Professional Documents
Culture Documents
اور ان کی خدمات
اصحاب کتب سته (
) اور ائمہ اربعہ
آپ نے کوفہ ،بصره اور بغداد کے بے شمار شيوخ سے علمی استفاده کيا اور حصول علم کے
ليے مکہ مکرمہ ،مدينہ منوره اور شام کے متعدد اسفار کيے۔
آپ کے زمانے ميں موجود صحابہ کرام
آپ نے خواب ميں ديکھا کہ آپ نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی قبر کھود
کر آپ کی مبارک ہڈيوں کو چاروں طرف پھينک رہے ہيں
ماہرين نے اس کی تعبير يہ بتائ کہ آپ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے علم
کی تحقيق کريں گے اور اس کو دنيا کے چاروں طرف پھيال ديں گے
اس خواب سے آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے آپ کو اس عظيم کام کيلئے
وقف کر ديا
حضرت امام ابوحنيفہ کے تالمذه
سيرت النبی صلی ﷲ عليہ وسلم" کے مصنف اول "عالمہ شبلی نعمانی" نے اپنی
مشہور ومعروف کتاب"سيرة النعمان" ميں لکھا ہے کہ امام ابوحنيفہ کے درس کا
خليفہ وقت کی حدو ِد حکومت بھي اس سے زياده وسيع نہ
ٔ حلقہ اتنا وسيع تھا کہ
تھيں۔
سيکﮍوں علماء ومحدثين نے امام ابوحنيفہ سے علمی استفاده کيا۔
علم فقہ ميں کمال حاصل کرنا
امام شافعی فرمايا کرتے تھے کہ” جو شخص ِ
چاہے اس کو امام ابوحنيفہ کے فقہ کا رخ کرنا چاہيے،
اور يہ بھی فرمايا کرتے تھے کہ اگر امام محمدرحمہ ﷲ )امام ابوحنيفہ کے
شاگرد( مجھے نہ ملتے تو شافعی ،شافعی نہ ہوتا؛ بلکہ کچھ اور ہوتا۔
امام ابوحنيفہ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذيل ہيں۔
امام ابويوسف، .1
امام محمد بن حسن الشيبانی، .2
امام زفر بن ہذيل، .3
يحيی بن سعيد القطان،
ٰ امام .4
يحيی بن زکريا،
ٰ امام .5
محدث عبد ﷲ بن مبارک، .6
امام وکيع بن الجراح، .7
داود الطائی وغيرھم رحمہم ﷲ ۔
اور امام ٔ .8
علم فقہ
عصر قديم وجديد ميں علم فقہ کی تعريف مختلف الفاظ ميں کی گئی ہے؛
خالصہ کالم يہ ہے کہ
ٔ مگر اُن کا
احکام شرعيہ کا جاننا فقہ کہالتا ہے۔
ِ قرآن وحديث کی روشنی ميں
احکام شرعيہ کو جاننے کے ليے سب سے پہلے قرآن کريم اور پھر
احاديث کی طرف رجوع کيا جاتا ہے۔
قرآن وحديث ميں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع اورقياس
کی طرف رجوع کيا جاتا ہے۔
فقہ کے تعلق سے ' امام ابوحنيفہ کا ايک اہم اصول وضابطہ
امام صاحب کا حافظہ بے حد قوی تھا ،جو چيز ايک بار ياد کر ليتے اسے بھولتے
نہيں تھے
امام مالک رحمہ ( کو بچپن سے ہی علم حديث کا بڑا شوق تھا ليکن وسعت نہ تھی
کہ باقاعده تعليم حاصل کرتے،
امام صاحب نے تعليم حاصل کرنے کے لئے گھر کی کڑياں تک کو بيج ديں اور اس
قدر علم حاصل کر ليا کہ مدينہ ميں بھکرا ہوا سارا علم آپ کے سينے ميں جمع ہو
گيا
آپ کے اساتذه
امام صاحب نے امام نافع اور امام زھری رحمھما ﷲ جيسے اکابر اہل علم سے استفاده کيا
ان کے عالوه
يحيی بن سعيد
ٰ .1
.2محمد بن منکدر
.3ہشام بن عروه
.4زيد بن اسلم
.5ربيعہ بن عبد الرحمن وغيرھم رحمھم ﷲ سے بھی آپ نے علم حديث حاصل کيا
آپ کے اساتذه کی تعداد 900تک پہنچتی ہے ،ان ميں سے 300سو تابعين 600تبع تابعين ہيں
آپ کے تالمذه
.1ليث بن سعد
.2ابن مبارک
.3امام شافعی
.4امام محمد بن حسن الشيبانی رحمھم ﷲ جيسے اکابرين آپ کے تالمذه ميں شامل ہيں،
• آئمہ اربعہ ميں صرف امام مالک رحمہ ( کو يہ امتياز حاصل ہے کہ انہوں
نے حديث کی کتاب مؤطأ کو مرتب کيا
• محدثين کے نزديک مؤطأ کو بخاری اور مسلم پر بھی فوقيت حاصل ہے،
شاه ولی ( محدث دہلوی رحمۃ ( عليہ مؤطأ کو تمام کتابوں ميں مقدم وافضل قرار ديتے
ہيں) ،حجة ( البالغة(
علماء کا يہ مشہور قول ہے کہ
اول كتاب وضع في اإلسالم مؤطأ مالك
" اسالم ميں سب سے پہلی تاليف کرده کتاب مؤطأ مالک ہے"
مؤطأ 130ھ اور 141ھ کے درميان تاليف ہوئی ہے،
مؤطأ کی کل روايات 1700ہيں جن کو 98صحابہ نے روايت کی ہے
مؤطا کے متعلق امام شافعی رحمۃ ( عليہ فرماتے ہيں کہ
ما على وجه األرض من كتاب بعد كتاب " أصح من مؤطأ أمام مالك بن أنس
"روئے زمين پر کتاب ( کے بعد مؤطا امام مالک سے بڑھ کر صحيح کتاب کوئی نہيں ہے "
وجہ تاليف مؤطأ
• خليفہ منصور نے ايک بار امام صاحب سے درخواست کی کہ ايک ايسی کتاب
مرتب کريں جس سے تمام لوگ فائده اٹھا سکيں ،جس ميں ابن عباس کی نرمی اور
ابن عمر کی سختی شامل نہ ہو "
" تجنب فيه رخص ابن عباس وشدائد ابن عمر و وطئه توطئة "
