You are on page 1of 9

‫خیابان کو دوسری زبانوں میں مشینی ترجمہ کر کے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔‬

‫▼ ​ ‪Select Language‬‬
‫‪ ‬‬

‫احمد ندیم قاسمی کے منتخب افسانوں میں سماجی مسائل‬


‫رضوانہ ارم‬

‫‪ABSTRACT‬‬
‫‪Ahmad Nadim Qasmi is an Urdu creative writer, Poet, Critic, and Journalist he‬‬
‫‪sketched in his Fictions the lower class social and economic problems. Fiction‬‬
‫‪reflects the social, cultural, and economic life of any society. In this article‬‬
‫‪Nadim Ahmad Qasmi's selected fictions characters were analysed that how the‬‬
‫‪upper and business class grabbed the sources of lower and labour class. The‬‬
‫‪lower class as victims cannot complaint and condemns their social, economic‬‬
‫‪. and moral problems as citizens‬‬

‫‪           ‬اس آرٹیکل میں احمد ندیم قاسمی کے منتخب افسانوں ’’سونے کا ہار‪ ،‬الحمد للہ‪ ،‬رئیس خانہ‪ ،‬فیشن‪،‬‬
‫تبر ‪ ،‬ماسی گل بانو کے سماجی‪ ،‬معاشی اور معاشرتی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔لیکن اس سے پہلے احمد ندیم‬
‫قاسمی کے حوالے سے کچھ معلومات فراہم کرنا ضروری ہے۔‬

‫’’احمد ندیم قاسمی کا اصلی نام (احمد شاہ ) وہ ‪1916‬سے ‪2006‬تک زندہ رہے۔ احمد ندیم قاسمی ایک ہمہ‬
‫جہت شخصیت کے حامل فنکار تھے ۔ وہ بیک وقت ایک بلند پایہ شاعر‪ ،‬منفرد افسانہ نگار‪،‬نقاد اور ممتاز‬
‫صحافی تھے۔ وہ ‪ 20‬نومبر ‪ 1916‬میں بمقام انگہ تحصیل خوشاب ضلع شاہ پور میں پیدا ہوئے۔ احمد ندیم‬
‫قاسمی نے ابتدائی تعلیم پرائمری سکول انگہ سے پاس کیا ۔ کیمبل پور کے گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل سکول‬
‫میں ‪ 1925‬میں داخلہ لیا اوروہاں سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج کیمبل‬
‫پور میں ‪ 1929‬میں داخلہ لیا (اس وقت نویں اور دسویں کے امتحانات کالج سے منسلک تھیں) میٹرک‬
‫امتحان سے پہلے شیخوپورہ منتقل ہوئے اور وہاں سے ‪1931‬میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ صادق ایجرٹن‬
‫کالج بہاول پور سے ‪ 1935‬میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ ان کی اولین تخلیق ایک رشتہ دار غالم جیالنی‬
‫کی والدہ اور ہمشیرہ کی وفات کا مرثیہ ہے۔ جو انہوں نے اپریل ‪1930‬میں لکھا۔‘‘ (‪)۱‬‬
‫احمد ندیم قاسمی کی اولین مطبوعہ تحریر موالنا محمد علی جوہر کا مرثیہ ’’سیاست ‘‘ الہور سے جنوری‬
‫‪1931‬میں شائع ہوا۔ اس کے عالوہ ان کا اولین مطبوعہ افسانہ بدنصیب بت تراش ہے۔ جو انہوں نے ’’رومان ‘‬
‫‘ الہور سے فروری ‪1936‬میں شائع کیا۔ ان کے مطبوعہ افسانوں کے مجموعے درج ذیل ہیں۔‬
‫‪۱‬۔‪        ‬مجموعہ چوپال جس میں ‪ 14‬افسانے ہیں یہ دارااشاعت پنجاب الہور سے ‪ 1939‬میں شائع ہوا ہے۔ ان‬
‫کے اس مجموعے میں ’’بے گناہ‪ ،‬دیہاتی ڈاکٹر‪ ،‬بوڑھا سپاہی‪ ،‬ننھامانجھی‪ ،‬ہرجائی‪ ،‬مسافر‪ ،‬غیرتمند بیٹھا‪ ،‬حق‬
‫بجانب‪ ،‬آرام‪ ،‬وہ جا چکی تھی۔ انتقام‪ ،‬غرور نفس‪ ،‬یہ دیا کون جالئے‪ ،‬بیچارہ‘‘ شامل ہیں۔‬
‫‪۲‬۔‪        ‬مجموعہ بگولے‪  :‬میں بیس افسانے شامل ہیں۔جو مکتبہ اردو ‪،‬الہور سے ‪ 1941‬میں شائع ہوا۔اس‬
‫مجموعے میں’’طالئی مہر‪،‬توبہ میری‪،‬بھوت‪ ،‬ننھے نے ‪  ‬سلیٹ خریدی‪ ،‬بچپنہ‪،‬ماں‪ ،‬کریاکرم‪ ،‬بچے‪ ،‬میرا‬
‫رانجھا‪،‬چوری ‪ ،‬کھیل‪ ،‬پاؤں کا کانٹا‪ ،‬ان بن‪ ،‬قلی اور‪  ‬السالم علیکم‘‘ شامل ہیں۔‬
‫‪۳‬۔‪       ‬مجموعہ طلوع وغروب ‪ :‬میں آٹھ افسانے ہیں جو ‪ 1941‬میں مکتبہ اردو الہور سے شائع ہوا۔اس میں‬
‫طلوع وغروب ‪ ،‬کنگلے‪ ،‬گونج‪ ،‬جلسہ‪ ،‬میرا دیس ‪،‬جوانی کا جنازہ‪ ،‬پکا مکان ‪ ،‬چھاگل شامل ہیں۔‬
