے اکہ وہ اپ ی چ و چ وں سے مو ی ب رسا ی ں۔ پ ھر ج ب ح رت ٓام ہ ے ٓاپ کو ج ج ن ت عدن سے پرن دوں کو یھ
ن ن شن ن ن ُ ن ت
ت
صری کے محالت ک کو دی کھ ل ی ا۔ ج م دی ا و ای ک ور ان کے سم سے کال جس کی رو ی می ں ا ہوں ے ب ت ج
ٰ ے روں کو ب کھ ر د ا اور ض ؐور کی ش ف شت ن ن
ے۔ ے لگ
ن
ڑ ح یںس
ب م ان ح ا ے وں ر گرد کے ہض رت ٓامن ؓ
ن ھ پ ئ ی ن ی ی پ پ ن ح
ش ؐ ض ش ؐ ض
ماہ رب ی ع االول کو ح ور سے سب ت کی وج ہ سے ب ل ن د ان صی ب ہ و ی۔ ح ور کی ان ب ی ان کرے
ت ے ج و ھ سرت مدح م ں کہا ا ے ہ مارے خ
ے۔ ہ رحمت کی عالی
ٰ ہللا ق لا گی ہ ی کے لی چک م
سےفوالدت کا ب ی ان س ی دہ ٓامن ہ کی زب انن
ن
کہ :ن ن س ی دہ خٓام ہ ےنرمای ا خ
ے اورترچ کرے کا ا عام i۔ والدت پر وش ہ و ف
المہ ابش ن ج وزی رماے ہ ی ں کہ: ع خ
ن
ت ئ ف ت ن ii۔ م ی الد کی و ی می ں ج ت
خش ں: ی ہ ے ت رما ے ت و اب ن ج وزی م ی الد م ن اے پر اج ر کی ب ات ئکرے ہ
ے اور و ی ،عزت اور ہ ے و وہ سعادت تم ن د خ ہ ے کو ی عم تل کر ا ﷺ کی والدت تکے لی ن خ ف ج و احمد مج ت ب ٰی
ح
ن می ں مو ی شسےنمرصع اج ئاور سب ز ل ب اس کے سا ھ دان ل ہ وگا۔ اس کو م ل ی ر و خ ر کو ئپ الے گا۔ ج ت عدن
ے۔ ن ح
ے ج ا ی ں گے۔ ہ ر مئ ل می ں ک ئ ے ج ا ی ں گے ج و ب یبان کر قے کے لی
واری ئحور ہ ے مار ہی ں کی
ص
خع طا یکن
ٓاپﷺ کی والدت کے ب اعث تب ھال ی عام پ ھ ی ال ی گ ی اورجس ے
ھ
ی ب ی راال امﷺ پر ٰلوۃ یھ ج فو ،ی ی نصا ب ت
کری
ھی ٓاپﷺفپرشا تی ک د خعہش لوۃ ج ی ہ تم نارا رب م اس کو دس مر ب ہ ج زا دے گا۔
ت ا کر ح یوالدت پر رن وں کا و ی ٰاور سب iii۔ ف ش ت
ن ج ن ت ل سب ت ک ہ خ ن
کے ٓاوازوںش کو ب ل د ک ی ا۔ ت ن ے ب تارگاہ نداو دی می ں ی ح و نب یر و ی ل کے سا ھ خ رک وں ئ
اعث ج فہ م کے دمحمﷺ کی والدت کی و ی کے ب ق شف ا د سی سردار کےت وں اہ ج ام م اوردروازے نھول دئی ئ
ے
ٓاپﷺ تکی اعت کو ہ مارے ب ارے فمی ں ب فول ق
رما۔ ئ ے۔ تاے کری م! ہللا ع ٰالی ےگ دروازے ب د نکردی
ے کہ ب ی ب ہللاﷺ کا الں الں و ت ح ن ہ مکم حم
ج ب ل ٓام ہ ل وا و ہ ر ماہ ٓاسمان می ں کو ی م ادی کر ا ہ
ے۔ ف گزر گ ی ا ہ
ت یﷺ مصط
ت ق ق ب نؓ ف والدت ض
والدت ریئب ٓای ا و وہ پ یر کی ت ن ب وت ئ
ن ج پن رات ں
ب ی ن و ن ہ ار کی االول
ت ع ی ر ں۔ ی ہ ی رما ہ ٓام رت
ت تح
ے۔ می ں اسی ے اوپر اور ا ئ ی ہا کی پر ٓا سو ب لہا خ ہ
رات ھی جس می ں جم ھ پشر رعب طاری وا و می یں ے اتپ ئ
طرحشے در تت کی خ ھ ج
حالت می ں نھی کہ دیوار ق ہ و ی اورش اس فسے ا نسی عور ی ںخ برٓامد و ی ں و ج ور کے مب
ہ
کے در ت کی طرح ہخ ی ں اور غان سے کس ورینکی و ب و ج کے م اب ہ س ی د ص وب ر
ت ش ہ ی ں اور ع ب د م اف نکی ب ی ٹ ی ن
وں
ن ے ی رینں کالم کے سا ھ م ھ
ے سالم ک ی ا اور کہا :وف و م ہ کرو۔ می ں ے ان ے۔ ا ہوں ً ن مہک رہ ی ہ
ٓاپ کون ہ ی ں؟فج وابتا ا ہوں ے کہا: کو کہا :ض
ن ت رت ٓام ہ رما ی ہ یق ں کہ ت ت ن ؓ ن
ٹ ن ح ق
ے می ری گاہ شسے حج غاب ا ھادی ا ،و می ں ے زمی ن ی عالی
ٰ ہللا و ا ٓا
ی ی ت ی ب ر والدت ت غ ش ج بو
چ ن
ے ن ن کو م رق ،م قرب اور ب ی ت ہللا کی ھت پر ج ک
ڈے ن ھی د ٹھ ب ن ج
اور ی ن ھ نکے م ارق و فم ش تارب کو فد کھا ف
ی ج ت ی
ک ا۔ ر وں کو خ
اور ی ا وت نسی چغ و چ وں توالے ن ج
م
وج در وج ند ھا۔ سب ز رسگ کی ا گوں والے
ل ب ت م ج ب ےف ض نصب ک ی ا گ
نی
ے پ ی اس ے لب ہ ک ی ا و ای ک پر دہ ے ہ ی ں۔ ھ ہ کرر ٰی ہ ا ح ی ں یم وں ا ب ز لف و ا یھرد کو ا پر دوں
31
ت
مج ک ن گ ن ت ف ت
رف
ے دی ا و ی ہ ب ن ہ
رے پ اس ٓای ا فاور ب ال لشو ی ھ سے پ ا ی تکا ھو ٹ نھا۔ می ت اس س ی دشمو ی می ں جس کے پٹ
ش
سے زی ادہ ھ ن ڈا اور ہد سے زی ادہ ی ری ں ھا۔ می ں ے پی ل ی ا و می را دل رحاں و اداں ہ وگ ی ا اور می ں ے ن
ے رب کی حمد ب ی ان کی۔()۱۳ اپ
ف ث ن قئ الم ک ل ص حا
ے دو ہاں ض رت دمحم مصط ئ
کےیﷺ کے م تی الد ت ش ن ح ج ا ٓا ے ن ض عرب ممالکتمی ں تٓا م ی
حد مہ
ےو الد پ اک کا مہی ہ روع ہ و ا شہ سی ک ب صن ی ف کی ہ ی ں۔ اہ ل عرب می ں ج ب م ی ق ؐ مو ف وع پر ب ہت
ٓاپ کے اوصاف حم ی دہ اور والدت ب اسعادت کے وا عات کا ذکر ب ڑے ذوق وق اور محا نل نم ی الد می ں ت
ن ے۔ والہا ہ ا قداز سے کنی ا ج ا ا ہ
اور ب رگزین دہ ب ن دوں کاقذکر کر ا نب ھی ب وب ہللا کے حبم کہ ے
پ ت چ ل ہن خ ق ا ت ہ ت سے ےع رٓان و س ت ن م ل
طا کے
ے قصالح اور م رب ب دوں کا ے ود رٓان جم ی د می ں ج ا ج ا اپ ے۔ خہللا ع ٰالی ق ے ب ل نکہ ہللا عکی س ت ہ ع ب فادت ہ
کی ح
ے اور رٓان م ان کی ج
ے۔ ا ب ی اءن ہم ال الم تکا ذکر اص طور پر رٓان جم ی د می ں مو ود ہ س ی ل ذکر رمای ا ہ
ن ت ق ے۔ ہ ا کر ان ف ی ب کو وں دو قرت والدت اور ی
س
ب
سے ج اری وا و ی ہ ٓاپﷺ کی ھی س ت ہ مصط
یﷺ کی زب ان ا دس ق اسین طرح ض رٓان
والدت ب اسعادت کے وا ض عات اور اس کی ج زئ ی ات کا ب قی ان ن ہ صرف ورﷺ کی ف ہ نوگی۔ اس ب ا پر ح ن
ب مصط
والدت سے والدت کے و ت ،خ ے۔ ح ورﷺ کے ث
ن ہقیﷺ ھی ن ے ب لکہ س ن ت س ت الہٰی ہ ہ
ے ب کہ ب اعث ی رو ل ے اورب ٓاپﷺ کی ز دگی کے وا عات کا ذکر کر ا ہ صرف ب اعث اج رو واب ہ پ ہل
ے۔ برکت ھیق ہ ف
ن س
نج الل الدی ن ی ضوطی ۲۔ حسن الم صد ی ل ا مولد از ؒ امام
ل عم
نحسنن ے قم ی الد کے مو نوع پر کی ہ ی ں۔ ان می ں سے زیر ظ ر رسالہ ’’ ن سن
وطی ق ف امام ج الل الدی ن ی
ےش نے۔ اس کت ن اب می ں عالمہ صاحب ے اپ لے کا حصہ ب ای ا ہ ےم ا ش پا خلم صد ینعمل المولد‘‘& کو ہ م ے ا
امام صاحب ے ی خ ں جش اب مین ے۔ زیر ظ ر کتف ن ہ تم صوص ا داز می ں م ی الدفاور ناس کی رعی ح ی ث ی ت کو ب ی ان ک ی ا
ے۔ جس می ں اکہا ی ے ن م ی الدکو محض اکہا ی قکے رسالے المورد کا رد ک ی ا ہ اج الدی ن المعمعروف ب ہ ش
ت ئ ے۔ ے ل لوگوں کا ی وہ رار دی ا ہ ب ی کار اور ب
ے ہ وے س وطی م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز کے ب ارے می ں سوال کا ج واب ید ف ت امام ج الل الدی ن ی
ت قرماے ہ ی ں:
ق ق ج ت ی قت الد ری ب ع ی د م ی
س
ے جس می خںش خلوگ مع وکر ب در ث ہولت ئرٓانہ ہ ص
درا ل ای ک ضا سی ری ب م ظسرت و یسہ تم ی الد پ اکت
ف
ث و ٓا ار می ں ٓا ی ج
ورﷺ کے ہور نکے ل لہ می ںتو و ب ری اںشاحادی ئ س ئ اور نح ظ کری م کی خالوت کرے ہ ی ں ن
حم ش
کےخ ےت ہ ن ی ں پ ھرترکاے لئ عادات اور ا ی اں اہ ر ہضو ی ہ ی ں ،ا قہی ں فب ی ان کر ض ت ہ ی ں اور ج تو خ ب
وارق
دعاے ی ر ے قہ ی ں اورن ت حسب رورت اور بل در ک ای ت ماح رس اول کر ن ے۔ وہ وان چ ھای ا ج ا ا ہ تٓاگے دسنر ن
ے نوالی ی ہ ا کی د ں م لہ س کے یﷺ ب ا الد م د ں۔ ے ا س وا کو ھروں گ
ج ض ع ل ی م
م
ث ی ت ی ی ن ن ع
ہ
ہ نپ ج ے اپ ت
ے کقرکے اپ
اس می ں ح ور ب ی ے کہ ت ے گا ،اس ظلی ے جس کا ا مام کرے والے فکو واب لن دعتشحس ہ ہ ری ب سع ی د ،ب
ع
ے۔ تکری مﷺ کی ظ م ،ان اور ٓاپ کی والدت ب اسعادت پر رحت و ا بساط کا ا ہار پ ای ا ج ا ا ہ ی
ف ن ت نق ن ہت ا یر خ م ی الد
ظ
م
داء ارب ل کےت کمران ل طان ف ر ے کی س ح م ینالد پ اک کو مروج ہ ا مام کے سا ھ معع د کرے کی اب ت ش
ے۔ اس کا مار عظ ی م المر ب ت ب ادش اہ وں اور ی اض امراء ری ب ن نزی ن الدی ن لی ہ جس کا تپورا ام اب و سع ی دنکوکب ئ
ئ ف ت ت اس ےئک ی اور ی ک ق ئ ے۔ ن ہ می نں ہ و ا
س ون کے دامن می ں ج امع مظ ری عمی ر کرا ی۔ ں تا م کی ں ،کوہ ا ی ے اور ی ادگاری ب
ک ل کار امے ھیث سرا ج ام دی
ش
ے ہ ی ں: اب ن ک ی ر ان کے بنارے می ں ھ
ن ن خ ے:ن ک
س ب ط اب ن جالفوزی ے مراۃ الزمان می ں شل ھا ہ
اک می ں ری ک ہ وے واغلے ای ک ص ب خے ب ی ان تک ی ا کہ اس ے
ت الد پ خ کے ہ اں م ی ن خ ش سل ط شان مظ ر ت خ
ٹ ود مار کشی ا کہ اہ ی دس ر وان می ں پ ا چئسو ہ ب کری تاں ،دس ہ زار مر ی اں ،ای ک الکھ ٓا ورے اور یس ہ زار
ے۔ ے پڑے ھ ق وکرے ی ری ں پ تھلوں سے لدے ہ و ت
ڑے ج ی د علماء کرام فاورت ج ل ی ل مز د لک
اں ب ڑے ب ظ کے ہ ف ب پر ،سل ط نان ت ت یر کی اک پ الدخ ی م کہ ں ن ی ہ ےتھ ف ی ق
ے ہر سے لے کر ج ر ک ال در صو ی اء ٓاے ،ج ہی ں وہ لعت و اکرام ش اہ ی سے واز ا ھا صو ی اء کے لی
32
ت ت ت ف ت ش نف ن ف ت ف
م ب
خ
ن ھ ل کر وج د کر اخ ھا۔ ہ ر سال ک و ا اور صو ی اء کے سا ہ مح ل سماع ت و ی ،جس نمی خں وہ تس یس رین ہ
ے ای ک مہمان ان ہ نم صوص کر ے اس خ
ت سےنٓاے والوں کے لی ک م ی الدت پ اک پر ی ن الکھشدی ار نرچ کر ا۔ تب اہ ر
اففسے ٓاکر ک ا و اطراف لف ے والے خلوگ ب الت لتحاظ و مر ب ہ ،م ت ھ ر ق تس می ں ہ ر عب ہ ز دگی سے عل ٹرکھا ھا ،ج
ن ن ن خ
دو الکھ دی ار دی ہ ت رچ ہ یوف ا ھا۔ ناسی شطرح ہ ر سال ق ے۔ اس مہمانن ا سہ پنر ہ ر قسال ای کت الکھ دی ار ش ھہرا کر ف ن
ے اور حتج از م دس کے راس گہدا ت ت نہ ا کرا ا اور تحرمی ن ر ی نن کی ن خ ے م لمان ی دی ر دے کر ر گی وں سے اپ
ت ے ی شن ہ زار دی ار ساالتہ رچ ک ی ا کر ا ھا۔ ے) پ ا ی ہ ی ا کرے کے لی م می ں (حج اج کرام قکے لی خ
ے ج اے ،اس کی ب یوی رب ی عہ خ ا ون ب ن ت ے ج و پو ی دہ طور پقر کی ہ الوہ ع کے رات ی ہ ان صد ات و ی
ق ٹ ت ت نایوب ج و سل طان
ش ہ
کے ے کرب اس (کھدر کی سم ن ے کہ ناس کی تمی تض مو ک ت ی) کی م ن ی رہ ہھی۔ ب ی ان کر ی ہ اصرالدی ن (ایوت ت
کی ہ و ب
ک ب ار می ں ے ا کہ ں ی ھی۔ ن
ی ھینو پ ا چ در م سے زی ادہ الگت کی ہی ں ہ و ی ق ج
ک ن ی ی ہ خ ہ ق پ ہ کپنڑے) ت ن ق
ے پ ا چ درف ق م کا کپ ڑا ہن کرخب ا ی صد ہ و ی رات کردی ا ،اس سے ہی ں ا تہی ں روکا و ا ہوںتے کہا کہ می رے لی
ے کہ می ں یضم ی کپ ڑے پ ہ ن ا کروں اور کسی ی ر اور مسکی ن کو ی ر ب اد کہہ دوں۔()۱۵ ب ہ رہ
ہ پ
ک ت وع پر ف لی کت خاب کے مو ن
ن م ی الد پ اک خ
ے کہ: ہ ھا ل ں ی م ذکرے کے ہ ی دح ن با طاب ل وا با ظ حا ے ان اب ن ل ف
ک
ف ن ن اکہا ی کے رسالہک تکا رد
ف ے ہ ی عں: ے رسالے م ں فل اکہا ی اپف ق
ن ھ ی ت
اب وال س ۃ۔ ئ()۱۷ لت وب العلہ ال و ی ق ال ا لم لہذا المولد اصال ی کت ن
ص
ن’’می رے لم کے م طابق اس م ی الد کی کت اب و س ت می ں کو ی ا ل
ن ت نف ع نف ؒ ف ت ے‘‘۔ ہی ں ہ
ت س م ج
اس کے رد می ں امام ج الل الدی ن ی وطی رماے ہ ی ں کہ ی لم ی و ود کو لزم ہی ں و اس کا س
ن ن ن ض ف
ل ف واب ب ھی ماسب ق کے ب ی ان ج ظ
الم سے اس ص ع
ے تکہ مزی د ی ہ کہ حا ظ اب وا نل اب ن حج ر ے س ت ب وی ہ لی صاحب ہا ال لوۃ والس ق سے اہ ر ہ و
س ص ت ن ب صگ ی ا ہ
ے: ے۔ ان کا ول ہ ت م
ے اور میثں ے ھی ای ک دوسرین ا ل ن ب ط کی ہ غ ف ش کی ای ک ا ل کا قاس خ راج ک ی ا ہ
کالون۔ ()۱۸ خ ہش اال ھا ب ی ا س ھوۃ و طالون لب ا ھا احد دعۃ نٔاما ولہ :ب یل ھو ب
ے ل لوگوں اور وا ات عم ف’’اینک ا سی ب ن
نکار اور ب ےبی ے جس دعت ہ
تق ے‘‘۔ن روی کرے والوں ے رواج شدی ا تہ ش سا ی ئکی پ ین
ہللا کی
ن ن ف را ج کرصے واال ای ک عادل و عالم تبضاد ہ اہتھا جتس ےلخم ی الد پ اک کو ربت ت
الی
ع
م ی الدن ری ن
ت پ
ے۔ ب ا صوص اب ن دہ ی ہ کو و ا ضا س د ٓای ا ت سےنم ای ا اور لضماء و لحاء ب ال کراہ ت اس می ں حا ر وے ھ ن ی
ماء کرام (ج و اس می ں حا ر ہ وے ف کی ،ی ہتعل ت ے اتی ک کت اب نصن ی ن کےم لی ت
ج تکہ ا ہوں ے اسضمو توع پر اس ئ س
ے۔ ے اور اس کا ا کار ہی ں کرے ھ ے ھ ے اسے ج ا ز ھ ے) اس نسے را قی ھ ھ
ن ن دعت سام ا ک ن زد کےن ماء ل ع
ش
ووی ے ن’’ ہذی ب االسماء وال ات‘‘ م ں لکھا ے کہ ری ق غ ب ت ی
عت می ں ب دعت اس وپ ی د اور و ہ ی ل کت
ے ہ ی ں ج و ب ی کری مﷺ کے م ب ارک عہد می ں ن ہ ہ و۔ اس کی دو می ں ہ ی ں۔
س یا ج اد چ یز کو ہ
۱۔ ب دعت حقسن ہ
ن ق ق ش۲۔ ب دعت ب ی حہ()۱۹
س
ی خ عزالدی ن ب ن ع ب دالسالم ’’ا واعد‘‘ می ں ب ی ان ک ی ا کہ ب دعت کی پ ا چ می ں ہ ی ں۔ ل
۱۔ واج ب ہ
۲۔ م تحرمہ
۳۔ مس حب ہ
۴۔ مکروہ ہ
ت()۲۰ ۵۔ فم ب احہ
ق ش ق ن
ع
مزی د رماے ہ ی ں:
دعت کو واعد رخی عہ پر ےتکہ ٓاپ قب ت ی ی ہہ خ ہ طر کا ے کر لوم ق م کے ’’اس
تپ یش کری قں ،اگر تواعد ای ج اب می ں دا ل و و واج ب ہ ،واعد حری م می ں دا ل و
ہ ہ
و محرمہ ،واعد اسح ب اب می ں
33
ت خ ق ئ ت ت
ن ف م ف
ے‘‘۔ ل و و شکروہ ور ہ م ب اح ہ ہ ے و ُم نسْ قحَب َّہ اورش اگر واعد کراہپ نت نمی ں دا ت ب ہق ٓا ن
ے۔ وہ ہ کی ت یروا سے عی ا امام ھ سا کے د س ی ا ں ی م عی ا ب ا م ے ف ت امام ی ی
ن ئ ض ئق ن ئ ت ت رماےیہ ینں :ی ن ئ
ے ن ہ ھی اور اگر ہ وگ ی و ھی اس می ں کو ی م ا ہ ہی ں ،اس ب ی اد پر ب ے ج وخپتہل ع ی ی ہ ا سیش ؒچ ی ہ
ز ی ف
ئ امام ا تعی کا کالم م ہ وا۔ جسکا ب ی ان گزرا۔ ظ
ے م ب دعتف ہ ے جس ے۔ ن ہی وہ ب دعت ہ ی س ہ
ے کہ م ی الد م ب اح و ج ا ز و کت ا ہ ق سےن اہ ر و ا ہ ہ تاس
ں کتن اب وت س لت ،اج ماع امت می ںن ک قسی کی خم اشل ت ے جس می ت سم وہ کی دعت ن ہ ی ع ےہ ںی نمکروہ ہ ک
ن ہ ن ی ب ی ی ہ
کن ب عد می ضں اس کا ا ع اد ہ وا۔ رط ی کہ ئما تہ ب وی می ںمح فو ہی ں ھین ی ن
ت
ےج وز ں۔ ب خس ی ہ ایشک ای سی کی بہ ب ہی
ے و م ی مالد کی ل می ں کھا ا کھال ا اور ح ورﷺ کے اوصاف و تچج نا ا سے کام رع ن الف ت ھی ئ
سی خک
س م ج ف
ے۔ ے ا ماع کر ا حمود و حسن ہ ذکرہ کر ؒے کے لی
ت ش صا ل کا
ے: عی کی ع ب ارت می ں ہ امام ا
ئ ن ت ن ت ش ے سن ح م الد ر خ وش ی کرن ا مس
ت ت ق ف ہ ی پ
ےہی ں ے ہ وے دل ی ل ید س وطی ی خ اج الدی ن اکہا ی کی م ی الد پر ی د کا ج واب ید امام ج الل الدی ن ی
ت کہ
ن ے ہ ی ں کہ ج ل س
ف ن نامام ی وطی صاحب اس د ی ل کا واب ی ہ دی
اتض سب سےبڑی شعمت اور ٓاپﷺ کی و ے ن مارے لی والدت م ب ارکل یہ ش ب ی کری مﷺ کی
ئ
عمت پرح کر و حمد اور م یص ب ت پر صب ر و ر ا اور ک سب ئ
ےن ے کن قری عتعق ق سے ب ڑی ت لی ف ہ ے ف ہ خ فمارے لیت ق
ن ش پر ن سی قکی پ ی دا ے یہ نک ف
ح
غ
والدت کے و ت ی ہ کرقے ظکا کم دی ا ہ ل ے یسا کہ ج کی ل ی ن ظرما ی ن
ہ خا ش اء ش
کے و ت ا ہارن فم کی ل م ع د کرے اورکھا ا م کنغکسی کی نموتن ف ی ے۔ ہ ام کا ہار ا کے
ن کر نو و ی
ع ت ب ح
ہ
ے۔ اس سےم لوم وگ ی ا
ن ہ م
سے ھی نم مع رمای ا
س ے۔ ب لکہ ٓاہ و اں اور وحہ کرے خ ش کھالے کان کم ہی ں دی ا ہ
ے ہ کہ ٓاپﷺ کہ اس مہی ہ می ں سرکار دونعالمﷺ کی والدت ب اسعادت پر و ی کر ا حسن و حمودہ
کے وصال حزن و مالل کر گفا۔
ف ت
خ ت گ خ عالمہ اب ن الحاج کی م ی الد پر گو ن پ ن
الصہ ی ہ س کا ن ے۔ ج ظ ن اب المد ج تل می ں م ی الد پ اک پر ن گو کی ہ امام اب فو ع ب دہللا ب ن الشحاج ے ا یشکت
لوس ،ج لسہ ،عرہ اور ھ ڈا) کا ا ہار کر ا اور ج ق ج ماع،
ےا ف ے کہ ناس بمح لن می ئں م ی الد ریف کے ش عار ( ی نس
ج
شہکر خ
ں۔
یف ت ہ مذمت ت ل با واحش و کرات م ل م ا ں ف
م اس اور مدح ف ق ال فا ال ا دی داو
کہ ں ہ ے رما حت )کہ ے ں م ان ب کے ت الد م ل ث مولد ( ہ ی ص ف ل ا ی ل ا ن ا جحاج ص
ی مہ ن ی ی ہ ی گت ی ب ل
ے سے ی زرگ ب اس کو سماع ف و طرب ٓاالت کہ ے ہ ا و ہ ت ن اب ہ ی سے گو اس کی صاحب ئ ن ع ن
المہ
ع ن ہ
رب العزت ے سردارخدو ج ہاںﷺ کو پ ی دا رما کر م پر احسان ظ تی م
ئ ع س می ں ہللا ث ہ
فکو ی سبہ ت ہی ئں ج
ش رمای ا۔ ئمی ں چ اہ
عالی کا عمت پرف ہللا ت ٰ رات نکے ذری عہ اس ظ ی م ن رت سے ع ب نادت و ی ے کہن م اس می ں ک ن
کر ب ج ا ال ی ں۔ ناگرچ ہ ب ی کری مﷺ نے اس مہی ہ می ں دیش فگرق ہی وں سے نزی ادہ ع ب ادت ہینں رما ی و اس
م
ےنامت پر ک ے یک و کہ ٓاپﷺ رحمت و ئ ل یت ہ صرف ب ی کری مﷺ کی اپ ی امت پتر ف فکا سب ب ن
ے کے روزہ ر ھئ ف کے دن ے۔ کن ج شب پ یر ت رک رمادی ف
اعمال ض ہت سے رض ہ وج اے کے ڈر تسے ن
ب
ے اس ہی ہ کی ی لت کی طرف ا ارہ کرے ہ وے رمای ا: ن م ب ارے می ں سوال ک ی ا گ ی ا و ٓاپ ف
ولدت ی ہ۔()۲۵ ئ ذاک یوم
مہ ن ن ۔ ‘‘ ے
مہ ن ہ ت دن اک ش دا ہ’’ی ہ می ہ ئ ی
پ ری
رحمت ئ ہ
اس ر ؐ
ٓاپ
ے می ں ش
روز ی کو ر
ے کا اح رام کری ں کی و کہ اس ی
سے ں م ٓادم اوالد ے۔
ے کہ م اس ی
عادت ا والدت
می ں چ ا ی
الم فکی ع
مح ہ ی ہ بس ش
ن کی اعت کے لب گار ہ وں گے۔ ط ف
ئ ت ف ے: ویﷺ ہ رمان ب ن
) ۲۶ ( - ی لوا حت ہ ٓادم وال خ رٓ ،ادم ومن دون ولد ا ا سی ف
د
ؑ ض
سردار ہ وں ح ن رت ٓادم اور ان کے ن ت’’ب ال خ ر کہتق ا ہ وں کہ می ں اوالد ٓادم کا
ئ ے ہ وں گے‘‘۔ کے تدن نمی رے ج فھض ڈے کےیچ ک مام لوگ ی امت
ف
ض
ہ
دنتٓاپﷺ کی والدت و ی۔ ے کی و کہ اس یخلت وا فلےت ھ ر روزہ دن ق کے ری پ ورﷺ ح ض ض
ے۔ ح ورﷺ ی لت والے او ات می ں زی ادہ ع ب ادت و ی رات رماے ھ
34
ؓ ج
ف ت مہ ن فض ض ن
ے کہ اب ن ع ب اس ے می ں زی ادہ سخ اوت رماے ی س ی اس سے ہ ج و کی لت ی اکرمﷺ ی ب ح ور
ف خ ے: سے روای ت ہ
ض ج
کان رسول ہللاﷺ ٔا ود ال اس ب الی ر و کان ٔا ود مای کون ی رم ان۔( ن ج
خ خ ت )۲۷
ے ب ا صوص رم ان الم ب ارکض ل تادہ تس ی ھ سے زی ’’رسول ہللاﷺ سب ف
ے‘‘۔ می ں قٓاپ اور زی ادہ سخ اوت رماے ھ
ن ن ن عالمہ اب ن الحاج کا مو ف
ص اب فن الحاج ئ
ے کہ ا ہوں ے م ی الد پ اک کی مذمت ہی ں کی ب لکہ ان کے کالم کا حا ل ی ہ ہ
محرمات وش واحش کیئبرا ی کی ج و
نن شن ت ن غ ئ یک ت ق ے۔ گاس می ں امل ہ و
ےسکہ ان کے زدی ک م ی فالد م اے ف نکو ب ظ ر ف ا ر د ھی ں و ی ہ معلوم ہ و ا ہ کے مو ت حاج ق ئ قاب ال ن
ے می ں ی خ االسالم حا ظ العصر س
ے۔ اس ل ل ںف ضکو ی ب احت ہی ںب ب احت و ی ت ت اسدہ کی وج ہ تسے ہ می ل
ے ہ ی ں کہ ج
سے ھی سوال ک ی ا گ ی ا و وہ واب دی اب وا ل اب ن حج ر ث
ص ن وت حدی ث سے م ی الدکا ب
ے کہ: ب
ن حج ر ے حی قن کا حوالہ ثھی دی ا ہ ت حی ن
نن خ ل ہ اس کے ب عد اب ق
الف
ت ے کہ ی الد ا ن ب ن یﷺ م ا ا
ج
م
ہ عالمہناب ن حج ر عس ل یال ی کے اسمحول سے ی ہ اب ت و ت ا ہ ف ش
عالی کا ہ ے کن م ی تالد کی نل می نں ایس ش ری عتن کام ہی ں
ے ن سے ہللا ٰ ک ی محدود رہ ا چ ا یئض کاموں ن ق ےن ئہ
کر ادا کر ا ہ نی سجم ھا ج اے ج
سرور دو عالم ح رت دمحمﷺ کی خ الوت کر ا ،کھا ا کھال ا ،صد ہ کر ا اور ب کہ ےس ی ش
اولی کو ی کام ہ و۔ الف ں ی م ان ا ی و ہ کروہ ے ج و حرام ی ا م ی سے چ ن ا چ اہ ن کاموں
ق خ ے
س یا اور ا کر ان ی ب ان
ٰ ق سرکار دو ض
ن عالمﷺ کا ود ع ی ہ کر ا
ص
ے ای ک ا ل کا است ن ب اط ک ی ا س وطی ے ھی م ی الد کے ج واز کے لی ب ن ں ضامام ج نالل ؓ الدی ن ی اسیہق من می ب
ض ن کہ ے فہ اق
ئ نع قی ک ت ی روا سے س ا ن رت ن ح ے ی ن ے۔ امام ہ
دادا ح رت کے ت ق ق ٓاپ کہ حاال ا ی ام ر تہ ی ا پا عد ب کے وت نب ے م کری ی ب
عقب قدالم طلبنے ٓاپ تکی پ تی دا ش کے سا وی ں دنئٓاپ کا ع ین ہ ک ی ا ت ھا اور
ن ہی ں ہ و ا ،و ہ اسی م شع ی ہ دوب ارہ
عالی کا ے ہللا ٰ نپر حمول ک ی الج اے گا نکہ ٓاپ
ب ی
ے اور ہن ب اکر ف یھ ج ان ےخٓاپ کون نرحمۃ ب لعالمین ش ن ے کہ اس ش کر ادا کرے کے لی
ے کے لی ے ت ے والدت پ اک پر ب فکر داوف دی جنا ال ا روع رما ت کے فلی امتعق ق
ے۔ ے ھ ے اوپر درود پڑھا کر ن س اپ یسا کہ ٓاپ س ی ت ج ا۔
دوب ہارہ ی ب ہ رمایہ ئ
لوگوں کو کھا اش کھالکر ت کے، ر ک ماع ظ ج ا ں م اک
خ ی پ ی الد مش م ہ کہ ے لہذا می ں ئ ھی قچ ا
اور دی گر ج ا ز طری وں سے و ی و مسرت کا ا ہار کرکے ہللا ع ٰالی کا کر ادا
کری ں۔ ()۳۰
ش ت خف
ف ت ل ش ت پن اب ولہب کے قعذاب فمی ں ی ف
امام ال راء حا ظ مس الدی ن اب ن ج زری ا ی کت اب عرف ال عریف ب ا مولد ال ریف می ں رماے
ف ئ ن ف ق ہ ی ں کہ
ن ف ش ے: ی رما مذمت ق کی س پ ف جے خ ت
اک رٓان ر کا یسا ج ہب ل و با
ہ
س وطی ے حا ظ مس عذاب می ں ی ف کے وا عہ کے ب عد امام ج الل الدی ن ی اب ونلہب کے ش ق
ک ل
ف مت ع پ ن ن اصرالدی ن دمن ی کین الدی ن ب ن
روح پرور عت ھی ج و ا ہوں ے م ی الد کے لق ا ی کت اب ’’موردالصادی ی مولدالہادی‘‘ می ں ھی ب
ے۔ ہ کیے وہ ب ھی ب ی ان ن ہش ق
ف ش دم ی کی فروح پرور عت م ی نالد ش
م ق ن پن
حا ظ مس الدی ن ب ن اصر الدی ن د ی ے ا ی کت اب ’’مورد الصادی ی مولد الہادی‘‘ می ں لکھا
ے: ہ
35
ث ت ص
عذاب کیث دنناب و ن ہب پر ہ ر پ یر کےخ ش ل ے کہ خ’’فی ہ یح ح حدی تث سے اب نت ہ
ے۔ یک و کہ اس ے ب ی کری مﷺ کی و ی می ں وی ب ہ ی ف تکی ج ا ی ہ
ن۔ ش کو ٓازاد نک ی ا ھا‘‘
ن ت ئ ئ
ں: ہی ےہ ک عر ہ ہوں ن ی
ے اس کے ب عد ا
ن ل
ب
ے کہ: ے ہ وےاب ضن نالحاج ے لکھا ہ م ی الد ا ن ب یﷺ م ائے کے ج واز پر دالح ل دی
والدت ماہ ر ی ع ن مﷺ کی ق ے کہ ح ور ب ئی کری اگر ی ہ کہا ج اےئکہ اس می ضں ک ی ا کمتشہ
ن
ے ج وش رٓان کے زول کا م نہی ہ
ہ ن یہ ارک ریف می ں ہ ومہ ن ن االول اور پ یر کے روز ہ و ق ی اورئ رم ت ان الم ب
لے ی وں (ا ہر حرم) می ں ،ہ ی پ درہ ے ،ہ حرمت وا ش ے اورلجس می ں ل ی لۃ ال در پ ا ی ج ا ی ہ شہ
ع ب ان ا معظ م کی رات کو ،ن ہ ہ ی ج معۃ الم ب ارک کے دن ی ا ب ج معہ کو اس کتا ج واب چ ار وج وہ سے
خ ف ت ن خت ے۔ش دی ا ج اسکت ا ہ
عالی خے در وں کو پ یر کے دن خ یل ق رمای ا۔ اس می ں نکہ ہللا ٰ ے ت ن ۱۔ ی ہ کہ حدی ث ریف می ں تٓای ا ہ ت
رات کی چ یزیتں فی خ ن
اور ات وہ
ج م ج ی رزق، وراک، ں ی م اس ے عالی ٰ ن ش ن
ہللا کہ ے ہ ن ہ ی وہن اور
ن ے ہ ہ ئی ب فڑے ب
ت خ
ے ن سے ان کے وس وش ہ وے یل ق رما ی ہ ی ں ب ی وع ا سان کی وو ما اور گزار ان نوابس ہ ہ
ئ ت ف ش ق ف ہ ی ں۔
ن ش
۲۔ ی ہ کہ ر ع کی ظ می ں اس کے ا ت اق کی سب ت سے ای ک اچ ھا ا ارہ اور ی ک ال پ ا ی ج ا ی ل ی ب
ت
ے اور ٓاپ کی ری عت ب ھی م وسط اور سب سے
ش
موسم ر ے۔ ۳۔ ہ کہ رب ی ع توسط اور سب سے ب ہت ہ
ہ م ی ت
ف فض ق ن ے۔ ب ہ رہ
ئ ۴۔ ی ہ کہ ہللا ے ٓاپ کے ذری عہ اس و ت کو ی لت ع طا رمادی ،جس می ں ٓاپ کی والدت
ق ت ئ ت ت ق والدت غ ہ و ی ،اگر ٓاپض کی
ہ
فب ا ضسعادت رم ان الم ب ضارک و ی رہ مذکورہئاو ات می ں ہ و ی ہ و ی ،و ی ہ و م ہ و ا کہ ٓاپﷺ ان او ات کی ف
ع
ے ہ ی ں۔ ی لتلکی وج ہ سے ا ل شو ا ٰلی ہ وگ
ب فق ن م یﷺ از عالمہ ہاب الدی ن ش ۳۔ مولدا ن ب
ن ن مولدالن ب یﷺ کے مصن فشعالمہ ہاب الدی ن احمد ب ن حج ر کی ج وشکہ امور محدثث ناور ہی ہ ھی
ہ ی ں اپ ی کتض اب مولدالن ب شیﷺ کےت روع می ں اما ب عد کے ب عدئ نہللا وحدہ ال ری ک کی حمدو اء ب یفان کر جے
کماالت و ص ات مع ت سبان کرے ہ ی ں کہ حمب ؐوب نرب کا ات می ں نوہ ق کی انفب یش ت تکے ب نعد ح ورﷺ ق
ے ت امت ت ک کے لی ش اور یت کرام اور م رب ر فوں مفی ں ہ ی ں۔ ٓاپ کو ا بض ی اء کرام کا امشام ب ای ا ش ے ج و ا ب ی اء ضھ
ب ی
ورﷺ کیض عت قمام ر ع وںفمی قں ہ ر اور ری ف حضورﷺ کی عت ض ہرہ کو وظ رمادی تا۔ جس تطرح ح حم ط م ری
ف
ے۔ رٓان کی م ر ان جم یض د ج و ح ت
ش سے بئہ ر اور ا نل ہ ورﷺ کی امت مام ام نوں ف طرح ح مع ض اسی
ن نے۔ وا ت ح ہ
دمحمﷺ پر ازل رما ی وہ سب ازل فدہ ظکت اب وں می ں خسے ا ل م
وب ظ ممم ح نرت ن ےت غحب ر و ت ہللا ع ٰالی ے اپ
ے کہ جس کی ح ا ت کا ذمہ ود ہللا ہ اب تک الہامی وہ ہ کہ
ی ک ی و ی ں ہ کن دل ناسنمی ی ب ں ے اور تہ
ے۔ ا
ش پ پ یت ہل ر او ے ا ے عالی
ٰ
ت ے: ہ عالی
ٰ ق اری ب اد ار
ض ا (ال رٓان )۱۵:۹
ب ع
ے۔ ٓاپﷺ کے اس کت قاب مین ں ح ورﷺ خکی ظ ی مسکا ن ھی ذکر ہ
اس می ں کڑوں ٓای ات ئگواہ ہ یممں ن ت یکمال ،در و م بزلت اور حسن ا ج الق پر حق ی ق
ا سی م ب احث ھی موج ود ہ ی ںش ن کی ی ت ک رسامی کن ہی ں۔
یﷺ می نں متصن ف عالمہ ہاب الدی ن احمد ب ن حج ر کی م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز می ں ق مولد الن ب
درج ذی ل ارہ اصات کو لمب د نکرے ہ ی نں:
ت ف ئ وں سے دا رحم مادر می ں ج لوہ گری اور ٓاسما پ ن
ج
رات ٓاپﷺ ا ی نوالدہ کے نرحم می ں ج لوہن رما ہ و ئے وہ معۃ الم ب ارک کی رات ھی رج ب جس ن ت
م
المرج ب کا مہی ہ ھا۔ ئاس رات ٓاسما وں اور ز ی وں می ں ی ہ دا کی گ ی:
ن خ ئ ت ف ات والدت والدت مضب ارک اور عج ا ب ن
ت ت
دمحمیﷺ سے سرپ راز و ی ں و ل کےق و ماہ م تلف کرامات اور جعی ب و حم ہ ن ٓامن ؓہت ج ب ور
ہ ج ہ
ف
ی ہ پ ن شحن رت ی ک غ
ے۔ ری ب ا ی اں د ھ ی رہ ی ں۔ ھر و ی ک ی ت ٓان چ ی و والدت کے و ت عور وں پر وا کر ی ہ
36
یک ت ن ن ق ت
اس ت کلیفف نکا کسی کو علمن ن ہ ھا۔ناس ون ت س ی دہ ٓامن ؓہ ای ک ڈراے والی ٓاواز س ی خھر ک ی ا د ت ھ ی ہ ی ں کہ ت
پ
نہ ا پ ھر ندی کھا و ے پروںتکو ٓاپ کے دل پر پ ھی را پس ٓاپت کا وف ج ا ا ر کے پر ن دے ے اپ ای ک سف ی د نر گ ت
ت ہ ہ
ن ظکر ٓای ا جس نمنی ں دودھ ھا۔ قٓاپ تکو پ ی اسی محسوس نور ی ھی۔ ٓاپ ے وہ وش فای ک س ی د ر گ کا ب رن
م ک ت
ئرمال ی ا۔ پ ھر س ی دہ ٓامن ؓہ ے جھور کی ما د مب ی لی دراز د عور ی ں د ھی ں۔ ا ہی ں دی کھ کر ب ہت جع ب
پ ل
ن ن ہ و ی ں۔
ق ک ہ ؓ ن
ا یسے لوگوں کی ظ تروں سے ھ پ نالو۔ س ی دہ ٓام ٹہ ے وا می ں چک ھ مرد ھڑے چ
ن طرے ورے ہ ی ں۔ ان سے ے۔ ان کے ہ ا شھوں می ں نچ ا دی کے کخ ش ٹد کھ
ےے ہ ی ںغج و م ک و ع ب ر سے زی ادہ و ب ودار ہ یت ں۔ نٓاپ ن پ نک رہ
ول دی کھا ج و ٓاپ کی نطرف ب ڑھا۔ ح ی کہ اق ہوں ے ن ک پر دوں کا ی
ا
وت کے نان کی چ و چ ی ں زمرد کی اور پنر ی ا ت تٓاپ کے حقج رہ کو ڈھا پ ل ی ا،
ک ی
ے زمی ن کا چ پ ہ چ پ ہ دغ ھا۔ ا ہی ں ت ی ن ش ے۔ اس و ئت س یئدہ ٓامن ؓہ نھ
رب می ںت اور یسرا کعب ہ کی ی ہ کم خ دوسرا ں م رق ک
ی تی م ا ے۔ د ی ھا ک د ن ڈے جھ
چ شھت پر صب ک ی ا گ ی ا ھا۔ ٓاپ کو درد زہ وا ت لی ف س ت ھی۔‘‘ غ ش
ئ ت ئ م رق و نم رب رو ن
ے اور اع ٰلی ب ی کری مﷺ ان کماالت سے موصوف پ ی دا ہ وے ج و ٓاپ کے عظ ی م کمال کے ال ق ھ
ن ے ضس ی ادت تکے لی
ے۔ ان اوصاف می ں سے چ د ی ہ ہ ی ں: روری ھ
ت ئ ق ن ن سری زلزلہ ایوان ک ق
والدت شرو ما ہ وے والے وا عات اور معج زات کا ذکر کرے ہ وے عالمہ صاحب ی ہودی ِ ئو ٰت ُ
ت
ع
ت ارات ن ض ماء کی ان ب اور عیسا ی علت
کہ فی ہودی اور ے ت ج
دی ھی ں۔ ی س والدت کے م ت لق ن نے ح ورﷺ کی خ کا ب ئھی ذکر کرےہ ی ں ج و ان لماء
ع
ٓاپ کی والدت کی ب ر دی اور ان مام ے اس بئات پر ا اق ک ی ا کہ
ب ب ماعت ے ئ بعنیسا ی ئعلماء کی ای ک ج خ ت
ے گا ان می ں سے ضعض ٓاپئپر ای مان ھی تالے۔ والدت ی اسرا ی ل کے ملک کا ا مہ ہ وج ا ٹ
ن
ھی۔ اس می ں دراڑی ں سے زی ادہ م ب وط اور کو ی عمارت ہ ش ت ٹجس ٹ ب اسئعادت کی رات کسری نکا ایوان لرز ا ھا
ڑ گ نں اور اس کے چ ٰ
ودہ ک گرے (چ ھوے ھوے می ن ار) گر پڑے و اس طرف ا ارہ ھا کہ کسری کے
ج چ ئ پ ی
ٰ ں گے۔ حکمرا وں می ں سے چ ودہ ٓا ی ت خ ف
ن ب پن کے عذاب می ںق ی فف اب و لہب ق
عم ش لم
ے ھی ا ی کت اب می ں ب ی ان ی ہ وا عہلق’’ سنفا صد ی ل ا مولد‘‘ می ں امام ج الل التدی ن ی وطی ش
س ل ح
کی کت اب ’’ال عریف تب ا خلفمولد ال ریف‘‘ کے حوالے سے ے۔ امام ا راء حا ظ مس الدی ن اب ن ج زری ف کی ا ہ
ے۔ اسی طرح خ ت
کےبعذاب می ں ی ف کا ذکر ہ ف ے کا ر م ؒ ج
کے روز اب و ہب ی س ل
ئ ے۔ جس می ں ہ ر پ یز ش ہ
ل
ذکر ک ی ا
ہب نکے ثعذاب می ں تی ف کی وج ہ ی ہ پن ل و ب ا ھی کی
ب ح خشر ج ن احمد ن ی د ال ہاب ض المہ
ن ع از &
‘ ُ ‘ یﷺ ت ب ن مولدا ’’
ن
ورﷺ تکی پ ی دا ش کی و ی می ں ان ی لو گڈی وی ب ہ کو ٓازاد ک ی ا ھا اور جس ت ش ےح ب ن ی گان کرے نہ ی ں کہ اس ن
ا لی سے لو ڈی کو ٓازاد کرے کا ا ارہ ک ی ا ھا۔ ہ ر سوموار کے دن ا ہی ا لی وں سے اسے سی راب ک ی ا ج ا ا
ے۔( )۳۷ف ہ
ف ق ق ف یﷺ ب ل
ن ا مولد ین موردالروی لا ۔ ۴
ق ق ن
ےتزضماے کے وح ی د العصر ،ری دالدہ ر ،مح ق ،مد ق ،مصن ف مزاج ،محدث ،ی ہ ،ج امع العلوم ع لی ہ پا قن
ن ف ف ش و ن لی ہ ناور م لع
ں۔ لی ب ن سل طان دمحمفہ روی زی ل مکہ ع ش
س ت ب وی ہ ج ما ہ ی قر اعالم ناور اہ ی ر قاولی الح ظ واال ہام می خں سے ہ ی ن ت
ٰ
تال علی اری ،ورالدی ن ل ب والے عظ ی م صی ت اپ ی صن ی ف المورد الروی ی مولد ا ن ب یﷺ
ل عروف م الم ف
ن ئ ف می ں رماے ہ ی قں کہ :ن ت
ش
ے م ا خ لماء می ں سے صاحب ع
یﷺ می ں اپ ئا ن بف ت ل تی مولد ف ش مال علی اری اپ ی صن ی ف مولد نالروی
ق
ع ج ش رماے ہ ی ں: ش ے ہ وے اوی کا ب ی تان لمب د کر ف
حم ن دمحم السخ ئ ہم مس الدی
ے م لوم ہ وا کہ ی ہ کہ مکہن مکرمہ می ں ک ی سال ک می ں ل م ی الد کی رکت سے م رف ہ وا اور ھ
م ف
مح ل پ اک ت ی
ک
37
ف ن شت
ص
ے اور ب ار ب ار می ں ے م ام مولد کی زی ارت کی اور می ری سوچ کو ب ہت خ ر حا ل ہ وا۔
ق
ل م ف ر توں ر م
ہ بک پ
قن ن ض ف ص ت ش رمای ا:
لے زما وں می ں سے کسیخ ب زرگ نسےم ول عم
کی ا ل ی ن ی لت وا ش کے ل ق مولد ریف ن
اور ناس می ں لوص ی ت ش امل ض وا ہ روع ے لشی کے صول ح کے اصد ق ک
ی ش ب ی یت م ن ں م عد ل عم ہ اور ں ی ہ
ت م ی الد کے مﷺ کے کری ی ن ب ور ح ں م ہروں ڑے ن
بغ ب ق ڑے اور وں ال ع مام الم ت س ا ل ہ ا ہ ی م ف ہ ھر پ ے۔
ت ن ئی ن ئ ہن مہ
تہ ی ں اور ے عمدہ نکھا وں کا اہ ضمامفکرے ظ ے ے نمی ں مح لی ں برپ ا کرے ہق ی ں اور خ جعی ب و ری ب رو خ شوں اور ی
ے و ی وں کا ا ہار اورکت ی کی وں می ں اف ض ا ہ کرےظہ ی ں ت کے ذری ع ان د وں طرح طرح کے صد ات و ث ی راتسجم ت
ہ
ے ہ ی ں اور ان پر اس کی ب ر ی ں اور عام ل و کرم اہ ر و ا ٓاپﷺ کے م ی الد پ اک کو کا ِر واب ھ ب لکہ
ق ن ف ش ے۔ ہ
امام مس الدیخن ب ن الج زری تالم فری ے رمای ا کہ:
ن عام۔ ()۳۸ ن ف
خ ص ن ومن واصہ ا ہ امان ام ی ذالک ال ق
ے۔ ے مج رب س ہ ہ امن نو امان اورم اصد حا ل کرے کے لی ن ے شمح ل م ی الد پورے سال کے لی
نکا فم ی الد الن ب یﷺ م ا ا لوگوں مصر اور ام کے ؒ
تف ق
ن ن خ ق
ی ح ش ف ا: عالمہ سخ ش ہ ش ی
رما ے اوی
سے ا ہوں ے ہللا کی و ی ق پ ن ے ہ ی ں اور کے ی ادم خرہ ی
کے ب اد اہ خ می ہ حرمی خنت ر ی ن مصر ئ
ج ک ش ب
اوالد کا
اپ ا ین ے بق ت س
ےت ی ت ال ر ھت ا ہ ے ی ق نوں نکا ا مہ ک ی ا۔ ب اد ناہ رعای ا کا ایس وں اور را ی بخ ہت ساری ب را ی ن
عالی ے ان کو ے و لف کررکھا ھا ،جو مہللا مح ف ٰ عدل و ا ب خصاف شکے ظلی ن ے ٓاپ شکو ے اپ ج
ے اور اق ہوں ال رکھت ا ہ ین ش
صدق اب و تسعتی د ق ل م ی الد کو ت م را ہ ا د ی ہ ت و ت ک ی اہ اد ب کہ ن ے
س ن ی دیش وت سےت ت رمدد او کر ےل اپ
ان کے دور ے۔ ھ ے ہ ر ہ و طرف کی ے را کے مﷺت کری ی ب ت
ے ً ا ہ م ہ اور ے ھ ے د ت ہا ڑی
ت م تج س خ ی قپ می ق ی ب
ے اور ہ ر لمب ی ی یج ہ ا ا ا ک اد کو ان ھ سا کے ی و
)۳۹ہ ب ر سو ھی۔ ر پ او سے ت س ی ا
ان کو ب ن ی ی اعت م ج کی ت راء ں م
شی کومت ح
ے۔ت( ت ہ ا ا ج
ؐ ا یا چ ف سے ش وں ا ب کن ان چ نوڑی پری
ت ف ے
ےشم اے ھ ن ک
کے ب اد اہ ل م ی الد ی س حم پ س
ؐ
ل حم ت ہ ش (ا ی ن) غ ن ا دلس
اتدلس اور م رب (یورپ) کے ب اد اہ ئاس رات کو ا سواروں کے سا ھ ج ل م یتالد ا ن ب ی می ں ف
سے نمع ہ وےت ت
اور ڑے علماء ٓا خمہ اور ان کے ش افمل ہ وے ،اس مح
سا ھی ہ ر ج گہ پ ڑے ب ت ب ں ی م ل
ے اور ے ھ ے ہی ں رہ مان ب ل ن د کرتے می رے ی ال می ں رومی ب ھی اس سے یچ ھ ک
کاق روںش ہکے در فم ی ان ت ل قمہ ای ق
ے۔()۴۰ دم ب دم چ ل ب ا ن ی ب اد ا وں کے سا ھ
ن ن ن ق لک ن ن نق یﷺ ج ہ دوست انن می ں مح ل م ی الد ا ن ب
ل
ے ؒوالوںقے ب ت ای ا دوسروں ے ئ عض ن دو ج رح کر ب ہ دوست انتکے لوگ ج یساشکہ م شھ
س ے والے اورش نھ م
ے کہ لنطان مارے ی خ الم تا خ موال ا زی ن الدی ن حمود ہ مدا ی ب دی کاٹوا عہ ہ ش ے۔ ہ ہت ٓاگے ھ سے ب خ ق
عالی اس پرئرحم و کرم کرے اور اس کو اچ ھاش ھکان ہ دے) ےق زمان ،ا ان دوران ہ مایوں ب اد اہ (ہللا ش
اس کو ی خ کی مالی امداد کا مو ع ں م لہ س س اس اور ے ا و ہ ل صاحب کے سات ھ ش ا ٰم مارادہ ک ی ائکہ لوہ ب ھیش ی خن
ل یش خ ج
ل اے ی تکن ی خ ے اس کفا اض کار کرد ا اور ہ ت ب ن
کردی کہ ب اد اہ شود اننکے پن اس ی ہ مددخلے اتن ھی رد ت ی یب غ جض
نر بیرم ان ے وزی عالی ر فحمن کے تل و کرم سے اس اء تکا ی ہ عالم ق ھا ،اب ب اد اہ ے پا ٰ ہللا و، ہ ر کر حا
تہ و ،وزیر ےف سن رکھا ےہ ی ے اگرچ فہ ھوڑےش و ت نکے لی الزمی غ مام ہ
شا کا ی خ الد م ل حم گہ اس ف کہ ش
کہا سے
ہک تسی مح مح ج ت ت
ے ،تصرف مح فل م ی الد ت و ہ ں ی ہ ک ر
ش ی ں نی م ل ش کی می ش اور ی کیھا عظ ی م کرے ہ ں۔ وز ر ے ش
و الوہن ع کے الد ی م ل ت خ ی کہ
سا ھ ی اری کاع رمان ناد شاہ کو م ورہ دی ا و ب اد اہ ے اہ ان ہ اس ب تاب کےئ ب ی ی
ئے م روب ات اور دوسرے لوازمات کا اہ مام ک ی ا شج اے اور ی ہ کہ ل تمی مج لس طرح طرح کے کھا اری شک ی ا کہ ج خ
وں س دو عض ب ھی ب خ ی ا ا کرد الن ع ا ں م عوام اور ر اکا ڑے ڑے ے، ا ا ست ب دو ن کا و ب و می ں
ن ش ش ی تگ ی ی ب ٹ ب بض ئ ک ی جش ن ب
ش ہ
ئ ط نت کے سا ھتمعاون اورتوزیر ے ادب سےصلو ا پ کڑا اورناسن دست کے مراہ حا ر ہ وے ،ب اد اہ ے ن
ھ ہ
ت حاض ل و ،دو وں ے ی خ حم رم کے ا ھ دق الےشچ و کہ ہ ن
کڑی،اس ام ی د سے کہ ی خ کا لطف اور ظ ر ع ای ت پ ن ن
ع
ے وا ع کی ،اس کی ب رکت سے ان کو ظ ی م م ام اور ان دوش وں ے ہللا اورئاس کے رسولﷺ کے لی
و وکت حاصل ہلو ی۔( )۴۱ن ن
یﷺ م ا ا اہ ل مکہ کا م ی الد ا ن ب ؒ ن ف
امام سخ اوی ے رمای ا:
38
ق خ
لل ش
صع ت ل‘‘ می ں وا ارے لوگ ہ می ہ ’’سوق ا ی ق رکت کی کان ہ ی تں ،ی ہ سارے کے س ت ق ب رو ی اہ ل مکہ
اس صد کو حا ل کر ا م مام لوگوں کے ہ مراہ ج اے ہ یئ ں اور ہ ر ای ک ن رسول ہللاﷺ کے م ام خوالدت تپر ت
ن ت
ک کہ کوضی یت ک ی ا ب د اور کم صی ب ی ا سعادت غ ے۔نی بہاں ن کا اص اہ مام قہ و ا ہ ت ے۔ عنی د کے دن اس ہپ
ں کہضت ا ہ وں کہ اب ق یم ے۔ ہ ن ا و ہ ر حا ہت ا ال ب ھی ن ر گور کا دس شمت از ج ح کہ ق ک ہاں ی ا۔ ت ہر ں ی ہ ے
ھ چ ی شم ن د
اس ے کہا :کہ ا ی مکہ وہ اں کے ی۔ ن اس ج گہ اور اس ون ت پرن ریف ٓاوری ث ہی ں ہ و ن کی ف ؒ ن
ریفہمکہ ش
ج
والوں کی اک رٹی ئت کو ھ نا ا ال ا اور ق ہت سارے لوگ و صرف ب ھ ک ک ت :کا و اں پر ٓا اچ اور ٓا چے ن ہ عالم الب ر ا ی ال ا عی
عوام کی مدد ص حن ے کھاے اور م ھا ی اں دی ا اور اس م ام پر م ی ٹالد کی ب ے ا ٹ تھ ے ٓاے ہ ی ں ان صکو ا ت ھ
ی م
زینارت کے لی
ے ا جلمال ے اس ب
ے ،اس کے ی اری ہ اری و س ت ی غں ل ی ہ ی ں۔ فی ہ ج خ ب کرس ا ،اس ام ی د پر کہ اس سے
وں کہ اب ان ے ل ی کن میئ ں کہت ا ہ ہش خ ا کر ری گ
ب ی ر کی ر سا م اور ب یر وہ ے ے می ں اس کی پ یروی ہ
کی ل نسل
ت ھ پ
ے اور ب حالت ی ہ ے اور مذکورہ چ یزوں می ں سے لوں کی و ب و رہ گ ی ہ دھواں رہ گ ی ا ہ کھا وں کا صرف ن
غ ن ے کہا:
ف غ ے کسی ے کہ ج ی س ہ
اما ال ی نام ا ہا ک یغام نہم
ق خ ل ساء الحیخ ی ر ساء ہ م()۴۲ واری ت خ
ے کی ے و ان ی موں کی طرح ہ ی ں کن می رے ی ال می ں ب یل ی ’’ تی ہ ی م
عورت ی ں نان کی
عور ی فں ہی ں رہ ی ں‘‘۔
نق ت ئ ف یﷺ ئ ف ث ل م ی الدخالن ب اہ ل مدی ن ہ کے ہ اں مح ن
اس پر ے ے) م ف لنم ی الد الن ب یﷺ م ع دشکرے ہ تو ح ت اہ لتمدی ن ہ (ہللا ا ہی ں ی ر ک ی ر ع طا رما