" اور اسے آسان و قابل عمل بنايا جائے"
• اسی لئے امام صاحب نے اس کا نام مؤطأ رکھا يعنی آسان راستہ
امام صاحب کے فتوے کا طريقہ کار
• امام شافعی رحمۃ ( عليہ فرماتے ہيں کہ" امام مالک رحمہ " ايک چمکتا ستاره ہيں
مجھے آپ کی علم پر بہت زياده اطمينان ہے،
• پھر فرمايا کہ اگر امام مالک رحمہ " کی کوئی حديث سنو تو دونوں ہاتھوں سے مضبوط
تھام لو
لو""
• امام سفيان رحمہ ( فرماتے ہيں کہ " رجال کی چھان بين ميں امام مالک سے بڑھ کر
کوئی نہيں"
• وہب بن خالد رحمہ ( فرماتے ہيں کہ" مشرق و مغرب ميں احاديث کے معاملے ميں امام
مالک سے زياده قابل اطمينان آدمی کوئی نہيں ہے"
رحمہ ( رحمۃ واسعة
بسم ( الرحمن الرحيم
امام شافعی رحمہ ﷲ
والدت 150 -ھ -وفات 204 -ھ
نام اور بچپن
آپ کا نام محمد بن ادريس ہے۔ قريشی النسب تھے، •
شافع ان کے جد اعلی کا نام تھا جن کی طرف نسبت سے آپ شافعی کہالئے۔ •
آپ کے والد پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ •
• دو سال کے تھے کہ والده انہيں يمن اپنے قبيلہ ازد ميں لے آئيں جہاں امام شافعی رحمہ (
نے اپنا بچپن گذارا۔
• آپ کی پرورش نہايت تنگدستی کی حالت ميں ہوئی ،مفلسی کے سبب ہڈيوں سے کاغذ کا
کام ليتے تھے
تعليم و تربيت
• سات سال کی عمر ميں قرآن پاک حفظ کيا اور دس سال ميں مؤطأ امام مالک ياد کرلی۔پھر
مکہ آگئے اور چچا محترم کے پاس ره کر علم االنساب اور ديگر علوم سيکھنا شروع کيا ۔
اساتذه
مفتئ مکہ مسلم بن خالد زنجی رحمہ ﷲ نے اس ذہين وذکی اور قوت حافظہ سے ماال مال
بچے کو تين برس تک اپنے علم فقہ وحديث سے مستفيد فرمايا۔
پھر آپ نے اپنے استاذ کا خط لے کر مدينہ امام مالک رحمہ ﷲ کی خدمت ميں حاضر ہوئے
جنہوں نے آپ کی گفتگو اور ذوق علمی سے متاثر ہو کر اپنے حلقہ علم ميں قبول فرماليا۔ اس
وقت آپ کی عمر صرف 13سال کی تھی،
آپ نے امام مالک کے حلقہ ميں امام مالک کی مؤطأ کو پوری کی پوری کتاب
زبانی سنا دی،
جس پر امام مالک رحمہ ﷲ متعجب ہو کر فرمايا کہ " تم تقوی کو الزم پکﮍو،
تعالی تمہيں بﮍی عظمت بخشے گا "ٰ ايک زمانہ آئے گا کہ ﷲ
آپ نے تين برس امام مالک رحمہ ﷲ کی خدمت ميں صرف کئے
اس دوران صحابہ کرام ،تابعين اور امام مالک رحمہ ﷲ کی فقہ کو اچھی طرح
سمجھا اور ياد کيا۔
مدينہ کے ديگر سرکرده علماء سے بھی استفاده کيا اور جرح وتعديل کے اصول
وقواعد کو بھی محفوظ کرتے گئے۔
امام مالک اور ديگر فقہائے مدينہ نے آپ کی قابليت کو جاننے کے بعد متفقہ
طور پر انہيں فتوی دينے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
آپ کا علم و ہنر
مدينہ سے اپنی تعليم کو ختم کرنے کے بعد آپ يمن تشريف لے گئے
يہاں قبيلہ ہذيل ميں ره کر تير اندازی ،لغت ،شاعری ،تاريخ ،انساب ،نحو اور علم فراست جيسے
علوم سيکھ کر ان ميں کمال حاصل کيا۔
دس ہزار اشعار غرائب سميت ياد کئے۔ عربی زبان ميں ايسا درک پايا کہ ماہرين لغت نے انہيں
امام اللغۃ و األدب کے خطاب سے نوازا،
آپ کو فن تاريخ اور ايام العرب سے بھی بخوبی شناسائی تھی اور علم طب پر گہری نظربھی ۔
علم فراست پربھی آپ مہارت رکھتے تھے۔
امام حميدی رحمہ ( کہتے ہيں ايک بار امام شافعی رحمہ ( کے ہمراه مکہ سے باہر وادی
بطحا ميں آيا ،وہاں ہميں ايک شخص مال۔ ميں نے امام شافعی رحمہ ( سے عرض کی کہ اپنی
فراست سے يہ بتائيے کہ اس شخص کا ذريعہ معاش کيا ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمايا :يہ شخص
بڑھئی يا درزی معلوم ہوتا ہے۔ حميدی رحمہ ( کہتے ہيں ميں نے واپس جاکر اس سے پوچھا
کہ تم کيا کرتے ہو؟ اس نے کہا :ميں پہلے بڑھئی تھا ليکن آج کل درزی کا کام کرتا ہوں۔
آپ وه واحد امام ہيں جو مکہ ،مدينہ ،يمن ،عراق ،شام ،مصر اور الجزائر کے علماء وفضالء
سے ملے اور ان سے فقہی واجتہادی مسائل پر استفاده کيا پھر عراق تشريف لے گئے۔
فکرميں تبديلی
آپ شروع ميں اہل الرائے پر سخت نکير کيا کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل عراق نے آپ
کو ناصر الحديث کا خطاب ديا۔
بغداد ميں قيام کے دوران اہل الرائے کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کيا
اور اس مطالعے نے آپ کی سوچ کو ايک اور رخ دے ديا،
پھر آپ نے سوچا کہ مدرسہ اہل الرائے اور مدرسہ اہل حديث کے درميان کيوں نہ ايک
درميانی راستہ نکاال جائے جس ميں نصوص سے وابستگی بھی ہو اور مناسب رائے کا عقلی
