You are on page 1of 1

‫دیکھتے ہیں وہ محض جانداروں تک محدود ہے یعنی ہمیں معلوم ہے کہ بکری مادہ ہے جبکہ شیرنر ہے۔ البتہ اگر

نر اور ‪ ‬‬
‫مادہ کی اِس تقسیم کو بے جان چیزوں پر الگو کر دیا جائے تو کیسے پتا چلے گا کہ " پلنگ" مذکر ہے یا مونث اور "‬
‫میز" ہوتی ہے یا ہوتا ہے۔‬

‫اپنی آج کی گفتگو میں ہم اسی مخمصے پر کچھ بات کرنا چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ آیا واحد اور جمع کی طرح‬
‫مذکر اور مونث کے تعیّن کے لئے ‪،‬کیا ہماری زبان میں کوئی واضح اُصول موجود ہے۔‬

‫سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھ لینا چاہیئے کہ جنس ِ حقیقی کا وجود صرف جانداروں ہی میں ہوتا ہے اور جانداروں کی‬
‫تذکیروتانیث کے لئے اُصول وضع کئے جا سکتے ہیں لیکن جن زبانوں میں بے جان اشیا کی بھی جِ نس ہوتی ہے یعنی میز‪،‬‬
‫ک ُرسی‪ ،‬کمرہ‪ ،‬فرش وغیرہ بھی جِ نس یا َجینڈر رکھتے ہیں ۔ اُن میں تذکیروتانیث کے اُصول وضع کرنا تقریبا ً نا ممکن ہوتا ہے‬
‫اہل زبان کی پیروی کرنی پڑتی ہے یعنی جن بے جان چیزوں کو وہ مونث بولیں ہم بھی اسے مونث ہی سمجھ لیں‬ ‫ِ‬ ‫اور ہمیں‬
‫اہل زبان اِس سلسلے میں چند اُصولوں کا ذکر بھی‬‫ِ‬ ‫اور جس کو وہ مذکر استعمال کریں ہم بھی اسے مذکر ہی قرار دیں۔کچھ‬
‫کرتے ہیں اور قواعد نویسوں نے بھی بے جان چیزوں کی تذکیروتانیث کے کچھ قاعدے اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج کی‬
‫گفتگو میں ہم ا ُن کوششوں کا ذکر بھی کریں گے۔ تو آئیے بات کا آغاز اپنے روزمرہ تجربے سے کرتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے‬
‫کہ لڑکا مذکر ہے اور لڑکی مونث ہے۔‬

‫تین چار سال کی عمر میں ہمیں یہ اصول تو معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونے والے مذکر اسماء کو مونث بنانا ہو تواُن‬
‫کی آخری الف کو چھوٹی " ی" میں بدل دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود خود ہم مرغا‪ ،‬مرغی‪ ،‬بکرا‪ ،‬بکری‪ ،‬یا گھوڑا‪ ،‬گھوڑی‬
‫کے سلسلے میں کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔‬

‫البتہ جب چڑا‪ ،‬چڑی اور ک ُتا‪ ،‬ک ُتی تک بات پہنچتی تو کسی بزرگ کا غضب ناک چہرہ دیکھنا پڑتا اور تذکیروتانیث کے وہ‬
‫معصوم سے اصول جو ہم نے الشعوری طور پر اپنا رکھے تھے‪ُ ،‬دھواں بن کر اُڑ جاتے۔ اِس بات کا منطقی جواب کوئی نہیں‬
‫دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کُتّی کو کُتّیا کہنا کیوں ضروری ہے۔‬