ش ش
ں ہ می ہ کام شل ر ای ان ان کے ب اد اہ مظ ر ے اس سلسلہ می ش ش
س ص ش ں۔ ری است (ارب نل) ن ت ےہی پوری وج ہ دی
ج م ح
اور قحد سےتب ڑھ کر انمام کنی ا ،جس کی ب ا پر امام ووی ( ارح ی ح لم) کے ی خ عشالمہ اب و ت امہ ( و صاحب ہ
عوادث) مینں اس ب اد اہقکی عریتف کی ،حسن اب (ال ت ع ے) ے اپ ی کت ف
اعث لی ال ب دع وال ہ ت م ب حم ہ
ن امت ھ
ب
است
ے ،اس کا ا مام کرے والے کی در اور عریف کی ے ’’ ل م ی الد س حب ہ ے ی کہا ہ ئ ھی ایس ے
ج اے گی‘‘۔ ف()۴۳
ن ش ف ن ن ؐ امام سخ اوی کا ق رمان
ےمال علی عاری قم ی الد ا ن ب ی م اتے کے واز می ں امام سخ اوی کا رمان ا ل کت اب کرے سے پ ل
ہ م ج ل
ش ئ ان کرے ہ ی ں کہ :ن ت ئ ن ام بف ی امام صاحب کا ل ؒمی م
ے کہا ب لکہ ش ا خ االسالم کے ی خ ب ل دن ہ
اس حث سے صرف ظ رنکرے و ب
اوی ے ل ض ئامام سخ خ ت
ن ن م پ ت
ج
کے ا م ا وا ل اب ن حج ر ہللا ان کو ا ی رحمت سے ڈھا پ لے اور انصکو ت کے ب اغ ب مر ب ت نا مہ ب شخ
ے وہ یح حی ن کی روای ت تے۔ ایسا امام جس کی طرف سے ہ ر بڑے عالم اور امام کو سہارا ملت ا ہ س
می ں کو ض
کت ش ے: ت تہ اس سے روایئ پر مروین ح رت ع ب دہللا اب نن ع ب ت ش
ے ہ ی ں، فھ ر روزہ
ن کا حرم) م (دس ورہ اع وم ی ہود ی کہ ھا ک
ن ی د و ے ن ال
ت ف ن ب ی کری مﷺ مدی ہ طی ب ہ ی
ر
ے رعونن کو ن ارے می ں پوچ ھا:ہ و ا ت
ے جس می ں ہللا بس حا ہ ک ت ہوں ے کہا :شی ہ دن ہ اس ب ن ان سے ؑ غٓاپ ے ض
ے ہ ی ں۔ ب ی عالی کے کر کے طور پر اس دن کا روزہ ر ھ موسی کو ج ات دی سو م ہللا ٰ رت ٰ رق ک ی ا اور حن ف
ق ؑ ت ا: کری مﷺ ے ی
رما
روزے۔کا امت کو ح موسی کا ح دار وں‘‘
ہ سے ب ڑھ کر ت ٰ ’’می ںنم ش ت
ا۔ ی د کم اس ت اور اھ ک ر روزہ کا ورہ عا ے ٓاپﷺ و
ے اور ز
ئ
ا ور ا اح ن م و ج سے ئ ں م اسن کہ ے
ک ن ہئ
ا ا ہ و ے ق ل ہاں تش ک سماع اور کھ ی ل کود کا ت ع
ج ہ ب ی چ ہ ج خ
ے و اس کو م ی خالد کا حصہ ب ن اے می ںت کو ی حرجن ہی ں تاور ج وشحرام اور عاون
ی ن مئ ہن و مدد ں م ی و اس دن کی
م ہ
ے می ں مام ب و روز ہ
ے ب لکہ م و اس ی نںفا ت الف ہ ے اس سےکم تع ک ی ا ج اے۔ یو ہی جس می عم مکروہ ہ
ے ہن ی ں ج یسا کہ اب ن قج ماعہ ے رمای ا: می ں ی ہ ہ ل ج اری ر ھ پ
ماعۃ ج ب ترا ی م بفن جت ہ ہ
ے نکہ زاہ د ،دوۃ ،معمر اب وقاسحاق انب ترا ی م ب ن ع ب دالرحی م ب ن با ی ت ہ
چ ت می ں ی ہ ب ات
ہ
کے لوگوں کو ھالے اور رماے اگر ک ک
کے مو ع پر ھا ا یت ار کر ت ے و م ی الد نب ویﷺ ف ں ھ ت ت ی مدی ن ہ الن ب یﷺ م
کے ہ ن ر دن محؐ ل م ی الد کا اہ مام کر ا۔ ف ت خ ش م رے بس م ں ہ و اف و ت م
ے ض ورے ہی پ ی ی
ے۔ ب ہ ب س اک حالی و اور ح ے ی
ل کے کہ م ل ہ ا الد ی م کا م کری ی ب ور ح کہ ں ی ہ ے رما اوی خ
س امام
39
ق نق متق
ش پر ب ڑا یر ے ول م کہ یسا ج وا ہ ل ن ں م مادر طن ج قس سال حض ور ن ب ی کری مﷺ کا حمل ب
ئ ھ ہ خ ی
ھری ہ وگئ ف ت خ
ے اور اہ ل مکہ گ لد سے لوں پ ت در کے بت ان ت یل ن ب ری ن
ی ہ م ز کی ان اب ھا۔ دور کا
ش حط
خ اور ت س
ے ہاں ت ہ ئ
اس سال کا ام ’’ا ح واال ھاج‘‘ پڑ گ ی ا۔()۴۵ ن کہ ک ی گو حال و ادہ ی ز ہت ب
ورب الکعب ۃ وھو امام الد ی ا وسراج اھٹلہا ق
ن ن
’’رب کعب ہ کی سم دمحمﷺ کا حمل ھہرا گ ی ا ،وہ امام د ی ا ہ ی ں اور د ی ا
والوں کے چ راغ ہ ی ں‘‘۔ ض ن
چ غ ن ش ارکہ ب م والدت
ت کی مﷺ ع ق کری ی ب ح ور
مال لیس اری ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ب والدت ہللا رب العزت ے ست اروں سے را اں کا ت
ئ ب ہق ن ت ے می ںتوہ اس لسل ئ اہ مام ک ی ا
نکی کض ب می ثں درج روای ت کا ؓذکر کرے ہ ی ں کہ امام ی ی ے ’’دال ل الن ب وۃ‘‘ می ں درج ذی ل ٓا نمہ کرام ن
ے کہ ح رت ع مان ب خنشابی ا نلعناص سے ی ہ روای ت ب ی ان کی ہ ئ عی
طب لرا ی اور ا و ض نم ے ؐ ب
ن ع ق ق ن ا ا ش م خ ی و رئ پ ش دا ی پ کی م اب و ہب کا ح ور ب ی ضکری
ب ن ن اب ول
ے ے ھی اپ اری ؒ ے کو م فال لی نکے اسیق وا ع ہب کا ح ورﷺ کی پ ی دا ش پر و ی م اے ش
ے کو اب وال رج ب ن ج وزی کے حوالے ے اور اس می ں صاحب کت اب ے اس وا ع ل ک ی ات م
رسالے می ں ا ف
ہ
ف خش نن ے رماے ہ ی ضں نکہ سے ب ی ان ک ی ا شہ
ہب کو ی ہ ل ب
اسشکا ر ا ون م
ج ب ب ی الدقکو ح ور ب ین مﷺ کی توالدت ی الد کی و یسم اےتپر خ ئ کری م
مان ام ی کو و ی م ن اے پر کس ٓاپﷺ کے م ل ت ف ےو نت ازل ہ و ی خہش قب دلہ مال ثکہ جس کی مذمت رٓان می ں
ق در اج رو خواب م تل
ے اور حسب و ی ق ٓاپﷺت کی حمب نت ٓاپﷺ کے م ی الد کیت و ی اں م ا ا ہ ے گا ج نو جم پ ن
ے عالی کی طرف سے اس کی ج زا ی ہ ہ وگی کہ ہللا ٰ
عالی اپ کی سم! ہللا خ ٰ ے ا ب ی عمر ج ت ے تھ ہ ن ال رچ کر ا فمی ضں م
سے ناپ ی عم وں ھری ن وں می خ ش ع
کرے گا۔ ں دا نلت ل می م ض
اہ ل کت اب حنور ب ینکری مﷺ نکی م ی الد کیئ شو ی م اے ہ ی ں
ص ح کے ا در س ی دہ ؓعا ؓہ کی ی ہ روای ت ب ی ان کی کہ حاکم ے اپ ی یح
ب
ے‘‘۔ ہٓاج ع ب دہللا ب ن ع ب دالم طلب کے ہ اں ب ی ٹ ا پ ی دا ہ وا پ ن
ہ
ے اور عرض نک ی ا :چ ہ ب اہ ر الکر می ٹں ٓاپﷺ کی والدہ ماج ٹدہ کے پ اس ہچ ئ وہ ی ہودی ئکو لے کر ن
ک ی ہ ب پ دکھا ی ں۔ وہ ب اہ ر ال ی ں ،لوگوں
وت کا ا ھرا وا کڑا د ھا۔ ے ٓاپﷺ تکی ی ھ م ب ارک سےت کپ ڑا ہ ٹ ہا کر م ہہر ب ک ن ے ہ وش ہ وکر گر پڑا ،ج ب ہ
ے لگا: وشنمی ں ٓای ئا و اس سے کہا گ ی ا :ی را ب را و ک ی ا وا؟ ہ ب ق
ل ی ہودی ب
)۴۸ اسرا ی ل۔ ( ئ ذہ ب ت ا ن ب وۃ نوہللا منن ی ئ
خ ش ئ سے گ ی‘‘ ت۔ن سم! ب وت ب تی اسرا یشل ش ’’ ہللاقکی
ت اےپ ج مناعت ریش! ب خ دا اب مہاری ان و وکت ا ی ب ڑھ ج اے گی کہ اس کی ب ر م رق و غ
ن ن ئ ئ گی۔ض ے چہ ک رب م
ی ب ے وں ادر ی یسا ع اور وں ہ را ہودی ی سے ہت ب ے ل ہ ت
سے ئ ش دا کی اسی طرح ؐ
ور
ف پ ی ن ب پ ی پ ن حن خ
ات بشوی می ں ایوان کسری می ں زلزلہ اور ارس ن ان ہ خیشارہ اص ے کی نوی د سبع ی د س ن ا ی ھی۔ ن ٓا کے رالزمان ٓا ت
ٰ ے۔ م
ساوہ کے پ ا بی کا ک ہ وجنا ا خ ش ا ل ہ رہ ی ح ش کدے کا ب جف ھ ج ا ا اور ت کے ٓا ؐ
ب
تپ ا ی ک ہ وگ ی ا م ی الد الن ب ب ہیقکے ئدن ن ارس کا ٓا نش کدہ ج ھ گ ی ا اور حی رہ سادہ کا
ی ی دال ل ب وۃخمی ں اب و عی م سے روای ت ب ی ان کرے ہ ی ں:
ت خ ن ف ۵۔ الی من واالسعاد بمولد ی ر ا خلع ب اد
دمحم ب ن ج ع ر الکتت ا ی کا م ی ُالد الن ب یﷺقپر لکھا ہ قوا م ن صر مگر ج امع رسالہ بمولد نی رالع ب اد ق واالسعاد ن الی من ن
ےج و دت پ ناور احترام سے تان سارے وا عات کو لمب د ک ی ا ہ ن ہای تفع ًی ف ً ہوں ے ے۔ اس می ں ا ف ہ
ے۔ ا ک ر حر ں م ب ی ا رداق ردا ھی ب ے ن
ی خ ن
ص م عرب دوسرے
ی یہ ی
ے اور والدت سے قپہل ن عات کش امل ہ ی ں ج و رسولﷺ کی ُ ان می ں وہن سبئوارق عادات وا
سب وا عات کو بنھی سوس جک ی ا ان ش ت دوران حمل دی کھا اور مح م ش ے ج و چک ھ نؓ
والدت کے ب عدنرو مانہ وے۔عقس ی دہ ٓام ہ ت
ے۔ م ر قم عالمہ ہزاد مج ددی ے رام سے ا ل تکت جاب ک ی ا ہ دت اور اح ت ے ہای ت ی ن صاحب کت اب غ
ے۔ کی ہ ا سے ے ی طر سن ح ا ہت ب مہ ر کا اس حت کے وان ع کے ں ی م وش ب ھی س ی دہ ٓامن ؓہ کی ٓا
40
غ
ن ؓ ن ض ش س ی دہ ٓامن ؓہ کی ٓا وش میت ں
کے م طابق ح رت س ی د فا ع بئدہللا تکا کاح نمخ دومہ عالم س ی دہ بم تیقبی ٓا من ؓہ کی م ی ت خ عالین ٰ اور ج نب ہللا
ہ
دہللا ے ان سے ا ت الط ک ی ا اور مج امعت رما ی۔ و ی ہ معزز وران کی طرف ن ل وگ ی ا سے ہ وا اورن ؓج اب ع ب ئ
ئ ن ن ن ض سے ہ و ی ں۔ ٓام ہئام ی د ت ث اور س ی دہ
ب ت
کی ص یر ح کے م نطابق نح ورﷺ کے عالوہ وع ا سا ی می ںم قسے کو تی اور ٓاپ کے طن اک رنٓا مہ ٹ
ارک کی ج ہ ن
اب ع ب دہللاشسے س ی دہ ٓام ہ کیق طرف ل نوا و ی ہ معۃ الم ب ش ؓ ن ت ھ
م ب ارکہ می ں ہی ں ہرا۔ ج ب ی ہ ور ج ش
ت (اب وی مقن ب تی علی ہ السالم) عب ھی۔ اس و ق ق ہ قب ن دو ب ب المرجت ب کی ی کم اور رات ی ا ماہ محرم رج ن
ج س ج س
ے۔ ئ دسہم ام کے شری ب ش ی م ھ ن ڑے۔ ادش ےم ابی طالب می ں ندرم ی ا ی ون ( مرۃ الو ٰطی) ی س
ساری د ن ی ا کے ب ت من ہ ف
ص ح کو وکت ما دقپڑ گ ی اس ب ت ت و ان ظ کی عالم ان
ش ا ب پ کے ب ل گر
نہ کرسکا الب ت ہ اپ ا مدعا اق اروں سے اہ ر کر ا ھا۔ ریش مکہ کا ہ ر ن دن اشکا ہ ر ادش اہ گو گا ہ وگ ا اور ورا دن گ ت گو ن
یٹ پ ب ی
ک ے کہا۔ رب کعب ہ کی سم! ہللا کے رسولﷺ اور کامل عالم کے ول ا ھا اور ہ ر ایئ موی یش اس رات ب شت
ے :عالم کے چ ارہ گر اور اہ ل عالم کے ئ ب کہ ای ک روای ت می ں ہ امام ،کمن مادر می ں ریشف لے ٓاے ہ ی ج من
ش ن ت خ ئ ں۔ ی ہ ے ن ت و ہ گر لوہ ج ں ئ یم کم کے والدہ ی پا ر ی مہر
ن ن گ
رات کو ی ھر ایسا ہ ھا ج و چ مک ہ گ ی ا ہ و اور کو ی طہ زمی ن ہ ھا جس می ں رو ی اس ئ ےہ ی ف ایس
ت ت ہ ن
ض ش ن اور رحت سرای ت ہ ہ کرہگ ی و۔ خ
صورتن ے۔ ئح ورﷺ کی ت م
دحالی می ں ب ال ھئ ے ام ل مئکہ س ت گی اور نطوی ل معا ی خب ن سے ثپ ل ن اس ف خ
سال کا ام ے۔ لہذا اس ت ے د
پن ی گ ا ٹ ل ر ان ے زا کے ات یا ع و ات ش یخ عط ئ
اور ی گ ل ‘‘ ر یمی نں ا ہی نں ل’’ت ی ی
ک ر
ش ت
واالب ہاج‘‘’’ک ا ش و و حالی واالمسال‘‘ئرکھ دی ا گ ی ا۔ یک و کہ اس سال پرچ م حمد اور اج ت ع ی ’’م ۃ ا ح ن
ت ن ت یک ت )ئ ۵۰ ( ے۔ ن و ہ
ن کن ش م ں ی م ادر م رحم الم) س ع
کرامت والے ن ؓ( خ ی ل
ا ہ ل ی ب
ہ کت ج ن
کی اب ا ی وں ے وے د ھ ی ھی ں ،جسئ ے وصودتسے قرو ن ا وار کو ل واب می تں اپ ٹ ٓام ہ ب ارہ ا ش س ی دہ غ
کے م طابق س ی دہ کو حاملہ ہ وے دو ماہئمکمل ات ی روا و وال ن ا ن ؓ ر
ن ی ح ح
ی ے۔ ھ ےھ ا گام
ج
ئم ترق و م ض ؑ گ
رب سے
ن ت
ے۔ گرامی س ی د ا ع ب دہللا ،ہای ت پ اکی زہ اور پ س دی دہ حالت می ں ہللا کو پ ی ارے ہ وگ ے کہ ح ور کے قوالد ٹ ئ
ف
ہ وے ھ
ن نن اس و ت ا ھا یس برس ھی۔ ارک ض ٓاپ کی عمر م ب ش
لب کے ھ ی ال ب و عدی ٓاپ کے والد ج ن اب عفب دالم ط ن ٓاپ کو نہر ی لت مٓاب مدی ن ہ منورہ می ں ف
ن ٓاج ت ک ای ک لمب ی سی گلی ب ن ال ج ار کے کا ات می ں سےتای ک ک تان می ں د ن ک ی ا گ ی ا۔ ٓاپ کاخ مد ن
م م
ے اس وش صی ب کی ج و ان کی ب ارگاہ می ں ے۔ و ک ی ا ہ ی سعادت ہ ے۔ جس کی زی ارت کی ج ا ی ہ می ضں ہ ق
ُ ن حا ری کا صد کرے۔
ن ج عف ل م ئ
کا ذکر س عرض ؓ دمحم ب ن ر ا کت ا ی ف ال کہ کی ہللا رب انلعزت کی ب ارگاہ می ں ا ق امام ض کے ب عدن ت اس ن
ارگاہ خ داو دی می ں کی اور اس وا عہ کو اب و عی م اور پب ِ ر ات و کی دہللا ب ع رت تؓح ے ہوں کرضے ہ ی ں ج و ا
نن عنب اس کے حوا خلے سے امام ج الل ئ ح رت ع ب دہللا ب
ً ب پ
ف ے: ا
فی ق ی ہ ن ک ان ب ھی
ی
ں م ری
ن بل ب ن ٰ ی ک قا ص اص ال
ن ل
ف نمی ئ ص ی ا ے س وطی ف ق الدی ن ی
ن الت ال ال کۃ ا ھ ا وس ی د ا ی ب ی ک ھذا ت ی ما ال ہللا ا ا لہ ولی وحا ظ
ن ف ت ن ر۔()۵۱
ن و فصی ش ت
کہا :ی اہللا ی را ب یﷺ ی ت ی م پ ی دا ہ وگا :ہللا پ اک ے رمای ا: ف ن ے وں ’’ ر
ت ً ت ان اور مددگار وں۔ ب‘‘ ہ ت می ں ان کا محا ظ و ہ ب خ
گ
ک
کے اسم پ اک سے اح جرامانب ر ی ں وب ت لوۃ و سالم یھ ج و خاور تان ص وب پر ن رے حمب ت
ح ت ص پس م سب می
کی حاملہ وا ی نشکو کمتدی ا کہ وہ تلڑکوں کو م تدی ں ی ہ امت ت مام عالم ے ق عالی ت ت اس س تال ہللا ظب ارک و ٰ حا ل کرو اور
ے۔ ر ا و ہ ں م خ ر
ی ا رو س ب ہرہ کا اس ک اکہ ھا ے ی کے ار ہ ا کے مت ع
سب ٓاپ ن ظ ؓ ف
کی
ہ ی ی ک ی ل
ن حم ن ع
ن ی ں: دہ ٓام ہ رما ی ہ ب ی قس
ے ئکا رکت واال ل ہی ں دی کھا۔ ٓاپ کے کہ نکا پ ھلکاناور ظ ینم ب ن سے زی ادہ ہ ل ک
اس سم خ دا! می ں ے ن
ے اور دوڑ دھوپ وانلے کاموں می ں کو ی ھر
ت
چل ئ خ پ ے ے، ا ئ
ج ے ٓا ں ےئکہ اس سے ا ی ی
ہ ں ہ م طلب ین ہ ہ
ان سے ت
ے وحمواب می ہں ای ک ٓاے واال ٓاجی ا ناور ش ہ ئ
رکاوٹ ہی نں ٓا ی۔شج ب ٓاپ تکو ام ی دخ سے وے چ ھ نماہ گزر گ ت
رف کا
سے ب ھی اپ ان ے ن سے ا م ب و۔
ض حم ج سے ل کے
ن ن ال قن اور سرور کو یش ن ن ےن ک م ب ہ ری ٓام ہ! ب کہا:صاے ت
ے کسی ہ
ے کو پو ی دہ ر ھ ا اور و ع ل سے پ ل ک م
ے معا ل ک
اس کا ام ’’دمحم‘‘ ر ھ ا اور اپ حا ل کرلونو ن
حال ب ی ان ہ کر ا۔
41
نق قتف ن ن ن
ن
ت ے: ے عمرو ب ن ی ب ہ کے ؓحوالے سے نحدقی ث ل کی ہ ن ہانی ض
اور اب و عی م اص
ے: روای ت ل کی ت اور اب و عی م ہ ی یے ح سفرت شع ب دہللا ب ن ع اس کی خ
ے پ ی اس لگ رہ ی ھی سو ے بج و می رے ی ال می ں دودھہ ھا جم ھ روب ہ ن پ ھر می ں ے د کھا کہ ی د م
ی ک ت بن ق ت ن ن سے پی ل ی تا۔ یتہ شم ں ے ا ش
ن ور می رے اوپر چ ھا گ ی ا۔ پ ھر می ں ےقسر نو د عور ی ں خد ھی ں ج و و ہت زی ادہ ھا۔ پ ھر ب ن ی شہد سے زیشادہ ت ی ری جں
ے چجماروں اطراف سے می رے گرد حل ہ ب ال ی ا۔ می ں س ت جع ب ہ ا م کی دو ی زأوں یسی ھی ں۔ ا ن ہوں ن
ت ت ن ے ان ل ا؟ ک
ے یضس کے عالم می ں ظھی :می رے فہللا! ا ہوں ے ھ
اور م جعراج اشیلن ب یﷺ والی دو وں رات ی ں دن ی ا پکی دی گر مام ے کہ ضوالدت ب اسعادت ات اہ ر ہ ح ت ق یہ ب
ے ا ٓا
فض ی ی یہ ش ں م وں را دو ان ھ چک و ج کہ ے ہ ن رو اور ح وا کہن یسا ج ں۔ ہ
تی ل ا ت ج
ح و ل ی ال را وں سے ب
ے۔ ہ ق ً ت ط د پا
کے ا ت یام رہ ں خ م الوہ ع کے دو
ہوہقدن ج و ان را وں ی ان وہ ے وا ہ ر اور و وع ظپ ذی
اس ے ئاور قہ ت ل ا ت
سے ام ا ام م ی ق
ا وا، لوع پ ت طرح اسی
ے و ی ہ ن یدو را ی ں اسی اب ل سب چک ھ اگر بوا عت ا ایسا نہ یی ہئ ش ے اور تی ہ ہ اسی مو ع پر م ن اسبنلگت ا کی مث ب ات کا ا ہار
ئای ا ج اے اور کی و ب ھال ی قکے تطرح م ئٓاے والی راتعکو تب ع ی د کی سال)
انطور پر ائسے اپ ن ای ا ج ا ن
ر ہ ( ل ہ ی ں کہ
ے۔اور اس کی ظ ی نم و بکری م کرئے ئہ وے فاس می ں ہللا کی کت اب م دس ش موسم کے
ن سرت اور اس کی فب کضثرت پڑھی ج اے۔تاس کی صف ت ب می ں وہ امور ج ا العے ج ا ی ں جن و شرحت ،م ئ
م ئ
ے پر کر ادا ک ی ا ج اے ج و اس ے عالی کا ن اس فعمت ظ ٰمی کے ل ے ہ وں اور ہللا ؐ ی لت پر داللت کر ش
خ اص م ی الد کی رات ( ب م ی الد الن ب ی) ٰ کو ع ای ت رما ی۔
43
ت ن ئ ت ف ئ ت ض
ہ ت ہ ہ م ل ہ
عالی
ٰ ہللات اور ے ل پ
ھ سے ے ٓا کے وں ی
ھ ا ی ت و گر ں، یم ل ی ا ام ق ع و ی و والدت کی ض ورﷺ ن ح
ورﷺ غکے وج نود ا دس کی ب دولت ہ ی نو ہ ا ھی وں کو مکہ سے دور د ک ی لئدی ا ھا۔ ئ ے مکہ مکرمہ می ں ح
ت
ٓاپکدورت جکے قہای ت پباکی زگی کی حالت می ں ہ فو ی ،ق ئاور ئ ت
ہ
ٓاپﷺ کی پ ی دا ش ب ی ر کسیٹ اپ اکی
ت
پن ن ش ش
عزت و کر واال م تام ت اور ے ہ ن ھی اع د لہ ب کہ ض و خ ے
ھ ےش خ و ے ن ھا ا طرف ن کی ٓاسمان ن ادت
ق ہ ا یا گ ت
گ ب
ڑپ کے سا ھ
مکم ساری اور غ وع خو وع ،عاج زی و ا ک ت ن ے۔ ٓاپ کی ب ی ہ ا ل ی اں ب د ھی ں۔ ہای ت ن ھی ہ
ے الق و مالک کی طرف م وج ہ ہ وکر ن ی ر سے ل پصرفشاور صرف ا خ ے ت لین دگی و عالمات ع ب دی خ لوازمات ب ف نق
ت ت
دست الہٰی ہ سے ٓاراس ہ و پ یراس ہ معطر و مع ب ر ہ وکر، ں مسرور و م ون ( ت ہ ف دہ)ئ ن ا ن طاع کی کی ی ت می ن
ق ن ہ
مصطفسرمہ ٓا ھوں می ں لگاکر ج لوہ رما وے۔ت ک ع ای ت نازلی کا
یﷺ ج ب س یق قدہ ٓامن ؓہ کی گود می ںتٓاگ ی ا و اس کی چ مک دمک سے پوراتعالم ب ن عہ ور ب ن گ ی ا۔ ت ن ظ و ِر ن
ہ
ی ہ ور انہ ر ظا وار ی ھا ن گر اسن کی ی نت چک ھ اور ون ی ھی۔ ب صارت کو ب قصی رت نکےت سا ھ ن م ر نگ کرکے ہ ح م ہ
اس ذات م دس کا ور ھا ج و ا ا من ورہللا ق
کی خ ں۔ یتہ غ کل جسما ی لماتنکو م ور کردی ا مع نمولی ور کا کام ہی ئ
ے ہ وے ھا۔ رض ی ہ کہ اس روز عالم می ں ای ک اص سم ے۔ت ی ہ ور اجسام کے ا در سرایع قت یک خ صداق ہئ م شن
ش ق ے۔ س کے ادراک می ں ل ی رہ ہ ن کی رو ی و ی ھی ج ف ہ
ص ح نب تاور مال علی اری کی طرح س ی دہ ٓامن ؓہ کو ب نن ج ع ر الخکت ا ی ب ھی اب ن ج قوزی ،اب قن نحج ر مکی پامام دمحم ب
ئ
ٓاپﷺ کی والدہ ماج دہ ے کہ
ےن ےنہ ی ں ی س ج والدت ی ظش ٓا قے والے قوارق عادت وا ن عات لمب د کر ت
ش
ک
کے م الت تد ھا ی ح ں ام ق ک ایسا ور دی کھا ،جس کی اب ا ی وں می ں ا ہیخ ش
ٹ ٓاپ کے ہور دسی کے و ت ای ق ن
عادت نکے و ت تساری زمی ن ج گمگا ا ق ھی ،ست ارے و ی اور ع ی دت و اح رام ج س ا ب والدت اور ے،
گ ےل دی
ے عی ن ے ،ی ہاں ک کہ ٓاپ کے رب و وصال کے حصول کے لی ےتگل کے متارے ٓاپ کیخطرف ھک
ت ے۔ ا مم
خ غ ت کن ھا کہ وہ ارض اکی پر گر ج
ب و ری ب عالمات اورت رق رات ھی و سارے عالم می ں ج ظعی ق والدت ب ا ظسعادت کی م ب ارک ن جب ق
عادت امورتو وا عات کا ہور ہ وا۔ ی ہ ٓاپ کی ب وت کی اب ت داء اور ٓاپ کے ہور دسی کے اعالن و اح رام
ت
ب ب ن تش ت ف کے طور پر ھا۔
ے۔تجس کی وہ لوگ ع بغ ادت کرے ک ارس کے ٓا کدہ کا ج ھ ج ا ا بھی نہ ان شعالمات می ں شسے ای ت ت ت
سے لے از ٓا کےن اس اور ب
ھا ں ہ اھ ج سے سال زار کدہ ش ٓا تہ ےھ ے ص ح و ام اسےشرو ن رک ب اور ےھ
ت ج ن ن ی
صے ت ہ ی ًھ
ے کا ام ہی ں لی ت ا ھا، ھ ک ر ع تل ت ی طو ہ پی ر طور عام ے۔ ھ ے ے تب ق گ ہ
ر ھڑک اس کے عل ابن ت ک ف ج کر ب
ن ھا۔ ی ج خش ا ا ن ا د ھڑکا ب ھر پ ں یئ م ھر ب ھڑی ا پ یبر ر طور وری سے ا ر اور ھ پ
ے
ے۔ ہ
کے پ ا ی تکا ک (ج ذب) وج ا ا ہ ان ی شعالمات می ں سے ای قک دری اے ساوہ ہ
ت
ل ہ
عالی کا درود و الم و۔ ہ ر محہ و لحظ ہ اس س ے۔ ہللا ب ارک و ٰ ٓاج نکل ہر ’’ساوہ‘‘ اسی م ام پر ٓاب اد ہ
ق ف ن کے پ ی ارے ب ی و حب ی بﷺ پر۔
ب ے و کو ن ہ کے رتی ج ب ہ الماتت می ں سے ای ک وادی ’’سماوہ‘‘ کا سی ن
ن ق ان جعی ب ع
ی ل نراب نو ا ھیی کہ ت ب
ے می نں ہی شں ٓای ا ھا ن کن ےن اور د مھٹ ل اس تمی ں پ ا ی کا تہ و ا سنٹ ٓاب و فگ ی اہ س ی ھی اور اس سے ب ت ے ش اشی ک ب
ے پ ا ی کا مہ ب ہہ کال۔ چ ل کھا ا وا ھ ڈے ی ھ ہ نں مار ا ،لہرا ا سے موج ی ص
ہ ص ناور ب ش ب والدت ری ہ کی ب ح ی ہ ٹاں خ ت
ات دن ےس ش رف حاث ل ک ی ا،نپ ل نن ے دودھ پ الے کا ن سرکار دو عالمﷺ کو ٓا ھ وا ی
’’ وی ب ہ‘‘ ے چ ن د ماہ رف رض اعت ٓازاد کردہ ک ی ز ج ن ہب کی ح
ے ،پئھر اب ول ٓامنف ؓہق پ ن ٓاپﷺ تکین والدہض ماج دہ سحی دہ ش
سرکار دو عالمﷺ کی تذات ں ی ہ ض ں ی ہ وہ ہ ؓ
ی عد س مہ ی ل ئ ں۔ ی
گ چ ہ ہ ؓ
ی مہ یل رت حاصل ک ی ا۔ آا تکہ ح ت
ے کہ ٓاپﷺ ح رت حلی مہ س نعدی ہ کے پ اس ھ ت ناور مرادی ں حاصل ہ و ی ں۔ ں ،تب رک ی ں خ نسے ب ڑی سعاد ی
ص
ں۔ ت
مع دودھ پبالکر داشری ن کیضسعاد ی ں حاص ل کرلی ت ٓاپ کو ن ک تاور ا ون فے ن خ ب و سعد کی ای
امی ےنھی رف ر اعت حا ل ک ی ا اور مام ی ں سمی ٹ لی نں۔
ص ب ک اسون ’’تام نروہ‘‘ خ ت ش ق ای ب ن
ام سے ہ ر ای ک کا ئکی۔ ان می فں ق م ت ہور ت ب ی لہ ی ت ن لی م خکی ت ی ن کنواری وا ی ن ے غھی ی ہ سعادتتحا ل
سے) اپ ان دت ن ع
عان کہ ھا۔ ان ی وں وا ی ن ے ٓاپ کو کسیقکی ٓا وش می ں گزرے ہ و تے دی کھ کر ( رط ی ن
فاپ ا پ ست ان پ یش ک ی ا اور ٓاپﷺ کے دہ ن ا دس لگای ا ،ان می ں دودھ ا ر ٓای ا اور ٓاپﷺ ے وش
ن
خ ت ن
ے ،درج ذی ل م ہور حدی ث می ں کمال مہرب ا ی سے ٓاپ ے ان ہ ی وا ی ن کو
ش
ا رمافی ا۔ ب عض ع ماء کا کہ ن
ہ ل
س ت ن ے: ی اد رمای ا ہ
ا ا اب ن العوا ک من م۔()۵۹ لی
44
خ ت ف بن س
ش ن ۔ ‘‘ وں ہ ا ٹ ی ب کا ن ی وا ٓاب ن م ن ت ع ت کی م
وش ب خ ت خ لی ’’می خں و
اکرمﷺکو تدودھ پ الے کا رف حاصل ک ی ا ،اسے ے ب ی حق ق ن ون ن ا اور ج نس ب ھی ئ
ع ت ی
ض سے لق ج ضوڑ ل ی ا۔ح ؓ ش مالک عل ی ک ن ے ے ناپ دولت ای مان صی ب ہ وع ی اور ق
اس
رت رف ک ی ا گ ی ا۔ ح ن والی ح رت لی مہ کو م ت ے ق اس نسعقادت ظن ٰمی سے ب ی لہ ب خو تسعد تسے ق نر ھ
عزت کی گاہ رام و ف ے نحد احن بشے عزیز و ا ارب مینں ن پسرکردہف ا تون ھی ں۔ ا ت ی
ضہا کی لہ ی ے بت ی ی یحلی ؓمہ اپ ت
اور وو ما پ اے کی ر ت ار عام رت حلی ؓمہ رما ی ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کے ب ڑ تھ ت سے د کھی ج ا یت ب ب
ے ف ث
سے ز ادہ ھی۔ ب عد م ں اک ر حلی ؓ ح ں۔ ی ھ ب
ف ن سے ی ہ س ن ا نکر ی ھی۔ ن کی زبش ان م ب ارک ان ن مہ ی مہ ن ی ٹ وں چ
ے می ں یص ح کالم رماے لگ م ن
ے۔ ج و ے می ں ٓاپﷺ ے بف ول ائ روع کردتی ا اور وی ں ہی ہٓا ھوی ں ی
ے: سے ادا رماے وہ ی ہ ھ ث ارک کالم سب سے پ ب م ب
ان ز ےل
)۶۰ ہللا اکب ر کب یرا والعحمد للہ ی را و بس حان ہللا ب تکرۃ و تاصییفال۔( ث ک
ے ے۔ اور مام عر ی ں ب ک رت اسی کی ہ ی ں اور ہللا کی پ اکی ہ سب سے ب ڑا اورئ ظ مت واال ہ ب ہللا ش
ت ش ف ج ش ض خ ھی۔
ن ام ص ح ب ھی اور ب
ج
اکرمﷺ کا ھوال ریف رےض ھالی ا ے کہ غح ور ن ے صا ص کب ری می ں ذکر ک ی ا بہ ق س
ت ت امام ی وطی خ
ہ ہ ی ٰ بت غ
ے کہ ج نب ح ورﷺ ا
ی ک ی تہ ت روا ے
ن م ر ی و ی اور
ت ت امام اورت ساکر ن ب ع ن ا دادی، ت ے۔ طیت ب کرنےن ھ
اکرمﷺت سے نب ا شی ں کر ا ھا اور ٓاپ کو روے شسے فروکت اتھا۔ ج ب کہ ب ی تٓاپئ ےف و چ ا د ف
ے می تں وےگ ھ ہ ے پ ال اپ
اس طرفتوج ا ا ہ نطرف ا ارہ رماے وہ ف تاس سے ب ا ی ں اور ن گو رماے وے ا گ ت م ب ارکہ سے جس ہ ت
ت ھا اور ٓاپﷺ چ ا د کے ب ارگاہ رب العزت می ں سج دہ ریز ہ وے کی زور دار ٓاواز سماعت رمای ا کرے
ے۔ ھ
ت الم ک ل ص حا
خ ن ئ ض
ہ
ے ن کا ذکر ازل سے اامروز ا ل ج حاسن کا ج امع ہ ب
ذات کا اتف کی ج ملہ و یوں اور م
ے اور ی ہ حمب تت رسول کا ذی عہ ہق مصط یﷺ ہ ی ذکر خ دا ہ ت ورﷺ کی ش ہ
شح
ے ے اسی لی ف ث ذکر ہ ن ب ب ال ے۔ ہ ا ر وہ مان کا یای ف
ل از ئ ج ے ب ہت سی صن ی ات صنخ ی ق مصن ی ن عرب ے ج واز م ی الد کے ب وت کے لی
ف قکی نن می ں ب ئ
والدت کے معج زات ،ب عد از والدت کے معج ثزات سرکار دو عالمﷺ کا ود ع ی ہ کر ا اور دی گر ک ی دال ل ئ
ے۔ ات ک یئ کو واز نکے ج یﷺ ب ے ہ ی ں ج ضن سے م ی الد ال
ق ق
ی ل ہ ق اب ئ ن ن دی
اولی سے ج
ے را ج ہ ی نں کن ای ک معروف طری ہ و فرونئ ٰ ف ح ورﷺ کے م ین قالد م اے کے ک ی طری ف
ٓاپﷺ کےاوصاف حم ی دہ ،ض ا ل شو ث ن ں ے۔ ان پ اکیقزہ م ت ی
م ل حا ے محا ل م ی الد کا ا ع اد ہ خچ ال ئٓارہ ا ہ
ذوق و ت وق ں بڑے پ ن صورت می ن والدت ب اسعادت کے وا عاتخ کا ذکرہ ظ م اور ر تکی کماالت اور ت صا ل،ن ن
ہ
ے عروجفکو ً چ ج ا ا ت س س ف ت ی ب ف
االول می ں صوصی ت کے سا ھ ی ہل ل لہ اپ ے۔ ماہ رنع پ ن اور والہا ہ ا داز سے ک ی ا ج ا ا عہ ق
ے ی یہ ا ک ال ص ں ی م یﷺ ب ن مولدا ی موردالروی ل ا ف نی ص ی ا ت ے اری ے۔ ان محا ل کا ذکر مال ف
لی ہ
ت ے۔ع کی ان ب خ ر
ی ا کی الد ی م ت ل حا م کی ہ الم س ف ا الد ب وہ ں ی م س ج
ت ے ہ م م ی الد
ش
ے ل ی کن وہ گو ہ جس ا ت ھ ک ر ں ے ان یدر ے پ نہاہ ظ م ش ن
ا ہ گو ر و وں ا ک یﷺ
ت
مصط ی
ت ذکر
ہ ی ب پ ین ہ
سان کو ی اد کرے کے اس عظ ی م اح ظ ت عزت ل ا رب ئہللا مان ی ا ل ہ ا ں الن ب یﷺ بسے عب یر کرے ہ ی ں۔ ج ع ی
م س
ئ االول می ں ج و عمت ظ ف ٰمی مینں نع تطا ئکی گ ی اور اس ئ ہ
کے سا ھ ک ی ا ک ی ا عج ا ب ات ہور پ ذیر
ن
ص م ں۔ وہ ماہ ر ی ع ت ہی ئ
ن ے۔ ا ک ان
شی پ ی ق ی ق یص ب ی ہب ں م ے را ز ٓاو دل ی ہا ا ے س ن ی عرب ن انن ذکرہ ن س
لی ح کا ان ے ہو
ے و ی ح خ اری کت اب ال کاح ح ج ے می ں ا تی ک ہور وا عہ ہ م س
کے ئ ل ل ق م ی الد ا ن ب یﷺ قم ا تے پرتاج ر ن
ے۔شوہ اب ولہب کے م ر ں م وں با تک کی خ ی ر ا اور ر س و ل ا بف ض ن ے۔ ی ہ وا عہ مام می ں ل ک ی ا تگ خی ا
م ہ
ب ی
ت ج ت م ش ی ق ک ہ ف
اس ے۔ ن ے اسث کا ذکر زی تر ظ ر م الہ می ضں ا ل عربنی م ر م ک ب می خںش ھی ظا ل ہ فہ عذاب می ں ی ئ
ن کری ں ،ک نھا ا والدت پرش و ی کا ا ہار وم کے ورﷺ ئ تہ ح کہ ے ا و ہ ت ی تابہ سے ل طرح ان سب دال ئ
ن ی ع
کھال ی ں ،دی گر ع ب ادات کری ں اور اکہ ہللا ع ٰالی کی دی ہ و ی اس عمت ٰمی کا کرا ہ ادا کرے می ں اپ ا
ظ
حصہ ڈال سکی ں۔
45
شت ت ج ت سوم لک ئ باب ؐ
ت شت فم ی الد الن ب ی پر ھی گ ی ؐم ر لمکعرب ئی ک ت جب کے تم مالت
ق
ف صل اول :می الدا نلب ؐیپر لکھیگ ئیم رت جمعربیک تبمی ںمذکور بلازوالدتم شم تالتکا تذکرہ
صل دوم :می الدا نلب یپر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور ب عد از والدت م مالت کا ذکرہ
رب انلعزت ہللا گا۔ ے ر اری ک ذكر مصطف یﷺ ایسا ذکر ے کہ ج و ازل سے اری ے اور ا د ت
ن ج ت ہ ب نج ہ ؐ ہ ت ن ن
ے ام ہت پہل
ے کردی ا ھا۔ عرش بری ں پر پا سے بتھی ب
ت ے ال ں ی م ود جو ق
کے ٓاپ ذکرہ
ؐ ن کا وبن م
ے اپ ت حب
ے
ؐ ن ج ب
گرامی ج لوہن قگر رہ ا۔تٓاج اگر تامت
ے پر ٓاپ کا اسم ف
س ےپ ت کے پ ے حمب وب کا ام ھی ر م خک یشا۔ ت کے سا ؐھ اپ
ے و ی ہ اسی س ن نمس
خ ے می ں محا ل کا ا ع اد کر ی ہ ے اور اس ت ل ل ٓاپ کی والدت ب اسعادت کی و ی م ا ی ہ مہ ل
ے گی۔ ذکر حمب وب دا ای ک ے اور اب د ک ج اری رہ ے ج و ازل سے ج اری ہ ے کی ایعمک کڑی ہ وری سلس نل
ت ت ج ت ئ ک ل ے۔ ہ حمب وب و پ س ن دی دہ ق ل
ع ل
کے
ے۔ہجس ت یﷺ پر ھی گ ی عربی م ر م ک ب کے م لق ہ ی ہ ل
زیر ظ ر م الہ م ی الد ا
ن نب
ئذکر کے ب عد اب م ضان ک ب دوسرے بش تاب میتں ہ م ے م ی الد ا ن ب ضیﷺ کے نواز اور عدم واز کے
ج ج ُ
ں۔ اس می ں ح ورﷺ ے وے ہ ی قہ ق ت
ورﷺ کی قز دگی کا احاطہ یک ج م م
کے ان ن الت کا ذکر کری ںنگے شو ح ش
کے وج ود پُر ور کی خ یل ق ،اس ور کا پ ت در پ ت من ل ،ب ل از والدت کے وا عات ،ب عد از والدت کے
46
ئ ب مش ت م ض فض ئ ق ب ق
وا عات ،چ پ ن کے وا عات اور ٓاپﷺ کے ا ل و کماالت پر ل مو وعات پر حث کی گ ی
ے۔ہ
فصل اول
ت ج ت ؐ لک ئ
ميالد النب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور
قبل از والدت مشتمالت كا تذكره
47
ت ن ش متق ش ف ن
ئ یﷺ کا ت در ضت ؑل و ا ت ن ہ ن پ پ مصط ور
ن ظ ت ف
ٓاپﷺ کا ور اہ ر ہ نوا اور ض عالی ے خ یل ق رما ی ت و ے کہ ؑج ب ح رتم ت قٓادم کی تہللا ٰن ت یروا ن
مالفکے اع ب ار سے وا حن ہ وا اور ج بئور و سن ح ور وہ فو وا ہ ل ن اس کے ق
ث ہش ی ت رت
ض
س ط ج مصط ن
ت
ت پ م ج ضب ی ہ ن ور ؑح
ت پ ذیر ہ وے ؑاور کو
ی گ ہ پئ پ ن ضر اڑہ ودی ج ل کے یﷺ ٹ ت ور ٓاپ ق و وا ہ ل ن ؑ اس پ کے وح ض رتح ن
ع
ج ب ور حم قرت اب را ت ی م کے پ اس ن ل ہقوا ونگٓائ ھئڈی اور گل و لزار ن وگ ضی ج ب ورح رت اسما ی ل ن م ہ ت
مصطپف ای ا۔ ج ب ور ح رت ع بتدالم ط ٹلب کے ےناور صب ر ےگ کی نب رکت سے ف رب اخ ی دی ن ت کے پم ت قاس ن تل ہنوا و اس
یﷺ فکی وج ہ سے ہ ا ھی لو ای ا ٹگ ی ا۔ ابرہ ہ
مصط ن کے ب عد را جی کو پ ایٹا۔ ور ف اس ن ش ل ہ وا و ا ئہوں ے گی خ ش پ
ج
یﷺ سے گمگا ا ھا اور ھوم ا ھا۔ ص ا پ ہاڑ ور کو مکمل کست ہ و ی اور ب ی ت ہللا تو ی خسے ش
ج مال کے دولہا کی والدت کے سا ھ کمرہ اص رو ن ہ وگ ی ا۔()۱
کے دن کی اہ می ت پشیر ن
ق ش ج رہ سب
ن مرہ ن الب ک ن صی ن اف دمحمﷺ ن ع دہللا فن ع دالم طلب نن ہ ا م ن ع د م ن
ب ض ب ن ب ب ب خ ب ب ض ب بغ ب ب
لوی ب ن الب بض ن ہر ب ن مالک ب ن ر ب ؑن ک ن ان ہف ب نن زی مہن ب ن مدرکہ ب ن ال ی اس ب ن م ر ب ن زار عب ن
کےنرز د ضارج م د ہ ی ں۔((۳ م ی کن بعد شن عدن انف اور ہ رت اسماع ی ل ن ا راہ
ب ب ج ؒ ب م ب مصط ی ح
س کا ے جن تہ کی ان ی ب مدح کی ورﷺ ن ح ے وزی ب ج تن ا عد ب کے ان ن ب
ؐ ی کے یﷺ ج رہ خ
عالی ے ہللا ے۔ ہ ن ال م اک ب در ا کے ن لوق خ
م ئ ام مف و ے ہ ایسا سب کا خ
ٓاپ کہ ے ہ طرح ئ اس ف ھ کچ الصہ
بٰ ش ن ض ائ ل ت دمحمﷺ کو ض ا ل کے سات ھ م
ے۔ کے ور ہمی ںنای ک ور ری ؐعت ت ھی ہ خ ان اور ے ت ہ ا ی ک صوص ؐ ؐ ن
عالی کے وہ ث م
س اور یل ق ی ہی ں ک ی ا۔ ٓاپ ہللا ٰ عالی ے کو ی نٓاپ کی ل ہللا ٰ ے اور خ ٓاپ کا سب عالی تہ
ے۔ پ ہ ڑھا الم و درود ے ہاں ج دو رب ود ر پن ی ارے حمب وب ہ ی ں خ ج پ
س کہ
وبﷺ کو وہ سرچ ش مہ حسن ن ا ا کہ ت دمحمیﷺ کی یل ق ن ن و ِر
ہاںخ سے کائ ن ات کے ئح نسن کے ب ی قج پ حب ت ن ن م ے ا ے عزت
ت لپ ٹ ت ا رب ہللا ت ت
اتاس کا ن ت ب ج ا
ی ی تک ق ل ن ت و اس کو دمحمیﷺ ف ور ن ے الی ٰ ع ت ہللا ں۔ ت ی ہ ے مام ج مال ی ا ی سوےت ھو
عالی نے ھا۔ ہللا ٰ نہ ست و ب ود می ں اور چ خک ھ ب تھی ن ہ ھا۔ حت ی تکہ اب ھی ظ ام نکن ی کون کا اج راء ب ھی ہی ں ہ وا
ب طوی ل زما وں ے حج اب ات عظ مت می ں رکھا۔ پ ھر جم ت ق مکم ک ا تسے اپ ن ور دمحمیﷺ نکی یل ق خکے ب عد مد وں
پ
ارواح می ں ن ل ک ی ؓا گ ی ا۔ ھر عالم ف کو دمحمیﷺ ور اس و وا ہ ل ف ل کے ب عد ارواح ا ب اء کی ل ق کا عم
ن ی ش ین
ے من ب ع ی ِض ب ن ای ا گ ی ا۔ صحاب ہ کرام سے ارواح ا ب ی اء کے لی ِ اکر م ر اب ی ہرہ سے بمت وت بشاسےحقوہقی ں رف ت
ق
ے ہ ی ں۔ ناس ی ت کے ا ارات ل
ؓف ت دمحمیﷺ کی سی م ض ور
تق ق ن
ث ن ق ں:
تنی ث ئ ہ ے رما دہللا ع ن ر
جب ب ا رت
ارکہ کو ٓاج ت ب ح
ول کاندرج ہ ے کہ ی ہ ل ی قب ال ب ن فئ یہ ا ک ل ے ن
ع ق ی حد م و مہ ٓا ر ی ک ے ا ق کث ش ب م ث یحد اس کت
ے کہ امام س طال ی ے ے۔ ج ی س اور اس وجبہ سے ہرت و اہ ت کے ا ٰلی م ام پر ا ز ہ ن ے ہ ی رھ
ے۔ ((۷ ہ ئ
المواہ خب اللد ی ہ می ئ نں ھی نب ی ان ک ی ا
ق ف ت ت ن ق ساری کا ات ب ا فی ت اسی اطر ض ن
ک ل ح
عالی ے لم کو پ ی د ا رمای ا و اس کو کم دی ا کہ ھو ،لم ہللا ب کہ ں ہ ے رما مﷺ کری ی ب ن ح ور
ٰ ج ی
عرض کی: ت ے
ف کروں؟ ن ر حر
ی ت ی ا ک
ت تق ت ہللا ع ٰالی ے رمای ا :ت
ق الہ اال ہللا ت‘‘ کو حری می ری مخ
عالی کے کالم کو سو ہ زار سال نر کرو و لکلم ،ہللا ن ٰ لوقکمی نں می ری وح ی د ’’ال ئ (ا ک الکھ ت ل
عالی ے کہا ،ھو لم ے عرض ک ی ا :ی ارب! اور می ں ےفکے بلکعد ساکن ہ وگ ی۔ ہللا ٰ سال) نھ ک ا یلک
عالی ے رمای ا ھو! ٰ ہللا ھوں ی
ت ن تن نن ق ن ’’دمحم رسول ہللا‘‘ ((۸
ے۔ نہللا تالی تا ہے ام کے سا ھ م ق عرض ک ی ا :دمحمﷺ کون ہ ی ں؟ ج ن ق
پ ن کے ام کو و ے اپ ق ک ی س
ت ن فلم ے
دمحمﷺ ہ ہ وے و می ں ا ی ف اگر سم! کی الل ق ج و عزت ری م
ن تی ھو، ادب لم! اے ا: عالی ے رمای ٰ
ل
مخ لوق می ں سے کسی ای ک کو ھی پ ی دا ہ کر ا۔ اس و ت لم ہ ی ب ت ا ہٰی اور ت رسولﷺ کے
ص ب
48
جن ئ
لے ب نادل کی طرح اس می ں شب دی د تحرکت ض ے وا نں پ ھٹ گ ی ،ی ہاں ت ک کہ زبردستنگر اعث دو حصوں می بئ
ھ ص
ہللاﷺ‘‘ لکھا جس شے ھی ح ور ب ی کری مﷺ پر لوۃ یج ی و روز ب
ٰ ے ’’دمحم رسول ت ش ت
قہ و ی اور پ ھر اس
ے۔ ارت ہ ٓاپﷺ کی ریف ٓاوری کی ب اں ن ن ی امت اس کے ہم ق
ن ق ت ت ا و ہ ل دمحمیﷺ کا ن ن ور
ل ط ؓ نپ ش م ہ ت ہ ض ت
پش
لب کی ی ا ی ن اور پ اک رحموں میض ں ن ل و ا ؓوا ح رت نع ب دا تم وں ن ش دمحمیﷺ پ اک ؓ ب ور چ جت ض
ے سا ھ سی ورا یک ب ن ط ل ہ ط ل
ھی اپش
تب دا م لب ضکی ان ی رالی شھی۔ ح غرت ع ب دا م لب ت ت
سوس کرے۔ ج ب رت تع دالم طنلب کار کی رض ت سے اہ ر ک
می قں مکا و ح رت ع
ے و ی ر ضٓاپ کے پ اس ٓاکر ش ب ل ب ح طات ت کو مح
ط ل پ ہ
ے :اے عثب دا م لب! م پر شسوار وج أو اکہ م ضور دمحمﷺ سے م رف وں۔ ھر ح رت ع ب ئدا م لب ہ ہ ہ ط ل کہن
سے حاملہ ہ و ئی ں۔ ادی کی ناور وہ ح رت ع ب دہللا ،والد رسولنہللاﷺ ن عورت سے ن ے ای ک ی ربی ض
کی مان دن ے کمال می ں چ ا د کے دا رہ ح
کے چہرہ پر اپ ٓاپ دمحمﷺ ور اور
ن گا ے
لط ل ھ ڑ ب مال ج و سن ض کا دہللا ق ب ع رت تح
ے کہ کردی۔ کہا گنی ا ہ
بتسےئ ش ت وہ ادی ٓامن ہ ب ن ف ت
لب ے ٓاپ کی ش
ت م دا ب ع رت ت ن و اس ھا۔
ے ہ وے اور وق ور ج بفٓاپ ے حض رت ئٓامن ہ سے ش ادی کی و سو مکی عور ی ں کف ا سوس م
ن ت ل مصط یﷺ کیحخ اطر مرگ
ؓ ن ت ئ
دہ ش ف اء ب ور ب ی کری مﷺ سے حاملہ ہ و ں و ؓ ں۔ ن ی ض
ے ن ٓاپ ھی۔ رالی ی ٓاپ کی ش ان ہ ج ح ن سی
ے دن ی ا عزت ا رب ہللا کو ن
ت
ٓاپ وہ ہ س ی ہ ی ں ج ے ٓارزو کو ا ا۔ ی ؓ ع ذر کے دمحمﷺ سردار ف کے ان اوالد عد
من ل بش ن ع ح ل
پ ی ی ض ت ت
ی ہ
کی ن مام عور وں پرن ی لت دی۔ ھر ہللات شرب العزت کائ کم پورا وا اور ظ م رسول ،ی ر و ذیر ،سراج ی ر، پ
ن تن ے۔ن ئ ت س ی د ا دمحمﷺ اپ ی والدہ کے حمل ممی نں ریف ضلے ٓا
کی۔ سوس ہی ںئ رت ٓام ہ ے کو ی ھکاوٹ اور ن گی مح ت ش
ؓ ن
ح ٓاپﷺ کے حمل نکے یہ ئوں می ں اسی طرح ؓ
ئ ں ن ریف الے ٓاپﷺ اس د ی ا می ت االول می ں خ ے اور ج ب رب ی ع ن گ کے حم ئل کے و ؓماہن
گزر ن ٓاپ ؓ ت
ے وے ج ا۔ ہ ل ن
عادت م د و ی ں۔ ٓاپ ے ب ی کری مﷺ کو ت ہ زدہ ،سرمہ و ی ل گ گ ہ و ضٓاپ س ؓ
لط ن ن ہ ت ض حم چ م ن ش وصال کا دہللا ح رت ع ب
ؓ ن
ے رتٹع ب دا م لب ے اپ ب کے ل کا ھ ٹ اؓ ہی ہ روع وا و ح ے کہ ج ب س ی دہ ٓام تہ ض ف ن ج نراوی کہت ا ہ
اس مولود کی والدت ے خ اور کہا کہ می رےک ی دہللا کو ب الیضا ف رز ق د ار قم د رسول ہللاﷺ کے والد حم رم ح رت ع بخ ش
ے جھوری ں ری د کر الٔو۔ ے۔ تلہذا مدی ن فہ طیئب ہ جلأو اور ہ ماری و ی کی ی ا ت کے لی ن ا ہف ب ٓاگ ی کاضو ت ری ؓ
ت ن ن ی
ح رت نعتب قدہللا فےئ ر کی ی اری رما ی کنن مکہ و مدی ہ کے س
ے۔((۹ ہ ی و ہ ں یہ وارد موت ر ے اور پ
اس ے توہ ذات ج و ز لدہ ہ ے۔ پ اک فہ ش ال رماگ درضم ی ان ا ؓ
خ ن عرض ت ف ش ت ن ح رت ع ب دہللا کے وصال پر ر ض وں کی ب ارگاہ انہٰی می ں ف
ے کہ ج ب ح رت ع ب دہللا ے وصال رمای ا و ر وں ے ب ارگاہ داو دی می ں ہ ن راوی کہت ا ف
ف کی: عرض اور ا کئد ل ب کو ٓاوازوں ادی ر
ت تن اس دی! موال یی! ال ہٰی ت ری مخ لوق م ں ٓاپ کا مصط نی
ے اور اسی طرح ج ن و یہ ا گ رہ ہا ن یﷺ ی ی ش
ی ی
ن ا نس اور وحن ی
عرض کی اور ان می ں سے ہ ر ای ک دمحمﷺ کے ی ت ی م ہ وے کی وج ہ سے محزون ہ وگا۔ ہللا نےش ف تج ا وروں
ق عالی ے ار اد رمای ا :ئ ٰ
’’اے مال کہ! رک ج أو اور می رے ب ن دو! خ اموش ہ وج أو ،قی ہ چ یز می ری درت
دار ہ وں۔ می ں ناس سےن زی ادہ ح ےف می ں اس کے والدی ن ش
خ اورخ ارادہ سے ہ ن
کے د م وں کے الف تحامی و اصر کا الق ،رازق ،محا ظ ،نگہ ب ان اور اس ت
ے۔ لہذا م اس ے نح می چاور الزمی ہ ہ وں۔ موت می نرے ب دوں کے قلی
ب سے وہ گی ،ہ ر عشی ف ح سی نکو ب ا ی ہی ں ھوڑے موت ک ن سے محت اط رہ و کی و کہ ن
ے موت کا کم ار اد رمای ا‘‘۔ ے ب دوں کے لی ے جس ے اپ ذات پ اک ہ
اء کا ب ش ارت دی ن ن((۱۰
ن ئ ؑ شت ض ن
ا
ؓ ن حم ی س ی دہ ٓامن ؓہ کو ہ ر ماہ ا ب
اور س ی د ا دمحم ئے ض ٓادم ریف ال ےت کہ خل ٓام ہ کے پہل م خ ن راوی کہت ا
ے ہی ہ میض ں ح رت ؑ ت ش لع م
ہ
ف
ئ دمحم رت ت
حؑ ش اور
ن ے ض ال ف یر س ادر
ت ی رت خح اہم دوسرے دی۔
ش ر ق
ض ف ب کے ی راال ف امﷺ
ن رتیشف الے اور یسرے ماہ می ضں ح رت ؑوح دی۔ وکرم اور رف عالی کو ب ر ت ن کے ل ت فیﷺ مصط
ن ب ت ا ا کہ ٓاپ کا رز د ارج م ن د ح و صرت کا مالک ے۔ چ و ھ م ن
ے می ں ح رت ابراہ ی م ے ریف الکر ے ہی ہ ی
49
ض ن ف ت ق ش ف ض
نمصط یﷺ کے درو رف ی ل کے ق ٓاگاہ رمای ا۔ پ ا چ وی ں ہی ہ می چں ٹح رت
ن م لع م ل ج رت دمحم
ؑ ح
ے م تہی ن ہ می ں ے۔ مصطفٓاپ حاملہ ہ ی قں وہ صاحب مکارم تو عزت ٓاپ کو ب ت ای ا کہ ج ن سے ت نٓاکر ے ؑ ل ی اسماع
