You are on page 1of 7

‫شطالبان ہم پر بالکلئ شرحم نہیں کریں گے‪ ،‬اور حکومت بمباری روکے گی نہیں!

‘‬
‫ے کہ ’سڑکوں پر الشیں پڑی ہیں۔ ہمیں نہیں پتا کہ‬ ‫ن‬
‫ل کر گاہ کے ای ک رہ ا ی کا کہ ا ہ‬
‫وہ عام شہری ہیں یا طالبان۔ درجنوں فیملیاں بھاگ چکی ہیں اور ہلمند دریا کے‬
‫قریب پہنچ چکی ہیں۔‘‬
‫لشکرگاہ میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے جس کے بعد‬
‫ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بین االقوامی افواج کے انخال کے بعد شاید‬
‫یہ شہر طالبان کے قبضے میں آنے واال پہال صوبائی دارالحکومت ہو سکتا ہے۔‬

‫لشکر گاہ پر قبضہ کرنا طالبان کے لیے ایک بہت بڑی عالمتی کامیابی ہوگی۔‬
‫جنوبی ہلمند صوبے کے شہر لشکر گاہ میں امریکی اور افغان ایئرفورس کے‬
‫طالبان کے خالف لگاتار حملے جاری ہیں۔ مگر اس کے باوجود طالبان افغان‬
‫فورسز پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔‬

‫اگر لشکر گاہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تو یہ سنہ ‪ 2016‬کے بعد‬
‫طالبان کے کنٹرول میں آنے واال پہال صوبائی دارالخالفہ ہو گا۔‬
‫ہرات اور جنوب میں صوبہ ہلمند‬ ‫دوسری طرف افغانستان کے مغربی شہر‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ‬ ‫کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں شدید لڑائی کے بعد طالبان نے‬
‫وہ ان بڑے شہروں کے مختلف حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔‬

‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ کچھ جگہوں پر قبضے‬ ‫دوسری جانب افغان سکیورٹی فورسز کا‬
‫کے بعد کل سے طالبان جنگجوؤں کو ان شہروں سے واپس پیچھے دھکیل دیا‬
‫گیا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ افغانستان میں ‪ 20‬سال سے جاری امریکی جنگ کے بعد جیسے‬
‫جیسے امریکی و اتحادی افواج کے مکمل انخال مکمل ہوتا جا رہا ہے تو ایسے‬
‫میں طالبان تیزی سے سینکڑوں اضالع پر کنٹرول حاصل‪ d‬کر تے جا رہے ہیں۔‬

‫مغربی شہر ہرات میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان‬
‫کے درمیان شہر کے اندر لڑائی جاری ہے لیکن اُن کے مطابق گذشتہ رات سے‬
‫طالبان کے کئی ٹھکانوں پر فضائی بمباری بھی کی گئی ہے اور اُن کی شہر میں‬
‫داخلے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫حکام کے مطابق ہرات شہر کے مغربی حصے شیوان‪ ،‬دستگر‪ ،‬پشتون پل اور‬
‫ایئرپورٹ کے راستوں کو طالبان سے چھڑوا لیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی‬
‫شہر کے داخلی راستوں پر لڑائی تاحال جاری ہے۔‬

‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫ہرات کے گورنر عبدالصبور قانع نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں‬
‫کیا کہ شہر کی حفاظت کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کے ساتھ عوامی لشکر‬
‫بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔‬
‫’ہم ہرات کے باسیوں کو آپ کے توسط سے یہ یقین دہانی کرواتے ہیں کہ‬
‫سیکورٹی فورسز جنگ کے میدان میں ہیں اور شہر کی حفاظت کر رہی ہیں۔‬
‫ہرات شہر طالبان کے قبضے میں نہیں جا رہا۔‘‬
‫ہرات شہر میں طالبان کے خالف سکیورٹی فورسز کے ساتھ سابق جنگجو‬
‫کمانڈر اسماعیل خان بھی میدان جنگ میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ دشمن کے‬
‫سامنے کھڑے ہیں۔ ’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ہللا کی مدد سے دشمن کو‬
‫شہر میں گھسنے نہ دیں۔‘ دوسری طرف سابق جنگجو کمانڈر اسماعیل خان‬
‫کے گھر پر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ شہر پر کنٹرول کے لیے طالبان کے تمام‬ ‫ہرات شہر میں حکام کا‬
‫حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور سو سے زیادہ طالبان جنگجوؤں کو ہالک کیا‬
‫گیا ہے۔‬
‫حکام نے ایک اعالمیہ میں کہا ہے کہ شہر کے بعض شمالی عالقوں اور ضلع‬
‫انجیل میں طالبان جنگجوؤں کے خالف آپریشن شروع کیا گیا ہے اور شہریوں‬
‫کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔‬
‫دعوی ہے کہ اُن کے جنگجو آج بھی ہرات شہر‬
‫ٰ‬ ‫دوسری جانب طالبان ترجمان کا‬
‫میں موجود ہیں اور اُن کے صرف پانچ جنگجو افغان فورسز کے حملوں میں‬
‫مارے گئے ہیں۔‬
‫طالبان کی جانب سے ہرات اور ہلمند میں افغان فورسز کو بھاری نقصانات‬
‫پہنچانے کے دعوے کیے گئے ہیں۔‬
‫اُدھر صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکر گاہ سے بھی سکیورٹی فورسز اور‬
‫طالبان کے درمیان شدید لڑائی کی خبریں آ رہی ہیں اور اس شہر کے اکثر باسی‬
‫اپنے گھروں میں محصور ہیں۔‬
‫لشکرگاہ کے ایک شہری نے بتایا کہ شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔ ’ایک‬
‫طرف فضائی بمباری ہو رہی ہے اور دوسری جانب زمینی لڑائی بھی جاری ہے۔‬
‫لوگ اپنے گھروں میں ہی محصور ہیں۔‘‬

