You are on page 1of 8

‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫ابو داؤد رحمۃ " عليہ‬


‫ والدت ‪202‬ھ ‪ -‬وفات ‪275‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬


‫ سليمان بن االشعث آپ کا نام ہے‬
‫ ابو داؤد آپ کی کنيت ہے‪،‬‬
‫ آپ قندھار کے قريب سجستان شہر کے رہنے والے تھے ‪،‬‬
‫ زندگی کا بہت بڑا حصہ آپ نے بغداد ميں گزارا ہے‪،‬‬
‫تعليم و تربيت‬
‫ آپ بچپن سے ہی زہين تھے‪،‬‬
‫ چھوٹی سی عمر ميں ہی تمام ضروری علوم ميں مہارت حاصل کرنے کے بعد‬
‫حصول حديث کی طرف متوجہ ہوگئے ‪،‬‬

‫تعليمی اسفار‬

‫ آپ نے طلب علم کيلئے عراق‪ ،‬خراسان‪ ،‬مصر‪ ،‬شام‪ ،‬حجاز‪ ،‬الجزائر وغيره کا‬
‫سفر کيا‪ ،‬اور ہر عالقے کے تمام علماء سے خوب سيرابی حاصل کی‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫ امام ابو داؤد کے بھی بہت سارے اساتذه ہيں ان ميں سے مشہور اساتذه کے نام يہ ہيں‪،‬‬
‫‪ .1‬مسلم بن ابراہيم‪،‬‬
‫‪ .2‬سليمان بن حرب‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی بن معين‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫‪ .4‬عثمان بن ابی شيبہ‪،‬‬
‫‪ .5‬قتيبہ بن سعيد‪ ،‬رحمہم ( رحمة واسعة‬

‫ ابن حجر رحمہ " کے اندازے کے مطابق امام ابو داؤد کے اساتذه کی تعداد ‪ 300‬سے‬
‫زائد ہے‪،‬‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫ آپ کے تالمذه ميں مشہور‬

‫‪ .1‬ابو عبد الرحمن نسائی‪،‬‬


‫‪ .2‬احمد بن محمد‪،‬‬
‫‪ .3‬امام ترمذی‪ ،‬وغيره رحمہم ( قابل ذکر ہيں‪،‬‬
‫علمی خدمات‬

‫ آپ کی علمی خدمات بہت ساری ہيں مگر سب سے مشہور و معروف آپ کی تاليف سنن ابی داؤد ہے‪،‬‬
‫ آپ نے اس کتاب ميں صحيح يا حسن سے کم درجہ کی حديث نہيں لی‪،‬‬
‫ اس کتاب ميں ايک ثالثی بھی ہے‬
‫ امام احمد بن حنبل رحمہ ( کے سامنے يہ کتاب پيش کی گئی تو آپ نے اسے بہت پسند فرمايا‪،‬‬
‫ ابن عربی رحمہ ( فرماتے ہيں کہ" اگر کسی کے پاس قرآن اور يہ کتاب موجود ہو تو پھر اسے‬
‫ضروريات دين کو جاننے کيلئے کسی اور چيز کی حاجت نہيں ہے‪"،‬‬
‫ آپ کو ‪ 5‬الکھ حديثيں ياد تھيں‪ ،‬ان ميں سے ‪ 4800‬حديثوں ہی کو آپ نے اپنی سنن ميں شامل کيا ہے‪،‬‬
‫ سنن کی بھی علماء نے متعدد شروحات لکھی ہيں‪،‬‬
‫ سنن کے عالوه امام ابو داود کی بہت ساری تاليفات و تصنيفات بھی ہيں‬
‫علماء کے اقوال‬
‫ ابو حاتم رحمہ " فرماتے ہيں کہ ‪”:‬آپ حفظ کے اعتبار سے دنيا کے اماموں ميں سے ايک تھے“۔‬
‫ محمد بن مخلد رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ”ابوداؤد ايک الکھ حديثوں کا پورا مذاکره کيا کرتے‬
‫تھے‪ ،‬اور جب آپ نے سنن مرتب کی تو تمام اہل زمانہ نے آپ کے حفظ اور سبق ِ‬
‫ت علمی کا‬
‫اعتراف کيا“۔‬
‫ امام نووی رحمہ " فرماتے ہيں کہ ”جمہور علمائے اسالم کو ان کے کمال حفظ کا اعتراف ہے“۔‬
‫ حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی‪ ،‬اور ابراہيم الحرب رحمہما ( آپ کے بارے ميں فرماتے ہيں‬
‫کہ »اُلِين ألبي داود الحديث كما اُلِين لداود الحديد« يعنی ابوداود کے لئے حديث ويسے ہی نرم‬
‫اور ٓاسان بنادی گئی جيسے داود عليہ السالم کے لئے لوہا نرم کر ديا گيا‪،‬‬
‫ حافظ موسی بن ہارون رحمہ ( کہتے ہيں کہ خلق أبو داود في الدنيا للحديث وفي اآلخرة للجنة‬
‫وما رأيت أفضل منه "ابو داؤد دنيا ميں حديث کی خدمت کيلئے پيدا کئے گئے اور آخرت ميں‬
‫جنت کيلئے‪ ،‬ميں نے ان بہتر کسی کو نہيں ديکھا"‬
‫اخالق و کردار‬

‫ مسلم بن قاسم فرماتے ہيں کہ ” ٓاپ ثقہ اور زاہد تھے‪ ،‬حديث کے ماہر تھے‪،‬‬
‫اس فن ميں اپنے وقت کے امام تھے“۔‬

‫ٰ‬
‫وتقوی کے لئے يہ مثال ہی کافی ہے کہ ٓاپ اپنی ايک ٓاستين کو‬ ‫ آپ کے ورع‬
‫کشاده اور دوسری کو تنگ رکھا کرتے تھے‪ ،‬جب ٓاپ سے دريافت کيا گيا تو‬
‫فرمايا‪” :‬ايک ٓاستين تو اس لئے کشاده رکھتا ہوں کہ اس ميں اپنی کتاب کے‬
‫کچھ اجزاء رکھ لوں‪ ،‬اور دوسری کا کشاده رکھنا غير ضروری ہے“۔ يعنی‬
‫اسراف ہے‬
‫فقہی ذوق و بصيرت‬

‫ امام ابوداود کو جس طرح حديث ميں امامت کا درجہ مال ہے اسی طرح ٓاپ کو‬
‫فقہ و اجتہاد ميں بھی ايک امتيازی حيثيت حاصل ہے ‪،‬‬
‫ بعض علماء نے تو ٓاپ کو فقہ و اجتہاد ميں امام بخاری کے بعد دوسرا درجہ‬
‫ديا ہے‪ ،‬اور لکھا ہے کہ امام بخاری کے بعد امام ابواود کا مرتبہ سب سے بلند‬
‫ہے‪،‬‬

‫ ﷲ ٰ‬
‫تعالی قبوليت بخشے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے‬

‫رحمة ﷲ عليه رحمة واسعة‬

You might also like