اظہار بھی۔
اس لئے جب امام محترم رحمہ ( مصر تشريف الئے تو انہوں نے اپنی
سابقہ فکر سے ہٹ کر نئے انداز سے اپنی کتب کو لکھنا شروع کيا ۔
جہاں جہاں آپ نے رائے کی ضرورت محسوس کی وہاں آپ نے رائے
کو استعمال کيا اور جہاں حديث کو بطور دليل پيش کرنے کی ضرورت
تھی وہاں اسے پيش کرديا۔
غرضيکہ جہاں جہاں انہوں نے دونوں مذاہب ميں کمی ديکھی اسے پورا
کرنے کی کوشش کی۔ اور عام متداول فقہی منہج سے ہٹ کر اسے ايک
نيا رخ دينے کی کوشش کی۔
آپ کی علمی خدمات
ٰ
اعلی ہيں ،آپ نے اصول فقہ ميں الرسالة نامی ايک کتاب تصنيف آپ اصول فقہ کے مؤسس
فرمائی جو اس ميدان ميں حجت اور مرجع کی حيثيت رکھتی ہے
اصول دين پر آپ کی 14کتابيں اور فروع دين ميں 100سے زياده کتابيں ہيں ،ان سب
کتابوں ميں آپ کی کتاب کتاب األم بہت مشہور ہے
امام شافعی رحمۃ ( عليہ 34سال کی عمر ميں امام محمد رحمہ ( کے حلقہ ميں داخل
ہوئے اور 30سال سے زياده آپ کے ساتھ رہے،
اس دوران آپ نے فقہ عراق ميں کمال حاصل کيا ،يہاں تک کہ آپ کو اس زمانے کا امام
الفقہ قرار ديا گيا
اسی لئے امام احمد بن حنبل رحمہ ( آپ کو دوسری صدی کا مجدد سمجھتے تھے
تالمذه
آپ کے تالمذه کی صحيح تعداد کا تعين کرنا تو مشکل ہے ،امام ابن حجر عسقالنی رحمہ " لکھتے ہيں :ان ميں امام ابوعبد "
الحميدی رحمہ " )م٢١٩ھ(مکہ کے رہنے والے ،حافظ حديث اور عظيم فقيہ ،امام شافعی رحمہ " کے سب سے بڑے
شاگردوں ميں سے تھے۔ ،جو امام بخاری رحمہ " کے استاذ ہيں،
ٰ
يحيی المصری)١۶۶۔(٢۴۴ ابوحفص حرملہ بن
سليمان بن داؤد الہاشمی)م٢١٩ھ(
ابوعلی حسن بن محمد زعفرانی)م٢۵٩ھ( پہلے کوفی فقہ پر عمل کرتے تھے بعد ميں امام محترم سے متاثر ہوکر امام شافعی
رحمہ " کے مستقل شاگرد بن گئے ان سے بہترفصيح اور لغت کا جاننے واال کوئی نہ تھا۔
ٰ
يحيی المزنی)١٧۵۔ (٢۶۴وسيع علم رکھتے تھے۔ زاہد ،عالم ،مجتہد ،مناظر اور مشکل علمی مباحث کو ابو ابراہيم اسمعيل بن
سلجھانے والے تھے۔ امام شافعی رحمہ " فرمايا کرتے تھے :اگر يہ شيطان سے بھی مناظره کريں تو غالب آئيں گے۔
اورآپ اپنی اصالح کے لئے مردوں کو لوجہ " نہاليا کرتے۔ کہا کرتے تھےکہ يہ ميں اس لئے کرتا ہوں تاکہ ميرے دل ميں
سختی نہ پيدا ہوجائے۔
ابومحمد الربيع بن سليمان بن عبد الجبار المرادی)م (٢٧٠:مصر کے ايک ثقہ عالم ،جنہوں نے امام شافعی رحمہ " کے بعد ان
کی جانشينی کی۔ انہيں امام شافعی رحمہ " نے فرمايا تھا :ربيع! تم ميری کتابوں کی اشاعت کروگے۔ ربيع فرماتے ہيں جو
ہمارے شيخ نے ہميں فرمايا وه حرف بحرف صحيح ہوا۔
فقہ شافعی ميں استدالل کی اصل حيثيت
ٰ
تعالی نے بچپن ميں امام مالک رحمہ ( نے آپ کو نصيحت کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ ""
تمہارے دل ميں ايک نور وديعت کيا ہے ،اس نور کی اچھی طرح حفاظت کرنا ،معصيت کر
کے اسے ضائع نہ کر دينا" إمام شافعی رحمہ ( نے اس بات کی ساری زندگی پابندی
کرتے رہے،
آپ کو علم کالم بلکل پسند نہيں تھا ،آپ فرماتے تھے کہ جو بھی اسے اپنا لباس بنايا وه
کبھی کامياب نہيں ہوا
آپ علم و فضل کے عالوه سخاوت ميں بھی آگے آگے تھے ،ايک مرتبہ آپ کے پاس 10
ہزار دينار تھے ،آپ نے وه سارے دينار آپ سے ملنے آنے والوں ميں تقسيم کر ديا
اکابرين کے اقوال
إمام أحمد بن حنبل رحمہ " فرماتے ہيں کہ "مجھے حديث ميں ناسخ
منسوخ ،خاص و عام ،مجمل و مفصل کا علم نہيں تھا ،يہ علم مجھے
امام شافعی رحمہ " کی صحبت سے ہی حاصل ہوا
ہوا""
وفات
امام ابن حجر عسقالنی لکھتے ہيں کہ امام شافعی رحمہ ( کو آخری عمر ميں بواسير کی
سخت شکايت ہوگئی تھی۔
ايک مشہور واقعہ يہ بھی بيان کيا جاتا ہے کہ فتيان بن ابی السمح جوانتہائی متعصب مالکی
تھے انہوں نے ايک مناظرے ميں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے
بعد ميں موقع پاکر رات کے اندھيرے ميں امام محترم کے سر پر لوہے سے دے مارا جس سے
امام محترم کا سر پھٹ گيا۔ طبيعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکليف نے مزيد نڈھال کرديا۔
دوسری طرف مالکی فقيہ اشہب بن عبد العزيز مسلسل سجده ميں آپ کے لئے بددعا کرتا رہا
کہ ٰالہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا
علم ہوا تو فی البديہہ دو اشعار کہے:
ُت َف ِت ْلکَ َس ِبي ْـــــ ٌل َلسْ ُ
ت ِف ْي َہا ِب ْاو َح ِد ُـــــوت َفانْ ام ْ َ َت َمــ ٰ ّنی ِر َجا ٌل ِبا نْ ام