‫اطالعات ہیں کہ طالبان نے ایک ٹی وی سٹیشن کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے‬
‫اور دیہی عالقوں سے فرار ہونے والے ہزاروں لوگوں نے شہر کی عمارتوں‬
‫میں پناہ لے لی ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪EPA‬‬
‫ایک ڈاکٹر نے ہسپتال سے بتایا کہ ’ہر طرف لڑائی جاری ہے۔‘‬
‫ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن عطاہللا افغان کا کہنا ہے کہ سپیشل فورسز‬
‫لشکرگاہ پہنچ چکی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید فورسز شہر کی دفاع کے‬
‫لیے پہنچ جائیں گی۔‬
‫ہلمند امریکی اور برطانوی فوجی کارروائیوں کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل‬
‫تھا اور اگر طالبان اس پر قابض ہو جاتے ہیں تو یہ افغان حکومت کے لیے بڑا‬
‫دھچکا ہو گا۔‬
‫ت اطالعات نے اعالن کیا کہ ہلمند صوبے میں ‪ 11‬ریڈیو اور‬ ‫پیر کو افغان وزار ِ‬
‫چار ٹی وی نیٹ ورکس نے مبینہ طور پر طالبان کے ’حملوں اور دھمکیوں‘‬
‫کے باعث نشریات روک دی ہیں۔‬

‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ کل لشکرگاہ شہر میں زمینی‬ ‫افغان آرمی کے ایک بیان میں‬
‫اور فضائی حملوں میں کم از کم ‪ 30‬طالبان جنگجو مارے جا چکے ہیں۔ دوسری‬
‫جانب لڑائی میں شدت کی وجہ سے بیشتر خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ‬
‫مقامات کی جانب جانے کی کوششوں میں ہیں۔‬

‫دعوی کیا گیا ہے کہ اُن کے‬


‫ٰ‬ ‫دوسری جانب طالبان کی جاری کردہ ایک ویڈیو میں‬
‫جنگجو شہر کے حاجی گران چوک پر موجود دکھائی دے رہے ہیں اور طالبان‬
‫وہاں موجود مکینوں سے اُن کے آنے کے بارے میں تاثرات لے رہے ہیں۔‬
‫طالبان کی جانب سے ایسی ہی ایک ویڈیو ہرات شہر کے عالقے پل پشتو کے‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ شہر کا یہ عالقہ تاحال اُن‬
‫ٰ‬ ‫بارے میں جاری کی گئی ہے اور‬
‫کے کنٹرول میں ہے۔‬
‫لشکرگاہ اور ہرات کے عالوہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے دوسرے بڑے‬
‫شہر قندھار پر بھی قبضے کی کوششیں جاری ہیں۔‬
‫اگر طالبان نے قندھار کا کنٹرول حاصل کر لیا تو یہ بہت بڑی عالمتی فتح ہو گی‬
‫اور اُنھیں ملک کے جنوب پر کنٹرول مل جائے گا۔‬
‫دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے لڑائی میں اضافے کی وجہ امریکی‬
‫افواج کے اچانک انخال کو قرار دیا ہے۔‬
‫اُنھوں نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا‪’ :‬ہماری موجودہ صورتحال کی‬
‫وجہ اس فیصلے کا اچانک لیا جانا ہے۔‘‬
‫اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے واشنگٹن کو خبردار کیا تھا کہ انخال کے‬
‫’نتائج‘ ہوں گے۔‬
‫ویسے تو تقریبا ً تمام امریکی فوجی افغانستان سے نکل گئے ہیں مگر امریکہ نے‬
‫افغان فوجیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے‬
‫ہیں۔‬
‫پیر کو رات گئے تک لشکر گاہ پر فضائی حملے جاری رہے۔‬
‫امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کو اعالن کیا کہ تشدد کی لہر میں اضافے‪ d‬کی‬
‫وجہ سے امریکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے ہزاروں دیگر افغان شہریوں‬
‫کو اپنے ملک میں پناہ دے گا۔‬

You might also like