‫‪۴‬۔‪       ‬مجموعہ گرداب‪  :‬میں پندرہ افسانے ہیں اور یہ ادارہ اشاعت اردو دکن ‪،‬حیدر آباد دکن سے ‪ 1943‬‬
‫میں شائع ہوا۔اس میں شامل افسانے مسجد کے مینار‪،‬کھوٹے سکے‪ ،‬نرل دل‪ ،‬استعفی‪ ،‬ادھورا گیت‪ ،‬بٹوے کی‬
‫باچھیں‪ ،‬روشندانوں کے شیشے‪ ،‬پگلی‪ ،‬غریب کا تحفہ‪ ،‬افیونی‪ ،‬ایک رات چوپال پر ‪ ،‬رنگ وسنگ‪ ،‬فساد‪ ،‬انسان‬
‫اور حیوان‪ ،‬ہسپتال سے نکل کر‪ ،‬موجود ہیں۔‬
‫‪۵‬۔‪       ‬مجموعہ سیالب‪  :‬میں بارہ افسانے ہیں جو ادارہ اشاعت اردو دکن‪ ،‬حیدر آباد دکن‪ ،‬دسمبر ‪1943‬میں‬
‫شائع ہوا۔نیم وا دریچے‪،‬بڈھا کھوسٹ‪ ،‬شادی‪ ،‬جوانی کی سڑاند‪ ،‬پلکوں کے سائے‪ ،‬الجھن ‪،‬کانی آنکھ‪ ،‬من کی‬
‫ڈالی‪ ،‬آزاد منش غالم‪ ،‬معطر لفافہ‪ ،‬سونے کی دھار‪ ،‬نئی سارنگی‪ ،‬ایک ڈرامائی مکالمہ بہ عنوان‪ :‬من کی‬
‫کرچیاں‪ ،‬اور ایک ڈراما’مستقبل کے سوداگر بھی شامل ہے۔‬
‫‪۶‬۔‪        ‬مجموعہ سیالب وگرداب ‪  :‬یہ مجموعہ ‪ 1961‬میں‪  ‬مکتبہ کارواں‪ ،‬الہورسے شائع ہوا ہے۔یہ کتاب‬
‫سیالب اور گرداب کے مندرجہ ذیل گیارہ منتخب افسانوں پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میں الجھن‪ ،‬بڈھا(بڈھا‬
‫کھوسٹ)‪ ،‬کانی آنکھ‪ ،‬من کی ڈالی‪ ،‬نیم وا دریچے‪ ،‬ایک رات چوپال پر‪ ،‬ادھورا گیت‪ ،‬حیوان اور انسان‪ ،‬سونے‬
‫کا ہار‪ ،‬غریب کا تحفہ‪ ،‬استعفٰی شامل ہیں۔‬
‫‪۷‬۔‪       ‬مجموعہ آنچل‪  :‬میں گیارہ افسانے ادارہ فروغ اردو‪،‬الہور بہ اشتراک نیشنل لٹریچر کمپنی الہور‪1944 ،‬‬
‫اس میں شامل افسانوں میں محدب شیشے میں سے ’’جان ایمان کی خیر‪ ،‬نشیب وفراز‪ ،‬خربوزے‪ ،‬نامرد‪،‬‬
‫سائے‪ ،‬حدفاصل‪ ،‬انصاف‪ ،‬مہنگائی االؤنس‪ ،‬سانوال اور شعلہ نم خوردہ ہیں ۔‬

‫‪۸‬۔‪       ‬مجموعہ آبلے‪  :‬میں تین افسانے شامل ہیں جو ادارہ فروغ اردو الہور سے ‪ 1946‬میں شائع ہوئے آبلے‬
‫میں شامل افسانے ’’کفارہ‪ ،‬ہیروشیما سے پہلے‪ ،‬ہیروشیما کے بعد‪ ،‬عبدالمتین ایم اے‘‘‪  ‬اور بعد میں اس کے‬
‫دوسرے ایڈیشن ‪ 1949‬میں آنچل کا ایک افسانہ محدب شیشے میں سے‪ ،‬شامل کیا گیا ہے۔‬
‫‪۹‬۔‪        ‬مجموعہ‪  ‬آس پاس‪   :‬میں شامل آٹھ افسانے مکتبہ فسانہ خواں الہور سے پہلی بار ‪ 1948‬میں شائع‬
‫ہوئے ان افسانوں میں ’’اکیلی۔ بھری دنیا میں‪ ،‬افق‪ ،‬کرن‪ ،‬موت‪ ،‬تکمیل‪ ،‬ارتقائاور‪  ‬چڑیل ‘‘ شامل ہیں۔‪ ‬‬
‫‪۱۰‬۔‪       ‬مجموعہ در ودیوار‪  :‬میں شامل آٹھ افسانے مکتبہ اردو الہور سے ‪1948‬میں شائع ہوئے۔ اس افسانوی‬
‫مجموعے میں ’’ میں انسان ہوں‪ ،‬نیا فرہاد‪ ،‬تسکین‪ ،‬جب بادل امڈے‪ ،‬سپاہی بیٹا‪ ،‬ووٹ‪ ،‬کہانی لکھی جارہی ہے‬
‫اور راجے مہاراجے ‘‘ شامل ہیں۔‬
‫‪۱۱‬۔‪       ‬مجموعہ سناٹا‪  :‬میں شامل دس افسانے نیا ادارہ الہور سے ‪ 1952‬میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں‬
‫’’بڑی سرکار کے نام‪ ،‬رئیس خانہ ‪،‬آتش گل‪ ،‬مامتا‪ ،‬الحمد اللہ‪ ،‬کنجری‪ ،‬گنڈاسا‪ ،‬چور‪ ،‬نمونہ اور سناٹاشامل ہیں۔‬
‫‪۱۲‬۔‪       ‬مجموعہ بازار حیات‪  :‬میں تیرہ افسانے شامل ہیں۔ جو ادارہ فروغ اردو اردو الہور سے ‪ 1959‬میں‬
‫شائع ہوئے ان افسانوں میں ’’پریشر سنگھ‪ ،‬گل رخے‪ ،‬خون جگر‪ ،‬دارو رسن‪ ،‬زلیخا‪ ،‬بدنام‪ ،‬ست بھرائی‪ ،‬موچی‪،‬‬
‫کفن دفن‪ ،‬بابا نورا‪ ،‬آئینہ‪ ،‬ہیرا ‪ ،‬اور مخبر ‘‘شامل ہیں۔‬
‫‪۱۳‬۔ ‪          ‬مجموعہ برگ حنا‪   :‬میں دس افسانے شامل ہیں جو ناشرین الہور سے ‪ 1959‬میں شائع ہوئے۔ ان‬
‫افسانوں میں ’’بیٹے بیٹیاں‪ ،‬ماتم‪ ،‬کھمبہ‪ ،‬دوربین‪ ،‬شکنیں‪ ،‬نصیب‪ ،‬مہم بیگ‪ ،‬وحشی‪ ،‬جن وانس اور امانت‬
‫‘‘شامل ہیں۔‬
‫‪۱۴‬۔‪      ‬مجموعہ گھر گھر تک‪ :‬میں سترہ افسانے شامل ہیں جو راول کتاب گھر راولپندی سے ستمبر ‪1963‬‬