ھ ہ مع ع ش ض
سا وی ں مہی ن ہ یﷺم کی در و ج اہ ق ظ ی م محکے لق ثٓاپ کو ب ت ای ا۔ ش ف ےن ریف الکر دمحم موسی ؑ رت ٰ ح ض
مود ،حوض کو ر ،لواء نالحمد،خ اعت ام ن ٓاپ حا لہ ہ ی ضں۔ وہسم ؑ س سے میعں ح رت دأود ے ٓاکر ب ت ای ا کہ ج ٹ
ن م
رالزمان
ٓاپ ب نی ٓا ن ق
ج ان ے ٓاکر ب ت ای ا کہ ف ں تح شرت لی م خ ے۔ ٓا ضھوی ں ہی ؑہ مین
ی ع ظ ٰمی اور روزئ ازل نکا مالک نہ
نر دیفکہ ٓاپ کے رز د ار م د ول ف الکر ب سی ے ری ن ں۔ وی ں مہی ہ می ں ح رت ٰ سے حاملہ ہ و ی ئ
ے ی ہ نرمای ا :خ راست اور دی ن را ج کے م نالک ہ ی ں۔ش ان می ں سے ہ ر ای ک بن ی خ
(د ی ا اور ٓا ن رت واال رہ ت ’’اے ٓام ہ! ٓاپ کو ب ارت ہ و کہ ٓاپ س ی دالد ی ا ج ن
کے سردار سے حا نملہ ہ ی ں اور ج ب ٓاپ ان کو ج و م دی ں و ان کا ام
نق ن‘‘ ب۔( ۱۱پ(ن ’’دمحمﷺ‘‘ رکھ ا
ے۔ ((۱۲ ے ھی ا ی سی رۃ کی کت اب می ں ل ک ی ا ہ اس قروای ت کو اب تن اسحاق ق
ئ ئ ت والدت سے ن ب ل ب ارہ را وں کے وا عات
ص ؓ ن ہ نرب ی ع ج ب وی ں مہی ن ہ
ہ
رات و ی و س ی دہ ٓام ہ کو سرور مسرت حا ل و ی۔ دوسری ہ االول کی پ لی ئ ت ش
ئے کی بت ارت دی گ ی۔ یسری رات می ں کہا گ ی ا کہ ٓاپ اس سے حاملہ ہ ی ں ج و کے پ ا رات می ں شٓارزوب ت
ت ئ ہ ؑ ے ئگا۔ چ ون ھی رات می ں ٓاپ ض ن حمدو کر ج ا ال ہنماری ن
ن
ے وے د ھا کہ اے ٓام ہ! ک ی ہ ک ی م س
ب
ے ٓاسما وں سے ی ح ال کہ س ی۔ پ ا چ وی ں رات می ں ح رت ابرا م کو ی ہ ہ
ن ت ئ مکم ف مدح و عزت خکے مالک چ ٹ
چ
رات می ں ور مکا اور ی۔ فسا شوی تں ن کے بن اعث وشٹ ہ وج أو۔ ھ ی رات می ں رحت و جبنرکتن قل وگ ت
ہ
ؓ ن ے کائو ت ہ وا و ر وں ف ہ
کے گرد ن ش ے شس تی دہ ٓام ہ مد م ہی ں ہن وا۔ ٓا ھوی ں رات می ں نج ؓ ب ٓاپ کےغ ن ظم دی
ے کر و راتقمی ں تر وں ت ث نطواف ک ی ا۔ توی ں رات می ں س ی دہ ٓام ہ کی سعادت و ا اہ ر ہ و ی۔ دسوی ؓ ں ش
کے سا ھ ’’ال الہ اال ہللا‘‘ کا ورد ک ی ا۔ گ ی ارہ وی ں رات می ں س ی دہ ٓامن ہ سے م ت و عب ( ھکاوٹ) اء ئ
دور ہ نوگ ی۔ ((۱۳ ض
ف مﷺ کا وس ی لہ قح ور ب ی کری ن
ش ات حم ی دہ مﷺ کے ص ن ئ رٓان جم ی د می تں ب ی کری
سے پ ہال ے اور اس کی ان رب وب ی ف ن
ت کا سب ض ت ق ض ہللا ع ٰالی پوری کا ات کا پ ی دا کرے واال رب ہ
ے۔ ح ظورﷺ ئ
رحمت ہ ر ای ک کے سر پر سای ہ تگن ہ ے اور اس کی ے کہ وہ ہ رہای تک پر مہرب ان ہ ا اہ
ہ
سے ی ہ اہ ر وا ج
ے جس کی ب دولت ی ہ ساری کا ض ات معرض و ود می ں ٓا ی و اس ن ئ
کی ذات گرامی وہ س ی ہ
ے۔ ہللا ت ب ارک رحمت ہ ف ن ذات کی ورﷺ ح ے ی
ل کے
ن الم ع اس اس ے ہ رب ت تکہ جس جنس عالم کا ئ نہللا
یﷺ‘‘ کو مصط ے ’’ ور ق ہ
سال پ ل سےشہ زاروں ن عرض و ود می ں ٓاے ت ج
ن اس کا ات کے م ش عالی ے ض وخ ٰ
ن ق ک ی ا اور ح ورﷺ کے پ ی کر ب ری می ں اس دن ی ا می ں فریف ال نے سے ب ل ب نھی سب ا بت ی اء ن
کرام یل
ب ب ئ ف
عالی ے دے کر ہللا رب العزتق سےفمعا ی ج ھی ما گی اور دعا ھی ما گی اور ہللا ٰ ق
ے ٓاپﷺ کا وس ی لہ ن ن
ے کہ س
ضی ن ی ام ر ول نبدعا اور ی عا م کی ی ب سے ہنر ےن وب کے وس یؑ ل ض بم
ح ے اپ
ہ
ے ح ور ب ی کری مﷺ کے ذری عہ سے ی ہللا کے لی ے ض صور کو معاف کراے ن ٓادم ے اپ ت قح رت ت
ذات ب اب رکت کے ذری عہ ن کی
ن ی ہ ٓاپﷺ
ن ے الم س ا ہا ع حواء رت اور ا ک ل ص حا رب ن کا عالی
ف ؑ ل یل ن ضی ح
ن ں دعا کی ج ب پ ا ی ے طو ان می مﷺ کے ذری عہ حض رت وح خ ن ض کی۔ ح ور ب یئ کری ے کو عرض ق س ارش نکر ت
ف ٰ
سے نل ی ل ہللا ے اس گٓا سے مﷺ کی توج ہ ض ی۔حنور ب ی کری ش ول کرلی گ پ ن نان پر ب ل ئد ہ وا و ان شکیندعا بن
ے رو تن ک ی ا ھا۔ تح ور ب ی کرینمﷺ تکے وس ی لہ ت ہ چ اے فکے لی وں ےناذی ت ف ج ات ضپ ا ی جس کو دؑ من
ص ک
ن عالی کے زدی ک ر ن ب ہ عالی اور ادریس ے د نعا ماہ گی و ی ل کی ض ت سےعم ؑصف ہللا ئ ٰ رت ن سے ح ض
ے ت سے د ب ہ ج ے اور ٓاپ کے لی ف ےگ مﷺ شی کے ذری عہ ضح نرت اسماؑ ی ل ٓازاد کی زی ادہ ہ وا۔ ح قور ب ی ق
کری
ف مصط
ضیﷺ ؑکی وج ہ سے ض کوہ طور پ ؑر دمحم
ی ع موسی ِ رت ضٰ ج ے۔ئ ح الی ا گ ی ا ج یسا کہئرٓان کری م رب ا ی پر ا نہ دفہ
سی اور زب فور ح رتفدأود ٓاپ کےث ل
مصط ٰ رت کامشی اب ہ وے جنب کہ ان کے پ اس دا ضربی ٓا ی۔ نا ی ل ح ت
یﷺ کی ب ع ت پر
کم ع
کے ال اظ ش ں۔ وری ت ے ج ل اور ب ل دی اں ہ ی ق کے لین ے ہ ی ٓاپ ث شکی اہ د ہ ی ں اور کت
ے۔ ان مت ا نل ہ ن ٓاپ کیت ان و ظ ت ے۔ ہللا اکب تر! کسندر ت ن اہ د ہ ی ں باور اس میعظں تٓاپ کی ع قاء نمو ود ہ
عالی ے ا ی مر ب ہ ٓاپ پر سا وں ب ل د ٓاسما وں می ں ت
ص د حی ران ہ ی ں۔ ہللا ٰ عض ئ( م نوں)شپر لم م ں سے ف
ے۔ ی ٓا عد ب کے ح ب ام ار ی ت یرحمت ن ازل رما ی ج
ہ ب
50
ؑ ن ن پ ن ؓ ف ت ض
دمحمیﷺ اور نور یوسف کی ت ے کہ ور ی ہ
چ ت ی روا ہ ے
ھ م ج کہ ں ہ ے ت ئ ام ر اس ع ن قا رت
خ ؑ ہ یض ی نب ب حؑ
صور ی ،ب وت،ث ے اور ،کمال،ق وب وسف کے لی ٹ ی ال ح رت ن ٓادم می ں رعہ ا دازی ہن و ی و حسن و ج م ق صلب قش ف
م
ح ج
رٓان ،ذکاوت ،مہر ب وت ،سای ہ کرے واال ب ادل کا کڑا ،معہ ج ماعت ،م ام مود ،حوض کو ر اور ن اعت،
ن ض ض
ے ہ ی ں۔ ی ب او ٹ ی ح رت دمحمﷺ کے لی
ن فض ئ ن رکاتاسم دمحم و احمد کی ب ض
اب ن ج وزی حتورﷺ فکےتام دمحمﷺ اور احمدﷺ کے ا ل اور برکت ب ی ان کرے کے
ے ہ ی ں۔ رماے ہ ی ں: ے احادی ث ب ی ان کر ت لی
مؒ ے شکہ حدی ث می ں ٓا ا ہ
ت ق کی ر ج
ب ح ن ق احمد ن ی د ال اب ف ہ المہ ۲۔ مولد الن ب یﷺ از ع
یﷺ سے ب ل کے وا عات کو چک ھ اس طرح ب ی ان کرے ہ ی ں۔ مصط اب ن حج ر مکی والدت
ع خ ت ن پ ن ق ہللاﷺ کا اعزازشو خاکرام رسول ئ
ے ی ا ٰلی طاب ات ہ ھی کا ل ص ٓاپﷺ کے وق و کماالت ک ہی ں ہ چ سکت ا۔ ایس ح م ب
ب کو ی خ
ت پ غ ف ے :ن می ں سے ای ک طاب ی ہ ھی تہ
روں پر گواہ نب ن اعزاز و اکرام ع نطا رمائی اتکہ ٓاپ کوت مام ی م ی ت ہ کو ٓاپ ے ن ٰپ ن پ ن الی ع ان ٓای ات کری مہ نمی ں ہللا
ہللا ع ٰالی ے ا ہی ں ف
ج
ے وخ ے ھ ی
پ
امت کو وہ مام احکام ہ چ اد اس ب ات کا گواہئ تکہ ا ہوں ے ا ی ا ت ی پ غ ن ب ن انی ا
ے کہ مام ی مب ر ٓاپﷺ ہ ی کے مت ب ع اور لی ہ ہ ی ں۔ ج یسا کہ اس کی ے اور ی تہ اس لی ے شھ ے دقی پ ہ چ اے تکے لی
ش ع ن ق فش ق ے: عالی ی ہنول ا قارہ کر اعہ خطرف ہللا ت ٰ
م
ول ا ہدوا وا ا کم نمن ال اہ دی ن پر سے ب ل ن مولیﷺ پر اس رف و ٰمرت ارے ٓا ا و ام ا ظ م ہ م ش ہللا ع ٰالی ے ی ہ م ئ
ہ
ت ت ف
ے اور دی گر ا ب ی اء کرام ٓاپ ب ہ اال و د سب ہ ب کا ٓاپ کہ ے ا ت ہ
ی ی ب ں م وہ اکہ ا م ی
رماد
ن
ف کےنالحق ہ ی ں۔
ف ی ﷺ ب ای ا ج ن مصط ے ٓاپﷺ کو
مصط خ ت ن ہللا ن
یﷺ خ سے ے ن ہی ں ہللا ع ٰالی ے حمب ت اور لعت ت ب قی کری م ی فکی وہ ذات م ب ارکہ ہ ہ
م
ےقاور معراج کے سان ھ تٓاپ کو صوص تسے پ اکتہ رب ع طا رمای ا ج و ضاحاطہ ،ج نہت اور م زلت ق بف ن ای ا اور وہ
کی ٓاے اور ج ا ًے نو ت ًت امامت سے وازا اکہ ی ہ ب ت ای ا کرام ت ئا۔ ب ی ت الم دس می ں ح رات ا ب ی اء رمای
ہ
ج اے کہ ٓاپ ی ’’س ی دال ضل‘‘ ہ ی تں۔ ٓاپ تی مام ن ک ہ
ے حمب ؐ ت مددگار ہ ی ں۔ ن کے اب تندا اور ا ہا ق
وب کو ’’سب تق عالی تے اپ ی اذلی ت ساب ہ می ں پا ٰ ہللا
ن ے کہ ہ سے ی ہ ب فھی وا ح ہ وج ا ا ش اس ن
ہ ع م
عالی کا ارادہ ئ نم لوق کے یا ج اد سے ن لق وا و اس خ ہللا تف ج کہ طرح اس ن ہ ا۔ رما رف سے ق ‘‘ وت ن ب
ٰ ظ ی ی ق م
ےسے پہل کے وج ود می ں ٓاے خ ش خ ے ’’ح ی ت قدمحمقی ہ‘‘ کو ’’محض ور ت‘‘ سے ا نہ رئرمای ا اور ی ؐہ اس کاؐ ات
ٓاپ کی ’’عظ ی م رسالت‘‘ کی و ب ری ٓاپ کون ت ے اور ؑ مام عالم ب ا ض دمحمی ہ‘‘ سے وا۔ پ ھر اس ’’ ی ت ق
ح ہ ئ
ٹ رت ٓادم کا و ود ھی ہ ھا۔ اس کے ب عد ہللا رب العزت ب ج ہ سن
سب چک ھ اس و ت چ شوا ج ب ح ی۔ ی ہ ت ت ا
ے پ ھوے۔ کے حکم سے خ مام ارواح کے م
ن ف ت ن ض وج ود مسعود کی یل ق
یﷺ کو پ ی دا کر ضے کا مصط ے ح رت قدمحم عالیج ت کہ ج بٹہللا ئ ٰ ی
ے سے فرواحی ت ہ عب اح ب ار ؑ تک ض
لب (دل) ہ و۔ پس ح رت ت کا ن یم ز مام و ں
ی ئت ال ی م سی
ت ش ا
ف وہ کہ ا عید کم کو ل یرب ج رت ف ارادہ ک ی ا و ح ؑ
رے اور ج ہاں تابشٓاپﷺ ت ہ ٹ ا طرف کی ن ی مز ھ سا کے ٹ ٹ
وں ر کے لی
ٰٹ ا ع ی ر اور ردوس ن یم ان ل ج بریق
اس ج نگہ سے تم ی کی ای ک ٹھی ا ھا نی۔ ا ئل می ں و ٹی م ی ٹھی ج ہاں کعب ہ ریف موجنود ص م
س م ب م ن ے۔ ف کی ب رلایور ہ
وح ٓای ا و وہ ناں سے م ی مدی ہ م ورہتٓاگ ی۔ اس ف ھی ھر ھی کو ’’ نئ ی م‘‘ کے پ ا ی
ت
سے ج ن ے ن کن ج ب طو ان ہ
ئ ہ وگ ی پ ھر اس کو ہروں می ں ڈب ودی ا گ ی ا۔ ح نی کہ ای کنس ی د مو ی کی طرح ف شت ن کی ت سے گو دھا گ ی ا۔ پ ھر ا
نوں کے چ قکر لگاے۔ض دری أوں اور طواف ک ی تا۔ ٓاسم خا قوں اور زمی ےن وں ش ت لے کر عرش و کرسی کےئگرد ر ف
مولی ح رت دمحم ئ ارے ٓا ا و ہ ہٰ سم ن دروں کے گرد چ کر لگاے۔ پس ر ضوں ے ؑاور مام لو ات ے ہ م
م ئ
ے و یج ب نات ح رت ٓادم کی پ ی دا ش ناور پ ہچ ان سے ب ہت پ ل ان ل ی ا۔ ی ہ ب ئ ت ہللاﷺ کو پ ہچ رسول ؑ ض
ن‘‘ د ھا اور ٓاپ کا اسمتگرامی ان ت ک ی ’’ ور دمحمی ت ں م ردوں کے عرش ن ے ٓاپ و
ت ے و ہ دا پ ٓادم رت
عالی سے ہللا ق لنھا ج و ہللا فعالی کے ام کے ساپت ھ لکھا ہ یوا ت ھا و ٓاپ ے اس کے م ع ک پحردوں پر تلکھا یدی
ٰ ٰ
عالی ے ارش اد رمای ا: پوچ ھا ،ہللا ٰ
51
ن ن ن ت
ت
’’ی ہ ب ی مہاری اوالد می ں سے ہ ی ں۔ انتکا تٓاسما وں می ں ام ’’احمدت‘‘ اور
ے اگر وہ ن ہ ہ وے و می ں ن ہ مہی ں پ ی دا کر ا اور زنمی ن می ں ’’دمحمﷺ‘‘ ہ ت
ن ن ت ئ ہ ہ ی می ں ٓاسمان ،زمی ن پ ی ئدا کر ا‘‘۔((۱۷
پ صف ض
ح نرت قکعب اح ب ار کی روای ت کی ہ و ی ی ہ حدی ث ب ہت سے ٓا مہ کرام ے ا ی ن ی ات می ں ذکر
ت ے زیر ظ ر م الے ت ہ کی
ت ف ب ج م ش
می ں ا ل اب ن وزی کی ن ی ف مولدالعروس می ں ھی ھوڑے ال اظ کے ردوب دل کے سا ھ ب ی ان ک ی ا ص
ن
ن ظ ے۔ پ ش نہ
ض ش ن ق ت ں
ور دمحمی ی ا یض ٓادم می ؑ
ارک ان کی پ ی ا ی می تں چ مکا نپ ھر حت رت م ؑب ن ور کا اﷺ
ض ٓا مارے
ئ ہ و وا ہ ہور کا ؑ ج ئب حپسرت ض
ٓادم
گ
ٓادم ے ان کین طرف ہ ا ھ تب ڑھا ا چ اہ ا و ض نں لی سے ح رت حواء پ ی دا قکی ی تں۔ ح ترتن ٓادمت کی دا ی ف ش
ے کی اج ازت ہی ں ج ب ک ٓاپ ح ور ہ
روک دی ا اور کہا کہ اس و ت ک ا ھ لگا ت ن ر وں ے اسے ش
ب ی کری مﷺ پر درود ریف ن ہ پڑھی ں۔ ای ک روای ت می ں ی ن مرت ب ہ اور دوسری روای ت می ں ب یس مرت ب ہ
ن ن ت نق ۔(( ۱۸ن ن ے ق مذکور ہ
س
امام س طال ی ے امام اب ن ج وزی کے حوالے سے ل کرے ہ ی ں کہ ا ہوں ے کت اب ’’ لوۃ
ٰ ن ے: نی ا ہ االحزان‘‘ می ں ب ی ان ک
ؓ ض ؑ ض
ط
رت ع بندا مٹ لب ل وزی ے مولدالعروس می ں ور دمحمیﷺ کا ح رت ٓادم سے ضلے کر حؑ ن ت م ت ق اب ن ج ن
ےن ےب ی ے کہ نح رت ٓادم ے تاپ ے اور اس وصی ت کا ب ھی ذکر ک ی ا م ت ق
ہ ضک ن شل ہ ؑ وے کو ب ھی ب ی ان ک ی ا ن
ہ
عالی ے طرح ہللا ش ٰ نی زہ رح تموں میف ں ہ ی ن ل کر ا۔ اس ن ح رت ی ث کو نوصی ت کی کہ اس ور مکوت قصرف پ اک
کے ور کو پ اکی زہ رحموں می ں ن ل کرے کا اہ مام رمای ا ب لکہ ٓاپﷺ کے سب ریف کو ٓاپﷺ ق ت
ک ب
نج اہ لی ت کی ب اح وں سے ھی پ اک ر ھا۔
خ ن الک ن ور کی ب رکت نسے اب رہ ہ ہ ض
ش فط ل ن
ن ا ی پرش وب چ مکا۔ اس ‘‘ ح ور ت ب ی کری مﷺتکے دادا ج اب ع ب دا م لب کی پ ی ی ہ ’’ ور ندمحمین
حم
ف پر لہ ے کہ ق ری ق م ب ’’اصحاب ی ل‘‘ طرف وج ہ کی ج ض ن عالی کی ن ت ے تہللا ن ٰ نرکت سے ا ہوں ن کی ب
ٓان ب ر ت ت و کا ل مﷺ کے حم کری ی ب ور اب ھا۔ ا ا ہ صو کا ے کر اد ر سے ا اور ے
ن ی ئ ن ب ح ن ب ب ب ی م ن تب ب پکر ن ت
ے۔ ان پنر دوں ق
ے و سم د رکی طرف سے ٓاے تھ ج نچ ا ھا شھر ہللا عپ ٰالینے ہ ا ھی والوں پر اب ا ی ل پر دے یھج ق ن پ ہ
ئمی ں سے ب ا ی ب چ ا اکہ وہ ا ہی ں سے ب ل ہ ی ان کوہ الک کردی ا۔ صرف ای ک ہ ی ان ے ظ ے نمکہ ریف چہ ض
کی کرامت اور ارہ اص کے ب ارے می ں ب ت اے۔ ((۲۰ کے ہور ن مﷺ کری ی ب ور نح
ن ؓ پش ض
ش رت ع ب ضدہللا نکی ی ا ی می ں ور دمحمی ح ن
گرامی والد ن گرامی ع ب فدہللا کی پ قی ا یفمی ں رکھا۔ ٓاپ تکے ن ب پ ھر ی ہی ور ح ور ب بی کری مﷺ کے توالد ن
عالی ے ا ہی ں نی ا۔ ج ن ب ہللا ٰ ے ’’ دی ہ‘‘ تب ول رما عالی ت ہللا ہ ٰ کے ب دلہ می ں ن ش کے ذ ح ن وہ ’’ذی ح‘‘ ہنی ئں ج ن
ے تان وگ ی ان ھا۔ پس ہللا ع ٰالی ے ’’ض ور دمحمی‘‘ؓ کی ب رکت ت
زمزم نکے ک و ب ی ں کا براس ہ ب ت ای ا کی و کہ وہ ب
دہللا کی طرف کے والد ح رت ع ب ف ٓاپﷺ ب طرح کہ ہللا ع ٰالی ے سے ا ہی ں ذ ح سے چنال ی ا۔ وہ اس ق ن
ن
ن ب دلہن وہ ای ک سو او ٹ ذ ح کری ں ج ب ان کا دی ہ ادا کردی ا گ ی ا تب ذری عہ الہام ی ہ پ ی غنام پ ہ چ ای ا کہ نان کی رب ا ی کے
ے پ یش ک ی ا اور وہ سو ٓاپتکو ان کی زوج ی ت کےنلی ےئ ئ ھا۔ اس ےباپ ن ف عورت ے ان کا وہ ور دی ک ن و نای ک
ے۔ ی ہ سب چک ھ اسی ور دمحمیﷺ کی ے ھ ن ج ب
ےگ ے ضکا وعدہ ک ی ا وؓ ٓاپ شے دی ہ می ں ذت ح ک او ٹ تھی دی
رت ع ب دہللا کی پ ی ا شی می ں چ مکت ا ھا۔ ب ضدولت ھا ج ؓح ض
و
ؓ ن
ش ن ادی ت ؓ ح رت ع بض دہللا کی ح رت ؓٓام ہض سے
ن اس پ کے ت رہ ز خن اف
وہ ب ع ب شم ف ب ہ د ن ب کر لے ھ سا کو دہللا قع ب رت رت ع ب دالم ط قلب بحن ئ ح ش ت
ے۔تاس ے سے زی ادہ ری ضف ت صی ت ھ سردار اور سب ق تش و زہ رۃ ض ب ی لہ کے ؓ ے ج وٹ اس و لےنگ ف ری ق
ادی ح رت ع ب دہللا سے کردی و ریش می ں ا ل ری ن ئعورت ھی ں۔ ج ئ ؓ ن
اسی و ت ا ی ی ی ٓام ہ کی ت ف ب پ
ش ضادی کے ب عد شہ م ب ست ری ہن و ی و وری طورکپرنس ی دہحٓامن ؓہ ’’س ی دالخ لقﷺ‘‘& سے حاملہ ہ وگ ی ں۔ ((۲۱
ے کا کم ن ر دمحمﷺ ام
ن اور ارت ب کو ہ رت ٓامن ؓ
ت ن ھ ن ح
ے س ن ا: ے والے کو ی ہ کہ والدہ ماج دہن ے ی د اور ب ی داری کی ندرم ی ا ی حالت می ں کسی کہ
ن
ٓاپ کی ش
ا عرت ا ك حملت ب س ی د ه ذہ االمۃ و ب یها۔((۲۲
52
پ غ ق ت
ی
ے کہ اس امت کے ٓا ا و سردار اور مب ر ت’’ک ی ا مہی شں معلوم ہ وا فہ
غ ش ن ظ ے ہ ی ں؟‘‘۔ ارے کم می ں ج لوہ رماچ ک مہ ن
ہ ک ی
رق و م رب ےم خ (والدہ) سے ای ک ور ائہ رت وا جس کے لی ٹ ٓاپ کی والدہ ے ب ارہ ا دش ھا کہن ؓان ت ش
ے و س ی دہ ٓامنت ؓہ کے پ اس وابنمی ں گ گزر اہ
ٹ م ھ چ ےھ ک ر ف ٓاپﷺ کون کم ٓامنہ می ں ی
ر ن ے۔ ج ب چ مک ا ھ
ن
ے پ أوں سے نعمولی سی ھوکر لگا کر ب ت ای ا کہ م س ی دالعالمی م
ے پ یٹ ن کوناپ
ط م ک
ن ے واال ٓای ا۔ اس ے ا ہتی ں اپ ای ککٓا ت
ک
ے اور ان کے ب ارے می ں سی کو لع ہی ں می نں ر ھ ی و اور ان کا اسم گرامی م ے ’’دمحم‘‘ ر ھ ا ہ ہ
ن خ ف ئن ئ ض کر ا۔
ب
ن ت مخ دومہ کا خات ح رت ٓام ہ کی اس ک ی ت اور واب کا ذکر امام ج الل الدی ن ی وطی ے ھی
س ی ؓ ن
ے۔ ری‘‘ می ں ک ی ا ہ باپ ض ی صن ی ف ؓ’’ ال صا ص الک
ٰ ح رت ع ب دہللا کا وصال
ؓ نتق ض ج مش ت
ٓاپ کے والد گرامی ح رت ع ب دہللا کا ا ال ے کہ ق تہ ےہ و تہوری ری ن روای ض ک روای ت می ں ہہ ای
ے۔((۲۴ ف مو کا رات ر اکا ہی ھا ا گ و ی دوران کے ف ل کے حم ٓاپ
ف
ہ بع حق ؒ ی ل
۳۔ ا مورد الروی ی مولد ا ب یﷺ از عالمہ مال لی اری ل
ث
ے۔ اک ر ت ل ی
ل
ا عام االول ع یناکنثر ت ق دم ن و تمت اخ ن ری ن کاناجت ماع اسی ر ے کہ ت اری خ والدت ۱۲رب ئ
ہ ہکے ب ض ت قپ ؑ دمحمی کی خ م ی
ے ب ی ان کرے ہ ی ں۔ مال سے پہل ے ن ض ٓا ں یم ود ت جو ھی ٓادم رت ح ح و ا و
ت ہ کا ق ل
ی ور کرام ٓاع ق
مہ
کری
ئ اری ا مورد الروی می ں اس اری خ کی ی ق ھی ب ی ان کرےہ ی ں کہ ح ور ب ی مﷺ کب پ ی دا ب ل لی
ئ ے۔ ہ وض ن
ہ
ح ور ب ی کری مﷺ کب پ ی داف وے
ج ان کہ ہللا قکے اس رمان:
ف ن ن ش خ (ال رٓان)۱۲۸:۹
ے اور ظ مت شو ج اللت کی ص ف ت سے ع
موصوف ہ ظ ت ج و وصف رسالت و ب وت سے ی ع ی تص
ے اس رمان کی ارہ ا ہ ا طرف کی ہور اور کمال ہ مت صف ے ا و ہ ا ارہ ے ٓاپﷺ کے زمان ش ی
ہ یی ہ ہ ی ی
ن ن طرف۔
ن ( ۲۵ (
ن ۔ ‘‘ ن یط ل اوا ٓاء م ا
ی ل ن ب وٓادم ا بی ت ک ’’
ف
نے ل ی کن ی ہاگرچ ہ اس روای ت کے ب ارے می ں ب عض راویوں ے ی ہ کہا کہ ہ می ں ی ہ ال اظ ب ہیق ں مل ف
ے امام احمد ،یہ ی اور الحاکم ے ے جس ی ہ ت روا وہ ک ی ا سے ں یم ان ے نہ ود جو م ں ی م ات یروا ح ص
ح
ی ہوم م
ص
ن ف ض ن ے۔ روای ت ک ی اض اور کہا کہ اس کی س د یحؓ ح ہ
مﷺ ے رمای ا: ن کری ت ف
ے کہ ح ور ب ی ل ح رت عرب اض ب ن ساری ہ کی روای ت ہ
سنمعتف رسول ہللا ان ع ب دہللا ی ام الکت اب لخ ا م ا ب ی ی ن وان ٓادم
خ ؑ ض ت ۲۶ت( ل ن خ لم ج دل ی ط ی ن ت ہ۔ (
’’می تں ہللا کے ہ اں ا م ا ب ی ی ن لکھا ہ وا ھا ج ب کہ ح رت ٓادم کا پ ی کر اکی
اتب ھی ی ار ک ی ا ج ارہ ا
ن ن ن ن ت ن ھا‘‘۔
ے امام احمد ے اور ب خ اری ے اپ ی اری خ می ں ،اب و عی م ے حلی ۃ می ں اور ے جس کقروای ت می ہ
ں ن ای
ص
ح
ن ے۔ حاکم ے ی ح ضرار دی ا ہ
ے عرض ک ی ا: ہت ی ن ق ں م کہ ے ت یروا سے میسرہ ال بق ی
وٓادم ب ی فن الروح والجسد۔ ()۲۷ ال ت لت ی ارسول ہللا م ی کت ب ت ب ی ا ن
ے؟ رمای ا’’ :ج ب ٓادم روح اور ہللاﷺ! ٓاپ کب سے ب ی ھ ت ’’ی ارسول
ج
ب
ؓ ن ے‘‘۔ ض کے درم ی ان ؓھ سم ض
ے اور ٓاپﷺ ت کی ا ہ نلعاص بے ہھی روایم ث اسی حدی ث ؑکو ح رت اب وہ ریرہ اور ح رت عمرو ب ن ا ض ن
ے۔ ی ہ سب کی
ئ ت ہر
ع پ پ ب ر ےل ھی سے ے و ہ ان م در کے سم ج اور روح کے ٓادم رت وت ب کی
ہ ی ت ح
ہ
عزت و ظ مت کا اعالن وج اے اور سارے ٓاپﷺ کی ئ ے کہ ہللا رب العزت چ اہ ت ا ھا کہ ت ض ن چک ھ اس لی
ب یوں اور رسولوں می ں ٓاپﷺ کی ش ان ام ی از وا ح ہ وج اے۔
53
ق ن حق ق
ق ن ن ط
کے ب ارے امام س ت ال ی کا ب ی ان ی ت دمحمی ہﷺ ن ن ق
اس کے رزق م رر کرے ظ ف اور ے کر دا ی پ کے لوق ح ق ق خ
م ارادہ کا عالی ہللا ن ب ج کہ اہ ک ے ت امامنس طال ی
ٰ
پ
کےعا وار صمدی ت سے ی نت دمحمیﷺ کو اہ ر فرمای ائھر اس سے تہللا ن اس ے ب ارگاہ احدی ت ت تکا ہ وا ون
ت
ے امر ؑ’’کنہ‘‘ سے پ ی دا رمجاے۔ پ ھر ہللا ٰ
عالی کے م طابضق اپ ے نلم وئ ارادہ ق ستخاپ ےن مام عالم ب اال و پ خ ش عالی ض نٰ
ے ح ور ب نی کری مﷺ کو و ب ری س ا ی اس و ت ح رت ٓادم کی و ی صورت ھی و حدی ث پ اک می ں
ے ی ع ی ’’روح اور ج سم کے درم ی ان‘‘۔ نمذکور ہ
ن لوق دمحمیﷺ سب سے پ ہتلی مخ ور
ت ج خ ہ ض ع ق
م
ت نمال لی اری ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ح رت دمحمیﷺ ی وہ وری لوق ہ ی ں ،ن کو ہللا ب ارک و
اور اس ب ات کی دل ی ل کے طور پر امام ع ب دالرزاق کی اس روای ت کو ج و ے پ ی دا ک ی ا ن سب سے پہل ے ض عالی ن ن ٰ
ن ق ے۔ ا
عی ی ہ ک ان ب کو اس ے ہ کی ان ت یب سے لے ا حوخ کے صاری ا دہللا ع ن
جب ب ض ب ر ا رت ح ے ہوں ا
سے ہ ی ں اور لم حدی ث نمی ں ب ل د م ام ن مالکقکے نصوصی المذہ می تں ض امام ع ب دالرزاق ح رت امام
امام ع بتدالرزاق ے اس ول کو اپ ی س ن د کے سا ھ ح رت ج اب ر ب ن ع ب دہللا ا صاری سے کے حامل ہ ی ں۔ ف
ے۔ وہ رماے ہ ی ں:ن ن ت روای ت ک ی ا ہ
ے اور اس حدی قث ا ان ھی ب ں م عروس مولدا ف ص ی پا ے ق
وزی ن نج ن اسیئ ی ث ب
ا کو ث حد
ع ی ش ب ی ث قک ی ہ ل نی ث
ے۔ اسی وج ہ سے ی ہ حدی ث ہرت و اہ ت کے ا ٰلی م ام پر فم بئ ارکہ کو اک ر ٓا مہ ومحد ی ن ے ل ک ی ا ہ
ن ے۔ ن ا زہ
ن پش
پش ن مک ی چں م ٓادم ی ا ع ق ی کی دمحمیﷺ ور
تی ان ت ال لی اری ھی تاب ن نوزی کی طرح ور دمحمیﷺ کی ی ا ی ٓادمﷺ می ں چ مک کو ب ج ب م
ے ہ ی ں۔ کےق سا ھ وہن ور دمحمیﷺ کی اصالب طاہ رہ می ں ج لوہ گری کونب ھی ب ی ان کر ت ہ ں۔ اس ب کرے ہ ی
نسے روای ت کردہ حدی ث ب وی ب ی ان کرے ہ ی ں کہ نامام ی کی س ن می ں سے اب ن ع ب اس ن ی ے وہ ناس کے لی
ے۔ ا ت روا ھی ق ن ب ے ساکر ن ا اور م عی و ب ا اور ں م االوسط ے ی جس کو طب را
ی ن ی کی ہ ق ع فب ع ی تی ق
الب اطی ب ۃ مصفلی س اح لمت ی ثزل ہللاش ل ی منناالصف خ ت ال لم ل ق اب وای ط
الی االرحام ال طاهرہ ی ھذب ا وال عب عب ت ان االک ت ی ی رھما۔ ( م
ش ج ت ن ن ن (۲۹
ت
ے می ق ہ پ اکی تزہ ہ م
عالی ھ ب بک شت
’’می رے والدی ن حے ھی ھی گ اہ ہی ںتک ی ا ،ہللا ٰ
صاف س ھرا اور مہذب ب ن تاکر من ل کر ا ن طرف ج ت کی ئ موں ر زہ ی اک پ سے وں پ
ے ہللا ے اس می ں سے ب ہ ر گروہ می ں رہ ا ج ب ب ھی دو گروہ ہ وے و م ھ
رکھا‘‘۔
ت
ک
ن ش ؑ ن کہ ض ے ں ٓای ا ہ روای ت می ت
’’ج ب ن
پ
ہللا ع ٰالی ے ح رت ٓادم کو پ ی دا ک ی ا اور ان کی ت می ں ور دمحمیﷺ ر ھا و وہ پش
ٹ ت ش ف خت ن سے ن ی ا ٓاپﷺ کی تی ت
ن
نکےح ت تپر ب ل د ک ی ا اور ر وں کے ک ئدھوںن پر ا ئسے ا ھوای ا، ن ل مم
عالی ے اس ور کو کت ہللا
ن ھر پ ھا چ مکت ا
لم ٰ
‘‘۔ کے کوں کے عج ا ب ظ ر ٓا ی ں ت ے کا کم دی ا اکہ اس ؑ وں می ں اسنکے طواف کر ن اور ان کو ٓاسما ف
ک س حال رہ ی۔ پ ھر ہللا ن دمحمیﷺ) ٓادم کے سر می ں یا ت ش ف ت نامام ج ع تر ب ن دمحم ے کہا نکہ وہ روحئ( ور
ن و عظ ی م گے سج دہ کرے ئکا کم دی ا ج کے ٓا ن انے پ ھر ض ر وں کو ؑ عالی ے ان کو تمام مخ لوق کے ام سک تھا ٰ
ے ان کے ب ھا ی وں ے سج دہ وسف کے سام ت ی رتق ح ےادت کا تسج دہ ن ہ ؑھا ،ی س
ج ت ب ع المی کا سج دہ تھا، ق اور تس ق
ک ی ا ،و ح ی ت می ں ون م جسودلہ و ہللا ھا اور ٓادم کی ح ی ث ی ت ب لہ ج یسی ھی۔
نق ف ض ن ؓ اصالب طاہ برہہقمی ںنور کی نج لوہ نگری
ن ے: رمان ل کنی ا ہ مﷺ کا ی ہج ت ے اپ ی س ن می ں اب ن ع ب اسغسے ح ور ب یئکری خ ن امام ی ی ئ
ے و اسالمی کاح ے ’’می ری پ ی دا ش می ں دور ج اہ لی ت کی کسی لط کاری کا کو ی د ل ہی ں ،م ھ جن
خ ن
۔ ‘‘ ے ن یہ ا د م
ے الف ت ا کا ماء ع ں م اک سب عد کے
ان حض رت اسمانع ی تش
ن ہ پ ی ل ن ب عد ان خ
ل کی اوالد ت عد ے۔ ی ہ ادہ ز ہت
ن ب ہ ی اور ے پخ ہ ر او سے ان عد صرف الف
خ ت ا
پ ک ن
ے کہ دو وں کے درم ی ان ک ا زما ہ اور ت ی ی ں ہ ی ں۔ ن اس ب ات می ں ا ت سے ہ ی ں۔ مور ی ن کا ت
الف گہت ل ب ب ب
ے ہ ی ں۔ عض لوگ سات ،عض یس اور عض چ ا یس ن
54
ق ً َ کث َ ن َق ُ ْ
(ا رٓان )۳۸ :۲۵ ل و ُرو ًام َی ْن ٰذلِک َ ِی ْرا۔ ق ب
ن ف ت ت
ن ن ۔ ‘‘ ں ی ر گز ں ن عرصہ می ں ب ہت ی
م و ش اس ت ن ’’کہ ؓ ض
ے اور سوال نرہ سب ب ی ان کرے کو پ س د ہی ں رماے ھ امام مالک فعد ان کے ب عد ج ٹ ت ح رت خ
کہ ان مور تی ن کو ی ہ ص ی الت کس ے دی ہ ی ں؟ ((۳۰ ش ا ھاے
ن ے: عالی ہ مصطف ٰ ار ناد ب اری
ق ف ؓ ت ش
ہ
یﷺ سے حاملہ و ا ض ؓ س ی دہ ٓامن ؓہ ضکا ور
نؓ
کےشپ اس ینام رمای ا۔ رت ٓام ہب سےئ ادی نکے ب عد صرف ی نٹدن ٓاپ خ ن ت ح نرت ع ب دہللا کی ح
ا ضہی ی ن د وں می ں وہ ب ائب رکت گھڑی قھی ٓا ی ج نب ور ندمحمیﷺ کی گراں ب ارضاور در اں ؓاما ت ن
ش ش
نپ ی ا ی اسنور سے ج گمگا ا ھی ج و ح رت تع ب دہللا کی پ ی ا ی کے سپ رد ہ و ی اور ان نکی م دس ح رت ٓامن ؓتہ ت
ے کہ ں ٓا ا ہ ت می ن لےتے ی ہ اعالن ک ی ا۔ رواین می ں ج لوہ گر ھا و اس رات نای ک م ادی کرے وخا
ت ن
ےمو قالے ب ی ن و کہ نای تتک چ ھ پ ا ہ وا زا ہپ نھا جس سے ہ دای ت دی ’’سن لو وہ ور ج
رات کو ا ی ماں کے پ ی ٹ می ں ن نلن اکﷺ ے ہ و ا خھا اس پئ
ہ وے ج ہاں ٓاپ کی یل ق ل وگی اور ٓاپﷺ لوگوں کو ڈر س اے ہ مکم ظ
ے ہور پ ذیر ہ وں گے‘‘۔ ((۳۱ ظ کے لی ن
ت دمحمﷺ کا ہورن ؓ خ ض ور
س ؓ نی ان ضکر ی ہ ی ں کہ ح رت ٓام ہ ود ب
ص ح اب ن ح ب ان ے ح رت عرب اض ب ن ساری ہ ال لمی سے روای ت کی کہ یح
ض
ن خ غ ن دہللا ؓ کا وص قال ت ب ح رت ع
عالی کی درت کاملہ ے ٓاپﷺ کو ماں ب اپ کے ب ی ر ب ھی ہ ر کمال و وبی سے وازا اور ی ہ ہللائ ٰ
تی ش ئ ن ب ت ت ت ش ن ب
ن سن کی ہ ر زی ب ا تی و ح ش
ی
ے۔ ِان می اپ ھی ہ وے و ی ہ اہ ی ں اور ادا ی ں ہ ھر سک ب ے کہتماں شہ دلک ی تکے سا ھ یئوںحس توارا
دوسروں کے زیر ب نارف الی نکی ک ی کم ی ںنپوت ی دہ ھی ں۔ ج نن می ں سبنسے ا م ٓاپﷺتکو نہللا ع ٰ
سے ب می ں
ے۔ د ی ا ہ ے رب کا مرب وب اور رب ی ت ا ت ا صرف ی ب اکمال ہ کہ ھا ا کرا اور ہ اور
ن ا ا ن ے ہو
ی ہ پ ی ب یب چ
ق
ہ ہ پ ی ت کے کسی ضا سان کا ہیج عفں۔ ؓ ن ش ی
ے: یہ ا د رار م ا کو لو اسی کے ل می ے ِان ئ ح رت نامام ر صادق
ا نما ی ت ی م رسول ہللا ل ال ی کون علی ہ ح تق م لوق۔((۳۴
خ
’’ ب ی اکرمﷺ کو ی ت ی م پ ی دا ک ی ا گ ی ا اکہ کسی مخ لوق کا ٓاپ پر احسان ن ہ
ض لط ؓ ن ن ہ و‘‘۔
ے بصاحب زادے ح رت لب ے ا ٓاپﷺ کے ج د امج د غع ب داخم ن ل کے دورانق ش ت اسی مدت حم
پ غ ش دہللا کو ش
ے یھ ج ا۔ وانپ سی پر کے لی
بن ے د
ی نن ر لہ مراہ
ن ہ کے روں اج ی یر طرف
ئ کی زہ ت ہر کے ام عب
ے والد کے ھ ی ال ی عدی ب ن ج ار کے ہ اں ٓاپﷺ قکے والد حم رم ب ی مار ہ وفےئاور مدی ن ہ طی ب ہ می ں پا
ے۔ م ن
وصال رماگ عد ن ای ک ہی ہ تی ام کے بم ئ
ت ت ن ف ی ے کہ ال کہ ے کہا :ق ت ن کہا ج ا ا ہ
عالی ے رمای ا: ے و ہللا ٰ مارے ٓا فا! ظ ی را ب ی ت ینم رہ گ ی ا ہ م
اے ہ مارے عب ود! اور ہ
خش اس کی ح ا ت کرے واال اورقمددگار می ں ہ ئ نوں‘‘۔ وارث ت ع ق ’’اسنکا پ ن
ب
کی اسنو ی کو ھی اتن والدت سے ب ل ناج رام کا ق ن مال لی اری ے ا ی اس صن ی ف می ں
ت ش
ے۔ والدت فکی رات سر ن ام ہن ی سرور و ا بساطتکے راےف ضگاے لگ ض ے ج و اذن الفہٰی سے لمب ن د ک ی ا ہ
اور وہ ورا ی پروں کے سا ھ ہ وأوں اور خأوں می ں ادب و نوگ ی ا ب
ساتک ان عرش کی ٓامدو ر ئت می ں ھیش ا ا ہ ہ
ے ے۔ ضحوران ب ہ ت ے کا ا ٔہ ٓام خ ہ کو ھی رے میش ں لے ل ی ا اور ہ ر سو دمت کے لی
گ ؓ ن ن ش سے کھڑے ہ و اح ترام ئ
گ
ورﷺ خکے ج د امج د کو ب ھی واب می ں م اہ دہ کرای ا گ ی ا۔ غ ح طرح اسی ؓ ں۔ گ
مس عد ہ و ی ض
واب ب ن
یر و ب ی ع ج ا ک لب ط م ل دا ع رت
ض
ے کہ نٓاپﷺش کے ج د ا نمج د ح رت
خ
العی ے کہا :لوگوں نکا ی ال ک ا الم س ن خع ی اب وب رب ح
ک ہ ل ش ب
ے جس کا ع ب دالم طلب کو واب می ں ی ہ م اہ دہ کرای ا گ ی ا کہ چ ا دی کی ای ک ز ج یر ان کی پ ت سے لی ہ
55
غ ش
ے پ ھر وہ ہ طرف کی رب دوسرام غ سرا نم رق می ں اور ش ای ک سرخ آاسمان اور دوسرا زمی ن می ںئے۔ ا ک
ے اور م رق و م رب کے لوگ اس کے کا ور ہ ہجس یکا ہ ر ہ ر پ ت ای تک در ت کی صورت می ں ب دل گ ی،
ہ
ش ش ئ ئ ں۔ ( (۳۵ت ےہی خ سا ھ ل ٹ ک رہ
ت سے ای ک ب چ ہ پ ی دا ہ وگا۔ جس کی م نرق و ت پ کی ان کہ ی ی
ی بی ب گ ا ت ر ع ہ کی واب اس کے ان غ
ے ٓاپ کا ی ہ ام ن گے ،اسکلی
ن نیف کری ں لے اس کی عر ض م رب والے پ یرویتکری ںت گے ،زمی ن و ٓاسمان وا
ے کے سلسلہ می ں ن نؓ
رت ٓام ہ ے ج و چک ھ ب ی ان ک ی ا ام ر ھ کے سا ھ سا ھ ٓاپﷺ کی والدہ ح رکھا گ ی ا۔ اس ن
اس کو بق ھی پ یش ظ ر رکھا تگ ی ا ،پس دمحم اور احمد ٓاپ کے دو ام ہ ی ں۔
ے کہ ج یسا کہ رٓان پ اک می قں ٓا ا ہ
(ال نرٓان )۲۹۹ :۴۸ اور ف رمان خ
ے: ہ دی داو ق
(ال رٓان)۶ :۶۱
نق ن پن
ئ ے: ص
ح
ض نحاکم ے ا ی ی ح می ں ی ہ نرواشی ت ل کی ہ
ض ن ی و ہ ں یم دور ئ کے رواں کسری نکی والدت و ی ن ک ی ا ح ور ب ی کری مﷺ
ئ ہ ٰ ج ئ
عادل
کی والدت ن ب
ے کہ ح نور ب ی کری مﷺ
ص ش امام سخ اوی ے کہا ی ہ ب ات و زب ا وں پر چ ڑھی و ی ہ
لوگوں ے ئ ع
ے ججس کی کو ی ا ل ہی ں۔ الوہ ازی ں خعض ن دعوی ہ ی۔ یقہ ای ک ایسا کے دور می ں ہ و ق ن ب اد اہ ن
ئمی ں کو ی ا ت الف ہی ں ع
ے کہ لماء ے وہ ی ہ ہ لوگوں کا ر حان ہ ش
ٰ ب الک ضل ظن ر ا داز ک ی ا اور جس ی ت کی طرف ن
ح
ے۔ یہق ن ش ں پ ی دا ہ ون ب سری جو ی رواں عادلطکے دور می ٰ نںک کہ ح ور ب ی کری مﷺ مکہ مشکرمہ می
س وطی ے کہا ی ے عب
ب
تیے۔ ےط ب ا ث ل ہ می ں کہت ا ہ وں کہشزرک ی ے کہافکہ ی ہ ھوٹ ہ
ارے ی خ اب و ع ب دہللانحا ظف اس ب ات کو ب ا ل اب ت کرے ہ ی ں جس کو عض ج ہالء ب ی ان تان می ں کہا ہ ضم ن االی م
نش ا:
ین رما ے مﷺ کری ی ب ور ح کہ ں کر ہ ی
ے
’’ملک العادل‘‘ کے زماے می ں پ ی دا ہ وا اور اس سے مراد و ی روان
ئ ن ے۔ ((۳۷ ہ
ئکہ عادت محرم الحرام ،رجت ب المرج ب اور ترمض ان الم ب ارک می ں ش ہی ں ہ و ی بسق ش ا والدت ٓاپ کین
ص
ہ
سے رف حا ل و ا ،زمان و مکان و سرکار کی وج ہ سے م رف وے۔ ہ ے کی وج ہ ن نٓاپﷺ کو زما ف ض
ن ت ب ی کری مﷺ کی ی لت ب ا ی ا ب ی اء پر
ے کہ مام معزز یوں اور ب ڑے بڑے رسولوں ب ب ع
اور اس رسول ہللاﷺ کی ای ک ظ مت ی ہ ھی ہ
ن ئ سے ی ہ پکا وعدہ ل ی ا گ ی ا
ٓاپﷺ کی رسالت کا زمان ہ پ اے ٓاپﷺ کی عظ مت و ج اللت کے ظپ یش ظ ر ٓاپﷺ کہ ج و ب ھی ئ
ٓاپﷺ کے کماالت کو اس طرح اہ ر ک ی ا ج یسا کہ اس کی کرے۔ اور ت ٓاپﷺ کی مدد ف ت پر ای مان فالے اور
ن
عالی کے اس رمان کے حت اش ارہ ک ی ا۔ ٰ ہللا ق ے طرف م سری ن
نئ ف ئ ق (۸۱ف ن ن:۳ (ال رٓان
ن
ے اس رمان سے م ام ب ل د کی رہ ما ی رما ی۔ ن
اور ٓاپﷺ فے اپ
تلو تان موسی کان ح ی اء۔ ( )۳۸ن ت والذی ؑس ندمحم ب ی دہ
ف ن ارہ ہ ق و ا‘‘۔
ہ موسی ز دہ ہ وےنو می شری پ یروی کے سوا ان کو چ ن ’’اگر ٰ
ے اس رمان ے م ام کی طرف پا اور اسی کی طرف ٓاپ ﷺ ے ا ارہ ک ی ا ب لکہ اس سے ب ھی او چ
ئ ف خ ؓ سے :ض
ے :ت ہ مروی سے دری د سع ی و ب ا رت ح
( ۳۹ ( ی۔ لوا حت اال سواہ من ٓادم ذ من ب نی وم ئ ام و
ت ت ن ع ی ؑ ض
ے ہ وں’’ح رت ٓادم اور دی گر مام ا ب ی اء لیہم السالم می رے پرچ م ل
گے‘‘۔
56
ن ض
ئ ن ن ح رت حوا ؓ کا حقق مہر
ٓاپﷺ پر درود و سالم پڑھا گ ی ا، ل ا سا ی کی اب ت داءت ہ و ی۔ ن ق ی ہی م ام حمد ے جس کی و ہ سے س
ض نج ہ
تا۔ کاح کا مہر ح ورﷺ پر ۲۰مر ب ہ درود پڑ نھ ق ا رار پ یا کے ن الم ن حض رت ٓادم و حوا علی ھما الس ق
اسی حدی ث کو امام س طال ی ے عالمہ اب ن ج وزی کے حوالے سے ل کرے ہ ی ں کہ کت اب
فق ف ق ف ’’سلوۃ االحزان‘‘ می ں ذکر ک ی ا قکہ
ان ہ لما رام ال حرب م ها طلب ت م ہ ال شمه ر ال ی فارب وما ذا اع طیها ال ی ا ن ن
ن(دہللا ع ری ن مرۃ ع تل۔ (۴۰ ن ب ی ب ی دمحم ب ن ع ب ق ٓادم صلی علی
سےنرب ت کا ارادہ ک ی ا و اس ے ٓاپ سے ٓاپ ے اسض بی بی ؑ جب
روردگار! می ں باس کو کنی ا بپ اے کہا: ے ٓادم رت کی ح ا۔ لب ط حق م ف
ہر
ت
دوں؟ رمای ا :می رے حب ی ب دمحم ب ن ع ب دہللا پر یس مر ب ہ درود یھ جو ،ا ہوں ن
ے ی ا۔ ہ ؑ ےا س
ف ن ل ٓادم کا ن ب ی کری یمﷺک یسے توس رت
ض
خ ؑ ن خ
رت مر ن ال ؓ ض ح
ے کہ ب ی کری مﷺنے رمای ا :ج ب ٓادم سے ت طا ت
سرزد ہ ت یروا ت سے طاب ب ع ن ح ن ئ
سے سوال کر ا ہ وں و رب! می ںت منسے دمحمﷺ کے حق ہ وے کے توس ی لہ ن ہج و بی خا ہوں ے کہ تا :اےن ف
کہ اب ھی و می ں ے اس کو پن ی دا ب ھی ے پ نہچ ان ل ی ا ق ن کو جکی س دمحمﷺ ے ش دے ،ہللا ع ٰالی ے رمای ا :و ے ت نم ھ
پ
دست درت سے پ ی دا ک ی ا اور ا ی روح ے ے کہ ج ب و ے م ھ
ت ے اپ رب! اس لی ت ہی ں ک ی ا۔ نعرض ک ی ا:ناے ٹ
جم ھ می ں پ ھو کی می ں ے سر ا ھا کر دی کھا و عرش کی سی ڑھی وں پر لکھا ہ وا ھا:
ت ئ رسول ؓہللا‘‘ الہ اال ہللا دمحم خ ع ق ’’ال ض
ے ہ ی ں :ت ی ن ؓ کر ان بن ارکہ ب م ث یحد
ت ی فگ کی ئ ت ی روات سے طاب ن مر
ع ب رت مال علی ق اری حض
ت وے رماے ہ ی ں ار وہ سب ب وی ب ی ان تکرے ہ ئ مضال لی اری ح ورﷺ کا درج ہ ب یتان کرے
اکرمﷺ کے اج داد کے م علق عصر ئ رسول خ ں۔ نی قبت ا ہ
ے ق ورﷺ کے ٓاب فاء و اج دادٹ کے م عل ن ہ وضے ح
سے ق ادری ے ھی م لف ا مہ کرام کے حوالے ت ب ت حاض ر کے سی رت گار اور پرو ت
ن ل یسر ڈاکیر دمحم قطاہ رال پ ن ع
ے تہ یﷺ ج لد دوم می ں لمب د ک ی ا ہی وا نعات کو ا ی ؓ ن ی ف سی رۃ ا ن ب ق ص
ؓ ورﷺ کے اج داد کے م ق
ل ض ح
ے پڑا اس کا ا عہ چک ھ اس طرح ب ی ان کرے ے کہ ح ورﷺ کے دادا ع ب دالم طلب کا ام ع ب دالم طلب کی س ج یس
ں۔ ہی ض ن
ت ف شت ق ہ ن جدر کا مﷺ کری ی ب ح ور
مام م خلوق کے خ اور فم رب ر ھ چ پ ہ پ
م عظ وں اور ت رسول ہللاﷺق لوں ،لوں ش م
امام سخ اوی ے کہا کہ
صوص ہ ی ں، دن ط ؓاعت ل ط ٰمی کے ساص ھ ن ش رب العالمی ن کے حب وب ہ ی ں ،ی امت کے سردار ہ ی ں اور ب ق
ن م نلب ئکا ا ل ام ی ب ۃ الحمد لب ع ب دا دمحمﷺ ب ن ع ب دہللا ب ن ع ب دالم ش ن م ی ہ را ا و ب ا اسم سردار ا وال ہت مارے ت
ب
ے ب ھا ی م لب کو مکہ می ں ط کے والد ہ ا م ے اپ ے پڑا کہ ان اس لی لب کا ی ہ ام ن غ ط ل
کہ ع ب دا م ے ق نھا۔ فکہا ج ا ا ہ
ے کہ ٓاپﷺ کے چ چ ا ے الم قکو سن ب ھالو ،ی ہ ب خھی کہا گ ی ا ہت اپ ی و ات کے نو پ ت ٹکہا کہ ی ث رب می ں پا
ئ
ے۔ت ت اس و ت وہ ب بڑے سنت ہ حالش ھ غ ے ب ھا کر تم تکہ می تں ٓاے ے یچ ھ پم طلب ٓاپ کو ا
ش ھ
ب مکہ می ں ے۔ ج خ ے سے رماے ھ ے۔ن تی ج ا ک ظہ المھہ ب ے کہ ی ہ می را جئب ان نسے پوچ ھاظج ا ا و کہ ت خ
ے جس ہ ص ال ہ پ ں ی م عرب ا۔ ی ک ہار ا کا ے و ہ ے ج ی ت کے ان ھر پ و ا ک
ہل یر ا کو حال ے پا اور ے و ہ ل دا خن
ت
نے اب ک ی ا اور ای ک سو چ ا یس سال ک ض
ن ق ن ق تت ش ت ے۔ ص ن ز دہ رہ ش
پ ق ک ت ق
ے ے می ں ا ہی نوم کے لین ے کہ ی ہ حط کے زما م ن ے ھ ےہ تکا تا ل شام عمرو نھا اور ان کو ہ ا م اس لیغ ن ت ہا م
ے یک و کہ ہ ا و دور د ب
ف ع عی ی کا اس اور کی صی ت ے ی صی ہ ر ق ہ صی ن ق
اف
ب قمض ب ن م ا ہ ے۔ ھ ے کھا ان ی خار نکر
ے ج ب کہ ان کی ماں اطمہ ان سے حاملہ ے کے عالے می ں ھ ے ا دان سے ب ہت دور اعۃ ب یل تی ہ اپ
ن ن خ ش ھی ں۔
کت ہ خ ش ک ج ج ہ
ے ہ
ی ل ب ہ عرو ن ا وم کو اس ے ل ے۔
ہ پ ھا ر ت عہ ت
م ج ہ مام کا عہ ے نس ہ جے ص
ق الت ت
پ عب خ ب کن ا مرہ، ن با ت
ے جس ے اما ب عد ے ی ہ پ ہال ص ہ ے مع وے ھ ے کے لی س
ے اور ریش ن ےف اس تدن ی ہ طب ہ دی ا کرے ھ ھ
ت ت ت ظ ا۔ کی عمال سن ا ظ ل کا
م ہ
ٓاگاہ کر ا اور لوگوں کو ب ت ا ا کہ ی ہ می ری اوالد می ں سے وں گے ،ہی ں ب ی کری مﷺ کے ث ہور شسےن ن ت ن
ے اور اک ر ی ہ عر گ گ ا ا: ان کی پ یروی کر ی ہ
57
ن ش یتب ن ال ی ت نی ش اهدا ب غواء دعوت
( ۴۳ ( ا حدال
ق ق ل
ح ا ی ع رۃ ی ع ل ا ن یتح ہ ض ب
ن
’’اے کاش می ں حا ر ہ و ا ان کی دعوت کے و ت ج ب ی ہ خ ا دان ق
ش) حق کو رسوا ( ری ن
دے گا‘‘۔ ن ف ال ک ض ن کرکے
ت
ن ے رمای ا:
ن ح ور ب ی کری مﷺ ف
ال بس وا ال ی اس ا ہ کان موم نا۔ ( (۴۴ت
ے‘‘۔ مت کنہو یک و کہ وہ مومن ھ اس کو ب رابب ٹھال ب ل ط ’’ال ی ن ض
ے کو ذ ح کر ا اور ی
ن ف ح رت نع ب دا م لب کی ذر
ے رمای ا: مﷺ ب ب ی کری ن
ا ا اب ن الذ ی ب حی ن۔ ((۴۵
ن ض ن ق ؓ ض ض ’’می ں دو ذ ی ؑحوں کا ب ی ٹ ا ہ وں‘‘۔
دہللا
ئ ت رت ع ب ٹ ح دہللا ی ہنوا عہ طب را ی ے ن ن
ب ٓاپﷺ کے والد ح رت ع ض ؓمراد ح رت اسماع ی ل اور
ےو ےہ و ت ق دس ب ی ان قکے ن ے کہ ح رت ع ب دالٹم طلب ےئ ذر تما ی کہ ن اب ن ع اس کی روای تق سے ذکر ک ا
ان می بں سے ای ک نکو ربن ان کردی یںہگے ،ج ب دس یب
دازی کی نو رعہ ے رعہ ا ن ے پورے ہ وے و ٓاپ ت ت
ےن و ٓاپ ے دعا ما گی۔ ارے ھ لب کو سب قسے نزی ادہ پ ی ت حض رت ع ب دہللا کے ام کال ج و قحض رت ع ب دالم ط
ئی ہ ب ی ٹ ا رب ان کروں ی ا سو اون ٹ پ ھر رعہ ا دازی کی و سو او ٹ ن’’ی ا ہللا!