‫کھلی‬
‫سکول میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ تذکیروتانیث کی دنیا تو پوری اندھیر نگری ہے اور وہاں نر‪ ،‬مادہ کے اصولوں کی ُ‬
‫مچھر اور جھینگر کے بارے میں پتہ چال کہ اِن بے‬ ‫ّ‬ ‫کوا‪ ،‬اُلو‪ُ ،‬ہد ُہد‪ ،‬خرگوش‪ ،‬لنگور‪ِ ،‬گدھ‪ ،‬کچھوا‪،‬‬
‫خالف ورزیاں ہوتی ہیں۔ مثال ً ّ‬
‫مسز خرگوش بھی‬ ‫چاروں کی مونث شکل موجود ہی نہیں ہے۔ ِدل میں بار بار خیال آتا کہ مسٹر خرگوش کے گھر میں کوئی ِ‬
‫تو ہو گی‪ ،‬لنگور کی بیوی‪ِ ،‬گ دھ کی ماں‪ ،‬کچھوے کی بہن۔ کیا یہ سب ہستیاں وجود ہی نہیں رکھتیں؟ اور اگر ہیں تو اُن کے‬
‫لئے الفاظ کیوں موجود نہیں۔ اِس بےانصافی اور زیادتی پر ایک بار بہت ِگڑگڑا کر اپنے اُستاد سے سوال کیا تو وہ ِ‬
‫بھنّا کر بولے‬
‫’بے انصافی تو دونوں طرف سے ہے ۔۔۔۔ مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے کبھی؟ وہ بھی تو وجود رکھتا ہے‪ ،‬ہمیں الجواب پا‬
‫کر اُستاد جی نے پوری فہرست ِگنوا دی ’ فاختہ‪ ،‬مینا‪ ،‬چیل‪ُ ،‬مرغابی‪ ،‬ابابیل‪ ،‬مکھی‪ ،‬چھپکلی‪ ،‬چھچھوندر ۔۔۔۔ کیا اِن سب کے‬
‫باپ بھائی وجود نہیں رکھتے؟ لیکن ا ُن کے لئے کوئی علیحدہ الفاظ موجود نہیں ہیں۔چند برس بعد استاد جی سے مالقات ہوئی‬
‫بھن ّاہٹ بدستور قائم تھی‪ ،‬دیکھتے ہی بولے ‪ ،‬اب بڑے ہو گئے ہو‪ ،‬اُس فہرست میں ڈائن‪ُ ،‬چڑیل‪ ،‬کسبی‪ ،‬رنڈی‪ ،‬سوکن‬ ‫تو ان کی ِ‬
‫اور سہاگن بھی شامل کر لو کیونکہ اِن کا بھی کوئی مذکر نہیں ہے۔اس سرزنش کے بعد ہم نے اُستاد جی سے تو پوچھنا‬
‫چھوڑ دیا لیکن اپنے طور پر تذکیروتانیث کی کوئی منطق تالش کرتے رہے۔ جاندار اشیا کے لئے جب کچھ اُصول ِمل گئے تو‬
‫انھیں بے جان اشیاء پر آزما کے دیکھا اور ابتدائی نتائج انتہائی حوصلہ افزاتھے۔‬

‫ذہن میں یہ سوال تھا کہ عربی سے ایک لفظ " قلم " ا ُ ُ‬
‫ردو میں آتا ہے اور مذکر قرار دیا جاتا ہے لیکن لکھنےکے لئے‬
‫ردو میں آتی ہے اور مونث ہو جاتی ہے ۔اُس وقت تک کے مطالعے‬ ‫استعمال ہونے والی دوسری چیز ’پنسل‘ انگریزی سے ا ُ ُ‬
‫سے یہ اصول تو ذہن میں پتہ ہو چکا تھا کہ بے جان چیزوں کی تذکیروتانیث کے پیچھے بھی جانداروں کی تذکیروتانیث ہی‬
‫کام کر رہی ہوتی ہے۔ مثال ً چھوٹی " ی " پر ختم ہونے والے اسماء لڑکی ‪ ،‬مرغی اور بکری کی جِ نس حقیقتا ً مونث ہے‬
‫ردو میں اِسی قیاس پر گاڑی‪ ،‬پالکی‪ ،‬ڈولی‪ ،‬کشتی‪ ،‬وغیرہ کی جِ نس بھی مونث بن گئی ۔ اب چونکہ یہ سب سواری‬ ‫چنانچہ ا ُ ُ‬
‫کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء ہیں چنانچہ اِن کے مزید قیاس پر دیگر سواریوں کو بھی مونث سمجھ لیا گیا اور ٹرین‪ ،‬ریل‪،‬‬
‫بگھ ی‪ ،‬موٹر‪ ،‬بس‪ ،‬رتھ اور ناؤ وغیرہ سب مونث قرار پا ئیں لیکن کاش ہم اسے ایک اصول قرار دے سکتے کیونکہ‬ ‫ّ‬ ‫ٹرام‪ِ ،‬فٹ ّن‪،‬‬
‫ابھی آپ اس ’ دریافت‘ پر مسکرا ہی رہے ہوں گے کہ آپ کو جہاز کا خیال آجائے گا۔کشتی یا ناؤ سائز میں کتنی ہی بڑی‬
‫کشتی نوح بھی مونث ہے۔ لیکن جہاز خواہ کشتی سے بھی چھوٹا ہو وہ مذکر‬ ‫ِ‬ ‫کیوں نہ ہو وہ مونث ہی رہے گی۔ حتّی کہ‬
‫کہالئے گا حاالنکہ وہ بھی سواری کی چیز ہے ۔موٹر کو بھی ہم تو مونث ہی گردانتے ہیں لیکن عالمہ اقبال نے اسے مذکر‬
‫باندھا ہے‪ ؎    ‬موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کا کیا خموش!‪ ‬اور‪  ‬ٹانگہ‪ ،‬ریڑھا‪ ،‬ٹھیال وغیرہ بھی استعمال کے لحاظ سے تو‬
‫سواری یا باربرداری کے ُزمرے میں آتے ہیں لیکن مونث نہیں ہیں ‪ --‬گویا بزع ِم‬

You might also like