‫میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں میں ’’تبر‪ ،‬فیشن‪ ،‬سفارش‪ ،‬مائیں‪ ،‬پہاڑوں کی طرف‪ ،‬گڑیا‪ ،‬تھل‪ ،‬پاگل‪ ،‬ماسی گل‬
‫بانو‪ ،‬بے نام چہرے‪ ،‬کپاس کا پھول‪ ،‬سفید گھوڑا‪ ،‬سکوت وصدا‪ ،‬آسیب‪ ،‬النس آف تھلیبیا‪ ،‬قرض اور مشورہ‬
‫‘‘شامل ہیں۔‬
‫‪۱۵‬۔ ‪          ‬مجموعہ نیال پتھر ‪ :‬میں نو افسانے غالب پبلشرز الہور سے ‪ 1980‬میں شائع ہوا۔ اس افسانوی‬
‫مجموعے میں ’’احسان‪ ،‬عورت صاحبہ‪ ،‬جوتا‪ ،‬اندمال‪ ،‬عاالں‪ ،‬نیال پتھر‪ ،‬بارٹر‪ ،‬ایک عورت تین کہانیاں اور ایک‬
‫احمقانہ محبت کی کہانی ‘‘ شامل ہیں۔(‪)۲‬‬
‫احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کے پندرہ مجموعے ہیں جن میں ‪ 169‬افسانے ہیں۔ اس میں معاشرے کے‬
‫مختلف افراد کو کرداروں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے ‪ ،‬جن میں زیادہ ترکرداروں کی غربت‪،‬دیہی زندگی‪،‬‬
‫نچلے طبقے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات اور ان کے سماجی اورمعاشی مسائل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔‬
‫ندیم کی یہ خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے نچلے ‪ ،‬کمزور اور پسے ہوئے طبقے کے‬
‫لوگوں کے مسائل اور دشواریوں کو باریک بینی سے دیکھا اور پرکھا۔ ان کے افسانوی کرداروں سے یہ اندازہ‬
‫ہوتا ہے کہ اس کے دل میں غریب طبقہ کے لوگوں سے پیار اور ہمدردی کے جذبات موجود تھے جس کا‬
‫اظہارانہوں نے اپنے افسانوی کرداروں میں خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ قاسمی کا یہ انداز انہیں‬
‫دوسرے افسانہ نگاروں پر فوقیت دیتا ہے ۔ احمد ندیم قاسمی نے ان کرداروں کے جذبات کو اتنی شدت سے‬
‫بیان کیا ہے کہ یہ ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے ایسے کردار وں کی تخلیق صرف وہی فنکار کر سکتا ہے‬
‫جب اس کے دل میں انسانیت کے لیے خصوصی ہمدردی کا جذبہ موجود ہو۔‬
‫افسانہ سونے کا ہار میں ایک کسان کاذکر ہے جو اپنی عزت کی خاطر اپنی جائیداد کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور‬
‫بیٹی کی بیاہ پر اسے سونے کا ہاردینے کا خواہش مند ہے تاکہ برادری میں اس کی ساکھ برقرار رہے۔لیکن جب‬
‫وہ ذیلدار کے ہاتھوں زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور چودھری کے پاس جاتا ہے تو چودھری اسے‬
‫زمین کی قیمت کیا دیتا ہے مالحظہ ہو‪:‬‬
‫’’چودھری نے زمین کی آدھی قیمت بتائی۔‬
‫احمد علی نے اعتراض کیا تو وہ بوال۔ ’’تو پھر کہیں اور بیج ڈالو‪ ،‬میری طرف سے تمہیں آزادی ہے‪ ،‬زیلدار کے‬
‫ہاں بیچ دو۔‬
‫نقد روپی اور کون دے گا؟‘‘(‪)۳‬‬
‫احمد علی مجبور ہو کر زمین سستے داموں بیچ دیتا ہے اور سنار کی دکان کا رخ کرتا ہے تو سنار اور ذیلدار‬
‫کے آپس میں مالپ سے نقلی ہار احمد علی کو ڈھائی سو روپے پر دیتا ہے اور جب شادی کے دن لوگ جمع‬
‫ہوتے ہیں تو سونے کے ہار کی تعریف کے دوران زیلدار آتا ہے اور ہار کو مکاری کے ساتھ نقلی قراردیتے ہوئے‬
‫کہتا ہے کہ‪:‬‬
‫’’ ذیلدار ہار کو اپنی آنکھوں کے بہت قریب لے گیا‪ ،‬الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا اور بھرے مجمع میں بلند آواس‬
‫سے بوال احمد علی یہ تو نقلی سونا ہے!‘‘(‪)۴‬‬
‫اس افسانے میں چودھری‪ ،‬ذیلدار اور سنار جو کہ امیر طبقے کے نمائندہ کردار ہیں کہ کیسے غریب زمیندارکو‬
‫لوٹنے اور پھر ان کو رسوا کرنے اورتمسخر اڑانے کاانداز نمایا ں ہے۔‬
‫احمدندیم قاسمی کے افسانوں کا موضوع دیہات کے رہنے والے محنتی‪،‬جفاکش اور وہ عام لوگ ہیں جنہیں‬
‫اپنی محنت کا صلہ بہت کم ملتا ہے یہاں تک کہ ان کی زندگی بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرتی ہے۔‬
‫دیہات کے عام لوگوں کے مسائل اور جذبات ہی ان کا اصل موضوع ہے ۔ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کا‬