ؑ کل ٓاے‘‘۔ ئ
ت ت ن ہ
دعاے اب ضرا ی م
ش رت ا راہ ی ؑم کی دعا ہ اش
ے اس ب ات کی طرف کہ ج ب ٓاپ ے عمی ر ئکعب ہ روع کی و ہ ارہ ش ی ن ب ت ح
سے ندعا ما گی اس ہر کو امن واال ب ن ادے اور لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف ما ل کردے اور ہللا ع ٰالی ش
نکو پف ھلوں کا رزق دے۔ ی ہاں کے بت ا دوں
ے رمای ا: ہللا ع ٰالی ق
ق ف ئ ن ت ت (النرٓان ۲ا(۱۲۹ :
ہ
ٓاپﷺ کو و ی ت ن ی اور ن عالی ے ٓاپ ؑکیندعا اس ب ی کری مﷺ کے حق می ں ب ول رما
ب ہ ہ ن و ہللا ٰ
شرسول ب ای ا ج ؑس کا سوال اب را ی م ے ک ی ا اور ا ل مکہ کی طرف جس کو م عوث کرے کی دعا ما گی ھی۔
ت ن ت ؑ سی ب ارت عی
ح ش ش ئ عی ض ئ
ٰ
ے ان کو کم دی ا عالیض ن
ہللا ٰ طرف کہ ئ ات کی ت ب ن اس ب ن ئ ے شخ سی نکی ب ارت و ی ہ ا ارہ ہ خ رت ٰ رہ گ بی نح ن ق
وہ اپ ی وم ی اسرا ی ل کو ب ی مﷺ کی نٓامدت کی و ب ری س ا ی ں و ی اسرا ی ل ح ور ب ی مﷺ
کری ت کری کہ ت ش
ے۔ ے ھ ٓاپﷺ کو پ ہچ ا ےہ ی ن ف کی ریف ٓاوری سے پہل
رسول ہللاﷺ ے رمای ا: ج یسا کہ ق
(ال رٓان)۶ :۶۱
خ
خ ت ن ق ف ق ادن ب عل را ی بمولد
ف ۴۔ الی من واالسعاد
مصن ی نت کی طرح اپ ی اس صن ی ف الی من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد ھی ب ا یئ خ ق امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ب ت
ئ ب ق ذکر کرے ہ وے ر مطراز ہ ی ں کہ :ق ف ئ
خ ن ن می ں ل ت دمحمیﷺ کا
رب العزتت ے ور دمحمیﷺ کی یل ق اس و ت رما ی ج ب ا ھی و ت کی اکا ی وں کا ت ہللاش
ن ن
ف ب ھی ام و ان ک ہ ھا۔ خ ن
ش ص ف
اس کی ہ ر ئ ل کے روع می ں حمب وب رب ے صکہ ن ں ای ک صوصی ت ی ہ ہ ب ئ ن اس کت اب می
ے۔ ے پ ھر ٓاگے کی ل ب ا دھی گ ی ہ ات پر درود و سالم یھ ج ا گ ی ا ہ خ
ل
کا
اول ا قﷺ ل
پ غ ئ ن ت ت ف
ی
ے ہ ی ںقجس نے کا ات کو م قعزز مب ر کے ب اعزت م ی الد سے ن مصطفکے لی ن ش
اس ہللا ج ل ا ہ ب خش مام عری ی ں
م ق
اور صاحب م ام حمود ہ ی ں ج و صاحب ج تیﷺ م خدس ب ی دمحم
مولی ث عزت ی۔ ہ مارے ٓا ا و ٰ شف
م ب ن
اعت کب ری اور مالک حوض کو ر ہ ی ں و مام ممک ہ ،و یوں کا موعہ ہ ی ں۔ بزرگ والدی ن اور اج داد والے ج
ٰ
58
ت متق ن ش جب ن خ
الصہ کائ ن
ہ ہ
وں می ںت ل ن و ا ر ا اور ان ن کے سردار ہ ی ں۔ وہ ج ن نکا ور رو ن ی نٹ ن ٓادم اوالد اور ات ق ظ ہ ی ں۔
ے سے مام ج ہا وں پ ہ ہ دای ت و ص ح وری ں کے پ ھو کے م ی الد و فہور دسی سے س ئارا عالم م ور ہ وگ ی ا اور ان کی ب
ق ت ے۔ لوع ہ گو ت معرف ت کے ٓا ت اب ط
ے تن ہ ٓاب وخ عرش ے ن ہ لوح و لم ھ ں۔ ٓاپ سے پہنل لخ
ہللاﷺ ح ئتمی طور پرن’’اول ا لق‘‘ ہ ی ن ئ رسول
ے اس کی بزرگ و بر ر ب ارگاہ اص م ے موال کے سا پصورت می تں ا ت ن ہ ہ قی ان کےن سوا کو ین تاور ھا نٓاپ ورتکی
ت ے۔ نپر ھ می ں رب ت مع وی کی ا ہا ی م زل
تق ل تک ہ ع س
ے ٓاپ ہ ی ے اس کی شبی ح و ظشی م کیٓ ،اپ فی اس کی تب یر و ظ ی لفاور دی م کی
ہ سے پنہل ق ت ہ ر چ یز ث
ب ئ پ ن ن
اور اس کےئ ای ان ت ان اس کی ص ن ات کا ن ہ ری ن ا ہار رمای ا۔ ق کماح ہ عریت نف و ا کا ذرا ہ یش ک ی ا غ
عالی کے نکو ی ہی ں ج ا ت ا اور ن ہ ہ ی اس کی م دار کا ٰ ہللا
ق ے قن سوا ت مدت و ین
ا ئعرصہ کہ اس کی ت ا ا ن
ے۔ س
ےعکسی اور کو ہن و کت ا خہق وازا ہ سے رب و عام
ق ق ا اس
ح ے عالی ٰ ہللا ےس ج کے اس ے سوا
ن دازہ ا
م ت ن ن ی ج خ
م ئ
اور مر ب ہ و نظ مت کا ا دازہ لو ات می ں زلت ع ت نکی پ ن ی خ درو م ج ن ب نی مﷺ وہ تلوق ہ ی شں ن کری
ے ان می ں سب سے ہ وازا سے وں م ی ت کو لوق م ی ا ے عالی ان ہ سے کوف ضی ہی ں گاسکت ا۔ ح ئق ف ن
ٰ ل
ئ ےن اع ٰلی ،ا نل ،ب ہت ری نن اور ال ق ق خ ر عمت ی نہ شہ ن
ن
ے۔ ے حمبعوب ا دس اور ب ل د ا وںعواتلے رسولﷺ ع طا کردی کہ اس ے ان کو اپ
ے جس ری ‘‘ہ وس ی لہ کب ے اور وہ ’’ ہ ے جس پٹر تساری م وں ضکا دارو مدار ہ می
ئ ٰ ت اور ی ہ وہ عمت ظ
ی ٰ
ے محسنقہ ی ں ج ن نکی ہ شمارے اوپر ا سی ے ہ ی ں۔ اور ح ور ہ مارے ایس مارے مصا ن ب و ٓاالم ل کے وس نل سے ہ ن نف
داد ،والدی ن اور عزیز و ا ارب کی واز ات کو چک ھ کرم وازی اں ہ ی ں ،ن ن ع ای ات سے ہ مارے ٓاب أو اج ج م رد ن
ن ج ہ
ے۔ ق یک و کہ ٓاپﷺ ی ہ مارے و ود و اعا ت کا وس ی لہ اور ہ ماری ح ی ات و ارواح اور فسب ت ہی ں تہ
ض ف ں۔ ن ہ ب س کا اء ب کی ی عا ی ت و سالم
ش خ ی ب
ج
ں اور ان اء ہللا ،ہللا کے ل و کرم ،ودو ئ
ماری ت کالی ف ون ر ج سے ب الصی کا ذری عہ ہ ی ق ن قٓاپ ہ ی ہ
ہ
ت سے ج ت می ں ت ھی ہ شمارےن ندا می ی ام کا وس یطفلہ ٓاپ ہ ی ہ وں گے اور می ں ششخب اور درت و ع ای ن
ہ ن
ے ب ی امی ن کے ی ل می ں اس (سعادت) عالی ا ہ اپ رب کا دی دار صی ب ہ وگا۔ حق ٰ ک ن
اس مہرب ان
ت ن ت ے۔ ٓامی ن حروم ہ ر ھ سے م ض
ے۔ مام ا ب ی اء و مرسلی ن، ن ل ہ ے ی نکے ن ی م ل عا مام الت س ر
خ ق کی ن ج ں، ی ہ رسول وہ اکرمﷺ ت ور ش ح
مان الے کے پ اب د ہ ی ںتاور ٓاپ وہ ساری ت لو ات ٓاپ پر ایت م گذ ت ہ ساری ا ی ں اور ان کے عالوہ ت م
ے ،طول و عرض ن ہ ہ وے ،دوزخ و ارض و سما ن ہ ہ و ت ےو ن ئ ٓاپ ن ہ ہ و ن حبن ی ب کردگارﷺ ہ ی ں کہتاگر
ن ب ن
ص
ے ،فج ات و مال کہ اور ا سانتھی ہ وے ،ج یسا کہ احادی ث و روای ات یح حہ اور ہ عرش و کرسی ہ ہ و ش جتصت ،ف
لحاءن عر اء کے درست مکا ات اس پر داللت کرے ہ ی ں۔
ش ن
ئ
ن ت ق ق ف ن ع
ن ؑع ن رسالت ن ض حوی ل ور ق
ت ح رت س ی د انٓادم لی ب ی ن ا لی ہشال نسالم کی و ات کا قو ت ری ب ٓای ا و ا فہوں ے ی ث سو
صی ت ج اری رما ی کہ تان و ل ت
س م طہ الوا کو وں ئ ا گر ید لے ا و ے ئ ٓا ں م لن عل ہ ا س جالمئاور اپ نی س
خ ت ب سف ج نی ی ل
ے پ اک ب از ناور ع ن فت مٓاب ق وا ی نتکے دوسریت عور وں کرے۔ سوا اس ور کو ض ا ع ن ہ ق ئ سے کو ی ب ھی ت می یں ت
ت مست ل طور پر سل ؓدر سل ا ذ اور مست ل ہ و ی رہ ی ی نہاں ک کہ ن یسے م م عنن ہ ہ وا ج ا نے۔ضی ہ وص
طرف اورشان سے مخ دومہ کو ی ن عظن مت و نم طلب کی ن موال کری م ے اس ور کو ح رت س ی د ا ع ب دہللا بت ن ع ب دال
عالی ے ٓاپ کے سب ری نف کو والد اور والدہ دو وں کی ٰ بزرگی والی س ی دہ ٓامن ؓہ کی طرف پ ھی ر دی ا۔ رب
است اور م ینل چک ی ل سے کی ج ف ق
ن
نشطرف سے جعاہ لی خت کی ب دکاری اور ٓالودگی سے پناک رک بھا ،اور زما ہ نج اہ لینت پ ن
صاحب ہ السالم) کی ب رکت سے ا ہی ں چ ای ا۔ اسی ور ے ا ی موا ت کرے والے ہ ر خور دمحمی ( لی ب ش
فض ف ن ت ن ی۔
ت ص کو ہ دای ت
عالی ے ٓاپ کی ذات گرامی پر ا عام و اح نسان رمای ا اور نٓاپ کی ی لت و ہللا فب ارک و ٰ ض مزی د ب رٓاں
ش
ے ز دہ ک ین ا اور وہ خدو وں ٓاپ پر ای مان ی
زرگی می تں اس طورشا ا ہ ک ی ا ،کہ ٓاپ کے والدی ن کر می ن کو ٓاپئکے لی بئ
خالے ،اکہ ان کا مار ٓاپ کے گروہ اور امت خ اصہ می ں ہ وج اے۔ ی ہ ان دو وں ( ص ی ات) کی
جن ً ے۔((۴۶ صوصی ت اور ٓاپﷺ کا معج زہ ہ
کے نوالدی ن کری می ن ی ا ٓاپ کے ٓاب أو اج داد می ں سے کسی کے ب ارے می ں (ع ی اذا ب اللہ) ہ می ک ٓاپق ن
ے ی ھ ر دہ ع کا ے ہو
59
ق شخ ن ت
صالفحی ن کے ی کے قم طا ق عت اب ازل تہ و۔ ایسا غ
ن ن و ن ی صد ص
ل سے اس فکے ج رمپ ن ح ب ج ت ق
وا تلے پر ہللا کی طرف
ہ
ے ا ئکار و
ہ
ے اور پا پ شہ ر طی ت سے ار
ص
ح
عب ا کے اد ہ ا اور ی ف
ل
ق
ت
ی ا وہ اور ے۔ نمرا قب سے محروم ن ہ ل
ا ت ہ ر ی
ے و اسے رم ٓا ی چ اے اور ے۔ اور اگر ب ا رض اس کا کہا ی ح ہ ہ ہم خ سےت ا ص ا ک ن ظ ری ات کے قلحاظ ف
ن ن ے۔ ہ ی و ہ ی را
اس سم کے ول اور ٰ ت ت ض
ی سے وی
ن ب
ش تان نعلماء کرام سے ہللا ع ٰالی را ی ہ وگ ی ا ج و
ے ہ ی ں اور ا ہوں ے مﷺ کی حمب ت می ں چس مکمرسول کری ف
ے استعظ ی م ب ارگاہشکا ل تاور ج امع د اع ک ی ا۔ ان اہ ل دا ش می ں سے عض
ب ے مار صا ی ف کے ذری ع ب
ے: ٰ ہ الی ع اری ب اد ار ں۔ ی ہ ے کر دالل اس ٓای ت کری مہ سےق است
ن ئ ت )۵۷ (ال رٓان۳۳ا :ن
ٓاپﷺ کے نوالدی ن ( عوذ ب اللہ) ے، ے؟ کہ نکو ی کہ ہ خ اس سے ب ڑی ای ذاء غرسا ی اور کبی اخ ہشنوسک ی
ک ن
ہللا! فاے الب اورے والے می ں ا ی رحمت کی پ اہ می ں ر ھ ا۔((۴۷ پ ہ دوز ی ہ ی ں۔ اےن
ت ت ق ے: ن ہ
ن نعلماء کرام ے ر قمای ا
ً ق
ٓاپ ت سے نب ہ ر ہ ی ں۔ ت مام اہ نل زمی خ
ن ے کے لحاظ ئسے ے و بف ی ئل ے سب اور کن ب
ت پاکرمﷺ ح ی ت ا ا ض بن ی ف
سب واہنکت ا ہ قی ئعالی مر ب ہ ے ضکہ کو ی قاور سلسلہ ق ف کا سلسلہ سب نی لت اور کمال
کے اس مر ب ہ پر ا ز ہ
ے اور ب ی لہ ب فہ ری ن ب ا ل سے ے ہ یئٓاپ کی ب رادری ،ا بل اال وام ہہ ہ و اس کی برابری ہخی نں کر فسکضت ا۔ ایس
ے۔ ش ے۔ ٓال اوالد ھی ٓاپ ی کی پ اکی زہ و یس ہ وادہ ن ی لت و بڑا ی واال ہ ٓاپ ہ ی کا اخ ت ے اور ت ہ
مﷺ اور ٓاپﷺ کے اغ ل ی ت کی حمب ت پر کرےشاور ہ مارا ح ر ب ہ ت کری ی ب مہ ا ارا م ہ الیٰ ع ہللا ض
ے کرے اور ان ہ ی کے الموں کے زمرہ می ں ہ می ں امل فح ورئاور ٓاپﷺ کی ٓال کے پرچ م ل
رماے۔ ٓامی ن
ن ض حاصل کالم
ورﷺ کی والدت م ب ارکہتکا مہی ن ہ ہ وے کی ب
م ن ن ےح ے جس رکت مہی ن ہ ہت ص خ ماہ ر یشع االول توہ ب اب ن
کرمﷺ کو مام اہ ل ج ہان پر ن ے حب ی ب ے اپ عالی خ ے۔ ٰ رفف و ام ی از حا ل ہت سے صوصی ف ئ شسب ت ف ض
ن ق مام اولی ن و ٓا ری ن کا س ی د و سردار ب ای ا۔ ن ض رف و ن ی قلت ع طا رما ی ضاور ٓاپﷺ کو
لے کی اس ل می ں ہ م ے ح ورﷺ کی والدت تب اسعادت سے ب ل وے والے
ہ ےم ا ق اپ خ
ے۔ صہ ن کا مان ا ارے
ئ م ف ہ ذکرہ کا نﷺ ل
ی ل ی ن س مر دا س زات ج
ع م کہ ن ے ا ک ذکر کا عات وا ن
عادات ن وارق
ح ہ ی ن نی ہ
ے حد و ح ضساب احسا اتثو ا عامات رماے اور ان وازشناتناور ب ن ے کائ ن نات ا سا ی پر ہللا رب العزت
ے رب العزت ے خاپ ے۔ ہللا ت کی ب ع ت ہ ق وب ح تورﷺ خ ق ے حمب ض سب سے ب ڑی عمت اپف مہرب ا ی وں می ں ن
ب عالم ارج ورﷺ کی نت اس و تت وچ کی ھی ج ف ہ ل ے پ ی دا رمای ا۔ ح ہ
سے پ ل وبﷺ تکا ور سب حمب ئ
ی
اور ا ھی امرکن کون کا ئ ب ب ت خ ب ئ ب ہ ن ئ ن ج
ھی ت ہی ں ک ی ا تگ ی ا ھان ات خستت و ود کو ا ھی یل ق ناور اس کا کا کو ی و ود ہ ھا
ایسا وجت ود ہ و الی ے چ اہ نا کہ کو ی ن ھی۔ ب ہللا ع ٰ ن نہ ن ق اج راء ب ھی ن ہ ہ وے ا ا ت ھا۔ وہ ت نہا الق ھا کو ی مخ لوق ن
ے۔ سو اس ے اپ ن ن پی
اس کی ور ہی ن اس ور ہ ی کو بن ای ا۔ ی ن اول ن ش ا اس
ت ع نب ک و ہر ظ م کا سن
ت سرمدی ح ج و اس کے ش
خ ِ
اس ور سے دو نوں ج ہا وں کو یل ق عزت ے ن مرکز و محور ب ا۔ پ نھر نہللا رب ال ئ وحدہ ال ری ک کی وج ہ کا م ق ذات ن
ے کہ اس ور سرمدی کا ام دمحمﷺ ے والے ج ان گ ک ی ا اور اس ور کو عالم ارواح می ں ن ل کردی ا اور ج ا
ؑ ت ن ض ت ث ے۔ ہ
نکے ے ج بنکہ ت خٓادم روح اور ج سم کہ ح نورﷺ ت ب سے ب ی ض ھ ض ہ ؑ ے ا و ہ ت اب سےت ارکہ ب م ث یاحاد ت
رب ذوالج الل کے ح ور اپ ی یل ق مکمل ہ وے کے ن ے ن ب ح رت ٓادم پا ن ج اس ضوج ہ سے ؑو ے۔ ت درم ی ان ھئ
ے زمی ن پر ج ب اسی لی ھا۔ ک ے تٓاپﷺ کا ام امی ضعرش معلی پر لکھا دی ئ ٓادم رت ح و ے ف ب نعد پ یخش ہ و
ض ن ئ ن ئ
وب ربقکا ات ح رت دمحمﷺ
ص ش اپ ی طا کی معا ی کے طلب گار ہ وے و رب کا ات کے ح ور حمب
وا۔ اس دعا کو رف ب ولیضت حا ؑل ہن ہ کے وتس ی ل کے وس ی ل
ب ی ع ے کی جوج ہ ضسے ی ہ ؑ ہ ے سے دعا کی اور ٓاپ
ہ
سی ے ھی ن
ب ے اور حسرت ٰ کی دعا نہ ے و ح رت اب را ی م ت ٓاپﷺ کی ذات م ب ارکہنی وہ سش ی ہ
ہ
عد م عوث و ا عوث ہ وے عکی ب فلارت دی۔ ٓاپﷺ کا مامہا ب ی اء و مر لی بن کے ب ن بٓاپﷺ کے مبخ ت ن
الکھ چ و یسس ہ جزار ا بض ی اء کا ؑ ت
ے انی ک ے۔ ٓاپﷺ سے پ ل
ہ ٓاپﷺ پر م ب وت شکی ا ٰلی د ی ضل ہ
ہ
بھی ہ ن ت
ے کہ ٓاپﷺت پر ب وت کا وہ لسلہ نو ح رت ٓادم عوث ن و ا مام ا ل ج ہان پر رف و ت ی لت ی ہ م ن
ٓاپﷺ کی ٓامد کے سا ھ ہ ی پ ای ہ کم ی ل کو پ ہ چ قا۔ اس ب ات ف ے ج اری ھا۔ وں کی ہ دای ت کے لی سےلا ضسا
ے کہ اب می رے اور ی امت کے م کی د ی ل ئح ورﷺن کی حدی ئ
ے جس کا ہوم چک ھ اس طرح ہ ث م ب ارکہ ہ
درم ی ان کو ی اور دور ہی ں ٓاے گا۔
60
ف
ت ج ت دوم لک ئ صل ؐ
م ی الد الن ب ی پر ش تھی گ ی م تر م عربی ک ب می ں مذکور
ب عد از والدت م مالت کا ذکرہ
62
ب ت ت
ے کے ک ی
ےٓ ،أو اکہ م اسے د ھو ،کون اس چ ب
’’می رے پ اس ای ک چ ہ ہ
ے اور وہ ے می ںصہ حص
سے حا ل کرلے‘‘۔((۴۹ ح اؓ ک ت
ن ئ ت ض کہ ں س ی دہ لی مہ ہہ ہ ی
ی
ہ
رت ع ب نداشم لب کے سا ھ ی ں اور ج ب م ے ٓاپ کو گ ط ل ’’ متسب ح ن
سے دودھ پ الٔوں گی اور وہ دی کھا و ہ ر ای ک ے ہت ا روعنکردی ا کہ می ں ا ت ک
ن
سے م ہ پ ھتی ر تل ی ا۔ وں
ے ان قسب عور ن ٓاپ کی طرف ب ڑھی ں و ٓاپ ت
ب
ے د ھا و نسم ک ی م ج
ن و ت ٓاپنے ھ ئب ڑھی و جس فمی ں ٓاپ کی طرف ٓاگے
ں ے ٓاپ کو اپ ی گود میلں رکھا اور اپ ا ین م ے۔ رمای ا اور می ری طرف ٓا ت
ی
ندودھ پ ی ا۔ کن ج ب می ں
ن
ئ اس سے ٓاپ ے
ہ ناں پئست ان ٓاپ کو تدی ا و ن ت دای
ٓاپ کے ے م ہ پ ھی ر ل ی ا کہ غ ے وے ٓاپ ت ے ب ای اں ست ان دی ا و ی ہ ج ا پ ت
تور بت ے۔ ٓاپ کے سانھ می ری حمب ت نہ سا ھ کو ئی اور ب ھی حصہ دار
زی ادہ ہ وگ ی ،جنب فمی ں ے ٓاپ کو لے کر ج اے کا ارادہ ک ی ا و
لط
ن ت ع ب دا یم لب ے رمای نا:ت ق
ے ہ ی ں و می ں ے عرض کی :ش اور توالد ا النکرخچ کن ےی ئ ’’ی ہ ت ی م ہ
ے اوئ د حارث قسے اس ب ارے می تں نم ورہ ے ناکہ می ں اپ خ ’’ذرا مہلت دنج
ے او د کے پ اس گ ی اور سارا صہ ان کو ب ی ان ک ی ا و ا ہوں کرلوں۔ می ں اپ ج ن
ے کہا :ت ے ھم
ب
ے ے کے ب اعث ہ مارے لی ے کہ وہ اسی چ ی ہ د م ا سے عالی
ٰ ئ ہللا ’’لے ف
ٓأو۔
ت ن ب رکت ع طا رماے گا‘‘۔ئ
ن پ ست ان کی تطرف طرف واپنس گ ی اور لے کر اپ ی گود می ں رکھا و تٓاپ می رے ن خ ﷺ کی می ں ٓاپئ ت ئ
ے گدھی کو نٓاگے ک ی ا ج ب کہ س ر دودھ پئالے والی ت ص ح ہ و ی و می رے او د ے می رے لی
عور وں کین ت ہ ج
ے۔ ج ب ب ٓاگ
ے ٓاپﷺ کو اپ ں اس پر سوار و ی اور ن ادہ کمزور تمی ری گدھی ھی،سوق ہی میل ن سے زی ئ سبو چ وب ن گدھی نوں می ں سے
ے لگی۔ اس سے لوگوں ے جع ب ک ی ا ی ت ب سے وں ی ش
خھ گد مام اور ی گ و ہ د ف
اق چ گدھی نکہ ے رکھا سام
یﷺ کے ب اعث و ی محسوس کی۔ ف مصط اور می نں ے دمحم
ت گ ہ پ ض
ن ن ت ئ گو لی کی مﷺ ح ور ب ی کری
ب ٓاپﷺ دو سال کی عمر کے ہ وے ومی ں ے پ ہلی ب ات ٓاپﷺ سے س ی کہ وہ ش ف جت
ث ار اد رماے ہ ی ں:
(۵۰ (
ف ال۔ت ی واص کرۃ ب ہللا حان س
ی ب و ر ک لہ ل حمد ہللا ب ب ی ل
وا را ک ر اک
ش ص ی ہ ب
ے ہت ی عر ی ں اور وہ ب ح و ام ے ،ہللا کے لی ’’ہللا ب ہت ب ڑا ہ
ے‘‘۔ بس حان ہ ش
ئ ی ت ً ت ت صدر ق
ے کہ م نعا می ں د کھ قی ہ شوں کہ ئ ض
ٓاپ کا ب ھا ی ے ھت ہ ن ِ شح رت حلی ؓمہ کہ ی ہ ی ں کہ ای ک دن ب کری اں چ را ر
اے امی! اور اے اب و! کہہ کر پکارے لگا کہ م دو وں ہ مارے ری ی ب ھا ی کی مدد کو ے اورن پاز نحد پ نری ان ہ
خ ن ت ے۔ ٓاپ نکے پتی ٹ کو چ اک نکردی ا ہ ے پ کڑ کر ت ہچ و یک و کہ ضدو ٓادمی حوں
ے و ٓاپ کے ر گ کو ب دال ہ وا پ ای ا و می ں ے ٓاپ کو کہا اے ل ت نل کہ م ک ہ ح رت تلی مہ ہ تی ہ ی ں فک ؓ
ش ن ے: ل
ج گر! ٓاپ کے سا ھ ک ی ا ہ وا و ٓاپ رماے فگ
م
ے کا نط ت ندو ٓادمی س ی د ل ب اس می ں لب وس ،ب رف سے ب نھرا ہ وا سو ن خ رے پ اس ئ می ن ئوالدہ! ٹ ئ اے
ا نھاے ہ وے ٓاے۔ ا ہوں ے می رے پ ی ٹ کو چ اک ک ی ا اور اس سے س ی اہ ر گ کا مج مد ون کاال اور
ن ن ش پ ھی ک کر کہا:
ے پ ھر ا ہوں نے ق
طان کا حصہ ہ ’’ی ا حب ی ب ہللا! ی ہ ٓاپﷺ می ں ی ن
ے سینسم کا درد ٹمح نسوس ہی نں ک رف سے ندھوی ا اور می ںئ ت دل کو بن می رے ن
پ
ک ی ا۔ پ ھر ا ہوں ے دل پر ور کی مہر لگا ی و می ں ے مہر کی ھ ڈک کو ا ی
پس یل وں کے درم ی ان محسوس ک ی ا‘‘۔
63
ئ ت ت ت ت ض
اس ٓاے و کے پ ن والدہ مح رمہ ن ت نکی ئ ٓاپﷺ ٹ ٓاپﷺ کے سا ھ حنرت نحلی ؓمہ کہ ی ہ ی ں کہ ہ م ت ن
وں
ش ٓاپﷺ کو لو اے ٓاے ہ و حاال کہ مندو ق وںکس وج ہ سے ن م دون س ی دہ ٓامن ہ ے دو توں کو کہا کہ ت
ؓ
ے۔ ان دو وں ے ج و چک ھ وا ع ہ وا س ی دہ ٓامن ہ کو ب ت ای ا س ی دہ ٓامن ہ ے ار اد فٓاپﷺ کے م علق حری ص ھ
ب س لش ش ست غ ف ت ق ف رمای ا:
نالت ا ش ون ما علیفہ من ال ن ی طان ک ضال فوہللا ما ل ی طان علی ہ من ی ل وان
ت ک وال ر ی۔( (۵۱خ ال بت ی ھذا ل ا ا عظ ی ما دعیتہعع ش
طان کی وج ہ سے وف کھاے ہ خ و۔ وہللا! ٓاپﷺ کے م لق ی ئ ن ش ’’ م
ے اور می رے اس ل ت ج گر طان کی ہ رگز رسا ی ہی ں ہ ک عظی ی م ش ٓاپﷺ پر
ے۔ اچ ھا اسے چ ھوڑ ج أو اور لوٹ ج أو‘‘۔ ہ ان ے ای ن ت ق کے لی ت
والدہ مح رمہ اور دادا ج ان کا ا ال
ٓاپﷺپر اور ٓاپﷺ کی ٓال اور ہ ر پ یروکار پر رحمت و اے نہللا! ف
سالم ازل رما۔‘‘ ف
یﷺ خحلی ئہ مصط ف
ن صا ص مصط
یﷺ ن ن ث
ن ف ن ے پر ا ؓ عام رب ا ی سے درود پڑھ ک رت ض
ے کہ ب ی کریتمﷺ ے رمای ا: ح رت اب ن ع ب اسیسسے روای ت ہ
احد لم ئعلی اال رد ہللا عبلی روحی ح ت ی اردت علی ہ السالم۔ ( (۵۵ٹ ب
مامن
عالی می ری روح واپس لو ا ے و ہللا ٰ ’’ج ب ھی کو ی جم ھ پر الم یھج ت ا ہ
س
ے۔ ی ہاں ت ک کہ می ں باس کے سالم کا ج واب دی ت ا ہ وں۔‘‘ دی ت ا شہ
ت ت ھ ص
لہذا ٓاپﷺ پر لوۃ وت سالم ی جو۔ خ
عالی اس پتر دس مرت ب ہ ٰ ہللا و ت ھے ڑ ک مر ب ہ درود پن پ
اک ’’ج و نص جم ھفپر ایئ ٰ
عالی اس پر دس مر ب ہ تدرود پڑھاشہللا ٰ ئجس ے ن رحمت ازل نرماےف گا اور ت
ڑھا اس ت نیف پ ئمر ب ہ درود ر ے سو سو مر تب ہ رحمت ازل ترماے گا۔ جنس ف
رحمت ازل رماے گا ،جس ے ہ زار مر ب ہ پر ہللاش ع ٰالی ای ک ہ زار تمر ب ہ ن
درود ریف پڑھا ،ہللا ع ٰالی ے اس کے ب الوں اور ب دن پر گٓا حرام
کردی‘‘۔ ن ق ن ن
ں
نی ف مﷺ ب ر ا ور می ں ز دہ ہ ب ی کری ض ن
ش ش ح ور ب ی کری مﷺ ے رمای ا:
ص
ومن لی ہللا ع را فلی ہللا علی ہ ص ص ص ع
ع ص من لی لیصواحدۃع لیئہللاصعلی ہ ع عرا ف مائ
ومن لین لی نما ۃ لی ہللا لی ہ ال ا ومن لی لی ال ا حرم ہللا مرۃ ۃ
ن (۵۶ن جسدہ علی ال ن ار ای ار ج ثہ م ای ج علہ حراماش علیہا۔ ( ت
ےق واال نت می ں ج درود ریف پپڑنھ ن ف ث’’ م می ں سے جم ھ پر ک رت سے
ہ
ٓاپﷺ ےن رمای ا :می ں ا ی ب ر می ں ز دہ وں ،جس ب نراالزواج ہ وگ شا۔ کی
ے رحمت کی دعا کی اور نے اس کے لی ف یھ ج ا می ں ب نھ پر درود ری ے جم
ج س
جس ے جم ھ پر الم یھ ج ا میبں ے اس کے الم کا واب دی ا۔ لہذا س
ٓاپﷺ پشر صلوۃ و سالم یھ ج و‘‘۔ م ؒ
خ ق اب الدیئن احمد ب ن حج رن کی یﷺ ظاز عالمہ ہش ٰ
ل ۲۔ مولد الن بت حق ق
وارق عادات سے پ ن نویﷺت کے و ت بم ؒہت والدت ب ض ن ش ی ہ نو ی ئت ا ہر منق ا مس ہ و ی کہ ق
ب
ٓاپﷺ کی ان کو وا ح کر ا ھا۔ اب ن حج ر کی ے ھی ا ی کت اب ق صد م کا ن ج ے و ہ ام رو عات وا
مولدا ن ب یﷺ می ں ب عد از والدت وا عات ب ی ان ل
ش ے کہ ن ےہی ںج یس ن یک
ق ش مﷺ کا سب ریف ب ی کری ب ئق
لبضب قن ہ ا م ب ن ع ب د م نن تاف بتن صی ب ن کالب ب ن ضمرہ ب ن ن ط م ل دا ن
غ ب عب ب عب دہللا
ف ن دمحم اسم ا وال
ے اور ب ہت سے ح رات ہ
کی ی ہاں ا ہا و ی ہ ت
الب ب فن ہر ب ہن مالک ب ن ر ن ریش ش عب ب ن قلو ی ب ن ن ت کن
ے۔ ےٓ ،اگے سب ریف ی ہ ہ ے کہا کہ ریش کی ا ہا ’’ ہر‘‘& پر و ی ہ
64
ت ن ن ض نن خ نض
ن
ر ب ن ک ا ہ ب نش زی مہ ب ن مدرکہ ب نت فال ی اس ب ن م ر ب ن زار ب ن معد ب ن شعد ان ی ہاں ک ن
گے خسب ن ریف نکے ب ارے می ں ے۔ اس سے ٓا غ اق ہ ٓاپﷺ کے سب ریف پر اج ماع و ا ت ن ق خ
ے ہی ں۔ لہذا نان می ں ورو نوض م اسب ہی ں۔ ف م م لف ا وال ہ ی ں و ای ک دوسرے ج ت
سے ل وٓالہ وس ص
الی عد ان امسک ث سب ل ا ی لغ ف نب اذا کان ا قن ہ لی ہللا نعلی ہ ق ت
لم
عالی نو رو ا ب یشن ذالک ک ی را۔ت((۵۷
ت ون ال ٰ ال نکذب ا س ب اب و ض
ن
ے کرے ت سے خ ن ان کر مﷺت ج ب اپ ا سب ریف ب ی ’’ح ن ور ب ی نتکری پ ہ ت
ن
نے اموش ہ وج ا ت ے ا
ب ج ب کت ت گے ٓا عد کے ناس و ےت‘‘ ک چ ’’ فعد ان
ے ہ ی ں۔ ہللا ع ٰالی ے لے ھوٹ ہ فاور رماے سب ب ی ان کرے وا ق
ے اس کے درم ی ان ب ہت رن (صدی اں) ہ ی ں‘‘۔ رمای ا ہ
ق ئ تش ن گھ ن والدت کے ب عد سج دہ ک ی ا ت
ے۔ اس و ت ٓاپ نیف ال ئ ے ٹ وں کے ب ل ب اہ ر ر ٹ پٓاپﷺ ا ٹ ے کہ ن ای ک روای ت می ںتٓا ا ہ
ے۔ ے پضھر ٓاپ ے م ی کی خھی ب ھری اور سج دہ کرے ج ھک گ م ے ھ ٓاسمان کی طرفمدی کھ رنہ
ے کہ ط ل ب
ےن ھی ح رت ع ب دا م لب کے واب کو ب ی ان ک ی ا ہ ک اب ن حج ر کی
ئ ن ش ن ن اب ھ ؓ سب ا
ن کے ے ر دمحمﷺ ض اسم گرامی
ے جس کی ای ک ت
ح رت ع ب دا م لب ے د کھا کہ گوی ا سوے کی ز ج یر انش کی پ ت سے غکالی گ ی ہ ت ی ط ل
س پ
رب می ں غھی وہ ھر کڑ طرف م رق اور ای ک تم ش طرف زمی ن پر ھی ای کن ت طرف ٓاسمان می خں اور دوسری ئ ئ
ت کی مان ن د ہ وگ خی جس کے ہ تر پ ت ہ پرئ’’ ئور‘‘ تھا اور پ ھر شدی کھا کہ مام م رق و م رب والے گ ی اور ای چکٹ در ئ
ے ہ وغے ہ ی ں۔ اس واب کی ی ہ عب یر ب ت ا ی گ ی کہ مہاری پ ت نسے ای ک ب چ ہ پ ی دا ہ وگا جس کی سے م اس ش
نم رب سب ھی کری ں گے اور زمی ن و ٓاسمان والے اس کی ’’حمد و عت‘‘& کہی ں گے۔ اس وج ہ ات ب اع نم رق و
ٓاپﷺ کا اسم گرامی ’’دمحم‘‘ رکھا۔ ن ہوں ے ح سے اض
ض ض ؒ ا کر رورش
ن ؒ پ کا مہ ی ل رت ح
ے حاصل ن حج ر مکی ے ب ھی اب ن ج وزی کی طرح ح رت حلی ؓمہ کا ح ورﷺ کو رض اعت کے لی ب ق ا ن
ن ف ئ ن خ ے۔ کرے کا وا عہ ب ی ان ک ی ا ہ
ن ترما نی ا۔ ے وب سی ر ہ وکر وش کے ب ھا ی ت ٓاپﷺ ن ن
نس سے دودھؓ دی ا ج ےا ا اس ض ئ
تادھر ان خکی او خ ٹ ی کو دوہ ا گ ی ائ و اس رات ت
ے لی ن مہ ح رت ص حہ و ی ن
و ے ج ب خب مام اہ ل ان ہ وب سی ر ہ و
ح گ
ٓاپﷺ کی والدہ ماج دہ کو ب الی ا اور ر صت ما گی۔ س ی دہ ٓامن ؓہ ے ٓاپ کو
ن ئ قالوداع کہاگف‘‘۔ ن ن
ن ت ن ا ق کر گو او ٹ نی می ں ی طا ت اور ت
ن ن ت سے ا ت ر ک ٹ تت ض قح ؓ پ ن
ے چ لنن گے ٓا سے نسب تی ٹ او کی ان ت و ں یل ہ
ب ی تب ٹ کہ م ھ سا کے وم ی نج ب ح رت لی مہ ا
نکہ غ ھ ی و ا ھ ن ہ سک ی ن ھی۔ تعور وں ے کہا :ی ہ او ٹ ی وہ حالت ی ہ ھی ن کی اس ت نلگی ،حاالت کہ اس سے ب ل
ک
اور پ تہچ ا ا کہ ی ہ ون ب نال ل وہ ی پہل ھی ،ج شب ا ہوں خے ضور سےح دی کھا ے ق مہارےلپ اس پہل نہی نں ج و ت
ے والی ق ت س ؓ ن ے وک
ےی ی ن ا ے ود ح رت نلی مہ ب نخشی ھی ں تکہ او ن ٹ ت ی ی ہ کہہ رہ ی ہ ان ہ مج کی وا عین ے گی :اس ت عہ او ٹ ی شہ
دگی ی کاش م ج ا ی ں کہ می رے اوپر کون خ ز عد ب کے موت ےھ ے غ الی ع
ہ ج ت ٰپ ہللا ے۔ م ی ظ ان ت شمی ری ف
ام مب روں سے ہ ر اور اولی ن و ٓا ری ن کے سردار ہ ی ں۔ ت ب ی
ف ت ن ضریف ح رما ہ ؓ ی ں۔ گوہ ہ ی ںت و م ن
ن خش ن ت پ زولن ح رت لی مہ کے تتھر ب رک پ نوں پکان
ہ
ج ب ی ہئعور ی ں ا لی ا ی م زلوں پر چ ی ضں و انحد وں زمی ن ک وچ کی ھی ( تکی و کہتکا ی عرصہ ہ
کے ان ت س ٓا ی تں و تکے ب اوج ود ح رت لی ؓمہ کی ب کریت ناں ج ب چ رکر واپ ق تسے ب ارش ن ہ ہ و ی ھی) یئکن اس
ے ہ وے اور دوسروں کی ب کریوں کے ھ وں می ں دودھ کا طرہ ک ن ہ ہ و ا دودھ سے ب ھرے ہ و ت ھن
ن
چ
حاال کہ ھی ای نک ی ج گہ ر ی ں۔ ((۵۹ ہ بس
ق ن ب ادل کا سای ہ کر ا ن
ی ب ن م ب
ے۔ ابتن حج ر ھی ہی ب ی ان ے کا عج زہ لمب د ک ی ا ہ ت ت ت وزی ے ھی ب ادل کے ٓاپ پر سای ہ کر ف ت اب ن ج ض
ے ج ب ٓاپ ٓاپ پر سایتہ کرے ھ ادل ت لے تکر ج اےب و ب ت ے ہتی ں کہ بح ورﷺ تج ب ب کریوں کو ت ٹ رما ت
ے و ب ادل ھی سا ھ سا ھ چ لت ا ھا۔ ھہرے و ب ادل ھی رک ج ا ا اور ج ب ٓاپ چ ل
65
ن ت ن
ن ن ت ت ت ت ن ب ا کر ں ی سے ب ا
ن چا د
ن پ
ے ناور اپ ی ا گلی ں ہ وے و چ ا ند سے ب ا ی تں ک ی ا کر ض ت
ھوڑے میٹ تمی تں گ ن ب ی کری مﷺ ج شب چ پ ن
ہ
سے ج ب اس کی طرف ا ارہ تکرے و ج دھر انلی فا ھ ی ادھر ی چ ا د پ لٹ ج ا ا ج ب ح ور ب ی کری مﷺ گ
ت ےن رمای ا: ٓاپﷺ ی ل ثن ں پوچ نھا گ ی ا وارے می ن کو اس کے ب ق
ت س
ال ا ی ک ت احد ہ وی حد ی و ی ی عن الب کاء وا مع وج ب ہ حی ن سج د حت ہ ث
ت ت ت ت ت ت ن العرش۔
ے’’مینں اس (چ ا تد) سے ب ا ی ں کر ا ھا اور وہ جتم ھ سے ب ا ی ں کر ا ھا ،نوہ جم ھ
ےسے روکت ا ھا اور می ں اس کی ٓاواز سن ت ا ھا ج ب وہ عرش کےیچ ےت رو ت
سج دہ کر اگف ھا‘‘۔ ن
پن ف ف ئ ن ئ ن گو مﷺ کی پ ہلی ت ن ض کری ی ب
کے اب ت دا ی د وں می ں گ ت تگو رما ی۔نٓاپ کا گھوڑا والدت ب اسعادت ف ت ت ت ے مﷺ ف ش ت ح ور ب ینکری
ئ ا ھا۔ س ی دہ حلی ؓمہ رما ی ہ ی ں کہ ج ب پ ہلی مر ب ہ می ں ے ٓاپﷺ حرکت کر ر وں کے تہ الے سےف ف
ے۔ کا دودھ چ ھڑای ا و ٓاپ ی ہ ال اظ رما ث
ہللا اکب ر کب یرا والحمد للہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی ال۔ ((۶۰ ض
ق نت ت ن ئ ش ح رت ٓامن ؓہ کا وصال
والدہ کا ا ال ہ وا ٓاپتکی ت ےو ادہ ک ہی عض ے زی ت ج ب ٓاپ کی عمر ریف ارت رس ہ و ی ب
ئ ہ ش ن ن چ ب ن
ف لے گ تی ھی ںک تاکہتٓاپﷺ ن ن ی ر ئے ی
ل اس ورہ مق ہ یمد ں۔ ی ھ ج ب وہ مدی ضن ہ م ورہ سے واپ ؓس ٓارہ ی
ے۔ راست ہ می ں ع
ےف ھ سے مال ات ہ وج اے ج و ب و ج ار سے ل نق ر ھ ن کے ماموں رت ع ب دالتم طلب ف کے دادا ح ت
نں ا ہی ں د ن تکردی ا گ ی ا۔ گأوں ’’اب واء‘‘ یم ج ب ان کا ان ق ال ہ وا و وہ ی ں ’’ رع‘‘ کے ئزدی ک ای ک ئ
ٓاپﷺ کو وہ اں سے ’’ام ای من‘‘ واپس ال ی ں ج و ٓاپ کی دا ی ،دودھ پ الے والی ماں اور رب ی ت ن
ت ں۔
ہی ت والی ے کر
نمن‘‘ ٓاپ کےتوالد کی می راث ھی ں ی ا ٓاپﷺ کی والدہ کی یکہ ’’ام ا ے بت ی ان ک ی ا ج ا ا ضہ
ب ؓ خ
ے کہ ٓاپ کی والدہ رت دی ج ہ ے ٓاپ کو ہ ب ہ کی ھی ں ہاور ی ہی ت ھی ب ی ان ک ی ا گ ی ا ہ می راث ھی ں۔ یف ا ح ئ
ون‘‘ می ںشمد ون ہ بو ی ں اسن نکی ب ہت سی روای ات گوا ی د ی ہ ی ں۔ ’’ ف جح
ف ت پ
پ ہال ر لک بام اورنحی را کا ہچ ا ا م س
نحی را ے ج و کرامات دی کھی ں ،ان فمی ں ای ک ی ہ ب ھی ھی کہ ای ک سخ ی د
اور ج ب ٓاپ ای ک بدر ت ٓاپﷺپر سای ہ ٹگن رہ ت ان ئت گ کات بشادل ر ن
ٓاداب ج ا الی ا۔
ت ئ ج
ے و اس کی ن ی وں ے ھک کر ہ ف لے گ ے رضی ن کےیچ
ئٓاپ رس کی ہ و ی و مﷺ کی عمر م ب غارک ب یس ب شت ت پ ھر ج ب تح ورشب ی کری
نے اس ارت کی ت رضب سے نریف ال طرف ج قدوسری مر ب ہ ام تکی ض
ے۔ حی رہ کو ا ہوں ے پوچ ھا کہ ت ٓاپ کے سا ھ ح رت اب وبن ؓکر ب ھی ھ وض ن
ے لگا: ک
مﷺ کون ہ ی ں؟ ہ ؓ ن ق
ح ور ب ی کری
’’ہللا کی سم! ٓاپ ب ی ہ ی ں‘‘۔ ظ
ت ح
ب عد می ں ن ہور کی کمت ظ
ح
ناس می ں ن کمت ی ہت ھی ک
ات می ں شسب سے ب عد می ں ر ھا گ ی ا۔ ن ئ
ب ی کری مﷺ کا ہورئ سی اس کا ف ح
لے ب ی ں ،ان مام ت ا و ے کر ل قمکم کے االت م ک دہ وت کے مست درک ہ وج ا ی ں اور ان کے ٓاپ ان ف ض ئ کہ
ت مج
ے: عالی کا ول داللت کر ا ہ وں۔ یسا کہ اس پر ہللا ٰ ج ہ کے موعی ا ل وق زی ادات کے ج امع
ن ض ت (ال رٓان(۹۰ :۶
اء کرام می ں سے ہ ر ای ک جئو کماالت، ے کہ ح رات ا ب ی ق داللت کر ی ہ ئ ی ہ ٓای ت کری مہ خاس ب ات پر
ض گ ئ
سب ان سے زی ادہ م فدار می ں تٓاپ کو ع طا کی ی ں اور خمعج زات،فہ ضدای ات اور صوص ی ات ع طا وک ی ں وہ ش ض
ف ہ
ٓا ری ن کی ی لت کے برابر ی ا اس سے ہی ں زی ادہ ی لت خٓاپ کو ع طا رما تی اکہ ٓاپ کا ج خالل وا ح ہ و اور
تہ ی ں اور اگر ی ہ مام اوصاف و صوظص ی ات و
حم
کے د من اور ب د واہ کے دل ج لی ں ج و ٓاپ خ اس سے ان لوگوںت
کے دوران اہ ر ئ ل کے ٓاپ و ج ے
ق و ہ عادت وارق و کماالت ی
ن ئ ہ و صرف ے معجئزات ن ہ ب ھی ہ و ق
یک ن
ے می ں ٓاے اور ٓاپ کی ہ وے ،اس سے چک ھ ب ل رو ما ہ وے اور والدت ب اسعادت کے و ت د ھ
66
ف ئ ت ن ت ن
ن
ی
ے اور ٓاپ کی رب ی ت کی ز دگی می ں م ظ ر عام پر ٓاے و ہی کا ی ترض اعت کے زمان ہ می ں لوگوں ے د ھ
ک ی
خ ق ق ت ئ فق خ ے۔ ض ن ھ
م
کے سردار ،مال کہ ضرب ی نقکے ٓا ا ،مام لو ش فات کےع ٰ
مولی اور م ح ور ب ی کری مﷺ اولی ن و تٓا ری ن ت
عالی کی مام مخ لوق سے ا ل ،ی امت کے دن اعت ظ ٰمی رب امخلعالمی ن کے حب ی ب ہ ی ں۔ ہللا ٰ
خ ق عق ن صوص ہ ی ں۔ سے ض
ے ئمث الن ن ورﷺ ب ی ب کب ری ا ہ ی ں۔ ہ ماری ل ا ص ح
ٓاپﷺ کی د ی ا اور ٓا رت می قں ب ف ن ق سجمح ن ش
ٓاپﷺ کو عظ ی م م امخ پر ا ز کرے ن ے الل لج ذوا
ف رب ں م سزا
ہ یت ت ی و زا ج وم ے۔ اصر سے ے ان کو ف ھ
ے۔ ب ی کری قمﷺ کی صوص ی ات ان ا روز ذکر ملت ا ہ ب
ث کینک ب می ں ان کا ای م
پ
احادی ن م ے۔ کا وعدہ رمای ا ہ
ے۔ ح ہ صہ کا لے ا م ارے م ہ و ج ں ی ہ کی ان بی ھی ں ی م ف نیص اس ی ا ے کی ر ج
سے چک ھ اب ح
ن فمی ںت
ن رماے ہ ی ں۔ خ
ت ج ن ش مﷺ کینصوص ی ات ب ی کری ت
ے ٓاپ وں کے لی ہادت و ا ب ی ناء کرام کی ام ت ف ٓاپﷺ کی اور ٓاپ کی امت کی ے ن ہللا شع ٰالی
ےت ن ممت از رمای ا تاور ا ب ی اء کرام کی اتم وںپ نکے لیئ ہ غ ح
کی امت کی ہادت و ا ب ی اء کرام کے تق می پں وگی سے ج
ےے ھ اد
ہچ ی ک ان
نن ام کیش ح ا رے ہللا اے ے ٓاپﷺ کی امت ی ہ گواہ ی دے گیخکہ مامف ی مب روں
ت ،امامت اور اس ب ات سے ب ھی ٓاپﷺ کو م صوص رمای ا گ ی ا کہ لواء الحمد ،وس ی لہ ب ارت ،قڈر س ا ا ،فہ دای ئ
ے رحمت ٓاپ ہ ی ہ ی ں اور ی ہ ب ھی کہ ٓاپ کو ٓاپ کا پروردگار اس در ع طا رماے گا کہ اور عالمیضن کے ئلی
ن
ت ف ٓاپ را ی ہ وج ا ی ں گے۔ض
ت ار۔ ( ن(۶۲ وہللا! ال ارق ی و واحد من قام یت ی ال ض
’’ہللا کیت سم! می ں اس و ت ک را ی ہی ں ہ وں گا ج ب ک می را
ن تق ن تای ک ام ی ب ھی دوزخ می ں ہ وگا۔‘‘ ج ن
ہم سے فکال تکر م قی اور ی ک لوگوں کے سرداروں کے امت ی وں کو خ پس ہللا عالی کے ٓاپﷺ ن
