You are on page 1of 116

‫مشہور ائمہ حديث‬

‫اور ان کی خدمات‬
‫اصحاب کتب سته (‬
‫) اور ائمہ اربعہ‬

‫بشير عبد المجيد عمری‬


‫بسم " الرحمن الرحيم‬
‫ دين کے خادموں اور محدثين کرام کی فہرست بہت لمبی ہے‪ ،‬يہاں صرف دس ہستيوں کا تذکره کيا جاتا‬
‫ہے جن کی خدمات کو کبھی نظرانداز نہيں کيا جاسکتا‪،‬‬
‫ يہ دين کے ايسے خادم ہيں جن کے احسانات سے ہم کبھی سبکدوش نہيں ہو سکتے‬
‫ ہمارے علماء کرام نے بالترتيب انہيں اس طرح ذکر کيا ہے‬
‫‪ .1‬امام ابو حنيفہ رحمہ ﷲ‬
‫‪ .2‬أمام مالک بن انس رحمہ ﷲ‬
‫‪ .3‬امام شافعی رحمہ ﷲ‬
‫‪ .4‬امام احمد بن حنبل رحمہ ﷲ‬
‫‪ .5‬امام بخاری رحمہ ﷲ‬
‫‪ .6‬امام مسلم رحمہ ﷲ‬
‫‪ .7‬امام ترمذی رحمہ ﷲ‬
‫‪ .8‬امام ابو داود رحمہ ﷲ‬
‫‪ .9‬امام ابن ماجہ رحمہ ﷲ‬
‫‪ .10‬امام نسائی رحمہ ﷲ‬
‫امام ابو حنيفہ رحمہ "‬

‫‪6‬‬ ‫نام اور خاندان‬


‫ " آپ کا نام نعمان" اور کنيت "ابوحنيفہ" ہے۔‬
‫ والدت ‪ ٨٠‬ھ ميں عراق کے شہر کوفہ ميں ہوئی۔‬
‫ آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا‬
‫ آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعيان واشراف ميں بﮍی فہم وفراست کے‬
‫مالک تھے۔‬
‫ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ايک عالقہ کے حاکم تھے۔‬
‫تعليم وتربيت‬
‫ آپ نے زندگی کے ابتدائی ايام ميں ضروری علم کی تحصيل کے بعد تجارت شروع کی؛ ليکن آپ‬
‫علم حديث کی معروف شخصيت شيخ عامر شعبی کوفی رحمہ ( )‪17‬‬ ‫کی ذہانت کو ديکھتے ہوئے ِ‬
‫ب رسول صلی ( عليہ وسلم کی زيارت کا شرف‬ ‫ھ ‪ 103 -‬ھ( ‪-‬جنہيں پانچ سو سے زياده اصحا ِ‬
‫حاصل ہے‪ -‬نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزيد علمی کمال حاصل کرنے کا مشوره ديا؛ چنانچہ آپ‬
‫نے امام شعبی کے مشوره پر علم کالم‪ ،‬علم حديث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ايسا‬
‫کمال پيدا کيا کہ علمی وعملی دنيا ميں "امام اعظم" کہالئے۔‬

‫ آپ نے کوفہ‪ ،‬بصره اور بغداد کے بے شمار شيوخ سے علمی استفاده کيا اور حصول علم کے‬
‫ليے مکہ مکرمہ‪ ،‬مدينہ منوره اور شام کے متعدد اسفار کيے۔‬
‫آپ کے زمانے ميں موجود صحابہ کرام‬

‫آپ کے زمانے ميں چار صحابی موجود تھے‬


‫کوفہ ميں حضرت عبد( بن ابی اوفی رضی ( عنہ‬ ‫‪1.‬‬
‫بصره ميں حضرت انس بن مالک رضی ( عنہ‬ ‫‪2.‬‬
‫مدينہ منوره ميں حضرت سہيل بن سعد الساعدی رضی ( عنہ‬ ‫‪3.‬‬
‫مکہ مکرمہ ميں حضرت ابو طفيل عامر بن واثلہ رضی ( عنہ‬ ‫‪4.‬‬
‫مگر ان ميں سے کسی بھی صحابی سے امام صاحب کی مالقات ثابت نہيں ہے‬
‫امام صاحب کے اساتذه‬
‫ امام صاحب کے زمانے ميں شہر کوفہ علم و عرفان کا مرکز رہا ہے‪ ،‬حضرت عمر رضی " عنہ نے اس شہر کو‬
‫بسانے کے بعد وہاں کی تعليم و تربيت کی ذمہ داری حضرت عبد" بن مسعود رضی " عنہ کو دی تھی‪،‬‬
‫ اس موقع پر حضرت عمر رضی " عنہ نے اہل کوفہ کو لکھا تھا کہ " ابن مسعود کی مجھے خود کو بھی يہاں‬
‫مدينہ ميں بہت ضرورت تھی مگر ميں نے تمہاری ضرورت کو مقدم رکھ کر انہيں آپ لوگوں کے لئے بھيج رہا‬
‫ہوں"‬
‫ حضرت ابن مسعود رضی " عنہ نے علم کی اس قدر خدمت کی کہ حضرت علی رضی " عنہ جب کوفہ پہونچے تو‬
‫پکار اٹھے " خدا ابن مسعود رضی " عنہ کا بھال کرے کہ انہوں نے اس بستی کو علم سے بھر ديا"‬
‫ حضرت ابن مسعود رضی " عنہ نے حضرت علی رضی " عنہ کے دور ميں باقاعده مدرسے کی شکل ميں تعليم‬
‫شروع کی‪ ،‬يہاں سے آپ کے شاگردوں ميں بڑے نامور ائمہ پيدا ہوئے‪ ،‬انہيں ميں سے حضرت شريح‪ ،‬حضرت‬
‫علقمہ‪ ،‬اور حضرت مسروق رحمھم " جيسے قابل ذکر ائمہ کرام شامل ہيں‬
‫ پھر اس منصب امامت پر حضرت ابراہيم نخعی رحمہ " اور ان کے بعد حضرت حماد رحمہ " فائز ہوئے‪،‬‬
‫ امام ابو حنيفہ رحمہ " نے امام حماد کی شاگردی اختيار کی‪ ،‬آپ کی وفات تک پورے ‪ 18‬سال آپ کے ساتھ‬
‫استفاده کرتے رہے‪،‬‬
‫ آپ حضرت حماد رحمہ ﷲ کے خاص شاگردوں ميں سے‬
‫تھے‪ ،‬حضرت حماد آپ کو آپ کی قابليت اور زہانت کی وجہ‬
‫بے حد عزيز رکھتے تھے‪ ،‬اس سلسلے ميں حضرت حماد‬
‫رحمہ ﷲ کے فرزند فرماتے ہيں کہ "ايک بار ميرے والد‬
‫صاحب سفر پر گئے ہوئے تھے جب سفر سے واپس ہوئے تو‬
‫ميں نے خير خيريت کے بعد پوچھا کہ ابا جان آپ کو اس سفر‬
‫کے دوران سب سے زياده کس کی ياد آ رہی تھی؟ ميں‬
‫سمجھتا تھا کہ ابا جان ميرا نام ليں گے مگر انہوں نے ابو‬
‫حنيفہ کا نام ليا اور کہا کہ" ميرے بس ميں ہوتا تو ايک پل‬
‫کے لئے بھی ميں ابو حنيفہ سے جدا نہ ہوتا"‬
‫ امام ابو حنيفہ کا علم صرف حضرت حماد تک محدود نہيں تھا بلکہ انہوں نے‬
‫مختلف اساتذه سے استفاده کيا ہے‪،‬‬
‫ علم حديث ميں امام صاحب کے اساتذه کی تعداد ‪ 4‬ہزار ہے جن سے آپ نے حديث‬
‫لی ہے‪ ،‬ان ميں سے ‪ 2‬ہزار اساتذه امام حماد کے ذريعے سے ہيں اور باقی ‪ 2‬ہزار‬
‫دوسرے مشائخ ہيں‬
‫ايک واقعہ‬
‫ايک مرتبہ خليفہ منصور نے پوچھا کہ آپ نے کس کس سے علم حاصل کيا ہے؟ آپ‬
‫نے جواب ديا کہ "عن حماد عن إبراھيم عن عمر بن الخطاب وعن على بن أبى طالب‬
‫وعن عبدﷲ بن مسعود وعن عبدﷲ بن عباس رضي ﷲ عنھم"‬
‫آپ نے فرمايا " حضرت حماد سے انہوں نے حضرت ابراہيم نخعی سے انہوں نے‬
‫عمربن الخطاب‪ ،‬نيز علی بن ابی طالب ‪ ،‬عبدﷲ بن مسعود اور عبدﷲ بن عباس رضی‬
‫ﷲ عنہم سے"‬
‫دوسرا واقعہ‬
‫ايک بار خليفۃ منصور کے دربار ميں پہونچے تو وہاں عيسی بن موسی رحمہ ﷲ بھی‬
‫موجود تھے‪ ،‬منصور نے امام صاحب کا تعارف کراتے ہوئے فرمايا کہ يہ شخص‬
‫زمانے کا يکتا عالم ہے ‪ ،‬پھر امام سے پوچھا کہ" نعمان بتاؤ کہ تمھارے اساتذه کون‬
‫کون ہيں؟ امام صاحب نے بتايا کہ‬
‫عن اصحاب عمر عن عمر وعن أصحاب على عن على بن أبى طالب‪ ،‬وعن أصحاب‬‫"عن‬‫"‬
‫عبدﷲ عن عبد ﷲ‪ ،‬وما كان في وقت ابن عباس على األرض أعلم منه"‬
‫" وه اصحاب عمر ہيں جنہوں نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ سے تعليم حاصل کی تھی‪ ،‬نيز وه‬
‫اصحاب علی رضی ﷲ عنہ ہيں جنہوں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے تعليم حاصل کی تھی اور‬
‫وه اصحاب عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ بھی ہيں جنہوں نے حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ‬
‫سے تعليم حاصل کی تھی‪ ،‬اس زمانے ميں ساری زمين پر حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ‬
‫سے بﮍھ کر علم واال شخص کوئی نہيں تھا"‬
‫ امام صاحب کے اساتذه کوفہ کے عالوه حجاز ميں بھی‬
‫موجود تھے ‪،‬‬
‫کيونکہ جب جب بھی آپ حج کيلئے جاتے وہاں کے تمام‬
‫اساتذه سے ضرور استفاده فرماتے‬

‫ شيخ عبد الحق محدث دہلوی نے امام صاحب کے اساتذه‬


‫کی تعداد جن سے آپ نے مختلف علوم کو حاصل کيا ہے‬
‫‪ 400‬بتائ ہے )شرح سفر السعادة(‬
‫امام صاحب کا زخيرۀ علم حديث‬
‫ حضرت عمر بن عبد العزيز رحمہ " کے خاص اہتمام سے اسالمی تاريخ ميں وقت کے دو جيد محدِّ ث شيخ‬
‫ابوبکر بن الحزم رحمہ " )متوفی ‪١٢٠‬ھ( اور محمد بن شہاب ُزہری رحمہ " )متوفی ‪١٢۵‬ھ( کی زير نگرانی‬
‫احادي ِ‬
‫ث رسول کو کتابی شکل ميں جمع کيا گيا ۔‬
‫ث نبويہ کے اس ذخيره کی سند ميں عموما ً دو راوی تھے ايک صحابی اور تابعی‪ ،‬بعض احاديث صرف ايک‬
‫ احادي ِ‬
‫سند يعنی صحابی سے مروی تھيں۔‬
‫ ان احاديث کے ذخيره ميں ضعيف يا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہيں تھا۔‬
‫ نيز يہ وه مبارک دور تھا‪ ،‬جس ميں اسماء الرجال کا علم باضابطہ وجود ميں نہيں آيا تھا اور نہ اس کی ضرورت‬
‫صحابہ کرام اور تابعين عظام يا پھر تبع تابعين حضرات تھے اور ان‬
‫ٔ‬ ‫ث رسول بيان کرنے والے‬ ‫تھی؛ کيونکہ حدي ِ‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے قرآن کريم سور ٔه التوبہ آيت نمبر ‪ ١٠٠‬ميں فرمايا ہے۔‬ ‫کی امانت وديانت اور تقوی ٰ کا ذکر "‬
‫ حضرت امام ابوحنيفہ رحمہ " کو انھيں احاديث کا ذخيره مال تھا؛‬
‫مسائل‬
‫ِ‬ ‫قرآن کريم اور احاديث کے اس ذخيره سے استفاده فرماکر ام ِ‬
‫ت مسلمہ کو اس طرح‬ ‫ِ‬ ‫ چنانچہ انہوں نے‬
‫شرعيہ سے واقف کرايا کہ ‪ 1400‬سال گزرجانے کے بعد بھی تقريبا ً ‪ 75‬فيصد امت مسلمہ آج تک بھي اس پر‬
‫عمل پيرا ہے‬
‫ امام ابوحنيفہ کو احاديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم صرف دو واسطوں )صحابی اور تابعی( سے‬
‫ملی ہيں؛ ۔ دو واسطوں سے ملی احاديث کو احاديث ثنائی کہا جاتا ہے‪ ،‬جو سند کے اعتبار سے‬
‫ب حديث ميں ‪ ٢‬واسطوں کی کوئی بھی‬ ‫اعلی قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری وديگر کت ِ‬
‫ٰ‬ ‫حديث کی‬
‫حديث موجود نہيں ہے‪ ٣ ،‬واسطوں والی يعنی احاديث ثالثيات بخاری ميں صرف ‪ ٢٢‬ہيں‪ ،‬ان ميں‬
‫سے ‪ ٢٠‬احاديث امام بخاری نے امام ابوحنيفہ کے شاگردوں سے روايت کی ہيں۔‬

‫امام صاحب کی علمی خدمات‬


‫امام صاحب اپنے استاد حماد کے انتقال کے بعد ان کے جانشين مقرر ہوئے‪ ،‬اس مسند پر امام صاحب‬
‫‪ 30‬سال تک درس و تدريس اور افتاء کا کام انجام ديتے رہے‪ ،‬اس مدت ميں انہوں نے ‪ 60‬ہزار اور‬
‫بعض لوگوں کے بقول ‪ 83‬ہزار قانونی مسائل کے جوابات دئے‪ ،‬قانونی مسائل کے عالوه مجموعی‬
‫مسائل کی تعداد ‪ 12‬الکھ ‪ 70‬ہزار سے زائد ہے‬
‫امام صاحب کا خواب‬