اعیْ َع َلیَّ ِب َم ْخ َل ِدت َما الــ َّد ِ ــد َعلِمُوا َلو َي ْن َفــــ ُع ْال ِع ْل ُم ِع ْن َدہُ ْم َل ِئـــنْ ِم ُّ
َ◌و َق ْ
• "لوگ تمنا کرتے ہيں کہ ميں مرجاؤں۔ اگر ميں مر بھی گيا تو يہ راه
ايسی ہے جس کا راہی صرف ميں نہيں ہوں۔
• اگران کا علم نفع بخش ہےتو انہيں معلوم ہوگا کہ ميں اگر مر بھی گيا تو
مجھے بددعا دينے واال بھی باقی رہنے واال نہيں۔
آپ کی طبيعت جب بہت زياده بگڑی تو پاس بيٹھے شاگرد امام مزنی رحمہ ( نے خيريت دريافت کرتے ہوئے
ِين؟ استاذوں کے استاذ! آپ کا دن کيسے گذرا؟ جواب ميں فرماتے ہيں: ْت َيا استا َذ االستاذ َ عرض کیَ :کي َ
ْف ا ْم َسي َ
ار ًباَ ،و ٰ ّ
"ِ الَ ِ َ
ش ۃ
ِ ي
َّ ِ
ن م
َ ْ
ل ا س
ُ ْ َأ
ک َ ل و
َ ًا،
د ار
ِ و
َ "
ِ ّ ٰ
ئ أَ ْف َعالِی ُم َالقِ ًياَ ،و َع َلی سو ِ ار ًقاَ ،و ِب ُان ُم َف ِ ِإلخ َو ِ ت مِنَ ال ُّد ْن َيا َرا ِحالً َفل ْ أَ ْ
ص َب ْح ُ
ار َفأ ُ َع ِّز ْي َہا۔
أَدْ ِر ْی أَنَّ ُروح ِْی َيصِ ي ُر إِلَی ا ْل َج َّن ِۃ َفأ ُ َھ ِّن ُئ َہا أَ ْو إِلَی ال َّن ِ
"آج ميں دنيا سے رخصت ہونے واال ہوں ،اور اپنے بھائيوں کو چھوڑنے واال ہوں۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی
سزا بھی پانے واال ہوں اور ( بزرگ وبرتر کی بارگاه ميں پيش ہونے واال بھی ہوں اور موت کا پيالہ ابھی پينے
واال ہوں۔ و( ! ميں نہيں جانتا آيا ميری روح جنت ميں جائے گی کہ ميں اسے مبارک باد دوں يا اس کا مقام دوزخ
ہے کہ ميں اس کی تعزيت کروں۔"
نماز مغرب سے فراغت کے بعد ليٹے ہی تھے کہ نزع کی کيفيت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاه
ٰالہی ميں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر ُدعا
مانگی۔ ُدعا سے فارغ ہو کرليٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترم رحمہ (
خدمت دين سے بھرپور اپنی يہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی سے کوچ کر گئے۔
إنا
وإنا إليه راجعون
رحمہ " رحمۃ واسعۃ۔ آمين
بسم ( الرحمن الرحيم
إمام أحمد بن حنبل رحمہ "
والدت 164ھ -وفات 241ھ
• امام صاحب سے حديث روايت کرنے والوں ميں خود آپ کے فرزندان عبدﷲ
اور صالح اور چچا زاد بھائی حنبل اور اسحاق بھی شامل ہيں
علمی خدمات
امام احمد رحمہ ( نے حضرت امام شافعی رحمۃ ( عليہ سے جو کچھ بھی سيکھا اس
ميں آپ نے مہارت حاصل کی،
باآلخر امت مسلمہ کے نامور مجتھد ہوئے ،آپ کی فقہ آج بھی زنده ہے
آپ کی تاليفات ميں مسند احمد کو خاص شہرت و مقام حاصل ہے
اس مجموعے ميں 30ہزار سے زياده حديثيں نقل کی گئی ہيں
حنبل بن اسحاق رحمہ ( کا بيان ہے کہ امام احمد رحمہ ( نے اس مجموعے ميں 7الکھ
سے بھی زياده حديثوں کے ذخيره ميں سے صرف 30ہزار احاديث کو ہی منتخب کيا
ہے ،تاکہ مسلمانوں ميں اس کا ايک معيار قائم ہو،
اس مجموعے ميں 700صحابہ کی روايات شامل ہيں ) طبقات شافعيہ کبری(
يہ حديث کا سب سے بڑا مجموعہ ہے جس ميں 300ثالثی روايات موجود ہيں
حافظ ابن حجر کے نزديک مسند کی ساری حديثيں صحيح ہيں سوائے تين
حديثوں کے ،جو سہواً نکلنے سے ره گئيں
مسند کے عالوه بھی آپ کی بہت ساری کتابيں مشہور ہيں
آپ کا طريقہ بھی يہی تھا کہ جب کسی مسئلے ميں صريح نص موجود ہو تو کسی کے
اختالف کی ہرگز پرواه نہ کی جائے
.10عبد ( بن زبير،
.11حميدی رحمہم (
بﮍے بﮍے اہل علم اور مشاہير وقت محدثين آپ کے شاگردوں ميں شامل ہيں،
جيسے امام مسلم، .1
ابو زرعہ، .2
ابو حاتم، .3
إمام ترمذی، .4
محمد بن نصر، .5
ابن خزيمہ، .6
محمد بن نصر مروزی، .7
ابو عبدﷲ الضريری، .8
إمام نسائی رحمہم ﷲ وغيره امام بخاری سے روايت کرتے ہيں، .9
ان کے عالوه امام صاحب سے 90ہزار لوگوں نے براه راست بخاری شريف کی سماعت
کی اور امال بھی کيا،
علم حديث سے آپ کا شغف
محمد بن ابی حاتم ،وراق بخاری ،اور محمد بن يوسف فربری اپنا چشم ديد واقعہ بيان کرتے
ہيں کہ امام بخاری ايک رات ميں 15 ،15اور 20،20مرتبہ آٹھ کر چراغ روشن کرتے،
حديث کا مطالعہ کرتے اور سو جاتے تھے
علمی خدمات
يوں تو امام بخاری نے بہت سی کتابيں لکھی ہيں جو ان کے علم و فضل کا شاہکار ہيں
ليکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ صحيح بخاری ہے،
صحيح بخاری 16سال کی مدت ميں مکمل ہوئی ،آپ نے اس کو نبی صلی ( عليہ وسلم
کی قبر انور اور منبر کے درميان بيٹھ کر لکھا ہے،