ت ٰ ئ ت
کے سا ھ مالدے گا۔ ٓاپﷺ کو ا مام عمت سے م صوص رمای ا مام ا سام کی امداد ٓاپ کے سپ رد ف
ت ن ئ ن خ خ رما ی۔
ن ے الی ع ہللا ت سے ن ج ں ہ ص ن صا ت ان ھی ب اور الوہ
ن ع کے
ی ن ش ات ص ف صو خ
مذکورہ ان
ٰ نت ی گ
ں۔ ان کا اس عقی اب اور احاطہ اممکن صوص رمای ا ج ہی ں مار ہی ں ک ی ا تج اسکت ا ج ن کی ا ہتا ہی ن ٓاپﷺ کو م خ ئ
مولی ،ہ مارے ے۔ ی ہم سب صا ص ،سارے کماالت اور یہہ مام بمکمزرگ ی اںنہللا ع ٰالی ے ہ مارے نٓا ا ،ن ٰ ہ
م
ج
ماوی ،و فلج اء ،ہ مارے ھادی ،ہ مارے مددگار! می ں ل کرے والے اور ہ مارے اصح ج اب احمد ت ب ٰی
ے۔ ف دمحم ٰمصط
یﷺ کو ع طا یلک
ت ئ یﷺ ن ض ۳۔ ال قمورد الروی ی مولد ا نقب
می ں عالمہ مال علی اری ح ور ب ی کری مﷺ کی والدت کے ب عد کے عج زات ب ی ان کرے وے
ہ م
ی ضوں ر مطراز ہ ی ں :ت
لک ت ح رت ع ب عدہللاقکا رکہ پ ن
ق خ لح ش ی
ے ہ ی ں کہ
ت اب میخں ھ مال لی قغاری ال ی کت ق
نالفا سخ اوی و د لف اب وہ ج اری ہ فام نا من ب رکۃ ا ب ی ۃض و مسۃ تاج مال و ن طعۃ
ت ضم ورث ذلک رسول ہللاﷺ کا ت ام ای من ر ی ہللا ع ٰالی ع ہا
ن ن نپ ح مۃ۔ ((۶۳ن
ی ن
ے ای ک لو ڈی ے چھ ’’امام سخ اویشے کہا کہ ٓاپﷺ کے والد ے اپت
ام ای نمن برکۃ ج ی ہ ،پ ا چ اون ثٹ اور ب کریوں کا ای ک ریضوڑ رکہ می ں چ خھوڑا ج و ض
حت ور ب ی کری مﷺ کو ورا ت می ں مال۔ ام ای من ح ورﷺ کی دمت
کرخ ی رہ ی ں‘‘۔ ن
ہ نن ت کا مﷺ کری ی ب
ؓ ً ض
ے: ہ کی ان ی ب ت یروا ہی ی کی اس اب ن سعد ےل ؐح ت ب
ع رت ن خ
ت ش ن ولد اض ن ب ی م و ا خت خ
( ۶۴ ۔(
ون ( ت ہ دہ) حالتخ می ں پ ی د اک ی ا گ ی ا ھا۔‘‘ ورﷺ کو م ئ ش ’’ خ
ح
ہ ن
ٓاپﷺ ت ہ دہ پ ی دا وے ی ا ب عد می ں ٓاپ کا ت ہ وا۔ ہ ن
67
ن ش ن خ ؓ ن ض
ان کی:فٓاپﷺ ت ہ ٹدہ اور اف بری دہ پ ی دا ئ اب ن سعد ے ح رت ع ب اس کی ی ہ خروای ت ب یئ
ے کی ای ک شئان ہ وگی۔ ش
اس یبخت رے کے دادا ب ہت وش ہ و ض ن ی ی
م ا رما اور ے ٓاپﷺ ن ت ن س پرہ وے۔ ج ج ف
ہ
ے کہ ح ور ب ی کری مﷺ ون دہ پ ی دا وے۔ م ک
ے ا ی ا یر خ میک نں ل ھا ہ پ ض ن اب و ع ر طب ری ن
مﷺنکا فام ’’دمحم‘‘ ر ھ ا ح ور ب یب کری ئ
ی س ت ص ل ل ے رمای ا:ئ ب
عض ٓا قمہ
س
ہللا ع ٰالی لی ہ و لم ان موہ ع عض اال مۃ ا فہم ہللا لعزوج ل اھلہ لی ل ال ف
من الص ات ا محمودۃ لی طابق االسم ا مسمی۔ دمحمٓا ،لتما ی ہ ن
ات قڈالی کہ والوں کے دل می ں ی ہ ب ن ن ے ٓاپﷺ کے گھر عالی ن ’’ہللا ٰ
ٓاپﷺ کے ا در اب ل ئ کہ و ی ں ھ ک ر ‘‘ دمحمﷺت ت ’’ ام کا ٓاپﷺ ت
ی ک ف
ات موج ت نودخ ھی ں اکہ اسم ب امس ٰمی ہ وج اے‘‘۔ فص ق ف ؓ ی عرث ض
ے خ ف ہ صورت ب و ا ک ول ہ کا ت اب ض ن ب سان ح رت
ش ق ی ح
الی اسمہ اذ ال ی المس الموذن ا ہد ف ش م اال لہ اسم الن ب ی
وھذا ندمحم( (۶۵ت ن و تق لہ تمن اسنمہ ی ن ج لہ ذوالعرش مع نمود
کے سا ھ مالدی ا۔ ج ب
خ
ےنام ض ن ے ب ی کری مﷺ کا ت ام اپ ’’ و قہللا ع ٰالی ش ن
مﷺ کا عالی ے ح ور ب شی کری ئ ت ے اور ہللا ٰ ت
ت موذن امشہد کہت ا تہ نپ ا چ و ن ن
ے ام سے ق ک ی ا اکہ اس سے ٓاپ کو عزت ی ج اے و عرش ام اپ
۔ ‘‘ ں دمحم ہ اور ے مود م
ح مالک
ص ن ض ؓ ض حی ہ ضی ہ ع ق کا پ ن
ے حا ل کرے ق مال لی اری ا ی کت اب میتں ح رت ضلی مہ سحعدی ہ کانح فورﷺ کو ر اعت کے لی
کا وا عہ ب ھی چک ھ اس طرح ب ی ان کرے ہ ی ں کہتح رت لی ؓمہ ے رمای ا :ئ ق
ت ن
’’می ں ب ی سعد ب ن ب کرنکی عور وں بکے سا ئھ مکہ معظ مہ می ں ٓا ی کہ حط سالی
نن ت ے مل ج ا ی ں‘‘۔ ےچ کے دوران دودھ پ الے کے لی ن ت
ب
می ں اپت نی عور وں کے ہ مراہ چ قل پڑی ،می نرے پتاس می را چ ہ اور ای ک دب لی کمزور بن بوڑھی او ٹ ی ھی
ے چ وںتکے ہ ت
مراہ سو پرات ا
ب ھا۔ ہ نم سارے پوری دودھ کا طرہ ب ھی نن ہ نکلت ا ت ت وں می ں سے ت ھ ب خ دا جس کے
ے کو کھالے پ الے، سے ہ نم چ ض دودھ ھا ن ہ نمی ری او ٹ ی کے تھ وں ئمی ں جس ع ئچ بھا ی وں می ں ے ن ہ می ری ن ہ سک
مﷺ کو پ یش ج
رے ہ مراہ تعور ی ں ٓا ی ں ،ان کو ح ور ب ی تکری ن
ی رے لم می ںت ت نی می ن ی ب ج ب ہل ی م مکہ ٓاے خ تدا می
ری ہ ر نساخ نھی ے دودھ رے سوا می ن ں ،می ت
ن
ے سے ا کار کرد ی ئ
م ج ب
ت ے یو لی صکہق چ ہ ت ی م ہ ن کن ج ب کہا ج ا ا
ب
کی ا گی ا
ے او د سے کہا: ے کو ی ت ہ م ٹال و می ںنے اپ ت ے کے عالوہ ت ھ ب تیم چ ے چ ہ خحا ل کرل ی ا۔ ج پ ن پ الے کے لی
ن ن خ
’’ دا کی سم! می ں ا ی سا یھ وں کے سا ھ الی ا ھ لو ا س د ہی ں کر ی،
پ ہ
ئ ت ت ض می ں اس ی ت یضم
کروں گی ،و می ں گ ٹی وت می ں ص
کے پ اس رور ج أوں گی اور اسے فرور شحاف ل ن ن
ےے ھ ڑے می ں لپی ش پ ک ی ناو اف د ی س ت
ادہ ز ٹ
سے دودھ ٓاپ کہ
ت ھا ک ید ے
ح یت
ے سب ز رن گ کات ر می کپ ڑا ٹ چی ٓاپ خکے ے۔ ئ ےئھ ھ ا ےل کے وریجتس سے کس پ ن
ے،ق می ں ے ھ ے نلے رہ نھا اور ٓاپ ا ی کمر کے ب ل سوے ہ وے نرا
ا۔ می ں نذرا ری ب ن
کے ح نسنتو ج مال کو دی کھ کر نٓاپ کو ج گا ا پ س د ہ ک یئ ے ٓاپن ئ
ک س س
ٓاپ ن کراے اور ٓا کھ نھول
ک
م ک
ے پر ر ھا ن ہ و ی می ں ے اپی اک ا ن ھشٓاپ کے ی ہ
نکر می ری نطرف د نھ ئا روع کردی ا۔ ٓاپ کیی کدو توں ٓا ئھوں سے ایسا ور
نکال ج و ٓاسما وں کی پ ہ ا ی وں می ں چ ال گ ی ا ،می ں د ھ ی رہ گ ی اور ٓاپ کی
ں دی ا۔ نم ی ئ ان ٓاپ کے من ہ وسہ دی ا اور دای تاں پ ست ئ ت ٓا کھوں کے درم ی ان ب
ںےبا ی ں ش نج ہ ہ نوے۔ پ ھر ہمی ٓاپ اس کی طرف ج ب ک چ اہ ا م و
ی
پ ست ان کی طرف ٓاپ کو پ ھی رآ ،اپ ے ا کار کردی ا اور می ہ ہی حالت
ع رہنی‘‘۔
ت ئ ب ش کہا :ن ے ض ل لم ن اہ ت
ے و ہللا ت نہللا ع ٰالی ے ح ور ب ی کری مﷺ کو ب ت ادی ا کہباس دودھ ئمی ں ان کا ای ک اورب ھی ری ک ہ
ے اور ٓاپ کا ب ھا ی ھی سی ر ہ وگ ی ا۔ عالی ے ٓاپ کو عدل و مساوات کا الہام ک ی آ ،اپ ھی سی ر ہ وگ ٰ
68
ن ت ض رت حلی ؓ
ن ت زول کا وں ک ر ن
ب اں ہ کے
ع ق ؒ مہ ح
ے: ا ک طرح ئ اس ھ ک چ ذکر کا زول کے وں ر اں ہ کے اری ے ب ھی ض رت حلی ؓ
مہ ن لی الم
ن ہ ی ن ک ب ق ت ح
نمی خرا خ او د ن ن پ ھر می ں ٹے ٓاپ کو ل ی ا ،پس ا نتا ون ت گزرا کہ می ں ٓاپ کو اپ ی سواری کے پ اس ال ی،
اس ے ود ب ھی پ ی ا ے خدوہ نکر ن ے۔ ۔جس اس کے ھئوں می ں ب خہت زی ادہ دودھ ہ او ٹ ج ی کی طرف ا ھا ،دی تکھا کہ
کہا:ت ن ے تاور ن ہاں ک کہخ م سی ر ہ و ہ ے ب ھی پ الی ا ،ی ق اور م ھ
رے او د ے ی ک ص گزاری ،می ب
رات ی ری ت سے گ خ ؓ ح
ے۔ د ھ شی خہی ں
ہ ے خکہ م ے ب ڑا ہ ی ب ترکت واال چ ہ حا ل ک ی ا ہ ت لی مہ! دابکی سم!صمی را ی ال ہ
عالی می ہ ی رو ٰ ہللا ے۔ ہ گزاری رات ھ ا س کے رکت ی ب رو کس ے ے کو حا ل ک ی ا ہ اس چ ت کہ ج ب سے ف
ب رکت می ضں اض ا ہ کر ا رفہ ا۔ت
ن ب ن خ ح رت حلی ؓمہ رمانی ہ ی ں:
مﷺ ’’لوگوں ے ای ک خدوسرے کو ر صت نک ی ا ،می ں ے ھین ب ی کری ئ
نور تپر سوار ہ خو ی کی ،اپ ی سواری کے ج ا سے ر صت حاصل ن کی والدہ ماج دہ ن
ے ٓاگے رکھا ،می ں ے دی کھا ٹکہ سواری ے ی ن ب ار ان ہ اور دمحمﷺ کو اپ
ڑی۔ ی ہاں پ
طرف ا ھای ا ئھر چ ل پ ے ،سر ٓاسمان کی ق تکعب ہ کی تطرف سج ہدے یک
ے دی کھ کر لوگ جم تھ تگ ب ٹ ی، لے ت ب ست سے
ک ج وں مام ہ مرا ی توں پ ی ی
سوار کی ک کہ ت
ت
ے ی ں ابتو ذٔوی ب کی ی ی ی ہ ج ی ری ئ ہ م
ے سےت ھ جع ب کرے۔ عور ی ں چ ھ
بک ق
ےسا ھ ٓا ی ھی و ھی ھ
ہ
ج
خ وکر تو ہ مارے ک
ہ ے جس پنر سوار
بک سواریتہ وہ ی ت
ت
ے ،وہ پظست کر ی تھی ھی ب ل د؟ می ں ہشی’’ :ہ ئاں دا کی سم! ی ہ و ی ہ
ت ت ڑی ان ہ وتگ ی‘‘۔ ت ت ہ ش ا ہار پ جعنب کر ی ں ،اس کی ب
ں ،ان کو دوہ ا ج ات ا اور پ ی ا ی نت و ہ ھر ب سے ن دودھ اور
ی ی ت ں و ہ ر نس وہ ق
و ے نکو ا ی ب کری اں واپس ال ت ن پ ھر م ام
ت ن م
دودھ کا ای ک طرہ تہی ں لت ا ھا ،ہ ج ا وروں کے ھ وں می ں چک ھ ھا ے می ں کسی کو ن حاال کہ اس زما ق جا ا
ہاں ت
ے ج ہاں حلیق ؓمہ کی ب کری اں چ تر ی ہ ی ں وہ اں چ رای ا کرو۔ سے ہک ت وں ہ روا چ ے پ ا لوگ کے وم اری م ہ
پ ھر ب ھی شکہ ک ی
ری ب تکری اں سی ر ہ ئوکر اور ای ک طرہ شدودھ ن ہ ہ وئ ا۔ می ٹ ں ٓا س پ وا ھوکی ب اں کر ب کی ان کو ام
ے۔ اور موے خ ازے ہ وگ ے گ ڑھ ب ی کرے ،اس ب رکت یسے حلی ؓمہ کے موی ن ض
ی
ال ھ ب کا ان ہللا ں۔ ی
ت
لے ٓا دودھ
ئ
عزت و عظ مت حف ور ب ی کری مﷺ کی وج ہ سے ب ڑھ گ ی اور بی بی حلی مہ برابر ی رو برکت خ کی مہ ی ی حلی ت ؓ
ب ب
ش خ وگی۔ اب ہ ف ح ی ض ی سےش رکت غب رو محسوس کر ی ں اور ق ی
ق
مۃ م اما عال ی ذاوۃ العز والمج د وزادت موا یہا وا صب ل ب د ب ل قت ب الہا می لی ب ن
پ ن ر عب نھا وٹہدشعم ھذاالسئعدکل یسحعد ( (۶۶ق
ع ہ
عزت و ظ مت کی اس م امئپر چ ی کہ ق کے ذری عہ سے لی مہ ی ش ’’ ی ا م ف ئ
ے اور اس کا ئعال ہ سرسب ز و ڑھ
ت بن ب گ ی مو کے اس ی، و ہ ز بشل ن د چ و ی پر ا
ے عام ہ وگ ی‘‘۔ اداب ہ وگ ی ا اور ی ہ ب رکت مام ی سعد کے لی ن ش خ
ق قن زات ج م
ن کے ٓاپﷺ خ ں زما ہ ی ر ب یہ ی
م وارگی ق
ؓ ط ل ع پن
ے۔ است ب تن ع ب دا م لب کا ی ہ ت نول ل ک ی ا ہ ف اب می ں ع ب فی اب ن عساکر اور طی ب ے اخ ی کت ن
ن ب ل ن ہللا دعا ی الی الد ف
ک رای ت ک نی المہد ا
ث ق ول ی دی شک امارۃ و ارسول ت ش ین ق
ع ثی ال
ص حک حی ث ا رت الی ہ مال ال ا ی ک ت احد ہ ی یب با ہ ال ر و مر ن
ن خ ن)۶۷ وی حد ی(
ن دا ل ہ وے کی ٓاپ کے دی ن می ں ج ’’می ں ے عرض کی :ی نارسول ن
ہللا!
م
دی۔ می ں ے ٓاپ کو ن ے ش وت ے ھ دعوت ٓاپ کی یعکالمت ب ن گ
پن
ے ہ ی ں اور اپ ی ہ کرر اں ی سرگو سے د ا چ ٓاپ کہ ھا د ں ی م ھوڑے ن
ت اش لی سے اس کی طرف گ
ہ ش ہ ت ن
ے ہ ی ں۔ ج دھر ٓاپ کا ا ارہ و ا چ ا د ادھر ی ھک ج ا ا‘‘۔
ج ت ارے کررہ ا ف شت
ت ے الھ ج ھوال ج ے ر
فع ق
ئ ف ت ے ہ ی ں کہ اسی طرح مال ت لی اری ب ی ان کر ق ف
عالی ع بلیتہ وسلم ت کلم ئ ی اوا ل ٰ یت ہللا لی ص ہ ن ا دی ئ و ی ح ال ب اری عن فسی رۃ خالوا
ماولد ،وذکر اب ن سب ع ی ال صا ص ان مہدہ کان حرک حری ک المال کۃ۔(
(۶۸
69
ق فت
ے کہ ی ہ سے لکھا ہ ئ می ں ئ’’سی رت وا دی‘‘ کےنحوالے خ ئ ’’ ح ال ب اری
ن ستعد ے ’’ال صا ص‘‘ می ں ذکر ک ی ا کہ ے۔ ابت حال اب ت دا ج ی ف ش ت ہ
کا ش دا پ ے
ض ن ے‘‘۔ نی ا کرتے ھ ھوال رے ج ھال ٓاپﷺ کا ث ئ ق ن
ے۔ دو ِر حا ر کے ممت از عالم دی ن ا ا ن ت یز کی ر س ب ے کرام مہ ٓا ر اک کو ات ع وا وں ف ان دو ش
ب ن
ب یہ ی ن پ نک ق ٹ
نلد دوم می ں ھی اشمام ج الل الدین ن
گ ی خ االسالم پرو یسر ڈاک ر دمحم ضطاہ ن رال ادری ے ا ی کت ناب سی رۃ تالرسول ج
ے کے ا ارے پر چ ل ناور ا لی ہ ن لے ت سے ح ور بض ی نکری مﷺ کے چ ا د سے ب ا ی ں کرے س وطی تکے تحوا ف ش ی
ے۔ (۶ ی ہان ب کا ے ر امور م ر پ ے ال ہ کو لے و ھ ج کے رحمتﷺ ی ب ور ح کے وں ر ھ سا ھ سا کے
ن ۹ض) ن
ت ت ؓف ق الم
ؓ ک ال ہ ن پسے سب کا مﷺ کری
ق یح ور ب
ب
ے کہ لی مہ تسعدی ہ رمای ا کر ی ھی ں: ح ہ ی
چ اس کیضی ہ نروای ت ل کی ہ ی اور اب ن عساکر ے اب ن ع ب ن
ے ح ور ب ی مﷺکا دودھ ھڑای ا و کری ے می ں ف ’’سب سےنپہل
ٓاپﷺ ے ی ہ ثکالم رمای ا:
ہللا اکب ر کب یرا والحمدللہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی ال۔ ت ف
ے ے ،سب عری ی ں ہللا کے لی ے ،ب ہت ب ڑا ہ ’’ہللا سبشسے ب ڑا ہ
ہت ت ل ت ہللا کی پ اکی ب ولو‘‘ی ک۔ ب ص ت ح و ام ئ ب ہ ی ں۔
ی ک
ے کن ان سے الگ لگ رے۔ھ
قن ڑے ہ نوے و ب اہ ر ج اکر چ وں کو ی لت ا د ھ
ھ ذرا ب ن
ؓ ن ا ب ادل کا سای ہ کر
ے۔ ن ل کی ہ ت
دہللا اب ن ع بناس ی تسے ی ہ روای ت ف اب ضن سعد ابح و عی م ،اب ن عساکر ے ع ب ن
سے ظ ری ں ب چ ا کر ں۔ ای ک د عہ ان ن
ی ئ ح ؓت ھ ی د ے ا ٓاپﷺ کوشزی ادہ دور ت ی ج
ں ہ ض ح قرت لین ؓمہ
ب ک
ے۔ لی مہ الش می ں لی ں اور ہن دوپہر کے و ت اپ ی ر اعی ہن ی متا کے سا ھ ب کریوں ب
ےگ ن کی طرف چ ل
ت
قف ق ظ ے کہا: غ ٓاپ کی ب ہن کے ہ مراہ پ اکر ب ولیف قں اس خگرمی می ں؟ و خ
ل
الت ا ت ہ ی ا امہت ما ونجت د ا ی حرا ،رای ت مامۃ ل علی ہ اذا و ف و ت
ن )ت واذا سار سارت ح یئا ہی الی۔ن (۷۰
ے تٓاپبکےٹسر پر ت ت ھا ی کو گرمی ہی ں لگ ی،ٹ می ں ت ’’اماں! می رے ب
ے وئوہ ھی ھہر ج ا ا، ے ج ب ٓاپ قھہر ج ا ن ک ی
ب ادل کو تساتی ہ کرے دت ھا ہ
ے‘‘۔ ہاں ت ک کہ اس م ام پر پ ہ گچ ےت و وہ چ ل پڑ ا ی ن ٓاپ فچ ل ض
ح رت ثحلی ؓمہ رما غی ہ ی تں کہ می ں قے دق فکھا
ی
سارت۔ ()۷۱ نامۃ ظ لہ اذا و یف و ت واذا سار ت ت محرات م
ک
ٓاپتپر سای ہ کر ا ن ھا ج ب تٓاپ ھڑے ت وہ ھا ک د کو ادل ت
ب ھر پ ےٹ تی ؓت
مہ ’’ ل
ے لگ ج ا ا‘‘۔ ب
ے و وہ ھی چ ل ہ وے و وہ ہرج ا ا اور ج ب ٓاپ چ ل ھ ش
ض ب پن ن ع ق ق شصدر ق
ے۔ح رت حلی ؓمہ ا
ی ی یہ ک ان ب وں ھ کچ ں یم اب تک ی ا ھی ے اری لی ال م عہ وا کا صدر ق ف ت
ف ت ضرما نی ہ ی ں:
ن ئ مﷺ کی والدہ حم رمہ کی و ات ح ور ب ی کری ض ن
ت میت ں پ ا چ ،ای ک می ں چ ھ ،ایت ک می ں ج ب ح ور ب ی کری مﷺ چ ار سال کے وے ،ای ک روای ئ ہ
ن والدہ حم رمہ کا ں قب ارہ سال ای ک مہی ن ہ دس دن کے ہ وے قو ٓاپﷺ کی سات اور ای ک روای قت می ن ت ش
ے چک ھ ے کہا جحون کی ان ای ک م ام ضہ ن ن
ام پر ا ال وا ،ی ہ مکہ اور مدی ہ کے درم ی ن ہ م کے ف ٹ ی ر اب واء
ق
ے کہ مکہ المکرمہ می ں ’’دار اب عہ‘‘& می ں ح ور ب ی کری مﷺ کی والدہ ی ہ ں م اموس ال وا۔ ہ ں ی م یف ھا گ ک ایت
ے۔ ؓ حم ضرمہ کا مد ن ہ
ئ ت ؓ ف ض ن ح رت ع بض دال نم طلب کا وصال
ن ج ان ح رت ع ب دالم طلب وت ہ وے و ے والے دادا رورش کر ن مﷺ کی پ ن ت کری
ح ور ب ی ٹ
ے کہا :و سال چک ھ ے کہا :سات سالٓ ،اپﷺ کے دادا کی عمر ت
ٓاپﷺ کی عمر ٓا ھ سال ھی چک ھ ق
ؓ ن ھر پ ے۔ ض ہ ال س ) ۱۴۰ ( س
چ ین ت ل ا سو ک ای ک سو دس ( )۱۱۰سال ھی ،ای ک ن م ب ی ن
ا ق طا کے ول
ٓاپﷺ نکے چ چ اضے کی ،ج ؓن کا ام ع ب د مت اف ھا۔ ح رت ع ب دا م لب ے
ط ل ئ رورش ئ ت ٓاپﷺ کی پ ف
ے۔ ہ ی ان کو ی ہ وصی ت رما ی ھی کی و کہ وہ ح رت ع ب دہللا کے ب ھا ی ھ
70
ف ت ئ ت ق ف ق ن ن ف
س
ے و ی ہ کو ی اور ر ھا۔ ح ص
ح
ی عہ وا ہ اگر کہ ا رما ں م ہ االصا ے س
ہ ی ی ی شب ؓ ض ورن ب یحاکری مﷺ کی دہ خ
ی ال ع ر ج
ح ن ب ا ظ
ش شت ت ن خ ادی سے
خ ہ ج د
سی ی ض ن ح
لے فن ت م س
ھرفح ور ب ی کریخ مﷺ سغی دہ دی ج ہ ب بت وی لد کی ن ج ارت کے تلسلہ می ں لک ام ری پ ئ
ےو ازار می ں پ ہچ ے۔ ب خصری کے نب ٹ ے۔ قاس س ر می ں س ی دہ دی ج ہ کے ت الم میسرہ ھی ٓاپﷺ کے ہ مراہ ھ گ
ے ھہرے اور ت کے چی ٓاپﷺ س طور راہ ب کے در ٰ ٹ اں ن ہ و ئ ھی، سال س ی
ع ن چ پ مر کی ن ٓاپ ت و اس
ت خ
ے ب ھی ب ی کے سوا کو ی ہی ں ھہرا ھا۔ اس در ت کے چی
ئ ن ٹ ے: ت می ں ہ ؑ نای ک روای ض
سی کے ب عد کو قی ہی ں ف ھش تہرا‘‘۔ ی ع
ئت ت رت ہ ٰ ک ی عم’’ح
ےو کہ
پق گ م س وا ب ے کر ہ
ن ن نپ ی ب ٹ ج اس ر ٓاپﷺ ے ر دو ت ض ن و کے ہر طوری ہ خ ن ھ ک پ
دو کہ ا ر ا ت د ل ن نس
ے دوپہر کے و ت ی
نر ھ ے او ٹ پ ف
ں ھڑے ہ وکر ح ور ب ی کری تمﷺ کو اپ ت ے ب اال ا تے فمی ش ت پتخ شدی ج ؓہ ے ا
نم ے خروای ت ک ی ا۔
ش ے۔ ان کو اب و عی گن ھ ے ٓاپﷺ پر سای ہ ض ن ریف الے دی کھا و دون ر
ت ت
ے اور ی قس دن کے ب عد ح ور ب ی کری مﷺ ے س ی دہت دی ج ہ تسے ادی کی۔ چ پ
ی اس کے دو مہ
ے ہ ی ں یس سال ھی۔ ہ ے کہ اس و ت ٓاپﷺ کی عمر اکیس سال ھی۔ چک ھ ک ای ک روای ت می ں ہ
ت
ی
ادی ’’اب وھالہ ب ن زرارہ می می‘‘& ئزمان ہ ت م ں ی ی خ د ج ہ کا لق ب طا رہ ت ھا۔ ان کی پ ہلی ش
ف ئ ہ ن ج اہ لی ی ب ب ب یٹ
’’ ت ی ق ب ن عاب د ع
ھالہن‘‘ پ ی دا وے ،ضان نکی و ات کے ب عد ن ہ
ن ے ’’ہ دا اور کے دو ی ت
ٓاپ سے ہ و ی اس سے ن
کاح کے اور ب ی ٹ ا ہندا خامی پ یندا ہ وا۔ ح ضور ب نی کری مﷺ سے ت خ مقخ زومی‘‘ سے ٓاپ کا کاح ہ وا اور ای ک
مﷺ کے سا ھ بی بی ور ب ی کری ض ن ے ٓاپ کو ح ل
ن ان خکی عمرنچ ا یس س ضال ن ھی۔ بی بی دی ج ہ ے تودشاپ و تن
ے یش ک ی ا۔ ح ور ب ی خکری مﷺ ے پ ے ٓاپ کو ح ور ب ضی نکری مﷺ کے سا ھ ادی کے لی خ دین ج ہ ے ود پا
مﷺ کے ہ مراہ ٓاپﷺ شکے چ چ ا حمزہ بی بی دی ج ہ ئکے والد ذکر تک ی ا ،نحنور ئب ی کری ض ن ے چ چ أوں سے اس کا ش خاپ
سے ادی کردیناور ب یسخگا ی ں حق ے اور شح فور ب ی کریشمﷺ کی ان ت گضگ ے ما ہ ر اس ض پکے اسد ن لد
ی ب و
ے۔ اب و طالب ے یوں طب ہ پڑھا: ں ،ح رت اب وب ؓکر ناور م ر کے ر اء اس ش ادی می ں موج ود ھ م ثہر می ں دی ف
ے یﷺ قمسلما وں کے لی ب ت مصط
ےف ہ دای ت اور م رکوں پر جح ت ہ ن ت ع
ے رٓان عظ ی م می ں رمای ا: ہللا ع ٰالی ق
ن رٓان )۱۲۸ :۹ج ف (ال خ
ق ب ض بمولد ی ر الع بن اد ازنامام ع ر الکت ا ی ن ف ۴۔ الی من واالسعاد
ت ی ح ورﷺ کے چ پ ن کے وا عات اور معج زات کو وب بس حا ے ب ھی حمب ف ن ئ ر الکت ا قی خ امام دمحم ب ن ج ع
ے۔ رماے ہ ی ں: صورت پ یراے می ں لمب د ک ی ا ہ
پ بڑے وب ب چ ن
ت ت ب ت ئ ت گھ ن ے کی ھب ن ہللا ہللا وہ پ
کےتب ل چ وں کے سا تھ سا ھ ادھر ادھر ن ے و ٹ وں اور ہ ا ھوںت ہ
کے نوگق ئ ت ٓاپﷺ ج ب دو ماہ ت ن
ے کر کڑ پ کو وار د و گزرے ماہ ار ے۔ ھ ے ا و ہ ھڑے پت ف ک ر ت دموں
ئ ے ا و ے و ہ کے اہ م ن اور ےگ لن ے جا
چل فی ن چ
ل
ج پ ل ی خ ن
کے سات ماہن ف ے۔ ج ب ٓاپﷺ ش ے نگ نکے وے و یٹز ر ت اری سےئچ تل ہ ے چ ھ ماہ ےنگ ئ پ ا تچ وی ں ماہ از ود چ ل ے۔ لگ
ے و ب ول ان روع کردی ا اور یص ح کالم رماے کے ہ نوگ ت ت ے اور ج ب ٓا ھ ماہ ے ج اے لگ ئ ت ہ وے و دوڑ کر ہ ر طرف ٓا
ے۔ ئ ل
دازی کرے گ صماہق پورے ہ وے و ٓاپﷺ لڑکوں کے سا ھ ی ر ا ئ ت ے۔ دس لگ
ع
یح حئول کے م طابق ج ب ٓاپ کی عمر م ب ارکہ چ ار سال ہ و ی و ج بری ل و می کا ی ل لی ہما السالم ٓاپ
ن ت ن ئ ن ن ٓاپ کا کے پقاس ٓاے اور ق ن
کال کر پلھی ک دی۔ سے س ی اہ لو ھڑا ما کو ی چ یز ت اس می ںن کاال تاور ت سی ہ ا دس چ اک کرکے لبماطہر کو ب اہ ر ت
ی
ٓاپ تکا وزن ان کے سا ھ ک ی ا کن
ق م ولو ،و اس ے ت ن کے سا ھ ان کو ،ان کے دس ا ت ی وں ن
ے۔ پ ھر ہ خ ھاری ر ٓاپﷺ ب ہ ن اس ے کہا سو (ب دوں) کے سا ھ ولو! گر ن ے۔ پ ھرت ت ٓاپﷺ ب ھاری رہ ن
ے۔ ھر اس ے کہا بس رے دو! دا کی سم پ ٓاپﷺ ب ھاری رہ ت م
اس ے کہا ای ک ہ زار کےسا ھت ولو! گرت ت
ب
ت وری امت نکے سا ھ ھی ولو گے و ان کا وزن زتی ادہ ہ وگا۔ئ( ت )۷۴ن ن اگر م ان کو پ ق
سے وا فپس ٓاے اور ی ن ماہ و ی و مدی ہ م ورہ ہ ہ ارک چ ھ سال ئ ئ جقس و ت سرور کو ی نﷺ کی عمر م ب ف ق
ہت وے م ام اب واء پر ٓاپ کی والدہ کری مہ داغ م ار ت دے گ ی ں ج ب کہ ٓاپﷺ ان کے مس ر اور ج لیس
ے۔ ھ
71
تق ً ق ن
ج ن ن
ے و ری ب ا ای ک دن کی بہ ہ ص ک ف اب واءقمکہ اور مدی ہ کے ماب ی ن ،مدی ہ سے زی ادہ ی ی
ا ک زد
ش فق ن ن ے۔ ن ت ق مسا ت پر وا ع ہ
کے ب عدنٓاپ کے دادا ج ضاب ع ب دا م لب ے کمال ت ت و حمب ت سے ط ل ال والدہ ماتج دہ فکے ا ف
دوسری مامناوالد کے رت ع ب دالفم طلب کیت ت ٓاپ ا۔ ض
ش ح ت ٓاپ کی سرپرسخ ی و ک الت کا ی ق ج ب ی
د ام سرا ہ ر
ے۔ ( ع ی دادا کے ی کی لوت اور ٓارام کے و ت ھی ان کے ہ اں ریف رما ہ وا کرے ھ بنرعکس انت ت
چ
ئ لط ب ف ئ ت ٹ ے) ے ھ ہای ت ہی
ے اور ٓاپ کی ٓاپ کی عمر م ب ارک ٓا ھ سال ہ و ضی و ٓاپ کے معزز دادا ع ب دا ئم لب ھی ونات پ اگ ف
ے لے ل ی ا۔ ے ب ھا ی اب و طالب ن تع بتدہللا) کے سگ ک الت کا ذمہ ٓاپ کے والدشگرامی (ح رت
کے تعالوہ ا ہی ںنکسیتاور سےک نتہ ت اور ای سی حمب بت کٓاپ ن ےطالب ٓاپ سے دی د ن حمب ت کرے ھ اب و ؓت ت
ے ہ
ے سا ھ ی ر ھ ے پ اس ی سالے اور ج ب ھی ہی ں ج ا ا ہ و ا ٓاپ کو اپ ک ہ ت ھی۔ ہی وج ہ ھی کہ وہ ٓاپ کو اپ ی
ن ت ئ ش ض ے۔ ھ
طالب کے ب و ب ا ان ے
پ چ چ ا ٓاپ و ی
ش و ہ دن دس ماہ دو سال ارہ ف
ع ئ ی تب ر مر کی اکرمﷺ ت
سف ش ور ح ب ت ش ج
ے اور حی رہ کے سرحدی ہر) ب صری پ ہچ ک کہ (ش ام ن ف ہاں ی ے، لے
ی گ ف ی ر ر پ ر کے ن ام سا ھ
ٓاپ کی ص ات کری مہ کی مود سے ٓاپ کو پ ہچ ٰان گ ی ا۔ اور ٓاپ کے کن وہ ھا، ک ت د کو ٓاپ پ ق ر اں ہ و ے ب الراہ
ےلگا: دس ھام کر ہ پ اس ٓاکر ٓاپ کا دست ا
ل ل
ہللا رحمۃ لعا قمی ن ث ی س
ہ ذا س تی دالمر لی ن ،ہ ذا س ی دالمر لی ن ہ ذا ب ع ہ ن س
کے ٓاب ا ہ ی ں ،ی ہی ہ ی ں وں سردار اور سارے ج ہا ن کےج ن’’ی ہ مام ترسولوںن تت
ے‘‘۔ ن
ن اکر یھ ج ا ہ ے رحمت ب عالی ے مام ج ہا وں کے لی ت
ت م ہللا ٰ ہی ں
ت ا:
ن د
ت ی واب ج ے اسخ و ئ
ال؟ ت ہ
ی یت پ چ تےس ک ں ہ سب ہ کہ ات
اس سے پوچ ھا ی ی
گ
ے و کو ی در ت اور پ ھر نایسا ہی ں ھا وج ئ نھ ے ’’ج ب م کسی پ ہاڑی پر چ ڑھ
انتکو سج دہ ن ہ کررہ ا ہ و اور ی ہ سواے ب ی کے کسی اور کو سج دہ ہی ں ک ی ا
ن ن ن ب پ ن نکرے‘‘ ن۔
ے دھوں کی ہ ڈی سےیچ کے دو وں ک ج ہ
ں مہر ب وت کی وجنہ سے ھی ن شہچ ان ت ا وںن و ان ت اور می ں ان ہی ئ
خ پ
نسے ا ذ کی ہ ی ں۔ ے اور م خے ی ہ سب نا ی اں ا ی کت اب وراۃ می ں ہ ہ سی ب کی طرح ب ی ہنو ی
ئو طالب ے ی ہودیوں سے طرہ کے پ یش ظ ر ٓاپ کو واپس لے ج اےکا سوچ ا اور مکہ واپس اب
ن خ من ض ن ت ھ چ ) ۷۵ ( ے۔ لوٹ ٓا
ےٓ ،اپ ے ح رت ام المو ی ن دی ج ہ ب ت ت ً ب
س سال گزرے ھ
ل والدت ب اسعادت کو ق ی ت ق ج
ٓاپ کیف ن خ ؓ
ن سال نھی۔ ت ت ق س ی ا چ ا ب یر ت وف اس مر
ؓ ن ع کی ن ا یام ر اح ک ض سے لد وی
اور سلی ہ م دی کے بت اعث طاہ رہ اور س ی دۃ ال ساء ق ش خح ترت خ دی ج ۃ الکب ری اپ نی ع ت و پ اک ب ازی
ہرات سےش ازدواج م ط
ؐ ن سے ی اد کی ج ا ج نی ھی ں۔ ٓاپﷺ مام سردار) ٰکے ب خام خ ت ن ف( ض ری ی وا ی ن کی
امام اال ب ی اء کی زوج ی ت کا رف ے ئ ا ل ہ ی ں اور ٓاپ ہ ی وہ ی ک ت ا ون ہ ی ں ہی ں سب سےشپہل
ن ں۔ ن ہ
سے م رفن و ی مان ف ن ی ےا سے پہل ناس امت می ںتسب ئ حاصل ہ واضاور ٓاپ ہ ی
ن
ے پ اس ح ورﷺ ے ٓاپ کے ہ وے ہ وے ہ دوسرا کاح رمای ا اور ہ ہ ی کسی لو ڈی کو اپ
ت ن نتق ل من ئ ؓ رکھا۔
مﷺ کی مام اوالد ٓاپ ے ٓاپ ی ضکا ا ال وا۔ن ب ی کری ق ہ ہ ہ
امہات ا مو ی ن می ں،ئسب نسے پ ؑل
نالموم ی ن ماری ہ ب طخی ؓہ کے ب طن سے پ ی دا کے ج و ح رت ام ن م کے ب طن ضسے ہ و ی۔ قسواے قس ی قد ا اب راہ ی ہ یئ ت
ے۔ ح رت ماری ہ ب طی ہ کو م و س حاکم اسک دری ہ (مصر) ے ٓاپﷺ کی دمت می ں ب طور ہ دی ہ ؓ ے ھ ہب و
ت
فض ن ئ ن یھ ج ا ھا۔
ے رب کی ع طا کردہ ی لت کے ب اعث ج ہاں کے اب ت دا پیت ای ام می ںت اپت ٓاپﷺ اعالنت ب وت خ ت ت
ے)۷۶(: ے ھ ک
ے کے در ت اور ھر یوں ہ ے ،راس سے ب ھی گزرے ھ
السالم عل ی ک ی ارسول ہللا۔
ن ق ف نپر تسالم و‘‘۔ہ ن ’’اے ہللا کے رسول ٓاپ
اعالن ب وت کے ب عد ٓاپﷺ نے ی رہ سال مکہ معظ مہ می ں ی ام رمای ان اور وحیتکا زول اسی ج گہ ت
ہ و ا رہ ا اور ہ ج رت کے ب عد دس سال مدی ن ہ م ورہ می ں اسی طرح ٓاپﷺ پر وحی ازل ہ و ی رہ ی۔
72
ن تیٹ ت ن
ے پ اس ب الل ی ا۔ ٓاپ کو قاپ ہ
ارک کے ر س ھوی ں ( )۶۳سال کی اب ت داء ی فمی ں ت ے عمر م ق رب ع ٰالی
)۷۷ ( ے۔ ھ ہ کے بسر اق دس اور داڑھی قم ارک م ں ب یس ال ب ھی س د ن ن ن
ٓاپﷺ اس و ت
ن ی ی م ب ب ث ث ن ع
ے وج صورت می ں لمب د ک ی ا ہ خ عات اور عجئزات کو کت ابی ظ اہ ل لم ے ظ م و ر می ں ب ک رت م ت
ان خوا
امور کے سب ب ی ا نٓاپ کے دست ن ب پر اہ رشہ وے اور ج و عالمات اور رق عادات ٓاپﷺ ن
ت
ظٓاپﷺئکی سب ت اور مت اسب ت سے والدہ ماج دہ کے کم می ں ج لوہ گری سے لے کر لمحہ وصال ک
ے۔ ہ ہور پ ذیر ہ وے ،ان کا ب ھی ذکرہ ک ی ا
صلوات ہللا وسالمہ علی ہ وعلی کل من ھو مُن ہ والشی خہ۔
ہللا تکا صلوۃ و سالم ہ و اور ہ ر اس ص پر ج و ٓاپﷺ کی ب ’’ٓاپﷺ پر
ے‘‘۔ ٓامی ن ا ت ک ٰ ر گی س وا ق ل ارگاہ سے کام
ھ ہ ن ب ت
سف ن
ی ش ف
ج ت سم کی مک خ کے س ج ے حسن کھا لیہ
ا
ے اور اس ت کی ا ہ ع
من واالسعاد بمولد ی رالع ب اد کا اردو ر مہ المہ پرو یسرت دمحم ت ہزاد مج ددی فی ے ف ئ ا
کہ نں ن ہ ے ے ہ ں۔ اس کے سا ھ سا ھ عالمہ ص خاحب ً رمان ی ان ب یﷺ ق ق کت اب م ں ش ما ل مصط
ن ی
ق ہللا کی مخ لوق ( صوصا) سل ا تسا ی کو اپ ی
ی ک شی ئ ح ی
کرام اور ا مہ م ی ن کے ار تادات کے م طاب ف ت ض ل ق نماء ع
ے۔ ش ہ ٓابﷺب تت م الت س ر ت عر م وہ ے، ہ ن اج ی ح ا کی زی چ س ج ادہ ی زنسے دگی ات ز مام روری ح ق
ک ن س م پ ب
سے ت ہ ر رکی ب و ی ئ نل عالم ا سا ی ت می ں ٓاپﷺ ن ے کہ ف
مصط نف مم ی ہ ی ن ت ھی ا ی ج گہپ تلم ہ
اتے۔ت سرور کا ف ئ ُ ھ
یﷺ کے ونود می ں ڈ لت ان ظ ر ٓا ا ہ ج ے کی نو کہ حخسن و ج مال کا ی بک ِرحا م دمحم م ظ ا کن ہ
رالزماںﷺ ی ث ی ت ع ب د کا ل اہ ری و ب اط ی حسن و ج مالقکے ناس مر ؐ ب ہ کمال پر ا ز خ ٓا ی ب ودات خ ر موج
ے۔ سن و ج تمال کے خسب ہشتو گار ٓاپ کی صورت ح ہ م ت ح حت
سن ل ر ئی ئہ ہ قی ں ج ہاں سے ہ ر سی ن کوخ ی رات جم
ے ہ ی ں کہ ازل ا اب د اس اکدان س ی می ں ٓاپﷺ کی ی گے کرد مع ا دس مین نں بممدرج ہ ا م اس وبی سے
خ ئ ین ن ف ے۔ ہ مث ال مل ا ا کن
ئو د ی وی محاسن و صا ص اور انف د ی صورت و سی رت سے ٓاگاہ ی ج ات اور ن ٓاپ فکے احوال تو کی ی ت ق
نں ضمع رماے ہ ی ں۔ ن ق ق ئذات گرامی می ٓاپ کی
ہ
عالی ےت عالی ہ سےضوا ی ت ج و ہللاش ب ئارک و ٰ
امت ن ح ورﷺ کے ما ل فل کی ب ات کرے وے مصن ف قے حج بورﷺ کے چ شہرہ ا ور ،دو خ
ئعادت ،چ مان م ب ارک ،ر سار گت تم ب ارک ،م ب ہارک قز ی ں ،نمعطر ب دن ،سرالپ ا م بشارک ،سر ا دس ،ی ن س زی ب ا ،ر ب ن
ارک ،گردن منب ارک، ش م ب ارک ،تموے م ب خ ارک ،جہ ہ ی ریش ں ،ری دان م بئ ق م ب ارک ،ی ہی یم ب ارک ،د ن غا دس ،د ن
کا خذکر ب ہت وب صورت ا ت خداز سے ل م ب نارک ،زا وے م دس ،کم و سی ن ہ م ب ارک ارک ،ب ن ت ب سی ن ہ م ب ار ،ھ ت لی م
ے حمبن وبﷺف کے ج سم اطہر کو اس طرح یل ق ک ی ا کہ ہللا کی اس یل ق عالی ے اپ ارک ون ہ ٰ ے کہ ہللا ب کی ا ہ ئ
یﷺ۔ مصط ی پ
می ں نکو ی می اور ی ہ ر ی اور ایسا پر ور کر ک ج ک
ن ف ظ چہرہ ا ور
ےے کہ ٓاپﷺ کا چہرہ ا ور ایس ب
ری ص ات می ں سے ی ہ ھی روای ات م ں ت ٓاپﷺ کی ا
ت ے۔ ی ہ ٹ ا تک م چ ل ودھوی ں کی ہدرخئ ش اں رات م ں در کام ےچ ت ف چ مکت ا ھا ج ی س
ت ہ ی ب ب ن ف
ہرہ
ے و تٓاپ کا چ ت سے ٓاپ کیکطرف ا ھ ی شہ ہللا کی و ی ق ی ا ت نہ کو ی ھی گاہ تج ب پورےن ذوق ن ق
دس اسے سورج اور چ ا د کی طرح لگت ا ھا ب لکہ رخ ا ور ان دو وں سے ہی ں ب ڑھ کر رو ن اور اب دار ھا۔ قا ق
ت ت ا ی
ض بز امت دو
ے ی عنی کو ا ق امت سے ب ل ن د اور طوی ل ال ق امت سے ک ھ کم ب ل دن ن ق
ح ور اکرمﷺ ہای ت م ی ا ہ د ھ
ن
ت
چ ی
ت ن مط ے۔ ھ
الت رخ نزی ت ب ا ی را مق لع خ تور رنس ق
ئ تت ت تت ت طع م ب وت د رع ا ی قرا
ن ہ
تاورت ی ہ ٓاپ ے ے ھ ے و ٓاپمج ی سرب ل ت دشدکھا یفدی ے ھ لوگوں کے سا ھ چ ل دراز د ت ن
اور ج ب ٓاپﷺ
ہ
لس تمی ں ریف رما وے و ٓاپ ٓاپﷺ سی ت ن ک ن رب کی طرف نسے معج زا ہ طور پر ھا۔ نج ب ق کے ن
ے۔ نکے دو وں م ب ارک ک دھے ب ا ی لوگوں کے ک دھوں سے مای اں ظ ر ٓاے ھ
ئ ت ف ت ر گت م ب ارک
مﷺ کا رن خگ ئن ہ و ش دی د س ن ی دی ما ل تھا اور ن ہ ہ ی ب ہت زی ادہ گ ن دم گوں ،ب لکہ خ ن کری ب حب ی ن
ے۔ ت وش ما سر ی مانل گوری ر گت والے ھ ٓاپﷺ ہای ت
ے ل
جس سے اری ک دل گمگاے گ ج
73
ن
فاس چ مک والی ر گت پ ہ الکھوں سالم
ت ف ق ت ف خ م ب ارک زل ی ں
ے،نٓاپ کی م دستزل ی ں ن ہ و ب ہت ہرے س ی اہ ھ خ حمبتوب دا ،دمحم ک یﷺ تکے ب ال م ب ارک گ ن مصط
ئ ی صورت میخں ھی ں ناور (ہ ر ں۔ ب لکہ ان دو وں کی درم ی ا ل س ی ندھی ھی ئ
گ زقی ادہ مدار ھی ں تاور ن ہ ہ ی ب ال ن
ک ت) ایسا لگت ا ھا ج ی س
ے۔ ٓاپ کے موے م ب ارک چک ھ م دار اور ہای ت سی ے ھی کی ہ و ی ہ ےک ت
ب و ن
ے۔()۷۸ موزو ی ت سے ج دا ج دا ھی ھ
خ ت ئ ت سراپ ا م ب ارک
ے ،جس کی وبی می ں کسیت خ ش لے ھ ے سم وا ج ج ہ ب
کے کمال اعت ندال کےت سا ھ ھرے و ٓاپﷺ ن ت
ےمالک ھ ض ب ف کے ت ئ یص ل تی م و ن نی س ح سی ی ا اور دل ت وازن،
ی ت م ن مع ت اہ ن ٓاپ ھا۔ عی ب کا ش ائ ب تہ تن ک ہ
ے اور کو ی ع و ھی ا راط و اسب کے سوا چک ھ ہی ں ھا۔ اپ ی ذات می ں جمسم موزو ی ت ھ سن ت ںح ن تجفس می ش
ری قط کا کار ہی ں ھا۔
غ ت ش ق ق دس ض سر ا ن
نرو ارظ ل تمی تں) ب ڑا ھا و ٓاپ کے اعصاب دما ی کے ب ال ج ک
ٓا غح رتﷺ کا سر اض دس (پ
ن ت ٓامی زش ( ی ر معمولی طور پر) م ب فوط ہ وے کو ن اہ ر کر ا ھا۔ ت ت
ک ،کب ھی پ ن وں ت ن کا ھے د ٓا ھی وں سے مس ہ و ی ھیتںتو کب ا ارک زل ں کب ھی ش ٓاپﷺ کی تم ب ت
ت ن ل ن ی ت ن
ی
کات وں کی لو ک ھی و ی ھی ں اور ھی ان دو وں سے ب ڑھ ھی ج ا ی ھی ں کن ک دھوں ک ہی ں چ
ہ ب بک ہ ب ت
خ ئ ف ت ت ف پ ا ی ھی ں۔
ص
ے اور اس می ں ازواج ہرات کی دمات حا ل ط م کی ٓارا ش رماے ھ ل
ت ت ٓاپ ھی کب ھار ز وں بک
ن نگ ف ت ت ے ل ی کن داڑھی ن ف ن ف کرے ھ
س ن ک ب
ں یتہ سعادت ہی ں ٓا کی۔ ے ،کسی اور کے حصہ میت رماے ھ (ریش) م ب ارکہہمی پںہٓاپ س یس ھی ش
ے ب عد می ں ہ ر کے سر کے گرد ی ا پ ی ا ی م ب ارک کی طرف چ ھوڑا نکرے ھ ے ن ل ب الوں کو ن ٓاپ پ ن ل
ے۔ ()۷۹ گ
ندرم ی ان سے ما گ کال لی اور دو وں طرف دو دو کی صورت می ں چ ار ی سو ب الی
ارک ن ت د دان م ب ٹ
ف ن ت ف ن ن ے د د مو ی دی اں نن لڑی اں‘‘ ن ہ ’’چ
ت
ے ،ی د وشے کے ہ س ک م چ س ٓاپﷺ کے تد تدان م ب شارک (ا ت
ے ھن ورا ی اور ی ل مول) حد درج ہ ت ی د ،ن ت
ے ،ئ ئ کار ب ھی پھن
ن اور
ت ت خ
کے دا وں کی رطوب ت ( ری) ی ری ں ھی ٓاپ سن ر ی نبن تکا اہ سا ھ ن تسا ھ وش فمئ ظ ر اور ح
ٓاپﷺ تکا لعاب دہ ن (م ب ارک) ہ ص ا ی کا ک ا کہ ن