‫عکس بھرپو انداز میں نمایاں ہے اس کے ساتھ ساتھ محبت جو ایک کائناتی جذبہ ہے وہ بھی ان کے ہاں پوری‬
‫آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتا ہے۔گاؤں کی مخصوص ثقافت ‪،‬اقدار‪ ،‬رسم ورواج اور انتقام سے ان کے‬
‫افسانوں کا تار وپود تیار ہوتا ہے۔ندیم نے زندگی کے حقائق کو صدیوں کی معاشرت اور روایت کے پس منظر‬
‫میں پیش کیا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کو شدید طنز کا نشانہ بنایا ہے جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو‬
‫رہا ہے۔محنت ومشقت کرنے والے کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے اور اس طبقے کا مکمل طور‬
‫پر استحصال کیا جاتا ہے۔‬
‫احمد ندیم قاسمی کے بعض کردار حاالت کی ستم ظریفی کے باعث بہت ہی روح فرسا کام کرنے پر مجبور ہو‬
‫جاتے ہیں۔ افسانہ الحمدللہ کے مولوی ابل شادی سے پہلے بہت ٹھاٹ کی زندگی بسر کر رہا تھا ۔لیکن شادی کے‬
‫بعد مفلوک الحالی اور کثرت اوالد کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل نے انہیں سوکھے ٹکڑے کھانے پر‬
‫مجبور کر دیا۔کیونکہ اب مسجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹنے لگی تو انہیں شدید مسائل کا‬
‫سامنا کرنا پڑا۔‬
‫’’نمازیوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے گھٹ رہی تھی اور ضروریات زندگی کی قیمتیں گھٹنے کی بجائے بڑھ‬
‫رہی تھیں اور پھر اوالد بڑھ رہی تھی اور اوالد کے ساتھ مولوی ابل کے بالوں کی سفیدی بڑھ رہی تھی۔ادھر‬
‫مہرالنساء نے چودھویں سال میں قدم رکھا ‪،‬ادھر مولوی ابل کی یہ حالت ہو گئی کہ رکوع میں گیا ہے تو‬
‫اٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔سجدے میں پڑا ہے تو بس پڑا ہے۔‘‘(‪)۵‬‬
‫مولوی ُا بل جو پہلے ہر وقت اللہ جل شانہ‘ پر بھروسہ کرنے واال تھا۔ مفلسی کے پے درپے حملوں نے انہیں‬
‫مایوس کر دیا تھا‪ ،‬اور ہر بار ان کی نظریں چودھری فتح داد پرمرکوز ہو جاتیں۔ چودھری ہر مشکل گھڑی‬
‫میں ان کی مدد کرتا یہاں تک کہ بیٹی کی بیاہ میں بھی ان کی امداد ناقابل فراموش تھی۔‬
‫’’چودھری فتح داد بوال اب جلدی سے شادی کی تاریخ بھی طے کرلیجئے شمیم احمد اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔ شمیم‬
‫احمد کو میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھیجا تھا رسم ورواج کے مطابق اس کی ماں آپ کے گھر میں آتی‬
‫مگر بڑھیا سٹھیاسی گئی ہے۔ کوئی بات اس کی مرضی کے خالف ہو تو سات پشتیں توم ڈالتی ہے کمبخت‬
‫ابھی ابھی شمیم نے بتایا کہ آپ نے حامی بھرلی ہے میں نے ُا سے جلدی سے شادی کرلینے پر زوردیا تو بوال آپ‬
‫ہی قبلہ مولوی صاحب سے تاریخ کا فیصلہ کرادیجئے سو میں اسی لیے حاضر ہوا تھا۔ آپ کل تک سوچ لیجئے‬
‫اور یہ ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ چودھری فتح داد نے گرم چادر کے نیچے سے ایک پوٹلی سی نکالی۔۔۔۔۔ یہ میری بیٹی کو دے‬
‫دیجئے گا۔۔۔۔۔ مولوی ُا بل نے اندر آکر پوٹلی کھولی تو ایک ٹرے سے ریشمی رومال میں سو کے ایک نوٹ پر‬
‫سونے کے دو جھمکے رکھے تھے‪ ،‬جن کی ٹرے سے بلبلے جتنی کٹوریوں میں جانے نگینے جڑے تھے یا مینا‬
‫کاری کا کام تھا۔‘‘(‪ )۶‬‬
‫لیکن جب چودھری فتح داد کی ریڑھ کی ہڈی میں پھوڑا نکال اور ایک نائی نے اس کی نشترزنی کی تواس‬
‫کے ساتھ اس کو سخت قسم کا بخار ہوا مولوی ابل ہر روز اس کی مزاج پرسی کے لیے جاتا اور اس کی‬
‫صحت کے لیے دعا کرتا۔‪  ‬پھر جب مہرالنسا کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو مولوی کی بیوی نے کہاکہ کہیں سے دس‬
‫روپے کا قرضہ مل جائے کہ بیٹی کے لیے کچھ خرید سکے لیکن مولوی نے کہا کہ کون عقل کا اندھا مجھے‬
‫قرضہ دیگا۔ اور جب وہ باہر نکلتا ہے تو چند لمحوں کے بعد بھاگتا ہوا اندر آیا اور چالیا کہ پیسوں کا‬