‫ آپ نے خواب ميں ديکھا کہ آپ نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی قبر کھود‬
‫کر آپ کی مبارک ہڈيوں کو چاروں طرف پھينک رہے ہيں‬
‫ ماہرين نے اس کی تعبير يہ بتائ کہ آپ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے علم‬
‫کی تحقيق کريں گے اور اس کو دنيا کے چاروں طرف پھيال ديں گے‬
‫ اس خواب سے آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے آپ کو اس عظيم کام کيلئے‬
‫وقف کر ديا‬
‫حضرت امام ابوحنيفہ کے تالمذه‬
‫ سيرت النبی صلی ﷲ عليہ وسلم" کے مصنف اول "عالمہ شبلی نعمانی" نے اپنی‬
‫مشہور ومعروف کتاب"سيرة النعمان" ميں لکھا ہے کہ امام ابوحنيفہ کے درس کا‬
‫خليفہ وقت کی حدو ِد حکومت بھي اس سے زياده وسيع نہ‬
‫ٔ‬ ‫حلقہ اتنا وسيع تھا کہ‬
‫تھيں۔‬
‫ سيکﮍوں علماء ومحدثين نے امام ابوحنيفہ سے علمی استفاده کيا۔‬
‫علم فقہ ميں کمال حاصل کرنا‬
‫ امام شافعی فرمايا کرتے تھے کہ” جو شخص ِ‬
‫چاہے اس کو امام ابوحنيفہ کے فقہ کا رخ کرنا چاہيے‪،‬‬
‫ اور يہ بھی فرمايا کرتے تھے کہ اگر امام محمدرحمہ ﷲ )امام ابوحنيفہ کے‬
‫شاگرد( مجھے نہ ملتے تو شافعی‪ ،‬شافعی نہ ہوتا؛ بلکہ کچھ اور ہوتا۔‬
‫امام ابوحنيفہ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذيل ہيں۔‬
‫امام ابويوسف‪،‬‬ ‫‪.1‬‬
‫امام محمد بن حسن الشيبانی‪،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫امام زفر بن ہذيل‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫يحيی بن سعيد القطان‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫امام‬ ‫‪.4‬‬
‫يحيی بن زکريا‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫امام‬ ‫‪.5‬‬
‫محدث عبد ﷲ بن مبارک‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫امام وکيع بن الجراح‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫داود الطائی وغيرھم رحمہم ﷲ ۔‬
‫اور امام ٔ‬ ‫‪.8‬‬
‫علم فقہ‬

‫عصر قديم وجديد ميں علم فقہ کی تعريف مختلف الفاظ ميں کی گئی ہے؛‬
‫خالصہ کالم يہ ہے کہ‬
‫ٔ‬ ‫مگر اُن کا‬
‫احکام شرعيہ کا جاننا فقہ کہالتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ قرآن وحديث کی روشنی ميں‬
‫ احکام شرعيہ کو جاننے کے ليے سب سے پہلے قرآن کريم اور پھر‬
‫احاديث کی طرف رجوع کيا جاتا ہے۔‬
‫ قرآن وحديث ميں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع اورقياس‬
‫کی طرف رجوع کيا جاتا ہے۔‬
‫فقہ کے تعلق سے ' امام ابوحنيفہ کا ايک اہم اصول وضابطہ‬

‫ت نبوی کو اختيار کرتا ہوں‪،‬‬


‫ آپ فرمايا کرتے تھے "کہ ميں سب سے پہلے کتاب ﷲ اور سن ِ‬
‫صحابہ کرام کے‬
‫ٔ‬ ‫ جب کوئی مسئلہ کتاب ﷲ اور سنت رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ميں نہيں ملتا تو‬
‫اقوال واعمال کو اختيار کرتا ہوں۔‬
‫ٰ‬
‫فتاوی کے ساتھ اپنے اجتہاد وقياس پر توجہ ديتا ہوں۔‬ ‫ اس کے بعد دوسروں کے‬
‫ايک سوال‬
‫ کسی نے آپ سے سوال کيا کہ قياس سب سے پہلے ابليس نے کيا تھا؟‬
‫ اس کے جواب ميں امام صاحب نے فرمايا کہ ابليس نے ﷲ کے حکم کو ٹھکرانے کے لئے کيا تھا‬
‫مگر ہم اس لئے قياس کرتے ہيں کہ اسے قرآن و حديث کے تابع کريں‪،‬‬
‫ يہ اصول و ضوابط اس مشہور حديث کی اتباع ميں ہے جس ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫نے حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ کو وصيت فرمائی تھی۔‬
‫شاه ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ ﷲ عليہ فرماتے ہيں کہ‬

‫صحابی رسول حضرت عبدﷲ بن مسعود پر‬


‫ِ‬ ‫ "فقہ حنفی کا مدار‬
‫ہے‬
‫ اور اس کی بنياد وه احاديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ہيں جن‬
‫کو حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ روايت کرتے ہيں‪،‬‬
‫فتاوی‪ ،‬حضرت علی رضی ﷲ عنہ‬ ‫ٰ‬ ‫ اس کے ساتھ ساتھ ان کے‬
‫ٰ‬
‫فتاوی‬ ‫ٰ‬
‫فتاوی و فيصلے ‪ ،‬قاضی شريح اور قضاة کوفہ کے‬ ‫کے‬
‫پر ہے ۔‬
‫امام صاحب کے دروس کتابی شکل ميں‬
‫ امام ابوحنيفہ نے دوران ِدرس جو احاديث بيان کی ہيں انھيں شاگردوں نے " َح ﱠدثَنَا"‬
‫اور "اَ ْخبَ َرنَا" وغيره الفاظ کے ساتھ جمع کرديا۔‬
‫ امام ابوحنيفہ کے درسی افادات کا نام "کتاب اآلثار" ہے‪ ،‬جو دوسری صدی ہجری‬
‫ميں مرتب ہوئی‪ ،‬اس زمانہ تک کتابوں کی تاليف بہت زياده عام نہيں تھی۔‬
‫ "کتاب اآلثار"اس دور کی پہلی کتاب ہے جس نے بعد کے آنے والے محدثين کے‬
‫ليے ترتيب وتبويب کے رہنما اصول فراہم کيے۔‬
‫ عالمہ شبلی نعمانی نے "کتاب اآلثار"کے متعدد نسخوں کی نشاندہی کی ہے؛ ليکن‬
‫عام شہرت چار نسخوں کو حاصل ہے۔‬
‫ ان نسخوں ميں سے امام محمد کی روايت کرده کتاب ہے جس کو سب سے زياده‬
‫شہرت ومقبوليت حاصل ہوئی۔‬
‫ مشہور محقق عالم موالنا عبدالرشيد نعمانی نے "کتابُ اآلثار"‬
‫کے مقدمہ ميں قوی روايتوں کی روشنی ميں لکھا ہے کہ کتاب‬
‫اآلثار برا ِه راست امام ابوحنيفہ کی تاليف ہے‪ ،‬امام محمد‪ ،‬امام‬
‫ابويوسف‪ ،‬امام زفررحمہ ﷲ وغيرہم اس کے راوی ہيں۔‬
‫ کتابُ اآلثار" بہ روايت امام محمد رحمہ ﷲ‬
‫ " کتابُ اآلثار" بہ روايت قاضی ابويوسف‪ ،‬رحمہ ﷲ‬
‫ "کتابُ اآلثار" بہ روايت امام زفر‪ ،‬رحمہ ﷲ‬
‫ "کتابُ اآلثار" بہ روايت امام حسن بن زياد رحمہ ﷲ‬
‫مسانيد امام ابوحنيفہ‬