آپ خود اس کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ"جعلته حجة في ما بيني و بين ""
ٰ
تعالی کے درميان حجت بنايا ہے ميں نے اس کتاب کو اپنے اور (
امام بخاری نے 208صحابہ سے روايت کی ہے
آپ کو ايک الکھ حديثيں ياد تھيں ،بعض نے کہا کہ آپ کو 6الکھ حديثيں ياد تھيں مگر آپ
نے بخاری شريف ميں صرف 7275حديثوں کو جمع کيا ہے
ان ميں سے مکررات کو حذف کرنے کے بعد صرف 4ہزار حديثيں رہتی ہيں،
بخاری شريف کی خصوصيت يہ ہے کہ وه بيک وقت حديث کی کتاب بھی ہے اور اصول و
عقائد ،اسالمی معاشرت ،فقہ ،تفسير ،اور سيرت کی انسائيکلوپيڈيا بھی ہے،
آپ کی اس شاہکار کتاب کو اصح الكتاب بعد كتاب " "کتاب ( کے بعد صحيح ترين
کتاب" سے بھی ياد کيا جاتا ہے
علمائے حديث نے مختلف ادوار ميں اس عظيم کتاب کی اب تک 53شرحيں لکھی ہيں
وجہ تاليف بخاری
ايک مرتبہ آپ کے استاد اسحاق بن راہويہ نے يہ خواہش ظاہر کی کہ ايک ايسی کتاب
ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا جس ميں تمام معتبر اور مستند حديثوں کو يکجا کر ديا جاتا تاکہ
طالب علم اپنی تعليم کو بآسانی مکمل کر سکے ،
آپ فرماتے ہيں ،فوقع ذلك في قلبي"،اس وقت يہ بات ميرے دل ميں بيٹھ گئی"
ايک دوسری وجہ يہ بھی ہے کہ آپ نے نبی صلی ( عليہ وسلم کو خواب ميں ديکھا کہ
آپ کے ہاتھ ميں ايک پنکھا ہے جس کے ذريعے سے نبی صلی ( عليہ وسلم کے چہرے
سے مکھياں اڑا رہے ہيں،
ماہرين نے اس کی تفسير يہ بتائی کی کہ آپ صحيح حديثوں کو جھوٹی حديثوں سے پاک
کريں گے،
اس خواب کے بعد آپ کا شوق اور بھی بڑھ گيا،
آپ کا اخالق و کردار
ٰ
اعلی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ بے حد متقی آپ علم و فضل ميں ايک منفرد اور
اور پرہيزگار بھی تھے
حد درجے محتاط اور محل تہمت سے بھی دور رہنے والے تھے
ايک واقعہ
اس سلسلے ميں ايک واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ ايک مرتبہ آپ سمندری سفر پر تھے ،ايک شخص سے آپ کی
اچھی دوستی ہو گئی ،آپ کے پاس ايک ہزار اشرفيوں کی تھيلی تھی ،اس شخص پر بھروسہ کی وجہ سے بتا
ديا کہ آپ کے پاس کتنا مال ہے ،اس شخص کی نيت خراب ہو گئی ،اور اس مال کو ہڑپنے کيلئے چال يہ چلی
کہ دوسرے دن صبح سويرے چالنے لگا ،رونے پيٹنے لگا کہ اس کی ايک ہزار اشرفيوں سے بھری تھيلی کھو
گئی ہے ،جہاز والوں نے سب کی تالشی لينی شروع کی تو آپ نے آہستہ سے اپنی تھيلی سمندر ميں پھينک ديا،
جب کہيں سے تھيلی نہيں ملی تو اس شخص کو سب نے برا بھال کہا اور چلے گئے ،جہاز سے اترنے کے بعد
اکيلے ميں اس شخص نے امام صاحب پوچھا کہ آپ نے اپنی تھيلی کا کيا کيا؟
آپ نے جواب ديا کہ سمندر ميں پھينک ديا،
وه شخص بڑا حيران ہوا اور کہنے لگا کہ اتنی بڑی رقم کو ضائع کرنے کيلئے دل کيسے گوارا کيا؟
آپ نے فرمايا کہ کيا تمہيں خبر نہيں کہ ميری ساری دولت ميری ثقاہت ہے ،اس ميں سرقہ کا اشتباه کيسے
گوارا کيا جا سکتا ہے ،جس ثقاہت کو ميں نے تمام عمر حاصل کيا اسے چند اشرفيوں کی وجہ سے کيسے
داغ دار ہونے ديتا؟
علماء کرام کے اقوال
امام احمد بن حنبل رحمہ ( کہتے ہيں کہ خراسان ميں بخاری جيسا کوئی پيدا نہيں ہوا،
امام دارمی رحمہ ( کہتے ہيں کہ امام بخاری سب سے بڑے عالم ،سب سے بڑھ کر فقيہ
اور علم کيلئے سب سے زياده جفاکش ہيں
امام ترمذی فرماتے ہيں کہ اسانيد و علل ميں امام بخاری سے بڑھ کر ميں نے کسی کو نہ
پايا،
امام مسلم فرماتے ہيں کہ ان کے جيسا دنيا ميں کوئی نہيں ہے،
ابن خزيمہ فرماتے ہيں کہ آسمان کے نيچے امام بخاری سے بڑھ کر عالم حديث کسی کو
نہيں ديکھا،
تعالی قبول فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے ( ٰ
رحمہ " رحمۃ واسعة
بسم " الرحمن الرحيم
آپ کا نام مسلم بن الحجاج مسلم القشيری ہے ،اور کنيت ابو الحسين،
إمام مسلم نے حصول علم حديث کيلئے عراق ،حجاز ،مصر ،شام وغيره کا سفر کيا،
آپ کے اساتذه
• آپ کے اساتذه کی تعداد بہت بڑی ہے ،ان ميں سے مشہور علمائے حديث
ٰ
يحيی نيشاپوری، ٰ
يحيی بن .1
.2قتيبہ بن سعيد،
.3اسحاق بن راہويہ،
.4امام ذہلی محمد بن مہران،
.5امام احمد بن حنبل،
.6عبد ( بن مسلمہ،
.7امام بخاری،
.8عبد ( بن مسلمہ العبنی،
.9سعيد بن منصور،
.10ابو مصعب رحمہم ( جيسے اکابرين اہل علم اور مشائخ شامل ہيں
آپ کے تالمذه
امام مسلم ايک جليل القدر محدث تھے ،جن کا شمار علم حديث کے ائمہ ميں ہوتا ہے،