‫بندوبست ہوچکا ہے۔‬
‫’’اور مولوی ُا بل اسی بجتے ہوئے لہجے میں چالیا۔ مبارک ہو عارف کی ماں! تم نواسے کے چولے کو رورہی‬
‫تھیں۔ اللہ جل شانہ نے چولے چنی اور ٹوپی تک کا انتظام فرمادیا۔ جنازے پر کچھ نہیں تو بیس روپے ضرور‬
‫ملیں گے۔ ابھی کچھ دیر میں جنازہ اٹھے گا چودھری فتح داد مرگیاہے! زیب النساء نے اس زور سے اپنی‬
‫چھاتی پر دو ہتڑ مارا کہ بچے دہل کر رودئیے۔ اور پھر ایک دم جیسے کسی نے مولوی ُا بل کو گردن سے دبوچ‬
‫لیا۔ اس کی اوپر اٹھی ہوئی پتلیاں بہت اوپر اٹھ گئیں۔ پھر ایک لمحے کے دردناک سناٹے کے بعد مولوی ُا بل‬
‫جو مرد کے چالچال کے رونے کو ناجائز اور خالف شریعت قراردیتا تھا۔ چالچال کر رونے لگا اور بچوں کی‬
‫طرح پاؤں پٹختا ہوا ڈیوڑھی کے دروازے میں سے نکل کر باہر بھاگ گیا‘‘ (‪)۷‬‬
‫مولوی ُا بل اپنے معاشی حاالت کی وجہ سے اس قدر بے حال تھا کہ اپنے محسن چودھری فتح داد جو ہر‬
‫مشکل میں اس کی مدد کے لیے حاضر رہتا تھا۔ مولوی ُا بل ُا س کے جنازے کے پیسوں کا بے چینی سے منتظر‬
‫تھا اور یہ بھول گیا تھا کہ یہ وہی میرا محسن ہے جو ہر تکلیف کے وقت میری مدد کے لیے پہنچتا تھا جب‬
‫اس کی بیوی رونے لگتی ہے تب اس کو احساس ہوتا ہے کہ چودھری فتح داد جو میرا محسن تھا ہمیشہ کے‬
‫لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔‬
‫اسی طرح معاشی مسائل کے ہاتھوں مجبور ہوکر رئیس خانہ کے فضلو کا بھی یہی حال ہے کہ اس کو حاالت‬
‫نے اس قدر مجبور کیا ہے کہ چند پیسوں کے عوض وہ بہت ہی گھناؤنا کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ‬
‫صاحب جو سکیسر پر چٹھیاں گزارنے آیا ہے ا س کے لئے اسکیسر بھر سے عورتیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر التا ہے اور‬
‫جب اس کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ عورتوں کو چھوتا تک نہیں بس سامنے بٹھائے رکھتا ہے تو اس کا جی بھی‬
‫للچایا اور اپنی بیوی مریاں کو مجبور کرنے لگا کہ صاحب کچھ بھی نہیں کہتا تو صرف اس کے سامنے بیٹھے‬
‫میں کیا حرج ہے۔ مریاں پہلے تو منع کرتی ہے لیکن جب وہ مسلسل بضد ہوتا ہے تو یہ اس کی باتوں میں‬
‫آجاتی ہے اور صاحب اسی لمحے کے انتظار میں تھا کیونکہ اس نے پچھلے سال مریاں کو دیکھا تھا اور اب‬
‫بھی وہ اسی کے لیے یہاں ٹھہرا تھا۔ مریاں چیخ چیخ کر بول رہی تھی ‪:‬‬
‫’’تم نے کہا تھا کہ وہ مجھے چھوئے گا ہی نہیں اور اس نے تو مجھے کاٹ کاٹ لیا ہے وہ تو پچھلے ساون میں‬
‫بھی میرے ہی لیے یہاں رکا رہا اس نے تو پہلے ہی دن یہاں صحن میں مجھے دوربین سے دیکھ لیا تھا وہ تو‬
‫اب کے بھی میرے ہی لیے آیا تھا‪ ،‬سن رہے ہو؟ سن رہے ہو حرام زادے بھاگے کہاں جارہے ہو؟ ‘‘(‪)۸‬‬
‫فضلو جس کے وہم وگمان میں ہی نہیں تھا کہ ُا سے یہ دن دیکھنا پڑے گا شدید صدمے سے بے حال تھا‬
‫صاحب جاچکا تھافضلو نے سو کا نوٹ جواس کی بند مٹھی میں تھا چراغ کی لو سے جالیا اور انتہائی کرب‬
‫کے انداز میں گویا ہوا کہ مجھے میری غریبی دھوکہ دے گئی۔ نوٹ جل کر راکھ ہوچکا تھا اور ساتھ ہی‬
‫فضلو عزت بھی راکھ کی صورت اختیار کرگئی تھی۔‬
‫سماجی مسائل پر احمدندیم قاسمی نے خوبصورتی سے قلم ُا ٹھایا ہے جہاں معاشرے کا امیر طبقہ کمزور اور‬
‫مجبور افراد کے عزت سے کھیلتی ہے اور بیچارہ مظلوم ومجبور طبقہ ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔‬
‫سماجی ناانصافی کی ایک اور مثال افسانہ فیشن میں بھی نظر آتا ہے فیشن کا ایک کردار نجمہ جو امیر باپ‬
‫کی بیٹی ہے حلیمہ کو نوکرانی کے طور پررکھتی ہے نجمہ کو اپنے محلے کے ایک سیٹھ سے شیخ منصور‬
‫احمد سے عشق ہوجاتا ہے اور اس عشق کو پروان چڑھانے کے لیے وہ حلیمہ کو آلہ کار کے طورپر استعمال‬