‫ علماء کرام نے امام صاحب کی ‪ 15‬مسانيد شمار کی ہيں‬


‫‪ ،‬جس کی متعدد شروحات بھی لکھی گئيں ہيں۔‬
‫ اس سلسلہ ميں سب سے بﮍا کارنامہ ملک شام کے امام‬
‫ابوالموائد خوارزمی رحمہ ﷲ کا ہے جنہوں نے تمام‬
‫مسانيد کو بﮍی ضخيم کتاب ميں "جامع المسانيد"کے نام‬
‫سے جمع کيا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫تقوی‬ ‫امام صاحب کا‬
‫ٰ‬
‫وتقوی اور عبادت‬ ‫ کتاب وسنت کی تعليم اور فقہ کی تدوين کے ساتھ ساتھ امام صاحب نے زہد‬
‫ميں بھی اپنی پوری زندگی بسر کی‪،‬‬
‫تعالی کے سامنے رونے‪ ،‬نفل نماز پﮍھنے اور تالوت قرآن ميں گزارديا‬
‫ٰ‬ ‫ رات کا بيشتر حصہ ﷲ‬
‫کرتے تھے۔‬
‫ذريعہ معاش کے ليے آپ نے ريشم‬
‫ٔ‬ ‫ذريعہ معاش نہيں بنايا‪ ،‬بلکہ‬
‫ٔ‬ ‫ آپ نے علم دين کی خدمت کو‬
‫بنانے اور ريشمی کپﮍے تيار کرنے کا بﮍا کارخانہ بنايا تھا جس سے آپ کو کافی منافع مل رہا‬
‫تھا ۔‬
‫ امام صاحب کا تعلق بﮍے ہی خوشحال گھرانے سے تھا اس ليے آپ لوگوں کی خاص طور سے‬
‫اپنے شاگردوں کی بہت مدد کيا کرتے تھے۔‬
‫ آپ نے اپنی زندگی ميں ‪ ۵۵‬حج ادا کيے۔‬
‫ آپ بﮍے ہی قادر الکالم تھے مگر ال يعنی باتوں خاص طور پر تفرقہ بازی کو تقويت پہنچانے‬
‫والی باتوں سے بہت زياده اجتناب فرماتے تھے‪،‬‬
‫ ايک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور حضرت معاويہ رضی ﷲ عنہ کے‬
‫لﮍائيوں کے بارے ميں آپ کی کيا رائے ہے؟‬
‫آپ نے فرمايا بھائی مجھے اس بات کا ڈر لگا ہوا ہے کہ قيامت کے دن مجھ سے کن کن باتوں پر‬
‫پوچھا جائے گا ‪ ،‬اور مجھے اس بات کا يقين ہے کہ ان واقعات کے بارے ميں مجھ سے نہيں پوچھا‬
‫جائے گا ‪،‬‬
‫ آپ کی پرہيز گاری کا يہ عالم تھا کہ تجارتی مال بازار بھيجتے تو تاکيد کرتے کہ عيب دار مال کو‬
‫اس کا عيب بتا کر فروخت کرے مگر ايک روز مالزم کو ياد نا رہا اس نے عيب بتائے بغير‬
‫فروخت کرکے آ گيا‪ ،‬جب آپ کو پتہ چال تو اس مال کی ساری قيمت ‪ 35‬ہزار درہم کو ﷲ کی راه‬
‫ميں صدقہ کر ديا ‪،‬‬
‫ اس سے بھی حيران کن بات يہ ہے کہ جو بھی آپ سے اپنا مال فروخت کرنے آتا اور اس کو اس‬
‫کی صحيح قيمت معلوم نہيں ہوتی اور وه اس کی اصل قيمت سے کم قيمت ميں فروخت کرنے کی‬
‫بات کرتا تو اس کو اس کی صحيح قيمت بھی بتاتے اور اسی اعتبار سے اس کی قيمت بھی ادا‬
‫کرتے ‪،‬‬
‫تعالی قبول فرمائے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے‬ ‫ﷲ ٰ‬
‫امام صاحب کی شان ميں بعض علماء امت کے اقوال‬
‫‪ .1‬امام علی بن صالح )متوفی ‪١۵١‬ھ( نے امام ابوحنيفہ کی وفات پر فرمايا‪ :‬عراق کا مفتی اور فقيہ گزر‬
‫گيا۔ )مناقب ذہبی ص ‪(١٨‬‬
‫‪ .2‬امام مسعر بن کدام )متوفی ‪١۵٣‬ھ( فرماتے تھے کہ کوفہ کے دو شخصيتوں کےسوا کسی اور پر‬
‫رشک نہيں آتا۔ ايک امام ابوحنيفہ اور ان کا فقہ‪ ،‬دوسرے شيخ حسن بن صالح اور ان کا زہد وقناعت۔‬
‫)تاريخ بغداد ج ‪ ١۴‬ص ‪(٣٢٨‬‬
‫‪ .3‬ملک شام کے فقيہ ومحدث امام اوزاعی )متوفی ‪ ١۵٧‬ھ(فرماتے تھے کہ امام ابوحنيفہ پيچيده مسائل کا‬
‫حل سب اہل علم سے زياده جاننے والے تھے۔ )مناقب کردی ص ‪(٩٠‬‬
‫‪ .4‬امام سفيان ثوری )متوفی ‪١۶٧‬ھ( کے پاس ايک شخص امام ابوحنيفہ سے مالقات کرکے آيا۔ امام‬
‫سفيان ثوری نے فرمايا تم روئے زمين کے سب سے بﮍے فقيہ کے پاس سے آرہے ہو۔ )الخيرات‬
‫الحسان ص ‪(٣٢‬‬
‫‪ .5‬امام مالک بن انس )متوفی ‪١٧٩‬ھ( فرماتے ہيں کہ ميں نے ابوحنيفہ جيسا انسان نہيں ديکھا۔ )الخيرات‬
‫الحسان ص ‪(٢٨‬‬
‫‪ .6‬امام وکيع بن الجراح )متوفی ‪ ١٩۵‬ھ( فرماتے ہيں کہ امام ابوحنيفہ سے بﮍا فقيہ‬
‫کسی اور کو نہيں ديکھا۔‬
‫‪ .7‬امام سفيان بن عينيہ )متوفی ‪١٩٨‬ھ( فرماتے تھے کہ ميری آنکھوں نے ابوحنيفہ‬
‫جيسا انسان نہيں ديکھا۔‬
‫‪ .8‬دو چيزوں کے بارے ميں ميرا خيال تھا کہ وه شہر کوفہ سے باہر نہ جائيں گی؛‬
‫مگر وه زمين کے آخری کناروں تک پہنچ گئيں۔ ايک امام حمزه کی قرأت اور‬
‫دوسری ابوحنيفہ کا فقہ۔ )تاريخ بغداد۔ ج‪ ١٣‬ص ‪(٣۴٧‬‬
‫‪ .9‬امام شافعی )متوفی ‪٢٠۴‬ھ( فرماتے ہيں کہ ہم سب علم فقہ ميں امام ابوحنيفہ کے‬
‫محتاج ہيں۔ جو شخص علم فقہ ميں مہارت حاصل کرنا چاہے وه امام ابوحنيفہ کا‬
‫محتاج ہوگا۔ )تاريخ بغداد ج ‪ ٢٣‬ص ‪(١۶١‬‬
‫‪ .10‬امام بخاری کے استاذ امام مکی بن ابراہيم فرماتے ہيں کہ امام ابوحنيفہ پرہيزگار‪،‬‬
‫عالم آخرت کے راغب اور اپنے معاصرين ميں سب سے بﮍے حافظ حديث تھے۔‬
‫)مناقب االمام ابی حنيفہ ۔‬
‫ﷲ نے امام صاحب کے علوم کو قبول حسن عطا فرمايا‬
‫ حضرت امام ابوحنيفہ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت کے قرآن وحديث وفقہ کے‬
‫دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کرديا‪،‬‬
‫ خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابويوسف عباسی حکومت ميں قاضی القضاة کے عہده پر فائز ہوئے‬
‫تو انہوں نے قرآن وحديث کی روشنی ميں امام ابوحنيفہ کے فيصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو‬
‫متعارف کرايا؛‬
‫ چنانچہ چند ہی سالوں ميں فقہ حنفی دنيا کے کونے کونے ميں رائج ہوگيا اور اس کے بعد يہ سلسلہ‬
‫برابر جاری رہا حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت ميں مذہب ابی حنيفہ کو سرکاری حيثيت دے دی گئی؛‬
‫ چنانچہ آج ‪ 1400‬سال گزرجانے کے بعد بھی تقريبا ً ‪ ٧۵‬فيصد امت مسلمہ اس پر عمل پيرا ہے اور اب‬
‫تک امت مسلمہ کی اکثريت امام ابوحنيفہ کی قرآن وحديث کی تفسير وتشريح اور وضاحت وبيان پر ہی‬
‫عمل کرتی چلی آرہی ہے۔‬
‫ ہندوستان‪ ،‬پاکستان‪ ،‬بنگلہ ديش اور افغانستان کے مسلمانوں کی بﮍی اکثريت جو دنيا ميں مسلم آبادی کا‬
‫‪ 20‬فيصد سے زياده ہے‪ ،‬اسی طرح ترکی اور روس سے الگ ہونے والے ممالک نيز عرب ممالک کی‬
‫ايک جماعت قرآن وحديث کی روشنی ميں امام ابوحنيفہ کے ہی فيصلوں پر عمل پيرا ہيں۔‬
‫ حضرت امام ابوحنيفہ کی شخصيت پر جتنا کچھ مختلف زبانوں خاص کر عربی زبان ميں تحرير کيا‬
‫گيا ہے وه عموما ً دوسرے کسی محدث يا فقيہ يا عالم پر تحرير نہيں کيا گيا۔‬
‫ يہ امام ابوحنيفہ کی علمی وعملی خدمات کے قبول ہونے کی روشن عالمت ہے۔‬
‫ حضرت امام ابوحنيفہ کی شخصيت کے مختلف پہلوں پر جو کتابيں تحرير کی گئی ہيں‪،‬ان ميں سے‬
‫بعض کے نام حسب ذيل ہيں۔‬
‫‪ .1‬شيخ جالل الدين سيوطی کی کتاب"تبييض الصحيفة فی مناقب االمام ابی حنيفہ"‪،‬‬
‫مناقب االمام االعظم‪ :‬شيخ مال علی قاری )متوفی ‪١٠١۴‬ھ(‬ ‫‪.2‬‬
‫‪ .3‬ترجمة االمام االعظم ابی حنيفة النعمان بن ثابت‪ :‬امام خطيب بغدادی )متوفی ‪٣٩٢‬ھ(‬
‫‪ .4‬تحفة السلطان فی مناقب النعمان ‪ :‬شيخ قاضی محمد بن الحسن بن کاس ابوالقاسم ) متوفی ٰ ‪٣٢۴‬ھ(‬
‫‪ .5‬عقود المرجان فی مناقب ابی حنيفہ النعمان‪ :‬شيخ ابوجعفر احمد بن محمد مصری الطحاوی‬
‫‪ .6‬عقود الجمان فی مناقب االمام االعظم ابو حنيفة النعمان‪ :‬شيخ محمد بن يوسف صالحی )متوفی‬
‫‪٩۴٣‬ھ(‬
‫‪ .7‬عقود الجمان فی مناقب االمام االعظم ابو حنيفة النعمان‪ :‬رسالہ مقدمہ لنيل درجة المانجستر ۔ مولوی‬
‫محمد مال عبد القادر االفغانی‬
‫‪ .8‬اخبار ابی حنيفة واصحابہ‪ :‬شيخ قاضی ابی عبد ﷲ حسين بن علی الصيمری )متوفی ‪۴٣۶‬ھ(‬
‫‪ .9‬فضائل ابی حنيفة واخباره ومناقبہ ‪ :‬شيخ ابو القاسم عبد ﷲ بن محمد)المعروف ب ابی عوام( متوفی‬
‫‪٣٣٠‬ھ‬
‫‪ .10‬االنتقاء )ايک باب( ‪ :‬حافظ ابن عبدالبر‬
‫‪ .11‬شقائق النعمان فی مناقب ابی حنيفة النعمان‪ :‬جار ﷲ ابو القاسم الزمخشری )متوفی ‪۵٣٨‬ھ(‬
‫‪ .12‬الخيرات الحسان فی مناقب االمام االعظم ابی حنيفة النعمان‪ :‬شيخ مفتی الحجاز شيخ شہاب الدين احمد‬
‫بن حجر ہيتمی مکی )متوفی ‪٩٧٣‬ھ(‬
‫‪ .13‬کتاب منازل االئمة االربعة‪ :‬امام ابو زکريا يحی بن ابراہيم ) متوفی ‪۵۵٠‬ھ(‬
‫‪ .14‬مناقب االمام ابی حنيفة وصاحبيہ ابی يوسف ومحمد بن الحسن‪ :‬امام حافظ ابی عبد ﷲ محمد بن احمد‬
‫عثمان ذہبی )متوفی ‪٧۴٨‬ھ(‬
‫‪ .15‬کتاب مکانة االمام ابی حنيفہ فی علم الحديث‪ :‬شيخ محمد عبدالرشيد النعمانی الہندی۔‬
‫‪ .16‬تحقيق شيخ عبدالفتاح ابوغده‬
‫‪ .17‬ابوحنيفہ النعمان وآرائہ الکالميہ‪ :‬شيخ شمس الدين محمد عبداللطيف مصری‬
‫‪ .18‬ابوحنيفہ النعمان )امام االئمہ الفقہاء(‪ :‬شيخ وہبی سليمان غاوجی‬
‫‪ .19‬مناقب االمام االعظم ابی حنيفة )الجزء االول والثانی(‪ :‬موفق بن احمد المکی ‪ ،‬محمد بن محمد بن‬
‫شہاب ابن البزار الکردی ۔‬
‫‪ .20‬ائمة الفقہ االسالمی‪ :‬ابوحنيفہ‪ ،‬شافعی‪ ،‬مالک‪ ،‬ابن حنبل‪ :‬شيخ نوح بن مصطفی رومی حنفی‬
‫‪ .21‬مناقب االمام االعظم ابی حنيفہ‪ :‬شيخ موفق بن احمد الخوارزمي‬
‫‪ .22‬الجواہر المضيئة فی تراجم الحنفيہ‪ :‬شيخ عبدالقادر القرشی‬
‫‪ .23‬حياة ابی حنيفہ‪ :‬شيخ سيد عفيفی‬
‫‪ .24‬نشر الصحيفة فی ذکر الصحيح من اقوال ائمة الجرح والتعديل فی ابی حنيفة‪ :‬شيخ ابی عبد الرحمن‬
‫مقبل بن ہاوی الوادی )متوفی ‪١۴٢٢‬ھ(‬
‫‪ .25‬تحفة االخوان فی مناقب ابی حنيفة ‪ :‬عالمہ احمد عبد الباری عاموه الحديدی‬
‫‪ .26‬التعليقات الحسان علی تحفة االخوان فی مناقب ابی حنيفة ‪ :‬عالمہ محمد احمد محمد عاموه‬
‫مرتضی الزبيدی‬
‫ٰ‬ ‫‪ .27‬عقود الجواہر المنيفة فی أدلة مذہب االمام ابی حنيفة ‪ :‬عالمہ محدث السيد محمد‬
‫حسينی حنفی )متوفی ‪١٢٠۵‬ھ(‬
‫‪ .28‬ابوحنيفہ النعمان وآرائہ الکالميہ‪ :‬شيخ شمس الدين محمد عبداللطيف مصری‬
‫‪ .29‬ابوحنيفہ النعمان )امام االئمہ الفقہاء(‪ :‬شيخ وہبی سليمان غاوجی‬
‫‪ .30‬تانيب الخطيب علی ما ساقہ فی ترجمة ابی حنيفہ من االکاذيب‪ :‬شيخ محمد زاہد بن الحسن الکوثری‬
‫‪ .31‬ابوحنيفہ ۔ حياتہ وعصره ۔ آرائہ وفقہہ‪ :‬شيخ محمد ابوزہره ‪..........‬‬
‫امام ابوحنيفہ کی سوانح حيات سے متعلق بعض اردو کتابيں‬
‫سيرة النعمان‪ :‬عالمہ شبلی نعمانی‬ ‫‪.1‬‬
‫سيرة ائمہ اربعة‪ :‬قاضی اطہر مبارکپوری‬ ‫‪.2‬‬
‫حضرت امام ابوحنيفہ کی سياسی زندگی‪ :‬موالنا مناظر احسن گيالنی‬ ‫‪.3‬‬
‫مقام ابی حنيفہ ‪ :‬موالنا سرفراز صفدر خان‬ ‫‪.4‬‬
‫امام اعظم اور علم الحديث‪ :‬موالنا محمد علی صديقی کاندھلوی‬ ‫‪.5‬‬
‫امام اعظم ابو حنيفة ‪ :‬حاالت وکماالت ‪،‬ملفوظات‪ :‬ڈاکٹر موالنا خليل احمد تھانوی )ترجمة تبييض‬ ‫‪.6‬‬
‫الصحيفة فی مناقب االمام ابی حنيفة (‬
‫تقليد ائمہ اور مقام امام ابوحنيفہ‪ :‬موالنا محمد اسمٰ عيل سنبھلی‬ ‫‪.7‬‬
‫امام اعظم ابو حنيفة ‪ ،‬حيات وکارنامے‪ :‬موالنا محمد عبد الرحمن مظاہری‪............‬‬ ‫‪.8‬‬
‫رحمہم ﷲ رحمة واسعة‬
‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫امام مالک بن انس رحمہ "‬

‫ والدت ‪95‬ھ __ وفات ‪179‬ھ‬


‫ امام مالک رحمہ " دراز قامت‪ ،‬کشاده چشم‪ ،‬خوبرو شخص تھے‬

‫آپ کا شمار تبع تابعين کے طبقہ ميں ہوتا ہے‬


‫ آبائی وطن يمن تھا‬
‫ سب سے پہلے آپ کے پر دادا ابو عامر مدينہ ميں آ کر سکونت پذير ہوئے‬
‫ آپ کا خاندان جاہليت اور اسالم دونوں ميں معزز تھا‬
‫تعليم و تربيت‬

‫ امام صاحب کا حافظہ بے حد قوی تھا‪ ،‬جو چيز ايک بار ياد کر ليتے اسے بھولتے‬
‫نہيں تھے‬

‫ امام مالک رحمہ ( کو بچپن سے ہی علم حديث کا بڑا شوق تھا ليکن وسعت نہ تھی‬
‫کہ باقاعده تعليم حاصل کرتے‪،‬‬
‫ امام صاحب نے تعليم حاصل کرنے کے لئے گھر کی کڑياں تک کو بيج ديں اور اس‬
‫قدر علم حاصل کر ليا کہ مدينہ ميں بھکرا ہوا سارا علم آپ کے سينے ميں جمع ہو‬
‫گيا‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫ امام صاحب نے امام نافع اور امام زھری رحمھما ﷲ جيسے اکابر اہل علم سے استفاده کيا‬
‫ان کے عالوه‬
‫يحيی بن سعيد‬
‫ٰ‬ ‫‪.1‬‬
‫‪ .2‬محمد بن منکدر‬
‫‪ .3‬ہشام بن عروه‬
‫‪ .4‬زيد بن اسلم‬
‫‪ .5‬ربيعہ بن عبد الرحمن وغيرھم رحمھم ﷲ سے بھی آپ نے علم حديث حاصل کيا‬

‫ آپ کے اساتذه کی تعداد ‪ 900‬تک پہنچتی ہے‪ ،‬ان ميں سے ‪ 300‬سو تابعين ‪ 600‬تبع تابعين ہيں‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫‪ .1‬ليث بن سعد‬
‫‪ .2‬ابن مبارک‬
‫‪ .3‬امام شافعی‬
‫‪ .4‬امام محمد بن حسن الشيبانی رحمھم ﷲ جيسے اکابرين آپ کے تالمذه ميں شامل ہيں‪،‬‬

‫ ان کے عالوه ايک جم غفير نے آپ سے استفاده کيا ہے‬


‫علم حديث ميں آپ کی خدمات‬

‫• آئمہ اربعہ ميں صرف امام مالک رحمہ ( کو يہ امتياز حاصل ہے کہ انہوں‬
‫نے حديث کی کتاب مؤطأ کو مرتب کيا‬

‫• يہ حديث کی پہلی کتاب ہے جو فقہی ترتيب کے ساتھ لکھی گئی‬

‫• محدثين کے نزديک مؤطأ کو بخاری اور مسلم پر بھی فوقيت حاصل ہے‪،‬‬
‫ شاه ولی ( محدث دہلوی رحمۃ ( عليہ مؤطأ کو تمام کتابوں ميں مقدم وافضل قرار ديتے‬
‫ہيں‪) ،‬حجة ( البالغة(‬
‫ علماء کا يہ مشہور قول ہے کہ‬
‫اول كتاب وضع في اإلسالم مؤطأ مالك‬
‫" اسالم ميں سب سے پہلی تاليف کرده کتاب مؤطأ مالک ہے"‬
‫ مؤطأ ‪ 130‬ھ اور ‪ 141‬ھ کے درميان تاليف ہوئی ہے‪،‬‬
‫ مؤطأ کی کل روايات ‪ 1700‬ہيں جن کو ‪ 98‬صحابہ نے روايت کی ہے‬
‫ مؤطا کے متعلق امام شافعی رحمۃ ( عليہ فرماتے ہيں کہ‬
‫ما على وجه األرض من كتاب بعد كتاب " أصح من مؤطأ أمام مالك بن أنس‬
‫"روئے زمين پر کتاب ( کے بعد مؤطا امام مالک سے بڑھ کر صحيح کتاب کوئی نہيں ہے "‬
‫وجہ تاليف مؤطأ‬

‫• خليفہ منصور نے ايک بار امام صاحب سے درخواست کی کہ ايک ايسی کتاب‬
‫مرتب کريں جس سے تمام لوگ فائده اٹھا سکيں‪ ،‬جس ميں ابن عباس کی نرمی اور‬
‫ابن عمر کی سختی شامل نہ ہو "‬
‫" تجنب فيه رخص ابن عباس وشدائد ابن عمر و وطئه توطئة "‬
‫" اور اسے آسان و قابل عمل بنايا جائے"‬

‫• اسی لئے امام صاحب نے اس کا نام مؤطأ رکھا يعنی آسان راستہ‬
‫امام صاحب کے فتوے کا طريقہ کار‬

‫• امام صاحب محدث کے ساتھ ساتھ مجتھد بھی تھے‪،‬‬


‫فتوی دينے کے معاملے ميں سب سے پہلے کتاب ( پر‬‫ٰ‬ ‫• کوئی بھی‬
‫بھروسہ کرتے پھر رسول ( صل ( عليہ وسلم کی احاديث پر اعتماد‬
‫کرتے‪،‬‬
‫• اس سلسلے ميں آپ کا دار و مدار علماء حجاز کے اکابرين پر تھا‪،‬‬
‫• خاص طور پر اہل مدينہ کے ائمہ کے عمل کو آپ بہت زياده اہميت ديتے‬
‫تھے‬
‫اخالق و کردار‬
‫امام صاحب سادگی کو پسند کرتے تھے‬ ‫•‬
‫• آپ ميں وسيع القلبی‪ ،‬انکساری اور بے نيازی کی کيفيت بہت زياده تھی‬
‫• کمال ادب کی وجہ سے آپ نے حرم مدينہ ميں کبھی استنجا نہيں کيا‪ ،‬ہميشہ قضائے‬
‫حاجت کے لئے حرم سے باہر ہی جايا کرتے تھے‬
‫• ضعف اور کبر سنی کے باوجود مدينہ ميں آپ نے کبھی سواری استعمال نہيں کی‬
‫کيونکہ نبی صلی ( عليہ وسلم کا جسد مبارک اس ميں مدفون ہے‬
‫• حديث کو روايت کرنے سے پہلے آپ وضو فرماتے‪ ،‬اچھا لباس پہنتے‪ ،‬خوشبو لگاتے‬
‫اور کنگھی کرتے اور خوب سجتے سنورتے تھے‪،‬‬
‫• لوگوں کے پوچھنے پر آپ فرمايا کرتے تھے کہ" يہ نبی صلی " عليہ وسلم کی‬
‫حديث کی تعظيم و توقير ہے"‬
‫ ايک بار آپ کے پاس ايک مسافر چھے ماه کی مسافت طے کر کے ايک مسئلہ پوچھنے کيلئے آيا‪ ،‬امام‬
‫صاحب نے مسئلہ کو سننے کے بعد فرمايا کہ مجھے اس کا جواب معلوم نہيں ہے‬
‫وه بﮍا حيران ہوا اور بوال امام صاحب! ميں واپس جاکر اپنے شہر کے لوگوں سے کيا کہوں گا؟‬
‫آپ نے بﮍی سادگی سے فرمايا کہ "انہيں بتا دينا کہ امام مالک نے اپنی ال علمی کا اقرار کيا ہے"‬