آپ نے بغداد ميں حديث کا درس شروع کيا تو ايک بڑی تعداد نے آپ سے حديث کی
سماعت بھی کی اور امال بھی کيا،
آپ کو حديث کی صحت اور سقم پہچاننے ميں خاص امتياز حاصل تھا،
آپ کی تصنيفات بہت ہيں ،آپ نے علم حديث کے مختلف عناوين پر قلم اٹھايا اور اس ميں
مکمل کامياب ہوئے ،ان تمام کتابوں ميں آپ کی شاہکار کتاب مسلم شريف ہے
جامع صحيح مسلم
اس کتاب کے بارے ميں حافظ أبو علی نيشاپوری رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ما تحت أديم السماء أصح من
كتاب مسلم في علم الحديث "علم حديث ميں مسلم سے بڑھ کر صحيح کتاب آسمان کے نيچے کوئی نہيں ہے"
اس کتاب کو امام مسلم نے 15سالوں ميں مکمل کيا ہے،
اس ميں شک نہيں کہ مسلم شريف فن حديث کے عجائبات پر مشتمل ہے،
روايتوں کی تربيت ،تلخيص طرق ،ضبطِ انتشار ،اور صحيح اسانيد کے اعتبار سے صحيح مسلم کا درجہ
صحيح بخاری سے بھی بڑھ جاتا ہے،
امام مسلم فرماتے ہيں کہ" ميں نے اپنی کتاب ميں 3الکھ حديثوں ميں سے منتخب شده صرف 4ہزار
حديثوں کو ہی شامل کيا ہے"،
پھر فرماتے ہيں کہ "ميں نے اپنی کتاب ميں صرف صحيح حديثوں کو ہی جمع کيا ہے مگر ميں يہ نہيں کہتا
کہ جن حديثوں کو ميں نے چھوڑ دی ہے وه ساری ضعيف ہيں "
آپ نے جن صحابہ کرام سے روايت کی ہے ان کی مجموعی تعداد 218ہے
امام مسلم نے اپنی کتاب ميں صرف ان حديثوں کو جگہ دی ہے جس کے راوی امام مسلم سے
ليکر نبی صلی " عليہ وسلم تک ہر دور اور طبقے ميں کم از کم 2اشخاص رہے ہوں ،يعنی
ايک حديث کو کم از کم دو صحابہ نے اور ان سے دو تابعی نے اور پھر ان سے دو تبع تابعين
نے يہاں تک کہ امام مسلم سے دو راويوں نے روايت کی ہو،
امام مسلم کے نزديک راوی کيلئے صرف عادل ہونا کافی نہيں ہے ،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
اس کا شہادت کی تمام شرطوں پر پورا اترنا بھی ضروری ہے،
امام مسلم نے ہر ايک حديث کيلئے ايک مناسب مقام تجويز کيا ہے پھر اسی جگہ پر اس
حديث کے متعلق تمام طريقوں اور اس کے مختلف الفاظ کو جمع کر ديا ہے ،اس سے طالب
علم کيلئے بڑی سہولت پيدا ہو گئی ہے،
اسی وجہ سے امام مسلم کے ہم عصر تمام اہل علم ان کے فضل و شرف کی گواہی ديتے ہيں،
" ٰ
تعالی شر ِ
ف قبوليت بخشے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے آمين
بسم " الرحمن الرحيم
حديث کی طلب ميں امام ترمذی کوفہ ،بصره ،رے ،خراسان اور حجاز ميں
سالوں سفر کرتے رہے ہيں،
امام ترمذی کی قوت حافظہ کے بارے ميں بہت سے واقعات مشہور ہيں ،اگر
ايک بار کوئی حديث آپ سن ليتے تو پھر اسے کبھی نہيں بھولتے،
علمی خدمات
جامع ترمذی آپ کی ايک مقبول ترين تاليف ہے،محدثين کے نزديک يہ ايک اہم کتاب ہے،
اس کتاب کی چند خصوصيات ہيں جس کی وجہ سے يہ دوسری کتابوں پر فوقيت رکھتی ہے،
اس کتاب ميں امام ترمذی حديث کی حيثيت کا بھی ذکر کرتے ہيں کہ وه مشہور ہے يا متواتر يا آحاد ہے،
حديث کو نقل کرنے کے بعد اس حديث سے ماخوذ مسائل ،فقہاء کے اختالفات اور ان کے طريقہ استدالل
کو بھی ذکر کرتے ہيں،
ہر حديث کے بعد راوی کے درجات کو بھی ذکر کرتے ہيں کہ يہ ضعيف ہے يا قوی ،اسی کے اعتبار سے
حديث پر حکم لگاتے ہيں کہ يہ صحيح ہے يا حسن ہے يا غريب ،منکر ،ضعيف و معلل ہے،
امام ترمذی کا بيان ہے کہ انہوں اپنی کتاب ميں کوئی ايسی حديث نہيں لی ہے جس پر کسی نہ کسی کا عمل
نہ ہو،
اہل علم نے جامع ترمذی کے بارے فرمايا ہے کہ من كان في بيته ھذا الكتاب فكأنما في بيته نبي يتكلم
"جس گھر ميں يہ کتاب ہوگی گويا اس کے گھر نبی ہے جو ان سے گفتگو کرتا ہے "
اخالق و کردار
امام ترمذی نہايت متقی اور پرہيز گار انسان تھے ( ،کا خوف آپ پر اس قدر غالب تھا کہ رو
رو کر آپ کی بينائی چلی گئی،
تعليمی اسفار
آپ نے طلب علم کيلئے عراق ،خراسان ،مصر ،شام ،حجاز ،الجزائر وغيره کا
سفر کيا ،اور ہر عالقے کے تمام علماء سے خوب سيرابی حاصل کی،
آپ کے اساتذه
امام ابو داؤد کے بھی بہت سارے اساتذه ہيں ان ميں سے مشہور اساتذه کے نام يہ ہيں،
.1مسلم بن ابراہيم،
.2سليمان بن حرب،
ٰ
يحيی بن معين، .3
.4عثمان بن ابی شيبہ،
.5قتيبہ بن سعيد ،رحمہم ( رحمة واسعة
ابن حجر رحمہ " کے اندازے کے مطابق امام ابو داؤد کے اساتذه کی تعداد 300سے
زائد ہے،
آپ کے تالمذه
آپ کی علمی خدمات بہت ساری ہيں مگر سب سے مشہور و معروف آپ کی تاليف سنن ابی داؤد ہے،