ت کمال کوئ چ غی ہ و ی ھی۔ ف ب ے اہ ا ے پا ب وہ ا یت اور دا وںٹکی ن
ش خ کے نطور پر ک ای ت کر ا ھا۔ ت دودھ کی ج اے ذا ئ ن
ج
ے پ ا ی کی طرح ھا نو چ وں کو گاڑھے می ھ
ے ب لکہئ ان می تں ہ لکا ساخ ال اور ک ن تادگی ے ہی تں ھ ےہ و ن لے دو دا ت ب اہ م مل ے وات ت ٓاپﷺ کےگفسامف ت
ے و ان کے درم ی ان سے ور ج ھڑ ا ہ وا دکھا ی دی ت ا ھا اور ری وں (دا وں ھی۔ ج بخ ٓاپﷺ ت گو رما ت
کے ماب ی ن الی ج گہ) می ں چ مکت ا رہ ت ا ھا۔ ش
ئ ت ت نت ف ئ ل جہ ہ ی ری ں ض ن
ے تحد کا ل جہ ہ ب تٓاپﷺ ن ش ت ح ور ا ورﷺ کے زب ان و ب ی ان می تں ا ہا ی صاحت پ اگفی ج ا ی ھی۔ ش
ٓاپﷺ کی ت گو می ں لچ ر پ ن اور گلہ کوہ ہی ں ہ و ا ھا۔ رعب ھا۔ ن طرح کا ت ٓاواز می ں ای ک ت ن اور ھا ں ی ر ی
ن می ںخ ث ار ی رے کالم پر مخلی یوں و کس کو زب اں ہی ں
ن غ ے جس ضکا ب ی اں ہی ں ت ہ نن ن ہ ہ و وہ ب ی اں ے جس می ں س وہغ س ن خہ
عم
ٓاپﷺ نکےن مام اع اء و اج زا اور حواس کو ایسا ی ر مولی ب ادی ا کہ اس ے ث ال رض الق لم یزل ن
ے۔ ن
دوسرے ا شسان می ں پمل ا اممک ات می ں یسےت ت ال کسی کی م ل و مث
یک ت ن ہ ک ن ن
ےت سے د ھ ے ف ے ج یسا کہ ٓاگے اور ہسام ے ھ ےہ ید ھ سے ایس ن سرور کو ی نﷺ اپ ی پ تقکے یچ ھ
ے
ش ت
ے ی الحظ ہ رماے م ب
ٓاپﷺ رات کے و ت اور دی د ا دھی رے می ں ھی (چ یزوں کو) ایس ق ے ی ہ ے ،ایس تھ
اور ب تہت ے ج یساش نکہ دن کے و فتت ھ
نت ن نت ت ت ن ئ ے۔ ے ھ زی ادہ رو ی می ں مالحظ ہ یرما ت ت
ے ے دوسرے ہی ں ج ا ے جس ے ھ ے ج و دوسروں کو دکھا ی ہی ں دی ت ا ھا اور وہ ج ا ے ھ ک ت
ٓاپﷺ وہ د ھ
ے۔ ()۸۰ ھ
74
ت نئ ن تت
ک ف
دوسروں کوخ سش ا ی ہی ں دی ت ا ھا۔ ٓاپﷺکا ف الم اور وعظ ندور ت ت
والوں کو ے توج ے ھ ٓاپ وہ سب سن ئ ق
ے۔ے ھ سے سو گھ یل ے
ل ص ا ی کا کو زوں گر ی د سی ی ج اس ت
اور و ب و ٓاپ ؑ اور ھا ا ت د ی ا ن طرح ق کی والوں ب ر
ہللا تی عالی ے ٓاپ کے ت مام ا ض ن چ غ ت ش ی غ س ی
ین
اء رض ل ا ھی۔ ز پ ی ر طور مولی ع م ر ئ ت جی امہ وت کی ٓاپﷺ ی ع
نع ؑ تٰ ت ت
ٓاپﷺ کو دی گر ا ب ی اء کرام ن ے۔ ال
ت ل م ہ ح ے ی کے اور سی ک صول ی ھن ہ ح ث اک ن ے ے د رکھ االت م نک وہ ں م ارکہ
مب ی
ے اور اکارہ لوگوں ہ ی سے ہ ی ٓا اعث ب کے ی س س و لی ہ کا ر اک ی ما کہ
ک ج و ی ھی ی ٓا ں یہ ت ی ہ ما ج طرح کی
ے۔ ن صدور و اہ
کے ت مام ظمحامد و محاسن بن درج ہ
ت
اس غب زم ہشخس ی می ں حسن صورت اور حسن سی رت ت
ت
ے خ ہت عالیش و ارک تاس کا ہللا ت
ہ خ ارک ت صی ت پ ی ٰ ئ ئب
ے۔ ای ک طرف و مام اہ ری و ب اط ی تہ ی کی اںﷺ م رالز ٓا ر ب م م ج ب م وہ ے ےگ ا م سمودی
حاسن کو ایئک توج ود می ں مع کردی ا گ ی ا خاور صی حسن و ج مال کے مام مظض اہ ر ج و ج ہان ٓاب و گل می ں ہ ر سو مم ن ت ش
ے کا سرا ن یس ح کے ورﷺ ح ت اور ے گرامی ذات کی ی ہ دا وب بم
ح ھی ن ب وہ ن ں ہ ے د ی ھا ک د ر
پ نہ ت ق یف ی ت
ے۔ ج و ہ مارے قذکرہ دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ے ب ہت ع ی دت و اح رام سے اپ ی اس صن ی ف می ں ک ی ا ہ
ے۔ ب غم الے کا حصہ ہ
ف ن ن ن ت غ ق ل م ب ارک
رت ےتاس کی ر گت س ی د بن ی ان کی ت ی ن س ل ہ ا ے، ھ ں ی ہ ال ں
ق ی ب م لوں ب دس م کی ٓاپﷺ
اگوار ن ہ ھی اور ان می ں ب دب و ہی ں ہ و ی زاعی کی ت سف ی د رن گتخ ج شیسیت ت ے ل ی کنغ ی ہ س ی دی ع ب دہللا ب ن ا رم ا نلخ
ف
ہ ت
ج
ھی ب لکہ ب لوں کے پ سی ہ م ب ارک سے ای اب کس وری یسی و ب و ٓا ی ھی۔ ()۸۱ ن
ت ن
ن ش ن ن ن خ ل ت وت ب مہر
ب
ھی۔ ی ہ ا ھرے م ش
پ ت ن ی ب
کے دو نوں ک دھوں کے در نم ی ان (ج ا ب ت) ہر ب وت ت ئ ا م ا ش ی نﷺ ئ
ھے کو ہ ڈی سے زدی ک ھی۔تک تل می ں سی ب ی ا کب ون ری کے ہ ن وے سرخ تگو ت کی طرح ب ا ی ں تک د ت
ے اور اس پر چگ ھا ما ب ال ب ھی ے ج و مسوں کی طرح معلوم ہ وے ھ سی تھی۔ اس کے اردگرد ل ھ ا ڈے ج یت
ے۔ معلوم ہ وے ھ
ئ ن ت ن ت ش م ب ارک اینڑھضی اں
ی
رتﷺ کی م ب ارک ایڑ فھ ی ئاں تکم گو ت والی ھی ں ع ی زی ادہ ب ھری ہ و ی ہی ں ھی ں اور ہ ر ٓا ح ن
کتت ٹ ت ت نت ن ں۔ یھ ق ا سے حاظ حسی ن ایڑھی پر اپ ق ق ل
کے سن ح ے
ےو ے اور ج ب زمی ن پر ر ھ ے ا داز سے ا ھاے ھ ےل نٓاپﷺ دم ا دس کو زمی ن سے بزور اور اپ ن
ت ن ت ت ق ق ت کت رمی،
ت ت ی ہا
ن ے۔ ن
ے ے ،ہای ت م ی ا ہ روی سے چ ل ے ھئ سے دمتب ھر پ یکر چ ل ن ت ن
ار و ٓاپﷺ ئ ک
ھ ے اور تاح ی اط قسے ر ھ ن زی ت ن یعاجن
ن ہ ت
ت ں۔ ن ے رہ ج ا ی ت سے ٓاگے ل ج ا ی ں اور ہ ا ا ٓا س ہ کہ ئچ ھ ع ی ہ ا ا ی زت کہ ب ا ی وں خ
ے والے ینز کل کر ج ب چل ھ سا ت
ے، ہت ی گ دی ٹ ل پیل ے ی کے ان سے ی صور ب و ایسا ھا گوی ا زمی ن پ نت ت
ے می ں ٓاگے کی رواں ت ت مولتکے م طابق (بنال ت لف) ئ ک ش عم ٓاپ تکو پ اس ہ
ےٓ ،اپﷺ چ ل دواں پ اے ھ ت ک ےو چ
ے۔ ے ھ ے کی طرف ما ل رہ ے اور ک ی کی طرح سام ے ھ طرف ج ھکأو رن ھ
ع ب ق ن ے۔ ںہ احمد‘‘ می ق ن
’’مس د
ٹ
اطول منن بت شی ۃ اصا ھما لدین ہ۔ ( )۸۲ت ت ف ا ہ س ب اب ۃ دم قی ہ کا ش
ے کے سا ھ والی ن’’ٓاپ قکے ن دمی ن ری ی ن کی ا گ ت س ب اب ہ (ا گو ھ
ا گلی) تب ی ہ ا گ یل وں سے ذرا لمب ی ھی‘‘۔
ت خ ق اوصاف خحم ی دہ ن اں ہضوں ی رے کس من ہ سے ب ی ن
ف ن
ے ہ ی ٓا ح رتﷺ کی ب اط ی وب یوں اور ب ل د پ ای ہ ا ال ی ص ات کا ذکرہ ب ھی روای ات می ں ب ی ان ایس
ُ ف
ت ض ص
ے۔ ہ وا ہ
ے ہ ی ں تکہ ت ں امام صاحب بح ورﷺ کی ان اوصاف حم ی دہ کا ذکرتکر اس ل می ئ
م ب
حات و ل ب اری ع ٰالی ک ہ ری ن اور کا ل ص لے کر م ت ل ن
ٓاپﷺ اواع لت عمر اور زما ہ چ پ ن سے ت اخ الق کے حام
خ ت ج ے۔ ھ صف م سے دہ ی حم اوصاف ن یر لی ٰ ا اور ل
ے ہ ی سی رت و ا الق ے ایس سب لوگوں سے زی ادہ حسی ن و م ی ل ھ صورت می ں ت ٓاپﷺ جس طرح خ ت ن ن
ت ے۔ می ں ب ھی مام ا سا وں سے ب ڑھ کر وبی والے ھ
ے۔ عہد و پ یمان کو سب سے زی ادہ ٓاپﷺ سب سے ب ڑھ کر چس ی ب ات اور چس ی زب ان والے ھ ت ن ن
ے۔ ب ھاے والے ھ
75
ت ف
ت ن ف ن
کہ
ے۔ ی ہاں ک ق ن لوگوں می ں سب سے زی ادہ حش اور اپ س ن دی دہ امور سے تگریزت رماے والے نھ
ت داری ،صدا ت ے ٓاپ کو صادق اور امی ن شکہہ کر پکارا ج ا ا ھا ج و کہ ٓاپ کی اما ن سے ب ھی پہل اعالن ب وتش ن
ے اور اس ب ات کی ہادت ھینکہ ٓاپ کے رب ے ٓاپ کی ذات ب ب ہ
اور پ اکی فزگی کی ا دار قگوا ی ف ھی ہ
ے۔ ت نہ وازا سے ہ ن ما ی کر ن حاسن ت م ےاع ٰلی ص ات کو کس در ص ات ش ت ی س س
چ ے چ اور ہ عال
اک سے زتی ادہ ے اور ہکر ن ف سب سے ب ڑھ کر ر ت ہ داروں کے سا ھ ی ک سلوک فکرے واشلےخ ش ھ ٓاپ خ
ے۔ ے والے ھ تر ھ سب سے زی ادہ ہللا کیتمعرت ت اورض دی د ی ے۔ ض مالکت ھ حسی ن سی رت غو ا الق کے ف
ل پ
ے۔ و ع داری کا ی کر اور یص ح ا لسان ت ش ٓاپ صہ ب ہت کم رماے اور را ی ب ہت ج لد ہ وج اے ھ
ت ئ ے۔ ی ری ں ب ی ان اور ت ھ
ے۔ ھ الک م کے ے را درست و ہ سب سے ز ادہ معزز اور خت ئ ے۔ ھ لے ا و ت یب ہ و رعب
ن پ ی ت
الزمی طور پر د ی وی موالت کا کو ینلمحہ ایسا ن ہ ھا ج و للہی ت سے خ تالی ہ و ی ا جئس می ں ئ ٓاپ کے نمع ت ئ
ی ج تھگڑے والے ے۔ہب ڑا ی ،حسد ی اف لڑال ت اور عناج زی واشلے خھ الح کا کوف ی پ تلو ت ہ ہ و ان ہ و۔ ٓاپ صہای ت ح ی اء پ ن
ہ
ت اص
ع
ے۔ ب ینعلی ہ ال لوۃ والسالم ا ی لیت ت
ے اور کپ نڑوں ے ھ مرمتترما تی ود ی خ ف ث ن ری ن ب پ
ےت تھ رک رمادی ب ن امور کو
پ
ےا ل ہ ٓاپ اپ ے۔ خ ے اک ؓر کام ود کرتے ھ ے اور امپ ے ھ ل
ت تھی دوھپ ین ے۔ ا ی ب کری کا دودھ ن ے ھ ل
ھی لنگا ی
خمی نں یو د ت
پ
سن و وبی کا
م ہرات کے سا ھ کمال ح ت گ
ے۔ ا ت ی ازواج ط ے ھت کے تسا ھ گہای ت مہرب ا ی سے یش ٓا ت ت ک اہ
ے۔ ان کے ھروں می ں ان کے سا ھ ل کر ے۔ ھری لو کام کاج می ں ان کا ہ ا ھ ب ٹ اے ھ ےٹ ت ھت روشی ہ ر ھ
ض ت ٹ
ت گھ م ب ی ت ف ت ے۔ ے ھ گو ت کا
ے ،ان کے مری وں کی ے ھ ھ کر ل ت
ل ت ھ اس ف کے انت ش اور ے رما ت حبم سے ن ن ک سا
ف م ی ت ٓاپ
ت ے۔ ئ ت ے ھ ن
ازوں نمی ں ان کے سا ھ رکت رما ن ئ
ع ی ادت رماے اورخج خ
ٓارزو تھی کہ کی ہاڑوں د ے۔ ب ل ن ھ ے وازے سے وں ج ک ساری کی ان اور وں زا ٓاپﷺ دا ی
ت ئ پ گ ی ئ ن
ے ب ن ج ا ی ں اور ج ہاں ٓاپ ج ا ی ں ٓاپ کے سا ھ سا ھ ج
نہ ر ی ا اتج ن اس ی ا و ٓاپ چ اہ ی ں ویس ے زرو ج وا کے لی ٓاپ
ی ل
ن ت ن ق ا۔ ز
فی ک ی گر اور اب اج ے ٓاپ کن ں چ لی
ہ س
اس ہی ں ک ی ا ج ا ش کت ا اگرچ ہ وہ ک ا ی سی غاور کی ح ی اءئ پر ی ن ٓاپ کی ص ت ح ی اء کو ک پ مث ال کے طور پر
ے والی ح ی اءنو رمنٓاپ فﷺ کا پَر تکامل ح ی اء واال ہ و۔ ب لبکہ کسی ھی مومن ،ولی ہللا اور مب ر می ں پ ا ی ج ا ت
ی ب
ے۔ ٓاپﷺ و وہ ہ ی ں ج ہوں ے ص ت ح ی اء ہ کے حر ب ی کراں کا ای ک چ ھ ی ن ٹ ا (چ لُّو) اور ٓاپ ف ے ت وہ
ض ف ت خ ت ے۔ کا ب کمال ا مام احاطہ رمای ا ہ
ف اور کمال و ی لت کے ب ارے ٓاپﷺ کے ہ ر وصف و وبی ،عریف و وصین ت اسی طرح
ے: ے کی ہ ے و ٓاپﷺ کے رب کری م عزوج ل ے ٓاپﷺ کی مدح ایس ے۔ اسی لی می ں کہا ج اسکت ا ہ
ق َع ِظيت ٍْم۔(الق خرٓان& )۴:۶۸ ٍ ک لَ َع ٰلی ُخلُ َو اِنَّ َ
ً ع ش
الق والےفہ ی ں‘‘۔ ت ؓ ے ک ٓاپ ظ یض م ری ن ا م’’سب
ف
سے مر وعا روایق تنکرے ہ ی ں: ن
رت اب وہ ریرہ ش ۱۔ امام ن لم اور امام اب ودأود،قح ن
ا شا فس ی د ولد ٓادم یوم ال ی امۃ وا ا اول من ی ق عن ہ ال ب ر وا ا اول ش ا ع وا ول
خ ئ م
ت ن ظ ع۔ض( )۸۳ق
ںن اہ ر ہ وے والے صا ص ب ی ان کرے ہ ی ں اور ان امام صاحب ح ورﷺ کی ی امت می ش خ
ے کہ ج
ےہی ں یس صوص ی ات کو وہ درج ذیقل احادی ث م ب ارکہ کی رو ی می ں ب ی ان کی
ے سردار ہ وں گا اور سب سے پہل ٓادم کا ش ف ’’می ںق ی امت کے دن اوالد
ے می ری ے می ں اعت کروں گا اور پہل ے قگی اور سب سے پہل ری ب ر کھل ہمی ش ف
ن
نول وگی‘‘۔ ق ہ م
ی اعت ب
ؓ ن ض ف ً ۲۔ امام احمد اور ت رمذی ے ب س ن د حسن یح
ص ح ل ک ی ا اور امام اب ن ماج ہ ے ح رت اب و سع ی د خ دری سے
ف ف ے:
لواء الحمد وال خ ر وما من ن ب فی وم ذئ ن ئ
ق
ل مر وعا روای ت ک ی ا نہ ف
ی ن وم ا ی امۃ وال خنر وب ی دی ت ش ا ا س ی د ولد ٓادم ی ت
من سواہ فاال حت لوا ی وا ا اول من ق عن ہ االرض وال خ ر وا ا اول ٓادم ش ف ف
ن ف ئ ش ا ع و قع وال خ ر۔ ()۸۴ م
(اس پ فر) نکو ی خ ر ہی ں ’’می ں روز ی امت اوالدتٓادم کا سردار ہ وں گا اور ئ
اور حمد کا ج ھ ن ڈا می رے ہ ا ھ می ں ہ وگا۔ اور (اس پر) کو ی خ ر ہی ںٓ ،ادم
76
ت ن ئ ن
ف ئ ج ہ
علی ہ السالم اور ان کے عالوہ کو ی قہی ں ایسا ہی ں وگا و می رے پ نرچ م ل
ے
ے گی اور (اس پر) شکو فی خ ر ہی ں ری ہ ی ب ر کھل ف ش ی ےم ن ہ ہ و اور سب سے پہل
اعتنکروں گا اور می ری ہ ی اعت ف ے می ں ہ جی اور سب سے پہل ق
ف ً ‘‘۔ ؓ ں یہ ر خ ھ ے
پن ض چکھ م ر) (اس اور وگی ن ہ ول مب
ے:ت روای ًت ک ی ا ہ سے مر وعا ف رت اب ن عفب اس ؓ صاحب ’’س ی لن دارمی‘‘ ے ح ن ض ش ۳۔
ھ) ح رت اب ن ع ب اس سے مر وعا روای ت کرے ہ ی ں: ۴۴۵۔ ۵۰۹ل ۵۔ امام ن ج اع الد می ( خ
وال خ ر۔ ()۸۶ ن ی ب ا من ن وا ا س ی د االولی نت وآال ن ی
ر
س ی ع
ہ
ے مام ا ب ی اء و مر لی ن ( ل ہم السالم) کا سردار وں اور ی ہ ی ف’’اور می ں پہلن
خ ً ؓ ن ‘‘۔ ض خ ر کے طور پر تہی ں کہت ان
ے: ت م ن
رت ا سف ب ن مالک ق
سے ص را روای ت ک ی ا ہ ےح ؓ ام رمذی اور ام ض ۴۔ امام دارمین
ے: ۵۔ امام ندی لشمی ے نح رت ج اب ر ب ن ع ب دہللا نکی مر قوع روای ت ل کی
ف ف
ہ ف ا ا ا رف ال اس حس ب ا وال خ ر واکرم ال ناس درا وال خ ر۔
ف ع
ہ
سب و نسب کا مالک لوں اور چک ھ خ ر ق ن’’می ں سب لوگوں سے ا ٰلی ح
ن ہی ں اور سب لوگوں سے زی ادہ درو م زلت رکھت ا ہ وں ی کن چک ھ خ ر
ہی ں‘‘۔
ای مان کی ج ان
ت ش ً رادران گرامی!
عالمﷺ کی مب ت ً رعا ًالزم ن ہ ب تھی ہ و ی پ ھر ب ھی ٓاپ ف ق باگر ِ
سن و کمال سےن ش ح کے ض ق ح دو سرکار ن ک قف
ے واال ہ ر عا ل تٓاپ شسے ذو ا و طب عا حمب ن
ت ضکر ا اور اسے ٓاپ کے تل و رف سے ا حراف ب ہ ن ح ب ت رشھوا ئی ن
عالی کے الزم کردہ ہللا ٰ مول اس کے کہ ٓا ح رتﷺ حکی حمب تک ت کا کو ی ا دی ہ ھی ال ق ظہ و ا۔ ن
ے ب لکہ ی ہ کسی ب ھی ھ ہ ی ر ت ثی ی ن لاو
ش ی سے ں م
ن ی امور لے ا و ے ےج ا نامورمی ں سے الب دی اور ا ہار یک
ے۔
ے (ب ی نادی) رط ہ ن م
ا سان کے ای مان کی صحت وکا ل بی تنکے لی
ے اور ی ہ حمب ت ت
ے والی ہ ے والی اور ہ م سے ٓازاد کروا ج ف اور ی ہ حمب ت ہ الکت سے چ اش ئ
ے۔ ب ض ح ن (مصط وی) ای مقان کی
ت ع لذت سےٓا ا ی ع طا کرکے اور ر ہ من کی ر ا ھی دلوا ی ہ ن
ے اور ی ہ وہ ظ ی م مر ب ہ ے کا دارو مدار ہ ے جس پر دی ن کے ہ ر ا م معامل (ب ی اد) ت
ہ اور ی ہ وہ طب ت
ے۔ ن
ع ئ ش صول کی م ج ہ
ی ا کی ا ے جس کے ح ن ہ
ے اور ی ہ سواے ظ ی م ہ رط ے یل کے صول
ت ح کے ن ال م ک ر ہ ال م ک اک (ﷺ) وی ب ت ب م
ح اس ش ت
ے کہ کمال ای مان کےلحاظ سے ہ المر ب ت ا خ خاص اور کاتملی ن امت کے،ت اوروں کو ع طا ہی ں ہن و ا ،ی نہی وج ہ
ت ی ں اور ی ہ مرا ب و مدارج ان کی ب ی عد انﷺ کی ذات سے کامل حمب ت لوگوں کے م ت لف مرا ب ہ
ن ت ش ن کے مع ی ارکے ئم طابق ہ وے ہ ی ں۔
ے ا ا ہ ی وہ ک ج فلہذا ج و کو یقان می ں ض
ٓابﷺ کی ذات سے ت ی دی د حمب ت ر ھت ا ہ رسالت م خت ت م
سے
ت ے۔ ہ
ں م ضب وط ،کا ل اور پ ہ ؓو ا ہ ن ای مان و عر ان باور ی ی ن می
۱۔ امام خ اری و لم حت رت ا س ب ن مالک سے روای ت کرے ہجی ں: س م
ال یومن احدکم ح ی اکون احب الی ہ من والدہ وولدہ وال ن اس ا معی ن۔ (
ن ن ق ئ )۸۸ ت
ت ت
ے ی اس نو نت ک مومن ً ہی ں ہ وسکت ا ج نب ک وہ اپ ’’ م می ں سےکو ت
ت ہ کرے‘‘۔ وں سے زی فادہ جم ھ سے حمب ت اور اوالد اور مام ا سا ش ؓ والدی ن ض
۲۔ امام ب خ اری ح رت عتب دہللا ب ن ہ ام سے مر نوفعا روای ت کرے ہ ی ں:
)۸۹ ت لن یومن احدکم ح ئی اکون احب نالی ہ من سہ۔( ت
’’ م می ں سے کو ی ہ ر گز مومن ہی ں و کت ا ج ب ک می ں اسے اس کی س ہ
ن ہ
ض ج ان سے زی ادہ عزیز ہ وجع أوں‘‘۔ ن ش
ئ ش ن
ئ دال ل ہ ی ں۔ ن
ٓا ح رتﷺ کی ف حمب ت کی چک ھ المات اور ا ی ناں ہ ی ں اور چک ھ اس کے واہ د و
ئٓاپﷺ اور ے س ت م ب ارکہ کی پ یروی کی ج ا ے کہ ٓاپ کی ن ان میشں سے (سر ہرست) ی ہ ہ ئ ئ
عم ہ
کی ال ی ہ و ی ری عت طہرہ پر اس کے احکامات اور اوامر وا یق اور حرام و حالل کے م طابق ل ک ی ا ج اے م
ے کہ ٓاپﷺ کے راب ت داروں اور اہ ل ب ی ت اطہار سے اور ان عالمات می ں سے (ای ک) ی ہ ہ
77
ن خ فظ ق ئ م ب ت کت ئ
ےہ و س
ے ے اپ ت کی ج اے اور ان کے داب ان ا دس کی ح ا ت و دمت کے لی ئے دلی حمب ئ ل وا ئ گی ر ھ تکا ت
خ ے۔ ا یج ا ال کار ے رو ب کو ل وسا ر مام
ب
ے کہ تٓاپﷺ کا ذکرئی ر المت ی ہ ھی ہ کع ق ل ج ئحب ی ب اکب رﷺعکی عالمات می نںقسے ای حمب ت ث
عام ک ی ا ج اے۔ ئ ذکرہ کا دہ
ت ی الت ئ حم ی ٹاف ص او در ل اور ب ق ا م
ت و حاسن م م ی ظ ت کے ٓاپ اور ے ا ج ا ی ک رت بک
لطف ا ھای ا ج اے تاور ذکر اوصاف و ب رکات اور مش عل نات کا فذکرہ کرے ہ وے ئ کے ف اورفٓاپ ظ ن
المات حمب ت می ں ع ے۔ ت ا ج ا ی ک ادہ ع ا کا ات
ئ ی یک کی ی ث ادما اور سرت م و رحت ہار ا ر پ روغ کے وی ب
عالی کے ح تکم کی فعم ی ئ ل ٰ ہللا سے ا اور
ئ ے ا ج کی ب رتت ے کہ ٓاپﷺ پر درود و سشالم کی ک ئہ ت ی ہ ب ھی سے
لع م
ے اور درود و سالم سے ق وا د رسالت سے والہا ضہ ع ق کے سا ھ ج ا الی ا ج ا ئ ف ن کرے و ظے ب ارگاہ ث ہ
ت ے۔ ق ن ا وا ہ اب ہرہ
ف ب ر طور ی ا ا ھی ب سے واب عظ ی مہ اور اہ ری اج رو
ج ی ؓ پ ض
ل کرے ہ ی ں: سے نمر وع روای ت ن ف دہللاناب نن عفمر ق رت ععب ف ۱۲۔ اب ن ثوداعۃ ،ح
ن
وامن ال لوۃ لی ا بھا ور ی ا ب ر و ور لی قالصراط و ور ی ا جل ۃ۔ (۹۰ن) ع ل ص اک ر
ث
ے ش ک ی ہ ب ر ،پ ل صراط اور ج ن ت کا ور ب و! ج ھ
ی درود سے رت ک ر ’’ پ ھ مج
ن ف ؓ ے‘‘۔ ضہ
ا: یرما ے ٓاپ ے، نہ مروی سے ق ی صد کر ب و ب ا رت ۱۳۔ ح
ن ل
الض لوۃ لی ا ن بتیﷺ ا ق للذ وب من الماء ال ب ار د ل ار والسالم علی ہ حم ل ع ص ف
ن
ے غکہ ھ ن ڈا پ ا ی نھی
ب ٹ ت )ب ھج ن ا گ ن ا ن ل من ع ق۔ (۹۱
ن ہ ا ا ٹ م ےس ی ا کو وں ہ ا
ت یب درود
ن مﷺ پر ت ’’ ب یف تکرین
گٓا کو اض ی ی زی سے ہی ں ج ھا ا اور ٓاپ پر درود پڑھ ا الم ٓازاد کرے
پن ن ن ت نق ف ے‘‘۔ سے ا ف شل ہ ض
امام عز ی ی خ ب زرگ اب والصب ر ایوب ع بن دہللا ا ہری سے ل کرے ہ ی ں کہ ا ہوں ے ا ی ل خ ح ضرت
ض
نال ی فاس علی ہما السالم کی روای ت ب ی علی ہ الصلوۃ والسالم سے ب ی ان کی: س ن د سے ح رت ر و
تن ت ے ت نرمایض ا :ق ٓاپﷺ
یط ش طف ت ن ن ف ل ص
ان قال لوۃ ل ر ا لب و ورہ فوق ہرہ من فال اق کما ہر ال ی ئ ب الماء وان
من ال ا لہم صل علی دمحم د حت علی سہ سب عی ن ب اب ا من الرحمۃ وان
ن فق من ص شلی علی ہ سب ع شمرات احب ہ ہللات ع تالی۔ ()۹۲
ے اور ندل کو م ا ت
ھ ف دل کو رو شازہج رکھت ا ئہ ے ک درود ری ش ’’ب
ن ی چلیز پ ا ی سے د ل کر ے کو ے یس خ طرح پ اک اور رو شن کردی ت ا ہ سے اس ت
ع ص ل
کہا،
ے ک جس ت ص ے ا ہم ئل لی دمحمن
ک ے۔ ب نہ وج پانی ہ صاف
ے اور جس ے رحمت کے س ر دروازے ھول ید پ ت ر ذات ی ا ے اس
ے‘‘۔ ک
ڑھا۔ ہللا ع ٰالی اسے دوست ر ھت ا ہ ات ب ار درود پ ن س
س
غ ع
ض
ت ے: ی ٹیق ہا ٓا ں م ات ی روا ں م
تی ارے کے
پ ھش ن ب ے ڑ درود ر الم
ی ل تپ ا ہ ل ور ح
ے اور ت
ےشاور حاج ات کو پورا کر ا ہ الٔوں کو الت ا ہ ے اور ب ے۔ پری ا ی وں کو دور کر ا ہ کہ تدرود م کو م ٹ ا ا ہ ن
ہ ت ک خ ل ت
ے۔ درود ک ئاص سم کی ش ع طا و ی ہ ے ونالے کو ب ارگاہ ا ہٰی ہ سے ای خ ے اورتدرود پڑھ رزق کو ب ڑھا ا
ے ہ ی ں اور ی ک ی اں بڑھ ج ا ی ہ ی ں ،گ ن اہ اور طا ی ں مٹ ج ا ی ہ ی ں اور رب کائ ن ات کا صد ہ و ت ہن
قسے درج ات ب ل
ے۔ صی ادہ حا ل ہ وج ا ا ہ رب ز
ع ث ل الم س و لوۃ دعاء
بس
ومن لی ن ا لوک سب ی لہ ع ت ن ن
عطر ا ہم مج الس ا طی ب ذکر حب ی ب ہللا اال ظ م و اہ ب ن ل
وھداہ وصل وسلم وب ارک علی ہ وعلی ٓالہ صالۃ وسالما خ لص ب ھما من محن ق
الو ئ ف واھوالہ۔
ٹ ن ت می رے ب ھا ی و!
ے ا ھأو تاور اس کی ب ارگاہ عالی می نں اس ش ان ے ہ ا ھ دعا کے ل تی ن خ الق ارض و سماء نکی ب نارگاہ می شں پا
ے۔ عالی کے ہ اں ب ہت ب ل د ہ والے ب یﷺ کو وس ی لہ ب أو یک و کہ ب ال ب ہ اس پ ی ارے کا مر ب ہ ہللا ٰ
78
فئ ع ن ن ن ن ئ الم حاصل ک
صب پر ا زن وت و رسالت کے ا ٰلی م ے ج ن ب رگزی دہبب ن دوں کو ب ن ف پرب کا ن ات ے ا ت ُ ف
ی
ازی اوصاف و کماالت سے ھی ہرہ م د رمای ا۔ ہی اوصاف و کماالت ا ب ی اء کرام کو ب رمای نا ،ان لوگوں کو ام ی ت
ت ج ت لک ن ن دی گر ا سان نسے قممت از کرے ہف ی ں۔
یﷺ پر ھی ج اے والی م ر م عربضی ک ب ل می ئں ہ ن م ے م ی الد الن بُ ف ض ئ ص
اس ش زیر ظ ر م الہ کی ق
ے و ح ورﷺ ج ذکر ک ی ا ہ ویﷺ اور ان ا ل و رکات کا
اور اخ روی زن بدگی م ں حاص لب ن اس دن می ں مذکور ب عد از والدت وا عات ،ما
نوں گے۔ ہ
ؐی ق م ظ ل تن ن ں م
ظ ی دگی ز کی ا ی امت کو
ش ن پن کی نب دولت ئ کے وج ود اطہر
ام مود اہ ر شکر تے کے ح ے حب وب کا م ن م انن رب وب ی ت کو اہ
وں سے پ زہ اک کو ور اس کہ ل ا ق ےاپ خ شر کرے اور
ل ہ سے ے ر کی ات صرف کائ
ف
ات ے ا ی
ہ ن کو ور
ض رب کا ن
کے
ق پ یت ق لیق ک ی ب پن ت ہ ع ورﷺ پ ن ت ےح لی
ت نوالدت ت شری ب ٓای ا ونوہ وا عات اور
ن نا ٰ نلی و ار ع اہ مام ک ی ضا۔ ج ب اس ور کا وہ ت پ اکی زہ ارحام ن کئہ چ اے کا
ے کردی ا کہ اب وہ س ی د ی ا می ں ریفعالے والی نہ ت ض معج زات رو ئما نہ وے جس ے د ق ی ا والوں پر ی ہ وا ح
عمت ئ ظ ٰمی کے د ی ا ات ھی وا ح ہ و ین ب ج و وج تہشوج ود کا ن
ن اسش ےبکہ خ ہ ے۔ ان وا عات سےنی ہ ب خ
ہ ہ
ات ہ
ن ں۔شصرف انل اسالم یق ہی ں ج ود رب دو ج ہان ے ھی و یب اں م ا ی خ متی ں ریشف الے پر ن
زلزلہ،ف حی رہ ساوہ کا قک ہ وظج ا ا، ں م سری
ی صک ٰ ی وان ا کہ ے
س قی عات ظ وا لے ا و ے و ہ
والدت رو ن
ما ن فب ٹ
یﷺ کے شو ت ہور مصط ج م ہ
ک
والدتِ
ج
زات ہور دسی و درا ل
م ہ ن ارس کا ھ ڈائ ن وج ا ا اور قدی گر عج ط ق ٓا ش کدٔہ
م
رب کا ات ئکی درت م ل ہ ی کے ہر ہ ی ں اور و ٓاپﷺ کے ی الد کی ل می ں
ق
ظ پ نذیرہ وے نوالی ن ق
ق ے وخی د ا الب ب ن کر ٓا ی ں۔ کے لی
د یا ن
نت ر ن خ ش ک سالی اور حط کا سام ان ہ
کے و تقا ل عرب کو ب د ی ب ی ٓا رالزمان کی والدت ب استعادت ت ت
ئ ٓاپﷺ خکیش والدت کے سا ھ ہ یخ تہللا ع ٰالی کی درت کاملہ ے ساری زمی ن کو سرسب ز کردیتا اور ھا۔
لوں اور پ ھولوں سے الد دی ا ،ہ ر سمت رحم وں اور ب پھ رو تے زمی ن کے ک قاور گل
سڑے در وں کو ھیت ن ش ے ق
کردی اور حطف زدہ عال وں می ں رزق کی ا ی ک ادگی فبرک وں کی ب ھرمار خ ش
ئ ت نق ال و ی اور رحت واال سال کہالیضا۔ رمادی کہض وہ س
ن ف
ے لے کر ی مںست و ہ صرف گ ے ب یل اعت کے لیف ؓ ح
ے اپ ق ٓاپﷺ کو ر ح رت لی مہ سعدی ہ ج تب ن
زول ہ وا ب لکہ سارا ب ی لہ ان ی وض و ب رکات سے ت ی ض ہ وا۔ حض رت حلی ؓمہ کے گتھر می ں ب رک وں کا ش خ
رت کے مام محامد و محاسن سن سی ن ِ صورت اور ح ظ سن ِ ت اس ب ئزم ہئس ی پمی غں وہخ م ب ارک صی ت جس می ں ح
کے اس ے۔ اہ تری ظاور ب اط ی حسنن و ج مال ض گرامی ہہ اںﷺ کی ذات خ ے وہ ی مب ر ٓا رالزم ےگ ب تدرج ہ ا م س ف
مودیئ
م
ے۔ مامش اہ ری و ب اط ی محاسن ح رت رات حُسن ل ر ی بہ مر ب ہ کمال پر ا ز ہ ی ںق ج ہاں سےہ ہ ر حیسی نن کو یت ِ
ات ھی روز رو ن کی طرح ع ی خاں ہ ی ں دس می ں ی کج ا ظ ر ٓاے ہ ی ں اور ی ہ ب ف ئ کی ذات ا ن دمحمﷺ ظ
ٓاپﷺ اہ ری و ب اط ی حسن و ج مال کے اس مرت ب ٔہ کمال پر ا ز ہ ی ں ج ہاں سے ہ ر حسی ن کو ی رات حُسن
ن ت
ن ت ن ئ ض ن ن ف ے۔ ہ م ل رہ ی
ئ ورﷺ کے خسراپ اے قدل واز کا ذکرہ حسی ن ن ا داز می ں اپ ئی صن ی ف ےح ض امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی
ن
سن م تاسب تت کی ٓا ی ہ دار اس در مث الی اور ح ق ٓاپﷺ کے اع اے م ب ارکہ کی سا ت ے۔ تمی ں ک ی ا
ِ ؓ ہ
ے۔ اسی طرح ے ھ رطب اللسان رہ مصطافکی مدح می ں ہ ر و ت ت ٓاپﷺث کےشحسئی ن سراپ کرام ث ئ تھی۔ صحاب ہ
ے ہ ی ن ئں۔ ر ے کر ذکر ن س ح کا یﷺ ل ما ن حد مہ ا ر اک ھی ب ں
خ شہ ی ن
س ث ج
ہ تم ی ک ب سی ر مضی
ے کہ وہ و ی اں م ا ی ں اور اس ب ات کا ہ م ب
خ ح ورﷺ وہض س ی ہ ی ں کہ ن کی ع ت پر ف لما وں کو شچ ا ی
ئکے م ی الد کی پ اکی زہ مح لوں می ں ری عت م طہرہ کے احکام کی معمولی سی ورﷺ خب ھی ی ال رکھی ں کہ ح ن
الف ورزی ب ھی ن ہ ہ وے پ اے۔
79
ق ت
ق ت ئ ق
ی ح ت ج ت فباب چلہار ؐم لک ئ
ح ی تق ق ئ ی ج ا زہ
ت ب کا
ج ت فم یصالد ا ن ب ی پر ھی گ یل ؐم ر ملکعربیئ
ک
اورتج واز کا حییجق ا زہ ئ
ب می ں عدم ج واز ش
ت صل اول :می الد ا ن بل ؐیپر لکھی گ یئم ر تمجعربی ک
م
ل دوم :م ی الد ا ن ب ی پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکورم الت کا ی ج ا زہ
83
خ ن کن ش
ن ن ؒ ئ ا کر ذ ا کا واز ج سے ے ھ ر روزہ کا ورہ 3۔ عا
س وطی بے اپ ی کت ساب ’’حسن ق ف م ی الد الن ب یﷺ کے ج واز کے دال لفمی ں عالمہم ؒج الل الدی ن ی
سے خ اری و م لم می ں فدرج وہ ن لے ا حو کے ش کی ر ج
ح ن ب ا ظ حا ام م ا وہ ے ہ ش دی ں ی م & ‘ ‘ مولد الم صد ی عمل ال
ے۔ مصن ی ن ے کا ب ی ان
ق حدی ث اک ے س م ں مد ن ہ ر ف کے ی ہود وں کا وم عا ورہ کو روزہ رک
ث ہ
ے ج و رون الث ہئکے
ھ ی ن حج ر م یکی کا موقی ف ہ ے یکہ م الد یدراص لک ت پ ہ ج ی
ھئ
ئہ دعت ب سی ا ل ئ ی ی ہ ے ہ ی ں کہ ن قعالمہناب ش
ں۔ اس تکے ب او ود اس می ں چک ھ اچ ھا ی اں ہ ی ں اور چک ھ ب را کی تاں ہ ی ں لہذا اگر کو ی ج ت یہ ول ب م سے خ ا ئ م
ے ہ ی ںنکہ ج فس دن ہللا ے ورن ضہ ب دعت ؑسی ئ ہ اور ل ھ ق ہ نسے چ کر نم ی الد م ن ا ا ے و نہ دعت سن وں ی را
ح ہ نہ ی ب ؑ ض تب
نوم ے رعون اور اس ان کی موسی اور ؑ ض ٰ رت حؑ ن دن اسیض دی ات ج سے ے ئبڈو کو وح ن رت ے
ٰ ہ ح عالی
موسی ے روزہ رکھا اور ی ہ روزہ ہللا ٰ رت ح اور وح ن ن رت ح نکا دن اس س پ ی۔ت ا پ ات ج ن سے وں تکے س پ اش ی
ے ب ی کی م طاب عت می ں روزہ رکھا۔ اسی طرح ب
ن ن ے ھا اور ی ہودیوں ے ھی افپ نکرے کے لی
ب
عالی کا کر ادا ضٰ
روزہ ر فھا اور ہودیوںن کو رمای ئا :ع ف ی ک ف ح ورﷺ ےت ھی اس دن کا ظ
اسرا ی ثل لی رعون ،و حن صومہ ھذا ا یل ومف قالذی ا ر ہللا ن ی ہ موسی و ب ی م ن
امر ب صومہ۔ ( ن)۱۱ بموسی ئکم م ف الہ حن اولی ب ن عظ ی ما لہ ،ت ال ترسولن
رعون سے ج ات اور ت ی اسرا ی ل کو ض ن ک موسی
’’اس دنعہللا ت ع ٰالییے ٰ
اکرمﷺن ں۔ اس پر ح ور ب ی ےہی ق دی فاس ظہ ی م می ں ہودی روزہ ر ھ ن
موسی کے ح دار ہ ی ں ھر ٓاپﷺ ے پ ے کرمانی ا :حم م سے زی ادہ ٰ
ن نکا کم دی ا‘‘۔ ے روزہ ر ھ
ک ب ح کن
ے سیئمعی ن دن می ں عمت کے ھی د ا اس لی ن ے تکا کم ش دن کے روزہ ر ھ اور ٓاپﷺ ے اسن
ے اور سال می ں اس دن حصول ی ا م نصی ب ت سے چ ٹ کارہش پ اے کی وج ہ سے ہللا عالی کا کری ادا ک ی ا ج ا ا چ اہ
ئ ٰ نکے مث ل و ت ظ ی ر کی ج ب ھٓامد ہ
عالمﷺ کی والدت سے ب ڑھ نکر کونئسی ے ضاور رحمت ہ ادہ ہ وسکت ا ع ا کا کر و
ش کے دن ہ ی م ی الد م ای ا ج اے کی پ ی دا ن کہ ح ورﷺ ئ
ت ےئ ہ ے۔ لہذا م ن اسب اور بن ہقت ر ی ہ عمت ہ وسک ی ہ
ب ب اور اگر اس ماہ می ں ک جش
ن اے ب ھی کو ی حرج ہی ں۔ سی دن ھیلم ی الد م ع د کرنل ی ا ج
سے است دالل ف ن
ن
یﷺ م اے ت ت الد جا ن بت 4۔ ب الد اسالمی ہل می ں ن م ی
ص
یﷺ پر م ر م عربی ک ب می ں سے ی ن م ی ن ے ب الد اسالمی ہ می ں م ی الد می
الد نا ن بن ت
ن ش ن
ن ع ق ے۔ الن ب یﷺ م اے لکا ذکرہ ک ی ا ہ ف
نصر اور ام ،ا دلس الموردن الروی ی مولد ا نش ب یﷺ می ں عالمہ مال شلی اریت ے اہ ل مکہ ،اہلل مدی ہ ،اہ نل م
ے۔ ے کا ذکر ک ی افہ نی الد ا ن ب یﷺ م ا کے ب اد ف اہ وں اور عوام کا گرم ج و ی اور اہ مام سے م اور ہ دوست ان ق
عم
ظ
م
مران ل طان ر کا س ح
وطی ے ارب شل کے ک ن ن
ج ش س
امام ج الل التدی ن ی ت باسی طرح حسن المم نصد ی نل ا مولدشمی ں ش
ل
ے۔ اس ت ن م ی الد م ا ا ب ی ان ک ی ا ہ ے می ں ہای ت ان و وکت اور زک و انح ام نسے
ہ س االول کے ہی ت
ر یع
ے کہ م ی الد کا ی ہ دن ٓاج کے ل نمان ت ی ہی ں م اے ب لکہ صدیوں سے اسالمی ممالک م ہسے پینہ پ پہ نچ لت ثا ق ف
ے۔ ہ ا ہ ر ا ا یجا ا م ق اط
م ب کے رواج و رسم اور ت می ں ا ی ا ن نی ا
ف ن
5۔ م ی الد م ا ا ب دعت حس ہ ہ ؒ
ب ض عم ق
لم ےن پن
وع پر حث نکی ل
وطی ے ا نی نکت اب سن ا ن صد ی ل ا مولد می ں اس قمو ث ح س
امام ج الل الدی ن ی
ث
ے۔باگرچ ہچاسنکی مث ال رون ال نہ مقی ں تہی ں ہ س دعت ا ا ف الد م ئ
ب من ح ہ م ےلجیس کا لب ل ب اب ی ہ ہ سی
کہ ے ہت
مل ی کن اس کے ب اوج ود اگر کو ی م لمان واحش و کرات سے چ کر ا ھی ی ت سے م ی الد کا ا ع اد کر ا
ق ث ت ے تہ
ن عم سم
ے یک و کہ ب دعت کی دو ا سام ہ ی ں: ےناور ب اعث اج رو واب ہ و ی ہ ای ک حسن ل ہ
ب دعت حس ہ .i
ئ .ii
ن تش ق تض خ صہ ق ب دعت سی
ت
ایسا کام جس کیتا ل رٓان و حدی ث میع ں ہ و اور جس سے دی ن مقی ں اد ،ا الف اور ا نار وا ع ہ ن
کی اصل رٓان و حدی قث می ں ہ و ج و اپ ی ت ست کام ج ے ہ ی ًں ناور اس کے ب ر کس ایسا ش ہ دعت سی ئ ہ ک
ل ن ہ وئ اس کو ب ت
ص ش ک ن ہ ن م ی ہ
کی ا ل ق رٓان و حدی ث می ں ں۔ م ی الد ت ی ک ئہ ی ے وع ہ و اس ًکو ب دعت حس ہ ہ ن ہ ی ت می ں و ی ا و کن رعا م
ے۔ مث ال م ی الد کے اج زاےف ض ئ لی می ں الوت ف رٓان جم ی د ،مدحت و
م ے ی ہ ب دعت حس ضہ ہ اس لی ث ے۔ ن نموج ود ہ
عت رسول ،ر کی صورت می ں ح ورﷺ کے م ی الدٓ ،اپ کے ا ل و کماالت ،ص ات ،عج زات،
84
ئ ت ش م ت خ ش ئ ت ف
ن مام نامور می ں کو ی کام ے۔ ؒ ان ہ
ل کا ب ی ان ،لوۃ ومال الم اور ٓا ر می ں طعام ا ل و ا ہ س ت ص صر خات اورش ما ن
اب نمی ں عن
المہ س وطی ے اپ ی کت ت ے ب ل ٰکہ س حسن اعمال ہ ی ں۔ امام ج الل الدی ن ی ھی الف ق رع ی ہ
ں ہ ب
ے کہ ج ب ان سے م ی الد پ اک کے ب ارے می ں سوال ک ی ا گ ی ا و ا ہوں ے اب ن حج ر کا موف ف یوں ب ی ان ک ی ا ہ
قن ئ ق ج واب می ں رمای ا:
ش ث ث ی ص
رون ال ہ کے م ا خ ئسے م ول ئ ےج و
نم ی الد درا ل ا سی ب دعت ہ
ئہی ں ،ئاس کے بب اوج ود اس می ں چک نھ اچئھا یت اں ہ ی ں اور چک ھ ب را ی اں۔ لہذا اگر
ے ورن ہ ن
وں سے چ کر م ی الد پ اک م اے و ی ہ ب دعت حس ہ ہ کو ی برا ی
ئ ب دعت سی ہ۔ ()۱۲ ئ
تف
ض ن ن ن خ 6۔ م خ ش ن ن
ل دال رق
شخ سے ج ات اور حصول ج ت کا امن دوزخ پ نi۔ م ی الد پر و ی م ا ا اور رچ کر ا ؒ ن
ے کہ ہ رفوہ نص ج و ہ نالعروس می ں لکھا عالمہ ع ب دالرحمن اب ن ج وزیخے ا ی کت تاب مولد
سے مح وظ رہ
ے ے کے لی ےخ گٓا ت عالی ے اس کے لی
ہ مصطہفوا ،ہللا ٰوالدت کے بناعث وش ٓاپﷺ کی ئ
اور ڈھال ب ن حج فاب ش ف
ے رچ ک ی ا و ٓاپﷺ اس کے لی م در ک ی ا ے ی
ل کے یﷺ مولد ے ت س ج ی، ا
ض
کے ب ثدلے می ں دس در م معاو ہ دے گا۔ اے امت ہ ہ
عالیخہ ر در م ہللاناور گے
ت وں ہ ع ش ا ع وت م
خ
ت ت ) ۱۳ ( ے ب ش ارت کہ و ے دن ی ا ٰو ٓا رت می ں ی ر ک ی ر حاصل کرل ی ا۔ئ ھ دمحم ہ ج
ے ن
ے و وہ سعادت م د تہ ے کو ی ل تکر ا ہ
عم ﷺ کی والدت کےتلی ی ب ت کہ ج و احمد مج خی ش اور مزی د ی ہ ل خکھا ف
ن ٰ
اس کے سا ھ لے گا اور ج ت عدن مینں مو ی سے مرصعش اجن اور سب ز ل ب ئ اور و ی ،عزت اور حی رو خ ر کو پ ا ئ خ
ے ج ا ی ں گے۔ ے مار ہی ںنکی ئ ان کرقے والے کے لی ج
ے ج ا ی ں گے و ؒب ین ض