‫ امام صاحب فرمايا کرتے تھے کہ‬


‫ليس العلم بكثرة الرواية‪ ،‬إنما ھو نور يضعه ﷲ في القلب‬
‫تعالی دلوں ميں ڈال ديتا ہے"‬
‫ٰ‬ ‫" علم کثرت روايت کا نام نہيں ہے‪ ،‬وه تو ايک نور ہے جسے ﷲ‬

‫ آپ يہ بھی فرمايا کرتے تھے کہ‬


‫ال ينبغي للعالم أن يتكلم بالعلم عند من ال يطيقه فإنه ذل و إھانة للعلم‬
‫" عالم کيلئے يہ مناسب نہيں ہے کہ وه علمی مسائل کو اس شخص کے سامنے بيان کرے جو اس کا اہل نہيں ہے‬
‫‪ ،‬ايسا کرنے ميں علم کی اہانت و تذليل ہے"‬
‫علم کی قدر و قيمت‬
‫ايک مرتبہ خليفہ ہارون رشيد نے امام صاحب سے درخواست کی کہ وه‬
‫محل ميں آ کر شہزادوں کو مؤطأ پﮍھا ديا کريں‪ ،‬اس کے جواب ميں امام‬
‫صاحب نے فرمايا" امير المومنين! ﷲ آپ کو عزت بخشے‪ ،‬يہ علم آپ‬
‫ہی کے گھر سے نکال ہے‪ ،‬اگر آپ اس کو عزت ديں گے تو وه معزز‬
‫ہوگا ورنہ اس کا درجہ گر جائے گا‪ ،‬کيا آپ نہيں جانتے کہ علم کے پاس‬
‫جايا جاتا ہے‪ ،‬علم کسی کے پاس نہيں جاتا"‬

‫خليفہ نے کہا کہ" بے شک آپ سچ فرماتے ہيں"‬


‫وسعت قلبی اور اتحاد کا خيال‬
‫ ايک حج کے موقع پر خليفہ منصور نے امام صاحب سے کہا کہ" ميں چاہتا ہوں کہ آپ‬
‫کی کتاب مؤطأ کو ساری مملکت ميں پھيال دوں اور لوگوں کو حکم دوں کہ وه صرف اس‬
‫کتاب پر عمل کريں"‬
‫امام صاحب کے لئے يہ بﮍی ہی خوشی کی بات تھی مگر آپ نے منع کر ديا اور کہا کہ " امير‬
‫المومنين اس کتاب کی تاليف سے پہلے ہی ہمارے اسالف کے ذريعے سے نبی صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کی حديثيں چاروں طرف پھيل چکی ہيں اور وه ان پر عمل بھی کر رہے ہيں‪،‬ہمارا اس‬
‫طرح کرنے سے افتراق پيدا ہو سکتا ہے"‬
‫ اسی طرح کا ايک واقعہ خليفہ ہارون الرشيد کے ساتھ بھی پيش آيا‪ ،‬امام صاحب نے انہيں‬
‫بھی اس طرح کرنے سے منع کر ديا‪،‬‬
‫امام صاحب کے متعلق علماء کے اقوال‬

‫• امام شافعی رحمۃ ( عليہ فرماتے ہيں کہ" امام مالک رحمہ " ايک چمکتا ستاره ہيں‬
‫مجھے آپ کی علم پر بہت زياده اطمينان ہے‪،‬‬
‫• پھر فرمايا کہ اگر امام مالک رحمہ " کی کوئی حديث سنو تو دونوں ہاتھوں سے مضبوط‬
‫تھام لو‬
‫لو""‬
‫• امام سفيان رحمہ ( فرماتے ہيں کہ " رجال کی چھان بين ميں امام مالک سے بڑھ کر‬
‫کوئی نہيں"‬
‫• وہب بن خالد رحمہ ( فرماتے ہيں کہ" مشرق و مغرب ميں احاديث کے معاملے ميں امام‬
‫مالک سے زياده قابل اطمينان آدمی کوئی نہيں ہے"‬
‫رحمہ ( رحمۃ واسعة‬
‫بسم ( الرحمن الرحيم‬
‫امام شافعی رحمہ ﷲ‬
‫ والدت ‪150 -‬ھ ‪ -‬وفات ‪204 -‬ھ‬
‫نام اور بچپن‬
‫آپ کا نام محمد بن ادريس ہے۔ قريشی النسب تھے‪،‬‬ ‫•‬
‫شافع ان کے جد اعلی کا نام تھا جن کی طرف نسبت سے آپ شافعی کہالئے۔‬ ‫•‬
‫آپ کے والد پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔‬ ‫•‬
‫• دو سال کے تھے کہ والده انہيں يمن اپنے قبيلہ ازد ميں لے آئيں جہاں امام شافعی رحمہ (‬
‫نے اپنا بچپن گذارا۔‬
‫• آپ کی پرورش نہايت تنگدستی کی حالت ميں ہوئی‪ ،‬مفلسی کے سبب ہڈيوں سے کاغذ کا‬
‫کام ليتے تھے‬
‫تعليم و تربيت‬
‫• سات سال کی عمر ميں قرآن پاک حفظ کيا اور دس سال ميں مؤطأ امام مالک ياد کرلی۔پھر‬
‫مکہ آگئے اور چچا محترم کے پاس ره کر علم االنساب اور ديگر علوم سيکھنا شروع کيا ۔‬

‫اساتذه‬
‫ مفتئ مکہ مسلم بن خالد زنجی رحمہ ﷲ نے اس ذہين وذکی اور قوت حافظہ سے ماال مال‬
‫بچے کو تين برس تک اپنے علم فقہ وحديث سے مستفيد فرمايا۔‬
‫ پھر آپ نے اپنے استاذ کا خط لے کر مدينہ امام مالک رحمہ ﷲ کی خدمت ميں حاضر ہوئے‬
‫جنہوں نے آپ کی گفتگو اور ذوق علمی سے متاثر ہو کر اپنے حلقہ علم ميں قبول فرماليا۔ اس‬
‫وقت آپ کی عمر صرف ‪ 13‬سال کی تھی‪،‬‬
‫ آپ نے امام مالک کے حلقہ ميں امام مالک کی مؤطأ کو پوری کی پوری کتاب‬
‫زبانی سنا دی‪،‬‬
‫ جس پر امام مالک رحمہ ﷲ متعجب ہو کر فرمايا کہ " تم تقوی کو الزم پکﮍو‪،‬‬
‫تعالی تمہيں بﮍی عظمت بخشے گا "‬‫ٰ‬ ‫ايک زمانہ آئے گا کہ ﷲ‬
‫ آپ نے تين برس امام مالک رحمہ ﷲ کی خدمت ميں صرف کئے‬
‫ اس دوران صحابہ کرام‪ ،‬تابعين اور امام مالک رحمہ ﷲ کی فقہ کو اچھی طرح‬
‫سمجھا اور ياد کيا۔‬
‫ مدينہ کے ديگر سرکرده علماء سے بھی استفاده کيا اور جرح وتعديل کے اصول‬
‫وقواعد کو بھی محفوظ کرتے گئے۔‬
‫ امام مالک اور ديگر فقہائے مدينہ نے آپ کی قابليت کو جاننے کے بعد متفقہ‬
‫طور پر انہيں فتوی دينے کی اجازت مرحمت فرمائی۔‬
‫آپ کا علم و ہنر‬
‫مدينہ سے اپنی تعليم کو ختم کرنے کے بعد آپ يمن تشريف لے گئے‬ ‫‬
‫ يہاں قبيلہ ہذيل ميں ره کر تير اندازی‪ ،‬لغت‪ ،‬شاعری‪ ،‬تاريخ‪ ،‬انساب‪ ،‬نحو اور علم فراست جيسے‬
‫علوم سيکھ کر ان ميں کمال حاصل کيا۔‬
‫ دس ہزار اشعار غرائب سميت ياد کئے۔ عربی زبان ميں ايسا درک پايا کہ ماہرين لغت نے انہيں‬
‫امام اللغۃ و األدب کے خطاب سے نوازا‪،‬‬
‫ آپ کو فن تاريخ اور ايام العرب سے بھی بخوبی شناسائی تھی اور علم طب پر گہری نظربھی ۔‬
‫ علم فراست پربھی آپ مہارت رکھتے تھے۔‬
‫ امام حميدی رحمہ ( کہتے ہيں ايک بار امام شافعی رحمہ ( کے ہمراه مکہ سے باہر وادی‬
‫بطحا ميں آيا‪ ،‬وہاں ہميں ايک شخص مال۔ ميں نے امام شافعی رحمہ ( سے عرض کی کہ اپنی‬
‫فراست سے يہ بتائيے کہ اس شخص کا ذريعہ معاش کيا ہو سکتا ہے؟ انہوں نے فرمايا‪ :‬يہ شخص‬
‫بڑھئی يا درزی معلوم ہوتا ہے۔ حميدی رحمہ ( کہتے ہيں ميں نے واپس جاکر اس سے پوچھا‬
‫کہ تم کيا کرتے ہو؟ اس نے کہا‪ :‬ميں پہلے بڑھئی تھا ليکن آج کل درزی کا کام کرتا ہوں۔‬
‫ آپ وه واحد امام ہيں جو مکہ‪ ،‬مدينہ‪ ،‬يمن‪ ،‬عراق‪ ،‬شام‪ ،‬مصر اور الجزائر کے علماء وفضالء‬
‫سے ملے اور ان سے فقہی واجتہادی مسائل پر استفاده کيا پھر عراق تشريف لے گئے۔‬

‫فکرميں تبديلی‬
‫ آپ شروع ميں اہل الرائے پر سخت نکير کيا کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل عراق نے آپ‬
‫کو ناصر الحديث کا خطاب ديا۔‬
‫ بغداد ميں قيام کے دوران اہل الرائے کی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کيا‬
‫ اور اس مطالعے نے آپ کی سوچ کو ايک اور رخ دے ديا‪،‬‬
‫ پھر آپ نے سوچا کہ مدرسہ اہل الرائے اور مدرسہ اہل حديث کے درميان کيوں نہ ايک‬
‫درميانی راستہ نکاال جائے جس ميں نصوص سے وابستگی بھی ہو اور مناسب رائے کا عقلی‬
‫اظہار بھی۔‬
‫ اس لئے جب امام محترم رحمہ ( مصر تشريف الئے تو انہوں نے اپنی‬
‫سابقہ فکر سے ہٹ کر نئے انداز سے اپنی کتب کو لکھنا شروع کيا ۔‬
‫ جہاں جہاں آپ نے رائے کی ضرورت محسوس کی وہاں آپ نے رائے‬
‫کو استعمال کيا اور جہاں حديث کو بطور دليل پيش کرنے کی ضرورت‬
‫تھی وہاں اسے پيش کرديا۔‬
‫ غرضيکہ جہاں جہاں انہوں نے دونوں مذاہب ميں کمی ديکھی اسے پورا‬
‫کرنے کی کوشش کی۔ اور عام متداول فقہی منہج سے ہٹ کر اسے ايک‬
‫نيا رخ دينے کی کوشش کی۔‬
‫آپ کی علمی خدمات‬

‫ٰ‬
‫اعلی ہيں‪ ،‬آپ نے اصول فقہ ميں الرسالة نامی ايک کتاب تصنيف‬ ‫ آپ اصول فقہ کے مؤسس‬
‫فرمائی جو اس ميدان ميں حجت اور مرجع کی حيثيت رکھتی ہے‬
‫ اصول دين پر آپ کی ‪ 14‬کتابيں اور فروع دين ميں ‪ 100‬سے زياده کتابيں ہيں‪ ،‬ان سب‬
‫کتابوں ميں آپ کی کتاب کتاب األم بہت مشہور ہے‬
‫ امام شافعی رحمۃ ( عليہ ‪ 34‬سال کی عمر ميں امام محمد رحمہ ( کے حلقہ ميں داخل‬
‫ہوئے اور ‪ 30‬سال سے زياده آپ کے ساتھ رہے‪،‬‬
‫ اس دوران آپ نے فقہ عراق ميں کمال حاصل کيا‪ ،‬يہاں تک کہ آپ کو اس زمانے کا امام‬
‫الفقہ قرار ديا گيا‬
‫ اسی لئے امام احمد بن حنبل رحمہ ( آپ کو دوسری صدی کا مجدد سمجھتے تھے‬
‫تالمذه‬
‫ آپ کے تالمذه کی صحيح تعداد کا تعين کرنا تو مشکل ہے‪ ،‬امام ابن حجر عسقالنی رحمہ " لکھتے ہيں‪ :‬ان ميں امام ابوعبد "‬
‫الحميدی رحمہ " )م‪٢١٩‬ھ(مکہ کے رہنے والے‪ ،‬حافظ حديث اور عظيم فقيہ‪ ،‬امام شافعی رحمہ " کے سب سے بڑے‬
‫شاگردوں ميں سے تھے۔ ‪ ،‬جو امام بخاری رحمہ " کے استاذ ہيں‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی المصری)‪١۶۶‬۔‪(٢۴۴‬‬ ‫ ابوحفص حرملہ بن‬
‫ سليمان بن داؤد الہاشمی)م‪٢١٩‬ھ(‬
‫ ابوعلی حسن بن محمد زعفرانی)م‪٢۵٩‬ھ( پہلے کوفی فقہ پر عمل کرتے تھے بعد ميں امام محترم سے متاثر ہوکر امام شافعی‬
‫رحمہ " کے مستقل شاگرد بن گئے ان سے بہترفصيح اور لغت کا جاننے واال کوئی نہ تھا۔‬
‫ٰ‬
‫يحيی المزنی)‪١٧۵‬۔‪ (٢۶۴‬وسيع علم رکھتے تھے۔ زاہد‪ ،‬عالم‪ ،‬مجتہد‪ ،‬مناظر اور مشکل علمی مباحث کو‬ ‫ ابو ابراہيم اسمعيل بن‬
‫سلجھانے والے تھے۔ امام شافعی رحمہ " فرمايا کرتے تھے ‪ :‬اگر يہ شيطان سے بھی مناظره کريں تو غالب آئيں گے۔‬
‫ اورآپ اپنی اصالح کے لئے مردوں کو لوجہ " نہاليا کرتے۔ کہا کرتے تھےکہ يہ ميں اس لئے کرتا ہوں تاکہ ميرے دل ميں‬
‫سختی نہ پيدا ہوجائے۔‬
‫ ابومحمد الربيع بن سليمان بن عبد الجبار المرادی)م‪ (٢٧٠:‬مصر کے ايک ثقہ عالم‪ ،‬جنہوں نے امام شافعی رحمہ " کے بعد ان‬
‫کی جانشينی کی۔ انہيں امام شافعی رحمہ " نے فرمايا تھا‪ :‬ربيع! تم ميری کتابوں کی اشاعت کروگے۔ ربيع فرماتے ہيں جو‬
‫ہمارے شيخ نے ہميں فرمايا وه حرف بحرف صحيح ہوا۔‬
‫فقہ شافعی ميں استدالل کی اصل حيثيت‬