‫کرتی ہے۔ وہ اپنے مفاد کی خاطر یہ بھول جاتی ہے کہ حلیمہ خود بھی ایک خوبصورت نوجوان لڑکی ہے۔ وہ‬
‫حلیمہ کے ہاتھوں خطوط بجھواتی ہیں اور یوں شیخ منصور احمد کے ہاتھوں حلیمہ کی عزت تار تار ہوجاتی‬
‫ہے۔ وہ کسی کو بھی نہیں بتاتی اور جب اس کی ماں مہینے بعد تنخوا ہ لینے کے لیے آتی ہے تو وہ اس کی‬
‫حالت کو بھانپ لتی ہے اور وہ حلیمہ کو مار مار کر وہاں سے لے جاتی ہے۔ اور نجمہ ُا سے دیکھتی رہ جاتی ہے‬
‫کیونکہ ُا س کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ حلیمہ کیوں ُا سے بتائے‪  ‬بغیر وہاں سے چل دی۔‬
‫’’مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ُا س نے حلیمہ کو دو ہتڑوں سے پیٹنا شروع کردیا نجمہ اور اس کی امی آواز‬
‫سن کر نیچے بھاگیں مگر جب تک وہ حلیمہ کو ہاتھ سے گھسیٹ کر باہر گلی میں لے جاچکی تھی‘‘(‪)۹‬‬
‫ہمارا معاشرہ اس طرح کے کرداروں سے بھرا پڑا ہے جہاں غریب لوگ اپنی کم عمر بیٹیوں کو کسی کے گھر‬
‫کام کرنے کے لیے بھیج دیتی ہیں لیکن وہاں ُا سے صرف ُا س کی تنخواہ ملتی ہے ُا س کی عزت کی کوئی‬
‫ضمانت نہیں ہوتی اور یہی وجہ ہے کہ ایسی معصوم اور کمزور لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جو اپنے‬
‫ساتھ کی گئی ناانصافی کے خالف آواز بھی بلند نہیں کرسکتی۔‬
‫پھر جس روز حلیمہ واپس آئی نجمہ بی بی کا گھر دلہن کی طرح سجا ہوا تھا وہ تیزی سے نجمہ بی بی کے‬
‫کمرے کی طرف لپکی نجمہ بی بی دلہن بنی بیٹی تھی جلدی سے ُا ٹھی اور حلیمہ سے لپٹ گئی جس نے‬
‫حلیمہ کی گود میں مہینے دو مہینے کے بچے کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہمیں بتایا بھی نہیں اور چپکے سے‬
‫شادی کرلی اور حلیمہ بے بسی کے انداز میں گویا ہوئی ‪:‬‬
‫’’حلیمہ بولی! شادی تو کرلی نجمہ بی بی ‪ ،‬چپکے ہی سے کرلی ۔ کرنی پڑگئی ۔ کرنی پڑتی ۔۔۔۔ لڑکیاں ہنسنے‬
‫لگیں تو حلیمہ نے نجمہ کو بازو سے پکڑا اور ملحقہ غسل خانے میں لے گئی ۔ ذرا سی دیر کے بعد ایک چیخ‬
‫نکلی اور کسی کے دھب سے گرنے کی آواز آئی لڑکیاں گھبرا کر ُا ٹھیں اور غسل خانے کے دروازے پر بھیڑ لگ‬
‫گئی ۔۔۔۔ نجمہ فرش پر بے ہوش پڑی ہے حلیمہ زور زور سے اس کی ہتھیلیاں مل رہی ہیں اور بچہ فرش میں‬
‫گڑے ہوئے فلش کے بیسن میں لڑھک گیا ہے اور رو رہا ہے‘‘‪)۱۰(  ‬‬
‫اور پھر جب حلیمہ سے نجمہ کے والد پوچھ گچھ کرتے ہیں تو وہ کچھ اس انداز میں جواب دیتی ہے‪:‬‬
‫’’حلیمہ دور سے آتی ہوئی آواز میں بولی ’’میں نے تو میاں جی‪ ،‬قسم سے بس اتنا کیا کہ نجمہ بی بی کو‬
‫شادی کی مبارکباد دی اور کہا کہ نجمہ بی بی !خدا کا شکر ہے کہ آپ کی شادی شیخ منصوراحمد جیسے‬
‫کمینے سے نہیں ہو رہی ہے۔‘‘‪)۱۱(  ‬‬
‫اور جب حلیمہ کو پتہ چلتا ہے کہ نجمہ بی بی کی شادی شیخ منصور احمد سے ہو رہی ہے تو وہ جیسے‬
‫سکتے میں آ جاتی ہے کہ اس کی زندگی کی بربادی میں اس درندہ صفت انسان کا ہاتھ تھا۔اور اب وہ اپنی‬
‫زندگی سنوارنے کے لیے شادی کر رہا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ میاں صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‬
‫خاصی دیر تک حیرانگی کے عالم میں کھڑی رہی اور پھر بولی میاں صاحب غلطی ہوگئی۔‬
‫ندیم نے معاشرتی مسائل کو پوری حقیقت کے ساتھ پیش کیاہے ان کے کردار بالکل ہمارے معاشرے میں رہنے‬
‫بسنے والے افراد ہیں۔افسانہ ’’ماسی گل بانو‘‘ میں گل بانوکی دکھ بھری کہانی کو حقیقت بھرے انداز میں‬
‫بیان کی ہے۔گل بانو جو کسی وقت میں ایک حسین لڑکی تھی شادی کے ایک دن پہلے جب اس کو پتہ چلتا‬
‫ہے کہ اس کا دولہا اپنے مالک کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے تو وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو دیوار سے‬
‫اس زور سے گھسیٹتی ہے۔کہ اس کی ہتھیلیوں کی جلد ادھڑ جاتی ہے۔اور پھر اس کو محرقہ بخار ہو جاتا ہے‬