اس کو ل ع طا یکم دا ل وگا۔ ق ہ
مذکورہ ا وال کے خمن مقی ں اب نن ج وزی ے رٓان و حدی ث سے کو ی دل ی ل ہی ں دی۔
ع ق
لک ت
ض
عم
ف ق ا کر ت ہ نiv۔ سرکار دو عالمﷺ کا ودؒ ی
ے ہ ی ں کہ اس فمن می ں ن ھ ںق خ ف حسن الم ن صد ی ل المولد نمی ق س وطی اپ ی صن ی ن امام ج الل الدی ثن ی
ٓاپ کے ع
ے کہ ٓاپ ے اعالن ت ب وت کے ب عد اپ ا ق قی ہ تود رمای ا۔ق قحاال کہ ن ئ تہ احادی ضث سے ی ہ ب ات اب ن
ع ع
سا ویش ن دن ظٓاپ کا ی ہ ک ی ا ن ھاق قاور خ ی ف ہ دوب ارہ ہی ں کی پن ی دا ش کے خ رت ع ب دالم طلب ے ن
ٓاپ دادا ح ت ت
ے۔ لہذا ہشی خ ا رما ود ہ
ل پ ئ ی قع ا ا ے ی کے ارہ ا کے ن ی و کی والدت ی ت پا ے ٓاپ کہ ے ہہ و ب ح ئ ہہ
ہی ی مال ا اور ا
ی ک ک
الد پ اک می شں ا ماع کرکے ،لوگوں کو ھا ا ھال کے اور دی گر ج ا ز طر وں سے و ی و ج ے کہ م م ی ت می ں ھی چظ اہ
عالی کا کر ادا کری ں۔ ()۱۴ مسرت کا ا ہار کرکے ہللا ٰ
85
ق تق فصل دوم
ئ ح شت ت ج ت لک ئ
م ی الد الن ب یﷺ پر ھی گ ی م ر م عربی ک ب می ں مذکور م مالت کا ی ج ا زہ
ی
88
ئ ت ن ن
ئی ا اور وہ دو وں ٓاپﷺ پر ای مان الے اکہ ے ز دہ ک ٓاپﷺ کے لی خ ٓاپﷺ کے والدی ن کری می ن کو ش
ے۔ زہ
ن قع ہ ج م کا ٓاپﷺ ئ ف ہ ی اور ے ا و ہ
ل یی ضجں م اصہ امت اور
ن ض گروہ کے ٓاپﷺ ارم ان کا
خ ض
تاگرچ ہ اس روای ت کی اس اد عی ف ہ ی ں کن عی ف روای ت پر ا ل و م ا ب می ں ب ال ا ت الف
ٓاپﷺنکے والدی ن کری می ن ی ا ٓاپﷺ کے ٓاب أو اج تداد می ں سے کسی نکے ب ارے ک ے۔ ق عملجک ی ان ج ا ا ہن
ازل ہ و۔کے م طابق تعت اب ت ے والے پر ہللا کی طرف سے اس کے ج رمن ق
ح ت ھ ے کا ع ی دہ ر می ںش خہ می ہ و ق
ے اور اپ یف ی ق اور اج ہاد کے اع ب تار سے ایسا ص صدی ی نن فو صا نلحی ن کے مرا ب سے نم قحروم ہ لیف رہ ت ا ہ غ
ص ل
ےو ے اور اگر ب ال رض اس کا کہا یح ح ہ ے ائ کار و ظ ری ات کے لحاظ سے ا ص ا ہم ہ ے۔ اپ طی پشر ہ ن
ض ت ے۔(ت)۲۰ ہ اسے رم ٓا ی چ ا
مﷺ کی حمب ت کری رسول و ج ا و ہ ی را عالی ہللا سے کرام ماء ع ان کہ ں ے ک ل وہ رٓاں
ف مکم گی ع ٰ ھن ی ش ت ل ن ہ مزی د ب ن
ت ظ ی م ب ارگاہ کا ل اور ج امع د اع ک ی ا۔ ان ے اس ے مار صا ی ف کے ذری ع ہوں ے ب ے ہ ی ں اور ا می ں چس ن
ب
سے عض اس ٓای ت کری مہ سے است دالل کرے ہ ی ں۔ اہ ل دا شش می ں ت
ے: عالی ہ ار اد ب اریلق ٰ
ن ئ ست ن
(ا رٓان )۳۳:۵۷
ےٓ ،اپﷺ کے والدی ن ( عوذ ب اللہ) ے؟ کہ کو ی کہ ی و ہ
خ اس سے بتڑی ای ذاء رسا ی ک ی ک ہ
ا اور
دوز ی ہ ی ں۔
ت خ
iii۔ وج ود ضمسعود کی یل ق
م ن ظ خ ت ج ت خ
ال ک ی ا
ق پر مذکورہ م ر م ؓعربی ک ب می ں سے اب ن حج ر کی ے ا ت ہار ین ن یل ض ح ور کے وج ود منسعود کی
عالی ے ٰ ے کہیج ب ٹہللا ئ ان ک ی ا ہ ح ت کو ب ی ن رت کعب اتح ب ارض کی روای ئ مصطفلہ می ں ا ہوں ے ح ے۔ اس سلس ہ ض
رت ج برا ی ل کو فکمشد تی ا کہ وہ ا سی م ی ال ی ں ج و زمی ن ے کا نارادہ ک ی ا و قح ف ت کر
ن دا ؑ
ی پ کو ئ یﷺ ض دمحم رت ق ح
لے رئ وں کو لے کر زمی ن ٹکی طرف ٹ
ا و عت ر ام م اور ت ج ھ ا س ے ن ا ل ق ی را ج رت س پ و ہ لب ئ کا
کا محل ی م اس ں م ل ک م ھی اتٹ ھا ی۔ اص ن ا سے گہ اس ے۔ ور
پ
ا ر کی
ب
ٓاپﷺ
ت ح
ٓاے اور ج ہاں
ٹ ن ن ئ ی ی ف ج ی ل ہ ب ش ت
ج
ان وح ٓای انو وہ اں تسے م ی مدی ہ تم ورہ ٓاگ ی۔
ب ن ج
ے کن ج ب طو
پ اور ج مگہٹ توہ ب ھی ج ٹہاں کعسب یہ ریف نمو ود ہ ن
سے گو ن دھا گ ی ا ھر اسے ت کی ہروں می خں ڈ ودی ا گ یئ ا۔ ح ی کہ ای ک اس ھی ھر م ی کو ئ ن م کے پ ا ی ض ف
س ی د نمو ی کی طرح ہ وگ ی اور اس سے ح ور ب ی کری مﷺ کے وج ود مسعود کی یل ق کی گ ی۔
م ع ق ت لک ت ت می ں جئلوہ گری دمحمیﷺ کیفرحم مادر ض iv۔ ور
ے ہ ی ں کہ جس رات م ے اب ن جئ اس نمو وع پر گو کرے ہ و ف ت گ
ن وزی ،اب جن حج خ رف کی اور ال لی اری ھ
ئہ م
بفالمرج ب کان ہی مصط رات ھی۔ رج ارک کی ض ے ،وہ معۃما فلم ب ن رحم می ں ج لوہ نرما ہ و ئ والدہ کے م ن تٓاپﷺ اپ ی ن
یﷺ ب اے ئ سے ح ن رت دمحم ت ش وں اور ز ی وں می ں جی ہ فدا کیہگ ی۔ جس ی ور ش ئھا۔ ناس رات ٓاسما
ے ب ی ر و ذیر ب ن کر ریف الے گا۔ ے وہ ور ٓاج رات ضٓامن ؓہ کے پح ی ٹ می ں لوہن رما وگ ی ا اور لوگوں کے لی جگ ن
تا گ ی ا کہئوہ ج ت کے سارے دروازے کھول دے اس رات ہ ر چ ار ی د کم کو وان ر ان بدرق کے ن ت ئ
دمحم ں ی م س ج ے ہ ے ہ وے ب ت ای ا کہ فٓاج کی رات وہ م ب ارک رات ق شکر الم ک سے ش ی ےے ر پا ف
ن ن پ مصط
ے ہ ی ں۔ رب کعب ہ کی سم! ٓاپﷺ د ی ا کے ہ
یﷺ ا ی والدہ کے کم نم ب ارک می ں ج شلوہ رما ت خوچ ک
ص حش کو ال ٹ ان پڑا ہ غوا دی کھا گ ی ا اورشہ ر امام اور اہ ل دن ی ا نکے چ راغ ہ ی ں۔ د ی ا کے ہ رئ ب اد اہ کا ت اسشرات کی ب
کے وح ی دن گو گا ہ ونگ ی ا۔ جس کی وج ہ سے کو ی ب ات ن ہ کرسکا۔ م ن رق کے وح نی ج ا ور م ربن خ ب نادش اہ اسخ ش
والی مخ لوق ے ب شھی ئ ے ے دوڑے۔ اسی طرح دری أوں اور سم دروں می ں رہ
ش ے کے لی ج ا وروں کو و ب ری دی
س
نب ارات اور عج ا ب ات کا لسلہ روع ای ک دوسرے کو ٓاپ کی ٓامد کی تم ب ارک دی اور ٓاپ کی والدہ ماج دہ پر
وزی ے مولد ال نعروس می ں س ی تدہ ٓامن ؓہ کو ہ ر ماہ المہ اب ن ج ق اری رہ ا۔ ع ت ہ ن وگ ی ا ج و کہ ٓاپ کی والدت م ب ارکہ ک ج ق
ش
اش ب ی اء کرام ت فکا ب ًارت دی ن ا اور والدت سے ب ل ب ارہ را وں کے وا عات کے ع وان کے سا ھ ان
ے۔ ب ارات تکو ص ی ال ب ی ان ک ی ا ہ
ت ب ض ف ن ت v۔ دن ،اری خ اور ماہ والدت ؒ
ے۔ ج ہاں ک ہ الوہف مام م ی ن ے اس مو وع پر حث کی ن
ص س وطی کے ع ت امام ج تالل الدی ن ت تی
ے۔ ج یسا کہ ے ؓکہ ٓاپﷺ کی والدت کان قدن پ یر ہ ی ہ ہض ن کا اس پر ا اق ت
ض ے و مام ہ یوم والدت کا علق
ے: ع مولد العروس می ں اب ن ج وزی ث
ےن ح رت لی المر ٰی سے مروی حدی ث م ب ارکہ ل کی ہ
ولد رسل یوم اال ی ن۔ ()۲۱
89
ئ
والدت پ یر کو ہ و ی‘‘۔ ’’رسولﷺ کی ؒ ق
ثن خ ثں اب ن حج ر مکی ر مطراز ہقی ں کہ ت ی مولد الن ب خ ف ف
یﷺ م
وا ت ل وا ی من ہی مولدہ ویومہ لی ا وال ک ی رۃ وال الف ان ہ ولد یوم اال ی ن۔ ع
تف ت ()۲۲
’’اس ب ات پر مام م ق ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کی والدت ب اسعادت کا دن
ثلک ت ف ےن‘‘۔ ع ق پ یر ہ
ل ل ف پ
ے ہ ی ں کہ ں
ف لش ن ی نھم یﷺ ب ن ا مولد ی الروی مورد ق ا اب ض تک ی ا اری مال لی خ
ولد ی ہ وا ہور ا خہ یوم اال ی ن۔ (ش)۲۳ م ئ
وا لف ای ا ی الو ت الذی ت
ے۔ م ہور ی ہ الف ت ا ھی ’’ٓاپﷺ کی پ دا ش کے وق ت م ں ب
ہ ی تی
نق خ ۔ ‘‘ ھا کہ پ یرلکا ندن پ ن ےج ف ہ
ت ع ر ا کت ا ی ا ی کت اب ا من واالسعاد بمولد ی ر الع ب اد می ں یوں ل ی ل امام
ث ق ف ف ے ہ ی ںع کہ ن ف ش کر ث
ی ب ن
واالک رون لی ا ہ ولد ی ہر ر ع ی من الر ع شاالول م ی ل ی ا یل وم ف قی ب ف ق
الغساب ع و ی ل نی الث امن وعلی ہ و ی ل ی الث ا ی ع ر و علی ہ العمل ع ن د اہ ل مکۃ
ئورج عہ ج ماعۃ من العلماء االک ی اس۔()۲۴ و ی رثہ م من ال اس
ی
والدت موسم ب ہار می ں ر ب ع ٓاپﷺ کی ن ے کہ ئ ’’اک ر علشماء کی راے
ہ
ن االول ریف ئ م
ے می ں ہ ٹو ی۔ پ ھر چک ھ ے کہا تکہ سات رب ی ع االول کو کے ہی ئ
ب ی ب
ے کہت ٓا ھ ر ع االول کا دن ھا ج ب کہ ی ہ ھی کہا گ ی ا
ع عم ہ و ی۔ ای کبراے ی ہ ہ
ے لماء کرام دن ھا۔ اہ ل مکہ کا ل اس پر ہ نع االول کا ج ق ے تکہ ب ارہ ر تی ہث
ے‘‘۔ ا د رار ح را کو اس ق ےق عداد ر کی ک ی ق
یہ حی ئ
غ ق زہ ا ج ی کا والدت از عد 2۔ وا ض ب
عات
المات اور عادت ًکے و ت سارے عالم می ں جعی ب و ری ب ع ت
دمحمﷺ کی ظوالدت ب اس ف ح رت ق
کے عالوہ دن ج خ
چ ے۔ ان ج
رق عادت امورت و وا عات کائ ہور وا ن کا ص ی ال ب ی ان واز م ی الد می ں ک ی ا ج اچ کا ہ ہ
ں کی گ ی ہ ی ں وہ درج ذی ل ہ ی ں: م ب احث ج و ان ک ب میک ن
ت ن پ ًن ت کے امس ب اب ع ق ت
ے دمحمﷺ ر ھ س
اسم گرامی
ے ہضی ں: ف کر ذکر ں م ب
ک نی ی ا ے اری لی ال م اور کی ر ج
ل ی ب حش ن ا ں م لہ س اس
رای سلسلۃ ۃ ش ہ ا اروی م دمحما لہ لب خومن اس ب ناب می ۃ ج دہ ع ب دالم ط
االرض نوطرف ب الم رق شوطرف ن طرف ب الشسماء عوطرف ب ق ن رج غت مث ظ ہرہ لہا
ھ ل
ب ا لم غ رب متم علقعادت کاف ہا ج رۃ لی کل یور ۃ م ہا ورص ًواذا یا ل اہلم ل ش
رق
وا مغ رب ب ون ب ہا عب رت لہ بمولولد کون من لب ہ ت ب عہ ا ل ا م رق
ھ
لذلک سماہ دمحما۔ ( )۲۵ن والم رب و حمدہ ا ل السماء واالرض م خ
ے۔ ا ہوں واب کا ذکرئ ک ی ا ہ نکے ن ن دادا ع ب دالم طلب ’’ٓاپﷺ کے ش ن
س کا ای ک ےج غ ے د ھا کہ ان کی ت سے سوے کی ز ج یر شکالی گ ی ہ پ ک ی
رق اور دوسرا م رب کی سرا م ئ ن ن ے ای ک سرا ٓاسمان اور دوسرا زسمی ن می ں ہ خ
ت ہ ے۔ پ ھر وہ کڑ کر تای کشدر
ت غکی ما د وگ ی جس کے ہ رتپ چہ پرٹ ی ہطرف ت ن
ے م ھ کےسا اس ش لے ا و رب مئ ئ و رق م مام ت کہ ھا ک دخ ھر پ اور ھا ‘‘ ئور ’’
واب کی ش ب یر ی ہ ب ت غا ی گ ی کہ ان کی پ ت سے ای ک ع ہ وے ہ ی ں۔ اس
ت
نمی ن و گے اور ز ب چ ہ پ ی دا ہ وگا۔ جس کی ات ب اع م رق و م رب والے کری ں ن
اس وج ہ سے ا ہوں ے گے۔ ت ت ٓاسمان والے ناس کی عریف کری ں
اس کےک نسا ھ سا ھ ٓاپﷺ کی والدہ
ب ٓاپﷺ ؓکانام دمحم رکھا۔ ن ن ض
پ
ے کے لسلہ می ں اس کو ھی یش س ض نح رت ٓام ہ ے ج و چک ھ ب ی ان ک ی ا ام ر ھ
ئ ن ف ب ن ظ ر رکھا گ ی ا ع‘‘۔ ق
عض ٓا مہ ے ف رمای ا۔ حل
م من می ں مال لی اری ے مزی د ی یہ لکھا کہ ً ف لل اس
ا ہم ہللا عزوج لل اہ لہ ﷺ ان سموہ دمحما لما ی ہ من الص ات ا مودۃ
لی طابق االسم ا مس ٰمی۔()۲۶
90
ت ن
دل می ں ی ہ بفات ڈالی کہ کے ت گ
والوں ق
ٓاپﷺ کے ھر ن ن الی ے ہللا ع ٰ ن
تٓاپ تکا ام دمحم رکھی ں یک و کہئٓاپ کے ا در اب ل عریف ص ات موج ود
ن ن ق ے۔ج اسم ب امس ٰمی ہ وج ا ھی تں اکہلک ت
نکھا گ ی ا۔ ی ہاں ٓاپ سےئ ب ل کسی نکا ام دمحم ہی ں ر ی ش ں م م ع و عرب کہ ں اس کے سا ھ وہ ھ ہ ی
ے
ہ ت
ے ات بم ٹہور ہ وگ ی نکہ ایبک ب ی مب عوث ہ وے واال ہ ن نب ے یہ کہ ٓاپ کے م ی الد پ اکت سے چک ھ عرصہ پ ل ک ن
ے ی وں کا ی ہ ام تھی رکھا۔ اس ام ی د نپر کہ ان می ں ے اپ ن ہ وگا۔ن ھوڑے سے تلوگوں ن جس کا ئ ام دمحمﷺ
عالی ے اس ب ات کا ھی اہ مام ک ی ا کہ جس کا ی ہ ام ہ و وہ ب
ے واال ب ی ہ وگا پ ھر ہللا ٰ سے کو ن ی ای ک ہ و
ت ے۔ دعوی ب ئوت ن ہ کر ک
س
ن ت ت
س رض ٰاعی ما ی ں
ب ہ
ٓاپﷺ کوےہی ںج و ع ق ب
ٓاپﷺ کے اوصاف و کماالت کی بی ح می ج نں ی ہ مونی ھی می ں ظ ر ٓا ت ض ت ن
ے۔ ہوں ے ٓاپﷺ ؓکی ر ی ت سےش اف ٰلی م ام ہللا ع ٰالی ے ر اعی مأوںت کی صورت می ں ع طا کی
ن دای ہ ’’ال ث اء‘‘ می ں امن‘‘ اور ٓاپ کی ’’ ں م ‘‘ ہ ’’ٓامن کے اسم گرامی ٓاپﷺ کی والدہ مح رمہن
ن ی ا۔ ب پ ای ش ف
والی ’’ب رکۃ‘‘ می ں ’’ب رکت و ماء‘‘ دودھ پ الے والی ’’ وب ی ہ‘‘ می ں ں دی کھ ب ھال کرے ’’ث ا‘‘ چ پ ن می
مہ سعدی ہ‘‘ می ں ’’حلم و خسعد‘‘ اسی کی کج تھلک ہ ی ں۔ ’’ واب‘‘ اور ف’’حلی ؒن
ے ہ ی ں کہ امام جق ع ر الکت ا ی الی من تواال عاد بمولدخ ترالع اد م ل
ص نںب ھ ی ب ی سن بن س ش
لہ ی تم نکی ی ن ک واری وا ی ن ے ھی ی ہ سعادت حا ل کی۔ ان می ں سے ہ ر لی نم ہور ت ب ی ت
ف ق ت ئ خای تک کانام عا کہ ھا۔ ان یغوں
پ
سے) اپ افاپ ا پ ست ان یش ک ی ا اور ن ن ع
وا ی ن ے ٓاپ کو کسیق کی ٓا وش می ں گزرے وے دتی کھ کر ( رط ی دتن ن ہ
ن رمای ا۔ ت ٓاپﷺ ے وش ن ٓاپﷺ کے دہ ن ا ن دس سے لگای ا ،انشمی ں دودھ ا ر ٓای ا اور
ے ،درج ذی ل م ہور حدی ث می ں کمال مہرب ا ی سے ٓاپ ے ان ہ ی ی ن عض علماء کاکہ ا ہ خ ت ب ف
س ت ے: وا ی ن کو ی اد رمای انہ
۲۸ت) ا ا اب ن بانلعواسک من ف لی م۔ ( خ
ن ت مٓاب وا ی ن کا ب ی ٹ ا وں‘‘۔
ہ ’’می ں ی ف لی م کی ع
ن ے: سراج النمری دین ن می ں لکھا ہ ری ؒ خے خ ت ب امام اب ن العرابی الم خعا
ش’’جس ب ھی وش ت ا ون ے ب ی اکرمﷺ کو دودھ پ النے نکا
ئ ن
قص
ے رفححای ق ل ک ی ا ،تا عسے دولت ای مان صی ب ہ و ی اور اس ے اپ
مالک ی سے لق ج وڑ ل ی ا‘‘۔ ش
ف ً ت ت ن والدت ب صحب
ث ؓ ن ض ئ ن ش
الد
ی ن م ن واز ج ن
ال ص
ف ی کو رات ا کے ہ ٓام رت ح اور ات ا
عج ب ت لے ا و ے و ہ ام رو کو والدت ب ح ص
ب
ے۔ ع ئالوہ ازی ں چ ن د ب ا ی ں ج و کہ امام اب ن ج وزی اور امام ج ع ر الکت ا ی ے اپ ی کے ب اب می ں ب ی ان ک ی ا ج اچ کا ہ
ئ ئ ت ئ ے: ی ہ ل ذ درج زہ ا
ن انؓ فکی ہ یتں ان کا اج ج
مالی
ن کت اب وں می ں ب ی
حالت
ئ عطرئ غ م ہ
سرمہ ڈا تلے وے،ن ی ل لگاے وٹے، ہ ے ٓاپ نکو ن خ سشی دہ ٓام ہ رما ی ہ ی ں کہ می ں ئ
ہ ن
ب
نے ،ی ر ے و وں ا ھوں کو ٓاسما توں کی ضطرف ا ھا ئ ؑ ہ ے دو ن ے ہ وے اور اپ ق می ں ن ت ہ دہ ،ہللا عزوج ل کوج نسج دہ یک
کے مئدی ا۔ی شٓاپ کا چہرہ ا دس ور سے چ مک رہ ا تھا۔ ح رت ج براش ی ل ےغ ٓاپ کو کٹسی اپ اکیناور کدورتئ
ارب ن سا ھ زمی ن کے م تارق و ل
ے ر می کپ ڑے می ں پ ی ٹ ا اورٹٓاپ کے نے وٹ ت ہ ا ھای ا اور ج ت سے ال
ری مکی مان دن گ
ن ک ب ادل کے نکڑے ے ٓاکر می نرے ھر کو چ ھ ی
گ ک کا نطواف ک ی ا۔ می ں ے سر ا ھای ا ٹو د کھا کہ ای
ے ھڑی کے لی ؑ ے سے ای فک م ٓاپ کو می نری ٓا ھوں نکے سا کڑے ےن ئ ئ ے۔ اس ب جادل ٹکے ڈھا پ ل ی ا ف ً
ہ
دمحمﷺ کو ص ؑوت ٓادم ،مولد لے کو س ا کہ ف ے ؑ وا ف ت ک
ے کسی ہ ں
ے۔ میع ؑ ےگ ٓاپ م ھ ورا ہ ؑی
ح ن ن ض ے ؑلو ا دی ہ ح شلے ل ی ا شاور ن
عت غادریس ؑ ،کمت صاحب ؑصالح ،ر ش ؑ س اق،
ل ،ر ق اء اسح ؑ ؑ سان اسما ی وحؑ ،لم اب را ی م ،ل ؑ ن ی ؑث،ش ج اع ی ق
ہ
ہاد ی ضو ع ،مٔہ دأود اور ی ب ت
ؑ
ب
موسی ،یعی ح ی ؑو س ،جع خ ؑ ق
وب ،ج مال یوسف ،صب ر یای ؑوب ،وت ٰ سعمان ؑ ،ب ارت ن ع ق
سی اور خلم ر ع طا کردو اور ٓاپﷺ صمت ش ٰحی ،ب ولیشت زکری ا ،زہ د ٰ اس ،ع حب دا ی ال خو ار ال ی غ لنی مان،
وآال ری نن ہ ی ں۔ داالوفلی ن ف ت ت س
ہ کو ا ب ی اء و ر ؓ فل کے ا الق می ں وطہ ہدو۔ ب ال ک و ب ہ ٓاپ سفی ش ت
ے ہ ی ں۔ ہ ور ازل وج در وج ے ٓاپ رما ی ہ ی ں کہ می ں دی کھ ر ی ھی کہ ٓاپﷺ پر ر
91
ف ن ف ؒ ں م س ی د کے ہحلی مہ عد ؓ
بن گ ض ت ی س ی
ے۔نجس می ں نو وع پر ت گو کی ہ ب س وطی کے عالوہ مام مصن ی ن ے اس نمو امام ج الل الدی ن ی ت
ے ٓا ا، ے تکے لی عرب کی روای ات کے م طابق ضومولود چ حوں ؓکو گودخمیش ں لی طرف ن ض ص
کا وادی مکہ کی حسعد کی عور ؓوں ض
ورﷺ کی ب رکت نسے نح رت لی مہ کی ک چنھا ی وں نکاندودھ ن نح ف ا، کر ل نت حا کو ورﷺ ح
ؓ لی مہ سعدینہ کا
ن ن
مزور اور ا واں او ٹن ی کا رب ہ اور ؓصحت نمند ہ وج ا اق اور ٓاپ کے سوار ہ وے پر اون ٹ ی کا ت ک سے ب ھر ج ا آ ،اپ کی
ک
ٓاپ کیناو ٹ ی کا بت ا ی او ن ٹ ن ی وں سے ٓاگے ل ج ا ا، کے ی ن سج ؓ دے کر ا ،واپ سی پر ف ر ک ہ ع ہ کی طرف من
کب
وں کا زول،شٓاپ کے ج ن ھولے کو رزق کی نراوا ی اور برک ن ت ٓاپ کی ب رکتن سے حلی مہ سعدی ہ کے گھرن می ں ت ش ف
گ
رن وں کا ھال ا ،ھولے می ں ٓاپ کا چ ا د سے ب ا ی ں کر ا اور ٓاپ کی ا لی کے ا ارے پر چ ا د کا حرکت ج ج
ض نق نؒ ن ے۔ ج ف کر ا ب ی ان ک ی ا ہ
ے کہ ج ب ح ورﷺ کی والدت ہاں پ تر امام ع ر ا کت ا ی ے ای ک حدی ث م ب ارکہ ل کی ہ ل ی ئ
ت کف ف ق ض نف ف ت ف ب اسعادت ہ و ی و
ن ن ان ا جل
ن والطی ر ا ست ی ار اعہ ودی ت ان وا د اج ری ہللا ٰ
عالی
ع
داال س۔ ()۲۹ ذلک تلی ی ن ن
دوسرے سے ب نڑھ چ ڑھ کر م ب احث ہ ض ک ’’ج ات اور پر ہ ض ب پ خی
ا ر ات اس دے
ن ج ام خدی ں گے، اعت سرا ورﷺخ کی دمت ر ت ے۔ کہ نم ح ئ ے ھن ہکرر ت ن
عالی ے ی ہ دمت ہ
ے می ہں ا ہی ں دا دی گ ی ،اموش وج أو! ہللا ٰ نکہ ا ن
ن س ن ۔ ‘‘ ے ہ کی رد س
ض پ کے ی وں ا نسا
م
ے می ں اب ن وزی ے اب ن حج ر کی اور ج س ص
ق سواری کی خوعی ت قاور ح ورﷺ کو حا ل کرے کے ل ل
ع
ق
ؓ ح ن مال لی اریضسے م ت لف وا عہ بمی ان ک ی ا ہع ق
ے۔
ے کی کے ب یل ے کہ لی مہ سعدیشہ اور اس ئ ے لکھا ہ ت اس من می نں اب ن تحج ر کی اور مال جلی اریلک ت
نیف می ں ٓا ی ں۔ تاسی ے نہ ی ں کہ وہ گدھی وں پر مکہ ر وزی ضھ نب کہ اب ن اں ھی ں ج سواری اں او ٹ نعی ق عور وں کی
مﷺ کو ت ی م ہ وے کی وج ہ سے عور ی ں ی ت م
ب ص ب
نور ب ی کری ن ے کہ ح طرح اب ننحج ر ت کی ناور م ئال لی اری ے لکھا ہ
ئ
ے چ ہ حا قل کرل ی ا۔ می ں ھی ئ
نہ رلسا ھی ے دودھ پ الے تکے لی
ن
ے پر ی ار ہ ہ ئو ی ں اور تمی رے سوا
ب چ ٓاپ کو لی
کے تدر ا دس پر ٓا ی۔ تکو ی اور ہحمال و ٓاپ ؓ ف ٓاپ کو ھوڑ کر کو ی اور ؒ چ ہ الش قکرے گی اور ج ب ل ے پ ہل
ہ
ے ہ ی ں کہ لی مہ ئسعدی ہل رما ی ہ ی ں کہ ج ب م مکہ وں ب ی بان کر وزی اس وات عہ کو ی خ ج ی
کن امخام اب ئن ت ت ش
دوسری سات ر تیف میقں دا ئل ہ و ی ں و مام عور ی ں ش ی ر وار چ وں کی ت الش می ں چ لی گ ی ں ی کن می ں تاور ت
سے دئی کھو ے۔طٓأو ؓ اکہ م ا ت
ب
اس ای ضک چ ہ ہ پ ے اور کہا کہ می رے عور ی ں ب ا ی رہ گ ی ں۔ ہ م سے ع ب دالم طلب مل
گ
سےشحا ل کرلے۔ ج ب ہ م ح رت ع ب دالم لب کے سا ھ ی ں ص ا وہ
ن اور ے ں ت م صہ کے ہ نکون اس ب
ہ ی ح چ
طرف ن و ہ ر ای ک ےتکہ ن ا روع کردی ا کہ می ں اسے دودھ پ الٔوں گی اور وہ ٓاپ کی ت اور ہ م ے ٓاپ کو دی کھا
سے م ہ پ ھی ر ل ی ا۔ می ں ٓاپﷺ ٹکی طرف ٓاگے ب ڑھی و جس ن سب عور وں ن ان ف ں۔ ٓاپ ے ت ت ٓا قگے ب ڑھی ن
ے دی کھا و سم رمای ا۔ می ں ے ٓاگے ب ڑھ کر ٓاپ کو گود می ں ا ھا ل ی ا۔ ب و تگفٓاپ ے جم ھ
ف ت ن ؒ گو پ ہلی ت
ئ ف ہ گ ق ف م ؒ
ے ہ ی ں: اب ن ج وزی ،اب ن حج ر کی ے ثم ہ طور پر ٓاپﷺ کی پ لی ت گو کے ال اظ ی ہ ب ی ان ک
ش ہللا اکب ر کب یرا والحمد للہ ک ی را و بس حان ہللا ب کرۃ واص ی تال۔ ف()۳۰
ے ب ہت ہ ی عری ی ں اور وہ ب ح و ام
ص ے ،ہللا کے لی ’’ہللا ب ہت ب ڑا ہ
ت ت ن ف ت
ح ے‘‘۔ ہت ک م بس حان
چ ہ پ
ے ہ ی ں کہ لی مہ سعدی ہ رما ی ہ ی ں کہ ج ب می ں ے لی مر ب ہ دودھ ھڑای ا و ؓ ل
نر کی ی فہ ھ اب ن حج
ج عف ل لک ت ن ف ے: ہ
ن ت ک اظ ؒی الہ ے ٓاپﷺ
ع ب
ے ن کس امام ر ا کت ا ی ھ
ل
ے۔ اس فکے ب ر مدت شھی ب ی ان کی ہ ن سا ھ دو سال کیئ ت
ہ اب ن ج وزی ے ٹ
ے۔ ک
ے و ول ا روع کردی ا اور ی ح الم رماے گص ب کہ ج ب ٓاپﷺ ٓا ھ ماہ کے وگ ہ ی قں ش
ت ق ش ن ؒ ن صدر
جف ق وا عہ
ئ ٓای ا و ٓاپ کی عمر م ب ارک چ ار نسال صدر یش پ نکہ ج ب پ قہال وا عہ قت ے ک
امام ر ا مکت ا ی ے ل ھا ہ ل ع ت
ٓاپ کی عمر م ب ارک کا ذکر ہی ں ھی۔ امام اب عن حجق ر کی اورکابتن ج وزیحے اس وا ف عہ تکو ب ی ان کرے ہ وےن
ٓاپ نکو ٓاپنکی عد ب کے ے ھڑا رما ی ہ ی ں کہ دودھ چ ے ہ ی ں کہ لی مہ سخعدی ؓہ ت ھ ک ی ا۔ ل ی کن مال لی اری لئ
ن
والدہ کے پ اس لے کر ٓا ی حاال کہ ہ ماری ی ہ واہ ش ھی کہ ٓاپ ہ مارے پ اس ہ ی رہ ی ں۔ چ ن ا چ ہ ہ م ے
92
ئ ہ ب تق ض ن ن ن
ھ
ے ٓاپ کو ہ مارے مراہت ی ج دی ا۔ سے ب ات کی تاور ہ مارے ب ار ب ار ا ا ئکرے پر ا نہوں ش ٓاپ کی والدہ ن
کے شسا ھ ب کری اں ے دودھ ری ک بن ھا ی ن ے تکے دو ی ن ماہ کے ب عد ای ک دن چ خٓاپ پا مارے واپس ٓا ئ ت ہ ن
سارا ت ہ
ے و ھوڑی دیر کے ب عد ٓاپ کات ب ھا ی یق ت ا وا ٓای ا اس کے ب عد ا ہوں ے ق صدر قکا ش ےگ چ قراے کے لی
ے۔ ج ب ٓاپ کا دودھ چ ھڑای ا گ ی ا و تاس و تت ٓاپ کی عمر دو سال ھی۔ اس طرح وا عہ ق وا عہ ب ی ان قک ی ا ہ
ے۔ ب
کے و ت ٓاپ کی عمرن ت قم ب ارک دو سال اور دو ،ی ن ماہ ن ی ہ صدر ت
ت نتق ن
ان کا ا ال والدہ مح رمہ اور دادا تج ج ف
کےق م طابق ج ب قٓاپ کی والدہ ماج دہ کا ا ٹال ہ وا و تٓاپ کی نت وزی ج ن با اور ی ا ت ک ل ا ر امام دمحم ب ن ع
ت ہ
ارک چ ھکستال ھی۔ ج ب ٓاپ کے دادا کا ا ال توا اس و ت ٓاپ کی عمر م ب ارک ٓا ھ سالنھی۔ مر م
ے ہ ی ں کہ ج ب ٓاپ کی والدہ کا وصال ہ وا و ٓاپ کی عمر م ب ارک چ ار برس ھی ب عض ے ابعن بحج ر مکی ل
ھ
ت لک ق ت خ
خ ض ن ق ے۔
ع زی ادہ ک ہیمہ
ے ہ ی ں: کی ہ ی ںسوہ ھ روای ات ب ی ان ق گر مال لی اری ے اس نمن می قں م ت لف ق
س
ت ،و خ ی ل ب ع ،و ی ل سع، ل مس ،و ت ی ل سب ق ﷺشارب ع ن ی شن و ی ش ولقما ب لغ ث ت
و ی ل ا ن ی قع رۃ س ۃ و ہر ٓاو ع رۃ ای ام ما ت نامہ و خد ا رج اب ن سعد عن
ست س ی ن ش رج قت ومات ج دہ ہللاﷺ تاب ن ع ب اس الوف لما ب لغ ثرسول ن ق
ست۔ ()۳۱ لب کا لہ ولہ مان س ی ن و ی ل سع وی ل ع ر و ی ل ن ع ب دالم طض ن
ج ب ح ور ب ی کری مﷺ چ ار سال کے ،ای ک روای ت می ں پ ا چ ،ای ک
سال ای ک ماہ اور ئس تات اور ای ک روای ت می تں ب ارہ ن ت ق می ں چ ھ ،ای ک می ں
ہ
ے و ٓاپﷺ کی والدہ مح ؓ رمہ کا ا ال وا۔ اس کے ہ ون دن ن دس ت
بت
کےسا ھ ا ہوں ے اب ن سعد سے اب ن ع ب اس کی روای ت ھی ب ی ان کی
ھی۔ت اسی الوہ لک ٓاپﷺ کی عمر م ب ارک چ ھ س نتق ے۔ جس کے م طابق ہ
ے ہ ی ں کہ ٹھ سے لے ا حو کے ئ ت ال ا کے ف دادا کے ﷺ
رت ع ندالم ط ؓ ٓاپ ض طرح
ٓاپﷺ کی عمر ٓا ھ سال ت وت ہ وے و لب ن جت ب ح ن ب
ف ھی ،چک ھ ے کہا و سال ،چک ھ ے کہا سات سال ھی۔ ش
ف ن ن ق ن ف ض ر س کے ام
ت
امام دمحم ب ن ج ع ر الکت ا ی ،تاب ن حج ر مکیناور مال علی اری ے اپت شی ک ب می ںف گ ت گو کی اس فمو وعنپر ن
ؓ ے کہ لی مر ب ہ ٓاپ اپ ت ہ پ
کے سا ض ھ امخ کے س ر پر
ؓ ے چ چ ا اب و طالب ف
ت ے۔ امام ج ع ئر الکت ا ی قے لکھا ہ ت شہ
سامان ے۔ اس وسف ت ٓاپ قکی عمر م ب ارک ب ارہ سال پ چھی اور دوسری د عہ حق رت دی ج ہ کالک ت ش ت ریف لے گ
ے ہ یق ں کہ ئ ج ارت لے کر ف ام کا ر ک ی ا تاس و ت ٓاپ کی عمر م ب ضارک یس سال ھی۔ اس کے ب عد وہ ھ
ت اکرمﷺ کا عان قدو موا ع کے عالوہ کسی ون م کے م طابق ح ور ث کی صری نحات پ ن ٓاش مہ سی رت اور حف اظ نحدی ث
م
ش ام کی طرف تس ر کر ف ا پ ای ہف ب وت کو ہی ں ہچ ت ا۔ گر امام اب ن حج ر کی اور مال لی اری کے م طابق ٓاپ ے
لک ت ام کی طرف ی ن د عہمس ر کنی ا۔
نارہ ل
ئج تیسا کہ اب ن حج ر کیناپ ی کت اب مولدا ن ب
کی عمر م ب ارک ب ٓاپﷺ ق ےہ ی ںج بئ
ن یﷺ می ں ھ ف ش
ے۔ سارا وا عہ ب ی ان کرے طالب کے ہ مراہ ام کے س ر پر روا ہ ہ و ئ ت ے چ چ ا اب و ض ن ٓاپﷺ اپ ت ک سال ہ و ی و
ب
ب ح ور ب ی ت شکری مﷺئکی عمر یسقب رس کی ہ و ی و ل
ٓاپﷺ ضدوسری ق ت ے ہ ی تں کہ پ ھر ج غ کے بشعد وہ ھ
ب
ٓاپﷺ کے سا ھ ح رت ا وب کر خ ف الے۔ اس و ت ک ن ارت کینرض سے ضری ن طرف ج ن ب مرت ب ہ ؓ ام ت
کی
ے لگا دا فکی سم! ٓاپﷺ مﷺ کون ہ ی ں۔ ہ
ش ے۔ حی را کو ا ہوں ے ضپوچ ھا کہخ ح ؓور ب ی کری ت نصدیق ب ھی ھ
س ب رس نکی عمر می ں ح رت دی جفہ کا سامان ج ارت لے کرض پ ھر ام کا س ر ک ی ا۔ ق ب ی ہ ی ں۔ پ چع ی
یﷺ می ں حک ترت اب و طالب کے ہ مراہ اور ل پ
ل
الروی ی مولدا ن ب ن خمال ؓلی اری ا ی تکت اب المورد ف ض
کہ
ےہی ں ض کےضس روں کو ب ی ان کرے کے ب عد ھ ارت ج ان
وا رج ا ن م ن ذرہ ب س ن م اس خکے ہ ج د
ی رت ح
عن اب نشع ب اس ان اب اب کر اشلصدیق ر ی ہللا ث ف ی ف ل عد ب ت
مان ع رۃ واف قلن ب ی اب نظ ع ری نضسن ۃ وھم وھو اب نن ف عب ا ن ب یت ن ع ٰالی عن شہ ،ص ت
یری دون ال ام ی ج ارۃ ح ی زال م زال ی ہ سدرۃ عد ف لہا وم ی اب وب کر الی
نق ؓ ت راہ ب۔ن ن ض
ل کی ت ن ’’ اب ن م ضذرہ ے عی ؓ
ف س د کے سا ھق اب ن ٹع ب اس کی ی ہ روای ت ض ن
ے کہ ح رت اب وب کر صدیق کی عمر اس و ت ا ھارہ سال ھی اور ح ور ب ی ہ
93
ت
نم بلک ن امش ٓاپﷺ ب کری
سال ھی۔ ج ب ن مﷺ کی عمر م ب غارک یس ئ ت
ے۔ اس کے ب عد ا ہوں ے حی را امی گ سے رض کی ارت ج طرف کی
ے‘‘۔ ()۳۲ ا ک ذکر ھی سے مالق ات کا ب خ ئ راہ ب ف
یہ
ن ن تت ن خ اوصاف و صا ص مصط ضیﷺ
خ ئ حسن یوسف دم عی
مہ دار د و ہا داری ٓا چ ہ وب اں ہ ف سی ی د ب ی ا داری ض ن ٰ
مﷺ قکی ص ات حم ی فدہ اور ٓاپﷺ کے صا ص اور وزی ح ور ب ی تکری ن ئن جلک ت عروس می ں ابمولدفال ت
ے ہ ی ں کہ ہللا ع ٰالی ے رٓان جم ی د می ں رمای ا کہ ھ ے ہ وے ق معج زات پر گ ت گو کر
گف ت ئ خ ئ -۴۵ئ )۴۸ف (ال رٓان :۳۳ش
ت ت گ
کے صا ص پر قگو کرے ہ وے
ف ت ے۔ تٓاپﷺ کی ہ اور ما ل پر گو ت تلک تٓاپﷺ کے معج زات پ ن
ے، کے مزی ادہ چسدل اور ول ج ب
ہللاﷺ ا ف ی ذات کے اع ب ار سے م می ں سے ق ہ ر ،پ اکی زہ ف ش ے ہ ی ں کہ رسول خھ
ی ل ی ع
سے زی ادہ پ اکینزہ ،ی ل ال در ،ظ م ا خ ر ،ر ع الذکر ،ی ل ل ج اظ ح کے ت را سن، حا سے حاظ کے ق
فض ئ ف ں۔
ن ہ ور سے مام
ت
ٓاپﷺ
ل
سے حاظ کے ر
ق
و ا ا یلص ر ،ح ات دن
ل
ے ہ ں کہ ہللا تمعالییے ٓاپ کو مصط م لک ت ل ل ب ی لی ب
یﷺ تب ن ًای ا اور ا ل و ً کی ر ج ن ا ں م یﷺ مولدا ب
ن
ے۔ ٓاپ ہ ی مام ا ب ی اء کے خاب ت دائ و ا ہا مددگار ہ ی ں۔
ت ن ٰ
ل کماالت سے ننٓاپ کونرگز دہ رما ا ٓاپ ہ ی سھدالک
ی ح ب ف ی
ہشف ی ب یق ی
خاس کےکب تعد ا ہوں ے ی امت کے دن ٓاپ کی اعت کو ب ی ان ک ی ا۔ ٓاپ کے صا ص کو ب ی ان ک ی ا اور
ف ث خ ق ت ق ے ہ ی ں کہ ٓا ر م ں ل
ت ض ھ ی
ان ہﷺ قحی ن ولدتو ع مع شمدا! علی ی دی ہ م ا ذ ب ۃ من راب ور ع راسہ
االرض۔ ()۳۳ن ن ت الی السماء و ب ض ال راب ا ارۃ الی ان ہ ب ملکئ ت
ےہا ھ ٓاپﷺ ٹکی والدت ب ا ٹسعادت ہ و ی و ٓاپﷺ ے اپ ن ئ ’’ج ب
ھری اور ٓاسمان کی طرف سر ا ور ت ب م
ے ٹھر م ی نکی ای ک ھی پ زمی ن پر ٹ کاٹدی
ب ل ن د ک ی ا۔ م ی کا مش ھی ب ھر ا اس طرف اش ارہ ھا کہ ٓاپﷺ ہ ی زمی ن
ع لک ت کےف مالک ولب اد اہ ہ ی ں‘‘۔ ع ق
ے ہ ی ں کہ ٓاپﷺ کی ای ک ظ مت ی ہ مورد الروی نی مولد ا ن ب یﷺ می ں مال لی اری ھ ت ال
ٓاپﷺ کی رسالت ب
ئب ڑے رسولوں سے ی ہ پکا وعدہ ل ی ا گ ی ا کہ ج و ھی ن ن کہ مام معزز ب یوں اور بڑے ےئ ب ھی
ہ ن
کرے۔ اس کے ب عد ا ہوں ے می ث اق ف ٓاپﷺ فکی مددٓاپﷺ پر ای مان الے اور ن ن نکا زما ہ پ اے ن ق
مصط ن
ے کہ ی کا حوالہ دی ا ہ ے۔ اس کے ب عدا ہوں ے رمان ا ب ی اء والی ٓای ت ل کیفہ
ن ت لوان موسی کان ح ی اء۔ ()۳۴ ت ت والذی س ندمحم ب ی دہ
ے و می ری پ یروی کے سوا ان کو چ ارا ہ ھا‘‘۔ ن
ے کہ ئ
ق ف ب
موسی فز دہ ہ و ’’اگر ٰ
کا ی ہ رمان ھی ل ک ی ا ہت اور ٓاپﷺ ب ن
حت لوا ی ۔ ()۳۵ ئ
ت من سواہ ال ق ومامن ی یوم ذ ٓادم ت
ے ’’ٓادم اور ان کے عالوہ مام مخ لوق ی امت کے دن می رے ج ھ ن ڈے ل
شت ت ن ہ عوگی ق‘‘۔ ف ت
نا اوالد ٓادم کیف وں سے ت پ ن ناور پ ھر مال ن لی اری رماے ہ ی ں کہ ج ت
کی ناوالد کو ل ی
ج
ان
مصط عالی نے ت ب ہللا ٰ
ے ہوں ے ے ھ ہ
یﷺ پ ل اور ا کو ا ہی پر گواہ بن ای ا۔ ف’’الست ب رب کم‘‘ ک ی ا می ں مہارا رب ہی ں و دمحم
ق ئ ہ ؑ ’’ب لی‘‘ ہ اں یک وں ہی ں کرماتی ا۔
اس ٓای ت کا حوالہ ے اب را ی م ہ ی ں اور رٓان جم ضی د سے ؑ ن ٓاپﷺ دعا ے ہ ی ؑں کہ اس کے ب عد وہ ل
عی ث ہ ھ ض ت
سینکی اسئ رت ق بٰ اور عح پ ن ے ت ٓاپﷺ کی ب ع ت کی دعا کی ہ ترا ی م ےن ن ن ے ہ ی ں جس می ں شح رت اب دشی
ب ارت کی طرف ا ارہ کرے ہ ی ں ج و ا ہوں ے ب ی کری مﷺ کی ٓامد کے م لق ا ی وم ی اسرا ی ل کو
ق ت ج ف ل ن ن پن ف خ ی ل
دی۔
داروں کا ٓا ا ہ مارا ع
واالسعاد بمولد ی رالع ب اد مصی ںق امام ر ا کت ا ی ے ا شی کت اب می ں اجلک ت ئ ن ف ا من ن
رسالت مٓاب ت کہ ں ہ ے
خ ھق ی وہ ںی تم روع کے س س جعے۔ ہ کی م ا ل
ت ن ک ی ا سے وان کےقع یﷺ ف ب ض
ل م ی
لت و و ی ت ہ صرف دی گر مام ا ب یتاءتو مر شلی ن ل ہم ثالسالم پر ب لکہ مام لو ات وعا می نع ح ی کہ ن
کی ی ق ئ
امت ن لم کا س ے
ب ن ہ نی ن قہ ج ث امر وہ ہ ے۔ ت ا سے ہورہ م و رہ وا حہ ص
مالس کہ و م ی ض م ی پ ی ح یح م
ث احاد ر ن ز عز و ن ب ر
ے مو ف کو اب ت کرے ے اپ اس کے ب عد ا ہوں ق ے۔ خ ہ ے خ روری ات دی ن کی ی ث ی ت رکھت ا کے لی ٹ م لمہ
ے کہ ٓاپ ی امت کے دن سب ے۔ ج ن کا الصہ ی ہ ہ ے ا ھارہ م ت لف احادی ث کا حوالہ دی ا ہ کے لی
94
ت ن ق
ہ خ ہ
ے گی۔ حمد کا ھ نڈا ٓاپ کے ا ھ می ں وگا۔ ج ھ ک
ے ٓاپ کی ب ر ق ل گے۔ سب سے پہل لوگوں کے سردار ہ وں
ف ش
گے۔ ٓاپق ہ ی ی امت کےتدن ا ب ی اء کے امام اور طی ب ہ وں ں ئ ے اعت فکریئ ف ٓاپ ہ ی سب سے پہ قل
ے گا۔ ی امت کے دن مام اوالد ٓادم ٓاپ کے پرچ م کے م
ح
نگے۔ ہللا پ اک ٓاپ کو م ام مود پر ا ز رما
ے ٓاپ کی امت ہ ی ے گا۔ سب سے پہل ے ہ ی ج ن ت کا دروازہ کھل ے ٓاپ کے لی سب سے پہل ے ہ وگی اور خ جیچن
ت وگی۔ ہ ل دا ں ف م ت
ن
کے دولہا ہ ی ں۔ ی ع ی کائ ن ات کے ے ہ ی ں کہ ٓاپ مملکت ب اری ع ٰالی
لک ت
وہ ں م ر
خ
ٓا کے ل ی قص
ن ھ ی
سردار اور طب ہ ی ں اور ٓاپ کائ ن ات کے وہ سل طان ہ ی ں ج و حاصل کو ی ن ب ھی ہ ی ں اور چ ارہ ساز عالم ی ان
ن ت ن ن ب ھی ہ ی ں۔
وان سے ب ھی اں ہتوں ی رے اوصاف حم یئدہ‘‘ کے ع ن ب ک ی ف صاسیق ئطرح ا ہوں ے ’’کس غمن ہ سے ب
ے ہ یخ ں کہ ٓاپﷺ اوا ل تعمر اور زما ہ چ پ ن سے ل
ع م ے۔ت جس تکے ٓا تاز می ں وہ مھ ای ک ل ا مصکی ہ
اور ا ٰلی ری ن اوصاف حم ی دہ سے ت عالی ک ہ ری ن اور کا ل ا الق کے حا ل ج ب ٰ لے کر لمحتات و ل ب اری ت
ے ی سی رت و ہ ے ایس م
سب سے زی ادہ حسی ن و ن ی لنھ صورت می ں ت خ ٓاپﷺ ن طرح
ن س ے۔
ب ج ھ صف خم
پﷺ کے ت ٓا ے ہوں
ت تش ا عد ب کے اس ے۔ ف ھ لے ا و ی ااخ الق سن ہ کا ڑے وب صورت ف اظ م ں ذکرب
و کر ڑھ ب سے وں سا ا سبخ ھی ں ی م الق
کے سا ھ ،رے داروں کے سا ھ ،تصحاب ہ ت روں کا اور ے ا
ال ی ت ک ی ہ ح تب ف ق
ف س
ٓاپﷺ کے حتسن لوک کا ذکرہ ھ سا کے ال ع و ل ہ ا اور ھ اس کے ق ن ی ک سا مخ و راء کرام کے سا ھ،
ص ت ف ی خ
اور ب ڑے خج امع ال اظ کے سا ھ اس فل کا ے۔ فٓاپﷺ جکی وش ا ال یشاور سخ اوت کو ب ان ک ان کخی ا ہ
ٓاپﷺ پر رمادی ل ک ون ش ہ ہللایت عالییے اعلی ا الق کی کم ال ر طور موعی م کہ ’’ ا!