‫آپ کے نزديک اصل حيثيت قرآن وسنت کی ہے‬ ‫•‬


‫اور اگر ان سے استدالل نہ ہو سکے تو پھرقياس جو قرآن وسنت کے مطابق ہو۔‬ ‫•‬
‫وجہ يہ ہے کہ قرآن وسنت کے قوانين محدود ہيں اور امتداد زمانہ کے ساتھ پيش آنے والی صورتيں غير‬ ‫•‬
‫محدود‪،‬‬
‫اس لئے جب کوئی واقعہ پيش آئے تو پہلے قرآن وحديث ميں غور کرنا چاہئے اور صحابہ کرام کے تعامل‬ ‫•‬
‫پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔‬
‫اگر مسئلہ سے متعلق کوئی بات مل جائے جو صورت حال کے چند پہلوؤں سے تو يکساں ہو مگر ہو بہو نہ‬ ‫•‬
‫ہو تو قرآن وحديث کے بيان شده امر اور پيش آمده واقعہ ميں مماثلت پيدا کرنے کے لئے ہميں يہ حق ہے کہ‬
‫ہم اس امر کی جستجو کريں کہ قرآن وحديث ميں اس بات کی علت اور وجہ کيا تھی؟ پھر ہم بھی اس علت‬
‫کی بناء پر قياس کرنے کے مجاز ہيں۔ قياس کے متعلق اس دقيق بات کا نتيجہ يہ نکال کہ بﮍے ممتاز محدثين‬
‫امام محترم کی اس رائے سے متفق ہوگئے۔‬
‫جب حديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم صحيح ‪ ،‬متصل سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس پر عمل الزمی ہے۔‬ ‫•‬
‫اور کوفہ ومدينہ کی روايتوں پر اعتماد بھی اسی بنياد پر کيا جائے گا ۔ورنہ نہيں۔‬
‫حديث ہميشہ اپنے ظاہری معنی پر محمول ہونی چاہئے اور جب اس ميں متعدد معانی کا احتمال ہو توجو‬ ‫•‬
‫معنی ظاہری معنی کے قريب ہوں وه لئے جائيں۔ زياده تاويالت نہ کی جائيں‬
‫آپ کا اخالق و کردار‬

‫ٰ‬
‫تعالی نے‬ ‫ بچپن ميں امام مالک رحمہ ( نے آپ کو نصيحت کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ ""‬
‫تمہارے دل ميں ايک نور وديعت کيا ہے‪ ،‬اس نور کی اچھی طرح حفاظت کرنا‪ ،‬معصيت کر‬
‫کے اسے ضائع نہ کر دينا" إمام شافعی رحمہ ( نے اس بات کی ساری زندگی پابندی‬
‫کرتے رہے‪،‬‬
‫ آپ کو علم کالم بلکل پسند نہيں تھا‪ ،‬آپ فرماتے تھے کہ جو بھی اسے اپنا لباس بنايا وه‬
‫کبھی کامياب نہيں ہوا‬
‫آپ علم و فضل کے عالوه سخاوت ميں بھی آگے آگے تھے‪ ،‬ايک مرتبہ آپ کے پاس ‪10‬‬
‫ہزار دينار تھے‪ ،‬آپ نے وه سارے دينار آپ سے ملنے آنے والوں ميں تقسيم کر ديا‬
‫اکابرين کے اقوال‬

‫إمام أحمد بن حنبل رحمہ " فرماتے ہيں کہ "مجھے حديث ميں ناسخ‬
‫منسوخ‪ ،‬خاص و عام‪ ،‬مجمل و مفصل کا علم نہيں تھا‪ ،‬يہ علم مجھے‬
‫امام شافعی رحمہ " کی صحبت سے ہی حاصل ہوا‬
‫ہوا""‬
‫وفات‬

‫ امام ابن حجر عسقالنی لکھتے ہيں کہ امام شافعی رحمہ ( کو آخری عمر ميں بواسير کی‬
‫سخت شکايت ہوگئی تھی۔‬
‫ ايک مشہور واقعہ يہ بھی بيان کيا جاتا ہے کہ فتيان بن ابی السمح جوانتہائی متعصب مالکی‬
‫تھے انہوں نے ايک مناظرے ميں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے‬
‫بعد ميں موقع پاکر رات کے اندھيرے ميں امام محترم کے سر پر لوہے سے دے مارا جس سے‬
‫امام محترم کا سر پھٹ گيا۔ طبيعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکليف نے مزيد نڈھال کرديا۔‬
‫ دوسری طرف مالکی فقيہ اشہب بن عبد العزيز مسلسل سجده ميں آپ کے لئے بددعا کرتا رہا‬
‫کہ ٰالہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا‬
‫علم ہوا تو فی البديہہ دو اشعار کہے‪:‬‬
‫ُت َف ِت ْلکَ َس ِبي ْـــــ ٌل َلسْ ُ‬
‫ت ِف ْي َہا ِب ْاو َح ِد‬ ‫ُـــــوت َفانْ ام ْ‬ ‫َ‬ ‫َت َمــ ٰ ّنی ِر َجا ٌل ِبا نْ ام‬
‫اعیْ َع َلیَّ ِب َم ْخ َل ِد‬‫ت َما الــ َّد ِ‬ ‫ــد َعلِمُوا َلو َي ْن َفــــ ُع ْال ِع ْل ُم ِع ْن َدہُ ْم َل ِئـــنْ ِم ُّ‬
‫َ◌و َق ْ‬

‫• "لوگ تمنا کرتے ہيں کہ ميں مرجاؤں۔ اگر ميں مر بھی گيا تو يہ راه‬
‫ايسی ہے جس کا راہی صرف ميں نہيں ہوں۔‬
‫• اگران کا علم نفع بخش ہےتو انہيں معلوم ہوگا کہ ميں اگر مر بھی گيا تو‬
‫مجھے بددعا دينے واال بھی باقی رہنے واال نہيں۔‬
‫ آپ کی طبيعت جب بہت زياده بگڑی تو پاس بيٹھے شاگرد امام مزنی رحمہ ( نے خيريت دريافت کرتے ہوئے‬
‫ِين؟ استاذوں کے استاذ! آپ کا دن کيسے گذرا؟ جواب ميں فرماتے ہيں‪:‬‬ ‫ْت َيا استا َذ االستاذ َ‬ ‫عرض کی‪َ :‬کي َ‬
‫ْف ا ْم َسي َ‬
‫ار ًبا‪َ ،‬و ٰ ّ‬
‫"ِ الَ‬ ‫ِ‬ ‫َ‬
‫ش‬ ‫ۃ‬
‫ِ‬ ‫ي‬
‫َّ‬ ‫ِ‬
‫ن‬ ‫م‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫ل‬ ‫ا‬ ‫س‬
‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫َأ‬
‫ک‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫و‬
‫َ‬ ‫ًا‪،‬‬
‫د‬ ‫ار‬
‫ِ‬ ‫و‬
‫َ‬ ‫"‬
‫ِ‬ ‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫ئ أَ ْف َعالِی ُم َالقِ ًيا‪َ ،‬و َع َلی‬ ‫سو ِ‬ ‫ار ًقا‪َ ،‬و ِب ُ‬‫ان ُم َف ِ‬ ‫ِإلخ َو ِ‬ ‫ت مِنَ ال ُّد ْن َيا َرا ِحالً َفل ْ‬ ‫أَ ْ‬
‫ص َب ْح ُ‬
‫ار َفأ ُ َع ِّز ْي َہا۔‬
‫أَدْ ِر ْی أَنَّ ُروح ِْی َيصِ ي ُر إِلَی ا ْل َج َّن ِۃ َفأ ُ َھ ِّن ُئ َہا أَ ْو إِلَی ال َّن ِ‬
‫"آج ميں دنيا سے رخصت ہونے واال ہوں ‪ ،‬اور اپنے بھائيوں کو چھوڑنے واال ہوں۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی‬
‫سزا بھی پانے واال ہوں اور ( بزرگ وبرتر کی بارگاه ميں پيش ہونے واال بھی ہوں اور موت کا پيالہ ابھی پينے‬
‫واال ہوں۔ و( ! ميں نہيں جانتا آيا ميری روح جنت ميں جائے گی کہ ميں اسے مبارک باد دوں يا اس کا مقام دوزخ‬
‫ہے کہ ميں اس کی تعزيت کروں۔"‬
‫ نماز مغرب سے فراغت کے بعد ليٹے ہی تھے کہ نزع کی کيفيت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاه‬
‫ٰالہی ميں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر ُدعا‬
‫مانگی۔ ُدعا سے فارغ ہو کرليٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترم رحمہ (‬
‫خدمت دين سے بھرپور اپنی يہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی سے کوچ کر گئے۔‬
‫إنا … وإنا إليه راجعون‬
‫رحمہ " رحمۃ واسعۃ۔ آمين‬
‫بسم ( الرحمن الرحيم‬
‫إمام أحمد بن حنبل رحمہ "‬
‫والدت ‪ 164‬ھ ‪ -‬وفات ‪ 241‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬


‫• ابو عبد( احمد بن حنبل بغداد ميں پيدا ہوئے‬
‫• آپ عربی النسل قبيلے شيبان سے تعلق رکھتے تھے‬
‫• تين سال کی عمر ميں يتيم ہو گئے تھے‬
‫تعليم و تربيت‬

‫ ابتدائی تعليم بغداد ميں حاصل کی‪،‬‬


‫ حديث کی سماعت اور تحصيل حديث کی غرض سے‬
‫کوفہ‪ ،‬بصره‪ ،‬مکہ‪ ،‬مدينہ‪ ،‬يمن‪ ،‬شام‪ ،‬اور ديگر مقامات‬
‫کا طويل سفر اختيار کيا‬
‫آپ کے مشہور اساتذه‬
‫آپ کے مشہور اساتذه ميں سے‬
‫• امام ابو يوسف‪،‬‬
‫• ہيثم بن بشير بن ابو حازم الواسطی‪،‬‬
‫• وکيع‪،‬‬
‫• يزيد بن ھارون‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی بن سعيد القطان‪،‬‬ ‫•‬
‫• سفيان بن عيينه‪،‬‬
‫• امام الشافعي‪،‬‬
‫• اور عبد الرزاق بن ھمام‪،‬‬
‫جيسے اکابرين شامل ہيں‬
‫ابن جوزی رحمہ " نے آپ کے اساتذه کی تعداد ‪ 100‬بتائی ہے‬ ‫•‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫امام صاحب کے مخصوص تالمذه ميں سے‬


‫• امام بخاری‪،‬‬
‫• امام مسلم بن حجاج قشيری‪،‬‬
‫• ابو زرعہ‪،‬‬
‫• اور ابو داؤد سجستانی جيسے اکابر علماء اور محدثين شامل ہيں‬

‫• امام صاحب سے حديث روايت کرنے والوں ميں خود آپ کے فرزندان عبدﷲ‬
‫اور صالح اور چچا زاد بھائی حنبل اور اسحاق بھی شامل ہيں‬
‫علمی خدمات‬
‫ امام احمد رحمہ ( نے حضرت امام شافعی رحمۃ ( عليہ سے جو کچھ بھی سيکھا اس‬
‫ميں آپ نے مہارت حاصل کی‪،‬‬
‫ باآلخر امت مسلمہ کے نامور مجتھد ہوئے‪ ،‬آپ کی فقہ آج بھی زنده ہے‬
‫ آپ کی تاليفات ميں مسند احمد کو خاص شہرت و مقام حاصل ہے‬
‫ اس مجموعے ميں ‪ 30‬ہزار سے زياده حديثيں نقل کی گئی ہيں‬
‫ حنبل بن اسحاق رحمہ ( کا بيان ہے کہ امام احمد رحمہ ( نے اس مجموعے ميں ‪ 7‬الکھ‬
‫سے بھی زياده حديثوں کے ذخيره ميں سے صرف ‪ 30‬ہزار احاديث کو ہی منتخب کيا‬
‫ہے‪ ،‬تاکہ مسلمانوں ميں اس کا ايک معيار قائم ہو‪،‬‬
‫ اس مجموعے ميں ‪ 700‬صحابہ کی روايات شامل ہيں ) طبقات شافعيہ کبری(‬
‫ يہ حديث کا سب سے بڑا مجموعہ ہے جس ميں ‪ 300‬ثالثی روايات موجود ہيں‬
‫ حافظ ابن حجر کے نزديک مسند کی ساری حديثيں صحيح ہيں سوائے تين‬
‫حديثوں کے‪ ،‬جو سہواً نکلنے سے ره گئيں‬
‫ مسند کے عالوه بھی آپ کی بہت ساری کتابيں مشہور ہيں‬

‫آپ کا طريقہ کار‬

‫ آپ کا طريقہ بھی يہی تھا کہ جب کسی مسئلے ميں صريح نص موجود ہو تو کسی کے‬
‫اختالف کی ہرگز پرواه نہ کی جائے‬

‫بقدر ضرورت‪ ،‬وه بھی اس وقت جب کسی مسئلے‬


‫ِ‬ ‫ آپ کے نزديک بھی قياس جائز ہے مگر‬
‫ميں منقول چيزيں نہ ہوں‬
‫اخالق و کردار‬
‫ٰ‬
‫تقوی و استغنا ميں بہت بلند مقام حاصل ہے‬ ‫آپ کو صبر و توکل‪،‬‬
‫ حسن بن عبدالعزيز نے ايک بار ايک ايک ہزار دينار کی تين تھيلياں دے کر فرمايا کہ يہ‬
‫ميرا حالل مال ہے جو مجھے وراثت ميں مال ہے‪ ،‬آپ اسے اپنے اہل عيال کے لئے رکھ‬
‫ليں‪ ،‬مگر امام صاحب نے ايک اشرفی بھی قبول نہيں کی‪ ،‬اور کہا کہ مجھے اس کی قطعا ً‬
‫ضرورت نہيں ہے‬
‫ امام صاحب کے بيٹے عبد الرحمن کہتے ہيں کہ ميرے والد صاحب ہر نماز ميں ہميشہ يہ‬
‫دعا کيا کرتے تھے کہ "يا " جس طرح تو نے ميرے چہرے کو دوسروں کے سامنے‬
‫جھکنے سے بچايا ہے اسی طرح تو مجھے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھيالنے سے بچا‬
‫لے" ‪،‬‬
‫ ابو داؤد سجستانی کہتے ہيں کہ آپ کی مجلس‪ ،‬مجلس آخرت ہوتی تھی‪ ،‬آپ کی مجلس ميں‬
‫سوائے امور دين کے کسی اور بات کا ذکر نہيں ہوتا تھا‪،‬‬
‫ آپ کے استاد امام شافعی رحمہ ( آپ کے بارے ميں فرمايا کرتے‬
‫ٰ‬
‫تقوی اور علم ميں احمد بن حنبل‬ ‫تھے کہ اس وقت ميں نے بغداد ميں‬
‫سے سے زياده کسی کو نہيں پايا‪،‬‬