آپ نے اس کتاب ميں صحيح يا حسن سے کم درجہ کی حديث نہيں لی،
اس کتاب ميں ايک ثالثی بھی ہے
امام احمد بن حنبل رحمہ ( کے سامنے يہ کتاب پيش کی گئی تو آپ نے اسے بہت پسند فرمايا،
ابن عربی رحمہ ( فرماتے ہيں کہ" اگر کسی کے پاس قرآن اور يہ کتاب موجود ہو تو پھر اسے
ضروريات دين کو جاننے کيلئے کسی اور چيز کی حاجت نہيں ہے"،
آپ کو 5الکھ حديثيں ياد تھيں ،ان ميں سے 4800حديثوں ہی کو آپ نے اپنی سنن ميں شامل کيا ہے،
سنن کی بھی علماء نے متعدد شروحات لکھی ہيں،
سنن کے عالوه امام ابو داود کی بہت ساری تاليفات و تصنيفات بھی ہيں
علماء کے اقوال
ابو حاتم رحمہ " فرماتے ہيں کہ ”:آپ حفظ کے اعتبار سے دنيا کے اماموں ميں سے ايک تھے“۔
محمد بن مخلد رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ”ابوداؤد ايک الکھ حديثوں کا پورا مذاکره کيا کرتے
تھے ،اور جب آپ نے سنن مرتب کی تو تمام اہل زمانہ نے آپ کے حفظ اور سبق ِ
ت علمی کا
اعتراف کيا“۔
امام نووی رحمہ " فرماتے ہيں کہ ”جمہور علمائے اسالم کو ان کے کمال حفظ کا اعتراف ہے“۔
حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی ،اور ابراہيم الحرب رحمہما ( آپ کے بارے ميں فرماتے ہيں
کہ »اُلِين ألبي داود الحديث كما اُلِين لداود الحديد« يعنی ابوداود کے لئے حديث ويسے ہی نرم
اور ٓاسان بنادی گئی جيسے داود عليہ السالم کے لئے لوہا نرم کر ديا گيا،
حافظ موسی بن ہارون رحمہ ( کہتے ہيں کہ خلق أبو داود في الدنيا للحديث وفي اآلخرة للجنة
وما رأيت أفضل منه "ابو داؤد دنيا ميں حديث کی خدمت کيلئے پيدا کئے گئے اور آخرت ميں
جنت کيلئے ،ميں نے ان بہتر کسی کو نہيں ديکھا"
اخالق و کردار
مسلم بن قاسم فرماتے ہيں کہ ” ٓاپ ثقہ اور زاہد تھے ،حديث کے ماہر تھے،
اس فن ميں اپنے وقت کے امام تھے“۔
ٰ
وتقوی کے لئے يہ مثال ہی کافی ہے کہ ٓاپ اپنی ايک ٓاستين کو آپ کے ورع
کشاده اور دوسری کو تنگ رکھا کرتے تھے ،جب ٓاپ سے دريافت کيا گيا تو
فرمايا” :ايک ٓاستين تو اس لئے کشاده رکھتا ہوں کہ اس ميں اپنی کتاب کے
کچھ اجزاء رکھ لوں ،اور دوسری کا کشاده رکھنا غير ضروری ہے“۔ يعنی
اسراف ہے
فقہی ذوق و بصيرت
امام ابوداود کو جس طرح حديث ميں امامت کا درجہ مال ہے اسی طرح ٓاپ کو
فقہ و اجتہاد ميں بھی ايک امتيازی حيثيت حاصل ہے ،
بعض علماء نے تو ٓاپ کو فقہ و اجتہاد ميں امام بخاری کے بعد دوسرا درجہ
ديا ہے ،اور لکھا ہے کہ امام بخاری کے بعد امام ابواود کا مرتبہ سب سے بلند
ہے،
ﷲ ٰ
تعالی قبوليت بخشے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے
تعليمی اسفار
آپ نے کوفہ ،بصره ،بغداد ،مکہ ،شام ،رے اور مصر کا سفر کيا وہاں کے کبار علماء
سے سير حاصل استفاده فرمايا،
آپ کے اساتذه
ابن ماجہ رحمہ ( کی خدمات کو امت مسلمہ کبھی فراموش نہيں کر سکتی،
آپ نے درس و تدريس اور تاليف و تصنيف دونوں ذرائع سے علم حديث کی خوب خدمت
کی ہے،
خاص طور پر آپ کی سنن ابن ماجہ حديث کی کتابوں ميں معروف کتاب ہے،
اس کتاب ميں 5ثالثی احاديث بھی موجود ہيں،
اس کتاب کو اکثر علماء اور محدثين نے صحاح ستہ ميں شمار کيا ہے،
اس کتاب ميں ايک موضوع حديث بھی داخل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بعض علماء
اس کتاب کو صحاح ستہ ميں شامل نہيں کرتے ہيں،
ابن ماجہ رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ميں نے اس کتاب کو حافظ ابو زرعہ رحمہ ( کے
سامنے پيش کی تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب ميں ضعيف حديثيں 30سے زياده نہيں ہيں،
حافظ ذھبی رحمہ ( اس کتاب کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ "اگر اس کتاب سے چند
کمزور حديثوں کو نکال ديا جائے تو يہ بہت ہی عمده کتاب ہے،
حسن ترتيب اور عدم تکرار کے لحاظ سے دوسری کتابوں کے مقابلے
ِ سنن ابن ماجہ کو
ميں امتياز حاصل ہے،
ابن حجر رحمہ ( لکھتے ہيں کہ يہ کتاب بہترين ،جامع اور بکثرت ابواب و نوادر پر
مشتمل ہے،
سنن ابن ماجہ کی تربيت و تبويب فقہی مسائل کے لحاظ سے ہے،
اس کتاب ميں بہت سی ايسی نادر روايتيں پائی جاتی ہيں جو دوسری صحاح
خمسہ ميں موجود نہيں ہيں،
بڑے بڑے علماء کرام نے اس کتاب پر مختلف طريقوں سے کام کيا ہے
علماء کے اقوال
بچپن ميں مقامی علماء سے ضروری علم کو حاصل کرنے کے بعد 15سال کی عمر
علم حديث کی طرف متوجہ ہوئے،
ميں ِ