ق ش ش ت ی ٰ پبت پ ب ک ٰ ا ت ت یح یخ
رما ا ک ام
صول فدی د ریئن تم ت کے کا ح ج ےش ئ
ے ج و مام مخ لوق اسل ج غاور اس سن ا الق کو اس درج ہ کمال ک ہ چ ادی ا کہ سی اور کے لی
یرماد مع لہ ی م ما اور ے اوصاف حم ی دہ ٓاپﷺ نکی ذات میئں ایس ج ے اور ف ب ی ر محال ہ
خ ے۔ن ےگ ئ
می ں سے غکسی اور ئ نرد می ں مع ہی ں کی
کمال سے ما وذ ن ہشہ خو اور ٓاپﷺ کی مدح و کے ان و ج
یب قں ہ ایسا کمال نکا ات مغی ں کو تی ال رض
ے ٓاپﷺ ف
الم اور و ع الم طالعہ سص کے لی ی س ف
ے کسی نھی ادر الک ہ مر کم لو ر ش
واال ے ا ا ک ں م اء ثن
ت ہ ب ہ خ ج ی ث ی
ے ٓاپ کو ک ن ا ہ ی یص ح اور ماہ ر ن جم ھت ا ہ و۔ ے اگرچ ہ وہ اپ مصطسف ت م ل ب ات ہ
ک کی مدح و ن اء
ن ظ خ ع ق ii۔ وس ی لہ ضیﷺ
ف ے۔ اری ے ا ہار ی ال ک ی ا ہت وزی ،مالنلی ت ن ج اس مو وع پر اب ن
ے۔ ا ذکر کا ض ی کے ق ل س و کے ٓاپ کو کرام اء ا مام ے وزی ج
مولد العروس می تں اب ن
ن
ہن ض ک ین ؑ ہ
ؑ ب یت ض ث ً لک ت
رت وح ے ح ٹ کی۔ ول ب ی اعث کے
ب ؑ ب ب ٓاپ ہ و کی ٓادم
ض رت ئ ح ے ن عالی کت ٰ شہللا کہ ں م ال وہ ھ ی
ہ ے
ن لہ سے اوپر ا ھای ا گ ی ا۔ کے وس ی رت ادرینس کو ضھی ٓاپ ؑ سے ی می ں ج ات پ ا ی ح نلہ ن ٓاپ کے وس ی
ی دعا ما گی۔ ح رت اب راہ ی م ے ضٓاپ کے واس طہ سے حض رت ہ ؑود ے فاپ ی دعا می ں ٓاپ کے نذری عہ ہ ئ
ے کے ہ ی ؑوس یک لہ سے ح رت اسماع ی ل ٓازاد کی گٓا سے ج ات پ ا ی۔ ٓاپت ت ن ارش کی اور ن بئارگاہ ال ہٰی می ں س
ن
موسی لی متہللا کوہت طور پر خم تاطب ہ ن
ت تسے ضد ب ہ الی ا گ ی ؑا۔ اگر ٓاپ ہ ہ و ےج ت
س
ئ ے وٹ ٰ ن ی ع ہ ن
اور ٓاپ کے لی ےت گ
ہ
ٓاسمان کی طرف ہ ا ھاے ج اے۔ ٓا ن ش پر وں کی تگٓا بٰ ئ سی ئ رت ت
ح و ے و ہ ٓاپ اگر ے۔ و
ارش ب قن گ ی ا۔ مام ٓاپ کی وج ہتسےق ب ادلوں کا ب رس ا ب ت ے ہ وے ج ھ شگ ی اور ت ش اعث عاج زی کر ف نٓاپ کے بن
ا ب ی اءف ضکرام ے والدت مصط یﷺ کی ب ارت ریف الے و ت اور واپس ج اے و ت دی۔
ج عف ل ن ن پ ن ت ج ؒ ع ق ؒ iii۔ ی لت درود و سالم ض
گف درود و سالم کے مو وع پر ابنن وزی ،مال لی اری اور امام دمحم تب نن ت ر ا کت ا ی ے ا ی ک ب
ے۔ اس درود و سالم کو گدس ی کا عالج ب ت ای ا ہ ب
یسا کہ اضب ن ج وزی ے مولد العروس می ں ے جن میسں ت گو کینہ
ت ے۔ ف ئ ہث ئم ب ارکہ کا حوالہ تھی دیتا خ ے می ں ا ج ہوں ے ح ورﷺ کینحدی ف لسل
ب
اوی ا دے کے سا ھ سا ھ ا روی ا تدے کو نھی ب ی ان کرے اب ن وزی درود و ضسالم سے د ی ؓ
ے ہ ی ں کہ ب ی کری مﷺ ے شوہ ح رت اب ن ع ب اس سے مروی حدی ث م ب ارکہ کا حوالہ دی ہ ینں فاور اس کے لی
ت خ ے رمای ا۔
ت
ک مر ب ہ درود پناک پڑھے تہللا ع ٰالی اس پر تدس مر ب ہ ت ’’ و نص جم ھفپر ایئ ج
عالی اس پر ٰ ہللا ڑھا
ن ب ت پ ش درود ہ مر دس ے س رحمت ازل نرما ف ئج
اور گا ے
سو مرت ب ہ رحمت ازل رماے گا۔ جس ے سو مر ب ہ درود ریف پڑھا اس
95
ت ن ن ف ئ ت
رحمت ازل رماے گا ،جس ے ہ زار مر ب ہ پر ہللاش ع ٰالی ای ک ہ زار تمرت ب ہ ن
درود ریف پڑھا ،ہللا ع ٰالی ے اس کے ب الوں اور ب دن پر گٓا حرام
نق )۳۶کردین‘‘۔ (ن
ے۔ ہ کی ل ارکہ
عی م ب ت ث حد اور ک ا ے
یس ع ی اس کے ب عد ا ہوں
مامن احد لم ئ لی االرد ہللا بلی روحی ح تی اردتعلی ہ السالم۔ ()۳۷
ب
عالی می ری روح واپس ٰ ے و ہللا ٹ’’ج ب ھی کو ی جم ھت پر سالم یھج ت ا ہ
ے۔ ی ہاں ک کہ می ں شاس کے سالم کا ج واب دی ت ا ہ وں‘‘۔ نہ لو ادی ت ا
ک ل ب ف
ؓ ے ہ ی ں۔ ض ے درود و سالم کے دس ا عار ھی ھ
ل ف پن پ ھرعم قصن ؒ
سے مروی مال لی اری ا ی کت اب المورد الروی یہمولدا ن ب یﷺ می ں ح رت اب ن ع ب اس ض
ے کہ ج بت ح رت حواء کو ئانتکی ہ ئطرح ب ی کے حوالے سے درود و تس تالم کی اض می ت چ ؑک ھ اس حدی ث م ب ؑارکہ ئ ض
ے ج ب ج اگے و بی بی ئکو دی کھ کر ے ھ ہ ٹ
ح رت ٓادم کی ب ا ی ں لی تسے پ ی دا ک ی اف و ش تب حنرت ٓادم ؑسوے وئ پس
ے ب ولے ے بی بی کا حق مہر ادا یک ج ڑھای ا۔ ر وں ے کہآ :ادم ذرا ھہرے پہل طرف تہ ا ھ بن سکون ٓاگ ی ا اور ان کی ف ش
ب ش ے؟ ر وں تے کہا: ان کا حق مہر ک ی ا ہ
ب س خ )۳۸ ’’ندمحمﷺ پر ی ثن ب ار درودنریف یھ ج و‘‘۔ ج( ؒ
ن وزی کی کت اب لوۃ اال وانقکا حوالہ ھی دی ا ے اب ض اس ب ات کو ض اب ت کر ؑے کے لی مصن ف نے ن
ے۔ ہ س م ح ب
درود و الم کو ضی رار دی ا ہ رتر ؑ ورﷺ پ کے حق ہر ح ض رت حواء ؑ ے ھینح ض س می ں ا ہوں ت ے۔ جن نہ
حواء کا حق مہر ح ورﷺ پر ب یس ح وہ کہ ا ید کم کو ٓادم رت ح ے عالی
ٰ ہللا کہ ے ش ہ کہا ے ہوں ت ا
ت ہ ک
مر ب ہ درود ریف پڑھ تکر ادا کری ں میمں ہت ات وں:
’’ش ای د ی ن ب ار مہر عج ل ھا اور ب یس ب ار مہر موج ل (مع ی ادی) ھا‘‘۔ (
ہ خ ن ف ن) ن ت ۳۹
ے تود اپ ی وبﷺ کا یوں اکرام رمای ا کہ صلوۃ کی ٓای ت می نں سبح سے پ قل پ ن حب ت ف ش ت م ے ا ے ہللا ع ٰالی
ٰ
نر ذکر ک ی ا۔ پ حھر موم وں کول کم دی ا۔خ ب ا بی نمام
ی ہ ےپ سا ھ ر نوں قکو دوسرے بدرج ے ت سے اب ت نداء کی یاورناپ ی
ذات
ے کن شوہ ود ج ا ہی ں ادات ا سی ہی ں ع ی ہللا ع ٰالی نے ببا ی ع ب اداتح ج ا بالے فکا ش متی ں کم دی ا ہ تع ب
نمی ں املشک ی ان گ ی ا۔ وں صلوۃ وں کوف کی ش ت
ت ھی۔ ر ے اور ت کم ن ہ ؑ ھی ت ض س کی ہللا الم س لک تو درود طرح اس ضا۔ ال
ے نان کی ی ا ی می ں پ ٰ
ےہ ی ں کہ قج ب نح رتنٓادم کو ہللا ع ٰالی ے پ ی بدا ک ی ا و ر وں ض اس من می ں وہ ھ ت ن
ٓاپﷺ پر صلوۃ یھج ی پش خھر ج ب ح ور ب ی کریت مﷺ کو ف شت ے ت ہوں تا ت و اسی و ھا
ج ق ک ید ‘‘دمحمﷺ ن ئ ور ’’
ص ف ج
وں سے کہا گ ی ا ی ہ و ن ی صی نت ہ ی ں لنعپر م لوۃ ت ہ ٰ ات می ں سم ا ضدس کے ؑسا ھ الیش ا گنی ا و ر ن ت باس کات ت
ہٰ ج
ے ،اب ب کہ وہ ورق اس د ی ا می ں ب ا ل مو ود وا و ج پ
ےب ج ب ی ہ ح رت ٓادم کی ی ا ی می ں ور ھ ت یھ ج ا کرے ھ
ت ن ت ئ ح ت ح م ان پر صلوۃ ن یھ جو۔
م ک ص ٰ
ےعالی ئ ن ن پ ھر نموم وں کو کم ٰلوۃ اور اس کی ی ں بحی ان کرے ہ وے وہ ر مطراز ہ یس ں بکہھہللا ٰ
اس کی ک ی تاحکسات وں اور ج نات می ضں نسے صرف ای مان والوں کو کم دی ان کہ ٓاپﷺ پر درود و الم ی ج و۔ن
کے ہ ی ں اور ٓاپﷺشے امت کی اپ ت ے بم زلہ کے لی امت مﷺ ن ں ہ ی ں چ و کہ ح ور ب ی کری ئ م
ع ب
عتلی م و رب ی ت اور ار شاد می ں ھی کو ی کسر تہی ں ر ھی۔ است اد و م
ک ب ش ت ی
اس کے ہ ر اگرد پر الزم شف ف ی عر کی لم
ٓاپﷺ کی اعت تکی ح ی ث ی ت رکھت ا ت ے۔ صلوۃ وقسالم ہ ف ن کر ہ ر ب چنہ پر واج ب ہ و شا ے اور ب اپ کا ہ و یہ
ےقکہ کل س
کی ج ا کنی ہ اعت) کی ین متضادا ٰ ق م
کردی و ام ی د ن ے ٓاج د ی ا می ں اس ( ش ف ے۔ ج ب ا ت ی وں قہ
ے گا اور موم وں ے جس در مت سے ل ی ا گ ی ا م قال ( اعت) ا ہی ں رور مل ی امت کے دن اس ی
ان پقہچ انتہ وگی۔ ت کے اور ٓاپﷺ کے در تم ی ان ج درود نو سالم ب یھ ج ا ہ وگا۔ اسی در ان ت ٓاپﷺ پر ئ
ے۔ ٓاپ کے مرا تب می ں ت ر ی ہ تو ی ہ م
ے و اس تسے مومن ٓاپ ت پر درود پڑھت ا ہ ت ب
ج ب کو ی ب تدہ
ے۔ جس ب
ے کہص ا عبکا تمر ب ہ۔ ت بنوع کے مر ب ہ کےہ ا شع ہ و ا ہ ب ے اس لی ڑھ ج ا ا قہ ھی بش ت سے امت کا مر ب ہ ف جس ت
ئ
ے ہ ی ں یو ہی ٓاپ کی امتق می ہ سے اور ئ ھ
ی
کے رے ہ ر و تت ہٓاپ پر ٰلوۃ جت عالی اور اس طرح ہللا ٰ
ے گی۔ کو ی ج گہ کو ی و ت صلوۃ و سالم ہ ر ی ھ ڑ پ اور ے ہ ی ر ی ھ ڑ پ الم س و ۃ لو ص ر پ ٓاپ ے ہ می ش ہخ ن
کے لی
ٰ ٰ
ت ک ل خ یل سے الی ہی ں۔ ج ف ل ن پ ن
المات حمب ت ح ے ہ ی تں کہ ع ِ ئ اد می ں ھ امامبدمحم ب ن ع ر ا کت ا ی ا ی کت اب ا من واالسثعاد بمولد ی رالع ب ت
عالی کے کم کی ٰ ہللا سے ا
ئ اور ے ا ت ج کی رت ک کی الم
ش س و درود ر پ ٓاپﷺ کہ ے ہ ئ ھی ہ
ت ی سے ں یم
عم ی ل کرے ہ وے ب ارگاہ رسالت سے والہان ہ ع ق کے سا ھ ب ج ا الی ا ج اے۔
96
ن فق ت ت ب فض ن نغ
ے اور دل کو م ا ت ت ہ ا ت ھ ک ر ازہ ٹ رو کو دل ہ ے۔
ہ ی ت ل ا ھی شن سے ے ت کر ٓازاد غ
الم درود پڑھ ا
ے، ا
خپ ئ ہ کر ورا کو ات ن حا
ہ ج ے، ات تل ا کو الٔوں ے۔
ہ ن ب ا کر دور
ت کو وںن ی ا ری ے،
ن ہ پ ا ا ٹ م کو م ے۔ سے پ اک ر تکھت ا ہ
ے ہ ی ں اور کی ک یت اں بڑھ ج ا ی ہ یشں۔ گ اہ اور ف ئطا ی تں مٹ
ل ات ب ل د ہ و خ درج ت ص
ے سے ے ،درود پڑقھ رزق کو ب ڑھا ا ہ ت
ے ہ ی ں کہ درود ریف کے وا د ال عداد ے۔ ٓاش ر می ممں وہن ھ ں اور رب کری تم نکا ث رب حا ل ہ و ا ہ ج ا یہی ش
ے۔ ے ک ی ر ہ ی ں کہ ان کا احاطہ اور مار کن ہی ں ہ ں۔ ی ہ ا ےئ مار ہ ی ف
مصط اور بش
ن گف ن نؒ جف ؒ iv۔ ما ل ض یﷺ
فئے گو ہی ںت مصطفلکت ا ی کے عالوہ نکسی مصن ش اس مو وع پرنامام اب ن ج وزی اور امام دمحم ب ن ع ر ا
ل ن یﷺ کے ع وان سے ما ئلعروس می ںتحلی ہ ابت مولد ا ک وزی اپ تی کت مصطفامام اب ن ج خت کی۔
ے چہرے ن خ
ے ہ وشے ب ی ان کرے ہ ی ں نکہ ٓاپﷺ تم لوق می ں دولہا کی ما د ایس ل ر حر صر م ر یﷺ
ت ظ پ ئ ین ھ
طرح ہ ی ں ای سی ج بنی ن ے بتال ج و اپ ی س ی اہ ی تمی ں اری کی کی م ط ئ ے ایس ے ج و چ اش دن ن ک م ب قہ
ہ ا کے کے سات ھ اہ ر ہ و ن
ے اک قہ
کے ٹسا ھ سن و جتمال م نع و اور ایس ح ے د کے سا ھ کہ اس کے سات ھ ج تس تسے ور و رو یش لی ایس
ے
س ا ں ق ن ل ے دو ہ ون وں نکے سا ھ ج و مث س ا ں۔ سن ح ا سے کے سا ھ ج و ی ز ت لوار بکی دھار کی ئ
ی ی ی ن ہ ن ت یش ی ی پ ش ہ ہرت ت نت
کے سا ھت و رو ق و ور می تں چ ا د ج وں ظکے سائ ھ ج و کھرےنہ وے موت ی وں کے م اب ہ ہ یتں۔ ا سی ی ا ی ن ن دا
کی مان
ھوں ثکے سا ھ ج ن ا ہ وں دو ےس ا ا۔ و ہ مور ع م ھ سا کے ان م ا و ج ھ ا س کے ے س ے س ا اور ین و ہ ر ا د
ت ق گی ی ی ت ق ی نی ن ہ
ے۔ یہ ر ا ں ت یم ادت ع س صول ح ا فن ی
مصط
ی ے ی
ل کے ئ شس ج ھ سا کے خ دم ے
س ا
فی ال، ک ھوٹ
یل
پ
ن ی ا سے جج ف ق پ
ؒ نکا ت
ے ج نس قکے یﷺ پر حسن کھا ا ہ بمولد ی رالع ب اد می ں ما ل ن ن ے ا من واال ضسعاد ق ئ نامام ع ر الکت ا ی ن
ور ،دو ٓاپﷺ کے چہرہ ا چ ش ے۔ جس می ں ا ہوں ےق سےف ل ن ا م کی ہ ق مک کی سم نکے ع وان
عادت ،مان ب ج
ں ،عطر ب ندن ،سراپ ا م ب ارک،ش سر ا دس ،ی ن س ئ م ع ل
ل ارک ،زت ی ں ہ ب ری ق امت زی خ ب ا ،ر گت م ب ب ن
ے م ب ارک، ن مو ارک، م ش
ہق ی ی ی ن ب ر ں، ش ر ہ ج ارک،
ئ نب م دان د دس، غ ا ن د ارک، م ب ارک ،ر سار م ب نارک ،ی ہ ب
م ی
ارک ،مہر ب وت، گردن م ب ارک سی ن ہ فم ب ارک،ن ف لی م بقارک ،ش لف م ب ارک ،زا وے م دس ،نکم ون سی ہ م ب ت ب ی ھ
فض
خ الت م ب ارکہ ،ظ ا ت و ناست ،دمی ضن ری ی ن ،م ب ارک ایڑھ ی اں کے ع وا ات کے حت بڑے
ے۔ ()۴۰ وبصصورت اور حمب ت ب ھرے ا داز می ں ح ورﷺ کے سراپ ا م ب ارک کو ب ی ان ک ی ا ہ
حا ل کالم
بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ والدت باسعادت کے ذکر کی کیا ضرورت
آپ کی تعلیمات و سیرت کو بیان حضور کی بعثت کے بعد ؐ ؐ ہے؟ والدت تو ہوچکی ہے اب
کیا جائے اور شریعت اسالم کی پابندی کی جائے یہی ایمان کا تقاضا ہے۔ اس سوچ اور
ذہنیت کا ازالہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
قرآن و سنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ
سے محبت ہی ایمان کی وہ بنیاد ہے کہ جس پر شریعت اسالم کی عمارت کھڑی ہے۔ قرآن
و سنت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہللا کے محبوب اور برگزیدہ بندوں کا تو فقط ذکر
کرنا بھی عبادت ہے کیونکہ یہ ہللا کی سنت ہے۔ ہللا تعالی نے قرآن مجید میں جابجا اپنے
صالح و مقرب بندوں کا ذکر کیا ہے۔ انبیاء علیہم السالم کا ذکر تو بطور خاص کیا ہے
کیونکہ یہ سب ہللا تعالی کے خاص بندے ہوتے ہیں۔ اسی لیے قرآن حکیم نے انبیاء علیہم
السالم کے ذکر کو ہللا تعالی کی سنت اور حکم کے طور پر بیان کیا ہے۔
حضور کی والدت باسعادت کے واقعات ؐ حضور پر نازل ہوا تو اس بنا پر ؐ قرآن حکیم
مصطفی بھی۔ ؐ اور اس کی جزئیات تک کو بیان کرنا سنت الہیہ بھی ہے اور خود سنت
زیر نظر مقالہ میں آئمہ و محدثین عرب سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ
حضورﷺ نے مدینہ منورہ اآمد کے بعد یہودیوں سے روزہ رکھنے کا سبب
دریافت فرمایا اور انہوں نے جواب دیا کہ اس دن بنی اسرائیل و حضرت موسی کے ساتھ
97
فرعون سے نجات ملی تھی۔ اسی لیے وہ اس دن کی یاد منانے کے لیے روزہ رکھتے ہیں
تو حضورﷺ نے فرمایا:
موسی کے حقدار ہیں۔‘‘
ؑ ’’ہم تم سے زیادہ
کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
اور نہ صرف خود روزہ رکھا بلکہ صحابہ ؓ
آج امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ وہ دو بڑے طبقوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طبقہ جشن
النبی کو سرے سے ناجائز ،حرام اور بدعت کہہ کر اس کا انکار کررہا ہے جبکہ ؐ میالد
میالدالنبی کے نام پر (اال ماشاء ہللا) ہر ناجائز اور فحش کام سرانجام دے رہا
ؐ دوسرا طبقہ
النبی کے
ؐ ہے۔ انہوں نے بہت سے ایسے ناجائز اور حرام امور کو داخل میالد کرکے میالد
پاکیزہ تصور کو نہ صرف بدنام کیا ہے بلکہ اس کے تقدس کو بھی پامال کردیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے ان انتہا پسندیوں کے
بین بین اعتدال پسندی کی روش اختیار کی جائے۔ ہم عصر حاضر میں میالد اور سیرت
کے منانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ کوئی صرف میالد کا داعی بن گیا
اور کوئی صرف سیرت کا نام لیوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ کو یہ بات
سمجھائی جائے کہ اگر میالد نہ ہوتا تو سیرت کہاں سے ہوتی اور اگر سیرت کا بیان نہ
ہوتا تو میالد کا مقصد کیسے پورا ہوتا۔ اس لیے بیان میالد اور بیان سیرت دونوں ہی ذکر
مصطفی ہیں۔ دونوں ہی ایک شمع کی کرنیں ہیں۔ اس لیے میالد کو نہ تو بدعت اور حرام ؐ
کہہ کر ناجائز سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اس کو جائز سمجھتے ہوئے اس میں خرافات کو
داخل کیا جانا چاہیے۔
حضور کی والدت کی خوشی کا ؐ اس لیے ہمارے اس مقالہ کا حاصل کالم یہ ہے کہ
نام میالد ہے اور اس میں محبت و تعظیم کے ساتھ باوضو ہوکر شریک ہوں تو نہ افضل
عبادت الہی ہے اور اس میں ہی پوری امت مسلمہ کی کامیابی کا راز ہے اور وقت کی اہم
مذہبی ضرورت بھی۔
98
باب چہارم :
ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی خصوصیات اور
منہج واستدالل کامجموعی وتحقیقی و تنقیدی اورسیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ
پہلی فصل :ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی
خصوصیات و منہج واستدالل
دوسری فصل :ضلع قصور میںسیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ
پہلی فصل :ضلع قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر لکھی گئی کتب کی
خصوصیات و منہج واستدالل
اس باب میں سیرت نگاروں کے کام کی خصوصیات ،ان کااسلوب ،ان کا طرز تحریر،
ان کی علمی کاوشوں اور
ان کے کام کی اہمیت کواجاگر کیاجائے گا۔
١۔ موالناغالم محی الدین قصوری رحمۃ ہللا نے ١۔''تحفہ رسولیہ صلی ہللا علیہ وسلم''
(فارسی)٢،۔
حلیہ مبارک حضرت نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم '' قلمی اور٣۔'' دیوان حضوری قصوری''
اشعار کی شکل میں مرتب کی ہے۔
افسوس کہ یہ کتب قلمی یامطبوع ہمیں تالش بسیار کے باوجود نہ مل سکیں ورنہ ہم ان
کتب کی خصوصیات اور منہج استدالل پر ضرور روشنی ڈالتے۔
٢۔ موالنااشرف سندھو رحمۃ ہللا کی کتب سیرت ١۔ ''شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' ٢،۔
سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔ ان کتب میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
99
i۔ شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم میں صرف مقام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم پر پنجابی
اشعار میں بحث کی گئی ہے۔
ii۔ اس کتاب کے کل صفحات ٨٠میں اور یہ سندھو کالں نزدبھائی پھیرو سے مطبوعہ
ہے۔
iii۔ سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم میںپنجابی اشعار میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم
کے مختلف
پہلوؤں پر بات کی گئی ہے۔
iv۔ اس کتاب کے کل صفحات ٩٠ہیں اور یہ سندھوکالں نزد بھائی پھیرو سے مطبوعہ
ہے۔
٣۔ موالنا عبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا کے ترجمہ''سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز
آبادی ،کی خصوصیات اس ترجمہ میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
i۔ یہ ترجمہ سلیس اردو میں کیاگیاہے۔
ii۔ مشکل مقامات پر مترجم نے کچھ حواشی بھی لکھے ہیں۔
iii۔ صرف ترجمہ کیاگیاہے تخریج یاشرح سے گریز کیاگیاہے۔
iv۔یہ ترجمہ ماہنامہ االعتصام ١٩٧٠ء میں قسط وار شائع ہوتارہالیکن یہ ترجمہ نامکمل ہی
تھا کہ مترجم وفات پاگئے ۔
موالنا عبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا کے ترجمہ''سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز آبادی''
کامنہج
استدالل:
مترجم نے مصنف کی فارسی عبارتوں کاترجمہ کیاہے اس لیے ان کااپنا کوئی منہج
استدالل نہیں ہے۔
iv۔ شیخ الحدیث محمداسحق حسینوی کی کتاب'' ترجمہ مختصر سیرت رسول صلی ہللا
علیہ وسلم کی
خصوصیات:
i۔ سلیس ترجمہ کیاگیاہے اصل کتاب عربی میںہے۔
ii۔ قرآن وحدیث کے دالئل سے مزین سیرت کی قیمتی کتاب ہے۔
٤۔ شیخ الحدیث محمداسحق حسینوی کی کتاب'' ترجمہ مختصر سیر ت رسول صلی ہللا
علیہ وسلم '' کا منہج استدالل
i۔ کتاب کے ہر باب میں اختصار کے پیش نظر سیرت کولکھاگیاہے پھر دالئل بھی لکھے
جاتے ہیں۔ یہ ابن القیم سے ملتاجلتا انداز ہے جو انھوں نے زادالمعاد میں اپنایا ہے۔
100
ii۔ استدالل میں محدثانہ طریقہ اختیار کیاگیاہے۔
٥۔ موالنا عبدالحمید ازہر رحمۃ ہللا نے ''ترجمہ و شرح شمائل ترمذی از حافظ زبیر علی
زئی رحمۃ ہللا '' کی نظر ثانی کی۔
یہ محض نظرثانی ہے اس میں خصوصیات اور منہج استدالل نظرثانی کرنے واال
کانہیں ہوتا بلکہ وہ تو مصنف کے لکھی ہوئی کتاب پر نظرثانی کرتاہے۔ اس لیے اس کتا
ب کی خصوصیات اورمنہج استدالل کانظرثانی کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔
٦۔ پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' خطبات ومقاالت سیرت'' کی خصوصیات اس
کتاب میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
i۔ اس کتاب میں شاکر صاحب کے مختلف اوقات میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم
کے متعلق لکھے گئے ٤٠مضامین کوجمع کیاگیاہے۔
ii۔ ہر موضوع قرآن وحدیث سے لبریز ہے،آیات قرآنیہ اور احادیث رسول صلی ہللا علیہ
وسلم پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔
iii۔ اگر کہیں لغوی بحث کی ضرورت ہے تو وہاں تفصیل سے اس لفظ کا لغوی معنی
سمجھایاگیا ہے۔
iv۔ ہر موضوع کے متعلق بہت سی معلومات پڑھنے کوملتی ہیں ۔ایسے لگتاہے کہ
مصنف کے سامنے ہزاروں سیرت کی کتب کھلی ہوئی ہیں وہ نادر موتی جمع کرتے
جارہے ہیں۔ یہ خصوصیت اس لیے پائی جاتی ہے کیونکہ مصنف کی اپنی الئبریری بیت
الحکمت میں پچیس مختلف زبانوں میں پانچ ہزار سے زائد کتب سیرت موجود ہیں۔
v۔ سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سیرت کے ان مقاالت میں زبان کی چاشنی
اورنبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات سے محبت کاانوکھا انداز اپنایاگیاہے۔
vi۔ سیرت کے بعض پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے نیز اس میں کئی ایک کتب سیرت
کاتعارف کروایاگیاہے۔
vii۔ مصنف نے کئی ایک کتب سیر ت کے مقدمات لکھے ہیں ،ان کو بھی اس کتاب میں
شامل کیاگیاہے۔
viii۔ اس کتاب کے کل صفحات ٣١٢ہیں نیز یہ کتاب مکتبہ کتاب سرائے الہور نے
٢٠١٣ء کو شائع کی۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' خطبات ومقاالت سیرت'' کامنہج استدالل
اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایا گیاہے:
i۔ ہر موضوع میں قرآن مجید سے سیرت کے متعلق آیات کریمہ کوجمع کیاگیاہے اور ان
سے سیرت کی اہمیت کااستدالل کیاگیاہے۔
101
ii۔ اس کتا ب میں کتب سیرت اور کتب تاریخ سے بہت کم استفادہ کیاگیاہے بلکہ سیرت
کے مختلف پہلوؤں پر مصنف نے قرآن وحدیث کے ساتھ اپنی فکر وجذبہ کوپیش کرنے کی
کوشش کی گئی ہے۔
iii۔ مصنف نے فلسفہ تاریخ سے بہت کام لیاہے اور استدالل میں سیرت اور فلسفہ
کامقابلہ پیش کیاہے۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' مرقع سیرت'' کی خصوصیات
یہ کتاب درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے:
i۔ یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے نیز اس کے کل صفحات ٣٩٨ہیں۔
ii۔ اس کتاب کی خصوصیات ابواب سے جانی جاسکتی ہیں۔ ابواب کی تفصیل درج ذیل
ہے۔
با ب اول :تحقیق و تنقید سیرت
باب دوم :تعارف،تجزیہ کتب سیرت
باب سوم :مقدمات ،فلیپ ودیباچے پر کتب سیرت
باب چہارم :تبصرہ جات کتب سیرت
باب پنجم :مقدمات ودیباچے پر کتب نعت و منظوم سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم
باب ششم :پنجابی کتب سیرت پر مقدمے اور دیباچے
باب ہفتم :انگلش کتب پر مقدمات اوردیباچے
iii۔ مصنف کے دور میں جس نے بھی سیرت پر کتاب لکھی ۔وہ شاکر صاحب سے
مقدمہ لکھوانا اپنااعزاز اور سندسمجھتا تھا۔ یہ تمام معلومات اس کتاب میں یکجا کر دیے
گئے ہیں۔
iv۔ جس زبان میں کتاب ہے ،اسی زبان میں مقدمات لکھے گئے ہیں۔
v۔ یہ کتاب مکتبہ کتاب سرائے الہور نے ٢٠١١ء کو شائع کی۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر کی کتاب'' مرقع سیرت'' کامنہج استدالل
اس کتاب کے مطالعہ سے درج ذیل منہج استدالل سامنے آتاہے:
i۔ جس نوعیت کی کتاب ہے اسی نوعیت کے دالئل وحوالہ جات سے استدالل کیاگیاہے۔
ii۔ اگر کتاب اخالق النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر تومقدمہ میںاخالق کی تعریف اور اہمیت
پر موادلکھ کر اس سے استدالل کیاگیاہے۔
iii۔ کئی ایک مقدمات میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی قدیم وجدید کتب کاتعارف
کروایاگیاہے۔اس سے مصنف نے سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی اہمیت پر استدالل
کیاہے۔
102
٧۔ موالناعبدالرحمن عزیزالہ آبادی رحمۃ ہللا نے اپنی کتاب ''امین کعبہ''کے نام سے
لکھی۔
٨۔ حافظ ثناہللا مدنی کی''الوصائل فی شرح الشمائل'' کی خصوصیات:
i۔ تحفۃ االحوذی کااختصار ہے دیگر کتب سے کئی ایک نادر فوائد کااضافہ کیاہے۔
ii۔ مشکل اور غریب الفاظ کے معانی ائمہ فن سے نقل کیے ہیں۔
iii۔ حدیث کے معنی کی حسب ضرورت تلخیص ائمہ کے اقوال کی روشنی میں۔
iv۔ اہم فقہی بحوث میں ام الکتب کی طرف مراجعت کااشارہ۔
v۔ بسااوقات حدیث سے مستخرج ومستنبط مسائل
vi۔ تنبیہ اورفوائد کے عنوان سے اپنی طرف سے اہم فوائد لکھے ہیں۔
vii۔ مختلف فیہ روایات میں جمع تطبیق کی کوشش کی ہے۔
viii۔ مختلف فیہ مذاہب میں تعلیق لکھی ہے اور راجح کی دالئل کے ساتھ نشان دہی کی
ہے۔
ix۔ سنداور متن کی تصحیح میں بہت زیادہ توجہ سے کام لیاگیاہے ۔اس میں سستی نہیں
کی جس طرح محدثین نے اس کابہت اہتمام کیا ہے ہم بھی انھیں کی طریق پر چلے ہیں۔
x۔ تحفۃ االحوذی کااختصار کرتے وقت علمی انداز اختیار کیاہے۔
xi۔ جس نے تحفۃ االحوذی پر اعتراضات کیے ہیں ان کامسکت جواب دیاہے۔
xii۔ حسب ضرورت کبار مفتیان کرام کے فتاوی بھی ایڈ کیے ہیں مثالً شیخ ابن باز ،شیخ
ابن عثیمین ،شیخ عبدہللا روڑی،شیخ البانی اور لجنہ دائمہ کمیٹی سعودی عرب۔
حافظ ثناہللا مدنی کی'' الوصائل فی شرح الشمائل'' کا منہج استدالل
اس کتاب کا منہج استدالل کچھ یوں ہے:
i۔ حدیث سے جوکچھ مستفید ہوتاہے اس کووضاحت سے لکھا گیاہے۔
ii۔ تمام احادیث کی تشریح سے محدثانہ استدالل کیاگیاہے۔
iii۔ اس کتا ب میں ضعیف اور غیر ثابت روایات ہیں ان سے استدالل نہیں کیاگیا۔
iv۔ استدالل کرتے وقت دیگردالئل وبراہین کو بھی نقل کیاگیااور استدالل میں ان کابھی
اعتبار کیاگیاہے۔
اسم محمد'' کی خصوصیات ٩۔ موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب'' تجلیات ِ
اس کتاب کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
i۔ یہ کتاب درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے۔اسم محمد کامعنی ،اسم محمد سے معجزات
اسم محمد صلی ہللا علیہ،اسماء صاحب اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم ،القابات وصفات ِ
وسلم ،حصہ نعت
103
ii۔ اس کتاب میں گردانوں سے بہت کام لیاگیا مثالً اذان میں ہللا کانام ہے تومحمد صلی ہللا
علیہ وسلم کانام بھی ہے۔تشہد میں ہللا کانام ہے توساتھ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کانام بھی
ہے۔زبور میں ہللا کانام ہے توساتھ محمد صلی ہللا علیہ وسلم کانام بھی ہے۔ اس طرح کی
بہت سی گردانیں موجودہیں ۔نصف سے زائد کتاب گردانوں پر مشتمل ہے۔۔
iii۔ یہ کتاب خطیبانہ انداز میں لکھی گئی ہے ،علمی و تحقیقی انداز نہیں پہنایا گیا۔
iv۔ اس کتاب میں قرآن وحدیث سے استدالل کیاگیاہے۔نیز اشعار سے بھی بہت فائدہ
اٹھایاگیاہے۔
v۔ اس کتاب کے کل صفحات ٢٠٧ہیں نیز یہ کتاب جامعہ عثمانی اڈہ تلونڈی ضلع قصور
نے ٢٠٠٩ء میں شائع کی۔
موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب'' تجلیات اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' میں منہج استدالل۔
اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے:
i۔ ہر موضوع کے شروع میں چندحوالے لکھنے کے بعد گردانیں شروع کر دی جاتی
ہیں گویامصنف کامقصد سیرت کو گردانوں میں پیش کرناہے۔یہ طریقہ استدالل بہت کم
مصنفوں نے اپنایاہے۔
ii۔ ادیبانہ انداز ،الفاظی کو بہت استعمال کیاگیاہے ۔بالفاظ دیگر ادب اردو سے استدالل
کیاگیاہے۔
iii۔ نعتیہ کالم سے بھی بھرپور استدالل کیاگیاہے۔
ت منیر فی رفعت سراج منیر'' کی خصوصیت موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب''خطبا ِ
اس کتاب کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
i۔ یہ کتاب تین جلدوںمیں مطبوع ہے۔پہلی جلد ، ٢٥٤:دوسری جلد ٢٥٦جبکہ تیسری جلد
٣٩٦صفحا ت پر مشتمل ہے۔
ii۔ پہلی دوجلدوں میں سیرت کے مختلف پہلوخطیبانہ انداز میں لکھے گئے ہیں جب کہ
مکمل سیرت النبی صلی ہللا کااحاطہ کیاگیاہے۔
iii۔ ہر موضوع قرآن کریم ،احادیث نبویہ کے ساتھ ساتھ اشعار اور گردانوں سے بھی کام
لیاگیاہے۔
iv۔ یہ کتاب ٢٠١٢ء میں جامعہ عثمانیہ اڈہ تلونڈی ضلع قصور نے شائع کی۔
ت منیر فی رفعت سراج منیر'' کامنہج استدالل موالنامنیر احمد معاویہ کی کتاب ''خطبا ِ
اس میں درج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے:
i۔ قرآن وحدیث سے استدالل کیاگیاہے۔
ii۔ سیرت کے مشہور واقعات سے استدالل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
104
١٠۔ ڈاکٹر عبدہللا قاضی کی کتاب'' امین کعبہ'' کی خصوصیات
اس کتاب کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
i۔ یہ کتاب نوابواب پر مشتمل ہے ۔پہال باب مقام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم اہل کتاب
کی نظر میں اور دوسراباب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم غیر مسلموں کی نظر میں''
مصنف نے تحریر کیے ہیں۔ یہ ابواب عام کتب سیرت میں نہیں پائے جاتے۔
ii۔ اس کتاب میں قرآن کریم،کتب احادیث ،کتب سیرت ،کتب تفسیر اور کتب تاریخ سے
مواد لیاگیاہے۔
iii۔ ہر باب باحوالہ کی گئی ہے تاکہ قاری اصل کی طرف مراجعت کر سکے۔
iv۔ ہر بات مکمل تحقیق سے کی گئی ہے ۔کمزور بات سے حتی الواسع اجتناب کیاگیاہے۔
v۔ زبان فصیح اردو اور عام فہم استعمال کی گئی ہے۔
vi۔ اس کتاب کے کل صفحات ٥٩٦ہیں نیز یہ کتاب شیخ عاصم مقصود اتحادگروپ
فیصل آباد نے ٢٠١٧ء میں شائع کی۔
ڈاکٹر عبدہللا قاضی کی کتاب'' امین کعبہ''کامنہج استدالل
اس کتاب میں در ج ذیل منہج استدالل اپنایاگیاہے:
i۔ کتاب کے شروع میں مفصل مقدمہ تحریر کیاگیاہے جس میں قرآن مجید سے سیرت
کے متعلق آیات کریمہ کو جمع کیاگیاہے اور ان سے سیرت کی اہمیت کااستدالل کیاگیاہے۔
ii۔ پہلے اور دوسرے باب میںجہں تورات اور انجیل سے مواد لیاگیاہے ۔وہاں کئی ایک
غیر مسلموں کی کتب سے استفادہ کیاگیاہے او ران کے اقوال باحوالہ لکھ کر نبی کریم
صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت کواجاگر کیاگیاہے۔
iii۔ باقی تمام ابواب میں سیرت کے ہرپہلو کوثابت کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآن
کریم سے استدالل کیاگیاہے۔ پھر احادیث مبارکہ سے اور پھر ان کی تائید وتفصیل میں کتب
سیرت اور کتب تاریخ وغیرہ سے مواد اکٹا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔باب کے آخر
میں اس باب کاخالصہ بھی پیش کردیاگیاہے۔۔
١١۔ پروفیسر محمدسعید کی کتاب'' رسول رحمت صلی ہللا علیہ وسلم'' کی خصوصیات
اس کتاب کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
i۔ یہ مختلف عناونین پر مشتمل ٥٠٤صفحات پر مشتمل ہے۔
ii۔ یہ سیرت کی واحد کتاب ہے جس کی فہرست نہیں بنائی گئی۔
iii۔ اس کتاب میں قرآن کریم سے بہت زیادہ استدالل کیاگیاہے نیز حسب ضرورت
احادیث بھی جمع کی گئی ہیں اور کتب سیرت سے بہت کم مواد لیاگیاہے۔
iv۔ مکمل سیرت کااحاطہ کیاگیاہے۔
105
v۔ یہ کتاب الجامعۃ السعیدیہ قصور نے شائع کی ۔اس کتاب پر سن اشاعت نہیں لکھاگیا۔
پروفیسر محمدسعید کی کتاب'' رسول رحمت صلی ہللا علیہ وسلم'' کامنہج استدالل
اس کتاب میں درج ذیل منہج استدالل اپنایا گیاہے:
i۔ ہر موضوع کے تحت قرآنی آیات لکھ کر مصنف نے اپنے الفاظ میں استدالل کیاہے۔۔
ii۔ اگر اس موضوع کے متعلق کوئی حدیث یاواقعہ ہے تو اس کوتحریر کرکے اپنے
مدعا کو ثابت کرنے کا استدالل کیاہے۔
iii۔ سیرت کے جن پہلوؤں کو امت مسلمہ چھوڑ چکی ہے اس کی اہمیت کواجاگر کرنے
کااستدالل کیاہے۔
١٢۔ موالناطیب ہمدانی رحمۃ ہللا نے''سیرت کے انمول موتی''
نوٹ:یہ کتاب بہت کوشش کے باوجود قلمی یامطبوعہ نہیں مل سکی ورنہ اس کی
خصوصیات اور منہج استدالل پر بحث کرتے
دوسری فصل
ضلع قصور کے سیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ
اس فصل میں ضلع قصور کے سیرت نگاروں کے کام کاتقابلی جائزہ پیش کیاجائے گا۔
یہ دیکھاجائے گا کہ کس سیرت نگار نے سیرت کے کس کس پہلو کواجاگر کیاہے اور
انھوں نے کیانمایاں خدمات انجام دیں ۔ان میں سے بہترین سیرت نگاروں کاانتخاب بھی اس
باب کامطمع نظر رہے گا۔
نیز یہ بھی دیکھاجائے گا کہ ان کتب کاپاکستان یابرصغیر میں کوئی مقام بھی ہے یابس؟
اختصار کے ساتھ تمام کتب کا تقابلی جائزہ پیش خدمت ہے:
١۔ موالنا غالم محی الدین قصوری رحمۃ ہللا نے ١۔''تحفہ رسولیہ صلی ہللا علیہ وسلم''
(فارسی)٢۔''حلیہ مبارک حضرت نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم''قلمی اور٣۔'دیوان حضوری
قصوری'' اشعار کی شکل میں مرتب کی ہیں۔
یہ کتب بلھے شاہ الئبریری قصور میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کی الماری میں
موجودہیں۔
نوٹ :کاش یہ کتب مل جاتیں ہم ان کاتقابلی جائزہ لیتے۔
٢۔ موالنااشرف سندھو رحمۃ ہللا کی کتب سیرت ١۔''شان محمد صلی ہللا علیہ وسلم'' ٢۔
''سیرۃ النبی صلی ہللا علیہ وسلم'' ہیں۔
106
٣۔ موالناعبدالرحیم حسینوی رحمۃ ہللا نے'' سفر السعادۃ از مجدد الدین فیروز آبادی''
کاترجمہ کیا۔
تقابلی جائزہ :یہ فارسی کتاب کا ترجمہ ہے۔
٤۔ شیخ الحدیث محمد اسحاق حسینوی رحمۃ ہللا نے''مختصر سیرت الرسول از محمد بن
عبدالوہاب رحمۃ ہللا'' کا ترجمہ کیا۔
تقابلی جائزہ :یہ عربی کتاب کاترجمہ ہے۔
٥۔ موالناعبدالحمید ازہر رحمۃ ہللا نے ''ترجمہ وشرح شمائل ترمذی از حافظ زبیر علی
زئی رحمۃ ہللا'' کی نظر ثانی کی۔
تقابلی جائزہ :یہ نظرثانی ہے۔
٦۔ پروفیسر عبدالجبارشاکر رحمۃ ہللا نے درج ذیل کتب لکھیں۔١۔ ''خطبات ومقاالت
سیرت'' ٢۔'' مرقع سیر
تقابلی جائزہ :یہ موصوف کے مختلف مقاالت وکتب کے مقدمات پر مشتمل ہے۔
٧۔ موالناعبدالرحمن عزیر الہ آبادی رحمۃ ہللا نے ''سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم ماہ
وسال کے آئینے میں''لکھی۔
تقابلی جائزہ :سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کو تاریخی اعتبار سے مرتب کیاگیاہے۔
٨۔ حافظ ثناء ہللا المدنی حفظہ ہللا نے''شرح الشمائل للترمذی'' لکھی۔
٩۔ موالنامنیراحمد معاویہ حفظہ ہللا نے درج ذیل کتب لکھیں۔١۔ ''خطبات منیر فی رفعت
سراج
منیر''(تین جلدمیں)٢،۔'' تجلیات اسم محمد صلی ہللا علیہ وسلم''۔
تقابلی جائزہ:ان کتب میں خطیبانہ انداز میں سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے مختلف
موضوعات پر بحث کی گی ہے۔
١٠۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدہللا قاضی حفظہ ہللا نے''امین کعبہ'' لکھی۔
تقابلی جائزہ :یہ علمی اور تحقیقی کتاب ہے جو سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ہر ہر
پہلو کااحاطہ کرتی ہے۔
١١۔ پروفیسر چوہدری محمد سعید ؒ نے ''رسول رحمت'' لکھی۔
تقابلی جائزہ :یہ کتاب سیرت النبی صلی ہللا علیہ وسلم پر عام فہم پبلک کے لیے لکھی گئی
ہے۔
١٢۔ موالناطیب ہمدانی ؒ نے''سیرت کے انمول موتی'' تالیف کی۔
تبصرہ کتب
کتاب کا نام:رسو ِل رحمت
107
مصنف کا نام:چوہدری محمد سعید
ناشر:الجامعہ السعیدیہ قصور
یہ سیرت النبی ؐ پر لکھی گئی نہایت خوبصورت اور آسان زبان میںکتاب ہے۔جس میں
رسول کی والدت سے پہلے زمانہ جاہلیت کابڑے خوبصورت انداز میں نقشہ کھنچا گیا ہے۔ ؐ
کتاب کا آغازقرآن مجید کی آیت مبارکہ
وما آرسلناک االرحمت للعالمین ہ ترجمہ:اور ہم نے آپ کو تما م جہانوںکےلئے رحمت بنا
کر بھیجا ہے۔
سے کیا گیا ہے۔اِسی مناسبت سے کتاب کانا م رسو ِل رحمت رکھا گیا ہے۔اِس کتاب میں
حالت،آپکے آباؤاجداد،حضرت آدم ؑ سے
ؐ زمانہ جاہلیت کی جغرافیائی شکل،عربوںکی&
مطہرات،آپکی& اوالداور ؐآپکی والدت کو بڑی خوبصورتی
ؐ نسب،ازواج
ِ آنحضرت کا شجرہ
ؐ
سے بیان کیا گیاہے۔
صفہ نمبر٣٠پروالدت باسعادت کے بعد پیش آنیوالے واقعات ،حلف الفضول میں
کعبہ،آغازنبوت ،اعالن ِنبوت ،قر آنی آیات میں تبلیغ کےلئے تاکید۔اس سے
ِ شرکت،تعمیر
ِ
ثابت ہوتا ہے کہ مصنف نے یہ کتاب قرآن وحدیث کے حوالے سے لکھی ہے۔
ت مدینہ کی وجوہات اور کفار کے مظالم کو نظموںاور اشعار کی شکل میںبیان کیا گیا ہجر ِ
ہے تاکہ پڑھنے واال اپناذوق وشوق برقرار رکھ سکے اور پوری توجہ اور انہماک سے
پڑھنے میں مشغول رہے۔
صحابہ کی تعداد بھی بڑھ گئی ،مہاجر تو ظلم و ستم کے ستائےؓ ہجرت مدینہ کے بعد
ہوئے تھے۔ ہللا نے حضور ؐ کو جہاد کی اجازت مرحمت فرمائی اور ہللا نے فرشتوں کے
رسول
ؐ ذریعے مسلمانوں کے مدد بھی فرمائی ۔جہاد کے واقعات کو قرآنی آیات اور احادیث
سے سجایا گیا ہے۔ اور غزوات کے موقع پر صحابہ کرام ؓ کے جذبہ ایثار کو بڑے احسن
انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ واقعات کی ترتیب ایسے بیان کی گئی ہے جیسے اےک کڑی
کے بعد دوسر ی کڑی ہو یعنی واقعات کا مسلسل ربط اور تعلق ہے کہیں بھی کوئی وقفہ
نہیں محسوس ہوتا۔
محمدنے مختلف بادشاہوں کو لکھے گئے خطوط اور دعوت ؐ کتاب کے صفحہ نمبر164پر
اسالم قبول کرنے اور خط لکھنے کا طریقہ کار بڑے احسن انداز میں بیان کیا ہے اور
خطبہ حجتہ الوداع میں معامالت کو بڑے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے اور آخر میں
جب یہ آیت نازل ہوئی۔
"ترجمہ آج ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی
اور تمہارے لیے مذہب اسالم کا انتخاب کیا"۔
108
مصنف نے حجتہ الوداع کے تمام مسائل کو با احسن طریق ترتیب وار بیان کیا ہے۔ اس کے
آپ کے وصال مبارک کو احادیث کی روشنی میں مدلل انداز میں بیان کیا بعد مصنف نے ؐ
ہے۔
آپ تمام جہانوں کےلئے رحمت ہیں چاہے وہ انسان ہوں یا "رسول رحمت" کتاب چونکہ ؐ
آپ کی رحمت چھائی ہوئی ہے اور مصنف نے مختلف معجزات حیوانات یا نباتات سب پر ؐ
آپ کو رسول رحمت ثابت کیا ہے۔ سے ؐ
اس کے بعد مصنّف نے رسول رحمت ؐ کو قرآن و حدیث سے بھی واضع کیا ہے کہ ؐ
آپ کیا
آپ کوہیں جیسے آپ ؐ کو معراج پر بالنا ،پانچ نمازوں کا تحفہ دینا اور سارے انبیاء کا ؐ
المنتہی تک اٹھایا جانا۔ ان سب اوصاف کو ترتیب وار کتاب کا
ٰ مرحبا کہنا اور آپ ؐ کو سدرۃ
حصہ بتایا گیا ہے۔
معراج کے واقعات کو اشعار کی شکل میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قاری کی دلچسپی برقرار
رہے۔
کتاب کے آخر میں معموالت مقدسہ کو بیان کیا گیا ہے جن میں نمازوں کی ترتیب ،تبلیغ
دین ،دعاؤں کا معمول ،آداب مالقات اور گھریلو معامالت کو بڑی خوبصورتی سے بیان
کیا گیا ہے ۔ امانت و دیانت رحم و ترحم ،تواضع ،ایثار و تحمل ،نرمی و شفقت ،قناعت اور
توکل ،شجاعت و بہادری ،ایفائے عہد ،صبر و استقامت ،پاکدامنی ،شرم و حیا ،عفو و
کرم،
الغرض یہ کتاب ایسی کتاب ہے جس کو پڑھ کر آدمی کو معرفت ذات سے معرفت ٰالہی
حاصل ہوتی ہے ،کسی کا قول ہے
''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''
اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
سراغ زندگی
ِ اپنے من میں ڈوب کر پایا
تواگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
جب انسان اپنی پہچان نہیں کرتا تو وہ خدا کو بھی نہیں پہچانتا اور پھر در در کے دھکے
اور جگہ جگہ کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
کتاب نمبر٢
محمد
ؐ نام کتاب :تجلیات اسم
109
تالیف :موالنا منیر احمد معاویہ
ناشر :ادارہ تالیفات ختم نبوت
اس کتاب "تجلیات اسم محمد ؐ" کے بارے میں مصنف یوں رقم طراز ہے۔ یہ کتاب ستمبر
رسول کے سامنے ریاض ؐ 2005کو مدینہ منورہ میں شروع کی گئی جس کا آغاز روضہ
الجنہ میں کیا گیا۔ یہ کتاب بروز سوموار بتاریخ 24نمبر2008کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس
آپ کے القابات، کتاب میں سید الرسل ،خاتم النبین حضرت محمد ؐ کے اسماء صفاتی اور ؐ
آپ کے بے شمار فضائل کو مصنف نے بے حد خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس کتاب ؐ
کے چار حصے ہیں۔
محمد کی تاریخی حیثیت یعنی کہ اسم محمد ؐ کہاں کہاں استعمال ہو ا۔ ؐ 1-اسم
محمد کے اسماء صفاتی ؐ 2-حضور نبی اکرم
اکرم کے القاب و صفات 3-حضور نبی ؐ
4-چند منتخب شدہ نعتیں
آپ
محمد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں مصنف یوں بیان کرتا ہے کہ ؐ ؐ باب اول یعنی اسم
احمد باقی سب نام صفاتی ہیں۔ صفاتی ناموں کی ؐ محمد اور
ؐ کے دو نام ذاتی ہیں یعنی
کرام کے اقوال کو مثالوں سے واضع تعریفات اور تسبیحات ائمہ کرام ،محدثین اور صحابہ ؓ
حضور کی والدہ کا خواب اور دادا عبدالمطلب& کا خواب حسین و جمیل ؐ فرمایا ہے جیسے
انداز میں بیان کیا ہے اور اس زمانے کے علماء و فضالء اور صلحاء اور خوابوں کی
محمد کی عظمت و شہرت کے جھنڈے چاردانگ عالم ؐ تعبیر کے ماہرین نے کہا اس نبی
میں لہرائیں گے۔ آسمان کی بلندیوں اور زمین کی وسعتوں میں اس کی تعریفیں ہونگی۔ جو
اس کی مخالفت کرے گا وہ نیست و نابود ہو جائے گا۔
محمد کی عظمت کو اس اندا میں بیان کیا ہے کہ ہللا نے قرآن میں ارشا ؐ مصنف نے اسم
فرمایا ہے
''ورفعنا لک ذکر ک''
(ترجمہ:ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے)
تعالی
ٰ اکرم کی رفعت اور بلندی اور مقام و مرتبہ مزید اونچا کرنے کیلئے ہللا حضور نبی ؐ
تعالی نے ارشادٰ محمد نازل کی ہے سورۃ الفتح میں ہللا
ؐ نے ایک پوری سورہ مبارکہ سورۃ
فرمایا
سورۃ آل عمران میں ارشاد فرمایا
چوتھی جگہ سورۃ اال حزاب میں فرمایا ۔
110
اس کتاب میں مصنف نے گردانوں اور تشبیہات کا استعمال بہت زیادہ کیا ہے اگر ہللا کا نام
محمد کا نام بھی ،اذان میں ،
ؐ محمد کا نام بھی ہے ،کلمہ شہادت میں ہللا کا نام ہے تو ؐ ہے تو
محمد کے بارے میں ؐ درود میں ،عالم ارواح میں بھی ہے۔ مختلف علماء کرام کے اقوال اسم
نقل کیے گئے ہیں۔
محمد کو ثابت کیا ہے۔
ؐ مصنف نے مختلف چیزوں میں اسم
محمد کے ناموں کا خوبصورت انداز ؐ اس کے بعد مصنف نے حروف تہجی کے لحاظ سے
اپنایا ہے جسے دےکھ اور پڑھ کر قاری دنگ رہ جاتا ہے۔ اور بے ساختہ دل سے صدق و
یقین کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔
کسی شاعر نے یوں بیان کیا ہے
''بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر''
اس کے ساتھ ہی مصنف نے محمد ؐ کے القابات و صفات کو بھی حروف تہجی کے اعتبار
سے اےک کڑی میں پرو دیا ہے یعنی کہ نام اور صفات کو اےک لڑی میں رکھ دیا ہے
جس سے پڑھنے والے کا دل مچل جاتا ہے۔ اور روح تڑپ جاتی ہے۔
محمد کی تعریف نعت و ؐ مصنف نے کتاب کے آخری حصے مےں نعتیہ انداز اپنایا ہے۔ اسم
حضور ساقی کوثر ،محترم بعد از خدا تم ہو ،صح ِن حرم میں ،انوار مدینہ ،مختصر ؐ منقبت،
قصیدہ بہاریہ ،کون ثانی ہو شاہا تیرا؟ ،آفتاب آئے مہتاب آئے ،دل جس سے زندہ ہے و ہ
تمنا تم ہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تو تم ہی تو ہو،تجھ سا کوئی نہیں اے
رسول امین خاتم المرسلین
کتاب نمبر٣
نام کتاب :خطاب منیر فی رفعت سراج منیر(جلد ا ّول،دوم)
ترتیب و تحقیق :موالنا منیر احمد معاویہ
تلمیذ حضرت موالنا محمد امین ٖسدر اوکاڑی ؒ
اشاعت اول :دسمبر2012
ناشر :جامعہ عثمانیہ اڈا تلونڈی تحصیل چونیاں ضلع قصور
النبی پر لکھی گئی اےک انوکھی اور آسان زبان ؐ خطبات منیر فی رفعت سراج منیر سیرت
میں لکھی گئی کتاب ہے ۔
مصطفی اور آپ
ؐ بندہ ناچیز نے کتاب کا مطالعہ کیا بے حد مسرت ہوئی کی سیرت محمد
کے حسن و جمال پر بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ تحریر کی گئی ہے ۔ یہ کتاب چند
مسنتند حوالوں سے ترتیب دی گئی۔
111
اور پھر یہ اےسے خطبات ہیں جن کو بہت ہی مقبول اشعار سے مزین کیا گیا ہے۔ جس کو
پڑھنے اور سننے سے سامعین جھومنے لگتے ہیں۔ آج کے پر فتن دور میں جہاں اسالم
کے اصولوں پر حملے ہو رہے ہیں ،موسیقی ،بے حیائی ،قتل و غارت ،مغربی
جمہوریت ،شرک بدعت ،ظلم و ستم اور مہنگائی نے زہرےلے جراثیم پھیال رکھے ہیں۔
ایسے موالنا منیر احمد معاویہ کی کتاب اس بے دینی سےالب کے آگے بند باندھے گے۔
موالنا منیر احمد معاویہ اپنی پاکیزہ تحریر کی طرح پرکشش شخصیت ہیں۔ چہرے پر
مسکراہٹ،لباس میں نفاست ،اخالق میں شرافت ہاتھوں میں سخاوت ،ہللا اےسے لوگوں کو
ہمیشہ دین کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر ذوق شوق نیز دلجمعی کے ساتھ یہ کتاب کو پڑھا جائے تو ہر تحریر پر لطف آتا ہے
کسی جگہ مولف کے د لچسپ مطالعہ کی داد دینی پڑتی ہے۔
اکرم کی مدحت منقبت کے حوالے سے موالنا موصوف نے اپنی اس کتاب میں جناب نبی ؐ
اپنے مختلف خطبات میں عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے جو ان کے حسن ذوق کی عالمت
ہیں۔ یہ خطاب تین جلدوں میں کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ جو کم و بیش نو سو
تعالی موالنا موصوف کی اس عقیدت و محبت ٰ صفحات پر مشتمل ہیں ہم دعا گو ہیں کہ ہللا
کو قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے نفع بخش بنائیں۔
تعالی ہے
ٰ تعالی نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے جیسے ارشاد باری ٰ ہللا
ترجمہ(:اور ہم نے یہ ذکر(قرآن )نازل کیا ہےاور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)
عالم اسباب میں اس کی حفاظت و انتظام یوں فرمایا کہ ہر دور میں اپنے خاص بندوں کو
چن لیا ہے جو ہر دور میں دین کا بول باال کرتے رہیں گے اور اس کی اشاعت کا فریضہ
سر انجام دیتے رہیں گے انہیں نیک و مقبول ہستیوں میں موالنا منیر احمد معاویہ بھی ہیں
جنہوں نے یہ کتاب بہت ہی موثر اور عمدہ انداز سے مرتب کی ہے
حضور کی محبت آپ ؐکی سیرت پڑھنے سے دل میں آتی ہے آج کل مسلمانوں میں اس ؐ
ت
محبت کی کمی کی وجہ شریعت سے دوری ہے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے'' خطبا ِ
حضور کے مبشرات، ؐ سراج منیر''ایک انمول نسخہ کیمیا ہے۔ اس میںِ ت
منیر فی رفع ِ
آپ کی زندگی کے ان واقعات کا انتخاب فرمایا ہے جن کے پڑھنے اور والدت پاک اور ؐ
بیان کرنے سے آنحضرت ؐ کی عظمت اور افضل االنبیاء اور بعد از خدا بزرگ توئی قصہ
مختصر کا نقش انشاء ہللا دل پر جم جائے گا آخر میں معجزات جو وکیل نبوت ہیں ان کا
بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ مطالعہ کرنے والوں کے پاس صرف اپنا اطمینان قلبی نہیں بلکہ
منکرین شان رسالت کے مقابلہ کےلئے ہتھیار بھی ہوں ۔یہ کتاب صرف خطباء کےلئے ہی
112
تعالی مولف کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائے ٰ نہیں بلکہ عوام الناس کیلئے بھی مفید ہے ہللا
اور مسلمانوں میں حب نبوی اور اطاعت نبوی کا ذریعہ بنائے۔
موالنا موصوف کی تصنیف اس اعتبار سے اس کا انداز مروجہ واعظانہ نہیں بلکہ عالمانہ
ہے۔ اس کتاب کی خصوصیت جو بندہ نے محسوس کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کتاب علماء
دیوبند کے بارے میں کیے جانے والے پراپیگنڈہ& کا بہترین دفاع ہے کہ علماء دیوبند بہترین
عاشقان رسول نہیں ہیں۔
کتاب سالست وترتیب اوربیان کے اعتبار سے بے نظیرہے اور اپنی افادیت کے اعتبار
سے بھی بے مثل ہے۔اور دور جدید کے تقاضوں کیمطابق ہے۔مصنف نے ایک نیا انداز
خطابت اور بیان کاسلیقہ دیا ہے جو دلکش بھی ہے اور دل رُبا بھی ہے اور عوام وخواص
کےلئے مفید بھی خصوصا َ خطباء حضرات کےلئے۔
اپنے موضوع کی تزین و آرائش کےلئے آیات قرآنی اور احادیث نبویہ ؐ اکابرین امت اور
تاریخی حوالہ جات کا ذکر کیا گیا ہے اس لحاظ سے اس خاصا مواد بھی جمع ہے جو
المصطفی الرحیق المختوم
ٰ مشہور سیرت کی کتابوں سے لیا گیا ہے مثالَ سیرت حلبیہ،سیرت
وغیرہ وغیرہ سے لیا گیا ہے۔
کتاب کے کل دس عنوانات ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:۔
سراج منیر
ِ ١۔تذکرے
سراج منیر
ِ ٢۔چرچے
سراج منیر ِ ٣۔آمد
سراج منیر ِ ٤۔جمال
سراج منیر ِ ٥۔اسم
سراج منیر ِ ٦مقام
سراج منیر ِ ت
٧۔عظم ِ
سراج منیر ِ ت
٨۔رفع ِ
سراج منیر ِ ت
٩۔رحم ِ
سراج منیر
ِ ت
١٠۔معجزا ِ
اعلی و ارفع پیدا فرمایا ہے۔
ٰ تعالی نے کائنات میں ہر لحاظ سے ٰ حضور نبی کریم ؐ کو ہللا
مصنف نے آپ ؐ سے نسبت کوقائم و دائم رکھنے کےلئے شان اقدس کو خطابت اشعار اور
قصیدوں کی شکل میں بیان کیا ہے اور اپنی ایمانی تازگی کا سامان مہیا کیا ہے۔کسی شاعر
نے کیا خوب کہا ہے۔
113