‫ احمد بن سعيد دارمی فرماتے ہيں کہ آپ کے زمانے ميں آپ سے‬


‫زياده حديثوں کو ياد کرنے واال کوئی نہيں تھا‪،‬‬

‫ اسحاق بن راہويہ فرماتے ہيں کہ آپ ( اور بندوں کے بيچ حجت ہيں‪،‬‬


‫آزمائش‬
‫ امام احمد رحمہ ( ان مخصوص لوگوں ميں سے ہيں جو زندگی ميں سخت آزمائش سے‬
‫دوچار ہوئے‪،‬‬
‫ خليفہ مامون‪ ،‬معتصم‪ ،‬اور واثق تينوں کے زمانے ميں آپ پر مصائب و شدائد کے پہاڑ‬
‫توڑے گئے‪،‬‬
‫ آپ پر اتنے کوڑے برسائے جاتے تھے کہ اگر اتنے کوڑے ايک ہاتھی پر بھی برسائے‬
‫جاتے تو وه بھی برداشت نہ کرتا‪ ،‬درد سے مر جاتا‪،‬‬
‫ آخر ميں متوکل کے زمانے ميں آپ کا بے حد احترام ہونے لگا‪ ،‬عقيدت و احترام ميں اس‬
‫قدر شاہی عنايتوں کی بارش ہونے لگی کہ آپ پکار اٹھے‪،‬‬
‫علي من ذلك‬
‫ھذا أمر أش ّد ّ‬
‫ يہ مصيبت تو قيد و بند اور کوڑوں کی برسات کی مصيبت سے زياده سخت ہے‪،‬‬
‫امام احمد بن حنبل رحمہ ( نے اپنے پيش رو امام ابو حنيفہ‪ ،‬امام مالک‬
‫وغيره کے جيسے ہی اپنے علم کو شاہی نفوز اور اثر سے پاک رکھا‪،‬‬
‫اوراسے جاھليت کے ٰ‬
‫ادنی شائبے سے بھی ملوث ہونے نہيں ديا‬

‫رحمہ " رحمۃ واسعة‬


‫بسم ( الرحمن الرحيم‬

‫إمام بخاری رحمہ "‬


‫ والدت ‪194‬ھ ‪ -‬وفات ‪256‬ھ‬
‫نام اور خاندان‬

‫ ابو عبد( محمد بن اسماعيل البخاری‪ ،‬بخارا ميں پيدا ہوئے‬


‫ آپ بچپن ہی ميں يتيم ہو گئے تھے‬
‫ آپ کے والد إسماعيل رحمہ " بہت بڑے محدث تھے‬
‫تعليم و تربيت‬
‫آپ نے ‪ 11‬سال کی عمر سے حديث کی سماعت شروع کی ‪،‬‬
‫ اور ‪ 16‬سال کی عمر ميں عبد( بن المبارک اور وکيع کی جمع کی ہوئی ساری حديثوں‬
‫کو ياد کر ليا‪،‬‬
‫ آپ اپنی والده کے ساتھ حج کے لئے مکہ گئے پھر حج کے بعد حصول علم کے لئے وہيں‬
‫ٹھہر گئے اور ‪ 6‬سال تک حجاز ميں ہی تعليم حاصل کرتے رہے‪،‬‬

‫آپ کا علمی سفر‬


‫ امام بخاری نے علم حديث کيلئے خراسان‪ ،‬جبال‪ ،‬عراق‪ ،‬شام‪ ،‬اور مصر کا سفر کيا‬
‫ حديث کيلئے شام‪ ،‬مصر اور جزيره دو بار گئے‬
‫ بصره ‪ 4‬بار اور کوفہ اور بغداد کئی بار گئے‬
‫آپ کے اساتذه‬
‫امام بخاری کے اساتذه کی تعداد بہت زياده ہے‪ ،‬ان ميں سے‬
‫‪ .1‬اسحاق بن راہويہ‪،‬‬
‫‪ .2‬قتيبہ بن سعيد‪،‬‬
‫‪ .3‬محمد عبد ( انصاری‪،‬‬
‫‪ .4‬ابو عاصم النبيل‪،‬‬
‫‪ .5‬علی بن مدينی‪،‬‬
‫‪ .6‬احمد بن حنبل‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی بن معين‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫‪ .8‬مکی بن ابراہيم‪،‬‬
‫‪ .9‬عبد( بن موسی‪،‬‬
‫‪ .9‬ابو عاصم شيبانی‪،‬‬

‫‪.10‬عبد ( بن زبير‪،‬‬

‫‪.11‬حميدی رحمہم (‬

‫جيسے اکابرين شامل ہيں‬


‫آپ کے شاگرد‬

‫بﮍے بﮍے اہل علم اور مشاہير وقت محدثين آپ کے شاگردوں ميں شامل ہيں‪،‬‬ ‫‬
‫جيسے امام مسلم‪،‬‬ ‫‪.1‬‬
‫ابو زرعہ‪،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫ابو حاتم‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫إمام ترمذی‪،‬‬ ‫‪.4‬‬
‫محمد بن نصر‪،‬‬ ‫‪.5‬‬
‫ابن خزيمہ‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫محمد بن نصر مروزی‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫ابو عبدﷲ الضريری‪،‬‬ ‫‪.8‬‬
‫إمام نسائی رحمہم ﷲ وغيره امام بخاری سے روايت کرتے ہيں‪،‬‬ ‫‪.9‬‬
‫ان کے عالوه امام صاحب سے ‪ 90‬ہزار لوگوں نے براه راست بخاری شريف کی سماعت‬ ‫‬
‫کی اور امال بھی کيا‪،‬‬
‫علم حديث سے آپ کا شغف‬
‫ محمد بن ابی حاتم‪ ،‬وراق بخاری‪ ،‬اور محمد بن يوسف فربری اپنا چشم ديد واقعہ بيان کرتے‬
‫ہيں کہ امام بخاری ايک رات ميں ‪ 15 ،15‬اور ‪ 20،20‬مرتبہ آٹھ کر چراغ روشن کرتے‪،‬‬
‫حديث کا مطالعہ کرتے اور سو جاتے تھے‬
‫علمی خدمات‬
‫ يوں تو امام بخاری نے بہت سی کتابيں لکھی ہيں جو ان کے علم و فضل کا شاہکار ہيں‬
‫ليکن آپ کا سب سے بڑا کارنامہ صحيح بخاری ہے‪،‬‬
‫ صحيح بخاری ‪ 16‬سال کی مدت ميں مکمل ہوئی‪ ،‬آپ نے اس کو نبی صلی ( عليہ وسلم‬
‫کی قبر انور اور منبر کے درميان بيٹھ کر لکھا ہے‪،‬‬
‫ آپ خود اس کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ"جعلته حجة في ما بيني و بين ""‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے درميان حجت بنايا ہے‬ ‫ميں نے اس کتاب کو اپنے اور (‬
‫ امام بخاری نے ‪ 208‬صحابہ سے روايت کی ہے‬
‫ آپ کو ايک الکھ حديثيں ياد تھيں‪ ،‬بعض نے کہا کہ آپ کو ‪ 6‬الکھ حديثيں ياد تھيں مگر آپ‬
‫نے بخاری شريف ميں صرف ‪ 7275‬حديثوں کو جمع کيا ہے‬

‫ ان ميں سے مکررات کو حذف کرنے کے بعد صرف ‪ 4‬ہزار حديثيں رہتی ہيں‪،‬‬

‫ بخاری شريف کی خصوصيت يہ ہے کہ وه بيک وقت حديث کی کتاب بھی ہے اور اصول و‬
‫عقائد‪ ،‬اسالمی معاشرت‪ ،‬فقہ‪ ،‬تفسير‪ ،‬اور سيرت کی انسائيکلوپيڈيا بھی ہے‪،‬‬

‫ آپ کی اس شاہکار کتاب کو اصح الكتاب بعد كتاب " "کتاب ( کے بعد صحيح ترين‬
‫کتاب" سے بھی ياد کيا جاتا ہے‬

‫ علمائے حديث نے مختلف ادوار ميں اس عظيم کتاب کی اب تک ‪ 53‬شرحيں لکھی ہيں‬
‫وجہ تاليف بخاری‬
‫ ايک مرتبہ آپ کے استاد اسحاق بن راہويہ نے يہ خواہش ظاہر کی کہ ايک ايسی کتاب‬
‫ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا جس ميں تمام معتبر اور مستند حديثوں کو يکجا کر ديا جاتا تاکہ‬
‫طالب علم اپنی تعليم کو بآسانی مکمل کر سکے ‪،‬‬
‫ آپ فرماتے ہيں‪ ،‬فوقع ذلك في قلبي‪"،‬اس وقت يہ بات ميرے دل ميں بيٹھ گئی"‬
‫ ايک دوسری وجہ يہ بھی ہے کہ آپ نے نبی صلی ( عليہ وسلم کو خواب ميں ديکھا کہ‬
‫آپ کے ہاتھ ميں ايک پنکھا ہے جس کے ذريعے سے نبی صلی ( عليہ وسلم کے چہرے‬
‫سے مکھياں اڑا رہے ہيں‪،‬‬
‫ ماہرين نے اس کی تفسير يہ بتائی کی کہ آپ صحيح حديثوں کو جھوٹی حديثوں سے پاک‬
‫کريں گے‪،‬‬
‫ اس خواب کے بعد آپ کا شوق اور بھی بڑھ گيا‪،‬‬
‫آپ کا اخالق و کردار‬

‫ٰ‬
‫اعلی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ بے حد متقی‬ ‫آپ علم و فضل ميں ايک منفرد اور‬
‫اور پرہيزگار بھی تھے‬

‫حد درجے محتاط اور محل تہمت سے بھی دور رہنے والے تھے‬

‫ايک واقعہ‬
‫ اس سلسلے ميں ايک واقعہ بيان کيا جاتا ہے کہ ايک مرتبہ آپ سمندری سفر پر تھے‪ ،‬ايک شخص سے آپ کی‬
‫اچھی دوستی ہو گئی‪ ،‬آپ کے پاس ايک ہزار اشرفيوں کی تھيلی تھی‪ ،‬اس شخص پر بھروسہ کی وجہ سے بتا‬
‫ديا کہ آپ کے پاس کتنا مال ہے‪ ،‬اس شخص کی نيت خراب ہو گئی‪ ،‬اور اس مال کو ہڑپنے کيلئے چال يہ چلی‬
‫کہ دوسرے دن صبح سويرے چالنے لگا‪ ،‬رونے پيٹنے لگا کہ اس کی ايک ہزار اشرفيوں سے بھری تھيلی کھو‬
‫گئی ہے‪ ،‬جہاز والوں نے سب کی تالشی لينی شروع کی تو آپ نے آہستہ سے اپنی تھيلی سمندر ميں پھينک ديا‪،‬‬
‫جب کہيں سے تھيلی نہيں ملی تو اس شخص کو سب نے برا بھال کہا اور چلے گئے‪ ،‬جہاز سے اترنے کے بعد‬
‫اکيلے ميں اس شخص نے امام صاحب پوچھا کہ آپ نے اپنی تھيلی کا کيا کيا؟‬
‫آپ نے جواب ديا کہ سمندر ميں پھينک ديا‪،‬‬
‫وه شخص بڑا حيران ہوا اور کہنے لگا کہ اتنی بڑی رقم کو ضائع کرنے کيلئے دل کيسے گوارا کيا؟‬

‫ آپ نے فرمايا کہ کيا تمہيں خبر نہيں کہ ميری ساری دولت ميری ثقاہت ہے‪ ،‬اس ميں سرقہ کا اشتباه کيسے‬
‫گوارا کيا جا سکتا ہے‪ ،‬جس ثقاہت کو ميں نے تمام عمر حاصل کيا اسے چند اشرفيوں کی وجہ سے کيسے‬
‫داغ دار ہونے ديتا؟‬
‫علماء کرام کے اقوال‬

‫ امام احمد بن حنبل رحمہ ( کہتے ہيں کہ خراسان ميں بخاری جيسا کوئی پيدا نہيں ہوا‪،‬‬
‫ امام دارمی رحمہ ( کہتے ہيں کہ امام بخاری سب سے بڑے عالم‪ ،‬سب سے بڑھ کر فقيہ‬
‫اور علم کيلئے سب سے زياده جفاکش ہيں‬
‫ امام ترمذی فرماتے ہيں کہ اسانيد و علل ميں امام بخاری سے بڑھ کر ميں نے کسی کو نہ‬
‫پايا‪،‬‬
‫ امام مسلم فرماتے ہيں کہ ان کے جيسا دنيا ميں کوئی نہيں ہے‪،‬‬
‫ ابن خزيمہ فرماتے ہيں کہ آسمان کے نيچے امام بخاری سے بڑھ کر عالم حديث کسی کو‬
‫نہيں ديکھا‪،‬‬
‫تعالی قبول فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے‬ ‫ ( ٰ‬
‫رحمہ " رحمۃ واسعة‬
‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫امام مسلم رحمۃ " عليہ‬


‫ والدت ‪206‬ھ ‪ -‬وفات ‪261‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬

‫ آپ کا نام مسلم بن الحجاج مسلم القشيری ہے‪ ،‬اور کنيت ابو الحسين‪،‬‬

‫ نيشاپور ميں پيدا ہوئے‬


‫تعليم و تربيت‬

‫• آپ بچپن سے ہی بڑے زہين تھے‪،‬‬


‫• چھوٹی سی عمر ہی ميں آپ نے تمام ضروری علوم و فنون ميں کمال حاصل کر ليا‪،‬‬
‫• پھر آپ نے ‪ 16‬سال کی عمر سے سماعت حديث کيلئے اپنے آپ کو لگا ديا‪،‬‬

‫حصول علم کيلئے سفر‬

‫إمام مسلم نے حصول علم حديث کيلئے عراق‪ ،‬حجاز‪ ،‬مصر‪ ،‬شام وغيره کا سفر کيا‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫• آپ کے اساتذه کی تعداد بہت بڑی ہے‪ ،‬ان ميں سے مشہور علمائے حديث‬
‫ٰ‬
‫يحيی نيشاپوری‪،‬‬ ‫ٰ‬
‫يحيی بن‬ ‫‪.1‬‬
‫‪ .2‬قتيبہ بن سعيد‪،‬‬
‫‪ .3‬اسحاق بن راہويہ‪،‬‬
‫‪ .4‬امام ذہلی محمد بن مہران‪،‬‬
‫‪ .5‬امام احمد بن حنبل‪،‬‬
‫‪ .6‬عبد ( بن مسلمہ‪،‬‬
‫‪ .7‬امام بخاری‪،‬‬
‫‪ .8‬عبد ( بن مسلمہ العبنی‪،‬‬
‫‪ .9‬سعيد بن منصور‪،‬‬
‫‪ .10‬ابو مصعب رحمہم ( جيسے اکابرين اہل علم اور مشائخ شامل ہيں‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫ آپ کے تالمذه کی تعداد بھی بہت زياده ہے‪ ،‬ان ميں سے مشہور‪،‬‬