اس کام کے لئے سب سے پہلے قتيبہ بن سعيد رحمہ ( کی خدمت ميں حاضر ہوئے،
اور 14ماه تک آپ سے استفاده کرتے رہے ،
تعليمی اسفار
تعليمی سلسلے کو آگے بڑھانے کيلئے آپ نے خراسان ،حجاز ،عراق ،شام ،مصر،
الجزيره وغيره کا سفر کيا،
آپ کے اساتذه
حضرت قتيبہ بن سعيد رحمہ " کے عالوه امام نسائی رحمہ ( نے بہت سارے مشائخ سے سماعت حديث
کی ،ان ميں سے بعض مشہور علماء کے نام يہ ہيں،
امام بخاری، .1
ھناد بن سسری، .2
محمد بن بشار، .3
يونس بن عبد االعلی، .4
اسحاق بن راہويہ، .5
محمد بن نصر، .6
محمد بن غيالن، .7
ابو داؤد سليمان بن اشعث، .8
ابو زرعہ رازی، .9
.10ابو حاتم رازی،
.11علی بن حجر وغيرھم رحمہم "
آپ کے تالمذه
امام نسائی کے تالمذه کی تعداد بہت زياده ہے ،ان ميں بڑے ہی مشہور تالمذه
.1عبد الکريم،
.2ابو علی حسن بن خضر سيوطی،
.3ابو بکر احمد بن اسحاق،
.4حافظ أبو القاسم طبرانی،
.5ابو جعفر طحاوی،
.6احمد بن محمد مھندس،
قابل ذکر ہيں،
وغيرھم رحمہم ( ِ
علمی خدمات
فن حديث اور علل پر کئی کتابيں لکھيں ہيں ،
امام نسائی رحمہ ( نے ِ
آپ نے سب سے پہلے سنن کبری کی تاليف کی ،امير وقت نے آپ سے پوچھا کہ ،کيا اس کتاب کی ساری
حديثيں صحيح ہيں؟ آپ نے جواب ديا کہ نہيں ،بعض صحيح ہيں اور بعض حسن ہيں،
اس پر امير نے درخواست کی کہ ميرے لئے ايک ايسی کتاب مرتب کريں جس کی ساری حديثيں صحيح
ٰ
مجتبی بھی کہتے ہيں، ٰ
صغری تاليف کی ،جس کو سنن ہوں ،اس کے جواب ميں آپ نے سنن
ان کے عالوه بھی آپ کی بہت ساری کتابيں ہيں ،ليکن ان تمام کتابوں ميں سب سے زياده مشہور و
معروف آپ کی سنن نسائی ہے،
سنن نسائی کے تعلق سے حافظ ومحدث ابو الحسن معافری فرماتے ہيں کہ جس حديث کی تخريج امام
نسائی نے کی ہو وه حديث صحت سے زياده قريب ہو جاتی ہے ،اسی لئے بعض مغاربہ سنن نسائی کو
صحيح بخاری پر ترجيح ديتے ہيں،
امام موصوف نے اس کتاب کے تراجم کو امام بخاری کے طرز پر قائم کئے ہيں ،اس لئے اس کی اہميت
اور بھی بڑھ جاتی ہے،
علماء کے اقوال
امام ابو القاسم سعد بن علی زبخانی کہتے ہيں کہ "راويوں کے بارے ميں امام
نسائی کی شرائط بخاری و مسلم سے بھی زياده سخت ہيں"
امام دار قطنی رحمہ ( فرماتے ہيں کہ "امام نسائی اپنے زمانے کے تمام
محدثين ميں بلند مقام رکھتے تھے،
تھے""،
حافظ ابو علی نيشاپوری رحمہ ( فرماتے ہيں کہ "امام نسائی کو بغير کسی
تقابل کے حديث ميں امامت کا درجہ حاصل ہے"
حافظ شمس الدين ذھبی سير اعالم النبالء ميں لکھتے ہيں کہ "امام نسائی
علل حديث اور علم الرجال ميں مسلم ،ترمذی اور ابو داؤد سے بھیحديثِ ،
زياده مہارت رکھتے ہيں،
اخالق و کردار
آپ بہت ہی اونچے اخالق کے مالک تھے ،متقی اور پرہيز گار بھی تھے،
آپ صوم داؤد عليہ السالم کی پابندی کرتے تھے يعنی ايک دن روزه رکھتے
اور ايک دن افطار کرتے تھے ،
آپ حق کے معاملے ميں کسی کی پرواه نہيں کرتے تھے،
اہل بيت کی اہميت
آپ نے ديکھا کہ بنو اميہ کی حکومت ميں حضرت علی رضی " عنہ اور ِ
ب اہل بيت پر ايک کتاب تاليف کی اور اسے مسجد ميں ميں کمی آ رہی ہے تو آپ نے مناق ِ
پڑھنا شروع کيا ،ايک شخص نے پوچھا کہ کيا آپ نے امير معاويہ رضی " عنہ کے مناقب
پر بھی کتاب لکھی ہے؟ آپ نے کہا کہ "امير معاويہ رضی " عنہ کے مناقب سے مجھے
انکار نہيں ہے مگر حضرت علی رضی " عنہ کے مقابلے ميں اس کی اتنی اہميت نہيں
ہے…يہ سننا تھا کہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے اور مار مار کر جان نکال دی،
إنا
وإنا إليه راجعون
مقام رملہ ميں سپرد خاک کر ديا گيا
آپ کو بيت المقدس سے 18ميل دور ِ
رحمہ " رحمۃ واسعة
تعالی قبول فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے " ٰ
ض ٰى َنحْ َب ُه َو ِم ْنھُم مَّن صدَ ُقوا َما َعا َھ ُدوا َّ َ
( َع َل ْي ِه ۖ َف ِم ْنھُم مَّن َق َ ين ِر َجا ٌل َ ِم َن ْالم ُْؤ ِم ِن َ
َين َت ِظ ُر ۖ َو َما َب َّدلُوا َت ْب ِد ً
يال
"ايمان والوں ميں ايسے بھی لوگ موجود ہيں جنہوں نے ( سے کئے ہوئے عہد
کو سچ کر دکھايا ،ان ميں سے کچھ تو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ اپنی باری
کے منتظر ہيں ،انہوں نے اپنے رويے کو بالکل بھی نہيں بدال") ،االحزاب (23
( ٰ
تعالی ہم سب کو انہيں کے نقش قدم پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے ،آمين
ثم آمين
و آخر دعوانا أن الحمد رب العالمين