‫رات بھر بخار کی غنودگی میں اس کی دائیں ٹانگ چارپائی سے لٹکتی رہی جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ‬
‫ٹیڑھی ہو گئی اور وہ لنگڑا کر چلنے لگی۔بخار کے اترنے کے بعد اس کے بال جھڑنے شروع ہوئے اور یوں لوگوں‬
‫نے گاؤں بھر میں مشہور کر دیا کہ ماسی گل بانو پر جن آگیا ہے۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ ماسی گل بانو کے‬
‫قبضے میں جنات ہیں اور اسی ڈر کی وجہ سے لوگ اس کے مطالبات پورے کرتے کہ اگر وہ انکار کر دیں گے‬
‫تو ان پر کوئی آفت آجائے گی۔‬
‫احمد ندیم قاسمی نے اپنے معاشرے میں موجود مسائل پر خوب لکھا ہے ۔وہ خامیاں جو ہمارے معاشرے میں‬
‫موجود ہیں اور جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کو بے نقاب کیا ہے ‪،‬غریب طبقے کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا‬
‫کر انھیں جرائم میں ملوث کیا جاتا ہے یا تو انھیں پیسوں کی اللچ دی جاتی ہے یا محبت کے جال میں پھنسا‬
‫کر انھیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔افسانہ تبر میں ایک ایسی معاشرتی برائی کی نشاندہی کی‬
‫گئی ہے۔جس میں ایک سادہ لوح نوجوان ایک بے وفا عورت کی محبت میں اس حد تک پہنچ جاتا ہے‪ ،‬کہ اس‬
‫کے کہنے پر اس کے شوہر کو قتل کرتا ہے اور قید ہو جاتا ہے لیکن جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جنت دلیر‬
‫خان سے جو شھباز کو اس گھناؤنے کام پر مجبور کرتا ہے پر عاشق ہے اور انہوں نے مل کر اسے پھنسایا ہے تو‬
‫قید سے رہا ہونے کے بعد وہ سیدھا اس کے گھر کا رخ کرتا ہے تاکہ اس کو قتل کرکے خود کو پولیس کے‬
‫حوالے کرے اور یہی انتقام ہی اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔لیکن جب وہ ان دونوں کو ساتھ پاتا ہے تو‬
‫انتقام کی آگ اور بھی بھڑک اٹھتی ہے۔‬
‫’’ اندر کڑوے تیل کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور جنت جس نے اپنا کرتا اتار رکھا تھا ۔۔۔کواڑ کے ٹوٹتے ہی دونوں‬
‫یوں اکڑ کر کھڑے ہو گئے کہ اپنے قدموں سے بھی لمبے لگنے لگے ۔اسی ایک لمحے میں شھباز نے اپنے جسم کو‬
‫چٹان کی طرح اٹھایا اور دلیر کے پیٹ پر دے مارا۔دلیر تیورایا تو اس نے بجلی کی سی تیزی سے تبر اس کے‬
‫پیٹ پر دے ماری۔ پہلے ہی وار سے دلیر کی آنتیں باہر ابل پڑیں اور وہ ہوا میں کسی چیز کو پکڑنے کی‬
‫کوشش کرتا ہوا ڈھیر ہو گیا۔‘‘‪)۱۲(  ‬‬
‫پھر اس نے حقارت سے جنت کی طرف دیکھا اور کہا کہ تیرا خون میری تبر کے الئق نہیں اور اس کا کرتا اس‬
‫کی طرف پھینکتے ہوئے کہنے لگا‪:‬‬
‫’’پر اب تو میں یہ پیار صرف اس طرح کر سکتا ہوں کہ تبر سے تیرے ہونٹ تیرے جسم سے الگ کر لوں اور‬
‫پھر ان پر اپنے ہونٹ رکھ دوں۔ مگر میں ایسا بھی نہیں کر وں گا ۔پھانسی پر چڑھنے سے پہلے میں اپنے‬
‫ہونٹوں کو پلید نہیں کرنا چاہتا۔‘‘‪)۱۳(  ‬‬
‫افسانہ گنڈاسا میں بھی گاؤں کی مخصوص ثقافت اور زندگی گزارنے کے اصول کو مدنظر رکھا گیا ہے۔جہاں‬
‫پر قتل کا بدلہ صرف قتل ہی نہیں بلکہ پوری زندگی کی دشمنی ہے جس کی بھینٹ‪  ‬التعداد افراد چڑھتے‬
‫ہیں اور پھر بھی انتقام کی آگ بجھنے کے بجائے اور تیزی سے بھڑکتی ہے۔موال جس نے اپنے باپ کے قاتل اور‬
‫اس کے بیٹے کو ختم کردیا لیکن چونکہ اس کا کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا اس لیے اسے رہائی حاصل‬
‫ہوئی۔گھر لوٹتے ہی اس کی ماں اس کا استقبال کچھ اس انداز میں کرتی ہے‪:‬‬
‫’’اور جب آنگن میں قدم رکھا تو اس کی ماں بھاگی ہوئی آئی‪ ،‬اس کے ماتھے پر ایک طویل بوسہ دیا اور‬
‫بولی’’ابھی دو اور باقی ہیں میرے الل رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔‘‘‪ ‬‬
‫(‪)۱۴‬‬
‫اور یہی وجہ ہے کہ دشمنی کا ایک نہ ختم ہونے واال سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں موال کی اپنی زندگی‬