‫‪ .1‬ابراہيم بن محمد‪،‬‬
‫‪ .2‬إمام ترمذی‪،‬‬
‫‪ .3‬ابن خزيمہ‪،‬‬
‫‪ .4‬ابو حاتم الرازی‪،‬‬
‫‪ .5‬ابو بکر بن خزيمہ‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی بن ساعده‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫‪ .7‬ابو عوانہ رحمہم ( جيسے اکابرين و مشاہير وقت شامل ہيں‪،‬‬
‫علمی خدمات‬

‫ امام مسلم ايک جليل القدر محدث تھے‪ ،‬جن کا شمار علم حديث کے ائمہ ميں ہوتا ہے‪،‬‬
‫‬
‫ آپ نے بغداد ميں حديث کا درس شروع کيا تو ايک بڑی تعداد نے آپ سے حديث کی‬
‫سماعت بھی کی اور امال بھی کيا‪،‬‬
‫‬
‫ آپ کو حديث کی صحت اور سقم پہچاننے ميں خاص امتياز حاصل تھا‪،‬‬
‫‬
‫ آپ کی تصنيفات بہت ہيں‪ ،‬آپ نے علم حديث کے مختلف عناوين پر قلم اٹھايا اور اس ميں‬
‫مکمل کامياب ہوئے‪ ،‬ان تمام کتابوں ميں آپ کی شاہکار کتاب مسلم شريف ہے‬
‫جامع صحيح مسلم‬

‫ اس کتاب کے بارے ميں حافظ أبو علی نيشاپوری رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ما تحت أديم السماء أصح من‬
‫كتاب مسلم في علم الحديث "علم حديث ميں مسلم سے بڑھ کر صحيح کتاب آسمان کے نيچے کوئی نہيں ہے"‬
‫ اس کتاب کو امام مسلم نے ‪ 15‬سالوں ميں مکمل کيا ہے‪،‬‬
‫ اس ميں شک نہيں کہ مسلم شريف فن حديث کے عجائبات پر مشتمل ہے‪،‬‬
‫ روايتوں کی تربيت‪ ،‬تلخيص طرق‪ ،‬ضبطِ انتشار‪ ،‬اور صحيح اسانيد کے اعتبار سے صحيح مسلم کا درجہ‬
‫صحيح بخاری سے بھی بڑھ جاتا ہے‪،‬‬
‫ امام مسلم فرماتے ہيں کہ" ميں نے اپنی کتاب ميں ‪ 3‬الکھ حديثوں ميں سے منتخب شده صرف ‪ 4‬ہزار‬
‫حديثوں کو ہی شامل کيا ہے‪"،‬‬
‫ پھر فرماتے ہيں کہ "ميں نے اپنی کتاب ميں صرف صحيح حديثوں کو ہی جمع کيا ہے مگر ميں يہ نہيں کہتا‬
‫کہ جن حديثوں کو ميں نے چھوڑ دی ہے وه ساری ضعيف ہيں "‬
‫ آپ نے جن صحابہ کرام سے روايت کی ہے ان کی مجموعی تعداد ‪ 218‬ہے‬
‫ امام مسلم نے اپنی کتاب ميں صرف ان حديثوں کو جگہ دی ہے جس کے راوی امام مسلم سے‬
‫ليکر نبی صلی " عليہ وسلم تک ہر دور اور طبقے ميں کم از کم ‪ 2‬اشخاص رہے ہوں‪ ،‬يعنی‬
‫ايک حديث کو کم از کم دو صحابہ نے اور ان سے دو تابعی نے اور پھر ان سے دو تبع تابعين‬
‫نے يہاں تک کہ امام مسلم سے دو راويوں نے روايت کی ہو‪،‬‬
‫ امام مسلم کے نزديک راوی کيلئے صرف عادل ہونا کافی نہيں ہے‪ ،‬بلکہ اس کے ساتھ ساتھ‬
‫اس کا شہادت کی تمام شرطوں پر پورا اترنا بھی ضروری ہے‪،‬‬
‫ امام مسلم نے ہر ايک حديث کيلئے ايک مناسب مقام تجويز کيا ہے پھر اسی جگہ پر اس‬
‫حديث کے متعلق تمام طريقوں اور اس کے مختلف الفاظ کو جمع کر ديا ہے‪ ،‬اس سے طالب‬
‫علم کيلئے بڑی سہولت پيدا ہو گئی ہے‪،‬‬
‫ اسی وجہ سے امام مسلم کے ہم عصر تمام اہل علم ان کے فضل و شرف کی گواہی ديتے ہيں‪،‬‬

‫ " ٰ‬
‫تعالی شر ِ‬
‫ف قبوليت بخشے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے آمين‬
‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫امام ترمذی رحمہ "‬


‫ والدت ‪209‬ھ ‪ -‬وفات ‪279‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬

‫ آپ کا نام محمد بن عيسی اور کنيت ابو عيسی ہے‪،‬‬


‫ شہر ترمز ميں پيدا ہوئے‪،‬‬
‫ اسی لئے آپ ترمذی کے نام سے مشہور ہوئے‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫ امام ترمذی امام بخاری کے مشہور شاگردوں ميں سے ايک ہيں‬


‫ امام مسلم اور امام ابوداؤد بھی آپ کے اساتذه ميں شامل ہيں‪،‬‬
‫ ان کے عالوه آپ کے بہت سارے اساتذه ہيں‪ ،‬ان ميں سے‬
‫‪ .1‬قتيبہ بن سعيد‪،‬‬
‫‪ .2‬محمد بن غيالن‪،‬‬
‫‪ .3‬محمد بن بشار‪،‬‬
‫‪ .4‬أحمد بن منير‪،‬‬
‫‪ .5‬محمد بن متنی‪،‬‬
‫‪ .6‬سفيان بن وکيع رحمہم ( وغيره خاص ہيں‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫ امام ترمذی کے شاگردوں کی فہرست کافی لمبی ہے‪ ،‬ان ميں‬


‫‪ .1‬محمد بن أحمد‪،‬‬
‫‪ .2‬خيثم بن کليب بہت مشہور ہيں‪،‬‬
‫ان کے عالوه‬
‫‪ .1‬ابو العباس احمد‪،‬‬
‫‪ .2‬محمد بن محبوب المروزی‪،‬‬
‫‪ .3‬أبو حامد أحمد بن عبد مروزی رحمہم ( وغيره بھی شامل ہيں‪،‬‬
‫تعليمی اسفار‬

‫ حديث کی طلب ميں امام ترمذی کوفہ‪ ،‬بصره‪ ،‬رے‪ ،‬خراسان اور حجاز ميں‬
‫سالوں سفر کرتے رہے ہيں‪،‬‬

‫ امام ترمذی کی قوت حافظہ کے بارے ميں بہت سے واقعات مشہور ہيں‪ ،‬اگر‬
‫ايک بار کوئی حديث آپ سن ليتے تو پھر اسے کبھی نہيں بھولتے‪،‬‬
‫علمی خدمات‬
‫ جامع ترمذی آپ کی ايک مقبول ترين تاليف ہے‪،‬محدثين کے نزديک يہ ايک اہم کتاب ہے‪،‬‬
‫ اس کتاب کی چند خصوصيات ہيں جس کی وجہ سے يہ دوسری کتابوں پر فوقيت رکھتی ہے‪،‬‬
‫ اس کتاب ميں امام ترمذی حديث کی حيثيت کا بھی ذکر کرتے ہيں کہ وه مشہور ہے يا متواتر يا آحاد ہے‪،‬‬
‫ حديث کو نقل کرنے کے بعد اس حديث سے ماخوذ مسائل‪ ،‬فقہاء کے اختالفات اور ان کے طريقہ استدالل‬
‫کو بھی ذکر کرتے ہيں‪،‬‬
‫ ہر حديث کے بعد راوی کے درجات کو بھی ذکر کرتے ہيں کہ يہ ضعيف ہے يا قوی‪ ،‬اسی کے اعتبار سے‬
‫حديث پر حکم لگاتے ہيں کہ يہ صحيح ہے يا حسن ہے يا غريب‪ ،‬منکر‪ ،‬ضعيف و معلل ہے‪،‬‬
‫ امام ترمذی کا بيان ہے کہ انہوں اپنی کتاب ميں کوئی ايسی حديث نہيں لی ہے جس پر کسی نہ کسی کا عمل‬
‫نہ ہو‪،‬‬
‫ اہل علم نے جامع ترمذی کے بارے فرمايا ہے کہ من كان في بيته ھذا الكتاب فكأنما في بيته نبي يتكلم‬
‫ "جس گھر ميں يہ کتاب ہوگی گويا اس کے گھر نبی ہے جو ان سے گفتگو کرتا ہے "‬
‫اخالق و کردار‬

‫ امام ترمذی نہايت متقی اور پرہيز گار انسان تھے‪ ( ،‬کا خوف آپ پر اس قدر غالب تھا کہ رو‬
‫رو کر آپ کی بينائی چلی گئی‪،‬‬

‫ سچ فرمايا رب العالمين نے کہ إنما يخشى " من عباده العلماء‪،‬‬


‫" ( کے بندوں ميں سے سب سے زياده ( سے ڈرنے والے علم والے ہی ہوتے ہيں "‬

‫رحمہ " رحمۃ واسعة‬


‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫ابو داؤد رحمۃ " عليہ‬


‫ والدت ‪202‬ھ ‪ -‬وفات ‪275‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬


‫ سليمان بن االشعث آپ کا نام ہے‬
‫ ابو داؤد آپ کی کنيت ہے‪،‬‬
‫ آپ قندھار کے قريب سجستان شہر کے رہنے والے تھے ‪،‬‬
‫ زندگی کا بہت بڑا حصہ آپ نے بغداد ميں گزارا ہے‪،‬‬
‫تعليم و تربيت‬
‫ آپ بچپن سے ہی زہين تھے‪،‬‬
‫ چھوٹی سی عمر ميں ہی تمام ضروری علوم ميں مہارت حاصل کرنے کے بعد‬
‫حصول حديث کی طرف متوجہ ہوگئے ‪،‬‬

‫تعليمی اسفار‬

‫ آپ نے طلب علم کيلئے عراق‪ ،‬خراسان‪ ،‬مصر‪ ،‬شام‪ ،‬حجاز‪ ،‬الجزائر وغيره کا‬
‫سفر کيا‪ ،‬اور ہر عالقے کے تمام علماء سے خوب سيرابی حاصل کی‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫ امام ابو داؤد کے بھی بہت سارے اساتذه ہيں ان ميں سے مشہور اساتذه کے نام يہ ہيں‪،‬‬
‫‪ .1‬مسلم بن ابراہيم‪،‬‬
‫‪ .2‬سليمان بن حرب‪،‬‬
‫ٰ‬
‫يحيی بن معين‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫‪ .4‬عثمان بن ابی شيبہ‪،‬‬
‫‪ .5‬قتيبہ بن سعيد‪ ،‬رحمہم ( رحمة واسعة‬

‫ ابن حجر رحمہ " کے اندازے کے مطابق امام ابو داؤد کے اساتذه کی تعداد ‪ 300‬سے‬
‫زائد ہے‪،‬‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫ آپ کے تالمذه ميں مشہور‬

‫‪ .1‬ابو عبد الرحمن نسائی‪،‬‬


‫‪ .2‬احمد بن محمد‪،‬‬
‫‪ .3‬امام ترمذی‪ ،‬وغيره رحمہم ( قابل ذکر ہيں‪،‬‬
‫علمی خدمات‬

‫ آپ کی علمی خدمات بہت ساری ہيں مگر سب سے مشہور و معروف آپ کی تاليف سنن ابی داؤد ہے‪،‬‬
‫ آپ نے اس کتاب ميں صحيح يا حسن سے کم درجہ کی حديث نہيں لی‪،‬‬
‫ اس کتاب ميں ايک ثالثی بھی ہے‬
‫ امام احمد بن حنبل رحمہ ( کے سامنے يہ کتاب پيش کی گئی تو آپ نے اسے بہت پسند فرمايا‪،‬‬
‫ ابن عربی رحمہ ( فرماتے ہيں کہ" اگر کسی کے پاس قرآن اور يہ کتاب موجود ہو تو پھر اسے‬
‫ضروريات دين کو جاننے کيلئے کسی اور چيز کی حاجت نہيں ہے‪"،‬‬
‫ آپ کو ‪ 5‬الکھ حديثيں ياد تھيں‪ ،‬ان ميں سے ‪ 4800‬حديثوں ہی کو آپ نے اپنی سنن ميں شامل کيا ہے‪،‬‬
‫ سنن کی بھی علماء نے متعدد شروحات لکھی ہيں‪،‬‬
‫ سنن کے عالوه امام ابو داود کی بہت ساری تاليفات و تصنيفات بھی ہيں‬
‫علماء کے اقوال‬
‫ ابو حاتم رحمہ " فرماتے ہيں کہ ‪”:‬آپ حفظ کے اعتبار سے دنيا کے اماموں ميں سے ايک تھے“۔‬
‫ محمد بن مخلد رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ”ابوداؤد ايک الکھ حديثوں کا پورا مذاکره کيا کرتے‬
‫تھے‪ ،‬اور جب آپ نے سنن مرتب کی تو تمام اہل زمانہ نے آپ کے حفظ اور سبق ِ‬
‫ت علمی کا‬
‫اعتراف کيا“۔‬
‫ امام نووی رحمہ " فرماتے ہيں کہ ”جمہور علمائے اسالم کو ان کے کمال حفظ کا اعتراف ہے“۔‬
‫ حافظ محمد بن اسحاق الصاغانی‪ ،‬اور ابراہيم الحرب رحمہما ( آپ کے بارے ميں فرماتے ہيں‬
‫کہ »اُلِين ألبي داود الحديث كما اُلِين لداود الحديد« يعنی ابوداود کے لئے حديث ويسے ہی نرم‬
‫اور ٓاسان بنادی گئی جيسے داود عليہ السالم کے لئے لوہا نرم کر ديا گيا‪،‬‬
‫ حافظ موسی بن ہارون رحمہ ( کہتے ہيں کہ خلق أبو داود في الدنيا للحديث وفي اآلخرة للجنة‬
‫وما رأيت أفضل منه "ابو داؤد دنيا ميں حديث کی خدمت کيلئے پيدا کئے گئے اور آخرت ميں‬
‫جنت کيلئے‪ ،‬ميں نے ان بہتر کسی کو نہيں ديکھا"‬
‫اخالق و کردار‬

‫ مسلم بن قاسم فرماتے ہيں کہ ” ٓاپ ثقہ اور زاہد تھے‪ ،‬حديث کے ماہر تھے‪،‬‬
‫اس فن ميں اپنے وقت کے امام تھے“۔‬

‫ٰ‬
‫وتقوی کے لئے يہ مثال ہی کافی ہے کہ ٓاپ اپنی ايک ٓاستين کو‬ ‫ آپ کے ورع‬
‫کشاده اور دوسری کو تنگ رکھا کرتے تھے‪ ،‬جب ٓاپ سے دريافت کيا گيا تو‬
‫فرمايا‪” :‬ايک ٓاستين تو اس لئے کشاده رکھتا ہوں کہ اس ميں اپنی کتاب کے‬
‫کچھ اجزاء رکھ لوں‪ ،‬اور دوسری کا کشاده رکھنا غير ضروری ہے“۔ يعنی‬
‫اسراف ہے‬
‫فقہی ذوق و بصيرت‬

‫ امام ابوداود کو جس طرح حديث ميں امامت کا درجہ مال ہے اسی طرح ٓاپ کو‬
‫فقہ و اجتہاد ميں بھی ايک امتيازی حيثيت حاصل ہے ‪،‬‬
‫ بعض علماء نے تو ٓاپ کو فقہ و اجتہاد ميں امام بخاری کے بعد دوسرا درجہ‬
‫ديا ہے‪ ،‬اور لکھا ہے کہ امام بخاری کے بعد امام ابواود کا مرتبہ سب سے بلند‬
‫ہے‪،‬‬

‫ ﷲ ٰ‬
‫تعالی قبوليت بخشے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے‬

‫رحمة ﷲ عليه رحمة واسعة‬


‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫ابن ماجہ رحمہ "‬

‫ والدت ‪209‬ھ ‪ -‬وفات ‪273‬ھ‬


‫ نام اور خاندان‬

‫ آپ کا نام محمد بن يزيد بن ماجہ تھا‪،‬‬


‫ ابو عبد( آپ کی کنيت تھی‪،‬‬
‫شہر قزوين کے رہنے والے تھے‪،‬‬
‫ آپ عراق اور عجم کے درميان ايک شہر ِ‬
‫تعليم و تربيت‬

‫ آپ شروع سے ہی امام مالک رحمہ ( کی شاگردی اختيار کر لی تھی‪،‬‬

‫تحصيل علم کيلئے آپ نے‬


‫ِ‬ ‫ امام مالک رحمہ ( سے علم حديث حاصل کرنے کے بعد مزيد‬
‫مختلف عالقوں کا سفر کيا‬

‫تعليمی اسفار‬

‫ آپ نے کوفہ‪ ،‬بصره‪ ،‬بغداد‪ ،‬مکہ‪ ،‬شام‪ ،‬رے اور مصر کا سفر کيا وہاں کے کبار علماء‬
‫سے سير حاصل استفاده فرمايا‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬

‫آپ کے مشہور اساتذه ميں سے‬


‫‪ .1‬جباره بن المفلس‪،‬‬
‫‪ .2‬إبراھيم بن المنذر‪،‬‬
‫‪ .3‬ھشام بن حماد‪،‬‬
‫‪ .4‬ابن نمير رحمہم ( وغيره خاص ہيں‪،‬‬
‫ ان کے عالوه بھی بہت سارے مشائخ ہيں جن کی فہرست کافی طويل ہے‪،‬‬
‫آپ کے سب سے زياده خصوصی استاد ابوبکر بن ابی شيبہ رحمہ " ہيں‪،‬‬
‫آپ کے تالمذه‬

‫ يوں تو آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت ہے مگر‬


‫خصوصی حيثيت‬
‫‪ .1‬ابو الحسن القطان رحمہ (‬
‫‪ .2‬اور عيسی االبھری رحمہ ( کو حاصل ہے‪،‬‬
‫علمی خدمات‬

‫ ابن ماجہ رحمہ ( کی خدمات کو امت مسلمہ کبھی فراموش نہيں کر سکتی‪،‬‬
‫ آپ نے درس و تدريس اور تاليف و تصنيف دونوں ذرائع سے علم حديث کی خوب خدمت‬
‫کی ہے‪،‬‬
‫ خاص طور پر آپ کی سنن ابن ماجہ حديث کی کتابوں ميں معروف کتاب ہے‪،‬‬
‫ اس کتاب ميں ‪ 5‬ثالثی احاديث بھی موجود ہيں‪،‬‬
‫ اس کتاب کو اکثر علماء اور محدثين نے صحاح ستہ ميں شمار کيا ہے‪،‬‬
‫ اس کتاب ميں ايک موضوع حديث بھی داخل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے بعض علماء‬
‫اس کتاب کو صحاح ستہ ميں شامل نہيں کرتے ہيں‪،‬‬
‫ ابن ماجہ رحمہ ( فرماتے ہيں کہ ميں نے اس کتاب کو حافظ ابو زرعہ رحمہ ( کے‬
‫سامنے پيش کی تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب ميں ضعيف حديثيں ‪ 30‬سے زياده نہيں ہيں‪،‬‬
‫‬
‫ حافظ ذھبی رحمہ ( اس کتاب کے بارے ميں فرماتے ہيں کہ "اگر اس کتاب سے چند‬
‫کمزور حديثوں کو نکال ديا جائے تو يہ بہت ہی عمده کتاب ہے‪،‬‬
‫‬
‫حسن ترتيب اور عدم تکرار کے لحاظ سے دوسری کتابوں کے مقابلے‬
‫ِ‬ ‫ سنن ابن ماجہ کو‬
‫ميں امتياز حاصل ہے‪،‬‬
‫‬
‫ ابن حجر رحمہ ( لکھتے ہيں کہ يہ کتاب بہترين‪ ،‬جامع اور بکثرت ابواب و نوادر پر‬
‫مشتمل ہے‪،‬‬
‫ سنن ابن ماجہ کی تربيت و تبويب فقہی مسائل کے لحاظ سے ہے‪،‬‬

‫ اس کتاب ميں بہت سی ايسی نادر روايتيں پائی جاتی ہيں جو دوسری صحاح‬
‫خمسہ ميں موجود نہيں ہيں‪،‬‬

‫ اس کتاب ميں کل ‪ 4000‬حديثيں ہيں جو ‪ 1500‬أبواب کے تحت ذکر کی گئيں‬


‫ہيں‪،‬‬

‫ بڑے بڑے علماء کرام نے اس کتاب پر مختلف طريقوں سے کام کيا ہے‬
‫ علماء کے اقوال‬

‫فن حديث ميں امامت کا‬


‫ عالمہ ابن خلکان رحمہ ( فرماتے ہيں کہ "ابن ماجہ ِ‬
‫درجہ رکھتے ہيں‪،‬‬
‫ عالمہ ابن کثير رحمہ ( اور ديگر بہت سارے اکابرين‪ ،‬اس عظيم کارنامہ پر‬
‫خراج تحسين پيش کرتے ہيں اور آپ کے علمی تبحر کا اعتراف بھی کرتے‬
‫ہيں‪،‬‬
‫تعالی قبول فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب کرے‬ ‫( ٰ‬

‫رحمہ " رحمۃ واسعة‬


‫بسم " الرحمن الرحيم‬

‫إمام نسائی رحمۃ " عليہ‬

‫ والدت ‪215‬ھ ‪ -‬وفات ‪303‬ھ‬

‫نام اور خاندان‬


‫أحمد بن شعيب النسائی آپ کا نام تھا‬
‫ ابو عبد الرحمن آپ کی کنيت تھی‬
‫ خراسان کے شہر نسا ميں پيدا ہوئے‬
‫تعليم و تربيت‬

‫ بچپن ميں مقامی علماء سے ضروری علم کو حاصل کرنے کے بعد ‪ 15‬سال کی عمر‬
‫علم حديث کی طرف متوجہ ہوئے‪،‬‬
‫ميں ِ‬
‫ اس کام کے لئے سب سے پہلے قتيبہ بن سعيد رحمہ ( کی خدمت ميں حاضر ہوئے‪،‬‬
‫اور ‪ 14‬ماه تک آپ سے استفاده کرتے رہے ‪،‬‬

‫تعليمی اسفار‬

‫ تعليمی سلسلے کو آگے بڑھانے کيلئے آپ نے خراسان‪ ،‬حجاز‪ ،‬عراق‪ ،‬شام‪ ،‬مصر‪،‬‬
‫الجزيره وغيره کا سفر کيا‪،‬‬
‫آپ کے اساتذه‬
‫ حضرت قتيبہ بن سعيد رحمہ " کے عالوه امام نسائی رحمہ ( نے بہت سارے مشائخ سے سماعت حديث‬
‫کی‪ ،‬ان ميں سے بعض مشہور علماء کے نام يہ ہيں‪،‬‬
‫امام بخاری‪،‬‬ ‫‪.1‬‬
‫ھناد بن سسری‪،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫محمد بن بشار‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫يونس بن عبد االعلی‪،‬‬ ‫‪.4‬‬
‫اسحاق بن راہويہ‪،‬‬ ‫‪.5‬‬
‫محمد بن نصر‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫محمد بن غيالن‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫ابو داؤد سليمان بن اشعث‪،‬‬ ‫‪.8‬‬
‫ابو زرعہ رازی‪،‬‬ ‫‪.9‬‬
‫‪ .10‬ابو حاتم رازی‪،‬‬
‫‪ .11‬علی بن حجر وغيرھم رحمہم "‬
‫آپ کے تالمذه‬
‫ امام نسائی کے تالمذه کی تعداد بہت زياده ہے‪ ،‬ان ميں بڑے ہی مشہور تالمذه‬
‫‪ .1‬عبد الکريم‪،‬‬
‫‪ .2‬ابو علی حسن بن خضر سيوطی‪،‬‬
‫‪ .3‬ابو بکر احمد بن اسحاق‪،‬‬
‫‪ .4‬حافظ أبو القاسم طبرانی‪،‬‬
‫‪ .5‬ابو جعفر طحاوی‪،‬‬
‫‪ .6‬احمد بن محمد مھندس‪،‬‬
‫قابل ذکر ہيں‪،‬‬
‫وغيرھم رحمہم ( ِ‬
‫علمی خدمات‬
‫فن حديث اور علل پر کئی کتابيں لکھيں ہيں ‪،‬‬
‫ امام نسائی رحمہ ( نے ِ‬
‫ آپ نے سب سے پہلے سنن کبری کی تاليف کی‪ ،‬امير وقت نے آپ سے پوچھا کہ‪ ،‬کيا اس کتاب کی ساری‬
‫حديثيں صحيح ہيں؟ آپ نے جواب ديا کہ نہيں‪ ،‬بعض صحيح ہيں اور بعض حسن ہيں‪،‬‬
‫ اس پر امير نے درخواست کی کہ ميرے لئے ايک ايسی کتاب مرتب کريں جس کی ساری حديثيں صحيح‬
‫ٰ‬
‫مجتبی بھی کہتے ہيں‪،‬‬ ‫ٰ‬
‫صغری تاليف کی‪ ،‬جس کو سنن‬ ‫ہوں‪ ،‬اس کے جواب ميں آپ نے سنن‬
‫ ان کے عالوه بھی آپ کی بہت ساری کتابيں ہيں‪ ،‬ليکن ان تمام کتابوں ميں سب سے زياده مشہور و‬
‫معروف آپ کی سنن نسائی ہے‪،‬‬
‫ سنن نسائی کے تعلق سے حافظ ومحدث ابو الحسن معافری فرماتے ہيں کہ جس حديث کی تخريج امام‬
‫نسائی نے کی ہو وه حديث صحت سے زياده قريب ہو جاتی ہے‪ ،‬اسی لئے بعض مغاربہ سنن نسائی کو‬
‫صحيح بخاری پر ترجيح ديتے ہيں‪،‬‬
‫ امام موصوف نے اس کتاب کے تراجم کو امام بخاری کے طرز پر قائم کئے ہيں‪ ،‬اس لئے اس کی اہميت‬
‫اور بھی بڑھ جاتی ہے‪،‬‬
‫ علماء کے اقوال‬
‫ امام ابو القاسم سعد بن علی زبخانی کہتے ہيں کہ "راويوں کے بارے ميں امام‬
‫نسائی کی شرائط بخاری و مسلم سے بھی زياده سخت ہيں"‬
‫ امام دار قطنی رحمہ ( فرماتے ہيں کہ "امام نسائی اپنے زمانے کے تمام‬
‫محدثين ميں بلند مقام رکھتے تھے‪،‬‬
‫تھے‪""،‬‬
‫ حافظ ابو علی نيشاپوری رحمہ ( فرماتے ہيں کہ "امام نسائی کو بغير کسی‬
‫تقابل کے حديث ميں امامت کا درجہ حاصل ہے"‬
‫ حافظ شمس الدين ذھبی سير اعالم النبالء ميں لکھتے ہيں کہ "امام نسائی‬
‫علل حديث اور علم الرجال ميں مسلم ‪ ،‬ترمذی اور ابو داؤد سے بھی‬‫حديث‪ِ ،‬‬
‫زياده مہارت رکھتے ہيں‪،‬‬
‫اخالق و کردار‬
‫ آپ بہت ہی اونچے اخالق کے مالک تھے‪ ،‬متقی اور پرہيز گار بھی تھے‪،‬‬
‫ آپ صوم داؤد عليہ السالم کی پابندی کرتے تھے يعنی ايک دن روزه رکھتے‬
‫اور ايک دن افطار کرتے تھے ‪،‬‬
‫ آپ حق کے معاملے ميں کسی کی پرواه نہيں کرتے تھے‪،‬‬
‫اہل بيت کی اہميت‬
‫آپ نے ديکھا کہ بنو اميہ کی حکومت ميں حضرت علی رضی " عنہ اور ِ‬
‫ب اہل بيت پر ايک کتاب تاليف کی اور اسے مسجد ميں‬ ‫ميں کمی آ رہی ہے تو آپ نے مناق ِ‬
‫پڑھنا شروع کيا‪ ،‬ايک شخص نے پوچھا کہ کيا آپ نے امير معاويہ رضی " عنہ کے مناقب‬
‫پر بھی کتاب لکھی ہے؟ آپ نے کہا کہ "امير معاويہ رضی " عنہ کے مناقب سے مجھے‬
‫انکار نہيں ہے مگر حضرت علی رضی " عنہ کے مقابلے ميں اس کی اتنی اہميت نہيں‬
‫ہے…يہ سننا تھا کہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑے اور مار مار کر جان نکال دی‪،‬‬
‫إنا … وإنا إليه راجعون‬
‫مقام رملہ ميں سپرد خاک کر ديا گيا‬
‫ آپ کو بيت المقدس سے ‪ 18‬ميل دور ِ‬
‫رحمہ " رحمۃ واسعة‬
‫تعالی قبول فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصيب فرمائے‬ ‫ " ٰ‬
‫ض ٰى َنحْ َب ُه َو ِم ْنھُم مَّن‬ ‫صدَ ُقوا َما َعا َھ ُدوا َّ َ‬
‫( َع َل ْي ِه ۖ َف ِم ْنھُم مَّن َق َ‬ ‫ين ِر َجا ٌل َ‬ ‫ ِم َن ْالم ُْؤ ِم ِن َ‬
‫َين َت ِظ ُر ۖ َو َما َب َّدلُوا َت ْب ِد ً‬
‫يال‬
‫"ايمان والوں ميں ايسے بھی لوگ موجود ہيں جنہوں نے ( سے کئے ہوئے عہد‬
‫کو سچ کر دکھايا‪ ،‬ان ميں سے کچھ تو اپنی نذر پوری کر چکے اور کچھ اپنی باری‬
‫کے منتظر ہيں‪ ،‬انہوں نے اپنے رويے کو بالکل بھی نہيں بدال"‪) ،‬االحزاب ‪(23‬‬

‫ ( ٰ‬
‫تعالی ہم سب کو انہيں کے نقش قدم پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے‪ ،‬آمين‬
‫ثم آمين‬
‫و آخر دعوانا أن الحمد Š رب العالمين‬

You might also like