‫کہیں کھو جاتی ہے اور وہ پورے گاؤں میں دہشت کی عالمت بن جاتا ہے جس گلی میں موال بیٹھ جائے وہاں‬
‫سے لوگ گزرنا چھوڑ دیتے ۔‬
‫’’ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا۔موال اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسری‬
‫دیوار کریدے جا رہا تھا۔اجنبی آیا اور لٹھ پر سے االنگ گیا۔ایکا ایکی موال نے بپھر کر ٹیبک میں سے گنڈاسا‬
‫نکاال اور لٹھ پر چڑھا کر بوال ’’ٹھہر جاؤ چھوکرے‪،‬جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ االنگی ہے؟ یہ موال کی لٹھ ہے‬
‫۔مولے گنڈاسے والے کی۔نوجوان موال کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بوال’’مجھے پتہ نہیں‬
‫تھا مولے۔‘‘(‪ )۱۵‬‬
‫موال اپنی اس زندگی سے اکتا جاتا ہے جس میں دوست اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ کسی کے احسان‬
‫کو اب گوارا نہیں کرتاتنہائی اور الچارگی نے اسے بے بس کر دیاہے اور جب گال اسے تھپڑ مارتا ہے تو قتل کی‬
‫طاقت رکھنے کے باوجود وہ اسے چھوڑ دیتا ہے ماں اسے بہت مالمت کرتی ہے لیکن اس کی آنکھوں سے‬
‫مسلسل آنسو رواں ہوتے جس پر اس کی ماں حیرت سے پوچھتی ہے کہ تو رو رہا ہے اور موال ایک معصوم‬
‫بچے کی طرح ہولے سے بول اٹھتاہے‪:‬‬
‫’’تو کیا اب روؤں بھی نہیں‘‘(‪)۱۶‬ا‬
‫احمد ندیم قاسمی کے کردار دیہات کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتے ہیں ان کے ہاں سرمایہ دارانہ نظام‬
‫اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے۔جہاں پر طبقاتی تقسیم کی وجہ سے‬
‫کمزور طبقے کا استحصال کیا جاتا ہے۔اور وہ اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے‬
‫ایسے کردار جو معاشرے میں اپنی عزت برقرار رکھنے کے لیے اور انتقام کے نام پر نہ ختم ہونے والی دشمنی‬
‫میں کود پڑتے ہیں اور پھر نسل درنسل یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔قاسمی کے افسانوں میں عورت کے کردار کو‬
‫واضح طور پر جبر واستحصال کا شکار دکھایا گیا ہے چاہے وہ رئیس خانہ کی مریاں ہو‪،‬فیشن کی حلیمہ ہو ‪،‬‬
‫الرنس آف تھیلیبیا کی رنگی ہویا آتش گل کی گالبو ہو سب حاالت کے ہاتھوں مجبور کردار ہیں۔لیکن ان کے‬
‫کردار ایسے جیتے جاگتے کردار ہیں کہ جس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ‬
‫کردار ہمارے اپنے معاشرے کے کردار ہیں۔‪ ‬‬

‫رضوانہ ارم۔ پی ایچ ڈی‪ ،‬اسکالر‪ ،‬شعبہ اردو‪ ،‬جامعہ پشاور‬

‫‪ ‬‬

‫حوالہ جات‪ ‬‬
‫‪۱‬۔‪        ‬مرزا حامد بیگ۔ اردو افسانے کی روایت‪ ،‬اکادمی ادبیات پاکستان۔ ‪  ۱۹۹۱‬ص‪۵۷۷‬‬
‫‪۲‬۔‪        ‬ایضًا‪   ‬ص ‪ ۵۷۹‬تا ‪۶۸۰‬‬
‫‪۳‬۔‪       ‬احمد ندیم قاسمی۔ سیالب وگرداب‪ ،‬گلوب پبلشرز‪ ،‬الہور۔ ‪ ۱۹۶۱‬ص ‪۱۲۸‬‬
‫‪۴‬۔‪       ‬ایضًا ‪       ‬ص ‪۱۳۰‬‬
‫‪۵‬۔‪       ‬احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا‪ ،‬اساطیر‪ ،‬الہور گیارہواں ایڈیشن‪ ۱۹۹۱  ،‬ص ‪۱۱۲‬‬
‫‪۶‬۔‪        ‬ایضًا‪  ‬ص ‪۱۲۲‬‬
‫‪۷‬۔‪       ‬ایضًا‪  ‬ص ‪۱۳۶‬‬
‫‪۸‬۔‪       ‬احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا‪ ،‬اساطیر‪ ،‬الہور گیارہواں ایڈیشن‪ ۱۹۹۱  ،‬ص‪۷۳  ‬‬
‫‪۹‬۔‪        ‬احمد ندیم قاسمی۔ کپاس کا پھول‪ ،‬اساطیر الہور۔ ‪ ۲۰۰۲‬ص ‪۴۸‬‬
‫‪۱۰‬۔‪       ‬ایضًا‪   ‬ص ‪۵۰‬‬
‫‪۱۱‬۔‪       ‬ایضًا‪  ‬ص ‪۵۰‬‬
‫‪۱۲‬۔‪       ‬ایضًا‪  ‬ص ‪۲۹‬‬
‫‪۱۳‬۔‪      ‬ایضًا‪   ‬ص ‪۳۰‬‬
‫‪۱۴‬۔‪      ‬احمد ندیم قاسمی۔ سناٹا‪ ،‬اساطیر‪ ،‬الہور گیارہواں ایڈیشن‪ ۱۹۹۱  ،‬ص ‪۱۶۸‬‬
‫‪۱۵‬۔‪      ‬ایضًا‪  ‬ص ‪۱۲۹‬‬
‫‪۱۶‬۔‪       ‬ایضًا‪۱۸۱  ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫پرنٹ کیجئِے‬ ‫اوپر جائیں‪  |  ‬‬

You might also like